slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الحشر

(Al-Hashr) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 مدینہ کے مشرق میں یہودی قبیلہ بنو نضیر کی آبادی تھی۔ ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا۔ مگر انہوں نے بار بار عہد شکنی کی۔ آخر کار 4 ھ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ مسلمانوں نے ان کو مدینہ سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد وہ خیبر اور شام كے علاقے میں جا کر آباد ہوگئے۔ مگر ان کی سازشی سرگرمیاں جاري رہیں۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں وہ اور دوسرے یہودی قبائل جزیرهٔ عرب سے نکلنے پر مجبور کردیے گئے۔ اس کے بعد وہ لوگ شام میں جا کر آباد ہوئے۔ ’’اللہ ان پر وہاں سے پہنچا جہاں ان کو گمان بھی نہ تھا‘‘ کی تشریح اگلے فقرہ میں موجود ہے۔ یعنی اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ انہوں نے بیرونی طور پر ہر قسم کی تیاریاں کیں۔ مگر جب مسلمانوں کی فوج نے ان کی آبادی کو گھیر لیا تو ساری طاقت کے باوجود ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ انہوں نے لڑنے کا حوصلہ کھودیا۔ اور بلا مقابلہ ہتھیار ڈال دیا۔

وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی جلا وطنی کا اعلان کیا تو منافقین ان کی حمایت پر آگئے۔ انہوں نے بنونضیر سے کہا کہ تم اپنی جگہ جمے رہو، ہم ہر طرح تمہاری مدد کریں گے۔ مگر منافقین کی یہ باتیں محض ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے تھیں۔ وہ اس پیشکش میں ہرگز مخلص نہ تھے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے بنو نضیر کو گھیر لیا تو منافقین میں سے کوئی بھی ان کی مدد پر نہ آیا — مفاد پرست گروہ کا ہر زمانہ میں یہی کردار رہا ہے۔

۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی جلا وطنی کا اعلان کیا تو منافقین ان کی حمایت پر آگئے۔ انہوں نے بنونضیر سے کہا کہ تم اپنی جگہ جمے رہو، ہم ہر طرح تمہاری مدد کریں گے۔ مگر منافقین کی یہ باتیں محض ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے تھیں۔ وہ اس پیشکش میں ہرگز مخلص نہ تھے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے بنو نضیر کو گھیر لیا تو منافقین میں سے کوئی بھی ان کی مدد پر نہ آیا — مفاد پرست گروہ کا ہر زمانہ میں یہی کردار رہا ہے۔

لَئِنْ أُخْرِجُوا لَا يَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لَا يَنْصُرُونَهُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَيُوَلُّنَّ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی جلا وطنی کا اعلان کیا تو منافقین ان کی حمایت پر آگئے۔ انہوں نے بنونضیر سے کہا کہ تم اپنی جگہ جمے رہو، ہم ہر طرح تمہاری مدد کریں گے۔ مگر منافقین کی یہ باتیں محض ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے تھیں۔ وہ اس پیشکش میں ہرگز مخلص نہ تھے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے بنو نضیر کو گھیر لیا تو منافقین میں سے کوئی بھی ان کی مدد پر نہ آیا — مفاد پرست گروہ کا ہر زمانہ میں یہی کردار رہا ہے۔

لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِي صُدُورِهِمْ مِنَ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ

📘 خدا کی طاقت بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ مگر انسانوں کی طاقت کھلی آنکھ سے نظر آتی ہے۔ اس بنا پر ظاہر پرست لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے تو بے خوف رہتے ہیں مگر انسانوں میں اگر کوئی زور آور دکھائی دے تو وہ فوراً اس سے ڈرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ خدا کے بارے میں ان کی بے شعوری انہیں ان کی دنیا کے بارے میں بھی بے شعور بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ جن کو صرف منفی مقصد نے متحد کیا ہو وہ زیادہ دیر تک اپنا اتحاد باقی نہیں رکھ پاتے کیونکہ دیرپا اتحاد کے لیے مثبت بنیاد درکار ہے اور وہ ان کے پاس موجود ہی نہیں۔

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ أَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ

📘 خدا کی طاقت بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ مگر انسانوں کی طاقت کھلی آنکھ سے نظر آتی ہے۔ اس بنا پر ظاہر پرست لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ سے تو بے خوف رہتے ہیں مگر انسانوں میں اگر کوئی زور آور دکھائی دے تو وہ فوراً اس سے ڈرنے کی ضرورت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ خدا کے بارے میں ان کی بے شعوری انہیں ان کی دنیا کے بارے میں بھی بے شعور بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگ جن کو صرف منفی مقصد نے متحد کیا ہو وہ زیادہ دیر تک اپنا اتحاد باقی نہیں رکھ پاتے کیونکہ دیرپا اتحاد کے لیے مثبت بنیاد درکار ہے اور وہ ان کے پاس موجود ہی نہیں۔

كَمَثَلِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيبًا ۖ ذَاقُوا وَبَالَ أَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 مدینہ کے منافقین بنو نضیر کو مسلمانوں کے خلاف ابھار رہے تھے۔ انہوں نے اس واقعہ سے سبق نہیں لیا کہ جلد ہی پہلے قریش اور قبیلہ بنو قینقاع ان کے خلاف اٹھے۔ مگر ان کو زبردست شکست ہوئی۔ جو لوگ شیطان کو اپنا مشیر بنائیں ان کا حال ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ وہ واقعات سے نصیحت نہیں لیتے۔ پہلے وہ جوش و خروش کے ساتھ لوگوں کو مجرمانہ افعال پر ابھارتے ہیں۔ پھر جب اس کا بھیانک انجام سامنے آتا ہے تو وہ طرح طرح کے الفاظ بول کر یہ چاہتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو بری کرلیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں ایسے لوگوں کو اللہ کی پکڑ سے بچانے والی ثابت نہیں ہوسکتیں۔

كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

📘 مدینہ کے منافقین بنو نضیر کو مسلمانوں کے خلاف ابھار رہے تھے۔ انہوں نے اس واقعہ سے سبق نہیں لیا کہ جلد ہی پہلے قریش اور قبیلہ بنو قینقاع ان کے خلاف اٹھے۔ مگر ان کو زبردست شکست ہوئی۔ جو لوگ شیطان کو اپنا مشیر بنائیں ان کا حال ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ وہ واقعات سے نصیحت نہیں لیتے۔ پہلے وہ جوش و خروش کے ساتھ لوگوں کو مجرمانہ افعال پر ابھارتے ہیں۔ پھر جب اس کا بھیانک انجام سامنے آتا ہے تو وہ طرح طرح کے الفاظ بول کر یہ چاہتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو بری کرلیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں ایسے لوگوں کو اللہ کی پکڑ سے بچانے والی ثابت نہیں ہوسکتیں۔

فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ

📘 مدینہ کے منافقین بنو نضیر کو مسلمانوں کے خلاف ابھار رہے تھے۔ انہوں نے اس واقعہ سے سبق نہیں لیا کہ جلد ہی پہلے قریش اور قبیلہ بنو قینقاع ان کے خلاف اٹھے۔ مگر ان کو زبردست شکست ہوئی۔ جو لوگ شیطان کو اپنا مشیر بنائیں ان کا حال ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ وہ واقعات سے نصیحت نہیں لیتے۔ پہلے وہ جوش و خروش کے ساتھ لوگوں کو مجرمانہ افعال پر ابھارتے ہیں۔ پھر جب اس کا بھیانک انجام سامنے آتا ہے تو وہ طرح طرح کے الفاظ بول کر یہ چاہتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری سے اپنے آپ کو بری کرلیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں ایسے لوگوں کو اللہ کی پکڑ سے بچانے والی ثابت نہیں ہوسکتیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

📘 انسانی زندگی کو ’’آج‘‘ اور ’’کل‘‘ کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا انسان کا آج ہے اور آخرت کی دنیا اس کا کل ہے۔ انسان موجودہ دنیا میں جو کچھ کرے گا اس کا لازمی انجام اس کو آنے والی طویل تر زندگی میں بھگتنا پڑے گا۔ یہی اصل حقیقت ہے اور اسی حقیقت کا دوسرا نام اسلام ہے۔ انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اس حقیقتِ واقعی کو ہمیشہ ذہن میں رکھے۔ جو شخص اس حقیقت واقعی سے غافل ہوجائے اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جائے گی۔ اس معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان کا کوئی فرق نہیں۔ مسلمانوں کو اس کا فائدہ اسی وقت ملے گا جب کہ واقعۃً وہ اس پر قائم ہوں۔ مسلمان اگر غفلت میں پڑجائیں تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے غفلت میں پڑنے والے یہود کا ہوا۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

