slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة غافر

(Ghafir) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم

📘 ’’عزیز وعلیم‘‘ کے الفاظ یہاں قرآن کے حق میں بطور دلیل استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کے اترنے کے وقت ایک پیشین گوئی تھی، آج یہ ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ قرآن دور سائنس سے پہلے انتہائی ناموافق حالات میں اترا۔ مگر عین اپنے دعوے کے مطابق اس نے اپنے مخالفوں کے اوپر غلبہ حاصل کیا۔ عرب کے مشرکین او ر یہود اور عظیم رومی اور ایرانی سلطنتیں سب کی سب اس کی دشمن تھیں مگر اس نے بہت تھوڑے عرصہ میں سب کو مغلوب کرلیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدائے عزیز وغالب کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ قرآن کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ کامل طور پر ایک صحیح کتاب ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس بعد بھی قرآن کی کوئی بات حقیقتِ واقعہ کے خلاف نہیں نکلی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا نازل کرنے والا علیم وخبیر ہے اس سے زمین وآسمان کی کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ ماضی، حال اورمستقبل سے یکساں طورپر باخبر ہے۔ یہی خدا انسان کا حقیقی معبود ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے علم کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو جمع کرکے ان کا حساب لے۔ پھر پورے عدل کے ساتھ ہر ایک کا فیصلہ کرے۔ جو لوگ خدا کی طرف رجوع ہوئے ان کو معاف کردے اور جنھوں نے سرکشی کی انھیں ان کے برے اعمال کی سزا دے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَوْنَ لَمَقْتُ اللَّهِ أَكْبَرُ مِنْ مَقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ

📘 موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی شکل میں اپنی رحمت بھیجی۔ مگر لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔ اس کا انجام آخرت میں یہ سامنے آئے گا کہ اس قسم کے لوگ اللہ کی رحمت سے بالکل محروم کردئے جائیںگے۔ دنیا میں انھوں نے خدا کی رحمت کو نظر انداز کیا تھا، آخرت میں خدا کی رحمت انھیں نظر انداز کردے گی۔ اس وقت انکار کرنے والے لوگ کہیں گے کہ خدایا، تو نے ہم کو مٹی سے پیدا کیا۔ گویا کہ ہم مُردہ تھے پھر تو نے ہمارے اندر جان ڈالی۔ اس کے بعد اپنی عمر پوری کرکے دوسری بار ہم پر موت آئی۔ اور اب ہم دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح تو ہم کو دوبارموت اور دوبار زندگی دے چکا ہے۔ اب اگر تو ہم کو تیسرا موقع دے اور پھر ہم کو دنیا میں بھیج دے کہ ہم وہاں رہیں اور پھر مر کر عالم آخرت میں حاضر ہوں تو ہم وہاں تیری سچائی کا اعتراف کریں گے اور نیک عمل کی زندگی گزاریں گے۔ مگر ان کی یہ درخواست سنی نہیں جائے گی۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے بارے میں یہ ثبوت دیا کہ وہ سچائی کا ادراک اس وقت نہیں کرسکتے جب کہ سچائی ابھی غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ وہ صرف ظاہری خداؤں کو پہچان سکتے ہیں، وہ غیبی خدا کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور خدا کے یہاں ایسے ظاہر پرستوں کی کوئی قیمت نہیں۔

قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ

📘 موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی شکل میں اپنی رحمت بھیجی۔ مگر لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔ اس کا انجام آخرت میں یہ سامنے آئے گا کہ اس قسم کے لوگ اللہ کی رحمت سے بالکل محروم کردئے جائیںگے۔ دنیا میں انھوں نے خدا کی رحمت کو نظر انداز کیا تھا، آخرت میں خدا کی رحمت انھیں نظر انداز کردے گی۔ اس وقت انکار کرنے والے لوگ کہیں گے کہ خدایا، تو نے ہم کو مٹی سے پیدا کیا۔ گویا کہ ہم مُردہ تھے پھر تو نے ہمارے اندر جان ڈالی۔ اس کے بعد اپنی عمر پوری کرکے دوسری بار ہم پر موت آئی۔ اور اب ہم دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح تو ہم کو دوبارموت اور دوبار زندگی دے چکا ہے۔ اب اگر تو ہم کو تیسرا موقع دے اور پھر ہم کو دنیا میں بھیج دے کہ ہم وہاں رہیں اور پھر مر کر عالم آخرت میں حاضر ہوں تو ہم وہاں تیری سچائی کا اعتراف کریں گے اور نیک عمل کی زندگی گزاریں گے۔ مگر ان کی یہ درخواست سنی نہیں جائے گی۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے بارے میں یہ ثبوت دیا کہ وہ سچائی کا ادراک اس وقت نہیں کرسکتے جب کہ سچائی ابھی غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ وہ صرف ظاہری خداؤں کو پہچان سکتے ہیں، وہ غیبی خدا کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور خدا کے یہاں ایسے ظاہر پرستوں کی کوئی قیمت نہیں۔

ذَٰلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ ۖ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا ۚ فَالْحُكْمُ لِلَّهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ

📘 موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی شکل میں اپنی رحمت بھیجی۔ مگر لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا۔ اس کا انجام آخرت میں یہ سامنے آئے گا کہ اس قسم کے لوگ اللہ کی رحمت سے بالکل محروم کردئے جائیںگے۔ دنیا میں انھوں نے خدا کی رحمت کو نظر انداز کیا تھا، آخرت میں خدا کی رحمت انھیں نظر انداز کردے گی۔ اس وقت انکار کرنے والے لوگ کہیں گے کہ خدایا، تو نے ہم کو مٹی سے پیدا کیا۔ گویا کہ ہم مُردہ تھے پھر تو نے ہمارے اندر جان ڈالی۔ اس کے بعد اپنی عمر پوری کرکے دوسری بار ہم پر موت آئی۔ اور اب ہم دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھائے گئے ہیں۔ اس طرح تو ہم کو دوبارموت اور دوبار زندگی دے چکا ہے۔ اب اگر تو ہم کو تیسرا موقع دے اور پھر ہم کو دنیا میں بھیج دے کہ ہم وہاں رہیں اور پھر مر کر عالم آخرت میں حاضر ہوں تو ہم وہاں تیری سچائی کا اعتراف کریں گے اور نیک عمل کی زندگی گزاریں گے۔ مگر ان کی یہ درخواست سنی نہیں جائے گی۔ کیوں کہ انھوں نے اپنے بارے میں یہ ثبوت دیا کہ وہ سچائی کا ادراک اس وقت نہیں کرسکتے جب کہ سچائی ابھی غیب میں چھپی ہوئی ہو۔ وہ صرف ظاہری خداؤں کو پہچان سکتے ہیں، وہ غیبی خدا کو پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اور خدا کے یہاں ایسے ظاہر پرستوں کی کوئی قیمت نہیں۔

هُوَ الَّذِي يُرِيكُمْ آيَاتِهِ وَيُنَزِّلُ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ رِزْقًا ۚ وَمَا يَتَذَكَّرُ إِلَّا مَنْ يُنِيبُ

📘 کائنات میں بے شمار نشانیاں ہیں جو تمثیل کی زبان میں حقیقت کا درس دے رہی ہيں۔ انھیں میں سے ایک نشانی بارش کا نظام ہے۔ یہ مادّی واقعہ وحی کے معنوی معاملہ کو ممثل کررہا ہے۔ جس طرح بارش زرخیز زمین کےلیے مفید ہے اور بنجر زمین کےلیے غیر مفید، اسی طرح وحی بھی خدا کی معنوی بارش ہے۔ جن لوگوں نے اپنے سینے کھلے رکھے ہوں ان کے اندر یہ بارش داخل ہو کر ان کے وجود کو سرسبز وشاداب کردیتی ہے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے دل غیر خدائی بڑائیوں سے بھرے ہوئے ہوں وہ گویا بنجر زمین ہیں۔ وہ وحی کے فائدوں سے محروم رہیں گے۔ اللہ اپنے بند وں سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جس بندہ کو اہل پاتا ہے اس کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چن لیتاہے۔ اس پیغام کا خاص نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو آنے والے دن سے آگاہ کیا جائے جب کہ وہ بادشاہ کائنات کے سامنے کھڑے کيے جائیںگے جس سے کسی کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ اور نہ کوئی ہے جو اس کے فیصلہ پر اثر اندازہوسکے۔

فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

📘 کائنات میں بے شمار نشانیاں ہیں جو تمثیل کی زبان میں حقیقت کا درس دے رہی ہيں۔ انھیں میں سے ایک نشانی بارش کا نظام ہے۔ یہ مادّی واقعہ وحی کے معنوی معاملہ کو ممثل کررہا ہے۔ جس طرح بارش زرخیز زمین کےلیے مفید ہے اور بنجر زمین کےلیے غیر مفید، اسی طرح وحی بھی خدا کی معنوی بارش ہے۔ جن لوگوں نے اپنے سینے کھلے رکھے ہوں ان کے اندر یہ بارش داخل ہو کر ان کے وجود کو سرسبز وشاداب کردیتی ہے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے دل غیر خدائی بڑائیوں سے بھرے ہوئے ہوں وہ گویا بنجر زمین ہیں۔ وہ وحی کے فائدوں سے محروم رہیں گے۔ اللہ اپنے بند وں سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جس بندہ کو اہل پاتا ہے اس کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چن لیتاہے۔ اس پیغام کا خاص نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو آنے والے دن سے آگاہ کیا جائے جب کہ وہ بادشاہ کائنات کے سامنے کھڑے کيے جائیںگے جس سے کسی کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ اور نہ کوئی ہے جو اس کے فیصلہ پر اثر اندازہوسکے۔

رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ

📘 کائنات میں بے شمار نشانیاں ہیں جو تمثیل کی زبان میں حقیقت کا درس دے رہی ہيں۔ انھیں میں سے ایک نشانی بارش کا نظام ہے۔ یہ مادّی واقعہ وحی کے معنوی معاملہ کو ممثل کررہا ہے۔ جس طرح بارش زرخیز زمین کےلیے مفید ہے اور بنجر زمین کےلیے غیر مفید، اسی طرح وحی بھی خدا کی معنوی بارش ہے۔ جن لوگوں نے اپنے سینے کھلے رکھے ہوں ان کے اندر یہ بارش داخل ہو کر ان کے وجود کو سرسبز وشاداب کردیتی ہے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے دل غیر خدائی بڑائیوں سے بھرے ہوئے ہوں وہ گویا بنجر زمین ہیں۔ وہ وحی کے فائدوں سے محروم رہیں گے۔ اللہ اپنے بند وں سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جس بندہ کو اہل پاتا ہے اس کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چن لیتاہے۔ اس پیغام کا خاص نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو آنے والے دن سے آگاہ کیا جائے جب کہ وہ بادشاہ کائنات کے سامنے کھڑے کيے جائیںگے جس سے کسی کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ اور نہ کوئی ہے جو اس کے فیصلہ پر اثر اندازہوسکے۔

يَوْمَ هُمْ بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

📘 کائنات میں بے شمار نشانیاں ہیں جو تمثیل کی زبان میں حقیقت کا درس دے رہی ہيں۔ انھیں میں سے ایک نشانی بارش کا نظام ہے۔ یہ مادّی واقعہ وحی کے معنوی معاملہ کو ممثل کررہا ہے۔ جس طرح بارش زرخیز زمین کےلیے مفید ہے اور بنجر زمین کےلیے غیر مفید، اسی طرح وحی بھی خدا کی معنوی بارش ہے۔ جن لوگوں نے اپنے سینے کھلے رکھے ہوں ان کے اندر یہ بارش داخل ہو کر ان کے وجود کو سرسبز وشاداب کردیتی ہے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے دل غیر خدائی بڑائیوں سے بھرے ہوئے ہوں وہ گویا بنجر زمین ہیں۔ وہ وحی کے فائدوں سے محروم رہیں گے۔ اللہ اپنے بند وں سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جس بندہ کو اہل پاتا ہے اس کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چن لیتاہے۔ اس پیغام کا خاص نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو آنے والے دن سے آگاہ کیا جائے جب کہ وہ بادشاہ کائنات کے سامنے کھڑے کيے جائیںگے جس سے کسی کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ اور نہ کوئی ہے جو اس کے فیصلہ پر اثر اندازہوسکے۔

الْيَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 کائنات میں بے شمار نشانیاں ہیں جو تمثیل کی زبان میں حقیقت کا درس دے رہی ہيں۔ انھیں میں سے ایک نشانی بارش کا نظام ہے۔ یہ مادّی واقعہ وحی کے معنوی معاملہ کو ممثل کررہا ہے۔ جس طرح بارش زرخیز زمین کےلیے مفید ہے اور بنجر زمین کےلیے غیر مفید، اسی طرح وحی بھی خدا کی معنوی بارش ہے۔ جن لوگوں نے اپنے سینے کھلے رکھے ہوں ان کے اندر یہ بارش داخل ہو کر ان کے وجود کو سرسبز وشاداب کردیتی ہے۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کے دل غیر خدائی بڑائیوں سے بھرے ہوئے ہوں وہ گویا بنجر زمین ہیں۔ وہ وحی کے فائدوں سے محروم رہیں گے۔ اللہ اپنے بند وں سے پوری طرح واقف ہے۔ وہ جس بندہ کو اہل پاتا ہے اس کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کےلیے چن لیتاہے۔ اس پیغام کا خاص نشانہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو آنے والے دن سے آگاہ کیا جائے جب کہ وہ بادشاہ کائنات کے سامنے کھڑے کيے جائیںگے جس سے کسی کی کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ اور نہ کوئی ہے جو اس کے فیصلہ پر اثر اندازہوسکے۔

وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْآزِفَةِ إِذِ الْقُلُوبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِينَ ۚ مَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ حَمِيمٍ وَلَا شَفِيعٍ يُطَاعُ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو ہر طرح کے مواقع حاصل ہیں۔ وہ آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ اپنی موجودہ عارضی حالت کو مستقل حالت سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ یہ مواقع جو انسان کو ملے ہیں وہ بطور امتحان ہیں نہ کہ بطور استحقاق۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی موجودہ تمام مواقع اس سے چھن جائیں گے۔ اس وقت انسان کو معلوم ہوگا کہ اس کے پاس عجز کے سوا اور کچھ نہیں جس کے سہارے وہ کھڑا ہوسکے۔ آدمی چاہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے۔ اسی مزاج کی وجہ سے آدمی غیر خدا کو بطور خود خدائی میں شریک بناتا ہے تاکہ ان کے نام پر وہ اپنی بے راہ روی کو جائز ثابت کرسکے۔ مگر قیامت میں جب حقیقت بے پردہ ہوکر سامنے آئے گی تو آدمی جان لے گا کہ یہاں خدا کے سوا کوئی نہ تھا جس کو کسی قسم کا اختیار حاصل ہو۔

يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو ہر طرح کے مواقع حاصل ہیں۔ وہ آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ اپنی موجودہ عارضی حالت کو مستقل حالت سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ یہ مواقع جو انسان کو ملے ہیں وہ بطور امتحان ہیں نہ کہ بطور استحقاق۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی موجودہ تمام مواقع اس سے چھن جائیں گے۔ اس وقت انسان کو معلوم ہوگا کہ اس کے پاس عجز کے سوا اور کچھ نہیں جس کے سہارے وہ کھڑا ہوسکے۔ آدمی چاہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے۔ اسی مزاج کی وجہ سے آدمی غیر خدا کو بطور خود خدائی میں شریک بناتا ہے تاکہ ان کے نام پر وہ اپنی بے راہ روی کو جائز ثابت کرسکے۔ مگر قیامت میں جب حقیقت بے پردہ ہوکر سامنے آئے گی تو آدمی جان لے گا کہ یہاں خدا کے سوا کوئی نہ تھا جس کو کسی قسم کا اختیار حاصل ہو۔

تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

📘 ’’عزیز وعلیم‘‘ کے الفاظ یہاں قرآن کے حق میں بطور دلیل استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کے اترنے کے وقت ایک پیشین گوئی تھی، آج یہ ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ قرآن دور سائنس سے پہلے انتہائی ناموافق حالات میں اترا۔ مگر عین اپنے دعوے کے مطابق اس نے اپنے مخالفوں کے اوپر غلبہ حاصل کیا۔ عرب کے مشرکین او ر یہود اور عظیم رومی اور ایرانی سلطنتیں سب کی سب اس کی دشمن تھیں مگر اس نے بہت تھوڑے عرصہ میں سب کو مغلوب کرلیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدائے عزیز وغالب کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ قرآن کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ کامل طور پر ایک صحیح کتاب ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس بعد بھی قرآن کی کوئی بات حقیقتِ واقعہ کے خلاف نہیں نکلی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا نازل کرنے والا علیم وخبیر ہے اس سے زمین وآسمان کی کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ ماضی، حال اورمستقبل سے یکساں طورپر باخبر ہے۔ یہی خدا انسان کا حقیقی معبود ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے علم کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو جمع کرکے ان کا حساب لے۔ پھر پورے عدل کے ساتھ ہر ایک کا فیصلہ کرے۔ جو لوگ خدا کی طرف رجوع ہوئے ان کو معاف کردے اور جنھوں نے سرکشی کی انھیں ان کے برے اعمال کی سزا دے۔

وَاللَّهُ يَقْضِي بِالْحَقِّ ۖ وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَقْضُونَ بِشَيْءٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو ہر طرح کے مواقع حاصل ہیں۔ وہ آزاد ہے کہ جو چاہے کرے۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ اپنی موجودہ عارضی حالت کو مستقل حالت سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ یہ مواقع جو انسان کو ملے ہیں وہ بطور امتحان ہیں نہ کہ بطور استحقاق۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی موجودہ تمام مواقع اس سے چھن جائیں گے۔ اس وقت انسان کو معلوم ہوگا کہ اس کے پاس عجز کے سوا اور کچھ نہیں جس کے سہارے وہ کھڑا ہوسکے۔ آدمی چاہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے۔ اسی مزاج کی وجہ سے آدمی غیر خدا کو بطور خود خدائی میں شریک بناتا ہے تاکہ ان کے نام پر وہ اپنی بے راہ روی کو جائز ثابت کرسکے۔ مگر قیامت میں جب حقیقت بے پردہ ہوکر سامنے آئے گی تو آدمی جان لے گا کہ یہاں خدا کے سوا کوئی نہ تھا جس کو کسی قسم کا اختیار حاصل ہو۔

۞ أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَاقٍ

📘 دنیا کی تاریخ میں کثرت سے ایسے واقعات ہیں کہ ایک قوم ابھری اور پھر مٹ گئی۔ ایک قوم جس نے زمین پر شاندار تمدن کھڑا کیا، آج اس کا تمدن کھنڈر کی صورت میں زمین کے نیچے دبا ہوا پڑا ہے۔ ایک قوم جس کو کسی وقت ایک زندہ واقعہ کی حیثیت حاصل تھی، آج وہ صرف ایک تاریخی واقعہ کے طورپر قابل ذکر سمجھی جاتی ہے۔ اس قسم کے واقعات لوگوں کےلیے معلوم واقعات ہیں مگر لوگوں نے ان واقعات کو ارضی حوادث یا سیاسی انقلاب کے خانہ میں ڈال رکھا ہے۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب خدائی فیصلے تھے جو سچائی کے انکار کے نتیجے میںان قوموں پر نازل ہوئے۔ اگرہم کو وہ نگاہ حاصل ہو جس سے ہم معنوی حقیقتوں کو دیکھ سکیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ ہر واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ انجام پارہا تھا، اگر چہ بظاہر دیکھنے والوں کو وہ دنیوی اسباب کے تحت ہوتا ہوا دکھائی دیا۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَكَفَرُوا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 دنیا کی تاریخ میں کثرت سے ایسے واقعات ہیں کہ ایک قوم ابھری اور پھر مٹ گئی۔ ایک قوم جس نے زمین پر شاندار تمدن کھڑا کیا، آج اس کا تمدن کھنڈر کی صورت میں زمین کے نیچے دبا ہوا پڑا ہے۔ ایک قوم جس کو کسی وقت ایک زندہ واقعہ کی حیثیت حاصل تھی، آج وہ صرف ایک تاریخی واقعہ کے طورپر قابل ذکر سمجھی جاتی ہے۔ اس قسم کے واقعات لوگوں کےلیے معلوم واقعات ہیں مگر لوگوں نے ان واقعات کو ارضی حوادث یا سیاسی انقلاب کے خانہ میں ڈال رکھا ہے۔لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب خدائی فیصلے تھے جو سچائی کے انکار کے نتیجے میںان قوموں پر نازل ہوئے۔ اگرہم کو وہ نگاہ حاصل ہو جس سے ہم معنوی حقیقتوں کو دیکھ سکیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ ہر واقعہ خدا کے فرشتوں کے ذریعہ انجام پارہا تھا، اگر چہ بظاہر دیکھنے والوں کو وہ دنیوی اسباب کے تحت ہوتا ہوا دکھائی دیا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ

📘 پیغمبروں کو عام دلائل کے ساتھ مزید ایسی معجزاتی تائید حاصل رہتی ہے جو ان کے فرستادۂ خدا ہونے کا انتہائی واضح ثبوت ہوتی ہے۔ مگر حق کو ماننا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے جو بلاشبہ کسی انسان کےلیے مشکل ترین قربانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل کے باوجود فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کی نبوت کا اقرار نہیںکیا۔ اس کے بجائے انھوں نے ایک طرف عوام کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ موسیٰ کا دعویٰ بے حقیقت ہے اور ان کے معجزے محض جادو کا کرشمہ ہیں۔دوسری طرف انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی تعداد کو گھٹانے کےلیے اپنی سابقہ پالیسی کو مزید شدت کے ساتھ جاری کردیا جائے۔ تاکہ موسیٰ اپنی قوم (بنی اسرائیل) کے اندر اپنے ليے مضبوط بنیاد نہ پاسکیں۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی یہ تدبیر موسیٰ کے مقابلہ میں نہیں بلکہ خدا کے مقابلہ میں کررہے ہیں اور خدا کے مقابلہ میں کسی کي کوئی تدبیر کبھی کار گر نہیں ہوتی۔

إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَقَارُونَ فَقَالُوا سَاحِرٌ كَذَّابٌ

📘 پیغمبروں کو عام دلائل کے ساتھ مزید ایسی معجزاتی تائید حاصل رہتی ہے جو ان کے فرستادۂ خدا ہونے کا انتہائی واضح ثبوت ہوتی ہے۔ مگر حق کو ماننا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے جو بلاشبہ کسی انسان کےلیے مشکل ترین قربانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل کے باوجود فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کی نبوت کا اقرار نہیںکیا۔ اس کے بجائے انھوں نے ایک طرف عوام کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ موسیٰ کا دعویٰ بے حقیقت ہے اور ان کے معجزے محض جادو کا کرشمہ ہیں۔دوسری طرف انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی تعداد کو گھٹانے کےلیے اپنی سابقہ پالیسی کو مزید شدت کے ساتھ جاری کردیا جائے۔ تاکہ موسیٰ اپنی قوم (بنی اسرائیل) کے اندر اپنے ليے مضبوط بنیاد نہ پاسکیں۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی یہ تدبیر موسیٰ کے مقابلہ میں نہیں بلکہ خدا کے مقابلہ میں کررہے ہیں اور خدا کے مقابلہ میں کسی کي کوئی تدبیر کبھی کار گر نہیں ہوتی۔

فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَاسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ ۚ وَمَا كَيْدُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

📘 پیغمبروں کو عام دلائل کے ساتھ مزید ایسی معجزاتی تائید حاصل رہتی ہے جو ان کے فرستادۂ خدا ہونے کا انتہائی واضح ثبوت ہوتی ہے۔ مگر حق کو ماننا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے جو بلاشبہ کسی انسان کےلیے مشکل ترین قربانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل کے باوجود فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کی نبوت کا اقرار نہیںکیا۔ اس کے بجائے انھوں نے ایک طرف عوام کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ موسیٰ کا دعویٰ بے حقیقت ہے اور ان کے معجزے محض جادو کا کرشمہ ہیں۔دوسری طرف انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی تعداد کو گھٹانے کےلیے اپنی سابقہ پالیسی کو مزید شدت کے ساتھ جاری کردیا جائے۔ تاکہ موسیٰ اپنی قوم (بنی اسرائیل) کے اندر اپنے ليے مضبوط بنیاد نہ پاسکیں۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ اپنی یہ تدبیر موسیٰ کے مقابلہ میں نہیں بلکہ خدا کے مقابلہ میں کررہے ہیں اور خدا کے مقابلہ میں کسی کي کوئی تدبیر کبھی کار گر نہیں ہوتی۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَىٰ وَلْيَدْعُ رَبَّهُ ۖ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ

📘 ’’تمھارا دین بدل ڈالے‘‘ کا مطلب ہے تمھارامذہب بدل ڈالے۔ یعنی تم جس مذہبی طریقہ پر ہو اور جو تمھارے اکابر سے چلا آرہا ہے، وہ ختم ہوجائے اور لوگوں کے درمیان نیا مذہب رائج ہوجائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہندستان میںكچھ انتہا پسند لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کی تبلیغ کو قانونی طورپر بند کرو، ورنہ دوسرے مذہب والے اپنی تبلیغ سے دیش کے دھرم کو بدل ڈالیں گے۔ فساد سے مراد بد امنی ہے۔ یعنی موسیٰ کو اپنے ہم قوموں میں ساتھ دینے والے مل جائیں گے۔ اور ان کو لے کر وہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس ليے ہم کو چاہيے کہ ہم شروع ہی میں انھیں قتل کردیں۔ حق کو ماننے میں سب سے بڑی رکاوٹ آدمی کی متکبرانہ نفسیات ہوتی ہے۔ وہ اپنے کو اونچا رکھنے کی خاطر حق کو نیچا کردینا چاہتا ہے۔ مگر حق کا مددگار اللہ رب العالمین ہے۔ ابتداء ًخواہ اس کے مخالفین بظاہر اس کو دبالیں مگر اللہ کی مدد اس بات کی ضمانت ہے کہ آخری کامیابی بہر حال حق کو حاصل ہوگی۔

وَقَالَ مُوسَىٰ إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِنْ كُلِّ مُتَكَبِّرٍ لَا يُؤْمِنُ بِيَوْمِ الْحِسَابِ

📘 ’’تمھارا دین بدل ڈالے‘‘ کا مطلب ہے تمھارامذہب بدل ڈالے۔ یعنی تم جس مذہبی طریقہ پر ہو اور جو تمھارے اکابر سے چلا آرہا ہے، وہ ختم ہوجائے اور لوگوں کے درمیان نیا مذہب رائج ہوجائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہندستان میںكچھ انتہا پسند لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کی تبلیغ کو قانونی طورپر بند کرو، ورنہ دوسرے مذہب والے اپنی تبلیغ سے دیش کے دھرم کو بدل ڈالیں گے۔ فساد سے مراد بد امنی ہے۔ یعنی موسیٰ کو اپنے ہم قوموں میں ساتھ دینے والے مل جائیں گے۔ اور ان کو لے کر وہ ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس ليے ہم کو چاہيے کہ ہم شروع ہی میں انھیں قتل کردیں۔ حق کو ماننے میں سب سے بڑی رکاوٹ آدمی کی متکبرانہ نفسیات ہوتی ہے۔ وہ اپنے کو اونچا رکھنے کی خاطر حق کو نیچا کردینا چاہتا ہے۔ مگر حق کا مددگار اللہ رب العالمین ہے۔ ابتداء ًخواہ اس کے مخالفین بظاہر اس کو دبالیں مگر اللہ کی مدد اس بات کی ضمانت ہے کہ آخری کامیابی بہر حال حق کو حاصل ہوگی۔

وَقَالَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ وَإِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ

📘 یہاں جس رجل مومن کا ذکر ہے وہ فرعون کے شاہی خاندان کا ایک فرد تھا اورغالباً وہ دربار کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے تھا۔ یہ بزرگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ توحید سے متاثر ہوئے۔ تاہم وہ ایمان چھپائے ہوئے تھے۔ مگر جب انھوںنے دیکھا کہ فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کررہا ہے تو وہ کھل کر حضرت موسیٰ کی حمایت پر آگئے۔ انھوںنے نہایت مؤثر اور نہایت حکیمانہ انداز میں حضرت موسیٰ کی مدافعت فرمائی۔ اس واقعہ میں ایک نصیحت یہ ہے کہ تبلیغ ایک ایسی طاقت ہے کہ خود دشمن کی صفوں میں اپنے ہمدرد اور ساتھی پیدا کرلیتی ہے، خواہ وہ دشمن خاندان فرعون جیسا ظالم اور متکبر کیوں نہ ہو۔

يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إِنْ جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ

📘 یہاں جس رجل مومن کا ذکر ہے وہ فرعون کے شاہی خاندان کا ایک فرد تھا اورغالباً وہ دربار کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے تھا۔ یہ بزرگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ توحید سے متاثر ہوئے۔ تاہم وہ ایمان چھپائے ہوئے تھے۔ مگر جب انھوںنے دیکھا کہ فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کرنے کا ارادہ کررہا ہے تو وہ کھل کر حضرت موسیٰ کی حمایت پر آگئے۔ انھوںنے نہایت مؤثر اور نہایت حکیمانہ انداز میں حضرت موسیٰ کی مدافعت فرمائی۔ اس واقعہ میں ایک نصیحت یہ ہے کہ تبلیغ ایک ایسی طاقت ہے کہ خود دشمن کی صفوں میں اپنے ہمدرد اور ساتھی پیدا کرلیتی ہے، خواہ وہ دشمن خاندان فرعون جیسا ظالم اور متکبر کیوں نہ ہو۔

غَافِرِ الذَّنْبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّوْلِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ

📘 ’’عزیز وعلیم‘‘ کے الفاظ یہاں قرآن کے حق میں بطور دلیل استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کے اترنے کے وقت ایک پیشین گوئی تھی، آج یہ ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ قرآن دور سائنس سے پہلے انتہائی ناموافق حالات میں اترا۔ مگر عین اپنے دعوے کے مطابق اس نے اپنے مخالفوں کے اوپر غلبہ حاصل کیا۔ عرب کے مشرکین او ر یہود اور عظیم رومی اور ایرانی سلطنتیں سب کی سب اس کی دشمن تھیں مگر اس نے بہت تھوڑے عرصہ میں سب کو مغلوب کرلیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی کوئی دوسری مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن خدائے عزیز وغالب کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ قرآن کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ کامل طور پر ایک صحیح کتاب ہے۔ ڈیڑھ ہزار برس بعد بھی قرآن کی کوئی بات حقیقتِ واقعہ کے خلاف نہیں نکلی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا نازل کرنے والا علیم وخبیر ہے اس سے زمین وآسمان کی کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ ماضی، حال اورمستقبل سے یکساں طورپر باخبر ہے۔ یہی خدا انسان کا حقیقی معبود ہے۔ اس کی قدرت اور اس کے علم کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تمام انسانوں کو جمع کرکے ان کا حساب لے۔ پھر پورے عدل کے ساتھ ہر ایک کا فیصلہ کرے۔ جو لوگ خدا کی طرف رجوع ہوئے ان کو معاف کردے اور جنھوں نے سرکشی کی انھیں ان کے برے اعمال کی سزا دے۔

وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِثْلَ يَوْمِ الْأَحْزَابِ

📘 فرعون نے حضرت موسیٰ کو دنیاکی سزا سے ڈرایا تھا، اس کے جواب میں رَجُل مومن نے فرعون کو آخرت کی سزا سے ڈرایا۔ حق کے داعی کا طریقہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی فکر کرتے ہیں، داعی آخرت کےلیے فکر مند ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی اصطلاحوں میں بولتے ہیں، داعی آخرت کی اصطلاحوں میں کلام کرتاہے۔ لوگ دنیا کے مسائل کو سب سے زیادہ قابل ذکر سمجھتے ہیں، داعی کے نزدیک سب سے زیادہ قابل ذکر مسئلہ وہ ہوتا ہے جس کا تعلق آخرت سے ہو۔

مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعِبَادِ

📘 فرعون نے حضرت موسیٰ کو دنیاکی سزا سے ڈرایا تھا، اس کے جواب میں رَجُل مومن نے فرعون کو آخرت کی سزا سے ڈرایا۔ حق کے داعی کا طریقہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی فکر کرتے ہیں، داعی آخرت کےلیے فکر مند ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی اصطلاحوں میں بولتے ہیں، داعی آخرت کی اصطلاحوں میں کلام کرتاہے۔ لوگ دنیا کے مسائل کو سب سے زیادہ قابل ذکر سمجھتے ہیں، داعی کے نزدیک سب سے زیادہ قابل ذکر مسئلہ وہ ہوتا ہے جس کا تعلق آخرت سے ہو۔

وَيَا قَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ

📘 فرعون نے حضرت موسیٰ کو دنیاکی سزا سے ڈرایا تھا، اس کے جواب میں رَجُل مومن نے فرعون کو آخرت کی سزا سے ڈرایا۔ حق کے داعی کا طریقہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی فکر کرتے ہیں، داعی آخرت کےلیے فکر مند ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی اصطلاحوں میں بولتے ہیں، داعی آخرت کی اصطلاحوں میں کلام کرتاہے۔ لوگ دنیا کے مسائل کو سب سے زیادہ قابل ذکر سمجھتے ہیں، داعی کے نزدیک سب سے زیادہ قابل ذکر مسئلہ وہ ہوتا ہے جس کا تعلق آخرت سے ہو۔

يَوْمَ تُوَلُّونَ مُدْبِرِينَ مَا لَكُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۗ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

📘 فرعون نے حضرت موسیٰ کو دنیاکی سزا سے ڈرایا تھا، اس کے جواب میں رَجُل مومن نے فرعون کو آخرت کی سزا سے ڈرایا۔ حق کے داعی کا طریقہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی فکر کرتے ہیں، داعی آخرت کےلیے فکر مند ہوتا ہے۔ لوگ دنیا کی اصطلاحوں میں بولتے ہیں، داعی آخرت کی اصطلاحوں میں کلام کرتاہے۔ لوگ دنیا کے مسائل کو سب سے زیادہ قابل ذکر سمجھتے ہیں، داعی کے نزدیک سب سے زیادہ قابل ذکر مسئلہ وہ ہوتا ہے جس کا تعلق آخرت سے ہو۔

وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابٌ

📘 حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں مصر کے لوگوں کی اکثریت آپ کی نبوت کی قائل نهيں ہوئی۔ مگر آپ کی وفات کے بعد جب ملکی سلطنت کا نظام بگڑنے لگا تو مصریوں کو آپ کی عظمت کا احساس ہوا۔ اب وہ کہنے لگے کہ یوسف کا وجود مصر کےلیے بہت بابرکت تھا۔ ایسا رسول اب کہاں آئے گا۔ حضرت یوسف اگرچہ خدا کے پیغمبر تھے مگر اسی کے ساتھ وہ ایک انسان بھی تھے۔ اس بنا پر لوگوںکےلیے یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ — ’’کیا ضروری ہے کہ یوسف کے کمالات پیغمبري کی بنا پر ہوں، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ذہین انسان ہوں اور ا س بنا پر انھوں نے کمالات ظاہر کيے ہوں‘‘۔ اسی طرح کی باتیں تھیں جن کو لے کر مصر کے لوگ آپ کے بارے میں شک میں مبتلا ہوگئے۔ حق خواہ کتنا ہی واضح ہو، موجودہ امتحان کی دنیا میں ہمیشہ اس کا امکان باقی رہتا ہے کہ آدمی کوئی شبہ کا پہلو نکال کر اس کا منکر بن جائے۔ اب جو لوگ اپنے اندر سرکشی اور گھمنڈ کا مزاج ليے ہوئے ہوں ۔ جو یہ سمجھتے ہوں کہ حق کو مان کر وہ اپنی بڑائی کھو دیں گے۔ وہ عین اپنے مزاج کے تحت انھیں شبہات میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ وہ ان شبہات کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہی ان کے دل ودماغ پر چھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ حق کے معاملہ میں سیدھے اندازسے سوچ نہیں پاتے۔ وہ ہمیشہ اس کے منکر بنے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اسی حال میں مر جاتے ہیں۔

الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۖ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ

📘 حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی میں مصر کے لوگوں کی اکثریت آپ کی نبوت کی قائل نهيں ہوئی۔ مگر آپ کی وفات کے بعد جب ملکی سلطنت کا نظام بگڑنے لگا تو مصریوں کو آپ کی عظمت کا احساس ہوا۔ اب وہ کہنے لگے کہ یوسف کا وجود مصر کےلیے بہت بابرکت تھا۔ ایسا رسول اب کہاں آئے گا۔ حضرت یوسف اگرچہ خدا کے پیغمبر تھے مگر اسی کے ساتھ وہ ایک انسان بھی تھے۔ اس بنا پر لوگوںکےلیے یہ کہنے کی گنجائش تھی کہ — ’’کیا ضروری ہے کہ یوسف کے کمالات پیغمبري کی بنا پر ہوں، یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ وہ ایک ذہین انسان ہوں اور ا س بنا پر انھوں نے کمالات ظاہر کيے ہوں‘‘۔ اسی طرح کی باتیں تھیں جن کو لے کر مصر کے لوگ آپ کے بارے میں شک میں مبتلا ہوگئے۔ حق خواہ کتنا ہی واضح ہو، موجودہ امتحان کی دنیا میں ہمیشہ اس کا امکان باقی رہتا ہے کہ آدمی کوئی شبہ کا پہلو نکال کر اس کا منکر بن جائے۔ اب جو لوگ اپنے اندر سرکشی اور گھمنڈ کا مزاج ليے ہوئے ہوں ۔ جو یہ سمجھتے ہوں کہ حق کو مان کر وہ اپنی بڑائی کھو دیں گے۔ وہ عین اپنے مزاج کے تحت انھیں شبہات میں اٹک کر رہ جاتے ہیں۔ وہ ان شبہات کو اتنا بڑھاتے ہیں کہ وہی ان کے دل ودماغ پر چھا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ حق کے معاملہ میں سیدھے اندازسے سوچ نہیں پاتے۔ وہ ہمیشہ اس کے منکر بنے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اسی حال میں مر جاتے ہیں۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ

📘 فرعون نے اپنے وزیر ہامان سے جو بات کہی وہ کوئی سنجیدہ بات نہیں تھی بلکہ محض ایک وقتی تدبیر (کید) کے طور پر تھی۔ اس نے دیکھا کہ رجل مومن کی معقول اور مدلّل تقریر سے دربار کے لوگ متاثر ہورہے ہیں، اس ليے اس نے چاہا کہ ایک شوشہ کی بات نکالے تاکہ حضرت موسیٰ کی دعوت سنجیدہ بحث کا موضوع نہ بنے بلکہ مذاق کا موضوع بن کر رہ جائے۔ ’’بدعملی کا خوشنما بننا‘‘ یہ ہے کہ آدمی کچھ خوش نما الفاظ بول کر حق کو رد کردے۔ یہی آدمی کی گمراہی کی اصل جڑ ہے۔ یعنی حقیقی دلائل کے مقابلہ میں شوشہ کی بات کو اہمیت دینا، کھلی بے راہ روی کو جھوٹی توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرنا وغیرہ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جو حق محکم دلیل کے اوپر کھڑا ہوا ہو اس کو بےبنیاد شوشے نکال کر مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔

أَسْبَابَ السَّمَاوَاتِ فَأَطَّلِعَ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۚ وَكَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ ۚ وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابٍ

📘 فرعون نے اپنے وزیر ہامان سے جو بات کہی وہ کوئی سنجیدہ بات نہیں تھی بلکہ محض ایک وقتی تدبیر (کید) کے طور پر تھی۔ اس نے دیکھا کہ رجل مومن کی معقول اور مدلّل تقریر سے دربار کے لوگ متاثر ہورہے ہیں، اس ليے اس نے چاہا کہ ایک شوشہ کی بات نکالے تاکہ حضرت موسیٰ کی دعوت سنجیدہ بحث کا موضوع نہ بنے بلکہ مذاق کا موضوع بن کر رہ جائے۔ ’’بدعملی کا خوشنما بننا‘‘ یہ ہے کہ آدمی کچھ خوش نما الفاظ بول کر حق کو رد کردے۔ یہی آدمی کی گمراہی کی اصل جڑ ہے۔ یعنی حقیقی دلائل کے مقابلہ میں شوشہ کی بات کو اہمیت دینا، کھلی بے راہ روی کو جھوٹی توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرنا وغیرہ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جو حق محکم دلیل کے اوپر کھڑا ہوا ہو اس کو بےبنیاد شوشے نکال کر مغلوب نہیں کیا جاسکتا۔

وَقَالَ الَّذِي آمَنَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُونِ أَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

يَا قَوْمِ إِنَّمَا هَٰذِهِ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَإِنَّ الْآخِرَةَ هِيَ دَارُ الْقَرَارِ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

مَا يُجَادِلُ فِي آيَاتِ اللَّهِ إِلَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَا يَغْرُرْكَ تَقَلُّبُهُمْ فِي الْبِلَادِ

📘 یہاں آیات اللہ سے مرادوہ دلائل ہیں جو دعوت حق کو ثابت کرنے کےلیے پیش کيے گئے ہوں۔ جو لوگ خدا کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ان دلائل میں غیر متعلق بحثیں پیدا کرکے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں کہ یہ دعوت حق کی دعوت نہیں ہے بلکہ محض ایک شخص (داعی) کی ذہنی اپج ہے۔ اس قسم کا جھوٹا مجادلہ بہت بڑا جرم ہے۔ تاہم موجودہ امتحان کی دنیا میں ایسے لوگوں کو ایک مقرر مدت تک مہلت حاصل رہتی ہے۔ اس کے بعد ان کےلیے وہی برا انجام مقدر ہے جو قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود وغیرہ کا ہوا۔ جن لوگوں نے اپنے کو بڑا سمجھا تھا وہ چھوٹے کردئے گئے۔ اور جن لوگوں کو چھوٹا سمجھ لیا گیا تھا وہ اللہ کے نزدیک بڑے قرار پائے۔

مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

۞ وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

تَدْعُونَنِي لِأَكْفُرَ بِاللَّهِ وَأُشْرِكَ بِهِ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى الْعَزِيزِ الْغَفَّارِ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

لَا جَرَمَ أَنَّمَا تَدْعُونَنِي إِلَيْهِ لَيْسَ لَهُ دَعْوَةٌ فِي الدُّنْيَا وَلَا فِي الْآخِرَةِ وَأَنَّ مَرَدَّنَا إِلَى اللَّهِ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحَابُ النَّارِ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

فَسَتَذْكُرُونَ مَا أَقُولُ لَكُمْ ۚ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ

📘 دربارِ فرعون کے مومن کی یہ تقریر نہایت واضح ہے۔ نیز وہ ایک نمونہ کی تقریر ہے جو یہ بتاتی ہے کہ حق کے داعی کا اندازِ خطاب کیا ہونا چاہیے اور یہ کہ دعوت حق کا اصل نکتہ کیا ہے۔ ’’میں تم کو خداوند عالم کی طرف بلاتا ہوں۔ اور تم جس کی طرف مجھے بلا رہے ہو اس کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں‘‘— یہ فقرہ رجل مومن کی پوری تقریر کا خلاصہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ فرعون کے دربار میں جو چیز زیر بحث تھی وہ کیا تھی۔ وہ یہ تھی کہ خدا کو پکارا جائے یا انسان کے بنائے ہوئے بتوں کو پکارا جائے۔ رجل مومن نے کہا کہ خدا تو ایک زندہ اور غالب حقیقت ہے، اس کو پکارنا ایک حقیقی معبود کو پکارنا ہے۔ مگر تمھارے اصنام صرف تمھارے وہم کی ایجاد ہیں۔ وہ نہ دنیا میں تمھیں کوئی فائدہ دے سکتے اور نہ آخرت میں۔ جب ان کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں تو ان سے کوئی حقیقی فائدہ کیسے مل سکتا ہے (الْوَثَنَ لَا يَنْفَعُ وَلَا يَضُرُّ)تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ 145

فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ۖ وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ

📘 فرعون کے دربار کا رجل مومن پیغمبر نہیں تھا۔ مگر تنہا ہونے کے باوجود اللہ نے ا س کو فرعون کے ظالمانہ منصوبوں سے بچالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر انبیاء کو بھی حمایتِ حق کی وہ نصرت ملتی ہے جس کا وعدہ انبیاء سے کیاگیا ہے۔ انسانوں کے اخروی انجام کا باقاعدہ فیصلہ اگرچہ قیامت میں ہوگا، مگر موت کے بعد جب آدمی اگلی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو فوراً ہی اس پر کھل جاتا ہے کہ وہ پچھلی دنیا میں کیا کرکے یہاںآیا ہے اور اب اس کےلیے کون سا انجام مقدر ہے۔ اس طرح شعور کی سطح پر وہ موت کے بعد ہی اپنے انجام سے دوچار ہوجاتاہے۔ اور جسمانی سطح پر وہ قیامت میں خدا کی عدالت قائم ہونے کے بعداس سے دوچار ہوگا۔

النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ۖ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ

📘 فرعون کے دربار کا رجل مومن پیغمبر نہیں تھا۔ مگر تنہا ہونے کے باوجود اللہ نے ا س کو فرعون کے ظالمانہ منصوبوں سے بچالیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ غیر انبیاء کو بھی حمایتِ حق کی وہ نصرت ملتی ہے جس کا وعدہ انبیاء سے کیاگیا ہے۔ انسانوں کے اخروی انجام کا باقاعدہ فیصلہ اگرچہ قیامت میں ہوگا، مگر موت کے بعد جب آدمی اگلی دنیا میں داخل ہوتا ہے تو فوراً ہی اس پر کھل جاتا ہے کہ وہ پچھلی دنیا میں کیا کرکے یہاںآیا ہے اور اب اس کےلیے کون سا انجام مقدر ہے۔ اس طرح شعور کی سطح پر وہ موت کے بعد ہی اپنے انجام سے دوچار ہوجاتاہے۔ اور جسمانی سطح پر وہ قیامت میں خدا کی عدالت قائم ہونے کے بعداس سے دوچار ہوگا۔

وَإِذْ يَتَحَاجُّونَ فِي النَّارِ فَيَقُولُ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا نَصِيبًا مِنَ النَّارِ

