🕋 تفسير سورة العنكبوت
(Al-Ankabut) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم
📘 آدمی کے مومن ومسلم ہونے کا فیصلہ معمول کے حالات میں کيے جانے والے عمل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس عمل پر ہوتاہے جو آدمی غیر معمولی حالات میں کرتاہے۔ یہ غیر معمولی حالات وہ غیر معمولی مواقع ہیں جب کہ یہ کھل جاتاہے کہ آدمی حقیقت میں وہ ہے یا نہیں جس کا دعویٰ وہ اپنے ظاہری عمل سے کررہا ہے۔ جو لوگ غیرمعمولی حالات میں ایمان واسلام پر قائم رہنے کا ثبوت دیں وہی خدا کے نزدیک حقیقی معنوں میں مومن ومسلم قرار پاتے ہیں۔
جانچ میں پورا اترنا، بالفاظ دیگر، قربانی کی سطح پر ایمان واسلام والا بننا ہے۔ یعنی جب عام لوگ انکار کردیتے ہیں اس وقت تصدیق کرنا۔ جب لوگ شک کرتے ہیں اس وقت یقین کرلینا۔ جب اپنی اَنا کو کچلنے کی قیمت پر مومن بننا ہو اس وقت مومن بن جانا۔ جب نہ مان کر کچھ بگڑنے والا نہ ہو اس وقت مان لینا۔ جب ہاتھ روکنے کے تقاضے ہوں اس وقت خرچ کرنا۔ جب فرار کے حالات ہوں اس وقت جمنے کا ثبوت دینا۔ جب اپنے آپ کو بچانے کا وقت ہو اس وقت اپنے آپ کو حوالے کردینا۔ جب سرکشی کا موقع ہو اس وقت سرتسلیم خم کردینا۔ جب سب کچھ لٹا کر ساتھ دینا ہو اس وقت ساتھ دینا۔ ایسے غیر معمولی مواقع پر اندر والا انسان باہر آجاتاہے۔ اس کے بعد کسی کے ليے یہ موقع نہیں رہتا کہ وہ فرضی الفاظ بول کر اپنے کو وہ ظاہر کرے جو کہ حقیقت میں وہ نہیں ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ ۚ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ
📘 ایک شخص اپنے کو مومن کہے ۔ مگر اس کا حال یہ ہو کہ جب مومن بننے میں فائدہ ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنے مومن ہونے کا اظہار کرے۔ مگر جب مومن بننے میں دنیوی نقصان نظر آئے تو وہ فوراً واپس جانے لگے۔ ایسا آدمی قرآن کی اصطلاح میں منافق ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر مومن تھے مگر وہ اپنے ایمان کی قیمت دینے کےلیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ عین اسی مقام پر ناکام ہوگئے جہاں انھیں سب سے زیادہ کامیابی کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔
وَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْمُنَافِقِينَ
📘 ایک شخص اپنے کو مومن کہے ۔ مگر اس کا حال یہ ہو کہ جب مومن بننے میں فائدہ ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنے مومن ہونے کا اظہار کرے۔ مگر جب مومن بننے میں دنیوی نقصان نظر آئے تو وہ فوراً واپس جانے لگے۔ ایسا آدمی قرآن کی اصطلاح میں منافق ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بظاہر مومن تھے مگر وہ اپنے ایمان کی قیمت دینے کےلیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ عین اسی مقام پر ناکام ہوگئے جہاں انھیں سب سے زیادہ کامیابی کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اتَّبِعُوا سَبِيلَنَا وَلْنَحْمِلْ خَطَايَاكُمْ وَمَا هُمْ بِحَامِلِينَ مِنْ خَطَايَاهُمْ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
📘 افترا (جھوٹ گھڑنا) یہ ہے کہ آدمی خود ایک بات کہے اور اس کو خدا کی طرف منسوب کردے۔ ہر قسم کی بدعات اور غلط تعبیرات اس میں داخل ہیں۔ اس افترا کی ایک صورت یہ ہے کہ انکار کرنے والے بڑے اپنے چھوٹوں سے یہ کہیں کہ تم ہمارے راستہ پر چلتے رہو، اگر خدا کے یہاں اس پر پوچھا گیا تو ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ خدا نے کسی کو اس قسم کا حق نہیں دیا ہے۔ اس ليے ایسی بات کہنا خداپر جھوٹ باندھنا ہے۔
آدمی بہت سی باتیں صرف کہنے کےلیے کہہ دیتاہے۔ اگروہ اس کے انجام کو دیکھ لے تو وہ کبھی ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہ نکالے۔ چنانچہ یہ لوگ جب قیامت کی ہولناکی کو دیکھیں گے تو اس وقت ان کا حال اس سے بالکل مختلف ہوگاجو آج کی دنیا میں ان کا نظر آرہا ہے۔
وَلَيَحْمِلُنَّ أَثْقَالَهُمْ وَأَثْقَالًا مَعَ أَثْقَالِهِمْ ۖ وَلَيُسْأَلُنَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَمَّا كَانُوا يَفْتَرُونَ
📘 افترا (جھوٹ گھڑنا) یہ ہے کہ آدمی خود ایک بات کہے اور اس کو خدا کی طرف منسوب کردے۔ ہر قسم کی بدعات اور غلط تعبیرات اس میں داخل ہیں۔ اس افترا کی ایک صورت یہ ہے کہ انکار کرنے والے بڑے اپنے چھوٹوں سے یہ کہیں کہ تم ہمارے راستہ پر چلتے رہو، اگر خدا کے یہاں اس پر پوچھا گیا تو ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ خدا نے کسی کو اس قسم کا حق نہیں دیا ہے۔ اس ليے ایسی بات کہنا خداپر جھوٹ باندھنا ہے۔
آدمی بہت سی باتیں صرف کہنے کےلیے کہہ دیتاہے۔ اگروہ اس کے انجام کو دیکھ لے تو وہ کبھی ایسے الفاظ اپنے منہ سے نہ نکالے۔ چنانچہ یہ لوگ جب قیامت کی ہولناکی کو دیکھیں گے تو اس وقت ان کا حال اس سے بالکل مختلف ہوگاجو آج کی دنیا میں ان کا نظر آرہا ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا فَأَخَذَهُمُ الطُّوفَانُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
📘 حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ نبوت سے پہلے بھی آپ ایک صالح انسان تھے اور شریعت آدم پر قائم تھے۔ نبوت ملنے کے بعد آپ باقاعدہ خدا کے داعی بن کر اپنی قوم کو ڈراتے رہے۔ مگر سیکڑوں سال کی محنت کے باوجود قوم نہ مانی۔ آخر کار چند اصلاح یافتہ افراد کو چھوڑ کر پوری قوم ایک عظیم طوفان میں غرق کردی گئی۔
ترکی اور روس کی سرحد پر مشرقی اَناطولیہ کے پہاڑی سلسلہ میں ایک اونچی چوٹی ہے جس کو ارارات(Ararat) کہاجاتاہے۔ اس کی بلندی پانچ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر سے اڑنے والے جہازوں کا بیان ہے کہ انھوں نے ارارات کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی پر ایک کشتی جیسی چیز دیکھی ہے۔ چنانچہ اس کشتی تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اہل علم کا خیال ہے یہ وہی چیزہے جس کو مذہبی روایات میں کشتی نوح کہا جاتاہے۔
اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی کشتی کو آج بھی باقی رکھا ہے تاکہ وہ لوگوں کےلیے اس بات کی نشانی ہو کہ خدا کے طوفان سے بچنے کےلیے آدمی کو پیغمبر کی کشتی درکار ہے۔ کوئی دوسری چیز آدمی کو خداکے طوفان سے بچانے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔
فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ وَجَعَلْنَاهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ
📘 حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی۔ نبوت سے پہلے بھی آپ ایک صالح انسان تھے اور شریعت آدم پر قائم تھے۔ نبوت ملنے کے بعد آپ باقاعدہ خدا کے داعی بن کر اپنی قوم کو ڈراتے رہے۔ مگر سیکڑوں سال کی محنت کے باوجود قوم نہ مانی۔ آخر کار چند اصلاح یافتہ افراد کو چھوڑ کر پوری قوم ایک عظیم طوفان میں غرق کردی گئی۔
ترکی اور روس کی سرحد پر مشرقی اَناطولیہ کے پہاڑی سلسلہ میں ایک اونچی چوٹی ہے جس کو ارارات(Ararat) کہاجاتاہے۔ اس کی بلندی پانچ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر سے اڑنے والے جہازوں کا بیان ہے کہ انھوں نے ارارات کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹی پر ایک کشتی جیسی چیز دیکھی ہے۔ چنانچہ اس کشتی تک پہنچنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اہل علم کا خیال ہے یہ وہی چیزہے جس کو مذہبی روایات میں کشتی نوح کہا جاتاہے۔
اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کی کشتی کو آج بھی باقی رکھا ہے تاکہ وہ لوگوں کےلیے اس بات کی نشانی ہو کہ خدا کے طوفان سے بچنے کےلیے آدمی کو پیغمبر کی کشتی درکار ہے۔ کوئی دوسری چیز آدمی کو خداکے طوفان سے بچانے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔
وَإِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ ۖ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 ایک خدا کے سوا جس کو بھی آدمی اپنے اعلیٰ جذبات کا مرکز بناتاہے وہ ایک جھوٹ ہوتاہے۔ کیوں کہ وہ غیر خدا میں خدائی اوصاف کو فرض کرتا ہے۔ وہ برتر صفات جو صرف خدا کےلیے خاص ہیں ان کو آدمی غیر خدا میں فرض کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی غیر خدا کا پرستار بنے۔
قدیم مشرکانہ دور میں انسان اس قسم کی صفات بتوں میں فرض کرتا تھا، آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے۔ البتہ آج کے انسان کے بتوں کے نام اس سے مختلف ہیں جو قدیم مشرکوں کے ہوا کرتے تھے۔ قدیم وجدید کا فرق صرف یہ ہے کہ قدیم انسان اگر کھیت کی پیداوار کو کسی مفروضہ دیوتا کی مہربانی سمجھتا تھا تو آج کا انسان اس کےلیے یہ الفاظ بولتاہے — ہمارا گرین ریولیوشن ہماری ایگریکلچرل سائنس کا کرشمہ ہے۔
إِنَّمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا وَتَخْلُقُونَ إِفْكًا ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَمْلِكُونَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوا عِنْدَ اللَّهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوهُ وَاشْكُرُوا لَهُ ۖ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 ایک خدا کے سوا جس کو بھی آدمی اپنے اعلیٰ جذبات کا مرکز بناتاہے وہ ایک جھوٹ ہوتاہے۔ کیوں کہ وہ غیر خدا میں خدائی اوصاف کو فرض کرتا ہے۔ وہ برتر صفات جو صرف خدا کےلیے خاص ہیں ان کو آدمی غیر خدا میں فرض کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی غیر خدا کا پرستار بنے۔
قدیم مشرکانہ دور میں انسان اس قسم کی صفات بتوں میں فرض کرتا تھا، آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے۔ البتہ آج کے انسان کے بتوں کے نام اس سے مختلف ہیں جو قدیم مشرکوں کے ہوا کرتے تھے۔ قدیم وجدید کا فرق صرف یہ ہے کہ قدیم انسان اگر کھیت کی پیداوار کو کسی مفروضہ دیوتا کی مہربانی سمجھتا تھا تو آج کا انسان اس کےلیے یہ الفاظ بولتاہے — ہمارا گرین ریولیوشن ہماری ایگریکلچرل سائنس کا کرشمہ ہے۔
وَإِنْ تُكَذِّبُوا فَقَدْ كَذَّبَ أُمَمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
📘 ایک خدا کے سوا جس کو بھی آدمی اپنے اعلیٰ جذبات کا مرکز بناتاہے وہ ایک جھوٹ ہوتاہے۔ کیوں کہ وہ غیر خدا میں خدائی اوصاف کو فرض کرتا ہے۔ وہ برتر صفات جو صرف خدا کےلیے خاص ہیں ان کو آدمی غیر خدا میں فرض کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی غیر خدا کا پرستار بنے۔
قدیم مشرکانہ دور میں انسان اس قسم کی صفات بتوں میں فرض کرتا تھا، آج کا انسان بھی یہی کررہا ہے۔ البتہ آج کے انسان کے بتوں کے نام اس سے مختلف ہیں جو قدیم مشرکوں کے ہوا کرتے تھے۔ قدیم وجدید کا فرق صرف یہ ہے کہ قدیم انسان اگر کھیت کی پیداوار کو کسی مفروضہ دیوتا کی مہربانی سمجھتا تھا تو آج کا انسان اس کےلیے یہ الفاظ بولتاہے — ہمارا گرین ریولیوشن ہماری ایگریکلچرل سائنس کا کرشمہ ہے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
📘 انسان نہیں تھا، اس کے بعد وہ ہو جاتا ہے۔ پھر جو تخلیق ایک بار ممکن ہو وہ دوسری بار کیوں ممکن نہ ہوگی۔ شاہ عبد القادر دہلوی نے اس موقع پر یہ بامعنی نوٹ لکھا ہے ’’شروع تو دیکھتے ہو، دُہرانا اسی سے سمجھ لو‘‘۔
ہر آدمی اپنی ذات میں تخلیقِ اول کی ایک مثال ہے۔ اگر آدمی کو مزید مثالیں درکار ہیں تو وہ خدا کی وسیع دنیا میں مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ پوری دنیا اسی واقعہ کا زندہ نمونہ ہے۔ خدا نے اپنی دنیا میں یہ نمونے اس ليے قائم کيے کہ انسان تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھے اور پھر وہ عمل کرے جو اگلے مرحلۂ حیات میں اس کے کام آنے والا ہو۔
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
📘 آدمی کے مومن ومسلم ہونے کا فیصلہ معمول کے حالات میں کيے جانے والے عمل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس عمل پر ہوتاہے جو آدمی غیر معمولی حالات میں کرتاہے۔ یہ غیر معمولی حالات وہ غیر معمولی مواقع ہیں جب کہ یہ کھل جاتاہے کہ آدمی حقیقت میں وہ ہے یا نہیں جس کا دعویٰ وہ اپنے ظاہری عمل سے کررہا ہے۔ جو لوگ غیرمعمولی حالات میں ایمان واسلام پر قائم رہنے کا ثبوت دیں وہی خدا کے نزدیک حقیقی معنوں میں مومن ومسلم قرار پاتے ہیں۔
جانچ میں پورا اترنا، بالفاظ دیگر، قربانی کی سطح پر ایمان واسلام والا بننا ہے۔ یعنی جب عام لوگ انکار کردیتے ہیں اس وقت تصدیق کرنا۔ جب لوگ شک کرتے ہیں اس وقت یقین کرلینا۔ جب اپنی اَنا کو کچلنے کی قیمت پر مومن بننا ہو اس وقت مومن بن جانا۔ جب نہ مان کر کچھ بگڑنے والا نہ ہو اس وقت مان لینا۔ جب ہاتھ روکنے کے تقاضے ہوں اس وقت خرچ کرنا۔ جب فرار کے حالات ہوں اس وقت جمنے کا ثبوت دینا۔ جب اپنے آپ کو بچانے کا وقت ہو اس وقت اپنے آپ کو حوالے کردینا۔ جب سرکشی کا موقع ہو اس وقت سرتسلیم خم کردینا۔ جب سب کچھ لٹا کر ساتھ دینا ہو اس وقت ساتھ دینا۔ ایسے غیر معمولی مواقع پر اندر والا انسان باہر آجاتاہے۔ اس کے بعد کسی کے ليے یہ موقع نہیں رہتا کہ وہ فرضی الفاظ بول کر اپنے کو وہ ظاہر کرے جو کہ حقیقت میں وہ نہیں ہے۔
قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ۚ ثُمَّ اللَّهُ يُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 انسان نہیں تھا، اس کے بعد وہ ہو جاتا ہے۔ پھر جو تخلیق ایک بار ممکن ہو وہ دوسری بار کیوں ممکن نہ ہوگی۔ شاہ عبد القادر دہلوی نے اس موقع پر یہ بامعنی نوٹ لکھا ہے ’’شروع تو دیکھتے ہو، دُہرانا اسی سے سمجھ لو‘‘۔
ہر آدمی اپنی ذات میں تخلیقِ اول کی ایک مثال ہے۔ اگر آدمی کو مزید مثالیں درکار ہیں تو وہ خدا کی وسیع دنیا میں مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ پوری دنیا اسی واقعہ کا زندہ نمونہ ہے۔ خدا نے اپنی دنیا میں یہ نمونے اس ليے قائم کيے کہ انسان تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھے اور پھر وہ عمل کرے جو اگلے مرحلۂ حیات میں اس کے کام آنے والا ہو۔
يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَرْحَمُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ
📘 انسان نہیں تھا، اس کے بعد وہ ہو جاتا ہے۔ پھر جو تخلیق ایک بار ممکن ہو وہ دوسری بار کیوں ممکن نہ ہوگی۔ شاہ عبد القادر دہلوی نے اس موقع پر یہ بامعنی نوٹ لکھا ہے ’’شروع تو دیکھتے ہو، دُہرانا اسی سے سمجھ لو‘‘۔
ہر آدمی اپنی ذات میں تخلیقِ اول کی ایک مثال ہے۔ اگر آدمی کو مزید مثالیں درکار ہیں تو وہ خدا کی وسیع دنیا میں مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ پوری دنیا اسی واقعہ کا زندہ نمونہ ہے۔ خدا نے اپنی دنیا میں یہ نمونے اس ليے قائم کيے کہ انسان تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھے اور پھر وہ عمل کرے جو اگلے مرحلۂ حیات میں اس کے کام آنے والا ہو۔
وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ۖ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
📘 انسان نہیں تھا، اس کے بعد وہ ہو جاتا ہے۔ پھر جو تخلیق ایک بار ممکن ہو وہ دوسری بار کیوں ممکن نہ ہوگی۔ شاہ عبد القادر دہلوی نے اس موقع پر یہ بامعنی نوٹ لکھا ہے ’’شروع تو دیکھتے ہو، دُہرانا اسی سے سمجھ لو‘‘۔
ہر آدمی اپنی ذات میں تخلیقِ اول کی ایک مثال ہے۔ اگر آدمی کو مزید مثالیں درکار ہیں تو وہ خدا کی وسیع دنیا میں مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ پوری دنیا اسی واقعہ کا زندہ نمونہ ہے۔ خدا نے اپنی دنیا میں یہ نمونے اس ليے قائم کيے کہ انسان تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھے اور پھر وہ عمل کرے جو اگلے مرحلۂ حیات میں اس کے کام آنے والا ہو۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَلِقَائِهِ أُولَٰئِكَ يَئِسُوا مِنْ رَحْمَتِي وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 انسان نہیں تھا، اس کے بعد وہ ہو جاتا ہے۔ پھر جو تخلیق ایک بار ممکن ہو وہ دوسری بار کیوں ممکن نہ ہوگی۔ شاہ عبد القادر دہلوی نے اس موقع پر یہ بامعنی نوٹ لکھا ہے ’’شروع تو دیکھتے ہو، دُہرانا اسی سے سمجھ لو‘‘۔
ہر آدمی اپنی ذات میں تخلیقِ اول کی ایک مثال ہے۔ اگر آدمی کو مزید مثالیں درکار ہیں تو وہ خدا کی وسیع دنیا میں مطالعہ اور مشاہدہ کرے۔ وہ دیکھے گا کہ پوری دنیا اسی واقعہ کا زندہ نمونہ ہے۔ خدا نے اپنی دنیا میں یہ نمونے اس ليے قائم کيے کہ انسان تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھے اور پھر وہ عمل کرے جو اگلے مرحلۂ حیات میں اس کے کام آنے والا ہو۔
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ فَأَنْجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 جو چیزکسی معاشرہ میں قومی رواج کی حیثیت حاصل کرلے وہ اس کے ہر فرد کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر باہمی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اسی سے ہر قسم کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان کسی آدمی کی قیمت مقرر ہوتی ہے — قدیم زمانہ میں شرک کی حیثیت اسی قسم کے قومی رواج کی ہو گئی تھی۔
حضرت ابراہیم نے عراق کے لوگوں کو بتایا کہ تم جس بت پرستی کو پکڑے ہوئے ہو وہ محض ایک قومی رواج ہے نہ کہ کوئی واقعی صداقت۔ تمھاری موجودہ زندگی کے ختم ہوتے ہی اس کی ساری اہمیت ختم ہوجائے گی۔ مگر صرف ایک آپ کے بھتیجے لوط تھے جنھوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ قوم آپ کی اتنی دشمن ہوئی کہ اس نے آپ کو آگ میں ڈال دیا۔ تاہم اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ آپ کو نہ صرف آخرت کا اعلیٰ انعام ملا بلکہ آپ کو ایسی صالح اولاد دی گئی جس کے اندر چار ہزار سال سے نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کے بیٹے اسحاق پیغمبر تھے۔ پھر ان کے بیٹے یعقوب پیغمبر ہوئے اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ تک مسلسل اسی خاندان میں پیغمبری کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ابراہیم کے ایک اور بیٹے مدیان کی نسل میں حضرت شعیب پیداہوئے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے اسماعیل خود پیغمبر تھے اور انھیں کی نسل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جن کی پیغمبری قیامت تک جاری ہے۔