📘 انسانی زندگی کو ’’آج‘‘ اور ’’کل‘‘ کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا انسان کا آج ہے اور آخرت کی دنیا اس کا کل ہے۔ انسان موجودہ دنیا میں جو کچھ کرے گا اس کا لازمی انجام اس کو آنے والی طویل تر زندگی میں بھگتنا پڑے گا۔ یہی اصل حقیقت ہے اور اسی حقیقت کا دوسرا نام اسلام ہے۔ انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اس حقیقتِ واقعی کو ہمیشہ ذہن میں رکھے۔ جو شخص اس حقیقت واقعی سے غافل ہوجائے اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جائے گی۔ اس معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان کا کوئی فرق نہیں۔ مسلمانوں کو اس کا فائدہ اسی وقت ملے گا جب کہ واقعۃً وہ اس پر قائم ہوں۔ مسلمان اگر غفلت میں پڑجائیں تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے غفلت میں پڑنے والے یہود کا ہوا۔

هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ

📘 مدینہ کے مشرق میں یہودی قبیلہ بنو نضیر کی آبادی تھی۔ ان کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صلح کا معاہدہ تھا۔ مگر انہوں نے بار بار عہد شکنی کی۔ آخر کار 4 ھ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ مسلمانوں نے ان کو مدینہ سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد وہ خیبر اور شام كے علاقے میں جا کر آباد ہوگئے۔ مگر ان کی سازشی سرگرمیاں جاري رہیں۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں وہ اور دوسرے یہودی قبائل جزیرهٔ عرب سے نکلنے پر مجبور کردیے گئے۔ اس کے بعد وہ لوگ شام میں جا کر آباد ہوئے۔ ’’اللہ ان پر وہاں سے پہنچا جہاں ان کو گمان بھی نہ تھا‘‘ کی تشریح اگلے فقرہ میں موجود ہے۔ یعنی اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ انہوں نے بیرونی طور پر ہر قسم کی تیاریاں کیں۔ مگر جب مسلمانوں کی فوج نے ان کی آبادی کو گھیر لیا تو ساری طاقت کے باوجود ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ انہوں نے لڑنے کا حوصلہ کھودیا۔ اور بلا مقابلہ ہتھیار ڈال دیا۔

لَا يَسْتَوِي أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۚ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَائِزُونَ

📘 انسانی زندگی کو ’’آج‘‘ اور ’’کل‘‘ کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے۔ موجودہ دنیا انسان کا آج ہے اور آخرت کی دنیا اس کا کل ہے۔ انسان موجودہ دنیا میں جو کچھ کرے گا اس کا لازمی انجام اس کو آنے والی طویل تر زندگی میں بھگتنا پڑے گا۔ یہی اصل حقیقت ہے اور اسی حقیقت کا دوسرا نام اسلام ہے۔ انسان کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ اس حقیقتِ واقعی کو ہمیشہ ذہن میں رکھے۔ جو شخص اس حقیقت واقعی سے غافل ہوجائے اس کی پوری زندگی غلط ہو کر رہ جائے گی۔ اس معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان کا کوئی فرق نہیں۔ مسلمانوں کو اس کا فائدہ اسی وقت ملے گا جب کہ واقعۃً وہ اس پر قائم ہوں۔ مسلمان اگر غفلت میں پڑجائیں تو ان کا انجام بھی وہی ہوگا جو اس سے پہلے غفلت میں پڑنے والے یہود کا ہوا۔

لَوْ أَنْزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ

📘 قرآن اس عظیم حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان آزاد نہیں ہے بلکہ اس کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی اللہ کے سامنے کرنی ہے، جو انتہائی طاقت ور ہے۔ اور ہر ایک کے اعمال کو بذات خود پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ یہ خبر اتنی سنگین ہے کہ پہاڑ تک کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر انسان اتنا غافل اور بے حس ہے کہ وہ اس ہولناک خبر کو سن کر بھی نہیں تڑپتا۔ اللہ کے اسماء جو یہاں بیان کیے گئے ہیں وہ ایک طرف اللہ کی ذات کا تعارف ہیں۔ دوسری طرف وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہستی کیسی عظیم ہستی ہے جو انسانوں کی خالق ہے اور ان کے اوپر ان کی نگرانی کر رہی ہے۔ اگر آدمی کو واقعۃً اس کا احساس ہوجائے تو وہ اللہ کی حمد و تسبیح میں سراپا غرق ہوجائے گا۔ کائنات اپنی تخلیقی معنویت کی صورت میں خدا کی صفات کا آئینہ ہے۔ وہ خود حمدوتسبیح میں مصروف ہو کر انسان کو بھی حمد و تسبیح کا سبق دیتی ہے۔

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۖ هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ

