🕋 تفسير سورة السجدة
(As-Sajda) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم
📘 ’’یہ خدا کی کتاب ہے‘‘— بظاہر چند الفاظ کا ایک جملہ ہے۔ مگر یہ اتنا مشکل جملہ ہے کہ تاریخ میں یہ جملہ کہنے کی ہمت حقیقی طورپر ان خاص افرادکے سوا کسی کونہ ہوسکی جن پر واقعۃً خدا کی کتاب اتری تھی۔ اگر کبھی کسی اور شخص نے یہ جملہ بولنے کی جرأت کی ہے تو وہ یا تو مسخرہ تھا یا پاگل۔ اور اس کا مسخرہ یا پاگل ہونا بعد کو پوری طرح ثابت ہوگیا۔
قرآن اپنا ثبوت آپ ہے۔ اس کا معجزاتی اسلوب، اس کی کسی بات کا سیکڑوں سال میں غلط ثابت نہ ہونا، اس کا اپنے مخالفین پر پوری طرح غالب آنا، یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعا ت اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ قرآن خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب ہے۔ اور جب وہ خدا کی کتاب ہے تو لازم ہے کہ ہر شخص اس کی چیتاونی پر دھیان دے، وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرے۔
وَقَالُوا أَإِذَا ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ أَإِنَّا لَفِي خَلْقٍ جَدِيدٍ ۚ بَلْ هُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ كَافِرُونَ
📘 انسان کی تخلیقِ اول اس کی تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھنے کےلیے بالکل کافی ہے۔ مگر جب خدا کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہو تو آدمی تخلیقِ ثانی کا مذاق اڑاتا ہے، وہ غیر سنجیدہ طورپر مختلف باتیں کرتا ہے۔
مگر یہ جسارت صرف اس وقت تک ہے جب تک آدمی کی امتحانی آزادی کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ جب یہ مدت ختم ہوگی اور آدمی مر کر خدائے ذو الجلال کے سامنے حساب کےلیے کھڑا ہوگا تو اس کے سارے الفاظ گم ہو جائیں گے۔ اس وقت سرکش لوگ کہیں گے کہ ہم نے مان لیا۔ ہم کو دوبارہ زمین میں بھیج دیجيے تاکہ ہم نیک عمل کریں۔ مگر ان کا یہ ماننابے فائدہ ہوگا۔ خدا کو اگر اس طرح منوانا ہوتا تو وہ دنیا ہی میں لوگوں کو ماننے کے لیے مجبور کردیتا۔
خدا کے یہاں اس اعتراف کی قیمت ہے، جو بغیر دیکھے کیا گیا ہو۔ دیکھنے کے بعد جو اعتراف کیا جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
۞ قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
📘 انسان کی تخلیقِ اول اس کی تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھنے کےلیے بالکل کافی ہے۔ مگر جب خدا کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہو تو آدمی تخلیقِ ثانی کا مذاق اڑاتا ہے، وہ غیر سنجیدہ طورپر مختلف باتیں کرتا ہے۔
مگر یہ جسارت صرف اس وقت تک ہے جب تک آدمی کی امتحانی آزادی کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ جب یہ مدت ختم ہوگی اور آدمی مر کر خدائے ذو الجلال کے سامنے حساب کےلیے کھڑا ہوگا تو اس کے سارے الفاظ گم ہو جائیں گے۔ اس وقت سرکش لوگ کہیں گے کہ ہم نے مان لیا۔ ہم کو دوبارہ زمین میں بھیج دیجيے تاکہ ہم نیک عمل کریں۔ مگر ان کا یہ ماننابے فائدہ ہوگا۔ خدا کو اگر اس طرح منوانا ہوتا تو وہ دنیا ہی میں لوگوں کو ماننے کے لیے مجبور کردیتا۔
خدا کے یہاں اس اعتراف کی قیمت ہے، جو بغیر دیکھے کیا گیا ہو۔ دیکھنے کے بعد جو اعتراف کیا جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الْمُجْرِمُونَ نَاكِسُو رُءُوسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ رَبَّنَا أَبْصَرْنَا وَسَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا إِنَّا مُوقِنُونَ
📘 انسان کی تخلیقِ اول اس کی تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھنے کےلیے بالکل کافی ہے۔ مگر جب خدا کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہو تو آدمی تخلیقِ ثانی کا مذاق اڑاتا ہے، وہ غیر سنجیدہ طورپر مختلف باتیں کرتا ہے۔
