🕋 تفسير سورة طه
(Taha) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ طه
📘 قرآن اگرچہ صرف ایک یاد دہانی ہے۔ مگر وہ مدعوکے لیے قابل حجت یاد دہانی اس وقت بنتاہے جب کہ اس کی دعوت دینے والا اپنے آپ کو اس کی راہ میں کھپا دے۔ دوسروں کی خیر خواہی میں وہ اپنے آپ کو اس حد تک نظر انداز کردے کہ یہ کہا جائے کہ اس نے تو لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیا۔
تاہم دعوت کو خواہ کتنا ہی کامل اور معیار ی انداز میں پیش کردیا جائے، عملاً اس سے ہدایت صرف اس بندۂ خدا کو ملتی ہے جو حق شناس ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ دلیل کی سطح پر بات کا واضح ہونا ہی اس کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہوجائے۔
جس ہستی نے عالم کی تخلیق کی ہے اسی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے قرآن اور فطرت میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن ایک ایسی حقیقت کی یاددہانی ہے جس کو پہچاننے کی صلاحیت فطرت انسانی کے اندر پہلے سے موجود ہے۔
إِذْ رَأَىٰ نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى
📘 حضرت موسیٰ مصر میں پیدا ہوئے۔ وہاں ایک موقع پر ایک قبطی ان کے ہاتھ سے ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد وہ مصر سے نکل کر مدین چلے گئے۔ وہاں وہ کئی سال تک رہے۔ وہیں ایک خاتون سے نکاح کیا اور پھر اپنی اہلیہ کو لے کر واپس مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ بکریاں بھی تھیں۔
حضرت موسیٰ اس سفر میں جزیرہ نمائے سینا کے جنوب میں وادی طور کے علاقہ سے گزر رہے تھے۔ رات ہوئی تو تاریکی میں راستہ کا اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ مزید یہ کہ یہ سخت سردی کا موسم تھا۔ اسی دوران انھیں دکھائی دیاکہ دور ایک آگ جل رہی ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ اس کے رخ پر روانہ ہوئے تاکہ سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے آگ حاصل کریں اور وہاں کچھ لوگ ہوں تو ان سے راستہ معلوم کریں۔
مَنْ أَعْرَضَ عَنْهُ فَإِنَّهُ يَحْمِلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وِزْرًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
خَالِدِينَ فِيهِ ۖ وَسَاءَ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِمْلًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ زُرْقًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
يَتَخَافَتُونَ بَيْنَهُمْ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا عَشْرًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ إِذْ يَقُولُ أَمْثَلُهُمْ طَرِيقَةً إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا يَوْمًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسْفًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
لَا تَرَىٰ فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
يَوْمَئِذٍ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ۖ وَخَشَعَتِ الْأَصْوَاتُ لِلرَّحْمَٰنِ فَلَا تَسْمَعُ إِلَّا هَمْسًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔
يَوْمَئِذٍ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَرَضِيَ لَهُ قَوْلًا
📘 سفارش کا مستقل بالذا ت مؤثر ہونا سراسر باطل ہے۔خدا نہ تو بندوں کے احوال سے بے خبر ہے کہ کوئی اس کو کسی کے بارے میں بتائے اور نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس پر دباؤ ڈال سکے۔ البتہ بعض خاص احوال میں خود اللہ تعالیٰ ہی کی یہ منشا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی کی زبان سے جاری ہونے والی ایک قابلِ لحاظ درخواست کو عزت قبول عطا فرمائے۔
قیامت میں اصل اہمیت اس کی ہوگی کہ کون شخص خود کیا لے کر آیا ہے۔ جس شخص نے موجودہ دنیا میں اپنی زندگی ناحق پر کھڑی کی ہوگی اس کا آخرت میں ناکام ہونا یقینی ہے۔ وہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنھوں نے حالت غیب میں اپنے رب کو پہچانا اور اپنی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھال لیا۔
فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ يَا مُوسَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کو جو آگ نظر آئی وہ عام قسم کی آگ نہ تھی بلکہ خدا کی تجلی تھی۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں احساس دلایا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کو تواضع کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے جوتا اتارنے کا حکم ہوا۔ پھر آواز آئی کہ اس وقت تم خدا سے ہم کلام ہو اور خدا نے تم کو اپنی پیغمبری کے لیے چنا ہے۔
اس وقت حضرت موسیٰ کو جو تعلیم دی گئی وہ وہی تھی جو تمام پیغمبروں کو ہمیشہ تعلیم کی گئی ہے۔ یعنی ایک خدا کو معبود بنانا۔ اسی کی عبادت کرنا۔ اسی کو ہر موقع پر یاد رکھنا۔ پھر حضرت موسیٰ کو زندگی کی اس حقیقت کی خبر دی گئی کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ ایک خاص مدت تک کے لیے خدا نے حقیقتوں کو غیب میں چھپا دیا ہے۔ قیامت میں یہ پردہ پھٹ جائے گا۔ اس کے بعد انسانی زندگی کا اگلا دور شروع ہوگا جس میں ہر آدمی اس عمل کے مطابق مقام پائے گا جو اس نے موجودہ دنیا میں کیا تھا۔
جب ایک آدمی پر خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر دنیا کے راستوں میںچل پڑتا ہے تو وہ اپنے اس فعل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کرتا ہے۔ وہ اپنی روش کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کو سن کر دوسرے لوگ بھی آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو اپنے بارے میں سخت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ وہ خدا سے غافل اور آخرت فراموش لوگوں کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوجائے۔ یا ان کی خوب صورت باتوں کے فریب میں آکر آخرت پسندانہ زندگی کو کھو بیٹھے۔
يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا
📘 سفارش کا مستقل بالذا ت مؤثر ہونا سراسر باطل ہے۔خدا نہ تو بندوں کے احوال سے بے خبر ہے کہ کوئی اس کو کسی کے بارے میں بتائے اور نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس پر دباؤ ڈال سکے۔ البتہ بعض خاص احوال میں خود اللہ تعالیٰ ہی کی یہ منشا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی کی زبان سے جاری ہونے والی ایک قابلِ لحاظ درخواست کو عزت قبول عطا فرمائے۔
قیامت میں اصل اہمیت اس کی ہوگی کہ کون شخص خود کیا لے کر آیا ہے۔ جس شخص نے موجودہ دنیا میں اپنی زندگی ناحق پر کھڑی کی ہوگی اس کا آخرت میں ناکام ہونا یقینی ہے۔ وہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنھوں نے حالت غیب میں اپنے رب کو پہچانا اور اپنی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھال لیا۔
۞ وَعَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا
📘 سفارش کا مستقل بالذا ت مؤثر ہونا سراسر باطل ہے۔خدا نہ تو بندوں کے احوال سے بے خبر ہے کہ کوئی اس کو کسی کے بارے میں بتائے اور نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس پر دباؤ ڈال سکے۔ البتہ بعض خاص احوال میں خود اللہ تعالیٰ ہی کی یہ منشا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی کی زبان سے جاری ہونے والی ایک قابلِ لحاظ درخواست کو عزت قبول عطا فرمائے۔
قیامت میں اصل اہمیت اس کی ہوگی کہ کون شخص خود کیا لے کر آیا ہے۔ جس شخص نے موجودہ دنیا میں اپنی زندگی ناحق پر کھڑی کی ہوگی اس کا آخرت میں ناکام ہونا یقینی ہے۔ وہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنھوں نے حالت غیب میں اپنے رب کو پہچانا اور اپنی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھال لیا۔
وَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا يَخَافُ ظُلْمًا وَلَا هَضْمًا
📘 سفارش کا مستقل بالذا ت مؤثر ہونا سراسر باطل ہے۔خدا نہ تو بندوں کے احوال سے بے خبر ہے کہ کوئی اس کو کسی کے بارے میں بتائے اور نہ وہ کمزور ہے کہ کوئی اس پر دباؤ ڈال سکے۔ البتہ بعض خاص احوال میں خود اللہ تعالیٰ ہی کی یہ منشا ہوسکتی ہے کہ وہ کسی کی زبان سے جاری ہونے والی ایک قابلِ لحاظ درخواست کو عزت قبول عطا فرمائے۔
قیامت میں اصل اہمیت اس کی ہوگی کہ کون شخص خود کیا لے کر آیا ہے۔ جس شخص نے موجودہ دنیا میں اپنی زندگی ناحق پر کھڑی کی ہوگی اس کا آخرت میں ناکام ہونا یقینی ہے۔ وہاں صرف وہی لوگ کامیاب ہوں گے جنھوں نے حالت غیب میں اپنے رب کو پہچانا اور اپنی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق ڈھال لیا۔
وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا
📘 خدا نے اپنی کتاب جس میں ہر قسم کے دلائل ہیں، انسانی زبان میں اتاری ہے۔ اور اس زبان کو ہمیشہ کے لیے ایک زندہ زبان بنا دیا ہے۔ اس طرح خدا کی ہدایت کو ایک ایسی چیز بنا دیا گیا ہے جس کو ہر زمانہ کا آدمی پڑھ اور سمجھ سکے۔
داعی جب حق کی دعوت لے کر اٹھے تو اس کے سامنے نتیجہ کے اعتبار سے دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ پہلی مطلوب چیز تو یہ ہے کہ سننے والے کے اندر نفسیاتی انقلاب پیدا ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے والا بن جائے۔ دوسری اس سے کمتر بات يه ہے کہ داعی کی بات سننے والے کے ذہن میں سوال بن کر داخل ہوجائے۔
مکہ میں دعوتی مہم کے دوران روزانہ لوگوں کی طرف سے سوالات اٹھائے جاتے تھے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش فطری طور پر یہ ہوتی تھی کہ قرآن کا وقفۂ نزول کم ہو،تا کہ آپ کو جلد جلد خدائی رہنمائی ملتی رہے۔ فرمایا کہ قرآن جس تدریج سے اتر رہا ہے وہ خدا کا طے شدہ منصوبہ ہے۔ وہ اسی طرح اترے گا اور بہر حال اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔ تم مستقبل کے قرآن کو حال میں اتارنے کے خواہش مندنہ بنو۔ البتہ یہ دعا کرو کہ خدا تمھارے فہم قرآن میں اضافہ کرے۔ قرآن کی آیتوں میں جو وسیع مضامین چھپے ہوئے ہیں ان کا ادراک کرنے کی صلاحیت پیدا کردے۔ قرآن کی اگلی آیتوں کے بارے میں تعمیل کے بجائے تمھیں اس حکمت کو جاننے کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ قرآن کے نزول میں ترتیب وتدریج کیوں رکھی گئی ہے۔
اس سے یہ نکلتاہے کہ داعی کو کبھی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہيے۔ دعوت کے حالات میں جہاد کے مسائل بیان کرنا۔ اصلاحِ افراد کے دور میں اجتماعی اقدام کے احکام سنانا۔ جن مواقع پر صبرمطلوب ہے ان مواقع پر قتال کی آیتوں کے حوالے دینا، یہ سب اسی کے ذیل میں داخل ہے۔ اور اس سے پرہیز کرنا داعی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔
فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۗ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ ۖ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا
📘 خدا نے اپنی کتاب جس میں ہر قسم کے دلائل ہیں، انسانی زبان میں اتاری ہے۔ اور اس زبان کو ہمیشہ کے لیے ایک زندہ زبان بنا دیا ہے۔ اس طرح خدا کی ہدایت کو ایک ایسی چیز بنا دیا گیا ہے جس کو ہر زمانہ کا آدمی پڑھ اور سمجھ سکے۔
داعی جب حق کی دعوت لے کر اٹھے تو اس کے سامنے نتیجہ کے اعتبار سے دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ پہلی مطلوب چیز تو یہ ہے کہ سننے والے کے اندر نفسیاتی انقلاب پیدا ہو اور وہ اللہ سے ڈرنے والا بن جائے۔ دوسری اس سے کمتر بات يه ہے کہ داعی کی بات سننے والے کے ذہن میں سوال بن کر داخل ہوجائے۔
مکہ میں دعوتی مہم کے دوران روزانہ لوگوں کی طرف سے سوالات اٹھائے جاتے تھے اور نئے نئے مسائل پیدا ہوتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش فطری طور پر یہ ہوتی تھی کہ قرآن کا وقفۂ نزول کم ہو،تا کہ آپ کو جلد جلد خدائی رہنمائی ملتی رہے۔ فرمایا کہ قرآن جس تدریج سے اتر رہا ہے وہ خدا کا طے شدہ منصوبہ ہے۔ وہ اسی طرح اترے گا اور بہر حال اپنی تکمیل تک پہنچے گا۔ تم مستقبل کے قرآن کو حال میں اتارنے کے خواہش مندنہ بنو۔ البتہ یہ دعا کرو کہ خدا تمھارے فہم قرآن میں اضافہ کرے۔ قرآن کی آیتوں میں جو وسیع مضامین چھپے ہوئے ہیں ان کا ادراک کرنے کی صلاحیت پیدا کردے۔ قرآن کی اگلی آیتوں کے بارے میں تعمیل کے بجائے تمھیں اس حکمت کو جاننے کا خواہش مند ہونا چاہیے کہ قرآن کے نزول میں ترتیب وتدریج کیوں رکھی گئی ہے۔
اس سے یہ نکلتاہے کہ داعی کو کبھی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہيے۔ دعوت کے حالات میں جہاد کے مسائل بیان کرنا۔ اصلاحِ افراد کے دور میں اجتماعی اقدام کے احکام سنانا۔ جن مواقع پر صبرمطلوب ہے ان مواقع پر قتال کی آیتوں کے حوالے دینا، یہ سب اسی کے ذیل میں داخل ہے۔ اور اس سے پرہیز کرنا داعی کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔
وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا
📘 خدا کے حکم پر قائم رہنے کے لیے مضبوط ارادہ انتہائی طورپر ضروری ہے۔ آدمی اگر غیر متعلق چیزوں سے متاثر ہو جایا کرے تو وہ یقیناً خدا کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ خدا کے راستہ پر قائم رہنے کے لیے صرف خداکے حکم کو جاننا کافی نہیں، بلکہ یہ عزم بھی لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی حکم خداوندی کے خلاف باتوں سے مزاحمت کرے اور ان کو اپنے اوپر اثر انداز نہ ہونے دے۔
خدا نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتے فوراً سجدہ میں گر گئے۔ مگر شیطان نے سجدہ نہیں کیا۔ اس فرق کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرشتوں نے اس معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھا۔اس کے برعکس، ابلیس نے اس کو انسان کا معاملہ سمجھا ۔جب معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھا جائے تو آدمی کے لیے ایک ہی ممکن صورت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ مگر جب معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھ لیا جائے تو آدمی یہ کرے گا کہ وہ سامنے کے انسان کو دیکھے گا۔ اگر وہ اس سے طاقت ور ہے تو وہ جھک جائے گا۔ اور اگر وہ اس سے طاقت ور نہیں ہے تو وہ جھکنے سے انکار کردے گا، خواہ حق کا واضح تقاضا یہی ہو کہ وہ اس کے آگے اپنے آپ کو جھکا دے۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ
📘 خدا کے حکم پر قائم رہنے کے لیے مضبوط ارادہ انتہائی طورپر ضروری ہے۔ آدمی اگر غیر متعلق چیزوں سے متاثر ہو جایا کرے تو وہ یقیناً خدا کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ خدا کے راستہ پر قائم رہنے کے لیے صرف خداکے حکم کو جاننا کافی نہیں، بلکہ یہ عزم بھی لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی حکم خداوندی کے خلاف باتوں سے مزاحمت کرے اور ان کو اپنے اوپر اثر انداز نہ ہونے دے۔
خدا نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتے فوراً سجدہ میں گر گئے۔ مگر شیطان نے سجدہ نہیں کیا۔ اس فرق کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرشتوں نے اس معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھا۔اس کے برعکس، ابلیس نے اس کو انسان کا معاملہ سمجھا ۔جب معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھا جائے تو آدمی کے لیے ایک ہی ممکن صورت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ مگر جب معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھ لیا جائے تو آدمی یہ کرے گا کہ وہ سامنے کے انسان کو دیکھے گا۔ اگر وہ اس سے طاقت ور ہے تو وہ جھک جائے گا۔ اور اگر وہ اس سے طاقت ور نہیں ہے تو وہ جھکنے سے انکار کردے گا، خواہ حق کا واضح تقاضا یہی ہو کہ وہ اس کے آگے اپنے آپ کو جھکا دے۔
فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ
📘 خدا کے حکم پر قائم رہنے کے لیے مضبوط ارادہ انتہائی طورپر ضروری ہے۔ آدمی اگر غیر متعلق چیزوں سے متاثر ہو جایا کرے تو وہ یقیناً خدا کے راستے سے ہٹ جائے گا۔ خدا کے راستہ پر قائم رہنے کے لیے صرف خداکے حکم کو جاننا کافی نہیں، بلکہ یہ عزم بھی لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی حکم خداوندی کے خلاف باتوں سے مزاحمت کرے اور ان کو اپنے اوپر اثر انداز نہ ہونے دے۔
خدا نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو فرشتے فوراً سجدہ میں گر گئے۔ مگر شیطان نے سجدہ نہیں کیا۔ اس فرق کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرشتوں نے اس معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھا۔اس کے برعکس، ابلیس نے اس کو انسان کا معاملہ سمجھا ۔جب معاملہ کو خدا کا معاملہ سمجھا جائے تو آدمی کے لیے ایک ہی ممکن صورت ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ وہ اس کی اطاعت کرے۔ مگر جب معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھ لیا جائے تو آدمی یہ کرے گا کہ وہ سامنے کے انسان کو دیکھے گا۔ اگر وہ اس سے طاقت ور ہے تو وہ جھک جائے گا۔ اور اگر وہ اس سے طاقت ور نہیں ہے تو وہ جھکنے سے انکار کردے گا، خواہ حق کا واضح تقاضا یہی ہو کہ وہ اس کے آگے اپنے آپ کو جھکا دے۔
إِنَّ لَكَ أَلَّا تَجُوعَ فِيهَا وَلَا تَعْرَىٰ
📘 آدم اور ان کی بیوی کو جس جنت میں رکھا گیا تھا وہاں زندگی کی تمام ضرورتیں ان کو بفراغت حاصل تھیں۔ غذا، لباس، پانی، سایہ (مکان) یہ سب چیزیں وہاں خدا کی طرف سے بالکل مفت مہیا کی گئی تھیں۔ موجودہ دنیا میں یہ چیزیں آدمی کو پُرمشقت کسب کے ذریعہ ملتی ہیں، جنت میں یہ چیزیں ان کو کسی مشقت کے بغیر حاصل تھیں۔
ایک درخت کا پھل کھانا آدم کے لیے ممنوع تھا۔ شیطان نے اس درخت کے پھل میں ابدی فائدے بتائے۔ بالآخر آدم اس کی باتوں سے متأثر ہوگئے اور انھوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہوگئے ہیں۔ یہ گویا ایک علامت تھی کہ خدا کی وہ ضمانت ان سے اٹھالی گئی جس کی وجہ سے وہ اب تک بلا کسب روزی کے مالک تھے۔ اس کے بعد توبہ اور دعا کی وجہ سے آدم کی معافی ہوگئی۔ تاہم وہ بلا کسب کی روزی والی دنیا سے نکال کر کسب کی روزی والی دنیا میں پہنچا دئے گئے۔ اس طرح زمین پر موجودہ نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
وَأَنَّكَ لَا تَظْمَأُ فِيهَا وَلَا تَضْحَىٰ
📘 آدم اور ان کی بیوی کو جس جنت میں رکھا گیا تھا وہاں زندگی کی تمام ضرورتیں ان کو بفراغت حاصل تھیں۔ غذا، لباس، پانی، سایہ (مکان) یہ سب چیزیں وہاں خدا کی طرف سے بالکل مفت مہیا کی گئی تھیں۔ موجودہ دنیا میں یہ چیزیں آدمی کو پُرمشقت کسب کے ذریعہ ملتی ہیں، جنت میں یہ چیزیں ان کو کسی مشقت کے بغیر حاصل تھیں۔