📘 اِن آیتوں میں جہنم کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ وہاں اپنی ساری بڑائی بھول جائیں گے۔ وہ عوام جو یہاںاپنے بڑوں پر فخرکرتے تھے وہ وہاں اپنے بڑوں سے بیزاری کا اظہار کریںگے۔ دنیا میںجو لوگ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے وہ وہاں عاجزانہ طورپر حق کے آگے جھک جائیں گے۔ مگرآخرت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

قَالَ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُلٌّ فِيهَا إِنَّ اللَّهَ قَدْ حَكَمَ بَيْنَ الْعِبَادِ

📘 اِن آیتوں میں جہنم کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ وہاں اپنی ساری بڑائی بھول جائیں گے۔ وہ عوام جو یہاںاپنے بڑوں پر فخرکرتے تھے وہ وہاں اپنے بڑوں سے بیزاری کا اظہار کریںگے۔ دنیا میںجو لوگ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے وہ وہاں عاجزانہ طورپر حق کے آگے جھک جائیں گے۔ مگرآخرت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

وَقَالَ الَّذِينَ فِي النَّارِ لِخَزَنَةِ جَهَنَّمَ ادْعُوا رَبَّكُمْ يُخَفِّفْ عَنَّا يَوْمًا مِنَ الْعَذَابِ

📘 اِن آیتوں میں جہنم کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ وہاں اپنی ساری بڑائی بھول جائیں گے۔ وہ عوام جو یہاںاپنے بڑوں پر فخرکرتے تھے وہ وہاں اپنے بڑوں سے بیزاری کا اظہار کریںگے۔ دنیا میںجو لوگ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے وہ وہاں عاجزانہ طورپر حق کے آگے جھک جائیں گے۔ مگرآخرت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَالْأَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ وَهَمَّتْ كُلُّ أُمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ ۖ وَجَادَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ فَأَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ

📘 یہاں آیات اللہ سے مرادوہ دلائل ہیں جو دعوت حق کو ثابت کرنے کےلیے پیش کيے گئے ہوں۔ جو لوگ خدا کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ان دلائل میں غیر متعلق بحثیں پیدا کرکے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں کہ یہ دعوت حق کی دعوت نہیں ہے بلکہ محض ایک شخص (داعی) کی ذہنی اپج ہے۔ اس قسم کا جھوٹا مجادلہ بہت بڑا جرم ہے۔ تاہم موجودہ امتحان کی دنیا میں ایسے لوگوں کو ایک مقرر مدت تک مہلت حاصل رہتی ہے۔ اس کے بعد ان کےلیے وہی برا انجام مقدر ہے جو قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود وغیرہ کا ہوا۔ جن لوگوں نے اپنے کو بڑا سمجھا تھا وہ چھوٹے کردئے گئے۔ اور جن لوگوں کو چھوٹا سمجھ لیا گیا تھا وہ اللہ کے نزدیک بڑے قرار پائے۔

قَالُوا أَوَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۚ قَالُوا فَادْعُوا ۗ وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ

📘 اِن آیتوں میں جہنم کا ایک منظر دکھایا گیا ہے۔ دنیا میں جو لوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ وہاں اپنی ساری بڑائی بھول جائیں گے۔ وہ عوام جو یہاںاپنے بڑوں پر فخرکرتے تھے وہ وہاں اپنے بڑوں سے بیزاری کا اظہار کریںگے۔ دنیا میںجو لوگ حق کے آگے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے تھے وہ وہاں عاجزانہ طورپر حق کے آگے جھک جائیں گے۔ مگرآخرت کا جھکنا کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ

📘 پیغمبر اور پیغمبر کے پیروؤں کےلیے خدا کی مددکا یقینی وعدہ ہے۔ مگر اس مدد کا استحقاق ہمیشہ صبر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اس ليے ہے تاکہ اہل حق مکمل طورپر اہل حق ٹھہریں اور ظالم مکمل طورپر ظالم ثابت ہوجائیں۔ اس تفریقی مرحلہ کو لانے کےلیے اہلِ حق کو یک طرفہ طورپر صبر کرنا پڑتاہے۔ اہل حق کا یہ صبر انھیں دنیا میں خدا کی مدد کا مستحق بناتا ہے۔ اور اسی صبر کے ذریعہ وہ اس قابل ثابت ہوتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ظالموں کے مقابلہ میں خدا کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ خدا کی طرف سے کتاب آتی ہے وہ انسانوں کی ہدایت اور نصیحت ہی کےلیے آتی ہے۔ مگر یہ نصیحت صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتی ہے جو عقل والے ہوں۔ یعنی وہ لوگ جو مصلحتوں میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اس پر غور كر سكيں، جو باتوں کو دلیل کے اعتبار سے جانچتے ہوں، نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ یہی خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کرنا ہے۔ جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ بے عقلی کا معاملہ کریں وہ ظالم ہیں اور جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کریں وہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوئے۔

يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظَّالِمِينَ مَعْذِرَتُهُمْ ۖ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ

📘 پیغمبر اور پیغمبر کے پیروؤں کےلیے خدا کی مددکا یقینی وعدہ ہے۔ مگر اس مدد کا استحقاق ہمیشہ صبر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اس ليے ہے تاکہ اہل حق مکمل طورپر اہل حق ٹھہریں اور ظالم مکمل طورپر ظالم ثابت ہوجائیں۔ اس تفریقی مرحلہ کو لانے کےلیے اہلِ حق کو یک طرفہ طورپر صبر کرنا پڑتاہے۔ اہل حق کا یہ صبر انھیں دنیا میں خدا کی مدد کا مستحق بناتا ہے۔ اور اسی صبر کے ذریعہ وہ اس قابل ثابت ہوتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ظالموں کے مقابلہ میں خدا کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ خدا کی طرف سے کتاب آتی ہے وہ انسانوں کی ہدایت اور نصیحت ہی کےلیے آتی ہے۔ مگر یہ نصیحت صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتی ہے جو عقل والے ہوں۔ یعنی وہ لوگ جو مصلحتوں میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اس پر غور كر سكيں، جو باتوں کو دلیل کے اعتبار سے جانچتے ہوں، نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ یہی خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کرنا ہے۔ جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ بے عقلی کا معاملہ کریں وہ ظالم ہیں اور جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کریں وہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوئے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْهُدَىٰ وَأَوْرَثْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ الْكِتَابَ

📘 پیغمبر اور پیغمبر کے پیروؤں کےلیے خدا کی مددکا یقینی وعدہ ہے۔ مگر اس مدد کا استحقاق ہمیشہ صبر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اس ليے ہے تاکہ اہل حق مکمل طورپر اہل حق ٹھہریں اور ظالم مکمل طورپر ظالم ثابت ہوجائیں۔ اس تفریقی مرحلہ کو لانے کےلیے اہلِ حق کو یک طرفہ طورپر صبر کرنا پڑتاہے۔ اہل حق کا یہ صبر انھیں دنیا میں خدا کی مدد کا مستحق بناتا ہے۔ اور اسی صبر کے ذریعہ وہ اس قابل ثابت ہوتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ظالموں کے مقابلہ میں خدا کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ خدا کی طرف سے کتاب آتی ہے وہ انسانوں کی ہدایت اور نصیحت ہی کےلیے آتی ہے۔ مگر یہ نصیحت صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتی ہے جو عقل والے ہوں۔ یعنی وہ لوگ جو مصلحتوں میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اس پر غور كر سكيں، جو باتوں کو دلیل کے اعتبار سے جانچتے ہوں، نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ یہی خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کرنا ہے۔ جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ بے عقلی کا معاملہ کریں وہ ظالم ہیں اور جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کریں وہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوئے۔

هُدًى وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

📘 پیغمبر اور پیغمبر کے پیروؤں کےلیے خدا کی مددکا یقینی وعدہ ہے۔ مگر اس مدد کا استحقاق ہمیشہ صبر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اس ليے ہے تاکہ اہل حق مکمل طورپر اہل حق ٹھہریں اور ظالم مکمل طورپر ظالم ثابت ہوجائیں۔ اس تفریقی مرحلہ کو لانے کےلیے اہلِ حق کو یک طرفہ طورپر صبر کرنا پڑتاہے۔ اہل حق کا یہ صبر انھیں دنیا میں خدا کی مدد کا مستحق بناتا ہے۔ اور اسی صبر کے ذریعہ وہ اس قابل ثابت ہوتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ظالموں کے مقابلہ میں خدا کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ خدا کی طرف سے کتاب آتی ہے وہ انسانوں کی ہدایت اور نصیحت ہی کےلیے آتی ہے۔ مگر یہ نصیحت صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتی ہے جو عقل والے ہوں۔ یعنی وہ لوگ جو مصلحتوں میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اس پر غور كر سكيں، جو باتوں کو دلیل کے اعتبار سے جانچتے ہوں، نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ یہی خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کرنا ہے۔ جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ بے عقلی کا معاملہ کریں وہ ظالم ہیں اور جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کریں وہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوئے۔

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ

📘 پیغمبر اور پیغمبر کے پیروؤں کےلیے خدا کی مددکا یقینی وعدہ ہے۔ مگر اس مدد کا استحقاق ہمیشہ صبر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ صبر کی یہ اہمیت اس ليے ہے تاکہ اہل حق مکمل طورپر اہل حق ٹھہریں اور ظالم مکمل طورپر ظالم ثابت ہوجائیں۔ اس تفریقی مرحلہ کو لانے کےلیے اہلِ حق کو یک طرفہ طورپر صبر کرنا پڑتاہے۔ اہل حق کا یہ صبر انھیں دنیا میں خدا کی مدد کا مستحق بناتا ہے۔ اور اسی صبر کے ذریعہ وہ اس قابل ثابت ہوتے ہیں کہ وہ قیامت کے دن ظالموں کے مقابلہ میں خدا کے گواہ بن کر کھڑے ہوں۔ خدا کی طرف سے کتاب آتی ہے وہ انسانوں کی ہدایت اور نصیحت ہی کےلیے آتی ہے۔ مگر یہ نصیحت صرف ان لوگوں کو فائدہ دیتی ہے جو عقل والے ہوں۔ یعنی وہ لوگ جو مصلحتوں میں بندھے ہوئے نہ ہوں۔ جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہو کر اس پر غور كر سكيں، جو باتوں کو دلیل کے اعتبار سے جانچتے ہوں، نہ کہ کسی اور اعتبار سے۔ یہی خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کرنا ہے۔ جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ بے عقلی کا معاملہ کریں وہ ظالم ہیں اور جو لوگ خدا کی ہدایت کے ساتھ عقل والا معاملہ کریں وہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہوئے۔

إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ أَتَاهُمْ ۙ إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبْرٌ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

📘 حق اتنا واضح اور اتنا مدلّل ہے کہ اس کو سمجھنا کسی کےلیے بھی مشکل نہیں۔ مگر جب بھی حق ظاہر ہوتاہے تو وہ کسی ’’انسان‘‘ کے ذریعہ ظاہر ہوتاہے۔ اس ليے حق کا اعتراف عملاً حامل حق کے اعتراف کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ حق کو ماننے پر راضی نہیں ہوتے جو اپنے اندر بڑائی کی نفسیات ليے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگوں کو ڈر ہوتاہے کہ حق کا اعتراف کرتے ہی وہ حامل حق کے مقابلہ میں اپنی برتری کھودیں گے۔ اپنی اسی نفسیات کی وجہ سے وہ اس کے مخالف بن جاتے ہیں۔ مگر خدا نے اپنی دنیا کےلیے مقدر کردیا ہے کہ ایسے لوگ کبھی کامیاب نہ ہوں۔

لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

📘 کائنات کی عظمت اپنے خالق کی عظمت کا تعارف ہے۔ یہ عظمت اتنی بے پناہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا نسبتاً ایک بہت زیادہ آسان کام ہے۔ اس طرح کائنات کی موجودہ تخلیق انسان کے تخلیقِ ثانی کے امکان کو ثابت کررہی ہے۔ اس کے بعد انسانی سماج کو دیکھا جائے تو آخرت کی دنیا کا آنا ایک اخلاقی ضرورت معلوم ہونے لگتا ہے۔ سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت کو دیکھنے والی بصیرت کا ثبوت دیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت کے مقابلہ میں بالکل اندھے بنے ہوں۔ اسی طرح سماج میںایسے لوگ بھی ہیںجو ہر حال میںانصاف پر قائم رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی جو انصاف سے ہٹ جاتے ہیں اور معاملات میں ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انسان کا اخلاقی احساس کہتا ہے کہ ان دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں نهيں ہونا چاہيے۔ ان باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ آخرت کا ظہور عقلی طور پر ممکن بھی ہے اور اخلاقی طورپر ضروری بھی۔

وَمَا يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَلَا الْمُسِيءُ ۚ قَلِيلًا مَا تَتَذَكَّرُونَ

📘 کائنات کی عظمت اپنے خالق کی عظمت کا تعارف ہے۔ یہ عظمت اتنی بے پناہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا نسبتاً ایک بہت زیادہ آسان کام ہے۔ اس طرح کائنات کی موجودہ تخلیق انسان کے تخلیقِ ثانی کے امکان کو ثابت کررہی ہے۔ اس کے بعد انسانی سماج کو دیکھا جائے تو آخرت کی دنیا کا آنا ایک اخلاقی ضرورت معلوم ہونے لگتا ہے۔ سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت کو دیکھنے والی بصیرت کا ثبوت دیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت کے مقابلہ میں بالکل اندھے بنے ہوں۔ اسی طرح سماج میںایسے لوگ بھی ہیںجو ہر حال میںانصاف پر قائم رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی جو انصاف سے ہٹ جاتے ہیں اور معاملات میں ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انسان کا اخلاقی احساس کہتا ہے کہ ان دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں نهيں ہونا چاہيے۔ ان باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ آخرت کا ظہور عقلی طور پر ممکن بھی ہے اور اخلاقی طورپر ضروری بھی۔

إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 کائنات کی عظمت اپنے خالق کی عظمت کا تعارف ہے۔ یہ عظمت اتنی بے پناہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں انسان کو دوبارہ پیدا کرنا نسبتاً ایک بہت زیادہ آسان کام ہے۔ اس طرح کائنات کی موجودہ تخلیق انسان کے تخلیقِ ثانی کے امکان کو ثابت کررہی ہے۔ اس کے بعد انسانی سماج کو دیکھا جائے تو آخرت کی دنیا کا آنا ایک اخلاقی ضرورت معلوم ہونے لگتا ہے۔ سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت کو دیکھنے والی بصیرت کا ثبوت دیتے ہیں اور ایسے لوگ بھی ہیں جو حقیقت کے مقابلہ میں بالکل اندھے بنے ہوں۔ اسی طرح سماج میںایسے لوگ بھی ہیںجو ہر حال میںانصاف پر قائم رہتے ہیں۔ اور ایسے لوگ بھی جو انصاف سے ہٹ جاتے ہیں اور معاملات میں ظالمانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔ انسان کا اخلاقی احساس کہتا ہے کہ ان دونوں قسم کے انسانوں کا انجام یکساں نهيں ہونا چاہيے۔ ان باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگاکہ آخرت کا ظہور عقلی طور پر ممکن بھی ہے اور اخلاقی طورپر ضروری بھی۔

وَكَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَابُ النَّارِ

📘 یہاں آیات اللہ سے مرادوہ دلائل ہیں جو دعوت حق کو ثابت کرنے کےلیے پیش کيے گئے ہوں۔ جو لوگ خدا کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ان دلائل میں غیر متعلق بحثیں پیدا کرکے لوگوں کو اس شبہ میں ڈالتے ہیں کہ یہ دعوت حق کی دعوت نہیں ہے بلکہ محض ایک شخص (داعی) کی ذہنی اپج ہے۔ اس قسم کا جھوٹا مجادلہ بہت بڑا جرم ہے۔ تاہم موجودہ امتحان کی دنیا میں ایسے لوگوں کو ایک مقرر مدت تک مہلت حاصل رہتی ہے۔ اس کے بعد ان کےلیے وہی برا انجام مقدر ہے جو قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود وغیرہ کا ہوا۔ جن لوگوں نے اپنے کو بڑا سمجھا تھا وہ چھوٹے کردئے گئے۔ اور جن لوگوں کو چھوٹا سمجھ لیا گیا تھا وہ اللہ کے نزدیک بڑے قرار پائے۔

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ

📘 زمین پر رات اوردن کا باقاعدہ نظام اور اس طرح کے دوسرے حیات بخش واقعات اس سے زیادہ بڑے ہیں کہ کوئی انسان یا تمام مخلوقات مل کر بھی ان کو ظہور میں لاسکیں۔ یہ ایک کھلا ہوا قرینہ ہے جو بتاتا ہے کہ جو خالق ہے وہی اس لائق ہے کہ اس کو معبود بنایا جائے۔ آدمی کو چاہيے کہ اسی کے آگے جھکے اوراسی سے امیدیں قائم کرے۔ مگر آدمی خالقِ کائنات سے عبادت اور دعا کا حقیقی تعلق قائم نہیں کرپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی غیر خالق میں اٹکا ہوا ہوتاہے۔ کچھ لوگ زندہ یا مردہ بتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ خود اپنی ذات میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کا دوسرا نام کبر ہے۔ خدا بار بار ایسے دلائل ظاہر کرتا ہے جو اس فریب کی تردید کرنے والے ہوں۔ مگر انسان کوئی نہ کوئی جھوٹی توجیہ کرکے انھیں نظر انداز کردیتاہے۔ اس قسم کا ہر رویہ خالق کائنات کی ناقدری ہے۔ اور جو لوگ خالق کائنات کی ناقدری کریں وہ جہنم کے سوا کہیں اور جگہ نہیں پاسکتے۔

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

📘 زمین پر رات اوردن کا باقاعدہ نظام اور اس طرح کے دوسرے حیات بخش واقعات اس سے زیادہ بڑے ہیں کہ کوئی انسان یا تمام مخلوقات مل کر بھی ان کو ظہور میں لاسکیں۔ یہ ایک کھلا ہوا قرینہ ہے جو بتاتا ہے کہ جو خالق ہے وہی اس لائق ہے کہ اس کو معبود بنایا جائے۔ آدمی کو چاہيے کہ اسی کے آگے جھکے اوراسی سے امیدیں قائم کرے۔ مگر آدمی خالقِ کائنات سے عبادت اور دعا کا حقیقی تعلق قائم نہیں کرپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی غیر خالق میں اٹکا ہوا ہوتاہے۔ کچھ لوگ زندہ یا مردہ بتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ خود اپنی ذات میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کا دوسرا نام کبر ہے۔ خدا بار بار ایسے دلائل ظاہر کرتا ہے جو اس فریب کی تردید کرنے والے ہوں۔ مگر انسان کوئی نہ کوئی جھوٹی توجیہ کرکے انھیں نظر انداز کردیتاہے۔ اس قسم کا ہر رویہ خالق کائنات کی ناقدری ہے۔ اور جو لوگ خالق کائنات کی ناقدری کریں وہ جہنم کے سوا کہیں اور جگہ نہیں پاسکتے۔

ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

📘 زمین پر رات اوردن کا باقاعدہ نظام اور اس طرح کے دوسرے حیات بخش واقعات اس سے زیادہ بڑے ہیں کہ کوئی انسان یا تمام مخلوقات مل کر بھی ان کو ظہور میں لاسکیں۔ یہ ایک کھلا ہوا قرینہ ہے جو بتاتا ہے کہ جو خالق ہے وہی اس لائق ہے کہ اس کو معبود بنایا جائے۔ آدمی کو چاہيے کہ اسی کے آگے جھکے اوراسی سے امیدیں قائم کرے۔ مگر آدمی خالقِ کائنات سے عبادت اور دعا کا حقیقی تعلق قائم نہیں کرپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی غیر خالق میں اٹکا ہوا ہوتاہے۔ کچھ لوگ زندہ یا مردہ بتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ خود اپنی ذات میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کا دوسرا نام کبر ہے۔ خدا بار بار ایسے دلائل ظاہر کرتا ہے جو اس فریب کی تردید کرنے والے ہوں۔ مگر انسان کوئی نہ کوئی جھوٹی توجیہ کرکے انھیں نظر انداز کردیتاہے۔ اس قسم کا ہر رویہ خالق کائنات کی ناقدری ہے۔ اور جو لوگ خالق کائنات کی ناقدری کریں وہ جہنم کے سوا کہیں اور جگہ نہیں پاسکتے۔

كَذَٰلِكَ يُؤْفَكُ الَّذِينَ كَانُوا بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ

📘 زمین پر رات اوردن کا باقاعدہ نظام اور اس طرح کے دوسرے حیات بخش واقعات اس سے زیادہ بڑے ہیں کہ کوئی انسان یا تمام مخلوقات مل کر بھی ان کو ظہور میں لاسکیں۔ یہ ایک کھلا ہوا قرینہ ہے جو بتاتا ہے کہ جو خالق ہے وہی اس لائق ہے کہ اس کو معبود بنایا جائے۔ آدمی کو چاہيے کہ اسی کے آگے جھکے اوراسی سے امیدیں قائم کرے۔ مگر آدمی خالقِ کائنات سے عبادت اور دعا کا حقیقی تعلق قائم نہیں کرپاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کسی غیر خالق میں اٹکا ہوا ہوتاہے۔ کچھ لوگ زندہ یا مردہ بتوں میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کو شرک کہا جاتا ہے۔ اور کچھ لوگ خود اپنی ذات میں اٹکے ہوئے ہوتے ہیں جس کا دوسرا نام کبر ہے۔ خدا بار بار ایسے دلائل ظاہر کرتا ہے جو اس فریب کی تردید کرنے والے ہوں۔ مگر انسان کوئی نہ کوئی جھوٹی توجیہ کرکے انھیں نظر انداز کردیتاہے۔ اس قسم کا ہر رویہ خالق کائنات کی ناقدری ہے۔ اور جو لوگ خالق کائنات کی ناقدری کریں وہ جہنم کے سوا کہیں اور جگہ نہیں پاسکتے۔

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ فَتَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ

📘 زمین پر ان گنت اسباب جمع کيے گئے ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان جیسی مخلوق اس کے اوپر تمدن کی تعمیر کرسکے۔ اسی طرح زمین کے اوپر جو فضا ہے ا س میں بھی بے شمار موافق انتظامات ہیں جن میں اگر معمولی فرق بھی پیدا ہوجائے تو انسانی زندگی کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ پھر انسان کی بناوٹ اتنے اعلیٰ انداز میں ہوئی ہے کہ وہ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے اس دنیا کی سب سے برتر مخلوق بن گیا ہے— جس خالق نے یہ سب کیا ہے اس کے سواکون اس قابل ہوسکتاہے کہ انسان اس کا پرستار بنے۔ خدا کےلیے دين کو خالص کرکے اسے پکارنا یہ ہے کہ دینی ومذہبی نوعیت کا تعلق صرف ایک اللہ سے ہو۔ اللہ کے سوا کسی سے دینی ومذہبی قسم کا لگاؤ باقی نہ رہے۔

هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 زمین پر ان گنت اسباب جمع کيے گئے ہیں۔ اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ انسان جیسی مخلوق اس کے اوپر تمدن کی تعمیر کرسکے۔ اسی طرح زمین کے اوپر جو فضا ہے ا س میں بھی بے شمار موافق انتظامات ہیں جن میں اگر معمولی فرق بھی پیدا ہوجائے تو انسانی زندگی کا نظام درہم برہم ہوجائے۔ پھر انسان کی بناوٹ اتنے اعلیٰ انداز میں ہوئی ہے کہ وہ ذہنی اور جسمانی اعتبار سے اس دنیا کی سب سے برتر مخلوق بن گیا ہے— جس خالق نے یہ سب کیا ہے اس کے سواکون اس قابل ہوسکتاہے کہ انسان اس کا پرستار بنے۔ خدا کےلیے دين کو خالص کرکے اسے پکارنا یہ ہے کہ دینی ومذہبی نوعیت کا تعلق صرف ایک اللہ سے ہو۔ اللہ کے سوا کسی سے دینی ومذہبی قسم کا لگاؤ باقی نہ رہے۔

۞ قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِنْ رَبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 ان آیات میں فطرت کے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا ہے ’’یہ اس ليے ہے تاکہ تم غورکرو‘‘— گویا فطرت کے یہ مادی واقعات اپنے اندر کچھ معنوی سبق ليے ہوئے ہیں۔ اور انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ غور کرکے اس چھپے ہوئے سبق تک پہنچے۔ فطرت کے جن واقعات کا یہاں ذکر کیاگیا ہے وہ ہیں— بے جان مادہ کا تبدیل ہوکر جان دار چیز بن جانا، انسان کا تدریجی انداز میں نشوو نما پانا۔جوانی تک پہنچ کر پھر آدمی پر بڑھاپا طاری ہونا، زندہ انسان کا دوبارہ مرجانا، کبھی کم عمری میں اور کبھی زیادہ عمر میں، یہ واقعات خالق کی مختلف صفات کا تعارف ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کائنات کا وجود میں لانے والا ایک ایسا خداہے جو قادر اور حکیم ہے، وہ سب پر غالب اور بالادست ہے۔ اگر آدمی ان واقعات سے حقیقی سبق لے تو ا س کا ذہن پکار اٹھے گا کہ ایک خدا ہی اس کا سزاوار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کو اپنا آخری مطلوب سمجھا جائے۔ عالم کا یہ نقشہ بزبان حال ان تمام معبودوں کی تردید کررہا ہے جو ایک خدا کو چھوڑ کر بنائے گئے ہوں۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُوخًا ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّىٰ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلِتَبْلُغُوا أَجَلًا مُسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

📘 ان آیات میں فطرت کے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا ہے ’’یہ اس ليے ہے تاکہ تم غورکرو‘‘— گویا فطرت کے یہ مادی واقعات اپنے اندر کچھ معنوی سبق ليے ہوئے ہیں۔ اور انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ غور کرکے اس چھپے ہوئے سبق تک پہنچے۔ فطرت کے جن واقعات کا یہاں ذکر کیاگیا ہے وہ ہیں— بے جان مادہ کا تبدیل ہوکر جان دار چیز بن جانا، انسان کا تدریجی انداز میں نشوو نما پانا۔جوانی تک پہنچ کر پھر آدمی پر بڑھاپا طاری ہونا، زندہ انسان کا دوبارہ مرجانا، کبھی کم عمری میں اور کبھی زیادہ عمر میں، یہ واقعات خالق کی مختلف صفات کا تعارف ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کائنات کا وجود میں لانے والا ایک ایسا خداہے جو قادر اور حکیم ہے، وہ سب پر غالب اور بالادست ہے۔ اگر آدمی ان واقعات سے حقیقی سبق لے تو ا س کا ذہن پکار اٹھے گا کہ ایک خدا ہی اس کا سزاوار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کو اپنا آخری مطلوب سمجھا جائے۔ عالم کا یہ نقشہ بزبان حال ان تمام معبودوں کی تردید کررہا ہے جو ایک خدا کو چھوڑ کر بنائے گئے ہوں۔

هُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 ان آیات میں فطرت کے کچھ واقعات کا ذکر ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہوا ہے ’’یہ اس ليے ہے تاکہ تم غورکرو‘‘— گویا فطرت کے یہ مادی واقعات اپنے اندر کچھ معنوی سبق ليے ہوئے ہیں۔ اور انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ غور کرکے اس چھپے ہوئے سبق تک پہنچے۔ فطرت کے جن واقعات کا یہاں ذکر کیاگیا ہے وہ ہیں— بے جان مادہ کا تبدیل ہوکر جان دار چیز بن جانا، انسان کا تدریجی انداز میں نشوو نما پانا۔جوانی تک پہنچ کر پھر آدمی پر بڑھاپا طاری ہونا، زندہ انسان کا دوبارہ مرجانا، کبھی کم عمری میں اور کبھی زیادہ عمر میں، یہ واقعات خالق کی مختلف صفات کا تعارف ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس کائنات کا وجود میں لانے والا ایک ایسا خداہے جو قادر اور حکیم ہے، وہ سب پر غالب اور بالادست ہے۔ اگر آدمی ان واقعات سے حقیقی سبق لے تو ا س کا ذہن پکار اٹھے گا کہ ایک خدا ہی اس کا سزاوار ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اس کو اپنا آخری مطلوب سمجھا جائے۔ عالم کا یہ نقشہ بزبان حال ان تمام معبودوں کی تردید کررہا ہے جو ایک خدا کو چھوڑ کر بنائے گئے ہوں۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِ اللَّهِ أَنَّىٰ يُصْرَفُونَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ

📘 جو اللہ کے بندے بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھتے ہیں ان کو ہمیشہ ستایا جاتا ہے۔ ان کو ماحول میں حقیر بنادیا جاتا ہے۔ مگر عین اس وقت جب کہ ظاہر پرست انسانوں کے درمیان ان کا یہ حال ہوتا ہے، عین اسی وقت زمین و آسمان ان کے برسرِ حق ہونے کی تصدیق کررہے ہوتے ہیں۔ کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتے ان کے حسنِ انجام کے منتظر ہوتے ہیں۔ وقتی دنیا میں ناقابلِ تذکرہ سمجھے جانے والے لوگ ابدی دنیا میں اس مقام عزت پر ہوتے ہیں کہ اللہ کے مقرب ترین فرشتے بھی ان کے حق میں دعائیں کررہے ہیں۔

الَّذِينَ كَذَّبُوا بِالْكِتَابِ وَبِمَا أَرْسَلْنَا بِهِ رُسُلَنَا ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

إِذِ الْأَغْلَالُ فِي أَعْنَاقِهِمْ وَالسَّلَاسِلُ يُسْحَبُونَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

فِي الْحَمِيمِ ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

ثُمَّ قِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تُشْرِكُونَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا بَلْ لَمْ نَكُنْ نَدْعُو مِنْ قَبْلُ شَيْئًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ الْكَافِرِينَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

ذَٰلِكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَفْرَحُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَمْرَحُونَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ

📘 ناحق پر خوش ہونے والے اور گھمنڈ کرنے والے کون تھے، یہ وقت کے بڑے لوگ تھے۔ ان کو کچھ دنیا کا سامان اور دنیا کی بڑائی مل گئی۔ اس کی وجہ سے وہ ناز اور گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے۔ ان کی مادی کا میابی نے ان کے اندر غلط طورپر یہ احساس پیدا کردیا کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔حالاں کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف محروم لوگ تھے۔ وقت کے یہ بڑے اولاً حق کے منکر بنتے ہیں۔ پھر ان کی پیروی میں عوام بھی حق کا انکار کرنے لگتے ہیں۔ ان آیات میں اگلی دنیا کا وہ منظر دکھایا گیا ہے جب کہ یہ لوگ اپنی متکبرانہ روش کی سزا پانے کےلیے جہنم میں ڈال دئے جائیں گے۔ ان کی جھوٹی بڑائی آخر کار انھیں جہاں پہنچائے گی وہ صرف ابدی ذلّت ہے جس سے نکلنے کی کوئی صورت ان کےلیے نہ ہوگی۔

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ

📘 یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ حق کے داعیوں کی مدد کرے گا اور حق کے مخالفین کو مغلوب کرے گا۔ مگر اس وعدہ کا تحقق صبر کے بعد ہوتا ہے۔ داعی کو یک طرفہ طورپر فریق ثانی کی ایذاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا کی سنت کے مطابق اس کے وعدہ کے ظہور کا وقت آجائے۔ مخالفین حق کی اصل سزا وہ ہے جو انھیں آخرت میں ملے گی۔ تاہم موجودہ دنیا میں انھیں اس کا ابتدائی تجربہ کرایا جاتاہے، اگر چہ ہمیشہ ایسا کیا جانا ضروری نہیں۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَنْ يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ

📘 قرآن میں رسولوں کے احوال بطور تاریخ نہیںبیان ہوئے ہیں بلکہ بطور نصیحت بیان ہوئے ہیں۔ اس ليے قرآن میں رسولوں کے احوال محدود طورپر صرف اتنا ہی بتائے گئے ہیں جتنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نصیحت کےلیے ضروری تھے۔ رسول کا اصل کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کا پیغام اس کے تمام ضروری آداب اور تقاضوں کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دے۔ اس کے بعد جہاں تک معجزہ کا تعلق ہے وہ تمام تر اللہ کے اختیا رمیں ہے۔ وہ اپنی مصلحت کے تحت کبھی انھیں ظاہر کرتا ہے اور کبھی ظاہر نہیں کرتا۔ معجزے زیادہ تر ان قوموں کو دکھائے گئے ہیں جن کی سرکشی کی بنا پر خدا کا فیصلہ تھا کہ انھیں ہلاک کردیا جائے۔ اس ليے آخری طورپر اتمام حجت کےلیے انھیں معجزہ بھی دکھایا گیا۔ مگر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کا معاملہ یہ تھا کہ اس کا بڑا حصہ بالآخر مومن بننے والا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو امکانی طورپر یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ وہ تاریخ کے پہلے گروہ بنیں جس نے محض دلیل کی بنیاد پر حق کا اعتراف کیا اور اپنے آزاد ا رادہ سے اپنے آپ کو اس کے حوالے کردیا۔ اس ليے ان لوگوں کے مطالبہ کو نادانی پر محمول کرتے ہوئے انھیں خارق عادت معجزے نہیں دکھائے گئے۔

اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْكَبُوا مِنْهَا وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ

📘 انسان کو اپنی زندگی اور تمدن کےلیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ مثلاً غذا، سواری، مختلف قسم کی صنعتیں، سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا۔ یہ سب چیزیں موجودہ دنیا میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ خدا نے دنیا کی چیزوں کو اس طرح بنایا ہے وہ ہمیشہ انسان کے تابع رہیں اور انسان ان کو اپنی ضرورتوں کےلیے جس طرح چاہے استعمال کرسکے۔ یہ تمام چیزیں گویا خدا کی نشانیاں ہیں۔ وہ غیبی حقیقتوں کا مادی زبان میں اعلان کررہی ہیں۔ یہ اعلان اگرچہ بالواسطہ زبان میں ہے مگر انسان کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ بالواسطہ زبان میں کہی ہوئی بات کو سمجھے۔ کیوں کہ خدا جب براہِ راست زبان میں کلام کرے تو وہ مہلتِ عمل کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے، نہ کہ عمل شروع کرنے کا۔

رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدْتَهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 جو اللہ کے بندے بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھتے ہیں ان کو ہمیشہ ستایا جاتا ہے۔ ان کو ماحول میں حقیر بنادیا جاتا ہے۔ مگر عین اس وقت جب کہ ظاہر پرست انسانوں کے درمیان ان کا یہ حال ہوتا ہے، عین اسی وقت زمین و آسمان ان کے برسرِ حق ہونے کی تصدیق کررہے ہوتے ہیں۔ کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتے ان کے حسنِ انجام کے منتظر ہوتے ہیں۔ وقتی دنیا میں ناقابلِ تذکرہ سمجھے جانے والے لوگ ابدی دنیا میں اس مقام عزت پر ہوتے ہیں کہ اللہ کے مقرب ترین فرشتے بھی ان کے حق میں دعائیں کررہے ہیں۔

وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ

📘 انسان کو اپنی زندگی اور تمدن کےلیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ مثلاً غذا، سواری، مختلف قسم کی صنعتیں، سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا۔ یہ سب چیزیں موجودہ دنیا میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ خدا نے دنیا کی چیزوں کو اس طرح بنایا ہے وہ ہمیشہ انسان کے تابع رہیں اور انسان ان کو اپنی ضرورتوں کےلیے جس طرح چاہے استعمال کرسکے۔ یہ تمام چیزیں گویا خدا کی نشانیاں ہیں۔ وہ غیبی حقیقتوں کا مادی زبان میں اعلان کررہی ہیں۔ یہ اعلان اگرچہ بالواسطہ زبان میں ہے مگر انسان کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ بالواسطہ زبان میں کہی ہوئی بات کو سمجھے۔ کیوں کہ خدا جب براہِ راست زبان میں کلام کرے تو وہ مہلتِ عمل کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے، نہ کہ عمل شروع کرنے کا۔

وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَأَيَّ آيَاتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ

📘 انسان کو اپنی زندگی اور تمدن کےلیے بہت سی چیزوں کی ضرورت ہے۔ مثلاً غذا، سواری، مختلف قسم کی صنعتیں، سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا۔ یہ سب چیزیں موجودہ دنیا میں وافر مقدار میں موجود ہیں۔ خدا نے دنیا کی چیزوں کو اس طرح بنایا ہے وہ ہمیشہ انسان کے تابع رہیں اور انسان ان کو اپنی ضرورتوں کےلیے جس طرح چاہے استعمال کرسکے۔ یہ تمام چیزیں گویا خدا کی نشانیاں ہیں۔ وہ غیبی حقیقتوں کا مادی زبان میں اعلان کررہی ہیں۔ یہ اعلان اگرچہ بالواسطہ زبان میں ہے مگر انسان کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ بالواسطہ زبان میں کہی ہوئی بات کو سمجھے۔ کیوں کہ خدا جب براہِ راست زبان میں کلام کرے تو وہ مہلتِ عمل کے ختم ہونے کا اعلان ہوتا ہے، نہ کہ عمل شروع کرنے کا۔

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَّةً وَآثَارًا فِي الْأَرْضِ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ علم جس سے دنیا کی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرا علم وہ ہے جو آخرت کی کامیابی کا راستہ بتاتا ہے۔ جن لوگوںکے پاس دنیا کا علم ہو ان کے علم کا شاندار نتیجہ فوری طور پر دنیا کی ترقیوں کی صورت میں سامنے آجاتاہے۔ اس کے برعکس، جس شخص کے پاس آخرت کا علم ہو اس کے علم کے نتائج فوری طور پر محسوس شکل میں سامنے نہیں آتے۔ یہ فرق ان لوگوں کے اندر برتری کی نفسیات پیدا کردیتاہے جو دنیا کا علم رکھتے ہوں۔ چنانچہ ایسی قوموں کے پاس جب ان کے پیغمبر آئے تو انھوںنے اپنے کو زیادہ سمجھا اور پیغمبر کو کم خیال کیا۔ حتی کہ وہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ مگر اللہ نے ان قوموں کو ان کی تمام قوتوں اور شاندار ترقیوں کے باوجود ہلاک کردیا۔ اب ان کے تاریخی آثار یا تو کھنڈر کی شکل میں ہیں یا زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کےلیے ایک تاریخی مثال قائم کردی کہ — مستقل کامیابی کا راز علم آخرت میں ہے، نہ کہ علم دنیا میں۔ ان قوموں نے ابتداء ً اپنے پیغمبروں کا انکار کیا۔ پیغمبروں کے پاس دلیل کی قوت تھی۔ مگر یہ قومیں دلیل کی قوت کے آگے جھکنے کےلیے تیار نہ ہوئیں۔ آخر کارخدا نے عذاب کی زبان میں انھیں امر واقعی سے آگاہ کیا۔ اس وقت وہ لوگ جھک کر اقرار کرنے لگے۔ مگر یہ اقرار ان کے کام نہ آیا۔ کیوں کہ اقرار وہ مطلوب ہے جو دلیل کی بنیاد پر ہو۔ اس اقرار کی کوئی قیمت نہیں جو عذاب کو دیکھ کر کیا جائے۔

فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ علم جس سے دنیا کی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرا علم وہ ہے جو آخرت کی کامیابی کا راستہ بتاتا ہے۔ جن لوگوںکے پاس دنیا کا علم ہو ان کے علم کا شاندار نتیجہ فوری طور پر دنیا کی ترقیوں کی صورت میں سامنے آجاتاہے۔ اس کے برعکس، جس شخص کے پاس آخرت کا علم ہو اس کے علم کے نتائج فوری طور پر محسوس شکل میں سامنے نہیں آتے۔ یہ فرق ان لوگوں کے اندر برتری کی نفسیات پیدا کردیتاہے جو دنیا کا علم رکھتے ہوں۔ چنانچہ ایسی قوموں کے پاس جب ان کے پیغمبر آئے تو انھوںنے اپنے کو زیادہ سمجھا اور پیغمبر کو کم خیال کیا۔ حتی کہ وہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ مگر اللہ نے ان قوموں کو ان کی تمام قوتوں اور شاندار ترقیوں کے باوجود ہلاک کردیا۔ اب ان کے تاریخی آثار یا تو کھنڈر کی شکل میں ہیں یا زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کےلیے ایک تاریخی مثال قائم کردی کہ — مستقل کامیابی کا راز علم آخرت میں ہے، نہ کہ علم دنیا میں۔ ان قوموں نے ابتداء ً اپنے پیغمبروں کا انکار کیا۔ پیغمبروں کے پاس دلیل کی قوت تھی۔ مگر یہ قومیں دلیل کی قوت کے آگے جھکنے کےلیے تیار نہ ہوئیں۔ آخر کارخدا نے عذاب کی زبان میں انھیں امر واقعی سے آگاہ کیا۔ اس وقت وہ لوگ جھک کر اقرار کرنے لگے۔ مگر یہ اقرار ان کے کام نہ آیا۔ کیوں کہ اقرار وہ مطلوب ہے جو دلیل کی بنیاد پر ہو۔ اس اقرار کی کوئی قیمت نہیں جو عذاب کو دیکھ کر کیا جائے۔

فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَحْدَهُ وَكَفَرْنَا بِمَا كُنَّا بِهِ مُشْرِكِينَ

📘 علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ علم جس سے دنیا کی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرا علم وہ ہے جو آخرت کی کامیابی کا راستہ بتاتا ہے۔ جن لوگوںکے پاس دنیا کا علم ہو ان کے علم کا شاندار نتیجہ فوری طور پر دنیا کی ترقیوں کی صورت میں سامنے آجاتاہے۔ اس کے برعکس، جس شخص کے پاس آخرت کا علم ہو اس کے علم کے نتائج فوری طور پر محسوس شکل میں سامنے نہیں آتے۔ یہ فرق ان لوگوں کے اندر برتری کی نفسیات پیدا کردیتاہے جو دنیا کا علم رکھتے ہوں۔ چنانچہ ایسی قوموں کے پاس جب ان کے پیغمبر آئے تو انھوںنے اپنے کو زیادہ سمجھا اور پیغمبر کو کم خیال کیا۔ حتی کہ وہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ مگر اللہ نے ان قوموں کو ان کی تمام قوتوں اور شاندار ترقیوں کے باوجود ہلاک کردیا۔ اب ان کے تاریخی آثار یا تو کھنڈر کی شکل میں ہیں یا زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کےلیے ایک تاریخی مثال قائم کردی کہ — مستقل کامیابی کا راز علم آخرت میں ہے، نہ کہ علم دنیا میں۔ ان قوموں نے ابتداء ً اپنے پیغمبروں کا انکار کیا۔ پیغمبروں کے پاس دلیل کی قوت تھی۔ مگر یہ قومیں دلیل کی قوت کے آگے جھکنے کےلیے تیار نہ ہوئیں۔ آخر کارخدا نے عذاب کی زبان میں انھیں امر واقعی سے آگاہ کیا۔ اس وقت وہ لوگ جھک کر اقرار کرنے لگے۔ مگر یہ اقرار ان کے کام نہ آیا۔ کیوں کہ اقرار وہ مطلوب ہے جو دلیل کی بنیاد پر ہو۔ اس اقرار کی کوئی قیمت نہیں جو عذاب کو دیکھ کر کیا جائے۔

فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا ۖ سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ فِي عِبَادِهِ ۖ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْكَافِرُونَ

📘 علم کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ علم جس سے دنیا کی ترقیاں حاصل ہوتی ہیں۔ دوسرا علم وہ ہے جو آخرت کی کامیابی کا راستہ بتاتا ہے۔ جن لوگوںکے پاس دنیا کا علم ہو ان کے علم کا شاندار نتیجہ فوری طور پر دنیا کی ترقیوں کی صورت میں سامنے آجاتاہے۔ اس کے برعکس، جس شخص کے پاس آخرت کا علم ہو اس کے علم کے نتائج فوری طور پر محسوس شکل میں سامنے نہیں آتے۔ یہ فرق ان لوگوں کے اندر برتری کی نفسیات پیدا کردیتاہے جو دنیا کا علم رکھتے ہوں۔ چنانچہ ایسی قوموں کے پاس جب ان کے پیغمبر آئے تو انھوںنے اپنے کو زیادہ سمجھا اور پیغمبر کو کم خیال کیا۔ حتی کہ وہ ان کا مذاق اڑانے لگے۔ مگر اللہ نے ان قوموں کو ان کی تمام قوتوں اور شاندار ترقیوں کے باوجود ہلاک کردیا۔ اب ان کے تاریخی آثار یا تو کھنڈر کی شکل میں ہیں یا زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کےلیے ایک تاریخی مثال قائم کردی کہ — مستقل کامیابی کا راز علم آخرت میں ہے، نہ کہ علم دنیا میں۔ ان قوموں نے ابتداء ً اپنے پیغمبروں کا انکار کیا۔ پیغمبروں کے پاس دلیل کی قوت تھی۔ مگر یہ قومیں دلیل کی قوت کے آگے جھکنے کےلیے تیار نہ ہوئیں۔ آخر کارخدا نے عذاب کی زبان میں انھیں امر واقعی سے آگاہ کیا۔ اس وقت وہ لوگ جھک کر اقرار کرنے لگے۔ مگر یہ اقرار ان کے کام نہ آیا۔ کیوں کہ اقرار وہ مطلوب ہے جو دلیل کی بنیاد پر ہو۔ اس اقرار کی کوئی قیمت نہیں جو عذاب کو دیکھ کر کیا جائے۔

وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ ۚ وَمَنْ تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 جو اللہ کے بندے بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھتے ہیں ان کو ہمیشہ ستایا جاتا ہے۔ ان کو ماحول میں حقیر بنادیا جاتا ہے۔ مگر عین اس وقت جب کہ ظاہر پرست انسانوں کے درمیان ان کا یہ حال ہوتا ہے، عین اسی وقت زمین و آسمان ان کے برسرِ حق ہونے کی تصدیق کررہے ہوتے ہیں۔ کائنات کا انتظام کرنے والے فرشتے ان کے حسنِ انجام کے منتظر ہوتے ہیں۔ وقتی دنیا میں ناقابلِ تذکرہ سمجھے جانے والے لوگ ابدی دنیا میں اس مقام عزت پر ہوتے ہیں کہ اللہ کے مقرب ترین فرشتے بھی ان کے حق میں دعائیں کررہے ہیں۔