مگر یہ جسارت صرف اس وقت تک ہے جب تک آدمی کی امتحانی آزادی کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ جب یہ مدت ختم ہوگی اور آدمی مر کر خدائے ذو الجلال کے سامنے حساب کےلیے کھڑا ہوگا تو اس کے سارے الفاظ گم ہو جائیں گے۔ اس وقت سرکش لوگ کہیں گے کہ ہم نے مان لیا۔ ہم کو دوبارہ زمین میں بھیج دیجيے تاکہ ہم نیک عمل کریں۔ مگر ان کا یہ ماننابے فائدہ ہوگا۔ خدا کو اگر اس طرح منوانا ہوتا تو وہ دنیا ہی میں لوگوں کو ماننے کے لیے مجبور کردیتا۔
خدا کے یہاں اس اعتراف کی قیمت ہے، جو بغیر دیکھے کیا گیا ہو۔ دیکھنے کے بعد جو اعتراف کیا جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
📘 انسان کی تخلیقِ اول اس کی تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھنے کےلیے بالکل کافی ہے۔ مگر جب خدا کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہو تو آدمی تخلیقِ ثانی کا مذاق اڑاتا ہے، وہ غیر سنجیدہ طورپر مختلف باتیں کرتا ہے۔
مگر یہ جسارت صرف اس وقت تک ہے جب تک آدمی کی امتحانی آزادی کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ جب یہ مدت ختم ہوگی اور آدمی مر کر خدائے ذو الجلال کے سامنے حساب کےلیے کھڑا ہوگا تو اس کے سارے الفاظ گم ہو جائیں گے۔ اس وقت سرکش لوگ کہیں گے کہ ہم نے مان لیا۔ ہم کو دوبارہ زمین میں بھیج دیجيے تاکہ ہم نیک عمل کریں۔ مگر ان کا یہ ماننابے فائدہ ہوگا۔ خدا کو اگر اس طرح منوانا ہوتا تو وہ دنیا ہی میں لوگوں کو ماننے کے لیے مجبور کردیتا۔
خدا کے یہاں اس اعتراف کی قیمت ہے، جو بغیر دیکھے کیا گیا ہو۔ دیکھنے کے بعد جو اعتراف کیا جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
فَذُوقُوا بِمَا نَسِيتُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا إِنَّا نَسِينَاكُمْ ۖ وَذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 انسان کی تخلیقِ اول اس کی تخلیقِ ثانی کے معاملے کو سمجھنے کےلیے بالکل کافی ہے۔ مگر جب خدا کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہو تو آدمی تخلیقِ ثانی کا مذاق اڑاتا ہے، وہ غیر سنجیدہ طورپر مختلف باتیں کرتا ہے۔
مگر یہ جسارت صرف اس وقت تک ہے جب تک آدمی کی امتحانی آزادی کی مدت ختم نہ ہوئی ہو۔ جب یہ مدت ختم ہوگی اور آدمی مر کر خدائے ذو الجلال کے سامنے حساب کےلیے کھڑا ہوگا تو اس کے سارے الفاظ گم ہو جائیں گے۔ اس وقت سرکش لوگ کہیں گے کہ ہم نے مان لیا۔ ہم کو دوبارہ زمین میں بھیج دیجيے تاکہ ہم نیک عمل کریں۔ مگر ان کا یہ ماننابے فائدہ ہوگا۔ خدا کو اگر اس طرح منوانا ہوتا تو وہ دنیا ہی میں لوگوں کو ماننے کے لیے مجبور کردیتا۔
خدا کے یہاں اس اعتراف کی قیمت ہے، جو بغیر دیکھے کیا گیا ہو۔ دیکھنے کے بعد جو اعتراف کیا جائے اس کی کوئی قیمت نہیں۔
إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩
📘 ہدایت کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز مادۂ اعتراف ہے۔ہدایت صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب سچائی ان کے سامنے آئے تو وہ فوراً اس کو مان لیں۔ خواہ سچائی بظاہر ایک چھوٹے آدمی کے ذریعہ سامنے آئی ہو، خواہ اس کو ماننا اپنے آپ کو غلط قرار دینے کے ہم معنی ہو، خواہ اس کو مان کر اپنی زندگی کا نقشہ درہم برہم ہوتا ہوا نظر آئے، جن لوگوں کے اندر یہ حوصلہ ہو وہی سچائی کوپالیتے ہیں۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ وہ سچائی کو اس طرح مانیں کہ ان کی بڑائی بدستور قائم رہے ایسے لوگوں کو سچائی کبھی نہیں ملتی۔
جو آدمی حق کی خاطر اپنی بڑائی کو کھودے وہ سب سے بڑی چیز کو پالیتا ہے اور وہ خدا کی بڑائی ہے اس کی زندگی میں خدا اس طرح شامل ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی یادوں کے ساتھ سوئے اور وہ اس کی یادوں کے ساتھ جاگے۔ اس کے خوف اور امید کے جذبات تمام تر خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائیں۔ وہ اپنا اثاثہ اس طرح خدا کے حوالے کردیتا ہے کہ اس میں سے کچھ بچا کر نہیں رکھتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں جنت کے ابدی باغوں میں ٹھنڈی ہوں گی۔
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
