🕋 تفسير سورة يوسف
(Yusuf) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ
📘 قرآن اگرچہ ساری دنیا کی ہدایت کے لیے آیاہے۔ تاہم اس کے مخاطبِ اوّل عرب تھے۔ اس لیے وہ عربی زبان میں اترا۔ اب اس پر ایمان لانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیمات کو ہر زبان میں منتقل کریں۔ اور ا س کو دنیا کی تمام قوموں تک پہنچائیں۔
قرآن کی تعلیمات قرآن میں مختلف انداز اور اسلوب سے بیان کی گئی ہیں۔ کہیں وہ کائناتی استدلال کی زبان میں ہیں، کہیں انذار اور تبشیر کی زبان میں اور کہیں تاریخ کی زبان میں۔ سورہ یوسف میں یہ پیغام حضرت یوسف کے قصہ کی شکل میں سامنے لاياگیا ہے۔ اس سورہ میں اہل ایمان کو ایک پیغمبر کی سرگزشت کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ حق کے لیے اٹھنے والوں کی مدد کرتاہے۔ اور مخالفین کی تمام سازشوں کے باوجود بالآخر ان کو کامیاب کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اہلِ ایمان کہ اندر تقویٰ اور صبر کی صفت موجود ہو۔ یعنی وہ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور ہر حال میں حق کے راستے پر جمے رہیں۔
قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ
📘 مکہ کے آخری دنوں میں جب کہ ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا مکہ کے لوگوں نے آپ کی مخالفت تیز تر کردی۔ اس زمانہ میں مکہ کے بعض لوگوں نے آپ سے حضرت یوسف کا حال پوچھا جن کا نام انھوں نے اسفار کے دوران بعض یہودیوں سے سنا تھا۔ یہ سوال اگرچہ انھوں نے تمسخر کی غرض سے کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو خود پوچھنے والوں کی طرف لوٹا دیا۔ اس قصہ کے ذریعہ بالواسطہ طورپر انھیں بتایا گیا ہے کہ تم لوگ وہ ہو جن کے حصہ میں یوسف کے بھائیوں کا کردار آیاہے۔ جب کہ پیغمبر کا انجام خدا کی رحمت سے وہ ہونے والا ہے جو یوسف کا مصر میں ہوا۔
حضرت یعقوب دیکھ رہے تھے کہ ان کی اولاد میں سب سے زیادہ لائق اور صالح حضرت یوسف ہیں۔ ان کے اندر انھیں مستقبل کے نبی کی شخصیت دکھائی دیتی تھی۔ اس بنا پر ان کو حضرت یوسف سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ مگر آپ کے دس صاحب زادے معاملہ کودنیوی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باپ کی نظر میں سب سے زیادہ اہم چیز ان کا جتھا ہونا چاہیے۔ کیوں کہ وہی اس قابل ہے کہ خاندان کی مدد اور حمایت کرسکے۔ ان کا یہ یک طرفہ نقطہ نظر یہاںتک پہنچا کہ انھوں نے سوچا کہ یوسف کو میدان سے ہٹا دیں تو باپ کی ساری توجہ ان کی طرف ہو جائے گی۔
وہ لوگ جب حضرت یوسف کے خلاف منصوبہ بنانے بیٹھے تو ان کے ایک بھائی (یہودا) نے یہ تجویز پیش کی کہ یوسف کو قتل کرنے کے بجائے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انتظام تھا۔ اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ کوئی گروہ جب ناحق کسی بندے کے درپے ہوجاتا ہے تو خود اس گروہ میں سے ایک ایسا شخص نکلتا ہے جو اپنے لوگوں کو کسی ایسی معتدل تدبیر پر راضی کرلے جس کے اندر سے اس بندۂ خداکے لیے نیا امکان کھل جائے۔
وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَخَرُّوا لَهُ سُجَّدًا ۖ وَقَالَ يَا أَبَتِ هَٰذَا تَأْوِيلُ رُؤْيَايَ مِنْ قَبْلُ قَدْ جَعَلَهَا رَبِّي حَقًّا ۖ وَقَدْ أَحْسَنَ بِي إِذْ أَخْرَجَنِي مِنَ السِّجْنِ وَجَاءَ بِكُمْ مِنَ الْبَدْوِ مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّيْطَانُ بَيْنِي وَبَيْنَ إِخْوَتِي ۚ إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
📘 یہاں تخت سے مراد تخت شاہی نہیں ہے بلکہ وہ تخت ہے جس پر حضرت یوسف اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔ سجدہ سے مراد بھی معروف سجدہ نہيں بلکہ رکوع کے انداز پر جھکنا ہے۔ کسی بڑے کی تعظیم کے لیے اس انداز میں جھکنا قدیم زمانہ میں بہت معروف تھا۔
’’إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ‘‘ کامطلب یہ ہے کہ میرا رب جس کام کو کرنا چاہے اس کے لیے وہ نہایت مخفی راہیں نکال لیتاہے۔ خدا اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایسی تدبیریں پیدا کرلیتا ہے جس کی طرف عام انسانوں کا گمان بھی نہیں جاسکتا۔
۞ رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
📘 غیر مومن ہر چیز کو انسان کے اعتبارسے دیکھتا ہے اور مومن ہر چیز کو خدا کے اعتبار سے۔ حضرت یوسف کو اعلیٰ حکومتی عہدہ ملا تو اس کو بھی انھوںنے خدا کا عطیہ قرار دیا۔ ان کو تاویل اور تعبیر کا علم حاصل ہوا تو انھوںنے کہا کہ یہ مجھ کو خدا نے سکھایا ہے۔ ان کے اپنوں نے انھیں مصیبت میں ڈالا تو اس کو بھی انھوں نے اس نظر سے دیکھا کہ یہ خدا کی لطیف تدبیریں تھی جن کے ذریعہ وہ مجھ کو ارتقائی سفر کرارہا تھا۔
خدا کی عظمت کے احساس نے ان سے ذاتی عظمت کے تمام احساسات چھین ليے تھے۔ دنیوی بلندی کی چوٹی پر پہنچ کر بھی ان کی زبان سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے — خدایا، تو ہی تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ تو ہی میرے سب کام بنانے والا ہے۔ تو دنیا اور آخرت میں میری مدد فرما۔ مجھ کو ان لوگوں میں شامل فرما جو دنیا میں تیری پسند پر چلنے کی توفیق پاتے ہیں اور آخرت میں تیرا ابدی انعام حاصل کرتے ہیں۔
ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۖ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَهُمْ وَهُمْ يَمْكُرُونَ
📘 حضرت یوسف کا قصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا وہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن وحی ربّانی ہے، نہ کہ کلام انسانی۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے پیش آیا۔ آپ نے اس واقعہ کونہ تو بطورخود دیکھا تھا اور نہ وہ کسی تاریخ میں لکھا ہوا تھا کہ آپ اس کو پڑھیں یا کسی سے پڑھوا کر سنیں۔ وہ صرف تورات کے صفحات میںتھا۔ اور پریس کے دور سے قبل تورات ایک ایسی کتاب تھی جس کی واقفیت صرف یہودی مراکز کے چند یہودی علماء کو ہوتی تھی، اور کسی کو نہیں۔
مزید یہ کہ قرآن میں اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، بنیادی طورپر تورات کے مطابق ہونے کے باوجود، تفصیلات میں وہ اس سے کافی مختلف ہے۔ یہ اختلاف بذات خود قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ جہاں جہاں دونوں میں اختلاف ہے وہاں قرآن کا بیان واضح طورپر عقل وفطرت کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کا بیان پڑھ کر واقعی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی پیغمبرانہ سیرت کے مناسب ہے جب کہ تورات کے بیانات پیغمبرانہ سیرت کے مناسب حال نہیں ۔ اسی طرح واقعہ کے کئی بے حد قیمتی اجزاء (مثلاً قید خانہ میں حضرت یوسف کی تقریر، آیت
37-40
) جو قرآن میں منقول ہوئی ہے۔ بائبل یا تالمود میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ حتی کہ بعض تاریخی غلطیاں جو بائبل میں موجود ہیں ان کا اعادہ قرآن میں نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طورپر بائبل حضرت یوسف کے زمانہ کے بادشاہ کو فرعون کہتی ہے۔ حالاں کہ فرعون کا خاندان حضرت یوسف کے پانچ سو سال بعد مصر میں حکمراں بنا ہے۔ حضرت یوسف کے زمانہ میں مصر میں ایک عرب خاندان حکومت کررہاتھا جس کو چرواہے بادشاہ (Hyksos kings) کہا جاتا ہے (تقابل کے ليے ملاحظہ ہو، بائبل، کتاب پیدائش)۔
حق کو نہ ماننے کا سبب اگر دلیل ہو تو دلیل سامنے آنے کے بعد آدمی فوراً اس کو مان لے گا۔ مگر اکثر حالات میں انکارِ حق کا سبب ہٹ دھرمی ہوتاہے۔ ایسے لوگ حق کو اس لیے نہیں مانتے کہ وہ اس کو ماننا نہیں چاہتے۔ حق کو ماننا اکثر حالات میں اپنے کو چھوٹا کرنے کے ہم معنی ہوتاہے، اور اپنے کو چھوٹا کرنا آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ ہر قسم کے دلائل اور قرائن سامنے آنے کے بعد بھی اپنی روش کو نہیں چھوڑتے۔ وہ اس کو گوارا کرلیتے ہیں کہ حق چھوٹا ہوجائے مگر وہ اپنے آپ کو چھوٹا کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جو دنیا میں اپنے آپ کو چھوٹا کرلے وہ آخرت میں بڑا کیا جائے گا۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے كو چھوٹا نہ کرے وہی وہ شخص ہے جو آئندہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کے لیے چھوٹا ہو کر رہ جائے گا۔
وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ
📘 حضرت یوسف کا قصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا وہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن وحی ربّانی ہے، نہ کہ کلام انسانی۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے پیش آیا۔ آپ نے اس واقعہ کونہ تو بطورخود دیکھا تھا اور نہ وہ کسی تاریخ میں لکھا ہوا تھا کہ آپ اس کو پڑھیں یا کسی سے پڑھوا کر سنیں۔ وہ صرف تورات کے صفحات میںتھا۔ اور پریس کے دور سے قبل تورات ایک ایسی کتاب تھی جس کی واقفیت صرف یہودی مراکز کے چند یہودی علماء کو ہوتی تھی، اور کسی کو نہیں۔
مزید یہ کہ قرآن میں اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، بنیادی طورپر تورات کے مطابق ہونے کے باوجود، تفصیلات میں وہ اس سے کافی مختلف ہے۔ یہ اختلاف بذات خود قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ جہاں جہاں دونوں میں اختلاف ہے وہاں قرآن کا بیان واضح طورپر عقل وفطرت کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کا بیان پڑھ کر واقعی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی پیغمبرانہ سیرت کے مناسب ہے جب کہ تورات کے بیانات پیغمبرانہ سیرت کے مناسب حال نہیں ۔ اسی طرح واقعہ کے کئی بے حد قیمتی اجزاء (مثلاً قید خانہ میں حضرت یوسف کی تقریر، آیت
37-40
) جو قرآن میں منقول ہوئی ہے۔ بائبل یا تالمود میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ حتی کہ بعض تاریخی غلطیاں جو بائبل میں موجود ہیں ان کا اعادہ قرآن میں نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طورپر بائبل حضرت یوسف کے زمانہ کے بادشاہ کو فرعون کہتی ہے۔ حالاں کہ فرعون کا خاندان حضرت یوسف کے پانچ سو سال بعد مصر میں حکمراں بنا ہے۔ حضرت یوسف کے زمانہ میں مصر میں ایک عرب خاندان حکومت کررہاتھا جس کو چرواہے بادشاہ (Hyksos kings) کہا جاتا ہے (تقابل کے ليے ملاحظہ ہو، بائبل، کتاب پیدائش)۔
حق کو نہ ماننے کا سبب اگر دلیل ہو تو دلیل سامنے آنے کے بعد آدمی فوراً اس کو مان لے گا۔ مگر اکثر حالات میں انکارِ حق کا سبب ہٹ دھرمی ہوتاہے۔ ایسے لوگ حق کو اس لیے نہیں مانتے کہ وہ اس کو ماننا نہیں چاہتے۔ حق کو ماننا اکثر حالات میں اپنے کو چھوٹا کرنے کے ہم معنی ہوتاہے، اور اپنے کو چھوٹا کرنا آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ ہر قسم کے دلائل اور قرائن سامنے آنے کے بعد بھی اپنی روش کو نہیں چھوڑتے۔ وہ اس کو گوارا کرلیتے ہیں کہ حق چھوٹا ہوجائے مگر وہ اپنے آپ کو چھوٹا کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جو دنیا میں اپنے آپ کو چھوٹا کرلے وہ آخرت میں بڑا کیا جائے گا۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے كو چھوٹا نہ کرے وہی وہ شخص ہے جو آئندہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کے لیے چھوٹا ہو کر رہ جائے گا۔
وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ
📘 حضرت یوسف کا قصہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا وہ بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن وحی ربّانی ہے، نہ کہ کلام انسانی۔ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے پیش آیا۔ آپ نے اس واقعہ کونہ تو بطورخود دیکھا تھا اور نہ وہ کسی تاریخ میں لکھا ہوا تھا کہ آپ اس کو پڑھیں یا کسی سے پڑھوا کر سنیں۔ وہ صرف تورات کے صفحات میںتھا۔ اور پریس کے دور سے قبل تورات ایک ایسی کتاب تھی جس کی واقفیت صرف یہودی مراکز کے چند یہودی علماء کو ہوتی تھی، اور کسی کو نہیں۔
مزید یہ کہ قرآن میں اس واقعہ کو جس طرح بیان کیا گیا ہے، بنیادی طورپر تورات کے مطابق ہونے کے باوجود، تفصیلات میں وہ اس سے کافی مختلف ہے۔ یہ اختلاف بذات خود قرآن کے وحی الہٰی ہونے کا ثبوت ہے۔ کیونکہ جہاں جہاں دونوں میں اختلاف ہے وہاں قرآن کا بیان واضح طورپر عقل وفطرت کے مطابق معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کا بیان پڑھ کر واقعی یہ سمجھ میں آتا ہے کہ وہ حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کی پیغمبرانہ سیرت کے مناسب ہے جب کہ تورات کے بیانات پیغمبرانہ سیرت کے مناسب حال نہیں ۔ اسی طرح واقعہ کے کئی بے حد قیمتی اجزاء (مثلاً قید خانہ میں حضرت یوسف کی تقریر، آیت
37-40
) جو قرآن میں منقول ہوئی ہے۔ بائبل یا تالمود میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ حتی کہ بعض تاریخی غلطیاں جو بائبل میں موجود ہیں ان کا اعادہ قرآن میں نہیں ہوا ہے۔ مثال کے طورپر بائبل حضرت یوسف کے زمانہ کے بادشاہ کو فرعون کہتی ہے۔ حالاں کہ فرعون کا خاندان حضرت یوسف کے پانچ سو سال بعد مصر میں حکمراں بنا ہے۔ حضرت یوسف کے زمانہ میں مصر میں ایک عرب خاندان حکومت کررہاتھا جس کو چرواہے بادشاہ (Hyksos kings) کہا جاتا ہے (تقابل کے ليے ملاحظہ ہو، بائبل، کتاب پیدائش)۔
حق کو نہ ماننے کا سبب اگر دلیل ہو تو دلیل سامنے آنے کے بعد آدمی فوراً اس کو مان لے گا۔ مگر اکثر حالات میں انکارِ حق کا سبب ہٹ دھرمی ہوتاہے۔ ایسے لوگ حق کو اس لیے نہیں مانتے کہ وہ اس کو ماننا نہیں چاہتے۔ حق کو ماننا اکثر حالات میں اپنے کو چھوٹا کرنے کے ہم معنی ہوتاہے، اور اپنے کو چھوٹا کرنا آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قسم کے لوگ ہر قسم کے دلائل اور قرائن سامنے آنے کے بعد بھی اپنی روش کو نہیں چھوڑتے۔ وہ اس کو گوارا کرلیتے ہیں کہ حق چھوٹا ہوجائے مگر وہ اپنے آپ کو چھوٹا کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ جو دنیا میں اپنے آپ کو چھوٹا کرلے وہ آخرت میں بڑا کیا جائے گا۔ اور جو شخص دنیا میں اپنے كو چھوٹا نہ کرے وہی وہ شخص ہے جو آئندہ آنے والی دنیا میں ہمیشہ کے لیے چھوٹا ہو کر رہ جائے گا۔
وَكَأَيِّنْ مِنْ آيَةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَمُرُّونَ عَلَيْهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ
📘 حق کے ظہور کے بعد جو لوگ اس کو نہ مانیں وہ اپنے انکار کو ہمیشہ اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ جو دلیل مطلوب تھی وہ دلیل حق کی طرف سے ان کے سامنے نہیںآئی۔ اگر ایسی دلیل ہوتی تو وہ اس کو ضرور مان لیتے۔ گویا ان کے اعراض یا انکار کا سبب ان کے باہر ہے، نہ کہ ان کے اندر۔
مگر حقیقت حال ا سکے برعکس ہے۔ حق اتنا واضح ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو زمین وآسمان کی تمام نشانیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ ساری کائنات میں سب سے زیادہ ثابت شدہ چیز ہوتا ہے ۔ مگر حق کو پانے کے لیے اصل ضرورت دیکھنے والی آنکھ اور عبرت پکڑنے والے دماغ کی ہے۔ اور یہی چیز منکرین کے یہاں موجود نہیں ہوتی۔
حق کے مقابلہ میں آدمی جب سرکش دکھائی دیتا ہے تو اکثر حالات میں اس کی وجہ ’’شرک‘‘ ہوتا ہے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کو مانتے ہوئے انھوںنے کچھ اورزندہ یا مُردہ ہستیاں فرض کر رکھی ہیں جن پر وہ اپنا اعتماد قائم كيے ہوئے ہیں، جن کو وہ بڑائی کا مقام دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک نے خدا کے سوا کچھ ’’بڑے‘‘ بنا رکھے ہیں۔ وہ انھیں بڑوں کے بھروسہ پر جی رہے ہیں۔ حالانکہ خدا کے یہاں سب چھوٹے ہیں۔ وہاں کسی کو جو چیز بچائے گی وہ اس کا ذاتی عمل ہے، نہ کہ مفروضہ بڑوں کی بڑائی۔
پیغمبر کا کام ایک اللہ کی طرف بلانا ہے۔ یہی اس کا مشن ہے ۔ اس مشن کو اس نے بصیرت کے طورپر اختیار کیا ہے، نہ کہ تقلید کے طورپر۔ گویا پیغمبرانہ دعوت وہ دعوت ہے جو انسان کو ایک خدا سے جوڑنے کی دعوت ہو اور جس کی صداقت داعی کے اوپر اتنی کھل چکی ہو کہ وہ اس کے لیے بصیرت اور معرفت بن جائے۔ اسی طرح پیغمبر کے پیرو وہ لوگ ہیں جو حق کو بصیرت کی سطح پر پائیں اور توحید کی سطح پر اس کا اعلان کریں۔
آدمی اپنے وقتی اطمینان کو مستقل اطمینان سمجھ لیتاہے۔ حالانکہ کسی کے پاس اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس کی مہلتِ عمر کب تک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آکر اس کے تمام مزعومات کو باطل کردے گی۔ کب قیامت کا زلزلہ اس کی بنی بنائی دنیا کو الٹ پلٹ دے گا۔ آدمی اپنے آپ کو یقینی انجام کی دنیا میں سمجھتا ہے حالانکہ وہ ہر لمحہ ایک غیر یقینی انجام کے کنارے کھڑا ہوا ہے۔
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ
📘 حق کے ظہور کے بعد جو لوگ اس کو نہ مانیں وہ اپنے انکار کو ہمیشہ اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ جو دلیل مطلوب تھی وہ دلیل حق کی طرف سے ان کے سامنے نہیںآئی۔ اگر ایسی دلیل ہوتی تو وہ اس کو ضرور مان لیتے۔ گویا ان کے اعراض یا انکار کا سبب ان کے باہر ہے، نہ کہ ان کے اندر۔
مگر حقیقت حال ا سکے برعکس ہے۔ حق اتنا واضح ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو زمین وآسمان کی تمام نشانیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ ساری کائنات میں سب سے زیادہ ثابت شدہ چیز ہوتا ہے ۔ مگر حق کو پانے کے لیے اصل ضرورت دیکھنے والی آنکھ اور عبرت پکڑنے والے دماغ کی ہے۔ اور یہی چیز منکرین کے یہاں موجود نہیں ہوتی۔
حق کے مقابلہ میں آدمی جب سرکش دکھائی دیتا ہے تو اکثر حالات میں اس کی وجہ ’’شرک‘‘ ہوتا ہے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کو مانتے ہوئے انھوںنے کچھ اورزندہ یا مُردہ ہستیاں فرض کر رکھی ہیں جن پر وہ اپنا اعتماد قائم كيے ہوئے ہیں، جن کو وہ بڑائی کا مقام دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک نے خدا کے سوا کچھ ’’بڑے‘‘ بنا رکھے ہیں۔ وہ انھیں بڑوں کے بھروسہ پر جی رہے ہیں۔ حالانکہ خدا کے یہاں سب چھوٹے ہیں۔ وہاں کسی کو جو چیز بچائے گی وہ اس کا ذاتی عمل ہے، نہ کہ مفروضہ بڑوں کی بڑائی۔
پیغمبر کا کام ایک اللہ کی طرف بلانا ہے۔ یہی اس کا مشن ہے ۔ اس مشن کو اس نے بصیرت کے طورپر اختیار کیا ہے، نہ کہ تقلید کے طورپر۔ گویا پیغمبرانہ دعوت وہ دعوت ہے جو انسان کو ایک خدا سے جوڑنے کی دعوت ہو اور جس کی صداقت داعی کے اوپر اتنی کھل چکی ہو کہ وہ اس کے لیے بصیرت اور معرفت بن جائے۔ اسی طرح پیغمبر کے پیرو وہ لوگ ہیں جو حق کو بصیرت کی سطح پر پائیں اور توحید کی سطح پر اس کا اعلان کریں۔
آدمی اپنے وقتی اطمینان کو مستقل اطمینان سمجھ لیتاہے۔ حالانکہ کسی کے پاس اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس کی مہلتِ عمر کب تک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آکر اس کے تمام مزعومات کو باطل کردے گی۔ کب قیامت کا زلزلہ اس کی بنی بنائی دنیا کو الٹ پلٹ دے گا۔ آدمی اپنے آپ کو یقینی انجام کی دنیا میں سمجھتا ہے حالانکہ وہ ہر لمحہ ایک غیر یقینی انجام کے کنارے کھڑا ہوا ہے۔
أَفَأَمِنُوا أَنْ تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 حق کے ظہور کے بعد جو لوگ اس کو نہ مانیں وہ اپنے انکار کو ہمیشہ اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ جو دلیل مطلوب تھی وہ دلیل حق کی طرف سے ان کے سامنے نہیںآئی۔ اگر ایسی دلیل ہوتی تو وہ اس کو ضرور مان لیتے۔ گویا ان کے اعراض یا انکار کا سبب ان کے باہر ہے، نہ کہ ان کے اندر۔
مگر حقیقت حال ا سکے برعکس ہے۔ حق اتنا واضح ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو زمین وآسمان کی تمام نشانیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ ساری کائنات میں سب سے زیادہ ثابت شدہ چیز ہوتا ہے ۔ مگر حق کو پانے کے لیے اصل ضرورت دیکھنے والی آنکھ اور عبرت پکڑنے والے دماغ کی ہے۔ اور یہی چیز منکرین کے یہاں موجود نہیں ہوتی۔
حق کے مقابلہ میں آدمی جب سرکش دکھائی دیتا ہے تو اکثر حالات میں اس کی وجہ ’’شرک‘‘ ہوتا ہے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کو مانتے ہوئے انھوںنے کچھ اورزندہ یا مُردہ ہستیاں فرض کر رکھی ہیں جن پر وہ اپنا اعتماد قائم كيے ہوئے ہیں، جن کو وہ بڑائی کا مقام دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک نے خدا کے سوا کچھ ’’بڑے‘‘ بنا رکھے ہیں۔ وہ انھیں بڑوں کے بھروسہ پر جی رہے ہیں۔ حالانکہ خدا کے یہاں سب چھوٹے ہیں۔ وہاں کسی کو جو چیز بچائے گی وہ اس کا ذاتی عمل ہے، نہ کہ مفروضہ بڑوں کی بڑائی۔