حضرت ابراہیم کی اس تاریخ میں باطل پرستوں کےلیے بھی نصیحت ہے اور ان لوگوں کےلیے بھی روشنی ہے جو حق کی بنیاد پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔
وَقَالَ إِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْثَانًا مَوَدَّةَ بَيْنِكُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُ بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَيَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا وَمَأْوَاكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
📘 جو چیزکسی معاشرہ میں قومی رواج کی حیثیت حاصل کرلے وہ اس کے ہر فرد کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر باہمی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اسی سے ہر قسم کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان کسی آدمی کی قیمت مقرر ہوتی ہے — قدیم زمانہ میں شرک کی حیثیت اسی قسم کے قومی رواج کی ہو گئی تھی۔
حضرت ابراہیم نے عراق کے لوگوں کو بتایا کہ تم جس بت پرستی کو پکڑے ہوئے ہو وہ محض ایک قومی رواج ہے نہ کہ کوئی واقعی صداقت۔ تمھاری موجودہ زندگی کے ختم ہوتے ہی اس کی ساری اہمیت ختم ہوجائے گی۔ مگر صرف ایک آپ کے بھتیجے لوط تھے جنھوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ قوم آپ کی اتنی دشمن ہوئی کہ اس نے آپ کو آگ میں ڈال دیا۔ تاہم اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ آپ کو نہ صرف آخرت کا اعلیٰ انعام ملا بلکہ آپ کو ایسی صالح اولاد دی گئی جس کے اندر چار ہزار سال سے نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کے بیٹے اسحاق پیغمبر تھے۔ پھر ان کے بیٹے یعقوب پیغمبر ہوئے اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ تک مسلسل اسی خاندان میں پیغمبری کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ابراہیم کے ایک اور بیٹے مدیان کی نسل میں حضرت شعیب پیداہوئے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے اسماعیل خود پیغمبر تھے اور انھیں کی نسل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جن کی پیغمبری قیامت تک جاری ہے۔
حضرت ابراہیم کی اس تاریخ میں باطل پرستوں کےلیے بھی نصیحت ہے اور ان لوگوں کےلیے بھی روشنی ہے جو حق کی بنیاد پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔
۞ فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَىٰ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 جو چیزکسی معاشرہ میں قومی رواج کی حیثیت حاصل کرلے وہ اس کے ہر فرد کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر باہمی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اسی سے ہر قسم کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان کسی آدمی کی قیمت مقرر ہوتی ہے — قدیم زمانہ میں شرک کی حیثیت اسی قسم کے قومی رواج کی ہو گئی تھی۔
حضرت ابراہیم نے عراق کے لوگوں کو بتایا کہ تم جس بت پرستی کو پکڑے ہوئے ہو وہ محض ایک قومی رواج ہے نہ کہ کوئی واقعی صداقت۔ تمھاری موجودہ زندگی کے ختم ہوتے ہی اس کی ساری اہمیت ختم ہوجائے گی۔ مگر صرف ایک آپ کے بھتیجے لوط تھے جنھوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ قوم آپ کی اتنی دشمن ہوئی کہ اس نے آپ کو آگ میں ڈال دیا۔ تاہم اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ آپ کو نہ صرف آخرت کا اعلیٰ انعام ملا بلکہ آپ کو ایسی صالح اولاد دی گئی جس کے اندر چار ہزار سال سے نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کے بیٹے اسحاق پیغمبر تھے۔ پھر ان کے بیٹے یعقوب پیغمبر ہوئے اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ تک مسلسل اسی خاندان میں پیغمبری کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ابراہیم کے ایک اور بیٹے مدیان کی نسل میں حضرت شعیب پیداہوئے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے اسماعیل خود پیغمبر تھے اور انھیں کی نسل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جن کی پیغمبری قیامت تک جاری ہے۔
حضرت ابراہیم کی اس تاریخ میں باطل پرستوں کےلیے بھی نصیحت ہے اور ان لوگوں کےلیے بھی روشنی ہے جو حق کی بنیاد پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
📘 جو چیزکسی معاشرہ میں قومی رواج کی حیثیت حاصل کرلے وہ اس کے ہر فرد کی ضرورت بن جاتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر باہمی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اسی سے ہر قسم کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں۔ اسی کے اعتبار سے لوگوں کے درمیان کسی آدمی کی قیمت مقرر ہوتی ہے — قدیم زمانہ میں شرک کی حیثیت اسی قسم کے قومی رواج کی ہو گئی تھی۔
حضرت ابراہیم نے عراق کے لوگوں کو بتایا کہ تم جس بت پرستی کو پکڑے ہوئے ہو وہ محض ایک قومی رواج ہے نہ کہ کوئی واقعی صداقت۔ تمھاری موجودہ زندگی کے ختم ہوتے ہی اس کی ساری اہمیت ختم ہوجائے گی۔ مگر صرف ایک آپ کے بھتیجے لوط تھے جنھوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ قوم آپ کی اتنی دشمن ہوئی کہ اس نے آپ کو آگ میں ڈال دیا۔ تاہم اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ آپ کو نہ صرف آخرت کا اعلیٰ انعام ملا بلکہ آپ کو ایسی صالح اولاد دی گئی جس کے اندر چار ہزار سال سے نبوت کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ کے بیٹے اسحاق پیغمبر تھے۔ پھر ان کے بیٹے یعقوب پیغمبر ہوئے اور اس کے بعد حضرت عیسیٰ تک مسلسل اسی خاندان میں پیغمبری کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت ابراہیم کے ایک اور بیٹے مدیان کی نسل میں حضرت شعیب پیداہوئے۔ اسی طرح آپ کے بیٹے اسماعیل خود پیغمبر تھے اور انھیں کی نسل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے جن کی پیغمبری قیامت تک جاری ہے۔
حضرت ابراہیم کی اس تاریخ میں باطل پرستوں کےلیے بھی نصیحت ہے اور ان لوگوں کےلیے بھی روشنی ہے جو حق کی بنیاد پر اپنے آپ کو کھڑا کریں۔
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت لوط بابل کو چھوڑ کر اردن کے علاقہ میں آگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا اور ان کو قوم لوط کی اصلاح کے کام پر مقرر کیا۔ یہ قوم بحر مردار (Dead Sea) کے قریب سدوم کے علاقہ میں رہتی تھی اور امرد پرستی کی غیر فطری عادت میں مبتلا تھی۔اسی نسبت سے دوسری برائیاں بھی ان کے اندر عام ہوچکی تھیں۔ مگر انھوں نے اصلاح قبول نہ کی۔
’’اللہ کا عذاب لاؤ‘‘ کا اصل رخ حضرت لوط کی طرف تھا، نہ کہ اللہ کی طرف۔ انھوںنے حضرت لوط کو اتنا حقیر سمجھا کہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ان کی بات نہ ماننے سے وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے۔ چنانچہ بطور مذاق انھوں نے کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ہمارے اوپر خدا کا عذاب لاؤ۔
أَئِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ وَتَقْطَعُونَ السَّبِيلَ وَتَأْتُونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ ۖ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ إِلَّا أَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللَّهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 حضرت لوط بابل کو چھوڑ کر اردن کے علاقہ میں آگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا اور ان کو قوم لوط کی اصلاح کے کام پر مقرر کیا۔ یہ قوم بحر مردار (Dead Sea) کے قریب سدوم کے علاقہ میں رہتی تھی اور امرد پرستی کی غیر فطری عادت میں مبتلا تھی۔اسی نسبت سے دوسری برائیاں بھی ان کے اندر عام ہوچکی تھیں۔ مگر انھوں نے اصلاح قبول نہ کی۔
’’اللہ کا عذاب لاؤ‘‘ کا اصل رخ حضرت لوط کی طرف تھا، نہ کہ اللہ کی طرف۔ انھوںنے حضرت لوط کو اتنا حقیر سمجھا کہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ان کی بات نہ ماننے سے وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے۔ چنانچہ بطور مذاق انھوں نے کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ہمارے اوپر خدا کا عذاب لاؤ۔
وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
📘 آدمی کے مومن ومسلم ہونے کا فیصلہ معمول کے حالات میں کيے جانے والے عمل پر نہیں ہوتا۔ بلکہ اس عمل پر ہوتاہے جو آدمی غیر معمولی حالات میں کرتاہے۔ یہ غیر معمولی حالات وہ غیر معمولی مواقع ہیں جب کہ یہ کھل جاتاہے کہ آدمی حقیقت میں وہ ہے یا نہیں جس کا دعویٰ وہ اپنے ظاہری عمل سے کررہا ہے۔ جو لوگ غیرمعمولی حالات میں ایمان واسلام پر قائم رہنے کا ثبوت دیں وہی خدا کے نزدیک حقیقی معنوں میں مومن ومسلم قرار پاتے ہیں۔