📘 ہدایت کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز مادۂ اعتراف ہے۔ہدایت صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب سچائی ان کے سامنے آئے تو وہ فوراً اس کو مان لیں۔ خواہ سچائی بظاہر ایک چھوٹے آدمی کے ذریعہ سامنے آئی ہو، خواہ اس کو ماننا اپنے آپ کو غلط قرار دینے کے ہم معنی ہو، خواہ اس کو مان کر اپنی زندگی کا نقشہ درہم برہم ہوتا ہوا نظر آئے، جن لوگوں کے اندر یہ حوصلہ ہو وہی سچائی کوپالیتے ہیں۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ وہ سچائی کو اس طرح مانیں کہ ان کی بڑائی بدستور قائم رہے ایسے لوگوں کو سچائی کبھی نہیں ملتی۔
جو آدمی حق کی خاطر اپنی بڑائی کو کھودے وہ سب سے بڑی چیز کو پالیتا ہے اور وہ خدا کی بڑائی ہے اس کی زندگی میں خدا اس طرح شامل ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی یادوں کے ساتھ سوئے اور وہ اس کی یادوں کے ساتھ جاگے۔ اس کے خوف اور امید کے جذبات تمام تر خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائیں۔ وہ اپنا اثاثہ اس طرح خدا کے حوالے کردیتا ہے کہ اس میں سے کچھ بچا کر نہیں رکھتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں جنت کے ابدی باغوں میں ٹھنڈی ہوں گی۔
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 ہدایت کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز مادۂ اعتراف ہے۔ہدایت صرف ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب سچائی ان کے سامنے آئے تو وہ فوراً اس کو مان لیں۔ خواہ سچائی بظاہر ایک چھوٹے آدمی کے ذریعہ سامنے آئی ہو، خواہ اس کو ماننا اپنے آپ کو غلط قرار دینے کے ہم معنی ہو، خواہ اس کو مان کر اپنی زندگی کا نقشہ درہم برہم ہوتا ہوا نظر آئے، جن لوگوں کے اندر یہ حوصلہ ہو وہی سچائی کوپالیتے ہیں۔ جو لوگ یہ چاہیں کہ وہ سچائی کو اس طرح مانیں کہ ان کی بڑائی بدستور قائم رہے ایسے لوگوں کو سچائی کبھی نہیں ملتی۔
جو آدمی حق کی خاطر اپنی بڑائی کو کھودے وہ سب سے بڑی چیز کو پالیتا ہے اور وہ خدا کی بڑائی ہے اس کی زندگی میں خدا اس طرح شامل ہو جاتا ہے کہ وہ اس کی یادوں کے ساتھ سوئے اور وہ اس کی یادوں کے ساتھ جاگے۔ اس کے خوف اور امید کے جذبات تمام تر خدا کے ساتھ وابستہ ہوجائیں۔ وہ اپنا اثاثہ اس طرح خدا کے حوالے کردیتا ہے کہ اس میں سے کچھ بچا کر نہیں رکھتا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں جنت کے ابدی باغوں میں ٹھنڈی ہوں گی۔
أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا ۚ لَا يَسْتَوُونَ
📘 مومن وہ ہے جو خدائی سچائی کا اعتراف کرے۔ اور فاسق وہ ہے جس کے سامنے سچائی آئے تو وہ اپنی ذات کے تحفظ کی خاطر اس کا انکار کردے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف کردار ہیں اورد و مختلف کردار کا انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دنیا میں جو شخص سچائی کا اعتراف کرتاہے وہ اس بات کا ثبوت دیتاہے کہ وہ سچائی کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ ایسا شخص آخرت میں بڑا بنایا جائے گا۔ اس کے برعکس ،جو شخص سچائی کو نظر انداز کرے اس نے اپنی ذات کو بڑا سمجھا، ایسا شخص آخرت کی حقیقی دنیا میں چھوٹا کردیا جائے گا۔
أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 مومن وہ ہے جو خدائی سچائی کا اعتراف کرے۔ اور فاسق وہ ہے جس کے سامنے سچائی آئے تو وہ اپنی ذات کے تحفظ کی خاطر اس کا انکار کردے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف کردار ہیں اورد و مختلف کردار کا انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دنیا میں جو شخص سچائی کا اعتراف کرتاہے وہ اس بات کا ثبوت دیتاہے کہ وہ سچائی کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ ایسا شخص آخرت میں بڑا بنایا جائے گا۔ اس کے برعکس ،جو شخص سچائی کو نظر انداز کرے اس نے اپنی ذات کو بڑا سمجھا، ایسا شخص آخرت کی حقیقی دنیا میں چھوٹا کردیا جائے گا۔