ایک درخت کا پھل کھانا آدم کے لیے ممنوع تھا۔ شیطان نے اس درخت کے پھل میں ابدی فائدے بتائے۔ بالآخر آدم اس کی باتوں سے متأثر ہوگئے اور انھوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہوگئے ہیں۔ یہ گویا ایک علامت تھی کہ خدا کی وہ ضمانت ان سے اٹھالی گئی جس کی وجہ سے وہ اب تک بلا کسب روزی کے مالک تھے۔ اس کے بعد توبہ اور دعا کی وجہ سے آدم کی معافی ہوگئی۔ تاہم وہ بلا کسب کی روزی والی دنیا سے نکال کر کسب کی روزی والی دنیا میں پہنچا دئے گئے۔ اس طرح زمین پر موجودہ نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ ۖ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى
📘 حضرت موسیٰ کو جو آگ نظر آئی وہ عام قسم کی آگ نہ تھی بلکہ خدا کی تجلی تھی۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں احساس دلایا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کو تواضع کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے جوتا اتارنے کا حکم ہوا۔ پھر آواز آئی کہ اس وقت تم خدا سے ہم کلام ہو اور خدا نے تم کو اپنی پیغمبری کے لیے چنا ہے۔
اس وقت حضرت موسیٰ کو جو تعلیم دی گئی وہ وہی تھی جو تمام پیغمبروں کو ہمیشہ تعلیم کی گئی ہے۔ یعنی ایک خدا کو معبود بنانا۔ اسی کی عبادت کرنا۔ اسی کو ہر موقع پر یاد رکھنا۔ پھر حضرت موسیٰ کو زندگی کی اس حقیقت کی خبر دی گئی کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ ایک خاص مدت تک کے لیے خدا نے حقیقتوں کو غیب میں چھپا دیا ہے۔ قیامت میں یہ پردہ پھٹ جائے گا۔ اس کے بعد انسانی زندگی کا اگلا دور شروع ہوگا جس میں ہر آدمی اس عمل کے مطابق مقام پائے گا جو اس نے موجودہ دنیا میں کیا تھا۔
جب ایک آدمی پر خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر دنیا کے راستوں میںچل پڑتا ہے تو وہ اپنے اس فعل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کرتا ہے۔ وہ اپنی روش کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کو سن کر دوسرے لوگ بھی آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو اپنے بارے میں سخت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ وہ خدا سے غافل اور آخرت فراموش لوگوں کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوجائے۔ یا ان کی خوب صورت باتوں کے فریب میں آکر آخرت پسندانہ زندگی کو کھو بیٹھے۔
فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ قَالَ يَا آدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَىٰ شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَىٰ
📘 آدم اور ان کی بیوی کو جس جنت میں رکھا گیا تھا وہاں زندگی کی تمام ضرورتیں ان کو بفراغت حاصل تھیں۔ غذا، لباس، پانی، سایہ (مکان) یہ سب چیزیں وہاں خدا کی طرف سے بالکل مفت مہیا کی گئی تھیں۔ موجودہ دنیا میں یہ چیزیں آدمی کو پُرمشقت کسب کے ذریعہ ملتی ہیں، جنت میں یہ چیزیں ان کو کسی مشقت کے بغیر حاصل تھیں۔
ایک درخت کا پھل کھانا آدم کے لیے ممنوع تھا۔ شیطان نے اس درخت کے پھل میں ابدی فائدے بتائے۔ بالآخر آدم اس کی باتوں سے متأثر ہوگئے اور انھوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہوگئے ہیں۔ یہ گویا ایک علامت تھی کہ خدا کی وہ ضمانت ان سے اٹھالی گئی جس کی وجہ سے وہ اب تک بلا کسب روزی کے مالک تھے۔ اس کے بعد توبہ اور دعا کی وجہ سے آدم کی معافی ہوگئی۔ تاہم وہ بلا کسب کی روزی والی دنیا سے نکال کر کسب کی روزی والی دنیا میں پہنچا دئے گئے۔ اس طرح زمین پر موجودہ نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ ۚ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ
📘 آدم اور ان کی بیوی کو جس جنت میں رکھا گیا تھا وہاں زندگی کی تمام ضرورتیں ان کو بفراغت حاصل تھیں۔ غذا، لباس، پانی، سایہ (مکان) یہ سب چیزیں وہاں خدا کی طرف سے بالکل مفت مہیا کی گئی تھیں۔ موجودہ دنیا میں یہ چیزیں آدمی کو پُرمشقت کسب کے ذریعہ ملتی ہیں، جنت میں یہ چیزیں ان کو کسی مشقت کے بغیر حاصل تھیں۔
ایک درخت کا پھل کھانا آدم کے لیے ممنوع تھا۔ شیطان نے اس درخت کے پھل میں ابدی فائدے بتائے۔ بالآخر آدم اس کی باتوں سے متأثر ہوگئے اور انھوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہوگئے ہیں۔ یہ گویا ایک علامت تھی کہ خدا کی وہ ضمانت ان سے اٹھالی گئی جس کی وجہ سے وہ اب تک بلا کسب روزی کے مالک تھے۔ اس کے بعد توبہ اور دعا کی وجہ سے آدم کی معافی ہوگئی۔ تاہم وہ بلا کسب کی روزی والی دنیا سے نکال کر کسب کی روزی والی دنیا میں پہنچا دئے گئے۔ اس طرح زمین پر موجودہ نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَىٰ
📘 آدم اور ان کی بیوی کو جس جنت میں رکھا گیا تھا وہاں زندگی کی تمام ضرورتیں ان کو بفراغت حاصل تھیں۔ غذا، لباس، پانی، سایہ (مکان) یہ سب چیزیں وہاں خدا کی طرف سے بالکل مفت مہیا کی گئی تھیں۔ موجودہ دنیا میں یہ چیزیں آدمی کو پُرمشقت کسب کے ذریعہ ملتی ہیں، جنت میں یہ چیزیں ان کو کسی مشقت کے بغیر حاصل تھیں۔
ایک درخت کا پھل کھانا آدم کے لیے ممنوع تھا۔ شیطان نے اس درخت کے پھل میں ابدی فائدے بتائے۔ بالآخر آدم اس کی باتوں سے متأثر ہوگئے اور انھوں نے اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے فوراً بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ننگے ہوگئے ہیں۔ یہ گویا ایک علامت تھی کہ خدا کی وہ ضمانت ان سے اٹھالی گئی جس کی وجہ سے وہ اب تک بلا کسب روزی کے مالک تھے۔ اس کے بعد توبہ اور دعا کی وجہ سے آدم کی معافی ہوگئی۔ تاہم وہ بلا کسب کی روزی والی دنیا سے نکال کر کسب کی روزی والی دنیا میں پہنچا دئے گئے۔ اس طرح زمین پر موجودہ نسل انسانی کا آغاز ہوا۔
قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ
📘 خدانے آدم اور ابلیس دونوں کو زمین پر بسایا۔ اس نے ابتدا ہی میں یہ تنبیہ کردی کہ قیامت تک تم دونوں کے درمیان ایک دوسرے سےمقابلہ جاری رہے گا۔ ابلیس انسانی نسل کو بہکانے میں اپنی ساری کوشش لگا دے گا۔ اس کے جواب میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا دشمن ابلیس کو سمجھے اور اس کے وسوسوں سے آخری حد تک دور رہنے کی کوشش کرے۔
انسان کی مزید ہدایت کے لیے خدا نے یہ انتظام کیا کہ مسلسل اپنے پیغمبر بھیجے جو انسان کی قابل فہم زبان میں اس کو زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتے رہے۔اب انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ پیغمبر کی ہدایت کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ جو شخص اس کو مانے گا اس کو دوبارہ جنت کی راحت سے بھری ہوئی زندگی دے دی جائے گی۔ اور جو شخص نہیں مانے گا اس کی زندگی سخت ترین زندگی ہوگی جس سے وہ کبھی نکل نہ سکے گا۔
ہدایت سے اعراض کرنے والے لوگ آخرت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ دونوں آنکھوں سے اندھے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آنکھیں اس لیے دی گئی تھیں کہ وہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اسے پہچانیں مگر ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے سامنے خدا کی نشانیاں آئیں اور انھوں نے ان کو نہیں پہچانا۔ اس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔ پھر خدا فرمائے گا کہ ایسے اندھوں کو آنکھ دینے کی کیا ضرورت۔
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ
📘 خدانے آدم اور ابلیس دونوں کو زمین پر بسایا۔ اس نے ابتدا ہی میں یہ تنبیہ کردی کہ قیامت تک تم دونوں کے درمیان ایک دوسرے سےمقابلہ جاری رہے گا۔ ابلیس انسانی نسل کو بہکانے میں اپنی ساری کوشش لگا دے گا۔ اس کے جواب میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا دشمن ابلیس کو سمجھے اور اس کے وسوسوں سے آخری حد تک دور رہنے کی کوشش کرے۔
انسان کی مزید ہدایت کے لیے خدا نے یہ انتظام کیا کہ مسلسل اپنے پیغمبر بھیجے جو انسان کی قابل فہم زبان میں اس کو زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتے رہے۔اب انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ پیغمبر کی ہدایت کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ جو شخص اس کو مانے گا اس کو دوبارہ جنت کی راحت سے بھری ہوئی زندگی دے دی جائے گی۔ اور جو شخص نہیں مانے گا اس کی زندگی سخت ترین زندگی ہوگی جس سے وہ کبھی نکل نہ سکے گا۔
ہدایت سے اعراض کرنے والے لوگ آخرت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ دونوں آنکھوں سے اندھے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آنکھیں اس لیے دی گئی تھیں کہ وہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اسے پہچانیں مگر ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے سامنے خدا کی نشانیاں آئیں اور انھوں نے ان کو نہیں پہچانا۔ اس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔ پھر خدا فرمائے گا کہ ایسے اندھوں کو آنکھ دینے کی کیا ضرورت۔
قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا
📘 خدانے آدم اور ابلیس دونوں کو زمین پر بسایا۔ اس نے ابتدا ہی میں یہ تنبیہ کردی کہ قیامت تک تم دونوں کے درمیان ایک دوسرے سےمقابلہ جاری رہے گا۔ ابلیس انسانی نسل کو بہکانے میں اپنی ساری کوشش لگا دے گا۔ اس کے جواب میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا دشمن ابلیس کو سمجھے اور اس کے وسوسوں سے آخری حد تک دور رہنے کی کوشش کرے۔
انسان کی مزید ہدایت کے لیے خدا نے یہ انتظام کیا کہ مسلسل اپنے پیغمبر بھیجے جو انسان کی قابل فہم زبان میں اس کو زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتے رہے۔اب انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ پیغمبر کی ہدایت کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ جو شخص اس کو مانے گا اس کو دوبارہ جنت کی راحت سے بھری ہوئی زندگی دے دی جائے گی۔ اور جو شخص نہیں مانے گا اس کی زندگی سخت ترین زندگی ہوگی جس سے وہ کبھی نکل نہ سکے گا۔
ہدایت سے اعراض کرنے والے لوگ آخرت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ دونوں آنکھوں سے اندھے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آنکھیں اس لیے دی گئی تھیں کہ وہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اسے پہچانیں مگر ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے سامنے خدا کی نشانیاں آئیں اور انھوں نے ان کو نہیں پہچانا۔ اس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔ پھر خدا فرمائے گا کہ ایسے اندھوں کو آنکھ دینے کی کیا ضرورت۔
قَالَ كَذَٰلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا ۖ وَكَذَٰلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَىٰ
📘 خدانے آدم اور ابلیس دونوں کو زمین پر بسایا۔ اس نے ابتدا ہی میں یہ تنبیہ کردی کہ قیامت تک تم دونوں کے درمیان ایک دوسرے سےمقابلہ جاری رہے گا۔ ابلیس انسانی نسل کو بہکانے میں اپنی ساری کوشش لگا دے گا۔ اس کے جواب میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا دشمن ابلیس کو سمجھے اور اس کے وسوسوں سے آخری حد تک دور رہنے کی کوشش کرے۔
انسان کی مزید ہدایت کے لیے خدا نے یہ انتظام کیا کہ مسلسل اپنے پیغمبر بھیجے جو انسان کی قابل فہم زبان میں اس کو زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتے رہے۔اب انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ پیغمبر کی ہدایت کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ جو شخص اس کو مانے گا اس کو دوبارہ جنت کی راحت سے بھری ہوئی زندگی دے دی جائے گی۔ اور جو شخص نہیں مانے گا اس کی زندگی سخت ترین زندگی ہوگی جس سے وہ کبھی نکل نہ سکے گا۔
ہدایت سے اعراض کرنے والے لوگ آخرت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ دونوں آنکھوں سے اندھے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آنکھیں اس لیے دی گئی تھیں کہ وہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اسے پہچانیں مگر ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے سامنے خدا کی نشانیاں آئیں اور انھوں نے ان کو نہیں پہچانا۔ اس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔ پھر خدا فرمائے گا کہ ایسے اندھوں کو آنکھ دینے کی کیا ضرورت۔
وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ ۚ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَىٰ
📘 خدانے آدم اور ابلیس دونوں کو زمین پر بسایا۔ اس نے ابتدا ہی میں یہ تنبیہ کردی کہ قیامت تک تم دونوں کے درمیان ایک دوسرے سےمقابلہ جاری رہے گا۔ ابلیس انسانی نسل کو بہکانے میں اپنی ساری کوشش لگا دے گا۔ اس کے جواب میں انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنا سب سے بڑا دشمن ابلیس کو سمجھے اور اس کے وسوسوں سے آخری حد تک دور رہنے کی کوشش کرے۔
انسان کی مزید ہدایت کے لیے خدا نے یہ انتظام کیا کہ مسلسل اپنے پیغمبر بھیجے جو انسان کی قابل فہم زبان میں اس کو زندگی کی حقیقت سے باخبر کرتے رہے۔اب انسان کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ پیغمبر کی ہدایت کو مانتا ہے یا نہیں مانتا۔ جو شخص اس کو مانے گا اس کو دوبارہ جنت کی راحت سے بھری ہوئی زندگی دے دی جائے گی۔ اور جو شخص نہیں مانے گا اس کی زندگی سخت ترین زندگی ہوگی جس سے وہ کبھی نکل نہ سکے گا۔
ہدایت سے اعراض کرنے والے لوگ آخرت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ دونوں آنکھوں سے اندھے ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو آنکھیں اس لیے دی گئی تھیں کہ وہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اسے پہچانیں مگر ان کا حال یہ ہوا کہ ان کے سامنے خدا کی نشانیاں آئیں اور انھوں نے ان کو نہیں پہچانا۔ اس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ آنکھ رکھتے ہوئے بھی اندھے ہیں۔ پھر خدا فرمائے گا کہ ایسے اندھوں کو آنکھ دینے کی کیا ضرورت۔
أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَىٰ
📘 کسی قوم کو زمین پرعروج حاصل ہو اور پھر وہ ہلاک یا مغلوب کر دی جائے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ اس نے بندگی کی حد سے تجاوز کیا۔ ہر تباہ شدہ قوم اپنے بعد والوں کے لیے درس عبرت ہوتی ہے۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس طرح کے واقعات سے درس حاصل کرتے ہوں۔
یہاں تسبیح اور نماز کی جو تلقین کی گئی ہے وہ مکی دور کے انتہائی سخت حالات میں کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ انکار اور مخالفت کے سخت ترین حالات میں نماز اور خدا کی یاد مومن کی ڈھال ہے۔ اس سے راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اور فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس سے سب کچھ اتنی بڑی مقدار میں مل جاتا ہے کہ آدمی اس کو پاکر راضی ہوجائے۔
وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَكَانَ لِزَامًا وَأَجَلٌ مُسَمًّى
📘 کسی قوم کو زمین پرعروج حاصل ہو اور پھر وہ ہلاک یا مغلوب کر دی جائے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ اس نے بندگی کی حد سے تجاوز کیا۔ ہر تباہ شدہ قوم اپنے بعد والوں کے لیے درس عبرت ہوتی ہے۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس طرح کے واقعات سے درس حاصل کرتے ہوں۔
یہاں تسبیح اور نماز کی جو تلقین کی گئی ہے وہ مکی دور کے انتہائی سخت حالات میں کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ انکار اور مخالفت کے سخت ترین حالات میں نماز اور خدا کی یاد مومن کی ڈھال ہے۔ اس سے راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اور فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس سے سب کچھ اتنی بڑی مقدار میں مل جاتا ہے کہ آدمی اس کو پاکر راضی ہوجائے۔
وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کو جو آگ نظر آئی وہ عام قسم کی آگ نہ تھی بلکہ خدا کی تجلی تھی۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں احساس دلایا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کو تواضع کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے جوتا اتارنے کا حکم ہوا۔ پھر آواز آئی کہ اس وقت تم خدا سے ہم کلام ہو اور خدا نے تم کو اپنی پیغمبری کے لیے چنا ہے۔
اس وقت حضرت موسیٰ کو جو تعلیم دی گئی وہ وہی تھی جو تمام پیغمبروں کو ہمیشہ تعلیم کی گئی ہے۔ یعنی ایک خدا کو معبود بنانا۔ اسی کی عبادت کرنا۔ اسی کو ہر موقع پر یاد رکھنا۔ پھر حضرت موسیٰ کو زندگی کی اس حقیقت کی خبر دی گئی کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ ایک خاص مدت تک کے لیے خدا نے حقیقتوں کو غیب میں چھپا دیا ہے۔ قیامت میں یہ پردہ پھٹ جائے گا۔ اس کے بعد انسانی زندگی کا اگلا دور شروع ہوگا جس میں ہر آدمی اس عمل کے مطابق مقام پائے گا جو اس نے موجودہ دنیا میں کیا تھا۔
جب ایک آدمی پر خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر دنیا کے راستوں میںچل پڑتا ہے تو وہ اپنے اس فعل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کرتا ہے۔ وہ اپنی روش کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کو سن کر دوسرے لوگ بھی آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو اپنے بارے میں سخت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ وہ خدا سے غافل اور آخرت فراموش لوگوں کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوجائے۔ یا ان کی خوب صورت باتوں کے فریب میں آکر آخرت پسندانہ زندگی کو کھو بیٹھے۔
فَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ۖ وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَىٰ
📘 کسی قوم کو زمین پرعروج حاصل ہو اور پھر وہ ہلاک یا مغلوب کر دی جائے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ اس نے بندگی کی حد سے تجاوز کیا۔ ہر تباہ شدہ قوم اپنے بعد والوں کے لیے درس عبرت ہوتی ہے۔ مگر بہت کم لوگ ہیں جو اس طرح کے واقعات سے درس حاصل کرتے ہوں۔
یہاں تسبیح اور نماز کی جو تلقین کی گئی ہے وہ مکی دور کے انتہائی سخت حالات میں کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ انکار اور مخالفت کے سخت ترین حالات میں نماز اور خدا کی یاد مومن کی ڈھال ہے۔ اس سے راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ اور فتوحات کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس سے سب کچھ اتنی بڑی مقدار میں مل جاتا ہے کہ آدمی اس کو پاکر راضی ہوجائے۔
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ ۚ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
📘 ان آیات کا خطاب اگر چہ بظاہر پیغمبر سے ہے مگر اس کے مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ دنیا میں ایک شخص ایمان اور دعوت کی زندگی اختیار کرتاہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی زندگی مشقتوں کی زندگی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ جو لوگ اس قسم کی ذمہ داریوں سے آزاد ہیں وہ آرام اور راحت میں اپنے صبح وشام گزاررہے ہیں۔ اس صورت حال کو نمایاں کرکے شیطان آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ وہ مومن اور داعی کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتاہے۔