جانچ میں پورا اترنا، بالفاظ دیگر، قربانی کی سطح پر ایمان واسلام والا بننا ہے۔ یعنی جب عام لوگ انکار کردیتے ہیں اس وقت تصدیق کرنا۔ جب لوگ شک کرتے ہیں اس وقت یقین کرلینا۔ جب اپنی اَنا کو کچلنے کی قیمت پر مومن بننا ہو اس وقت مومن بن جانا۔ جب نہ مان کر کچھ بگڑنے والا نہ ہو اس وقت مان لینا۔ جب ہاتھ روکنے کے تقاضے ہوں اس وقت خرچ کرنا۔ جب فرار کے حالات ہوں اس وقت جمنے کا ثبوت دینا۔ جب اپنے آپ کو بچانے کا وقت ہو اس وقت اپنے آپ کو حوالے کردینا۔ جب سرکشی کا موقع ہو اس وقت سرتسلیم خم کردینا۔ جب سب کچھ لٹا کر ساتھ دینا ہو اس وقت ساتھ دینا۔ ایسے غیر معمولی مواقع پر اندر والا انسان باہر آجاتاہے۔ اس کے بعد کسی کے ليے یہ موقع نہیں رہتا کہ وہ فرضی الفاظ بول کر اپنے کو وہ ظاہر کرے جو کہ حقیقت میں وہ نہیں ہے۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ
📘 حضرت لوط بابل کو چھوڑ کر اردن کے علاقہ میں آگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبر بنایا اور ان کو قوم لوط کی اصلاح کے کام پر مقرر کیا۔ یہ قوم بحر مردار (Dead Sea) کے قریب سدوم کے علاقہ میں رہتی تھی اور امرد پرستی کی غیر فطری عادت میں مبتلا تھی۔اسی نسبت سے دوسری برائیاں بھی ان کے اندر عام ہوچکی تھیں۔ مگر انھوں نے اصلاح قبول نہ کی۔
’’اللہ کا عذاب لاؤ‘‘ کا اصل رخ حضرت لوط کی طرف تھا، نہ کہ اللہ کی طرف۔ انھوںنے حضرت لوط کو اتنا حقیر سمجھا کہ ان کے نزدیک یہ ناممکن تھا کہ ان کی بات نہ ماننے سے وہ خدا کی پکڑ میں آجائیں گے۔ چنانچہ بطور مذاق انھوں نے کہا کہ اگر تم واقعی سچے ہو تو ہمارے اوپر خدا کا عذاب لاؤ۔
وَلَمَّا جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا إِنَّا مُهْلِكُو أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ ۖ إِنَّ أَهْلَهَا كَانُوا ظَالِمِينَ
📘 قوم لوط کا علاقہ (سدوم، عمورہ) شدید زلزلہ سے تباہ کردیاگیا۔ وہ سر سبز وشاداب وادی جہاں چار ہزار سال پہلے یہ قوم آبادتھی، اب وہاں بحر مردار کا کثیف پانی پھیلا ہوا ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق تباہی کا یہ واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ مگر جغرافیہ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں جب ارضی عمل سے پہاڑ ابھرے تو اسی کے ساتھ زمین کے ایک حصہ میں ڈھلان (escarpment)پیدا ہوگیا۔ بعد کو اس ڈھلان کے جنوبی حصہ میں سمندر کا پانی بھر گیا۔ اس طرح وہ خشک حصہ پانی کے نیچے آگیا جس کو اب بحر مردار کا کم گہرا جنوبی کنارہ کہاجاتاہے — قرآن میں جو چیز خدائی نشان ہے وہ غیر قرآنی مشاہدہ میں صرف ایک طبیعی واقعہ نظر آتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس بربادشدہ بستی کے کھنڈر اب بھی سمندر کے پانی کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ مگر یہ عبرت صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو باتوں کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔
قَالَ إِنَّ فِيهَا لُوطًا ۚ قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَنْ فِيهَا ۖ لَنُنَجِّيَنَّهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ
📘 قوم لوط کا علاقہ (سدوم، عمورہ) شدید زلزلہ سے تباہ کردیاگیا۔ وہ سر سبز وشاداب وادی جہاں چار ہزار سال پہلے یہ قوم آبادتھی، اب وہاں بحر مردار کا کثیف پانی پھیلا ہوا ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق تباہی کا یہ واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ مگر جغرافیہ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں جب ارضی عمل سے پہاڑ ابھرے تو اسی کے ساتھ زمین کے ایک حصہ میں ڈھلان (escarpment)پیدا ہوگیا۔ بعد کو اس ڈھلان کے جنوبی حصہ میں سمندر کا پانی بھر گیا۔ اس طرح وہ خشک حصہ پانی کے نیچے آگیا جس کو اب بحر مردار کا کم گہرا جنوبی کنارہ کہاجاتاہے — قرآن میں جو چیز خدائی نشان ہے وہ غیر قرآنی مشاہدہ میں صرف ایک طبیعی واقعہ نظر آتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس بربادشدہ بستی کے کھنڈر اب بھی سمندر کے پانی کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ مگر یہ عبرت صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو باتوں کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔
وَلَمَّا أَنْ جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِيءَ بِهِمْ وَضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ ۖ إِنَّا مُنَجُّوكَ وَأَهْلَكَ إِلَّا امْرَأَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغَابِرِينَ
📘 قوم لوط کا علاقہ (سدوم، عمورہ) شدید زلزلہ سے تباہ کردیاگیا۔ وہ سر سبز وشاداب وادی جہاں چار ہزار سال پہلے یہ قوم آبادتھی، اب وہاں بحر مردار کا کثیف پانی پھیلا ہوا ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق تباہی کا یہ واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ مگر جغرافیہ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں جب ارضی عمل سے پہاڑ ابھرے تو اسی کے ساتھ زمین کے ایک حصہ میں ڈھلان (escarpment)پیدا ہوگیا۔ بعد کو اس ڈھلان کے جنوبی حصہ میں سمندر کا پانی بھر گیا۔ اس طرح وہ خشک حصہ پانی کے نیچے آگیا جس کو اب بحر مردار کا کم گہرا جنوبی کنارہ کہاجاتاہے — قرآن میں جو چیز خدائی نشان ہے وہ غیر قرآنی مشاہدہ میں صرف ایک طبیعی واقعہ نظر آتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس بربادشدہ بستی کے کھنڈر اب بھی سمندر کے پانی کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ مگر یہ عبرت صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو باتوں کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔
إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلَىٰ أَهْلِ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
📘 قوم لوط کا علاقہ (سدوم، عمورہ) شدید زلزلہ سے تباہ کردیاگیا۔ وہ سر سبز وشاداب وادی جہاں چار ہزار سال پہلے یہ قوم آبادتھی، اب وہاں بحر مردار کا کثیف پانی پھیلا ہوا ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق تباہی کا یہ واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ مگر جغرافیہ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں جب ارضی عمل سے پہاڑ ابھرے تو اسی کے ساتھ زمین کے ایک حصہ میں ڈھلان (escarpment)پیدا ہوگیا۔ بعد کو اس ڈھلان کے جنوبی حصہ میں سمندر کا پانی بھر گیا۔ اس طرح وہ خشک حصہ پانی کے نیچے آگیا جس کو اب بحر مردار کا کم گہرا جنوبی کنارہ کہاجاتاہے — قرآن میں جو چیز خدائی نشان ہے وہ غیر قرآنی مشاہدہ میں صرف ایک طبیعی واقعہ نظر آتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس بربادشدہ بستی کے کھنڈر اب بھی سمندر کے پانی کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ مگر یہ عبرت صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو باتوں کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔
وَلَقَدْ تَرَكْنَا مِنْهَا آيَةً بَيِّنَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 قوم لوط کا علاقہ (سدوم، عمورہ) شدید زلزلہ سے تباہ کردیاگیا۔ وہ سر سبز وشاداب وادی جہاں چار ہزار سال پہلے یہ قوم آبادتھی، اب وہاں بحر مردار کا کثیف پانی پھیلا ہوا ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق تباہی کا یہ واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ ظہور میں آیا۔ مگر جغرافیہ اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں جب ارضی عمل سے پہاڑ ابھرے تو اسی کے ساتھ زمین کے ایک حصہ میں ڈھلان (escarpment)پیدا ہوگیا۔ بعد کو اس ڈھلان کے جنوبی حصہ میں سمندر کا پانی بھر گیا۔ اس طرح وہ خشک حصہ پانی کے نیچے آگیا جس کو اب بحر مردار کا کم گہرا جنوبی کنارہ کہاجاتاہے — قرآن میں جو چیز خدائی نشان ہے وہ غیر قرآنی مشاہدہ میں صرف ایک طبیعی واقعہ نظر آتی ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ اس بربادشدہ بستی کے کھنڈر اب بھی سمندر کے پانی کے نیچے پائے جاتے ہیں۔ بلا شبہ اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ مگر یہ عبرت صرف ان لوگوں کےلیے ہے جو باتوں کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔
وَإِلَىٰ مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
📘 حضرت شعیب جس قوم میں آئے وہ ایک تجارت پیشہ قوم تھی۔ وہ لوگ مال کی حرص میں اتنا بڑھے کہ دھوکا اور فریب کے ذریعہ مال کمانے لگے۔ یہی ان کا زمین میں فساد کرنا تھا۔ جائز تجارت حصول معاش کا اصلاحی طریقہ ہے اور دھوکہ اور لوٹ کھسوٹ حصول معاش کا مفسدانہ طریقہ۔
حضرت شعیب نے قوم سے کہا کہ تم دنیا کے پیچھے آخرت سے غافل نہ ہوجاؤ۔ تم لوگ اس طریقہ پر کام کرو جس سے تم آخرت میں اپنے ليے اچھے انجام کی امید کرسکو۔ مگر پیغمبر کی ساری کوششوں کے باوجودقوم نہ مانی۔ یہاں تک کہ وہ خدا کے قانون کے مطابق ہلاک کردی گئی۔ جن گھروں کو انھوں نے اپنے ليے زندگی کا گھر سمجھا تھا وہ ان کےلیے موت کا گھر بن گیا۔
فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دَارِهِمْ جَاثِمِينَ
📘 حضرت شعیب جس قوم میں آئے وہ ایک تجارت پیشہ قوم تھی۔ وہ لوگ مال کی حرص میں اتنا بڑھے کہ دھوکا اور فریب کے ذریعہ مال کمانے لگے۔ یہی ان کا زمین میں فساد کرنا تھا۔ جائز تجارت حصول معاش کا اصلاحی طریقہ ہے اور دھوکہ اور لوٹ کھسوٹ حصول معاش کا مفسدانہ طریقہ۔