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 ’’یہ خدا کی کتاب ہے‘‘— بظاہر چند الفاظ کا ایک جملہ ہے۔ مگر یہ اتنا مشکل جملہ ہے کہ تاریخ میں یہ جملہ کہنے کی ہمت حقیقی طورپر ان خاص افرادکے سوا کسی کونہ ہوسکی جن پر واقعۃً خدا کی کتاب اتری تھی۔ اگر کبھی کسی اور شخص نے یہ جملہ بولنے کی جرأت کی ہے تو وہ یا تو مسخرہ تھا یا پاگل۔ اور اس کا مسخرہ یا پاگل ہونا بعد کو پوری طرح ثابت ہوگیا۔
قرآن اپنا ثبوت آپ ہے۔ اس کا معجزاتی اسلوب، اس کی کسی بات کا سیکڑوں سال میں غلط ثابت نہ ہونا، اس کا اپنے مخالفین پر پوری طرح غالب آنا، یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعا ت اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ قرآن خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب ہے۔ اور جب وہ خدا کی کتاب ہے تو لازم ہے کہ ہر شخص اس کی چیتاونی پر دھیان دے، وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرے۔
وَأَمَّا الَّذِينَ فَسَقُوا فَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا أُعِيدُوا فِيهَا وَقِيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ
📘 مومن وہ ہے جو خدائی سچائی کا اعتراف کرے۔ اور فاسق وہ ہے جس کے سامنے سچائی آئے تو وہ اپنی ذات کے تحفظ کی خاطر اس کا انکار کردے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف کردار ہیں اورد و مختلف کردار کا انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دنیا میں جو شخص سچائی کا اعتراف کرتاہے وہ اس بات کا ثبوت دیتاہے کہ وہ سچائی کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ ایسا شخص آخرت میں بڑا بنایا جائے گا۔ اس کے برعکس ،جو شخص سچائی کو نظر انداز کرے اس نے اپنی ذات کو بڑا سمجھا، ایسا شخص آخرت کی حقیقی دنیا میں چھوٹا کردیا جائے گا۔
وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَىٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
📘 مومن وہ ہے جو خدائی سچائی کا اعتراف کرے۔ اور فاسق وہ ہے جس کے سامنے سچائی آئے تو وہ اپنی ذات کے تحفظ کی خاطر اس کا انکار کردے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف کردار ہیں اورد و مختلف کردار کا انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دنیا میں جو شخص سچائی کا اعتراف کرتاہے وہ اس بات کا ثبوت دیتاہے کہ وہ سچائی کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ ایسا شخص آخرت میں بڑا بنایا جائے گا۔ اس کے برعکس ،جو شخص سچائی کو نظر انداز کرے اس نے اپنی ذات کو بڑا سمجھا، ایسا شخص آخرت کی حقیقی دنیا میں چھوٹا کردیا جائے گا۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنْتَقِمُونَ
📘 مومن وہ ہے جو خدائی سچائی کا اعتراف کرے۔ اور فاسق وہ ہے جس کے سامنے سچائی آئے تو وہ اپنی ذات کے تحفظ کی خاطر اس کا انکار کردے۔یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف کردار ہیں اورد و مختلف کردار کا انجام ایک جیسا نہیں ہوسکتا۔
موجودہ دنیا میں جو شخص سچائی کا اعتراف کرتاہے وہ اس بات کا ثبوت دیتاہے کہ وہ سچائی کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ ایسا شخص آخرت میں بڑا بنایا جائے گا۔ اس کے برعکس ،جو شخص سچائی کو نظر انداز کرے اس نے اپنی ذات کو بڑا سمجھا، ایسا شخص آخرت کی حقیقی دنیا میں چھوٹا کردیا جائے گا۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ
📘 خداکی کتاب کسی گروہ کو ملنا اس کو امامت عالم کی کنجی عطا کرنا ہے۔ مگرامامت عالم کا مقام کسی گروہ کو اس وقت ملتاہے جب کہ وہ صبر کا ثبوت دے۔ لَمَّا صَبَرُواکی تفسیر لَمَّا صَبَرُوا عَنِ الدُّنْيَا سے کی گئی ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد 3، صفحہ
463
) یعنی پیشوائی کا مقام انھیں اس وقت ملا جب کہ انھوں نے دنیا سے صبر کیا۔