لیکن گہرائی سے دیکھا جائے تو اس ظاہری فرق کے آگے ایک اور فرق ہے اور وہ فرق زیادہ قابل لحاظ ہے۔وہ فرق یہ کہ دنیا پرست لوگوں کو جو چیز ملی ہے وہ محض امتحان کے لیے ہے اور سراسر وقتی ہے۔ اس کے بعد ابدی زندگی میں ان کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری طرف مومن اور داعی کو خدا سے وابستگی اختیار کرنے کے نتیجہ میں جو چیز ملی ہے وہ تمام دنیا کی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ ہے — اللہ کی یاد، آخرت کی فکر، عبادت اور تقویٰ کی زندگی، خدا کے بندوں کو آخرت کی پکڑ سے بچانے کے لیے فکر مند ہونا۔ یہ بھی رزق ہے۔ اور یہ زیادہ اعلیٰ رزق ہے کیوں کہ وہ آخرت میںایسی بے حساب نعمتوں کی شکل میں آدمی کی طرف لوٹے گا جوکبھی ختم ہونے والی نہیں۔
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ
📘 ان آیات کا خطاب اگر چہ بظاہر پیغمبر سے ہے مگر اس کے مخاطب تمام اہلِ ایمان ہیں۔ دنیا میں ایک شخص ایمان اور دعوت کی زندگی اختیار کرتاہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی زندگی مشقتوں کی زندگی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ جو لوگ اس قسم کی ذمہ داریوں سے آزاد ہیں وہ آرام اور راحت میں اپنے صبح وشام گزاررہے ہیں۔ اس صورت حال کو نمایاں کرکے شیطان آدمی کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ وہ مومن اور داعی کو متزلزل کرنے کی کوشش کرتاہے۔
لیکن گہرائی سے دیکھا جائے تو اس ظاہری فرق کے آگے ایک اور فرق ہے اور وہ فرق زیادہ قابل لحاظ ہے۔وہ فرق یہ کہ دنیا پرست لوگوں کو جو چیز ملی ہے وہ محض امتحان کے لیے ہے اور سراسر وقتی ہے۔ اس کے بعد ابدی زندگی میں ان کے لیے کچھ نہیں۔ دوسری طرف مومن اور داعی کو خدا سے وابستگی اختیار کرنے کے نتیجہ میں جو چیز ملی ہے وہ تمام دنیا کی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ ہے — اللہ کی یاد، آخرت کی فکر، عبادت اور تقویٰ کی زندگی، خدا کے بندوں کو آخرت کی پکڑ سے بچانے کے لیے فکر مند ہونا۔ یہ بھی رزق ہے۔ اور یہ زیادہ اعلیٰ رزق ہے کیوں کہ وہ آخرت میںایسی بے حساب نعمتوں کی شکل میں آدمی کی طرف لوٹے گا جوکبھی ختم ہونے والی نہیں۔
وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا بِآيَةٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ مَا فِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ
📘 پیغمبر آخر الزماں کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا کہ پچھلے نبیوں کی زبان سے آپ کی آمد کا پیشگی اعلان کیا۔ یہ پیشین گوئیاں آج بھی تمام تحریفات کے باوجود، پچھلی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ پیغمبر آخر الزماں کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ مگر دلیل کی قوت کو سمجھنے کے لیے سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
وَلَوْ أَنَّا أَهْلَكْنَاهُمْ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَىٰ
📘 پیغمبر آخر الزماں کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا کہ پچھلے نبیوں کی زبان سے آپ کی آمد کا پیشگی اعلان کیا۔ یہ پیشین گوئیاں آج بھی تمام تحریفات کے باوجود، پچھلی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ پیغمبر آخر الزماں کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ مگر دلیل کی قوت کو سمجھنے کے لیے سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
قُلْ كُلٌّ مُتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحَابُ الصِّرَاطِ السَّوِيِّ وَمَنِ اهْتَدَىٰ
📘 پیغمبر آخر الزماں کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام کیا کہ پچھلے نبیوں کی زبان سے آپ کی آمد کا پیشگی اعلان کیا۔ یہ پیشین گوئیاں آج بھی تمام تحریفات کے باوجود، پچھلی آسمانی کتابوں میں موجود ہیں۔ یہ پیغمبر آخر الزماں کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ مگر دلیل کی قوت کو سمجھنے کے لیے سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
📘 حضرت موسیٰ کو جو آگ نظر آئی وہ عام قسم کی آگ نہ تھی بلکہ خدا کی تجلی تھی۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں احساس دلایا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کو تواضع کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے جوتا اتارنے کا حکم ہوا۔ پھر آواز آئی کہ اس وقت تم خدا سے ہم کلام ہو اور خدا نے تم کو اپنی پیغمبری کے لیے چنا ہے۔
اس وقت حضرت موسیٰ کو جو تعلیم دی گئی وہ وہی تھی جو تمام پیغمبروں کو ہمیشہ تعلیم کی گئی ہے۔ یعنی ایک خدا کو معبود بنانا۔ اسی کی عبادت کرنا۔ اسی کو ہر موقع پر یاد رکھنا۔ پھر حضرت موسیٰ کو زندگی کی اس حقیقت کی خبر دی گئی کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ ایک خاص مدت تک کے لیے خدا نے حقیقتوں کو غیب میں چھپا دیا ہے۔ قیامت میں یہ پردہ پھٹ جائے گا۔ اس کے بعد انسانی زندگی کا اگلا دور شروع ہوگا جس میں ہر آدمی اس عمل کے مطابق مقام پائے گا جو اس نے موجودہ دنیا میں کیا تھا۔
جب ایک آدمی پر خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر دنیا کے راستوں میںچل پڑتا ہے تو وہ اپنے اس فعل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کرتا ہے۔ وہ اپنی روش کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کو سن کر دوسرے لوگ بھی آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو اپنے بارے میں سخت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ وہ خدا سے غافل اور آخرت فراموش لوگوں کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوجائے۔ یا ان کی خوب صورت باتوں کے فریب میں آکر آخرت پسندانہ زندگی کو کھو بیٹھے۔
إِنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کو جو آگ نظر آئی وہ عام قسم کی آگ نہ تھی بلکہ خدا کی تجلی تھی۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں احساس دلایا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کو تواضع کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے جوتا اتارنے کا حکم ہوا۔ پھر آواز آئی کہ اس وقت تم خدا سے ہم کلام ہو اور خدا نے تم کو اپنی پیغمبری کے لیے چنا ہے۔
اس وقت حضرت موسیٰ کو جو تعلیم دی گئی وہ وہی تھی جو تمام پیغمبروں کو ہمیشہ تعلیم کی گئی ہے۔ یعنی ایک خدا کو معبود بنانا۔ اسی کی عبادت کرنا۔ اسی کو ہر موقع پر یاد رکھنا۔ پھر حضرت موسیٰ کو زندگی کی اس حقیقت کی خبر دی گئی کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ ایک خاص مدت تک کے لیے خدا نے حقیقتوں کو غیب میں چھپا دیا ہے۔ قیامت میں یہ پردہ پھٹ جائے گا۔ اس کے بعد انسانی زندگی کا اگلا دور شروع ہوگا جس میں ہر آدمی اس عمل کے مطابق مقام پائے گا جو اس نے موجودہ دنیا میں کیا تھا۔
جب ایک آدمی پر خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر دنیا کے راستوں میںچل پڑتا ہے تو وہ اپنے اس فعل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کرتا ہے۔ وہ اپنی روش کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کو سن کر دوسرے لوگ بھی آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو اپنے بارے میں سخت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ وہ خدا سے غافل اور آخرت فراموش لوگوں کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوجائے۔ یا ان کی خوب صورت باتوں کے فریب میں آکر آخرت پسندانہ زندگی کو کھو بیٹھے۔
فَلَا يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کو جو آگ نظر آئی وہ عام قسم کی آگ نہ تھی بلکہ خدا کی تجلی تھی۔چنانچہ جب وہ وہاں پہنچے تو انھیں احساس دلایا گیا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ ان کو تواضع کے ساتھ پوری طرح متوجہ ہونے کے لیے جوتا اتارنے کا حکم ہوا۔ پھر آواز آئی کہ اس وقت تم خدا سے ہم کلام ہو اور خدا نے تم کو اپنی پیغمبری کے لیے چنا ہے۔
اس وقت حضرت موسیٰ کو جو تعلیم دی گئی وہ وہی تھی جو تمام پیغمبروں کو ہمیشہ تعلیم کی گئی ہے۔ یعنی ایک خدا کو معبود بنانا۔ اسی کی عبادت کرنا۔ اسی کو ہر موقع پر یاد رکھنا۔ پھر حضرت موسیٰ کو زندگی کی اس حقیقت کی خبر دی گئی کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ ایک خاص مدت تک کے لیے خدا نے حقیقتوں کو غیب میں چھپا دیا ہے۔ قیامت میں یہ پردہ پھٹ جائے گا۔ اس کے بعد انسانی زندگی کا اگلا دور شروع ہوگا جس میں ہر آدمی اس عمل کے مطابق مقام پائے گا جو اس نے موجودہ دنیا میں کیا تھا۔
جب ایک آدمی پر خواہشوں کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ آخرت سے بے پروا ہو کر دنیا کے راستوں میںچل پڑتا ہے تو وہ اپنے اس فعل کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے نظریات وضع کرتا ہے۔ وہ اپنی روش کو خوب صورت الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ اس کو سن کر دوسرے لوگ بھی آخرت سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ایسی حالت میں مومن کو اپنے بارے میں سخت چوکنّا رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے کہ وہ خدا سے غافل اور آخرت فراموش لوگوں کو دیکھ کر ان سے متاثر ہوجائے۔ یا ان کی خوب صورت باتوں کے فریب میں آکر آخرت پسندانہ زندگی کو کھو بیٹھے۔
وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَىٰ
📘 ’’تمھارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘— یہ سوال حضرت موسیٰ کے شعور کو زندہ کرنے کے لیے تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ تاکہ اگلے لمحہ جب وہ خدا کی قدرت سے سانپ بن جائے تو وہ پوری طرح اس کی قدروقیمت کا احساس کرسکیں۔
حضرت موسیٰ کی لکڑی کا سانپ بن جانا ویسا ہی ایک انوکھا واقعہ تھا جیسا مٹی اور پانی کا لکڑی بن جانا۔ وہ سب کچھ جو ہم زمین پر دیکھ رہے ہیں وہ سب ایک چیز سے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کا ہی دوسرا نام ہے— گیس کا پانی میں تبدیل ہونا، مٹی کا درخت میں تبدیل ہونا، وغیرہ۔ عام حالات میں تبدیلی کا یہ عمل تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان اس کو محسوس نہیں کر پاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی نے دفعۃً سانپ کی صورت اختیار کرلی اس لیے وہ عجیب معلوم ہونے لگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے یا ہورہا ہے وہ سب کا سب خدا کا معجزہ ہے۔ خواہ وہ زمین سے لکڑی کا نکلنا ہو یا لکڑی کا سانپ بن جانا۔ پیغمبروں کے ذریعہ ’’غیر معمولی‘‘ معجزہ صرف اس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ آدمی ’’معمولی‘‘ معجزات کو دیکھنے کے قابل ہوجائے۔
قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَىٰ غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَىٰ
📘 ’’تمھارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘— یہ سوال حضرت موسیٰ کے شعور کو زندہ کرنے کے لیے تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ تاکہ اگلے لمحہ جب وہ خدا کی قدرت سے سانپ بن جائے تو وہ پوری طرح اس کی قدروقیمت کا احساس کرسکیں۔
حضرت موسیٰ کی لکڑی کا سانپ بن جانا ویسا ہی ایک انوکھا واقعہ تھا جیسا مٹی اور پانی کا لکڑی بن جانا۔ وہ سب کچھ جو ہم زمین پر دیکھ رہے ہیں وہ سب ایک چیز سے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کا ہی دوسرا نام ہے— گیس کا پانی میں تبدیل ہونا، مٹی کا درخت میں تبدیل ہونا، وغیرہ۔ عام حالات میں تبدیلی کا یہ عمل تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان اس کو محسوس نہیں کر پاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی نے دفعۃً سانپ کی صورت اختیار کرلی اس لیے وہ عجیب معلوم ہونے لگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے یا ہورہا ہے وہ سب کا سب خدا کا معجزہ ہے۔ خواہ وہ زمین سے لکڑی کا نکلنا ہو یا لکڑی کا سانپ بن جانا۔ پیغمبروں کے ذریعہ ’’غیر معمولی‘‘ معجزہ صرف اس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ آدمی ’’معمولی‘‘ معجزات کو دیکھنے کے قابل ہوجائے۔
قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَىٰ
📘 ’’تمھارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘— یہ سوال حضرت موسیٰ کے شعور کو زندہ کرنے کے لیے تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ تاکہ اگلے لمحہ جب وہ خدا کی قدرت سے سانپ بن جائے تو وہ پوری طرح اس کی قدروقیمت کا احساس کرسکیں۔
حضرت موسیٰ کی لکڑی کا سانپ بن جانا ویسا ہی ایک انوکھا واقعہ تھا جیسا مٹی اور پانی کا لکڑی بن جانا۔ وہ سب کچھ جو ہم زمین پر دیکھ رہے ہیں وہ سب ایک چیز سے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کا ہی دوسرا نام ہے— گیس کا پانی میں تبدیل ہونا، مٹی کا درخت میں تبدیل ہونا، وغیرہ۔ عام حالات میں تبدیلی کا یہ عمل تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان اس کو محسوس نہیں کر پاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی نے دفعۃً سانپ کی صورت اختیار کرلی اس لیے وہ عجیب معلوم ہونے لگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے یا ہورہا ہے وہ سب کا سب خدا کا معجزہ ہے۔ خواہ وہ زمین سے لکڑی کا نکلنا ہو یا لکڑی کا سانپ بن جانا۔ پیغمبروں کے ذریعہ ’’غیر معمولی‘‘ معجزہ صرف اس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ آدمی ’’معمولی‘‘ معجزات کو دیکھنے کے قابل ہوجائے۔
مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقَىٰ
📘 قرآن اگرچہ صرف ایک یاد دہانی ہے۔ مگر وہ مدعوکے لیے قابل حجت یاد دہانی اس وقت بنتاہے جب کہ اس کی دعوت دینے والا اپنے آپ کو اس کی راہ میں کھپا دے۔ دوسروں کی خیر خواہی میں وہ اپنے آپ کو اس حد تک نظر انداز کردے کہ یہ کہا جائے کہ اس نے تو لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیا۔
تاہم دعوت کو خواہ کتنا ہی کامل اور معیار ی انداز میں پیش کردیا جائے، عملاً اس سے ہدایت صرف اس بندۂ خدا کو ملتی ہے جو حق شناس ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ دلیل کی سطح پر بات کا واضح ہونا ہی اس کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہوجائے۔
جس ہستی نے عالم کی تخلیق کی ہے اسی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے قرآن اور فطرت میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن ایک ایسی حقیقت کی یاددہانی ہے جس کو پہچاننے کی صلاحیت فطرت انسانی کے اندر پہلے سے موجود ہے۔
فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَىٰ
📘 ’’تمھارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘— یہ سوال حضرت موسیٰ کے شعور کو زندہ کرنے کے لیے تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ تاکہ اگلے لمحہ جب وہ خدا کی قدرت سے سانپ بن جائے تو وہ پوری طرح اس کی قدروقیمت کا احساس کرسکیں۔
حضرت موسیٰ کی لکڑی کا سانپ بن جانا ویسا ہی ایک انوکھا واقعہ تھا جیسا مٹی اور پانی کا لکڑی بن جانا۔ وہ سب کچھ جو ہم زمین پر دیکھ رہے ہیں وہ سب ایک چیز سے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کا ہی دوسرا نام ہے— گیس کا پانی میں تبدیل ہونا، مٹی کا درخت میں تبدیل ہونا، وغیرہ۔ عام حالات میں تبدیلی کا یہ عمل تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان اس کو محسوس نہیں کر پاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی نے دفعۃً سانپ کی صورت اختیار کرلی اس لیے وہ عجیب معلوم ہونے لگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے یا ہورہا ہے وہ سب کا سب خدا کا معجزہ ہے۔ خواہ وہ زمین سے لکڑی کا نکلنا ہو یا لکڑی کا سانپ بن جانا۔ پیغمبروں کے ذریعہ ’’غیر معمولی‘‘ معجزہ صرف اس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ آدمی ’’معمولی‘‘ معجزات کو دیکھنے کے قابل ہوجائے۔
قَالَ خُذْهَا وَلَا تَخَفْ ۖ سَنُعِيدُهَا سِيرَتَهَا الْأُولَىٰ
📘 ’’تمھارے ہاتھ میں کیا ہے‘‘— یہ سوال حضرت موسیٰ کے شعور کو زندہ کرنے کے لیے تھا۔اس کا مقصد یہ تھا کہ لاٹھی کا لاٹھی ہونا حضرت موسیٰ کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔ تاکہ اگلے لمحہ جب وہ خدا کی قدرت سے سانپ بن جائے تو وہ پوری طرح اس کی قدروقیمت کا احساس کرسکیں۔
حضرت موسیٰ کی لکڑی کا سانپ بن جانا ویسا ہی ایک انوکھا واقعہ تھا جیسا مٹی اور پانی کا لکڑی بن جانا۔ وہ سب کچھ جو ہم زمین پر دیکھ رہے ہیں وہ سب ایک چیز سے دوسری چیز میں تبدیل ہوجانے کا ہی دوسرا نام ہے— گیس کا پانی میں تبدیل ہونا، مٹی کا درخت میں تبدیل ہونا، وغیرہ۔ عام حالات میں تبدیلی کا یہ عمل تدریجی طورپر ہوتا ہے۔ اس لیے انسان اس کو محسوس نہیں کر پاتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی نے دفعۃً سانپ کی صورت اختیار کرلی اس لیے وہ عجیب معلوم ہونے لگی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے یا ہورہا ہے وہ سب کا سب خدا کا معجزہ ہے۔ خواہ وہ زمین سے لکڑی کا نکلنا ہو یا لکڑی کا سانپ بن جانا۔ پیغمبروں کے ذریعہ ’’غیر معمولی‘‘ معجزہ صرف اس لیے دکھایا جاتا ہے تاکہ آدمی ’’معمولی‘‘ معجزات کو دیکھنے کے قابل ہوجائے۔
وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلَىٰ جَنَاحِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ آيَةً أُخْرَىٰ
📘 پچھلے نبیوں کے واقعات بائبل میں بھی ہیں اور قرآن میں بھی۔ مگر بہت سے مقامات پر قرآن اور بائبل میں بہت بامعنیٰ فرق ہے۔ مثلاً یہاں بائبل میں ہے — موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج،
4:7
)
بائبل حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کو ’’کوڑھ‘‘ بتارہی ہے۔ ایسی حالت میں قرآن میں یدِ بیضاء (چمكتا هاتھ) کے معجزہ کو بیان کرتے ہوئے ’’掀 䊀 삂 ‘‘ کا اضافہ واضح طورپر بتارہا ہے کہ قرآن بائبل سے ماخوذ نہیں۔ بلکہ یہ خدائے عالم الغیب کی طرف سے ہے جو بائبل کی تحریفات کی تصحیح کررہاہے۔
حضرت موسیٰ کو دو خاص معجزے دئے گئے۔ سانپ کا معجزہ آپ کے لیے گویا طاقت کی علامت تھا۔ اور یدِ بیضاء کا معجزہ اس بات کی علامت کہ آپ ایک روشن صداقت پر قائم ہیں۔
فرعون کا حد سے گزرجانا یہ تھا کہ اس کو اقتدار ملا تو اس نے اپنے کو خدا سمجھ لیا۔ فرعون کے لفظی معنی ہیں سورج کی اولاد۔ قدیم مصری سورج کو سب سے بڑا دیوتا (رب اعلیٰ) سمجھتے تھے۔ چنانچہ فرعون نے اپنے کو سورج دیوتا کا زمینی مظہر بتایا۔ اس نے اپنے اسٹیچو اور بت بنوا کر مصر کے تمام شہروں میں رکھوا دئے جو باقاعدہ پوجے جاتے تھے۔