📘 قرآن اس عظیم حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان آزاد نہیں ہے بلکہ اس کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی اللہ کے سامنے کرنی ہے، جو انتہائی طاقت ور ہے۔ اور ہر ایک کے اعمال کو بذات خود پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ یہ خبر اتنی سنگین ہے کہ پہاڑ تک کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر انسان اتنا غافل اور بے حس ہے کہ وہ اس ہولناک خبر کو سن کر بھی نہیں تڑپتا۔ اللہ کے اسماء جو یہاں بیان کیے گئے ہیں وہ ایک طرف اللہ کی ذات کا تعارف ہیں۔ دوسری طرف وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہستی کیسی عظیم ہستی ہے جو انسانوں کی خالق ہے اور ان کے اوپر ان کی نگرانی کر رہی ہے۔ اگر آدمی کو واقعۃً اس کا احساس ہوجائے تو وہ اللہ کی حمد و تسبیح میں سراپا غرق ہوجائے گا۔ کائنات اپنی تخلیقی معنویت کی صورت میں خدا کی صفات کا آئینہ ہے۔ وہ خود حمدوتسبیح میں مصروف ہو کر انسان کو بھی حمد و تسبیح کا سبق دیتی ہے۔

هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 قرآن اس عظیم حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان آزاد نہیں ہے بلکہ اس کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی اللہ کے سامنے کرنی ہے، جو انتہائی طاقت ور ہے۔ اور ہر ایک کے اعمال کو بذات خود پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ یہ خبر اتنی سنگین ہے کہ پہاڑ تک کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر انسان اتنا غافل اور بے حس ہے کہ وہ اس ہولناک خبر کو سن کر بھی نہیں تڑپتا۔ اللہ کے اسماء جو یہاں بیان کیے گئے ہیں وہ ایک طرف اللہ کی ذات کا تعارف ہیں۔ دوسری طرف وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہستی کیسی عظیم ہستی ہے جو انسانوں کی خالق ہے اور ان کے اوپر ان کی نگرانی کر رہی ہے۔ اگر آدمی کو واقعۃً اس کا احساس ہوجائے تو وہ اللہ کی حمد و تسبیح میں سراپا غرق ہوجائے گا۔ کائنات اپنی تخلیقی معنویت کی صورت میں خدا کی صفات کا آئینہ ہے۔ وہ خود حمدوتسبیح میں مصروف ہو کر انسان کو بھی حمد و تسبیح کا سبق دیتی ہے۔

هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ ۚ يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 قرآن اس عظیم حقیقت کا اعلان ہے کہ انسان آزاد نہیں ہے بلکہ اس کو اپنے تمام اعمال کی جواب دہی اللہ کے سامنے کرنی ہے، جو انتہائی طاقت ور ہے۔ اور ہر ایک کے اعمال کو بذات خود پوری طرح دیکھ رہا ہے۔ یہ خبر اتنی سنگین ہے کہ پہاڑ تک کو لرزا دینے کے لیے کافی ہے۔ مگر انسان اتنا غافل اور بے حس ہے کہ وہ اس ہولناک خبر کو سن کر بھی نہیں تڑپتا۔ اللہ کے اسماء جو یہاں بیان کیے گئے ہیں وہ ایک طرف اللہ کی ذات کا تعارف ہیں۔ دوسری طرف وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہستی کیسی عظیم ہستی ہے جو انسانوں کی خالق ہے اور ان کے اوپر ان کی نگرانی کر رہی ہے۔ اگر آدمی کو واقعۃً اس کا احساس ہوجائے تو وہ اللہ کی حمد و تسبیح میں سراپا غرق ہوجائے گا۔ کائنات اپنی تخلیقی معنویت کی صورت میں خدا کی صفات کا آئینہ ہے۔ وہ خود حمدوتسبیح میں مصروف ہو کر انسان کو بھی حمد و تسبیح کا سبق دیتی ہے۔

وَلَوْلَا أَنْ كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابُ النَّارِ

📘 یہود کو جو سزا دی گئی، وہ اللہ کے قانون کے تحت تھی۔ یہ سزا ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوں۔ بنو نضیر کے محاصرہ کے وقت ان کے باغات کے کچھ درخت جنگی مصلحت کے تحت کاٹے گئے تھے۔ یہ بھی براہِ راست خدا کے حکم سے ہوا۔ تاہم یہ کوئی عام اصول نہیں۔ یہ ایک استثنائی معاملہ ہے جو پیغمبر کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ ایک یا دوسری شکل میں اختیار کیا جاتا ہے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۖ وَمَنْ يُشَاقِّ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 یہود کو جو سزا دی گئی، وہ اللہ کے قانون کے تحت تھی۔ یہ سزا ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوں۔ بنو نضیر کے محاصرہ کے وقت ان کے باغات کے کچھ درخت جنگی مصلحت کے تحت کاٹے گئے تھے۔ یہ بھی براہِ راست خدا کے حکم سے ہوا۔ تاہم یہ کوئی عام اصول نہیں۔ یہ ایک استثنائی معاملہ ہے جو پیغمبر کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ ایک یا دوسری شکل میں اختیار کیا جاتا ہے۔

مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ

📘 یہود کو جو سزا دی گئی، وہ اللہ کے قانون کے تحت تھی۔ یہ سزا ان لوگوں کے لیے مقدر ہے جو پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوں۔ بنو نضیر کے محاصرہ کے وقت ان کے باغات کے کچھ درخت جنگی مصلحت کے تحت کاٹے گئے تھے۔ یہ بھی براہِ راست خدا کے حکم سے ہوا۔ تاہم یہ کوئی عام اصول نہیں۔ یہ ایک استثنائی معاملہ ہے جو پیغمبر کے براہ راست مخاطبین کے ساتھ ایک یا دوسری شکل میں اختیار کیا جاتا ہے۔

وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْهُمْ فَمَا أَوْجَفْتُمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 دشمن کا جو مال لڑائی کے بعد ملے وہ غنیمت ہے اور جو مال لڑائی کے بغیر ہاتھ لگے وہ فئی ہے۔ غنیمت میں پانچواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سب لشکر کا حصہ ہے۔ اور فئی سب کا سب اسلامی حکومت کی ملکیت ہے جو مصالحِ عامہ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مال کسی ایک طبقہ میں محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ بلکہ وہ ہر طبقہ کے درمیان پہنچے۔ اسلام میں معاشی جبر نہیں ہے۔ تاہم اس کے معاشی قوانین اس طرح بنائے گئے ہیں کہ دولت سمٹ کر چند لوگوں میں محدود نہ ہوجائے، بلکہ وہ ہر سوسائٹي کے تمام لوگوں میں گردش کرتی رہے۔

مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 دشمن کا جو مال لڑائی کے بعد ملے وہ غنیمت ہے اور جو مال لڑائی کے بغیر ہاتھ لگے وہ فئی ہے۔ غنیمت میں پانچواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سب لشکر کا حصہ ہے۔ اور فئی سب کا سب اسلامی حکومت کی ملکیت ہے جو مصالحِ عامہ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مال کسی ایک طبقہ میں محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ بلکہ وہ ہر طبقہ کے درمیان پہنچے۔ اسلام میں معاشی جبر نہیں ہے۔ تاہم اس کے معاشی قوانین اس طرح بنائے گئے ہیں کہ دولت سمٹ کر چند لوگوں میں محدود نہ ہوجائے، بلکہ وہ ہر سوسائٹي کے تمام لوگوں میں گردش کرتی رہے۔

لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ

📘 دشمن کا جو مال لڑائی کے بعد ملے وہ غنیمت ہے اور جو مال لڑائی کے بغیر ہاتھ لگے وہ فئی ہے۔ غنیمت میں پانچواں حصہ نکالنے کے بعد بقیہ سب لشکر کا حصہ ہے۔ اور فئی سب کا سب اسلامی حکومت کی ملکیت ہے جو مصالحِ عامہ کے لیے خرچ کیا جائے گا۔ اسلام چاہتا ہے کہ مال کسی ایک طبقہ میں محدود ہو کر نہ رہ جائے۔ بلکہ وہ ہر طبقہ کے درمیان پہنچے۔ اسلام میں معاشی جبر نہیں ہے۔ تاہم اس کے معاشی قوانین اس طرح بنائے گئے ہیں کہ دولت سمٹ کر چند لوگوں میں محدود نہ ہوجائے، بلکہ وہ ہر سوسائٹي کے تمام لوگوں میں گردش کرتی رہے۔

وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی جلا وطنی کا اعلان کیا تو منافقین ان کی حمایت پر آگئے۔ انہوں نے بنونضیر سے کہا کہ تم اپنی جگہ جمے رہو، ہم ہر طرح تمہاری مدد کریں گے۔ مگر منافقین کی یہ باتیں محض ان کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کے لیے تھیں۔ وہ اس پیشکش میں ہرگز مخلص نہ تھے۔ چنانچہ جب مسلمانوں نے بنو نضیر کو گھیر لیا تو منافقین میں سے کوئی بھی ان کی مدد پر نہ آیا — مفاد پرست گروہ کا ہر زمانہ میں یہی کردار رہا ہے۔