لوگ اسی شخص یا گروہ کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں جو انھیں اپنے سے بلند دکھائی دے۔ جو اس وقت اصول کےلیے جئے جب کہ لوگ مفاد کےلیے جیتے ہیں۔ جو اس وقت انصاف کی حمایت کرے جب کہ لوگ قوم کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ جو اس وقت برداشت کرے جب کہ لوگ انتقام لیتے ہیں۔ جو اس وقت اپنے کو محرومی پر راضی کرلے جب کہ لوگ پانے کےلیے دوڑتے ہیں۔ جو اس وقت حق کےلیے قربان ہوجائے جب کہ لوگ صرف اپنی ذات کےلیے قربان ہونا جانتے ہیں۔ یہی صبر ہے اور جولوگ اس صبر کا ثبوت دیں وہی قوموں کے امام بنتے ہیں۔
دین میں نئی نئی تشریح وتعبیر نکال کر جو لوگ اختلافات کھڑے کرتے ہیں وہ اپنے ليے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخر کار خدا ان کی بات کو رد کردے اور اس کے بعد ابدی ذلت کے سوا اور کچھ ان کے حصہ میں نہ آئے — آدمی اکثر حالات میں سبق نہیں لیتا، یہاں تک کہ جو کچھ دوسروں پر گزرا وہی اس پر بھی نہ گزر جائے۔
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
📘 خداکی کتاب کسی گروہ کو ملنا اس کو امامت عالم کی کنجی عطا کرنا ہے۔ مگرامامت عالم کا مقام کسی گروہ کو اس وقت ملتاہے جب کہ وہ صبر کا ثبوت دے۔ لَمَّا صَبَرُواکی تفسیر لَمَّا صَبَرُوا عَنِ الدُّنْيَا سے کی گئی ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد 3، صفحہ
463
) یعنی پیشوائی کا مقام انھیں اس وقت ملا جب کہ انھوں نے دنیا سے صبر کیا۔
لوگ اسی شخص یا گروہ کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں جو انھیں اپنے سے بلند دکھائی دے۔ جو اس وقت اصول کےلیے جئے جب کہ لوگ مفاد کےلیے جیتے ہیں۔ جو اس وقت انصاف کی حمایت کرے جب کہ لوگ قوم کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ جو اس وقت برداشت کرے جب کہ لوگ انتقام لیتے ہیں۔ جو اس وقت اپنے کو محرومی پر راضی کرلے جب کہ لوگ پانے کےلیے دوڑتے ہیں۔ جو اس وقت حق کےلیے قربان ہوجائے جب کہ لوگ صرف اپنی ذات کےلیے قربان ہونا جانتے ہیں۔ یہی صبر ہے اور جولوگ اس صبر کا ثبوت دیں وہی قوموں کے امام بنتے ہیں۔
دین میں نئی نئی تشریح وتعبیر نکال کر جو لوگ اختلافات کھڑے کرتے ہیں وہ اپنے ليے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخر کار خدا ان کی بات کو رد کردے اور اس کے بعد ابدی ذلت کے سوا اور کچھ ان کے حصہ میں نہ آئے — آدمی اکثر حالات میں سبق نہیں لیتا، یہاں تک کہ جو کچھ دوسروں پر گزرا وہی اس پر بھی نہ گزر جائے۔
إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
📘 خداکی کتاب کسی گروہ کو ملنا اس کو امامت عالم کی کنجی عطا کرنا ہے۔ مگرامامت عالم کا مقام کسی گروہ کو اس وقت ملتاہے جب کہ وہ صبر کا ثبوت دے۔ لَمَّا صَبَرُواکی تفسیر لَمَّا صَبَرُوا عَنِ الدُّنْيَا سے کی گئی ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد 3، صفحہ
463
) یعنی پیشوائی کا مقام انھیں اس وقت ملا جب کہ انھوں نے دنیا سے صبر کیا۔
لوگ اسی شخص یا گروہ کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں جو انھیں اپنے سے بلند دکھائی دے۔ جو اس وقت اصول کےلیے جئے جب کہ لوگ مفاد کےلیے جیتے ہیں۔ جو اس وقت انصاف کی حمایت کرے جب کہ لوگ قوم کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ جو اس وقت برداشت کرے جب کہ لوگ انتقام لیتے ہیں۔ جو اس وقت اپنے کو محرومی پر راضی کرلے جب کہ لوگ پانے کےلیے دوڑتے ہیں۔ جو اس وقت حق کےلیے قربان ہوجائے جب کہ لوگ صرف اپنی ذات کےلیے قربان ہونا جانتے ہیں۔ یہی صبر ہے اور جولوگ اس صبر کا ثبوت دیں وہی قوموں کے امام بنتے ہیں۔
دین میں نئی نئی تشریح وتعبیر نکال کر جو لوگ اختلافات کھڑے کرتے ہیں وہ اپنے ليے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخر کار خدا ان کی بات کو رد کردے اور اس کے بعد ابدی ذلت کے سوا اور کچھ ان کے حصہ میں نہ آئے — آدمی اکثر حالات میں سبق نہیں لیتا، یہاں تک کہ جو کچھ دوسروں پر گزرا وہی اس پر بھی نہ گزر جائے۔
أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ ۖ أَفَلَا يَسْمَعُونَ