اقتدار خدا کی ایک نعمت ہے۔ اس نعمت کو پاکر آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرنا چاہیے۔ مگر سرکش انسان اقتدار کو پاکر خود اپنے آپ کو خدا سمجھ لیتا ہے۔
لِنُرِيَكَ مِنْ آيَاتِنَا الْكُبْرَى
📘 پچھلے نبیوں کے واقعات بائبل میں بھی ہیں اور قرآن میں بھی۔ مگر بہت سے مقامات پر قرآن اور بائبل میں بہت بامعنیٰ فرق ہے۔ مثلاً یہاں بائبل میں ہے — موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج،
4:7
)
بائبل حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کو ’’کوڑھ‘‘ بتارہی ہے۔ ایسی حالت میں قرآن میں یدِ بیضاء (چمكتا هاتھ) کے معجزہ کو بیان کرتے ہوئے ’’掀 䊀 삂 ‘‘ کا اضافہ واضح طورپر بتارہا ہے کہ قرآن بائبل سے ماخوذ نہیں۔ بلکہ یہ خدائے عالم الغیب کی طرف سے ہے جو بائبل کی تحریفات کی تصحیح کررہاہے۔
حضرت موسیٰ کو دو خاص معجزے دئے گئے۔ سانپ کا معجزہ آپ کے لیے گویا طاقت کی علامت تھا۔ اور یدِ بیضاء کا معجزہ اس بات کی علامت کہ آپ ایک روشن صداقت پر قائم ہیں۔
فرعون کا حد سے گزرجانا یہ تھا کہ اس کو اقتدار ملا تو اس نے اپنے کو خدا سمجھ لیا۔ فرعون کے لفظی معنی ہیں سورج کی اولاد۔ قدیم مصری سورج کو سب سے بڑا دیوتا (رب اعلیٰ) سمجھتے تھے۔ چنانچہ فرعون نے اپنے کو سورج دیوتا کا زمینی مظہر بتایا۔ اس نے اپنے اسٹیچو اور بت بنوا کر مصر کے تمام شہروں میں رکھوا دئے جو باقاعدہ پوجے جاتے تھے۔
اقتدار خدا کی ایک نعمت ہے۔ اس نعمت کو پاکر آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرنا چاہیے۔ مگر سرکش انسان اقتدار کو پاکر خود اپنے آپ کو خدا سمجھ لیتا ہے۔
اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ
📘 پچھلے نبیوں کے واقعات بائبل میں بھی ہیں اور قرآن میں بھی۔ مگر بہت سے مقامات پر قرآن اور بائبل میں بہت بامعنیٰ فرق ہے۔ مثلاً یہاں بائبل میں ہے — موسیٰ نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج،
4:7
)
بائبل حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کو ’’کوڑھ‘‘ بتارہی ہے۔ ایسی حالت میں قرآن میں یدِ بیضاء (چمكتا هاتھ) کے معجزہ کو بیان کرتے ہوئے ’’掀 䊀 삂 ‘‘ کا اضافہ واضح طورپر بتارہا ہے کہ قرآن بائبل سے ماخوذ نہیں۔ بلکہ یہ خدائے عالم الغیب کی طرف سے ہے جو بائبل کی تحریفات کی تصحیح کررہاہے۔
حضرت موسیٰ کو دو خاص معجزے دئے گئے۔ سانپ کا معجزہ آپ کے لیے گویا طاقت کی علامت تھا۔ اور یدِ بیضاء کا معجزہ اس بات کی علامت کہ آپ ایک روشن صداقت پر قائم ہیں۔
فرعون کا حد سے گزرجانا یہ تھا کہ اس کو اقتدار ملا تو اس نے اپنے کو خدا سمجھ لیا۔ فرعون کے لفظی معنی ہیں سورج کی اولاد۔ قدیم مصری سورج کو سب سے بڑا دیوتا (رب اعلیٰ) سمجھتے تھے۔ چنانچہ فرعون نے اپنے کو سورج دیوتا کا زمینی مظہر بتایا۔ اس نے اپنے اسٹیچو اور بت بنوا کر مصر کے تمام شہروں میں رکھوا دئے جو باقاعدہ پوجے جاتے تھے۔
اقتدار خدا کی ایک نعمت ہے۔ اس نعمت کو پاکر آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرنا چاہیے۔ مگر سرکش انسان اقتدار کو پاکر خود اپنے آپ کو خدا سمجھ لیتا ہے۔
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
يَفْقَهُوا قَوْلِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَىٰ
📘 قرآن اگرچہ صرف ایک یاد دہانی ہے۔ مگر وہ مدعوکے لیے قابل حجت یاد دہانی اس وقت بنتاہے جب کہ اس کی دعوت دینے والا اپنے آپ کو اس کی راہ میں کھپا دے۔ دوسروں کی خیر خواہی میں وہ اپنے آپ کو اس حد تک نظر انداز کردے کہ یہ کہا جائے کہ اس نے تو لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیا۔
تاہم دعوت کو خواہ کتنا ہی کامل اور معیار ی انداز میں پیش کردیا جائے، عملاً اس سے ہدایت صرف اس بندۂ خدا کو ملتی ہے جو حق شناس ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ دلیل کی سطح پر بات کا واضح ہونا ہی اس کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہوجائے۔
جس ہستی نے عالم کی تخلیق کی ہے اسی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے قرآن اور فطرت میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن ایک ایسی حقیقت کی یاددہانی ہے جس کو پہچاننے کی صلاحیت فطرت انسانی کے اندر پہلے سے موجود ہے۔
هَارُونَ أَخِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
اشْدُدْ بِهِ أَزْرِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
كَيْ نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًا
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ
📘 پیغمبری ملنے کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے اندراحساس فخر پیداہو۔ مگراس وقت انھوںنے جو کچھ اللہ سے مانگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوںنے پیغمبری کو فخر کی چیزنہیں سمجھا بلکہ ذمہ داری کی چیز سمجھا۔ اس وقت انھوںنے جو الفاظ کہے وہ سب وہ ہیں جو دعوت کی نازک ذمہ داری کا احساس کرنے والے کی زبان سے نکلتے ہیں۔
داعی کے لیے سینہ کا کھلنا یہ ہے کہ حسب موقع اس کے اندر مؤثر مضامین کاورود ہو۔ معاملہ کا آسان ہونا یہ ہے کہ مخالفین کبھی دعوت کی راہ بند کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ زبان کی گرہ کھلنا یہ ہے کہ بڑے سے بڑے مجمع ميں بلاجھجھک دعوت پیش کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیغمبرانہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے یہ سب کچھ دیا۔ اسی کے ساتھ ان کی درخواست کے مطابق ان کے بھائی کو ان کے لیے ایک طاقت ور معاون بنادیا۔
نصرت کا یہ خصوصی معاملہ جو پیغمبر کے ساتھ کیا گیا یہی غیر پیغمبر داعی کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔ بشرطیکہ وہ دعوت کے کام سے اپنے آپ کو اس طرح کامل طور پر وابستہ کرے جس طرح پیغمبر نے اپنے آپ کو کامل طور پر وابستہ کیا تھا۔
’’تسبیح اور ذکر‘‘ ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ مگر تسبیح اور ذکر سے مراد زبان سے کچھ مخصوص الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ اس سے مراد وہ کیفیت ہے جو حق کی یافت کے بعد بالکل قدرتی طورپر پیدا ہوتی ہے۔ اس وقت انسان کا وجود اللہ کے صفاتِ کمال کا اس طرح تجربہ کرتاہے کہ وہ اس میں نہا اٹھتا ہے۔ وہ خدائی احساس سے اس طرح سرشار ہوتاہے کہ وہ اس کا مبلغ بن جاتا ہے۔
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً أُخْرَىٰ
📘 مصر کے اصل باشندے قبطی تھےجن کا سیاسی اور مذہبی نمائندہ فرعون تھا۔ وہاں کی دوسری قوم بنی اسرائیل تھی جو حضرت یوسف کے زمانے میں باہر سے آکر یہاں آباد ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ جس زمانہ میں بنی اسرائیل کے ایک گھر میں پیدا ہوئے۔ اس زمانہ میں فرعون نے اسرائیل کی نسل ختم کرنے کے لیے یہ حکم دے دیا تھا کہ اسرائیل کے گھروں میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کردیے جائیں۔ حضرت موسیٰ کی ماں نے بچہ کو قتل سے بچانے کے لیے خدائی الہام کے تحت یہ کیا کہ اس کو ٹوکری میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔
یہ ٹوکری بہتے ہوئے فرعون کے محل کے پاس پہنچی۔ وہاں فرعون اور اس کی بیوی نے اس کو دیکھا تو ان کو چھوٹے بچہ پررحم آگیا۔ انھوں نے اس کو نکال کر محل کے اندر رکھ لیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کی بہن کی نشان دہی پر آپ کی ماں آپ کو دودھ پلانے کے لیے مقرر ہوئیں۔یہ خدا کا ایک کرشمہ ہے کہ جس فرعون کو موسیٰ کا سب سے بڑا دشمن بننا تھا اسی فرعون کے ذریعہ حضرت موسیٰ کی پرورش اور تربیت کرائی گئی۔
حضرت موسیٰ بڑے ہوئے تو ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کے جھگڑے میں انھوں نے قبطی کو تنبيہہ کی۔ غیرمتوقع طورپر وہ قبطی مر گیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ موسیٰ کو گرفتار کرلیاجائے۔ مگر حضرت موسیٰ خفیہ طور پر مصر سے نکل کر مدین پہنچ گئے۔ وہاں کے صحرائی ماحول میں وہ زندگی کے مزید تجربات سے آشنا ہوئے۔ قبطی کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی دعائیں کیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کو ان کے لیے مزید تربیت اور تعلیم کا ذریعہ بنا دیا۔
إِذْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّكَ مَا يُوحَىٰ
📘 مصر کے اصل باشندے قبطی تھےجن کا سیاسی اور مذہبی نمائندہ فرعون تھا۔ وہاں کی دوسری قوم بنی اسرائیل تھی جو حضرت یوسف کے زمانے میں باہر سے آکر یہاں آباد ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ جس زمانہ میں بنی اسرائیل کے ایک گھر میں پیدا ہوئے۔ اس زمانہ میں فرعون نے اسرائیل کی نسل ختم کرنے کے لیے یہ حکم دے دیا تھا کہ اسرائیل کے گھروں میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کردیے جائیں۔ حضرت موسیٰ کی ماں نے بچہ کو قتل سے بچانے کے لیے خدائی الہام کے تحت یہ کیا کہ اس کو ٹوکری میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔
یہ ٹوکری بہتے ہوئے فرعون کے محل کے پاس پہنچی۔ وہاں فرعون اور اس کی بیوی نے اس کو دیکھا تو ان کو چھوٹے بچہ پررحم آگیا۔ انھوں نے اس کو نکال کر محل کے اندر رکھ لیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کی بہن کی نشان دہی پر آپ کی ماں آپ کو دودھ پلانے کے لیے مقرر ہوئیں۔یہ خدا کا ایک کرشمہ ہے کہ جس فرعون کو موسیٰ کا سب سے بڑا دشمن بننا تھا اسی فرعون کے ذریعہ حضرت موسیٰ کی پرورش اور تربیت کرائی گئی۔
حضرت موسیٰ بڑے ہوئے تو ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کے جھگڑے میں انھوں نے قبطی کو تنبيہہ کی۔ غیرمتوقع طورپر وہ قبطی مر گیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ موسیٰ کو گرفتار کرلیاجائے۔ مگر حضرت موسیٰ خفیہ طور پر مصر سے نکل کر مدین پہنچ گئے۔ وہاں کے صحرائی ماحول میں وہ زندگی کے مزید تجربات سے آشنا ہوئے۔ قبطی کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی دعائیں کیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کو ان کے لیے مزید تربیت اور تعلیم کا ذریعہ بنا دیا۔
أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَأْخُذْهُ عَدُوٌّ لِي وَعَدُوٌّ لَهُ ۚ وَأَلْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي وَلِتُصْنَعَ عَلَىٰ عَيْنِي
📘 مصر کے اصل باشندے قبطی تھےجن کا سیاسی اور مذہبی نمائندہ فرعون تھا۔ وہاں کی دوسری قوم بنی اسرائیل تھی جو حضرت یوسف کے زمانے میں باہر سے آکر یہاں آباد ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ جس زمانہ میں بنی اسرائیل کے ایک گھر میں پیدا ہوئے۔ اس زمانہ میں فرعون نے اسرائیل کی نسل ختم کرنے کے لیے یہ حکم دے دیا تھا کہ اسرائیل کے گھروں میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کردیے جائیں۔ حضرت موسیٰ کی ماں نے بچہ کو قتل سے بچانے کے لیے خدائی الہام کے تحت یہ کیا کہ اس کو ٹوکری میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔
یہ ٹوکری بہتے ہوئے فرعون کے محل کے پاس پہنچی۔ وہاں فرعون اور اس کی بیوی نے اس کو دیکھا تو ان کو چھوٹے بچہ پررحم آگیا۔ انھوں نے اس کو نکال کر محل کے اندر رکھ لیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کی بہن کی نشان دہی پر آپ کی ماں آپ کو دودھ پلانے کے لیے مقرر ہوئیں۔یہ خدا کا ایک کرشمہ ہے کہ جس فرعون کو موسیٰ کا سب سے بڑا دشمن بننا تھا اسی فرعون کے ذریعہ حضرت موسیٰ کی پرورش اور تربیت کرائی گئی۔
حضرت موسیٰ بڑے ہوئے تو ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کے جھگڑے میں انھوں نے قبطی کو تنبيہہ کی۔ غیرمتوقع طورپر وہ قبطی مر گیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ موسیٰ کو گرفتار کرلیاجائے۔ مگر حضرت موسیٰ خفیہ طور پر مصر سے نکل کر مدین پہنچ گئے۔ وہاں کے صحرائی ماحول میں وہ زندگی کے مزید تجربات سے آشنا ہوئے۔ قبطی کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی دعائیں کیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کو ان کے لیے مزید تربیت اور تعلیم کا ذریعہ بنا دیا۔
تَنْزِيلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَى
📘 قرآن اگرچہ صرف ایک یاد دہانی ہے۔ مگر وہ مدعوکے لیے قابل حجت یاد دہانی اس وقت بنتاہے جب کہ اس کی دعوت دینے والا اپنے آپ کو اس کی راہ میں کھپا دے۔ دوسروں کی خیر خواہی میں وہ اپنے آپ کو اس حد تک نظر انداز کردے کہ یہ کہا جائے کہ اس نے تو لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیا۔
تاہم دعوت کو خواہ کتنا ہی کامل اور معیار ی انداز میں پیش کردیا جائے، عملاً اس سے ہدایت صرف اس بندۂ خدا کو ملتی ہے جو حق شناس ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ دلیل کی سطح پر بات کا واضح ہونا ہی اس کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہوجائے۔
جس ہستی نے عالم کی تخلیق کی ہے اسی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے قرآن اور فطرت میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن ایک ایسی حقیقت کی یاددہانی ہے جس کو پہچاننے کی صلاحیت فطرت انسانی کے اندر پہلے سے موجود ہے۔
إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَنْ يَكْفُلُهُ ۖ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ ۚ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا ۚ فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ
📘 مصر کے اصل باشندے قبطی تھےجن کا سیاسی اور مذہبی نمائندہ فرعون تھا۔ وہاں کی دوسری قوم بنی اسرائیل تھی جو حضرت یوسف کے زمانے میں باہر سے آکر یہاں آباد ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ جس زمانہ میں بنی اسرائیل کے ایک گھر میں پیدا ہوئے۔ اس زمانہ میں فرعون نے اسرائیل کی نسل ختم کرنے کے لیے یہ حکم دے دیا تھا کہ اسرائیل کے گھروں میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کردیے جائیں۔ حضرت موسیٰ کی ماں نے بچہ کو قتل سے بچانے کے لیے خدائی الہام کے تحت یہ کیا کہ اس کو ٹوکری میں رکھ کر دریائے نیل میں ڈال دیا۔
یہ ٹوکری بہتے ہوئے فرعون کے محل کے پاس پہنچی۔ وہاں فرعون اور اس کی بیوی نے اس کو دیکھا تو ان کو چھوٹے بچہ پررحم آگیا۔ انھوں نے اس کو نکال کر محل کے اندر رکھ لیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ کی بہن کی نشان دہی پر آپ کی ماں آپ کو دودھ پلانے کے لیے مقرر ہوئیں۔یہ خدا کا ایک کرشمہ ہے کہ جس فرعون کو موسیٰ کا سب سے بڑا دشمن بننا تھا اسی فرعون کے ذریعہ حضرت موسیٰ کی پرورش اور تربیت کرائی گئی۔
حضرت موسیٰ بڑے ہوئے تو ایک قبطی اور ایک اسرائیلی کے جھگڑے میں انھوں نے قبطی کو تنبيہہ کی۔ غیرمتوقع طورپر وہ قبطی مر گیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ موسیٰ کو گرفتار کرلیاجائے۔ مگر حضرت موسیٰ خفیہ طور پر مصر سے نکل کر مدین پہنچ گئے۔ وہاں کے صحرائی ماحول میں وہ زندگی کے مزید تجربات سے آشنا ہوئے۔ قبطی کی ہلاکت کے بعد حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے غیر معمولی دعائیں کیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کو ان کے لیے مزید تربیت اور تعلیم کا ذریعہ بنا دیا۔
وَاصْطَنَعْتُكَ لِنَفْسِي
📘 مختلف تجربات سے گزر کر حضرت موسیٰ تکمیل شعورکے آخری مرحلہ میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پیغمبرانہ دعوت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس وقت حضرت موسیٰ کو دو خاص نصیحتیں کی گئیں۔ ایک خدا کے ذکر میں کمی نہ کرنا۔ دوسرے دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا۔
خدا کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے قلب ودماغ میں خدا کا یقین اس طرح شامل ہوگیا ہو کہ وہ بار بار اسے یاد آتا رہے۔ آدمی کا ہر مشاہدہ اور اس کی زندگی کا ہر واقعہ اس کے خدائی شعور سے جڑ کر اس کو جگانے والا بن جائے۔ عام انسان مادی غذاؤں پر جیتے ہیں۔ حق کا داعی خدا کی یاد میں جیتا ہے۔ خدا کی یاد مومن کا سرمایہ ہے اور اسی طرح داعی کا بھی۔
دوسری ضروری چیز دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا ہے۔ فرعون جیسے سرکش انسان کے سامنے بھیجتے ہوئے یہ ہدایت کا کرنا ثابت کرتاہے کہ دعوت کے لیے نرم اور حکیمانہ انداز مطلق طورپر مطلوب ہے۔ مدعو کی طرف سے کوئی بھی سختی یا سرکشی داعی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی دعوت میں نرمی اور شفقت کا انداز کھودے۔
اذْهَبْ أَنْتَ وَأَخُوكَ بِآيَاتِي وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي
📘 مختلف تجربات سے گزر کر حضرت موسیٰ تکمیل شعورکے آخری مرحلہ میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پیغمبرانہ دعوت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس وقت حضرت موسیٰ کو دو خاص نصیحتیں کی گئیں۔ ایک خدا کے ذکر میں کمی نہ کرنا۔ دوسرے دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا۔
خدا کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے قلب ودماغ میں خدا کا یقین اس طرح شامل ہوگیا ہو کہ وہ بار بار اسے یاد آتا رہے۔ آدمی کا ہر مشاہدہ اور اس کی زندگی کا ہر واقعہ اس کے خدائی شعور سے جڑ کر اس کو جگانے والا بن جائے۔ عام انسان مادی غذاؤں پر جیتے ہیں۔ حق کا داعی خدا کی یاد میں جیتا ہے۔ خدا کی یاد مومن کا سرمایہ ہے اور اسی طرح داعی کا بھی۔
دوسری ضروری چیز دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا ہے۔ فرعون جیسے سرکش انسان کے سامنے بھیجتے ہوئے یہ ہدایت کا کرنا ثابت کرتاہے کہ دعوت کے لیے نرم اور حکیمانہ انداز مطلق طورپر مطلوب ہے۔ مدعو کی طرف سے کوئی بھی سختی یا سرکشی داعی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی دعوت میں نرمی اور شفقت کا انداز کھودے۔
اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ
📘 مختلف تجربات سے گزر کر حضرت موسیٰ تکمیل شعورکے آخری مرحلہ میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پیغمبرانہ دعوت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس وقت حضرت موسیٰ کو دو خاص نصیحتیں کی گئیں۔ ایک خدا کے ذکر میں کمی نہ کرنا۔ دوسرے دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا۔
خدا کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے قلب ودماغ میں خدا کا یقین اس طرح شامل ہوگیا ہو کہ وہ بار بار اسے یاد آتا رہے۔ آدمی کا ہر مشاہدہ اور اس کی زندگی کا ہر واقعہ اس کے خدائی شعور سے جڑ کر اس کو جگانے والا بن جائے۔ عام انسان مادی غذاؤں پر جیتے ہیں۔ حق کا داعی خدا کی یاد میں جیتا ہے۔ خدا کی یاد مومن کا سرمایہ ہے اور اسی طرح داعی کا بھی۔
دوسری ضروری چیز دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا ہے۔ فرعون جیسے سرکش انسان کے سامنے بھیجتے ہوئے یہ ہدایت کا کرنا ثابت کرتاہے کہ دعوت کے لیے نرم اور حکیمانہ انداز مطلق طورپر مطلوب ہے۔ مدعو کی طرف سے کوئی بھی سختی یا سرکشی داعی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی دعوت میں نرمی اور شفقت کا انداز کھودے۔