پیغمبر کا کام ایک اللہ کی طرف بلانا ہے۔ یہی اس کا مشن ہے ۔ اس مشن کو اس نے بصیرت کے طورپر اختیار کیا ہے، نہ کہ تقلید کے طورپر۔ گویا پیغمبرانہ دعوت وہ دعوت ہے جو انسان کو ایک خدا سے جوڑنے کی دعوت ہو اور جس کی صداقت داعی کے اوپر اتنی کھل چکی ہو کہ وہ اس کے لیے بصیرت اور معرفت بن جائے۔ اسی طرح پیغمبر کے پیرو وہ لوگ ہیں جو حق کو بصیرت کی سطح پر پائیں اور توحید کی سطح پر اس کا اعلان کریں۔
آدمی اپنے وقتی اطمینان کو مستقل اطمینان سمجھ لیتاہے۔ حالانکہ کسی کے پاس اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس کی مہلتِ عمر کب تک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آکر اس کے تمام مزعومات کو باطل کردے گی۔ کب قیامت کا زلزلہ اس کی بنی بنائی دنیا کو الٹ پلٹ دے گا۔ آدمی اپنے آپ کو یقینی انجام کی دنیا میں سمجھتا ہے حالانکہ وہ ہر لمحہ ایک غیر یقینی انجام کے کنارے کھڑا ہوا ہے۔
قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 حق کے ظہور کے بعد جو لوگ اس کو نہ مانیں وہ اپنے انکار کو ہمیشہ اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ جو دلیل مطلوب تھی وہ دلیل حق کی طرف سے ان کے سامنے نہیںآئی۔ اگر ایسی دلیل ہوتی تو وہ اس کو ضرور مان لیتے۔ گویا ان کے اعراض یا انکار کا سبب ان کے باہر ہے، نہ کہ ان کے اندر۔
مگر حقیقت حال ا سکے برعکس ہے۔ حق اتنا واضح ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتا ہے تو زمین وآسمان کی تمام نشانیاں اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ وہ ساری کائنات میں سب سے زیادہ ثابت شدہ چیز ہوتا ہے ۔ مگر حق کو پانے کے لیے اصل ضرورت دیکھنے والی آنکھ اور عبرت پکڑنے والے دماغ کی ہے۔ اور یہی چیز منکرین کے یہاں موجود نہیں ہوتی۔
حق کے مقابلہ میں آدمی جب سرکش دکھائی دیتا ہے تو اکثر حالات میں اس کی وجہ ’’شرک‘‘ ہوتا ہے۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ خدا کو مانتے ہوئے انھوںنے کچھ اورزندہ یا مُردہ ہستیاں فرض کر رکھی ہیں جن پر وہ اپنا اعتماد قائم كيے ہوئے ہیں، جن کو وہ بڑائی کا مقام دیتے ہیں۔ اس طرح ہر ایک نے خدا کے سوا کچھ ’’بڑے‘‘ بنا رکھے ہیں۔ وہ انھیں بڑوں کے بھروسہ پر جی رہے ہیں۔ حالانکہ خدا کے یہاں سب چھوٹے ہیں۔ وہاں کسی کو جو چیز بچائے گی وہ اس کا ذاتی عمل ہے، نہ کہ مفروضہ بڑوں کی بڑائی۔
پیغمبر کا کام ایک اللہ کی طرف بلانا ہے۔ یہی اس کا مشن ہے ۔ اس مشن کو اس نے بصیرت کے طورپر اختیار کیا ہے، نہ کہ تقلید کے طورپر۔ گویا پیغمبرانہ دعوت وہ دعوت ہے جو انسان کو ایک خدا سے جوڑنے کی دعوت ہو اور جس کی صداقت داعی کے اوپر اتنی کھل چکی ہو کہ وہ اس کے لیے بصیرت اور معرفت بن جائے۔ اسی طرح پیغمبر کے پیرو وہ لوگ ہیں جو حق کو بصیرت کی سطح پر پائیں اور توحید کی سطح پر اس کا اعلان کریں۔
آدمی اپنے وقتی اطمینان کو مستقل اطمینان سمجھ لیتاہے۔ حالانکہ کسی کے پاس اس بات کی ضمانت نہیں کہ اس کی مہلتِ عمر کب تک ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب موت آکر اس کے تمام مزعومات کو باطل کردے گی۔ کب قیامت کا زلزلہ اس کی بنی بنائی دنیا کو الٹ پلٹ دے گا۔ آدمی اپنے آپ کو یقینی انجام کی دنیا میں سمجھتا ہے حالانکہ وہ ہر لمحہ ایک غیر یقینی انجام کے کنارے کھڑا ہوا ہے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ ۗ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۗ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
📘 تاریخ بتاتی ہے کہ جو لوگ رسالت اور پیغمبری کو مانتے تھے وہ بھی اس وقت اس کے منکر ہوگئے، جب کہ خود اپنی قوم کے اندر سے ایک شخص پیغمبر ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی کا پیغمبر تاریخی طورپر ثابت شدہ پیغمبر بن چکا ہوتاہے، جب کہ حال کا پیغمبر ایک نزاعی شخصیت ہوتاہے۔ تاریخی پیغمبر کوماننا ہمیشہ انسان کے لیے آسان ترین کام رہا ہے اور نزاعی پیغمبر کو ماننا ہمیشہ اس کے لیے مشکل ترین کام۔
عاد اور ثمود اور مدین اور قوم لوط وغیرہ کی تباہ شدہ بستیاں قریش کے آس پاس کے علاقوں میں موجود تھیں۔ وہ اپنے سفروں کے دوران ان کو دیکھتے تھے۔ یہ آثار زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ پیغمبر کو نزاعی دور میں نہ پہچاننے ہی کی وجہ سے ان قوموں پر خدا کا عذاب آیااور وہ ہلاک کردی گئیں۔ اس کے باوجود قریش نے ان سے سبق نہیں لیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ ایک غلط کام کرتاہے مگر کچھ خود ساختہ خیالات کی بنا پر اپنے آپ کو غلط کاروں کی فہرست سے الگ کرلیتاہے۔
سورہ یوسف کی آیت 110 کی تشریح سورہ بقرہ کی آیت
214
سے ہورہی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے— ’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل کرديے جاؤ گے۔ حالانکہ تم پر ابھی وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے والوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے۔یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ خدا کی مدد کب آئے گی۔ جان لو، خدا کی مدد قریب ہے‘‘۔
خدا ہمیشہ داعی کی مدد کرتاہے۔ مگر مدد مدعو کے خلاف داعی کے حق میں خدا کا فیصلہ ہوتا ہے، اسی لیے یہ مدد ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب کہ دعوتی جدوجہد اپنی تکمیل کے آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہو، خواہ اس تاخیر کی وجہ سے دعوت دینے والوں پر مایوسی کے احساسات طاری ہونے لگیں۔
’’اور آخرت کا گھر متقیوں کے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘— اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں اہل ایمان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آخرت میں ان کے ساتھ كيے جانے والے سلوک کی علامت ہوتاہے۔
دنیا میں خدا حق کے داعیوں کی اس طرح مدد کرتاہے کہ ان کی بات تمام دوسری باتوں پر بلند وبالا ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کی تمام سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنا مشن پورا کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ یہی عزت اور سر بلندی ان کو آخرت میں زیادہ کامل اور معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ
📘 حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو جو جواب دیا اس سے معلوم ہوتاہے کہ حالات کے مطالعہ سے انھوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ صحرامیں کھیلنے کودنے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یوسف کے خلاف ان کے بھائیوں کی سازش کا معاملہ ہے۔مگر اللہ سے ڈرنے والا انسان اللہ پر بھروسہ کرنے والا انسان ہوتاہے۔ حضرت یعقوب نے اگر چہ اپنی فراست سے یہ محسوس کرلیا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ تاہم وہ خدا کی قدرت کو ہر دوسری چیز سے اوپر سمجھتے تھے۔ ان کو خدا کی بالا دستی پر کامل یقین تھا۔ چنانچہ واضح خطرات کے باوجود انھوں نے یوسف کو خدا کے بھروسہ پر ان کے بھائیوں کے حوالے کردیا۔
یہ خدا سے ڈرنے والے انسان کی تصویر تھی۔ دوسری طرف حضرت یوسف کے بھائیوں میں ان لوگوں کی تصویر نظر آتی ہے جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہوں۔ یہ لوگ ایک بندۂ خدا کو ناحق برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں خداکے سوا کسی اور کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ وہ لفظوں کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کررہے تھے۔ حالانکہ خدا کے نزدیک خیر خواہ وہ ہے جو عمل کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کرے۔
حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
📘 تاریخ بتاتی ہے کہ جو لوگ رسالت اور پیغمبری کو مانتے تھے وہ بھی اس وقت اس کے منکر ہوگئے، جب کہ خود اپنی قوم کے اندر سے ایک شخص پیغمبر ہوکر ان کے سامنے کھڑا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی کا پیغمبر تاریخی طورپر ثابت شدہ پیغمبر بن چکا ہوتاہے، جب کہ حال کا پیغمبر ایک نزاعی شخصیت ہوتاہے۔ تاریخی پیغمبر کوماننا ہمیشہ انسان کے لیے آسان ترین کام رہا ہے اور نزاعی پیغمبر کو ماننا ہمیشہ اس کے لیے مشکل ترین کام۔
عاد اور ثمود اور مدین اور قوم لوط وغیرہ کی تباہ شدہ بستیاں قریش کے آس پاس کے علاقوں میں موجود تھیں۔ وہ اپنے سفروں کے دوران ان کو دیکھتے تھے۔ یہ آثار زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ پیغمبر کو نزاعی دور میں نہ پہچاننے ہی کی وجہ سے ان قوموں پر خدا کا عذاب آیااور وہ ہلاک کردی گئیں۔ اس کے باوجود قریش نے ان سے سبق نہیں لیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ ایک غلط کام کرتاہے مگر کچھ خود ساختہ خیالات کی بنا پر اپنے آپ کو غلط کاروں کی فہرست سے الگ کرلیتاہے۔
سورہ یوسف کی آیت 110 کی تشریح سورہ بقرہ کی آیت
214
سے ہورہی ہے جس میں ارشاد ہوا ہے— ’’کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم جنت میں داخل کرديے جاؤ گے۔ حالانکہ تم پر ابھی وہ حالات گزرے ہی نہیں جو تم سے پہلے والوں پر گزرے تھے۔ ان کو سختی اور تکلیف پہنچی اور وہ ہلا مارے گئے۔یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ خدا کی مدد کب آئے گی۔ جان لو، خدا کی مدد قریب ہے‘‘۔
خدا ہمیشہ داعی کی مدد کرتاہے۔ مگر مدد مدعو کے خلاف داعی کے حق میں خدا کا فیصلہ ہوتا ہے، اسی لیے یہ مدد ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب کہ دعوتی جدوجہد اپنی تکمیل کے آخری مرحلہ میں پہنچ چکی ہو، خواہ اس تاخیر کی وجہ سے دعوت دینے والوں پر مایوسی کے احساسات طاری ہونے لگیں۔
’’اور آخرت کا گھر متقیوں کے لیے زیادہ بہتر ہے‘‘— اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں اہل ایمان کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے وہ آخرت میں ان کے ساتھ كيے جانے والے سلوک کی علامت ہوتاہے۔
دنیا میں خدا حق کے داعیوں کی اس طرح مدد کرتاہے کہ ان کی بات تمام دوسری باتوں پر بلند وبالا ثابت ہوتی ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کی تمام سازشوں اور مخالفتوں کے باوجود اپنا مشن پورا کرنے میں کامیاب ثابت ہوتے ہیں۔ یہی عزت اور سر بلندی ان کو آخرت میں زیادہ کامل اور معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ۗ مَا كَانَ حَدِيثًا يُفْتَرَىٰ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 پچھلے پیغمبروں اور ان کی قوموں کی کہانی عبرت کے اعتبار سے تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ اگر آدمی عقل سے کام لے تو وہ ماضی کے واقعہ میں حال کی نصیحت پالے گا۔ دوسروں کے انجام کو دیکھ کر وہ اپنے احوال کو درست کرلے گا۔
قرآن کسی انسان کی گھڑی ہوئی کتاب نہیں، وہ خدا کی طرف سے اتری ہوئی کتاب ہے۔ وہ عین اس پیشین گوئی کے مطابق آئی ہے جو پچھلی آسمانی کتابوں میں کی گئی تھی۔ اس میں ہدایت سے متعلق ہر ضروری چیز کا بیان موجود ہے۔ وہ اپنے آغاز کے اعتبار سے انسانوں کے لیے رہنمائی ہے اور اپنے انجام کے اعتبار سے ان کے لیے رحمت۔
أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
📘 حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو جو جواب دیا اس سے معلوم ہوتاہے کہ حالات کے مطالعہ سے انھوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ صحرامیں کھیلنے کودنے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یوسف کے خلاف ان کے بھائیوں کی سازش کا معاملہ ہے۔مگر اللہ سے ڈرنے والا انسان اللہ پر بھروسہ کرنے والا انسان ہوتاہے۔ حضرت یعقوب نے اگر چہ اپنی فراست سے یہ محسوس کرلیا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ تاہم وہ خدا کی قدرت کو ہر دوسری چیز سے اوپر سمجھتے تھے۔ ان کو خدا کی بالا دستی پر کامل یقین تھا۔ چنانچہ واضح خطرات کے باوجود انھوں نے یوسف کو خدا کے بھروسہ پر ان کے بھائیوں کے حوالے کردیا۔
یہ خدا سے ڈرنے والے انسان کی تصویر تھی۔ دوسری طرف حضرت یوسف کے بھائیوں میں ان لوگوں کی تصویر نظر آتی ہے جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہوں۔ یہ لوگ ایک بندۂ خدا کو ناحق برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں خداکے سوا کسی اور کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ وہ لفظوں کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کررہے تھے۔ حالانکہ خدا کے نزدیک خیر خواہ وہ ہے جو عمل کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کرے۔
قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَنْ تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنْتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ
📘 حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو جو جواب دیا اس سے معلوم ہوتاہے کہ حالات کے مطالعہ سے انھوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ صحرامیں کھیلنے کودنے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یوسف کے خلاف ان کے بھائیوں کی سازش کا معاملہ ہے۔مگر اللہ سے ڈرنے والا انسان اللہ پر بھروسہ کرنے والا انسان ہوتاہے۔ حضرت یعقوب نے اگر چہ اپنی فراست سے یہ محسوس کرلیا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ تاہم وہ خدا کی قدرت کو ہر دوسری چیز سے اوپر سمجھتے تھے۔ ان کو خدا کی بالا دستی پر کامل یقین تھا۔ چنانچہ واضح خطرات کے باوجود انھوں نے یوسف کو خدا کے بھروسہ پر ان کے بھائیوں کے حوالے کردیا۔
یہ خدا سے ڈرنے والے انسان کی تصویر تھی۔ دوسری طرف حضرت یوسف کے بھائیوں میں ان لوگوں کی تصویر نظر آتی ہے جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہوں۔ یہ لوگ ایک بندۂ خدا کو ناحق برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں خداکے سوا کسی اور کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ وہ لفظوں کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کررہے تھے۔ حالانکہ خدا کے نزدیک خیر خواہ وہ ہے جو عمل کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کرے۔
قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَخَاسِرُونَ
📘 حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو جو جواب دیا اس سے معلوم ہوتاہے کہ حالات کے مطالعہ سے انھوں نے اندازہ کرلیا تھا کہ یہ صحرامیں کھیلنے کودنے کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ یوسف کے خلاف ان کے بھائیوں کی سازش کا معاملہ ہے۔مگر اللہ سے ڈرنے والا انسان اللہ پر بھروسہ کرنے والا انسان ہوتاہے۔ حضرت یعقوب نے اگر چہ اپنی فراست سے یہ محسوس کرلیا تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے۔ تاہم وہ خدا کی قدرت کو ہر دوسری چیز سے اوپر سمجھتے تھے۔ ان کو خدا کی بالا دستی پر کامل یقین تھا۔ چنانچہ واضح خطرات کے باوجود انھوں نے یوسف کو خدا کے بھروسہ پر ان کے بھائیوں کے حوالے کردیا۔
یہ خدا سے ڈرنے والے انسان کی تصویر تھی۔ دوسری طرف حضرت یوسف کے بھائیوں میں ان لوگوں کی تصویر نظر آتی ہے جن کے دل خدا کے خوف سے خالی ہوں۔ یہ لوگ ایک بندۂ خدا کو ناحق برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ ایک ایسی دنیا میں ہیں جہاں خداکے سوا کسی اور کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ وہ لفظوں کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کررہے تھے۔ حالانکہ خدا کے نزدیک خیر خواہ وہ ہے جو عمل کے اعتبار سے اپنے کو خیر خواہ ثابت کرے۔
فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَنْ يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُمْ بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 حضرت یوسف کا اصل قصہ یقینی طورپر اس سے زیادہ مفصّل ہے جتنا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ مگر قرآن کا اصل مقصد نصیحت ہے، نہ کہ واقعہ نگاری۔ اس لیے وہ صرف ان پہلوؤں کو لیتاہے جو نصیحت اور تذکیر کے لیے مفید ہوں۔ اور بقیہ تمام اجزاء کو حذف کردیتاہے تاکہ تاریخ نگار اس کو مرتب کریں۔
روایات کے مطابق حضرت یوسف تین دن تک اندھے کنوئیں میں رہے۔ انھیں تین دنوں میں غالباً خواب کے ذریعہ آپ کو آپ کا مستقبل دکھایا گیا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ آپ کنویں سے نکلتے ہیں اور پھر عظمت وشان کے ایک اونچے مقام پر پہنچتے ہیں۔ حتی کہ آپ کے اور آپ کے بھائیوں کے درمیان حیثیت کے اعتبار سے اتنا فرق ہوجاتاہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے۔
حضرت یوسف کے بھائیوں نے جو کچھ کیا وہ انتہائی اشتعال انگیز حرکت تھی۔ مگر ایک طرف حضرت یوسف کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اپنے معاملہ کو خداکے حوالے کردیا اور سنسان مقام پر اندھے کنویں کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے خدا کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔ دوسری طرف آپ کے والد حضرت یعقوب نے صبر جمیل کی روش اختیار کی۔ بعض تفسیروں میں آیا ہے کہ انھوںنے اپنے بیٹوں سے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جاتا تو وہ اس کی قمیص کو بھی ضرور پھاڑ ڈالتا (لَوْ أَكَلَهُ السَّبْعُ لَخَرَقَ الْقَمِيصَ) تفسیر الطبری، جلد
13
، صفحہ
36
۔یعنی وہ بھیڑیا بھی کیسا شریف بھیڑیا تھا جو یوسف کو تو اٹھالے گیا اور خون آلود قمیص کو نہایت صحیح وسالم حالت میں اتار کر تمھارے حوالے کرگیا۔
وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ
📘 حضرت یوسف کا اصل قصہ یقینی طورپر اس سے زیادہ مفصّل ہے جتنا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ مگر قرآن کا اصل مقصد نصیحت ہے، نہ کہ واقعہ نگاری۔ اس لیے وہ صرف ان پہلوؤں کو لیتاہے جو نصیحت اور تذکیر کے لیے مفید ہوں۔ اور بقیہ تمام اجزاء کو حذف کردیتاہے تاکہ تاریخ نگار اس کو مرتب کریں۔
روایات کے مطابق حضرت یوسف تین دن تک اندھے کنوئیں میں رہے۔ انھیں تین دنوں میں غالباً خواب کے ذریعہ آپ کو آپ کا مستقبل دکھایا گیا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ آپ کنویں سے نکلتے ہیں اور پھر عظمت وشان کے ایک اونچے مقام پر پہنچتے ہیں۔ حتی کہ آپ کے اور آپ کے بھائیوں کے درمیان حیثیت کے اعتبار سے اتنا فرق ہوجاتاہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے۔
حضرت یوسف کے بھائیوں نے جو کچھ کیا وہ انتہائی اشتعال انگیز حرکت تھی۔ مگر ایک طرف حضرت یوسف کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اپنے معاملہ کو خداکے حوالے کردیا اور سنسان مقام پر اندھے کنویں کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے خدا کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔ دوسری طرف آپ کے والد حضرت یعقوب نے صبر جمیل کی روش اختیار کی۔ بعض تفسیروں میں آیا ہے کہ انھوںنے اپنے بیٹوں سے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جاتا تو وہ اس کی قمیص کو بھی ضرور پھاڑ ڈالتا (لَوْ أَكَلَهُ السَّبْعُ لَخَرَقَ الْقَمِيصَ) تفسیر الطبری، جلد
13
، صفحہ
36
۔یعنی وہ بھیڑیا بھی کیسا شریف بھیڑیا تھا جو یوسف کو تو اٹھالے گیا اور خون آلود قمیص کو نہایت صحیح وسالم حالت میں اتار کر تمھارے حوالے کرگیا۔
قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ
📘 حضرت یوسف کا اصل قصہ یقینی طورپر اس سے زیادہ مفصّل ہے جتنا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ مگر قرآن کا اصل مقصد نصیحت ہے، نہ کہ واقعہ نگاری۔ اس لیے وہ صرف ان پہلوؤں کو لیتاہے جو نصیحت اور تذکیر کے لیے مفید ہوں۔ اور بقیہ تمام اجزاء کو حذف کردیتاہے تاکہ تاریخ نگار اس کو مرتب کریں۔
روایات کے مطابق حضرت یوسف تین دن تک اندھے کنوئیں میں رہے۔ انھیں تین دنوں میں غالباً خواب کے ذریعہ آپ کو آپ کا مستقبل دکھایا گیا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ آپ کنویں سے نکلتے ہیں اور پھر عظمت وشان کے ایک اونچے مقام پر پہنچتے ہیں۔ حتی کہ آپ کے اور آپ کے بھائیوں کے درمیان حیثیت کے اعتبار سے اتنا فرق ہوجاتاہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے۔