📘 خداکی کتاب کسی گروہ کو ملنا اس کو امامت عالم کی کنجی عطا کرنا ہے۔ مگرامامت عالم کا مقام کسی گروہ کو اس وقت ملتاہے جب کہ وہ صبر کا ثبوت دے۔ لَمَّا صَبَرُواکی تفسیر لَمَّا صَبَرُوا عَنِ الدُّنْيَا سے کی گئی ہے (تفسیر ابن کثیر، جلد 3، صفحہ
463
) یعنی پیشوائی کا مقام انھیں اس وقت ملا جب کہ انھوں نے دنیا سے صبر کیا۔
لوگ اسی شخص یا گروہ کو اپنا امام تسلیم کرتے ہیں جو انھیں اپنے سے بلند دکھائی دے۔ جو اس وقت اصول کےلیے جئے جب کہ لوگ مفاد کےلیے جیتے ہیں۔ جو اس وقت انصاف کی حمایت کرے جب کہ لوگ قوم کی حمایت کرنے لگتے ہیں۔ جو اس وقت برداشت کرے جب کہ لوگ انتقام لیتے ہیں۔ جو اس وقت اپنے کو محرومی پر راضی کرلے جب کہ لوگ پانے کےلیے دوڑتے ہیں۔ جو اس وقت حق کےلیے قربان ہوجائے جب کہ لوگ صرف اپنی ذات کےلیے قربان ہونا جانتے ہیں۔ یہی صبر ہے اور جولوگ اس صبر کا ثبوت دیں وہی قوموں کے امام بنتے ہیں۔
دین میں نئی نئی تشریح وتعبیر نکال کر جو لوگ اختلافات کھڑے کرتے ہیں وہ اپنے ليے یہ خطرہ مول لے رہے ہیں کہ آخر کار خدا ان کی بات کو رد کردے اور اس کے بعد ابدی ذلت کے سوا اور کچھ ان کے حصہ میں نہ آئے — آدمی اکثر حالات میں سبق نہیں لیتا، یہاں تک کہ جو کچھ دوسروں پر گزرا وہی اس پر بھی نہ گزر جائے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ ۖ أَفَلَا يُبْصِرُونَ
📘 قدیم مکہ میں مشرکین ہر اعتبار سے غالب اور سر بلند تھے اور اسلام ہر اعتبار سے پست اور مغلوب ہورہا تھا۔ چنانچہ مشرکین اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ دیا۔فرمایا، کیا تم خدا کی اس قدرت کو نہیں دیکھتے کہ ایک زمین بالکل خشک اور چٹیل پڑی ہوتی ہے۔ بظاہریہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ کبھی سرسبزوشاداب ہوسکے گی۔ مگراس کے بعد خدا بادلوں کو لاکر اس کے اوپر بارش برساتا ہے تو چند دن میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں سبزہ لہلہانے لگتاہے۔ خدا کی یہی قدرت یہ بھی کرسکتی ہے کہ اسلام کو اس طرح فروغ دے کہ وہی وقت کا غالب فکر بن جائے۔
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْفَتْحُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 قدیم مکہ میں مشرکین ہر اعتبار سے غالب اور سر بلند تھے اور اسلام ہر اعتبار سے پست اور مغلوب ہورہا تھا۔ چنانچہ مشرکین اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ دیا۔فرمایا، کیا تم خدا کی اس قدرت کو نہیں دیکھتے کہ ایک زمین بالکل خشک اور چٹیل پڑی ہوتی ہے۔ بظاہریہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ کبھی سرسبزوشاداب ہوسکے گی۔ مگراس کے بعد خدا بادلوں کو لاکر اس کے اوپر بارش برساتا ہے تو چند دن میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں سبزہ لہلہانے لگتاہے۔ خدا کی یہی قدرت یہ بھی کرسکتی ہے کہ اسلام کو اس طرح فروغ دے کہ وہی وقت کا غالب فکر بن جائے۔
قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ
📘 قدیم مکہ میں مشرکین ہر اعتبار سے غالب اور سر بلند تھے اور اسلام ہر اعتبار سے پست اور مغلوب ہورہا تھا۔ چنانچہ مشرکین اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ دیا۔فرمایا، کیا تم خدا کی اس قدرت کو نہیں دیکھتے کہ ایک زمین بالکل خشک اور چٹیل پڑی ہوتی ہے۔ بظاہریہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ کبھی سرسبزوشاداب ہوسکے گی۔ مگراس کے بعد خدا بادلوں کو لاکر اس کے اوپر بارش برساتا ہے تو چند دن میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں سبزہ لہلہانے لگتاہے۔ خدا کی یہی قدرت یہ بھی کرسکتی ہے کہ اسلام کو اس طرح فروغ دے کہ وہی وقت کا غالب فکر بن جائے۔
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
📘 ’’یہ خدا کی کتاب ہے‘‘— بظاہر چند الفاظ کا ایک جملہ ہے۔ مگر یہ اتنا مشکل جملہ ہے کہ تاریخ میں یہ جملہ کہنے کی ہمت حقیقی طورپر ان خاص افرادکے سوا کسی کونہ ہوسکی جن پر واقعۃً خدا کی کتاب اتری تھی۔ اگر کبھی کسی اور شخص نے یہ جملہ بولنے کی جرأت کی ہے تو وہ یا تو مسخرہ تھا یا پاگل۔ اور اس کا مسخرہ یا پاگل ہونا بعد کو پوری طرح ثابت ہوگیا۔