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَيِّنًا لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ
📘 مختلف تجربات سے گزر کر حضرت موسیٰ تکمیل شعورکے آخری مرحلہ میں پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں پیغمبرانہ دعوت کی ذمہ داری سونپ دی۔ اس وقت حضرت موسیٰ کو دو خاص نصیحتیں کی گئیں۔ ایک خدا کے ذکر میں کمی نہ کرنا۔ دوسرے دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا۔
خدا کے ذکر سے مراد یہ ہے کہ آدمی کے قلب ودماغ میں خدا کا یقین اس طرح شامل ہوگیا ہو کہ وہ بار بار اسے یاد آتا رہے۔ آدمی کا ہر مشاہدہ اور اس کی زندگی کا ہر واقعہ اس کے خدائی شعور سے جڑ کر اس کو جگانے والا بن جائے۔ عام انسان مادی غذاؤں پر جیتے ہیں۔ حق کا داعی خدا کی یاد میں جیتا ہے۔ خدا کی یاد مومن کا سرمایہ ہے اور اسی طرح داعی کا بھی۔
دوسری ضروری چیز دعوت میں نرم انداز اختیار کرنا ہے۔ فرعون جیسے سرکش انسان کے سامنے بھیجتے ہوئے یہ ہدایت کا کرنا ثابت کرتاہے کہ دعوت کے لیے نرم اور حکیمانہ انداز مطلق طورپر مطلوب ہے۔ مدعو کی طرف سے کوئی بھی سختی یا سرکشی داعی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ اپنی دعوت میں نرمی اور شفقت کا انداز کھودے۔
قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَنْ يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَنْ يَطْغَىٰ
📘 فرعون نہایت متکبر تھا۔ اقتدار پاکر وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اندیشہ ہواکہ جب وہ دیکھے گا کہ اس کے سوا کسی اور خدا کا پیغام اس کو سنایا جارہا ہے تو وہ غصہ میں بھڑک اٹھے گا۔ مگر خدا کا پیغمبر مکمل طورپر خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ تم جاؤ اور یہ یقین رکھو کہ فرعون اپنی ساری طاقت اور جبروت کے باوجود تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
بنی اسرائیل قدیم زمانہ کے مسلمان تھے۔ وہ اصلاً ایک موحد قوم تھے۔ مگر مصر کی مشرک قوم کے درمیان رہتے ہوئے وہ مشرکانہ تہذیب سے بری طرح متاثر ہوگئے تھے۔ مزید یہ کہ مشرک حکمرانوں نے بنی اسرائیل کو اس طرح محنت مزدوری میں لگا رکھا تھا کہ وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ توحید اور آخرت کی اعلیٰ حقیقتوں کے بارے میں سوچ سکیں۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو مشرکانہ ماحول سے نکالو اور ان کو الگ خطہ زمین میںآباد کرو۔ تاکہ شرک اور جاہلیت کی فضا سے کٹ کر ان کی تربیت ممکن ہوسکے۔
قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ
📘 فرعون نہایت متکبر تھا۔ اقتدار پاکر وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اندیشہ ہواکہ جب وہ دیکھے گا کہ اس کے سوا کسی اور خدا کا پیغام اس کو سنایا جارہا ہے تو وہ غصہ میں بھڑک اٹھے گا۔ مگر خدا کا پیغمبر مکمل طورپر خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ تم جاؤ اور یہ یقین رکھو کہ فرعون اپنی ساری طاقت اور جبروت کے باوجود تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
بنی اسرائیل قدیم زمانہ کے مسلمان تھے۔ وہ اصلاً ایک موحد قوم تھے۔ مگر مصر کی مشرک قوم کے درمیان رہتے ہوئے وہ مشرکانہ تہذیب سے بری طرح متاثر ہوگئے تھے۔ مزید یہ کہ مشرک حکمرانوں نے بنی اسرائیل کو اس طرح محنت مزدوری میں لگا رکھا تھا کہ وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ توحید اور آخرت کی اعلیٰ حقیقتوں کے بارے میں سوچ سکیں۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو مشرکانہ ماحول سے نکالو اور ان کو الگ خطہ زمین میںآباد کرو۔ تاکہ شرک اور جاہلیت کی فضا سے کٹ کر ان کی تربیت ممکن ہوسکے۔
فَأْتِيَاهُ فَقُولَا إِنَّا رَسُولَا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا تُعَذِّبْهُمْ ۖ قَدْ جِئْنَاكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَىٰ
📘 فرعون نہایت متکبر تھا۔ اقتدار پاکر وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اندیشہ ہواکہ جب وہ دیکھے گا کہ اس کے سوا کسی اور خدا کا پیغام اس کو سنایا جارہا ہے تو وہ غصہ میں بھڑک اٹھے گا۔ مگر خدا کا پیغمبر مکمل طورپر خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ تم جاؤ اور یہ یقین رکھو کہ فرعون اپنی ساری طاقت اور جبروت کے باوجود تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
بنی اسرائیل قدیم زمانہ کے مسلمان تھے۔ وہ اصلاً ایک موحد قوم تھے۔ مگر مصر کی مشرک قوم کے درمیان رہتے ہوئے وہ مشرکانہ تہذیب سے بری طرح متاثر ہوگئے تھے۔ مزید یہ کہ مشرک حکمرانوں نے بنی اسرائیل کو اس طرح محنت مزدوری میں لگا رکھا تھا کہ وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ توحید اور آخرت کی اعلیٰ حقیقتوں کے بارے میں سوچ سکیں۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو مشرکانہ ماحول سے نکالو اور ان کو الگ خطہ زمین میںآباد کرو۔ تاکہ شرک اور جاہلیت کی فضا سے کٹ کر ان کی تربیت ممکن ہوسکے۔
إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَىٰ مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّىٰ
📘 فرعون نہایت متکبر تھا۔ اقتدار پاکر وہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو اندیشہ ہواکہ جب وہ دیکھے گا کہ اس کے سوا کسی اور خدا کا پیغام اس کو سنایا جارہا ہے تو وہ غصہ میں بھڑک اٹھے گا۔ مگر خدا کا پیغمبر مکمل طورپر خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے۔ اس لیے حکم ہوا کہ تم جاؤ اور یہ یقین رکھو کہ فرعون اپنی ساری طاقت اور جبروت کے باوجود تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
بنی اسرائیل قدیم زمانہ کے مسلمان تھے۔ وہ اصلاً ایک موحد قوم تھے۔ مگر مصر کی مشرک قوم کے درمیان رہتے ہوئے وہ مشرکانہ تہذیب سے بری طرح متاثر ہوگئے تھے۔ مزید یہ کہ مشرک حکمرانوں نے بنی اسرائیل کو اس طرح محنت مزدوری میں لگا رکھا تھا کہ وہ اس قابل نہیں رہے تھے کہ وہ توحید اور آخرت کی اعلیٰ حقیقتوں کے بارے میں سوچ سکیں۔ اس لیے حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو مشرکانہ ماحول سے نکالو اور ان کو الگ خطہ زمین میںآباد کرو۔ تاکہ شرک اور جاہلیت کی فضا سے کٹ کر ان کی تربیت ممکن ہوسکے۔
قَالَ فَمَنْ رَبُّكُمَا يَا مُوسَىٰ
📘 ’’تمھارا رب کون ہے‘‘— فرعون کا یہ جملہ اس معنی میں نہ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی خدا سے بے خبر تھا۔ یا کسی برتر خدا کا سرے سے قائل نہ تھا۔ اس کا یہ جملہ دراصل موسیٰ کی بات کی تحقیر تھا، نہ کہ اس کا سرے سے انکار۔
مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے توحید کی تبلیغ کی تھی۔اب بھی بنی اسرائیل وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے، جو خدائے واحد پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس طرح مصر میں اگرچہ خدائے برتر کا عقیدہ موجود تھا مگر عملاً وہاں سارا زور اور شان وشوکت فرعون کے گرد جمع تھي۔ وہ مصریوں کے عقیدہ کے مطابق ان کے سب سے بڑے دیوتا (سورج) کا زمینی مظہر تھا۔ وہ مصر کا اوتاربادشاہ (God-king) تھا اور اس کے بت اور اسٹیچو سارے مصر میں پرستش کی چیز بنے ہوئے تھے۔ اس کے مقابلہ میں موسیٰ بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے جو مصر میں غلاموں اور مزدوروں کی ایک قوم سمجھی جاتی تھی۔ اور اس بنا پر اس کا مذہبی عقیدہ بھی مصر میں ایک ناقابلِ ذکر عقیدہ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
دنیا میں بے شمار چیزیں ہیںمگر ہر چیز کی ایک منفرد بناوٹ ہے اور ہر چیز کا ایک متعین طریقِ عمل ہے۔ نہ اس بناوٹ میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اس طریقِ عمل میں۔ اس سے خود فرعون جیسا سرکش بادشاہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ یہ واقعہ واضح طورپر ایک بالا تر خالق کا وجود ثابت کرتاہے۔
حضرت موسیٰ نے یہ بات کہی تو فر عون نے محسوس کیا کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی براہِ راست جواب نہیں ہے۔ اب اس نے بات کو پھیر دیا۔ دلیل کے میدان میں اپنے کو کمزور پاکر اس نے چاہا کہ تعصب کے جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کے درمیان اپنی برتری قائم رکھے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر تمھاری بات صحیح ہے تو ہمارے پچھلے بڑوں کا انجام کیا ہوا جو تمھارے نظریہ کے مطابق گمراہ حالت میں مرگئے۔ حضرت موسیٰ نے اس کے جواب میں اعراض کا طریقہ اختیا رکیا۔ انھوںنے کہا کہ گزرے ہوئے لوگوں کو خدا کے حوالے کرو اور اب اپنے بارے میں غور کرو۔
الرَّحْمَٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ
📘 قرآن اگرچہ صرف ایک یاد دہانی ہے۔ مگر وہ مدعوکے لیے قابل حجت یاد دہانی اس وقت بنتاہے جب کہ اس کی دعوت دینے والا اپنے آپ کو اس کی راہ میں کھپا دے۔ دوسروں کی خیر خواہی میں وہ اپنے آپ کو اس حد تک نظر انداز کردے کہ یہ کہا جائے کہ اس نے تو لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیا۔
تاہم دعوت کو خواہ کتنا ہی کامل اور معیار ی انداز میں پیش کردیا جائے، عملاً اس سے ہدایت صرف اس بندۂ خدا کو ملتی ہے جو حق شناس ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ دلیل کی سطح پر بات کا واضح ہونا ہی اس کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہوجائے۔
جس ہستی نے عالم کی تخلیق کی ہے اسی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے قرآن اور فطرت میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن ایک ایسی حقیقت کی یاددہانی ہے جس کو پہچاننے کی صلاحیت فطرت انسانی کے اندر پہلے سے موجود ہے۔
قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ
📘 ’’تمھارا رب کون ہے‘‘— فرعون کا یہ جملہ اس معنی میں نہ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی خدا سے بے خبر تھا۔ یا کسی برتر خدا کا سرے سے قائل نہ تھا۔ اس کا یہ جملہ دراصل موسیٰ کی بات کی تحقیر تھا، نہ کہ اس کا سرے سے انکار۔
مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے توحید کی تبلیغ کی تھی۔اب بھی بنی اسرائیل وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے، جو خدائے واحد پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس طرح مصر میں اگرچہ خدائے برتر کا عقیدہ موجود تھا مگر عملاً وہاں سارا زور اور شان وشوکت فرعون کے گرد جمع تھي۔ وہ مصریوں کے عقیدہ کے مطابق ان کے سب سے بڑے دیوتا (سورج) کا زمینی مظہر تھا۔ وہ مصر کا اوتاربادشاہ (God-king) تھا اور اس کے بت اور اسٹیچو سارے مصر میں پرستش کی چیز بنے ہوئے تھے۔ اس کے مقابلہ میں موسیٰ بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے جو مصر میں غلاموں اور مزدوروں کی ایک قوم سمجھی جاتی تھی۔ اور اس بنا پر اس کا مذہبی عقیدہ بھی مصر میں ایک ناقابلِ ذکر عقیدہ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
دنیا میں بے شمار چیزیں ہیںمگر ہر چیز کی ایک منفرد بناوٹ ہے اور ہر چیز کا ایک متعین طریقِ عمل ہے۔ نہ اس بناوٹ میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اس طریقِ عمل میں۔ اس سے خود فرعون جیسا سرکش بادشاہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ یہ واقعہ واضح طورپر ایک بالا تر خالق کا وجود ثابت کرتاہے۔
حضرت موسیٰ نے یہ بات کہی تو فر عون نے محسوس کیا کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی براہِ راست جواب نہیں ہے۔ اب اس نے بات کو پھیر دیا۔ دلیل کے میدان میں اپنے کو کمزور پاکر اس نے چاہا کہ تعصب کے جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کے درمیان اپنی برتری قائم رکھے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر تمھاری بات صحیح ہے تو ہمارے پچھلے بڑوں کا انجام کیا ہوا جو تمھارے نظریہ کے مطابق گمراہ حالت میں مرگئے۔ حضرت موسیٰ نے اس کے جواب میں اعراض کا طریقہ اختیا رکیا۔ انھوںنے کہا کہ گزرے ہوئے لوگوں کو خدا کے حوالے کرو اور اب اپنے بارے میں غور کرو۔
قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُونِ الْأُولَىٰ
📘 ’’تمھارا رب کون ہے‘‘— فرعون کا یہ جملہ اس معنی میں نہ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی خدا سے بے خبر تھا۔ یا کسی برتر خدا کا سرے سے قائل نہ تھا۔ اس کا یہ جملہ دراصل موسیٰ کی بات کی تحقیر تھا، نہ کہ اس کا سرے سے انکار۔
مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے توحید کی تبلیغ کی تھی۔اب بھی بنی اسرائیل وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے، جو خدائے واحد پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس طرح مصر میں اگرچہ خدائے برتر کا عقیدہ موجود تھا مگر عملاً وہاں سارا زور اور شان وشوکت فرعون کے گرد جمع تھي۔ وہ مصریوں کے عقیدہ کے مطابق ان کے سب سے بڑے دیوتا (سورج) کا زمینی مظہر تھا۔ وہ مصر کا اوتاربادشاہ (God-king) تھا اور اس کے بت اور اسٹیچو سارے مصر میں پرستش کی چیز بنے ہوئے تھے۔ اس کے مقابلہ میں موسیٰ بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے جو مصر میں غلاموں اور مزدوروں کی ایک قوم سمجھی جاتی تھی۔ اور اس بنا پر اس کا مذہبی عقیدہ بھی مصر میں ایک ناقابلِ ذکر عقیدہ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
دنیا میں بے شمار چیزیں ہیںمگر ہر چیز کی ایک منفرد بناوٹ ہے اور ہر چیز کا ایک متعین طریقِ عمل ہے۔ نہ اس بناوٹ میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اس طریقِ عمل میں۔ اس سے خود فرعون جیسا سرکش بادشاہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ یہ واقعہ واضح طورپر ایک بالا تر خالق کا وجود ثابت کرتاہے۔
حضرت موسیٰ نے یہ بات کہی تو فر عون نے محسوس کیا کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی براہِ راست جواب نہیں ہے۔ اب اس نے بات کو پھیر دیا۔ دلیل کے میدان میں اپنے کو کمزور پاکر اس نے چاہا کہ تعصب کے جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کے درمیان اپنی برتری قائم رکھے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر تمھاری بات صحیح ہے تو ہمارے پچھلے بڑوں کا انجام کیا ہوا جو تمھارے نظریہ کے مطابق گمراہ حالت میں مرگئے۔ حضرت موسیٰ نے اس کے جواب میں اعراض کا طریقہ اختیا رکیا۔ انھوںنے کہا کہ گزرے ہوئے لوگوں کو خدا کے حوالے کرو اور اب اپنے بارے میں غور کرو۔
قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ ۖ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى
📘 ’’تمھارا رب کون ہے‘‘— فرعون کا یہ جملہ اس معنی میں نہ تھا کہ وہ اپنے سوا کسی خدا سے بے خبر تھا۔ یا کسی برتر خدا کا سرے سے قائل نہ تھا۔ اس کا یہ جملہ دراصل موسیٰ کی بات کی تحقیر تھا، نہ کہ اس کا سرے سے انکار۔
مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے توحید کی تبلیغ کی تھی۔اب بھی بنی اسرائیل وہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے، جو خدائے واحد پر عقیدہ رکھتے تھے۔ اس طرح مصر میں اگرچہ خدائے برتر کا عقیدہ موجود تھا مگر عملاً وہاں سارا زور اور شان وشوکت فرعون کے گرد جمع تھي۔ وہ مصریوں کے عقیدہ کے مطابق ان کے سب سے بڑے دیوتا (سورج) کا زمینی مظہر تھا۔ وہ مصر کا اوتاربادشاہ (God-king) تھا اور اس کے بت اور اسٹیچو سارے مصر میں پرستش کی چیز بنے ہوئے تھے۔ اس کے مقابلہ میں موسیٰ بنی اسرائیل کے ایک فرد تھے جو مصر میں غلاموں اور مزدوروں کی ایک قوم سمجھی جاتی تھی۔ اور اس بنا پر اس کا مذہبی عقیدہ بھی مصر میں ایک ناقابلِ ذکر عقیدہ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
دنیا میں بے شمار چیزیں ہیںمگر ہر چیز کی ایک منفرد بناوٹ ہے اور ہر چیز کا ایک متعین طریقِ عمل ہے۔ نہ اس بناوٹ میں کوئی تبدیلی ممکن ہے اور نہ اس طریقِ عمل میں۔ اس سے خود فرعون جیسا سرکش بادشاہ بھی مستثنیٰ نہیں۔ یہ واقعہ واضح طورپر ایک بالا تر خالق کا وجود ثابت کرتاہے۔
حضرت موسیٰ نے یہ بات کہی تو فر عون نے محسوس کیا کہ اس کے پاس اس بات کا کوئی براہِ راست جواب نہیں ہے۔ اب اس نے بات کو پھیر دیا۔ دلیل کے میدان میں اپنے کو کمزور پاکر اس نے چاہا کہ تعصب کے جذبات کو بھڑکا کر لوگوں کے درمیان اپنی برتری قائم رکھے۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر تمھاری بات صحیح ہے تو ہمارے پچھلے بڑوں کا انجام کیا ہوا جو تمھارے نظریہ کے مطابق گمراہ حالت میں مرگئے۔ حضرت موسیٰ نے اس کے جواب میں اعراض کا طریقہ اختیا رکیا۔ انھوںنے کہا کہ گزرے ہوئے لوگوں کو خدا کے حوالے کرو اور اب اپنے بارے میں غور کرو۔
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْ نَبَاتٍ شَتَّىٰ
📘 زمین کی پیدائش، بارش کا نظام، نباتات کا اگنا، اور دوسرے اہتمامات جس نے موجودہ دنیا کو زندہ چیزوں کے لیے قابلِ رہائش بنایا ہے، وہ حیرت ناک حد تک عظیم ہیں۔
یہ ایک ’’نشانی‘‘ ہے جو ثابت کرتی ہے، اس دنیا کا خالق ومالک ایک عظیم خدا ہے۔ موجودہ دنیا جیسی دنیا کو وجود میں لانے کے لیے اتنی بڑی قدرت درکار ہے جو نہ کسی ’’سورج‘‘ کو حاصل ہے اور نہ کسی ’’بادشاہ‘‘ کو۔ ایسی حالت میں یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کو بنانے اور چلانے والا ایک برتر خدا ہے۔
پھر اسی سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ یہ دنیا عبث دنیا نہیںہے۔ جو یوں ہی پیدا ہو اور یوں ہی ختم ہوجائے۔ با معنی دنیا لازمی طورپر ایک بامعنی انجام چاہتی ہے۔ اسی طرح دنیا کا مشاہدہ بیک وقت توحید کو بھی ثابت کررہا ہے اور آخرت کو بھی۔
كُلُوا وَارْعَوْا أَنْعَامَكُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِأُولِي النُّهَىٰ
📘 زمین کی پیدائش، بارش کا نظام، نباتات کا اگنا، اور دوسرے اہتمامات جس نے موجودہ دنیا کو زندہ چیزوں کے لیے قابلِ رہائش بنایا ہے، وہ حیرت ناک حد تک عظیم ہیں۔
یہ ایک ’’نشانی‘‘ ہے جو ثابت کرتی ہے، اس دنیا کا خالق ومالک ایک عظیم خدا ہے۔ موجودہ دنیا جیسی دنیا کو وجود میں لانے کے لیے اتنی بڑی قدرت درکار ہے جو نہ کسی ’’سورج‘‘ کو حاصل ہے اور نہ کسی ’’بادشاہ‘‘ کو۔ ایسی حالت میں یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کو بنانے اور چلانے والا ایک برتر خدا ہے۔
پھر اسی سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ یہ دنیا عبث دنیا نہیںہے۔ جو یوں ہی پیدا ہو اور یوں ہی ختم ہوجائے۔ با معنی دنیا لازمی طورپر ایک بامعنی انجام چاہتی ہے۔ اسی طرح دنیا کا مشاہدہ بیک وقت توحید کو بھی ثابت کررہا ہے اور آخرت کو بھی۔
۞ مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَىٰ
📘 زمین کی پیدائش، بارش کا نظام، نباتات کا اگنا، اور دوسرے اہتمامات جس نے موجودہ دنیا کو زندہ چیزوں کے لیے قابلِ رہائش بنایا ہے، وہ حیرت ناک حد تک عظیم ہیں۔
یہ ایک ’’نشانی‘‘ ہے جو ثابت کرتی ہے، اس دنیا کا خالق ومالک ایک عظیم خدا ہے۔ موجودہ دنیا جیسی دنیا کو وجود میں لانے کے لیے اتنی بڑی قدرت درکار ہے جو نہ کسی ’’سورج‘‘ کو حاصل ہے اور نہ کسی ’’بادشاہ‘‘ کو۔ ایسی حالت میں یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ اس کو بنانے اور چلانے والا ایک برتر خدا ہے۔
پھر اسی سے یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ یہ دنیا عبث دنیا نہیںہے۔ جو یوں ہی پیدا ہو اور یوں ہی ختم ہوجائے۔ با معنی دنیا لازمی طورپر ایک بامعنی انجام چاہتی ہے۔ اسی طرح دنیا کا مشاہدہ بیک وقت توحید کو بھی ثابت کررہا ہے اور آخرت کو بھی۔
وَلَقَدْ أَرَيْنَاهُ آيَاتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَأَبَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کی دعوت فرعون کے اوپر لمبی مدت تک جاری رہی۔ اس دوران آپ نے اس کے سامنے عقلی دلائل بھی پیش کيے اور حسی معجزے بھی دکھائے۔ مگر وہ حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ حضرت موسیٰ کی سچائی کا اقرار فرعون کے لیے اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا۔ اور فرعون کی متکبرانہ نفسیات اس میں مانع ہوگئی کہ اپنی نفی کی قیمت پر وہ سچائی کا اقرار کرے۔
حضرت موسیٰ کے عقلی دلائل کو فرعون نے غیر متعلق باتوں کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوشش کی اور آپ کے معجزات کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ یعنی ایک ایسی چیز جس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر آدمی مہارت پیدا کرکے اس قسم کا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔ اپنی اس ڈھٹائی کو نباہنے کے لیے مزید اس کو یہ کرنا پڑا کہ اس نے کہا کہ ہم بھی اپنے جادوگروں کے ذریعے ویسا ہی کرشمہ دکھا سکتے ہیں جیسا کرشمہ تم نے ہمیں دکھایا ہے۔ گفتگو کے بعد بالآخر یہ طے ہوا کہ آنے والے قومی میلے کے دن ملک کے جادو گروں کو جمع کیا جائے اور سب کے سامنے موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہو۔
قَالَ أَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ أَرْضِنَا بِسِحْرِكَ يَا مُوسَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کی دعوت فرعون کے اوپر لمبی مدت تک جاری رہی۔ اس دوران آپ نے اس کے سامنے عقلی دلائل بھی پیش کيے اور حسی معجزے بھی دکھائے۔ مگر وہ حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ حضرت موسیٰ کی سچائی کا اقرار فرعون کے لیے اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا۔ اور فرعون کی متکبرانہ نفسیات اس میں مانع ہوگئی کہ اپنی نفی کی قیمت پر وہ سچائی کا اقرار کرے۔
حضرت موسیٰ کے عقلی دلائل کو فرعون نے غیر متعلق باتوں کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوشش کی اور آپ کے معجزات کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ یعنی ایک ایسی چیز جس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر آدمی مہارت پیدا کرکے اس قسم کا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔ اپنی اس ڈھٹائی کو نباہنے کے لیے مزید اس کو یہ کرنا پڑا کہ اس نے کہا کہ ہم بھی اپنے جادوگروں کے ذریعے ویسا ہی کرشمہ دکھا سکتے ہیں جیسا کرشمہ تم نے ہمیں دکھایا ہے۔ گفتگو کے بعد بالآخر یہ طے ہوا کہ آنے والے قومی میلے کے دن ملک کے جادو گروں کو جمع کیا جائے اور سب کے سامنے موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہو۔
فَلَنَأْتِيَنَّكَ بِسِحْرٍ مِثْلِهِ فَاجْعَلْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ مَوْعِدًا لَا نُخْلِفُهُ نَحْنُ وَلَا أَنْتَ مَكَانًا سُوًى
📘 حضرت موسیٰ کی دعوت فرعون کے اوپر لمبی مدت تک جاری رہی۔ اس دوران آپ نے اس کے سامنے عقلی دلائل بھی پیش کيے اور حسی معجزے بھی دکھائے۔ مگر وہ حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ حضرت موسیٰ کی سچائی کا اقرار فرعون کے لیے اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا۔ اور فرعون کی متکبرانہ نفسیات اس میں مانع ہوگئی کہ اپنی نفی کی قیمت پر وہ سچائی کا اقرار کرے۔
حضرت موسیٰ کے عقلی دلائل کو فرعون نے غیر متعلق باتوں کے ذریعے بے اثر کرنے کی کوشش کی اور آپ کے معجزات کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ یعنی ایک ایسی چیز جس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔ ہر آدمی مہارت پیدا کرکے اس قسم کا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔ اپنی اس ڈھٹائی کو نباہنے کے لیے مزید اس کو یہ کرنا پڑا کہ اس نے کہا کہ ہم بھی اپنے جادوگروں کے ذریعے ویسا ہی کرشمہ دکھا سکتے ہیں جیسا کرشمہ تم نے ہمیں دکھایا ہے۔ گفتگو کے بعد بالآخر یہ طے ہوا کہ آنے والے قومی میلے کے دن ملک کے جادو گروں کو جمع کیا جائے اور سب کے سامنے موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ ہو۔
قَالَ مَوْعِدُكُمْ يَوْمُ الزِّينَةِ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى
📘 فرعون نے سارے ملک میں آدمی بھیج کر تمام ماہر جادوگروں کو بلایا۔ جب یہ لوگ میلے کے میدان میں جمع ہوئے تو مقابلہ پیش آنے سے پہلے حضرت موسیٰ نے ایک تقریر کی۔ یہ تقریر لوگوں کے لیے بالکل نئی چیز نہ تھی، بلکہ یہ ایک قسم کی یاد دہانی تھی۔ اس سے پہلے حضرت موسیٰ کی دعوت کے ذریعہ جادوگر اور دوسرے حضرات یقیناً اس بات سے آگاہ ہوچکے تھے کہ موسیٰ کا پیغام کیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ شرک کے مقابلے میں توحید کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔
اس پس منظر میں حضرت موسیٰ نے اتمام حجت کے طورپر آخری نصیحت کی۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور جادوگروں سے کہا کہ اس معاملہ کو تم لوگ جادو کا معاملہ نہ سمجھو۔ خدا کی نشانی کو جادو کہنا اور انسانی جادو کے ذریعہ اس کو زیر کرنے کی کوشش کرنا بے حد سنگین بات ہے۔ یہ ایک واقعی حقیقت کا مقابلہ ایک سراسر بے حقیقت چیز کے ذریعہ کرنا ہے جس کا یقینی نتیجہ ہلاکت ہے۔ تم بظاہر مجھ کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہو مگر یہ خود خدا کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جو لوگ اس قسم کی سرکشی کریں وہ خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمَا تَحْتَ الثَّرَىٰ
📘 قرآن اگرچہ صرف ایک یاد دہانی ہے۔ مگر وہ مدعوکے لیے قابل حجت یاد دہانی اس وقت بنتاہے جب کہ اس کی دعوت دینے والا اپنے آپ کو اس کی راہ میں کھپا دے۔ دوسروں کی خیر خواہی میں وہ اپنے آپ کو اس حد تک نظر انداز کردے کہ یہ کہا جائے کہ اس نے تو لوگوں کو حق کی راہ پر لانے کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈال دیا۔
تاہم دعوت کو خواہ کتنا ہی کامل اور معیار ی انداز میں پیش کردیا جائے، عملاً اس سے ہدایت صرف اس بندۂ خدا کو ملتی ہے جو حق شناس ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ دلیل کی سطح پر بات کا واضح ہونا ہی اس کی آنکھ کھولنے کے لیے کافی ہوجائے۔
جس ہستی نے عالم کی تخلیق کی ہے اسی نے قرآن کو بھی نازل کیا ہے۔ اس لیے قرآن اور فطرت میں کوئی تضاد نہیں۔ قرآن ایک ایسی حقیقت کی یاددہانی ہے جس کو پہچاننے کی صلاحیت فطرت انسانی کے اندر پہلے سے موجود ہے۔
فَتَوَلَّىٰ فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ كَيْدَهُ ثُمَّ أَتَىٰ
📘 فرعون نے سارے ملک میں آدمی بھیج کر تمام ماہر جادوگروں کو بلایا۔ جب یہ لوگ میلے کے میدان میں جمع ہوئے تو مقابلہ پیش آنے سے پہلے حضرت موسیٰ نے ایک تقریر کی۔ یہ تقریر لوگوں کے لیے بالکل نئی چیز نہ تھی، بلکہ یہ ایک قسم کی یاد دہانی تھی۔ اس سے پہلے حضرت موسیٰ کی دعوت کے ذریعہ جادوگر اور دوسرے حضرات یقیناً اس بات سے آگاہ ہوچکے تھے کہ موسیٰ کا پیغام کیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ شرک کے مقابلے میں توحید کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔
اس پس منظر میں حضرت موسیٰ نے اتمام حجت کے طورپر آخری نصیحت کی۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور جادوگروں سے کہا کہ اس معاملہ کو تم لوگ جادو کا معاملہ نہ سمجھو۔ خدا کی نشانی کو جادو کہنا اور انسانی جادو کے ذریعہ اس کو زیر کرنے کی کوشش کرنا بے حد سنگین بات ہے۔ یہ ایک واقعی حقیقت کا مقابلہ ایک سراسر بے حقیقت چیز کے ذریعہ کرنا ہے جس کا یقینی نتیجہ ہلاکت ہے۔ تم بظاہر مجھ کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہو مگر یہ خود خدا کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جو لوگ اس قسم کی سرکشی کریں وہ خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
قَالَ لَهُمْ مُوسَىٰ وَيْلَكُمْ لَا تَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسْحِتَكُمْ بِعَذَابٍ ۖ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرَىٰ
📘 فرعون نے سارے ملک میں آدمی بھیج کر تمام ماہر جادوگروں کو بلایا۔ جب یہ لوگ میلے کے میدان میں جمع ہوئے تو مقابلہ پیش آنے سے پہلے حضرت موسیٰ نے ایک تقریر کی۔ یہ تقریر لوگوں کے لیے بالکل نئی چیز نہ تھی، بلکہ یہ ایک قسم کی یاد دہانی تھی۔ اس سے پہلے حضرت موسیٰ کی دعوت کے ذریعہ جادوگر اور دوسرے حضرات یقیناً اس بات سے آگاہ ہوچکے تھے کہ موسیٰ کا پیغام کیا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ موسیٰ شرک کے مقابلے میں توحید کی دعوت لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔
اس پس منظر میں حضرت موسیٰ نے اتمام حجت کے طورپر آخری نصیحت کی۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور جادوگروں سے کہا کہ اس معاملہ کو تم لوگ جادو کا معاملہ نہ سمجھو۔ خدا کی نشانی کو جادو کہنا اور انسانی جادو کے ذریعہ اس کو زیر کرنے کی کوشش کرنا بے حد سنگین بات ہے۔ یہ ایک واقعی حقیقت کا مقابلہ ایک سراسر بے حقیقت چیز کے ذریعہ کرنا ہے جس کا یقینی نتیجہ ہلاکت ہے۔ تم بظاہر مجھ کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہو مگر یہ خود خدا کو نعوذ باللہ جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ جو لوگ اس قسم کی سرکشی کریں وہ خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
فَتَنَازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ وَأَسَرُّوا النَّجْوَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کی ابتدائی تقریر سے جادو گروں کی جماعت میں اختلاف پڑگیا۔ ان کے ایک گروہ نے کہا کہ یہ جادوگر کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ نبی کا کلام ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ نہیں، یہ شخص ہماری ہی طرح کا ایک جادوگر ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ
301
)۔
جادو گر یقینی طورپر اپنے ہم جنسوں کو پہچانتے تھے۔ ان کے تجربہ کار افراد نے محسوس کرلیا کہ یہ جادو کا معاملہ نہیں ہے بلکہ معجزہ کا معاملہ ہے۔ چنانچہ وہ مقابلہ کی ہمت کھوبیٹھے۔ مگر فرعون اور اس کے پر جوش ساتھیوں کے اکسانے پر وہ مقابلہ کے لیے راضی ہوگئے۔
’’蒫薫 ⊀蚫‘‘ کا مطلب ہے افضل طریقہ۔ اس وقت مصریوں کی زندگی کا پورا ڈھانچہ مشرکانہ عقائد کے اوپر قائم تھا۔ سب سے بڑے دیوتا (سورج) کے جسمانی مظہر کی حیثیت سے فرعون کی شخصیت ان کے سیاسی اور سماجی نظام کی بنیاد بنی ہوئی تھی۔ فرعون نے تعصب کے جذبات کو ابھار کر کہا کہ یہ نظام ہمارا قومی نظام ہے۔ اب اگر توحید کے ان علم برداروں کی جیت ہوگئی تو ہمارا پورا قومی نظام اکھڑ جائے گا۔
قَالُوا إِنْ هَٰذَانِ لَسَاحِرَانِ يُرِيدَانِ أَنْ يُخْرِجَاكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِمَا وَيَذْهَبَا بِطَرِيقَتِكُمُ الْمُثْلَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کی ابتدائی تقریر سے جادو گروں کی جماعت میں اختلاف پڑگیا۔ ان کے ایک گروہ نے کہا کہ یہ جادوگر کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ نبی کا کلام ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ نہیں، یہ شخص ہماری ہی طرح کا ایک جادوگر ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ
301
)۔
جادو گر یقینی طورپر اپنے ہم جنسوں کو پہچانتے تھے۔ ان کے تجربہ کار افراد نے محسوس کرلیا کہ یہ جادو کا معاملہ نہیں ہے بلکہ معجزہ کا معاملہ ہے۔ چنانچہ وہ مقابلہ کی ہمت کھوبیٹھے۔ مگر فرعون اور اس کے پر جوش ساتھیوں کے اکسانے پر وہ مقابلہ کے لیے راضی ہوگئے۔
’’蒫薫 ⊀蚫‘‘ کا مطلب ہے افضل طریقہ۔ اس وقت مصریوں کی زندگی کا پورا ڈھانچہ مشرکانہ عقائد کے اوپر قائم تھا۔ سب سے بڑے دیوتا (سورج) کے جسمانی مظہر کی حیثیت سے فرعون کی شخصیت ان کے سیاسی اور سماجی نظام کی بنیاد بنی ہوئی تھی۔ فرعون نے تعصب کے جذبات کو ابھار کر کہا کہ یہ نظام ہمارا قومی نظام ہے۔ اب اگر توحید کے ان علم برداروں کی جیت ہوگئی تو ہمارا پورا قومی نظام اکھڑ جائے گا۔
فَأَجْمِعُوا كَيْدَكُمْ ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا ۚ وَقَدْ أَفْلَحَ الْيَوْمَ مَنِ اسْتَعْلَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کی ابتدائی تقریر سے جادو گروں کی جماعت میں اختلاف پڑگیا۔ ان کے ایک گروہ نے کہا کہ یہ جادوگر کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ نبی کا کلام ہے۔ دوسرے لوگوں نے کہا کہ نہیں، یہ شخص ہماری ہی طرح کا ایک جادوگر ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد5، صفحہ
301
)۔
جادو گر یقینی طورپر اپنے ہم جنسوں کو پہچانتے تھے۔ ان کے تجربہ کار افراد نے محسوس کرلیا کہ یہ جادو کا معاملہ نہیں ہے بلکہ معجزہ کا معاملہ ہے۔ چنانچہ وہ مقابلہ کی ہمت کھوبیٹھے۔ مگر فرعون اور اس کے پر جوش ساتھیوں کے اکسانے پر وہ مقابلہ کے لیے راضی ہوگئے۔
’’蒫薫 ⊀蚫‘‘ کا مطلب ہے افضل طریقہ۔ اس وقت مصریوں کی زندگی کا پورا ڈھانچہ مشرکانہ عقائد کے اوپر قائم تھا۔ سب سے بڑے دیوتا (سورج) کے جسمانی مظہر کی حیثیت سے فرعون کی شخصیت ان کے سیاسی اور سماجی نظام کی بنیاد بنی ہوئی تھی۔ فرعون نے تعصب کے جذبات کو ابھار کر کہا کہ یہ نظام ہمارا قومی نظام ہے۔ اب اگر توحید کے ان علم برداروں کی جیت ہوگئی تو ہمارا پورا قومی نظام اکھڑ جائے گا۔
قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَلْقَىٰ
📘 مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔
قَالَ بَلْ أَلْقُوا ۖ فَإِذَا حِبَالُهُمْ وَعِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ أَنَّهَا تَسْعَىٰ
📘 مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔
فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُوسَىٰ
📘 مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔
قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَىٰ
📘 مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔
وَأَلْقِ مَا فِي يَمِينِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا ۖ إِنَّمَا صَنَعُوا كَيْدُ سَاحِرٍ ۖ وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ
📘 مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔
وَإِنْ تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى
📘 دنیا میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کا مذہب دنیا سے فائده حاصل كرنا ہوتا ہے۔دوسری طرف بے آمیز حق کا داعی ہے جس کا مذہب خدا كي قربت پر قائم ہوتا ہے۔پہلا گروہ اپنے ماحول میں ہر طرف اپنے ساتھی اور مددگار پالیتا ہے۔ اس کو کبھی تنہاہونے کا احساس نہیںہوتا۔ اس کے برعکس، حق کا داعی جس معبود کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ حالات کے طوفان میں بار بار اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ وہ کبھی اپنے دل میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور کبھی اس کی زبان سے بآوازبلند دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بھری ہوئی دنیا میں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا ساتھی اور مدد گار نہیں۔
مگر یہ صرف ظاہری حالت ہے۔ حقیقت کے اعتبارسے حق کا داعی سب سے زیادہ مضبوط سہارے پر کھڑاہوتا ہے۔ وہ ایسے خداکو پکار رہا ہے جو تنہائی کے الفاظ اور دل کی سرگوشیوں تک سے باخبر ہے۔ وہ اس خدا کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہے جو ان تمام قابلِ قیاس اور ناقابلِ قیاس قوتوں کا مالک ہے جو کسی کی مدد کے لیے درکار ہیں۔
فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ هَارُونَ وَمُوسَىٰ
📘 مقابلہ اس طرح شروع ہوا کہ جادوگروں نے پہلے اپنی رسّیاں اور لاٹھیاں میدان میں پھینکیں تو ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر چلتی ہوئی دکھائی دينے لگيں۔ تاہم یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ یعنی رسّیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئیں تھیں بلکہ جادو گروں نے نظر بندی کے عمل سے حاضرین کی قوت خیالی کو اس طرح متاثر کیا کہ انھیں وقتی طورپر دکھائی دیا کہ رسّیاں اور لاٹھیاں سانپ کی مانند میدان میں چل رہیں ہیں۔
اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے اپنی لاٹھی میدان میں پھینکی۔ ان کی لاٹھی فوراً بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگی۔اس نے جادو گروں کے نظر بندی کے طلسم کو نگل لیا۔ وہ چیزیں جو سانپوں کی شکل میں چلتی ہوئی نظر آتی تھیں، وہ اس کے چھوتے ہی محض رسّی اور لاٹھی ہو کر رہ گئیں۔
جادو گر حضرت موسیٰ کا کلام سن کر پہلے ہی اس سے متاثر ہوچکے تھے۔ اب جب عملی مظاہرہ ہوا تو انھوںنے حضرت موسیٰ کی صداقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ انھوں نے یقین کے ساتھ جان لیا کہ موسیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ کوئی انسانی جادو نہیں ہے بلکہ وہ خدائی معجزہ ہے۔ یہ یقین اتنا گہرا تھا کہ انھوںنے اسی وقت حضرت موسیٰ کے دین کو اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔
قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ ۖ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَيُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَىٰ
📘 جادوگروں کے سامنے ایک طرف حضرت موسیٰ کی دلیل تھی، اور دوسری طرف فرعون کی جابرانہ شخصیت۔ یہ دلیل اور شخصیت کا مقابلہ تھا۔ جادوگروں نے شخصیت پر دلیل کو ترجیح دی۔ اگر چہ وہ جانتے تھے کہ اس ترجیح کی قیمت انھیں انتہائی مہنگی صورت میں دینی پڑے گی۔
جادوگروں کا ایمان کوئی نسلی یا رسمی ایمان نہ تھا۔ ان کا ایمان ان کے لیے دریافت کے ہم معنی تھا۔ اور جو ایمان کسی آدمی کو دریافت کے طورپر حاصل ہو وہ اتنا طاقت ور ہوتاہے کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز اس کو ہیچ نظر آنے لگتی ہے، خواہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہو یا کوئی بڑی دنیوی مصلحت۔