حضرت یوسف کے بھائیوں نے جو کچھ کیا وہ انتہائی اشتعال انگیز حرکت تھی۔ مگر ایک طرف حضرت یوسف کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اپنے معاملہ کو خداکے حوالے کردیا اور سنسان مقام پر اندھے کنویں کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے خدا کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔ دوسری طرف آپ کے والد حضرت یعقوب نے صبر جمیل کی روش اختیار کی۔ بعض تفسیروں میں آیا ہے کہ انھوںنے اپنے بیٹوں سے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جاتا تو وہ اس کی قمیص کو بھی ضرور پھاڑ ڈالتا (لَوْ أَكَلَهُ السَّبْعُ لَخَرَقَ الْقَمِيصَ) تفسیر الطبری، جلد
13
، صفحہ
36
۔یعنی وہ بھیڑیا بھی کیسا شریف بھیڑیا تھا جو یوسف کو تو اٹھالے گیا اور خون آلود قمیص کو نہایت صحیح وسالم حالت میں اتار کر تمھارے حوالے کرگیا۔
وَجَاءُوا عَلَىٰ قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ ۚ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ
📘 حضرت یوسف کا اصل قصہ یقینی طورپر اس سے زیادہ مفصّل ہے جتنا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ مگر قرآن کا اصل مقصد نصیحت ہے، نہ کہ واقعہ نگاری۔ اس لیے وہ صرف ان پہلوؤں کو لیتاہے جو نصیحت اور تذکیر کے لیے مفید ہوں۔ اور بقیہ تمام اجزاء کو حذف کردیتاہے تاکہ تاریخ نگار اس کو مرتب کریں۔
روایات کے مطابق حضرت یوسف تین دن تک اندھے کنوئیں میں رہے۔ انھیں تین دنوں میں غالباً خواب کے ذریعہ آپ کو آپ کا مستقبل دکھایا گیا۔ اس میں آپ نے دیکھا کہ آپ کنویں سے نکلتے ہیں اور پھر عظمت وشان کے ایک اونچے مقام پر پہنچتے ہیں۔ حتی کہ آپ کے اور آپ کے بھائیوں کے درمیان حیثیت کے اعتبار سے اتنا فرق ہوجاتاہے کہ وہ آپ کو دیکھتے ہیں تو پہچان نہیں پاتے۔
حضرت یوسف کے بھائیوں نے جو کچھ کیا وہ انتہائی اشتعال انگیز حرکت تھی۔ مگر ایک طرف حضرت یوسف کا حال یہ تھا کہ انھوں نے اپنے معاملہ کو خداکے حوالے کردیا اور سنسان مقام پر اندھے کنویں کے اندر خاموش بیٹھے ہوئے خدا کی مدد کا انتظار کرتے رہے۔ دوسری طرف آپ کے والد حضرت یعقوب نے صبر جمیل کی روش اختیار کی۔ بعض تفسیروں میں آیا ہے کہ انھوںنے اپنے بیٹوں سے کہا اگر یوسف کو بھیڑیا کھا جاتا تو وہ اس کی قمیص کو بھی ضرور پھاڑ ڈالتا (لَوْ أَكَلَهُ السَّبْعُ لَخَرَقَ الْقَمِيصَ) تفسیر الطبری، جلد
13
، صفحہ
36
۔یعنی وہ بھیڑیا بھی کیسا شریف بھیڑیا تھا جو یوسف کو تو اٹھالے گیا اور خون آلود قمیص کو نہایت صحیح وسالم حالت میں اتار کر تمھارے حوالے کرگیا۔
وَجَاءَتْ سَيَّارَةٌ فَأَرْسَلُوا وَارِدَهُمْ فَأَدْلَىٰ دَلْوَهُ ۖ قَالَ يَا بُشْرَىٰ هَٰذَا غُلَامٌ ۚ وَأَسَرُّوهُ بِضَاعَةً ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
📘 حضرت یوسف کے بھائی جب آپ کو اندھے کنویں میں ڈال کر چلے گئے تو تین دن بعد ایک تجارتی قافلہ ادھر سے گزرا جو مدین سے مصر جارہا تھا۔ قافلہ کے ایک آدمی نے پانی کی خاطر کنویں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف (جو اس وقت تقریباً
16
سال کے تھے) ڈول پکڑ کر باہر آگئے۔
یہ بردہ فروشی کا زمانہ تھا۔ اس لیے قافلہ والے خوش ہوئے کہ وہ مصر لے جاکر لڑکے کو فروخت کرسکیں گے۔ چنانچہ جب وہ مصر پہنچے تو اپنے دیگر سامانوں کے ساتھ حضرت یوسف کو بھی بازار میں رکھا۔ وہاں ایک آدمی نے ہونہار لڑکا دیکھ کر آپ کو بیس درہم میں خرید لیا۔
حضرت یوسف کے بھائی آپ کو بے وطن کرکے کنویں میں ڈال چکے تھے۔ قافلہ والوں نے غلام کی حیثیت سے فروخت کردیا۔ اس کے بعد مصر کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی بیوی (زلیخا) نے آپ کو قید خانہ میں قید کرادیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام مراحل کو آپ کے لیے عزّت و سربلندی تک پہنچنے کا زینہ بنا دیا — کس قدر فرق ہے علم انسانی میںاور علم خداوندی میں۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
📘 قرآن اگرچہ ساری دنیا کی ہدایت کے لیے آیاہے۔ تاہم اس کے مخاطبِ اوّل عرب تھے۔ اس لیے وہ عربی زبان میں اترا۔ اب اس پر ایمان لانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیمات کو ہر زبان میں منتقل کریں۔ اور ا س کو دنیا کی تمام قوموں تک پہنچائیں۔
قرآن کی تعلیمات قرآن میں مختلف انداز اور اسلوب سے بیان کی گئی ہیں۔ کہیں وہ کائناتی استدلال کی زبان میں ہیں، کہیں انذار اور تبشیر کی زبان میں اور کہیں تاریخ کی زبان میں۔ سورہ یوسف میں یہ پیغام حضرت یوسف کے قصہ کی شکل میں سامنے لاياگیا ہے۔ اس سورہ میں اہل ایمان کو ایک پیغمبر کی سرگزشت کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ حق کے لیے اٹھنے والوں کی مدد کرتاہے۔ اور مخالفین کی تمام سازشوں کے باوجود بالآخر ان کو کامیاب کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اہلِ ایمان کہ اندر تقویٰ اور صبر کی صفت موجود ہو۔ یعنی وہ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور ہر حال میں حق کے راستے پر جمے رہیں۔
وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
📘 حضرت یوسف کے بھائی جب آپ کو اندھے کنویں میں ڈال کر چلے گئے تو تین دن بعد ایک تجارتی قافلہ ادھر سے گزرا جو مدین سے مصر جارہا تھا۔ قافلہ کے ایک آدمی نے پانی کی خاطر کنویں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف (جو اس وقت تقریباً
16
سال کے تھے) ڈول پکڑ کر باہر آگئے۔
یہ بردہ فروشی کا زمانہ تھا۔ اس لیے قافلہ والے خوش ہوئے کہ وہ مصر لے جاکر لڑکے کو فروخت کرسکیں گے۔ چنانچہ جب وہ مصر پہنچے تو اپنے دیگر سامانوں کے ساتھ حضرت یوسف کو بھی بازار میں رکھا۔ وہاں ایک آدمی نے ہونہار لڑکا دیکھ کر آپ کو بیس درہم میں خرید لیا۔
حضرت یوسف کے بھائی آپ کو بے وطن کرکے کنویں میں ڈال چکے تھے۔ قافلہ والوں نے غلام کی حیثیت سے فروخت کردیا۔ اس کے بعد مصر کے ایک اعلیٰ سرکاری افسر کی بیوی (زلیخا) نے آپ کو قید خانہ میں قید کرادیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام مراحل کو آپ کے لیے عزّت و سربلندی تک پہنچنے کا زینہ بنا دیا — کس قدر فرق ہے علم انسانی میںاور علم خداوندی میں۔
وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
📘 کہا جاتا ہے کہ مصری حکومت کے ایک افسر (فوطیفار) نے حضرت یوسف کو خریدا۔ معمولی کپڑے میں چھپی ہوئی آپ کی شاندار شخصیت کو اس نے پہچان لیا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی غلام نہیں ہے بلکہ شریف خاندان کا لڑکا ہے۔ کسی وجہ سے وہ قافلہ کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے اس کو یہاں لاکر بیچ دیا۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو غلام کی طرح نہ رکھنا۔ یہ ایک لائق نوجوان معلوم ہوتاہے اور اس قابل ہے کہ ہمارے گھر اور جائداد کا انتظام سنبھال لے۔ مزیدیہ کہ فوطیفار بے اولاد تھا اور کسی کو اپنا متبنی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے یہ اراده بھی کرلیا کہ اگر واقعی یہ نوجوان اس کی امیدوں کے مطابق نکلا تو وہ اس کو اپنا بیٹا بنالے گا۔
حضرت یوسف جب تقریباً چالیس سال کے ہوئے تو خدا نے ان کو ایک طرف نبوت عطا کی اور دوسری طرف اقتدار۔ ان کو یہ انعام ان کے حسن عمل کی وجہ سے ملا۔ خداکے انعام کا دروازہ ہمیشہ محسنین کے لیے کھلا ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دور نبوت میں کسی کو اس کے حسنِ عمل کے نتیجہ میں نبی بھی بنایا جاسکتا تھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں اس کو صرف وہ انعامات ملیں گے جو نبوت کے علاوہ ہیں۔
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
📘 کہا جاتا ہے کہ مصری حکومت کے ایک افسر (فوطیفار) نے حضرت یوسف کو خریدا۔ معمولی کپڑے میں چھپی ہوئی آپ کی شاندار شخصیت کو اس نے پہچان لیا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی غلام نہیں ہے بلکہ شریف خاندان کا لڑکا ہے۔ کسی وجہ سے وہ قافلہ کے ہاتھ لگ گیا اور اس نے اس کو یہاں لاکر بیچ دیا۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو غلام کی طرح نہ رکھنا۔ یہ ایک لائق نوجوان معلوم ہوتاہے اور اس قابل ہے کہ ہمارے گھر اور جائداد کا انتظام سنبھال لے۔ مزیدیہ کہ فوطیفار بے اولاد تھا اور کسی کو اپنا متبنی بنانا چاہتا تھا۔ اس نے یہ اراده بھی کرلیا کہ اگر واقعی یہ نوجوان اس کی امیدوں کے مطابق نکلا تو وہ اس کو اپنا بیٹا بنالے گا۔
حضرت یوسف جب تقریباً چالیس سال کے ہوئے تو خدا نے ان کو ایک طرف نبوت عطا کی اور دوسری طرف اقتدار۔ ان کو یہ انعام ان کے حسن عمل کی وجہ سے ملا۔ خداکے انعام کا دروازہ ہمیشہ محسنین کے لیے کھلا ہوا ہے۔ فرق یہ ہے کہ دور نبوت میں کسی کو اس کے حسنِ عمل کے نتیجہ میں نبی بھی بنایا جاسکتا تھا۔ مگر بعد کے زمانہ میں اس کو صرف وہ انعامات ملیں گے جو نبوت کے علاوہ ہیں۔
وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ ۚ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
📘 عزیز مصر کی بیوی زلیخا حضرت یوسف پر فریفتہ ہوگئی۔ وہ بر ابر آپ کو پھسلاتی رہی۔ یہاں تک کہ ایک روز موقع پاکر اس نے کمرہ کا دروازہ بند کرلیا۔
ایک غیر شادی شدہ نوجوان کے لیے یہ بڑا نازک موقع تھا۔ مگر حضرت یوسف نے اپنی فطرت ربّانی کو محفوظ رکھا تھا اور یہ فطرت اس وقت حضرت یوسف کے کام آگئی۔ حق اور ناحق بھلائی اور برائی کو پہچاننے کی یہ طاقت ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر موجود ہوتی ہے۔ وہ ہر موقع پر انسان کو متنبہ کرتی ہے۔ جو شخص اس کو نظر انداز کردے اس نے گویا خدا کی آواز کو نظر انداز کردیا۔ ایسا آدمی خدا کی مدد سے محروم ہو کر دھیرے دھیرے اپنی فطرت کو کمزور کرلیتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص خدائی پکار کے ظاہر ہوتے ہی اس کے آگے جھک جائے، خدا کی مدد اس کی استعداد بڑھاتی رہتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ آئندہ زیادہ قوت کے ساتھ برائی کے مقابلہ میں ٹھہر سکے۔
حضرت یوسف کو جس چیز نے برائی سے روکا وہ حقیقۃً اللہ کا ڈر تھا۔ مگر زلیخا کے لیے خدا کا حوالہ دینا اس وقت بے اثر رہتا۔ یہ موقع اعلان حق کا نہیں تھا بلکہ ایک نازک صورت حال سے اپنے آپ کو بچانے کا تھا اسی نزاکت کی بنا پر آپ نے زلیخا کو اس کے شوہر کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میرا آقا ہے۔ اس نے مجھے نہایت عزت کے ساتھ اپنے گھر میں رکھا ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے محسن کے ناموس پر حملہ کروں۔
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
📘 عزیز مصر کی بیوی زلیخا حضرت یوسف پر فریفتہ ہوگئی۔ وہ بر ابر آپ کو پھسلاتی رہی۔ یہاں تک کہ ایک روز موقع پاکر اس نے کمرہ کا دروازہ بند کرلیا۔
ایک غیر شادی شدہ نوجوان کے لیے یہ بڑا نازک موقع تھا۔ مگر حضرت یوسف نے اپنی فطرت ربّانی کو محفوظ رکھا تھا اور یہ فطرت اس وقت حضرت یوسف کے کام آگئی۔ حق اور ناحق بھلائی اور برائی کو پہچاننے کی یہ طاقت ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر موجود ہوتی ہے۔ وہ ہر موقع پر انسان کو متنبہ کرتی ہے۔ جو شخص اس کو نظر انداز کردے اس نے گویا خدا کی آواز کو نظر انداز کردیا۔ ایسا آدمی خدا کی مدد سے محروم ہو کر دھیرے دھیرے اپنی فطرت کو کمزور کرلیتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص خدائی پکار کے ظاہر ہوتے ہی اس کے آگے جھک جائے، خدا کی مدد اس کی استعداد بڑھاتی رہتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ آئندہ زیادہ قوت کے ساتھ برائی کے مقابلہ میں ٹھہر سکے۔
حضرت یوسف کو جس چیز نے برائی سے روکا وہ حقیقۃً اللہ کا ڈر تھا۔ مگر زلیخا کے لیے خدا کا حوالہ دینا اس وقت بے اثر رہتا۔ یہ موقع اعلان حق کا نہیں تھا بلکہ ایک نازک صورت حال سے اپنے آپ کو بچانے کا تھا اسی نزاکت کی بنا پر آپ نے زلیخا کو اس کے شوہر کا حوالہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ میرا آقا ہے۔ اس نے مجھے نہایت عزت کے ساتھ اپنے گھر میں رکھا ہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ میں اپنے محسن کے ناموس پر حملہ کروں۔
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَأَلْفَيَا سَيِّدَهَا لَدَى الْبَابِ ۚ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلَّا أَنْ يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔
حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔
قَالَ هِيَ رَاوَدَتْنِي عَنْ نَفْسِي ۚ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
📘 حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔
حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔
وَإِنْ كَانَ قَمِيصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔
حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔
فَلَمَّا رَأَىٰ قَمِيصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ كَيْدِكُنَّ ۖ إِنَّ كَيْدَكُنَّ عَظِيمٌ
📘 حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔
حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔
يُوسُفُ أَعْرِضْ عَنْ هَٰذَا ۚ وَاسْتَغْفِرِي لِذَنْبِكِ ۖ إِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخَاطِئِينَ
📘 حضرت یوسف اپنے آپ کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف بھاگے۔ زلیخا بھی ان کے پیچھے دوڑی اور پیچھے سے آپ کا کرتا پکڑ لیا۔ کھینچ تان میں پیچھے کا دامن پھٹ گیا۔ تاہم حضرت یوسف دروزاہ کھول کر باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ دروازہ کے باہر اتفاق سے زلیخا کا شوہر موجود تھا۔ اس کو دیکھتے ہی زلیخا نے سارا الزام حضرت یوسف پر ڈال دیا۔ ایک لمحہ پہلے وہ جس شخص سے اظہار محبت کررہی تھی، ایک لمحہ بعد اس پر جھوٹا الزام لگانے لگی۔
حضرت یوسف نے بتایا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ غلطی کس کی ہے۔ کوئی تیسرا شخص موقع پر موجود نہیں تھا جو عینی گواہی دے۔ اس وقت گھر کے ایک مرد دانا نے لوگوں کو رہنمائی دی۔ اغلب ہے کہ یہ شخص پہلے حالات سے باخبر تھا۔ نیز اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ یوسف کا کرتا آگے کے بجائے پیچھے کی طرف سے پھٹا ہوا ہے۔ مگر اس نے اپنی بات کو ایسے انداز میں کہا گویا کہ وہ لوگوں سے کہہ رہا ہے کہ جب عینی شہادت موجود نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت (circumstantial evidence)دیکھ کر فیصلہ کرلو۔ اور قرینہ کی شہادت یہ تھی کہ حضرت یوسف کا کُرتا پیچھے کی جانب سے پھٹا ہوا تھا۔ یہ واضح طورپر اس کا ثبوت تھا کہ اس معاملہ میں اقدام زلیخا کی طرف سے ہوا ہے، نہ کہ یوسف کی طرف سے۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ
📘 قرآن اگرچہ ساری دنیا کی ہدایت کے لیے آیاہے۔ تاہم اس کے مخاطبِ اوّل عرب تھے۔ اس لیے وہ عربی زبان میں اترا۔ اب اس پر ایمان لانے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تعلیمات کو ہر زبان میں منتقل کریں۔ اور ا س کو دنیا کی تمام قوموں تک پہنچائیں۔
قرآن کی تعلیمات قرآن میں مختلف انداز اور اسلوب سے بیان کی گئی ہیں۔ کہیں وہ کائناتی استدلال کی زبان میں ہیں، کہیں انذار اور تبشیر کی زبان میں اور کہیں تاریخ کی زبان میں۔ سورہ یوسف میں یہ پیغام حضرت یوسف کے قصہ کی شکل میں سامنے لاياگیا ہے۔ اس سورہ میں اہل ایمان کو ایک پیغمبر کی سرگزشت کی صورت میں بتایا گیا ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ حق کے لیے اٹھنے والوں کی مدد کرتاہے۔ اور مخالفین کی تمام سازشوں کے باوجود بالآخر ان کو کامیاب کرتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ اہلِ ایمان کہ اندر تقویٰ اور صبر کی صفت موجود ہو۔ یعنی وہ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور ہر حال میں حق کے راستے پر جمے رہیں۔
۞ وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَنْ نَفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 اس قصہ میں ایک طرف مصر کے اونچے طبقہ کی خواتین تھیں اور دوسری طرف حضرت یوسف۔ خواتین آپ کو بس ایک خوب صورت جوان کی صورت میں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت یوسف ان خواتین کو تسکین نفس کے سامان کے روپ میں دیکھ سکتے تھے۔ مگر انتہائی ہیجان خیز حالات میں بھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔
خواتین کا حال یہ تھا کہ وہ سب کی سب آپ کی پُرکشش شخصیت کی طرف متوجہ تھیں۔ حتی کہ شدّت محویت میں انھوں نے چھری سے پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ زخمی کرليے۔ مگر حضرت یوسف اپنی تمام تر توجہ خدا کی طرف لگائے ہوئے تھے۔ خدا کی عظمت وکبریائی کااحساس آپ کے اوپر اتنا غالب آچکا تھا کہ کوئی دوسری چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی— کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں۔
فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً وَآتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ سِكِّينًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَيْهِنَّ ۖ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَٰذَا بَشَرًا إِنْ هَٰذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ
📘 اس قصہ میں ایک طرف مصر کے اونچے طبقہ کی خواتین تھیں اور دوسری طرف حضرت یوسف۔ خواتین آپ کو بس ایک خوب صورت جوان کی صورت میں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت یوسف ان خواتین کو تسکین نفس کے سامان کے روپ میں دیکھ سکتے تھے۔ مگر انتہائی ہیجان خیز حالات میں بھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔
خواتین کا حال یہ تھا کہ وہ سب کی سب آپ کی پُرکشش شخصیت کی طرف متوجہ تھیں۔ حتی کہ شدّت محویت میں انھوں نے چھری سے پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ زخمی کرليے۔ مگر حضرت یوسف اپنی تمام تر توجہ خدا کی طرف لگائے ہوئے تھے۔ خدا کی عظمت وکبریائی کااحساس آپ کے اوپر اتنا غالب آچکا تھا کہ کوئی دوسری چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی— کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں۔
قَالَتْ فَذَٰلِكُنَّ الَّذِي لُمْتُنَّنِي فِيهِ ۖ وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ ۖ وَلَئِنْ لَمْ يَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَيُسْجَنَنَّ وَلَيَكُونًا مِنَ الصَّاغِرِينَ
📘 اس قصہ میں ایک طرف مصر کے اونچے طبقہ کی خواتین تھیں اور دوسری طرف حضرت یوسف۔ خواتین آپ کو بس ایک خوب صورت جوان کی صورت میں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت یوسف ان خواتین کو تسکین نفس کے سامان کے روپ میں دیکھ سکتے تھے۔ مگر انتہائی ہیجان خیز حالات میں بھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔
خواتین کا حال یہ تھا کہ وہ سب کی سب آپ کی پُرکشش شخصیت کی طرف متوجہ تھیں۔ حتی کہ شدّت محویت میں انھوں نے چھری سے پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ زخمی کرليے۔ مگر حضرت یوسف اپنی تمام تر توجہ خدا کی طرف لگائے ہوئے تھے۔ خدا کی عظمت وکبریائی کااحساس آپ کے اوپر اتنا غالب آچکا تھا کہ کوئی دوسری چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی— کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں۔
قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِينَ
📘 اس قصہ میں ایک طرف مصر کے اونچے طبقہ کی خواتین تھیں اور دوسری طرف حضرت یوسف۔ خواتین آپ کو بس ایک خوب صورت جوان کی صورت میں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت یوسف ان خواتین کو تسکین نفس کے سامان کے روپ میں دیکھ سکتے تھے۔ مگر انتہائی ہیجان خیز حالات میں بھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔
خواتین کا حال یہ تھا کہ وہ سب کی سب آپ کی پُرکشش شخصیت کی طرف متوجہ تھیں۔ حتی کہ شدّت محویت میں انھوں نے چھری سے پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ زخمی کرليے۔ مگر حضرت یوسف اپنی تمام تر توجہ خدا کی طرف لگائے ہوئے تھے۔ خدا کی عظمت وکبریائی کااحساس آپ کے اوپر اتنا غالب آچکا تھا کہ کوئی دوسری چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی— کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں۔