حضرت شعیب نے قوم سے کہا کہ تم دنیا کے پیچھے آخرت سے غافل نہ ہوجاؤ۔ تم لوگ اس طریقہ پر کام کرو جس سے تم آخرت میں اپنے ليے اچھے انجام کی امید کرسکو۔ مگر پیغمبر کی ساری کوششوں کے باوجودقوم نہ مانی۔ یہاں تک کہ وہ خدا کے قانون کے مطابق ہلاک کردی گئی۔ جن گھروں کو انھوں نے اپنے ليے زندگی کا گھر سمجھا تھا وہ ان کےلیے موت کا گھر بن گیا۔
وَعَادًا وَثَمُودَ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَسَاكِنِهِمْ ۖ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ وَكَانُوا مُسْتَبْصِرِينَ
📘 عاد اور ثمود کو بھی خداکے عذاب نے پکڑ لیا۔ وہ اپنے دنیا کے معاملات میں بہت ہوشیار تھے مگر وہ آخرت کے معاملہ میں بالکل نادان نکلے۔ انھوںنے پہاڑوں کے ذریعہ گھر بنانے کے راز کو جان لیا۔ مگر وہ پیغمبر کے ذریعہ زندگی بنانے کا راز نہ جان سکے۔ اس کی وجہ وہ چیز تھی جس کو تزئین اعمال کہاگیا ہے۔ شیطان نے انھیں اس دھوکہ میں رکھا کہ دنیا کی تعمیر ہی ساری تعمیر ہے۔ اگر دنیا کو بنالیا تو اس کے بعد کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں۔ مگر یہ فریب ان کے کام نہ آیا اور نہ اس قسم کا فریب آئندہ کسی کے کچھ کام آنے والا ہے۔
جنوبی عرب کا علاقہ جو اب یمن، احقاف، اور حضرموت کے نام سے جانا جاتا ہے، یہی قدیم زمانہ میں عاد کا علاقہ تھا۔ اسی طرح حجاز کے شمالی حصہ میں رابِغ سے عقبہ تک اور مدینہ اور خیبر سے تیما اور تبوک تک کا علاقہ وہ تھا جس میں ثمود کی آبادیاں پائی جاتی تھیں۔
وَقَارُونَ وَفِرْعَوْنَ وَهَامَانَ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مُوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ وَمَا كَانُوا سَابِقِينَ
📘 انبیاء کی مخاطب قوموں نے جب اپنے نبی کا انکار کیا تو ان کو زمینی اور آسمانی عذاب سے ہلاک کردیا گیا — قوم لوط پر عاصب (پتھر برسانے والی طوفانی ہوا) کا عذاب آیا۔عاد اور ثمود اور اصحاب مدین پر صیحہ (رعد وبرق) کا عذاب آیا۔ قارون کےلیے خسف (زمین میں دھنسا دینے) کا عذاب آیا۔ فرعون اور ہامان کےلیے غرق (سمندر کے پانی میں ڈبا دینے) کا عذاب آیا۔
ان تمام عذابوں کا مشترک سبب لوگوں کا گھمنڈ تھا۔ یعنی حق کی دعوت کو اس ليے نہ ماننا کہ اس کو ماننے سے اپنی بڑائی ختم ہوجائے گی۔
أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ أَنْ يَسْبِقُونَا ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
📘 مومن بننا اکثر حالا ت میں زمانہ کے خلاف چلنے کے ہم معنی ہوتاہے۔ یہ اکابر پرستی کے ماحول میں خدا پرست بننا ہے۔ خواہش کو اونچا مقام دینے کے ماحول میں اصول کو اونچا مقام دینا ہے۔ دنیوی مفاد کےلیے جینے کے ماحول میں آخرت کے مفاد کےلیے جینے کا حوصلہ کرنا ہے۔
اس طرح کی زندگی کےلیے سخت مجاہدہ درکار ہے۔ اور اس سخت مجاہدہ پر وہی لوگ قائم رہ سکتے ہیں جو خدا پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ جو خدا کی طرف سے ملنے والے انعام ہی کو اپنی امیدوں کا اصل مرکز بنائے ہوئے ہوں۔
فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
📘 انبیاء کی مخاطب قوموں نے جب اپنے نبی کا انکار کیا تو ان کو زمینی اور آسمانی عذاب سے ہلاک کردیا گیا — قوم لوط پر عاصب (پتھر برسانے والی طوفانی ہوا) کا عذاب آیا۔عاد اور ثمود اور اصحاب مدین پر صیحہ (رعد وبرق) کا عذاب آیا۔ قارون کےلیے خسف (زمین میں دھنسا دینے) کا عذاب آیا۔ فرعون اور ہامان کےلیے غرق (سمندر کے پانی میں ڈبا دینے) کا عذاب آیا۔
ان تمام عذابوں کا مشترک سبب لوگوں کا گھمنڈ تھا۔ یعنی حق کی دعوت کو اس ليے نہ ماننا کہ اس کو ماننے سے اپنی بڑائی ختم ہوجائے گی۔
مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا ۖ وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوتِ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
📘 یہاں بتایا گیا ہے کہ ’’مکڑی‘‘ کے گھرکو دیکھ کر جو شخص حقیقت کا سبق پالے وہی دراصل عالم ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کے نزدیک سچے علم والے کون ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کتابی بحثوں کے ماہر بنے ہوئے ہوں۔ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی دنیا میں پھیلی ہوئی قدرتی نشانیوں سے نصیحت کی غذا لے سکیں۔دنیا کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کے ذہن میں داخل ہو کر بڑے بڑے سبق میں تبدیل ہوجائیں — یہی علم جب آخری معرفت تک پہنچ جائے تو اسی کا دوسرا نام ایمان ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 یہاں بتایا گیا ہے کہ ’’مکڑی‘‘ کے گھرکو دیکھ کر جو شخص حقیقت کا سبق پالے وہی دراصل عالم ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کے نزدیک سچے علم والے کون ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کتابی بحثوں کے ماہر بنے ہوئے ہوں۔ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی دنیا میں پھیلی ہوئی قدرتی نشانیوں سے نصیحت کی غذا لے سکیں۔دنیا کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کے ذہن میں داخل ہو کر بڑے بڑے سبق میں تبدیل ہوجائیں — یہی علم جب آخری معرفت تک پہنچ جائے تو اسی کا دوسرا نام ایمان ہے۔
وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ ۖ وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ
📘 یہاں بتایا گیا ہے کہ ’’مکڑی‘‘ کے گھرکو دیکھ کر جو شخص حقیقت کا سبق پالے وہی دراصل عالم ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کے نزدیک سچے علم والے کون ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کتابی بحثوں کے ماہر بنے ہوئے ہوں۔ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی دنیا میں پھیلی ہوئی قدرتی نشانیوں سے نصیحت کی غذا لے سکیں۔دنیا کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کے ذہن میں داخل ہو کر بڑے بڑے سبق میں تبدیل ہوجائیں — یہی علم جب آخری معرفت تک پہنچ جائے تو اسی کا دوسرا نام ایمان ہے۔
خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ
📘 یہاں بتایا گیا ہے کہ ’’مکڑی‘‘ کے گھرکو دیکھ کر جو شخص حقیقت کا سبق پالے وہی دراصل عالم ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کے نزدیک سچے علم والے کون ہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں ہیں جو کتابی بحثوں کے ماہر بنے ہوئے ہوں۔ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی دنیا میں پھیلی ہوئی قدرتی نشانیوں سے نصیحت کی غذا لے سکیں۔دنیا کے چھوٹے چھوٹے واقعات جن کے ذہن میں داخل ہو کر بڑے بڑے سبق میں تبدیل ہوجائیں — یہی علم جب آخری معرفت تک پہنچ جائے تو اسی کا دوسرا نام ایمان ہے۔
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۗ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
📘 ’’نماز برائی سے روکتی ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کیفیت نماز برائی سے روکتی ہے۔اگر آدمی واقعۃً خدا کے آگے رکوع اور سجدہ کرنے والا ہو تو اس کے اندر ذمہ داری اور تواضع کااحساس پیدا ہوجاتا ہے۔ اور ذمہ داری اور تواضع کے احساس سے جو کردار ابھرتاہے وہ یہی ہوتا ہے کہ آدمی وہ کرتاہے جو اسے کرنا چاہيے اور وہ نہیں کرتا جو اسے نہیں کرنا چاہيے۔
ذکر سے مراد خدا کی یاد ہے۔ جب آدمی کو خدا کی کامل معرفت حاصل ہوتی ہے۔ جب وہ پوری طرح خدا کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اوپر خدا کا تصور چھا جاتا ہے۔ اس کے اندر خدا کی یاد کا چشمہ بہہ پڑتا ہے۔ اس روحانی درجہ کو پہنچ کر آدمی کی زبان سے خدا کےلیے جو اعلیٰ کلمات نکلتے ہیں انھیں کا نام ذکر ہے۔ یہ ذکر بلا شبہ اعلیٰ ترین عبادت ہے۔
تلاوت وحی سے مراد یہاں تبلیغ وحی ہے۔ یعنی لوگوں کو قرآن سنانا اور اس کے ذریعہ سے انھیں خدا کی مرضی سے باخبر کرنا۔ دعوت وتبلیغ کا یہ کام بے حد صبر آزما کام ہے۔ اس میں اپنے مخالفین کا خیر خواہ بننا پڑتا ہے۔ اس میں فریقِ ثانی کی زیادتیوں کو یک طرفہ طورپر نظر انداز کرنا پڑتا ہے۔ اس میں اپنے مخاطبین کو مدعو کی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے خواہ وہ خود داعی کےلیے رقیب اور حریف بنے ہوئے ہوں۔
نماز جس طرح عام زندگی میں ایک مومن کو برائی سے روکتی ہے، اسی طرح وہ داعی کو غیر داعیانہ روش سے بچاتی ہے۔ خدا کا داعی وہی شخص بن سکتاہے جس کے سینہ میں خدا کی یاد سمائی ہوئی ہو، جو اپنے پورے وجود کے ساتھ خداکے آگے جھکنے والا بن گیا ہو۔
۞ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ ۖ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَٰهُنَا وَإِلَٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