قَالُوا لَنْ نُؤْثِرَكَ عَلَىٰ مَا جَاءَنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالَّذِي فَطَرَنَا ۖ فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ ۖ إِنَّمَا تَقْضِي هَٰذِهِ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا
📘 جادوگروں کے سامنے ایک طرف حضرت موسیٰ کی دلیل تھی، اور دوسری طرف فرعون کی جابرانہ شخصیت۔ یہ دلیل اور شخصیت کا مقابلہ تھا۔ جادوگروں نے شخصیت پر دلیل کو ترجیح دی۔ اگر چہ وہ جانتے تھے کہ اس ترجیح کی قیمت انھیں انتہائی مہنگی صورت میں دینی پڑے گی۔
جادوگروں کا ایمان کوئی نسلی یا رسمی ایمان نہ تھا۔ ان کا ایمان ان کے لیے دریافت کے ہم معنی تھا۔ اور جو ایمان کسی آدمی کو دریافت کے طورپر حاصل ہو وہ اتنا طاقت ور ہوتاہے کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز اس کو ہیچ نظر آنے لگتی ہے، خواہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہو یا کوئی بڑی دنیوی مصلحت۔
إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِيَغْفِرَ لَنَا خَطَايَانَا وَمَا أَكْرَهْتَنَا عَلَيْهِ مِنَ السِّحْرِ ۗ وَاللَّهُ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ
📘 جادوگروں کے سامنے ایک طرف حضرت موسیٰ کی دلیل تھی، اور دوسری طرف فرعون کی جابرانہ شخصیت۔ یہ دلیل اور شخصیت کا مقابلہ تھا۔ جادوگروں نے شخصیت پر دلیل کو ترجیح دی۔ اگر چہ وہ جانتے تھے کہ اس ترجیح کی قیمت انھیں انتہائی مہنگی صورت میں دینی پڑے گی۔
جادوگروں کا ایمان کوئی نسلی یا رسمی ایمان نہ تھا۔ ان کا ایمان ان کے لیے دریافت کے ہم معنی تھا۔ اور جو ایمان کسی آدمی کو دریافت کے طورپر حاصل ہو وہ اتنا طاقت ور ہوتاہے کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز اس کو ہیچ نظر آنے لگتی ہے، خواہ وہ کوئی بڑی شخصیت ہو یا کوئی بڑی دنیوی مصلحت۔
إِنَّهُ مَنْ يَأْتِ رَبَّهُ مُجْرِمًا فَإِنَّ لَهُ جَهَنَّمَ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا يَحْيَىٰ
📘 مجرم بننا کیا ہے۔ مجرم بننا یہ ہے کہ آدمی کے سامنے خدا کی نشانی آئے مگر وہ اس سے نصیحت حاصل نہ کرے۔ اس کے سامنے دلائل کی زبان میں حق کھولا جائے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے۔ وہ ظاہری قوتوں اور مادی مصلحتوں سے باہر نکل کر حقیقت کا اعتراف نہ کرسکے۔
ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں سخت ترین سزا ہے۔ دنیا کی کوئی مصیبت، خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو، بہر حال وہ محدود ہے۔ اور موت کے ساتھ ایک نہ ایک دن ختم ہوجاتی ہے۔ مگر آخرت وہ جگہ ہے جہاں مصیبتوں کا طوفان ہر طرف سے آدمی کو گھیرے ہوئے ہوگا۔ مگر آدمی کے لیے وہاں سے بھاگنا ممکن نہ ہوگا۔ اور نہ وہاں موت آئے گی جو ناقابلِ بیان مصیبتوں کا سلسلہ منقطع کردے۔
جنت اس کے لیے ہے جو اپنے آپ کو پاک کرے۔ پاک کرنا یہ ہے کہ آدمی غفلت کی زندگی کو ترک کرے اور شعور کی زندگی کواپنائے۔ وہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائے جو حق سے روکنے والی ہیں۔ مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر انداز کردے۔ نفس کی خواہش ابھرے تو اس کو کچل دے۔ ظلم اور گھمنڈ کی نفسیات جاگے تو اس کو اپنے اندر ہی اندر دفن کردے۔
یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں۔ دنیا میں ان کا ایمان عملِ صالح کے باغ کی صورت میں اگا تھا، آخرت میں وہ ابدی جنتوں کے روپ میں سر سبز شاداب ہو کر انھیں واپس ملے گا۔
وَمَنْ يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَىٰ
📘 مجرم بننا کیا ہے۔ مجرم بننا یہ ہے کہ آدمی کے سامنے خدا کی نشانی آئے مگر وہ اس سے نصیحت حاصل نہ کرے۔ اس کے سامنے دلائل کی زبان میں حق کھولا جائے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے۔ وہ ظاہری قوتوں اور مادی مصلحتوں سے باہر نکل کر حقیقت کا اعتراف نہ کرسکے۔
ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں سخت ترین سزا ہے۔ دنیا کی کوئی مصیبت، خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو، بہر حال وہ محدود ہے۔ اور موت کے ساتھ ایک نہ ایک دن ختم ہوجاتی ہے۔ مگر آخرت وہ جگہ ہے جہاں مصیبتوں کا طوفان ہر طرف سے آدمی کو گھیرے ہوئے ہوگا۔ مگر آدمی کے لیے وہاں سے بھاگنا ممکن نہ ہوگا۔ اور نہ وہاں موت آئے گی جو ناقابلِ بیان مصیبتوں کا سلسلہ منقطع کردے۔
جنت اس کے لیے ہے جو اپنے آپ کو پاک کرے۔ پاک کرنا یہ ہے کہ آدمی غفلت کی زندگی کو ترک کرے اور شعور کی زندگی کواپنائے۔ وہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائے جو حق سے روکنے والی ہیں۔ مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر انداز کردے۔ نفس کی خواہش ابھرے تو اس کو کچل دے۔ ظلم اور گھمنڈ کی نفسیات جاگے تو اس کو اپنے اندر ہی اندر دفن کردے۔
یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں۔ دنیا میں ان کا ایمان عملِ صالح کے باغ کی صورت میں اگا تھا، آخرت میں وہ ابدی جنتوں کے روپ میں سر سبز شاداب ہو کر انھیں واپس ملے گا۔
جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ مَنْ تَزَكَّىٰ
📘 مجرم بننا کیا ہے۔ مجرم بننا یہ ہے کہ آدمی کے سامنے خدا کی نشانی آئے مگر وہ اس سے نصیحت حاصل نہ کرے۔ اس کے سامنے دلائل کی زبان میں حق کھولا جائے مگر وہ اس کو نظر انداز کردے۔ وہ ظاہری قوتوں اور مادی مصلحتوں سے باہر نکل کر حقیقت کا اعتراف نہ کرسکے۔
ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں سخت ترین سزا ہے۔ دنیا کی کوئی مصیبت، خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو، بہر حال وہ محدود ہے۔ اور موت کے ساتھ ایک نہ ایک دن ختم ہوجاتی ہے۔ مگر آخرت وہ جگہ ہے جہاں مصیبتوں کا طوفان ہر طرف سے آدمی کو گھیرے ہوئے ہوگا۔ مگر آدمی کے لیے وہاں سے بھاگنا ممکن نہ ہوگا۔ اور نہ وہاں موت آئے گی جو ناقابلِ بیان مصیبتوں کا سلسلہ منقطع کردے۔
جنت اس کے لیے ہے جو اپنے آپ کو پاک کرے۔ پاک کرنا یہ ہے کہ آدمی غفلت کی زندگی کو ترک کرے اور شعور کی زندگی کواپنائے۔ وہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچائے جو حق سے روکنے والی ہیں۔ مصلحت کی رکاوٹ سامنے آئے تو اس کو نظر انداز کردے۔ نفس کی خواہش ابھرے تو اس کو کچل دے۔ ظلم اور گھمنڈ کی نفسیات جاگے تو اس کو اپنے اندر ہی اندر دفن کردے۔
یہی لوگ سچے ایمان والے ہیں۔ دنیا میں ان کا ایمان عملِ صالح کے باغ کی صورت میں اگا تھا، آخرت میں وہ ابدی جنتوں کے روپ میں سر سبز شاداب ہو کر انھیں واپس ملے گا۔
وَلَقَدْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا لَا تَخَافُ دَرَكًا وَلَا تَخْشَىٰ
📘 جادوگروں سے مقابلہ کے بعد حضرت موسیٰ کئی سال مصر میں رہے۔ ایک طرف انھوں نے فرعون اور قوم فرعون پر اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ دوسری طرف انھوں نے مطالبہ کیا کہ مجھ کو اجازت دے دو کہ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر مصر سے باہر صحرائے سینا میں چلا جاؤں اور وہاں آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی عبادت کروں۔ مگر فرعون نے نہ تو نصیحت قبول کی اور نہ حضرت موسیٰ کو باہر جانے کی اجازت دی۔
آخر کار حضرت موسیٰ نے خداکے حکم سے خاموش ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مصر میں جو اسرائیلی یا غیر اسرائیلی مسلمان تھے، سب پیشگی منصوبہ کے تحت ایک خاص مقام پر جمع ہوئے اور وہاں سے رات کے وقت اجتماعی طورپرروانہ ہوگئے۔
یہ قافلہ بحر احمر کی شمالی خلیج تک پہنچا تھا کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا وہاں آگیا۔ پیچھے فرعون کا لشکر تھا اور آگے سمندر کی مانند وسیع خلیج۔ اب حضرت موسیٰ نے خلیج کے پانی پر اپنی لاٹھی ماری۔ خدا کے حکم سے پانی دو ٹکڑے ہوگیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی اس کے درمیان خشکی پر چلتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر فرعون بھی اس کے اندر داخل ہوگیا۔ مگر فرعون اور اس کا لشکر جیسے ہی درمیان میں پہنچے دونوں طرف کا پانی مل گیا۔ وہ لوگ اس کے اندر غرق ہوگئے— ایک ہی دریا خدا کے وفادار بندوں کے لیے نجات کا راستہ بن گیا۔ اور خدا کے دشمنوں کے لیے موت کا گڑھا۔
لوگ اکثر اپنے قائدین کے بھروسہ پر حق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر فرعون کی مثال بتاتی ہے کہ قائدین کا سہارا نہایت کمزور سہارا ہے۔ اس دنیا میں اصل سہارے والا وہ ہے جو خدا کی آیات کی بنیاد پر اپنی راہ متعین کرے، نہ کہ قوم کے اکابر کی بنیاد پر۔
فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُمْ مِنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ
📘 جادوگروں سے مقابلہ کے بعد حضرت موسیٰ کئی سال مصر میں رہے۔ ایک طرف انھوں نے فرعون اور قوم فرعون پر اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ دوسری طرف انھوں نے مطالبہ کیا کہ مجھ کو اجازت دے دو کہ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر مصر سے باہر صحرائے سینا میں چلا جاؤں اور وہاں آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی عبادت کروں۔ مگر فرعون نے نہ تو نصیحت قبول کی اور نہ حضرت موسیٰ کو باہر جانے کی اجازت دی۔
آخر کار حضرت موسیٰ نے خداکے حکم سے خاموش ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مصر میں جو اسرائیلی یا غیر اسرائیلی مسلمان تھے، سب پیشگی منصوبہ کے تحت ایک خاص مقام پر جمع ہوئے اور وہاں سے رات کے وقت اجتماعی طورپرروانہ ہوگئے۔
یہ قافلہ بحر احمر کی شمالی خلیج تک پہنچا تھا کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا وہاں آگیا۔ پیچھے فرعون کا لشکر تھا اور آگے سمندر کی مانند وسیع خلیج۔ اب حضرت موسیٰ نے خلیج کے پانی پر اپنی لاٹھی ماری۔ خدا کے حکم سے پانی دو ٹکڑے ہوگیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی اس کے درمیان خشکی پر چلتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر فرعون بھی اس کے اندر داخل ہوگیا۔ مگر فرعون اور اس کا لشکر جیسے ہی درمیان میں پہنچے دونوں طرف کا پانی مل گیا۔ وہ لوگ اس کے اندر غرق ہوگئے— ایک ہی دریا خدا کے وفادار بندوں کے لیے نجات کا راستہ بن گیا۔ اور خدا کے دشمنوں کے لیے موت کا گڑھا۔
لوگ اکثر اپنے قائدین کے بھروسہ پر حق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر فرعون کی مثال بتاتی ہے کہ قائدین کا سہارا نہایت کمزور سہارا ہے۔ اس دنیا میں اصل سہارے والا وہ ہے جو خدا کی آیات کی بنیاد پر اپنی راہ متعین کرے، نہ کہ قوم کے اکابر کی بنیاد پر۔
وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَىٰ
📘 جادوگروں سے مقابلہ کے بعد حضرت موسیٰ کئی سال مصر میں رہے۔ ایک طرف انھوں نے فرعون اور قوم فرعون پر اپنی تبلیغ جاری رکھی۔ دوسری طرف انھوں نے مطالبہ کیا کہ مجھ کو اجازت دے دو کہ میں اپنے ساتھیوں کو لے کر مصر سے باہر صحرائے سینا میں چلا جاؤں اور وہاں آزادی کے ساتھ خدائے واحد کی عبادت کروں۔ مگر فرعون نے نہ تو نصیحت قبول کی اور نہ حضرت موسیٰ کو باہر جانے کی اجازت دی۔
آخر کار حضرت موسیٰ نے خداکے حکم سے خاموش ہجرت کا فیصلہ کیا۔ اس وقت مصر میں جو اسرائیلی یا غیر اسرائیلی مسلمان تھے، سب پیشگی منصوبہ کے تحت ایک خاص مقام پر جمع ہوئے اور وہاں سے رات کے وقت اجتماعی طورپرروانہ ہوگئے۔
یہ قافلہ بحر احمر کی شمالی خلیج تک پہنچا تھا کہ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کرتا ہوا وہاں آگیا۔ پیچھے فرعون کا لشکر تھا اور آگے سمندر کی مانند وسیع خلیج۔ اب حضرت موسیٰ نے خلیج کے پانی پر اپنی لاٹھی ماری۔ خدا کے حکم سے پانی دو ٹکڑے ہوگیا۔ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی اس کے درمیان خشکی پر چلتے ہوئے دوسری طرف پہنچ گئے۔ یہ دیکھ کر فرعون بھی اس کے اندر داخل ہوگیا۔ مگر فرعون اور اس کا لشکر جیسے ہی درمیان میں پہنچے دونوں طرف کا پانی مل گیا۔ وہ لوگ اس کے اندر غرق ہوگئے— ایک ہی دریا خدا کے وفادار بندوں کے لیے نجات کا راستہ بن گیا۔ اور خدا کے دشمنوں کے لیے موت کا گڑھا۔
لوگ اکثر اپنے قائدین کے بھروسہ پر حق کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر فرعون کی مثال بتاتی ہے کہ قائدین کا سہارا نہایت کمزور سہارا ہے۔ اس دنیا میں اصل سہارے والا وہ ہے جو خدا کی آیات کی بنیاد پر اپنی راہ متعین کرے، نہ کہ قوم کے اکابر کی بنیاد پر۔
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ
📘 دنیا میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کا مذہب دنیا سے فائده حاصل كرنا ہوتا ہے۔دوسری طرف بے آمیز حق کا داعی ہے جس کا مذہب خدا كي قربت پر قائم ہوتا ہے۔پہلا گروہ اپنے ماحول میں ہر طرف اپنے ساتھی اور مددگار پالیتا ہے۔ اس کو کبھی تنہاہونے کا احساس نہیںہوتا۔ اس کے برعکس، حق کا داعی جس معبود کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ حالات کے طوفان میں بار بار اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ وہ کبھی اپنے دل میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور کبھی اس کی زبان سے بآوازبلند دعا کے کلمات نکل جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بھری ہوئی دنیا میں وہ اکیلا ہے۔ کوئی اس کا ساتھی اور مدد گار نہیں۔
مگر یہ صرف ظاہری حالت ہے۔ حقیقت کے اعتبارسے حق کا داعی سب سے زیادہ مضبوط سہارے پر کھڑاہوتا ہے۔ وہ ایسے خداکو پکار رہا ہے جو تنہائی کے الفاظ اور دل کی سرگوشیوں تک سے باخبر ہے۔ وہ اس خدا کو اپنا سہارا بنائے ہوئے ہے جو ان تمام قابلِ قیاس اور ناقابلِ قیاس قوتوں کا مالک ہے جو کسی کی مدد کے لیے درکار ہیں۔
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنْجَيْنَاكُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ
📘 خلیج کو پارکرنے کے بعد حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی چلتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ صحرائے سینا میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد کوہ طور کے دامن میں بلا کر خاص اہتمام سے ان کو شریعت عطا کی گئی۔ یہ لوگ چالیس سال تک صحرائے سینا میں رہے۔ یہاں ان کے لیے خصوصی نعمت کے طورپر پانی اور غذا (من وسلویٰ) کا انتظام کیا گيا، جو اس وقت تک مسلسل جاری رہا جب کہ ان کی اگلی نسل فلسطین کے سرسبز علاقہ میں پہنچ گئی۔
اللہ تعالیٰ کے اوپر بندوں کا یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بندوں کے ليے رزق فراہم کرے۔ اور بندوں کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ کسی حال میں اس کے ساتھ سرکشی نہ کریں۔ جو لوگ خدا کی نعمتوں کے شکر گزار بن کررہیں ان کے لیے خدا کی مزید رحمتیں ہیں۔ اور جو لوگ سرکش بن جائیں ان کے لیے خدا کا شدید عذاب ہے، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔
كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي ۖ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَىٰ
📘 خلیج کو پارکرنے کے بعد حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی چلتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ صحرائے سینا میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد کوہ طور کے دامن میں بلا کر خاص اہتمام سے ان کو شریعت عطا کی گئی۔ یہ لوگ چالیس سال تک صحرائے سینا میں رہے۔ یہاں ان کے لیے خصوصی نعمت کے طورپر پانی اور غذا (من وسلویٰ) کا انتظام کیا گيا، جو اس وقت تک مسلسل جاری رہا جب کہ ان کی اگلی نسل فلسطین کے سرسبز علاقہ میں پہنچ گئی۔
اللہ تعالیٰ کے اوپر بندوں کا یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بندوں کے ليے رزق فراہم کرے۔ اور بندوں کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ کسی حال میں اس کے ساتھ سرکشی نہ کریں۔ جو لوگ خدا کی نعمتوں کے شکر گزار بن کررہیں ان کے لیے خدا کی مزید رحمتیں ہیں۔ اور جو لوگ سرکش بن جائیں ان کے لیے خدا کا شدید عذاب ہے، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ
📘 خلیج کو پارکرنے کے بعد حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھی چلتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ صحرائے سینا میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد کوہ طور کے دامن میں بلا کر خاص اہتمام سے ان کو شریعت عطا کی گئی۔ یہ لوگ چالیس سال تک صحرائے سینا میں رہے۔ یہاں ان کے لیے خصوصی نعمت کے طورپر پانی اور غذا (من وسلویٰ) کا انتظام کیا گيا، جو اس وقت تک مسلسل جاری رہا جب کہ ان کی اگلی نسل فلسطین کے سرسبز علاقہ میں پہنچ گئی۔
اللہ تعالیٰ کے اوپر بندوں کا یہ حق ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بندوں کے ليے رزق فراہم کرے۔ اور بندوں کے اوپر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ کسی حال میں اس کے ساتھ سرکشی نہ کریں۔ جو لوگ خدا کی نعمتوں کے شکر گزار بن کررہیں ان کے لیے خدا کی مزید رحمتیں ہیں۔ اور جو لوگ سرکش بن جائیں ان کے لیے خدا کا شدید عذاب ہے، جو کبھی ختم نہ ہوگا۔
۞ وَمَا أَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ يَا مُوسَىٰ
📘 مصرسے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے لیے ایک تاریخ مقرر کی کہ اس روز وہ کوہِ طور کے اسی دامن میں دوبارہ آئیں جہاں انھیں ابتداء ً پیغمبری ملی تھی۔ یہاں حضرت موسیٰ کو تورات لینے کے ليے اپنی پوری قوم کے ساتھ پہنچنا تھا۔ مگر فرط شوق میں وہ تیزی سے روانہ ہو کر مقررہ تاریخ سے کچھ دن پہلے مقام موعود پر آگئے۔ اور قوم کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قوم سے حضرت موسیٰ کی علیحدگی قوم کے ليے فتنہ بن گئی۔قوم میں بعض مشرکانہ ذہنیت کے لوگ تھے۔ سامری ان کا لیڈر تھا۔ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر قوم کو بہکایا اور اس کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کردیا جیسا کہ مصر میں اس زمانہ میں ہوتا تھا۔
قَالَ هُمْ أُولَاءِ عَلَىٰ أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَىٰ
📘 مصرسے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے لیے ایک تاریخ مقرر کی کہ اس روز وہ کوہِ طور کے اسی دامن میں دوبارہ آئیں جہاں انھیں ابتداء ً پیغمبری ملی تھی۔ یہاں حضرت موسیٰ کو تورات لینے کے ليے اپنی پوری قوم کے ساتھ پہنچنا تھا۔ مگر فرط شوق میں وہ تیزی سے روانہ ہو کر مقررہ تاریخ سے کچھ دن پہلے مقام موعود پر آگئے۔ اور قوم کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قوم سے حضرت موسیٰ کی علیحدگی قوم کے ليے فتنہ بن گئی۔قوم میں بعض مشرکانہ ذہنیت کے لوگ تھے۔ سامری ان کا لیڈر تھا۔ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر قوم کو بہکایا اور اس کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کردیا جیسا کہ مصر میں اس زمانہ میں ہوتا تھا۔
قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِنْ بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ
📘 مصرسے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے لیے ایک تاریخ مقرر کی کہ اس روز وہ کوہِ طور کے اسی دامن میں دوبارہ آئیں جہاں انھیں ابتداء ً پیغمبری ملی تھی۔ یہاں حضرت موسیٰ کو تورات لینے کے ليے اپنی پوری قوم کے ساتھ پہنچنا تھا۔ مگر فرط شوق میں وہ تیزی سے روانہ ہو کر مقررہ تاریخ سے کچھ دن پہلے مقام موعود پر آگئے۔ اور قوم کو پیچھے چھوڑ دیا۔ قوم سے حضرت موسیٰ کی علیحدگی قوم کے ليے فتنہ بن گئی۔قوم میں بعض مشرکانہ ذہنیت کے لوگ تھے۔ سامری ان کا لیڈر تھا۔ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر قوم کو بہکایا اور اس کو بچھڑے کی پرستش میں مبتلا کردیا جیسا کہ مصر میں اس زمانہ میں ہوتا تھا۔
فَرَجَعَ مُوسَىٰ إِلَىٰ قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْدًا حَسَنًا ۚ أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدْتُمْ أَنْ يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُمْ مَوْعِدِي
📘 بنی اسرائیل کی عورتیں غالباً قدیم رواج کے مطابق بھاری زیورات اپنے جسم پر لادے ہوئی تھیں۔ اس سفر میں قوم نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو انھوںنے ان زیورات کو اتار کر ایک جگہ ڈھیر کردیا۔ ان کے درمیان ایک سامری تھا جو مصر کی قدیم صنعت بت سازی کا تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے ان زیورات کو پگھلایا اور ان سے بچھڑے جیسی ایک مورت بنا ڈالی۔ یہ بچھڑا اندرسے خالی تھا۔ اور اس طرح ہنر مندی سے بنایا گیا تھا کہ جب اس کے اندر سے ہوا گزرتی تو بیل کی ڈکار کی سی آواز آتی۔ سامری نے بنی اسرائیل کے جاہل عوام سے کہا کہ دیکھو تمهارا معبود تو یہ ہے جو یہاں موجود ہے۔ موسیٰ معبود کی تلاش میں معلوم نہیں کس پہاڑ پر چلے گئے۔
ہر زمانے کے ’’سامری‘‘ اسی طرح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ کسی محسوس چیز کو نشانہ بنا کر اسی کو سب سے بڑا حق ثابت کرتے ہیں۔ اور الفاظ کے فریب میں آکر عوام کی ایک بھیڑ ان کے گرد جمع ہوجاتی ہے — محسوس پرستی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ خواہ وہ دور قدیم کا انسان ہو یا دور جدید کا انسان۔
قَالُوا مَا أَخْلَفْنَا مَوْعِدَكَ بِمَلْكِنَا وَلَٰكِنَّا حُمِّلْنَا أَوْزَارًا مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنَاهَا فَكَذَٰلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُّ
📘 بنی اسرائیل کی عورتیں غالباً قدیم رواج کے مطابق بھاری زیورات اپنے جسم پر لادے ہوئی تھیں۔ اس سفر میں قوم نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو انھوںنے ان زیورات کو اتار کر ایک جگہ ڈھیر کردیا۔ ان کے درمیان ایک سامری تھا جو مصر کی قدیم صنعت بت سازی کا تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے ان زیورات کو پگھلایا اور ان سے بچھڑے جیسی ایک مورت بنا ڈالی۔ یہ بچھڑا اندرسے خالی تھا۔ اور اس طرح ہنر مندی سے بنایا گیا تھا کہ جب اس کے اندر سے ہوا گزرتی تو بیل کی ڈکار کی سی آواز آتی۔ سامری نے بنی اسرائیل کے جاہل عوام سے کہا کہ دیکھو تمهارا معبود تو یہ ہے جو یہاں موجود ہے۔ موسیٰ معبود کی تلاش میں معلوم نہیں کس پہاڑ پر چلے گئے۔
ہر زمانے کے ’’سامری‘‘ اسی طرح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ کسی محسوس چیز کو نشانہ بنا کر اسی کو سب سے بڑا حق ثابت کرتے ہیں۔ اور الفاظ کے فریب میں آکر عوام کی ایک بھیڑ ان کے گرد جمع ہوجاتی ہے — محسوس پرستی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ خواہ وہ دور قدیم کا انسان ہو یا دور جدید کا انسان۔
فَأَخْرَجَ لَهُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَهُ خُوَارٌ فَقَالُوا هَٰذَا إِلَٰهُكُمْ وَإِلَٰهُ مُوسَىٰ فَنَسِيَ
📘 بنی اسرائیل کی عورتیں غالباً قدیم رواج کے مطابق بھاری زیورات اپنے جسم پر لادے ہوئی تھیں۔ اس سفر میں قوم نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو انھوںنے ان زیورات کو اتار کر ایک جگہ ڈھیر کردیا۔ ان کے درمیان ایک سامری تھا جو مصر کی قدیم صنعت بت سازی کا تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے ان زیورات کو پگھلایا اور ان سے بچھڑے جیسی ایک مورت بنا ڈالی۔ یہ بچھڑا اندرسے خالی تھا۔ اور اس طرح ہنر مندی سے بنایا گیا تھا کہ جب اس کے اندر سے ہوا گزرتی تو بیل کی ڈکار کی سی آواز آتی۔ سامری نے بنی اسرائیل کے جاہل عوام سے کہا کہ دیکھو تمهارا معبود تو یہ ہے جو یہاں موجود ہے۔ موسیٰ معبود کی تلاش میں معلوم نہیں کس پہاڑ پر چلے گئے۔
ہر زمانے کے ’’سامری‘‘ اسی طرح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ کسی محسوس چیز کو نشانہ بنا کر اسی کو سب سے بڑا حق ثابت کرتے ہیں۔ اور الفاظ کے فریب میں آکر عوام کی ایک بھیڑ ان کے گرد جمع ہوجاتی ہے — محسوس پرستی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ خواہ وہ دور قدیم کا انسان ہو یا دور جدید کا انسان۔
أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا وَلَا يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا
📘 بنی اسرائیل کی عورتیں غالباً قدیم رواج کے مطابق بھاری زیورات اپنے جسم پر لادے ہوئی تھیں۔ اس سفر میں قوم نے کہیں پڑاؤ ڈالا تو انھوںنے ان زیورات کو اتار کر ایک جگہ ڈھیر کردیا۔ ان کے درمیان ایک سامری تھا جو مصر کی قدیم صنعت بت سازی کا تجربہ رکھتا تھا۔ اس نے ان زیورات کو پگھلایا اور ان سے بچھڑے جیسی ایک مورت بنا ڈالی۔ یہ بچھڑا اندرسے خالی تھا۔ اور اس طرح ہنر مندی سے بنایا گیا تھا کہ جب اس کے اندر سے ہوا گزرتی تو بیل کی ڈکار کی سی آواز آتی۔ سامری نے بنی اسرائیل کے جاہل عوام سے کہا کہ دیکھو تمهارا معبود تو یہ ہے جو یہاں موجود ہے۔ موسیٰ معبود کی تلاش میں معلوم نہیں کس پہاڑ پر چلے گئے۔
ہر زمانے کے ’’سامری‘‘ اسی طرح عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ وہ کسی محسوس چیز کو نشانہ بنا کر اسی کو سب سے بڑا حق ثابت کرتے ہیں۔ اور الفاظ کے فریب میں آکر عوام کی ایک بھیڑ ان کے گرد جمع ہوجاتی ہے — محسوس پرستی انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ خواہ وہ دور قدیم کا انسان ہو یا دور جدید کا انسان۔
وَهَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَىٰ
📘 حضرت موسیٰ مصر میں پیدا ہوئے۔ وہاں ایک موقع پر ایک قبطی ان کے ہاتھ سے ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد وہ مصر سے نکل کر مدین چلے گئے۔ وہاں وہ کئی سال تک رہے۔ وہیں ایک خاتون سے نکاح کیا اور پھر اپنی اہلیہ کو لے کر واپس مصر کے لیے روانہ ہوئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ بکریاں بھی تھیں۔
حضرت موسیٰ اس سفر میں جزیرہ نمائے سینا کے جنوب میں وادی طور کے علاقہ سے گزر رہے تھے۔ رات ہوئی تو تاریکی میں راستہ کا اندازہ نہیں ہورہا تھا۔ مزید یہ کہ یہ سخت سردی کا موسم تھا۔ اسی دوران انھیں دکھائی دیاکہ دور ایک آگ جل رہی ہے۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ اس کے رخ پر روانہ ہوئے تاکہ سردی کا مقابلہ کرنے کے لیے آگ حاصل کریں اور وہاں کچھ لوگ ہوں تو ان سے راستہ معلوم کریں۔
وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِنْ قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهِ ۖ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي
📘 حضرت موسیٰ کے بعد قوم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حضرت ہارون پر تھی۔ انھوںنے قوم کو کافی سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر قوم کے اوپر ان کا وہ دباؤ نہ تھا جو حضرت موسیٰ کا تھا۔اس ليے ان کے منع کرنے کے بعد بھی لوگ اس سے نہ رکے۔ حضرت ہارون کا اصرار بڑھا تو لوگوں نے کہا کہ اب جوہوگیا وہ تو اسی طرح جاری رہے گا۔ موسیٰ جب لوٹ کر آئیں گے تو وہی اس کا فیصلہ کریںگے۔
حضرت ہارون اس وقت اگر کوئی سخت اقدام کرتے تو وہ نتیجہ خیز نہ ہوتا۔ کیوں کہ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی تعداد کم تھی۔ آپ نے بے نتیجہ کارروائی کرنے کے مقابلہ میں اس کو زیادہ مناسب سمجھا کہ وقتی طور پر صبر کا طریقہ اختیا رکرلیں۔ اور لوگوں کي اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔
قَالُوا لَنْ نَبْرَحَ عَلَيْهِ عَاكِفِينَ حَتَّىٰ يَرْجِعَ إِلَيْنَا مُوسَىٰ
📘 حضرت موسیٰ کے بعد قوم کی دیکھ بھال کی ذمہ داری حضرت ہارون پر تھی۔ انھوںنے قوم کو کافی سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر قوم کے اوپر ان کا وہ دباؤ نہ تھا جو حضرت موسیٰ کا تھا۔اس ليے ان کے منع کرنے کے بعد بھی لوگ اس سے نہ رکے۔ حضرت ہارون کا اصرار بڑھا تو لوگوں نے کہا کہ اب جوہوگیا وہ تو اسی طرح جاری رہے گا۔ موسیٰ جب لوٹ کر آئیں گے تو وہی اس کا فیصلہ کریںگے۔
حضرت ہارون اس وقت اگر کوئی سخت اقدام کرتے تو وہ نتیجہ خیز نہ ہوتا۔ کیوں کہ آپ کے ساتھ جو لوگ تھے ان کی تعداد کم تھی۔ آپ نے بے نتیجہ کارروائی کرنے کے مقابلہ میں اس کو زیادہ مناسب سمجھا کہ وقتی طور پر صبر کا طریقہ اختیا رکرلیں۔ اور لوگوں کي اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔
قَالَ يَا هَارُونُ مَا مَنَعَكَ إِذْ رَأَيْتَهُمْ ضَلُّوا
📘 حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا۔ حضرت ہارون نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ میںنے اصلاح کی کوشش نہیں کی اور جاہلوں کے ساتھ مصالحت کرلی۔ بلکہ میں نے پوری قوت کے ساتھ ان کو اس مشرکانہ فعل سے روکنے کی کوشش کی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ قوم کی اکثریت سامری کے فریب میں آکر اس کی ساتھی بن گئی۔ میں نے اصرار کیا تو وہ لوگ جنگ وقتل پر آمادہ ہوگئے۔مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اصرار جاری رکھتاہوں تو قوم کے اندر باہمی خون ریزی شروع ہوجائے گی۔
معاملہ اس نوبت تک پہنچنے کے بعد اب مجھے دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ یا تو باہمی جنگ، یا آپ کی آمد تک اس معاملہ کو ملتوی رکھنا۔ میں نے دوسری صورت کو اَہون (آسان تر)سمجھ کراس کو اختیار کرلیا— بہت سے مواقع پر دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باہمی لڑائی سے بچنے کے لیے خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیا جائے، حتی کہ شرک جیسے معاملہ میں بھی۔
أَلَّا تَتَّبِعَنِ ۖ أَفَعَصَيْتَ أَمْرِي
📘 حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا۔ حضرت ہارون نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ میںنے اصلاح کی کوشش نہیں کی اور جاہلوں کے ساتھ مصالحت کرلی۔ بلکہ میں نے پوری قوت کے ساتھ ان کو اس مشرکانہ فعل سے روکنے کی کوشش کی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ قوم کی اکثریت سامری کے فریب میں آکر اس کی ساتھی بن گئی۔ میں نے اصرار کیا تو وہ لوگ جنگ وقتل پر آمادہ ہوگئے۔مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اصرار جاری رکھتاہوں تو قوم کے اندر باہمی خون ریزی شروع ہوجائے گی۔
معاملہ اس نوبت تک پہنچنے کے بعد اب مجھے دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ یا تو باہمی جنگ، یا آپ کی آمد تک اس معاملہ کو ملتوی رکھنا۔ میں نے دوسری صورت کو اَہون (آسان تر)سمجھ کراس کو اختیار کرلیا— بہت سے مواقع پر دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باہمی لڑائی سے بچنے کے لیے خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیا جائے، حتی کہ شرک جیسے معاملہ میں بھی۔
قَالَ يَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي ۖ إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تَقُولَ فَرَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِي
📘 حضرت موسیٰ نے اپنے بھائی کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا۔ حضرت ہارون نے جواب دیا کہ ایسا نہیں ہے کہ میںنے اصلاح کی کوشش نہیں کی اور جاہلوں کے ساتھ مصالحت کرلی۔ بلکہ میں نے پوری قوت کے ساتھ ان کو اس مشرکانہ فعل سے روکنے کی کوشش کی۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ قوم کی اکثریت سامری کے فریب میں آکر اس کی ساتھی بن گئی۔ میں نے اصرار کیا تو وہ لوگ جنگ وقتل پر آمادہ ہوگئے۔مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اصرار جاری رکھتاہوں تو قوم کے اندر باہمی خون ریزی شروع ہوجائے گی۔
معاملہ اس نوبت تک پہنچنے کے بعد اب مجھے دو میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔ یا تو باہمی جنگ، یا آپ کی آمد تک اس معاملہ کو ملتوی رکھنا۔ میں نے دوسری صورت کو اَہون (آسان تر)سمجھ کراس کو اختیار کرلیا— بہت سے مواقع پر دین کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ باہمی لڑائی سے بچنے کے لیے خاموشی کا طریقہ اختیار کرلیا جائے، حتی کہ شرک جیسے معاملہ میں بھی۔
قَالَ فَمَا خَطْبُكَ يَا سَامِرِيُّ
📘 حضرت موسیٰ کو جب معلوم ہوا کہ اس فعل کا اصل لیڈر سامری ہے تو آپ نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ سامری نے دوبارہ ہوشیاری کا طریقہ اختیار کیا اور بات بناتے ہوئے کہا میں نے جو کچھ کیا ایک کشف کے زیر اثر کیا۔ اور خودرسول کے نقش قدم کی مٹی بھی اس میں برکت کے لیے شامل کردی۔
پیغمبر کو فریب دینے کی کوشش کی بنا پر سامری کا جرم اور زیادہ شدید ہوگیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق اس کو خدا نے کوڑھ کا مریض بنادیا۔ اس کا جسم ایسا مکروہ ہوگیا کہ لوگ اس کو دیکھ کر دور ہی سے اس سے کترانے لگے۔ سامری نے جھوٹ کی بنیاد پر قوم کا محبوب بننے کی کوشش کی۔ اس کی اسے یہ سزا ملی کہ اس کو قوم کا سب سے زیادہ مبغوض شخص بنا دیا گیا۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔
بنی اسرائیل کے ذہن میں مشرکانہ مظاہر کی جو عظمت تھی اسی کو ختم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ نے یہ کیا کہ لوگوں کے سامنے بچھڑے کو جلا ڈالا اور پھر اس کی خاک کو سمندر کی موجوں میں بہادیا۔
قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَٰلِكَ سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي
📘 حضرت موسیٰ کو جب معلوم ہوا کہ اس فعل کا اصل لیڈر سامری ہے تو آپ نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ سامری نے دوبارہ ہوشیاری کا طریقہ اختیار کیا اور بات بناتے ہوئے کہا میں نے جو کچھ کیا ایک کشف کے زیر اثر کیا۔ اور خودرسول کے نقش قدم کی مٹی بھی اس میں برکت کے لیے شامل کردی۔
پیغمبر کو فریب دینے کی کوشش کی بنا پر سامری کا جرم اور زیادہ شدید ہوگیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق اس کو خدا نے کوڑھ کا مریض بنادیا۔ اس کا جسم ایسا مکروہ ہوگیا کہ لوگ اس کو دیکھ کر دور ہی سے اس سے کترانے لگے۔ سامری نے جھوٹ کی بنیاد پر قوم کا محبوب بننے کی کوشش کی۔ اس کی اسے یہ سزا ملی کہ اس کو قوم کا سب سے زیادہ مبغوض شخص بنا دیا گیا۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔
بنی اسرائیل کے ذہن میں مشرکانہ مظاہر کی جو عظمت تھی اسی کو ختم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ نے یہ کیا کہ لوگوں کے سامنے بچھڑے کو جلا ڈالا اور پھر اس کی خاک کو سمندر کی موجوں میں بہادیا۔
قَالَ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ ۖ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ ۖ وَانْظُرْ إِلَىٰ إِلَٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا
📘 حضرت موسیٰ کو جب معلوم ہوا کہ اس فعل کا اصل لیڈر سامری ہے تو آپ نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ سامری نے دوبارہ ہوشیاری کا طریقہ اختیار کیا اور بات بناتے ہوئے کہا میں نے جو کچھ کیا ایک کشف کے زیر اثر کیا۔ اور خودرسول کے نقش قدم کی مٹی بھی اس میں برکت کے لیے شامل کردی۔
پیغمبر کو فریب دینے کی کوشش کی بنا پر سامری کا جرم اور زیادہ شدید ہوگیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق اس کو خدا نے کوڑھ کا مریض بنادیا۔ اس کا جسم ایسا مکروہ ہوگیا کہ لوگ اس کو دیکھ کر دور ہی سے اس سے کترانے لگے۔ سامری نے جھوٹ کی بنیاد پر قوم کا محبوب بننے کی کوشش کی۔ اس کی اسے یہ سزا ملی کہ اس کو قوم کا سب سے زیادہ مبغوض شخص بنا دیا گیا۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔
بنی اسرائیل کے ذہن میں مشرکانہ مظاہر کی جو عظمت تھی اسی کو ختم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ نے یہ کیا کہ لوگوں کے سامنے بچھڑے کو جلا ڈالا اور پھر اس کی خاک کو سمندر کی موجوں میں بہادیا۔
إِنَّمَا إِلَٰهُكُمُ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا
📘 حضرت موسیٰ کو جب معلوم ہوا کہ اس فعل کا اصل لیڈر سامری ہے تو آپ نے اس سے پوچھ گچھ کی۔ سامری نے دوبارہ ہوشیاری کا طریقہ اختیار کیا اور بات بناتے ہوئے کہا میں نے جو کچھ کیا ایک کشف کے زیر اثر کیا۔ اور خودرسول کے نقش قدم کی مٹی بھی اس میں برکت کے لیے شامل کردی۔
پیغمبر کو فریب دینے کی کوشش کی بنا پر سامری کا جرم اور زیادہ شدید ہوگیا۔ بائبل کے بیان کے مطابق اس کو خدا نے کوڑھ کا مریض بنادیا۔ اس کا جسم ایسا مکروہ ہوگیا کہ لوگ اس کو دیکھ کر دور ہی سے اس سے کترانے لگے۔ سامری نے جھوٹ کی بنیاد پر قوم کا محبوب بننے کی کوشش کی۔ اس کی اسے یہ سزا ملی کہ اس کو قوم کا سب سے زیادہ مبغوض شخص بنا دیا گیا۔ اور آخرت کی سزا اس کے علاوہ ہے۔
بنی اسرائیل کے ذہن میں مشرکانہ مظاہر کی جو عظمت تھی اسی کو ختم کرنے کے لیے حضرت موسیٰ نے یہ کیا کہ لوگوں کے سامنے بچھڑے کو جلا ڈالا اور پھر اس کی خاک کو سمندر کی موجوں میں بہادیا۔
كَذَٰلِكَ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ ۚ وَقَدْ آتَيْنَاكَ مِنْ لَدُنَّا ذِكْرًا
📘 قیامت میں موجودہ زمین ایک وسیع اور ہموار فرش کی مانند بنادی جائے گی۔ اس وقت یہاںنہ پہاڑوں کی بلندیاں ہوں گی اور نہ دریاؤں کی گہرائیاں۔ تمام انسان دوبارہ پیدا ہوکر اس زمین پر جمع کيے جائیں گے۔ دنیا میں خدا کی آواز خدا کے داعی کی زبان سے بلند ہوتی ہے تو لوگ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ مگر قیامت میں جب خدا براہِ راست لوگوں کو پکارے گا تو سارے انسان کسی ادنیٰ انحراف کے بغیر اس کی آواز کی طرف چل پڑیںگے۔ لوگوں پر اس قدر ہول طاری ہوگا کہ کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلے گا۔ لوگوں کے چلنے کی سرسراہٹ کے سوا کوئی اور آواز نہ ہوگی جو اس وقت لوگوں کو سنائی دے۔