فَاسْتَجَابَ لَهُ رَبُّهُ فَصَرَفَ عَنْهُ كَيْدَهُنَّ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 اس قصہ میں ایک طرف مصر کے اونچے طبقہ کی خواتین تھیں اور دوسری طرف حضرت یوسف۔ خواتین آپ کو بس ایک خوب صورت جوان کی صورت میں دیکھ رہی تھیں۔ اسی طرح حضرت یوسف ان خواتین کو تسکین نفس کے سامان کے روپ میں دیکھ سکتے تھے۔ مگر انتہائی ہیجان خیز حالات میں بھی آپ نے ایسا نہیں کیا۔
خواتین کا حال یہ تھا کہ وہ سب کی سب آپ کی پُرکشش شخصیت کی طرف متوجہ تھیں۔ حتی کہ شدّت محویت میں انھوں نے چھری سے پھل کاٹتے ہوئے اپنے ہاتھ زخمی کرليے۔ مگر حضرت یوسف اپنی تمام تر توجہ خدا کی طرف لگائے ہوئے تھے۔ خدا کی عظمت وکبریائی کااحساس آپ کے اوپر اتنا غالب آچکا تھا کہ کوئی دوسری چیز آپ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی— کتنا فرق ہے ایک انسان اور دوسرے انسان میں۔
ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا رَأَوُا الْآيَاتِ لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّىٰ حِينٍ
📘 مصر کے اعلیٰ طبقہ کی خواتین جب حضرت یوسف کو اپنی طرف راغب نہ کرسکیں تو اس کے بعد انھوں نے آپ کے لیے جو مقام پسند کیا وہ قید خانہ تھا۔ چوں کہ اس وقت آپ کی حیثیت ایک غلام کی تھی اس لیے قدیم رواج کے مطابق آپ کو قید خانہ بھیجنے کے لیے کسی عدالتی کارروائی کی ضرورت نہ تھی۔ آپ کا آقا خود اپنے فیصلہ سے آپ کو قید میں ڈالنے کااختیار رکھتا تھا۔
مگر قید خانہ آپ کے لیے نیا عظیم تر زینہ بن گیا۔ اب تک ایسا تھا کہ مصر کے ایک یا چند افسروں کے گھرانے آپ سے متعارف ہوئے تھے۔ اب اس کا امکان پیداہوگیا کہ آپ کی شخصیت کا چرچا خود بادشاہ مصر تک پہنچے۔
اس کی صورت یہ ہوئی کہ آپ جس قید خانہ میں رکھے گئے اس میں دو اور نوجوان قید ہو کر آئے۔ یہ دونوں شاہی محل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دونوں نے قید خانہ میں خواب دیکھے اور آپ سے اس کی تعبیر پوچھی۔ آپ نے انھیں خواب کی تعبیر بتادی۔ یہ تعبیر بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ان میں سے ایک قید خانہ سے چھوٹ کر دوبارہ شاہی محل میں پہنچا تو اس نے ایک موقع پر بادشاہ سے بتایا کہ قید خانہ میں ایک ایسا نیک انسان ہے جو خواب کی بالکل صحیح تعبیر بتاتا ہے — اس طرح آپ کا قید ہونا آپ کے لیے شاہی محل تک رسائی کا ابتدائی زینہ بن گیا۔
وَدَخَلَ مَعَهُ السِّجْنَ فَتَيَانِ ۖ قَالَ أَحَدُهُمَا إِنِّي أَرَانِي أَعْصِرُ خَمْرًا ۖ وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّي أَرَانِي أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِي خُبْزًا تَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْهُ ۖ نَبِّئْنَا بِتَأْوِيلِهِ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
📘 مصر کے اعلیٰ طبقہ کی خواتین جب حضرت یوسف کو اپنی طرف راغب نہ کرسکیں تو اس کے بعد انھوں نے آپ کے لیے جو مقام پسند کیا وہ قید خانہ تھا۔ چوں کہ اس وقت آپ کی حیثیت ایک غلام کی تھی اس لیے قدیم رواج کے مطابق آپ کو قید خانہ بھیجنے کے لیے کسی عدالتی کارروائی کی ضرورت نہ تھی۔ آپ کا آقا خود اپنے فیصلہ سے آپ کو قید میں ڈالنے کااختیار رکھتا تھا۔
مگر قید خانہ آپ کے لیے نیا عظیم تر زینہ بن گیا۔ اب تک ایسا تھا کہ مصر کے ایک یا چند افسروں کے گھرانے آپ سے متعارف ہوئے تھے۔ اب اس کا امکان پیداہوگیا کہ آپ کی شخصیت کا چرچا خود بادشاہ مصر تک پہنچے۔
اس کی صورت یہ ہوئی کہ آپ جس قید خانہ میں رکھے گئے اس میں دو اور نوجوان قید ہو کر آئے۔ یہ دونوں شاہی محل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان دونوں نے قید خانہ میں خواب دیکھے اور آپ سے اس کی تعبیر پوچھی۔ آپ نے انھیں خواب کی تعبیر بتادی۔ یہ تعبیر بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ان میں سے ایک قید خانہ سے چھوٹ کر دوبارہ شاہی محل میں پہنچا تو اس نے ایک موقع پر بادشاہ سے بتایا کہ قید خانہ میں ایک ایسا نیک انسان ہے جو خواب کی بالکل صحیح تعبیر بتاتا ہے — اس طرح آپ کا قید ہونا آپ کے لیے شاہی محل تک رسائی کا ابتدائی زینہ بن گیا۔
قَالَ لَا يَأْتِيكُمَا طَعَامٌ تُرْزَقَانِهِ إِلَّا نَبَّأْتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا ۚ ذَٰلِكُمَا مِمَّا عَلَّمَنِي رَبِّي ۚ إِنِّي تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ
📘 نوجوان قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر جاننے کے لیے حضرت یوسف سے رجوع کیا۔ انھوں نے جس انداز سے سوال کیا اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آ پ کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ اور آپ کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت یوسف جیسے نیک اور بااصول انسان کے ساتھ ایک عرصہ تک رہنے کے بعد ایسا ہونا بالکل فطری تھا۔
حضرت یوسف کے دعوتی جذبے نے فوراً محسوس کرلیا کہ یہ بہترین موقع ہے کہ ان نوجوانوں کو دینِ حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ مگر خواب کی تعبیر فوراً بتادینے کے بعد ان کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ جاتی۔ چنانچہ آپ نے حکیمانہ انداز اختیار کیا اور خواب کی تعبیر کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کردیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید پر مختصر تقریر کی۔ اس میں مخاطب کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے نہایت خوب صورت استدلال کے ساتھ اپنا پیغام انھیں سنادیا۔
درخت، پتھر، ستارے یا ارواح وغیرہ کو جو لوگ پوجتے ہیں اس کا راز یہ ہے کہ وہ بطور خود ان کو مشکل کشا اور حاجت روا جیسے القاب دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ واقعۃً وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ حالاں کہ یہ سب انسان کے اپنے بنائے ہوئے اسم ہیں جن کا مسمی خارج میں کہیں موجود نہیں۔
وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
📘 نوجوان قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر جاننے کے لیے حضرت یوسف سے رجوع کیا۔ انھوں نے جس انداز سے سوال کیا اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آ پ کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ اور آپ کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت یوسف جیسے نیک اور بااصول انسان کے ساتھ ایک عرصہ تک رہنے کے بعد ایسا ہونا بالکل فطری تھا۔
حضرت یوسف کے دعوتی جذبے نے فوراً محسوس کرلیا کہ یہ بہترین موقع ہے کہ ان نوجوانوں کو دینِ حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ مگر خواب کی تعبیر فوراً بتادینے کے بعد ان کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ جاتی۔ چنانچہ آپ نے حکیمانہ انداز اختیار کیا اور خواب کی تعبیر کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کردیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید پر مختصر تقریر کی۔ اس میں مخاطب کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے نہایت خوب صورت استدلال کے ساتھ اپنا پیغام انھیں سنادیا۔
درخت، پتھر، ستارے یا ارواح وغیرہ کو جو لوگ پوجتے ہیں اس کا راز یہ ہے کہ وہ بطور خود ان کو مشکل کشا اور حاجت روا جیسے القاب دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ واقعۃً وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ حالاں کہ یہ سب انسان کے اپنے بنائے ہوئے اسم ہیں جن کا مسمی خارج میں کہیں موجود نہیں۔
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
📘 نوجوان قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر جاننے کے لیے حضرت یوسف سے رجوع کیا۔ انھوں نے جس انداز سے سوال کیا اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آ پ کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ اور آپ کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت یوسف جیسے نیک اور بااصول انسان کے ساتھ ایک عرصہ تک رہنے کے بعد ایسا ہونا بالکل فطری تھا۔
حضرت یوسف کے دعوتی جذبے نے فوراً محسوس کرلیا کہ یہ بہترین موقع ہے کہ ان نوجوانوں کو دینِ حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ مگر خواب کی تعبیر فوراً بتادینے کے بعد ان کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ جاتی۔ چنانچہ آپ نے حکیمانہ انداز اختیار کیا اور خواب کی تعبیر کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کردیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید پر مختصر تقریر کی۔ اس میں مخاطب کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے نہایت خوب صورت استدلال کے ساتھ اپنا پیغام انھیں سنادیا۔
درخت، پتھر، ستارے یا ارواح وغیرہ کو جو لوگ پوجتے ہیں اس کا راز یہ ہے کہ وہ بطور خود ان کو مشکل کشا اور حاجت روا جیسے القاب دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ واقعۃً وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ حالاں کہ یہ سب انسان کے اپنے بنائے ہوئے اسم ہیں جن کا مسمی خارج میں کہیں موجود نہیں۔
إِذْ قَالَ يُوسُفُ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ إِنِّي رَأَيْتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمْ لِي سَاجِدِينَ
📘 حدیث میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں۔ اپنے دل کی بات، شیطان کا ڈر اوا اور خداکی بشارت۔ عام آدمی کا خواب تینوں میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مگر پیغمبر کا خواب ہمیشہ خدا کی بشارت ہوتاہے، کبھی راست انداز میں اور کبھی تمثیلی انداز میں۔
حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ آپ کے والد حضرت یعقوب فلسطین میں رہتے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائی بن یامین ایک ماں سے تھے اوربقیہ دس بھائی دوسری ماؤں سے۔ اس خواب میں سورج اور چاند سے مراد آپ کے والدین ہیں اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی۔ اس میں یہ بشارت تھی کہ حضرت یوسف کو پیغمبری ملے گی اور اسی کے ساتھ یہ خواب آپ کے اس عروج واقتدار کی تمثیل تھا جو بعد کو مصر پہنچ کر آپ کو ملا اور جس کے بعد سارے اہل خاندان مجبور ہوئے کہ وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرلیں۔
حضرت یوسف کے دس سوتیلے بھائی آپ کی شخصیت اور مقبولیت کو دیکھ کر آپ سے حسد رکھتے تھے۔ اس لیے آپ کے والد (حضرت یعقوب) نے خواب سن کر فوراً کہا کہ اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے اور زیادہ دشمن ہوجائیںگے۔
کسی کی بڑائی دیکھ کر اس کے خلاف جلن پیدا ہونا خالص شیطانی فعل ہے۔ جس شخص کے اندر یہ صفت پائی جائے اس کو اپنے بارے میں توبہ کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خداکے فیصلہ پر راضی نہیں۔ وہ شیطان کی ہدایت پر چل رہا ہے، نہ کہ خدا کی ہدایت پر۔
یہاںاتمام نعمت کا لفظ حضرت یوسف کے لیے بھی بولا گیا ہے جن کو حکومت حاصل ہوئی اور حضرت ابراہیم کے لیے بھی جن کو کوئی حکومت نہیں ملی۔ پھر دونوں کے درمیان وہ مشترک چیز کیا تھی جس کو اتمام نعمت کہاگیا ہے۔ وہ نبوت تھی۔ یعنی خدا کی اس خصوصی ہدایت کی توفیق جو کسی کو آخرت میں اعلیٰ مراتب تک پہنچانے والی ہے۔ خدا کی ہدایت انسان کے اوپر خدا کی نعمتوں کی تکمیل ہے۔ یہ نعمت پیغمبروں کو براہِ راست طور پر ملتی ہے اور عام صالحین کو بالواسطہ طور پر۔
مَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
📘 نوجوان قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر جاننے کے لیے حضرت یوسف سے رجوع کیا۔ انھوں نے جس انداز سے سوال کیا اس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آ پ کی شخصیت سے متاثر ہیں۔ اور آپ کی رائے پر اعتماد کرتے ہیں۔ حضرت یوسف جیسے نیک اور بااصول انسان کے ساتھ ایک عرصہ تک رہنے کے بعد ایسا ہونا بالکل فطری تھا۔
حضرت یوسف کے دعوتی جذبے نے فوراً محسوس کرلیا کہ یہ بہترین موقع ہے کہ ان نوجوانوں کو دینِ حق کا پیغام پہنچایا جائے۔ مگر خواب کی تعبیر فوراً بتادینے کے بعد ان کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ جاتی۔ چنانچہ آپ نے حکیمانہ انداز اختیار کیا اور خواب کی تعبیر کو تھوڑی دیر کے لیے مؤخر کردیا۔ اس کے بعد آپ نے توحید پر مختصر تقریر کی۔ اس میں مخاطب کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے نہایت خوب صورت استدلال کے ساتھ اپنا پیغام انھیں سنادیا۔
درخت، پتھر، ستارے یا ارواح وغیرہ کو جو لوگ پوجتے ہیں اس کا راز یہ ہے کہ وہ بطور خود ان کو مشکل کشا اور حاجت روا جیسے القاب دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ واقعۃً وہ مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔ حالاں کہ یہ سب انسان کے اپنے بنائے ہوئے اسم ہیں جن کا مسمی خارج میں کہیں موجود نہیں۔
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِنْ رَأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
📘 دو نوجوان جو جیل میں لائے گئے وہ شاہ مصر (ریان بن الولید) کے ساقی اور خبّاز تھے۔ دونوں پر یہ الزام تھاکہ انھوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ملانے کی کوشش کی۔ ان میں سے جو ساقی تھا وہ تحقیق کے بعد الزام سے بری ثابت ہوا اور رہائی پاکر دوبارہ بادشاہ کا ساقی مقرر ہوا۔ اس کے خواب کامطلب یہ تھا کہ اب وہ بادشاہ کو خواب میں شراب پلا رہا ہے کچھ دن بعدوہ بیداری میں اس کو شراب پلائے گا۔ خبّاز پر الزام ثابت ہوگیا۔ اس کو سولی دے کر چھوڑ دیاگیا کہ چڑیاں اس کا گوشت کھائیں اور وہ لوگوں کے لیے عبرت ہو۔
حضرت یوسف کی دونوں تعبیریں بالکل درست ثابت ہوئیں۔ مگر ساقی قید سے چھوٹ کر دوبارہ محل میں پہنچا تو وہ حسبِ وعدہ بادشاہ سے حضرت یوسف کا ذکر کرنا بھول گیا۔ اس کو اپنا کیا ہوا وعدہ صرف اس وقت یاد آیا جب کہ بادشاہ نے ایک خواب دیکھا اور درباریوں سے کہا کہ اس کی تعبیر بتاؤ۔
وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِنْهُمَا اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ
📘 دو نوجوان جو جیل میں لائے گئے وہ شاہ مصر (ریان بن الولید) کے ساقی اور خبّاز تھے۔ دونوں پر یہ الزام تھاکہ انھوں نے بادشاہ کے کھانے میں زہر ملانے کی کوشش کی۔ ان میں سے جو ساقی تھا وہ تحقیق کے بعد الزام سے بری ثابت ہوا اور رہائی پاکر دوبارہ بادشاہ کا ساقی مقرر ہوا۔ اس کے خواب کامطلب یہ تھا کہ اب وہ بادشاہ کو خواب میں شراب پلا رہا ہے کچھ دن بعدوہ بیداری میں اس کو شراب پلائے گا۔ خبّاز پر الزام ثابت ہوگیا۔ اس کو سولی دے کر چھوڑ دیاگیا کہ چڑیاں اس کا گوشت کھائیں اور وہ لوگوں کے لیے عبرت ہو۔
حضرت یوسف کی دونوں تعبیریں بالکل درست ثابت ہوئیں۔ مگر ساقی قید سے چھوٹ کر دوبارہ محل میں پہنچا تو وہ حسبِ وعدہ بادشاہ سے حضرت یوسف کا ذکر کرنا بھول گیا۔ اس کو اپنا کیا ہوا وعدہ صرف اس وقت یاد آیا جب کہ بادشاہ نے ایک خواب دیکھا اور درباریوں سے کہا کہ اس کی تعبیر بتاؤ۔
وَقَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرَىٰ سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ ۖ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِي فِي رُؤْيَايَ إِنْ كُنْتُمْ لِلرُّؤْيَا تَعْبُرُونَ
📘 مصر کا بادشاہ اگر چہ مشرک اور شرابی تھا، مگر خدا کی طرف سے اس کو مستقبل کے بارے میں ایک سچا خواب دکھایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا حق کے داعیوں کی مدد کن کن طریقوں سے کرتاہے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ فریق ثانی کو کوئی ایسا خواب دکھایا جائے جس سے اس کے ذہن پر داعی کی عظمت اور اہمیت قائم ہو اور اس کا دل نرم ہو کر داعی کے لیے نئے راستے کھل جائیں۔
بادشاہ کے ساقی نے جب بادشاہ کا خواب سنا اس وقت اس کو قید خانہ کا ماجرا یاد آیا۔ اس نے بادشاہ اور درباریوں کے سامنے اپنا ذاتی تجربہ بتایا کہ کس طرح یوسف کی بتائی ہوئی خواب کی تعبیر دو قیدیوں کے حق میں لفظ بلفظ صحیح ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے اجازت لے کر قید خانہ پہنچا تاکہ یوسف سے بادشاہ کے خواب کی تعبیر دریافت کرے۔
حضرت یوسف کی اسی حیثیت کے تعارف سے ان کے لیے قید خانہ سے باہر آنے کا راستہ کھلا خدا ایسا کرسکتا تھا کہ رہائی کے بعد حضرت یوسف کو مزید قید خانہ میں نہ رہنے دے۔ وہ ساقی کو محل کے اندر پہنچتے ہی یاد دلا سکتا تھا کہ وہ وعدہ کے مطابق بادشاہ کے سامنے یوسف کا ذکر کرے۔ مگر خدا کا ہر کام اپنے مقرر وقت پر ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے کوئی کام کرنا خدا کا طریقہ نہیں۔
قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ ۖ وَمَا نَحْنُ بِتَأْوِيلِ الْأَحْلَامِ بِعَالِمِينَ
📘 مصر کا بادشاہ اگر چہ مشرک اور شرابی تھا، مگر خدا کی طرف سے اس کو مستقبل کے بارے میں ایک سچا خواب دکھایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا حق کے داعیوں کی مدد کن کن طریقوں سے کرتاہے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ فریق ثانی کو کوئی ایسا خواب دکھایا جائے جس سے اس کے ذہن پر داعی کی عظمت اور اہمیت قائم ہو اور اس کا دل نرم ہو کر داعی کے لیے نئے راستے کھل جائیں۔
بادشاہ کے ساقی نے جب بادشاہ کا خواب سنا اس وقت اس کو قید خانہ کا ماجرا یاد آیا۔ اس نے بادشاہ اور درباریوں کے سامنے اپنا ذاتی تجربہ بتایا کہ کس طرح یوسف کی بتائی ہوئی خواب کی تعبیر دو قیدیوں کے حق میں لفظ بلفظ صحیح ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے اجازت لے کر قید خانہ پہنچا تاکہ یوسف سے بادشاہ کے خواب کی تعبیر دریافت کرے۔
حضرت یوسف کی اسی حیثیت کے تعارف سے ان کے لیے قید خانہ سے باہر آنے کا راستہ کھلا خدا ایسا کرسکتا تھا کہ رہائی کے بعد حضرت یوسف کو مزید قید خانہ میں نہ رہنے دے۔ وہ ساقی کو محل کے اندر پہنچتے ہی یاد دلا سکتا تھا کہ وہ وعدہ کے مطابق بادشاہ کے سامنے یوسف کا ذکر کرے۔ مگر خدا کا ہر کام اپنے مقرر وقت پر ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے کوئی کام کرنا خدا کا طریقہ نہیں۔
وَقَالَ الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ أَنَا أُنَبِّئُكُمْ بِتَأْوِيلِهِ فَأَرْسِلُونِ
📘 مصر کا بادشاہ اگر چہ مشرک اور شرابی تھا، مگر خدا کی طرف سے اس کو مستقبل کے بارے میں ایک سچا خواب دکھایا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خدا حق کے داعیوں کی مدد کن کن طریقوں سے کرتاہے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ فریق ثانی کو کوئی ایسا خواب دکھایا جائے جس سے اس کے ذہن پر داعی کی عظمت اور اہمیت قائم ہو اور اس کا دل نرم ہو کر داعی کے لیے نئے راستے کھل جائیں۔
بادشاہ کے ساقی نے جب بادشاہ کا خواب سنا اس وقت اس کو قید خانہ کا ماجرا یاد آیا۔ اس نے بادشاہ اور درباریوں کے سامنے اپنا ذاتی تجربہ بتایا کہ کس طرح یوسف کی بتائی ہوئی خواب کی تعبیر دو قیدیوں کے حق میں لفظ بلفظ صحیح ثابت ہوئی۔ اس کے بعد وہ بادشاہ سے اجازت لے کر قید خانہ پہنچا تاکہ یوسف سے بادشاہ کے خواب کی تعبیر دریافت کرے۔
حضرت یوسف کی اسی حیثیت کے تعارف سے ان کے لیے قید خانہ سے باہر آنے کا راستہ کھلا خدا ایسا کرسکتا تھا کہ رہائی کے بعد حضرت یوسف کو مزید قید خانہ میں نہ رہنے دے۔ وہ ساقی کو محل کے اندر پہنچتے ہی یاد دلا سکتا تھا کہ وہ وعدہ کے مطابق بادشاہ کے سامنے یوسف کا ذکر کرے۔ مگر خدا کا ہر کام اپنے مقرر وقت پر ہوتا ہے۔ وقت سے پہلے کوئی کام کرنا خدا کا طریقہ نہیں۔
يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 حضرت یوسف نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات موٹی گائیں اور سات ہری بالیں سات برس ہیں۔ ان میں لگا تار اچھی پیداوار ہوگی۔ حیوانات اور نباتات خوب بڑھیں گے۔ اس کے بعد سات سال قحط پڑے گا جس میں تم سارا پچھلا اندوختہ کھا کر ختم کر ڈالو گے۔ صرف آئندہ بیچ ڈالنے کے لیے تھوڑا سا باقی رہ جائے گا۔ یہ بعد کے سات سال گویا دبلی گائیں اور سوکھی بالیں ہیں جو پچھلی گایوں اور ہری بالوں کا خاتمہ کردیں گی۔