📘 داعی کےلیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ بحث کریں اور الجھیں ان سے وہ سلام کرکے جدا ہوجائے۔ اور جو لوگ سنجیدہ ہوں ان پر وہ امر حق کو واضح کرنے کی کوشش کرے۔ نیز یہ کہ دعوتی کلام کو حکیمانہ کلام ہونا چاہيے — اور حکیمانہ کلام کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ اس میں مدعو کی نفسیات کا پورا لحاظ کیاجاتاہے۔ داعی اپنی بات کو ایسے اسلوب سے کہتا ہے کہ مدعو اس کو اپنے دل کی بات سمجھے، نہ کہ غیر کی بات سمجھ کر اس سے متوحش ہوجائے۔ داعیانہ کلام ناصحانہ کلام ہوتا ہے، نہ کہ مناظرانہ کلام۔
وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ ۚ فَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَمِنْ هَٰؤُلَاءِ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الْكَافِرُونَ
📘 لوگوں میں دو قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو پہلے سے سچائی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جو بظاہر سچائی کا علم نہیں رکھتے۔ تاہم یہ دوسری قسم کے لوگ بھی فطرت کی سطح پر سچائی سے آشنا ہوتے ہیں۔ اول الذکر اگر حامل کتاب ہیں تو ثانی الذکر حامل فطرت۔
اگر لوگ فی الواقع سنجیدہ ہوں تو وہ فوراً حق کو پہچان لیں گے۔ ایک گروہ اگر اس کو کتابِ آسمانی کی سطح پر پہچان لے گا تو دوسرا گروہ کتابِ فطرت کی سطح پر۔ ہر ایک کو سچائی کی بات اپنے دل کی بات نظر آئے گی۔ مگر اکثر حالات میں لوگ طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر انکار کا مزاج آجاتاہے۔ وہ سچائی کا انکار ہی کرتے رہتے ہیں، خواہ اس کی پشت پر کتنے ہی قرائن جمع ہوں اور اس کے حق میں کتنے ہی زیادہ دلائل دے دئے جائیں۔
وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ ۖ إِذًا لَارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
📘 لوگوں میں دو قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو پہلے سے سچائی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جو بظاہر سچائی کا علم نہیں رکھتے۔ تاہم یہ دوسری قسم کے لوگ بھی فطرت کی سطح پر سچائی سے آشنا ہوتے ہیں۔ اول الذکر اگر حامل کتاب ہیں تو ثانی الذکر حامل فطرت۔
اگر لوگ فی الواقع سنجیدہ ہوں تو وہ فوراً حق کو پہچان لیں گے۔ ایک گروہ اگر اس کو کتابِ آسمانی کی سطح پر پہچان لے گا تو دوسرا گروہ کتابِ فطرت کی سطح پر۔ ہر ایک کو سچائی کی بات اپنے دل کی بات نظر آئے گی۔ مگر اکثر حالات میں لوگ طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر انکار کا مزاج آجاتاہے۔ وہ سچائی کا انکار ہی کرتے رہتے ہیں، خواہ اس کی پشت پر کتنے ہی قرائن جمع ہوں اور اس کے حق میں کتنے ہی زیادہ دلائل دے دئے جائیں۔
بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا الظَّالِمُونَ
📘 لوگوں میں دو قسم کے افراد ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو پہلے سے سچائی کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اور دوسرے وہ لوگ جو بظاہر سچائی کا علم نہیں رکھتے۔ تاہم یہ دوسری قسم کے لوگ بھی فطرت کی سطح پر سچائی سے آشنا ہوتے ہیں۔ اول الذکر اگر حامل کتاب ہیں تو ثانی الذکر حامل فطرت۔
اگر لوگ فی الواقع سنجیدہ ہوں تو وہ فوراً حق کو پہچان لیں گے۔ ایک گروہ اگر اس کو کتابِ آسمانی کی سطح پر پہچان لے گا تو دوسرا گروہ کتابِ فطرت کی سطح پر۔ ہر ایک کو سچائی کی بات اپنے دل کی بات نظر آئے گی۔ مگر اکثر حالات میں لوگ طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے اندر انکار کا مزاج آجاتاہے۔ وہ سچائی کا انکار ہی کرتے رہتے ہیں، خواہ اس کی پشت پر کتنے ہی قرائن جمع ہوں اور اس کے حق میں کتنے ہی زیادہ دلائل دے دئے جائیں۔
مَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ اللَّهِ فَإِنَّ أَجَلَ اللَّهِ لَآتٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 مومن بننا اکثر حالا ت میں زمانہ کے خلاف چلنے کے ہم معنی ہوتاہے۔ یہ اکابر پرستی کے ماحول میں خدا پرست بننا ہے۔ خواہش کو اونچا مقام دینے کے ماحول میں اصول کو اونچا مقام دینا ہے۔ دنیوی مفاد کےلیے جینے کے ماحول میں آخرت کے مفاد کےلیے جینے کا حوصلہ کرنا ہے۔
اس طرح کی زندگی کےلیے سخت مجاہدہ درکار ہے۔ اور اس سخت مجاہدہ پر وہی لوگ قائم رہ سکتے ہیں جو خدا پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ جو خدا کی طرف سے ملنے والے انعام ہی کو اپنی امیدوں کا اصل مرکز بنائے ہوئے ہوں۔
وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ
📘 جو لوگ کہتے تھے کہ پیغمبر اسلام کو اس طرح کی نشانیاں کیوں نہیں دی گئیں جیسی نشانیاں مثال کے طورپر موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ فرمایا کہ نشانیاں اللہ کے پاس ہیں۔ یعنی نشانیوں (معجزے) کا تعلق خدا سے ہے، نہ کہ پیغمبر سے۔ پیغمبر کی دعوت کا اصل انحصار دلائل پر ہوتاہے۔ پیغمبر ہمیشہ دلائل کے زور پر اپنی دعوت پیش کرتا ہے۔ البتہ دوسرے مصالح کے تحت خدا کبھی کسی پیغمبر کو نشانی (معجزہ) دے دیتاہے اور کبھی نہیں دیتا۔
ایمان ایک شعوری واقعہ ہے۔ وہی ایمان ایمان ہے جو دلیل سے مطمئن ہو کر کسی بندہ کے دل میں ابھرا ہو۔ جو شخص دلیل کی روشنی میں جانچ کر کسی چیز کو مانے وہ حق پرست ہے اور جو شخص دوسری غیرمتعلق بحثیں نکالے وہ باطل پرست۔
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَىٰ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 جو لوگ کہتے تھے کہ پیغمبر اسلام کو اس طرح کی نشانیاں کیوں نہیں دی گئیں جیسی نشانیاں مثال کے طورپر موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ فرمایا کہ نشانیاں اللہ کے پاس ہیں۔ یعنی نشانیوں (معجزے) کا تعلق خدا سے ہے، نہ کہ پیغمبر سے۔ پیغمبر کی دعوت کا اصل انحصار دلائل پر ہوتاہے۔ پیغمبر ہمیشہ دلائل کے زور پر اپنی دعوت پیش کرتا ہے۔ البتہ دوسرے مصالح کے تحت خدا کبھی کسی پیغمبر کو نشانی (معجزہ) دے دیتاہے اور کبھی نہیں دیتا۔
ایمان ایک شعوری واقعہ ہے۔ وہی ایمان ایمان ہے جو دلیل سے مطمئن ہو کر کسی بندہ کے دل میں ابھرا ہو۔ جو شخص دلیل کی روشنی میں جانچ کر کسی چیز کو مانے وہ حق پرست ہے اور جو شخص دوسری غیرمتعلق بحثیں نکالے وہ باطل پرست۔
قُلْ كَفَىٰ بِاللَّهِ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ شَهِيدًا ۖ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِالْبَاطِلِ وَكَفَرُوا بِاللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 جو لوگ کہتے تھے کہ پیغمبر اسلام کو اس طرح کی نشانیاں کیوں نہیں دی گئیں جیسی نشانیاں مثال کے طورپر موسیٰ کو دی گئی تھیں۔ فرمایا کہ نشانیاں اللہ کے پاس ہیں۔ یعنی نشانیوں (معجزے) کا تعلق خدا سے ہے، نہ کہ پیغمبر سے۔ پیغمبر کی دعوت کا اصل انحصار دلائل پر ہوتاہے۔ پیغمبر ہمیشہ دلائل کے زور پر اپنی دعوت پیش کرتا ہے۔ البتہ دوسرے مصالح کے تحت خدا کبھی کسی پیغمبر کو نشانی (معجزہ) دے دیتاہے اور کبھی نہیں دیتا۔
ایمان ایک شعوری واقعہ ہے۔ وہی ایمان ایمان ہے جو دلیل سے مطمئن ہو کر کسی بندہ کے دل میں ابھرا ہو۔ جو شخص دلیل کی روشنی میں جانچ کر کسی چیز کو مانے وہ حق پرست ہے اور جو شخص دوسری غیرمتعلق بحثیں نکالے وہ باطل پرست۔
وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ ۚ وَلَوْلَا أَجَلٌ مُسَمًّى لَجَاءَهُمُ الْعَذَابُ وَلَيَأْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 انسان کے اعمال ہی اس کی جنت ہیں اور انسان کے اعمال ہی اس کی دوزخ۔ ایک شخص جوانکار اور سرکشی کا رویہ اختیار کيے ہوئے ہو، اس کی زندگی کو اگر اس کے معنوی انجام کے اعتبار سے دیکھنا ممکن ہو تو نظر آئے گا کہ اس کے برے اعمال اس کو عذاب بن کر گھیرے ہوئے ہیں۔ اور صرف اتنی سی دیر ہے کہ موت آئے اور اس کو اس کی بنائی ہوئی دنیا میں ڈال دے۔
انسان کی بہت سی سرکشی صرف اپنی حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر اس کی یہ بے خبری ختم ہوجائے تو اچانک وہ بالکل دوسرا انسان بن جائے۔
يَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ
📘 انسان کے اعمال ہی اس کی جنت ہیں اور انسان کے اعمال ہی اس کی دوزخ۔ ایک شخص جوانکار اور سرکشی کا رویہ اختیار کيے ہوئے ہو، اس کی زندگی کو اگر اس کے معنوی انجام کے اعتبار سے دیکھنا ممکن ہو تو نظر آئے گا کہ اس کے برے اعمال اس کو عذاب بن کر گھیرے ہوئے ہیں۔ اور صرف اتنی سی دیر ہے کہ موت آئے اور اس کو اس کی بنائی ہوئی دنیا میں ڈال دے۔
انسان کی بہت سی سرکشی صرف اپنی حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر اس کی یہ بے خبری ختم ہوجائے تو اچانک وہ بالکل دوسرا انسان بن جائے۔
يَوْمَ يَغْشَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ وَيَقُولُ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 انسان کے اعمال ہی اس کی جنت ہیں اور انسان کے اعمال ہی اس کی دوزخ۔ ایک شخص جوانکار اور سرکشی کا رویہ اختیار کيے ہوئے ہو، اس کی زندگی کو اگر اس کے معنوی انجام کے اعتبار سے دیکھنا ممکن ہو تو نظر آئے گا کہ اس کے برے اعمال اس کو عذاب بن کر گھیرے ہوئے ہیں۔ اور صرف اتنی سی دیر ہے کہ موت آئے اور اس کو اس کی بنائی ہوئی دنیا میں ڈال دے۔