قرآن اپنا ثبوت آپ ہے۔ اس کا معجزاتی اسلوب، اس کی کسی بات کا سیکڑوں سال میں غلط ثابت نہ ہونا، اس کا اپنے مخالفین پر پوری طرح غالب آنا، یہ اور اس طرح کے دوسرے واقعا ت اس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ قرآن خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب ہے۔ اور جب وہ خدا کی کتاب ہے تو لازم ہے کہ ہر شخص اس کی چیتاونی پر دھیان دے، وہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرے۔
فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَانْتَظِرْ إِنَّهُمْ مُنْتَظِرُونَ
📘 قدیم مکہ میں مشرکین ہر اعتبار سے غالب اور سر بلند تھے اور اسلام ہر اعتبار سے پست اور مغلوب ہورہا تھا۔ چنانچہ مشرکین اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے ایک مثال کے ذریعہ دیا۔فرمایا، کیا تم خدا کی اس قدرت کو نہیں دیکھتے کہ ایک زمین بالکل خشک اور چٹیل پڑی ہوتی ہے۔ بظاہریہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ کبھی سرسبزوشاداب ہوسکے گی۔ مگراس کے بعد خدا بادلوں کو لاکر اس کے اوپر بارش برساتا ہے تو چند دن میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ جہاں خاک اڑ رہی تھی وہاں سبزہ لہلہانے لگتاہے۔ خدا کی یہی قدرت یہ بھی کرسکتی ہے کہ اسلام کو اس طرح فروغ دے کہ وہی وقت کا غالب فکر بن جائے۔
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ مَا لَكُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا شَفِيعٍ ۚ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
📘 چھ دنوں (چھ دوروں) میں پیدا کرنے سے مراد تدریج واہتمام کے ساتھ پیدا کرنا ہے۔ کائنات کی تدریجی تخلیق اور اس کا پر حکمت نظام بتاتا ہے کہ اس تخلیق سے خالق کاکوئی خاص مقصد وابستہ ہے۔ پھر کائنات میں مسلسل طورپر بے شمار عمل جاری ہیں۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا اس کو منصوبہ بند طورپر چلا رہا ہے۔ انسان ایک حیرت ناک قسم کازندہ وجود ہے مگر اس کے جسم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ صرف مٹی (ارضی اجزاء) کا مرکب ہے۔ پھر یہ ابتدائی تخلیق ختم نہیں ہوجاتی بلکہ توالد وتناسل کے ذریعہ اس کا سلسلہ مستقل طورپر جاری ہے۔
ان واقعات پر جو شخص غور کرے اس کے ذہن سے ایک خدا کی عظمت کے سوا دوسری تمام عظمتیں حذف ہوجائیں گی۔ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو گہرائی کے ساتھ غور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو حمد اور شکر والے بنیں۔
يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ
📘 چھ دنوں (چھ دوروں) میں پیدا کرنے سے مراد تدریج واہتمام کے ساتھ پیدا کرنا ہے۔ کائنات کی تدریجی تخلیق اور اس کا پر حکمت نظام بتاتا ہے کہ اس تخلیق سے خالق کاکوئی خاص مقصد وابستہ ہے۔ پھر کائنات میں مسلسل طورپر بے شمار عمل جاری ہیں۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا اس کو منصوبہ بند طورپر چلا رہا ہے۔ انسان ایک حیرت ناک قسم کازندہ وجود ہے مگر اس کے جسم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ صرف مٹی (ارضی اجزاء) کا مرکب ہے۔ پھر یہ ابتدائی تخلیق ختم نہیں ہوجاتی بلکہ توالد وتناسل کے ذریعہ اس کا سلسلہ مستقل طورپر جاری ہے۔
ان واقعات پر جو شخص غور کرے اس کے ذہن سے ایک خدا کی عظمت کے سوا دوسری تمام عظمتیں حذف ہوجائیں گی۔ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو گہرائی کے ساتھ غور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو حمد اور شکر والے بنیں۔
ذَٰلِكَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 چھ دنوں (چھ دوروں) میں پیدا کرنے سے مراد تدریج واہتمام کے ساتھ پیدا کرنا ہے۔ کائنات کی تدریجی تخلیق اور اس کا پر حکمت نظام بتاتا ہے کہ اس تخلیق سے خالق کاکوئی خاص مقصد وابستہ ہے۔ پھر کائنات میں مسلسل طورپر بے شمار عمل جاری ہیں۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا اس کو منصوبہ بند طورپر چلا رہا ہے۔ انسان ایک حیرت ناک قسم کازندہ وجود ہے مگر اس کے جسم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ صرف مٹی (ارضی اجزاء) کا مرکب ہے۔ پھر یہ ابتدائی تخلیق ختم نہیں ہوجاتی بلکہ توالد وتناسل کے ذریعہ اس کا سلسلہ مستقل طورپر جاری ہے۔
ان واقعات پر جو شخص غور کرے اس کے ذہن سے ایک خدا کی عظمت کے سوا دوسری تمام عظمتیں حذف ہوجائیں گی۔ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو گہرائی کے ساتھ غور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو حمد اور شکر والے بنیں۔
الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ۖ وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ
📘 چھ دنوں (چھ دوروں) میں پیدا کرنے سے مراد تدریج واہتمام کے ساتھ پیدا کرنا ہے۔ کائنات کی تدریجی تخلیق اور اس کا پر حکمت نظام بتاتا ہے کہ اس تخلیق سے خالق کاکوئی خاص مقصد وابستہ ہے۔ پھر کائنات میں مسلسل طورپر بے شمار عمل جاری ہیں۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا اس کو منصوبہ بند طورپر چلا رہا ہے۔ انسان ایک حیرت ناک قسم کازندہ وجود ہے مگر اس کے جسم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ صرف مٹی (ارضی اجزاء) کا مرکب ہے۔ پھر یہ ابتدائی تخلیق ختم نہیں ہوجاتی بلکہ توالد وتناسل کے ذریعہ اس کا سلسلہ مستقل طورپر جاری ہے۔
ان واقعات پر جو شخص غور کرے اس کے ذہن سے ایک خدا کی عظمت کے سوا دوسری تمام عظمتیں حذف ہوجائیں گی۔ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو گہرائی کے ساتھ غور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو حمد اور شکر والے بنیں۔
ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهُ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ مَاءٍ مَهِينٍ
📘 چھ دنوں (چھ دوروں) میں پیدا کرنے سے مراد تدریج واہتمام کے ساتھ پیدا کرنا ہے۔ کائنات کی تدریجی تخلیق اور اس کا پر حکمت نظام بتاتا ہے کہ اس تخلیق سے خالق کاکوئی خاص مقصد وابستہ ہے۔ پھر کائنات میں مسلسل طورپر بے شمار عمل جاری ہیں۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا اس کو منصوبہ بند طورپر چلا رہا ہے۔ انسان ایک حیرت ناک قسم کازندہ وجود ہے مگر اس کے جسم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ صرف مٹی (ارضی اجزاء) کا مرکب ہے۔ پھر یہ ابتدائی تخلیق ختم نہیں ہوجاتی بلکہ توالد وتناسل کے ذریعہ اس کا سلسلہ مستقل طورپر جاری ہے۔
ان واقعات پر جو شخص غور کرے اس کے ذہن سے ایک خدا کی عظمت کے سوا دوسری تمام عظمتیں حذف ہوجائیں گی۔ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو گہرائی کے ساتھ غور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو حمد اور شکر والے بنیں۔
ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ
📘 چھ دنوں (چھ دوروں) میں پیدا کرنے سے مراد تدریج واہتمام کے ساتھ پیدا کرنا ہے۔ کائنات کی تدریجی تخلیق اور اس کا پر حکمت نظام بتاتا ہے کہ اس تخلیق سے خالق کاکوئی خاص مقصد وابستہ ہے۔ پھر کائنات میں مسلسل طورپر بے شمار عمل جاری ہیں۔ اس سے مزید یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنات کو پیدا کرنے والا اس کو منصوبہ بند طورپر چلا رہا ہے۔ انسان ایک حیرت ناک قسم کازندہ وجود ہے مگر اس کے جسم کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ وہ صرف مٹی (ارضی اجزاء) کا مرکب ہے۔ پھر یہ ابتدائی تخلیق ختم نہیں ہوجاتی بلکہ توالد وتناسل کے ذریعہ اس کا سلسلہ مستقل طورپر جاری ہے۔
ان واقعات پر جو شخص غور کرے اس کے ذہن سے ایک خدا کی عظمت کے سوا دوسری تمام عظمتیں حذف ہوجائیں گی۔ وہ خدا کا شکر گزار بندہ بن جائے گا۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو گہرائی کے ساتھ غور کریں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو حمد اور شکر والے بنیں۔