slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo xhamster/a> jalalive/a>
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الأنعام

(Al-Anam) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَاتِ وَالنُّورَ ۖ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

📘 آسمان اور زمین کا نظام اپنی ساری وسعتوں کے باوجود اتنا مربوط اور اتنا وحدانی ہے کہ وہ پکار رہا ہے کہ اس کا خالق اور منتظم ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ پھر زمین وآسمان کی یہ کائنات اپنے پھیلاؤ اور اپنی حکمت و معنویت کے اعتبار سے ناقابلِ قیاس حد تک عظیم ہے۔ سورج کے روشن کرہ کے گرد خلامیں زمین کی حد درجہ منظم گردش اور اس سے زمین کی سطح پر روشنی اور تاریکی اور دن اور رات کا پیدا ہونا انسان کے تمام قیاس وگمان سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ اب جو خدا اتنے بڑے کائناتی کارخانہ کو اتنے باکمال طریقہ پر چلا رہا ہے اس کی ذات میں وہ کون سی کمی ہوسکتی ہے جس کی تلافی کے لیے وہ کسی کو اپنا شریک ٹھہرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دنیا اور اس کے اندر قائم شدہ حیرت ناک نظام خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا خدا صرف ایک ہے اور یہی نظام اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہ خدا اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کو اپنی تخلیق اور انتظام میں کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔ موجودہ دنیا کی عمر محدود ہے۔ یہاں دکھ سے خالی زندگی ممکن نہیں۔ یہاں ہر خوش گواری کے ساتھ ناخوش گواری کا پہلو لگا ہوا ہے۔ یہاں شر کو خیر سے اور خیر کو شر سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخرت کی ابدی دنیا جو ہر قسم کے حزن (فاطر، 35:34 ) سے خالی ہوگی کیسے بن جائے گی۔ اگر کسی اور مادہ سے آخرت کی دنیا بننے والی ہو تو انسان اس سے واقف نہیں اور اگر اسی دنیا کے مادہ سے وہ دوسری دنیا بننے والی ہے تو اس دنیا کے اندر اس قسم کی ایک کامل دنیا کو وجود میں لانے کی صلاحیت نہیں۔ مگر سوال کرنے والے کا خود اپنا وجود ہی اس سوال کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔ انسان کا جسم پورا کا پورا مٹی (زمینی اجزاء) سے بنا ہے، مگر اس کے اندر ایسی منفرد صلاحیتیں ہیں، جن میں سے کوئی صلاحیت بھی مٹی کے اندر نہیں۔ آدمی سنتا ہے، وہ بولتا ہے، وہ سوچتا ہے، وہ طرح طرح کے حیرت ناک عمل انجام دیتاہے۔ حالاں کہ وہ جس مٹی سے بنا ہے وہ اس قسم کا کوئی بھی عمل انجام نہیں دے سکتی۔ زمینی اجزاء سے حیرت انگیز طورپر ایک غیرزمینی مخلوق بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر روز آدمی کے سامنے آرہا ہے۔ ایسی حالت میں کیسی عجیب بات ہے کہ آدمی آخرت کے واقع ہونے پر شک کرے۔ اگر مٹی سے جیتا جاگتا انسان نکل سکتا ہے۔ اگر مٹی سے خوشبودار پھول اور ذائقہ دار پھل بر آمد ہوسکتے ہیں تو ہماری موجودہ دنیا سے ایک اور زیادہ کامل اور زیادہ معیاری دنیا کیوں ظاہر نہیں ہوسکتی۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 لوگ دنیا کو ہار جیت (تغابن) کی جگہ سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کو یہاں کامیابی مل جائے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور جو شخص یہاں ناکامی سے دو چار ہو وہ لوگوں کی نظر میں حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہار بھی بے قیمت ہے اور یہاں کی جیت بھی بے قیمت۔ ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ہارنے والا وہ ہے جو آخرت میں ہارے اور جیتنے والا وہ ہے جو آخرت میں جیتے، اور وہاں کی ہار جیت کا معیار بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں ہار جیت ظاہری مادیات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور آخرت کی ہار جیت خدائی اخلاقیات کی بنیاد پر ہوگی۔ اس وقت دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہاں سارا معاملہ بالکل بدل گیا ہے۔ جس پانے کو لوگ پانا سمجھ رہے تھے وہ در اصل کھونا تھا، اور جس کھونے کو لوگوں نے کھونا سمجھ رکھا تھا، وہی در اصل وہ چیز تھی جس کو پانا کہا جائے۔ اسی دن کی ہار ہار ہے اور اسی دن کی جیت جیت۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ

📘 قدیم ترین زمانہ سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جس چیز میں بھی کوئی امتیاز یا کوئی پراسراريت دیکھتا ہے اس کو وہ خدا کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ اور اس سے مدد لینے یا اس کی آفتوں سے بچنے کے لیے اس کو پوجنے لگتا ہے۔ اسی ذہن کے تحت بہت سے لوگوں نے فرشتے اور کواکب اور جنّات کو پوجنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ان چیزوں کے خدا نہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے ان کے اندر ’’خلق‘‘ کی صفت نہیں۔ انھوں نے نہ اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کو خود کسی دوسری ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ پھر جو خالق ہے وہ خدا ہوگا یا جو مخلوق ہے وہ خدا بن جائے گا۔ ایک درخت کو کمال درجہ موزونیت کے ساتھ وہ تمام چیزیں پہنچتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ ان چیزوں کو جو کچھ ملتاہے کسی دینے والے کے ديے سے ملتا ہے تو یقیناً دینے والا ہر جز وکل سے باخبر ہوگا۔ اگر وہ ان سے باخبر نہ ہو تو ہر چیز کی اس کی عین ضرورت کے مطابق کارسازی کس طرح کرے۔ اب جو خدا اتنی کامل صفات کا مالک ہو وہ آخر کس ضرورت کے ليے کسی کو اپنی خدائی میں شریک کرے گا۔ انسان خدا کو محسوس صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب وہ اس کو محسوس صورت میں نظر نہیں آتا تو وہ دوسری محسوس چیزوں کو خدا فرض کرکے اپنی ظاہرپرستی کی تسکین کرلیتا ہے۔ مگر یہ خدا کی ہستی کا بہت کمتر اندازہ ہے۔ آخر جو خدا ایسا عظیم ہو کہ اتنی بڑی کائنات پیدا کرے اور انتہائی نظم کے ساتھ اس کو مسلسل چلاتا رہے، وہ اتنا معمولی کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کمزور مخلوق اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے ہاتھوں سے چھوئے۔ البتہ انسان دل کی راہ سے خدا کو پاتا ہے اور یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھتا ہے۔ جو شخص بصیرت کی آنکھ سے دیکھ کر ماننے پر راضی ہو وہی خدا کو پائے گا۔ جو بصارت سے دیکھنے پر اصرار کرے وہ خدا کو پانے سے اسی طرح محروم رہے گا جس طرح وہ شخص پھول کی خوشبو کو جاننے سے محروم رہتا ہے جو ا س کو کیمیائی معیاروں پر پرکھ کر جاننا چاہے۔

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَهُ صَاحِبَةٌ ۖ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 قدیم ترین زمانہ سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جس چیز میں بھی کوئی امتیاز یا کوئی پراسراريت دیکھتا ہے اس کو وہ خدا کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ اور اس سے مدد لینے یا اس کی آفتوں سے بچنے کے لیے اس کو پوجنے لگتا ہے۔ اسی ذہن کے تحت بہت سے لوگوں نے فرشتے اور کواکب اور جنّات کو پوجنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ان چیزوں کے خدا نہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے ان کے اندر ’’خلق‘‘ کی صفت نہیں۔ انھوں نے نہ اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کو خود کسی دوسری ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ پھر جو خالق ہے وہ خدا ہوگا یا جو مخلوق ہے وہ خدا بن جائے گا۔ ایک درخت کو کمال درجہ موزونیت کے ساتھ وہ تمام چیزیں پہنچتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ ان چیزوں کو جو کچھ ملتاہے کسی دینے والے کے ديے سے ملتا ہے تو یقیناً دینے والا ہر جز وکل سے باخبر ہوگا۔ اگر وہ ان سے باخبر نہ ہو تو ہر چیز کی اس کی عین ضرورت کے مطابق کارسازی کس طرح کرے۔ اب جو خدا اتنی کامل صفات کا مالک ہو وہ آخر کس ضرورت کے ليے کسی کو اپنی خدائی میں شریک کرے گا۔ انسان خدا کو محسوس صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب وہ اس کو محسوس صورت میں نظر نہیں آتا تو وہ دوسری محسوس چیزوں کو خدا فرض کرکے اپنی ظاہرپرستی کی تسکین کرلیتا ہے۔ مگر یہ خدا کی ہستی کا بہت کمتر اندازہ ہے۔ آخر جو خدا ایسا عظیم ہو کہ اتنی بڑی کائنات پیدا کرے اور انتہائی نظم کے ساتھ اس کو مسلسل چلاتا رہے، وہ اتنا معمولی کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کمزور مخلوق اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے ہاتھوں سے چھوئے۔ البتہ انسان دل کی راہ سے خدا کو پاتا ہے اور یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھتا ہے۔ جو شخص بصیرت کی آنکھ سے دیکھ کر ماننے پر راضی ہو وہی خدا کو پائے گا۔ جو بصارت سے دیکھنے پر اصرار کرے وہ خدا کو پانے سے اسی طرح محروم رہے گا جس طرح وہ شخص پھول کی خوشبو کو جاننے سے محروم رہتا ہے جو ا س کو کیمیائی معیاروں پر پرکھ کر جاننا چاہے۔

ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ

📘 قدیم ترین زمانہ سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جس چیز میں بھی کوئی امتیاز یا کوئی پراسراريت دیکھتا ہے اس کو وہ خدا کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ اور اس سے مدد لینے یا اس کی آفتوں سے بچنے کے لیے اس کو پوجنے لگتا ہے۔ اسی ذہن کے تحت بہت سے لوگوں نے فرشتے اور کواکب اور جنّات کو پوجنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ان چیزوں کے خدا نہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے ان کے اندر ’’خلق‘‘ کی صفت نہیں۔ انھوں نے نہ اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کو خود کسی دوسری ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ پھر جو خالق ہے وہ خدا ہوگا یا جو مخلوق ہے وہ خدا بن جائے گا۔ ایک درخت کو کمال درجہ موزونیت کے ساتھ وہ تمام چیزیں پہنچتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ ان چیزوں کو جو کچھ ملتاہے کسی دینے والے کے ديے سے ملتا ہے تو یقیناً دینے والا ہر جز وکل سے باخبر ہوگا۔ اگر وہ ان سے باخبر نہ ہو تو ہر چیز کی اس کی عین ضرورت کے مطابق کارسازی کس طرح کرے۔ اب جو خدا اتنی کامل صفات کا مالک ہو وہ آخر کس ضرورت کے ليے کسی کو اپنی خدائی میں شریک کرے گا۔ انسان خدا کو محسوس صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب وہ اس کو محسوس صورت میں نظر نہیں آتا تو وہ دوسری محسوس چیزوں کو خدا فرض کرکے اپنی ظاہرپرستی کی تسکین کرلیتا ہے۔ مگر یہ خدا کی ہستی کا بہت کمتر اندازہ ہے۔ آخر جو خدا ایسا عظیم ہو کہ اتنی بڑی کائنات پیدا کرے اور انتہائی نظم کے ساتھ اس کو مسلسل چلاتا رہے، وہ اتنا معمولی کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کمزور مخلوق اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے ہاتھوں سے چھوئے۔ البتہ انسان دل کی راہ سے خدا کو پاتا ہے اور یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھتا ہے۔ جو شخص بصیرت کی آنکھ سے دیکھ کر ماننے پر راضی ہو وہی خدا کو پائے گا۔ جو بصارت سے دیکھنے پر اصرار کرے وہ خدا کو پانے سے اسی طرح محروم رہے گا جس طرح وہ شخص پھول کی خوشبو کو جاننے سے محروم رہتا ہے جو ا س کو کیمیائی معیاروں پر پرکھ کر جاننا چاہے۔

لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ

📘 قدیم ترین زمانہ سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جس چیز میں بھی کوئی امتیاز یا کوئی پراسراريت دیکھتا ہے اس کو وہ خدا کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ اور اس سے مدد لینے یا اس کی آفتوں سے بچنے کے لیے اس کو پوجنے لگتا ہے۔ اسی ذہن کے تحت بہت سے لوگوں نے فرشتے اور کواکب اور جنّات کو پوجنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ان چیزوں کے خدا نہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے ان کے اندر ’’خلق‘‘ کی صفت نہیں۔ انھوں نے نہ اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کو خود کسی دوسری ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ پھر جو خالق ہے وہ خدا ہوگا یا جو مخلوق ہے وہ خدا بن جائے گا۔ ایک درخت کو کمال درجہ موزونیت کے ساتھ وہ تمام چیزیں پہنچتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ ان چیزوں کو جو کچھ ملتاہے کسی دینے والے کے ديے سے ملتا ہے تو یقیناً دینے والا ہر جز وکل سے باخبر ہوگا۔ اگر وہ ان سے باخبر نہ ہو تو ہر چیز کی اس کی عین ضرورت کے مطابق کارسازی کس طرح کرے۔ اب جو خدا اتنی کامل صفات کا مالک ہو وہ آخر کس ضرورت کے ليے کسی کو اپنی خدائی میں شریک کرے گا۔ انسان خدا کو محسوس صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب وہ اس کو محسوس صورت میں نظر نہیں آتا تو وہ دوسری محسوس چیزوں کو خدا فرض کرکے اپنی ظاہرپرستی کی تسکین کرلیتا ہے۔ مگر یہ خدا کی ہستی کا بہت کمتر اندازہ ہے۔ آخر جو خدا ایسا عظیم ہو کہ اتنی بڑی کائنات پیدا کرے اور انتہائی نظم کے ساتھ اس کو مسلسل چلاتا رہے، وہ اتنا معمولی کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کمزور مخلوق اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے ہاتھوں سے چھوئے۔ البتہ انسان دل کی راہ سے خدا کو پاتا ہے اور یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھتا ہے۔ جو شخص بصیرت کی آنکھ سے دیکھ کر ماننے پر راضی ہو وہی خدا کو پائے گا۔ جو بصارت سے دیکھنے پر اصرار کرے وہ خدا کو پانے سے اسی طرح محروم رہے گا جس طرح وہ شخص پھول کی خوشبو کو جاننے سے محروم رہتا ہے جو ا س کو کیمیائی معیاروں پر پرکھ کر جاننا چاہے۔

قَدْ جَاءَكُمْ بَصَائِرُ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِحَفِيظٍ

📘 قدیم ترین زمانہ سے انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ جس چیز میں بھی کوئی امتیاز یا کوئی پراسراريت دیکھتا ہے اس کو وہ خدا کا شریک سمجھ لیتا ہے۔ اور اس سے مدد لینے یا اس کی آفتوں سے بچنے کے لیے اس کو پوجنے لگتا ہے۔ اسی ذہن کے تحت بہت سے لوگوں نے فرشتے اور کواکب اور جنّات کو پوجنا شروع کردیا۔ حالاں کہ ان چیزوں کے خدا نہ ہونے کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے ان کے اندر ’’خلق‘‘ کی صفت نہیں۔ انھوں نے نہ اپنے آپ کو پیدا کیا اور نہ وہ کسی دوسری چیز کو پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ ان کو خود کسی دوسری ہستی نے تخلیق کیا ہے۔ پھر جو خالق ہے وہ خدا ہوگا یا جو مخلوق ہے وہ خدا بن جائے گا۔ ایک درخت کو کمال درجہ موزونیت کے ساتھ وہ تمام چیزیں پہنچتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔ اسی طرح کائنات کی تمام چیزوں کا حال ہے۔ جب یہ حقیقت ہے کہ ان چیزوں کو جو کچھ ملتاہے کسی دینے والے کے ديے سے ملتا ہے تو یقیناً دینے والا ہر جز وکل سے باخبر ہوگا۔ اگر وہ ان سے باخبر نہ ہو تو ہر چیز کی اس کی عین ضرورت کے مطابق کارسازی کس طرح کرے۔ اب جو خدا اتنی کامل صفات کا مالک ہو وہ آخر کس ضرورت کے ليے کسی کو اپنی خدائی میں شریک کرے گا۔ انسان خدا کو محسوس صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جب وہ اس کو محسوس صورت میں نظر نہیں آتا تو وہ دوسری محسوس چیزوں کو خدا فرض کرکے اپنی ظاہرپرستی کی تسکین کرلیتا ہے۔ مگر یہ خدا کی ہستی کا بہت کمتر اندازہ ہے۔ آخر جو خدا ایسا عظیم ہو کہ اتنی بڑی کائنات پیدا کرے اور انتہائی نظم کے ساتھ اس کو مسلسل چلاتا رہے، وہ اتنا معمولی کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک کمزور مخلوق اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اپنے ہاتھوں سے چھوئے۔ البتہ انسان دل کی راہ سے خدا کو پاتا ہے اور یقین کی آنکھ سے اس کو دیکھتا ہے۔ جو شخص بصیرت کی آنکھ سے دیکھ کر ماننے پر راضی ہو وہی خدا کو پائے گا۔ جو بصارت سے دیکھنے پر اصرار کرے وہ خدا کو پانے سے اسی طرح محروم رہے گا جس طرح وہ شخص پھول کی خوشبو کو جاننے سے محروم رہتا ہے جو ا س کو کیمیائی معیاروں پر پرکھ کر جاننا چاہے۔

وَكَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ وَلِيَقُولُوا دَرَسْتَ وَلِنُبَيِّنَهُ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 ایک شخص وہ ہے جس کے اندر طلب کی نفسیات ہو، جو سچائی کی تلاش میں رہتا ہو۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو دولت یا اقتدار کا کوئی حصہ پاکر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کے اندر کوئی کمی نہیں ہے جو کوئی شخص آکر پوری کرے۔ حق کی دعوت جب اٹھتی ہے تو اس کو قبول کرنے والے زیادہ تر پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو دوسری قسم کے لوگ ہیں وہ اس کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے۔ وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرتے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی ان پر واضح نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں حق کی دعوت کا مقصد دو ہوتا ہے۔ جو سچے طالب ہیں ان کی طلب کا جواب فراہم کرنا۔ اور جو لوگ طالب نہیں ہیں ان پر حجت قائم کرنا۔ پہلی قسم کے لوگوں کے لیے دعوت کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ماننے والے بن جائیں۔ اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے یہ کہ وہ کہہ اٹھیں کہ ’’تم نے بتادیا، تم نے بات ہم تک پہنچادی‘‘۔ جو لوگ دعوت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں نکالتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی کے دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ وہ دعوت کے انداز میں ایسی تبدیلی کردے جس سے وہ مدعو کے لیے قابل قبول بن جائے۔ مگر اس قسم کا انحراف درست نہیں۔ داعی کو ہمیشہ اسی اسلوب پر قائم رہنا چاہیے جو براہِ راست خدا کی طرف سے تلقین کیاگیا ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد انسان کو خدا سے جوڑنا ہے، نہ کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اپنے حلقہ میں شامل کرنا۔ دوسری طرف یہ بات بھی غلط ہے کہ مدعو کے رویہ سے مشتعل ہو کر ایسی باتیں کی جائیں کہ اس کی گمراہی جاہلانہ بد کلامي تک جاپہنچے۔ آدمی جن خاص روایات میں پیدا ہوتاہے اور جن افکار سے وہ مانوس ہوجاتا ہے، ان کے حق میں اس کے اندر ایک طرح کی عصبیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے مطابق اس کا ایک فکری ڈھانچہ بن جاتا ہے جس کے تحت وہ سوچتا ہے۔ یہی فکری ڈھانچہ حق کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک آدمی اس فکری ڈھانچہ کو نہ توڑے اس کے ذہن میں وہ دروازہ نہیں کھلتا جس کے ذریعہ حق کی آواز اس کے اندر داخل ہو۔

اتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ

📘 ایک شخص وہ ہے جس کے اندر طلب کی نفسیات ہو، جو سچائی کی تلاش میں رہتا ہو۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو دولت یا اقتدار کا کوئی حصہ پاکر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کے اندر کوئی کمی نہیں ہے جو کوئی شخص آکر پوری کرے۔ حق کی دعوت جب اٹھتی ہے تو اس کو قبول کرنے والے زیادہ تر پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو دوسری قسم کے لوگ ہیں وہ اس کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے۔ وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرتے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی ان پر واضح نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں حق کی دعوت کا مقصد دو ہوتا ہے۔ جو سچے طالب ہیں ان کی طلب کا جواب فراہم کرنا۔ اور جو لوگ طالب نہیں ہیں ان پر حجت قائم کرنا۔ پہلی قسم کے لوگوں کے لیے دعوت کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ماننے والے بن جائیں۔ اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے یہ کہ وہ کہہ اٹھیں کہ ’’تم نے بتادیا، تم نے بات ہم تک پہنچادی‘‘۔ جو لوگ دعوت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں نکالتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی کے دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ وہ دعوت کے انداز میں ایسی تبدیلی کردے جس سے وہ مدعو کے لیے قابل قبول بن جائے۔ مگر اس قسم کا انحراف درست نہیں۔ داعی کو ہمیشہ اسی اسلوب پر قائم رہنا چاہیے جو براہِ راست خدا کی طرف سے تلقین کیاگیا ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد انسان کو خدا سے جوڑنا ہے، نہ کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اپنے حلقہ میں شامل کرنا۔ دوسری طرف یہ بات بھی غلط ہے کہ مدعو کے رویہ سے مشتعل ہو کر ایسی باتیں کی جائیں کہ اس کی گمراہی جاہلانہ بد کلامي تک جاپہنچے۔ آدمی جن خاص روایات میں پیدا ہوتاہے اور جن افکار سے وہ مانوس ہوجاتا ہے، ان کے حق میں اس کے اندر ایک طرح کی عصبیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے مطابق اس کا ایک فکری ڈھانچہ بن جاتا ہے جس کے تحت وہ سوچتا ہے۔ یہی فکری ڈھانچہ حق کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک آدمی اس فکری ڈھانچہ کو نہ توڑے اس کے ذہن میں وہ دروازہ نہیں کھلتا جس کے ذریعہ حق کی آواز اس کے اندر داخل ہو۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ

📘 ایک شخص وہ ہے جس کے اندر طلب کی نفسیات ہو، جو سچائی کی تلاش میں رہتا ہو۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو دولت یا اقتدار کا کوئی حصہ پاکر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کے اندر کوئی کمی نہیں ہے جو کوئی شخص آکر پوری کرے۔ حق کی دعوت جب اٹھتی ہے تو اس کو قبول کرنے والے زیادہ تر پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو دوسری قسم کے لوگ ہیں وہ اس کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے۔ وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرتے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی ان پر واضح نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں حق کی دعوت کا مقصد دو ہوتا ہے۔ جو سچے طالب ہیں ان کی طلب کا جواب فراہم کرنا۔ اور جو لوگ طالب نہیں ہیں ان پر حجت قائم کرنا۔ پہلی قسم کے لوگوں کے لیے دعوت کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ماننے والے بن جائیں۔ اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے یہ کہ وہ کہہ اٹھیں کہ ’’تم نے بتادیا، تم نے بات ہم تک پہنچادی‘‘۔ جو لوگ دعوت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں نکالتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی کے دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ وہ دعوت کے انداز میں ایسی تبدیلی کردے جس سے وہ مدعو کے لیے قابل قبول بن جائے۔ مگر اس قسم کا انحراف درست نہیں۔ داعی کو ہمیشہ اسی اسلوب پر قائم رہنا چاہیے جو براہِ راست خدا کی طرف سے تلقین کیاگیا ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد انسان کو خدا سے جوڑنا ہے، نہ کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اپنے حلقہ میں شامل کرنا۔ دوسری طرف یہ بات بھی غلط ہے کہ مدعو کے رویہ سے مشتعل ہو کر ایسی باتیں کی جائیں کہ اس کی گمراہی جاہلانہ بد کلامي تک جاپہنچے۔ آدمی جن خاص روایات میں پیدا ہوتاہے اور جن افکار سے وہ مانوس ہوجاتا ہے، ان کے حق میں اس کے اندر ایک طرح کی عصبیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے مطابق اس کا ایک فکری ڈھانچہ بن جاتا ہے جس کے تحت وہ سوچتا ہے۔ یہی فکری ڈھانچہ حق کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک آدمی اس فکری ڈھانچہ کو نہ توڑے اس کے ذہن میں وہ دروازہ نہیں کھلتا جس کے ذریعہ حق کی آواز اس کے اندر داخل ہو۔

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 ایک شخص وہ ہے جس کے اندر طلب کی نفسیات ہو، جو سچائی کی تلاش میں رہتا ہو۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو دولت یا اقتدار کا کوئی حصہ پاکر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ پائے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کے اندر کوئی کمی نہیں ہے جو کوئی شخص آکر پوری کرے۔ حق کی دعوت جب اٹھتی ہے تو اس کو قبول کرنے والے زیادہ تر پہلی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو دوسری قسم کے لوگ ہیں وہ اس کو کوئی قابل لحاظ چیز نہیں سمجھتے۔ وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور نہیں کرتے۔ اس لیے اس کی اہمیت بھی ان پر واضح نہیں ہوتی۔ ایسے حالات میں حق کی دعوت کا مقصد دو ہوتا ہے۔ جو سچے طالب ہیں ان کی طلب کا جواب فراہم کرنا۔ اور جو لوگ طالب نہیں ہیں ان پر حجت قائم کرنا۔ پہلی قسم کے لوگوں کے لیے دعوت کا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے ماننے والے بن جائیں۔ اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے یہ کہ وہ کہہ اٹھیں کہ ’’تم نے بتادیا، تم نے بات ہم تک پہنچادی‘‘۔ جو لوگ دعوت کا انکار کرتے ہیں وہ اپنے انکار کو برحق ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں نکالتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی کے دل میں یہ خیال آنے لگتا ہے کہ وہ دعوت کے انداز میں ایسی تبدیلی کردے جس سے وہ مدعو کے لیے قابل قبول بن جائے۔ مگر اس قسم کا انحراف درست نہیں۔ داعی کو ہمیشہ اسی اسلوب پر قائم رہنا چاہیے جو براہِ راست خدا کی طرف سے تلقین کیاگیا ہے۔ کیوں کہ اصل مقصد انسان کو خدا سے جوڑنا ہے، نہ کہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کو اپنے حلقہ میں شامل کرنا۔ دوسری طرف یہ بات بھی غلط ہے کہ مدعو کے رویہ سے مشتعل ہو کر ایسی باتیں کی جائیں کہ اس کی گمراہی جاہلانہ بد کلامي تک جاپہنچے۔ آدمی جن خاص روایات میں پیدا ہوتاہے اور جن افکار سے وہ مانوس ہوجاتا ہے، ان کے حق میں اس کے اندر ایک طرح کی عصبیت پیدا ہوجاتی ہے۔اس کے مطابق اس کا ایک فکری ڈھانچہ بن جاتا ہے جس کے تحت وہ سوچتا ہے۔ یہی فکری ڈھانچہ حق کو قبول کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک آدمی اس فکری ڈھانچہ کو نہ توڑے اس کے ذہن میں وہ دروازہ نہیں کھلتا جس کے ذریعہ حق کی آواز اس کے اندر داخل ہو۔

وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ جَاءَتْهُمْ آيَةٌ لَيُؤْمِنُنَّ بِهَا ۚ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا يُشْعِرُكُمْ أَنَّهَا إِذَا جَاءَتْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 حق ایک شخص کے سامنے دلائل کے ساتھ آتا ہے اور وہ اس کا انکار کردیتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ بات کو ا س کے صحیح رخ سے دیکھنے کے بجائے الٹے رخ سے دیکھنا۔ کوئی بات خواہ کتنی ہی مدلّل ہو، آدمی اگر اس کو ماننا نه چاہے تو وہ اس کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ پالے گا۔ مثلاً داعی کے دلائل کو دلائل کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے وہ یہ بحث چھیڑ دے گا کہ تمھارے سوا جو دوسرے بزرگ ہیں کیا وہ سب حق سے محروم تھے، اور اسی طرح دوسری باتیں۔ جس آدمی کے اندراس قسم کا مزاج ہو اس کا راہ راست پر آنا انتہائی مشکل ہے۔ وہ ہر بات کو غلط رخ دے کر اس کے انکار کا ایک بہانہ تلاش کرسکتا ہے۔ نظري دلائل کو رد کرنے کے ليے اگر اس کو یہ الفاظ مل رہے تھے کہ یہ اسلاف کے مسلک کے خلاف ہے تو حسی مشاہدہ کو رد کرنے کے ليے وہ الفاظ پالے گا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے۔ اس کی حقیقت ایک فرضی طلسم کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو مزاج نظری دلیل کو ماننے میں رکاوٹ بنا تھا وہی مزاج حسی دلیل کو ماننے میں بھی رکاوٹ بن جائے گا۔ آدمی اب بھی اسی طرح محروم رہے گا جیسے وہ پہلے محروم تھا۔ اس قسم کے لوگ اپنی نفسیات کے اعتبار سے سرکش واقع ہوتے ہیں۔ وہ ہر حال میں اپنے کو اونچا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک داعی جب ان کے سامنے حق کا پیغام لے كر آتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ماحول میں اجنبی ہوتا ہے، وہ وقت کی عظمتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا اپنی حیثیت کو نیچے گرانے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس لیے برتری کی نفسیات رکھنے والے لوگ اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ وہ طرح طرح کی توجیہات پیش کرکے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ دانائی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کو مانے اور اس کے مطابق اپنے ذہن کو چلانے کے لیے تیار ہو۔ اس کے برعکس، نادانی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کے بجائے خود ساختہ معیار قائم کرے اور کہے کہ جو چیز مجھ کو اس معیار پر ملے گی میں اس کو مانوں گا اور جو چیز اس معیا رپر نہیں ملے گی ،اس کو نہیں مانوں گا۔ ایسے آدمی کے لیے اس دنیا میں صرف بھٹکناہے۔ خدا کی اس دنیا میں آدمی خدا کے مقرر كيے ہوئے طریقوں کی پیروی کرکے منزل تک پہنچ سکتا ہے، نہ کہ اس کے مقررہ طریقہ کو چھوڑ کر۔

قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

📘 دنیا میں آدمی کی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ یہاں اس کو حق کے انکار کی پوری آزادی ملی ہوئی ہے۔ حتی کہ اس کو یہ موقع بھی حاصل ہے کہ وہ اپنے افکار کی خوب صورت توجیہہ کرسکے۔ امتحان کی اس دنیا میں اتنی وسعت ہے کہ یہاں الفاظ ہر اس مفہوم میں ڈھل جاتے ہیں جس میںانسان ان کو ڈھالنا چاہے۔ داعی اگر ایک عام انسان کے روپ میں ظاہر ہو تو آدمی اس کو یہ کہہ کر نظر انداز کرسکتا ہے کہ یہ ایک شخص کا قیادتی حوصلہ ہے، نہ کہ کوئی حق و صداقت کا معاملہ۔ اسی طرح اگر آسمان سے کوئی لکھی لکھائی کتاب اتر آئے تو اس کو رد کرنے کے لیے بھی وہ یہ الفاظ پا لے گا کہ یہ تو ایک جادو ہے۔ مکہ کے لوگ کہتے تھے کہ پیغمبراگر خدا کی طرف سے اس کی پیغام بری کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو اس کے ساتھ خدا کے فرشتے کیوں نہیں جو اس کی تصدیق کریں۔ اس قسم کی باتیں آدمی اس لیے کہتا ہے کہ وہ دعوت کے معاملہ میں سنجیدہ نہیںہوتا۔ اگر وہ سنجیدہ ہو تو اس کو فوراً معلوم ہوجائے گا کہ یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ امتحان اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ غیبی حقیقتوں پر پردہ پڑاہوا ہو۔ اگر غیبی حقیقتیں کھل جائیں اور خدا اور اس کے فرشتے سامنے آجائیں تو پھر پیغمبري اور دعوت رسانی کا کوئی سوال ہی نہ ہوگا۔ کیوں کہ اس کے بعد کسی کو یہ جرأت ہی نہ ہوگی کہ وہ حقائق کا انکار کرسکے — موجودہ دنیا میں لوگ اپنی ظاہر پرستی کی وجہ سے خدا کے داعی کو اس کی باتوںکی عظمت میں نہیں دیکھ پاتے، وہ اس کا اندازہ صرف اس کے ظاہری پہلو کے اعتبار سے کرتے ہیں اور ظاہری اعتبار سے غیر اہم پاکر اس کا انکار کردیتے ہیں۔ حتی کہ وہ اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ خدا کے داعی كا معاملہ ان کو ایسا معلوم ہوتاہے جیسے ایک معمولی آدمی اچانک اٹھ کر بہت بڑی حیثیت کا دعویٰ کرنے لگے۔ اس دنیا میں دعوت رسانی کا سارا معاملہ خدا کے قانون التباس کے تحت ہوتا ہے۔ یہاں حق کے اوپر ایک شبہ کا پہلو رکھا گیا ہے تاکہ آدمی اقرار کے دلائل کے ساتھ کچھ انکار کے وجوہ بھی پاسکتا ہو۔ آدمی کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اس شبہ کے پردے کو پھاڑ کر اپنے کو یقین کے مقام پر پہنچائے۔ وہ شبہ کے پہلوؤں کو حذف کرکے یقین کے پہلوؤں کو لے لے۔ آدمی کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ دیکھے بغیر مانے۔ جب حقیقت کو دکھا دیا جائے تو پھر ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔

وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 حق ایک شخص کے سامنے دلائل کے ساتھ آتا ہے اور وہ اس کا انکار کردیتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ بات کو ا س کے صحیح رخ سے دیکھنے کے بجائے الٹے رخ سے دیکھنا۔ کوئی بات خواہ کتنی ہی مدلّل ہو، آدمی اگر اس کو ماننا نه چاہے تو وہ اس کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ پالے گا۔ مثلاً داعی کے دلائل کو دلائل کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے وہ یہ بحث چھیڑ دے گا کہ تمھارے سوا جو دوسرے بزرگ ہیں کیا وہ سب حق سے محروم تھے، اور اسی طرح دوسری باتیں۔ جس آدمی کے اندراس قسم کا مزاج ہو اس کا راہ راست پر آنا انتہائی مشکل ہے۔ وہ ہر بات کو غلط رخ دے کر اس کے انکار کا ایک بہانہ تلاش کرسکتا ہے۔ نظري دلائل کو رد کرنے کے ليے اگر اس کو یہ الفاظ مل رہے تھے کہ یہ اسلاف کے مسلک کے خلاف ہے تو حسی مشاہدہ کو رد کرنے کے ليے وہ الفاظ پالے گا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے۔ اس کی حقیقت ایک فرضی طلسم کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو مزاج نظری دلیل کو ماننے میں رکاوٹ بنا تھا وہی مزاج حسی دلیل کو ماننے میں بھی رکاوٹ بن جائے گا۔ آدمی اب بھی اسی طرح محروم رہے گا جیسے وہ پہلے محروم تھا۔ اس قسم کے لوگ اپنی نفسیات کے اعتبار سے سرکش واقع ہوتے ہیں۔ وہ ہر حال میں اپنے کو اونچا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک داعی جب ان کے سامنے حق کا پیغام لے كر آتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ماحول میں اجنبی ہوتا ہے، وہ وقت کی عظمتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا اپنی حیثیت کو نیچے گرانے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس لیے برتری کی نفسیات رکھنے والے لوگ اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ وہ طرح طرح کی توجیہات پیش کرکے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ دانائی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کو مانے اور اس کے مطابق اپنے ذہن کو چلانے کے لیے تیار ہو۔ اس کے برعکس، نادانی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کے بجائے خود ساختہ معیار قائم کرے اور کہے کہ جو چیز مجھ کو اس معیار پر ملے گی میں اس کو مانوں گا اور جو چیز اس معیا رپر نہیں ملے گی ،اس کو نہیں مانوں گا۔ ایسے آدمی کے لیے اس دنیا میں صرف بھٹکناہے۔ خدا کی اس دنیا میں آدمی خدا کے مقرر كيے ہوئے طریقوں کی پیروی کرکے منزل تک پہنچ سکتا ہے، نہ کہ اس کے مقررہ طریقہ کو چھوڑ کر۔

۞ وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ

📘 حق ایک شخص کے سامنے دلائل کے ساتھ آتا ہے اور وہ اس کا انکار کردیتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ ایک ہوتی ہے۔ بات کو ا س کے صحیح رخ سے دیکھنے کے بجائے الٹے رخ سے دیکھنا۔ کوئی بات خواہ کتنی ہی مدلّل ہو، آدمی اگر اس کو ماننا نه چاہے تو وہ اس کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ پالے گا۔ مثلاً داعی کے دلائل کو دلائل کی حیثیت سے دیکھنے کے بجائے وہ یہ بحث چھیڑ دے گا کہ تمھارے سوا جو دوسرے بزرگ ہیں کیا وہ سب حق سے محروم تھے، اور اسی طرح دوسری باتیں۔ جس آدمی کے اندراس قسم کا مزاج ہو اس کا راہ راست پر آنا انتہائی مشکل ہے۔ وہ ہر بات کو غلط رخ دے کر اس کے انکار کا ایک بہانہ تلاش کرسکتا ہے۔ نظري دلائل کو رد کرنے کے ليے اگر اس کو یہ الفاظ مل رہے تھے کہ یہ اسلاف کے مسلک کے خلاف ہے تو حسی مشاہدہ کو رد کرنے کے ليے وہ الفاظ پالے گا کہ یہ نظر کا دھوکا ہے۔ اس کی حقیقت ایک فرضی طلسم کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو مزاج نظری دلیل کو ماننے میں رکاوٹ بنا تھا وہی مزاج حسی دلیل کو ماننے میں بھی رکاوٹ بن جائے گا۔ آدمی اب بھی اسی طرح محروم رہے گا جیسے وہ پہلے محروم تھا۔ اس قسم کے لوگ اپنی نفسیات کے اعتبار سے سرکش واقع ہوتے ہیں۔ وہ ہر حال میں اپنے کو اونچا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک داعی جب ان کے سامنے حق کا پیغام لے كر آتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ماحول میں اجنبی ہوتا ہے، وہ وقت کی عظمتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا اپنی حیثیت کو نیچے گرانے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس لیے برتری کی نفسیات رکھنے والے لوگ اس کو قبول نہیں کرپاتے۔ وہ طرح طرح کی توجیہات پیش کرکے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ دانائی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کو مانے اور اس کے مطابق اپنے ذہن کو چلانے کے لیے تیار ہو۔ اس کے برعکس، نادانی یہ ہے کہ آدمی خدا کے نقشہ کے بجائے خود ساختہ معیار قائم کرے اور کہے کہ جو چیز مجھ کو اس معیار پر ملے گی میں اس کو مانوں گا اور جو چیز اس معیا رپر نہیں ملے گی ،اس کو نہیں مانوں گا۔ ایسے آدمی کے لیے اس دنیا میں صرف بھٹکناہے۔ خدا کی اس دنیا میں آدمی خدا کے مقرر كيے ہوئے طریقوں کی پیروی کرکے منزل تک پہنچ سکتا ہے، نہ کہ اس کے مقررہ طریقہ کو چھوڑ کر۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيَاطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ

📘 ابن جریر نے حضرت ابو ذ ر سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک ہوا۔ یہ ایک لمبی مجلس تھی۔ آپ نے فرمایا اے ابو ذر، کیا تم نے نماز پڑھ لی۔ میں نے کہا نہیں اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور دو رکعت نماز پڑھو۔ وہ نماز پڑھ کر دوبارہ مجلس میں آکر بیٹھے تو آپ نے فرمایااے ابو ذر کیا تم نے جن وانس کے شیطانوں کے مقابلہ میں اللہ سے پناہ مانگی۔ میں نے کہا نہیں اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایاہاں، وہ شیاطینِ جن سے بھی زیادہ برے ہیں (نَعَمْ، هُمْ شَرٌّ مِنْ شَيَاطِينِ الْجِنِّ )تفسیر ابن جریر الطبری، جلد 9، صفحہ 500 یہاں شیاطین انس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دعوت حق کو بے اعتبار ثابت کرنے کے ليے قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود ساختہ مذہب کی بنیاد پر عزت ومقبولیت کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب حق کی دعوت اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کو برہنہ کررہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے سیدھا راستہ تو یہ تھا کہ وہ حق کی وضاحت کے بعد اس کو مان لیں مگر حق کے مقابلہ میں اپنا مقام ان کو زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اپنی حیثیت کو بچانے کے لیے وہ خود داعی اور اس کی دعوت کو مشتبہ ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خوش نما الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ داعی اور اس کی دعوت میںایسے شوشے نکالتے ہیں جو اگرچہ بذاتِ خود بے حقیقت ہوتے ہیں مگر بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کے بارے میں شبه ميں پڑجاتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں جو امتحانی حالات پیدا كيے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں صحیح بات کہنے والے کو بھی الفاظ مل جاتے ہیں اور غلط بات کہنے والے کو بھی۔ حق کا داعی اگر حق کو دلائل کی زبان میں بیان کرسکتا ہے تو اسی کے ساتھ باطل پرستوں کو بھی یہ موقع حاصل ہے کہ وہ حق کے خلاف کچھ ایسے خوش نما الفاظ بول سکیں جو لوگوں کو دلیل معلوم ہوں اور وہ اس سے متاثر ہو کر حق کا ساتھ دینا چھوڑ دیں۔ یہ صورت حال امتحان کی غرض سے ہے اس ليے وہ لازماً قیامت تک باقی رہے گی۔ اس دنیا میں بہر حال آدمی کو اس امتحان میں کھڑا ہونا ہے کہ وہ سچے دلائل اور بے بنیاد باتوں کے درمیان فرق کرے اور بے بنیاد باتوں کو رد کرکے سچے دلائل کو قبول کرلے۔ شیاطینِ انس اپنی ذہانت سے حق کے خلاف جو پُرفریب شوشے نکالتے ہیں وہ انھیں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جو آخرت کے فکر سے خالی ہوں۔ آخرت کا اندیشہ آدمی کو انتہائی سنجیدہ بنادیتا ہے اور جو شخص سنجیدہ ہو اس سے باتوں کی حقیقت کبھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ مگر جو لوگ آخرت کے اندیشہ سے خالی ہوں وہ حق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اسی لیے وہ شوشہ اور دلیل کا فرق بھی سمجھ نہیں پاتے۔

وَلِتَصْغَىٰ إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَلِيَرْضَوْهُ وَلِيَقْتَرِفُوا مَا هُمْ مُقْتَرِفُونَ

📘 ابن جریر نے حضرت ابو ذ ر سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک ہوا۔ یہ ایک لمبی مجلس تھی۔ آپ نے فرمایا اے ابو ذر، کیا تم نے نماز پڑھ لی۔ میں نے کہا نہیں اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا اٹھو اور دو رکعت نماز پڑھو۔ وہ نماز پڑھ کر دوبارہ مجلس میں آکر بیٹھے تو آپ نے فرمایااے ابو ذر کیا تم نے جن وانس کے شیطانوں کے مقابلہ میں اللہ سے پناہ مانگی۔ میں نے کہا نہیں اے خدا کے رسول، کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ نے فرمایاہاں، وہ شیاطینِ جن سے بھی زیادہ برے ہیں (نَعَمْ، هُمْ شَرٌّ مِنْ شَيَاطِينِ الْجِنِّ )تفسیر ابن جریر الطبری، جلد 9، صفحہ 500 یہاں شیاطین انس سے مراد وہ لوگ ہیں جو دعوت حق کو بے اعتبار ثابت کرنے کے ليے قائدانہ کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خود ساختہ مذہب کی بنیاد پر عزت ومقبولیت کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب حق کی دعوت اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو ان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ان کو برہنہ کررہی ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے سیدھا راستہ تو یہ تھا کہ وہ حق کی وضاحت کے بعد اس کو مان لیں مگر حق کے مقابلہ میں اپنا مقام ان کو زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ اپنی حیثیت کو بچانے کے لیے وہ خود داعی اور اس کی دعوت کو مشتبہ ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خوش نما الفاظ کا سہارا لیتے ہیں۔ وہ داعی اور اس کی دعوت میںایسے شوشے نکالتے ہیں جو اگرچہ بذاتِ خود بے حقیقت ہوتے ہیں مگر بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو کر اس کے بارے میں شبه ميں پڑجاتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں جو امتحانی حالات پیدا كيے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں صحیح بات کہنے والے کو بھی الفاظ مل جاتے ہیں اور غلط بات کہنے والے کو بھی۔ حق کا داعی اگر حق کو دلائل کی زبان میں بیان کرسکتا ہے تو اسی کے ساتھ باطل پرستوں کو بھی یہ موقع حاصل ہے کہ وہ حق کے خلاف کچھ ایسے خوش نما الفاظ بول سکیں جو لوگوں کو دلیل معلوم ہوں اور وہ اس سے متاثر ہو کر حق کا ساتھ دینا چھوڑ دیں۔ یہ صورت حال امتحان کی غرض سے ہے اس ليے وہ لازماً قیامت تک باقی رہے گی۔ اس دنیا میں بہر حال آدمی کو اس امتحان میں کھڑا ہونا ہے کہ وہ سچے دلائل اور بے بنیاد باتوں کے درمیان فرق کرے اور بے بنیاد باتوں کو رد کرکے سچے دلائل کو قبول کرلے۔ شیاطینِ انس اپنی ذہانت سے حق کے خلاف جو پُرفریب شوشے نکالتے ہیں وہ انھیں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جو آخرت کے فکر سے خالی ہوں۔ آخرت کا اندیشہ آدمی کو انتہائی سنجیدہ بنادیتا ہے اور جو شخص سنجیدہ ہو اس سے باتوں کی حقیقت کبھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ مگر جو لوگ آخرت کے اندیشہ سے خالی ہوں وہ حق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اسی لیے وہ شوشہ اور دلیل کا فرق بھی سمجھ نہیں پاتے۔

أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

📘 قرآن میں ذبیحہ کے احکام اترے اور یہ کہا گیا کہ مردہ جانور نہ کھاؤ، ذبح کیا ہوا کھاؤ تو کچھ لوگوں نے کہا مسلمانوں کا مذہب بھی عجیب ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کا مارا ہوا جانور حلال سمجھتے ہیں اور جس کو اللہ نے مارا ہوا اس کو حرام بتاتے ہیں۔اس جملہ میں لفظی تک بندی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو سن کر دھوکے میں آگئے اور اسلام کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسا ہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو باتوںکو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھتے ہوں۔ بیشتر لوگ الفاظ کے گورکھ دھندے میں گم رہتے ہیں۔ وہ خیالی باتوں کو حقیقی سمجھ لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔ مگر یہ دنیا ایسی دنیا ہے جہاں تمام بنیادی حقیقتوں کے بارے میں خدا کے واضح بیانات آچکے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے اس قسم کی بے راہی میں پڑناقابل معافی نہیں ہوسکتا۔ خدا کا کلام ایک کھلی ہوئی کسوٹی ہے جس پر جانچ کر ہر آدمی معلوم کرسکتا ہے کہ اس کی بات محض ایک لفظی شعبدہ ہے یا کوئی واقعی حقیقت ہے۔ خدا نے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ضروری امور کی بابت سچا بیان دے دیا ہے۔ اس نے انسانی تعلقات کے تمام پہلوؤں کے بارے میں کامل انصاف کی راہ بتا دی ہے۔ آدمی اگر فی الواقع سنجیدہ ہو تو ا س کے لیے یہ جاننا کچھ بھی مشکل نہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔ اب اس کے بعد شبہ میں وہی پڑے گا جس کا حال یہ ہو کہ اس کی سوچ خدا کے کلام کے سوا دوسری چیزوں کے زیر اثر کام کرتی ہو۔ جو شخص اپنی سوچ کو خدائی حقیقتوں کے موافق بنا لے اس کے لیے یہاں فکری بے راہ روی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خدائی وضاحت کے بعد بھی اگر آدمی بھٹکتا ہے تو خدا کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اپنی بڑائی قائم رکھنے کی خاطر اپنے سے باہر ظاہر ہونے والی سچائی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ کون ہے جس کے تعصب نے اس کو اس قابل نہ رکھا کہ وہ بات کو سمجھ سکے۔ کس نے سستی نمائش میں اپنی رغبت کی وجہ سے سچائی کی آواز پر دھیان نہیں دیا۔ کون ہے جو حسد کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حق سے نا آشنا رہا۔

وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 قرآن میں ذبیحہ کے احکام اترے اور یہ کہا گیا کہ مردہ جانور نہ کھاؤ، ذبح کیا ہوا کھاؤ تو کچھ لوگوں نے کہا مسلمانوں کا مذہب بھی عجیب ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کا مارا ہوا جانور حلال سمجھتے ہیں اور جس کو اللہ نے مارا ہوا اس کو حرام بتاتے ہیں۔اس جملہ میں لفظی تک بندی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو سن کر دھوکے میں آگئے اور اسلام کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسا ہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو باتوںکو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھتے ہوں۔ بیشتر لوگ الفاظ کے گورکھ دھندے میں گم رہتے ہیں۔ وہ خیالی باتوں کو حقیقی سمجھ لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔ مگر یہ دنیا ایسی دنیا ہے جہاں تمام بنیادی حقیقتوں کے بارے میں خدا کے واضح بیانات آچکے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے اس قسم کی بے راہی میں پڑناقابل معافی نہیں ہوسکتا۔ خدا کا کلام ایک کھلی ہوئی کسوٹی ہے جس پر جانچ کر ہر آدمی معلوم کرسکتا ہے کہ اس کی بات محض ایک لفظی شعبدہ ہے یا کوئی واقعی حقیقت ہے۔ خدا نے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ضروری امور کی بابت سچا بیان دے دیا ہے۔ اس نے انسانی تعلقات کے تمام پہلوؤں کے بارے میں کامل انصاف کی راہ بتا دی ہے۔ آدمی اگر فی الواقع سنجیدہ ہو تو ا س کے لیے یہ جاننا کچھ بھی مشکل نہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔ اب اس کے بعد شبہ میں وہی پڑے گا جس کا حال یہ ہو کہ اس کی سوچ خدا کے کلام کے سوا دوسری چیزوں کے زیر اثر کام کرتی ہو۔ جو شخص اپنی سوچ کو خدائی حقیقتوں کے موافق بنا لے اس کے لیے یہاں فکری بے راہ روی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خدائی وضاحت کے بعد بھی اگر آدمی بھٹکتا ہے تو خدا کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اپنی بڑائی قائم رکھنے کی خاطر اپنے سے باہر ظاہر ہونے والی سچائی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ کون ہے جس کے تعصب نے اس کو اس قابل نہ رکھا کہ وہ بات کو سمجھ سکے۔ کس نے سستی نمائش میں اپنی رغبت کی وجہ سے سچائی کی آواز پر دھیان نہیں دیا۔ کون ہے جو حسد کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حق سے نا آشنا رہا۔

وَإِنْ تُطِعْ أَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

📘 قرآن میں ذبیحہ کے احکام اترے اور یہ کہا گیا کہ مردہ جانور نہ کھاؤ، ذبح کیا ہوا کھاؤ تو کچھ لوگوں نے کہا مسلمانوں کا مذہب بھی عجیب ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کا مارا ہوا جانور حلال سمجھتے ہیں اور جس کو اللہ نے مارا ہوا اس کو حرام بتاتے ہیں۔اس جملہ میں لفظی تک بندی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو سن کر دھوکے میں آگئے اور اسلام کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسا ہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو باتوںکو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھتے ہوں۔ بیشتر لوگ الفاظ کے گورکھ دھندے میں گم رہتے ہیں۔ وہ خیالی باتوں کو حقیقی سمجھ لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔ مگر یہ دنیا ایسی دنیا ہے جہاں تمام بنیادی حقیقتوں کے بارے میں خدا کے واضح بیانات آچکے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے اس قسم کی بے راہی میں پڑناقابل معافی نہیں ہوسکتا۔ خدا کا کلام ایک کھلی ہوئی کسوٹی ہے جس پر جانچ کر ہر آدمی معلوم کرسکتا ہے کہ اس کی بات محض ایک لفظی شعبدہ ہے یا کوئی واقعی حقیقت ہے۔ خدا نے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ضروری امور کی بابت سچا بیان دے دیا ہے۔ اس نے انسانی تعلقات کے تمام پہلوؤں کے بارے میں کامل انصاف کی راہ بتا دی ہے۔ آدمی اگر فی الواقع سنجیدہ ہو تو ا س کے لیے یہ جاننا کچھ بھی مشکل نہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔ اب اس کے بعد شبہ میں وہی پڑے گا جس کا حال یہ ہو کہ اس کی سوچ خدا کے کلام کے سوا دوسری چیزوں کے زیر اثر کام کرتی ہو۔ جو شخص اپنی سوچ کو خدائی حقیقتوں کے موافق بنا لے اس کے لیے یہاں فکری بے راہ روی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خدائی وضاحت کے بعد بھی اگر آدمی بھٹکتا ہے تو خدا کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اپنی بڑائی قائم رکھنے کی خاطر اپنے سے باہر ظاہر ہونے والی سچائی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ کون ہے جس کے تعصب نے اس کو اس قابل نہ رکھا کہ وہ بات کو سمجھ سکے۔ کس نے سستی نمائش میں اپنی رغبت کی وجہ سے سچائی کی آواز پر دھیان نہیں دیا۔ کون ہے جو حسد کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حق سے نا آشنا رہا۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ مَنْ يَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ

📘 قرآن میں ذبیحہ کے احکام اترے اور یہ کہا گیا کہ مردہ جانور نہ کھاؤ، ذبح کیا ہوا کھاؤ تو کچھ لوگوں نے کہا مسلمانوں کا مذہب بھی عجیب ہے۔ وہ اپنے ہاتھ کا مارا ہوا جانور حلال سمجھتے ہیں اور جس کو اللہ نے مارا ہوا اس کو حرام بتاتے ہیں۔اس جملہ میں لفظی تک بندی کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ مگر بہت سے لوگ اس کو سن کر دھوکے میں آگئے اور اسلام کو شبہ کی نظر سے دیکھنے لگے۔ ایسا ہی ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہر زمانہ میں ایسے لوگ کم ہوتے ہیں جو باتوںکو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھتے ہوں۔ بیشتر لوگ الفاظ کے گورکھ دھندے میں گم رہتے ہیں۔ وہ خیالی باتوں کو حقیقی سمجھ لیتے ہیں، صرف اس لیے کہ ان کو خوبصورت الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے۔ مگر یہ دنیا ایسی دنیا ہے جہاں تمام بنیادی حقیقتوں کے بارے میں خدا کے واضح بیانات آچکے ہیں۔ اس لیے یہاں کسی کے لیے اس قسم کی بے راہی میں پڑناقابل معافی نہیں ہوسکتا۔ خدا کا کلام ایک کھلی ہوئی کسوٹی ہے جس پر جانچ کر ہر آدمی معلوم کرسکتا ہے کہ اس کی بات محض ایک لفظی شعبدہ ہے یا کوئی واقعی حقیقت ہے۔ خدا نے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام ضروری امور کی بابت سچا بیان دے دیا ہے۔ اس نے انسانی تعلقات کے تمام پہلوؤں کے بارے میں کامل انصاف کی راہ بتا دی ہے۔ آدمی اگر فی الواقع سنجیدہ ہو تو ا س کے لیے یہ جاننا کچھ بھی مشکل نہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔ اب اس کے بعد شبہ میں وہی پڑے گا جس کا حال یہ ہو کہ اس کی سوچ خدا کے کلام کے سوا دوسری چیزوں کے زیر اثر کام کرتی ہو۔ جو شخص اپنی سوچ کو خدائی حقیقتوں کے موافق بنا لے اس کے لیے یہاں فکری بے راہ روی کا کوئی امکان نہیں۔ اس خدائی وضاحت کے بعد بھی اگر آدمی بھٹکتا ہے تو خدا کو اس کا حال اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون ہے جس نے اپنی بڑائی قائم رکھنے کی خاطر اپنے سے باہر ظاہر ہونے والی سچائی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ کون ہے جس کے تعصب نے اس کو اس قابل نہ رکھا کہ وہ بات کو سمجھ سکے۔ کس نے سستی نمائش میں اپنی رغبت کی وجہ سے سچائی کی آواز پر دھیان نہیں دیا۔ کون ہے جو حسد کی نفسیات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے حق سے نا آشنا رہا۔

فَكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ بِآيَاتِهِ مُؤْمِنِينَ

📘 دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب ہمارے لیے ’’مالِ غیر‘‘ ہے۔ کیوں کہ سب کا سب خدا کا ہے۔ اس کو اپنے لیے جائز کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقہ سے استعمال کیا جائے ۔ یہی معاملہ جانوروں کا بھی ہے۔ جانورہمارے لیے قیمتی خوراک ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو خوراک بنانے کا حق ہم کو کیسے ملا۔ جانور کو خدا بناتا ہے اور وہی اس کو پرورش کرکے تیار کرتا ہے۔ پھر ہمارے لیے کیسے جائز ہوا کہ ہم اس کو اپنی خوراک بنائیں۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی سوال کا جواب ہے۔ اللہ کا نام لینا کوئی لفظی رسم نہیں۔ یہ دراصل جانور کے اوپر خدا کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس کے عطیہ پر خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی اعتراف وتشکر کی ایک علامت ہے اور یہی اعتراف وتشکر وہ ’’قیمت‘‘ ہے جس کو ادا کرنے سے مالک کے نزدیک اس کا ایک جانور ہمارے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ تاہم جس کو اتفاقی مجبوری پیش آجائے اس کو اس پابندی سے آزاد کردیاگیا ہے۔ جب آدمی حرام وحلال اور جائز وناجائز میں خدا کا حکم چھوڑتا ہے تو اس کے بعد توہمات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ لوگ توہماتی خیالات کی بنا پر اشیاء کے بارے میں طرح طرح کی رائیں قائم کرلیتے ہیں۔ ان توہمات کے پیچھے کچھ خود ساختہ فلسفے ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ان کے کچھ ظواہر قائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے فرماں بردار بننا چاہیں ان کے لیے ضروری ہوتاہے کہ ان توہمات کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ کھانے پینے اور دوسرے امور میں ہر قوم کا ایک رواجی دین بن جاتا ہے۔ اس رواجی دین کے بارے میں لوگوں کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حق میں اسلاف اور بزرگوں کی تصدیقات شامل رہتی ہیں۔ اس سے ہٹنا بزرگوں کے دین سے ہٹنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب حق کی دعوت اس رواجی دین سے ٹکراتی ہے تو حق کی دعوت کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات كيے جاتے ہیں۔ وقت کے بڑے ایسی خوش کن باتیں نکالتے ہیں جن سے وہ اپنے عوام کو مطمئن کرسکیں کہ تمھارا رواجی دین صحیح اور یہ ’’نیا دین‘‘ بالکل باطل ہے۔ مگر اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ قیامت میں جب وہ حقیقتوں کو کھولے گا تو ہر آدمی دیکھ لے گا کہ وہ حقیقت کی زمین پر کھڑا تھا یا توہمات کی زمین پر۔

وَمَا لَكُمْ أَلَّا تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ

📘 دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب ہمارے لیے ’’مالِ غیر‘‘ ہے۔ کیوں کہ سب کا سب خدا کا ہے۔ اس کو اپنے لیے جائز کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقہ سے استعمال کیا جائے ۔ یہی معاملہ جانوروں کا بھی ہے۔ جانورہمارے لیے قیمتی خوراک ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو خوراک بنانے کا حق ہم کو کیسے ملا۔ جانور کو خدا بناتا ہے اور وہی اس کو پرورش کرکے تیار کرتا ہے۔ پھر ہمارے لیے کیسے جائز ہوا کہ ہم اس کو اپنی خوراک بنائیں۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی سوال کا جواب ہے۔ اللہ کا نام لینا کوئی لفظی رسم نہیں۔ یہ دراصل جانور کے اوپر خدا کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس کے عطیہ پر خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی اعتراف وتشکر کی ایک علامت ہے اور یہی اعتراف وتشکر وہ ’’قیمت‘‘ ہے جس کو ادا کرنے سے مالک کے نزدیک اس کا ایک جانور ہمارے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ تاہم جس کو اتفاقی مجبوری پیش آجائے اس کو اس پابندی سے آزاد کردیاگیا ہے۔ جب آدمی حرام وحلال اور جائز وناجائز میں خدا کا حکم چھوڑتا ہے تو اس کے بعد توہمات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ لوگ توہماتی خیالات کی بنا پر اشیاء کے بارے میں طرح طرح کی رائیں قائم کرلیتے ہیں۔ ان توہمات کے پیچھے کچھ خود ساختہ فلسفے ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ان کے کچھ ظواہر قائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے فرماں بردار بننا چاہیں ان کے لیے ضروری ہوتاہے کہ ان توہمات کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ کھانے پینے اور دوسرے امور میں ہر قوم کا ایک رواجی دین بن جاتا ہے۔ اس رواجی دین کے بارے میں لوگوں کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حق میں اسلاف اور بزرگوں کی تصدیقات شامل رہتی ہیں۔ اس سے ہٹنا بزرگوں کے دین سے ہٹنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب حق کی دعوت اس رواجی دین سے ٹکراتی ہے تو حق کی دعوت کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات كيے جاتے ہیں۔ وقت کے بڑے ایسی خوش کن باتیں نکالتے ہیں جن سے وہ اپنے عوام کو مطمئن کرسکیں کہ تمھارا رواجی دین صحیح اور یہ ’’نیا دین‘‘ بالکل باطل ہے۔ مگر اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ قیامت میں جب وہ حقیقتوں کو کھولے گا تو ہر آدمی دیکھ لے گا کہ وہ حقیقت کی زمین پر کھڑا تھا یا توہمات کی زمین پر۔

قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قُلْ لِلَّهِ ۚ كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 کچھ لوگ کھلے طور پر آخرت کا انکار کرتے ہیں۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو زبان سے آخرت کا انکار نہیں کرتے مگر ان کے دل میں ساری اہمیت بس اسی دنیا کی ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کی زندگی میں اور کھلے ہوئے منکرین کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ دونوں گروہ باعتبار حقیقت ایک ہیں۔ اور دونوں ہی اللہ کے نزدیک آخرت کو جھٹلانے والے ہیں۔ ایک گروہ اگر زبانی طور پر اس کو جھٹلا رہا ہے تو دوسرا گروہ عملی طور پر۔ ایسے تمام لوگ خدا کے قانون کے مطابق ہلاکت میں پڑنے والے ہیں۔ پیغمبروں کے زمانہ میں یہ ہلاکت موجودہ دنیا میں سامنے آگئی اور بعد کے لوگوں کے لیے وہ آخرت میں سامنے آئے گی۔

وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَكْسِبُونَ الْإِثْمَ سَيُجْزَوْنَ بِمَا كَانُوا يَقْتَرِفُونَ

📘 دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب ہمارے لیے ’’مالِ غیر‘‘ ہے۔ کیوں کہ سب کا سب خدا کا ہے۔ اس کو اپنے لیے جائز کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقہ سے استعمال کیا جائے ۔ یہی معاملہ جانوروں کا بھی ہے۔ جانورہمارے لیے قیمتی خوراک ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو خوراک بنانے کا حق ہم کو کیسے ملا۔ جانور کو خدا بناتا ہے اور وہی اس کو پرورش کرکے تیار کرتا ہے۔ پھر ہمارے لیے کیسے جائز ہوا کہ ہم اس کو اپنی خوراک بنائیں۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی سوال کا جواب ہے۔ اللہ کا نام لینا کوئی لفظی رسم نہیں۔ یہ دراصل جانور کے اوپر خدا کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس کے عطیہ پر خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی اعتراف وتشکر کی ایک علامت ہے اور یہی اعتراف وتشکر وہ ’’قیمت‘‘ ہے جس کو ادا کرنے سے مالک کے نزدیک اس کا ایک جانور ہمارے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ تاہم جس کو اتفاقی مجبوری پیش آجائے اس کو اس پابندی سے آزاد کردیاگیا ہے۔ جب آدمی حرام وحلال اور جائز وناجائز میں خدا کا حکم چھوڑتا ہے تو اس کے بعد توہمات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ لوگ توہماتی خیالات کی بنا پر اشیاء کے بارے میں طرح طرح کی رائیں قائم کرلیتے ہیں۔ ان توہمات کے پیچھے کچھ خود ساختہ فلسفے ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ان کے کچھ ظواہر قائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے فرماں بردار بننا چاہیں ان کے لیے ضروری ہوتاہے کہ ان توہمات کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ کھانے پینے اور دوسرے امور میں ہر قوم کا ایک رواجی دین بن جاتا ہے۔ اس رواجی دین کے بارے میں لوگوں کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حق میں اسلاف اور بزرگوں کی تصدیقات شامل رہتی ہیں۔ اس سے ہٹنا بزرگوں کے دین سے ہٹنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب حق کی دعوت اس رواجی دین سے ٹکراتی ہے تو حق کی دعوت کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات كيے جاتے ہیں۔ وقت کے بڑے ایسی خوش کن باتیں نکالتے ہیں جن سے وہ اپنے عوام کو مطمئن کرسکیں کہ تمھارا رواجی دین صحیح اور یہ ’’نیا دین‘‘ بالکل باطل ہے۔ مگر اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ قیامت میں جب وہ حقیقتوں کو کھولے گا تو ہر آدمی دیکھ لے گا کہ وہ حقیقت کی زمین پر کھڑا تھا یا توہمات کی زمین پر۔

وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ

📘 دنیا میں جو کچھ ہے وہ سب ہمارے لیے ’’مالِ غیر‘‘ ہے۔ کیوں کہ سب کا سب خدا کا ہے۔ اس کو اپنے لیے جائز کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو خدا کے بتائے ہوئے طریقہ سے استعمال کیا جائے ۔ یہی معاملہ جانوروں کا بھی ہے۔ جانورہمارے لیے قیمتی خوراک ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو خوراک بنانے کا حق ہم کو کیسے ملا۔ جانور کو خدا بناتا ہے اور وہی اس کو پرورش کرکے تیار کرتا ہے۔ پھر ہمارے لیے کیسے جائز ہوا کہ ہم اس کو اپنی خوراک بنائیں۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی سوال کا جواب ہے۔ اللہ کا نام لینا کوئی لفظی رسم نہیں۔ یہ دراصل جانور کے اوپر خدا کی مالکانہ حیثیت کو تسلیم کرنا اور اس کے عطیہ پر خدا کا شکر ادا کرنا ہے۔ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا اسی اعتراف وتشکر کی ایک علامت ہے اور یہی اعتراف وتشکر وہ ’’قیمت‘‘ ہے جس کو ادا کرنے سے مالک کے نزدیک اس کا ایک جانور ہمارے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ تاہم جس کو اتفاقی مجبوری پیش آجائے اس کو اس پابندی سے آزاد کردیاگیا ہے۔ جب آدمی حرام وحلال اور جائز وناجائز میں خدا کا حکم چھوڑتا ہے تو اس کے بعد توہمات اس کی جگہ لے لیتے ہیں۔ لوگ توہماتی خیالات کی بنا پر اشیاء کے بارے میں طرح طرح کی رائیں قائم کرلیتے ہیں۔ ان توہمات کے پیچھے کچھ خود ساختہ فلسفے ہوتے ہیں اور ان کی بنیاد پر ان کے کچھ ظواہر قائم ہوتے ہیں۔ جو لوگ اللہ کے فرماں بردار بننا چاہیں ان کے لیے ضروری ہوتاہے کہ ان توہمات کو فکری اور عملی دونوں اعتبار سے مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ کھانے پینے اور دوسرے امور میں ہر قوم کا ایک رواجی دین بن جاتا ہے۔ اس رواجی دین کے بارے میں لوگوں کے جذبات بہت شدید ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اس کے حق میں اسلاف اور بزرگوں کی تصدیقات شامل رہتی ہیں۔ اس سے ہٹنا بزرگوں کے دین سے ہٹنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس لیے جب حق کی دعوت اس رواجی دین سے ٹکراتی ہے تو حق کی دعوت کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات كيے جاتے ہیں۔ وقت کے بڑے ایسی خوش کن باتیں نکالتے ہیں جن سے وہ اپنے عوام کو مطمئن کرسکیں کہ تمھارا رواجی دین صحیح اور یہ ’’نیا دین‘‘ بالکل باطل ہے۔ مگر اللہ ہر چیز سے باخبر ہے۔ قیامت میں جب وہ حقیقتوں کو کھولے گا تو ہر آدمی دیکھ لے گا کہ وہ حقیقت کی زمین پر کھڑا تھا یا توہمات کی زمین پر۔

أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 اللہ کی نظر میں وہ شخص زندہ ہے جس کے سامنے ہدایت کی روشنی آئی اور اس نے اس کو اپنے راستہ کی روشنی بنالیا۔ اس کے مقابلہ میں مردہ وہ ہے جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہو کر باطل کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہو۔ مُردہ آدمی اوہام وتعصبات کے جال میں اتنا پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ سیدھے اور سچے حقائق اس کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتے۔ وہ اشیاء کی ماہیت سے اتنا بے خبر ہوتا ہے کہ لفظی بحث اور حقیقی کلام میں فرق نہیں کر پاتا۔ وہ اپنی بڑائی کے تصور میں اتنا ڈوبا ہوا ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے آئی ہوئی سچائی کا اعتراف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن پر رواجی خیالات کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ ان سے ہٹ کر کسی اور معیار پر وہ چیزوں کو جانچ نہیں پاتا۔ اپنی ان کمزوریوں کی بنا پر وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے، بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ ایک مُردہ انسان بن جاتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص ہدایت کے لیے اپنا سینہ کھول دیتا ہے وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ سچائی کو پہچاننے میں اسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ الفاظ کے پردے کبھی اس کے لیے حقیقت کا چہرہ دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ذوق اور عادت کے مسائل اس کی زندگی میں کبھی یہ مقام حاصل نهيں کرتے کہ اس کے اور حق کے درمیان حائل ہوجائیں۔ سچائی اس کے لیے ایک ایسی روشن حقیقت بن جاتی ہے جس كو دیکھنے میں اس کی نظر کبھی نہ چوکے اور جس کو پانے کے لیے وہ کبھی سست ثابت نہ ہو۔ وہ خود بھی حق کی روشنی میں چلتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو خود ساختہ چیزوں کو خدا کا مذہب بتا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر ایسی آواز کے دشمن بن جاتے ہیں جو لوگوں کو سچے دین کی طرف پکارے۔ ایسی ہر آواز ان کو اپنے خلاف بے اعتمادی کی تحریک دکھائی دیتی ہے۔یہ وقت کے بڑے لوگ حق کی دعوت میں ایسے شوشے نکالتے ہیں جس سے وہ عوام کو اس سے متاثر ہونے سے روک سکیں۔ وہ حق کے دلائل کو غلط رخ دے کر عوام کو شبہات میں مبتلا کرتے ہیں۔ حتی کہ بے بنیاد باتوں کے ذریعے داعی کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں صرف ان کے جرم کو بڑھاتی ہیں، وہ داعی اور دعوت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں — حق پرست وہ ہے جو حق کو اس وقت دیکھ لے جب کہ اس کے ساتھ دنیوی عظمتیں شامل نہ ہوئی ہوں۔ دنیوی عظمت والے حق کو ماننا دراصل دنیوی عظمتوں کو ماننا ہے نہ کہ خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا ۖ وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنْفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

📘 اللہ کی نظر میں وہ شخص زندہ ہے جس کے سامنے ہدایت کی روشنی آئی اور اس نے اس کو اپنے راستہ کی روشنی بنالیا۔ اس کے مقابلہ میں مردہ وہ ہے جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہو کر باطل کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہو۔ مُردہ آدمی اوہام وتعصبات کے جال میں اتنا پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ سیدھے اور سچے حقائق اس کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتے۔ وہ اشیاء کی ماہیت سے اتنا بے خبر ہوتا ہے کہ لفظی بحث اور حقیقی کلام میں فرق نہیں کر پاتا۔ وہ اپنی بڑائی کے تصور میں اتنا ڈوبا ہوا ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے آئی ہوئی سچائی کا اعتراف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن پر رواجی خیالات کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ ان سے ہٹ کر کسی اور معیار پر وہ چیزوں کو جانچ نہیں پاتا۔ اپنی ان کمزوریوں کی بنا پر وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے، بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ ایک مُردہ انسان بن جاتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص ہدایت کے لیے اپنا سینہ کھول دیتا ہے وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ سچائی کو پہچاننے میں اسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ الفاظ کے پردے کبھی اس کے لیے حقیقت کا چہرہ دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ذوق اور عادت کے مسائل اس کی زندگی میں کبھی یہ مقام حاصل نهيں کرتے کہ اس کے اور حق کے درمیان حائل ہوجائیں۔ سچائی اس کے لیے ایک ایسی روشن حقیقت بن جاتی ہے جس كو دیکھنے میں اس کی نظر کبھی نہ چوکے اور جس کو پانے کے لیے وہ کبھی سست ثابت نہ ہو۔ وہ خود بھی حق کی روشنی میں چلتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو خود ساختہ چیزوں کو خدا کا مذہب بتا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر ایسی آواز کے دشمن بن جاتے ہیں جو لوگوں کو سچے دین کی طرف پکارے۔ ایسی ہر آواز ان کو اپنے خلاف بے اعتمادی کی تحریک دکھائی دیتی ہے۔یہ وقت کے بڑے لوگ حق کی دعوت میں ایسے شوشے نکالتے ہیں جس سے وہ عوام کو اس سے متاثر ہونے سے روک سکیں۔ وہ حق کے دلائل کو غلط رخ دے کر عوام کو شبہات میں مبتلا کرتے ہیں۔ حتی کہ بے بنیاد باتوں کے ذریعے داعی کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں صرف ان کے جرم کو بڑھاتی ہیں، وہ داعی اور دعوت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں — حق پرست وہ ہے جو حق کو اس وقت دیکھ لے جب کہ اس کے ساتھ دنیوی عظمتیں شامل نہ ہوئی ہوں۔ دنیوی عظمت والے حق کو ماننا دراصل دنیوی عظمتوں کو ماننا ہے نہ کہ خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو۔

وَإِذَا جَاءَتْهُمْ آيَةٌ قَالُوا لَنْ نُؤْمِنَ حَتَّىٰ نُؤْتَىٰ مِثْلَ مَا أُوتِيَ رُسُلُ اللَّهِ ۘ اللَّهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ ۗ سَيُصِيبُ الَّذِينَ أَجْرَمُوا صَغَارٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا كَانُوا يَمْكُرُونَ

📘 اللہ کی نظر میں وہ شخص زندہ ہے جس کے سامنے ہدایت کی روشنی آئی اور اس نے اس کو اپنے راستہ کی روشنی بنالیا۔ اس کے مقابلہ میں مردہ وہ ہے جو ہدایت کی روشنی سے محروم ہو کر باطل کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہو۔ مُردہ آدمی اوہام وتعصبات کے جال میں اتنا پھنسا ہوا ہوتا ہے کہ سیدھے اور سچے حقائق اس کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتے۔ وہ اشیاء کی ماہیت سے اتنا بے خبر ہوتا ہے کہ لفظی بحث اور حقیقی کلام میں فرق نہیں کر پاتا۔ وہ اپنی بڑائی کے تصور میں اتنا ڈوبا ہوا ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے آئی ہوئی سچائی کا اعتراف کرنا اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے ذہن پر رواجی خیالات کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ ان سے ہٹ کر کسی اور معیار پر وہ چیزوں کو جانچ نہیں پاتا۔ اپنی ان کمزوریوں کی بنا پر وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے، بظاہر زندہ ہوتے ہوئے بھی وہ ایک مُردہ انسان بن جاتاہے۔ اس کے برعکس جو شخص ہدایت کے لیے اپنا سینہ کھول دیتا ہے وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ سچائی کو پہچاننے میں اسے ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ الفاظ کے پردے کبھی اس کے لیے حقیقت کا چہرہ دیکھنے میں رکاوٹ نہیں بنتے۔ ذوق اور عادت کے مسائل اس کی زندگی میں کبھی یہ مقام حاصل نهيں کرتے کہ اس کے اور حق کے درمیان حائل ہوجائیں۔ سچائی اس کے لیے ایک ایسی روشن حقیقت بن جاتی ہے جس كو دیکھنے میں اس کی نظر کبھی نہ چوکے اور جس کو پانے کے لیے وہ کبھی سست ثابت نہ ہو۔ وہ خود بھی حق کی روشنی میں چلتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں چلانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ لوگ جو خود ساختہ چیزوں کو خدا کا مذہب بتا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے ہوتے ہیں وہ ہر ایسی آواز کے دشمن بن جاتے ہیں جو لوگوں کو سچے دین کی طرف پکارے۔ ایسی ہر آواز ان کو اپنے خلاف بے اعتمادی کی تحریک دکھائی دیتی ہے۔یہ وقت کے بڑے لوگ حق کی دعوت میں ایسے شوشے نکالتے ہیں جس سے وہ عوام کو اس سے متاثر ہونے سے روک سکیں۔ وہ حق کے دلائل کو غلط رخ دے کر عوام کو شبہات میں مبتلا کرتے ہیں۔ حتی کہ بے بنیاد باتوں کے ذریعے داعی کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس قسم کی کوششیں صرف ان کے جرم کو بڑھاتی ہیں، وہ داعی اور دعوت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں — حق پرست وہ ہے جو حق کو اس وقت دیکھ لے جب کہ اس کے ساتھ دنیوی عظمتیں شامل نہ ہوئی ہوں۔ دنیوی عظمت والے حق کو ماننا دراصل دنیوی عظمتوں کو ماننا ہے نہ کہ خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو۔

فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 حق اپنی ذات میں اتنا واضح ہے کہ اس کا سمجھنا کبھی کسی آدمی کے لیے مشکل نہ ہو۔ پھر بھی ہر زمانہ میں بے شمار لوگ حق کی وضاحت کے باوجود حق کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کے اندر کی وہ رکاوٹیں ہیں جو وہ اپنی نفسیات میں پیدا کرلیتے ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو مقدس ہستیوں سے اتنا زیادہ وابستہ کرلیتاہے کہ ان کوچھوڑتے ہوئے اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بالکل برباد ہوجائے گا۔ کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کا نظام ٹوٹنے کا اندیشہ اس کے اوپر اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ اس کے لیے حق کی طرف اقدام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کسی کو نظر آتا ہے کہ حق کو ماننا اپنی بڑائی کے مینار کو اپنے ہاتھ سے ڈھا دینا ہے۔ کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ماحول کے رواج کے خلاف ایک بات کو اگر میں نے مان لیا تو میں سارے ماحول میں اجنبی بن کر رہ جاؤں گا۔ اس طرح کے خیالات آدمی کے اوپر اتنا مسلط ہوجاتے ہیں کہ حق کو ماننا اس کو ایک بے حد مشکل بلندی پرچڑھائی کے ہم معنی نظر آنے لگتاہے جس کو دیکھ کر ہی آدمی کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اس کے برعکس، معاملہ ان لوگوں کا ہے جو نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہیں ہوتے، جو حق کو ہر دوسری چیز سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ وہ پہلے سچے متلاشی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس ليے جب حق ان کے سامنے آتا ہے تو بلا تاخیر وہ اس کو پہچان لیتے ہیں اور تمام عذرات اور اندیشوں کو نظر انداز کرکے اس کو قبول کرلیتے ہیں۔ خدا اپنے حق کو نشانیوں (اشاراتی حقائق) کی صورت میں لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ اب جو لوگ اپنے دلوں میں کمزوریاں ليے ہوئے ہیں وہ ان اشارات کی خود ساختہ تاویل کرکے اپنے لیے اس کو نہ ماننے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے سینے کھلے ہوتے ہیں وہ اشارات کو ان کی اصل گہرائیوں کے ساتھ پالیتے ہیں اور ان کو اپنے ذہن کی غذا بنا لیتے ہیں۔ ان کی زندگی فی الفور اس سیدھے راستہ پر چل پڑتی ہے جو خدا کی براہِ راست رہنمائی میں طے ہوتا ہے اور بالآخر آدمی کو ابدی کامیابی کے مقام پر پہنچا دیتاہے۔ خدا کے یہاں جو کچھ قیمت ہے وہ عمل کی ہے، نہ کہ کسی اور چیز کی۔ جو شخص عملی طورپر خدا کی فرماں برداری اختیار کرے گا، وہی اس قابل ٹھهرے گا کہ خدا اس کی دست گیری کرے، اور اس کو اپنے سلامتی کے گھر تک پہنچا دے۔ یہ سلامتی کا گھر خدا کی جنت ہے جہاں آدمی ہر قسم کے دکھ ا ور آفت سے محفوظ رہ کر ابدی سکون کی زندگی گزارے گا۔ خدا کی یہ مدد افراد کو ان کے عمل کے مطابق موت کے بعد آنے والی زندگی میں ملے گی۔ لیکن اگر افراد کی قابلِ لحاظ تعداد دنیا میں خدا کی فرماں بردار بن جائے تو ایسی جماعت کو دنیا میں بھی اس کا ایک حصہ دے دیا جاتا ہے۔

وَهَٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ

📘 حق اپنی ذات میں اتنا واضح ہے کہ اس کا سمجھنا کبھی کسی آدمی کے لیے مشکل نہ ہو۔ پھر بھی ہر زمانہ میں بے شمار لوگ حق کی وضاحت کے باوجود حق کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کے اندر کی وہ رکاوٹیں ہیں جو وہ اپنی نفسیات میں پیدا کرلیتے ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو مقدس ہستیوں سے اتنا زیادہ وابستہ کرلیتاہے کہ ان کوچھوڑتے ہوئے اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بالکل برباد ہوجائے گا۔ کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کا نظام ٹوٹنے کا اندیشہ اس کے اوپر اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ اس کے لیے حق کی طرف اقدام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کسی کو نظر آتا ہے کہ حق کو ماننا اپنی بڑائی کے مینار کو اپنے ہاتھ سے ڈھا دینا ہے۔ کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ماحول کے رواج کے خلاف ایک بات کو اگر میں نے مان لیا تو میں سارے ماحول میں اجنبی بن کر رہ جاؤں گا۔ اس طرح کے خیالات آدمی کے اوپر اتنا مسلط ہوجاتے ہیں کہ حق کو ماننا اس کو ایک بے حد مشکل بلندی پرچڑھائی کے ہم معنی نظر آنے لگتاہے جس کو دیکھ کر ہی آدمی کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اس کے برعکس، معاملہ ان لوگوں کا ہے جو نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہیں ہوتے، جو حق کو ہر دوسری چیز سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ وہ پہلے سچے متلاشی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس ليے جب حق ان کے سامنے آتا ہے تو بلا تاخیر وہ اس کو پہچان لیتے ہیں اور تمام عذرات اور اندیشوں کو نظر انداز کرکے اس کو قبول کرلیتے ہیں۔ خدا اپنے حق کو نشانیوں (اشاراتی حقائق) کی صورت میں لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ اب جو لوگ اپنے دلوں میں کمزوریاں ليے ہوئے ہیں وہ ان اشارات کی خود ساختہ تاویل کرکے اپنے لیے اس کو نہ ماننے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے سینے کھلے ہوتے ہیں وہ اشارات کو ان کی اصل گہرائیوں کے ساتھ پالیتے ہیں اور ان کو اپنے ذہن کی غذا بنا لیتے ہیں۔ ان کی زندگی فی الفور اس سیدھے راستہ پر چل پڑتی ہے جو خدا کی براہِ راست رہنمائی میں طے ہوتا ہے اور بالآخر آدمی کو ابدی کامیابی کے مقام پر پہنچا دیتاہے۔ خدا کے یہاں جو کچھ قیمت ہے وہ عمل کی ہے، نہ کہ کسی اور چیز کی۔ جو شخص عملی طورپر خدا کی فرماں برداری اختیار کرے گا، وہی اس قابل ٹھهرے گا کہ خدا اس کی دست گیری کرے، اور اس کو اپنے سلامتی کے گھر تک پہنچا دے۔ یہ سلامتی کا گھر خدا کی جنت ہے جہاں آدمی ہر قسم کے دکھ ا ور آفت سے محفوظ رہ کر ابدی سکون کی زندگی گزارے گا۔ خدا کی یہ مدد افراد کو ان کے عمل کے مطابق موت کے بعد آنے والی زندگی میں ملے گی۔ لیکن اگر افراد کی قابلِ لحاظ تعداد دنیا میں خدا کی فرماں بردار بن جائے تو ایسی جماعت کو دنیا میں بھی اس کا ایک حصہ دے دیا جاتا ہے۔

۞ لَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۖ وَهُوَ وَلِيُّهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 حق اپنی ذات میں اتنا واضح ہے کہ اس کا سمجھنا کبھی کسی آدمی کے لیے مشکل نہ ہو۔ پھر بھی ہر زمانہ میں بے شمار لوگ حق کی وضاحت کے باوجود حق کو قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ ان کے اندر کی وہ رکاوٹیں ہیں جو وہ اپنی نفسیات میں پیدا کرلیتے ہیں۔ کوئی اپنے آپ کو مقدس ہستیوں سے اتنا زیادہ وابستہ کرلیتاہے کہ ان کوچھوڑتے ہوئے اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ بالکل برباد ہوجائے گا۔ کسی کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کا نظام ٹوٹنے کا اندیشہ اس کے اوپر اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ اس کے لیے حق کی طرف اقدام کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کسی کو نظر آتا ہے کہ حق کو ماننا اپنی بڑائی کے مینار کو اپنے ہاتھ سے ڈھا دینا ہے۔ کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ماحول کے رواج کے خلاف ایک بات کو اگر میں نے مان لیا تو میں سارے ماحول میں اجنبی بن کر رہ جاؤں گا۔ اس طرح کے خیالات آدمی کے اوپر اتنا مسلط ہوجاتے ہیں کہ حق کو ماننا اس کو ایک بے حد مشکل بلندی پرچڑھائی کے ہم معنی نظر آنے لگتاہے جس کو دیکھ کر ہی آدمی کا دل تنگ ہونے لگتا ہے۔ اس کے برعکس، معاملہ ان لوگوں کا ہے جو نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہیں ہوتے، جو حق کو ہر دوسری چیز سے اعلیٰ سمجھتے ہیں۔ وہ پہلے سچے متلاشی بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس ليے جب حق ان کے سامنے آتا ہے تو بلا تاخیر وہ اس کو پہچان لیتے ہیں اور تمام عذرات اور اندیشوں کو نظر انداز کرکے اس کو قبول کرلیتے ہیں۔ خدا اپنے حق کو نشانیوں (اشاراتی حقائق) کی صورت میں لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ اب جو لوگ اپنے دلوں میں کمزوریاں ليے ہوئے ہیں وہ ان اشارات کی خود ساختہ تاویل کرکے اپنے لیے اس کو نہ ماننے کا جواز بنا لیتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے سینے کھلے ہوتے ہیں وہ اشارات کو ان کی اصل گہرائیوں کے ساتھ پالیتے ہیں اور ان کو اپنے ذہن کی غذا بنا لیتے ہیں۔ ان کی زندگی فی الفور اس سیدھے راستہ پر چل پڑتی ہے جو خدا کی براہِ راست رہنمائی میں طے ہوتا ہے اور بالآخر آدمی کو ابدی کامیابی کے مقام پر پہنچا دیتاہے۔ خدا کے یہاں جو کچھ قیمت ہے وہ عمل کی ہے، نہ کہ کسی اور چیز کی۔ جو شخص عملی طورپر خدا کی فرماں برداری اختیار کرے گا، وہی اس قابل ٹھهرے گا کہ خدا اس کی دست گیری کرے، اور اس کو اپنے سلامتی کے گھر تک پہنچا دے۔ یہ سلامتی کا گھر خدا کی جنت ہے جہاں آدمی ہر قسم کے دکھ ا ور آفت سے محفوظ رہ کر ابدی سکون کی زندگی گزارے گا۔ خدا کی یہ مدد افراد کو ان کے عمل کے مطابق موت کے بعد آنے والی زندگی میں ملے گی۔ لیکن اگر افراد کی قابلِ لحاظ تعداد دنیا میں خدا کی فرماں بردار بن جائے تو ایسی جماعت کو دنیا میں بھی اس کا ایک حصہ دے دیا جاتا ہے۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِنَ الْإِنْسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُمْ مِنَ الْإِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

📘 کسی کے گمراہ کرنے سے جب کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو یہ يک طرفہ معاملہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد پورا کررہے ہیں۔ شیطان جب آدمی کو سبز باغ دکھا کر اپنی طرف لے جاتا ہے تو وہ اپنے اس چیلنج کو صحیح ثابت کرنا چاہتاہے، جو اس نے آغاز تخلیق میں خدا کو دیا تھا کہ میں تیری مخلوق کے بڑے حصہ کو اپنا ہم نوا بنالوں گا(بنی اسرائیل، 17:61 ) دوسری طرف جو لوگ اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرتے ہیں ان کے سامنے بھی واضح مفادات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جنوں کے نام پر اپنے سحر کے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں یا اپنی شاعری اور کہانت کا رشتہ کسی جنّی استاد سے جوڑ کر عوام کے اوپر اپنی برتری قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام تحریکیں جو شیطانی ترغیبات کے تحت اٹھتی ہیں، ان کا ساتھ دینے والے بھی اسی ليے ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ ان کو امید ہوتی ہے کہ اس طرح عوام کے اوپر آسانی کے ساتھ وہ اپنی قیادت قائم کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے مقابلہ میں شیطانی نعرے ہمیشہ عوام کی بھیڑ کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوئے ہیں۔ قیامت میں جب حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا تو یہ بات کھل جائے گی کہ جو لوگ بے راہ ہوئے یا جنھوں نے دوسروں کو بے راہ کیا انھوںنے کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ حق کو نظر انداز کرنا تھا، نہ کہ حق سے بے خبر رہنا۔ وہ دنیوی تماشوں سے اوپر نہ اٹھ سکے، وہ وقتی فائدوں کو قربان نہ کرسکے۔ ورنہ خدا نے اپنے خاص بندوں کے ذریعہ جو ہدایت کھولی تھی وہ اتنی واضح تھی کہ کوئی شخص حقیقتِ حال سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر ان کی دنیا پرستی ان کی آنکھوں کا پردہ بن گئی۔ جاننے کے باوجود انھوں نے نہ جانا۔ سننے کے باوجود انھوں نے نہ سنا۔ آخرت میں وہ مصنوعی سہارے ان سے چھن جائیں گے جن کے بل پر وہ حقیقت سے بے پروا بنے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کو نظر آجائے گا کہ کس طرح ایسا ہوا کہ حق ان کے سامنے آیا مگر انھوں نے جھوٹے الفاظ بول کر اس کو رد کردیا۔ کس طرح ان کی غلطی ان پر واضح کی گئی مگر خوبصورت تاویل کرکے انھوں نے سمجھا کہ اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔

وَكَذَٰلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 کسی کے گمراہ کرنے سے جب کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو یہ يک طرفہ معاملہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد پورا کررہے ہیں۔ شیطان جب آدمی کو سبز باغ دکھا کر اپنی طرف لے جاتا ہے تو وہ اپنے اس چیلنج کو صحیح ثابت کرنا چاہتاہے، جو اس نے آغاز تخلیق میں خدا کو دیا تھا کہ میں تیری مخلوق کے بڑے حصہ کو اپنا ہم نوا بنالوں گا(بنی اسرائیل، 17:61 ) دوسری طرف جو لوگ اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرتے ہیں ان کے سامنے بھی واضح مفادات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جنوں کے نام پر اپنے سحر کے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں یا اپنی شاعری اور کہانت کا رشتہ کسی جنّی استاد سے جوڑ کر عوام کے اوپر اپنی برتری قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام تحریکیں جو شیطانی ترغیبات کے تحت اٹھتی ہیں، ان کا ساتھ دینے والے بھی اسی ليے ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ ان کو امید ہوتی ہے کہ اس طرح عوام کے اوپر آسانی کے ساتھ وہ اپنی قیادت قائم کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے مقابلہ میں شیطانی نعرے ہمیشہ عوام کی بھیڑ کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوئے ہیں۔ قیامت میں جب حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا تو یہ بات کھل جائے گی کہ جو لوگ بے راہ ہوئے یا جنھوں نے دوسروں کو بے راہ کیا انھوںنے کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ حق کو نظر انداز کرنا تھا، نہ کہ حق سے بے خبر رہنا۔ وہ دنیوی تماشوں سے اوپر نہ اٹھ سکے، وہ وقتی فائدوں کو قربان نہ کرسکے۔ ورنہ خدا نے اپنے خاص بندوں کے ذریعہ جو ہدایت کھولی تھی وہ اتنی واضح تھی کہ کوئی شخص حقیقتِ حال سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر ان کی دنیا پرستی ان کی آنکھوں کا پردہ بن گئی۔ جاننے کے باوجود انھوں نے نہ جانا۔ سننے کے باوجود انھوں نے نہ سنا۔ آخرت میں وہ مصنوعی سہارے ان سے چھن جائیں گے جن کے بل پر وہ حقیقت سے بے پروا بنے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کو نظر آجائے گا کہ کس طرح ایسا ہوا کہ حق ان کے سامنے آیا مگر انھوں نے جھوٹے الفاظ بول کر اس کو رد کردیا۔ کس طرح ان کی غلطی ان پر واضح کی گئی مگر خوبصورت تاویل کرکے انھوں نے سمجھا کہ اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔

۞ وَلَهُ مَا سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 انسان کھلے ہوئے حق کا انکار کرتاہے۔ وہ طاقت پاکر دوسروں کو ذلیل کرتاہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا انسان کو اس دنیا میں مطلق اقتدار حاصل ہے۔ کیا یہاں اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کیا خدا کے یہاں تضاد ہے کہ اس نے بقیہ دنیا كو رحمت ومعنویت سے بھر رکھا ہے اور انسان کی دنیا کو ظلم اور بے انصافی سے۔ ایسا نہیں ہے۔ جو خدا زمین و آسمان کامالک ہے وہی خدا س مخلوق کا مالک بھی ہے جو دن کو متحرک ہوتی ہے اور راتوں کو قرار پکڑتی ہے۔ خدا جس طرح بقیہ کائنات کے لیے سراپا رحمت ہے اسی طرح وہ انسانوں کے لیے بھی سراپا رحمت ہے۔ فرق یہ ہے کہ بقیہ دنیا میں خدا کی رحمتوں کا ظہور اول دن سے ہے اور انسان کی دنیا میں اس کی رحمتوں کا کامل ظہور قیامت کے دن ہوگا۔ انسان ارادی مخلوق ہے اور اس سے ارادی عبادت مطلوب ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ کا صحیح استعمال نہ کریں، وہ اس قابل نہیں کہ ان کو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار بنایا جائے۔كیوں کہ انھوںنے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا نہ کیا۔ آزمائشی مدت پوری ہونے کے بعد سارے لوگ ایک نئی دنیا میں جمع كيے جائیں گے۔ اس دن خدا اسی طرح دنیا کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس روز خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا۔ اس دن وہ لوگ سرفراز ہوں گے جنھوںنے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرکے اپنے کو خدائی اطاعت میں دے دیا۔ اور وہ لوگ گھاٹے میں رہیں گے جنھوں نے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہیں کیا اور خدا کی دنیا میں سرکشی اور ہٹ دھرمی کے طریقے پر چلتے رہے۔ انسان جب بھی سرکشی کرتاہے کسی آسرے پر کرتا ہے۔ مگر جن چیزوں کے آسرے پر انسان سرکشی کرتا ہے ان کی اس کائنات میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہاں ہر چيزبے زور ہے، زور والا صرف ایک خدا ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس لیے فیصلہ کے دن وہی شخص بامراد ہوگا جس نے حقیقی سہارے کو اپنا سہارا بنایا ہوگا، جس نے حقیقی دین کو اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے اختیار کیاہوگا۔

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنْفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ

📘 کسی کے گمراہ کرنے سے جب کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو یہ يک طرفہ معاملہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد پورا کررہے ہیں۔ شیطان جب آدمی کو سبز باغ دکھا کر اپنی طرف لے جاتا ہے تو وہ اپنے اس چیلنج کو صحیح ثابت کرنا چاہتاہے، جو اس نے آغاز تخلیق میں خدا کو دیا تھا کہ میں تیری مخلوق کے بڑے حصہ کو اپنا ہم نوا بنالوں گا(بنی اسرائیل، 17:61 ) دوسری طرف جو لوگ اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرتے ہیں ان کے سامنے بھی واضح مفادات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جنوں کے نام پر اپنے سحر کے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں یا اپنی شاعری اور کہانت کا رشتہ کسی جنّی استاد سے جوڑ کر عوام کے اوپر اپنی برتری قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام تحریکیں جو شیطانی ترغیبات کے تحت اٹھتی ہیں، ان کا ساتھ دینے والے بھی اسی ليے ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ ان کو امید ہوتی ہے کہ اس طرح عوام کے اوپر آسانی کے ساتھ وہ اپنی قیادت قائم کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے مقابلہ میں شیطانی نعرے ہمیشہ عوام کی بھیڑ کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوئے ہیں۔ قیامت میں جب حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا تو یہ بات کھل جائے گی کہ جو لوگ بے راہ ہوئے یا جنھوں نے دوسروں کو بے راہ کیا انھوںنے کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ حق کو نظر انداز کرنا تھا، نہ کہ حق سے بے خبر رہنا۔ وہ دنیوی تماشوں سے اوپر نہ اٹھ سکے، وہ وقتی فائدوں کو قربان نہ کرسکے۔ ورنہ خدا نے اپنے خاص بندوں کے ذریعہ جو ہدایت کھولی تھی وہ اتنی واضح تھی کہ کوئی شخص حقیقتِ حال سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر ان کی دنیا پرستی ان کی آنکھوں کا پردہ بن گئی۔ جاننے کے باوجود انھوں نے نہ جانا۔ سننے کے باوجود انھوں نے نہ سنا۔ آخرت میں وہ مصنوعی سہارے ان سے چھن جائیں گے جن کے بل پر وہ حقیقت سے بے پروا بنے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کو نظر آجائے گا کہ کس طرح ایسا ہوا کہ حق ان کے سامنے آیا مگر انھوں نے جھوٹے الفاظ بول کر اس کو رد کردیا۔ کس طرح ان کی غلطی ان پر واضح کی گئی مگر خوبصورت تاویل کرکے انھوں نے سمجھا کہ اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔

ذَٰلِكَ أَنْ لَمْ يَكُنْ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا غَافِلُونَ

📘 کسی کے گمراہ کرنے سے جب کوئی شخص گمراہ ہوتا ہے تو یہ يک طرفہ معاملہ نہیں ہوتا۔ دونوں اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنا مقصد پورا کررہے ہیں۔ شیطان جب آدمی کو سبز باغ دکھا کر اپنی طرف لے جاتا ہے تو وہ اپنے اس چیلنج کو صحیح ثابت کرنا چاہتاہے، جو اس نے آغاز تخلیق میں خدا کو دیا تھا کہ میں تیری مخلوق کے بڑے حصہ کو اپنا ہم نوا بنالوں گا(بنی اسرائیل، 17:61 ) دوسری طرف جو لوگ اپنے آپ کو شیطان کے حوالے کرتے ہیں ان کے سامنے بھی واضح مفادات ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ جنوں کے نام پر اپنے سحر کے کاروبار کو فروغ دیتے ہیں یا اپنی شاعری اور کہانت کا رشتہ کسی جنّی استاد سے جوڑ کر عوام کے اوپر اپنی برتری قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام تحریکیں جو شیطانی ترغیبات کے تحت اٹھتی ہیں، ان کا ساتھ دینے والے بھی اسی ليے ان کا ساتھ دیتے ہیں کہ ان کو امید ہوتی ہے کہ اس طرح عوام کے اوپر آسانی کے ساتھ وہ اپنی قیادت قائم کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے مقابلہ میں شیطانی نعرے ہمیشہ عوام کی بھیڑ کے لیے زیادہ پرکشش ثابت ہوئے ہیں۔ قیامت میں جب حقیقتوں سے پردہ اٹھایا جائے گا تو یہ بات کھل جائے گی کہ جو لوگ بے راہ ہوئے یا جنھوں نے دوسروں کو بے راہ کیا انھوںنے کسی غلط فہمی کی بنا پر ایسا نہیں کیا۔ اس کی وجہ حق کو نظر انداز کرنا تھا، نہ کہ حق سے بے خبر رہنا۔ وہ دنیوی تماشوں سے اوپر نہ اٹھ سکے، وہ وقتی فائدوں کو قربان نہ کرسکے۔ ورنہ خدا نے اپنے خاص بندوں کے ذریعہ جو ہدایت کھولی تھی وہ اتنی واضح تھی کہ کوئی شخص حقیقتِ حال سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا۔ مگر ان کی دنیا پرستی ان کی آنکھوں کا پردہ بن گئی۔ جاننے کے باوجود انھوں نے نہ جانا۔ سننے کے باوجود انھوں نے نہ سنا۔ آخرت میں وہ مصنوعی سہارے ان سے چھن جائیں گے جن کے بل پر وہ حقیقت سے بے پروا بنے ہوئے تھے۔ اس وقت ان کو نظر آجائے گا کہ کس طرح ایسا ہوا کہ حق ان کے سامنے آیا مگر انھوں نے جھوٹے الفاظ بول کر اس کو رد کردیا۔ کس طرح ان کی غلطی ان پر واضح کی گئی مگر خوبصورت تاویل کرکے انھوں نے سمجھا کہ اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے ہیں۔

وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۚ وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

📘 دنیا کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے مرتبہ میں فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ٹھیک اس تناسب سے ہوتا ہے جو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کی جدوجہد میں پایا جاتا ہے۔ کسی آدمی کی دانش مندی، اس کی محنت، مصلحتوں کے ساتھ اس کی رعایت جس درجہ کی ہوتی ہے اسی درجہ کی کامیابی اس کو یہاں حاصل ہوتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ آخرت کا بھی ہے۔ آخرت میں درجات اور مقامات کی تقسیم ٹھیک اسی تناسب سے ہوگی، جس تناسب سے کسی آدمی نے دنیا میں اس کے ليے عمل کیا ہے۔ آخرت کے ليے بھی آدمی کو اسی طرح وقت اور مال خرچ کرنا ہے، جس طرح وہ دنیا کے ليے اپنے وقت اور مال کو خرچ کرتاہے۔ آخرت کے معاملہ میں بھی اس کو اسی طرح ہوشیاری دکھانی ہے، جس طرح وہ دنیا کے معاملہ میں ہوشیاری دکھاتا ہے۔ آخرت کی باتوں میں بھی اس کو مصلحتوں اور نزاکتوں کی اسی طرح رعایت کرنا ہے جس طرح وہ دنیا کی باتوں میں مصلحتوں اور نزاکتوں کی رعایت کرتا ہے۔ جس خدا کے ہاتھ میں آخرت کا فیصلہ ہے وہ ایک ایک شخص کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کے ليے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا کہ وہ ہر ایک کو وہی دے جو اس کے استحقاق کے بقدر اس کو ملنا چاہيے۔ خدا نے امتحان اور عمل کی یہ جو دنیا بنائی ہے اس کے ذریعہ اس نے انسان کے ليے ایک قیمتی امکان کھولا ہے۔ وہ چند دن کی زندگی میں اچھے عمل کا ثبوت دے کر ابدی زندگی میں اس کا انجام پاسکتا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے سے خدا کا اپنا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ لوگ اگر اس کے تخلیقی منصوبہ کو قبول نہ کریں تو خدا کو اس کی پروا نہیں۔ وہ ان کی جگہ دوسروں کو اٹھا سکتا ہے، جو اس کے تخلیقی منصوبہ کو مانیں اور اپنے آپ کو اس کے ساتھ کریں۔ حتی کہ وہ ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کو اپنے وفادار بندوں کی حیثیت سے کھڑا کرسکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سراسر حق اور انصاف پر قائم ہو وہاں ظالموں اور سرکشوں کو چھوٹ ملنا خود ہی بتارہا ہے کہ یہ چھوٹ کوئی انعام نہیں ہے بلکہ ان کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لیے ہے۔ جو شخص حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور ا س کے باوجود بظاہر اس کا کچھ نہیں بگڑتا اس کو اس صورت حال پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حالت سراسر وقتی ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ آدمی سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے جس کے بل پر وہ سرکشی کررہا ہے اور اس کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی بربادی میں ڈال دیا جائے جہاں سے کبھی اسے نکلنا نہ ہو۔جہاں نہ دوبارہ عمل کا موقع ہو اور نہ اپنے عمل کے انجام سے اپنے کو بچانے کا۔

وَرَبُّكَ الْغَنِيُّ ذُو الرَّحْمَةِ ۚ إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِكُمْ مَا يَشَاءُ كَمَا أَنْشَأَكُمْ مِنْ ذُرِّيَّةِ قَوْمٍ آخَرِينَ

📘 دنیا کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے مرتبہ میں فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ٹھیک اس تناسب سے ہوتا ہے جو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کی جدوجہد میں پایا جاتا ہے۔ کسی آدمی کی دانش مندی، اس کی محنت، مصلحتوں کے ساتھ اس کی رعایت جس درجہ کی ہوتی ہے اسی درجہ کی کامیابی اس کو یہاں حاصل ہوتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ آخرت کا بھی ہے۔ آخرت میں درجات اور مقامات کی تقسیم ٹھیک اسی تناسب سے ہوگی، جس تناسب سے کسی آدمی نے دنیا میں اس کے ليے عمل کیا ہے۔ آخرت کے ليے بھی آدمی کو اسی طرح وقت اور مال خرچ کرنا ہے، جس طرح وہ دنیا کے ليے اپنے وقت اور مال کو خرچ کرتاہے۔ آخرت کے معاملہ میں بھی اس کو اسی طرح ہوشیاری دکھانی ہے، جس طرح وہ دنیا کے معاملہ میں ہوشیاری دکھاتا ہے۔ آخرت کی باتوں میں بھی اس کو مصلحتوں اور نزاکتوں کی اسی طرح رعایت کرنا ہے جس طرح وہ دنیا کی باتوں میں مصلحتوں اور نزاکتوں کی رعایت کرتا ہے۔ جس خدا کے ہاتھ میں آخرت کا فیصلہ ہے وہ ایک ایک شخص کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کے ليے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا کہ وہ ہر ایک کو وہی دے جو اس کے استحقاق کے بقدر اس کو ملنا چاہيے۔ خدا نے امتحان اور عمل کی یہ جو دنیا بنائی ہے اس کے ذریعہ اس نے انسان کے ليے ایک قیمتی امکان کھولا ہے۔ وہ چند دن کی زندگی میں اچھے عمل کا ثبوت دے کر ابدی زندگی میں اس کا انجام پاسکتا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے سے خدا کا اپنا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ لوگ اگر اس کے تخلیقی منصوبہ کو قبول نہ کریں تو خدا کو اس کی پروا نہیں۔ وہ ان کی جگہ دوسروں کو اٹھا سکتا ہے، جو اس کے تخلیقی منصوبہ کو مانیں اور اپنے آپ کو اس کے ساتھ کریں۔ حتی کہ وہ ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کو اپنے وفادار بندوں کی حیثیت سے کھڑا کرسکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سراسر حق اور انصاف پر قائم ہو وہاں ظالموں اور سرکشوں کو چھوٹ ملنا خود ہی بتارہا ہے کہ یہ چھوٹ کوئی انعام نہیں ہے بلکہ ان کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لیے ہے۔ جو شخص حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور ا س کے باوجود بظاہر اس کا کچھ نہیں بگڑتا اس کو اس صورت حال پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حالت سراسر وقتی ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ آدمی سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے جس کے بل پر وہ سرکشی کررہا ہے اور اس کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی بربادی میں ڈال دیا جائے جہاں سے کبھی اسے نکلنا نہ ہو۔جہاں نہ دوبارہ عمل کا موقع ہو اور نہ اپنے عمل کے انجام سے اپنے کو بچانے کا۔

إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ ۖ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ

📘 دنیا کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے مرتبہ میں فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ٹھیک اس تناسب سے ہوتا ہے جو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کی جدوجہد میں پایا جاتا ہے۔ کسی آدمی کی دانش مندی، اس کی محنت، مصلحتوں کے ساتھ اس کی رعایت جس درجہ کی ہوتی ہے اسی درجہ کی کامیابی اس کو یہاں حاصل ہوتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ آخرت کا بھی ہے۔ آخرت میں درجات اور مقامات کی تقسیم ٹھیک اسی تناسب سے ہوگی، جس تناسب سے کسی آدمی نے دنیا میں اس کے ليے عمل کیا ہے۔ آخرت کے ليے بھی آدمی کو اسی طرح وقت اور مال خرچ کرنا ہے، جس طرح وہ دنیا کے ليے اپنے وقت اور مال کو خرچ کرتاہے۔ آخرت کے معاملہ میں بھی اس کو اسی طرح ہوشیاری دکھانی ہے، جس طرح وہ دنیا کے معاملہ میں ہوشیاری دکھاتا ہے۔ آخرت کی باتوں میں بھی اس کو مصلحتوں اور نزاکتوں کی اسی طرح رعایت کرنا ہے جس طرح وہ دنیا کی باتوں میں مصلحتوں اور نزاکتوں کی رعایت کرتا ہے۔ جس خدا کے ہاتھ میں آخرت کا فیصلہ ہے وہ ایک ایک شخص کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کے ليے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا کہ وہ ہر ایک کو وہی دے جو اس کے استحقاق کے بقدر اس کو ملنا چاہيے۔ خدا نے امتحان اور عمل کی یہ جو دنیا بنائی ہے اس کے ذریعہ اس نے انسان کے ليے ایک قیمتی امکان کھولا ہے۔ وہ چند دن کی زندگی میں اچھے عمل کا ثبوت دے کر ابدی زندگی میں اس کا انجام پاسکتا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے سے خدا کا اپنا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ لوگ اگر اس کے تخلیقی منصوبہ کو قبول نہ کریں تو خدا کو اس کی پروا نہیں۔ وہ ان کی جگہ دوسروں کو اٹھا سکتا ہے، جو اس کے تخلیقی منصوبہ کو مانیں اور اپنے آپ کو اس کے ساتھ کریں۔ حتی کہ وہ ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کو اپنے وفادار بندوں کی حیثیت سے کھڑا کرسکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سراسر حق اور انصاف پر قائم ہو وہاں ظالموں اور سرکشوں کو چھوٹ ملنا خود ہی بتارہا ہے کہ یہ چھوٹ کوئی انعام نہیں ہے بلکہ ان کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لیے ہے۔ جو شخص حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور ا س کے باوجود بظاہر اس کا کچھ نہیں بگڑتا اس کو اس صورت حال پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حالت سراسر وقتی ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ آدمی سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے جس کے بل پر وہ سرکشی کررہا ہے اور اس کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی بربادی میں ڈال دیا جائے جہاں سے کبھی اسے نکلنا نہ ہو۔جہاں نہ دوبارہ عمل کا موقع ہو اور نہ اپنے عمل کے انجام سے اپنے کو بچانے کا۔

قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

📘 دنیا کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اور دوسرے شخص کے مرتبہ میں فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ٹھیک اس تناسب سے ہوتا ہے جو ایک آدمی اور دوسرے آدمی کی جدوجہد میں پایا جاتا ہے۔ کسی آدمی کی دانش مندی، اس کی محنت، مصلحتوں کے ساتھ اس کی رعایت جس درجہ کی ہوتی ہے اسی درجہ کی کامیابی اس کو یہاں حاصل ہوتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ آخرت کا بھی ہے۔ آخرت میں درجات اور مقامات کی تقسیم ٹھیک اسی تناسب سے ہوگی، جس تناسب سے کسی آدمی نے دنیا میں اس کے ليے عمل کیا ہے۔ آخرت کے ليے بھی آدمی کو اسی طرح وقت اور مال خرچ کرنا ہے، جس طرح وہ دنیا کے ليے اپنے وقت اور مال کو خرچ کرتاہے۔ آخرت کے معاملہ میں بھی اس کو اسی طرح ہوشیاری دکھانی ہے، جس طرح وہ دنیا کے معاملہ میں ہوشیاری دکھاتا ہے۔ آخرت کی باتوں میں بھی اس کو مصلحتوں اور نزاکتوں کی اسی طرح رعایت کرنا ہے جس طرح وہ دنیا کی باتوں میں مصلحتوں اور نزاکتوں کی رعایت کرتا ہے۔ جس خدا کے ہاتھ میں آخرت کا فیصلہ ہے وہ ایک ایک شخص کے احوال سے پوری طرح باخبر ہے۔ اس کے ليے کچھ بھی مشکل نہ ہوگا کہ وہ ہر ایک کو وہی دے جو اس کے استحقاق کے بقدر اس کو ملنا چاہيے۔ خدا نے امتحان اور عمل کی یہ جو دنیا بنائی ہے اس کے ذریعہ اس نے انسان کے ليے ایک قیمتی امکان کھولا ہے۔ وہ چند دن کی زندگی میں اچھے عمل کا ثبوت دے کر ابدی زندگی میں اس کا انجام پاسکتا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے سے خدا کا اپنا کوئی فائدہ نہیں۔ موجودہ لوگ اگر اس کے تخلیقی منصوبہ کو قبول نہ کریں تو خدا کو اس کی پروا نہیں۔ وہ ان کی جگہ دوسروں کو اٹھا سکتا ہے، جو اس کے تخلیقی منصوبہ کو مانیں اور اپنے آپ کو اس کے ساتھ کریں۔ حتی کہ وہ ریگستان کے ذروں اور درخت کے پتوں کو اپنے وفادار بندوں کی حیثیت سے کھڑا کرسکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جو سراسر حق اور انصاف پر قائم ہو وہاں ظالموں اور سرکشوں کو چھوٹ ملنا خود ہی بتارہا ہے کہ یہ چھوٹ کوئی انعام نہیں ہے بلکہ ان کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے کے لیے ہے۔ جو شخص حق کو ماننے سے انکار کرتا ہے اور ا س کے باوجود بظاہر اس کا کچھ نہیں بگڑتا اس کو اس صورت حال پر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ یہ حالت سراسر وقتی ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ آدمی سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے جس کے بل پر وہ سرکشی کررہا ہے اور اس کو ہمیشہ کے لیے ایک ایسی بربادی میں ڈال دیا جائے جہاں سے کبھی اسے نکلنا نہ ہو۔جہاں نہ دوبارہ عمل کا موقع ہو اور نہ اپنے عمل کے انجام سے اپنے کو بچانے کا۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ مِمَّا ذَرَأَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْأَنْعَامِ نَصِيبًا فَقَالُوا هَٰذَا لِلَّهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَٰذَا لِشُرَكَائِنَا ۖ فَمَا كَانَ لِشُرَكَائِهِمْ فَلَا يَصِلُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَا كَانَ لِلَّهِ فَهُوَ يَصِلُ إِلَىٰ شُرَكَائِهِمْ ۗ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ

📘 مشرکین میں یہ رواج تھا کہ وہ فصل اور مویشی میں سے اللہ کا اور بتوں کا حصہ نکالتے۔ اگر وہ دیکھتے کہ خدا کے حصہ کا جانور یا غلہ اچھا ہے تو ا س کو بدل کر بتوں کی طرف کردیتے۔ مگر بتوں کا اچھا ہوتا تو اس کو خدا کی طرف نہ کرتے۔پیداوار کی تقسیم کے وقت بتوں کے نام کا کچھ حصہ اتفاقاً اللہ کے حصہ میں مل جاتا تو اس کو الگ کرکے بتوں کی طرف لوٹا دیتے۔ اور اللہ کے نام کا کچھ حصہ بتوں کی طرف چلا جاتا تو اس کو نہ لوٹاتے۔ اسی طرح اگر کبھی نذر ونیاز کا غلہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصہ لے لیتے مگر بتوں کے حصہ کو نہ چھوتے۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل ہوجائے۔ کہنے کے ليے وہ خدا کو مانتے تھے مگر ان کا اصل یقین اپنے بتوں کے اوپر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی محسوس بتوں کو اسی ليے گھڑتا ہے کہ اس کو غیر محسوس خدا پر پورا بھروسہ نہیں ہوتا۔ یہی حال ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو زبان سے تو اللہ کو مانتا ہومگر اس کا دل اللہ کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ جو لوگ کسی زندہ یا مردہ ہستی کو اپنی عقیدتوں کا مرکز بنالیں ان کا حال بھی یہی ہوتا ہے کہ جو وقت ان کے یہاں خدا کی یاد کا ہے اس میں تو وہ اپنے ’’شریک‘‘ کی یاد کو شامل کرلیتے ہیں۔ مگر جو وقت ان کے نزدیک اپنے شریک کی یاد کا ہے اس میں خدا کا تذکرہ انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ شیفتگی اور وارفتگی کا جو حصہ خدا کے لیے ہونا چاہیے اس کا کوئی جزء وہ بآسانی اپنے شریکوں کو دے دیں گے۔ مگر اپنے شریک کے ليے وہ جس شیفتگی اور وارفتگی کو ضروری سمجھتے ہیں اس کا کوئی حصہ کبھی خدا کو نہیں پہنچے گا۔ جو مجلس خدا کی عظمت وکبریائی بیان کرنے کے ليے منعقد کی جائے اس میں ان کے شریکوں کی عظمت وکبریائی کا بیان تو کسی نہ کسی طرح داخل ہوجائے گا۔ مگر جو مجلس اپنے شریکوں کی عظمت و کبریائی کا چرچا کرنے کے ليے ہو وہاں خدا کی عظمت وکبریائی کا کوئی گزر نہ ہوگا۔ ان شریکوں کی اہمیت کبھی ذہن پر اتنا زیادہ غالب آتی ہے کہ آدمی اپنی اولاد تک کو اس کے ليے نثار کردیتا ہے۔ اپنی اولاد کو خدا کے ليے پیش کرنا ہو تو وہ پیش نہیں کرے گا مگر اپنے شریکوں کی خدمت میں انھیں دینا ہو تو وہ بخوشی اس کے ليے آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی تمام چیزیں خدا کے دین کے نام پر کی جاتی ہیں مگر حقیقۃً وہ افترا ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک ایسی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرنا ہے جس كا حكم خدا نے نهيں ديا۔

وَكَذَٰلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرْدُوهُمْ وَلِيَلْبِسُوا عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ ۖ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ

📘 مشرکین میں یہ رواج تھا کہ وہ فصل اور مویشی میں سے اللہ کا اور بتوں کا حصہ نکالتے۔ اگر وہ دیکھتے کہ خدا کے حصہ کا جانور یا غلہ اچھا ہے تو ا س کو بدل کر بتوں کی طرف کردیتے۔ مگر بتوں کا اچھا ہوتا تو اس کو خدا کی طرف نہ کرتے۔پیداوار کی تقسیم کے وقت بتوں کے نام کا کچھ حصہ اتفاقاً اللہ کے حصہ میں مل جاتا تو اس کو الگ کرکے بتوں کی طرف لوٹا دیتے۔ اور اللہ کے نام کا کچھ حصہ بتوں کی طرف چلا جاتا تو اس کو نہ لوٹاتے۔ اسی طرح اگر کبھی نذر ونیاز کا غلہ خود استعمال کرنے کی ضرورت پیش آجاتی تو خدا کا حصہ لے لیتے مگر بتوں کے حصہ کو نہ چھوتے۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی بلا نازل ہوجائے۔ کہنے کے ليے وہ خدا کو مانتے تھے مگر ان کا اصل یقین اپنے بتوں کے اوپر تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی محسوس بتوں کو اسی ليے گھڑتا ہے کہ اس کو غیر محسوس خدا پر پورا بھروسہ نہیں ہوتا۔ یہی حال ہر اس شخص کا ہوتا ہے جو زبان سے تو اللہ کو مانتا ہومگر اس کا دل اللہ کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ جو لوگ کسی زندہ یا مردہ ہستی کو اپنی عقیدتوں کا مرکز بنالیں ان کا حال بھی یہی ہوتا ہے کہ جو وقت ان کے یہاں خدا کی یاد کا ہے اس میں تو وہ اپنے ’’شریک‘‘ کی یاد کو شامل کرلیتے ہیں۔ مگر جو وقت ان کے نزدیک اپنے شریک کی یاد کا ہے اس میں خدا کا تذکرہ انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ شیفتگی اور وارفتگی کا جو حصہ خدا کے لیے ہونا چاہیے اس کا کوئی جزء وہ بآسانی اپنے شریکوں کو دے دیں گے۔ مگر اپنے شریک کے ليے وہ جس شیفتگی اور وارفتگی کو ضروری سمجھتے ہیں اس کا کوئی حصہ کبھی خدا کو نہیں پہنچے گا۔ جو مجلس خدا کی عظمت وکبریائی بیان کرنے کے ليے منعقد کی جائے اس میں ان کے شریکوں کی عظمت وکبریائی کا بیان تو کسی نہ کسی طرح داخل ہوجائے گا۔ مگر جو مجلس اپنے شریکوں کی عظمت و کبریائی کا چرچا کرنے کے ليے ہو وہاں خدا کی عظمت وکبریائی کا کوئی گزر نہ ہوگا۔ ان شریکوں کی اہمیت کبھی ذہن پر اتنا زیادہ غالب آتی ہے کہ آدمی اپنی اولاد تک کو اس کے ليے نثار کردیتا ہے۔ اپنی اولاد کو خدا کے ليے پیش کرنا ہو تو وہ پیش نہیں کرے گا مگر اپنے شریکوں کی خدمت میں انھیں دینا ہو تو وہ بخوشی اس کے ليے آمادہ ہوجاتا ہے۔ اس قسم کی تمام چیزیں خدا کے دین کے نام پر کی جاتی ہیں مگر حقیقۃً وہ افترا ہیں۔ کیوں کہ وہ ایک ایسی چیز کو خدا کی طرف منسوب کرنا ہے جس كا حكم خدا نے نهيں ديا۔

وَقَالُوا هَٰذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَاءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ ۚ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 قدیم عرب کے لوگ اپنے مذہب کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ مگر عملاً ان کے یہاں جو مذہب تھا وہ ایک خود ساختہ مذہب تھا جو ان کے پیشواؤں نے گھڑ کر ان کے درمیان رائج کردیا تھا۔ پیداوار اور چوپایوں کی جو نذریں خدایا اس کے شریکوں کے نام پر پیش ہوتیں ان کے لیے ان کے یہاں بہت سی کڑی پابندیاں تھیں۔ مثلاً بحیرہ یا سائبہ (جانوروں) کو اگر ذبح کیا اور ا س کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو اس کا گوشت صرف مرد کھائیں، عورتيں نه كھائيں۔ اور اگر بچہ مردہ حالت میں ہو تو اس کو مرد عورت دونوں کھاسکتے ہیں۔ اسی طرح بعض جانوروں کی پیٹھ پر سوار ہونا یا ان کے اوپر بوجھ لادنا ان کے نزدیک حرام تھا۔ بعض جانوروں کی نسبت ان کا عقیدہ تھا کہ ان پر سوار ہوتے وقت یا ان کو ذبح کرتے وقت یا ان کا د ودھ نکالتے وقت خدا کانام نہیں لینا چاہیے۔ ایسے لوگ دین کے اصل تقاضے (اللہ سے تعلق اور آخرت کی فکر)سے انتہائی حد تک دور ہوتے ہیں۔وہ روزانہ اللہ کے حدود کو توڑتے رہتے ہیں۔ البتہ کچھ غیر متعلق ظاہری چیزوں میں تشدد کی حد تک قواعد وضوابط کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ شیطان کی نہایت گہری چال ہے۔ وہ لوگوں کو اصل دین سے دور کرکے کچھ دوسری چیزوں کو دین کے نام پر ان کے درمیان جاری کردیتا ہے اور ان میں شدت کی نفسیات پیدا کرکے آدمی کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ وہ کمالِ احتیاط کی حد تک خدا کے دین پر قائم ہے۔ عبادت کے ظواہر میںتشدد بھی اسی خاص نفسیات کی پیداوار ہے۔ آدمی خشوع اور تضرع سے خالی ہوتا ہے اور بعض ظاہری آداب کا شدید التزام کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے کمال ادائیگی کی حد تک عبادت کا فعل انجام دے دیا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی گمراہی اس سے واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے قتلِ اولاد جیسے وحشیانہ فعل کو درست سمجھ لیا۔ وہ خدا کے پاکیزہ رزق سے لوگوں کو محروم کردیتے ہیں۔ وہ معمولی مسائل پر لڑتے رہتے ہیں اور ان بڑی چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کی اہمیت کو عقل عام کے ذریعے سمجھا جاسکتاہے۔

وَقَالُوا مَا فِي بُطُونِ هَٰذِهِ الْأَنْعَامِ خَالِصَةٌ لِذُكُورِنَا وَمُحَرَّمٌ عَلَىٰ أَزْوَاجِنَا ۖ وَإِنْ يَكُنْ مَيْتَةً فَهُمْ فِيهِ شُرَكَاءُ ۚ سَيَجْزِيهِمْ وَصْفَهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

📘 قدیم عرب کے لوگ اپنے مذہب کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ مگر عملاً ان کے یہاں جو مذہب تھا وہ ایک خود ساختہ مذہب تھا جو ان کے پیشواؤں نے گھڑ کر ان کے درمیان رائج کردیا تھا۔ پیداوار اور چوپایوں کی جو نذریں خدایا اس کے شریکوں کے نام پر پیش ہوتیں ان کے لیے ان کے یہاں بہت سی کڑی پابندیاں تھیں۔ مثلاً بحیرہ یا سائبہ (جانوروں) کو اگر ذبح کیا اور ا س کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو اس کا گوشت صرف مرد کھائیں، عورتيں نه كھائيں۔ اور اگر بچہ مردہ حالت میں ہو تو اس کو مرد عورت دونوں کھاسکتے ہیں۔ اسی طرح بعض جانوروں کی پیٹھ پر سوار ہونا یا ان کے اوپر بوجھ لادنا ان کے نزدیک حرام تھا۔ بعض جانوروں کی نسبت ان کا عقیدہ تھا کہ ان پر سوار ہوتے وقت یا ان کو ذبح کرتے وقت یا ان کا د ودھ نکالتے وقت خدا کانام نہیں لینا چاہیے۔ ایسے لوگ دین کے اصل تقاضے (اللہ سے تعلق اور آخرت کی فکر)سے انتہائی حد تک دور ہوتے ہیں۔وہ روزانہ اللہ کے حدود کو توڑتے رہتے ہیں۔ البتہ کچھ غیر متعلق ظاہری چیزوں میں تشدد کی حد تک قواعد وضوابط کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ شیطان کی نہایت گہری چال ہے۔ وہ لوگوں کو اصل دین سے دور کرکے کچھ دوسری چیزوں کو دین کے نام پر ان کے درمیان جاری کردیتا ہے اور ان میں شدت کی نفسیات پیدا کرکے آدمی کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ وہ کمالِ احتیاط کی حد تک خدا کے دین پر قائم ہے۔ عبادت کے ظواہر میںتشدد بھی اسی خاص نفسیات کی پیداوار ہے۔ آدمی خشوع اور تضرع سے خالی ہوتا ہے اور بعض ظاہری آداب کا شدید التزام کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے کمال ادائیگی کی حد تک عبادت کا فعل انجام دے دیا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی گمراہی اس سے واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے قتلِ اولاد جیسے وحشیانہ فعل کو درست سمجھ لیا۔ وہ خدا کے پاکیزہ رزق سے لوگوں کو محروم کردیتے ہیں۔ وہ معمولی مسائل پر لڑتے رہتے ہیں اور ان بڑی چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کی اہمیت کو عقل عام کے ذریعے سمجھا جاسکتاہے۔

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 انسان کھلے ہوئے حق کا انکار کرتاہے۔ وہ طاقت پاکر دوسروں کو ذلیل کرتاہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا انسان کو اس دنیا میں مطلق اقتدار حاصل ہے۔ کیا یہاں اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کیا خدا کے یہاں تضاد ہے کہ اس نے بقیہ دنیا كو رحمت ومعنویت سے بھر رکھا ہے اور انسان کی دنیا کو ظلم اور بے انصافی سے۔ ایسا نہیں ہے۔ جو خدا زمین و آسمان کامالک ہے وہی خدا س مخلوق کا مالک بھی ہے جو دن کو متحرک ہوتی ہے اور راتوں کو قرار پکڑتی ہے۔ خدا جس طرح بقیہ کائنات کے لیے سراپا رحمت ہے اسی طرح وہ انسانوں کے لیے بھی سراپا رحمت ہے۔ فرق یہ ہے کہ بقیہ دنیا میں خدا کی رحمتوں کا ظہور اول دن سے ہے اور انسان کی دنیا میں اس کی رحمتوں کا کامل ظہور قیامت کے دن ہوگا۔ انسان ارادی مخلوق ہے اور اس سے ارادی عبادت مطلوب ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ کا صحیح استعمال نہ کریں، وہ اس قابل نہیں کہ ان کو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار بنایا جائے۔كیوں کہ انھوںنے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا نہ کیا۔ آزمائشی مدت پوری ہونے کے بعد سارے لوگ ایک نئی دنیا میں جمع كيے جائیں گے۔ اس دن خدا اسی طرح دنیا کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس روز خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا۔ اس دن وہ لوگ سرفراز ہوں گے جنھوںنے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرکے اپنے کو خدائی اطاعت میں دے دیا۔ اور وہ لوگ گھاٹے میں رہیں گے جنھوں نے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہیں کیا اور خدا کی دنیا میں سرکشی اور ہٹ دھرمی کے طریقے پر چلتے رہے۔ انسان جب بھی سرکشی کرتاہے کسی آسرے پر کرتا ہے۔ مگر جن چیزوں کے آسرے پر انسان سرکشی کرتا ہے ان کی اس کائنات میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہاں ہر چيزبے زور ہے، زور والا صرف ایک خدا ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس لیے فیصلہ کے دن وہی شخص بامراد ہوگا جس نے حقیقی سہارے کو اپنا سہارا بنایا ہوگا، جس نے حقیقی دین کو اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے اختیار کیاہوگا۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ وَحَرَّمُوا مَا رَزَقَهُمُ اللَّهُ افْتِرَاءً عَلَى اللَّهِ ۚ قَدْ ضَلُّوا وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

📘 قدیم عرب کے لوگ اپنے مذہب کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی طرف منسوب کرتے تھے۔ مگر عملاً ان کے یہاں جو مذہب تھا وہ ایک خود ساختہ مذہب تھا جو ان کے پیشواؤں نے گھڑ کر ان کے درمیان رائج کردیا تھا۔ پیداوار اور چوپایوں کی جو نذریں خدایا اس کے شریکوں کے نام پر پیش ہوتیں ان کے لیے ان کے یہاں بہت سی کڑی پابندیاں تھیں۔ مثلاً بحیرہ یا سائبہ (جانوروں) کو اگر ذبح کیا اور ا س کے پیٹ سے زندہ بچہ نکلا تو اس کا گوشت صرف مرد کھائیں، عورتيں نه كھائيں۔ اور اگر بچہ مردہ حالت میں ہو تو اس کو مرد عورت دونوں کھاسکتے ہیں۔ اسی طرح بعض جانوروں کی پیٹھ پر سوار ہونا یا ان کے اوپر بوجھ لادنا ان کے نزدیک حرام تھا۔ بعض جانوروں کی نسبت ان کا عقیدہ تھا کہ ان پر سوار ہوتے وقت یا ان کو ذبح کرتے وقت یا ان کا د ودھ نکالتے وقت خدا کانام نہیں لینا چاہیے۔ ایسے لوگ دین کے اصل تقاضے (اللہ سے تعلق اور آخرت کی فکر)سے انتہائی حد تک دور ہوتے ہیں۔وہ روزانہ اللہ کے حدود کو توڑتے رہتے ہیں۔ البتہ کچھ غیر متعلق ظاہری چیزوں میں تشدد کی حد تک قواعد وضوابط کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ شیطان کی نہایت گہری چال ہے۔ وہ لوگوں کو اصل دین سے دور کرکے کچھ دوسری چیزوں کو دین کے نام پر ان کے درمیان جاری کردیتا ہے اور ان میں شدت کی نفسیات پیدا کرکے آدمی کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ وہ کمالِ احتیاط کی حد تک خدا کے دین پر قائم ہے۔ عبادت کے ظواہر میںتشدد بھی اسی خاص نفسیات کی پیداوار ہے۔ آدمی خشوع اور تضرع سے خالی ہوتا ہے اور بعض ظاہری آداب کا شدید التزام کرکے سمجھتا ہے کہ اس نے کمال ادائیگی کی حد تک عبادت کا فعل انجام دے دیا ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی گمراہی اس سے واضح ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے قتلِ اولاد جیسے وحشیانہ فعل کو درست سمجھ لیا۔ وہ خدا کے پاکیزہ رزق سے لوگوں کو محروم کردیتے ہیں۔ وہ معمولی مسائل پر لڑتے رہتے ہیں اور ان بڑی چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کی اہمیت کو عقل عام کے ذریعے سمجھا جاسکتاہے۔

۞ وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ جَنَّاتٍ مَعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۚ كُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ۖ وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ

📘 خدا نے انسان کے ليے طرح طرح کی غذائیں پیدا کی ہیں۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو زمین میں پھیلتی ہیں۔ مثلاً خربوزے، سبزیاں وغیرہ۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ مثلاً انگور وغیرہ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اپنے تنا پر کھڑی رہتی ہیں۔ مثلاً کھجور، آم وغیرہ۔ اسی طرح آدمی کی ضرورت کے لیے مختلف قسم کے چھوٹے بڑے جانور پیدا كيے۔ مثلاً اونٹ گھوڑے اور بھیڑ بکریاں۔ آدمی ایک علیٰحدہ مخلوق ہے اور بقیہ چیزیں علیٰحدہ مخلوق۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ پیدا ہوئے ہیں۔ مگر انسان دیکھتا ہے کہ دونوں میں زبردست ہم آہنگی ہے۔ آدمی کے جسم کو اگر غذائیت درکار ہے تو اس کے باہر ہرے بھرے درختوں میں حیرت انگیز قسم کے غذائی پیکٹ لٹک رہے ہیں۔ اگر اس کی زبان میں مزه كا احساس پايا جاتا هے تو پھلوں كے اندر اس كي تسكين كا اعليٰ سامان موجود هے۔ اگر اس كي آنكھوں ميں حسنِ نظر کا ذوق ہے تو قدرت کا پورا کارخانہ حسن اور دل کشی کا مرقع بنا ہوا ہے۔ اگر اس کو سواری اور بار برداری کے ذرائع درکار ہیں تو یہاں ایسے جانور موجود ہیں جو اس کے ليے نقل وحمل کا ذریعہ بھی بنیں اور اسی کے ساتھ اس کے ليے قیمتی غذا بھی فراہم کریں۔ اس طرح کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ توحید کا اعلان بن گئی ہے۔ کیوں کہ کائنات کے مختلف مظاہر میں یہ وحدت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کا خالق ومالک ایک ہو۔ آدمی جب دیکھتا ہے کہ اتنا عظیم کائناتی اہتمام اس کے کسی ذاتی استحقاق کے بغیر ہورہا ہے تو اس یک طرفہ انعام پر اس کا دل شکر کے جذبے سے بھر جاتا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ یہ سارا معاملہ آدمی کے لیے تقویٰ کی غذا بن جاتاہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عنایت (privilege) کے ساتھ ذمہ داری (responsibility) ہو۔ یہ چیز آدمی کو جزا وسزا کی یاددلاتی ہے اور اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ دنیا میں اس احساس کے ساتھ رہے کہ ایک دن اس کو خدا کے سامنے حساب کے ليے کھڑا ہونا ہے۔ یہ احساسات اگر حقیقی طورپر آدمی کے اندر جاگ اٹھیں تو لازمی طورپر اس کے اندر دو باتیں پیدا ہوں گی۔ ایک یہ کہ اس کو جو کچھ ملے گا اس میں وہ اپنے مالک کا حق بھی سمجھے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ صرف واقعی ضرورت کے بقدر خرچ کرے گا، نہ کہ فضول ا ور بے موقع خرچ کرنے لگے۔ مگر شیطان یہ کرتا ہے کہ اصل رخ سے آدمی کا ذہن موڑ کر اس کو دوسری غیر متعلق باتوں میں الجھا دیتاہے۔

وَمِنَ الْأَنْعَامِ حَمُولَةً وَفَرْشًا ۚ كُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 خدا نے انسان کے ليے طرح طرح کی غذائیں پیدا کی ہیں۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو زمین میں پھیلتی ہیں۔ مثلاً خربوزے، سبزیاں وغیرہ۔ کچھ چیزیں وہ ہیں جو ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ مثلاً انگور وغیرہ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اپنے تنا پر کھڑی رہتی ہیں۔ مثلاً کھجور، آم وغیرہ۔ اسی طرح آدمی کی ضرورت کے لیے مختلف قسم کے چھوٹے بڑے جانور پیدا كيے۔ مثلاً اونٹ گھوڑے اور بھیڑ بکریاں۔ آدمی ایک علیٰحدہ مخلوق ہے اور بقیہ چیزیں علیٰحدہ مخلوق۔ دونوں ایک دوسرے سے الگ الگ پیدا ہوئے ہیں۔ مگر انسان دیکھتا ہے کہ دونوں میں زبردست ہم آہنگی ہے۔ آدمی کے جسم کو اگر غذائیت درکار ہے تو اس کے باہر ہرے بھرے درختوں میں حیرت انگیز قسم کے غذائی پیکٹ لٹک رہے ہیں۔ اگر اس کی زبان میں مزه كا احساس پايا جاتا هے تو پھلوں كے اندر اس كي تسكين كا اعليٰ سامان موجود هے۔ اگر اس كي آنكھوں ميں حسنِ نظر کا ذوق ہے تو قدرت کا پورا کارخانہ حسن اور دل کشی کا مرقع بنا ہوا ہے۔ اگر اس کو سواری اور بار برداری کے ذرائع درکار ہیں تو یہاں ایسے جانور موجود ہیں جو اس کے ليے نقل وحمل کا ذریعہ بھی بنیں اور اسی کے ساتھ اس کے ليے قیمتی غذا بھی فراہم کریں۔ اس طرح کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ توحید کا اعلان بن گئی ہے۔ کیوں کہ کائنات کے مختلف مظاہر میں یہ وحدت اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کا خالق ومالک ایک ہو۔ آدمی جب دیکھتا ہے کہ اتنا عظیم کائناتی اہتمام اس کے کسی ذاتی استحقاق کے بغیر ہورہا ہے تو اس یک طرفہ انعام پر اس کا دل شکر کے جذبے سے بھر جاتا ہے۔ پھر اسی کے ساتھ یہ سارا معاملہ آدمی کے لیے تقویٰ کی غذا بن جاتاہے۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ ہر عنایت (privilege) کے ساتھ ذمہ داری (responsibility) ہو۔ یہ چیز آدمی کو جزا وسزا کی یاددلاتی ہے اور اس کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ دنیا میں اس احساس کے ساتھ رہے کہ ایک دن اس کو خدا کے سامنے حساب کے ليے کھڑا ہونا ہے۔ یہ احساسات اگر حقیقی طورپر آدمی کے اندر جاگ اٹھیں تو لازمی طورپر اس کے اندر دو باتیں پیدا ہوں گی۔ ایک یہ کہ اس کو جو کچھ ملے گا اس میں وہ اپنے مالک کا حق بھی سمجھے گا۔ دوسرے یہ کہ وہ صرف واقعی ضرورت کے بقدر خرچ کرے گا، نہ کہ فضول ا ور بے موقع خرچ کرنے لگے۔ مگر شیطان یہ کرتا ہے کہ اصل رخ سے آدمی کا ذہن موڑ کر اس کو دوسری غیر متعلق باتوں میں الجھا دیتاہے۔

ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۖ مِنَ الضَّأْنِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ ۖ نَبِّئُونِي بِعِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 عربوں میں گوشت اور دودھ وغیرہ کے ليے جو جانور پائے جاتے تھے ان میں سے چار زیادہ معروف تھے۔ بھیڑ بکری اور اونٹ گائے۔ ان کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے تحریمی قاعدے بناليے تھے۔ مگر ان تحریمی قاعدوں کے پیچھے اپنے مشرکانہ رواجوں کے سوا کوئی دلیل ان کے پاس نہ تھی۔ بھیڑ اور بکری اور اونٹ اور گائے، خواہ نر ہوں یا مادہ، عقلی طورپر کوئی سبب حرمت ان کے اندر موجود نہیں ہے، ان کا تمام کا تمام گوشت انسان کی بہترین غذا ہے۔ ان میں کوئی ایسی ناپاک عادت بھی نہیں جو ان کے بارے میں انسانی طبیعت میں کراہت پیدا کرتی ہو۔ آسمان سے اترے ہوئے علم میں بھی ان کی حرمت کا ذکر نہیں۔ پھر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ان حیوانات کے بارے میں لوگوں کے اندر طرح طرح کے تحریمی قاعدے بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شیطانی ترغیبات ہیں۔ انسان کے اندر فطری طورپر خدا کا شعور اور حر ام وحلال کا احساس موجود ہے۔ آدمی اپنے اندرونی تقاضے کے تحت کسی ہستی کو اپنا خدا بنانا چاہتا ہے اور چیزوں میں جائز ناجائز کا فرق کرنا چاہتا ہے۔ شیطان اس حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کو اگر سادہ حالات میں عمل کرنے کا موقع ملا تو وہ فطرت کے صحیح راستہ کو پکڑ لے گا۔ اس ليے وہ فطرتِ انسانی کو کند کرنے کے لیے طرح طرح کے غلط رواج قائم کرتاہے۔ وہ خدا کے نام پر کچھ فرضی خدا گھڑتا ہے۔ وہ حرام وحلال کے نام پر کچھ بے بنیاد محرمات وضع کرتاہے۔ اس طرح شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی انھیں فرضي چیزوں میں الجھ کر رہ جائے اور اصلی سچائی تک نہ پہنچے۔ وہ سیدھے راستے سے بھٹک چکا ہو۔ مگر بظاہر اپنے کو چلتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھے کہ میں ’’راستہ‘‘ پر ہوں۔ حالاں کہ وہ ایک ٹیڑھی لکیر ہو، نہ کہ سیدھا راستہ۔ جو لوگ اس طرح شیطانی بہکاوے کا شکار ہوں وہ خدا کی نظر میں ظالم ہیں۔ ان کو خدا نے سمجھ دی تھی جس سے وہ حق وباطل میں تمیز کرسکتے تھے۔ مگر ان کے تعصبات ان کے لیے پردہ بن گئے۔ سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود وه سمجھنے سے دور رہے۔

وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنْثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 عربوں میں گوشت اور دودھ وغیرہ کے ليے جو جانور پائے جاتے تھے ان میں سے چار زیادہ معروف تھے۔ بھیڑ بکری اور اونٹ گائے۔ ان کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے تحریمی قاعدے بناليے تھے۔ مگر ان تحریمی قاعدوں کے پیچھے اپنے مشرکانہ رواجوں کے سوا کوئی دلیل ان کے پاس نہ تھی۔ بھیڑ اور بکری اور اونٹ اور گائے، خواہ نر ہوں یا مادہ، عقلی طورپر کوئی سبب حرمت ان کے اندر موجود نہیں ہے، ان کا تمام کا تمام گوشت انسان کی بہترین غذا ہے۔ ان میں کوئی ایسی ناپاک عادت بھی نہیں جو ان کے بارے میں انسانی طبیعت میں کراہت پیدا کرتی ہو۔ آسمان سے اترے ہوئے علم میں بھی ان کی حرمت کا ذکر نہیں۔ پھر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ان حیوانات کے بارے میں لوگوں کے اندر طرح طرح کے تحریمی قاعدے بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شیطانی ترغیبات ہیں۔ انسان کے اندر فطری طورپر خدا کا شعور اور حر ام وحلال کا احساس موجود ہے۔ آدمی اپنے اندرونی تقاضے کے تحت کسی ہستی کو اپنا خدا بنانا چاہتا ہے اور چیزوں میں جائز ناجائز کا فرق کرنا چاہتا ہے۔ شیطان اس حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کو اگر سادہ حالات میں عمل کرنے کا موقع ملا تو وہ فطرت کے صحیح راستہ کو پکڑ لے گا۔ اس ليے وہ فطرتِ انسانی کو کند کرنے کے لیے طرح طرح کے غلط رواج قائم کرتاہے۔ وہ خدا کے نام پر کچھ فرضی خدا گھڑتا ہے۔ وہ حرام وحلال کے نام پر کچھ بے بنیاد محرمات وضع کرتاہے۔ اس طرح شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی انھیں فرضي چیزوں میں الجھ کر رہ جائے اور اصلی سچائی تک نہ پہنچے۔ وہ سیدھے راستے سے بھٹک چکا ہو۔ مگر بظاہر اپنے کو چلتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھے کہ میں ’’راستہ‘‘ پر ہوں۔ حالاں کہ وہ ایک ٹیڑھی لکیر ہو، نہ کہ سیدھا راستہ۔ جو لوگ اس طرح شیطانی بہکاوے کا شکار ہوں وہ خدا کی نظر میں ظالم ہیں۔ ان کو خدا نے سمجھ دی تھی جس سے وہ حق وباطل میں تمیز کرسکتے تھے۔ مگر ان کے تعصبات ان کے لیے پردہ بن گئے۔ سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود وه سمجھنے سے دور رہے۔

قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 عربوں میں گوشت اور دودھ وغیرہ کے ليے جو جانور پائے جاتے تھے ان میں سے چار زیادہ معروف تھے۔ بھیڑ بکری اور اونٹ گائے۔ ان کے بارے میں انھوں نے طرح طرح کے تحریمی قاعدے بناليے تھے۔ مگر ان تحریمی قاعدوں کے پیچھے اپنے مشرکانہ رواجوں کے سوا کوئی دلیل ان کے پاس نہ تھی۔ بھیڑ اور بکری اور اونٹ اور گائے، خواہ نر ہوں یا مادہ، عقلی طورپر کوئی سبب حرمت ان کے اندر موجود نہیں ہے، ان کا تمام کا تمام گوشت انسان کی بہترین غذا ہے۔ ان میں کوئی ایسی ناپاک عادت بھی نہیں جو ان کے بارے میں انسانی طبیعت میں کراہت پیدا کرتی ہو۔ آسمان سے اترے ہوئے علم میں بھی ان کی حرمت کا ذکر نہیں۔ پھر کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ان حیوانات کے بارے میں لوگوں کے اندر طرح طرح کے تحریمی قاعدے بن جاتے ہیں۔ اس کی وجہ شیطانی ترغیبات ہیں۔ انسان کے اندر فطری طورپر خدا کا شعور اور حر ام وحلال کا احساس موجود ہے۔ آدمی اپنے اندرونی تقاضے کے تحت کسی ہستی کو اپنا خدا بنانا چاہتا ہے اور چیزوں میں جائز ناجائز کا فرق کرنا چاہتا ہے۔ شیطان اس حقیقت کو خوب جانتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کو اگر سادہ حالات میں عمل کرنے کا موقع ملا تو وہ فطرت کے صحیح راستہ کو پکڑ لے گا۔ اس ليے وہ فطرتِ انسانی کو کند کرنے کے لیے طرح طرح کے غلط رواج قائم کرتاہے۔ وہ خدا کے نام پر کچھ فرضی خدا گھڑتا ہے۔ وہ حرام وحلال کے نام پر کچھ بے بنیاد محرمات وضع کرتاہے۔ اس طرح شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی انھیں فرضي چیزوں میں الجھ کر رہ جائے اور اصلی سچائی تک نہ پہنچے۔ وہ سیدھے راستے سے بھٹک چکا ہو۔ مگر بظاہر اپنے کو چلتا ہوا دیکھ کر یہ سمجھے کہ میں ’’راستہ‘‘ پر ہوں۔ حالاں کہ وہ ایک ٹیڑھی لکیر ہو، نہ کہ سیدھا راستہ۔ جو لوگ اس طرح شیطانی بہکاوے کا شکار ہوں وہ خدا کی نظر میں ظالم ہیں۔ ان کو خدا نے سمجھ دی تھی جس سے وہ حق وباطل میں تمیز کرسکتے تھے۔ مگر ان کے تعصبات ان کے لیے پردہ بن گئے۔ سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود وه سمجھنے سے دور رہے۔

وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ ۖ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ۚ ذَٰلِكَ جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ ۖ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

📘 شریعتِ خداوندی میں اصل محرمات ہمیشہ وہی رہے ہیں جو اوپر کی آیت میں بیان ہوئے۔ یعنی مردار، بہایا ہوا خون، سور کا گوشت اور وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ اس کے سوا اگر کچھ چیزیں حرام ہیں تو وہ انھیں کی تشریح وتفصیل ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ اللہ کی ایک سنتِ تحریم اور ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی حامل کتاب قوم اطاعت کے بجائے سرکشی کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس کی سرکشی کی سزا کے طورپر اس کو نئی نئی مشکلات میں ڈال دیا جاتاہے۔ اس پر ایسی چیزیں حرام کردی جاتی ہیں جو اصلاً شریعت خداوندی میں حرام نہ تھیں۔ اس حرمت کی شکل کیا ہوتی ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے اندر ایسے پیشوا اٹھتے ہیں جو دین کی حقیقت سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ وہ صرف ظاہری دین داری سے واقف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جو اہتمام دین کی معنوی حقیقتوں میں کرنا چاہیے وہی اہتمام وہ ظاہری آداب وقواعد میں کرنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ظواہرِ دین میں غیر ضروری موشگافیاں وجود میں آتی ہیں۔ ایسے لوگ دین کے خود ساختہ ظاہری معیار وضع کرتے ہیں۔ وہ غلو اور تشدد کرکے سادہ حکم کو پیچیدہ اور جائز چیز کو ناجائز بنا دیتے ہیں۔ مثلاً یہود کے اندر جب سرکشی آئی تو ان کے درمیان ایسے علماء اٹھے جنھوں نے اپنی موشگافیوں سے یہ قاعدہ بنایا کہ کسی چوپایہ کے حلال ہونے کے ليے دوشرطیں بیک وقت ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے پاؤں چرے ہوئے ہوں، دوسري یہ کہ وہ جگالی کرتاہو۔ ان میں سے کوئی ایک شرط بھی اگر نہ پائی جائے تو وہ جانور حرام سمجھا جائے گا۔ اس خود ساختہ شرط کی وجہ سے اونٹ، سافان (cony)اور خرگوش جیسی چیزیں بھی خواہ مخواہ حرام قرار پا گئیں۔ اسی طرح ’’ناخن‘‘ کی تشریح میں غلو کرکے انھوںنے غیر ضروری طورپر شتر مرغ، قاز اور بط وغیرہ کو اپنے ليے حرام کرلیا۔ اس قسم کی غیر فطری بندشوں نے ان کے ليے وہاں تنگی پیدا کردی جہاں خدا نے ان کے ليے فراخی رکھی تھی۔ حق کو نہ ماننے کے بعد آدمی فوراً خدا کی پکڑ میں نہیں آتا۔ وہ بدستور اپنے کو آزاد اور بھر پورپاتا ہے۔ اس بنا پر اکثر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ حق کو نہ ماننے سے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ وہ بھول جاتاہے کہ وہ خدا كے منصوبهٔ تخليق كي حكمت كي وجه سے بچا ہوا ہے۔ خدا آدمی کی سرکشی کے باوجود اس کو آخری حد تک موقع دیتا ہے۔ بالآخر جب وہ اپنی روش کو نہیں بدلتا تو اچانک خدا کا عذاب اس کو اپنی پکڑ میں لے لیتا ہے۔ کبھی دنیا میں اور کبھی دنیا اور آخرت دونوں میں۔

فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ رَبُّكُمْ ذُو رَحْمَةٍ وَاسِعَةٍ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ

📘 شریعتِ خداوندی میں اصل محرمات ہمیشہ وہی رہے ہیں جو اوپر کی آیت میں بیان ہوئے۔ یعنی مردار، بہایا ہوا خون، سور کا گوشت اور وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔ اس کے سوا اگر کچھ چیزیں حرام ہیں تو وہ انھیں کی تشریح وتفصیل ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ اللہ کی ایک سنتِ تحریم اور ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی حامل کتاب قوم اطاعت کے بجائے سرکشی کا طریقہ اختیار کرتی ہے تو اس کی سرکشی کی سزا کے طورپر اس کو نئی نئی مشکلات میں ڈال دیا جاتاہے۔ اس پر ایسی چیزیں حرام کردی جاتی ہیں جو اصلاً شریعت خداوندی میں حرام نہ تھیں۔ اس حرمت کی شکل کیا ہوتی ہے۔ اس کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ اس قوم کے اندر ایسے پیشوا اٹھتے ہیں جو دین کی حقیقت سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ وہ صرف ظاہری دین داری سے واقف ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جو اہتمام دین کی معنوی حقیقتوں میں کرنا چاہیے وہی اہتمام وہ ظاہری آداب وقواعد میں کرنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ظواہرِ دین میں غیر ضروری موشگافیاں وجود میں آتی ہیں۔ ایسے لوگ دین کے خود ساختہ ظاہری معیار وضع کرتے ہیں۔ وہ غلو اور تشدد کرکے سادہ حکم کو پیچیدہ اور جائز چیز کو ناجائز بنا دیتے ہیں۔ مثلاً یہود کے اندر جب سرکشی آئی تو ان کے درمیان ایسے علماء اٹھے جنھوں نے اپنی موشگافیوں سے یہ قاعدہ بنایا کہ کسی چوپایہ کے حلال ہونے کے ليے دوشرطیں بیک وقت ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے پاؤں چرے ہوئے ہوں، دوسري یہ کہ وہ جگالی کرتاہو۔ ان میں سے کوئی ایک شرط بھی اگر نہ پائی جائے تو وہ جانور حرام سمجھا جائے گا۔ اس خود ساختہ شرط کی وجہ سے اونٹ، سافان (cony)اور خرگوش جیسی چیزیں بھی خواہ مخواہ حرام قرار پا گئیں۔ اسی طرح ’’ناخن‘‘ کی تشریح میں غلو کرکے انھوںنے غیر ضروری طورپر شتر مرغ، قاز اور بط وغیرہ کو اپنے ليے حرام کرلیا۔ اس قسم کی غیر فطری بندشوں نے ان کے ليے وہاں تنگی پیدا کردی جہاں خدا نے ان کے ليے فراخی رکھی تھی۔ حق کو نہ ماننے کے بعد آدمی فوراً خدا کی پکڑ میں نہیں آتا۔ وہ بدستور اپنے کو آزاد اور بھر پورپاتا ہے۔ اس بنا پر اکثر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ حق کو نہ ماننے سے اس کا کچھ بگڑنے والا نہیں۔ وہ بھول جاتاہے کہ وہ خدا كے منصوبهٔ تخليق كي حكمت كي وجه سے بچا ہوا ہے۔ خدا آدمی کی سرکشی کے باوجود اس کو آخری حد تک موقع دیتا ہے۔ بالآخر جب وہ اپنی روش کو نہیں بدلتا تو اچانک خدا کا عذاب اس کو اپنی پکڑ میں لے لیتا ہے۔ کبھی دنیا میں اور کبھی دنیا اور آخرت دونوں میں۔

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّىٰ ذَاقُوا بَأْسَنَا ۗ قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا ۖ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ

📘 حق کی بے آمیز دعوت ہمیشہ اپنے ماحول میں اجنبی دعوت ہوتی ہے۔ ایک طرف مروجہ دین ہوتاہے جس کو تمام اجتماعی اداروں میں غلبہ کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ صدیوں کی روایات اس کو باوزن بنانے کے لیے اس کی پشت پر موجود ہوتی ہیں۔ دوسری طرف حق کی دعوت ہوتی جو ان تمام اضافی خصوصیات سے خالی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ جس دین کو اتنا درجہ اور اتنی مقبولیت حاصل ہو وہ دین خدا کی پسند کے مطابق نہ ہوگا۔ لوگ فرض کرلیتے ہیں کہ مروجہ دین کا اتنا پھیلاؤ اسی ليے ممکن ہوسکا کہ خدا کی مرضی اس کے شامل حال تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو یہ پھیلاؤ کبھی حاصل نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جس دین کو خدا کی دنیا میں ہر طرف بلند مقام حاصل ہووہ خدا کا پسندیدہ دین ہوگا یا وہ دین جس کو خدا کی دنیا میں کہیں کوئی مقام حاصل نہیں۔ مگر حق وباطل کا فیصلہ حقیقی دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ اس قسم کے قیاسات پر۔ خدا نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔یہاں آدمی کو یہ موقع ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جس چیز کو چاہے اختیار نہ کرے۔ یہ معاملہ تمام تر آدمی کے اپنے اوپر منحصر ہے۔ ایسی حالت میں کسی چیز کا رواج عام اس کے برحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کوئی چیز برحق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ رواجی عمل کی بنیاد پر۔ دنیا کو اللہ نے امتحان گاہ بنایا۔ انسان پر اپنی مرضی جبراً مسلط کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انسان کو صحیح اور غلط کا علم دیا اور یہ معاملہ انسان کے اوپر چھوڑدیا کہ وہ صحیح کو لیتاہے یا غلط کو۔ اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں دلیل(حجت) خدا کی نمائندہ ہے۔ آدمی جب ایک سچی دلیل کے آگے جھکتاہے تو وہ خدا کے آگے جھکتاہے۔اور جب وہ ایک سچی دلیل کو ماننے سے انکار کرتاہے ہو تو وہ خدا کو ماننے سے انکار کرتاہے۔ جب آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش سے اوپر اٹھ نہیں پاتا۔ وہ باطل کو حق کہنے کے ليے کھڑا ہوجاتاہے تاکہ اپنے عمل کو جائز ثابت کرسکے۔ اس کی ڈھٹائی اس کو یہاںتک لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی نشانیوں کو نظر انداز کردے۔ وہ اس بات سے بے پروا ہوجاتاہے کہ خدا اس کو بالآخر پکڑنے والا ہے۔ وہ دوسری دوسری چیزوں کو وہ اہمیت دیتاہے جو اہمیت صرف خدا کو دینا چاہيے۔

قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ

📘 حق کی بے آمیز دعوت ہمیشہ اپنے ماحول میں اجنبی دعوت ہوتی ہے۔ ایک طرف مروجہ دین ہوتاہے جس کو تمام اجتماعی اداروں میں غلبہ کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ صدیوں کی روایات اس کو باوزن بنانے کے لیے اس کی پشت پر موجود ہوتی ہیں۔ دوسری طرف حق کی دعوت ہوتی جو ان تمام اضافی خصوصیات سے خالی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ جس دین کو اتنا درجہ اور اتنی مقبولیت حاصل ہو وہ دین خدا کی پسند کے مطابق نہ ہوگا۔ لوگ فرض کرلیتے ہیں کہ مروجہ دین کا اتنا پھیلاؤ اسی ليے ممکن ہوسکا کہ خدا کی مرضی اس کے شامل حال تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو یہ پھیلاؤ کبھی حاصل نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جس دین کو خدا کی دنیا میں ہر طرف بلند مقام حاصل ہووہ خدا کا پسندیدہ دین ہوگا یا وہ دین جس کو خدا کی دنیا میں کہیں کوئی مقام حاصل نہیں۔ مگر حق وباطل کا فیصلہ حقیقی دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ اس قسم کے قیاسات پر۔ خدا نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔یہاں آدمی کو یہ موقع ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جس چیز کو چاہے اختیار نہ کرے۔ یہ معاملہ تمام تر آدمی کے اپنے اوپر منحصر ہے۔ ایسی حالت میں کسی چیز کا رواج عام اس کے برحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کوئی چیز برحق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ رواجی عمل کی بنیاد پر۔ دنیا کو اللہ نے امتحان گاہ بنایا۔ انسان پر اپنی مرضی جبراً مسلط کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انسان کو صحیح اور غلط کا علم دیا اور یہ معاملہ انسان کے اوپر چھوڑدیا کہ وہ صحیح کو لیتاہے یا غلط کو۔ اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں دلیل(حجت) خدا کی نمائندہ ہے۔ آدمی جب ایک سچی دلیل کے آگے جھکتاہے تو وہ خدا کے آگے جھکتاہے۔اور جب وہ ایک سچی دلیل کو ماننے سے انکار کرتاہے ہو تو وہ خدا کو ماننے سے انکار کرتاہے۔ جب آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش سے اوپر اٹھ نہیں پاتا۔ وہ باطل کو حق کہنے کے ليے کھڑا ہوجاتاہے تاکہ اپنے عمل کو جائز ثابت کرسکے۔ اس کی ڈھٹائی اس کو یہاںتک لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی نشانیوں کو نظر انداز کردے۔ وہ اس بات سے بے پروا ہوجاتاہے کہ خدا اس کو بالآخر پکڑنے والا ہے۔ وہ دوسری دوسری چیزوں کو وہ اہمیت دیتاہے جو اہمیت صرف خدا کو دینا چاہيے۔

قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

📘 انسان کھلے ہوئے حق کا انکار کرتاہے۔ وہ طاقت پاکر دوسروں کو ذلیل کرتاہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا انسان کو اس دنیا میں مطلق اقتدار حاصل ہے۔ کیا یہاں اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کیا خدا کے یہاں تضاد ہے کہ اس نے بقیہ دنیا كو رحمت ومعنویت سے بھر رکھا ہے اور انسان کی دنیا کو ظلم اور بے انصافی سے۔ ایسا نہیں ہے۔ جو خدا زمین و آسمان کامالک ہے وہی خدا س مخلوق کا مالک بھی ہے جو دن کو متحرک ہوتی ہے اور راتوں کو قرار پکڑتی ہے۔ خدا جس طرح بقیہ کائنات کے لیے سراپا رحمت ہے اسی طرح وہ انسانوں کے لیے بھی سراپا رحمت ہے۔ فرق یہ ہے کہ بقیہ دنیا میں خدا کی رحمتوں کا ظہور اول دن سے ہے اور انسان کی دنیا میں اس کی رحمتوں کا کامل ظہور قیامت کے دن ہوگا۔ انسان ارادی مخلوق ہے اور اس سے ارادی عبادت مطلوب ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ کا صحیح استعمال نہ کریں، وہ اس قابل نہیں کہ ان کو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار بنایا جائے۔كیوں کہ انھوںنے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا نہ کیا۔ آزمائشی مدت پوری ہونے کے بعد سارے لوگ ایک نئی دنیا میں جمع كيے جائیں گے۔ اس دن خدا اسی طرح دنیا کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس روز خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا۔ اس دن وہ لوگ سرفراز ہوں گے جنھوںنے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرکے اپنے کو خدائی اطاعت میں دے دیا۔ اور وہ لوگ گھاٹے میں رہیں گے جنھوں نے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہیں کیا اور خدا کی دنیا میں سرکشی اور ہٹ دھرمی کے طریقے پر چلتے رہے۔ انسان جب بھی سرکشی کرتاہے کسی آسرے پر کرتا ہے۔ مگر جن چیزوں کے آسرے پر انسان سرکشی کرتا ہے ان کی اس کائنات میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہاں ہر چيزبے زور ہے، زور والا صرف ایک خدا ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس لیے فیصلہ کے دن وہی شخص بامراد ہوگا جس نے حقیقی سہارے کو اپنا سہارا بنایا ہوگا، جس نے حقیقی دین کو اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے اختیار کیاہوگا۔

قُلْ هَلُمَّ شُهَدَاءَكُمُ الَّذِينَ يَشْهَدُونَ أَنَّ اللَّهَ حَرَّمَ هَٰذَا ۖ فَإِنْ شَهِدُوا فَلَا تَشْهَدْ مَعَهُمْ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَهُمْ بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ

📘 حق کی بے آمیز دعوت ہمیشہ اپنے ماحول میں اجنبی دعوت ہوتی ہے۔ ایک طرف مروجہ دین ہوتاہے جس کو تمام اجتماعی اداروں میں غلبہ کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ صدیوں کی روایات اس کو باوزن بنانے کے لیے اس کی پشت پر موجود ہوتی ہیں۔ دوسری طرف حق کی دعوت ہوتی جو ان تمام اضافی خصوصیات سے خالی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ جس دین کو اتنا درجہ اور اتنی مقبولیت حاصل ہو وہ دین خدا کی پسند کے مطابق نہ ہوگا۔ لوگ فرض کرلیتے ہیں کہ مروجہ دین کا اتنا پھیلاؤ اسی ليے ممکن ہوسکا کہ خدا کی مرضی اس کے شامل حال تھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو یہ پھیلاؤ کبھی حاصل نہ ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ جس دین کو خدا کی دنیا میں ہر طرف بلند مقام حاصل ہووہ خدا کا پسندیدہ دین ہوگا یا وہ دین جس کو خدا کی دنیا میں کہیں کوئی مقام حاصل نہیں۔ مگر حق وباطل کا فیصلہ حقیقی دلائل پر ہوتا ہے، نہ کہ اس قسم کے قیاسات پر۔ خدا نے اس دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے۔یہاں آدمی کو یہ موقع ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے اختیار کرے اور جس چیز کو چاہے اختیار نہ کرے۔ یہ معاملہ تمام تر آدمی کے اپنے اوپر منحصر ہے۔ ایسی حالت میں کسی چیز کا رواج عام اس کے برحق ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔ کوئی چیز برحق ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ رواجی عمل کی بنیاد پر۔ دنیا کو اللہ نے امتحان گاہ بنایا۔ انسان پر اپنی مرضی جبراً مسلط کرنے کے بجائے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انسان کو صحیح اور غلط کا علم دیا اور یہ معاملہ انسان کے اوپر چھوڑدیا کہ وہ صحیح کو لیتاہے یا غلط کو۔ اس کامطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں دلیل(حجت) خدا کی نمائندہ ہے۔ آدمی جب ایک سچی دلیل کے آگے جھکتاہے تو وہ خدا کے آگے جھکتاہے۔اور جب وہ ایک سچی دلیل کو ماننے سے انکار کرتاہے ہو تو وہ خدا کو ماننے سے انکار کرتاہے۔ جب آدمی دلیل کے آگے نہیں جھکتا تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہش سے اوپر اٹھ نہیں پاتا۔ وہ باطل کو حق کہنے کے ليے کھڑا ہوجاتاہے تاکہ اپنے عمل کو جائز ثابت کرسکے۔ اس کی ڈھٹائی اس کو یہاںتک لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی نشانیوں کو نظر انداز کردے۔ وہ اس بات سے بے پروا ہوجاتاہے کہ خدا اس کو بالآخر پکڑنے والا ہے۔ وہ دوسری دوسری چیزوں کو وہ اہمیت دیتاہے جو اہمیت صرف خدا کو دینا چاہيے۔