انسان کی بہت سی سرکشی صرف اپنی حقیقت سے بے خبری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر اس کی یہ بے خبری ختم ہوجائے تو اچانک وہ بالکل دوسرا انسان بن جائے۔
يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ
📘 ہجرت ایک اعتبار سے طریقِ کار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مقام عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا۔ کبھی میدان عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے صلح حدیبیہ کے ذریعے جنگ کے میدان سے ہٹ کر دعوت کے میدان میں آنا۔
ان آیات میں مکہ کے اہل ایمان سے کہاگیا کہ مکہ کے لوگ اگر تم کو ستاتے ہیں تو تم مکہ کوچھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلے جاؤ اور وہاں اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر اور توکل کا مطلب عبادت پر جمنا ہے، نہ کہ دشمن سے ٹکراؤ پر جمنا۔ اگر ہر حال میں دشمن سے ٹکراتے رہنا مقصود ہوتا تو ان سے کہا جاتا کہ مخالفین سے لڑتے رہو اور وہاں سے کسی حال میں قدم باہر نہ نکالو۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ
📘 ہجرت ایک اعتبار سے طریقِ کار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مقام عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا۔ کبھی میدان عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے صلح حدیبیہ کے ذریعے جنگ کے میدان سے ہٹ کر دعوت کے میدان میں آنا۔
ان آیات میں مکہ کے اہل ایمان سے کہاگیا کہ مکہ کے لوگ اگر تم کو ستاتے ہیں تو تم مکہ کوچھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلے جاؤ اور وہاں اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر اور توکل کا مطلب عبادت پر جمنا ہے، نہ کہ دشمن سے ٹکراؤ پر جمنا۔ اگر ہر حال میں دشمن سے ٹکراتے رہنا مقصود ہوتا تو ان سے کہا جاتا کہ مخالفین سے لڑتے رہو اور وہاں سے کسی حال میں قدم باہر نہ نکالو۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
📘 ہجرت ایک اعتبار سے طریقِ کار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مقام عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا۔ کبھی میدان عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے صلح حدیبیہ کے ذریعے جنگ کے میدان سے ہٹ کر دعوت کے میدان میں آنا۔
ان آیات میں مکہ کے اہل ایمان سے کہاگیا کہ مکہ کے لوگ اگر تم کو ستاتے ہیں تو تم مکہ کوچھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلے جاؤ اور وہاں اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر اور توکل کا مطلب عبادت پر جمنا ہے، نہ کہ دشمن سے ٹکراؤ پر جمنا۔ اگر ہر حال میں دشمن سے ٹکراتے رہنا مقصود ہوتا تو ان سے کہا جاتا کہ مخالفین سے لڑتے رہو اور وہاں سے کسی حال میں قدم باہر نہ نکالو۔
الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
📘 ہجرت ایک اعتبار سے طریقِ کار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مقام عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا۔ کبھی میدان عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے صلح حدیبیہ کے ذریعے جنگ کے میدان سے ہٹ کر دعوت کے میدان میں آنا۔
ان آیات میں مکہ کے اہل ایمان سے کہاگیا کہ مکہ کے لوگ اگر تم کو ستاتے ہیں تو تم مکہ کوچھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلے جاؤ اور وہاں اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر اور توکل کا مطلب عبادت پر جمنا ہے، نہ کہ دشمن سے ٹکراؤ پر جمنا۔ اگر ہر حال میں دشمن سے ٹکراتے رہنا مقصود ہوتا تو ان سے کہا جاتا کہ مخالفین سے لڑتے رہو اور وہاں سے کسی حال میں قدم باہر نہ نکالو۔
وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
📘 مومن بننا اکثر حالا ت میں زمانہ کے خلاف چلنے کے ہم معنی ہوتاہے۔ یہ اکابر پرستی کے ماحول میں خدا پرست بننا ہے۔ خواہش کو اونچا مقام دینے کے ماحول میں اصول کو اونچا مقام دینا ہے۔ دنیوی مفاد کےلیے جینے کے ماحول میں آخرت کے مفاد کےلیے جینے کا حوصلہ کرنا ہے۔
اس طرح کی زندگی کےلیے سخت مجاہدہ درکار ہے۔ اور اس سخت مجاہدہ پر وہی لوگ قائم رہ سکتے ہیں جو خدا پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ جو خدا کی طرف سے ملنے والے انعام ہی کو اپنی امیدوں کا اصل مرکز بنائے ہوئے ہوں۔
وَكَأَيِّنْ مِنْ دَابَّةٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَهَا اللَّهُ يَرْزُقُهَا وَإِيَّاكُمْ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 ہجرت ایک اعتبار سے طریقِ کار کی تبدیلی ہے۔ یہ تبدیلی کبھی مقام عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ جانا۔ کبھی میدان عمل بدلنے کی صورت میں ہوتی ہے، جیسے صلح حدیبیہ کے ذریعے جنگ کے میدان سے ہٹ کر دعوت کے میدان میں آنا۔
ان آیات میں مکہ کے اہل ایمان سے کہاگیا کہ مکہ کے لوگ اگر تم کو ستاتے ہیں تو تم مکہ کوچھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلے جاؤ اور وہاں اللہ کی عبادت کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صبر اور توکل کا مطلب عبادت پر جمنا ہے، نہ کہ دشمن سے ٹکراؤ پر جمنا۔ اگر ہر حال میں دشمن سے ٹکراتے رہنا مقصود ہوتا تو ان سے کہا جاتا کہ مخالفین سے لڑتے رہو اور وہاں سے کسی حال میں قدم باہر نہ نکالو۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
📘 زمین و آسمان کو پیدا کرنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ایک قادر مطلق خدا ہی اس کو انجام دے سکتا ہے۔ سورج اور چاند کی گردش، بارش کا برسنا اور زمین سے نباتات کا ا گنا یہ سب اس سے زیادہ بڑے واقعات ہیں کہ کوئی غیر خدا ان کو وجود میں لاسکے۔
جو لوگ کسی نوعیت کے شرک میں مبتلا ہیں وہ بھی اپنی مفروضہ ہستیوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ وہ ان عظیم واقعات کو ظہور میں لائے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ خدا کے سوا دوسروں کی اس امید میں پرستش کرتے ہیں کہ وہ ان کا رزق بڑھا دیں گے۔ حالاں کہ جب ہر قسم کے اعلیٰ اختیارات صرف خدا کو حاصل ہیں تو دوسرا کون ہے جو رزق کی تقسیم میں اثر انداز ہوسکے۔
اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 زمین و آسمان کو پیدا کرنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ایک قادر مطلق خدا ہی اس کو انجام دے سکتا ہے۔ سورج اور چاند کی گردش، بارش کا برسنا اور زمین سے نباتات کا ا گنا یہ سب اس سے زیادہ بڑے واقعات ہیں کہ کوئی غیر خدا ان کو وجود میں لاسکے۔
جو لوگ کسی نوعیت کے شرک میں مبتلا ہیں وہ بھی اپنی مفروضہ ہستیوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ وہ ان عظیم واقعات کو ظہور میں لائے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ خدا کے سوا دوسروں کی اس امید میں پرستش کرتے ہیں کہ وہ ان کا رزق بڑھا دیں گے۔ حالاں کہ جب ہر قسم کے اعلیٰ اختیارات صرف خدا کو حاصل ہیں تو دوسرا کون ہے جو رزق کی تقسیم میں اثر انداز ہوسکے۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
📘 زمین و آسمان کو پیدا کرنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ایک قادر مطلق خدا ہی اس کو انجام دے سکتا ہے۔ سورج اور چاند کی گردش، بارش کا برسنا اور زمین سے نباتات کا ا گنا یہ سب اس سے زیادہ بڑے واقعات ہیں کہ کوئی غیر خدا ان کو وجود میں لاسکے۔
جو لوگ کسی نوعیت کے شرک میں مبتلا ہیں وہ بھی اپنی مفروضہ ہستیوں کے بارے میں یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ وہ ان عظیم واقعات کو ظہور میں لائے ہیں۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ خدا کے سوا دوسروں کی اس امید میں پرستش کرتے ہیں کہ وہ ان کا رزق بڑھا دیں گے۔ حالاں کہ جب ہر قسم کے اعلیٰ اختیارات صرف خدا کو حاصل ہیں تو دوسرا کون ہے جو رزق کی تقسیم میں اثر انداز ہوسکے۔
وَمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ ۚ وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
📘 انسان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کی رونقوں اور دنیا کے مسائل میں اتنا گم ہوتا ہے کہ اس سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کو پانے کےلیے اپنے آپ کو ظاہر سے اوپر اٹھانا پڑتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنے آپ کو ظاہر سے اٹھا نہیں پاتے اس ليے بیشتر لوگ حقیقت کو پانے والے بھی نہیں بنتے۔
دنیا میں آدمی کو بار بار ایسے تجربات پیش آتے ہیں جو اس کو اس کا عجز یاد دلاتے ہیں۔ اس وقت اس کے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجاتے ہیں اور حقیقی فطرت والا انسان جاگ اٹھتا ہے۔ مگر جیسے ہی حالات معتدل ہوئے وہ دوبارہ پہلے کی طرف غافل اور سرکش بن جاتا ہے۔ انھیں نازک تجربات میں سے سفر کا وہ تجربہ ہے جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔
آدمی کو جاننا چاہيے کہ آزادی کا یہ موقع اس کو صرف چند دن کی زندگی تک حاصل ہے۔ موت کے بعد اس کے سامنے بالکل دوسری دنیا ہوگی اور بالکل دوسرے مسائل۔
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ
📘 انسان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کی رونقوں اور دنیا کے مسائل میں اتنا گم ہوتا ہے کہ اس سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کو پانے کےلیے اپنے آپ کو ظاہر سے اوپر اٹھانا پڑتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنے آپ کو ظاہر سے اٹھا نہیں پاتے اس ليے بیشتر لوگ حقیقت کو پانے والے بھی نہیں بنتے۔
دنیا میں آدمی کو بار بار ایسے تجربات پیش آتے ہیں جو اس کو اس کا عجز یاد دلاتے ہیں۔ اس وقت اس کے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجاتے ہیں اور حقیقی فطرت والا انسان جاگ اٹھتا ہے۔ مگر جیسے ہی حالات معتدل ہوئے وہ دوبارہ پہلے کی طرف غافل اور سرکش بن جاتا ہے۔ انھیں نازک تجربات میں سے سفر کا وہ تجربہ ہے جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔
آدمی کو جاننا چاہيے کہ آزادی کا یہ موقع اس کو صرف چند دن کی زندگی تک حاصل ہے۔ موت کے بعد اس کے سامنے بالکل دوسری دنیا ہوگی اور بالکل دوسرے مسائل۔
لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ وَلِيَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
📘 انسان کی گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ وہ دنیا کی رونقوں اور دنیا کے مسائل میں اتنا گم ہوتا ہے کہ اس سے اوپر اٹھ کر سوچ نہیں پاتا۔ حقیقت کو پانے کےلیے اپنے آپ کو ظاہر سے اوپر اٹھانا پڑتا ہے۔ بیشتر لوگ اپنے آپ کو ظاہر سے اٹھا نہیں پاتے اس ليے بیشتر لوگ حقیقت کو پانے والے بھی نہیں بنتے۔
دنیا میں آدمی کو بار بار ایسے تجربات پیش آتے ہیں جو اس کو اس کا عجز یاد دلاتے ہیں۔ اس وقت اس کے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجاتے ہیں اور حقیقی فطرت والا انسان جاگ اٹھتا ہے۔ مگر جیسے ہی حالات معتدل ہوئے وہ دوبارہ پہلے کی طرف غافل اور سرکش بن جاتا ہے۔ انھیں نازک تجربات میں سے سفر کا وہ تجربہ ہے جس کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔
آدمی کو جاننا چاہيے کہ آزادی کا یہ موقع اس کو صرف چند دن کی زندگی تک حاصل ہے۔ موت کے بعد اس کے سامنے بالکل دوسری دنیا ہوگی اور بالکل دوسرے مسائل۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَكْفُرُونَ
📘 مکہ کا حرم اللہ تعالیٰ کی ایک عجیب نعمت ہے۔ اللہ نے لوگوں کے اوپر اس کا ایسا رعب بٹھا رکھا ہے کہ وہاں پہنچ کر ظالم اور سرکش بھی اپنا ظلم اور سرکشی بھول جاتے ہیں۔ حرم کا یہ تقدس خدا کی قدرت کی ایک نشانی تھا۔ اس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دل خدا کےلیے جھک جائیں۔ مگر باطل پرستوں نے یہ کیا کہ غیر خدا میں خداکے اوصاف فرض کرکے لوگوں کے جذباتِ پرستش کو بالکل غلط طورپر ان کی طرف پھیر دیا۔ ان کا مزید ظلم یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب ان کو نصیحت کی کہ ان مفروضہ خداؤں کو چھوڑو اور ایک خدا کے آگے جھک جاؤ تو وہ رسول کے دشمن بن گئے۔
ناحق پرستی کے ماحول میں حق پرست بننا ایک شدید مجاہدہ کا عمل ہے۔ اس میں ملی ہوئی چیز چھنتی ہے۔ حاصل شدہ سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مگر اسی محرومی میں ایک عظیم یافت کا راز چھپا ہوا ہے۔ اور وہ معرفت اور بصیرت ہے۔ ایسے لوگوں کےلیے انسانوں کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ مگر ان کےلیے خدا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ دنیا سے کھو کر خدا سے پانے لگتے ہیں۔ وہ مادی راحتوں سے د ور ہو کر ربانی کیفیات سے قریب ہوجاتے ہیں۔ ظاہری چیزیں ان سے اوجھل ہوتی ہیں مگر معنوی چیزیں ان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ ان پر وہ گہرے بھید کھلنے لگتے ہیں جن کی بڑے بڑے لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ
📘 مکہ کا حرم اللہ تعالیٰ کی ایک عجیب نعمت ہے۔ اللہ نے لوگوں کے اوپر اس کا ایسا رعب بٹھا رکھا ہے کہ وہاں پہنچ کر ظالم اور سرکش بھی اپنا ظلم اور سرکشی بھول جاتے ہیں۔ حرم کا یہ تقدس خدا کی قدرت کی ایک نشانی تھا۔ اس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دل خدا کےلیے جھک جائیں۔ مگر باطل پرستوں نے یہ کیا کہ غیر خدا میں خداکے اوصاف فرض کرکے لوگوں کے جذباتِ پرستش کو بالکل غلط طورپر ان کی طرف پھیر دیا۔ ان کا مزید ظلم یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب ان کو نصیحت کی کہ ان مفروضہ خداؤں کو چھوڑو اور ایک خدا کے آگے جھک جاؤ تو وہ رسول کے دشمن بن گئے۔
ناحق پرستی کے ماحول میں حق پرست بننا ایک شدید مجاہدہ کا عمل ہے۔ اس میں ملی ہوئی چیز چھنتی ہے۔ حاصل شدہ سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مگر اسی محرومی میں ایک عظیم یافت کا راز چھپا ہوا ہے۔ اور وہ معرفت اور بصیرت ہے۔ ایسے لوگوں کےلیے انسانوں کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ مگر ان کےلیے خدا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ دنیا سے کھو کر خدا سے پانے لگتے ہیں۔ وہ مادی راحتوں سے د ور ہو کر ربانی کیفیات سے قریب ہوجاتے ہیں۔ ظاہری چیزیں ان سے اوجھل ہوتی ہیں مگر معنوی چیزیں ان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ ان پر وہ گہرے بھید کھلنے لگتے ہیں جن کی بڑے بڑے لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
📘 مکہ کا حرم اللہ تعالیٰ کی ایک عجیب نعمت ہے۔ اللہ نے لوگوں کے اوپر اس کا ایسا رعب بٹھا رکھا ہے کہ وہاں پہنچ کر ظالم اور سرکش بھی اپنا ظلم اور سرکشی بھول جاتے ہیں۔ حرم کا یہ تقدس خدا کی قدرت کی ایک نشانی تھا۔ اس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دل خدا کےلیے جھک جائیں۔ مگر باطل پرستوں نے یہ کیا کہ غیر خدا میں خداکے اوصاف فرض کرکے لوگوں کے جذباتِ پرستش کو بالکل غلط طورپر ان کی طرف پھیر دیا۔ ان کا مزید ظلم یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے جب ان کو نصیحت کی کہ ان مفروضہ خداؤں کو چھوڑو اور ایک خدا کے آگے جھک جاؤ تو وہ رسول کے دشمن بن گئے۔
ناحق پرستی کے ماحول میں حق پرست بننا ایک شدید مجاہدہ کا عمل ہے۔ اس میں ملی ہوئی چیز چھنتی ہے۔ حاصل شدہ سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔ مگر اسی محرومی میں ایک عظیم یافت کا راز چھپا ہوا ہے۔ اور وہ معرفت اور بصیرت ہے۔ ایسے لوگوں کےلیے انسانوں کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ مگر ان کےلیے خدا کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ وہ دنیا سے کھو کر خدا سے پانے لگتے ہیں۔ وہ مادی راحتوں سے د ور ہو کر ربانی کیفیات سے قریب ہوجاتے ہیں۔ ظاہری چیزیں ان سے اوجھل ہوتی ہیں مگر معنوی چیزیں ان پر منکشف ہوجاتی ہیں۔ ان پر وہ گہرے بھید کھلنے لگتے ہیں جن کی بڑے بڑے لوگوں کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 مومن بننا اکثر حالا ت میں زمانہ کے خلاف چلنے کے ہم معنی ہوتاہے۔ یہ اکابر پرستی کے ماحول میں خدا پرست بننا ہے۔ خواہش کو اونچا مقام دینے کے ماحول میں اصول کو اونچا مقام دینا ہے۔ دنیوی مفاد کےلیے جینے کے ماحول میں آخرت کے مفاد کےلیے جینے کا حوصلہ کرنا ہے۔
اس طرح کی زندگی کےلیے سخت مجاہدہ درکار ہے۔ اور اس سخت مجاہدہ پر وہی لوگ قائم رہ سکتے ہیں جو خدا پر کامل یقین رکھتے ہوں۔ جو خدا کی طرف سے ملنے والے انعام ہی کو اپنی امیدوں کا اصل مرکز بنائے ہوئے ہوں۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 انسان پر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ جس کا حق ہے وہ اس کے ماں باپ ہیں مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اسی طرح ماں باپ کے حقوق کی بھی ایک حد ہے۔ اور حدیث کے الفاظ میں وہ حد یہ ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں (لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر
381
۔
ماں باپ کے حقوق اسی وقت تک قابل لحاظ ہیں جب تک وہ خدا کے حقوق سے نہ ٹکرائیں۔ ماں باپ کا حکم جب خدا کے حکم سے ٹکرانے لگے تو اس وقت ماں باپ کا حکم نہ ماننا اتنا ہی ضروری ہوجائے گا جتنا عام حالات میں ماں باپ کا حکم ماننا ضروری ہوتاہے۔ اسلام میں ماں باپ کے حقوق سے مراد ماں باپ کی خدمت ہے، نہ کہ ماں باپ کی عبادت۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ
📘 انسان پر تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ جس کا حق ہے وہ اس کے ماں باپ ہیں مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اسی طرح ماں باپ کے حقوق کی بھی ایک حد ہے۔ اور حدیث کے الفاظ میں وہ حد یہ ہے کہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں (لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر
381
۔
ماں باپ کے حقوق اسی وقت تک قابل لحاظ ہیں جب تک وہ خدا کے حقوق سے نہ ٹکرائیں۔ ماں باپ کا حکم جب خدا کے حکم سے ٹکرانے لگے تو اس وقت ماں باپ کا حکم نہ ماننا اتنا ہی ضروری ہوجائے گا جتنا عام حالات میں ماں باپ کا حکم ماننا ضروری ہوتاہے۔ اسلام میں ماں باپ کے حقوق سے مراد ماں باپ کی خدمت ہے، نہ کہ ماں باپ کی عبادت۔