اسی کے ساتھ حضرت یوسف نے اس کی تدبیر بھی بتادی۔ آپ نے کہا کہ پہلے سات سال میں جو پیداوار ہواس کو نہایت حفاظت سے رکھو اور کفایت کے ساتھ خرچ کرو۔ ضروری خوراک سے زیادہ جو غلّہ ہے اس کو بالوں کے اندر رہنے دو۔ اس طرح وہ کیڑے وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔ اور سات سال کی پیداوار چودہ سال تک کام آئے گی۔ مزید آپ نے یہ خوش خبری بھی سنا دی کہ بعد کے سات سالہ قحط کے بعد جو سال آئے گا وہ دوبارہ فراوانی کا سال ہوگا۔ اس میں خوب بارش ہوگی، کثرت سے دودھ اور پھل لوگوں کو حاصل ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو ایک عجیب خواب دکھایا اور حضرت یوسف کے ذریعہ اس کی کامیاب تعبیر ظاہر فرمائی۔ اس طرح آپ کے لیے یہ موقع فراہم کیا گیا کہ مصر کے نظام حکومت میں آپ کو نہایت اعلیٰ مقام حاصل ہو۔
قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدْتُمْ فَذَرُوهُ فِي سُنْبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تَأْكُلُونَ
📘 حضرت یوسف نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات موٹی گائیں اور سات ہری بالیں سات برس ہیں۔ ان میں لگا تار اچھی پیداوار ہوگی۔ حیوانات اور نباتات خوب بڑھیں گے۔ اس کے بعد سات سال قحط پڑے گا جس میں تم سارا پچھلا اندوختہ کھا کر ختم کر ڈالو گے۔ صرف آئندہ بیچ ڈالنے کے لیے تھوڑا سا باقی رہ جائے گا۔ یہ بعد کے سات سال گویا دبلی گائیں اور سوکھی بالیں ہیں جو پچھلی گایوں اور ہری بالوں کا خاتمہ کردیں گی۔
اسی کے ساتھ حضرت یوسف نے اس کی تدبیر بھی بتادی۔ آپ نے کہا کہ پہلے سات سال میں جو پیداوار ہواس کو نہایت حفاظت سے رکھو اور کفایت کے ساتھ خرچ کرو۔ ضروری خوراک سے زیادہ جو غلّہ ہے اس کو بالوں کے اندر رہنے دو۔ اس طرح وہ کیڑے وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔ اور سات سال کی پیداوار چودہ سال تک کام آئے گی۔ مزید آپ نے یہ خوش خبری بھی سنا دی کہ بعد کے سات سالہ قحط کے بعد جو سال آئے گا وہ دوبارہ فراوانی کا سال ہوگا۔ اس میں خوب بارش ہوگی، کثرت سے دودھ اور پھل لوگوں کو حاصل ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو ایک عجیب خواب دکھایا اور حضرت یوسف کے ذریعہ اس کی کامیاب تعبیر ظاہر فرمائی۔ اس طرح آپ کے لیے یہ موقع فراہم کیا گیا کہ مصر کے نظام حکومت میں آپ کو نہایت اعلیٰ مقام حاصل ہو۔
ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّا تُحْصِنُونَ
📘 حضرت یوسف نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات موٹی گائیں اور سات ہری بالیں سات برس ہیں۔ ان میں لگا تار اچھی پیداوار ہوگی۔ حیوانات اور نباتات خوب بڑھیں گے۔ اس کے بعد سات سال قحط پڑے گا جس میں تم سارا پچھلا اندوختہ کھا کر ختم کر ڈالو گے۔ صرف آئندہ بیچ ڈالنے کے لیے تھوڑا سا باقی رہ جائے گا۔ یہ بعد کے سات سال گویا دبلی گائیں اور سوکھی بالیں ہیں جو پچھلی گایوں اور ہری بالوں کا خاتمہ کردیں گی۔
اسی کے ساتھ حضرت یوسف نے اس کی تدبیر بھی بتادی۔ آپ نے کہا کہ پہلے سات سال میں جو پیداوار ہواس کو نہایت حفاظت سے رکھو اور کفایت کے ساتھ خرچ کرو۔ ضروری خوراک سے زیادہ جو غلّہ ہے اس کو بالوں کے اندر رہنے دو۔ اس طرح وہ کیڑے وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔ اور سات سال کی پیداوار چودہ سال تک کام آئے گی۔ مزید آپ نے یہ خوش خبری بھی سنا دی کہ بعد کے سات سالہ قحط کے بعد جو سال آئے گا وہ دوبارہ فراوانی کا سال ہوگا۔ اس میں خوب بارش ہوگی، کثرت سے دودھ اور پھل لوگوں کو حاصل ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو ایک عجیب خواب دکھایا اور حضرت یوسف کے ذریعہ اس کی کامیاب تعبیر ظاہر فرمائی۔ اس طرح آپ کے لیے یہ موقع فراہم کیا گیا کہ مصر کے نظام حکومت میں آپ کو نہایت اعلیٰ مقام حاصل ہو۔
ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ
📘 حضرت یوسف نے بادشاہ کے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ سات موٹی گائیں اور سات ہری بالیں سات برس ہیں۔ ان میں لگا تار اچھی پیداوار ہوگی۔ حیوانات اور نباتات خوب بڑھیں گے۔ اس کے بعد سات سال قحط پڑے گا جس میں تم سارا پچھلا اندوختہ کھا کر ختم کر ڈالو گے۔ صرف آئندہ بیچ ڈالنے کے لیے تھوڑا سا باقی رہ جائے گا۔ یہ بعد کے سات سال گویا دبلی گائیں اور سوکھی بالیں ہیں جو پچھلی گایوں اور ہری بالوں کا خاتمہ کردیں گی۔
اسی کے ساتھ حضرت یوسف نے اس کی تدبیر بھی بتادی۔ آپ نے کہا کہ پہلے سات سال میں جو پیداوار ہواس کو نہایت حفاظت سے رکھو اور کفایت کے ساتھ خرچ کرو۔ ضروری خوراک سے زیادہ جو غلّہ ہے اس کو بالوں کے اندر رہنے دو۔ اس طرح وہ کیڑے وغیرہ سے محفوظ رہے گا۔ اور سات سال کی پیداوار چودہ سال تک کام آئے گی۔ مزید آپ نے یہ خوش خبری بھی سنا دی کہ بعد کے سات سالہ قحط کے بعد جو سال آئے گا وہ دوبارہ فراوانی کا سال ہوگا۔ اس میں خوب بارش ہوگی، کثرت سے دودھ اور پھل لوگوں کو حاصل ہوںگے۔
اللہ تعالیٰ نے بادشاہ کو ایک عجیب خواب دکھایا اور حضرت یوسف کے ذریعہ اس کی کامیاب تعبیر ظاہر فرمائی۔ اس طرح آپ کے لیے یہ موقع فراہم کیا گیا کہ مصر کے نظام حکومت میں آپ کو نہایت اعلیٰ مقام حاصل ہو۔
قَالَ يَا بُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُؤْيَاكَ عَلَىٰ إِخْوَتِكَ فَيَكِيدُوا لَكَ كَيْدًا ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوٌّ مُبِينٌ
📘 حدیث میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں۔ اپنے دل کی بات، شیطان کا ڈر اوا اور خداکی بشارت۔ عام آدمی کا خواب تینوں میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مگر پیغمبر کا خواب ہمیشہ خدا کی بشارت ہوتاہے، کبھی راست انداز میں اور کبھی تمثیلی انداز میں۔
حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ آپ کے والد حضرت یعقوب فلسطین میں رہتے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائی بن یامین ایک ماں سے تھے اوربقیہ دس بھائی دوسری ماؤں سے۔ اس خواب میں سورج اور چاند سے مراد آپ کے والدین ہیں اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی۔ اس میں یہ بشارت تھی کہ حضرت یوسف کو پیغمبری ملے گی اور اسی کے ساتھ یہ خواب آپ کے اس عروج واقتدار کی تمثیل تھا جو بعد کو مصر پہنچ کر آپ کو ملا اور جس کے بعد سارے اہل خاندان مجبور ہوئے کہ وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرلیں۔
حضرت یوسف کے دس سوتیلے بھائی آپ کی شخصیت اور مقبولیت کو دیکھ کر آپ سے حسد رکھتے تھے۔ اس لیے آپ کے والد (حضرت یعقوب) نے خواب سن کر فوراً کہا کہ اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے اور زیادہ دشمن ہوجائیںگے۔
کسی کی بڑائی دیکھ کر اس کے خلاف جلن پیدا ہونا خالص شیطانی فعل ہے۔ جس شخص کے اندر یہ صفت پائی جائے اس کو اپنے بارے میں توبہ کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خداکے فیصلہ پر راضی نہیں۔ وہ شیطان کی ہدایت پر چل رہا ہے، نہ کہ خدا کی ہدایت پر۔
یہاںاتمام نعمت کا لفظ حضرت یوسف کے لیے بھی بولا گیا ہے جن کو حکومت حاصل ہوئی اور حضرت ابراہیم کے لیے بھی جن کو کوئی حکومت نہیں ملی۔ پھر دونوں کے درمیان وہ مشترک چیز کیا تھی جس کو اتمام نعمت کہاگیا ہے۔ وہ نبوت تھی۔ یعنی خدا کی اس خصوصی ہدایت کی توفیق جو کسی کو آخرت میں اعلیٰ مراتب تک پہنچانے والی ہے۔ خدا کی ہدایت انسان کے اوپر خدا کی نعمتوں کی تکمیل ہے۔ یہ نعمت پیغمبروں کو براہِ راست طور پر ملتی ہے اور عام صالحین کو بالواسطہ طور پر۔
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُ الرَّسُولُ قَالَ ارْجِعْ إِلَىٰ رَبِّكَ فَاسْأَلْهُ مَا بَالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ ۚ إِنَّ رَبِّي بِكَيْدِهِنَّ عَلِيمٌ
📘 قید خانہ سے نکل کر حضرت یوسف کو ایک ملکی کردار ادا کرنا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ آپ کی شخصیت ملکی سطح پر ایک معروف شخصیت بن جائے۔ اس کی صورت بادشاہ کے خواب کے ذریعہ پیدا ہوگئی۔ بادشاہ نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ وہ اس کی تعبیر کے لیے اتنا بے چین ہوا کہ عام اعلان کرکے تمام ملک کے علماء، پیروںاور دانشوروں کو اپنے دربار میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ وہ اس خواب کی تعبیر بتائیں مگر سب کے سب عاجز رہے۔ اس طرح خواب کا واقعہ ایک عمومی شہرت کا واقعہ بن گیا۔ اب جب حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر بیان کی اور بادشاہ نے اس کو پسند کیا تو اچانک وہ تمام ملک کی نظروں میں آگئے۔
بادشاہ نے ساری بات سننے کے بعد متعلقہ عورتوں سے اس کی تحقیق کی۔ سب نے بیک زبان حضرت یوسف کو بری الذمہ قرار دیا۔ عزیز مصر کی بیوی اعتراف حق میں سب سے آگے نکل گئی۔ اس نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ اب سچائی کھل چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا قصور میرا تھا۔ یوسف کا کچھ بھی قصور نہ تھا۔ عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کا یہ اقرار اتنا عظیم عمل ہے کہ عجب نہیں کہ اس کے بعد اس کو ایمان کی توفیق دے دی گئی ہو۔
قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ يُوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ ۚ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ ۚ قَالَتِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ الْآنَ حَصْحَصَ الْحَقُّ أَنَا رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
📘 قید خانہ سے نکل کر حضرت یوسف کو ایک ملکی کردار ادا کرنا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ آپ کی شخصیت ملکی سطح پر ایک معروف شخصیت بن جائے۔ اس کی صورت بادشاہ کے خواب کے ذریعہ پیدا ہوگئی۔ بادشاہ نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ وہ اس کی تعبیر کے لیے اتنا بے چین ہوا کہ عام اعلان کرکے تمام ملک کے علماء، پیروںاور دانشوروں کو اپنے دربار میں جمع کیا۔ اور ان سے کہا کہ وہ اس خواب کی تعبیر بتائیں مگر سب کے سب عاجز رہے۔ اس طرح خواب کا واقعہ ایک عمومی شہرت کا واقعہ بن گیا۔ اب جب حضرت یوسف نے خواب کی تعبیر بیان کی اور بادشاہ نے اس کو پسند کیا تو اچانک وہ تمام ملک کی نظروں میں آگئے۔
بادشاہ نے ساری بات سننے کے بعد متعلقہ عورتوں سے اس کی تحقیق کی۔ سب نے بیک زبان حضرت یوسف کو بری الذمہ قرار دیا۔ عزیز مصر کی بیوی اعتراف حق میں سب سے آگے نکل گئی۔ اس نے صاف لفظوں میں اعلان کیا کہ اب سچائی کھل چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سارا قصور میرا تھا۔ یوسف کا کچھ بھی قصور نہ تھا۔ عزیز مصر کی بیوی (زلیخا) کا یہ اقرار اتنا عظیم عمل ہے کہ عجب نہیں کہ اس کے بعد اس کو ایمان کی توفیق دے دی گئی ہو۔
ذَٰلِكَ لِيَعْلَمَ أَنِّي لَمْ أَخُنْهُ بِالْغَيْبِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي كَيْدَ الْخَائِنِينَ
📘 بادشاہ نے جب حضرت یوسف کو بلایا تو وہ فوراً قید خانہ سے باہر نہیں آگئے۔ بلکہ یہ کہا کہ پہلے اس واقعہ کی تحقیق ہونی چاہیے جس کو بہانہ بنا کر مجھ کو قید کیا گیا تھا۔ خدا کے نزدیک اگرچہ آپ پوری طرح بری الذمہ تھے مگر مسئلہ یہ تھاکہ آپ کو عوام کے درمیان پیغمبری کی خدمت انجام دینی تھی۔ یعنی خدا کی امانتِ ہدایت کو اس کے بندوں تک پہنچانا تھا۔ مذکورہ واقعہ میں آپ پر اپنے آقا کے ساتھ خیانت کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ ایک بہت نازک معاملہ تھا اور عوام کے سامنے آنے سے پہلے ضروری تھا کہ آپ کے اوپر سے یہ الزام ختم ہو کیوں کہ جس شخص کو لوگ بندوں کے معاملہ میں امانت دار نہ سمجھیں اس کو وہ خداکے معاملہ میں امانت دار نہیں سمجھ سکتے۔
مومن بیک وقت دو چیزوں کے درمیان ہوتاہے۔ ایک انسان اور دوسرے خدا۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ اس کو انسانوں کی نسبت سے معاملہ کی وضاحت کے لیے کوئی ایسا کلمہ بولنا پڑتاہے جس میں بظاہر ادعا کا پہلو نظر آتاہو۔ مگر اس کا دل اس وقت بھی عجز کے احساس سے بھرا ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب وہ اپنے آپ کو خدا کی نسبت سے دیکھتاہے تو وہ پاتا ہے کہ خدا کی نسبت سے وہ صرف عاجز ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ خدا کا تصور ہر آن مومن کو متوازن کرتا رہتا ہے— حضرت یوسف کامذکورہ کلام مومن کی شخصیت کے اسی دوگونہ پہلو کی تصویر ہے۔
۞ وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي ۚ إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي ۚ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 بادشاہ نے جب حضرت یوسف کو بلایا تو وہ فوراً قید خانہ سے باہر نہیں آگئے۔ بلکہ یہ کہا کہ پہلے اس واقعہ کی تحقیق ہونی چاہیے جس کو بہانہ بنا کر مجھ کو قید کیا گیا تھا۔ خدا کے نزدیک اگرچہ آپ پوری طرح بری الذمہ تھے مگر مسئلہ یہ تھاکہ آپ کو عوام کے درمیان پیغمبری کی خدمت انجام دینی تھی۔ یعنی خدا کی امانتِ ہدایت کو اس کے بندوں تک پہنچانا تھا۔ مذکورہ واقعہ میں آپ پر اپنے آقا کے ساتھ خیانت کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ ایک بہت نازک معاملہ تھا اور عوام کے سامنے آنے سے پہلے ضروری تھا کہ آپ کے اوپر سے یہ الزام ختم ہو کیوں کہ جس شخص کو لوگ بندوں کے معاملہ میں امانت دار نہ سمجھیں اس کو وہ خداکے معاملہ میں امانت دار نہیں سمجھ سکتے۔
مومن بیک وقت دو چیزوں کے درمیان ہوتاہے۔ ایک انسان اور دوسرے خدا۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ اس کو انسانوں کی نسبت سے معاملہ کی وضاحت کے لیے کوئی ایسا کلمہ بولنا پڑتاہے جس میں بظاہر ادعا کا پہلو نظر آتاہو۔ مگر اس کا دل اس وقت بھی عجز کے احساس سے بھرا ہوتا ہے۔ کیوں کہ جب وہ اپنے آپ کو خدا کی نسبت سے دیکھتاہے تو وہ پاتا ہے کہ خدا کی نسبت سے وہ صرف عاجز ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ خدا کا تصور ہر آن مومن کو متوازن کرتا رہتا ہے— حضرت یوسف کامذکورہ کلام مومن کی شخصیت کے اسی دوگونہ پہلو کی تصویر ہے۔
وَقَالَ الْمَلِكُ ائْتُونِي بِهِ أَسْتَخْلِصْهُ لِنَفْسِي ۖ فَلَمَّا كَلَّمَهُ قَالَ إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ
📘 ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو‘‘۔ یہاں خزانوں سے مراد غلہ کے کھتے ہیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر شاہ مصر سے یہ اختیار مانگا کہ وہ حکومتی وسائل کے تحت سارے ملک میں غلّہ کے بڑے بڑے کھتے بنوائیں تاکہ ابتدائی سات سالوں میں کسانوں سے فاضل غلّہ لے کر وہاں محفوظ کیا جاسکے (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ
397
) بادشاہ راضی ہوگیا اور اپنے آئینی اور قانونی اقتدار کے تحت آپ کو ہر قسم کا اختیار دے دیا۔
مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ آیت نمبر
76
سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف کے تقرر کے تقریباً دس سال بعد تک بھی اسی بادشاہ کا قانون (دین الملک) مصر میں رائج تھا۔ یہ خدا کے ایک پیغمبر کا اسوہ ہے جو بتاتا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے تحت کوئی ذیلی عہدہ قبول کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اسی بنا پر اسلاف نے ظالم بادشاہ کے تحت قضا کے عہدے قبول كيے (تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ
119
)
مصر میں اختیار سنبھالنے سے حضرت یوسف کا مقصد کیا تھا، قرآن کی تفصیل سے بظاہر اس کا مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ بندگان خدا کو طویل قحط کی مصیبت سے بچایا جائے، اور پھر اس کے نتیجہ میں بنی اسرا ئیل کے لیے مصر میں آباد ہونے کے مواقع فراہم كيے جائیں۔
ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے خدا نے ابدی جنت کا یقینی وعدہ کیا ہے۔ دنیا کی زندگی میں بھی ان کو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اس میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک حق کے اعلان کا معاملہ ہے، اس کی توفیق ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے۔ مگر عملی یافت کے معاملہ میں سب کی نصرت یکساں انداز میں نہیں۔ عملی نصرت کسی کو ایک ڈھنگ پر ملتی ہے اور کسی کو دوسرے ڈھنگ پر۔
قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ
📘 ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو‘‘۔ یہاں خزانوں سے مراد غلہ کے کھتے ہیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر شاہ مصر سے یہ اختیار مانگا کہ وہ حکومتی وسائل کے تحت سارے ملک میں غلّہ کے بڑے بڑے کھتے بنوائیں تاکہ ابتدائی سات سالوں میں کسانوں سے فاضل غلّہ لے کر وہاں محفوظ کیا جاسکے (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ
397
) بادشاہ راضی ہوگیا اور اپنے آئینی اور قانونی اقتدار کے تحت آپ کو ہر قسم کا اختیار دے دیا۔
مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ آیت نمبر
76
سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف کے تقرر کے تقریباً دس سال بعد تک بھی اسی بادشاہ کا قانون (دین الملک) مصر میں رائج تھا۔ یہ خدا کے ایک پیغمبر کا اسوہ ہے جو بتاتا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے تحت کوئی ذیلی عہدہ قبول کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اسی بنا پر اسلاف نے ظالم بادشاہ کے تحت قضا کے عہدے قبول كيے (تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ
119
)
مصر میں اختیار سنبھالنے سے حضرت یوسف کا مقصد کیا تھا، قرآن کی تفصیل سے بظاہر اس کا مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ بندگان خدا کو طویل قحط کی مصیبت سے بچایا جائے، اور پھر اس کے نتیجہ میں بنی اسرا ئیل کے لیے مصر میں آباد ہونے کے مواقع فراہم كيے جائیں۔
ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے خدا نے ابدی جنت کا یقینی وعدہ کیا ہے۔ دنیا کی زندگی میں بھی ان کو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اس میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک حق کے اعلان کا معاملہ ہے، اس کی توفیق ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے۔ مگر عملی یافت کے معاملہ میں سب کی نصرت یکساں انداز میں نہیں۔ عملی نصرت کسی کو ایک ڈھنگ پر ملتی ہے اور کسی کو دوسرے ڈھنگ پر۔
وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ يَتَبَوَّأُ مِنْهَا حَيْثُ يَشَاءُ ۚ نُصِيبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَشَاءُ ۖ وَلَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
📘 ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو‘‘۔ یہاں خزانوں سے مراد غلہ کے کھتے ہیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر شاہ مصر سے یہ اختیار مانگا کہ وہ حکومتی وسائل کے تحت سارے ملک میں غلّہ کے بڑے بڑے کھتے بنوائیں تاکہ ابتدائی سات سالوں میں کسانوں سے فاضل غلّہ لے کر وہاں محفوظ کیا جاسکے (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ
397
) بادشاہ راضی ہوگیا اور اپنے آئینی اور قانونی اقتدار کے تحت آپ کو ہر قسم کا اختیار دے دیا۔
مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ آیت نمبر
76
سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف کے تقرر کے تقریباً دس سال بعد تک بھی اسی بادشاہ کا قانون (دین الملک) مصر میں رائج تھا۔ یہ خدا کے ایک پیغمبر کا اسوہ ہے جو بتاتا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے تحت کوئی ذیلی عہدہ قبول کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اسی بنا پر اسلاف نے ظالم بادشاہ کے تحت قضا کے عہدے قبول كيے (تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ
119
)
مصر میں اختیار سنبھالنے سے حضرت یوسف کا مقصد کیا تھا، قرآن کی تفصیل سے بظاہر اس کا مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ بندگان خدا کو طویل قحط کی مصیبت سے بچایا جائے، اور پھر اس کے نتیجہ میں بنی اسرا ئیل کے لیے مصر میں آباد ہونے کے مواقع فراہم كيے جائیں۔
ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے خدا نے ابدی جنت کا یقینی وعدہ کیا ہے۔ دنیا کی زندگی میں بھی ان کو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اس میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک حق کے اعلان کا معاملہ ہے، اس کی توفیق ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے۔ مگر عملی یافت کے معاملہ میں سب کی نصرت یکساں انداز میں نہیں۔ عملی نصرت کسی کو ایک ڈھنگ پر ملتی ہے اور کسی کو دوسرے ڈھنگ پر۔
وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
📘 ’’مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو‘‘۔ یہاں خزانوں سے مراد غلہ کے کھتے ہیں۔ حضرت یوسف نے بادشاہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر شاہ مصر سے یہ اختیار مانگا کہ وہ حکومتی وسائل کے تحت سارے ملک میں غلّہ کے بڑے بڑے کھتے بنوائیں تاکہ ابتدائی سات سالوں میں کسانوں سے فاضل غلّہ لے کر وہاں محفوظ کیا جاسکے (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ
397
) بادشاہ راضی ہوگیا اور اپنے آئینی اور قانونی اقتدار کے تحت آپ کو ہر قسم کا اختیار دے دیا۔
مصر کا بادشاہ مشرک تھا۔ آیت نمبر
76
سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت یوسف کے تقرر کے تقریباً دس سال بعد تک بھی اسی بادشاہ کا قانون (دین الملک) مصر میں رائج تھا۔ یہ خدا کے ایک پیغمبر کا اسوہ ہے جو بتاتا ہے کہ غیر مسلم حکومت کے تحت کوئی ذیلی عہدہ قبول کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ اسی بنا پر اسلاف نے ظالم بادشاہ کے تحت قضا کے عہدے قبول كيے (تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ
119
)
مصر میں اختیار سنبھالنے سے حضرت یوسف کا مقصد کیا تھا، قرآن کی تفصیل سے بظاہر اس کا مقصد یہ معلوم ہوتاہے کہ بندگان خدا کو طویل قحط کی مصیبت سے بچایا جائے، اور پھر اس کے نتیجہ میں بنی اسرا ئیل کے لیے مصر میں آباد ہونے کے مواقع فراہم كيے جائیں۔
ایمان اور تقویٰ کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے خدا نے ابدی جنت کا یقینی وعدہ کیا ہے۔ دنیا کی زندگی میں بھی ان کو خدا کی مدد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم اس میں ایک فرق ہے۔ جہاں تک حق کے اعلان کا معاملہ ہے، اس کی توفیق ہر ایک کو یکساں طور پر ملتی ہے۔ مگر عملی یافت کے معاملہ میں سب کی نصرت یکساں انداز میں نہیں۔ عملی نصرت کسی کو ایک ڈھنگ پر ملتی ہے اور کسی کو دوسرے ڈھنگ پر۔
وَجَاءَ إِخْوَةُ يُوسُفَ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ
📘 حضرت یوسف کے اقتدار کے ابتدائی سات سال تک خوب فصل پیدا ہوئی۔ آپ نے سارے ملک میں بڑے بڑے کھتّے بنوائے اور کسانوں سے ان کا فاضل غلَہ خرید کر ہر سال ان کھتوں میں محفوظ کرتے رہے اس کے بعد جب قحط کے سال شروع ہوئے تو آپ نے اس غلہ کو دار السلطنت میں منگوا کر مناسب قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیا۔
یہ قحط چونکہ مصر کے علاوہ اطراف کے علاقوں (شام، فلسطین، شرق اردن وغیرہ) تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ مصر میں غلّہ سستی قیمت پر فروخت ہورہا ہے تو برادران یوسف بھی غلّہ لینے کے لیے مصر آئے۔ یہاں حضرت یوسف کو اگرچہ انھوں نے بیس سال بعد دیکھا تھا، تاہم آپ کی شکل وصورت میں انھیں اپنے بھائی کی جھلک نظر آئی۔ مگر جلد ہی انھوں نے اس کو اپنے دل سے نکال دیا۔ کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جس شخص کو وہ اندھے کنویں میں ڈال چکے ہیں وہ مصر کے تخت پر متمکن ہوسکتاہے۔
حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو ایک ایک اونٹ فی کس غلّہ دلوایا۔ اب ان کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ بن یامین کے نام پر ایک اونٹ غلّہ اور حاصل کریں۔ انھوںنے درخواست کی کہ ہمارے ایک بھائی (بن یامین) کو بوڑھے باپ نے اپنے پاس روک لیا ہے۔ اگر ہم کو اس بھائی کے حصہ کا غلّہ بھی دیا جائے تو بڑی عنایت ہو۔ حضرت یوسف نے کہا کہ غائب کا حصہ دینا ہمارا طریقہ نہیں۔ تم دوبارہ آؤ تو اپنے اس بھائی کو بھی ساتھ لاؤ۔ اس وقت تم اس کا حصہ پاسکوگے۔ تم میری بخشش کا حال دیکھ چکے ہو۔ کیا اس کے بعد بھی تمھیں اپنے بھائی کو لانے میں تردد ہے۔ حضرت یوسف نے مزید کہا کہ جو بھائی تم بتارہے ہو اگر تم اگلی بار اس کو نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور محض دھوکہ دے کر ایک اونٹ غلّہ اور لینا چاہتے تھے۔ اس کی سزا یہ ہوگی کہ آئندہ خود تمھارے حصہ کا غلّہ بھی تم کو نہیںدیا جائے گا۔
وَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ قَالَ ائْتُونِي بِأَخٍ لَكُمْ مِنْ أَبِيكُمْ ۚ أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي أُوفِي الْكَيْلَ وَأَنَا خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ
📘 حضرت یوسف کے اقتدار کے ابتدائی سات سال تک خوب فصل پیدا ہوئی۔ آپ نے سارے ملک میں بڑے بڑے کھتّے بنوائے اور کسانوں سے ان کا فاضل غلَہ خرید کر ہر سال ان کھتوں میں محفوظ کرتے رہے اس کے بعد جب قحط کے سال شروع ہوئے تو آپ نے اس غلہ کو دار السلطنت میں منگوا کر مناسب قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیا۔
یہ قحط چونکہ مصر کے علاوہ اطراف کے علاقوں (شام، فلسطین، شرق اردن وغیرہ) تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ مصر میں غلّہ سستی قیمت پر فروخت ہورہا ہے تو برادران یوسف بھی غلّہ لینے کے لیے مصر آئے۔ یہاں حضرت یوسف کو اگرچہ انھوں نے بیس سال بعد دیکھا تھا، تاہم آپ کی شکل وصورت میں انھیں اپنے بھائی کی جھلک نظر آئی۔ مگر جلد ہی انھوں نے اس کو اپنے دل سے نکال دیا۔ کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جس شخص کو وہ اندھے کنویں میں ڈال چکے ہیں وہ مصر کے تخت پر متمکن ہوسکتاہے۔
حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو ایک ایک اونٹ فی کس غلّہ دلوایا۔ اب ان کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ بن یامین کے نام پر ایک اونٹ غلّہ اور حاصل کریں۔ انھوںنے درخواست کی کہ ہمارے ایک بھائی (بن یامین) کو بوڑھے باپ نے اپنے پاس روک لیا ہے۔ اگر ہم کو اس بھائی کے حصہ کا غلّہ بھی دیا جائے تو بڑی عنایت ہو۔ حضرت یوسف نے کہا کہ غائب کا حصہ دینا ہمارا طریقہ نہیں۔ تم دوبارہ آؤ تو اپنے اس بھائی کو بھی ساتھ لاؤ۔ اس وقت تم اس کا حصہ پاسکوگے۔ تم میری بخشش کا حال دیکھ چکے ہو۔ کیا اس کے بعد بھی تمھیں اپنے بھائی کو لانے میں تردد ہے۔ حضرت یوسف نے مزید کہا کہ جو بھائی تم بتارہے ہو اگر تم اگلی بار اس کو نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور محض دھوکہ دے کر ایک اونٹ غلّہ اور لینا چاہتے تھے۔ اس کی سزا یہ ہوگی کہ آئندہ خود تمھارے حصہ کا غلّہ بھی تم کو نہیںدیا جائے گا۔
وَكَذَٰلِكَ يَجْتَبِيكَ رَبُّكَ وَيُعَلِّمُكَ مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَيُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَىٰ أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
📘 حدیث میں ہے کہ خواب کی تین قسمیں ہیں۔ اپنے دل کی بات، شیطان کا ڈر اوا اور خداکی بشارت۔ عام آدمی کا خواب تینوں میں سے کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مگر پیغمبر کا خواب ہمیشہ خدا کی بشارت ہوتاہے، کبھی راست انداز میں اور کبھی تمثیلی انداز میں۔
حضرت یوسف کا زمانہ انیسویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ آپ کے والد حضرت یعقوب فلسطین میں رہتے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے بھائی بن یامین ایک ماں سے تھے اوربقیہ دس بھائی دوسری ماؤں سے۔ اس خواب میں سورج اور چاند سے مراد آپ کے والدین ہیں اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی۔ اس میں یہ بشارت تھی کہ حضرت یوسف کو پیغمبری ملے گی اور اسی کے ساتھ یہ خواب آپ کے اس عروج واقتدار کی تمثیل تھا جو بعد کو مصر پہنچ کر آپ کو ملا اور جس کے بعد سارے اہل خاندان مجبور ہوئے کہ وہ آپ کی عظمت کو تسلیم کرلیں۔
حضرت یوسف کے دس سوتیلے بھائی آپ کی شخصیت اور مقبولیت کو دیکھ کر آپ سے حسد رکھتے تھے۔ اس لیے آپ کے والد (حضرت یعقوب) نے خواب سن کر فوراً کہا کہ اپنے بھائیوں سے اس کا ذکر نہ کرنا ورنہ وہ تمھارے اور زیادہ دشمن ہوجائیںگے۔
کسی کی بڑائی دیکھ کر اس کے خلاف جلن پیدا ہونا خالص شیطانی فعل ہے۔ جس شخص کے اندر یہ صفت پائی جائے اس کو اپنے بارے میں توبہ کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خداکے فیصلہ پر راضی نہیں۔ وہ شیطان کی ہدایت پر چل رہا ہے، نہ کہ خدا کی ہدایت پر۔
یہاںاتمام نعمت کا لفظ حضرت یوسف کے لیے بھی بولا گیا ہے جن کو حکومت حاصل ہوئی اور حضرت ابراہیم کے لیے بھی جن کو کوئی حکومت نہیں ملی۔ پھر دونوں کے درمیان وہ مشترک چیز کیا تھی جس کو اتمام نعمت کہاگیا ہے۔ وہ نبوت تھی۔ یعنی خدا کی اس خصوصی ہدایت کی توفیق جو کسی کو آخرت میں اعلیٰ مراتب تک پہنچانے والی ہے۔ خدا کی ہدایت انسان کے اوپر خدا کی نعمتوں کی تکمیل ہے۔ یہ نعمت پیغمبروں کو براہِ راست طور پر ملتی ہے اور عام صالحین کو بالواسطہ طور پر۔
فَإِنْ لَمْ تَأْتُونِي بِهِ فَلَا كَيْلَ لَكُمْ عِنْدِي وَلَا تَقْرَبُونِ
📘 حضرت یوسف کے اقتدار کے ابتدائی سات سال تک خوب فصل پیدا ہوئی۔ آپ نے سارے ملک میں بڑے بڑے کھتّے بنوائے اور کسانوں سے ان کا فاضل غلَہ خرید کر ہر سال ان کھتوں میں محفوظ کرتے رہے اس کے بعد جب قحط کے سال شروع ہوئے تو آپ نے اس غلہ کو دار السلطنت میں منگوا کر مناسب قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیا۔
یہ قحط چونکہ مصر کے علاوہ اطراف کے علاقوں (شام، فلسطین، شرق اردن وغیرہ) تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ مصر میں غلّہ سستی قیمت پر فروخت ہورہا ہے تو برادران یوسف بھی غلّہ لینے کے لیے مصر آئے۔ یہاں حضرت یوسف کو اگرچہ انھوں نے بیس سال بعد دیکھا تھا، تاہم آپ کی شکل وصورت میں انھیں اپنے بھائی کی جھلک نظر آئی۔ مگر جلد ہی انھوں نے اس کو اپنے دل سے نکال دیا۔ کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جس شخص کو وہ اندھے کنویں میں ڈال چکے ہیں وہ مصر کے تخت پر متمکن ہوسکتاہے۔
حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو ایک ایک اونٹ فی کس غلّہ دلوایا۔ اب ان کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ بن یامین کے نام پر ایک اونٹ غلّہ اور حاصل کریں۔ انھوںنے درخواست کی کہ ہمارے ایک بھائی (بن یامین) کو بوڑھے باپ نے اپنے پاس روک لیا ہے۔ اگر ہم کو اس بھائی کے حصہ کا غلّہ بھی دیا جائے تو بڑی عنایت ہو۔ حضرت یوسف نے کہا کہ غائب کا حصہ دینا ہمارا طریقہ نہیں۔ تم دوبارہ آؤ تو اپنے اس بھائی کو بھی ساتھ لاؤ۔ اس وقت تم اس کا حصہ پاسکوگے۔ تم میری بخشش کا حال دیکھ چکے ہو۔ کیا اس کے بعد بھی تمھیں اپنے بھائی کو لانے میں تردد ہے۔ حضرت یوسف نے مزید کہا کہ جو بھائی تم بتارہے ہو اگر تم اگلی بار اس کو نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور محض دھوکہ دے کر ایک اونٹ غلّہ اور لینا چاہتے تھے۔ اس کی سزا یہ ہوگی کہ آئندہ خود تمھارے حصہ کا غلّہ بھی تم کو نہیںدیا جائے گا۔
قَالُوا سَنُرَاوِدُ عَنْهُ أَبَاهُ وَإِنَّا لَفَاعِلُونَ
📘 حضرت یوسف کے اقتدار کے ابتدائی سات سال تک خوب فصل پیدا ہوئی۔ آپ نے سارے ملک میں بڑے بڑے کھتّے بنوائے اور کسانوں سے ان کا فاضل غلَہ خرید کر ہر سال ان کھتوں میں محفوظ کرتے رہے اس کے بعد جب قحط کے سال شروع ہوئے تو آپ نے اس غلہ کو دار السلطنت میں منگوا کر مناسب قیمت پر فروخت کرنا شروع کردیا۔
یہ قحط چونکہ مصر کے علاوہ اطراف کے علاقوں (شام، فلسطین، شرق اردن وغیرہ) تک پھیلا ہوا تھا، اس لیے جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ مصر میں غلّہ سستی قیمت پر فروخت ہورہا ہے تو برادران یوسف بھی غلّہ لینے کے لیے مصر آئے۔ یہاں حضرت یوسف کو اگرچہ انھوں نے بیس سال بعد دیکھا تھا، تاہم آپ کی شکل وصورت میں انھیں اپنے بھائی کی جھلک نظر آئی۔ مگر جلد ہی انھوں نے اس کو اپنے دل سے نکال دیا۔ کیوں کہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ جس شخص کو وہ اندھے کنویں میں ڈال چکے ہیں وہ مصر کے تخت پر متمکن ہوسکتاہے۔
حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں کو ایک ایک اونٹ فی کس غلّہ دلوایا۔ اب ان کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ بن یامین کے نام پر ایک اونٹ غلّہ اور حاصل کریں۔ انھوںنے درخواست کی کہ ہمارے ایک بھائی (بن یامین) کو بوڑھے باپ نے اپنے پاس روک لیا ہے۔ اگر ہم کو اس بھائی کے حصہ کا غلّہ بھی دیا جائے تو بڑی عنایت ہو۔ حضرت یوسف نے کہا کہ غائب کا حصہ دینا ہمارا طریقہ نہیں۔ تم دوبارہ آؤ تو اپنے اس بھائی کو بھی ساتھ لاؤ۔ اس وقت تم اس کا حصہ پاسکوگے۔ تم میری بخشش کا حال دیکھ چکے ہو۔ کیا اس کے بعد بھی تمھیں اپنے بھائی کو لانے میں تردد ہے۔ حضرت یوسف نے مزید کہا کہ جو بھائی تم بتارہے ہو اگر تم اگلی بار اس کو نہ لائے تو سمجھا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو اور محض دھوکہ دے کر ایک اونٹ غلّہ اور لینا چاہتے تھے۔ اس کی سزا یہ ہوگی کہ آئندہ خود تمھارے حصہ کا غلّہ بھی تم کو نہیںدیا جائے گا۔
وَقَالَ لِفِتْيَانِهِ اجْعَلُوا بِضَاعَتَهُمْ فِي رِحَالِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَعْرِفُونَهَا إِذَا انْقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
📘 حضرت یوسف نے غالباً بھائیوں سے قیمت لینا مروّت کے خلاف سمجھا یا اس خیال سے کہ مال کی کمی ان کے دوبارہ یہاں آنے ميں رکاوٹ نہ بن جائے، اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ جو رقم انھوں نے غلہ کی قیمت کے طورپر اداکی ہے، وہ خاموشی سے ان کے سامان میں ڈال دیا جائے تاکہ جب وہ گھر پر جاکر اپنا سامان کھولیں تو اس کو پالیں اور اپنے بھائی (بن یامین) کو لے کر دوبارہ یہاں آئیں۔
حضرت یعقوب نے ایک طرف بن یامین کے سلسلہ میں اپنے بیٹوں پر بے اعتمادی کا اظہار کیا دوسری طرف یہ بھی فرمایا کہ تم کو یا کسی اور کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ ہونا وہی ہے جو خدا چاہے۔مگر یہ ہونا انسان کے کے ہاتھوں کرایا جاتاہے تاکہ جو بُرا ہے وہ برا کرکے اپنی حقیقت کو ثابت کرے۔ اور جو اچھا ہے وہ اچھا کرکے اپنے آپ کو اس فہرست میں لکھوائے جس کا وہ مستحق ہے۔
فَلَمَّا رَجَعُوا إِلَىٰ أَبِيهِمْ قَالُوا يَا أَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الْكَيْلُ فَأَرْسِلْ مَعَنَا أَخَانَا نَكْتَلْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
📘 حضرت یوسف نے غالباً بھائیوں سے قیمت لینا مروّت کے خلاف سمجھا یا اس خیال سے کہ مال کی کمی ان کے دوبارہ یہاں آنے ميں رکاوٹ نہ بن جائے، اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ جو رقم انھوں نے غلہ کی قیمت کے طورپر اداکی ہے، وہ خاموشی سے ان کے سامان میں ڈال دیا جائے تاکہ جب وہ گھر پر جاکر اپنا سامان کھولیں تو اس کو پالیں اور اپنے بھائی (بن یامین) کو لے کر دوبارہ یہاں آئیں۔
حضرت یعقوب نے ایک طرف بن یامین کے سلسلہ میں اپنے بیٹوں پر بے اعتمادی کا اظہار کیا دوسری طرف یہ بھی فرمایا کہ تم کو یا کسی اور کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ ہونا وہی ہے جو خدا چاہے۔مگر یہ ہونا انسان کے کے ہاتھوں کرایا جاتاہے تاکہ جو بُرا ہے وہ برا کرکے اپنی حقیقت کو ثابت کرے۔ اور جو اچھا ہے وہ اچھا کرکے اپنے آپ کو اس فہرست میں لکھوائے جس کا وہ مستحق ہے۔
قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنْتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِنْ قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
📘 حضرت یوسف نے غالباً بھائیوں سے قیمت لینا مروّت کے خلاف سمجھا یا اس خیال سے کہ مال کی کمی ان کے دوبارہ یہاں آنے ميں رکاوٹ نہ بن جائے، اپنے آدمیوں کو ہدایت کی کہ جو رقم انھوں نے غلہ کی قیمت کے طورپر اداکی ہے، وہ خاموشی سے ان کے سامان میں ڈال دیا جائے تاکہ جب وہ گھر پر جاکر اپنا سامان کھولیں تو اس کو پالیں اور اپنے بھائی (بن یامین) کو لے کر دوبارہ یہاں آئیں۔
حضرت یعقوب نے ایک طرف بن یامین کے سلسلہ میں اپنے بیٹوں پر بے اعتمادی کا اظہار کیا دوسری طرف یہ بھی فرمایا کہ تم کو یا کسی اور کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ ہونا وہی ہے جو خدا چاہے۔مگر یہ ہونا انسان کے کے ہاتھوں کرایا جاتاہے تاکہ جو بُرا ہے وہ برا کرکے اپنی حقیقت کو ثابت کرے۔ اور جو اچھا ہے وہ اچھا کرکے اپنے آپ کو اس فہرست میں لکھوائے جس کا وہ مستحق ہے۔
وَلَمَّا فَتَحُوا مَتَاعَهُمْ وَجَدُوا بِضَاعَتَهُمْ رُدَّتْ إِلَيْهِمْ ۖ قَالُوا يَا أَبَانَا مَا نَبْغِي ۖ هَٰذِهِ بِضَاعَتُنَا رُدَّتْ إِلَيْنَا ۖ وَنَمِيرُ أَهْلَنَا وَنَحْفَظُ أَخَانَا وَنَزْدَادُ كَيْلَ بَعِيرٍ ۖ ذَٰلِكَ كَيْلٌ يَسِيرٌ
📘 گھر لوٹ کر جب انھوںنے دیکھا کہ ان کی رقم ان کی غلّہ کی بوری میں موجود ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ ضرور ہمارے ساتھ بن یامین کو جانے دیں۔ ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور اپنے حصہ کے علاوہ اس کے حصہ کا بھی مزید ایک اونٹ غلّہ لائیں گے۔ یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں یہ تو اخراجات کے لیے تھوڑا ہے۔
حضرت یوسف نے تقسیم کا جو نظام قائم کیا تھا، اس کے تحت غالباً ایسا تھا کہ باہر کے ایک آدمی کو ایک اونٹ غلہ دیا جاتاتھا۔
قَالَ لَنْ أُرْسِلَهُ مَعَكُمْ حَتَّىٰ تُؤْتُونِ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ لَتَأْتُنَّنِي بِهِ إِلَّا أَنْ يُحَاطَ بِكُمْ ۖ فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
📘 گھر لوٹ کر جب انھوںنے دیکھا کہ ان کی رقم ان کی غلّہ کی بوری میں موجود ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ ضرور ہمارے ساتھ بن یامین کو جانے دیں۔ ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے۔ اور اپنے حصہ کے علاوہ اس کے حصہ کا بھی مزید ایک اونٹ غلّہ لائیں گے۔ یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں یہ تو اخراجات کے لیے تھوڑا ہے۔
حضرت یوسف نے تقسیم کا جو نظام قائم کیا تھا، اس کے تحت غالباً ایسا تھا کہ باہر کے ایک آدمی کو ایک اونٹ غلہ دیا جاتاتھا۔
وَقَالَ يَا بَنِيَّ لَا تَدْخُلُوا مِنْ بَابٍ وَاحِدٍ وَادْخُلُوا مِنْ أَبْوَابٍ مُتَفَرِّقَةٍ ۖ وَمَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۖ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ
📘 مصر کا قدیم دار السلطنت ایک ایسا شہر تھا جس کے چاروں طرف اونچی فصیل تھی اور مختلف سمتوں میں داخلہ کے لیے دروازے بنے ہوئے تھے۔ حضرت یعقوب کا اپنے بیٹوں سے یہ کہنا کہ تم لوگ اكٹھا ہو کر ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہو بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہو، اس اندیشہ کی بنا پر تھا کہ ان کے دشمن انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں )قيل إنه أحب أن لا يفطن بهم أعداؤهم فيحتالوا لإهلاكهم) تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ
124
۔
اس اندیشہ کا معاملہ اسی سورہ کی آیت نمبر
73
سے واضح ہے جس میں برادرانِ یوسف اپنی برأت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ہم یہاں فساد کے لیے یا چوری کے لیے نہیں آئے ہیں۔ برادران ِیوسف مصر میں باہر سے آئے تھے۔ ان کے لباس مقامی لوگوں کے لباس سے مختلف تھے۔ وہ اپنے حلیہ سے یقیناًمصر والوں کو اجنبی دکھائی دیتے ہوں گے۔ ایسے گیارہ آدمیوں کا ایک ساتھ شہر میں داخل ہونا انھیں لوگوں کی نظر میں مشتبہ بنا سکتا تھا۔ اس لیے مقامی لوگوں سے کسی غیر ضروری ٹکراؤ سے بچنے کے لیے انھوں نے ان کو یہ ہدایت کی کہ شہر میں داخل ہو تو ایک ساتھ جـتھے کی صورت میں داخل نہ ہو۔
مومن کی نظر ایک طرف خدا کی قدرت کاملہ پر ہوتی ہے۔ وہ دیکھتاہے کہ اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کوکوئی اختیار حاصل نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ جانتا ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں امتحان کی مصلحت سے خدا نے ہر معاملہ کو ظاہری اسباب کے ماتحت کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب نے ایک طرف اپنے بیٹوں کو دنیوی تدبیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ دوسری طرف یہ بھی فرمادیا کہ جو کچھ ہوگا خدا کے حکم سے ہوگا کیوں کہ یہاں خدا کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔
وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
📘 مصر کا قدیم دار السلطنت ایک ایسا شہر تھا جس کے چاروں طرف اونچی فصیل تھی اور مختلف سمتوں میں داخلہ کے لیے دروازے بنے ہوئے تھے۔ حضرت یعقوب کا اپنے بیٹوں سے یہ کہنا کہ تم لوگ اكٹھا ہو کر ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہو بلکہ متفرق دروازوں سے داخل ہو، اس اندیشہ کی بنا پر تھا کہ ان کے دشمن انھیں ہلاک کرنے کی کوشش نہ کریں )قيل إنه أحب أن لا يفطن بهم أعداؤهم فيحتالوا لإهلاكهم) تفسیر النسفی، جلد2، صفحہ
124
۔
اس اندیشہ کا معاملہ اسی سورہ کی آیت نمبر
73
سے واضح ہے جس میں برادرانِ یوسف اپنی برأت ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ہم یہاں فساد کے لیے یا چوری کے لیے نہیں آئے ہیں۔ برادران ِیوسف مصر میں باہر سے آئے تھے۔ ان کے لباس مقامی لوگوں کے لباس سے مختلف تھے۔ وہ اپنے حلیہ سے یقیناًمصر والوں کو اجنبی دکھائی دیتے ہوں گے۔ ایسے گیارہ آدمیوں کا ایک ساتھ شہر میں داخل ہونا انھیں لوگوں کی نظر میں مشتبہ بنا سکتا تھا۔ اس لیے مقامی لوگوں سے کسی غیر ضروری ٹکراؤ سے بچنے کے لیے انھوں نے ان کو یہ ہدایت کی کہ شہر میں داخل ہو تو ایک ساتھ جـتھے کی صورت میں داخل نہ ہو۔
مومن کی نظر ایک طرف خدا کی قدرت کاملہ پر ہوتی ہے۔ وہ دیکھتاہے کہ اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کوکوئی اختیار حاصل نہیں۔ اسی کے ساتھ وہ جانتا ہے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ یہاں امتحان کی مصلحت سے خدا نے ہر معاملہ کو ظاہری اسباب کے ماتحت کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت یعقوب نے ایک طرف اپنے بیٹوں کو دنیوی تدبیر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ دوسری طرف یہ بھی فرمادیا کہ جو کچھ ہوگا خدا کے حکم سے ہوگا کیوں کہ یہاں خدا کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔
وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَخَاهُ ۖ قَالَ إِنِّي أَنَا أَخُوكَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
۞ لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ
📘 مکہ کے آخری دنوں میں جب کہ ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا مکہ کے لوگوں نے آپ کی مخالفت تیز تر کردی۔ اس زمانہ میں مکہ کے بعض لوگوں نے آپ سے حضرت یوسف کا حال پوچھا جن کا نام انھوں نے اسفار کے دوران بعض یہودیوں سے سنا تھا۔ یہ سوال اگرچہ انھوں نے تمسخر کی غرض سے کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو خود پوچھنے والوں کی طرف لوٹا دیا۔ اس قصہ کے ذریعہ بالواسطہ طورپر انھیں بتایا گیا ہے کہ تم لوگ وہ ہو جن کے حصہ میں یوسف کے بھائیوں کا کردار آیاہے۔ جب کہ پیغمبر کا انجام خدا کی رحمت سے وہ ہونے والا ہے جو یوسف کا مصر میں ہوا۔
حضرت یعقوب دیکھ رہے تھے کہ ان کی اولاد میں سب سے زیادہ لائق اور صالح حضرت یوسف ہیں۔ ان کے اندر انھیں مستقبل کے نبی کی شخصیت دکھائی دیتی تھی۔ اس بنا پر ان کو حضرت یوسف سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ مگر آپ کے دس صاحب زادے معاملہ کودنیوی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باپ کی نظر میں سب سے زیادہ اہم چیز ان کا جتھا ہونا چاہیے۔ کیوں کہ وہی اس قابل ہے کہ خاندان کی مدد اور حمایت کرسکے۔ ان کا یہ یک طرفہ نقطہ نظر یہاںتک پہنچا کہ انھوں نے سوچا کہ یوسف کو میدان سے ہٹا دیں تو باپ کی ساری توجہ ان کی طرف ہو جائے گی۔
وہ لوگ جب حضرت یوسف کے خلاف منصوبہ بنانے بیٹھے تو ان کے ایک بھائی (یہودا) نے یہ تجویز پیش کی کہ یوسف کو قتل کرنے کے بجائے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انتظام تھا۔ اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ کوئی گروہ جب ناحق کسی بندے کے درپے ہوجاتا ہے تو خود اس گروہ میں سے ایک ایسا شخص نکلتا ہے جو اپنے لوگوں کو کسی ایسی معتدل تدبیر پر راضی کرلے جس کے اندر سے اس بندۂ خداکے لیے نیا امکان کھل جائے۔
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِمْ مَاذَا تَفْقِدُونَ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَنْ جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
قَالُوا فَمَا جَزَاؤُهُ إِنْ كُنْتُمْ كَاذِبِينَ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
قَالُوا جَزَاؤُهُ مَنْ وُجِدَ فِي رَحْلِهِ فَهُوَ جَزَاؤُهُ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ ۚ كَذَٰلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ ۖ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ
📘 برادرانِ یوسف روانہ ہونے لگے تو حضرت یوسف نے از راہِ محبت اپنا پانی پینے کا پیالہ (جو غالباً چاندی کا تھا) اپنے بھائی بن یامین کے سامان میں رکھ دیا۔ اس کی خبر نہ بن یامین کو تھی اور نہ دربار والوں کو۔ اس کے بعد خدا کی قدرت سے ایسا ہوا کہ غلّہ ناپنے کا شاہی پیمانہ (جو خود بھی قیمتی تھا) کہیں اِدھر اُدھر (misplace) ہوگیا۔ تلاش کے باوجود جب وہ نہیں نکلا تو کارندوں کا شبہ بردرانِ یوسف کی طرف گیا جو ابھی ابھی یہاں سے روانہ ہوئے تھے۔ ایک کارندہ نے آواز دے کر قافلہ کو بلایا۔ پوچھ گچھ کے دوران انھوں نے بطور خود چوری کی وہ سزا تجویز کی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے ان کے یہاں رائج تھی۔ یعنی جو سارق (چور)ہے وہ ایک سال تک مالک کے یہاں غلام بن کر رہے۔
اس کے بعد کارندے نے تلاشی شروع کی۔ اب غلّہ کا پیمانہ تو ان کے یہاں نہیں ملا۔ مگر دربار کی ایک اور خاص چیز (چاندی کا پیالہ) بن یامین کے سامان سے برآمد ہوگیا۔ چنانچہ بن یامین کو حسب فیصلہ حضرت یوسف کے حوالہ کردیا گیا۔ اگر شاہ مصر کے قانون پر فیصلہ کی قرارداد ہوئی ہوتی تو حضرت یوسف اپنے بھائی کو نہ پاتے۔ کیوں کہ شاہ مصر کے مروجہ قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اس کو مارا جائے اور مسروقہ چیز کی قیمت اس سے وصول کی جائے۔ اس واقعہ میں حضرت یوسف کی نیت شامل نہ تھی، یہ خدائی تدبیر سے ہوا اس لیے خدا نے اس کو اپنی طرف منسوب فرمایا۔
نوٹ بن یامین کے سامان میں سقایہ رکھا گیا تھا جس کی ضمیر ’’ھا ‘‘ہے۔ مگر شاہی کارندہ ’’صواع‘‘ تلاش کررہا تھا جس کی ضمیر ’’ہ‘‘ ہے۔ اب تلاش کے بعد کارندہ نے جو چیز برآمد کی اس کے لیے قرآن میں ضمیر ’’ہا‘‘ استعمال ہوئی ہے (ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِنْ وِعَاءِ أَخِيهِ)۔ ضمیر کا یہ فرق بتاتا ہے کہ تلاش کے بعد بن یامین کے سامان سے سقایہ نکلا تھا ،نہ کہ صواع۔
۞ قَالُوا إِنْ يَسْرِقْ فَقَدْ سَرَقَ أَخٌ لَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ فَأَسَرَّهَا يُوسُفُ فِي نَفْسِهِ وَلَمْ يُبْدِهَا لَهُمْ ۚ قَالَ أَنْتُمْ شَرٌّ مَكَانًا ۖ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَصِفُونَ
📘 مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف کی کسی نانی کے یہاں ایک بت تھا۔ حضرت یوسف اپنے بچپن میں اس کو چپکے سے ان کے یہاں سے اٹھا لائے اور اس کو توڑ ڈالا۔ اسی واقعہ کو بہا نہ بنا کر برادرانِ یوسف نے کہا کہ ’’اس کا بڑا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے‘‘۔ ایک واقعہ جوآپ کی غیرت توحید کو بتا رہا تھا اس کو محض ایک ظاہری مشابہت کی وجہ سے انھوں نے چوری کے خانہ میں ڈال دیا۔
برادرانِ یوسف کا حال یہ تھا کہ مصر کے تخت پر بیٹھے ہوئے یوسف کو تو وہ عزیز (حضور، سرکار) کہہ رہے تھے اور اس کے سامنے خوب تواضع دکھا رہے تھے۔ مگر کنعان کا یوسف جو ان کی نظر میں صرف ایک دیہاتی لڑکا تھا، اس کو عین اسی وقت ناحق چوری کے الزام میں ملوّث کررہے تھے۔
حضرت یوسف کو علم تھا کہ ان کے رکھے ہوئے پیالہ کی وجہ سے بن یامین خواہ مخواہ چور بن رہا ہے۔ مگر وقتی مصلحت کی بناپر وہ خاموش رہے اور واقعہ کو اپنی رفتار سے چلنے دیا جو بھائیوں اور شاہی کارندے کے درمیان ہورہا تھا۔ ایک بار جب آپ کو بولنا پڑا تو یہ نہیں کہا کہ ’’جس نے ہماری چوری کی ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا کہ ’’جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے‘‘۔
قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ إِنَّ لَهُ أَبًا شَيْخًا كَبِيرًا فَخُذْ أَحَدَنَا مَكَانَهُ ۖ إِنَّا نَرَاكَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
📘 مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف کی کسی نانی کے یہاں ایک بت تھا۔ حضرت یوسف اپنے بچپن میں اس کو چپکے سے ان کے یہاں سے اٹھا لائے اور اس کو توڑ ڈالا۔ اسی واقعہ کو بہا نہ بنا کر برادرانِ یوسف نے کہا کہ ’’اس کا بڑا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے‘‘۔ ایک واقعہ جوآپ کی غیرت توحید کو بتا رہا تھا اس کو محض ایک ظاہری مشابہت کی وجہ سے انھوں نے چوری کے خانہ میں ڈال دیا۔
برادرانِ یوسف کا حال یہ تھا کہ مصر کے تخت پر بیٹھے ہوئے یوسف کو تو وہ عزیز (حضور، سرکار) کہہ رہے تھے اور اس کے سامنے خوب تواضع دکھا رہے تھے۔ مگر کنعان کا یوسف جو ان کی نظر میں صرف ایک دیہاتی لڑکا تھا، اس کو عین اسی وقت ناحق چوری کے الزام میں ملوّث کررہے تھے۔
حضرت یوسف کو علم تھا کہ ان کے رکھے ہوئے پیالہ کی وجہ سے بن یامین خواہ مخواہ چور بن رہا ہے۔ مگر وقتی مصلحت کی بناپر وہ خاموش رہے اور واقعہ کو اپنی رفتار سے چلنے دیا جو بھائیوں اور شاہی کارندے کے درمیان ہورہا تھا۔ ایک بار جب آپ کو بولنا پڑا تو یہ نہیں کہا کہ ’’جس نے ہماری چوری کی ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا کہ ’’جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے‘‘۔
قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ إِنَّا إِذًا لَظَالِمُونَ
📘 مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت یوسف کی کسی نانی کے یہاں ایک بت تھا۔ حضرت یوسف اپنے بچپن میں اس کو چپکے سے ان کے یہاں سے اٹھا لائے اور اس کو توڑ ڈالا۔ اسی واقعہ کو بہا نہ بنا کر برادرانِ یوسف نے کہا کہ ’’اس کا بڑا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے‘‘۔ ایک واقعہ جوآپ کی غیرت توحید کو بتا رہا تھا اس کو محض ایک ظاہری مشابہت کی وجہ سے انھوں نے چوری کے خانہ میں ڈال دیا۔
برادرانِ یوسف کا حال یہ تھا کہ مصر کے تخت پر بیٹھے ہوئے یوسف کو تو وہ عزیز (حضور، سرکار) کہہ رہے تھے اور اس کے سامنے خوب تواضع دکھا رہے تھے۔ مگر کنعان کا یوسف جو ان کی نظر میں صرف ایک دیہاتی لڑکا تھا، اس کو عین اسی وقت ناحق چوری کے الزام میں ملوّث کررہے تھے۔
حضرت یوسف کو علم تھا کہ ان کے رکھے ہوئے پیالہ کی وجہ سے بن یامین خواہ مخواہ چور بن رہا ہے۔ مگر وقتی مصلحت کی بناپر وہ خاموش رہے اور واقعہ کو اپنی رفتار سے چلنے دیا جو بھائیوں اور شاہی کارندے کے درمیان ہورہا تھا۔ ایک بار جب آپ کو بولنا پڑا تو یہ نہیں کہا کہ ’’جس نے ہماری چوری کی ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا کہ ’’جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے‘‘۔
إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 مکہ کے آخری دنوں میں جب کہ ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا مکہ کے لوگوں نے آپ کی مخالفت تیز تر کردی۔ اس زمانہ میں مکہ کے بعض لوگوں نے آپ سے حضرت یوسف کا حال پوچھا جن کا نام انھوں نے اسفار کے دوران بعض یہودیوں سے سنا تھا۔ یہ سوال اگرچہ انھوں نے تمسخر کی غرض سے کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو خود پوچھنے والوں کی طرف لوٹا دیا۔ اس قصہ کے ذریعہ بالواسطہ طورپر انھیں بتایا گیا ہے کہ تم لوگ وہ ہو جن کے حصہ میں یوسف کے بھائیوں کا کردار آیاہے۔ جب کہ پیغمبر کا انجام خدا کی رحمت سے وہ ہونے والا ہے جو یوسف کا مصر میں ہوا۔
حضرت یعقوب دیکھ رہے تھے کہ ان کی اولاد میں سب سے زیادہ لائق اور صالح حضرت یوسف ہیں۔ ان کے اندر انھیں مستقبل کے نبی کی شخصیت دکھائی دیتی تھی۔ اس بنا پر ان کو حضرت یوسف سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ مگر آپ کے دس صاحب زادے معاملہ کودنیوی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باپ کی نظر میں سب سے زیادہ اہم چیز ان کا جتھا ہونا چاہیے۔ کیوں کہ وہی اس قابل ہے کہ خاندان کی مدد اور حمایت کرسکے۔ ان کا یہ یک طرفہ نقطہ نظر یہاںتک پہنچا کہ انھوں نے سوچا کہ یوسف کو میدان سے ہٹا دیں تو باپ کی ساری توجہ ان کی طرف ہو جائے گی۔
وہ لوگ جب حضرت یوسف کے خلاف منصوبہ بنانے بیٹھے تو ان کے ایک بھائی (یہودا) نے یہ تجویز پیش کی کہ یوسف کو قتل کرنے کے بجائے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انتظام تھا۔ اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ کوئی گروہ جب ناحق کسی بندے کے درپے ہوجاتا ہے تو خود اس گروہ میں سے ایک ایسا شخص نکلتا ہے جو اپنے لوگوں کو کسی ایسی معتدل تدبیر پر راضی کرلے جس کے اندر سے اس بندۂ خداکے لیے نیا امکان کھل جائے۔
فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُمْ مَوْثِقًا مِنَ اللَّهِ وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ
📘 حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں میں غالباً ایک بھائی دوسروں سے مختلف تھا۔ اسی بھائی نے ابتدائی مرحلہ میں مشورہ دیا تھا کہ یوسف کوقتل نہ کرو بلکہ کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو تاکہ کوئی آتا جاتا قافلہ اس کو نکال لے جائے۔ یہی حال اب اس بھائی کا مصر میںہوا۔ وہ دوسرے بھائیوں سے الگ ہوگیا۔ اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ جس باپ کے نزدیک وہ ایک بھائی کو کھونے کا مجرم بن چکا ہے، اسی باپ کے سامنے اب وہ دوسرے بھائی کو کھونے کا مجرم بن کر حاضر ہو۔
ارْجِعُوا إِلَىٰ أَبِيكُمْ فَقُولُوا يَا أَبَانَا إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ وَمَا شَهِدْنَا إِلَّا بِمَا عَلِمْنَا وَمَا كُنَّا لِلْغَيْبِ حَافِظِينَ
📘 حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں میں غالباً ایک بھائی دوسروں سے مختلف تھا۔ اسی بھائی نے ابتدائی مرحلہ میں مشورہ دیا تھا کہ یوسف کوقتل نہ کرو بلکہ کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو تاکہ کوئی آتا جاتا قافلہ اس کو نکال لے جائے۔ یہی حال اب اس بھائی کا مصر میںہوا۔ وہ دوسرے بھائیوں سے الگ ہوگیا۔ اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ جس باپ کے نزدیک وہ ایک بھائی کو کھونے کا مجرم بن چکا ہے، اسی باپ کے سامنے اب وہ دوسرے بھائی کو کھونے کا مجرم بن کر حاضر ہو۔
وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ الَّتِي كُنَّا فِيهَا وَالْعِيرَ الَّتِي أَقْبَلْنَا فِيهَا ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ
📘 حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں میں غالباً ایک بھائی دوسروں سے مختلف تھا۔ اسی بھائی نے ابتدائی مرحلہ میں مشورہ دیا تھا کہ یوسف کوقتل نہ کرو بلکہ کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو تاکہ کوئی آتا جاتا قافلہ اس کو نکال لے جائے۔ یہی حال اب اس بھائی کا مصر میںہوا۔ وہ دوسرے بھائیوں سے الگ ہوگیا۔ اس کی غیرت نے گوارا نہیں کیا کہ جس باپ کے نزدیک وہ ایک بھائی کو کھونے کا مجرم بن چکا ہے، اسی باپ کے سامنے اب وہ دوسرے بھائی کو کھونے کا مجرم بن کر حاضر ہو۔
قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا ۖ فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَنِي بِهِمْ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
📘 ’’تم نے بات بنالی ہے‘‘ کہہ کر حضرت یعقوب نے برادران یوسف کے دل کا کھوٹ واضح کیا۔ وہ باپ کے یہاں سے گئے تو مکمل حفاظت کا وعدہ کرکے اس کو ساتھ لے گئے۔ اور جب بن یامین کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہوا تو اس کی طرف سے اتنی مدافعت بھی نہ کرسکے کہ یہ کہتے کہ محض پیالہ برآمد ہونے سے وہ چور کیسے ثابت ہوگیا۔ شاید کسی اور نے رکھ دیا ہو یا کسی غلطی سے وہ اس کے اسباب کے ساتھ بندھ گیا ہو۔ اس کے برعکس، انھوںنے یہ کیا کہ یہ کہہ کر اس کے جرم کو مصریوں کی نظر میں اور پختہ کردیا کہ اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
حضرت یعقوب اگرچہ دو عزیز بیٹوں کو کھونے کی وجہ سے بے حد غم زدہ تھے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ خدا سے اس کی رحمت کی امید بھی لگائے ہوئے تھے۔ ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ یوسف کا ابتدائی زمانہ کا خواب ایک خدائی بشارت تھا اور وہ ضرور پورا ہوگا۔ اسی لیے انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤیوسف کو تلاش کرو اور بن یامین کی رہائی کی بھي کوشش کرو۔
وَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا أَسَفَىٰ عَلَىٰ يُوسُفَ وَابْيَضَّتْ عَيْنَاهُ مِنَ الْحُزْنِ فَهُوَ كَظِيمٌ
📘 ’’تم نے بات بنالی ہے‘‘ کہہ کر حضرت یعقوب نے برادران یوسف کے دل کا کھوٹ واضح کیا۔ وہ باپ کے یہاں سے گئے تو مکمل حفاظت کا وعدہ کرکے اس کو ساتھ لے گئے۔ اور جب بن یامین کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہوا تو اس کی طرف سے اتنی مدافعت بھی نہ کرسکے کہ یہ کہتے کہ محض پیالہ برآمد ہونے سے وہ چور کیسے ثابت ہوگیا۔ شاید کسی اور نے رکھ دیا ہو یا کسی غلطی سے وہ اس کے اسباب کے ساتھ بندھ گیا ہو۔ اس کے برعکس، انھوںنے یہ کیا کہ یہ کہہ کر اس کے جرم کو مصریوں کی نظر میں اور پختہ کردیا کہ اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
حضرت یعقوب اگرچہ دو عزیز بیٹوں کو کھونے کی وجہ سے بے حد غم زدہ تھے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ خدا سے اس کی رحمت کی امید بھی لگائے ہوئے تھے۔ ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ یوسف کا ابتدائی زمانہ کا خواب ایک خدائی بشارت تھا اور وہ ضرور پورا ہوگا۔ اسی لیے انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤیوسف کو تلاش کرو اور بن یامین کی رہائی کی بھي کوشش کرو۔
قَالُوا تَاللَّهِ تَفْتَأُ تَذْكُرُ يُوسُفَ حَتَّىٰ تَكُونَ حَرَضًا أَوْ تَكُونَ مِنَ الْهَالِكِينَ
📘 ’’تم نے بات بنالی ہے‘‘ کہہ کر حضرت یعقوب نے برادران یوسف کے دل کا کھوٹ واضح کیا۔ وہ باپ کے یہاں سے گئے تو مکمل حفاظت کا وعدہ کرکے اس کو ساتھ لے گئے۔ اور جب بن یامین کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہوا تو اس کی طرف سے اتنی مدافعت بھی نہ کرسکے کہ یہ کہتے کہ محض پیالہ برآمد ہونے سے وہ چور کیسے ثابت ہوگیا۔ شاید کسی اور نے رکھ دیا ہو یا کسی غلطی سے وہ اس کے اسباب کے ساتھ بندھ گیا ہو۔ اس کے برعکس، انھوںنے یہ کیا کہ یہ کہہ کر اس کے جرم کو مصریوں کی نظر میں اور پختہ کردیا کہ اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
حضرت یعقوب اگرچہ دو عزیز بیٹوں کو کھونے کی وجہ سے بے حد غم زدہ تھے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ خدا سے اس کی رحمت کی امید بھی لگائے ہوئے تھے۔ ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ یوسف کا ابتدائی زمانہ کا خواب ایک خدائی بشارت تھا اور وہ ضرور پورا ہوگا۔ اسی لیے انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤیوسف کو تلاش کرو اور بن یامین کی رہائی کی بھي کوشش کرو۔
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 ’’تم نے بات بنالی ہے‘‘ کہہ کر حضرت یعقوب نے برادران یوسف کے دل کا کھوٹ واضح کیا۔ وہ باپ کے یہاں سے گئے تو مکمل حفاظت کا وعدہ کرکے اس کو ساتھ لے گئے۔ اور جب بن یامین کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہوا تو اس کی طرف سے اتنی مدافعت بھی نہ کرسکے کہ یہ کہتے کہ محض پیالہ برآمد ہونے سے وہ چور کیسے ثابت ہوگیا۔ شاید کسی اور نے رکھ دیا ہو یا کسی غلطی سے وہ اس کے اسباب کے ساتھ بندھ گیا ہو۔ اس کے برعکس، انھوںنے یہ کیا کہ یہ کہہ کر اس کے جرم کو مصریوں کی نظر میں اور پختہ کردیا کہ اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
حضرت یعقوب اگرچہ دو عزیز بیٹوں کو کھونے کی وجہ سے بے حد غم زدہ تھے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ خدا سے اس کی رحمت کی امید بھی لگائے ہوئے تھے۔ ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ یوسف کا ابتدائی زمانہ کا خواب ایک خدائی بشارت تھا اور وہ ضرور پورا ہوگا۔ اسی لیے انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤیوسف کو تلاش کرو اور بن یامین کی رہائی کی بھي کوشش کرو۔
يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ
📘 ’’تم نے بات بنالی ہے‘‘ کہہ کر حضرت یعقوب نے برادران یوسف کے دل کا کھوٹ واضح کیا۔ وہ باپ کے یہاں سے گئے تو مکمل حفاظت کا وعدہ کرکے اس کو ساتھ لے گئے۔ اور جب بن یامین کے اسباب میں سے پیالہ برآمد ہوا تو اس کی طرف سے اتنی مدافعت بھی نہ کرسکے کہ یہ کہتے کہ محض پیالہ برآمد ہونے سے وہ چور کیسے ثابت ہوگیا۔ شاید کسی اور نے رکھ دیا ہو یا کسی غلطی سے وہ اس کے اسباب کے ساتھ بندھ گیا ہو۔ اس کے برعکس، انھوںنے یہ کیا کہ یہ کہہ کر اس کے جرم کو مصریوں کی نظر میں اور پختہ کردیا کہ اس کا بھائی بھی اس سے پہلے چوری کرچکا ہے۔
حضرت یعقوب اگرچہ دو عزیز بیٹوں کو کھونے کی وجہ سے بے حد غم زدہ تھے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ خدا سے اس کی رحمت کی امید بھی لگائے ہوئے تھے۔ ان کا اب بھی یہ خیال تھا کہ یوسف کا ابتدائی زمانہ کا خواب ایک خدائی بشارت تھا اور وہ ضرور پورا ہوگا۔ اسی لیے انھوں نے بیٹوں سے کہا کہ جاؤیوسف کو تلاش کرو اور بن یامین کی رہائی کی بھي کوشش کرو۔
فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ
📘 ’’تقویٰ اور صبر کرنے والوں کا اجر خدا ضائع نہیں کرتا‘‘— یہی بات پورے قصہ یوسف کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی ایک واضح مثال قائم کرنی تھی کہ معاملات دنیا میں جو شخص اللہ سے ڈرنے والا طریقہ اختیار کرے اور بے صبری والے طریقوں سے بچے، بالآخر وہ خدا کی مدد سے ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت یوسف کے واقعہ کو اسی حقیقت کی ایک نظر آنے والی مثال بنا دیاگیا۔
مصر میں ابتداء ً سات اچھے سال اور اس کے بعد سات خراب سال دونوں خدا کے اذن کے تحت ہوئے۔ خدا چاہتا تو تمام سالوں کو اچھے سال بنا دیتا۔ اسی طرح حضرت یوسف کا کنویں میںڈالا جانا اور پھر اس سے نکل کر مصر پہنچنا دونوں خدا کی نگرانی میں ہوا۔ خدا چاہتا تو آپ کو کنویں کے مرحلہ سے گزارے بغیر مصر کے اقتدار تک پہنچا دیتا۔لیکن اگر یہ تمام غیر معمولی حالات پیش نہ آتے تو اسباب کی اس دنیا میں وہ اس بات کی مثال کیسے بنتے کہ خدا ان لوگوں کی مدد کرتاہے جو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تقویٰ اور صبرکی روش پر قائم رہیں۔
واقعات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ ہو۔ اور دوسرا وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ نہ ہو۔ دو واقعات نوعیت کے اعتبار سے بالکل یکساں درجے کے ہوسکتے ہیں۔ مگر ایک واقعہ شہرت پکڑے گا اور دوسرا گمنام ہو کر رہ جائے گا۔ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرے صلحاء اور محسنین کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ مگر حضرت یوسف کے واقعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہرت کا مادہ بھی پوری طرح موجود تھا۔ اس لیے وہ بخوبی طورپر لوگوں کی نظر میں آگیا۔
قَالَ هَلْ عَلِمْتُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِيُوسُفَ وَأَخِيهِ إِذْ أَنْتُمْ جَاهِلُونَ
📘 ’’تقویٰ اور صبر کرنے والوں کا اجر خدا ضائع نہیں کرتا‘‘— یہی بات پورے قصہ یوسف کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی ایک واضح مثال قائم کرنی تھی کہ معاملات دنیا میں جو شخص اللہ سے ڈرنے والا طریقہ اختیار کرے اور بے صبری والے طریقوں سے بچے، بالآخر وہ خدا کی مدد سے ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت یوسف کے واقعہ کو اسی حقیقت کی ایک نظر آنے والی مثال بنا دیاگیا۔
مصر میں ابتداء ً سات اچھے سال اور اس کے بعد سات خراب سال دونوں خدا کے اذن کے تحت ہوئے۔ خدا چاہتا تو تمام سالوں کو اچھے سال بنا دیتا۔ اسی طرح حضرت یوسف کا کنویں میںڈالا جانا اور پھر اس سے نکل کر مصر پہنچنا دونوں خدا کی نگرانی میں ہوا۔ خدا چاہتا تو آپ کو کنویں کے مرحلہ سے گزارے بغیر مصر کے اقتدار تک پہنچا دیتا۔لیکن اگر یہ تمام غیر معمولی حالات پیش نہ آتے تو اسباب کی اس دنیا میں وہ اس بات کی مثال کیسے بنتے کہ خدا ان لوگوں کی مدد کرتاہے جو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تقویٰ اور صبرکی روش پر قائم رہیں۔
واقعات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ ہو۔ اور دوسرا وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ نہ ہو۔ دو واقعات نوعیت کے اعتبار سے بالکل یکساں درجے کے ہوسکتے ہیں۔ مگر ایک واقعہ شہرت پکڑے گا اور دوسرا گمنام ہو کر رہ جائے گا۔ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرے صلحاء اور محسنین کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ مگر حضرت یوسف کے واقعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہرت کا مادہ بھی پوری طرح موجود تھا۔ اس لیے وہ بخوبی طورپر لوگوں کی نظر میں آگیا۔
اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِنْ بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ
📘 مکہ کے آخری دنوں میں جب کہ ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہوچکا تھا مکہ کے لوگوں نے آپ کی مخالفت تیز تر کردی۔ اس زمانہ میں مکہ کے بعض لوگوں نے آپ سے حضرت یوسف کا حال پوچھا جن کا نام انھوں نے اسفار کے دوران بعض یہودیوں سے سنا تھا۔ یہ سوال اگرچہ انھوں نے تمسخر کی غرض سے کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو خود پوچھنے والوں کی طرف لوٹا دیا۔ اس قصہ کے ذریعہ بالواسطہ طورپر انھیں بتایا گیا ہے کہ تم لوگ وہ ہو جن کے حصہ میں یوسف کے بھائیوں کا کردار آیاہے۔ جب کہ پیغمبر کا انجام خدا کی رحمت سے وہ ہونے والا ہے جو یوسف کا مصر میں ہوا۔
حضرت یعقوب دیکھ رہے تھے کہ ان کی اولاد میں سب سے زیادہ لائق اور صالح حضرت یوسف ہیں۔ ان کے اندر انھیں مستقبل کے نبی کی شخصیت دکھائی دیتی تھی۔ اس بنا پر ان کو حضرت یوسف سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔ مگر آپ کے دس صاحب زادے معاملہ کودنیوی نظر سے دیکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ باپ کی نظر میں سب سے زیادہ اہم چیز ان کا جتھا ہونا چاہیے۔ کیوں کہ وہی اس قابل ہے کہ خاندان کی مدد اور حمایت کرسکے۔ ان کا یہ یک طرفہ نقطہ نظر یہاںتک پہنچا کہ انھوں نے سوچا کہ یوسف کو میدان سے ہٹا دیں تو باپ کی ساری توجہ ان کی طرف ہو جائے گی۔
وہ لوگ جب حضرت یوسف کے خلاف منصوبہ بنانے بیٹھے تو ان کے ایک بھائی (یہودا) نے یہ تجویز پیش کی کہ یوسف کو قتل کرنے کے بجائے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انتظام تھا۔ اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ کوئی گروہ جب ناحق کسی بندے کے درپے ہوجاتا ہے تو خود اس گروہ میں سے ایک ایسا شخص نکلتا ہے جو اپنے لوگوں کو کسی ایسی معتدل تدبیر پر راضی کرلے جس کے اندر سے اس بندۂ خداکے لیے نیا امکان کھل جائے۔
قَالُوا أَإِنَّكَ لَأَنْتَ يُوسُفُ ۖ قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
📘 ’’تقویٰ اور صبر کرنے والوں کا اجر خدا ضائع نہیں کرتا‘‘— یہی بات پورے قصہ یوسف کا خلاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس کی ایک واضح مثال قائم کرنی تھی کہ معاملات دنیا میں جو شخص اللہ سے ڈرنے والا طریقہ اختیار کرے اور بے صبری والے طریقوں سے بچے، بالآخر وہ خدا کی مدد سے ضرور کامیاب ہوتا ہے۔ حضرت یوسف کے واقعہ کو اسی حقیقت کی ایک نظر آنے والی مثال بنا دیاگیا۔
مصر میں ابتداء ً سات اچھے سال اور اس کے بعد سات خراب سال دونوں خدا کے اذن کے تحت ہوئے۔ خدا چاہتا تو تمام سالوں کو اچھے سال بنا دیتا۔ اسی طرح حضرت یوسف کا کنویں میںڈالا جانا اور پھر اس سے نکل کر مصر پہنچنا دونوں خدا کی نگرانی میں ہوا۔ خدا چاہتا تو آپ کو کنویں کے مرحلہ سے گزارے بغیر مصر کے اقتدار تک پہنچا دیتا۔لیکن اگر یہ تمام غیر معمولی حالات پیش نہ آتے تو اسباب کی اس دنیا میں وہ اس بات کی مثال کیسے بنتے کہ خدا ان لوگوں کی مدد کرتاہے جو خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے تقویٰ اور صبرکی روش پر قائم رہیں۔
واقعات دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ ہو۔ اور دوسرا وہ جس کے اندر شہرت کا مادہ نہ ہو۔ دو واقعات نوعیت کے اعتبار سے بالکل یکساں درجے کے ہوسکتے ہیں۔ مگر ایک واقعہ شہرت پکڑے گا اور دوسرا گمنام ہو کر رہ جائے گا۔ حضرت یوسف کے ساتھ نصرت خداوندی کا جو معاملہ ہوا وہ دوسرے صلحاء اور محسنین کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ مگر حضرت یوسف کے واقعہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں شہرت کا مادہ بھی پوری طرح موجود تھا۔ اس لیے وہ بخوبی طورپر لوگوں کی نظر میں آگیا۔
قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِنْ كُنَّا لَخَاطِئِينَ
📘 جب حقیقت کھل گئی تو بھائیوں نے حضرت یوسف کی بڑائی کو تسلیم کرتے ہوئے کھلے طور پر اپنی غلطی کا اقرار کرلیا۔دوسری طرف حضرت یوسف نے بھی اس عالی ظرفی کا ثبوت دیا جو ایک سچے خدا پرست کو ایسے موقع پر دینا چاهيے۔ انھوںنے اپنے بھائیوں کو کوئی ملامت نہیں کی۔ انھوںنے ماضی کے تلخ واقعات کو اچانک بھلا دیا اور بھائیوں سے دوبارہ برادرانہ تعلقات استوار کر لیے۔
اِس واقعہ میں انفرادی نصرت کے ساتھ اجتماعی نصرت کی مثال بھی موجود ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ حالات پیدا ہوئے کہ بنی اسرائیل فلسطین سے نکل کر مصر پہنچیں اور وہاں عزت اور خوش حالی کا مقام حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت یوسف کے زمانہ میں حضرت یعقوب کا خاندان مصر منتقل ہوگیا اور تقریباً پانچ سو سال تک وہاںعزت کے ساتھ رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے ان کی تعداد
67
تھی۔
قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
📘 جب حقیقت کھل گئی تو بھائیوں نے حضرت یوسف کی بڑائی کو تسلیم کرتے ہوئے کھلے طور پر اپنی غلطی کا اقرار کرلیا۔دوسری طرف حضرت یوسف نے بھی اس عالی ظرفی کا ثبوت دیا جو ایک سچے خدا پرست کو ایسے موقع پر دینا چاهيے۔ انھوںنے اپنے بھائیوں کو کوئی ملامت نہیں کی۔ انھوںنے ماضی کے تلخ واقعات کو اچانک بھلا دیا اور بھائیوں سے دوبارہ برادرانہ تعلقات استوار کر لیے۔
اِس واقعہ میں انفرادی نصرت کے ساتھ اجتماعی نصرت کی مثال بھی موجود ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ حالات پیدا ہوئے کہ بنی اسرائیل فلسطین سے نکل کر مصر پہنچیں اور وہاں عزت اور خوش حالی کا مقام حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت یوسف کے زمانہ میں حضرت یعقوب کا خاندان مصر منتقل ہوگیا اور تقریباً پانچ سو سال تک وہاںعزت کے ساتھ رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے ان کی تعداد
67
تھی۔
اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
📘 جب حقیقت کھل گئی تو بھائیوں نے حضرت یوسف کی بڑائی کو تسلیم کرتے ہوئے کھلے طور پر اپنی غلطی کا اقرار کرلیا۔دوسری طرف حضرت یوسف نے بھی اس عالی ظرفی کا ثبوت دیا جو ایک سچے خدا پرست کو ایسے موقع پر دینا چاهيے۔ انھوںنے اپنے بھائیوں کو کوئی ملامت نہیں کی۔ انھوںنے ماضی کے تلخ واقعات کو اچانک بھلا دیا اور بھائیوں سے دوبارہ برادرانہ تعلقات استوار کر لیے۔
اِس واقعہ میں انفرادی نصرت کے ساتھ اجتماعی نصرت کی مثال بھی موجود ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ حالات پیدا ہوئے کہ بنی اسرائیل فلسطین سے نکل کر مصر پہنچیں اور وہاں عزت اور خوش حالی کا مقام حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت یوسف کے زمانہ میں حضرت یعقوب کا خاندان مصر منتقل ہوگیا اور تقریباً پانچ سو سال تک وہاںعزت کے ساتھ رہا۔ بائبل کے بیان کے مطابق سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے ان کی تعداد
67
تھی۔
وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قَالَ أَبُوهُمْ إِنِّي لَأَجِدُ رِيحَ يُوسُفَ ۖ لَوْلَا أَنْ تُفَنِّدُونِ
📘 حضرت یوسف اپنے باپ سے جدا ہو کر 20 سال سے زیادہ مدّت تک پڑوسی ملک مصر میں رہے۔ مگر حضرت یعقوب کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ آخر وقت میں آپ کا پیرہن مصر سے چلا تو آپ کو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا علم ان کا ذاتی علم نہیں ہوتا بلکہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے۔ اگر ذاتی علم ہوتا تو حضرت یعقوب پہلے ہی جان لیتے کہ ان کے صاحب زادے مصر میں ہیں۔ مگر ایسا نہیںہوا۔ آپ حضرت یوسف کے بارے میں صرف اس وقت مطلع ہوئے جب کہ اللہ نے آپ کو اس کی خبر دی۔
حضرت یعقوب کے ساتھ آپ کے خاندان والوں کی گفتگوئیں جو اس سورہ میں مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی نظر میں حضرت یعقوب کووہ عظمت حاصل نہ تھی جو ایک پیغمبر کے لیے ہونی چاہیے۔ وہی لوگ جو ماضی کے بزرگوں کی پرستش کررہے ہوتے ہیں وہ زندہ بزرگوں کی عظمت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مُردہ بزرگوں کے گرد ہمیشہ مبالغہ آمیز قصوں اور طلسماتی کہانیوں کا ہالہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ’’بزرگ‘‘ کی ایک مصنوعی تصویر بیٹھ جاتی ہے۔ چونکہ زندہ بزرگ اس مصنوعی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگوں کو بزرگ بھی نظر نہیں آتا۔
قَالُوا تَاللَّهِ إِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ
📘 حضرت یوسف اپنے باپ سے جدا ہو کر 20 سال سے زیادہ مدّت تک پڑوسی ملک مصر میں رہے۔ مگر حضرت یعقوب کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ آخر وقت میں آپ کا پیرہن مصر سے چلا تو آپ کو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا علم ان کا ذاتی علم نہیں ہوتا بلکہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے۔ اگر ذاتی علم ہوتا تو حضرت یعقوب پہلے ہی جان لیتے کہ ان کے صاحب زادے مصر میں ہیں۔ مگر ایسا نہیںہوا۔ آپ حضرت یوسف کے بارے میں صرف اس وقت مطلع ہوئے جب کہ اللہ نے آپ کو اس کی خبر دی۔
حضرت یعقوب کے ساتھ آپ کے خاندان والوں کی گفتگوئیں جو اس سورہ میں مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی نظر میں حضرت یعقوب کووہ عظمت حاصل نہ تھی جو ایک پیغمبر کے لیے ہونی چاہیے۔ وہی لوگ جو ماضی کے بزرگوں کی پرستش کررہے ہوتے ہیں وہ زندہ بزرگوں کی عظمت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مُردہ بزرگوں کے گرد ہمیشہ مبالغہ آمیز قصوں اور طلسماتی کہانیوں کا ہالہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ’’بزرگ‘‘ کی ایک مصنوعی تصویر بیٹھ جاتی ہے۔ چونکہ زندہ بزرگ اس مصنوعی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگوں کو بزرگ بھی نظر نہیں آتا۔
فَلَمَّا أَنْ جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَىٰ وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا ۖ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 حضرت یوسف اپنے باپ سے جدا ہو کر 20 سال سے زیادہ مدّت تک پڑوسی ملک مصر میں رہے۔ مگر حضرت یعقوب کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ آخر وقت میں آپ کا پیرہن مصر سے چلا تو آپ کو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا علم ان کا ذاتی علم نہیں ہوتا بلکہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے۔ اگر ذاتی علم ہوتا تو حضرت یعقوب پہلے ہی جان لیتے کہ ان کے صاحب زادے مصر میں ہیں۔ مگر ایسا نہیںہوا۔ آپ حضرت یوسف کے بارے میں صرف اس وقت مطلع ہوئے جب کہ اللہ نے آپ کو اس کی خبر دی۔
حضرت یعقوب کے ساتھ آپ کے خاندان والوں کی گفتگوئیں جو اس سورہ میں مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی نظر میں حضرت یعقوب کووہ عظمت حاصل نہ تھی جو ایک پیغمبر کے لیے ہونی چاہیے۔ وہی لوگ جو ماضی کے بزرگوں کی پرستش کررہے ہوتے ہیں وہ زندہ بزرگوں کی عظمت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مُردہ بزرگوں کے گرد ہمیشہ مبالغہ آمیز قصوں اور طلسماتی کہانیوں کا ہالہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ’’بزرگ‘‘ کی ایک مصنوعی تصویر بیٹھ جاتی ہے۔ چونکہ زندہ بزرگ اس مصنوعی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگوں کو بزرگ بھی نظر نہیں آتا۔
قَالُوا يَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَاطِئِينَ
📘 حضرت یوسف اپنے باپ سے جدا ہو کر 20 سال سے زیادہ مدّت تک پڑوسی ملک مصر میں رہے۔ مگر حضرت یعقوب کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ آخر وقت میں آپ کا پیرہن مصر سے چلا تو آپ کو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا علم ان کا ذاتی علم نہیں ہوتا بلکہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے۔ اگر ذاتی علم ہوتا تو حضرت یعقوب پہلے ہی جان لیتے کہ ان کے صاحب زادے مصر میں ہیں۔ مگر ایسا نہیںہوا۔ آپ حضرت یوسف کے بارے میں صرف اس وقت مطلع ہوئے جب کہ اللہ نے آپ کو اس کی خبر دی۔
حضرت یعقوب کے ساتھ آپ کے خاندان والوں کی گفتگوئیں جو اس سورہ میں مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی نظر میں حضرت یعقوب کووہ عظمت حاصل نہ تھی جو ایک پیغمبر کے لیے ہونی چاہیے۔ وہی لوگ جو ماضی کے بزرگوں کی پرستش کررہے ہوتے ہیں وہ زندہ بزرگوں کی عظمت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مُردہ بزرگوں کے گرد ہمیشہ مبالغہ آمیز قصوں اور طلسماتی کہانیوں کا ہالہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ’’بزرگ‘‘ کی ایک مصنوعی تصویر بیٹھ جاتی ہے۔ چونکہ زندہ بزرگ اس مصنوعی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگوں کو بزرگ بھی نظر نہیں آتا۔
قَالَ سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي ۖ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
📘 حضرت یوسف اپنے باپ سے جدا ہو کر 20 سال سے زیادہ مدّت تک پڑوسی ملک مصر میں رہے۔ مگر حضرت یعقوب کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ البتہ آخر وقت میں آپ کا پیرہن مصر سے چلا تو آپ کو اس کے پہنچنے سے پہلے اس کی خوشبو محسوس ہونے لگی۔ اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا علم ان کا ذاتی علم نہیں ہوتا بلکہ خدا کا عطیہ ہوتا ہے۔ اگر ذاتی علم ہوتا تو حضرت یعقوب پہلے ہی جان لیتے کہ ان کے صاحب زادے مصر میں ہیں۔ مگر ایسا نہیںہوا۔ آپ حضرت یوسف کے بارے میں صرف اس وقت مطلع ہوئے جب کہ اللہ نے آپ کو اس کی خبر دی۔
حضرت یعقوب کے ساتھ آپ کے خاندان والوں کی گفتگوئیں جو اس سورہ میں مختلف مقامات پر نقل ہوئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاندان والوں کی نظر میں حضرت یعقوب کووہ عظمت حاصل نہ تھی جو ایک پیغمبر کے لیے ہونی چاہیے۔ وہی لوگ جو ماضی کے بزرگوں کی پرستش کررہے ہوتے ہیں وہ زندہ بزرگوں کی عظمت ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مُردہ بزرگوں کے گرد ہمیشہ مبالغہ آمیز قصوں اور طلسماتی کہانیوں کا ہالہ بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے لوگوں کے ذہن میں ’’بزرگ‘‘ کی ایک مصنوعی تصویر بیٹھ جاتی ہے۔ چونکہ زندہ بزرگ اس مصنوعی تصویر کے مطابق نہیں ہوتا اس لیے وہ لوگوں کو بزرگ بھی نظر نہیں آتا۔
فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَىٰ يُوسُفَ آوَىٰ إِلَيْهِ أَبَوَيْهِ وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ
📘 یہاں تخت سے مراد تخت شاہی نہیں ہے بلکہ وہ تخت ہے جس پر حضرت یوسف اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے بیٹھتے تھے۔ سجدہ سے مراد بھی معروف سجدہ نہيں بلکہ رکوع کے انداز پر جھکنا ہے۔ کسی بڑے کی تعظیم کے لیے اس انداز میں جھکنا قدیم زمانہ میں بہت معروف تھا۔
’’إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِمَا يَشَاءُ‘‘ کامطلب یہ ہے کہ میرا رب جس کام کو کرنا چاہے اس کے لیے وہ نہایت مخفی راہیں نکال لیتاہے۔ خدا اپنے منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایسی تدبیریں پیدا کرلیتا ہے جس کی طرف عام انسانوں کا گمان بھی نہیں جاسکتا۔