۞ قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

📘 خدائی پابندی کے نام پر لوگ طرح طرح کی رسمی اور ظاہری پابندیاں بنا لیتے ہیں اور ان کا خصوصی اہتمام کرکے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ انھوں نے خدائی پابندیوں کا حق ادا کردیا۔ مگر خدا انسان سے جن پابندیوں کا اہتمام چاہتا ہے وہ حقیقی پابندیاں ہیں، نہ کہ کسی قسم کے رسمی مظاہر۔ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ آدمی ایک خدا کو اپنا خدا بنائے۔ اس کے سوا کسی کی بڑائی کا غلبہ اس کے ذہن پر نہ ہو۔ اس کے سوا کسی کو وہ قابل بھروسہ نہ سمجھتا ہو۔اس کے سوا کسی سے وہ امید قائم نہ کرے اس کے سوا کسی سے وہ نہ ڈرے اور نہ اس کے سوا کسی کی شدید محبت میں مبتلا ہو۔ والدین اکثر حالات میں کمزور او رمحتاج ہوتے ہیں اور اولاد طاقت ور۔ ان سے حسن سلوک کا محرک مفاد نہیںہوتا بلکہ صرف حق شناسی ہوتا ہے۔ اس طرح والدین کے حقوق ادا کرنے کا معاملہ آدمی کے ليے اس بات کا سب سے پہلا امتحان بن جاتا ہے کہ اس نے خدا کے دین کو قول کی سطح پر اختیار کیا ہے یا عمل کی سطح پر۔ اگر وہ والدین کی کمزوری کے بجائے ان کے حق کو اہمیت دے، اگر اپنے دوستوں اور اپنی بیوی بچوں کی محبت اس کو والدین سے دور نہ کرے تو گویا اس نے اس بات کا پہلا ثبوت دے دیا کہ اس کا اخلاق اصول پسندی اور حق شناسی کے تابع ہوگا، نہ کہ مفاد اور مصلحت کے تابع۔ انسان اپنے حرص اور ظلم کی وجہ سے خدا کے پیدا كيے ہوئے رزق کو تمام بندوں تک منصفانہ طورپر پہنچنے نہیں دیتا۔ اور جب اس کی وجہ سے قلت کے مصنوعی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ کھانے والوں کو قتل کردو یا پیداہونے والوںكو پیدا نہ ہونے دو۔ اس قسم کی باتیں خدا کے نظام رزق پر بہتان کے ہم معنیٰ ہیں۔ بہت سی برائیاں ایسی ہیں جو اپنی ہیئت میںاتنی فحش ہوتی ہیں کہ ان کی برائی کو جاننے کے ليے کسی بڑے علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انسانی فطرت اور اس کا ضمیر ہی یہ بتانے کے ليے کافی ہے کہ یہ کام انسان کے کرنے کے قابل نهيں۔ ايسي حالت ميں جو شخص فحاشي يا بے حيائي كے كام ميں مبتلا هو وه گويا ثابت كررها هے كه وه اس ابتدائي درجهٔ انسانیت سے بھی محروم ہے جہاں سے کسی انسان کے انسان ہونے کا آغاز ہوتا ہے۔ ہر انسان کی جان محترم ہے۔ کسی انسان کو ہلاک کرنا کسی کے ليے جائز نہیں جب تک خالق کے قانون کے مطابق وہ کوئی ایسا جرم نہ کرے جس میں اس کی جان لینا مخصوص شرائط کے ساتھ مباح ہوگیاہو — یہ باتیں اتنی واضح ہیں کہ عقل سے کام لینے والا ان کی صداقت کو جاننے سے محروم نہیں رہ سکتا۔

وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُ ۖ وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۖ وَبِعَهْدِ اللَّهِ أَوْفُوا ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

📘 یتیم کسی سماج کا سب سے کمزور فرد ہوتاہے۔ وہ تمام اضافی اسباب اس کی ذات میں حذف ہوجاتے ہیں جو عام طورپر کسی کے ساتھ اچھے سلوک کا محرک بنتے ہیں۔ ’’یتیم‘‘ کے ساتھ ذمہ داری کا معاملہ وہی شخص کرسکتاہے جو خالص اصولی بنیاد پر باکردار بنا ہو، نہ کہ فائدہ اور مصلحت کی بنیاد پر۔ یتیم کسی سماج میں حسن سلوک کی آخری علامت ہوتا ہے۔ جوشخص یتیم کے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بدرجہ اولیٰ خیر خواہانہ سلوک کرے گا۔ کائنات کی ہر چیز دوسری چیز سے اس طرح وابستہ ہے کہ ہر چیز دوسرے کو وہی دیتی ہے جو اس کو دینا چاہيے اور دوسرے سے وہی چیز لیتی ہے جو اس کو لینا چاہیے۔ یہی اصول انسان کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ انسان کوچاہیے کہ جب وہ دوسرے انسان کے لیے ناپے تو ٹھیک ناپے اور جب تولے تو ٹھیک تولے۔ ایسا نہ کرے کہ اپنے ليے ایک پیمانہ استعمال کرے ا ور غیر کے ليے دوسرا پیمانہ۔ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ آدمی کو کسی کے خلاف اظہار رائے کرنا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہی بات کہے جو انصاف کے معیار پر پوری اترنے والی ہو۔ کوئی اپنا ہو یا غیر ہو۔ اس سے دوستی کے تعلقات ہوں یا دشمنی کے تعلقات، ایسا شخص ہو جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہے یا ایسا شخص ہو جس سے کوئی فائدہ وابستہ نہیں، ان تمام چیزوں کی پروا كيے بغیر آدمی وہی کہے جو فی الواقع درست اور حق ہے۔ ہر آدمی فطرت کے عہد میں بندھا ہوا ہے۔ کوئی عہد لکھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی عہد وہ ہوتا ہے جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں ہوتا مگرآدمی کا ایمان، اس کی انسانیت اور اس کی شرافت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس موقع پر ایسا کیا جائے۔ دونوں قسم کے عہدوں کو پورا کرنا ہر مومن ومسلم کا فریضہ ہے— یہ تمام باتیں انتہائی واضح ہیں۔ آسمانی وحی اور آدمی کی عقل ان کے برحق ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ مگر ان سے وہی شخص نصیحت پکڑے گا، جو خود بھی نصیحت پکڑنا چاہتا ہو۔ یہ احکام (الانعام، 6:151-153 )شریعت الٰہی کے بنیادی احکام ہيں۔ ان پر ان کے سیدھے مفہوم کے اعتبار سے عمل کرنا خدا کی سیدھی شاہراہ پر چلنا ہے۔ اور اگر تاویل اور موشگافیوں کے ذریعہ ان میں شاخیں نکالی جائیں اور سارا زور ان شاخوں پر دیا جانے لگے تو یہ اِدھر اُدھر کے متفرق راستوں میں بھٹکنا ہے جو کبھی آدمی کو خدا تک نہیں پہنچاتا۔

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

📘 یتیم کسی سماج کا سب سے کمزور فرد ہوتاہے۔ وہ تمام اضافی اسباب اس کی ذات میں حذف ہوجاتے ہیں جو عام طورپر کسی کے ساتھ اچھے سلوک کا محرک بنتے ہیں۔ ’’یتیم‘‘ کے ساتھ ذمہ داری کا معاملہ وہی شخص کرسکتاہے جو خالص اصولی بنیاد پر باکردار بنا ہو، نہ کہ فائدہ اور مصلحت کی بنیاد پر۔ یتیم کسی سماج میں حسن سلوک کی آخری علامت ہوتا ہے۔ جوشخص یتیم کے ساتھ خیر خواہانہ سلوک کرے وہ دوسرے لوگوں کے ساتھ بدرجہ اولیٰ خیر خواہانہ سلوک کرے گا۔ کائنات کی ہر چیز دوسری چیز سے اس طرح وابستہ ہے کہ ہر چیز دوسرے کو وہی دیتی ہے جو اس کو دینا چاہيے اور دوسرے سے وہی چیز لیتی ہے جو اس کو لینا چاہیے۔ یہی اصول انسان کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ انسان کوچاہیے کہ جب وہ دوسرے انسان کے لیے ناپے تو ٹھیک ناپے اور جب تولے تو ٹھیک تولے۔ ایسا نہ کرے کہ اپنے ليے ایک پیمانہ استعمال کرے ا ور غیر کے ليے دوسرا پیمانہ۔ زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں کہ آدمی کو کسی کے خلاف اظہار رائے کرنا ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ آدمی وہی بات کہے جو انصاف کے معیار پر پوری اترنے والی ہو۔ کوئی اپنا ہو یا غیر ہو۔ اس سے دوستی کے تعلقات ہوں یا دشمنی کے تعلقات، ایسا شخص ہو جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہے یا ایسا شخص ہو جس سے کوئی فائدہ وابستہ نہیں، ان تمام چیزوں کی پروا كيے بغیر آدمی وہی کہے جو فی الواقع درست اور حق ہے۔ ہر آدمی فطرت کے عہد میں بندھا ہوا ہے۔ کوئی عہد لکھا ہوا ہوتا ہے اور کوئی عہد وہ ہوتا ہے جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں ہوتا مگرآدمی کا ایمان، اس کی انسانیت اور اس کی شرافت کا تقاضا ہوتا ہے کہ اس موقع پر ایسا کیا جائے۔ دونوں قسم کے عہدوں کو پورا کرنا ہر مومن ومسلم کا فریضہ ہے— یہ تمام باتیں انتہائی واضح ہیں۔ آسمانی وحی اور آدمی کی عقل ان کے برحق ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ مگر ان سے وہی شخص نصیحت پکڑے گا، جو خود بھی نصیحت پکڑنا چاہتا ہو۔ یہ احکام (الانعام، 6:151-153 )شریعت الٰہی کے بنیادی احکام ہيں۔ ان پر ان کے سیدھے مفہوم کے اعتبار سے عمل کرنا خدا کی سیدھی شاہراہ پر چلنا ہے۔ اور اگر تاویل اور موشگافیوں کے ذریعہ ان میں شاخیں نکالی جائیں اور سارا زور ان شاخوں پر دیا جانے لگے تو یہ اِدھر اُدھر کے متفرق راستوں میں بھٹکنا ہے جو کبھی آدمی کو خدا تک نہیں پہنچاتا۔

ثُمَّ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ تَمَامًا عَلَى الَّذِي أَحْسَنَ وَتَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ

📘 خدا کی طرف سے جو کتاب آتی ہے اس میں اگرچہ بہت سی تفصیلات ہوتی ہیں مگر بالآخر اس کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے۔ یہ کہ آدمی اپنے رب کی ملاقات پر یقین کرے۔ یعنی دنیا میں وہ اس طرح زندگی گزارے کہ وہ اپنے ہر عمل کے ليے اپنے آپ کو خدا کے یہاں جواب دہ سمجھتا ہو۔ اس کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہو، نہ کہ آزاد اور بے قید زندگی۔ یہی پچھلی کتابوں کا مقصد تھا اور یہی قرآن کا مدعا بھی ہے۔ خدا نے بقیہ دنیا کو براہِ راست اپنے جبری حکم کے تحت اپنا پابند بنا رکھا ہے۔ مگر انسان کو اس نے پورا اختیار دے دیا ہے۔ اس نے انسان کی ہدایت کا یہ طریقہ رکھا ہے کہ رسول اور کتاب کے ذریعہ دلائل کی زبان ميں وہ لوگوں کو حق اور باطل سے باخبر کرتا ہے۔ دنیا میں خدا کی مرضی لوگوں کے سامنے دلیل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں دلیل کو ماننا خدا کو ماننا ہے اور دلیل کو جھٹلانا خدا کو جھٹلانا۔ قیامت کا دھماکہ ہونے کے بعد تمام چھپی ہوئی حقیقتیں لوگوں کے سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر آدمی خدا اور اس کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر اس وقت کے ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔ ماننا وہی ماننا ہے جو حالتِ غیب میں ماننا ہو۔ ایمان دراصل یہ ہے کہ دیکھنے کے بعد آدمی جو کچھ ماننے پر مجبور ہوگا اس کو وہ دیکھے بغیر مان لے۔ جو شخص دیکھ کر مانے اس نے گویا مانا ہی نہیں۔ جو لوگ آج اختیار کی حالت میں اپنے کو خدا کا پابند بنالیں ان کے لیے خدا کے یہاں جنت ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ قیامت کے آنے کے بعد خدا کے آگے جھکیں گے ان کا جھکنا صرف ان کے جرم کو مزید ثابت کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے خود اپنے اعتراف کے مطابق، ایک ماننے والی بات کو نہ مانا، انھوں نے ايك كيے جانے والے کام کو نہ کیا۔

وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

📘 خدا کی طرف سے جو کتاب آتی ہے اس میں اگرچہ بہت سی تفصیلات ہوتی ہیں مگر بالآخر اس کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے۔ یہ کہ آدمی اپنے رب کی ملاقات پر یقین کرے۔ یعنی دنیا میں وہ اس طرح زندگی گزارے کہ وہ اپنے ہر عمل کے ليے اپنے آپ کو خدا کے یہاں جواب دہ سمجھتا ہو۔ اس کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہو، نہ کہ آزاد اور بے قید زندگی۔ یہی پچھلی کتابوں کا مقصد تھا اور یہی قرآن کا مدعا بھی ہے۔ خدا نے بقیہ دنیا کو براہِ راست اپنے جبری حکم کے تحت اپنا پابند بنا رکھا ہے۔ مگر انسان کو اس نے پورا اختیار دے دیا ہے۔ اس نے انسان کی ہدایت کا یہ طریقہ رکھا ہے کہ رسول اور کتاب کے ذریعہ دلائل کی زبان ميں وہ لوگوں کو حق اور باطل سے باخبر کرتا ہے۔ دنیا میں خدا کی مرضی لوگوں کے سامنے دلیل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں دلیل کو ماننا خدا کو ماننا ہے اور دلیل کو جھٹلانا خدا کو جھٹلانا۔ قیامت کا دھماکہ ہونے کے بعد تمام چھپی ہوئی حقیقتیں لوگوں کے سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر آدمی خدا اور اس کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر اس وقت کے ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔ ماننا وہی ماننا ہے جو حالتِ غیب میں ماننا ہو۔ ایمان دراصل یہ ہے کہ دیکھنے کے بعد آدمی جو کچھ ماننے پر مجبور ہوگا اس کو وہ دیکھے بغیر مان لے۔ جو شخص دیکھ کر مانے اس نے گویا مانا ہی نہیں۔ جو لوگ آج اختیار کی حالت میں اپنے کو خدا کا پابند بنالیں ان کے لیے خدا کے یہاں جنت ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ قیامت کے آنے کے بعد خدا کے آگے جھکیں گے ان کا جھکنا صرف ان کے جرم کو مزید ثابت کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے خود اپنے اعتراف کے مطابق، ایک ماننے والی بات کو نہ مانا، انھوں نے ايك كيے جانے والے کام کو نہ کیا۔

أَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا أُنْزِلَ الْكِتَابُ عَلَىٰ طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغَافِلِينَ

📘 خدا کی طرف سے جو کتاب آتی ہے اس میں اگرچہ بہت سی تفصیلات ہوتی ہیں مگر بالآخر اس کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے۔ یہ کہ آدمی اپنے رب کی ملاقات پر یقین کرے۔ یعنی دنیا میں وہ اس طرح زندگی گزارے کہ وہ اپنے ہر عمل کے ليے اپنے آپ کو خدا کے یہاں جواب دہ سمجھتا ہو۔ اس کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہو، نہ کہ آزاد اور بے قید زندگی۔ یہی پچھلی کتابوں کا مقصد تھا اور یہی قرآن کا مدعا بھی ہے۔ خدا نے بقیہ دنیا کو براہِ راست اپنے جبری حکم کے تحت اپنا پابند بنا رکھا ہے۔ مگر انسان کو اس نے پورا اختیار دے دیا ہے۔ اس نے انسان کی ہدایت کا یہ طریقہ رکھا ہے کہ رسول اور کتاب کے ذریعہ دلائل کی زبان ميں وہ لوگوں کو حق اور باطل سے باخبر کرتا ہے۔ دنیا میں خدا کی مرضی لوگوں کے سامنے دلیل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں دلیل کو ماننا خدا کو ماننا ہے اور دلیل کو جھٹلانا خدا کو جھٹلانا۔ قیامت کا دھماکہ ہونے کے بعد تمام چھپی ہوئی حقیقتیں لوگوں کے سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر آدمی خدا اور اس کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر اس وقت کے ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔ ماننا وہی ماننا ہے جو حالتِ غیب میں ماننا ہو۔ ایمان دراصل یہ ہے کہ دیکھنے کے بعد آدمی جو کچھ ماننے پر مجبور ہوگا اس کو وہ دیکھے بغیر مان لے۔ جو شخص دیکھ کر مانے اس نے گویا مانا ہی نہیں۔ جو لوگ آج اختیار کی حالت میں اپنے کو خدا کا پابند بنالیں ان کے لیے خدا کے یہاں جنت ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ قیامت کے آنے کے بعد خدا کے آگے جھکیں گے ان کا جھکنا صرف ان کے جرم کو مزید ثابت کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے خود اپنے اعتراف کے مطابق، ایک ماننے والی بات کو نہ مانا، انھوں نے ايك كيے جانے والے کام کو نہ کیا۔

أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتَابُ لَكُنَّا أَهْدَىٰ مِنْهُمْ ۚ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَصَدَفَ عَنْهَا ۗ سَنَجْزِي الَّذِينَ يَصْدِفُونَ عَنْ آيَاتِنَا سُوءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يَصْدِفُونَ

📘 خدا کی طرف سے جو کتاب آتی ہے اس میں اگرچہ بہت سی تفصیلات ہوتی ہیں مگر بالآخر اس کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے۔ یہ کہ آدمی اپنے رب کی ملاقات پر یقین کرے۔ یعنی دنیا میں وہ اس طرح زندگی گزارے کہ وہ اپنے ہر عمل کے ليے اپنے آپ کو خدا کے یہاں جواب دہ سمجھتا ہو۔ اس کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہو، نہ کہ آزاد اور بے قید زندگی۔ یہی پچھلی کتابوں کا مقصد تھا اور یہی قرآن کا مدعا بھی ہے۔ خدا نے بقیہ دنیا کو براہِ راست اپنے جبری حکم کے تحت اپنا پابند بنا رکھا ہے۔ مگر انسان کو اس نے پورا اختیار دے دیا ہے۔ اس نے انسان کی ہدایت کا یہ طریقہ رکھا ہے کہ رسول اور کتاب کے ذریعہ دلائل کی زبان ميں وہ لوگوں کو حق اور باطل سے باخبر کرتا ہے۔ دنیا میں خدا کی مرضی لوگوں کے سامنے دلیل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں دلیل کو ماننا خدا کو ماننا ہے اور دلیل کو جھٹلانا خدا کو جھٹلانا۔ قیامت کا دھماکہ ہونے کے بعد تمام چھپی ہوئی حقیقتیں لوگوں کے سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر آدمی خدا اور اس کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر اس وقت کے ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔ ماننا وہی ماننا ہے جو حالتِ غیب میں ماننا ہو۔ ایمان دراصل یہ ہے کہ دیکھنے کے بعد آدمی جو کچھ ماننے پر مجبور ہوگا اس کو وہ دیکھے بغیر مان لے۔ جو شخص دیکھ کر مانے اس نے گویا مانا ہی نہیں۔ جو لوگ آج اختیار کی حالت میں اپنے کو خدا کا پابند بنالیں ان کے لیے خدا کے یہاں جنت ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ قیامت کے آنے کے بعد خدا کے آگے جھکیں گے ان کا جھکنا صرف ان کے جرم کو مزید ثابت کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے خود اپنے اعتراف کے مطابق، ایک ماننے والی بات کو نہ مانا، انھوں نے ايك كيے جانے والے کام کو نہ کیا۔

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ رَبُّكَ أَوْ يَأْتِيَ بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ ۗ يَوْمَ يَأْتِي بَعْضُ آيَاتِ رَبِّكَ لَا يَنْفَعُ نَفْسًا إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْرًا ۗ قُلِ انْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ

📘 خدا کی طرف سے جو کتاب آتی ہے اس میں اگرچہ بہت سی تفصیلات ہوتی ہیں مگر بالآخر اس کا مقصد صرف ایک ہوتا ہے۔ یہ کہ آدمی اپنے رب کی ملاقات پر یقین کرے۔ یعنی دنیا میں وہ اس طرح زندگی گزارے کہ وہ اپنے ہر عمل کے ليے اپنے آپ کو خدا کے یہاں جواب دہ سمجھتا ہو۔ اس کی زندگی ایک ذمہ دارانہ زندگی ہو، نہ کہ آزاد اور بے قید زندگی۔ یہی پچھلی کتابوں کا مقصد تھا اور یہی قرآن کا مدعا بھی ہے۔ خدا نے بقیہ دنیا کو براہِ راست اپنے جبری حکم کے تحت اپنا پابند بنا رکھا ہے۔ مگر انسان کو اس نے پورا اختیار دے دیا ہے۔ اس نے انسان کی ہدایت کا یہ طریقہ رکھا ہے کہ رسول اور کتاب کے ذریعہ دلائل کی زبان ميں وہ لوگوں کو حق اور باطل سے باخبر کرتا ہے۔ دنیا میں خدا کی مرضی لوگوں کے سامنے دلیل کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں دلیل کو ماننا خدا کو ماننا ہے اور دلیل کو جھٹلانا خدا کو جھٹلانا۔ قیامت کا دھماکہ ہونے کے بعد تمام چھپی ہوئی حقیقتیں لوگوں کے سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر آدمی خدا اور اس کی باتوں کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر اس وقت کے ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔ ماننا وہی ماننا ہے جو حالتِ غیب میں ماننا ہو۔ ایمان دراصل یہ ہے کہ دیکھنے کے بعد آدمی جو کچھ ماننے پر مجبور ہوگا اس کو وہ دیکھے بغیر مان لے۔ جو شخص دیکھ کر مانے اس نے گویا مانا ہی نہیں۔ جو لوگ آج اختیار کی حالت میں اپنے کو خدا کا پابند بنالیں ان کے لیے خدا کے یہاں جنت ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ قیامت کے آنے کے بعد خدا کے آگے جھکیں گے ان کا جھکنا صرف ان کے جرم کو مزید ثابت کرنے کے ہم معنی ہوگا۔ اُس کا مطلب یہ ہوگا کہ انھوں نے خود اپنے اعتراف کے مطابق، ایک ماننے والی بات کو نہ مانا، انھوں نے ايك كيے جانے والے کام کو نہ کیا۔

إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ ۚ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

📘 دین یہ ہے کہ آدمی ایک خدا کے سوا کسی کو اپنی زندگی میں برترمقام نہ دے۔ وہ حق شناسی کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر، جس کی پہلی علامت والدین ہیں۔ وہ رزق کو خدا کا عطیہ سمجھے اور خدائی نظام میں مداخلت نہ کرے، اس معاملہ میں آدمی کی گمراہی اس کو قتل اولاد اور تحدید نسل کی حماقت تک لے جاتی ہے ۔ وہ فحش اور بے حیائی کے کاموں سے بچے تاکہ برائی کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت زندہ رہے۔ وہ کم زور کا استحصال نہ کرے جس کا قریبی امتحان آدمی کے ليے یتیم کی صورت میں ہوتا ہے۔ وہ حقوق کی ادائیگی اور لین دین میں ترازو کی طرح بالکل ٹھیک ٹھیک رہے۔ وہ اپنی زبان کا استعمال ہمیشہ حق کے مطابق کرے۔ وہ اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ ہر حال میں وہ عہد خداوندی میں بندھا ہوا ہو، وہ کسی بھی وقت خدائی عہد کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہے۔ یہی کسی آدمی کے ليے خدا کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ ہے۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ دائیں اور بائیں بھٹکے بغیر اس سیدھے راستہ پر ہمیشہ قائم رہے۔ اوپر جو دس احکام(آيات 151-153)بیان ہوئے وہ سب سادہ فطری احکام ہیں۔ ہر آدمی کی عقل ان کے سچے ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ اگر صرف ان چیزوں پر زور دیا جائے تو کبھی اختلاف اور فرقہ بندی نہ ہو۔ مگر جب قوموں پر زوال آتا ہے تو ان میں ایسے رہنما پیدا ہوتے ہیں جو ان سادہ احکام میں طرح طرح کی غیر فطری شقیں نکالتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو دینی اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔ توحید میںاگر یہ بحث چھیڑی جائے کہ خدا جسم رکھتا ہے یا وہ بغیر جسم ہے۔ یتیم کے معاملے میں موشگافیاں کی جائیں کہ یتیم ہونے کی شرائط کیا ہیں۔ یا یہ نکتہ نکالا جائے کہ ان خدائی احکام پر اس وقت تک عمل نہیں ہوسکتا جب تک حکومت پر قبضہ نہ ہو۔ اس لیے سب سے پہلا کام ’’غیر اسلامی‘‘ حکومت کو بدلنا ہے — اس قسم کی بحثیں اگر شروع کردی جائیں تو ان کی کوئی حد نہ ہوگی۔ اور ان پر عمومی اتفاق حاصل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد مختلف فکری حلقے بنیں گے۔ الگ الگ فرقے اور جماعتیں قائم ہوں گی۔ باہمی اتفاق باہمی افتراق کی صورت اختیار کرلے گا۔ اس سادہ اور فطری دین پر اپنی ساری توجہ لگانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ مگر اس کے ليے آدمی کو نفس سے لڑنا پڑتا ہے۔ ماحول کی ناسازگاری کے باوجود صبر اور قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر جمے رہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک بڑا پُرمشقت عمل ہے اس ليے اس کا بدلہ بھی خدا کے یہاں کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ جو لوگ برائی کرتے ہیں، جو خدا کی دنیا میں خدا کے مقرر راستہ کے سوا دوسرے راستوں پر چلتے ہیں وہ اگر چہ بہت بڑا جرم کرتے ہیں۔ تاہم خدا ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کرتا۔ وہ ان کو اتنی ہی سزا دیتا ہے جتنا انھوں نے جرم کیا ہے۔

مَنْ يُصْرَفْ عَنْهُ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمَهُ ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْمُبِينُ

📘 انسان کھلے ہوئے حق کا انکار کرتاہے۔ وہ طاقت پاکر دوسروں کو ذلیل کرتاہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ کیا انسان کو اس دنیا میں مطلق اقتدار حاصل ہے۔ کیا یہاں اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کیا خدا کے یہاں تضاد ہے کہ اس نے بقیہ دنیا كو رحمت ومعنویت سے بھر رکھا ہے اور انسان کی دنیا کو ظلم اور بے انصافی سے۔ ایسا نہیں ہے۔ جو خدا زمین و آسمان کامالک ہے وہی خدا س مخلوق کا مالک بھی ہے جو دن کو متحرک ہوتی ہے اور راتوں کو قرار پکڑتی ہے۔ خدا جس طرح بقیہ کائنات کے لیے سراپا رحمت ہے اسی طرح وہ انسانوں کے لیے بھی سراپا رحمت ہے۔ فرق یہ ہے کہ بقیہ دنیا میں خدا کی رحمتوں کا ظہور اول دن سے ہے اور انسان کی دنیا میں اس کی رحمتوں کا کامل ظہور قیامت کے دن ہوگا۔ انسان ارادی مخلوق ہے اور اس سے ارادی عبادت مطلوب ہے۔ اسی سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو لوگ اپنے ارادہ کا صحیح استعمال نہ کریں، وہ اس قابل نہیں کہ ان کو خدا کی رحمتوں میں حصہ دار بنایا جائے۔كیوں کہ انھوںنے اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا نہ کیا۔ آزمائشی مدت پوری ہونے کے بعد سارے لوگ ایک نئی دنیا میں جمع كيے جائیں گے۔ اس دن خدا اسی طرح دنیا کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ اس روز خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا۔ اس دن وہ لوگ سرفراز ہوں گے جنھوںنے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرکے اپنے کو خدائی اطاعت میں دے دیا۔ اور وہ لوگ گھاٹے میں رہیں گے جنھوں نے حقیقتِ واقعہ کا اعتراف نہیں کیا اور خدا کی دنیا میں سرکشی اور ہٹ دھرمی کے طریقے پر چلتے رہے۔ انسان جب بھی سرکشی کرتاہے کسی آسرے پر کرتا ہے۔ مگر جن چیزوں کے آسرے پر انسان سرکشی کرتا ہے ان کی اس کائنات میں کوئی حقیقت نہیں۔ یہاں ہر چيزبے زور ہے، زور والا صرف ایک خدا ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اس لیے فیصلہ کے دن وہی شخص بامراد ہوگا جس نے حقیقی سہارے کو اپنا سہارا بنایا ہوگا، جس نے حقیقی دین کو اپنی زندگی کے دین کی حیثیت سے اختیار کیاہوگا۔

مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا ۖ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 دین یہ ہے کہ آدمی ایک خدا کے سوا کسی کو اپنی زندگی میں برترمقام نہ دے۔ وہ حق شناسی کی بنیاد پر تعلقات قائم کرے، نہ کہ مفاد کی بنیاد پر، جس کی پہلی علامت والدین ہیں۔ وہ رزق کو خدا کا عطیہ سمجھے اور خدائی نظام میں مداخلت نہ کرے، اس معاملہ میں آدمی کی گمراہی اس کو قتل اولاد اور تحدید نسل کی حماقت تک لے جاتی ہے ۔ وہ فحش اور بے حیائی کے کاموں سے بچے تاکہ برائی کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت زندہ رہے۔ وہ کم زور کا استحصال نہ کرے جس کا قریبی امتحان آدمی کے ليے یتیم کی صورت میں ہوتا ہے۔ وہ حقوق کی ادائیگی اور لین دین میں ترازو کی طرح بالکل ٹھیک ٹھیک رہے۔ وہ اپنی زبان کا استعمال ہمیشہ حق کے مطابق کرے۔ وہ اس احساس کے ساتھ زندگی گزارے کہ ہر حال میں وہ عہد خداوندی میں بندھا ہوا ہو، وہ کسی بھی وقت خدائی عہد کی ذمہ داریوں سے آزاد نہیں ہے۔ یہی کسی آدمی کے ليے خدا کی پسند کے مطابق زندگی گزارنے کا سیدھا راستہ ہے۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ دائیں اور بائیں بھٹکے بغیر اس سیدھے راستہ پر ہمیشہ قائم رہے۔ اوپر جو دس احکام(آيات 151-153)بیان ہوئے وہ سب سادہ فطری احکام ہیں۔ ہر آدمی کی عقل ان کے سچے ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ اگر صرف ان چیزوں پر زور دیا جائے تو کبھی اختلاف اور فرقہ بندی نہ ہو۔ مگر جب قوموں پر زوال آتا ہے تو ان میں ایسے رہنما پیدا ہوتے ہیں جو ان سادہ احکام میں طرح طرح کی غیر فطری شقیں نکالتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو دینی اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتی ہے۔ توحید میںاگر یہ بحث چھیڑی جائے کہ خدا جسم رکھتا ہے یا وہ بغیر جسم ہے۔ یتیم کے معاملے میں موشگافیاں کی جائیں کہ یتیم ہونے کی شرائط کیا ہیں۔ یا یہ نکتہ نکالا جائے کہ ان خدائی احکام پر اس وقت تک عمل نہیں ہوسکتا جب تک حکومت پر قبضہ نہ ہو۔ اس لیے سب سے پہلا کام ’’غیر اسلامی‘‘ حکومت کو بدلنا ہے — اس قسم کی بحثیں اگر شروع کردی جائیں تو ان کی کوئی حد نہ ہوگی۔ اور ان پر عمومی اتفاق حاصل کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد مختلف فکری حلقے بنیں گے۔ الگ الگ فرقے اور جماعتیں قائم ہوں گی۔ باہمی اتفاق باہمی افتراق کی صورت اختیار کرلے گا۔ اس سادہ اور فطری دین پر اپنی ساری توجہ لگانا سب سے بڑی نیکی ہے۔ مگر اس کے ليے آدمی کو نفس سے لڑنا پڑتا ہے۔ ماحول کی ناسازگاری کے باوجود صبر اور قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے اس پر جمے رہنا پڑتا ہے۔ یہ ایک بڑا پُرمشقت عمل ہے اس ليے اس کا بدلہ بھی خدا کے یہاں کئی گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ جو لوگ برائی کرتے ہیں، جو خدا کی دنیا میں خدا کے مقرر راستہ کے سوا دوسرے راستوں پر چلتے ہیں وہ اگر چہ بہت بڑا جرم کرتے ہیں۔ تاہم خدا ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں کرتا۔ وہ ان کو اتنی ہی سزا دیتا ہے جتنا انھوں نے جرم کیا ہے۔

قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 قرآن کی صورت میں خدا نے اپنا وہ بے آمیز دین نازل کردیا ہے جو اس نے حضرت ابراہیم اور دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا۔ اب جو شخص خدا کی رحمت ونصرت میںحصہ دار بننا چاہتاہو وہ اس دین کو پکڑ لے، وہ اپنی عبادت کو خدا کے ليے خاص کردے۔ وہ خدا سے قرباني کی سطح پر تعلق قائم کرے۔ وہ جئے تو خدا کے ليے جئے اور اس کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ ہمہ تن خدا کا بندہ بنا ہوا ہو۔ عظیم کائنات اپنے تمام اجزا کے ساتھ اطاعت خداوندی کے اسی دین پر قائم ہے۔ پھر انسان اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ کیسے اختیار کرسکتاهے۔ خدا کی اطاعت کی دنیا میں خدا کی سرکشی کا طریقہ اختیار کرنا کسی کے ليے کامیابی کا سبب کس طرح بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے، کوئی نہ کسی کے انعام میں شریک ہوسکتا اور نہ کوئی کسی کی سزا میں آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ اسی طرح سنجیدہ ہو جس طرح دنیا میں کوئی مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہو تو وہ اس میں آخری حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ دنیا کا نظام یہ ہے کہ یہاں ایک شخص جاتاہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے۔ ایک قوم پیچھے ہٹا دی جاتی ہے اور دوسری قوم اس کے بجائے زمین کے ذرائع ووسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ واقعہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ یہاں کسی کا ااقتدار دائمی نہیں۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جس کسی کو زمین پر موقع ملتاہے تو وہ گزرے ہوئے لوگوں کے انجام کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے ظلم اور سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کے دلائل گھڑ لیتا ہے مگر جب خدا حقیقتوں کو برہنہ کرے گا تو آدمی دیکھے گا کہ اس کی ان باتوں کی کوئی قیمت نہ تھی، جن کو وہ اپنے موقف کے جواز کے ليے مضبوط دلیل سمجھے ہوئے تھا۔ دنیا میں آدمی کی سرکشی کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو اپنے حق میں خدا کا انعام سمجھ ليتاہے ہے۔ حالاں کہ دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتاہے وہ صرف بطور آزمائش ہے، نہ کہ بطور انعام۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر انعام سمجھے تو اس کے اندر فخر پیدا ہوگا اور اگر وہ ان کو آزمائش سمجھے تو اس کے اندر عجز پیدا ہوگا۔ فخر کی نفسیات ڈھٹائی پیدا کرتی ہے اور عجز کی نفسیات اطاعت۔

قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 قرآن کی صورت میں خدا نے اپنا وہ بے آمیز دین نازل کردیا ہے جو اس نے حضرت ابراہیم اور دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا۔ اب جو شخص خدا کی رحمت ونصرت میںحصہ دار بننا چاہتاہو وہ اس دین کو پکڑ لے، وہ اپنی عبادت کو خدا کے ليے خاص کردے۔ وہ خدا سے قرباني کی سطح پر تعلق قائم کرے۔ وہ جئے تو خدا کے ليے جئے اور اس کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ ہمہ تن خدا کا بندہ بنا ہوا ہو۔ عظیم کائنات اپنے تمام اجزا کے ساتھ اطاعت خداوندی کے اسی دین پر قائم ہے۔ پھر انسان اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ کیسے اختیار کرسکتاهے۔ خدا کی اطاعت کی دنیا میں خدا کی سرکشی کا طریقہ اختیار کرنا کسی کے ليے کامیابی کا سبب کس طرح بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے، کوئی نہ کسی کے انعام میں شریک ہوسکتا اور نہ کوئی کسی کی سزا میں آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ اسی طرح سنجیدہ ہو جس طرح دنیا میں کوئی مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہو تو وہ اس میں آخری حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ دنیا کا نظام یہ ہے کہ یہاں ایک شخص جاتاہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے۔ ایک قوم پیچھے ہٹا دی جاتی ہے اور دوسری قوم اس کے بجائے زمین کے ذرائع ووسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ واقعہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ یہاں کسی کا ااقتدار دائمی نہیں۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جس کسی کو زمین پر موقع ملتاہے تو وہ گزرے ہوئے لوگوں کے انجام کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے ظلم اور سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کے دلائل گھڑ لیتا ہے مگر جب خدا حقیقتوں کو برہنہ کرے گا تو آدمی دیکھے گا کہ اس کی ان باتوں کی کوئی قیمت نہ تھی، جن کو وہ اپنے موقف کے جواز کے ليے مضبوط دلیل سمجھے ہوئے تھا۔ دنیا میں آدمی کی سرکشی کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو اپنے حق میں خدا کا انعام سمجھ ليتاہے ہے۔ حالاں کہ دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتاہے وہ صرف بطور آزمائش ہے، نہ کہ بطور انعام۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر انعام سمجھے تو اس کے اندر فخر پیدا ہوگا اور اگر وہ ان کو آزمائش سمجھے تو اس کے اندر عجز پیدا ہوگا۔ فخر کی نفسیات ڈھٹائی پیدا کرتی ہے اور عجز کی نفسیات اطاعت۔

لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ

📘 قرآن کی صورت میں خدا نے اپنا وہ بے آمیز دین نازل کردیا ہے جو اس نے حضرت ابراہیم اور دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا۔ اب جو شخص خدا کی رحمت ونصرت میںحصہ دار بننا چاہتاہو وہ اس دین کو پکڑ لے، وہ اپنی عبادت کو خدا کے ليے خاص کردے۔ وہ خدا سے قرباني کی سطح پر تعلق قائم کرے۔ وہ جئے تو خدا کے ليے جئے اور اس کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ ہمہ تن خدا کا بندہ بنا ہوا ہو۔ عظیم کائنات اپنے تمام اجزا کے ساتھ اطاعت خداوندی کے اسی دین پر قائم ہے۔ پھر انسان اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ کیسے اختیار کرسکتاهے۔ خدا کی اطاعت کی دنیا میں خدا کی سرکشی کا طریقہ اختیار کرنا کسی کے ليے کامیابی کا سبب کس طرح بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے، کوئی نہ کسی کے انعام میں شریک ہوسکتا اور نہ کوئی کسی کی سزا میں آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ اسی طرح سنجیدہ ہو جس طرح دنیا میں کوئی مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہو تو وہ اس میں آخری حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ دنیا کا نظام یہ ہے کہ یہاں ایک شخص جاتاہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے۔ ایک قوم پیچھے ہٹا دی جاتی ہے اور دوسری قوم اس کے بجائے زمین کے ذرائع ووسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ واقعہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ یہاں کسی کا ااقتدار دائمی نہیں۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جس کسی کو زمین پر موقع ملتاہے تو وہ گزرے ہوئے لوگوں کے انجام کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے ظلم اور سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کے دلائل گھڑ لیتا ہے مگر جب خدا حقیقتوں کو برہنہ کرے گا تو آدمی دیکھے گا کہ اس کی ان باتوں کی کوئی قیمت نہ تھی، جن کو وہ اپنے موقف کے جواز کے ليے مضبوط دلیل سمجھے ہوئے تھا۔ دنیا میں آدمی کی سرکشی کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو اپنے حق میں خدا کا انعام سمجھ ليتاہے ہے۔ حالاں کہ دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتاہے وہ صرف بطور آزمائش ہے، نہ کہ بطور انعام۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر انعام سمجھے تو اس کے اندر فخر پیدا ہوگا اور اگر وہ ان کو آزمائش سمجھے تو اس کے اندر عجز پیدا ہوگا۔ فخر کی نفسیات ڈھٹائی پیدا کرتی ہے اور عجز کی نفسیات اطاعت۔

قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَبْغِي رَبًّا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ ۚ وَلَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ إِلَّا عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

📘 قرآن کی صورت میں خدا نے اپنا وہ بے آمیز دین نازل کردیا ہے جو اس نے حضرت ابراہیم اور دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا۔ اب جو شخص خدا کی رحمت ونصرت میںحصہ دار بننا چاہتاہو وہ اس دین کو پکڑ لے، وہ اپنی عبادت کو خدا کے ليے خاص کردے۔ وہ خدا سے قرباني کی سطح پر تعلق قائم کرے۔ وہ جئے تو خدا کے ليے جئے اور اس کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ ہمہ تن خدا کا بندہ بنا ہوا ہو۔ عظیم کائنات اپنے تمام اجزا کے ساتھ اطاعت خداوندی کے اسی دین پر قائم ہے۔ پھر انسان اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ کیسے اختیار کرسکتاهے۔ خدا کی اطاعت کی دنیا میں خدا کی سرکشی کا طریقہ اختیار کرنا کسی کے ليے کامیابی کا سبب کس طرح بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے، کوئی نہ کسی کے انعام میں شریک ہوسکتا اور نہ کوئی کسی کی سزا میں آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ اسی طرح سنجیدہ ہو جس طرح دنیا میں کوئی مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہو تو وہ اس میں آخری حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ دنیا کا نظام یہ ہے کہ یہاں ایک شخص جاتاہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے۔ ایک قوم پیچھے ہٹا دی جاتی ہے اور دوسری قوم اس کے بجائے زمین کے ذرائع ووسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ واقعہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ یہاں کسی کا ااقتدار دائمی نہیں۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جس کسی کو زمین پر موقع ملتاہے تو وہ گزرے ہوئے لوگوں کے انجام کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے ظلم اور سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کے دلائل گھڑ لیتا ہے مگر جب خدا حقیقتوں کو برہنہ کرے گا تو آدمی دیکھے گا کہ اس کی ان باتوں کی کوئی قیمت نہ تھی، جن کو وہ اپنے موقف کے جواز کے ليے مضبوط دلیل سمجھے ہوئے تھا۔ دنیا میں آدمی کی سرکشی کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو اپنے حق میں خدا کا انعام سمجھ ليتاہے ہے۔ حالاں کہ دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتاہے وہ صرف بطور آزمائش ہے، نہ کہ بطور انعام۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر انعام سمجھے تو اس کے اندر فخر پیدا ہوگا اور اگر وہ ان کو آزمائش سمجھے تو اس کے اندر عجز پیدا ہوگا۔ فخر کی نفسیات ڈھٹائی پیدا کرتی ہے اور عجز کی نفسیات اطاعت۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَكُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۗ إِنَّ رَبَّكَ سَرِيعُ الْعِقَابِ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 قرآن کی صورت میں خدا نے اپنا وہ بے آمیز دین نازل کردیا ہے جو اس نے حضرت ابراہیم اور دوسرے پیغمبروں کو دیا تھا۔ اب جو شخص خدا کی رحمت ونصرت میںحصہ دار بننا چاہتاہو وہ اس دین کو پکڑ لے، وہ اپنی عبادت کو خدا کے ليے خاص کردے۔ وہ خدا سے قرباني کی سطح پر تعلق قائم کرے۔ وہ جئے تو خدا کے ليے جئے اور اس کو موت آئے تو اس حال میں آئے کہ وہ ہمہ تن خدا کا بندہ بنا ہوا ہو۔ عظیم کائنات اپنے تمام اجزا کے ساتھ اطاعت خداوندی کے اسی دین پر قائم ہے۔ پھر انسان اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ کیسے اختیار کرسکتاهے۔ خدا کی اطاعت کی دنیا میں خدا کی سرکشی کا طریقہ اختیار کرنا کسی کے ليے کامیابی کا سبب کس طرح بن سکتا ہے۔ یہ معاملہ ہر شخص کا اپنا معاملہ ہے، کوئی نہ کسی کے انعام میں شریک ہوسکتا اور نہ کوئی کسی کی سزا میں آدمی کو چاہیے کہ اس معاملہ میں وہ اسی طرح سنجیدہ ہو جس طرح دنیا میں کوئی مسئلہ کسی کا ذاتی مسئلہ ہو تو وہ اس میں آخری حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ دنیا کا نظام یہ ہے کہ یہاں ایک شخص جاتاہے اور دوسرا اس کی جگہ آتا ہے۔ ایک قوم پیچھے ہٹا دی جاتی ہے اور دوسری قوم اس کے بجائے زمین کے ذرائع ووسائل پر قبضہ کرلیتی ہے۔ یہ واقعہ بار بار یاد دلاتا ہے کہ یہاں کسی کا ااقتدار دائمی نہیں۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جس کسی کو زمین پر موقع ملتاہے تو وہ گزرے ہوئے لوگوں کے انجام کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے ظلم اور سرکشی کو جائز ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کے دلائل گھڑ لیتا ہے مگر جب خدا حقیقتوں کو برہنہ کرے گا تو آدمی دیکھے گا کہ اس کی ان باتوں کی کوئی قیمت نہ تھی، جن کو وہ اپنے موقف کے جواز کے ليے مضبوط دلیل سمجھے ہوئے تھا۔ دنیا میں آدمی کی سرکشی کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی چیزوں کو اپنے حق میں خدا کا انعام سمجھ ليتاہے ہے۔ حالاں کہ دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتاہے وہ صرف بطور آزمائش ہے، نہ کہ بطور انعام۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر انعام سمجھے تو اس کے اندر فخر پیدا ہوگا اور اگر وہ ان کو آزمائش سمجھے تو اس کے اندر عجز پیدا ہوگا۔ فخر کی نفسیات ڈھٹائی پیدا کرتی ہے اور عجز کی نفسیات اطاعت۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 ہمارے سامنے جو عظیم کائنات پھیلی ہوئی ہے اس کے مختلف اجزاء باہم اتنے زیادہ مربوط ہیں کہ یہاں کسی ایک واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے بھی پوری کائنات کی مساعدت ضروری ہے۔ اس بنا پر کوئی بھی انسان کسی واقعہ کو ظہور میں لانے پر قادر نہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان کائنات کے اوپر قابو یافتہ نہیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی چیز بھی اس وقت وقوع میں آتی ہے جب کہ بے شمار عالمی اسباب اس کی پشت پر جمع ہوگئے ہوں۔ اور خدا کے سوا کوئی نہیں جو ان اسباب پر حکمراں ہو۔ کائناتی اسباب کے درمیان آدمی صرف ایک حقیر ارادہ کا مالک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کوئی سکھ ملے یا کسی کو کوئی دکھ پہنچے، دونوں ہی براہ راست خدا کی اجازت کے تحت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی کا یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ وہ کسی کو آباد یا برباد کرسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہے کہ خداکے سوا بھي کوئی هے جس سے آدمی ڈرے یا خدا کے سوا بھي کوئی ہے جس سے وہ اپنی امیدیں وابستہ کرے۔ دنیا میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان جو کش مکش جاری ہے اس میں فیصلہ کن چیز صرف خدا کی کتاب ہے۔ خدا کے سوا کسی کو حقائق کا علم نہیں، اور خدا کے سوا کسی کو کسی قسم کا زور حاصل نہیں۔اس لیے خدا ہی وہ ہستی ہے جو اس جھگڑے میںواحد ثالث ہے۔ اور خدا نے قرآن کی صورت میں یہ ثالث لوگوں کے درمیان رکھ دیا ہے اب آدمی کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ اگر وہ قرآن کی صداقت سے بے خبر ہے تو وہ تحقیق کرکے جانے کہ کیا واقعۃً وہ خدا کی کتاب ہے۔ اور جب وہ جان لے کہ وہ فی الواقع خدا کی کتاب ہے تو اس کو لازماً اس کے فیصلہ پر راضی ہوجانا چاہیے۔ جو آدمی قرآن کے فیصلہ پر راضی نہ ہو وہ یہ خطرہ مول لے رہا ہے کہ آخرت میں رسوائی اور عذاب کی قیمت پر اس کو اس کے فیصلہ پر راضی ہونا پڑے۔ قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ فیصلہ کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو آنے والے وقت سے ہوشیار کردیا جائے۔ رسول نے یہی کام اپنے زمانہ میں کیا اور آپ کی امت کو یہی کام آپ کے بعد قیامت تک انجام دینا ہے۔ قرآن اس بات کی پیشگی اطلاع ہے کہ آخرت کی ابدی دنیا میں لوگوں کا خدا لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ پہنچانے والے اس وقت اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں جب کہ وہ اس کو پوری طرح لوگوں تک پہنچا دیں۔ مگر سننے والے خدا کے یہاں اس وقت سبک دوش ہوں گے جب کہ وہ اس کو مانیں اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کریں۔ داعی کی ذمہ داری ’’تبلیغ‘‘ پر ختم ہوتی ہے اور مدعو کی ذمہ داری ’’اطاعت‘‘ پر۔

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ

📘 ہمارے سامنے جو عظیم کائنات پھیلی ہوئی ہے اس کے مختلف اجزاء باہم اتنے زیادہ مربوط ہیں کہ یہاں کسی ایک واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے بھی پوری کائنات کی مساعدت ضروری ہے۔ اس بنا پر کوئی بھی انسان کسی واقعہ کو ظہور میں لانے پر قادر نہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان کائنات کے اوپر قابو یافتہ نہیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی چیز بھی اس وقت وقوع میں آتی ہے جب کہ بے شمار عالمی اسباب اس کی پشت پر جمع ہوگئے ہوں۔ اور خدا کے سوا کوئی نہیں جو ان اسباب پر حکمراں ہو۔ کائناتی اسباب کے درمیان آدمی صرف ایک حقیر ارادہ کا مالک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کوئی سکھ ملے یا کسی کو کوئی دکھ پہنچے، دونوں ہی براہ راست خدا کی اجازت کے تحت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی کا یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ وہ کسی کو آباد یا برباد کرسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہے کہ خداکے سوا بھي کوئی هے جس سے آدمی ڈرے یا خدا کے سوا بھي کوئی ہے جس سے وہ اپنی امیدیں وابستہ کرے۔ دنیا میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان جو کش مکش جاری ہے اس میں فیصلہ کن چیز صرف خدا کی کتاب ہے۔ خدا کے سوا کسی کو حقائق کا علم نہیں، اور خدا کے سوا کسی کو کسی قسم کا زور حاصل نہیں۔اس لیے خدا ہی وہ ہستی ہے جو اس جھگڑے میںواحد ثالث ہے۔ اور خدا نے قرآن کی صورت میں یہ ثالث لوگوں کے درمیان رکھ دیا ہے اب آدمی کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ اگر وہ قرآن کی صداقت سے بے خبر ہے تو وہ تحقیق کرکے جانے کہ کیا واقعۃً وہ خدا کی کتاب ہے۔ اور جب وہ جان لے کہ وہ فی الواقع خدا کی کتاب ہے تو اس کو لازماً اس کے فیصلہ پر راضی ہوجانا چاہیے۔ جو آدمی قرآن کے فیصلہ پر راضی نہ ہو وہ یہ خطرہ مول لے رہا ہے کہ آخرت میں رسوائی اور عذاب کی قیمت پر اس کو اس کے فیصلہ پر راضی ہونا پڑے۔ قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ فیصلہ کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو آنے والے وقت سے ہوشیار کردیا جائے۔ رسول نے یہی کام اپنے زمانہ میں کیا اور آپ کی امت کو یہی کام آپ کے بعد قیامت تک انجام دینا ہے۔ قرآن اس بات کی پیشگی اطلاع ہے کہ آخرت کی ابدی دنیا میں لوگوں کا خدا لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ پہنچانے والے اس وقت اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں جب کہ وہ اس کو پوری طرح لوگوں تک پہنچا دیں۔ مگر سننے والے خدا کے یہاں اس وقت سبک دوش ہوں گے جب کہ وہ اس کو مانیں اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کریں۔ داعی کی ذمہ داری ’’تبلیغ‘‘ پر ختم ہوتی ہے اور مدعو کی ذمہ داری ’’اطاعت‘‘ پر۔

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُلْ لَا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ

📘 ہمارے سامنے جو عظیم کائنات پھیلی ہوئی ہے اس کے مختلف اجزاء باہم اتنے زیادہ مربوط ہیں کہ یہاں کسی ایک واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے بھی پوری کائنات کی مساعدت ضروری ہے۔ اس بنا پر کوئی بھی انسان کسی واقعہ کو ظہور میں لانے پر قادر نہیں۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان کائنات کے اوپر قابو یافتہ نہیں۔ یہاں ایک چھوٹی سی چیز بھی اس وقت وقوع میں آتی ہے جب کہ بے شمار عالمی اسباب اس کی پشت پر جمع ہوگئے ہوں۔ اور خدا کے سوا کوئی نہیں جو ان اسباب پر حکمراں ہو۔ کائناتی اسباب کے درمیان آدمی صرف ایک حقیر ارادہ کا مالک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں کسی کو کوئی سکھ ملے یا کسی کو کوئی دکھ پہنچے، دونوں ہی براہ راست خدا کی اجازت کے تحت ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں کسی کا یہ سوچنا بھی حماقت ہے کہ وہ کسی کو آباد یا برباد کرسکتا ہے۔ اور یہ بات بھی مضحکہ خیز حد تک بے معنی ہے کہ خداکے سوا بھي کوئی هے جس سے آدمی ڈرے یا خدا کے سوا بھي کوئی ہے جس سے وہ اپنی امیدیں وابستہ کرے۔ دنیا میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان جو کش مکش جاری ہے اس میں فیصلہ کن چیز صرف خدا کی کتاب ہے۔ خدا کے سوا کسی کو حقائق کا علم نہیں، اور خدا کے سوا کسی کو کسی قسم کا زور حاصل نہیں۔اس لیے خدا ہی وہ ہستی ہے جو اس جھگڑے میںواحد ثالث ہے۔ اور خدا نے قرآن کی صورت میں یہ ثالث لوگوں کے درمیان رکھ دیا ہے اب آدمی کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ اگر وہ قرآن کی صداقت سے بے خبر ہے تو وہ تحقیق کرکے جانے کہ کیا واقعۃً وہ خدا کی کتاب ہے۔ اور جب وہ جان لے کہ وہ فی الواقع خدا کی کتاب ہے تو اس کو لازماً اس کے فیصلہ پر راضی ہوجانا چاہیے۔ جو آدمی قرآن کے فیصلہ پر راضی نہ ہو وہ یہ خطرہ مول لے رہا ہے کہ آخرت میں رسوائی اور عذاب کی قیمت پر اس کو اس کے فیصلہ پر راضی ہونا پڑے۔ قرآن اس لیے اتارا گیا ہے کہ فیصلہ کا وقت آنے سے پہلے لوگوں کو آنے والے وقت سے ہوشیار کردیا جائے۔ رسول نے یہی کام اپنے زمانہ میں کیا اور آپ کی امت کو یہی کام آپ کے بعد قیامت تک انجام دینا ہے۔ قرآن اس بات کی پیشگی اطلاع ہے کہ آخرت کی ابدی دنیا میں لوگوں کا خدا لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ پہنچانے والے اس وقت اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوجاتے ہیں جب کہ وہ اس کو پوری طرح لوگوں تک پہنچا دیں۔ مگر سننے والے خدا کے یہاں اس وقت سبک دوش ہوں گے جب کہ وہ اس کو مانیں اور اس کو اپنی عملی زندگی میں اختیار کریں۔ داعی کی ذمہ داری ’’تبلیغ‘‘ پر ختم ہوتی ہے اور مدعو کی ذمہ داری ’’اطاعت‘‘ پر۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضَىٰ أَجَلًا ۖ وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ۖ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ

📘 آسمان اور زمین کا نظام اپنی ساری وسعتوں کے باوجود اتنا مربوط اور اتنا وحدانی ہے کہ وہ پکار رہا ہے کہ اس کا خالق اور منتظم ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ پھر زمین وآسمان کی یہ کائنات اپنے پھیلاؤ اور اپنی حکمت و معنویت کے اعتبار سے ناقابلِ قیاس حد تک عظیم ہے۔ سورج کے روشن کرہ کے گرد خلامیں زمین کی حد درجہ منظم گردش اور اس سے زمین کی سطح پر روشنی اور تاریکی اور دن اور رات کا پیدا ہونا انسان کے تمام قیاس وگمان سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ اب جو خدا اتنے بڑے کائناتی کارخانہ کو اتنے باکمال طریقہ پر چلا رہا ہے اس کی ذات میں وہ کون سی کمی ہوسکتی ہے جس کی تلافی کے لیے وہ کسی کو اپنا شریک ٹھہرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دنیا اور اس کے اندر قائم شدہ حیرت ناک نظام خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا خدا صرف ایک ہے اور یہی نظام اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہ خدا اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کو اپنی تخلیق اور انتظام میں کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔ موجودہ دنیا کی عمر محدود ہے۔ یہاں دکھ سے خالی زندگی ممکن نہیں۔ یہاں ہر خوش گواری کے ساتھ ناخوش گواری کا پہلو لگا ہوا ہے۔ یہاں شر کو خیر سے اور خیر کو شر سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخرت کی ابدی دنیا جو ہر قسم کے حزن (فاطر، 35:34 ) سے خالی ہوگی کیسے بن جائے گی۔ اگر کسی اور مادہ سے آخرت کی دنیا بننے والی ہو تو انسان اس سے واقف نہیں اور اگر اسی دنیا کے مادہ سے وہ دوسری دنیا بننے والی ہے تو اس دنیا کے اندر اس قسم کی ایک کامل دنیا کو وجود میں لانے کی صلاحیت نہیں۔ مگر سوال کرنے والے کا خود اپنا وجود ہی اس سوال کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔ انسان کا جسم پورا کا پورا مٹی (زمینی اجزاء) سے بنا ہے، مگر اس کے اندر ایسی منفرد صلاحیتیں ہیں، جن میں سے کوئی صلاحیت بھی مٹی کے اندر نہیں۔ آدمی سنتا ہے، وہ بولتا ہے، وہ سوچتا ہے، وہ طرح طرح کے حیرت ناک عمل انجام دیتاہے۔ حالاں کہ وہ جس مٹی سے بنا ہے وہ اس قسم کا کوئی بھی عمل انجام نہیں دے سکتی۔ زمینی اجزاء سے حیرت انگیز طورپر ایک غیرزمینی مخلوق بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر روز آدمی کے سامنے آرہا ہے۔ ایسی حالت میں کیسی عجیب بات ہے کہ آدمی آخرت کے واقع ہونے پر شک کرے۔ اگر مٹی سے جیتا جاگتا انسان نکل سکتا ہے۔ اگر مٹی سے خوشبودار پھول اور ذائقہ دار پھل بر آمد ہوسکتے ہیں تو ہماری موجودہ دنیا سے ایک اور زیادہ کامل اور زیادہ معیاری دنیا کیوں ظاہر نہیں ہوسکتی۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمُ ۘ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 حقیقت آدمی کے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کی فطرت میں پیوست ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں بول رہی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا معاملہ اس باب میں اور بھی زیادہ آگے تھا۔ کیوں کہ ان کے انبیاء اور ان کے صحیفے ان کو قرآن اور پیغمبر آخر الزماں کے بارے میں صاف لفظوں میں پیشگی خبر دے چکے تھے، حتی کہ ان کے لیے اسے جاننا ایسا ہی تھا جیسا اپنے بیٹے کو جاننا۔ اس قدر کھلا ہوا ہونے کے باوجود انسان کیوں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ وقتی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت کو ماننا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑائی کے مقام سے اتارے، وہ تقلیدی ڈھانچہ سے باہر آئے، وہ ملے ہوئے فائدوں کو ترک کرے۔ آدمی یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ حق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وقتی فائدے کی خاطر وہ اپنے کو ابدی گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔ اپنے اس موقف پر مطمئن رہنے کے لیے مزید یہ بات اس کو دھوکہ میں ڈالتی ہے کہ وہ امتحان کی اس دنیا میں ہمیشہ اپنے موافق توجیہات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ سچائی کے حق میں ظاہر ہونے والے دلائل کو رد کرنے کے لیے جھوٹے الفاظ پالیتا ہے۔ حتی کہ یہاں اس کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ حقیقت کی خود ساختہ تعبیر کرکے یہ کہہ سکے کہ سچائی عین وہی ہے جس پر میں قائم ہوں۔ جب بھی آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے تو دھیرے دھیرے ان چیزوں کے گرد تائیدی باتوں کا طلسم تیار ہوجاتا ہے۔ وہ موہوم آرزؤوں اور جھوٹی تمناؤں کا ایک خود ساختہ ہالہ بنالیتاہے جو اس کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس نے بڑے مضبوط سہارے کو پکڑ رکھا ہے۔ مگر قیامت میں جب تمام پردے پھٹ جائیں گے اور آدمی دیکھے گا کہ خدا کےسوا تمام سہارے بالکل جھوٹے تھے تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راہ نہ ہوگی کہ وہ خود اپنی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے لگے۔ گویا اس قسم کے لوگ اس وقت خود اپنے خلاف جھوٹے گواہ بن جائیں گے۔ دنیامیں وہ جن چیزوں کے حامی بنے رہے اور جن سے منسوب ہونے کو اپنے ليے باعث فخر سمجھتے رہے ،آخر ت میں خود ان کے منکر ہوجائیں گے۔ انھوں نے عقائد اور توجیہات کا جو جھوٹا قلعہ کھڑا کیا تھا وہ اس طرح ڈھ جائے گا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۗ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ

📘 حقیقت آدمی کے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کی فطرت میں پیوست ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں بول رہی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا معاملہ اس باب میں اور بھی زیادہ آگے تھا۔ کیوں کہ ان کے انبیاء اور ان کے صحیفے ان کو قرآن اور پیغمبر آخر الزماں کے بارے میں صاف لفظوں میں پیشگی خبر دے چکے تھے، حتی کہ ان کے لیے اسے جاننا ایسا ہی تھا جیسا اپنے بیٹے کو جاننا۔ اس قدر کھلا ہوا ہونے کے باوجود انسان کیوں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ وقتی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت کو ماننا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑائی کے مقام سے اتارے، وہ تقلیدی ڈھانچہ سے باہر آئے، وہ ملے ہوئے فائدوں کو ترک کرے۔ آدمی یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ حق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وقتی فائدے کی خاطر وہ اپنے کو ابدی گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔ اپنے اس موقف پر مطمئن رہنے کے لیے مزید یہ بات اس کو دھوکہ میں ڈالتی ہے کہ وہ امتحان کی اس دنیا میں ہمیشہ اپنے موافق توجیہات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ سچائی کے حق میں ظاہر ہونے والے دلائل کو رد کرنے کے لیے جھوٹے الفاظ پالیتا ہے۔ حتی کہ یہاں اس کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ حقیقت کی خود ساختہ تعبیر کرکے یہ کہہ سکے کہ سچائی عین وہی ہے جس پر میں قائم ہوں۔ جب بھی آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے تو دھیرے دھیرے ان چیزوں کے گرد تائیدی باتوں کا طلسم تیار ہوجاتا ہے۔ وہ موہوم آرزؤوں اور جھوٹی تمناؤں کا ایک خود ساختہ ہالہ بنالیتاہے جو اس کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس نے بڑے مضبوط سہارے کو پکڑ رکھا ہے۔ مگر قیامت میں جب تمام پردے پھٹ جائیں گے اور آدمی دیکھے گا کہ خدا کےسوا تمام سہارے بالکل جھوٹے تھے تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راہ نہ ہوگی کہ وہ خود اپنی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے لگے۔ گویا اس قسم کے لوگ اس وقت خود اپنے خلاف جھوٹے گواہ بن جائیں گے۔ دنیامیں وہ جن چیزوں کے حامی بنے رہے اور جن سے منسوب ہونے کو اپنے ليے باعث فخر سمجھتے رہے ،آخر ت میں خود ان کے منکر ہوجائیں گے۔ انھوں نے عقائد اور توجیہات کا جو جھوٹا قلعہ کھڑا کیا تھا وہ اس طرح ڈھ جائے گا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا أَيْنَ شُرَكَاؤُكُمُ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ

📘 حقیقت آدمی کے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کی فطرت میں پیوست ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں بول رہی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا معاملہ اس باب میں اور بھی زیادہ آگے تھا۔ کیوں کہ ان کے انبیاء اور ان کے صحیفے ان کو قرآن اور پیغمبر آخر الزماں کے بارے میں صاف لفظوں میں پیشگی خبر دے چکے تھے، حتی کہ ان کے لیے اسے جاننا ایسا ہی تھا جیسا اپنے بیٹے کو جاننا۔ اس قدر کھلا ہوا ہونے کے باوجود انسان کیوں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ وقتی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت کو ماننا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑائی کے مقام سے اتارے، وہ تقلیدی ڈھانچہ سے باہر آئے، وہ ملے ہوئے فائدوں کو ترک کرے۔ آدمی یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ حق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وقتی فائدے کی خاطر وہ اپنے کو ابدی گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔ اپنے اس موقف پر مطمئن رہنے کے لیے مزید یہ بات اس کو دھوکہ میں ڈالتی ہے کہ وہ امتحان کی اس دنیا میں ہمیشہ اپنے موافق توجیہات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ سچائی کے حق میں ظاہر ہونے والے دلائل کو رد کرنے کے لیے جھوٹے الفاظ پالیتا ہے۔ حتی کہ یہاں اس کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ حقیقت کی خود ساختہ تعبیر کرکے یہ کہہ سکے کہ سچائی عین وہی ہے جس پر میں قائم ہوں۔ جب بھی آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے تو دھیرے دھیرے ان چیزوں کے گرد تائیدی باتوں کا طلسم تیار ہوجاتا ہے۔ وہ موہوم آرزؤوں اور جھوٹی تمناؤں کا ایک خود ساختہ ہالہ بنالیتاہے جو اس کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس نے بڑے مضبوط سہارے کو پکڑ رکھا ہے۔ مگر قیامت میں جب تمام پردے پھٹ جائیں گے اور آدمی دیکھے گا کہ خدا کےسوا تمام سہارے بالکل جھوٹے تھے تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راہ نہ ہوگی کہ وہ خود اپنی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے لگے۔ گویا اس قسم کے لوگ اس وقت خود اپنے خلاف جھوٹے گواہ بن جائیں گے۔ دنیامیں وہ جن چیزوں کے حامی بنے رہے اور جن سے منسوب ہونے کو اپنے ليے باعث فخر سمجھتے رہے ،آخر ت میں خود ان کے منکر ہوجائیں گے۔ انھوں نے عقائد اور توجیہات کا جو جھوٹا قلعہ کھڑا کیا تھا وہ اس طرح ڈھ جائے گا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ

📘 حقیقت آدمی کے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کی فطرت میں پیوست ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں بول رہی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا معاملہ اس باب میں اور بھی زیادہ آگے تھا۔ کیوں کہ ان کے انبیاء اور ان کے صحیفے ان کو قرآن اور پیغمبر آخر الزماں کے بارے میں صاف لفظوں میں پیشگی خبر دے چکے تھے، حتی کہ ان کے لیے اسے جاننا ایسا ہی تھا جیسا اپنے بیٹے کو جاننا۔ اس قدر کھلا ہوا ہونے کے باوجود انسان کیوں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ وقتی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت کو ماننا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑائی کے مقام سے اتارے، وہ تقلیدی ڈھانچہ سے باہر آئے، وہ ملے ہوئے فائدوں کو ترک کرے۔ آدمی یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ حق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وقتی فائدے کی خاطر وہ اپنے کو ابدی گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔ اپنے اس موقف پر مطمئن رہنے کے لیے مزید یہ بات اس کو دھوکہ میں ڈالتی ہے کہ وہ امتحان کی اس دنیا میں ہمیشہ اپنے موافق توجیہات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ سچائی کے حق میں ظاہر ہونے والے دلائل کو رد کرنے کے لیے جھوٹے الفاظ پالیتا ہے۔ حتی کہ یہاں اس کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ حقیقت کی خود ساختہ تعبیر کرکے یہ کہہ سکے کہ سچائی عین وہی ہے جس پر میں قائم ہوں۔ جب بھی آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے تو دھیرے دھیرے ان چیزوں کے گرد تائیدی باتوں کا طلسم تیار ہوجاتا ہے۔ وہ موہوم آرزؤوں اور جھوٹی تمناؤں کا ایک خود ساختہ ہالہ بنالیتاہے جو اس کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس نے بڑے مضبوط سہارے کو پکڑ رکھا ہے۔ مگر قیامت میں جب تمام پردے پھٹ جائیں گے اور آدمی دیکھے گا کہ خدا کےسوا تمام سہارے بالکل جھوٹے تھے تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راہ نہ ہوگی کہ وہ خود اپنی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے لگے۔ گویا اس قسم کے لوگ اس وقت خود اپنے خلاف جھوٹے گواہ بن جائیں گے۔ دنیامیں وہ جن چیزوں کے حامی بنے رہے اور جن سے منسوب ہونے کو اپنے ليے باعث فخر سمجھتے رہے ،آخر ت میں خود ان کے منکر ہوجائیں گے۔ انھوں نے عقائد اور توجیہات کا جو جھوٹا قلعہ کھڑا کیا تھا وہ اس طرح ڈھ جائے گا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

انْظُرْ كَيْفَ كَذَبُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ ۚ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 حقیقت آدمی کے لیے جانی پہچانی چیز ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کی فطرت میں پیوست ہے اور کائنات میں ہر طرف خاموش زبان میں بول رہی ہے۔ یہود ونصاریٰ کا معاملہ اس باب میں اور بھی زیادہ آگے تھا۔ کیوں کہ ان کے انبیاء اور ان کے صحیفے ان کو قرآن اور پیغمبر آخر الزماں کے بارے میں صاف لفظوں میں پیشگی خبر دے چکے تھے، حتی کہ ان کے لیے اسے جاننا ایسا ہی تھا جیسا اپنے بیٹے کو جاننا۔ اس قدر کھلا ہوا ہونے کے باوجود انسان کیوں حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ اس کی وجہ وقتی نقصان کا اندیشہ ہے۔ حقیقت کو ماننا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے کو بڑائی کے مقام سے اتارے، وہ تقلیدی ڈھانچہ سے باہر آئے، وہ ملے ہوئے فائدوں کو ترک کرے۔ آدمی یہ قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس لیے وہ حق کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وقتی فائدے کی خاطر وہ اپنے کو ابدی گھاٹے میں ڈال دیتا ہے۔ اپنے اس موقف پر مطمئن رہنے کے لیے مزید یہ بات اس کو دھوکہ میں ڈالتی ہے کہ وہ امتحان کی اس دنیا میں ہمیشہ اپنے موافق توجیہات پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ وہ سچائی کے حق میں ظاہر ہونے والے دلائل کو رد کرنے کے لیے جھوٹے الفاظ پالیتا ہے۔ حتی کہ یہاں اس کو یہ آزادی بھی حاصل ہے کہ حقیقت کی خود ساختہ تعبیر کرکے یہ کہہ سکے کہ سچائی عین وہی ہے جس پر میں قائم ہوں۔ جب بھی آدمی خدا کو چھوڑ کر دوسری چیزوں کو اپنا مرکز توجہ بناتا ہے تو دھیرے دھیرے ان چیزوں کے گرد تائیدی باتوں کا طلسم تیار ہوجاتا ہے۔ وہ موہوم آرزؤوں اور جھوٹی تمناؤں کا ایک خود ساختہ ہالہ بنالیتاہے جو اس کو اس فریب میں مبتلا رکھتے ہیں کہ اس نے بڑے مضبوط سہارے کو پکڑ رکھا ہے۔ مگر قیامت میں جب تمام پردے پھٹ جائیں گے اور آدمی دیکھے گا کہ خدا کےسوا تمام سہارے بالکل جھوٹے تھے تو اس کے سامنے اس کے سوا کوئی راہ نہ ہوگی کہ وہ خود اپنی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرنے لگے۔ گویا اس قسم کے لوگ اس وقت خود اپنے خلاف جھوٹے گواہ بن جائیں گے۔ دنیامیں وہ جن چیزوں کے حامی بنے رہے اور جن سے منسوب ہونے کو اپنے ليے باعث فخر سمجھتے رہے ،آخر ت میں خود ان کے منکر ہوجائیں گے۔ انھوں نے عقائد اور توجیہات کا جو جھوٹا قلعہ کھڑا کیا تھا وہ اس طرح ڈھ جائے گا جیسے اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ ۖ وَجَعَلْنَا عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ أَكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوهُ وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا ۚ وَإِنْ يَرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَا يُؤْمِنُوا بِهَا ۚ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوكَ يُجَادِلُونَكَ يَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ ہر بات کی مفید مطلب توجیہ کرسکے۔اس لیے جو لوگ تعصب کا ذہن لے کر بات سنتے ہیں ان کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے ان کے کان بند ہوں اور ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہوں۔ وہ سن کر بھی نہیں سنتے اور بتانے کے بعد بھی نہیں سمجھتے۔ دلائل اپنی ساری وضاحت کے باوجود ان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں مجادلہ کے ذہن سے سنتے ہیں، نہ کہ نصیحت کے ذہن سے۔ ان کے اندر بات کو سننے اور سمجھنے کا کوئی ارادہ نہیںہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کسی بات کا اصل پہلو ان کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس ہر بات کو الٹی شکل دینے کے لیے انھیں کوئی نہ کوئی چیز مل جاتی ہے۔ دلائل ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتے۔ اپنے مخالفانہ ذہن کی وجہ سے وہ ہر بات میں کوئی ایسا پہلو نکال لیتے ہیں جس کو غلط معنی د ے کر وہ اپنے آپ کو بدستور مطمئن رکھیں کہ وہ حق پر ہیں۔ جو لوگ یہ مزاج رکھتے ہوں ان کے لیے تمام دلائل بے کار ہیں۔ کیوں کہ امتحان کی اس دنیا میں کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جو آدمی کو اس سے روک دے کہ وہ اس کی تردید کے لیے کچھ خود ساختہ الفاظ نہ پائے۔ اگر کوئی دلیل نہ مل رہی ہو تب بھی وہ حقارت کے ساتھ یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کردے گا— ’’یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو وہی پرانی بات ہے جو ہم بہت پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں‘‘۔ اس طرح آدمی اس کی صداقت کو مان کر بھی اس کو رد کرنے کا ایک بہانہ پالے گا۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک دہرےمجرم ہیں۔ کیوں کہ وہ نہ صرف خود حق سے رکتے ہیں بلکہ ایک خدائی دلیل کو غلط معنی پہنا کر عام لوگوں کی نظر میں بھی اس کو مشکوک بناتے ہیں جو اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ باتوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرسکیں۔ دنیا کی زندگی میں اس قسم کے لوگ خوب بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں۔ دنیا میں حق کا انکار کرکے آدمی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اس لیے وہ غلط فہمی میں پڑا رہتاہے ۔ مگر قیامت میں جب اس کو آگ کے اوپر کھڑا کرکے پوچھا جائے گا تو ان پر ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ اچانک وہ ان تمام باتوں کا اقرار کرنے لگے گا جن کو وہ دنیا میں ٹھکرا دیا کرتا تھا۔

وَهُمْ يَنْهَوْنَ عَنْهُ وَيَنْأَوْنَ عَنْهُ ۖ وَإِنْ يُهْلِكُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ ہر بات کی مفید مطلب توجیہ کرسکے۔اس لیے جو لوگ تعصب کا ذہن لے کر بات سنتے ہیں ان کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے ان کے کان بند ہوں اور ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہوں۔ وہ سن کر بھی نہیں سنتے اور بتانے کے بعد بھی نہیں سمجھتے۔ دلائل اپنی ساری وضاحت کے باوجود ان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں مجادلہ کے ذہن سے سنتے ہیں، نہ کہ نصیحت کے ذہن سے۔ ان کے اندر بات کو سننے اور سمجھنے کا کوئی ارادہ نہیںہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کسی بات کا اصل پہلو ان کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس ہر بات کو الٹی شکل دینے کے لیے انھیں کوئی نہ کوئی چیز مل جاتی ہے۔ دلائل ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتے۔ اپنے مخالفانہ ذہن کی وجہ سے وہ ہر بات میں کوئی ایسا پہلو نکال لیتے ہیں جس کو غلط معنی د ے کر وہ اپنے آپ کو بدستور مطمئن رکھیں کہ وہ حق پر ہیں۔ جو لوگ یہ مزاج رکھتے ہوں ان کے لیے تمام دلائل بے کار ہیں۔ کیوں کہ امتحان کی اس دنیا میں کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جو آدمی کو اس سے روک دے کہ وہ اس کی تردید کے لیے کچھ خود ساختہ الفاظ نہ پائے۔ اگر کوئی دلیل نہ مل رہی ہو تب بھی وہ حقارت کے ساتھ یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کردے گا— ’’یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو وہی پرانی بات ہے جو ہم بہت پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں‘‘۔ اس طرح آدمی اس کی صداقت کو مان کر بھی اس کو رد کرنے کا ایک بہانہ پالے گا۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک دہرےمجرم ہیں۔ کیوں کہ وہ نہ صرف خود حق سے رکتے ہیں بلکہ ایک خدائی دلیل کو غلط معنی پہنا کر عام لوگوں کی نظر میں بھی اس کو مشکوک بناتے ہیں جو اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ باتوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرسکیں۔ دنیا کی زندگی میں اس قسم کے لوگ خوب بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں۔ دنیا میں حق کا انکار کرکے آدمی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اس لیے وہ غلط فہمی میں پڑا رہتاہے ۔ مگر قیامت میں جب اس کو آگ کے اوپر کھڑا کرکے پوچھا جائے گا تو ان پر ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ اچانک وہ ان تمام باتوں کا اقرار کرنے لگے گا جن کو وہ دنیا میں ٹھکرا دیا کرتا تھا۔

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ ہر بات کی مفید مطلب توجیہ کرسکے۔اس لیے جو لوگ تعصب کا ذہن لے کر بات سنتے ہیں ان کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے ان کے کان بند ہوں اور ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہوں۔ وہ سن کر بھی نہیں سنتے اور بتانے کے بعد بھی نہیں سمجھتے۔ دلائل اپنی ساری وضاحت کے باوجود ان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں مجادلہ کے ذہن سے سنتے ہیں، نہ کہ نصیحت کے ذہن سے۔ ان کے اندر بات کو سننے اور سمجھنے کا کوئی ارادہ نہیںہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کسی بات کا اصل پہلو ان کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس ہر بات کو الٹی شکل دینے کے لیے انھیں کوئی نہ کوئی چیز مل جاتی ہے۔ دلائل ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتے۔ اپنے مخالفانہ ذہن کی وجہ سے وہ ہر بات میں کوئی ایسا پہلو نکال لیتے ہیں جس کو غلط معنی د ے کر وہ اپنے آپ کو بدستور مطمئن رکھیں کہ وہ حق پر ہیں۔ جو لوگ یہ مزاج رکھتے ہوں ان کے لیے تمام دلائل بے کار ہیں۔ کیوں کہ امتحان کی اس دنیا میں کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جو آدمی کو اس سے روک دے کہ وہ اس کی تردید کے لیے کچھ خود ساختہ الفاظ نہ پائے۔ اگر کوئی دلیل نہ مل رہی ہو تب بھی وہ حقارت کے ساتھ یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کردے گا— ’’یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو وہی پرانی بات ہے جو ہم بہت پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں‘‘۔ اس طرح آدمی اس کی صداقت کو مان کر بھی اس کو رد کرنے کا ایک بہانہ پالے گا۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک دہرےمجرم ہیں۔ کیوں کہ وہ نہ صرف خود حق سے رکتے ہیں بلکہ ایک خدائی دلیل کو غلط معنی پہنا کر عام لوگوں کی نظر میں بھی اس کو مشکوک بناتے ہیں جو اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ باتوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرسکیں۔ دنیا کی زندگی میں اس قسم کے لوگ خوب بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں۔ دنیا میں حق کا انکار کرکے آدمی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اس لیے وہ غلط فہمی میں پڑا رہتاہے ۔ مگر قیامت میں جب اس کو آگ کے اوپر کھڑا کرکے پوچھا جائے گا تو ان پر ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ اچانک وہ ان تمام باتوں کا اقرار کرنے لگے گا جن کو وہ دنیا میں ٹھکرا دیا کرتا تھا۔

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ ہر بات کی مفید مطلب توجیہ کرسکے۔اس لیے جو لوگ تعصب کا ذہن لے کر بات سنتے ہیں ان کا حال ایسا ہوتا ہے جیسے ان کے کان بند ہوں اور ان کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہوں۔ وہ سن کر بھی نہیں سنتے اور بتانے کے بعد بھی نہیں سمجھتے۔ دلائل اپنی ساری وضاحت کے باوجود ان کو مطمئن کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جو کچھ سنتے ہیں مجادلہ کے ذہن سے سنتے ہیں، نہ کہ نصیحت کے ذہن سے۔ ان کے اندر بات کو سننے اور سمجھنے کا کوئی ارادہ نہیںہوتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کسی بات کا اصل پہلو ان کے ذہن کی گرفت میں نہیں آتا۔ اس کے برعکس ہر بات کو الٹی شکل دینے کے لیے انھیں کوئی نہ کوئی چیز مل جاتی ہے۔ دلائل ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتے۔ اپنے مخالفانہ ذہن کی وجہ سے وہ ہر بات میں کوئی ایسا پہلو نکال لیتے ہیں جس کو غلط معنی د ے کر وہ اپنے آپ کو بدستور مطمئن رکھیں کہ وہ حق پر ہیں۔ جو لوگ یہ مزاج رکھتے ہوں ان کے لیے تمام دلائل بے کار ہیں۔ کیوں کہ امتحان کی اس دنیا میں کوئی بھی دلیل ایسی نہیں جو آدمی کو اس سے روک دے کہ وہ اس کی تردید کے لیے کچھ خود ساختہ الفاظ نہ پائے۔ اگر کوئی دلیل نہ مل رہی ہو تب بھی وہ حقارت کے ساتھ یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کردے گا— ’’یہ کون سی نئی بات ہے۔ یہ تو وہی پرانی بات ہے جو ہم بہت پہلے سے سنتے چلے آرہے ہیں‘‘۔ اس طرح آدمی اس کی صداقت کو مان کر بھی اس کو رد کرنے کا ایک بہانہ پالے گا۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک دہرےمجرم ہیں۔ کیوں کہ وہ نہ صرف خود حق سے رکتے ہیں بلکہ ایک خدائی دلیل کو غلط معنی پہنا کر عام لوگوں کی نظر میں بھی اس کو مشکوک بناتے ہیں جو اتنی سمجھ نہیں رکھتے کہ باتوں کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرسکیں۔ دنیا کی زندگی میں اس قسم کے لوگ خوب بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں۔ دنیا میں حق کا انکار کرکے آدمی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اس لیے وہ غلط فہمی میں پڑا رہتاہے ۔ مگر قیامت میں جب اس کو آگ کے اوپر کھڑا کرکے پوچھا جائے گا تو ان پر ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ اچانک وہ ان تمام باتوں کا اقرار کرنے لگے گا جن کو وہ دنیا میں ٹھکرا دیا کرتا تھا۔

وَقَالُوا إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ

📘 جب بھی کوئی آدمی حق کا انکار کرتاہے یا نفس کی خواہشات پر چلتاہے تو ایسا اس بنا پر ہوتاہے کہ وہ یہ سمجھ کر دنیا میں نہیں رہتا کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا کیاجائے گا۔ دنیا میں آدمی کو اختیار ملا ہوا ہے جس کو وہ بے روک ٹوک استعمال کرتا ہے۔ اس کو مال و دولت اور دوست اور ساتھی حاصل ہیں، جن پروہ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اس کو عقل ملی ہوئی ہے جس سے وہ سرکشی کی باتیں سوچے اور اپنے ظالمانہ عمل کی خوبصورت توجیہہ کرسکے۔ یہ چیزیں اس کو دھوکے میں ڈالتی ہیں۔ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں پر جھوٹا بھروسہ کرلیتاہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسا میں آج ہوں ویسا ہی میں ہمیشہ رہوں گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور استحقاق۔ اس قسم کی زندگی خواہ وہ آخرت کا انکار کرکے ہو یا انکار کے الفاظ بولے بغیر ہو، آدمی کا سب سے بڑا جرم ہے۔ جن دنیوی چیزوں کو آدمی اپنا سب کچھ سمجھ کر ان پر ٹوٹتا ہے۔ آخر کس حق کی بنا پر وہ ایساکر رہا ہے۔ آدمی جس روشنی میں چلتاہے اور جس ہوا میں سانس لیتاہے اس کا کوئی معاوضہ اس نے ادا نہیں کیا ہے۔ وہ جس زمین سے اپنا رزق نکالتا ہے اس کاکوئی بھي جزء اس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ وہ تمام پسندیدہ چیزیں جن کو حاصل کرنے کے لیے آدمی دوڑتاہے ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کی اپنی ہو۔ جب یہ چیزیں انسان کی پیداکی ہوئی نہیں ہیں تو جو ان تمام چیزوں کا مالک ہے کیا، اس کا آدمی کے اوپر کوئی حق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کاموجودہ دنیا کو استعمال کرنا ہی لازم کردیتاہے کہ وہ ایک روز اس کے مالک کے سامنے حساب کے لیے کھڑا کیا جائے۔ جو لوگ دنیا کو خدا کی دنیا سمجھ کر زندگی گزاریں ان کی زندگی تقویٰ کی زندگی ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس کو خدا کی دنیا نہ سمجھیں ان کی زندگی لہو ولعب کی زندگی ہوتی ہے۔ لہو لعب کی زندگی چندروز کا تماشا ہے جو مرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اور تقویٰ کی زندگی خدا کے ابدی اصولوں پر قائم ہے اس لیے وہ ابدی طور پر آدمی کا سہارا بنے گی۔ موجودہ دنیا میں آدمی ان حقیقتوں کا انکار کرتاہے مگر امتحان کی آزادی ختم ہوتے ہی وہ اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا اگر چہ اس وقت کا اقرار اس کے کچھ كام نہ آئے گا۔

وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ ۖ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُونَ

📘 آسمان اور زمین کا نظام اپنی ساری وسعتوں کے باوجود اتنا مربوط اور اتنا وحدانی ہے کہ وہ پکار رہا ہے کہ اس کا خالق اور منتظم ایک خدا کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ پھر زمین وآسمان کی یہ کائنات اپنے پھیلاؤ اور اپنی حکمت و معنویت کے اعتبار سے ناقابلِ قیاس حد تک عظیم ہے۔ سورج کے روشن کرہ کے گرد خلامیں زمین کی حد درجہ منظم گردش اور اس سے زمین کی سطح پر روشنی اور تاریکی اور دن اور رات کا پیدا ہونا انسان کے تمام قیاس وگمان سے کہیں زیادہ بڑا واقعہ ہے۔ اب جو خدا اتنے بڑے کائناتی کارخانہ کو اتنے باکمال طریقہ پر چلا رہا ہے اس کی ذات میں وہ کون سی کمی ہوسکتی ہے جس کی تلافی کے لیے وہ کسی کو اپنا شریک ٹھہرائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری دنیا اور اس کے اندر قائم شدہ حیرت ناک نظام خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا خدا صرف ایک ہے اور یہی نظام اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ یہ خدا اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کو اپنی تخلیق اور انتظام میں کسی مددگار کی ضرورت نہیں۔ موجودہ دنیا کی عمر محدود ہے۔ یہاں دکھ سے خالی زندگی ممکن نہیں۔ یہاں ہر خوش گواری کے ساتھ ناخوش گواری کا پہلو لگا ہوا ہے۔ یہاں شر کو خیر سے اور خیر کو شر سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی حالت میں آدمی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخرت کی ابدی دنیا جو ہر قسم کے حزن (فاطر، 35:34 ) سے خالی ہوگی کیسے بن جائے گی۔ اگر کسی اور مادہ سے آخرت کی دنیا بننے والی ہو تو انسان اس سے واقف نہیں اور اگر اسی دنیا کے مادہ سے وہ دوسری دنیا بننے والی ہے تو اس دنیا کے اندر اس قسم کی ایک کامل دنیا کو وجود میں لانے کی صلاحیت نہیں۔ مگر سوال کرنے والے کا خود اپنا وجود ہی اس سوال کا جواب دینے کے لیے کافی ہے۔ انسان کا جسم پورا کا پورا مٹی (زمینی اجزاء) سے بنا ہے، مگر اس کے اندر ایسی منفرد صلاحیتیں ہیں، جن میں سے کوئی صلاحیت بھی مٹی کے اندر نہیں۔ آدمی سنتا ہے، وہ بولتا ہے، وہ سوچتا ہے، وہ طرح طرح کے حیرت ناک عمل انجام دیتاہے۔ حالاں کہ وہ جس مٹی سے بنا ہے وہ اس قسم کا کوئی بھی عمل انجام نہیں دے سکتی۔ زمینی اجزاء سے حیرت انگیز طورپر ایک غیرزمینی مخلوق بن کر کھڑی ہوگئی ہے۔ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہر روز آدمی کے سامنے آرہا ہے۔ ایسی حالت میں کیسی عجیب بات ہے کہ آدمی آخرت کے واقع ہونے پر شک کرے۔ اگر مٹی سے جیتا جاگتا انسان نکل سکتا ہے۔ اگر مٹی سے خوشبودار پھول اور ذائقہ دار پھل بر آمد ہوسکتے ہیں تو ہماری موجودہ دنیا سے ایک اور زیادہ کامل اور زیادہ معیاری دنیا کیوں ظاہر نہیں ہوسکتی۔

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ وُقِفُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ قَالَ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

📘 جب بھی کوئی آدمی حق کا انکار کرتاہے یا نفس کی خواہشات پر چلتاہے تو ایسا اس بنا پر ہوتاہے کہ وہ یہ سمجھ کر دنیا میں نہیں رہتا کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا کیاجائے گا۔ دنیا میں آدمی کو اختیار ملا ہوا ہے جس کو وہ بے روک ٹوک استعمال کرتا ہے۔ اس کو مال و دولت اور دوست اور ساتھی حاصل ہیں، جن پروہ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اس کو عقل ملی ہوئی ہے جس سے وہ سرکشی کی باتیں سوچے اور اپنے ظالمانہ عمل کی خوبصورت توجیہہ کرسکے۔ یہ چیزیں اس کو دھوکے میں ڈالتی ہیں۔ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں پر جھوٹا بھروسہ کرلیتاہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسا میں آج ہوں ویسا ہی میں ہمیشہ رہوں گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور استحقاق۔ اس قسم کی زندگی خواہ وہ آخرت کا انکار کرکے ہو یا انکار کے الفاظ بولے بغیر ہو، آدمی کا سب سے بڑا جرم ہے۔ جن دنیوی چیزوں کو آدمی اپنا سب کچھ سمجھ کر ان پر ٹوٹتا ہے۔ آخر کس حق کی بنا پر وہ ایساکر رہا ہے۔ آدمی جس روشنی میں چلتاہے اور جس ہوا میں سانس لیتاہے اس کا کوئی معاوضہ اس نے ادا نہیں کیا ہے۔ وہ جس زمین سے اپنا رزق نکالتا ہے اس کاکوئی بھي جزء اس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ وہ تمام پسندیدہ چیزیں جن کو حاصل کرنے کے لیے آدمی دوڑتاہے ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کی اپنی ہو۔ جب یہ چیزیں انسان کی پیداکی ہوئی نہیں ہیں تو جو ان تمام چیزوں کا مالک ہے کیا، اس کا آدمی کے اوپر کوئی حق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کاموجودہ دنیا کو استعمال کرنا ہی لازم کردیتاہے کہ وہ ایک روز اس کے مالک کے سامنے حساب کے لیے کھڑا کیا جائے۔ جو لوگ دنیا کو خدا کی دنیا سمجھ کر زندگی گزاریں ان کی زندگی تقویٰ کی زندگی ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس کو خدا کی دنیا نہ سمجھیں ان کی زندگی لہو ولعب کی زندگی ہوتی ہے۔ لہو لعب کی زندگی چندروز کا تماشا ہے جو مرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اور تقویٰ کی زندگی خدا کے ابدی اصولوں پر قائم ہے اس لیے وہ ابدی طور پر آدمی کا سہارا بنے گی۔ موجودہ دنیا میں آدمی ان حقیقتوں کا انکار کرتاہے مگر امتحان کی آزادی ختم ہوتے ہی وہ اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا اگر چہ اس وقت کا اقرار اس کے کچھ كام نہ آئے گا۔

قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَىٰ ظُهُورِهِمْ ۚ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ

📘 جب بھی کوئی آدمی حق کا انکار کرتاہے یا نفس کی خواہشات پر چلتاہے تو ایسا اس بنا پر ہوتاہے کہ وہ یہ سمجھ کر دنیا میں نہیں رہتا کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا کیاجائے گا۔ دنیا میں آدمی کو اختیار ملا ہوا ہے جس کو وہ بے روک ٹوک استعمال کرتا ہے۔ اس کو مال و دولت اور دوست اور ساتھی حاصل ہیں، جن پروہ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اس کو عقل ملی ہوئی ہے جس سے وہ سرکشی کی باتیں سوچے اور اپنے ظالمانہ عمل کی خوبصورت توجیہہ کرسکے۔ یہ چیزیں اس کو دھوکے میں ڈالتی ہیں۔ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں پر جھوٹا بھروسہ کرلیتاہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسا میں آج ہوں ویسا ہی میں ہمیشہ رہوں گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور استحقاق۔ اس قسم کی زندگی خواہ وہ آخرت کا انکار کرکے ہو یا انکار کے الفاظ بولے بغیر ہو، آدمی کا سب سے بڑا جرم ہے۔ جن دنیوی چیزوں کو آدمی اپنا سب کچھ سمجھ کر ان پر ٹوٹتا ہے۔ آخر کس حق کی بنا پر وہ ایساکر رہا ہے۔ آدمی جس روشنی میں چلتاہے اور جس ہوا میں سانس لیتاہے اس کا کوئی معاوضہ اس نے ادا نہیں کیا ہے۔ وہ جس زمین سے اپنا رزق نکالتا ہے اس کاکوئی بھي جزء اس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ وہ تمام پسندیدہ چیزیں جن کو حاصل کرنے کے لیے آدمی دوڑتاہے ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کی اپنی ہو۔ جب یہ چیزیں انسان کی پیداکی ہوئی نہیں ہیں تو جو ان تمام چیزوں کا مالک ہے کیا، اس کا آدمی کے اوپر کوئی حق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کاموجودہ دنیا کو استعمال کرنا ہی لازم کردیتاہے کہ وہ ایک روز اس کے مالک کے سامنے حساب کے لیے کھڑا کیا جائے۔ جو لوگ دنیا کو خدا کی دنیا سمجھ کر زندگی گزاریں ان کی زندگی تقویٰ کی زندگی ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس کو خدا کی دنیا نہ سمجھیں ان کی زندگی لہو ولعب کی زندگی ہوتی ہے۔ لہو لعب کی زندگی چندروز کا تماشا ہے جو مرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اور تقویٰ کی زندگی خدا کے ابدی اصولوں پر قائم ہے اس لیے وہ ابدی طور پر آدمی کا سہارا بنے گی۔ موجودہ دنیا میں آدمی ان حقیقتوں کا انکار کرتاہے مگر امتحان کی آزادی ختم ہوتے ہی وہ اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا اگر چہ اس وقت کا اقرار اس کے کچھ كام نہ آئے گا۔

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۖ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 جب بھی کوئی آدمی حق کا انکار کرتاہے یا نفس کی خواہشات پر چلتاہے تو ایسا اس بنا پر ہوتاہے کہ وہ یہ سمجھ کر دنیا میں نہیں رہتا کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھایا جائے گا اور مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے کھڑا کیاجائے گا۔ دنیا میں آدمی کو اختیار ملا ہوا ہے جس کو وہ بے روک ٹوک استعمال کرتا ہے۔ اس کو مال و دولت اور دوست اور ساتھی حاصل ہیں، جن پروہ بھروسہ کرسکتا ہے۔ اس کو عقل ملی ہوئی ہے جس سے وہ سرکشی کی باتیں سوچے اور اپنے ظالمانہ عمل کی خوبصورت توجیہہ کرسکے۔ یہ چیزیں اس کو دھوکے میں ڈالتی ہیں۔ وہ خدا کے سوا دوسری چیزوں پر جھوٹا بھروسہ کرلیتاہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسا میں آج ہوں ویسا ہی میں ہمیشہ رہوں گا۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے وہ بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور استحقاق۔ اس قسم کی زندگی خواہ وہ آخرت کا انکار کرکے ہو یا انکار کے الفاظ بولے بغیر ہو، آدمی کا سب سے بڑا جرم ہے۔ جن دنیوی چیزوں کو آدمی اپنا سب کچھ سمجھ کر ان پر ٹوٹتا ہے۔ آخر کس حق کی بنا پر وہ ایساکر رہا ہے۔ آدمی جس روشنی میں چلتاہے اور جس ہوا میں سانس لیتاہے اس کا کوئی معاوضہ اس نے ادا نہیں کیا ہے۔ وہ جس زمین سے اپنا رزق نکالتا ہے اس کاکوئی بھي جزء اس کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ وہ تمام پسندیدہ چیزیں جن کو حاصل کرنے کے لیے آدمی دوڑتاہے ان میں سے کوئی چیز نہیں جو اس کی اپنی ہو۔ جب یہ چیزیں انسان کی پیداکی ہوئی نہیں ہیں تو جو ان تمام چیزوں کا مالک ہے کیا، اس کا آدمی کے اوپر کوئی حق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی کاموجودہ دنیا کو استعمال کرنا ہی لازم کردیتاہے کہ وہ ایک روز اس کے مالک کے سامنے حساب کے لیے کھڑا کیا جائے۔ جو لوگ دنیا کو خدا کی دنیا سمجھ کر زندگی گزاریں ان کی زندگی تقویٰ کی زندگی ہوتی ہے۔ اور جو لوگ اس کو خدا کی دنیا نہ سمجھیں ان کی زندگی لہو ولعب کی زندگی ہوتی ہے۔ لہو لعب کی زندگی چندروز کا تماشا ہے جو مرنے کے ساتھ ختم ہوجائے گا۔ اور تقویٰ کی زندگی خدا کے ابدی اصولوں پر قائم ہے اس لیے وہ ابدی طور پر آدمی کا سہارا بنے گی۔ موجودہ دنیا میں آدمی ان حقیقتوں کا انکار کرتاہے مگر امتحان کی آزادی ختم ہوتے ہی وہ اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا اگر چہ اس وقت کا اقرار اس کے کچھ كام نہ آئے گا۔

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ ۖ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ

📘 ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد، خدا کی قسم ہم تم کو نہیں جھٹلاتے۔ یقیناً تم ہمارے درمیان ایک سچے آدمی ہو۔ مگر ہم اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو تم لائے ہو۔ مکہ کے لوگ جو ایمان نہیں لائے وہ آپ کو ایک اچھا انسان مانتے تھے۔ مگر کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کی زبان پر حق جاری ہوا ہے اس کو بہت بڑا اعزاز دینا ہے اور اتنا بڑا اعزاز دینے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ آپ کو جب وہ ’’سچا‘‘ یا ’’ایمان دار‘‘ کہتے تو ان کو یہ نفسیاتی تسکین حاصل رہتی کہ آپ ہماری ہی سطح کے ایک انسان ہیں۔ مگر اس بات کا اقرار کہ آپ کی زبان پر خدا کا کلام جاری ہوا ہے آپ کو اپنے سے اونچا درجہ دینے کے ہم معنی تھا۔ اور اس قسم کا اعتراف آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا اپنی براہ راست صورت میں سامنے نہیں آتا، وہ دلائل اور نشانیوں کی صورت میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے حق کے دلائل کو نہ ماننا یا اس کے حق میں ظاہر ہونے والی نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا گویا خدا کو نہ ماننا اور خدا كي طرف سے آنکھیں پھیر لینا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا مجبورکن معجزات کے ساتھ سامنے آئے۔ مجبور کن معجزات کے جلو میں خدا کی دعوت پیش کی جائے تو پھر اختیار کی آزادی ختم ہوجائے گی اور امتحان کے لیے آزادانہ اختیار کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ داعی کو اس بات کا غم نہ کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھ صرف دلائل کا وزن ہے، غیر معمولی قسم کی تسخیری قوتیں اس کے پاس موجود نہیں۔ داعی کو اس فکر میں پڑنے کے بجائے صبر کرنا چاہیے۔ دعوت حق کی جدوجہد ایک طرف داعی کے صبر کا امتحان ہوتی ہے اور دوسری طرف مخاطبین کے لیے اس بات کا امتحان کہ وہ اپنے جیسے ایک انسان میں نمائندۂ خدا ہونے کی جھلک دیکھیں۔ وہ انسان کے منھ سے نکلے ہوئے کلام میں خدائی کلام کی عظمتوں کو پالیں، وہ مادی زور سے خالی دلائل کے آگے اس طرح جھک جائیں جس طرح وہ زور آور خدا کے آگے جھکیں گے — زندہ لوگوں کے لیے ساری کائنات نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور جنھوں نے اپنے احساسات کو مردہ کرلیا ہو وہ قیامت کے زلزلہ کے سوا کسی اور چیز سے سبق نہیں لے سکتے۔

وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَىٰ مَا كُذِّبُوا وَأُوذُوا حَتَّىٰ أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَبَإِ الْمُرْسَلِينَ

📘 ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد، خدا کی قسم ہم تم کو نہیں جھٹلاتے۔ یقیناً تم ہمارے درمیان ایک سچے آدمی ہو۔ مگر ہم اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو تم لائے ہو۔ مکہ کے لوگ جو ایمان نہیں لائے وہ آپ کو ایک اچھا انسان مانتے تھے۔ مگر کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کی زبان پر حق جاری ہوا ہے اس کو بہت بڑا اعزاز دینا ہے اور اتنا بڑا اعزاز دینے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ آپ کو جب وہ ’’سچا‘‘ یا ’’ایمان دار‘‘ کہتے تو ان کو یہ نفسیاتی تسکین حاصل رہتی کہ آپ ہماری ہی سطح کے ایک انسان ہیں۔ مگر اس بات کا اقرار کہ آپ کی زبان پر خدا کا کلام جاری ہوا ہے آپ کو اپنے سے اونچا درجہ دینے کے ہم معنی تھا۔ اور اس قسم کا اعتراف آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا اپنی براہ راست صورت میں سامنے نہیں آتا، وہ دلائل اور نشانیوں کی صورت میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے حق کے دلائل کو نہ ماننا یا اس کے حق میں ظاہر ہونے والی نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا گویا خدا کو نہ ماننا اور خدا كي طرف سے آنکھیں پھیر لینا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا مجبورکن معجزات کے ساتھ سامنے آئے۔ مجبور کن معجزات کے جلو میں خدا کی دعوت پیش کی جائے تو پھر اختیار کی آزادی ختم ہوجائے گی اور امتحان کے لیے آزادانہ اختیار کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ داعی کو اس بات کا غم نہ کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھ صرف دلائل کا وزن ہے، غیر معمولی قسم کی تسخیری قوتیں اس کے پاس موجود نہیں۔ داعی کو اس فکر میں پڑنے کے بجائے صبر کرنا چاہیے۔ دعوت حق کی جدوجہد ایک طرف داعی کے صبر کا امتحان ہوتی ہے اور دوسری طرف مخاطبین کے لیے اس بات کا امتحان کہ وہ اپنے جیسے ایک انسان میں نمائندۂ خدا ہونے کی جھلک دیکھیں۔ وہ انسان کے منھ سے نکلے ہوئے کلام میں خدائی کلام کی عظمتوں کو پالیں، وہ مادی زور سے خالی دلائل کے آگے اس طرح جھک جائیں جس طرح وہ زور آور خدا کے آگے جھکیں گے — زندہ لوگوں کے لیے ساری کائنات نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور جنھوں نے اپنے احساسات کو مردہ کرلیا ہو وہ قیامت کے زلزلہ کے سوا کسی اور چیز سے سبق نہیں لے سکتے۔

وَإِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ إِعْرَاضُهُمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْأَرْضِ أَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاءِ فَتَأْتِيَهُمْ بِآيَةٍ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدَىٰ ۚ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْجَاهِلِينَ

📘 ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد، خدا کی قسم ہم تم کو نہیں جھٹلاتے۔ یقیناً تم ہمارے درمیان ایک سچے آدمی ہو۔ مگر ہم اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو تم لائے ہو۔ مکہ کے لوگ جو ایمان نہیں لائے وہ آپ کو ایک اچھا انسان مانتے تھے۔ مگر کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کی زبان پر حق جاری ہوا ہے اس کو بہت بڑا اعزاز دینا ہے اور اتنا بڑا اعزاز دینے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ آپ کو جب وہ ’’سچا‘‘ یا ’’ایمان دار‘‘ کہتے تو ان کو یہ نفسیاتی تسکین حاصل رہتی کہ آپ ہماری ہی سطح کے ایک انسان ہیں۔ مگر اس بات کا اقرار کہ آپ کی زبان پر خدا کا کلام جاری ہوا ہے آپ کو اپنے سے اونچا درجہ دینے کے ہم معنی تھا۔ اور اس قسم کا اعتراف آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا اپنی براہ راست صورت میں سامنے نہیں آتا، وہ دلائل اور نشانیوں کی صورت میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے حق کے دلائل کو نہ ماننا یا اس کے حق میں ظاہر ہونے والی نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا گویا خدا کو نہ ماننا اور خدا كي طرف سے آنکھیں پھیر لینا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا مجبورکن معجزات کے ساتھ سامنے آئے۔ مجبور کن معجزات کے جلو میں خدا کی دعوت پیش کی جائے تو پھر اختیار کی آزادی ختم ہوجائے گی اور امتحان کے لیے آزادانہ اختیار کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ داعی کو اس بات کا غم نہ کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھ صرف دلائل کا وزن ہے، غیر معمولی قسم کی تسخیری قوتیں اس کے پاس موجود نہیں۔ داعی کو اس فکر میں پڑنے کے بجائے صبر کرنا چاہیے۔ دعوت حق کی جدوجہد ایک طرف داعی کے صبر کا امتحان ہوتی ہے اور دوسری طرف مخاطبین کے لیے اس بات کا امتحان کہ وہ اپنے جیسے ایک انسان میں نمائندۂ خدا ہونے کی جھلک دیکھیں۔ وہ انسان کے منھ سے نکلے ہوئے کلام میں خدائی کلام کی عظمتوں کو پالیں، وہ مادی زور سے خالی دلائل کے آگے اس طرح جھک جائیں جس طرح وہ زور آور خدا کے آگے جھکیں گے — زندہ لوگوں کے لیے ساری کائنات نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور جنھوں نے اپنے احساسات کو مردہ کرلیا ہو وہ قیامت کے زلزلہ کے سوا کسی اور چیز سے سبق نہیں لے سکتے۔

۞ إِنَّمَا يَسْتَجِيبُ الَّذِينَ يَسْمَعُونَ ۘ وَالْمَوْتَىٰ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ ثُمَّ إِلَيْهِ يُرْجَعُونَ

📘 ابو جہل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اے محمد، خدا کی قسم ہم تم کو نہیں جھٹلاتے۔ یقیناً تم ہمارے درمیان ایک سچے آدمی ہو۔ مگر ہم اس چیز کو جھٹلاتے ہیں جس کو تم لائے ہو۔ مکہ کے لوگ جو ایمان نہیں لائے وہ آپ کو ایک اچھا انسان مانتے تھے۔ مگر کسی کے متعلق یہ ماننا کہ اس کی زبان پر حق جاری ہوا ہے اس کو بہت بڑا اعزاز دینا ہے اور اتنا بڑا اعزاز دینے کے لیے وہ تیار نہ تھے۔ آپ کو جب وہ ’’سچا‘‘ یا ’’ایمان دار‘‘ کہتے تو ان کو یہ نفسیاتی تسکین حاصل رہتی کہ آپ ہماری ہی سطح کے ایک انسان ہیں۔ مگر اس بات کا اقرار کہ آپ کی زبان پر خدا کا کلام جاری ہوا ہے آپ کو اپنے سے اونچا درجہ دینے کے ہم معنی تھا۔ اور اس قسم کا اعتراف آدمی کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا اپنی براہ راست صورت میں سامنے نہیں آتا، وہ دلائل اور نشانیوں کی صورت میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے حق کے دلائل کو نہ ماننا یا اس کے حق میں ظاہر ہونے والی نشانیوں کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا گویا خدا کو نہ ماننا اور خدا كي طرف سے آنکھیں پھیر لینا ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوسکتا کہ خدا مجبورکن معجزات کے ساتھ سامنے آئے۔ مجبور کن معجزات کے جلو میں خدا کی دعوت پیش کی جائے تو پھر اختیار کی آزادی ختم ہوجائے گی اور امتحان کے لیے آزادانہ اختیار کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ داعی کو اس بات کا غم نہ کرنا چاہیے کہ اس کے ساتھ صرف دلائل کا وزن ہے، غیر معمولی قسم کی تسخیری قوتیں اس کے پاس موجود نہیں۔ داعی کو اس فکر میں پڑنے کے بجائے صبر کرنا چاہیے۔ دعوت حق کی جدوجہد ایک طرف داعی کے صبر کا امتحان ہوتی ہے اور دوسری طرف مخاطبین کے لیے اس بات کا امتحان کہ وہ اپنے جیسے ایک انسان میں نمائندۂ خدا ہونے کی جھلک دیکھیں۔ وہ انسان کے منھ سے نکلے ہوئے کلام میں خدائی کلام کی عظمتوں کو پالیں، وہ مادی زور سے خالی دلائل کے آگے اس طرح جھک جائیں جس طرح وہ زور آور خدا کے آگے جھکیں گے — زندہ لوگوں کے لیے ساری کائنات نشانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اور جنھوں نے اپنے احساسات کو مردہ کرلیا ہو وہ قیامت کے زلزلہ کے سوا کسی اور چیز سے سبق نہیں لے سکتے۔

وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۚ قُلْ إِنَّ اللَّهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَنْ يُنَزِّلَ آيَةً وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 ان آیات کے اختصار کو کھول دیا جائے تو پورا مضمون اس طرح ہوگا — وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے ساتھ غیرمعمولی نشانی کیوں نہیں، جو اس کے پیغام کے برحق ہونے کا ثبوت ہو۔ تو اللہ ہر قسم کی نشانی اتارنے پر قادر ہے۔ مگر اصل سوال نشانی کا نہیں بلکہ لوگوں کی بے علمی کا ہے۔ نشانیاں تو بے شمار تعداد میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں جب لوگ اِن موجود نشانیوں سے سبق نہیں لے رہے ہیں تو کوئی نئی نشانی اتارنے سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ طرح طرح کے چلنے والے جانور اور مختلف قسم کے اڑنے والی چڑیاں جو زمین میں اور فضا میں موجودہیں وہ تمھارے لیے نشانیاں ہی تو ہیں۔ ان تمام زندہ مخلوقات سے بھی اللہ کو وہی کچھ مطلوب ہے جو تم سے مطلوب ہے۔ اور ہر ایک سے جو کچھ مطلوب ہے وہ خدا نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، انسان کو شرعی طورپر اور دوسری مخلوقات کو جبلّی طور پر۔ چڑیوں اور جانوروں جیسی مخلوقات خدا کے لکھے پر پورا پورا عمل کررہی ہے۔ مگر انسان خدا کے لکھے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے یہ معاملہ نشانی کا نہیں بلکہ اندھے پن کا ہے، بقیہ تمام مخلوقات جو دین اختیار کیے ہوئے ہیں، انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنے کا جواز کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کو عمل کرنا ہے وہ نشانی کا مطالبہ کیے بغیر عمل کررہے ہیں اور جن کو عمل کرنا نہیں ہے وہ نشانیوں کے ہجوم میں رہ کر نشانیاں مانگ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام یہی ہے کہ قیامت میں سب کو جمع کرکے دکھا دیا جائے کہ ہر قسم کے حیوانات کس طرح حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ صرف انسان تھاجو اس سے انحراف کرتا رہا۔ جانوروں کی دنیا مکمل طورپر مطابق فطرت دنیا ہے۔ ان کے یہاں رزق کی تلاش ہے مگر لوٹ اور ظلم نہیں ہے۔ ان کے یہاں ضرورت ہے مگر حرص اور خود غرضی نہیں۔ ان کے یہاں باہمی تعلقات ہیں مگر ایک دوسرے کی کاٹ نہیں۔ ان کے یہاں اونچ نیچ ہے مگر حسد اور غرور نہیں۔ ان کے یہاں ایک کو دوسرے سے تکلیف پہنچتی ہے مگر بغض وعداوت نہیں۔ ان کے یہاں کام ہو رہے هيں مگر انھیں کریڈٹ لینے کا شوق نہیں۔ مگر انسان سرکشی کرتا ہے۔ وہ خدائی نقشہ کا پابند بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ انسان سے جس چیز کا مطالبہ ہے وہ ٹھیک وہی ہے جس پر دوسرے حیوانات قائم ہیں۔ پھر اس کے ليے معجزہ مانگنے کی کیا ضرورت ۔ حیوانات کی صورت میں چلتی پھرتی نشانیاں کیا آدمی کے سبق کے ليے کافی نہیں ہیں جو خدائی طریق عمل کا زندہ نمونہ پیش کررہی ہیں اور اس طرح پیغمبر کی تعلیمات کے بر حق ہونے کی عملی تصدیق کرتی ہیں۔

وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ ۚ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ

📘 ان آیات کے اختصار کو کھول دیا جائے تو پورا مضمون اس طرح ہوگا — وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے ساتھ غیرمعمولی نشانی کیوں نہیں، جو اس کے پیغام کے برحق ہونے کا ثبوت ہو۔ تو اللہ ہر قسم کی نشانی اتارنے پر قادر ہے۔ مگر اصل سوال نشانی کا نہیں بلکہ لوگوں کی بے علمی کا ہے۔ نشانیاں تو بے شمار تعداد میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں جب لوگ اِن موجود نشانیوں سے سبق نہیں لے رہے ہیں تو کوئی نئی نشانی اتارنے سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ طرح طرح کے چلنے والے جانور اور مختلف قسم کے اڑنے والی چڑیاں جو زمین میں اور فضا میں موجودہیں وہ تمھارے لیے نشانیاں ہی تو ہیں۔ ان تمام زندہ مخلوقات سے بھی اللہ کو وہی کچھ مطلوب ہے جو تم سے مطلوب ہے۔ اور ہر ایک سے جو کچھ مطلوب ہے وہ خدا نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، انسان کو شرعی طورپر اور دوسری مخلوقات کو جبلّی طور پر۔ چڑیوں اور جانوروں جیسی مخلوقات خدا کے لکھے پر پورا پورا عمل کررہی ہے۔ مگر انسان خدا کے لکھے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے یہ معاملہ نشانی کا نہیں بلکہ اندھے پن کا ہے، بقیہ تمام مخلوقات جو دین اختیار کیے ہوئے ہیں، انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنے کا جواز کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کو عمل کرنا ہے وہ نشانی کا مطالبہ کیے بغیر عمل کررہے ہیں اور جن کو عمل کرنا نہیں ہے وہ نشانیوں کے ہجوم میں رہ کر نشانیاں مانگ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام یہی ہے کہ قیامت میں سب کو جمع کرکے دکھا دیا جائے کہ ہر قسم کے حیوانات کس طرح حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ صرف انسان تھاجو اس سے انحراف کرتا رہا۔ جانوروں کی دنیا مکمل طورپر مطابق فطرت دنیا ہے۔ ان کے یہاں رزق کی تلاش ہے مگر لوٹ اور ظلم نہیں ہے۔ ان کے یہاں ضرورت ہے مگر حرص اور خود غرضی نہیں۔ ان کے یہاں باہمی تعلقات ہیں مگر ایک دوسرے کی کاٹ نہیں۔ ان کے یہاں اونچ نیچ ہے مگر حسد اور غرور نہیں۔ ان کے یہاں ایک کو دوسرے سے تکلیف پہنچتی ہے مگر بغض وعداوت نہیں۔ ان کے یہاں کام ہو رہے هيں مگر انھیں کریڈٹ لینے کا شوق نہیں۔ مگر انسان سرکشی کرتا ہے۔ وہ خدائی نقشہ کا پابند بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ انسان سے جس چیز کا مطالبہ ہے وہ ٹھیک وہی ہے جس پر دوسرے حیوانات قائم ہیں۔ پھر اس کے ليے معجزہ مانگنے کی کیا ضرورت ۔ حیوانات کی صورت میں چلتی پھرتی نشانیاں کیا آدمی کے سبق کے ليے کافی نہیں ہیں جو خدائی طریق عمل کا زندہ نمونہ پیش کررہی ہیں اور اس طرح پیغمبر کی تعلیمات کے بر حق ہونے کی عملی تصدیق کرتی ہیں۔

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ ۗ مَنْ يَشَإِ اللَّهُ يُضْلِلْهُ وَمَنْ يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 ان آیات کے اختصار کو کھول دیا جائے تو پورا مضمون اس طرح ہوگا — وہ کہتے ہیں کہ پیغمبر کے ساتھ غیرمعمولی نشانی کیوں نہیں، جو اس کے پیغام کے برحق ہونے کا ثبوت ہو۔ تو اللہ ہر قسم کی نشانی اتارنے پر قادر ہے۔ مگر اصل سوال نشانی کا نہیں بلکہ لوگوں کی بے علمی کا ہے۔ نشانیاں تو بے شمار تعداد میں ہر طرف بکھری ہوئی ہیں جب لوگ اِن موجود نشانیوں سے سبق نہیں لے رہے ہیں تو کوئی نئی نشانی اتارنے سے وہ کیا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ طرح طرح کے چلنے والے جانور اور مختلف قسم کے اڑنے والی چڑیاں جو زمین میں اور فضا میں موجودہیں وہ تمھارے لیے نشانیاں ہی تو ہیں۔ ان تمام زندہ مخلوقات سے بھی اللہ کو وہی کچھ مطلوب ہے جو تم سے مطلوب ہے۔ اور ہر ایک سے جو کچھ مطلوب ہے وہ خدا نے اس کے لیے لکھ دیا ہے، انسان کو شرعی طورپر اور دوسری مخلوقات کو جبلّی طور پر۔ چڑیوں اور جانوروں جیسی مخلوقات خدا کے لکھے پر پورا پورا عمل کررہی ہے۔ مگر انسان خدا کے لکھے کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔اس لیے یہ معاملہ نشانی کا نہیں بلکہ اندھے پن کا ہے، بقیہ تمام مخلوقات جو دین اختیار کیے ہوئے ہیں، انسان کے لیے اس کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنے کا جواز کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کو عمل کرنا ہے وہ نشانی کا مطالبہ کیے بغیر عمل کررہے ہیں اور جن کو عمل کرنا نہیں ہے وہ نشانیوں کے ہجوم میں رہ کر نشانیاں مانگ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کا انجام یہی ہے کہ قیامت میں سب کو جمع کرکے دکھا دیا جائے کہ ہر قسم کے حیوانات کس طرح حقیقت پسندی کا طریقہ اختیار کرکے خدا کے راستہ پر چل رہے تھے۔ یہ صرف انسان تھاجو اس سے انحراف کرتا رہا۔ جانوروں کی دنیا مکمل طورپر مطابق فطرت دنیا ہے۔ ان کے یہاں رزق کی تلاش ہے مگر لوٹ اور ظلم نہیں ہے۔ ان کے یہاں ضرورت ہے مگر حرص اور خود غرضی نہیں۔ ان کے یہاں باہمی تعلقات ہیں مگر ایک دوسرے کی کاٹ نہیں۔ ان کے یہاں اونچ نیچ ہے مگر حسد اور غرور نہیں۔ ان کے یہاں ایک کو دوسرے سے تکلیف پہنچتی ہے مگر بغض وعداوت نہیں۔ ان کے یہاں کام ہو رہے هيں مگر انھیں کریڈٹ لینے کا شوق نہیں۔ مگر انسان سرکشی کرتا ہے۔ وہ خدائی نقشہ کا پابند بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ انسان سے جس چیز کا مطالبہ ہے وہ ٹھیک وہی ہے جس پر دوسرے حیوانات قائم ہیں۔ پھر اس کے ليے معجزہ مانگنے کی کیا ضرورت ۔ حیوانات کی صورت میں چلتی پھرتی نشانیاں کیا آدمی کے سبق کے ليے کافی نہیں ہیں جو خدائی طریق عمل کا زندہ نمونہ پیش کررہی ہیں اور اس طرح پیغمبر کی تعلیمات کے بر حق ہونے کی عملی تصدیق کرتی ہیں۔

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

📘 خدا اور آخرت کی دعوت جو خدا کی براہِ راست تائید سے اٹھی ہو اس کے ساتھ واضح علامتیں ہوتی ہیں جو اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ایک سچی دعوت ہےاور خدا كي طرف سے هے— اس كا اس فطرت كے انداز پر هونا جس پر خدا كي ابدي دنيا كا نظام قائم هے۔اس کا ایسے دلائل کی بنیاد پر اٹھنا جس کا توڑ کسی کے لیے ممکن نہ ہو۔ اس کی پشت پر ایسے داعی کا ہونا جس کی سنجیدگی اور اخلاق پر شبہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس کے ساتھ ایسے تائیدی واقعات کا وابستہ ہونا کہ مخالفین اپنی برتر قوت کے باوجود اس کے خلاف اپنے تخریبی منصوبوں میں کامیاب نہ ہوئے ہوں۔ اس طرح کے واضح قرائن ہیں جو اس کے برحق ہونے کی طرف کھلا اشارہ کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان اس پر یقین نہیں کرتا اور اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام تائیدی قرائن اپنی ساری وضاحت کے باوجود ہمیشہ اسباب کے پردہ میںظاہر ہوتے ہیں۔ آدمی کے سامنے جب یہ قرآئن آتے ہیں تو وہ ان کو مخصوص اسباب کی طرف منسوب کرکے انھیں نظر انداز کردیتا ہے، اس کا ذہن اعتراف کے رخ پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ دعوت اگر خدا کی طرف سے ہوتی تو خدااور فرشتے برہنہ صورت میں اس کے ساتھ موجود ہوتے۔ حالاں کہ یہ خیال سراسر باطل ہے۔ کیوںکہ خدااور فرشتے جب برہنہ صورت میں سامنے آجائیں تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ دعوت اور تبلیغ کا۔ جن لوگوں کو زمین میں جماؤ حاصل ہو، جنھوں نے اپنے لیے معاشی سازوسامان جمع کرلیا ہو، جن کو اپنے آس پاس عظمت ومقبولیت کے مظاہر دکھائی دیتے ہوں وہ ہمیشہ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد جمع شدہ چیزوں کے مقابلہ میں ان چیزوں کو حقیر سمجھ لیتے ہیں، جو داعی حق کے گرد خدا نے جمع کی ہیں۔ ان کی یہ خود اعتمادی اتنا بڑھتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھی بے خوف ہوجاتے ہیں۔ وہ داعی حق کی اس تنبیہ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں کہ تمھاری سرکشی جاری رہی تو تمھاری مادی ترقیاں تم کو خدا کی پکڑ سے نہ بچاسکیں گی۔ داعی حق کو ناچیز سمجھنا ان کی نظر میں داعی کی تنبیہات کو بھی ناچیز بنا دیتاہے۔ ماضی کے وہ تاریخی واقعات بھی ان کو سبق دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوتے جب کہ بڑے بڑے مادی استحکام کے باوجود خدانے لوگوں کو اس طرح مٹا دیا جیسے ان کی کوئی قیمت ہی نہ تھی — زمین میں بار بار ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا ابھرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاںمکافات کا قانون نافذ ہے۔ مگر آدمی سبق نہیں لیتا۔ پچھلے لوگ دوبارہ اسی عمل کو دہراتے ہیں جس کی وجہ سے اگلے لوگ برباد ہوگئے۔

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللَّهِ تَدْعُونَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 ابو جہل کے لڑکے عکرمہ اسلام کے سخت دشمن تھے۔ وہ فتح مکہ تک اسلام کے مخالف بنے رہے۔ فتح مکہ کے دن انھوں نے ایک مسلمان کو تیر مار کر ہلاک کردیا تھا۔ عکرمہ ان اشخاص میں تھے جن کے متعلق فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ وه جہاں ملیں قتل کرديے جائیں۔ مکہ جب فتح ہوگیا تو عکرمہ مکہ چھوڑ کر جدہ کی طرف بھاگے۔ انھوں نے چاہا کہ کشتی کے ذریعہ بحر قلزم پار کرکے حبش پہنچ جائیں۔ مگر وہ کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں پہنچے تھے کہ تند ہواؤں نے کشتی کو گھیر لیا۔ کشتی خطرہ میں پڑ گئی۔ کشتی کے مسافر سب مشرک لوگ تھے۔انھوں نے لات اور عزی وغیرہ اپنے بتوں کو مدد کے لیے پکارنا شروع کیا۔ مگر طوفان کی شدت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی۔ اب کشتی والوں نے کہا کہ اس وقت لات وعزی کچھ کام نہ دیں گے۔ اب صرف ایک خدا کو پکارو، وہی تم کو بچا سکتا ہے۔ چنانچہ سب ایک خدا کو پکارنے لگے۔ اب طوفان تھم گیااور کشتی واپس اپنے ساحل پر آگئی۔ عکرمہ پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا۔ انھوںنے کہا خدا کی قسم، دريا ميں اگر كوئي چيز خدا كے سوا كام نهيں آسكتي تو يقيناً خشكي ميں بھي خدا كے سوا كوئي دوسري چيز كام نهيں آسكتي۔ خدایا میں تجھ سے وعدہ کرتاہوں کہ اگر تو نے مجھ کو اس سے نجات دے دی جس میںاس وقت میں پھنسا ہوا ہوں تو میں ضرور محمد کے یہاں جاؤں گااور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں ان کو معاف کرنے والا درگزر کرنے والا اور مہربان پاؤں گا (اللَّهمّ إنّ لك عليّ عهدا إن عافيتني مما أنا فيه أن آتي محمدا حتى أضع يدي في يده، فلا أجدنّه إلا عفوّا كريما( الإصابۃ فی تمييز الصحابہ لابن حجر العسقلانی، جلد4، صفحہ 444 ساری تاریخ کا یہ مشاہدہ ہے کہ انسان نازک لمحات میں خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ حتی کہ وہ شخص بھی جو عام زندگی میں خدا کے سوا دوسروں پر بھروسہ کیے ہو یا سرے سے خدا کو مانتا نہ ہو۔ یہ خدا کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کی فطری شہادت ہے۔ غیر معمولی حالات میں جب ظاہری پردے ہٹ جاتے ہیں اور آدمی تمام مصنوعی خیالات کو بھول چکا ہوتا ہے اس وقت آدمی کو خداکے سوا کوئی چیز یاد نہیں آتی۔ بالفاظ دیگر، مجبوری کے نقطہ پر پہنچ کر ہر آدمی خدا کا اقرار کرلیتاہے، قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ یہی اقرار اور اطاعت آدمی اس وقت کرنے لگے جب کہ بظاہر مجبور کرنے والی کوئی چیز اس کے سامنے موجود نہ ہو۔ بقیہ حیوانات اپنی جبلّت کے تحت حقیقت پسندانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر انسان کو جو چیز حقیقت پسندی اور اعتراف کی سطح پر لاتی ہے وہ خوف کی نفسیات ہے۔ حیوانات کی دنیا میں جو کام جبلت کرتی ہے، انسان کی دنیا میں وہی کام تقویٰ انجام دیتا ہے۔

بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ

📘 ابو جہل کے لڑکے عکرمہ اسلام کے سخت دشمن تھے۔ وہ فتح مکہ تک اسلام کے مخالف بنے رہے۔ فتح مکہ کے دن انھوں نے ایک مسلمان کو تیر مار کر ہلاک کردیا تھا۔ عکرمہ ان اشخاص میں تھے جن کے متعلق فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا تھا کہ وه جہاں ملیں قتل کرديے جائیں۔ مکہ جب فتح ہوگیا تو عکرمہ مکہ چھوڑ کر جدہ کی طرف بھاگے۔ انھوں نے چاہا کہ کشتی کے ذریعہ بحر قلزم پار کرکے حبش پہنچ جائیں۔ مگر وہ کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں پہنچے تھے کہ تند ہواؤں نے کشتی کو گھیر لیا۔ کشتی خطرہ میں پڑ گئی۔ کشتی کے مسافر سب مشرک لوگ تھے۔انھوں نے لات اور عزی وغیرہ اپنے بتوں کو مدد کے لیے پکارنا شروع کیا۔ مگر طوفان کی شدت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ مسافروں کو یقین ہوگیا کہ اب کشتی ڈوب جائے گی۔ اب کشتی والوں نے کہا کہ اس وقت لات وعزی کچھ کام نہ دیں گے۔ اب صرف ایک خدا کو پکارو، وہی تم کو بچا سکتا ہے۔ چنانچہ سب ایک خدا کو پکارنے لگے۔ اب طوفان تھم گیااور کشتی واپس اپنے ساحل پر آگئی۔ عکرمہ پر اس واقعہ کا بہت اثر ہوا۔ انھوںنے کہا خدا کی قسم، دريا ميں اگر كوئي چيز خدا كے سوا كام نهيں آسكتي تو يقيناً خشكي ميں بھي خدا كے سوا كوئي دوسري چيز كام نهيں آسكتي۔ خدایا میں تجھ سے وعدہ کرتاہوں کہ اگر تو نے مجھ کو اس سے نجات دے دی جس میںاس وقت میں پھنسا ہوا ہوں تو میں ضرور محمد کے یہاں جاؤں گااور اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے دوں گا اور مجھے یقین ہے کہ میں ان کو معاف کرنے والا درگزر کرنے والا اور مہربان پاؤں گا (اللَّهمّ إنّ لك عليّ عهدا إن عافيتني مما أنا فيه أن آتي محمدا حتى أضع يدي في يده، فلا أجدنّه إلا عفوّا كريما( الإصابۃ فی تمييز الصحابہ لابن حجر العسقلانی، جلد4، صفحہ 444 ساری تاریخ کا یہ مشاہدہ ہے کہ انسان نازک لمحات میں خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ حتی کہ وہ شخص بھی جو عام زندگی میں خدا کے سوا دوسروں پر بھروسہ کیے ہو یا سرے سے خدا کو مانتا نہ ہو۔ یہ خدا کے وجود اور اس کے قادر مطلق ہونے کی فطری شہادت ہے۔ غیر معمولی حالات میں جب ظاہری پردے ہٹ جاتے ہیں اور آدمی تمام مصنوعی خیالات کو بھول چکا ہوتا ہے اس وقت آدمی کو خداکے سوا کوئی چیز یاد نہیں آتی۔ بالفاظ دیگر، مجبوری کے نقطہ پر پہنچ کر ہر آدمی خدا کا اقرار کرلیتاہے، قرآن کا مطالبہ یہ ہے کہ یہی اقرار اور اطاعت آدمی اس وقت کرنے لگے جب کہ بظاہر مجبور کرنے والی کوئی چیز اس کے سامنے موجود نہ ہو۔ بقیہ حیوانات اپنی جبلّت کے تحت حقیقت پسندانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر انسان کو جو چیز حقیقت پسندی اور اعتراف کی سطح پر لاتی ہے وہ خوف کی نفسیات ہے۔ حیوانات کی دنیا میں جو کام جبلت کرتی ہے، انسان کی دنیا میں وہی کام تقویٰ انجام دیتا ہے۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُمْ بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ

📘 آدمی کے سامنے ایک حق آتا ہے اور وہ اس کو نہیں مانتا تو اللہ اس کو فوراً نہیں پکڑتا۔ بلکہ اس کو مالی نقصان اور جسمانی تکلیف کی صورت میں کچھ جھٹکے دیتا ہے، تاکہ اس کی سوچنے کی صلاحیت بیدار ہو اور وہ اپنے رویہ کے بارے میں نظر ثانی کرے۔ زندگی کے حوادث محض حوادث نہیںہیں، وہ خدا کے بھیجے ہوئے محسوس پیغامات ہیں جو اس لیے آتے ہیں تاکہ غفلت میں سوئے ہوئے انسان کو جگائیں۔ مگر آدمی اکثر ان چیزوں سے نصیحت نہیں لیتا۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کو مطمئن کرلیتا ہے کہ یہ تو اتار چڑھاؤ کے واقعات ہیں اور اس قسم کے اتار چڑھاؤ زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں۔ اس طرح ہر موقع پر شیطان کوئی خوش نما توجیہہ پیش کرکے آدمی کے ذہن کو نصیحت کے بجائے غفلت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ آدمی جب بار بار ایسا کرتاہے تو حق وباطل اور صحیح وغلط کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ قساوت (بے حسی) کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب آدمی خدا کی طرف سے آئی ہوئی تنبیہات کو نظر انداز کردے تو اس کے بعد اس کے بارے میں خدا کا انداز بدل جاتا ہے۔ اب اس کے لیے خدا كا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر آسانیوں اور کامیابیوں کے دروازے کھولے جائیں۔ اس پر خوش حالی کی بارش کی جائے۔ اس کی عزت ومقبولیت میںاضافہ کیا جائے۔ یہ درحقیقت ایک سزا ہے، جو اس لیے ہوتی ہے تاکہ آدمی مطمئن ہو کر اپنی بے حسی کو اور بڑھالے، وہ حق کو نظرانداز کرنے میں اور زیادہ ڈھیٹ ہوجائے اور اس طرح خدا کی سزا کا استحقاق اس کے لیے پوری طرح ثابت ہوجائے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اچانک اس پر خداکا عذاب ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کو دنیوی زندگی سے محروم کرکے آخرت کی عدالت میںحاضر کردیا جاتاہے تاکہ اس کی سرکشی کی سزا میں اس کے لیے جہنم کا فیصلہ ہو۔ یہ دنیا خداکی دنیا ہے۔ یہاںہر قسم کی بڑائی اور تعریف کا حق صرف ایک ذات کے لیے ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو نظر انداز کردیتاہے تو وہ دراصل خدا کی ناقدری کرتاہے۔ وہ خداکی عظمتوں کی دنیامیں اپنی عظمت قائم کرنا چاہتاہے۔ وہ ایسا ظلم کرتاہے جس سے بڑا کوئی ظلم نہیں۔ وہ اس خدا کے سامنے گستاخی کرتاہے جس کے سامنے عجز کے سوا کوئی اور رویہ کسی انسان کے لیے درست نہیں۔

فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آدمی کے سامنے ایک حق آتا ہے اور وہ اس کو نہیں مانتا تو اللہ اس کو فوراً نہیں پکڑتا۔ بلکہ اس کو مالی نقصان اور جسمانی تکلیف کی صورت میں کچھ جھٹکے دیتا ہے، تاکہ اس کی سوچنے کی صلاحیت بیدار ہو اور وہ اپنے رویہ کے بارے میں نظر ثانی کرے۔ زندگی کے حوادث محض حوادث نہیںہیں، وہ خدا کے بھیجے ہوئے محسوس پیغامات ہیں جو اس لیے آتے ہیں تاکہ غفلت میں سوئے ہوئے انسان کو جگائیں۔ مگر آدمی اکثر ان چیزوں سے نصیحت نہیں لیتا۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کو مطمئن کرلیتا ہے کہ یہ تو اتار چڑھاؤ کے واقعات ہیں اور اس قسم کے اتار چڑھاؤ زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں۔ اس طرح ہر موقع پر شیطان کوئی خوش نما توجیہہ پیش کرکے آدمی کے ذہن کو نصیحت کے بجائے غفلت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ آدمی جب بار بار ایسا کرتاہے تو حق وباطل اور صحیح وغلط کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ قساوت (بے حسی) کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب آدمی خدا کی طرف سے آئی ہوئی تنبیہات کو نظر انداز کردے تو اس کے بعد اس کے بارے میں خدا کا انداز بدل جاتا ہے۔ اب اس کے لیے خدا كا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر آسانیوں اور کامیابیوں کے دروازے کھولے جائیں۔ اس پر خوش حالی کی بارش کی جائے۔ اس کی عزت ومقبولیت میںاضافہ کیا جائے۔ یہ درحقیقت ایک سزا ہے، جو اس لیے ہوتی ہے تاکہ آدمی مطمئن ہو کر اپنی بے حسی کو اور بڑھالے، وہ حق کو نظرانداز کرنے میں اور زیادہ ڈھیٹ ہوجائے اور اس طرح خدا کی سزا کا استحقاق اس کے لیے پوری طرح ثابت ہوجائے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اچانک اس پر خداکا عذاب ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کو دنیوی زندگی سے محروم کرکے آخرت کی عدالت میںحاضر کردیا جاتاہے تاکہ اس کی سرکشی کی سزا میں اس کے لیے جہنم کا فیصلہ ہو۔ یہ دنیا خداکی دنیا ہے۔ یہاںہر قسم کی بڑائی اور تعریف کا حق صرف ایک ذات کے لیے ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو نظر انداز کردیتاہے تو وہ دراصل خدا کی ناقدری کرتاہے۔ وہ خداکی عظمتوں کی دنیامیں اپنی عظمت قائم کرنا چاہتاہے۔ وہ ایسا ظلم کرتاہے جس سے بڑا کوئی ظلم نہیں۔ وہ اس خدا کے سامنے گستاخی کرتاہے جس کے سامنے عجز کے سوا کوئی اور رویہ کسی انسان کے لیے درست نہیں۔

فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ

📘 آدمی کے سامنے ایک حق آتا ہے اور وہ اس کو نہیں مانتا تو اللہ اس کو فوراً نہیں پکڑتا۔ بلکہ اس کو مالی نقصان اور جسمانی تکلیف کی صورت میں کچھ جھٹکے دیتا ہے، تاکہ اس کی سوچنے کی صلاحیت بیدار ہو اور وہ اپنے رویہ کے بارے میں نظر ثانی کرے۔ زندگی کے حوادث محض حوادث نہیںہیں، وہ خدا کے بھیجے ہوئے محسوس پیغامات ہیں جو اس لیے آتے ہیں تاکہ غفلت میں سوئے ہوئے انسان کو جگائیں۔ مگر آدمی اکثر ان چیزوں سے نصیحت نہیں لیتا۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کو مطمئن کرلیتا ہے کہ یہ تو اتار چڑھاؤ کے واقعات ہیں اور اس قسم کے اتار چڑھاؤ زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں۔ اس طرح ہر موقع پر شیطان کوئی خوش نما توجیہہ پیش کرکے آدمی کے ذہن کو نصیحت کے بجائے غفلت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ آدمی جب بار بار ایسا کرتاہے تو حق وباطل اور صحیح وغلط کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ قساوت (بے حسی) کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب آدمی خدا کی طرف سے آئی ہوئی تنبیہات کو نظر انداز کردے تو اس کے بعد اس کے بارے میں خدا کا انداز بدل جاتا ہے۔ اب اس کے لیے خدا كا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر آسانیوں اور کامیابیوں کے دروازے کھولے جائیں۔ اس پر خوش حالی کی بارش کی جائے۔ اس کی عزت ومقبولیت میںاضافہ کیا جائے۔ یہ درحقیقت ایک سزا ہے، جو اس لیے ہوتی ہے تاکہ آدمی مطمئن ہو کر اپنی بے حسی کو اور بڑھالے، وہ حق کو نظرانداز کرنے میں اور زیادہ ڈھیٹ ہوجائے اور اس طرح خدا کی سزا کا استحقاق اس کے لیے پوری طرح ثابت ہوجائے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اچانک اس پر خداکا عذاب ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کو دنیوی زندگی سے محروم کرکے آخرت کی عدالت میںحاضر کردیا جاتاہے تاکہ اس کی سرکشی کی سزا میں اس کے لیے جہنم کا فیصلہ ہو۔ یہ دنیا خداکی دنیا ہے۔ یہاںہر قسم کی بڑائی اور تعریف کا حق صرف ایک ذات کے لیے ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو نظر انداز کردیتاہے تو وہ دراصل خدا کی ناقدری کرتاہے۔ وہ خداکی عظمتوں کی دنیامیں اپنی عظمت قائم کرنا چاہتاہے۔ وہ ایسا ظلم کرتاہے جس سے بڑا کوئی ظلم نہیں۔ وہ اس خدا کے سامنے گستاخی کرتاہے جس کے سامنے عجز کے سوا کوئی اور رویہ کسی انسان کے لیے درست نہیں۔

فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا ۚ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آدمی کے سامنے ایک حق آتا ہے اور وہ اس کو نہیں مانتا تو اللہ اس کو فوراً نہیں پکڑتا۔ بلکہ اس کو مالی نقصان اور جسمانی تکلیف کی صورت میں کچھ جھٹکے دیتا ہے، تاکہ اس کی سوچنے کی صلاحیت بیدار ہو اور وہ اپنے رویہ کے بارے میں نظر ثانی کرے۔ زندگی کے حوادث محض حوادث نہیںہیں، وہ خدا کے بھیجے ہوئے محسوس پیغامات ہیں جو اس لیے آتے ہیں تاکہ غفلت میں سوئے ہوئے انسان کو جگائیں۔ مگر آدمی اکثر ان چیزوں سے نصیحت نہیں لیتا۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کو مطمئن کرلیتا ہے کہ یہ تو اتار چڑھاؤ کے واقعات ہیں اور اس قسم کے اتار چڑھاؤ زندگی میں آتے ہی رہتے ہیں۔ اس طرح ہر موقع پر شیطان کوئی خوش نما توجیہہ پیش کرکے آدمی کے ذہن کو نصیحت کے بجائے غفلت کی طرف پھیر دیتا ہے۔ آدمی جب بار بار ایسا کرتاہے تو حق وباطل اور صحیح وغلط کے بارے میں اس کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ قساوت (بے حسی) کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ جب آدمی خدا کی طرف سے آئی ہوئی تنبیہات کو نظر انداز کردے تو اس کے بعد اس کے بارے میں خدا کا انداز بدل جاتا ہے۔ اب اس کے لیے خدا كا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ اس پر آسانیوں اور کامیابیوں کے دروازے کھولے جائیں۔ اس پر خوش حالی کی بارش کی جائے۔ اس کی عزت ومقبولیت میںاضافہ کیا جائے۔ یہ درحقیقت ایک سزا ہے، جو اس لیے ہوتی ہے تاکہ آدمی مطمئن ہو کر اپنی بے حسی کو اور بڑھالے، وہ حق کو نظرانداز کرنے میں اور زیادہ ڈھیٹ ہوجائے اور اس طرح خدا کی سزا کا استحقاق اس کے لیے پوری طرح ثابت ہوجائے۔ جب یہ مقصد حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اچانک اس پر خداکا عذاب ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس کو دنیوی زندگی سے محروم کرکے آخرت کی عدالت میںحاضر کردیا جاتاہے تاکہ اس کی سرکشی کی سزا میں اس کے لیے جہنم کا فیصلہ ہو۔ یہ دنیا خداکی دنیا ہے۔ یہاںہر قسم کی بڑائی اور تعریف کا حق صرف ایک ذات کے لیے ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص خدا کی طرف سے آئے ہوئے حق کو نظر انداز کردیتاہے تو وہ دراصل خدا کی ناقدری کرتاہے۔ وہ خداکی عظمتوں کی دنیامیں اپنی عظمت قائم کرنا چاہتاہے۔ وہ ایسا ظلم کرتاہے جس سے بڑا کوئی ظلم نہیں۔ وہ اس خدا کے سامنے گستاخی کرتاہے جس کے سامنے عجز کے سوا کوئی اور رویہ کسی انسان کے لیے درست نہیں۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَخَذَ اللَّهُ سَمْعَكُمْ وَأَبْصَارَكُمْ وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِهِ ۗ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ ثُمَّ هُمْ يَصْدِفُونَ

📘 آدمی کو کان اور آنکھ اور دل جیسی صلاحیتیں دینا ظاہر كرتا ہے کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ آدمی بات كو سنے اور دیکھے، وہ عقلی دلیل سے اس کو مان لے۔ اگر آدمی اپنی ان خداداد صلاحیتوں سے وہ کام نہ لے جو اس سے مقصود ہے تو گویا وہ اپنے کو اس خطرہ میں ڈال رہاہے کہ اس کو نا اہل قرار دے کر یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں۔ کس قدر محروم ہے وہ شخص جس کو اندھا اور بهرا اور بے عقل بنادیا جائے۔ کیوں کہ ایسا آدمی دنیا میں بالکل ذلیل اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی کے پاس بظاہر کان ہوں مگر وہ حق کو سننے کے لیے بہرے ہوجائیں۔ بظاہر آنکھ ہو مگر وہ حق کو دیکھنے کے لیے اندھی ہو۔ سینہ میں دل موجود ہو مگر وہ حق کو سمجھنے کی استعداد سے خالی ہوجائے۔ چھیننے کی یہ قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کو آخرت کے اعتبار سے ذلیل اور بے قیمت بنا دیتی ہے جس سے بڑی محرومی کوئی دوسری نہیں۔ آدمی کو انکار حق کے انجام سے ڈرایا جائے تو ڈھیٹ آدمی بے خوفی کا جواب دیتا ہے۔ دنیا میں اپنے معاملات کو درست دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کے اپنے لیے نہیں ہے۔ حتی کہ جو زیادہ ڈھیٹ ہیں وہ حق کے داعی سے کہتے ہیں کہ تم اگر سچے ہو تو عذاب کو لاکر دکھاؤ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا کا عذاب آیا تو وہ خود انھیں کے اوپر پڑے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر۔ اللہ کا داعی منذر اور مبشر بن کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر، آدمی کا امتحان خدا کے یہاں جس بنیاد پر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آگاہی کی زبان میں حق کو پہچانے اور اپنی اصلاح کرلے۔ اگر اس نے آگاہی کی زبان میں حق کو نہ پہچانا اور اس کو ماننے کے لیے طلسمات وعجائبات کا مطالبہ کیا تو گویا وہ اندھے پن کا ثبوت دے رہا ہے اور اندھوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے اور برباد ہونے کے سوا کوئی انجام نہیں۔

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ

📘 آدمی کو کان اور آنکھ اور دل جیسی صلاحیتیں دینا ظاہر كرتا ہے کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ آدمی بات كو سنے اور دیکھے، وہ عقلی دلیل سے اس کو مان لے۔ اگر آدمی اپنی ان خداداد صلاحیتوں سے وہ کام نہ لے جو اس سے مقصود ہے تو گویا وہ اپنے کو اس خطرہ میں ڈال رہاہے کہ اس کو نا اہل قرار دے کر یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں۔ کس قدر محروم ہے وہ شخص جس کو اندھا اور بهرا اور بے عقل بنادیا جائے۔ کیوں کہ ایسا آدمی دنیا میں بالکل ذلیل اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی کے پاس بظاہر کان ہوں مگر وہ حق کو سننے کے لیے بہرے ہوجائیں۔ بظاہر آنکھ ہو مگر وہ حق کو دیکھنے کے لیے اندھی ہو۔ سینہ میں دل موجود ہو مگر وہ حق کو سمجھنے کی استعداد سے خالی ہوجائے۔ چھیننے کی یہ قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کو آخرت کے اعتبار سے ذلیل اور بے قیمت بنا دیتی ہے جس سے بڑی محرومی کوئی دوسری نہیں۔ آدمی کو انکار حق کے انجام سے ڈرایا جائے تو ڈھیٹ آدمی بے خوفی کا جواب دیتا ہے۔ دنیا میں اپنے معاملات کو درست دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کے اپنے لیے نہیں ہے۔ حتی کہ جو زیادہ ڈھیٹ ہیں وہ حق کے داعی سے کہتے ہیں کہ تم اگر سچے ہو تو عذاب کو لاکر دکھاؤ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا کا عذاب آیا تو وہ خود انھیں کے اوپر پڑے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر۔ اللہ کا داعی منذر اور مبشر بن کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر، آدمی کا امتحان خدا کے یہاں جس بنیاد پر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آگاہی کی زبان میں حق کو پہچانے اور اپنی اصلاح کرلے۔ اگر اس نے آگاہی کی زبان میں حق کو نہ پہچانا اور اس کو ماننے کے لیے طلسمات وعجائبات کا مطالبہ کیا تو گویا وہ اندھے پن کا ثبوت دے رہا ہے اور اندھوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے اور برباد ہونے کے سوا کوئی انجام نہیں۔

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ۖ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آدمی کو کان اور آنکھ اور دل جیسی صلاحیتیں دینا ظاہر كرتا ہے کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ آدمی بات كو سنے اور دیکھے، وہ عقلی دلیل سے اس کو مان لے۔ اگر آدمی اپنی ان خداداد صلاحیتوں سے وہ کام نہ لے جو اس سے مقصود ہے تو گویا وہ اپنے کو اس خطرہ میں ڈال رہاہے کہ اس کو نا اہل قرار دے کر یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں۔ کس قدر محروم ہے وہ شخص جس کو اندھا اور بهرا اور بے عقل بنادیا جائے۔ کیوں کہ ایسا آدمی دنیا میں بالکل ذلیل اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی کے پاس بظاہر کان ہوں مگر وہ حق کو سننے کے لیے بہرے ہوجائیں۔ بظاہر آنکھ ہو مگر وہ حق کو دیکھنے کے لیے اندھی ہو۔ سینہ میں دل موجود ہو مگر وہ حق کو سمجھنے کی استعداد سے خالی ہوجائے۔ چھیننے کی یہ قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کو آخرت کے اعتبار سے ذلیل اور بے قیمت بنا دیتی ہے جس سے بڑی محرومی کوئی دوسری نہیں۔ آدمی کو انکار حق کے انجام سے ڈرایا جائے تو ڈھیٹ آدمی بے خوفی کا جواب دیتا ہے۔ دنیا میں اپنے معاملات کو درست دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کے اپنے لیے نہیں ہے۔ حتی کہ جو زیادہ ڈھیٹ ہیں وہ حق کے داعی سے کہتے ہیں کہ تم اگر سچے ہو تو عذاب کو لاکر دکھاؤ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا کا عذاب آیا تو وہ خود انھیں کے اوپر پڑے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر۔ اللہ کا داعی منذر اور مبشر بن کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر، آدمی کا امتحان خدا کے یہاں جس بنیاد پر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آگاہی کی زبان میں حق کو پہچانے اور اپنی اصلاح کرلے۔ اگر اس نے آگاہی کی زبان میں حق کو نہ پہچانا اور اس کو ماننے کے لیے طلسمات وعجائبات کا مطالبہ کیا تو گویا وہ اندھے پن کا ثبوت دے رہا ہے اور اندھوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے اور برباد ہونے کے سوا کوئی انجام نہیں۔

وَالَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا يَمَسُّهُمُ الْعَذَابُ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

📘 آدمی کو کان اور آنکھ اور دل جیسی صلاحیتیں دینا ظاہر كرتا ہے کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ آدمی بات كو سنے اور دیکھے، وہ عقلی دلیل سے اس کو مان لے۔ اگر آدمی اپنی ان خداداد صلاحیتوں سے وہ کام نہ لے جو اس سے مقصود ہے تو گویا وہ اپنے کو اس خطرہ میں ڈال رہاہے کہ اس کو نا اہل قرار دے کر یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں۔ کس قدر محروم ہے وہ شخص جس کو اندھا اور بهرا اور بے عقل بنادیا جائے۔ کیوں کہ ایسا آدمی دنیا میں بالکل ذلیل اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی کے پاس بظاہر کان ہوں مگر وہ حق کو سننے کے لیے بہرے ہوجائیں۔ بظاہر آنکھ ہو مگر وہ حق کو دیکھنے کے لیے اندھی ہو۔ سینہ میں دل موجود ہو مگر وہ حق کو سمجھنے کی استعداد سے خالی ہوجائے۔ چھیننے کی یہ قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کو آخرت کے اعتبار سے ذلیل اور بے قیمت بنا دیتی ہے جس سے بڑی محرومی کوئی دوسری نہیں۔ آدمی کو انکار حق کے انجام سے ڈرایا جائے تو ڈھیٹ آدمی بے خوفی کا جواب دیتا ہے۔ دنیا میں اپنے معاملات کو درست دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کے اپنے لیے نہیں ہے۔ حتی کہ جو زیادہ ڈھیٹ ہیں وہ حق کے داعی سے کہتے ہیں کہ تم اگر سچے ہو تو عذاب کو لاکر دکھاؤ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا کا عذاب آیا تو وہ خود انھیں کے اوپر پڑے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر۔ اللہ کا داعی منذر اور مبشر بن کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر، آدمی کا امتحان خدا کے یہاں جس بنیاد پر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آگاہی کی زبان میں حق کو پہچانے اور اپنی اصلاح کرلے۔ اگر اس نے آگاہی کی زبان میں حق کو نہ پہچانا اور اس کو ماننے کے لیے طلسمات وعجائبات کا مطالبہ کیا تو گویا وہ اندھے پن کا ثبوت دے رہا ہے اور اندھوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے اور برباد ہونے کے سوا کوئی انجام نہیں۔

فَقَدْ كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ ۖ فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 خدا اور آخرت کی دعوت جو خدا کی براہِ راست تائید سے اٹھی ہو اس کے ساتھ واضح علامتیں ہوتی ہیں جو اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ایک سچی دعوت ہےاور خدا كي طرف سے هے— اس كا اس فطرت كے انداز پر هونا جس پر خدا كي ابدي دنيا كا نظام قائم هے۔اس کا ایسے دلائل کی بنیاد پر اٹھنا جس کا توڑ کسی کے لیے ممکن نہ ہو۔ اس کی پشت پر ایسے داعی کا ہونا جس کی سنجیدگی اور اخلاق پر شبہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس کے ساتھ ایسے تائیدی واقعات کا وابستہ ہونا کہ مخالفین اپنی برتر قوت کے باوجود اس کے خلاف اپنے تخریبی منصوبوں میں کامیاب نہ ہوئے ہوں۔ اس طرح کے واضح قرائن ہیں جو اس کے برحق ہونے کی طرف کھلا اشارہ کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان اس پر یقین نہیں کرتا اور اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام تائیدی قرائن اپنی ساری وضاحت کے باوجود ہمیشہ اسباب کے پردہ میںظاہر ہوتے ہیں۔ آدمی کے سامنے جب یہ قرآئن آتے ہیں تو وہ ان کو مخصوص اسباب کی طرف منسوب کرکے انھیں نظر انداز کردیتا ہے، اس کا ذہن اعتراف کے رخ پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ دعوت اگر خدا کی طرف سے ہوتی تو خدااور فرشتے برہنہ صورت میں اس کے ساتھ موجود ہوتے۔ حالاں کہ یہ خیال سراسر باطل ہے۔ کیوںکہ خدااور فرشتے جب برہنہ صورت میں سامنے آجائیں تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ دعوت اور تبلیغ کا۔ جن لوگوں کو زمین میں جماؤ حاصل ہو، جنھوں نے اپنے لیے معاشی سازوسامان جمع کرلیا ہو، جن کو اپنے آس پاس عظمت ومقبولیت کے مظاہر دکھائی دیتے ہوں وہ ہمیشہ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد جمع شدہ چیزوں کے مقابلہ میں ان چیزوں کو حقیر سمجھ لیتے ہیں، جو داعی حق کے گرد خدا نے جمع کی ہیں۔ ان کی یہ خود اعتمادی اتنا بڑھتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھی بے خوف ہوجاتے ہیں۔ وہ داعی حق کی اس تنبیہ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں کہ تمھاری سرکشی جاری رہی تو تمھاری مادی ترقیاں تم کو خدا کی پکڑ سے نہ بچاسکیں گی۔ داعی حق کو ناچیز سمجھنا ان کی نظر میں داعی کی تنبیہات کو بھی ناچیز بنا دیتاہے۔ ماضی کے وہ تاریخی واقعات بھی ان کو سبق دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوتے جب کہ بڑے بڑے مادی استحکام کے باوجود خدانے لوگوں کو اس طرح مٹا دیا جیسے ان کی کوئی قیمت ہی نہ تھی — زمین میں بار بار ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا ابھرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاںمکافات کا قانون نافذ ہے۔ مگر آدمی سبق نہیں لیتا۔ پچھلے لوگ دوبارہ اسی عمل کو دہراتے ہیں جس کی وجہ سے اگلے لوگ برباد ہوگئے۔

قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ

📘 آدمی کو کان اور آنکھ اور دل جیسی صلاحیتیں دینا ظاہر كرتا ہے کہ اس کا خالق اس سے کیا چاہتا ہے۔ خالق یہ چاہتا ہے کہ آدمی بات كو سنے اور دیکھے، وہ عقلی دلیل سے اس کو مان لے۔ اگر آدمی اپنی ان خداداد صلاحیتوں سے وہ کام نہ لے جو اس سے مقصود ہے تو گویا وہ اپنے کو اس خطرہ میں ڈال رہاہے کہ اس کو نا اہل قرار دے کر یہ نعمتیں اس سے چھین لی جائیں۔ کس قدر محروم ہے وہ شخص جس کو اندھا اور بهرا اور بے عقل بنادیا جائے۔ کیوں کہ ایسا آدمی دنیا میں بالکل ذلیل اور بے قیمت ہو کر رہ جاتا ہے۔ پھر اس سے بھی بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی کے پاس بظاہر کان ہوں مگر وہ حق کو سننے کے لیے بہرے ہوجائیں۔ بظاہر آنکھ ہو مگر وہ حق کو دیکھنے کے لیے اندھی ہو۔ سینہ میں دل موجود ہو مگر وہ حق کو سمجھنے کی استعداد سے خالی ہوجائے۔ چھیننے کی یہ قسم پہلی قسم سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی کو آخرت کے اعتبار سے ذلیل اور بے قیمت بنا دیتی ہے جس سے بڑی محرومی کوئی دوسری نہیں۔ آدمی کو انکار حق کے انجام سے ڈرایا جائے تو ڈھیٹ آدمی بے خوفی کا جواب دیتا ہے۔ دنیا میں اپنے معاملات کو درست دیکھ کر وہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کے اپنے لیے نہیں ہے۔ حتی کہ جو زیادہ ڈھیٹ ہیں وہ حق کے داعی سے کہتے ہیں کہ تم اگر سچے ہو تو عذاب کو لاکر دکھاؤ۔ وہ نہیں سمجھتے کہ خدا کا عذاب آیا تو وہ خود انھیں کے اوپر پڑے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے اوپر۔ اللہ کا داعی منذر اور مبشر بن کر آتا ہے۔ بالفاظ دیگر، آدمی کا امتحان خدا کے یہاں جس بنیاد پر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی آگاہی کی زبان میں حق کو پہچانے اور اپنی اصلاح کرلے۔ اگر اس نے آگاہی کی زبان میں حق کو نہ پہچانا اور اس کو ماننے کے لیے طلسمات وعجائبات کا مطالبہ کیا تو گویا وہ اندھے پن کا ثبوت دے رہا ہے اور اندھوں کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے اور برباد ہونے کے سوا کوئی انجام نہیں۔

وَأَنْذِرْ بِهِ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْ يُحْشَرُوا إِلَىٰ رَبِّهِمْ ۙ لَيْسَ لَهُمْ مِنْ دُونِهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

📘 نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کے لیے کار گر ہوتی ہے جو اندیشہ کی نفسیات میں جیتے ہوں۔ جس کو کسی چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہو اسی کو خطرے سے آگاہ کیا جاسکتاہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ بے خوفی کی نفسیات میں جی رہے ہوں وہ کبھی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ بے خوفی کی نفسیات پیدا ہونے کا سبب عام طورپر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، دنیا پرستی، دوسري اکابر پرستی۔ جو لوگ دنیا کی چیزوں میں گم ہوں یادنیا کی کوئی کامیابی پاکر اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، حتی کہ انھیں یہ بھی یاد نہ رہتا ہو کہ ایک روز ان کو مرکر خالق ومالک کے سامنے حاضر ہونا ہے، ایسے لوگ آخرت کو کوئی قابل لحاظ چیزنہیں سمجھتے۔ اس لیے آخرت کی یاد دہانی ان کے ذہن میںاپنی جگہ حاصل نہیں کرتی۔ ان کامزاج ایسی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو آخرت کے معاملہ کو سفارش کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیںکہ جن بڑوں کے ساتھ انھوںنے اپنے کو وابستہ کر رکھا ہے وہ آخرت میں ان کے مدد گار اور سفارشی بن جائیں گے اور کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں ان کی طرف سے کافی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ اس بھروسہ پر جی رہے ہوتے ہیں کہ انھوںنے مقدس ہستیوں کا دامن تھام رکھا ہے، وہ خدا کے محبوب ومقبول گروہ کے ساتھ شامل ہیں اس لیے اب ان کا کوئی معاملہ بگڑنے والا نہیں ہے۔ یہ نفسیات ان کو آخرت کے بارے میں نڈر بنادیتی ہے، وہ کسی ایسی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کہ لیے تیار نہیں ہوتے جو آخرت میں ان کی حیثیت کو مشتبہ کرنے والی هو۔ جو لوگ مصلحتوں کی رعایت کرکے دولت ومقبولیت حاصل کیے ہوئے ہوں وہ کبھی حق کی بے آمیز دعوت کا ساتھ نہیں دیتے۔ کیوں کہ حق کا ساتھ دينا ان کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کے بنے بنائے ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حق کے گرد معمولی حیثیت کے لوگ جمع ہیں تو یہ صورت حال ان كے لیے اور زیادہ فتنہ بن جاتی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ساتھ دے کر وہ اپنی حیثیت کو گرالیں گے۔ وہ حق کو حق کی کسوٹی پر نہ دیکھ کر اپنی کسوٹی پر دیکھتے ہیں اور جب حق ان کی اپنی کسوٹی پرپورا نہیں اترتا تو وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ

📘 نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کے لیے کار گر ہوتی ہے جو اندیشہ کی نفسیات میں جیتے ہوں۔ جس کو کسی چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہو اسی کو خطرے سے آگاہ کیا جاسکتاہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ بے خوفی کی نفسیات میں جی رہے ہوں وہ کبھی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ بے خوفی کی نفسیات پیدا ہونے کا سبب عام طورپر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، دنیا پرستی، دوسري اکابر پرستی۔ جو لوگ دنیا کی چیزوں میں گم ہوں یادنیا کی کوئی کامیابی پاکر اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، حتی کہ انھیں یہ بھی یاد نہ رہتا ہو کہ ایک روز ان کو مرکر خالق ومالک کے سامنے حاضر ہونا ہے، ایسے لوگ آخرت کو کوئی قابل لحاظ چیزنہیں سمجھتے۔ اس لیے آخرت کی یاد دہانی ان کے ذہن میںاپنی جگہ حاصل نہیں کرتی۔ ان کامزاج ایسی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو آخرت کے معاملہ کو سفارش کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیںکہ جن بڑوں کے ساتھ انھوںنے اپنے کو وابستہ کر رکھا ہے وہ آخرت میں ان کے مدد گار اور سفارشی بن جائیں گے اور کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں ان کی طرف سے کافی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ اس بھروسہ پر جی رہے ہوتے ہیں کہ انھوںنے مقدس ہستیوں کا دامن تھام رکھا ہے، وہ خدا کے محبوب ومقبول گروہ کے ساتھ شامل ہیں اس لیے اب ان کا کوئی معاملہ بگڑنے والا نہیں ہے۔ یہ نفسیات ان کو آخرت کے بارے میں نڈر بنادیتی ہے، وہ کسی ایسی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کہ لیے تیار نہیں ہوتے جو آخرت میں ان کی حیثیت کو مشتبہ کرنے والی هو۔ جو لوگ مصلحتوں کی رعایت کرکے دولت ومقبولیت حاصل کیے ہوئے ہوں وہ کبھی حق کی بے آمیز دعوت کا ساتھ نہیں دیتے۔ کیوں کہ حق کا ساتھ دينا ان کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کے بنے بنائے ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حق کے گرد معمولی حیثیت کے لوگ جمع ہیں تو یہ صورت حال ان كے لیے اور زیادہ فتنہ بن جاتی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ساتھ دے کر وہ اپنی حیثیت کو گرالیں گے۔ وہ حق کو حق کی کسوٹی پر نہ دیکھ کر اپنی کسوٹی پر دیکھتے ہیں اور جب حق ان کی اپنی کسوٹی پرپورا نہیں اترتا تو وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

وَكَذَٰلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَٰؤُلَاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ

📘 نصیحت ہمیشہ ان لوگوں کے لیے کار گر ہوتی ہے جو اندیشہ کی نفسیات میں جیتے ہوں۔ جس کو کسی چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہو اسی کو خطرے سے آگاہ کیا جاسکتاہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ بے خوفی کی نفسیات میں جی رہے ہوں وہ کبھی نصیحت کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے، اس لیے وہ نصیحت کو قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ بے خوفی کی نفسیات پیدا ہونے کا سبب عام طورپر دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، دنیا پرستی، دوسري اکابر پرستی۔ جو لوگ دنیا کی چیزوں میں گم ہوں یادنیا کی کوئی کامیابی پاکر اس پر مطمئن ہوگئے ہوں، حتی کہ انھیں یہ بھی یاد نہ رہتا ہو کہ ایک روز ان کو مرکر خالق ومالک کے سامنے حاضر ہونا ہے، ایسے لوگ آخرت کو کوئی قابل لحاظ چیزنہیں سمجھتے۔ اس لیے آخرت کی یاد دہانی ان کے ذہن میںاپنی جگہ حاصل نہیں کرتی۔ ان کامزاج ایسی باتوں کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو آخرت کے معاملہ کو سفارش کا معاملہ سمجھ لیتے ہیں۔ وہ فرض کرلیتے ہیںکہ جن بڑوں کے ساتھ انھوںنے اپنے کو وابستہ کر رکھا ہے وہ آخرت میں ان کے مدد گار اور سفارشی بن جائیں گے اور کسی بھی ناموافق صورتِ حال میں ان کی طرف سے کافی ثابت ہوں گے۔ ایسے لوگ اس بھروسہ پر جی رہے ہوتے ہیں کہ انھوںنے مقدس ہستیوں کا دامن تھام رکھا ہے، وہ خدا کے محبوب ومقبول گروہ کے ساتھ شامل ہیں اس لیے اب ان کا کوئی معاملہ بگڑنے والا نہیں ہے۔ یہ نفسیات ان کو آخرت کے بارے میں نڈر بنادیتی ہے، وہ کسی ایسی بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کہ لیے تیار نہیں ہوتے جو آخرت میں ان کی حیثیت کو مشتبہ کرنے والی هو۔ جو لوگ مصلحتوں کی رعایت کرکے دولت ومقبولیت حاصل کیے ہوئے ہوں وہ کبھی حق کی بے آمیز دعوت کا ساتھ نہیں دیتے۔ کیوں کہ حق کا ساتھ دينا ان کے لیے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی مصلحتوں کے بنے بنائے ڈھانچہ کو توڑ دیا جائے۔ پھر جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حق کے گرد معمولی حیثیت کے لوگ جمع ہیں تو یہ صورت حال ان كے لیے اور زیادہ فتنہ بن جاتی ہے۔ ان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ساتھ دے کر وہ اپنی حیثیت کو گرالیں گے۔ وہ حق کو حق کی کسوٹی پر نہ دیکھ کر اپنی کسوٹی پر دیکھتے ہیں اور جب حق ان کی اپنی کسوٹی پرپورا نہیں اترتا تو وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک قسم کے لوگ وہ تھے جو آپ کی صداقت پر معجزے طلب کرتے رہے۔ دوسرے لوگ وہ تھے جو قرآن كي آيات کو سن کر آپ کے مومن بن گئے۔ یہی امتحان ہر زمانہ میں انسان کے ساتھ جاری ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا خود سامنے نہیں آتا، وہ داعی کی زبان سے اپنے دلائل کا اعلان کراتا ہے، وہ اپنی صداقت کو لفظوں کے روپ میں ڈھال کر انسان کے سامنے لاتا ہے۔ اب جس کی فطرت زندہ ہے وہ انھیں دلائل میں خدا کا جلوہ دیکھ لیتاہے اور اس کا اقرار کرکے اس کے آگے جھک جاتاہے۔ اس کے برعکس، جنھوںنے اپنی فطرت پر مصنوعی پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ’’الفاظ‘‘ کے روپ میں خدا کو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ خدا کو اس کی استدلالي صورت میں دیکھ نہیں پاتے اس لیے چاہتے ہیں کہ خدا اپنی مشاہداتی صورت میں ان کے سامنے آئے۔ مگر موجودہ امتحان کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یہاں وہی شخص خدا کو پائے گا جو خدا کو حالتِ غیب میں پالے، جو شخص خدا کو حالتِ شہود میں دیکھنے پر اصرار کرے، اس کا انجام خدا کی اس دنیا میں محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو لوگ اپنی کجی کی وجہ سے حق سے دور رہتے ہیں وہ حق کو قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں تاکہ ان کے مقابلہ میں اپنے کو بہتر ثابت کرسکیں۔ ان کو اپنے جرائم نظر نہیں آتے۔ البتہ حق پرستوں سے اگر کبھی کوئی غلطی ہوگئی تو اس کو خوب بڑھا کر بیان کرتے ہیں، تاکہ یہ ظاہر ہو کہ جو لوگ اس دعوت کے گرد جمع ہیں وہ قابل اعتبار لوگ نہیں ہیں۔ حالاں کہ اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں نے ناحق کو چھوڑ کر حق کو قبول کیا ہے انھوں نے اپنے اس عمل سے ایمان واصلاح کے راستہ پر چلنے کا ثبوت دیا ہے۔ اس طرح وہ خدا کے قانون کے مطابق اس کے مستحق ہوگئے کہ انھیں اصلاح حال کی توفیق ملے اور وہ خدا کی رحمتوں میں اپنا حصہ پائیں۔ اس کے برعکس جو لوگ حق سے دور پڑے ہوئے ہیں وہ اپنے عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ ایمان واصلاح کا طریقہ اختیار کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ خدا کی توفیق سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی ڈھٹائی کبھی ختم نہیں ہوتی اور ڈھٹائی ہی خدا کی اس دنیا میں کسی کاسب سے بڑا جرم ہے۔ خدا ’’نشانیوں‘‘ کی زبان میں بولتا ہے۔ نشانیاں اس شخص کے لیے کار آمد ہوتی ہیں جو ان کو پڑھنا چاہے۔ اسی طرح ہدایت اسی کو ملے گی جو اس کا طالب ہو ۔ جو شخص ہدایت کی طلب نہ رکھتا ہو اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں۔

وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک قسم کے لوگ وہ تھے جو آپ کی صداقت پر معجزے طلب کرتے رہے۔ دوسرے لوگ وہ تھے جو قرآن كي آيات کو سن کر آپ کے مومن بن گئے۔ یہی امتحان ہر زمانہ میں انسان کے ساتھ جاری ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا خود سامنے نہیں آتا، وہ داعی کی زبان سے اپنے دلائل کا اعلان کراتا ہے، وہ اپنی صداقت کو لفظوں کے روپ میں ڈھال کر انسان کے سامنے لاتا ہے۔ اب جس کی فطرت زندہ ہے وہ انھیں دلائل میں خدا کا جلوہ دیکھ لیتاہے اور اس کا اقرار کرکے اس کے آگے جھک جاتاہے۔ اس کے برعکس، جنھوںنے اپنی فطرت پر مصنوعی پردے ڈال رکھے ہیں، وہ ’’الفاظ‘‘ کے روپ میں خدا کو پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ خدا کو اس کی استدلالي صورت میں دیکھ نہیں پاتے اس لیے چاہتے ہیں کہ خدا اپنی مشاہداتی صورت میں ان کے سامنے آئے۔ مگر موجودہ امتحان کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ یہاں وہی شخص خدا کو پائے گا جو خدا کو حالتِ غیب میں پالے، جو شخص خدا کو حالتِ شہود میں دیکھنے پر اصرار کرے، اس کا انجام خدا کی اس دنیا میں محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو لوگ اپنی کجی کی وجہ سے حق سے دور رہتے ہیں وہ حق کو قبول کرنے والوں پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں تاکہ ان کے مقابلہ میں اپنے کو بہتر ثابت کرسکیں۔ ان کو اپنے جرائم نظر نہیں آتے۔ البتہ حق پرستوں سے اگر کبھی کوئی غلطی ہوگئی تو اس کو خوب بڑھا کر بیان کرتے ہیں، تاکہ یہ ظاہر ہو کہ جو لوگ اس دعوت کے گرد جمع ہیں وہ قابل اعتبار لوگ نہیں ہیں۔ حالاں کہ اصل صورت حال اس کے برعکس ہے۔ جن لوگوں نے ناحق کو چھوڑ کر حق کو قبول کیا ہے انھوں نے اپنے اس عمل سے ایمان واصلاح کے راستہ پر چلنے کا ثبوت دیا ہے۔ اس طرح وہ خدا کے قانون کے مطابق اس کے مستحق ہوگئے کہ انھیں اصلاح حال کی توفیق ملے اور وہ خدا کی رحمتوں میں اپنا حصہ پائیں۔ اس کے برعکس جو لوگ حق سے دور پڑے ہوئے ہیں وہ اپنے عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ ایمان واصلاح کا طریقہ اختیار کرنے سے کوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ خدا کی توفیق سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی ڈھٹائی کبھی ختم نہیں ہوتی اور ڈھٹائی ہی خدا کی اس دنیا میں کسی کاسب سے بڑا جرم ہے۔ خدا ’’نشانیوں‘‘ کی زبان میں بولتا ہے۔ نشانیاں اس شخص کے لیے کار آمد ہوتی ہیں جو ان کو پڑھنا چاہے۔ اسی طرح ہدایت اسی کو ملے گی جو اس کا طالب ہو ۔ جو شخص ہدایت کی طلب نہ رکھتا ہو اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں بھٹکنے کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں۔

قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ قُلْ لَا أَتَّبِعُ أَهْوَاءَكُمْ ۙ قَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُهْتَدِينَ

📘 خدا کے سوا جس چیز کو آدمی معبود کا درجہ دیتا ہے وہ اس کی ایک خواہش ہوتی ہے جس کو وہ واقعہ فرض کرلیتا ہے۔ کبھی اپنی بے عملی کے انجام سے بچنے کے لیے وہ کسی کو خدا کا مقرب یقین کر لیتا ہے جو خدا کے یہاں اس کا مدد گار اور سفارشی بن جائے۔ کبھی وہ ایک شخصیت کے حق میں طلسماتی عظمت کا تصو رقائم کرلیتا ہے تاکہ اپنے کو اس سے منسوب کرکے اپنے چھوٹے پن کی تلافي کرسکے۔ کبھی اپني سہل پسندی کی وجہ سے وہ ایسا خدا گھڑ لیتاہے جو سستی قیمت پر مل جائے اور معمولی معمولی چیزوں سے جس کو خوش کیاجاسکے۔ مگر اس قسم کی تمام چیزیں محض مفروضات ہیں اور مفروضات کسی کو حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم آدمی اپنی سستی طلب میں کبھی اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کو چیلنج کرنے لگتا ہے جنھوںنے کائنات کے حقیقی مالک کی طرف اپنے کو کھڑا کررکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری بڑائی اگر اسی ایک خدا کے لیے ہے جس کے تم نمائندہ ہو تو ہم جیسے نافرمانوں پر اس کا عتاب نازل کرکے دکھاؤ۔ یہ جرأت ان کو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیںکہ توحید کے داعیوں کے مقابلہ میں ان کے اپنے گرد زیادہ دنیوی رونقیں جمع ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مادی چیزیں ان کو دنیا داری اور مصلحت پرستی کی بنا پر ملی ہیں اور توحید کے داعی جو ان چیزوں سے خالی ہیں وہ اس لیے خالی ہیں کہ ان کی آخرت پسندی نے ان کو مصلحت پرستی کی سطح پر آنے سے روکے رکھا۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنيا ہے۔ اس لیے یہاں دیکھنے کي چیز یہ نہیں ہے کہ آدمی کے مادی حالات کیا ہیں۔ بلکہ یہ کہ وہ حقیقی دلیل پر کھڑا ہوا ہے یا مفروضات اور خوش گمانیوں پر۔ بالآخر وہی شخص کامیاب ہوگا جوواقعی دلیل پر کھڑا ہو۔ جو لوگ مفروضات پر کھڑے ہوئے ہیں ان کا آخری انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی اس دنیا میں بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں۔ جس دنیا کا سارا نظام محکم قوانین پر چل رہا ہو اس کا آخری انجام خوش خیالیوں کے تابع کیوں کر ہوجائے گا۔

قُلْ إِنِّي عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَكَذَّبْتُمْ بِهِ ۚ مَا عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۖ يَقُصُّ الْحَقَّ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْفَاصِلِينَ

📘 خدا کے سوا جس چیز کو آدمی معبود کا درجہ دیتا ہے وہ اس کی ایک خواہش ہوتی ہے جس کو وہ واقعہ فرض کرلیتا ہے۔ کبھی اپنی بے عملی کے انجام سے بچنے کے لیے وہ کسی کو خدا کا مقرب یقین کر لیتا ہے جو خدا کے یہاں اس کا مدد گار اور سفارشی بن جائے۔ کبھی وہ ایک شخصیت کے حق میں طلسماتی عظمت کا تصو رقائم کرلیتا ہے تاکہ اپنے کو اس سے منسوب کرکے اپنے چھوٹے پن کی تلافي کرسکے۔ کبھی اپني سہل پسندی کی وجہ سے وہ ایسا خدا گھڑ لیتاہے جو سستی قیمت پر مل جائے اور معمولی معمولی چیزوں سے جس کو خوش کیاجاسکے۔ مگر اس قسم کی تمام چیزیں محض مفروضات ہیں اور مفروضات کسی کو حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم آدمی اپنی سستی طلب میں کبھی اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کو چیلنج کرنے لگتا ہے جنھوںنے کائنات کے حقیقی مالک کی طرف اپنے کو کھڑا کررکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری بڑائی اگر اسی ایک خدا کے لیے ہے جس کے تم نمائندہ ہو تو ہم جیسے نافرمانوں پر اس کا عتاب نازل کرکے دکھاؤ۔ یہ جرأت ان کو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیںکہ توحید کے داعیوں کے مقابلہ میں ان کے اپنے گرد زیادہ دنیوی رونقیں جمع ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مادی چیزیں ان کو دنیا داری اور مصلحت پرستی کی بنا پر ملی ہیں اور توحید کے داعی جو ان چیزوں سے خالی ہیں وہ اس لیے خالی ہیں کہ ان کی آخرت پسندی نے ان کو مصلحت پرستی کی سطح پر آنے سے روکے رکھا۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنيا ہے۔ اس لیے یہاں دیکھنے کي چیز یہ نہیں ہے کہ آدمی کے مادی حالات کیا ہیں۔ بلکہ یہ کہ وہ حقیقی دلیل پر کھڑا ہوا ہے یا مفروضات اور خوش گمانیوں پر۔ بالآخر وہی شخص کامیاب ہوگا جوواقعی دلیل پر کھڑا ہو۔ جو لوگ مفروضات پر کھڑے ہوئے ہیں ان کا آخری انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی اس دنیا میں بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں۔ جس دنیا کا سارا نظام محکم قوانین پر چل رہا ہو اس کا آخری انجام خوش خیالیوں کے تابع کیوں کر ہوجائے گا۔

قُلْ لَوْ أَنَّ عِنْدِي مَا تَسْتَعْجِلُونَ بِهِ لَقُضِيَ الْأَمْرُ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالظَّالِمِينَ

📘 خدا کے سوا جس چیز کو آدمی معبود کا درجہ دیتا ہے وہ اس کی ایک خواہش ہوتی ہے جس کو وہ واقعہ فرض کرلیتا ہے۔ کبھی اپنی بے عملی کے انجام سے بچنے کے لیے وہ کسی کو خدا کا مقرب یقین کر لیتا ہے جو خدا کے یہاں اس کا مدد گار اور سفارشی بن جائے۔ کبھی وہ ایک شخصیت کے حق میں طلسماتی عظمت کا تصو رقائم کرلیتا ہے تاکہ اپنے کو اس سے منسوب کرکے اپنے چھوٹے پن کی تلافي کرسکے۔ کبھی اپني سہل پسندی کی وجہ سے وہ ایسا خدا گھڑ لیتاہے جو سستی قیمت پر مل جائے اور معمولی معمولی چیزوں سے جس کو خوش کیاجاسکے۔ مگر اس قسم کی تمام چیزیں محض مفروضات ہیں اور مفروضات کسی کو حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم آدمی اپنی سستی طلب میں کبھی اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کو چیلنج کرنے لگتا ہے جنھوںنے کائنات کے حقیقی مالک کی طرف اپنے کو کھڑا کررکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری بڑائی اگر اسی ایک خدا کے لیے ہے جس کے تم نمائندہ ہو تو ہم جیسے نافرمانوں پر اس کا عتاب نازل کرکے دکھاؤ۔ یہ جرأت ان کو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیںکہ توحید کے داعیوں کے مقابلہ میں ان کے اپنے گرد زیادہ دنیوی رونقیں جمع ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مادی چیزیں ان کو دنیا داری اور مصلحت پرستی کی بنا پر ملی ہیں اور توحید کے داعی جو ان چیزوں سے خالی ہیں وہ اس لیے خالی ہیں کہ ان کی آخرت پسندی نے ان کو مصلحت پرستی کی سطح پر آنے سے روکے رکھا۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنيا ہے۔ اس لیے یہاں دیکھنے کي چیز یہ نہیں ہے کہ آدمی کے مادی حالات کیا ہیں۔ بلکہ یہ کہ وہ حقیقی دلیل پر کھڑا ہوا ہے یا مفروضات اور خوش گمانیوں پر۔ بالآخر وہی شخص کامیاب ہوگا جوواقعی دلیل پر کھڑا ہو۔ جو لوگ مفروضات پر کھڑے ہوئے ہیں ان کا آخری انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی اس دنیا میں بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں۔ جس دنیا کا سارا نظام محکم قوانین پر چل رہا ہو اس کا آخری انجام خوش خیالیوں کے تابع کیوں کر ہوجائے گا۔

۞ وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ

📘 خدا کے سوا جس چیز کو آدمی معبود کا درجہ دیتا ہے وہ اس کی ایک خواہش ہوتی ہے جس کو وہ واقعہ فرض کرلیتا ہے۔ کبھی اپنی بے عملی کے انجام سے بچنے کے لیے وہ کسی کو خدا کا مقرب یقین کر لیتا ہے جو خدا کے یہاں اس کا مدد گار اور سفارشی بن جائے۔ کبھی وہ ایک شخصیت کے حق میں طلسماتی عظمت کا تصو رقائم کرلیتا ہے تاکہ اپنے کو اس سے منسوب کرکے اپنے چھوٹے پن کی تلافي کرسکے۔ کبھی اپني سہل پسندی کی وجہ سے وہ ایسا خدا گھڑ لیتاہے جو سستی قیمت پر مل جائے اور معمولی معمولی چیزوں سے جس کو خوش کیاجاسکے۔ مگر اس قسم کی تمام چیزیں محض مفروضات ہیں اور مفروضات کسی کو حقیقت تک نہیں پہنچا سکتے۔ تاہم آدمی اپنی سستی طلب میں کبھی اتنا اندھا ہوجاتا ہے کہ وہ خود ان لوگوں کو چیلنج کرنے لگتا ہے جنھوںنے کائنات کے حقیقی مالک کی طرف اپنے کو کھڑا کررکھا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری بڑائی اگر اسی ایک خدا کے لیے ہے جس کے تم نمائندہ ہو تو ہم جیسے نافرمانوں پر اس کا عتاب نازل کرکے دکھاؤ۔ یہ جرأت ان کو اس لیے ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیںکہ توحید کے داعیوں کے مقابلہ میں ان کے اپنے گرد زیادہ دنیوی رونقیں جمع ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ مادی چیزیں ان کو دنیا داری اور مصلحت پرستی کی بنا پر ملی ہیں اور توحید کے داعی جو ان چیزوں سے خالی ہیں وہ اس لیے خالی ہیں کہ ان کی آخرت پسندی نے ان کو مصلحت پرستی کی سطح پر آنے سے روکے رکھا۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنيا ہے۔ اس لیے یہاں دیکھنے کي چیز یہ نہیں ہے کہ آدمی کے مادی حالات کیا ہیں۔ بلکہ یہ کہ وہ حقیقی دلیل پر کھڑا ہوا ہے یا مفروضات اور خوش گمانیوں پر۔ بالآخر وہی شخص کامیاب ہوگا جوواقعی دلیل پر کھڑا ہو۔ جو لوگ مفروضات پر کھڑے ہوئے ہیں ان کا آخری انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ وہ خدا کی اس دنیا میں بالکل بے سہارا ہو کر رہ جائیں۔ جس دنیا کا سارا نظام محکم قوانین پر چل رہا ہو اس کا آخری انجام خوش خیالیوں کے تابع کیوں کر ہوجائے گا۔

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ

📘 خدا اور آخرت کی دعوت جو خدا کی براہِ راست تائید سے اٹھی ہو اس کے ساتھ واضح علامتیں ہوتی ہیں جو اس بات کا اعلان کر رہی ہوتی ہیں کہ یہ ایک سچی دعوت ہےاور خدا كي طرف سے هے— اس كا اس فطرت كے انداز پر هونا جس پر خدا كي ابدي دنيا كا نظام قائم هے۔اس کا ایسے دلائل کی بنیاد پر اٹھنا جس کا توڑ کسی کے لیے ممکن نہ ہو۔ اس کی پشت پر ایسے داعی کا ہونا جس کی سنجیدگی اور اخلاق پر شبہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ اس کے ساتھ ایسے تائیدی واقعات کا وابستہ ہونا کہ مخالفین اپنی برتر قوت کے باوجود اس کے خلاف اپنے تخریبی منصوبوں میں کامیاب نہ ہوئے ہوں۔ اس طرح کے واضح قرائن ہیں جو اس کے برحق ہونے کی طرف کھلا اشارہ کررہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود انسان اس پر یقین نہیں کرتا اور اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام تائیدی قرائن اپنی ساری وضاحت کے باوجود ہمیشہ اسباب کے پردہ میںظاہر ہوتے ہیں۔ آدمی کے سامنے جب یہ قرآئن آتے ہیں تو وہ ان کو مخصوص اسباب کی طرف منسوب کرکے انھیں نظر انداز کردیتا ہے، اس کا ذہن اعتراف کے رخ پر چلنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ دعوت اگر خدا کی طرف سے ہوتی تو خدااور فرشتے برہنہ صورت میں اس کے ساتھ موجود ہوتے۔ حالاں کہ یہ خیال سراسر باطل ہے۔ کیوںکہ خدااور فرشتے جب برہنہ صورت میں سامنے آجائیں تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ دعوت اور تبلیغ کا۔ جن لوگوں کو زمین میں جماؤ حاصل ہو، جنھوں نے اپنے لیے معاشی سازوسامان جمع کرلیا ہو، جن کو اپنے آس پاس عظمت ومقبولیت کے مظاہر دکھائی دیتے ہوں وہ ہمیشہ غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد جمع شدہ چیزوں کے مقابلہ میں ان چیزوں کو حقیر سمجھ لیتے ہیں، جو داعی حق کے گرد خدا نے جمع کی ہیں۔ ان کی یہ خود اعتمادی اتنا بڑھتی ہے کہ وہ خدا کی طرف سے بھی بے خوف ہوجاتے ہیں۔ وہ داعی حق کی اس تنبیہ کا مذاق اڑانے لگتے ہیں کہ تمھاری سرکشی جاری رہی تو تمھاری مادی ترقیاں تم کو خدا کی پکڑ سے نہ بچاسکیں گی۔ داعی حق کو ناچیز سمجھنا ان کی نظر میں داعی کی تنبیہات کو بھی ناچیز بنا دیتاہے۔ ماضی کے وہ تاریخی واقعات بھی ان کو سبق دینے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوتے جب کہ بڑے بڑے مادی استحکام کے باوجود خدانے لوگوں کو اس طرح مٹا دیا جیسے ان کی کوئی قیمت ہی نہ تھی — زمین میں بار بار ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا ابھرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاںمکافات کا قانون نافذ ہے۔ مگر آدمی سبق نہیں لیتا۔ پچھلے لوگ دوبارہ اسی عمل کو دہراتے ہیں جس کی وجہ سے اگلے لوگ برباد ہوگئے۔

وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَىٰ أَجَلٌ مُسَمًّى ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 خدا نے یہ دنیا اس طرح بنائی ہے کہ وہ ان حقیقتوں کی عملی تصدیق بن گئی ہے جن کی طرف انسان کو دعوت دی جارہی ہے۔ اگر آدمی اپنی آنکھوں کو بند نہ کرے اور اپنی عقل پر مصنوعی پردے نہ ڈالے تو پوری کائنات اس کو قرآن کی فکری دعوت کا عملی مظاہرہ دکھائی دے گی۔ درخت کے تنہ میں شاخ نکلتی ہے اور شاخ میں پتے۔ مگر دونوں کے جوڑوں میں فرق ہوتا ہے۔ گویاکہ بنانے والے کو معلوم ہے کہ شاخ کو اپنے تنے سے جڑا رہنا ہے اور پتہ کو الگ ہو کر گر جانا ہے۔ اگر شاخ کی جَڑ کے مقابلہ میں پتہ کی جَڑ میںیہ انفرادی خصوصیت نہ ہو تو پتہ شاخ سے جدا نہ ہو اور درخت کو ہر سال نئی زندگی دینے کا نظام ابتر ہوجائے۔ اسی طرح جب ایک دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے تو زمین میں پہلے سے اس کے لیے وہ تمام ضروري خوراک موجود ہوتی ہے جس سے رزق پاکر وہ بڑھتا ہے اور بالآخر پورا درخت بنتا ہے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ جو خدا پتہ اور دانہ تک کے احوال سے باخبر ہو وہ انسانوں کے احوال سے بے خبر ہوجائے۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ یہاں کا نظام استثنائی طورپر انسان جیسی ایک مخلوق کے حسب حال بنایاگیا ہے۔ زمین کے اندر کا ایک بڑا حصہ آگ ہے مگر وہ پھٹ نہیں پڑتا۔ سورج انتہائی صحیح حسابی فاصلہ پر ہے، وہ اس سے نہ دور جاتا ہے اور نہ قریب ہوتا ہے۔ آدمی کو ہر وقت ہوا اور پانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہوا کو گیس کی شکل میں ہر جگہ پھیلا دیا گیا ہے اورپانی کو رقیق سیال کی صورت میں زمین کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔ اس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کو زمین پر مسلسل برقرار رکھا جاتا ہے۔ اگر ان میں معمولی فرق آجائے تو انسان کے لیے زمین پر زندگی گزارنا ناممکن ہوجائے۔ نیند بڑی عجیب چیز ہے۔ آدمی چلتا پھرتا ہے۔ وہ دیکھتا اور بولتا ہے۔ مگر جب وہ سوتا ہے تو اس کے تمام حواس اس طرح معطل ہوجاتے ہیں جیسے زندگی اس سے نکل گئی ہو۔ اس کے بعد جب وہ نیند پوری کرکے اٹھتا ہے تو وہ پھر ویسا ہی انسان ہوتا ہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ یہ گویا زندگی اور موت کی تمثیل ہے۔ یہ معاملہ ہمارے لیے اس بات کو قابل فہم بنا دیتا ہے کہ آدمی کس طرح مرے گا اور کس طرح وہ دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سارے انسان خدا کے اختیار میں ہیں اور جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدا اپنے اختیار کے مطابق ان کا فیصلہ کرے۔

وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ

📘 خدا نے یہ دنیا اس طرح بنائی ہے کہ وہ ان حقیقتوں کی عملی تصدیق بن گئی ہے جن کی طرف انسان کو دعوت دی جارہی ہے۔ اگر آدمی اپنی آنکھوں کو بند نہ کرے اور اپنی عقل پر مصنوعی پردے نہ ڈالے تو پوری کائنات اس کو قرآن کی فکری دعوت کا عملی مظاہرہ دکھائی دے گی۔ درخت کے تنہ میں شاخ نکلتی ہے اور شاخ میں پتے۔ مگر دونوں کے جوڑوں میں فرق ہوتا ہے۔ گویاکہ بنانے والے کو معلوم ہے کہ شاخ کو اپنے تنے سے جڑا رہنا ہے اور پتہ کو الگ ہو کر گر جانا ہے۔ اگر شاخ کی جَڑ کے مقابلہ میں پتہ کی جَڑ میںیہ انفرادی خصوصیت نہ ہو تو پتہ شاخ سے جدا نہ ہو اور درخت کو ہر سال نئی زندگی دینے کا نظام ابتر ہوجائے۔ اسی طرح جب ایک دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے تو زمین میں پہلے سے اس کے لیے وہ تمام ضروري خوراک موجود ہوتی ہے جس سے رزق پاکر وہ بڑھتا ہے اور بالآخر پورا درخت بنتا ہے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ جو خدا پتہ اور دانہ تک کے احوال سے باخبر ہو وہ انسانوں کے احوال سے بے خبر ہوجائے۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ یہاں کا نظام استثنائی طورپر انسان جیسی ایک مخلوق کے حسب حال بنایاگیا ہے۔ زمین کے اندر کا ایک بڑا حصہ آگ ہے مگر وہ پھٹ نہیں پڑتا۔ سورج انتہائی صحیح حسابی فاصلہ پر ہے، وہ اس سے نہ دور جاتا ہے اور نہ قریب ہوتا ہے۔ آدمی کو ہر وقت ہوا اور پانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہوا کو گیس کی شکل میں ہر جگہ پھیلا دیا گیا ہے اورپانی کو رقیق سیال کی صورت میں زمین کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔ اس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کو زمین پر مسلسل برقرار رکھا جاتا ہے۔ اگر ان میں معمولی فرق آجائے تو انسان کے لیے زمین پر زندگی گزارنا ناممکن ہوجائے۔ نیند بڑی عجیب چیز ہے۔ آدمی چلتا پھرتا ہے۔ وہ دیکھتا اور بولتا ہے۔ مگر جب وہ سوتا ہے تو اس کے تمام حواس اس طرح معطل ہوجاتے ہیں جیسے زندگی اس سے نکل گئی ہو۔ اس کے بعد جب وہ نیند پوری کرکے اٹھتا ہے تو وہ پھر ویسا ہی انسان ہوتا ہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ یہ گویا زندگی اور موت کی تمثیل ہے۔ یہ معاملہ ہمارے لیے اس بات کو قابل فہم بنا دیتا ہے کہ آدمی کس طرح مرے گا اور کس طرح وہ دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سارے انسان خدا کے اختیار میں ہیں اور جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدا اپنے اختیار کے مطابق ان کا فیصلہ کرے۔

ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۚ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ

📘 خدا نے یہ دنیا اس طرح بنائی ہے کہ وہ ان حقیقتوں کی عملی تصدیق بن گئی ہے جن کی طرف انسان کو دعوت دی جارہی ہے۔ اگر آدمی اپنی آنکھوں کو بند نہ کرے اور اپنی عقل پر مصنوعی پردے نہ ڈالے تو پوری کائنات اس کو قرآن کی فکری دعوت کا عملی مظاہرہ دکھائی دے گی۔ درخت کے تنہ میں شاخ نکلتی ہے اور شاخ میں پتے۔ مگر دونوں کے جوڑوں میں فرق ہوتا ہے۔ گویاکہ بنانے والے کو معلوم ہے کہ شاخ کو اپنے تنے سے جڑا رہنا ہے اور پتہ کو الگ ہو کر گر جانا ہے۔ اگر شاخ کی جَڑ کے مقابلہ میں پتہ کی جَڑ میںیہ انفرادی خصوصیت نہ ہو تو پتہ شاخ سے جدا نہ ہو اور درخت کو ہر سال نئی زندگی دینے کا نظام ابتر ہوجائے۔ اسی طرح جب ایک دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے تو زمین میں پہلے سے اس کے لیے وہ تمام ضروري خوراک موجود ہوتی ہے جس سے رزق پاکر وہ بڑھتا ہے اور بالآخر پورا درخت بنتا ہے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ جو خدا پتہ اور دانہ تک کے احوال سے باخبر ہو وہ انسانوں کے احوال سے بے خبر ہوجائے۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انوکھا واقعہ ہے۔ یہاں کا نظام استثنائی طورپر انسان جیسی ایک مخلوق کے حسب حال بنایاگیا ہے۔ زمین کے اندر کا ایک بڑا حصہ آگ ہے مگر وہ پھٹ نہیں پڑتا۔ سورج انتہائی صحیح حسابی فاصلہ پر ہے، وہ اس سے نہ دور جاتا ہے اور نہ قریب ہوتا ہے۔ آدمی کو ہر وقت ہوا اور پانی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہوا کو گیس کی شکل میں ہر جگہ پھیلا دیا گیا ہے اورپانی کو رقیق سیال کی صورت میں زمین کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔ اس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کو زمین پر مسلسل برقرار رکھا جاتا ہے۔ اگر ان میں معمولی فرق آجائے تو انسان کے لیے زمین پر زندگی گزارنا ناممکن ہوجائے۔ نیند بڑی عجیب چیز ہے۔ آدمی چلتا پھرتا ہے۔ وہ دیکھتا اور بولتا ہے۔ مگر جب وہ سوتا ہے تو اس کے تمام حواس اس طرح معطل ہوجاتے ہیں جیسے زندگی اس سے نکل گئی ہو۔ اس کے بعد جب وہ نیند پوری کرکے اٹھتا ہے تو وہ پھر ویسا ہی انسان ہوتا ہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ یہ گویا زندگی اور موت کی تمثیل ہے۔ یہ معاملہ ہمارے لیے اس بات کو قابل فہم بنا دیتا ہے کہ آدمی کس طرح مرے گا اور کس طرح وہ دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا کیا جائے گا۔ یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ سارے انسان خدا کے اختیار میں ہیں اور جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ خدا اپنے اختیار کے مطابق ان کا فیصلہ کرے۔

قُلْ مَنْ يُنَجِّيكُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَئِنْ أَنْجَانَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

📘 انسان کو اس دنیا میں جتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں اتنی کسی بھی دوسرے جان دار کو پیش نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہوتاہے ،تاکہ آدمی پر ایسے حالات طاری کیے جائیں جب کہ اس کے اندر سے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجائیں اور آدمی اپنی اصل فطرت کو دیکھ سكے۔ چنانچہ جب بھی آدمی پرکوئی کڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ یکسو ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام بناوٹی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان تمام تر عاجز ہے اور ساری قدرت صرف خدا کو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی مصیبت کے حالات ختم ہوتے ہیں وہ بدستور غفلت کا شکار ہو کر ویسا ہی بن جاتاہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ شرک کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز پر اعتماد کرنا ہے اور توحید یہ ہے کہ آدمی کا سارا اعتماد اللہ پر ہوجائے۔ شرک کی ایک صورت وہ ہے جو بتوں اور دوسرے مظاہر پرستش کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مگر شکر کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرنا بھی شرک ہے۔ شرک کی زیادہ عام صورت یہ ہے کہ آدمی خوداپنے کو بت بنالے، وہ اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگے۔ آدمی جب اکڑ کر چلتا ہے تو گویا وہ اپنے جسم وجان پر اعتماد کررہا ہے۔ آدمی جب اپنی کمائی کو اپنی کمائی سمجھتا ہے تو گویا وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کررہا ہے۔ آدمی جب ايك حق کو نظر انداز کرتاہے تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو بھی کروں، کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ آدمی جب کسی کے اوپر ظلم کرنے میں جری ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میںاس کے اوپر اختیار رکھتا ہوں، اس کے حق میں اپنی مَن مانی کرنے سے مجھے کوئی ر وکنے والا نہیں۔ یہ ساری صورتیں گھمنڈ کی صورتیں ہیں اور گھمنڈ خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔ آدمی اگر اپنے حال پر سوچے تو وہ گھمنڈ نہ کرے۔ وہ ایسی ہوائوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کرکے اس کی زندگی کو تہس نہس کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی زمین پر کھڑا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ زلزلہ کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ وہ جس سماج میں رہتاہے اس میں ہر وقت اتنی عداوتیں موجود رہتی ہیں کہ ایک چنگاری پورے سماج کو خاک وخون کے حوالے کرنے کے لیے کافی ہے۔

قُلِ اللَّهُ يُنَجِّيكُمْ مِنْهَا وَمِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ أَنْتُمْ تُشْرِكُونَ

📘 انسان کو اس دنیا میں جتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں اتنی کسی بھی دوسرے جان دار کو پیش نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہوتاہے ،تاکہ آدمی پر ایسے حالات طاری کیے جائیں جب کہ اس کے اندر سے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجائیں اور آدمی اپنی اصل فطرت کو دیکھ سكے۔ چنانچہ جب بھی آدمی پرکوئی کڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ یکسو ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام بناوٹی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان تمام تر عاجز ہے اور ساری قدرت صرف خدا کو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی مصیبت کے حالات ختم ہوتے ہیں وہ بدستور غفلت کا شکار ہو کر ویسا ہی بن جاتاہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ شرک کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز پر اعتماد کرنا ہے اور توحید یہ ہے کہ آدمی کا سارا اعتماد اللہ پر ہوجائے۔ شرک کی ایک صورت وہ ہے جو بتوں اور دوسرے مظاہر پرستش کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مگر شکر کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرنا بھی شرک ہے۔ شرک کی زیادہ عام صورت یہ ہے کہ آدمی خوداپنے کو بت بنالے، وہ اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگے۔ آدمی جب اکڑ کر چلتا ہے تو گویا وہ اپنے جسم وجان پر اعتماد کررہا ہے۔ آدمی جب اپنی کمائی کو اپنی کمائی سمجھتا ہے تو گویا وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کررہا ہے۔ آدمی جب ايك حق کو نظر انداز کرتاہے تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو بھی کروں، کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ آدمی جب کسی کے اوپر ظلم کرنے میں جری ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میںاس کے اوپر اختیار رکھتا ہوں، اس کے حق میں اپنی مَن مانی کرنے سے مجھے کوئی ر وکنے والا نہیں۔ یہ ساری صورتیں گھمنڈ کی صورتیں ہیں اور گھمنڈ خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔ آدمی اگر اپنے حال پر سوچے تو وہ گھمنڈ نہ کرے۔ وہ ایسی ہوائوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کرکے اس کی زندگی کو تہس نہس کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی زمین پر کھڑا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ زلزلہ کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ وہ جس سماج میں رہتاہے اس میں ہر وقت اتنی عداوتیں موجود رہتی ہیں کہ ایک چنگاری پورے سماج کو خاک وخون کے حوالے کرنے کے لیے کافی ہے۔

قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَىٰ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ ۗ انْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ

📘 انسان کو اس دنیا میں جتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں اتنی کسی بھی دوسرے جان دار کو پیش نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہوتاہے ،تاکہ آدمی پر ایسے حالات طاری کیے جائیں جب کہ اس کے اندر سے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجائیں اور آدمی اپنی اصل فطرت کو دیکھ سكے۔ چنانچہ جب بھی آدمی پرکوئی کڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ یکسو ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام بناوٹی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان تمام تر عاجز ہے اور ساری قدرت صرف خدا کو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی مصیبت کے حالات ختم ہوتے ہیں وہ بدستور غفلت کا شکار ہو کر ویسا ہی بن جاتاہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ شرک کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز پر اعتماد کرنا ہے اور توحید یہ ہے کہ آدمی کا سارا اعتماد اللہ پر ہوجائے۔ شرک کی ایک صورت وہ ہے جو بتوں اور دوسرے مظاہر پرستش کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مگر شکر کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرنا بھی شرک ہے۔ شرک کی زیادہ عام صورت یہ ہے کہ آدمی خوداپنے کو بت بنالے، وہ اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگے۔ آدمی جب اکڑ کر چلتا ہے تو گویا وہ اپنے جسم وجان پر اعتماد کررہا ہے۔ آدمی جب اپنی کمائی کو اپنی کمائی سمجھتا ہے تو گویا وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کررہا ہے۔ آدمی جب ايك حق کو نظر انداز کرتاہے تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو بھی کروں، کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ آدمی جب کسی کے اوپر ظلم کرنے میں جری ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میںاس کے اوپر اختیار رکھتا ہوں، اس کے حق میں اپنی مَن مانی کرنے سے مجھے کوئی ر وکنے والا نہیں۔ یہ ساری صورتیں گھمنڈ کی صورتیں ہیں اور گھمنڈ خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔ آدمی اگر اپنے حال پر سوچے تو وہ گھمنڈ نہ کرے۔ وہ ایسی ہوائوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کرکے اس کی زندگی کو تہس نہس کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی زمین پر کھڑا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ زلزلہ کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ وہ جس سماج میں رہتاہے اس میں ہر وقت اتنی عداوتیں موجود رہتی ہیں کہ ایک چنگاری پورے سماج کو خاک وخون کے حوالے کرنے کے لیے کافی ہے۔

وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ ۚ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ

📘 انسان کو اس دنیا میں جتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں اتنی کسی بھی دوسرے جان دار کو پیش نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہوتاہے ،تاکہ آدمی پر ایسے حالات طاری کیے جائیں جب کہ اس کے اندر سے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجائیں اور آدمی اپنی اصل فطرت کو دیکھ سكے۔ چنانچہ جب بھی آدمی پرکوئی کڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ یکسو ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام بناوٹی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان تمام تر عاجز ہے اور ساری قدرت صرف خدا کو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی مصیبت کے حالات ختم ہوتے ہیں وہ بدستور غفلت کا شکار ہو کر ویسا ہی بن جاتاہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ شرک کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز پر اعتماد کرنا ہے اور توحید یہ ہے کہ آدمی کا سارا اعتماد اللہ پر ہوجائے۔ شرک کی ایک صورت وہ ہے جو بتوں اور دوسرے مظاہر پرستش کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مگر شکر کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرنا بھی شرک ہے۔ شرک کی زیادہ عام صورت یہ ہے کہ آدمی خوداپنے کو بت بنالے، وہ اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگے۔ آدمی جب اکڑ کر چلتا ہے تو گویا وہ اپنے جسم وجان پر اعتماد کررہا ہے۔ آدمی جب اپنی کمائی کو اپنی کمائی سمجھتا ہے تو گویا وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کررہا ہے۔ آدمی جب ايك حق کو نظر انداز کرتاہے تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو بھی کروں، کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ آدمی جب کسی کے اوپر ظلم کرنے میں جری ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میںاس کے اوپر اختیار رکھتا ہوں، اس کے حق میں اپنی مَن مانی کرنے سے مجھے کوئی ر وکنے والا نہیں۔ یہ ساری صورتیں گھمنڈ کی صورتیں ہیں اور گھمنڈ خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔ آدمی اگر اپنے حال پر سوچے تو وہ گھمنڈ نہ کرے۔ وہ ایسی ہوائوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کرکے اس کی زندگی کو تہس نہس کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی زمین پر کھڑا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ زلزلہ کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ وہ جس سماج میں رہتاہے اس میں ہر وقت اتنی عداوتیں موجود رہتی ہیں کہ ایک چنگاری پورے سماج کو خاک وخون کے حوالے کرنے کے لیے کافی ہے۔

لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَرٌّ ۚ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ

📘 انسان کو اس دنیا میں جتنی مصیبتیں پیش آتی ہیں اتنی کسی بھی دوسرے جان دار کو پیش نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہوتاہے ،تاکہ آدمی پر ایسے حالات طاری کیے جائیں جب کہ اس کے اندر سے تمام مصنوعی خیالات ختم ہوجائیں اور آدمی اپنی اصل فطرت کو دیکھ سكے۔ چنانچہ جب بھی آدمی پرکوئی کڑی مصیبت پڑتی ہے تو وہ یکسو ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام بناوٹی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ جان لیتا ہے کہ اس دنیا میں انسان تمام تر عاجز ہے اور ساری قدرت صرف خدا کو حاصل ہے۔ مگر جیسے ہی مصیبت کے حالات ختم ہوتے ہیں وہ بدستور غفلت کا شکار ہو کر ویسا ہی بن جاتاہے جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ شرک کی اصل حقیقت اللہ کے سوا کسی دوسری چیز پر اعتماد کرنا ہے اور توحید یہ ہے کہ آدمی کا سارا اعتماد اللہ پر ہوجائے۔ شرک کی ایک صورت وہ ہے جو بتوں اور دوسرے مظاہر پرستش کے ساتھ پیش آتی ہے۔ مگر شکر کے بجائے ناشکری کا رویہ اختیار کرنا بھی شرک ہے۔ شرک کی زیادہ عام صورت یہ ہے کہ آدمی خوداپنے کو بت بنالے، وہ اپنے آپ پر اعتماد کرنے لگے۔ آدمی جب اکڑ کر چلتا ہے تو گویا وہ اپنے جسم وجان پر اعتماد کررہا ہے۔ آدمی جب اپنی کمائی کو اپنی کمائی سمجھتا ہے تو گویا وہ اپنی قابلیت پر بھروسہ کررہا ہے۔ آدمی جب ايك حق کو نظر انداز کرتاہے تو گویا وہ سمجھتا ہے کہ میں جو بھی کروں، کوئی میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ آدمی جب کسی کے اوپر ظلم کرنے میں جری ہوتا ہے تو اس وقت اس کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ میںاس کے اوپر اختیار رکھتا ہوں، اس کے حق میں اپنی مَن مانی کرنے سے مجھے کوئی ر وکنے والا نہیں۔ یہ ساری صورتیں گھمنڈ کی صورتیں ہیں اور گھمنڈ خدا کے نزدیک سب سے بڑا شرک ہے۔ کیوں کہ یہ اپنے آپ کو خدا کے مقام پر رکھنا ہے۔ آدمی اگر اپنے حال پر سوچے تو وہ گھمنڈ نہ کرے۔ وہ ایسی ہوائوں سے گھرا ہوا ہے جو کسی بھی وقت طوفان کی صورت اختیار کرکے اس کی زندگی کو تہس نہس کرسکتی ہیں۔ وہ ایسی زمین پر کھڑا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ زلزلہ کی صورت میں پھٹ سکتی ہے۔ وہ جس سماج میں رہتاہے اس میں ہر وقت اتنی عداوتیں موجود رہتی ہیں کہ ایک چنگاری پورے سماج کو خاک وخون کے حوالے کرنے کے لیے کافی ہے۔

وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

📘 عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر امت کے لیے ایک عید کا دن مقرر کیا تاکہ اس دن وہ اللہ کی بڑائی کریںاور اس کی عبادت کریں اور اللہ کی یاد سے اس کو معمور کریں۔ مگر بعد کے لوگوں نے اپنی عید (مذہبی تیوہار) کو کھیل تماشا بنا لیا (تفسیر کبیر، جلد 13 ، صفحه 24 ) ہر دینی عمل کا ایک مقصد ہوتا ہے اور ایک اس کا ظاہری پہلو ہوتا ہے۔ عید كا مقصد اللہ کی بڑائی اور اس کی یاد کا اجتماعی مظاہرہ ہے۔ مگر عید کی ادائیگی کے کچھ ظاہری پہلو بھی ہیں۔ مثلاً کپڑا پہننا یا اجتماع کا سامان کرنا وغیرہ۔ اب عید کو کھیل تماشا بنانا یہ ہے کہ اس کے اصل مقصد پر توجہ نہ دی جائے البتہ اس کے ظاہری اور مادی پہلوؤں کی خوب دھوم مچائی جائے۔ مثلاً کپڑوں اور سامانوں کی نمائش، خرید وفروخت کے ہنگامے، تفریحات کا اہتمام، اپنی حیثیت اور شان وشوکت کے مظاہرے، وغیرہ۔ امتوں کے بگاڑ کے زمانے میں یہی معاملہ تمام دینی اعمال کے ساتھ پیش آتا ہے۔ لوگ دینی عمل کی اصل حقیقت کو الگ کرکے اس کے ظاہری پہلو کو لے لیتے ہیں۔ اب جو لوگ اس نوبت کو پہنچ جائیں کہ وہ دین کے مقصدی پہلو کو بھلا کر اس کو اپنے دنیوی تماشوں کا عنوان بنالیں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں ان کو اس معاملہ کی کوئی ایسی بات سمجھائی نہیں جاسکتی جو ان کے مزاج کے خلاف ہو۔ مزید یہ کہ مادی چیزوں کا مالک ہونا ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ سچائی کے مالک بھی وہی ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں ان کی ضرورتیں بفراغت پوری ہورہی ہیں۔ ہر جگہ وہ رونق محفل بنے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں کہیں کوئی رخنہ نہیں۔ اس لیے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ آخرت میں بھی وہی کامیاب رہیں گے۔ ایسے لوگ عین اپنی نفسیات کی بنا پر آخرت کی باتوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ مگر وہ جان لیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ یوں ہی ختم ہوجانے والا نہیں۔ ان کا عمل ان کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ عنقریب وہ اپنی سرکشی میں پھنس کر رہ جائیں گے اور کسی حال میں اس سے چھٹکارا نہ پاسکیں گے۔

وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَلَٰكِنْ ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

📘 عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر امت کے لیے ایک عید کا دن مقرر کیا تاکہ اس دن وہ اللہ کی بڑائی کریںاور اس کی عبادت کریں اور اللہ کی یاد سے اس کو معمور کریں۔ مگر بعد کے لوگوں نے اپنی عید (مذہبی تیوہار) کو کھیل تماشا بنا لیا (تفسیر کبیر، جلد 13 ، صفحه 24 ) ہر دینی عمل کا ایک مقصد ہوتا ہے اور ایک اس کا ظاہری پہلو ہوتا ہے۔ عید كا مقصد اللہ کی بڑائی اور اس کی یاد کا اجتماعی مظاہرہ ہے۔ مگر عید کی ادائیگی کے کچھ ظاہری پہلو بھی ہیں۔ مثلاً کپڑا پہننا یا اجتماع کا سامان کرنا وغیرہ۔ اب عید کو کھیل تماشا بنانا یہ ہے کہ اس کے اصل مقصد پر توجہ نہ دی جائے البتہ اس کے ظاہری اور مادی پہلوؤں کی خوب دھوم مچائی جائے۔ مثلاً کپڑوں اور سامانوں کی نمائش، خرید وفروخت کے ہنگامے، تفریحات کا اہتمام، اپنی حیثیت اور شان وشوکت کے مظاہرے، وغیرہ۔ امتوں کے بگاڑ کے زمانے میں یہی معاملہ تمام دینی اعمال کے ساتھ پیش آتا ہے۔ لوگ دینی عمل کی اصل حقیقت کو الگ کرکے اس کے ظاہری پہلو کو لے لیتے ہیں۔ اب جو لوگ اس نوبت کو پہنچ جائیں کہ وہ دین کے مقصدی پہلو کو بھلا کر اس کو اپنے دنیوی تماشوں کا عنوان بنالیں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں ان کو اس معاملہ کی کوئی ایسی بات سمجھائی نہیں جاسکتی جو ان کے مزاج کے خلاف ہو۔ مزید یہ کہ مادی چیزوں کا مالک ہونا ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ سچائی کے مالک بھی وہی ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں ان کی ضرورتیں بفراغت پوری ہورہی ہیں۔ ہر جگہ وہ رونق محفل بنے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں کہیں کوئی رخنہ نہیں۔ اس لیے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ آخرت میں بھی وہی کامیاب رہیں گے۔ ایسے لوگ عین اپنی نفسیات کی بنا پر آخرت کی باتوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ مگر وہ جان لیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ یوں ہی ختم ہوجانے والا نہیں۔ ان کا عمل ان کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ عنقریب وہ اپنی سرکشی میں پھنس کر رہ جائیں گے اور کسی حال میں اس سے چھٹکارا نہ پاسکیں گے۔

وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ لَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ

📘 لوگ دنیا کو ہار جیت (تغابن) کی جگہ سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کو یہاں کامیابی مل جائے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور جو شخص یہاں ناکامی سے دو چار ہو وہ لوگوں کی نظر میں حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہار بھی بے قیمت ہے اور یہاں کی جیت بھی بے قیمت۔ ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ہارنے والا وہ ہے جو آخرت میں ہارے اور جیتنے والا وہ ہے جو آخرت میں جیتے، اور وہاں کی ہار جیت کا معیار بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں ہار جیت ظاہری مادیات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور آخرت کی ہار جیت خدائی اخلاقیات کی بنیاد پر ہوگی۔ اس وقت دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہاں سارا معاملہ بالکل بدل گیا ہے۔ جس پانے کو لوگ پانا سمجھ رہے تھے وہ در اصل کھونا تھا، اور جس کھونے کو لوگوں نے کھونا سمجھ رکھا تھا، وہی در اصل وہ چیز تھی جس کو پانا کہا جائے۔ اسی دن کی ہار ہار ہے اور اسی دن کی جیت جیت۔

وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِنْ تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

📘 عبد اللہ بن عباس ؓ نے فرمایا کہ اللہ نے ہر امت کے لیے ایک عید کا دن مقرر کیا تاکہ اس دن وہ اللہ کی بڑائی کریںاور اس کی عبادت کریں اور اللہ کی یاد سے اس کو معمور کریں۔ مگر بعد کے لوگوں نے اپنی عید (مذہبی تیوہار) کو کھیل تماشا بنا لیا (تفسیر کبیر، جلد 13 ، صفحه 24 ) ہر دینی عمل کا ایک مقصد ہوتا ہے اور ایک اس کا ظاہری پہلو ہوتا ہے۔ عید كا مقصد اللہ کی بڑائی اور اس کی یاد کا اجتماعی مظاہرہ ہے۔ مگر عید کی ادائیگی کے کچھ ظاہری پہلو بھی ہیں۔ مثلاً کپڑا پہننا یا اجتماع کا سامان کرنا وغیرہ۔ اب عید کو کھیل تماشا بنانا یہ ہے کہ اس کے اصل مقصد پر توجہ نہ دی جائے البتہ اس کے ظاہری اور مادی پہلوؤں کی خوب دھوم مچائی جائے۔ مثلاً کپڑوں اور سامانوں کی نمائش، خرید وفروخت کے ہنگامے، تفریحات کا اہتمام، اپنی حیثیت اور شان وشوکت کے مظاہرے، وغیرہ۔ امتوں کے بگاڑ کے زمانے میں یہی معاملہ تمام دینی اعمال کے ساتھ پیش آتا ہے۔ لوگ دینی عمل کی اصل حقیقت کو الگ کرکے اس کے ظاہری پہلو کو لے لیتے ہیں۔ اب جو لوگ اس نوبت کو پہنچ جائیں کہ وہ دین کے مقصدی پہلو کو بھلا کر اس کو اپنے دنیوی تماشوں کا عنوان بنالیں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کررہے ہیں کہ وہ دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہیں اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں ان کو اس معاملہ کی کوئی ایسی بات سمجھائی نہیں جاسکتی جو ان کے مزاج کے خلاف ہو۔ مزید یہ کہ مادی چیزوں کا مالک ہونا ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کردیتاہے کہ سچائی کے مالک بھی وہی ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ یہاں ان کی ضرورتیں بفراغت پوری ہورہی ہیں۔ ہر جگہ وہ رونق محفل بنے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں کہیں کوئی رخنہ نہیں۔ اس لیے وہ سمجھ لیتے ہیں کہ آخرت میں بھی وہی کامیاب رہیں گے۔ ایسے لوگ عین اپنی نفسیات کی بنا پر آخرت کی باتوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ مگر وہ جان لیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں وہ یوں ہی ختم ہوجانے والا نہیں۔ ان کا عمل ان کو گھیرے میں لے رہا ہے۔ عنقریب وہ اپنی سرکشی میں پھنس کر رہ جائیں گے اور کسی حال میں اس سے چھٹکارا نہ پاسکیں گے۔

قُلْ أَنَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ائْتِنَا ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 جو لوگ خداکے سوا دوسرے سہاروں پر اپنی زندگی قائم کریں ان کی مثال اس مسافر کی سی ہوتی ہے جو بے نشان صحرا ميں بھٹک رہاہو۔ صحرا میں بھٹکنے والا مسافر فوراً جان لیتاہے کہ اس نے اپنا راستہ کھو دیا ہے۔ راستہ دکھائی دیتے ہی وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتاہے۔ مگر جو لوگ خدا کے بجائے دوسرے سہاروں پر جیتے ہیں ان کو اپنے بے راہ ہونے کی خبر نہیں ہوتی۔ ان کے آس پاس پکارنے والے پکارتے ہیں کہ اصل راستہ یہ ہے، ادھر آجاؤ، مگر وہ اس قسم کی آوازوں پر دھیان نہیں دیتے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پہلے معاملہ میں آدمی کی عقل کھلی ہوئی ہوتی ہے، صحیح راستہ کو دیکھنے میںاس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیںہوتی۔ جب کہ دوسری صورت میں آدمی کي عقل شیطان کے زیر اثر آجاتی ہے۔ اس کی سوچ اپنے فطری ڈھنگ پر کام نہیںکرتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سن کر بھی نہیں سنتا اور دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا۔ خداکے سوا دوسری چیزوں کا طالب بننا ایسی چیزوں کا طالب بننا ہے جو اس دنیا میں فائدہ نقصان کی طاقت نہیں رکھتیں۔ زمین وآسمان اپنے پورے نظام کے ساتھ انکار کررہے ہیں کہ یہاں ایک ہستی کے سوا کسی اور ہستی کو کوئی طاقت حاصل ہو۔ اسی طرح جن دنیوی رونقوں کو آدمی اپنا مقصود بناتا ہے اور ان کو پانے کی کوشش میں سچائي اورانصاف کے تمام تقاضوں کو روند ڈالتا ہے، وہ بھی سر اسر باطل ہے۔ کیوں کہ انسانی زندگی اگر اسی ظالمانہ حالت پر تمام ہوجائے تو یہ دنیا بالکل بے معنی قرار پاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا خود غرض اور انانیت پسند لوگوں کی تماشا گاہ ہے۔ حالانکہ کائنات کا نظام جس باکمال خدا کی تجلیاں دکھا رہا ہے اس سے انتہائی بعید ہے کہ وہ اس طرح کی کوئی بے مقصد تماشا گاہ کھڑی کرے۔ دنیا کی موجودہ صورت حال بالکل عارضی ہے۔ خدا کسی بھی دن اپنا نیا حکم جاری کرکے اس نظام کو توڑ دے گا۔ اس کے بعد انسان کی موجودہ آزادی ختم ہوجائے گی اور خدا کا اقتدار انسانوں پر بھی اسی طرح قائم ہوجائے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات پر قائم ہے۔ اس وقت کامیاب وہ ہوں گے جنھوںنے امتحان کے زمانہ میں اپنے کو خدا کے حوالے کیا تھا، جو کسی دباؤ کے بغیر اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے آگے ہمہ تن جھک جانے والے تھے۔

وَأَنْ أَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَاتَّقُوهُ ۚ وَهُوَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

📘 جو لوگ خداکے سوا دوسرے سہاروں پر اپنی زندگی قائم کریں ان کی مثال اس مسافر کی سی ہوتی ہے جو بے نشان صحرا ميں بھٹک رہاہو۔ صحرا میں بھٹکنے والا مسافر فوراً جان لیتاہے کہ اس نے اپنا راستہ کھو دیا ہے۔ راستہ دکھائی دیتے ہی وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتاہے۔ مگر جو لوگ خدا کے بجائے دوسرے سہاروں پر جیتے ہیں ان کو اپنے بے راہ ہونے کی خبر نہیں ہوتی۔ ان کے آس پاس پکارنے والے پکارتے ہیں کہ اصل راستہ یہ ہے، ادھر آجاؤ، مگر وہ اس قسم کی آوازوں پر دھیان نہیں دیتے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پہلے معاملہ میں آدمی کی عقل کھلی ہوئی ہوتی ہے، صحیح راستہ کو دیکھنے میںاس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیںہوتی۔ جب کہ دوسری صورت میں آدمی کي عقل شیطان کے زیر اثر آجاتی ہے۔ اس کی سوچ اپنے فطری ڈھنگ پر کام نہیںکرتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سن کر بھی نہیں سنتا اور دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا۔ خداکے سوا دوسری چیزوں کا طالب بننا ایسی چیزوں کا طالب بننا ہے جو اس دنیا میں فائدہ نقصان کی طاقت نہیں رکھتیں۔ زمین وآسمان اپنے پورے نظام کے ساتھ انکار کررہے ہیں کہ یہاں ایک ہستی کے سوا کسی اور ہستی کو کوئی طاقت حاصل ہو۔ اسی طرح جن دنیوی رونقوں کو آدمی اپنا مقصود بناتا ہے اور ان کو پانے کی کوشش میں سچائي اورانصاف کے تمام تقاضوں کو روند ڈالتا ہے، وہ بھی سر اسر باطل ہے۔ کیوں کہ انسانی زندگی اگر اسی ظالمانہ حالت پر تمام ہوجائے تو یہ دنیا بالکل بے معنی قرار پاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا خود غرض اور انانیت پسند لوگوں کی تماشا گاہ ہے۔ حالانکہ کائنات کا نظام جس باکمال خدا کی تجلیاں دکھا رہا ہے اس سے انتہائی بعید ہے کہ وہ اس طرح کی کوئی بے مقصد تماشا گاہ کھڑی کرے۔ دنیا کی موجودہ صورت حال بالکل عارضی ہے۔ خدا کسی بھی دن اپنا نیا حکم جاری کرکے اس نظام کو توڑ دے گا۔ اس کے بعد انسان کی موجودہ آزادی ختم ہوجائے گی اور خدا کا اقتدار انسانوں پر بھی اسی طرح قائم ہوجائے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات پر قائم ہے۔ اس وقت کامیاب وہ ہوں گے جنھوںنے امتحان کے زمانہ میں اپنے کو خدا کے حوالے کیا تھا، جو کسی دباؤ کے بغیر اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے آگے ہمہ تن جھک جانے والے تھے۔

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ ۚ قَوْلُهُ الْحَقُّ ۚ وَلَهُ الْمُلْكُ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ ۚ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ

📘 جو لوگ خداکے سوا دوسرے سہاروں پر اپنی زندگی قائم کریں ان کی مثال اس مسافر کی سی ہوتی ہے جو بے نشان صحرا ميں بھٹک رہاہو۔ صحرا میں بھٹکنے والا مسافر فوراً جان لیتاہے کہ اس نے اپنا راستہ کھو دیا ہے۔ راستہ دکھائی دیتے ہی وہ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑتاہے۔ مگر جو لوگ خدا کے بجائے دوسرے سہاروں پر جیتے ہیں ان کو اپنے بے راہ ہونے کی خبر نہیں ہوتی۔ ان کے آس پاس پکارنے والے پکارتے ہیں کہ اصل راستہ یہ ہے، ادھر آجاؤ، مگر وہ اس قسم کی آوازوں پر دھیان نہیں دیتے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پہلے معاملہ میں آدمی کی عقل کھلی ہوئی ہوتی ہے، صحیح راستہ کو دیکھنے میںاس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیںہوتی۔ جب کہ دوسری صورت میں آدمی کي عقل شیطان کے زیر اثر آجاتی ہے۔ اس کی سوچ اپنے فطری ڈھنگ پر کام نہیںکرتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سن کر بھی نہیں سنتا اور دیکھ کر بھی نہیں دیکھتا۔ خداکے سوا دوسری چیزوں کا طالب بننا ایسی چیزوں کا طالب بننا ہے جو اس دنیا میں فائدہ نقصان کی طاقت نہیں رکھتیں۔ زمین وآسمان اپنے پورے نظام کے ساتھ انکار کررہے ہیں کہ یہاں ایک ہستی کے سوا کسی اور ہستی کو کوئی طاقت حاصل ہو۔ اسی طرح جن دنیوی رونقوں کو آدمی اپنا مقصود بناتا ہے اور ان کو پانے کی کوشش میں سچائي اورانصاف کے تمام تقاضوں کو روند ڈالتا ہے، وہ بھی سر اسر باطل ہے۔ کیوں کہ انسانی زندگی اگر اسی ظالمانہ حالت پر تمام ہوجائے تو یہ دنیا بالکل بے معنی قرار پاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا خود غرض اور انانیت پسند لوگوں کی تماشا گاہ ہے۔ حالانکہ کائنات کا نظام جس باکمال خدا کی تجلیاں دکھا رہا ہے اس سے انتہائی بعید ہے کہ وہ اس طرح کی کوئی بے مقصد تماشا گاہ کھڑی کرے۔ دنیا کی موجودہ صورت حال بالکل عارضی ہے۔ خدا کسی بھی دن اپنا نیا حکم جاری کرکے اس نظام کو توڑ دے گا۔ اس کے بعد انسان کی موجودہ آزادی ختم ہوجائے گی اور خدا کا اقتدار انسانوں پر بھی اسی طرح قائم ہوجائے گا جس طرح آج وہ بقیہ کائنات پر قائم ہے۔ اس وقت کامیاب وہ ہوں گے جنھوںنے امتحان کے زمانہ میں اپنے کو خدا کے حوالے کیا تھا، جو کسی دباؤ کے بغیر اللہ سے ڈرنے والے اور اس کے آگے ہمہ تن جھک جانے والے تھے۔

۞ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 حضرت ابراہیم کی کہانی جو یہاں بیان ہوئی ہے وہ تلاش حق کی کہانی نہیں ہے بلکہ مشاہدۂ حق کی کہانی ہے۔ حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں ایسے ماحول میں پیداہوئے جہاں سورج، چاند، اور تاروں کی پرستش ہورهي تھی۔ تاہم فطرت کی رہنمائی اور اللہ کی خصوصی مدد نے آنجناب کو شرک سے محفوظ رکھا۔ آپ کی بیدار نگاہیں کائنات کے پھیلے ہوئے شواہد میں توحید کے کھلے ہوئے دلائل دیکھتیں، کائنات کے آئینہ میں ہر طرف آپ کو ایک خدا کا چہرہ نظر آتا تھا۔ آپ قوم کی حالت پر افسوس کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کھلے ہوئے حقائق کے باوجود کیوں تم لوگ اندھے بنے ہوئے ہو۔ رات کا وقت ہے۔ حضرت ابراہیم آسمان میں خدائے واحد کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اسی عالم میں سیارہ زہرہ چمکتاہوا ان کے سامنے آتاہے جس کو ان کی قوم معبود سمجھ کر پوجتی تھی۔ ان کے دل میں بطور سوال نہیں بلکہ بطور استعجاب یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہی وہ چیز ہے جو میرا رب ہو، یہی وہ معبود ہے جس کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا ڈوبنا ان کے لیے اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی ایک مشاہداتی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جو چیز ایک لمحہ کے لیے چمکے اور پھر غائب ہوجائے وہ کیسے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اس کو پوجا جائے۔ بالکل یہی تجربہ ان کو چاند اور سورج کے ساتھ بھی گزرتا ہے۔ ہر ایک چمک کر تھوڑی دیر کے لیے استعجاب پیدا کرتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلکیاتی مشاہدات جو ان کے اپنے لیے توحید کی کھلی ہوئی تصدیق تھے اسی کو وہ قوم کے سامنے اپنی تبلیغ میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور انداز کلام وہ اختیار کرتے ہیں جس کو اصطلاح میں حجت الزامی کہاجاتاہے، یعنی مخاطب کے الفاظ کو دہرا کر پھر اسے قائل کرنا۔ حجت الزامی کا یہ طریقہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی مذکور ہواہے۔ مثلاً وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ( 20:97 )۔ یعنی، اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا۔ کائنات میں خدا کی جو تخلیقی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ کسی بندہ کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ بھی ہیں اور انھیں سے دعوت حق کے لیے مضبوط دلائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔

وَكَذَٰلِكَ نُرِي إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ

📘 حضرت ابراہیم کی کہانی جو یہاں بیان ہوئی ہے وہ تلاش حق کی کہانی نہیں ہے بلکہ مشاہدۂ حق کی کہانی ہے۔ حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں ایسے ماحول میں پیداہوئے جہاں سورج، چاند، اور تاروں کی پرستش ہورهي تھی۔ تاہم فطرت کی رہنمائی اور اللہ کی خصوصی مدد نے آنجناب کو شرک سے محفوظ رکھا۔ آپ کی بیدار نگاہیں کائنات کے پھیلے ہوئے شواہد میں توحید کے کھلے ہوئے دلائل دیکھتیں، کائنات کے آئینہ میں ہر طرف آپ کو ایک خدا کا چہرہ نظر آتا تھا۔ آپ قوم کی حالت پر افسوس کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کھلے ہوئے حقائق کے باوجود کیوں تم لوگ اندھے بنے ہوئے ہو۔ رات کا وقت ہے۔ حضرت ابراہیم آسمان میں خدائے واحد کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اسی عالم میں سیارہ زہرہ چمکتاہوا ان کے سامنے آتاہے جس کو ان کی قوم معبود سمجھ کر پوجتی تھی۔ ان کے دل میں بطور سوال نہیں بلکہ بطور استعجاب یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہی وہ چیز ہے جو میرا رب ہو، یہی وہ معبود ہے جس کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا ڈوبنا ان کے لیے اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی ایک مشاہداتی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جو چیز ایک لمحہ کے لیے چمکے اور پھر غائب ہوجائے وہ کیسے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اس کو پوجا جائے۔ بالکل یہی تجربہ ان کو چاند اور سورج کے ساتھ بھی گزرتا ہے۔ ہر ایک چمک کر تھوڑی دیر کے لیے استعجاب پیدا کرتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلکیاتی مشاہدات جو ان کے اپنے لیے توحید کی کھلی ہوئی تصدیق تھے اسی کو وہ قوم کے سامنے اپنی تبلیغ میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور انداز کلام وہ اختیار کرتے ہیں جس کو اصطلاح میں حجت الزامی کہاجاتاہے، یعنی مخاطب کے الفاظ کو دہرا کر پھر اسے قائل کرنا۔ حجت الزامی کا یہ طریقہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی مذکور ہواہے۔ مثلاً وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ( 20:97 )۔ یعنی، اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا۔ کائنات میں خدا کی جو تخلیقی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ کسی بندہ کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ بھی ہیں اور انھیں سے دعوت حق کے لیے مضبوط دلائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا ۖ قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ

📘 حضرت ابراہیم کی کہانی جو یہاں بیان ہوئی ہے وہ تلاش حق کی کہانی نہیں ہے بلکہ مشاہدۂ حق کی کہانی ہے۔ حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں ایسے ماحول میں پیداہوئے جہاں سورج، چاند، اور تاروں کی پرستش ہورهي تھی۔ تاہم فطرت کی رہنمائی اور اللہ کی خصوصی مدد نے آنجناب کو شرک سے محفوظ رکھا۔ آپ کی بیدار نگاہیں کائنات کے پھیلے ہوئے شواہد میں توحید کے کھلے ہوئے دلائل دیکھتیں، کائنات کے آئینہ میں ہر طرف آپ کو ایک خدا کا چہرہ نظر آتا تھا۔ آپ قوم کی حالت پر افسوس کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کھلے ہوئے حقائق کے باوجود کیوں تم لوگ اندھے بنے ہوئے ہو۔ رات کا وقت ہے۔ حضرت ابراہیم آسمان میں خدائے واحد کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اسی عالم میں سیارہ زہرہ چمکتاہوا ان کے سامنے آتاہے جس کو ان کی قوم معبود سمجھ کر پوجتی تھی۔ ان کے دل میں بطور سوال نہیں بلکہ بطور استعجاب یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہی وہ چیز ہے جو میرا رب ہو، یہی وہ معبود ہے جس کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا ڈوبنا ان کے لیے اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی ایک مشاہداتی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جو چیز ایک لمحہ کے لیے چمکے اور پھر غائب ہوجائے وہ کیسے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اس کو پوجا جائے۔ بالکل یہی تجربہ ان کو چاند اور سورج کے ساتھ بھی گزرتا ہے۔ ہر ایک چمک کر تھوڑی دیر کے لیے استعجاب پیدا کرتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلکیاتی مشاہدات جو ان کے اپنے لیے توحید کی کھلی ہوئی تصدیق تھے اسی کو وہ قوم کے سامنے اپنی تبلیغ میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور انداز کلام وہ اختیار کرتے ہیں جس کو اصطلاح میں حجت الزامی کہاجاتاہے، یعنی مخاطب کے الفاظ کو دہرا کر پھر اسے قائل کرنا۔ حجت الزامی کا یہ طریقہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی مذکور ہواہے۔ مثلاً وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ( 20:97 )۔ یعنی، اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا۔ کائنات میں خدا کی جو تخلیقی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ کسی بندہ کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ بھی ہیں اور انھیں سے دعوت حق کے لیے مضبوط دلائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔

فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَٰذَا رَبِّي ۖ فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ

📘 حضرت ابراہیم کی کہانی جو یہاں بیان ہوئی ہے وہ تلاش حق کی کہانی نہیں ہے بلکہ مشاہدۂ حق کی کہانی ہے۔ حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں ایسے ماحول میں پیداہوئے جہاں سورج، چاند، اور تاروں کی پرستش ہورهي تھی۔ تاہم فطرت کی رہنمائی اور اللہ کی خصوصی مدد نے آنجناب کو شرک سے محفوظ رکھا۔ آپ کی بیدار نگاہیں کائنات کے پھیلے ہوئے شواہد میں توحید کے کھلے ہوئے دلائل دیکھتیں، کائنات کے آئینہ میں ہر طرف آپ کو ایک خدا کا چہرہ نظر آتا تھا۔ آپ قوم کی حالت پر افسوس کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کھلے ہوئے حقائق کے باوجود کیوں تم لوگ اندھے بنے ہوئے ہو۔ رات کا وقت ہے۔ حضرت ابراہیم آسمان میں خدائے واحد کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اسی عالم میں سیارہ زہرہ چمکتاہوا ان کے سامنے آتاہے جس کو ان کی قوم معبود سمجھ کر پوجتی تھی۔ ان کے دل میں بطور سوال نہیں بلکہ بطور استعجاب یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہی وہ چیز ہے جو میرا رب ہو، یہی وہ معبود ہے جس کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا ڈوبنا ان کے لیے اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی ایک مشاہداتی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جو چیز ایک لمحہ کے لیے چمکے اور پھر غائب ہوجائے وہ کیسے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اس کو پوجا جائے۔ بالکل یہی تجربہ ان کو چاند اور سورج کے ساتھ بھی گزرتا ہے۔ ہر ایک چمک کر تھوڑی دیر کے لیے استعجاب پیدا کرتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلکیاتی مشاہدات جو ان کے اپنے لیے توحید کی کھلی ہوئی تصدیق تھے اسی کو وہ قوم کے سامنے اپنی تبلیغ میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور انداز کلام وہ اختیار کرتے ہیں جس کو اصطلاح میں حجت الزامی کہاجاتاہے، یعنی مخاطب کے الفاظ کو دہرا کر پھر اسے قائل کرنا۔ حجت الزامی کا یہ طریقہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی مذکور ہواہے۔ مثلاً وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ( 20:97 )۔ یعنی، اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا۔ کائنات میں خدا کی جو تخلیقی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ کسی بندہ کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ بھی ہیں اور انھیں سے دعوت حق کے لیے مضبوط دلائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔

فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَٰذَا رَبِّي هَٰذَا أَكْبَرُ ۖ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تُشْرِكُونَ

📘 حضرت ابراہیم کی کہانی جو یہاں بیان ہوئی ہے وہ تلاش حق کی کہانی نہیں ہے بلکہ مشاہدۂ حق کی کہانی ہے۔ حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں ایسے ماحول میں پیداہوئے جہاں سورج، چاند، اور تاروں کی پرستش ہورهي تھی۔ تاہم فطرت کی رہنمائی اور اللہ کی خصوصی مدد نے آنجناب کو شرک سے محفوظ رکھا۔ آپ کی بیدار نگاہیں کائنات کے پھیلے ہوئے شواہد میں توحید کے کھلے ہوئے دلائل دیکھتیں، کائنات کے آئینہ میں ہر طرف آپ کو ایک خدا کا چہرہ نظر آتا تھا۔ آپ قوم کی حالت پر افسوس کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کھلے ہوئے حقائق کے باوجود کیوں تم لوگ اندھے بنے ہوئے ہو۔ رات کا وقت ہے۔ حضرت ابراہیم آسمان میں خدائے واحد کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اسی عالم میں سیارہ زہرہ چمکتاہوا ان کے سامنے آتاہے جس کو ان کی قوم معبود سمجھ کر پوجتی تھی۔ ان کے دل میں بطور سوال نہیں بلکہ بطور استعجاب یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہی وہ چیز ہے جو میرا رب ہو، یہی وہ معبود ہے جس کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا ڈوبنا ان کے لیے اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی ایک مشاہداتی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جو چیز ایک لمحہ کے لیے چمکے اور پھر غائب ہوجائے وہ کیسے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اس کو پوجا جائے۔ بالکل یہی تجربہ ان کو چاند اور سورج کے ساتھ بھی گزرتا ہے۔ ہر ایک چمک کر تھوڑی دیر کے لیے استعجاب پیدا کرتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلکیاتی مشاہدات جو ان کے اپنے لیے توحید کی کھلی ہوئی تصدیق تھے اسی کو وہ قوم کے سامنے اپنی تبلیغ میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور انداز کلام وہ اختیار کرتے ہیں جس کو اصطلاح میں حجت الزامی کہاجاتاہے، یعنی مخاطب کے الفاظ کو دہرا کر پھر اسے قائل کرنا۔ حجت الزامی کا یہ طریقہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی مذکور ہواہے۔ مثلاً وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ( 20:97 )۔ یعنی، اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا۔ کائنات میں خدا کی جو تخلیقی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ کسی بندہ کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ بھی ہیں اور انھیں سے دعوت حق کے لیے مضبوط دلائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔

إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا ۖ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 حضرت ابراہیم کی کہانی جو یہاں بیان ہوئی ہے وہ تلاش حق کی کہانی نہیں ہے بلکہ مشاہدۂ حق کی کہانی ہے۔ حضرت ابراہیم چار ہزار سال پہلے عراق میں ایسے ماحول میں پیداہوئے جہاں سورج، چاند، اور تاروں کی پرستش ہورهي تھی۔ تاہم فطرت کی رہنمائی اور اللہ کی خصوصی مدد نے آنجناب کو شرک سے محفوظ رکھا۔ آپ کی بیدار نگاہیں کائنات کے پھیلے ہوئے شواہد میں توحید کے کھلے ہوئے دلائل دیکھتیں، کائنات کے آئینہ میں ہر طرف آپ کو ایک خدا کا چہرہ نظر آتا تھا۔ آپ قوم کی حالت پر افسوس کرتے اور لوگوں کو بتاتے کہ کھلے ہوئے حقائق کے باوجود کیوں تم لوگ اندھے بنے ہوئے ہو۔ رات کا وقت ہے۔ حضرت ابراہیم آسمان میں خدائے واحد کی نشانیاں دیکھ رہے ہیں۔ اسی عالم میں سیارہ زہرہ چمکتاہوا ان کے سامنے آتاہے جس کو ان کی قوم معبود سمجھ کر پوجتی تھی۔ ان کے دل میں بطور سوال نہیں بلکہ بطور استعجاب یہ خیال آتا ہے کہ کیا یہی وہ چیز ہے جو میرا رب ہو، یہی وہ معبود ہے جس کی ہمیں پرستش کرنی چاہیے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کو اپنے سامنے ڈوبتا ہوا دیکھتے ہیں تو اس کا ڈوبنا ان کے لیے اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی ایک مشاہداتی دلیل بن جاتی ہے۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جو چیز ایک لمحہ کے لیے چمکے اور پھر غائب ہوجائے وہ کیسے اس قابل ہوسکتی ہے کہ اس کو پوجا جائے۔ بالکل یہی تجربہ ان کو چاند اور سورج کے ساتھ بھی گزرتا ہے۔ ہر ایک چمک کر تھوڑی دیر کے لیے استعجاب پیدا کرتا ہے اور پھر ڈوب جاتا ہے۔ یہ فلکیاتی مشاہدات جو ان کے اپنے لیے توحید کی کھلی ہوئی تصدیق تھے اسی کو وہ قوم کے سامنے اپنی تبلیغ میں بطور استدلال پیش کرتے ہیں اور انداز کلام وہ اختیار کرتے ہیں جس کو اصطلاح میں حجت الزامی کہاجاتاہے، یعنی مخاطب کے الفاظ کو دہرا کر پھر اسے قائل کرنا۔ حجت الزامی کا یہ طریقہ قرآن میں دوسرے مقامات پر بھی مذکور ہواہے۔ مثلاً وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ( 20:97 )۔ یعنی، اور تو اپنے اس معبود کو دیکھ جس پر تو برابر معتکف رہتا تھا۔ کائنات میں خدا کی جو تخلیقی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ کسی بندہ کے لیے اضافہ ایمان کا ذریعہ بھی ہیں اور انھیں سے دعوت حق کے لیے مضبوط دلائل بھی حاصل ہوتے ہیں۔

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ مَلَكٌ ۖ وَلَوْ أَنْزَلْنَا مَلَكًا لَقُضِيَ الْأَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُونَ

📘 لوگ دنیا کو ہار جیت (تغابن) کی جگہ سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کو یہاں کامیابی مل جائے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور جو شخص یہاں ناکامی سے دو چار ہو وہ لوگوں کی نظر میں حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہار بھی بے قیمت ہے اور یہاں کی جیت بھی بے قیمت۔ ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ہارنے والا وہ ہے جو آخرت میں ہارے اور جیتنے والا وہ ہے جو آخرت میں جیتے، اور وہاں کی ہار جیت کا معیار بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں ہار جیت ظاہری مادیات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور آخرت کی ہار جیت خدائی اخلاقیات کی بنیاد پر ہوگی۔ اس وقت دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہاں سارا معاملہ بالکل بدل گیا ہے۔ جس پانے کو لوگ پانا سمجھ رہے تھے وہ در اصل کھونا تھا، اور جس کھونے کو لوگوں نے کھونا سمجھ رکھا تھا، وہی در اصل وہ چیز تھی جس کو پانا کہا جائے۔ اسی دن کی ہار ہار ہے اور اسی دن کی جیت جیت۔

وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ

📘 جب کسی چیز یا کسی شخصیت کو معبود کادرجہ دے دیا جائے تو اس کے بعد فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ پر اسرار عظمتوں کے تصورات وابستہ ہوجاتے ہیں۔ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس ذات کو کائناتی نقشہ میں کوئی ایسا برتر مقام حاصل ہے جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔ اس کو خوش کرنے سے قسمتیں بنتی ہیں اور اس کو ناراض کرنے سے قسمتیں بگڑ جاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے جب اپنی قوم کے بتوں کے بارے میں کہا کہ یہ بے حقیقت ہیں، انھیں خدا کی اس دنیا میں کوئی زور حاصل نہیں تو لوگوں کو اندیشہ ہونے لگا کہ اس گستاخی کے نتیجہ میں کوئی وبال نہ آپڑے۔ وہ حضرت ابراہیم سے بحثیں کرنے لگے۔ انھوں نے آپ کو ڈرایا کہ تم ایسی باتیں نہ کرو، ورنہ ان معبودوں کا غضب تمھارے اوپر نازل ہوگا۔ تم اندھے ہوجاؤ گے، تم پاگل ہوجاؤ گے، تم برباد ہوجاؤ گے، وغیرہ۔ اس دنیا میں صرف خدا کی ایک ذات هے جس کی کبریائی دلیل وبرہان کے اوپر قائم ہے۔ اس کے سوا بڑائی اور معبودیت کی جتنی قسمیں ہیں سب توہماتی عقائد کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ خدا کی خدائی اپنے آپ قائم ہے، جب کہ دوسری تمام خدائیاں صرف ان کے ماننے والوں کی بدولت ہیں۔ اگر ماننے والے نہ مانیں تو یہ خدائیاں بھی بے وجود ہوکر رہ جائیں۔ ظاہري حالات کو دیکھ كران معبودوں کے پرستار اکثر اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ سچے خدا پرستوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بدترین غلط فہمی ہے۔ محفوظ حیثیت دراصل اس کی ہے جو دلیل او ر برہان پر کھڑاہوا ہے۔ دنیوی رواج سے مصالحت کرکے کوئی شخص اپنے لیے محفوظ دیوار حاصل کرے تو آخری انجام کے اعتبار سے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ جھوٹے معبودوں کا غلبہ کبھی اس نوبت کو پہنچتا ہے کہ سچے خدا پرست بھی اس سے مرعوب ہو کر اس سے سازگاری کرلیتے ہیں۔ دنیوی مصلحتیں اور مادی مفادات ان سے اس درجہ وابستہ ہوجاتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ باعزت زندگی حاصل کرنے کي اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ ان معبودوں کے تحت بنے ہوئے ڈھانچہ سے مصالحت کر لی جائے۔ مگر اس قسم کا رویہ اپنے ایمان میں ایسا نقصان شامل کرلینا ہے جو خود ایمان ہی کو خدا کی نظر میں مشتبہ بنا دے۔

وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا ۚ فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 جب کسی چیز یا کسی شخصیت کو معبود کادرجہ دے دیا جائے تو اس کے بعد فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ پر اسرار عظمتوں کے تصورات وابستہ ہوجاتے ہیں۔ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس ذات کو کائناتی نقشہ میں کوئی ایسا برتر مقام حاصل ہے جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔ اس کو خوش کرنے سے قسمتیں بنتی ہیں اور اس کو ناراض کرنے سے قسمتیں بگڑ جاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے جب اپنی قوم کے بتوں کے بارے میں کہا کہ یہ بے حقیقت ہیں، انھیں خدا کی اس دنیا میں کوئی زور حاصل نہیں تو لوگوں کو اندیشہ ہونے لگا کہ اس گستاخی کے نتیجہ میں کوئی وبال نہ آپڑے۔ وہ حضرت ابراہیم سے بحثیں کرنے لگے۔ انھوں نے آپ کو ڈرایا کہ تم ایسی باتیں نہ کرو، ورنہ ان معبودوں کا غضب تمھارے اوپر نازل ہوگا۔ تم اندھے ہوجاؤ گے، تم پاگل ہوجاؤ گے، تم برباد ہوجاؤ گے، وغیرہ۔ اس دنیا میں صرف خدا کی ایک ذات هے جس کی کبریائی دلیل وبرہان کے اوپر قائم ہے۔ اس کے سوا بڑائی اور معبودیت کی جتنی قسمیں ہیں سب توہماتی عقائد کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ خدا کی خدائی اپنے آپ قائم ہے، جب کہ دوسری تمام خدائیاں صرف ان کے ماننے والوں کی بدولت ہیں۔ اگر ماننے والے نہ مانیں تو یہ خدائیاں بھی بے وجود ہوکر رہ جائیں۔ ظاہري حالات کو دیکھ كران معبودوں کے پرستار اکثر اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ سچے خدا پرستوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بدترین غلط فہمی ہے۔ محفوظ حیثیت دراصل اس کی ہے جو دلیل او ر برہان پر کھڑاہوا ہے۔ دنیوی رواج سے مصالحت کرکے کوئی شخص اپنے لیے محفوظ دیوار حاصل کرے تو آخری انجام کے اعتبار سے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ جھوٹے معبودوں کا غلبہ کبھی اس نوبت کو پہنچتا ہے کہ سچے خدا پرست بھی اس سے مرعوب ہو کر اس سے سازگاری کرلیتے ہیں۔ دنیوی مصلحتیں اور مادی مفادات ان سے اس درجہ وابستہ ہوجاتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ باعزت زندگی حاصل کرنے کي اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ ان معبودوں کے تحت بنے ہوئے ڈھانچہ سے مصالحت کر لی جائے۔ مگر اس قسم کا رویہ اپنے ایمان میں ایسا نقصان شامل کرلینا ہے جو خود ایمان ہی کو خدا کی نظر میں مشتبہ بنا دے۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

📘 جب کسی چیز یا کسی شخصیت کو معبود کادرجہ دے دیا جائے تو اس کے بعد فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ پر اسرار عظمتوں کے تصورات وابستہ ہوجاتے ہیں۔ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس ذات کو کائناتی نقشہ میں کوئی ایسا برتر مقام حاصل ہے جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔ اس کو خوش کرنے سے قسمتیں بنتی ہیں اور اس کو ناراض کرنے سے قسمتیں بگڑ جاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے جب اپنی قوم کے بتوں کے بارے میں کہا کہ یہ بے حقیقت ہیں، انھیں خدا کی اس دنیا میں کوئی زور حاصل نہیں تو لوگوں کو اندیشہ ہونے لگا کہ اس گستاخی کے نتیجہ میں کوئی وبال نہ آپڑے۔ وہ حضرت ابراہیم سے بحثیں کرنے لگے۔ انھوں نے آپ کو ڈرایا کہ تم ایسی باتیں نہ کرو، ورنہ ان معبودوں کا غضب تمھارے اوپر نازل ہوگا۔ تم اندھے ہوجاؤ گے، تم پاگل ہوجاؤ گے، تم برباد ہوجاؤ گے، وغیرہ۔ اس دنیا میں صرف خدا کی ایک ذات هے جس کی کبریائی دلیل وبرہان کے اوپر قائم ہے۔ اس کے سوا بڑائی اور معبودیت کی جتنی قسمیں ہیں سب توہماتی عقائد کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ خدا کی خدائی اپنے آپ قائم ہے، جب کہ دوسری تمام خدائیاں صرف ان کے ماننے والوں کی بدولت ہیں۔ اگر ماننے والے نہ مانیں تو یہ خدائیاں بھی بے وجود ہوکر رہ جائیں۔ ظاہري حالات کو دیکھ كران معبودوں کے پرستار اکثر اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ سچے خدا پرستوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بدترین غلط فہمی ہے۔ محفوظ حیثیت دراصل اس کی ہے جو دلیل او ر برہان پر کھڑاہوا ہے۔ دنیوی رواج سے مصالحت کرکے کوئی شخص اپنے لیے محفوظ دیوار حاصل کرے تو آخری انجام کے اعتبار سے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ جھوٹے معبودوں کا غلبہ کبھی اس نوبت کو پہنچتا ہے کہ سچے خدا پرست بھی اس سے مرعوب ہو کر اس سے سازگاری کرلیتے ہیں۔ دنیوی مصلحتیں اور مادی مفادات ان سے اس درجہ وابستہ ہوجاتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ باعزت زندگی حاصل کرنے کي اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ ان معبودوں کے تحت بنے ہوئے ڈھانچہ سے مصالحت کر لی جائے۔ مگر اس قسم کا رویہ اپنے ایمان میں ایسا نقصان شامل کرلینا ہے جو خود ایمان ہی کو خدا کی نظر میں مشتبہ بنا دے۔

وَتِلْكَ حُجَّتُنَا آتَيْنَاهَا إِبْرَاهِيمَ عَلَىٰ قَوْمِهِ ۚ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَنْ نَشَاءُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

📘 جب کسی چیز یا کسی شخصیت کو معبود کادرجہ دے دیا جائے تو اس کے بعد فطری طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ پر اسرار عظمتوں کے تصورات وابستہ ہوجاتے ہیں۔ لوگ سمجھنے لگتے ہیں کہ اس ذات کو کائناتی نقشہ میں کوئی ایسا برتر مقام حاصل ہے جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔ اس کو خوش کرنے سے قسمتیں بنتی ہیں اور اس کو ناراض کرنے سے قسمتیں بگڑ جاتی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم نے جب اپنی قوم کے بتوں کے بارے میں کہا کہ یہ بے حقیقت ہیں، انھیں خدا کی اس دنیا میں کوئی زور حاصل نہیں تو لوگوں کو اندیشہ ہونے لگا کہ اس گستاخی کے نتیجہ میں کوئی وبال نہ آپڑے۔ وہ حضرت ابراہیم سے بحثیں کرنے لگے۔ انھوں نے آپ کو ڈرایا کہ تم ایسی باتیں نہ کرو، ورنہ ان معبودوں کا غضب تمھارے اوپر نازل ہوگا۔ تم اندھے ہوجاؤ گے، تم پاگل ہوجاؤ گے، تم برباد ہوجاؤ گے، وغیرہ۔ اس دنیا میں صرف خدا کی ایک ذات هے جس کی کبریائی دلیل وبرہان کے اوپر قائم ہے۔ اس کے سوا بڑائی اور معبودیت کی جتنی قسمیں ہیں سب توہماتی عقائد کی بنیاد پر کھڑی ہوتی ہیں۔ خدا کی خدائی اپنے آپ قائم ہے، جب کہ دوسری تمام خدائیاں صرف ان کے ماننے والوں کی بدولت ہیں۔ اگر ماننے والے نہ مانیں تو یہ خدائیاں بھی بے وجود ہوکر رہ جائیں۔ ظاہري حالات کو دیکھ كران معبودوں کے پرستار اکثر اس دھوکے میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ سچے خدا پرستوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ مقام پر کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بدترین غلط فہمی ہے۔ محفوظ حیثیت دراصل اس کی ہے جو دلیل او ر برہان پر کھڑاہوا ہے۔ دنیوی رواج سے مصالحت کرکے کوئی شخص اپنے لیے محفوظ دیوار حاصل کرے تو آخری انجام کے اعتبار سے اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ جھوٹے معبودوں کا غلبہ کبھی اس نوبت کو پہنچتا ہے کہ سچے خدا پرست بھی اس سے مرعوب ہو کر اس سے سازگاری کرلیتے ہیں۔ دنیوی مصلحتیں اور مادی مفادات ان سے اس درجہ وابستہ ہوجاتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہونے لگتا ہے کہ باعزت زندگی حاصل کرنے کي اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ ان معبودوں کے تحت بنے ہوئے ڈھانچہ سے مصالحت کر لی جائے۔ مگر اس قسم کا رویہ اپنے ایمان میں ایسا نقصان شامل کرلینا ہے جو خود ایمان ہی کو خدا کی نظر میں مشتبہ بنا دے۔

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِنْ يَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

وَلَوْ جَعَلْنَاهُ مَلَكًا لَجَعَلْنَاهُ رَجُلًا وَلَلَبَسْنَا عَلَيْهِمْ مَا يَلْبِسُونَ

📘 لوگ دنیا کو ہار جیت (تغابن) کی جگہ سمجھتے ہیں۔ کسی شخص کو یہاں کامیابی مل جائے تو وہ خوش ہوتا ہے۔ اور جو شخص یہاں ناکامی سے دو چار ہو وہ لوگوں کی نظر میں حقیر بن کر رہ جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا کی ہار بھی بے قیمت ہے اور یہاں کی جیت بھی بے قیمت۔ ہار جیت کا اصل مقام آخرت ہے۔ ہارنے والا وہ ہے جو آخرت میں ہارے اور جیتنے والا وہ ہے جو آخرت میں جیتے، اور وہاں کی ہار جیت کا معیار بالکل مختلف ہے۔ دنیا میں ہار جیت ظاہری مادیات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور آخرت کی ہار جیت خدائی اخلاقیات کی بنیاد پر ہوگی۔ اس وقت دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ یہاں سارا معاملہ بالکل بدل گیا ہے۔ جس پانے کو لوگ پانا سمجھ رہے تھے وہ در اصل کھونا تھا، اور جس کھونے کو لوگوں نے کھونا سمجھ رکھا تھا، وہی در اصل وہ چیز تھی جس کو پانا کہا جائے۔ اسی دن کی ہار ہار ہے اور اسی دن کی جیت جیت۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ

📘 ’’فضیلت‘‘ کسی کانسلی یا قومی لقب نہیں۔ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جس کا تحقّق صرف ان افراد کے لیے ہوتا ہے جو ہدایت کے مطابق اپنے کو صالح بنائیں، شرک کی تمام قسموں سے اپنے کو بچائیں اور ’’بلامعاوضہ نصیحت‘‘ کے دعوتی منصوبہ میں اپنے کو ہمہ تن شامل کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کی کتاب کو اپنا حقیقی رہنما بناتے ہیں۔ وہ اس کے ساتھ اپنے وجود کو اتنا زیادہ شامل کرلیتے ہیں کہ ان پر اس راہ کے وہ بھید کھلنے لگتے ہیں جن کو حکمت کہا جاتاہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو خدا چن لیتاہے اور ان میں سے جن کو چاہتا ہے اپنے دین کی پیغام رسانی کی توفیق دیتاہے، دور نبوت میں اللہ کے خصوصی پیغمبر کی حیثیت سے اور ختم نبوت کے بعد اللہ کے عام داعی کی حیثیت سے۔ اللہ کا انعام خواہ وہ پیغمبروں کے لیے ہو یا عام انسانوں کے لیے، تمام تر نیک عملی (احسان) کی بنیاد پر ملتاہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ دعوتِ حق کا کام صرف وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کی خاطر اتنا زیادہ یکسو اور بے نفس ہوچکے ہوں کہ وہ مدعو سے کسی قسم کی مادی توقع نہ رکھیں۔ جس شخص یا گروہ تک آپ آخرت کا پیغام پہنچا رہے ہوں اسی سے آپ اپنے دنیوی حقوق کے لیے احتجاج اور مطالبات کی مہم نهيں چلا سکتے ہیں۔ داعی کا ایسا کرنا صرف اس قیمت پر ہوگا کہ اس کی دعوت مدعو کی نظر میں مضحکہ خیز بن کر رہ جائے اور ماحول کے اندر کبھی اس کو سنجیدہ مہم کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ مکہ میں کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے۔ مگر بحیثیت ’’قوم‘‘ مکہ والوں نے آپ کا انکارکردیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مدینہ والوں کے دل آپ کی دعوت کے حق میں نرم کرديے اور وہ بحیثیت قوم آپ کے مومن بن گئے۔ حتی کہ آپ کے لیے یہ ممکن ہوگیا کہ آپ مکہ سے مدینہ جاکر وہاں اسلام کا مرکز قائم کرسکیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ مدد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل درجہ میں حاصل ہوئی۔ تاہم آپ کی امت میں اٹھنے والے داعیوں کو بھی اللہ یہ مدد دے سکتا ہے اور اپنی مصلحت کے مطابق دیتا رہا ہے۔

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ ۗ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ ۖ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِيسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا ۖ وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مکہ کے لوگوں کے سامنے آئی تو ان کے کچھ لوگوں نے بعض یہود سے پوچھا کہ تمھارا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا محمد پر واقعی خدا کا کلام نازل ہوا ہے۔ یہود نے جواب دیا ’’خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب ہے۔ کیوں کہ یہود تو خود نبیوں کو ماننے والے تھے، اور اس طرح گویا وہ اقرار کررہے تھے کہ بشر پر خدا کا کلام اترتا ہے۔ مگر جب آدمی مخالفت میں اندھا ہوجائے تو وہ مخالف کی تردید کے جوش میں کبھی یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنی مانی ہوئی باتوں کي تردید کرنے لگے۔ یہود کے اندر یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے خدا کی کتاب کو ورق ورق کردیا تھا۔ وہ خدا کی تعلیمات کے کچھ حصے کو سامنے لاتے اور بقیہ کو کتاب میں بند رکھتے۔ مثلاً وہ انعام والی آیتوں کو خوب سنتے سناتے اور ان آیتوں کو چھوڑ دیتے جن میں وہ اعمال بتائے گئے ہیں جن کے کرنے سے کسی کو مذکورہ انعام ملتاہے۔ وہ ایسی آیتوں کا خصوصی تذکرہ کرتے جن سے ان کی شور وغل کی سیاست کی تائید نکلتی ہو اور ان آیتوں کو نظر انداز کردیتے جن میں خاموش اصلاح کے احکام ديے گئے ہوں۔ وہ ایسی آیتوں کے درس میں بڑا اہتمام کرتے جن میں ان کے لیے لفظی موشگافیوں کا کمال دکھانے کا موقع ہو، مگر ان آیتوں سے سرسری گزر جاتے جن میں دین کے ابدی حقائق بیان كيے گئے ہیں۔وہ ایسی آیتوں کا خوب چرچا کرتے جن سے اپني فضیلت نکلتی ہو اور ان آیتوں سے بے توجہی برتتے ہیں جن سے ان کی ذمہ داریاں معلوم ہوتی ہیں۔ جو لوگ خدا کی کتاب کو اس طرح ’’ورق ورق‘‘ کریں ان کے اندر فطری طورپر ڈھٹائی آجاتی ہے۔ وہ غیر سنجیدہ بحثیں کرتے ہیں، متضاد بیانات دیتے ہیں۔ ان سے کسی حقیقی تعاون کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جو لوگ خدا کی کتاب کے ساتھ انصاف نہ کریں، وہ انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں کیسے انصاف کرسکتے ہیں۔ دین کی دعوت اصلاً لوگوں کو ہوشیار کرنے کی دعوت ہے۔ اس قسم کی دعوت خواہ کتنے ہی کامل انسان کی طرف سے پیش کی جائے وہ سننے والے کے دل میں اس وقت جگہ کرے گی جب کہ وہ اپنے سینہ میںایک اندیشہ ناک دل رکھتا ہو اورآخرت کے معاملہ کو ایک سنجیدہ معاملہ سمجھتا ہو۔ سننے والے میں اگر یہ ابتدائی مادہ موجود نہ ہو تو سنانے والا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

وَهَٰذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَلِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا ۚ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَهُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت مکہ کے لوگوں کے سامنے آئی تو ان کے کچھ لوگوں نے بعض یہود سے پوچھا کہ تمھارا اس بارے میں کیا خیال ہے۔ کیا محمد پر واقعی خدا کا کلام نازل ہوا ہے۔ یہود نے جواب دیا ’’خدا نے کسی بشر پر کچھ نازل نہیں کیا ہے‘‘۔ بظاہر یہ بات بڑی عجیب ہے۔ کیوں کہ یہود تو خود نبیوں کو ماننے والے تھے، اور اس طرح گویا وہ اقرار کررہے تھے کہ بشر پر خدا کا کلام اترتا ہے۔ مگر جب آدمی مخالفت میں اندھا ہوجائے تو وہ مخالف کی تردید کے جوش میں کبھی یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنی مانی ہوئی باتوں کي تردید کرنے لگے۔ یہود کے اندر یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے خدا کی کتاب کو ورق ورق کردیا تھا۔ وہ خدا کی تعلیمات کے کچھ حصے کو سامنے لاتے اور بقیہ کو کتاب میں بند رکھتے۔ مثلاً وہ انعام والی آیتوں کو خوب سنتے سناتے اور ان آیتوں کو چھوڑ دیتے جن میں وہ اعمال بتائے گئے ہیں جن کے کرنے سے کسی کو مذکورہ انعام ملتاہے۔ وہ ایسی آیتوں کا خصوصی تذکرہ کرتے جن سے ان کی شور وغل کی سیاست کی تائید نکلتی ہو اور ان آیتوں کو نظر انداز کردیتے جن میں خاموش اصلاح کے احکام ديے گئے ہوں۔ وہ ایسی آیتوں کے درس میں بڑا اہتمام کرتے جن میں ان کے لیے لفظی موشگافیوں کا کمال دکھانے کا موقع ہو، مگر ان آیتوں سے سرسری گزر جاتے جن میں دین کے ابدی حقائق بیان كيے گئے ہیں۔وہ ایسی آیتوں کا خوب چرچا کرتے جن سے اپني فضیلت نکلتی ہو اور ان آیتوں سے بے توجہی برتتے ہیں جن سے ان کی ذمہ داریاں معلوم ہوتی ہیں۔ جو لوگ خدا کی کتاب کو اس طرح ’’ورق ورق‘‘ کریں ان کے اندر فطری طورپر ڈھٹائی آجاتی ہے۔ وہ غیر سنجیدہ بحثیں کرتے ہیں، متضاد بیانات دیتے ہیں۔ ان سے کسی حقیقی تعاون کی امید نہیں کی جاسکتی۔ جو لوگ خدا کی کتاب کے ساتھ انصاف نہ کریں، وہ انسانوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں کیسے انصاف کرسکتے ہیں۔ دین کی دعوت اصلاً لوگوں کو ہوشیار کرنے کی دعوت ہے۔ اس قسم کی دعوت خواہ کتنے ہی کامل انسان کی طرف سے پیش کی جائے وہ سننے والے کے دل میں اس وقت جگہ کرے گی جب کہ وہ اپنے سینہ میںایک اندیشہ ناک دل رکھتا ہو اورآخرت کے معاملہ کو ایک سنجیدہ معاملہ سمجھتا ہو۔ سننے والے میں اگر یہ ابتدائی مادہ موجود نہ ہو تو سنانے والا اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَنْ قَالَ سَأُنْزِلُ مِثْلَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ

📘 اللہ جب اپنے کسی بندے کو اپنی پکار بلند کرنے کے لیے کھڑا کرتا ہے تو اسی کے ساتھ اس کو خصوصی توفیق بھی عطا کرتا ہے۔ اس کے کردار میں خوفِ آخرت کی جھلک ہوتی ہے۔ اس کی باتوں میں خدائی استدلال کی طاقت نظر آتی ہے ۔ بے پناہ مخالفتوں کے باوجود وه اپنے پیغام رسانی کے عمل کو اعلیٰ ترین شکل میں جاری رکھنے میں کامیاب ہوتاہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی زمین پر خدا کی نشانی ہوتا ہے۔ مگر جن کی نگاہیں دنیوی عظمت کی چیزوں میں گم ہوں وہ آخرت کے داعی کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتے۔ حتی کہ ان کے مادی پیمانہ میں ان کی اپنی ذات برتر اور اللہ کے داعی کی ذات کم تر دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیز ان کو تکبر میں مبتلا کردیتی ہے اور جو لوگ تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائیں ان سے کوئی بھی نامعقول رویہ مستبعد نہیں رہتا۔ حتی کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ وہ بھی ویسا ہی کلام تخلیق کرسکتے ہیں جیسا کلام خدا کی طرف سے کسی بندہ پر اترتا ہے — وہ خدا کو طلسماتی نشانیوں ميں دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ بشری نشانیوں میں ظاہر ہونے والے خدا کو پہچان نہیں پاتے۔ یہ تکبر جو کسی آدمی کے اندر پیداہوتا ہے وہ اس دنیوی حیثیت اور مادی سامان کی بنا پر ہوتا ہے جو اس کو دنیا میں ملا ہوا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ اسے حاصل ہے وہ محض آزمائش کے لیے اور متعین مدت تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی اچانک یہ تمام چیزیں چھن جائیں گی۔ اس کے بعد ہر آدمی اپنی زندگی کے اس مرحلہ میں پہنچ جاتاہے، جہاں نہ اس کی دولت ہوگی اور نہ اس کی حیثیت، جہاں نہ اس کے ساتھي ہوں گے اور نہ اس کے سفارشی۔ وہ ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ دنیا میں اس کو جن چیزوں پر ناز تھا ان میں سے کوئی چیز بھی اس دن اس کو خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے موجود نہ ہوگی۔ دنیا میں ہر آدمی الفاظ کے طلسم میں جیتا ہے۔ ہر آدمی اپنے حسبِ حال ایسے الفاظ تلاش کرلیتا ہے جس میں اس کا وجود بالکل برحق دکھائی دے، اس کا راستہ سیدھا منزل کی طرف جاتاہوا نظر آئے۔ مگر آخرت کا انقلاب جب حقیقتوں کے پردے پھاڑ دے گا تو لوگوں کے یہ الفاظ اس قدر بے معنی ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَدْ تَقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَا كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ

📘 اللہ جب اپنے کسی بندے کو اپنی پکار بلند کرنے کے لیے کھڑا کرتا ہے تو اسی کے ساتھ اس کو خصوصی توفیق بھی عطا کرتا ہے۔ اس کے کردار میں خوفِ آخرت کی جھلک ہوتی ہے۔ اس کی باتوں میں خدائی استدلال کی طاقت نظر آتی ہے ۔ بے پناہ مخالفتوں کے باوجود وه اپنے پیغام رسانی کے عمل کو اعلیٰ ترین شکل میں جاری رکھنے میں کامیاب ہوتاہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی زمین پر خدا کی نشانی ہوتا ہے۔ مگر جن کی نگاہیں دنیوی عظمت کی چیزوں میں گم ہوں وہ آخرت کے داعی کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتے۔ حتی کہ ان کے مادی پیمانہ میں ان کی اپنی ذات برتر اور اللہ کے داعی کی ذات کم تر دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیز ان کو تکبر میں مبتلا کردیتی ہے اور جو لوگ تکبر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائیں ان سے کوئی بھی نامعقول رویہ مستبعد نہیں رہتا۔ حتی کہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتے ہیں کہ وہ بھی ویسا ہی کلام تخلیق کرسکتے ہیں جیسا کلام خدا کی طرف سے کسی بندہ پر اترتا ہے — وہ خدا کو طلسماتی نشانیوں ميں دیکھنا چاہتے ہیں اس لیے وہ بشری نشانیوں میں ظاہر ہونے والے خدا کو پہچان نہیں پاتے۔ یہ تکبر جو کسی آدمی کے اندر پیداہوتا ہے وہ اس دنیوی حیثیت اور مادی سامان کی بنا پر ہوتا ہے جو اس کو دنیا میں ملا ہوا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ دنیا میں جو کچھ اسے حاصل ہے وہ محض آزمائش کے لیے اور متعین مدت تک کے لیے ہے۔ موت کا وقت آتے ہی اچانک یہ تمام چیزیں چھن جائیں گی۔ اس کے بعد ہر آدمی اپنی زندگی کے اس مرحلہ میں پہنچ جاتاہے، جہاں نہ اس کی دولت ہوگی اور نہ اس کی حیثیت، جہاں نہ اس کے ساتھي ہوں گے اور نہ اس کے سفارشی۔ وہ ہوگا اور اس کا خدا ہوگا۔ دنیا میں اس کو جن چیزوں پر ناز تھا ان میں سے کوئی چیز بھی اس دن اس کو خدا کی پکڑ سے بچانے کے لیے موجود نہ ہوگی۔ دنیا میں ہر آدمی الفاظ کے طلسم میں جیتا ہے۔ ہر آدمی اپنے حسبِ حال ایسے الفاظ تلاش کرلیتا ہے جس میں اس کا وجود بالکل برحق دکھائی دے، اس کا راستہ سیدھا منزل کی طرف جاتاہوا نظر آئے۔ مگر آخرت کا انقلاب جب حقیقتوں کے پردے پھاڑ دے گا تو لوگوں کے یہ الفاظ اس قدر بے معنی ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

۞ إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

📘 انسان کو جب ایک موٹر کار یا اور کوئی چیز بنانا ہوتا ہے تو وہ اس کے ہر جزء کو الگ الگ بناتا ہے۔ اور پھر اس کے اجزاء جوڑ کر مطلوبہ چیز تیار کرتاہے، مگر خدا جب ایک درخت اگاتا ہے یا ایک انسان پیدا کرتاہے تو اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ وہ کسی چیز کو اس کے پورے مجموعہ کے ساتھ بیک وقت برآمد کردیتا ہے۔ خدائی کارخانہ میں پورا کا پورا درخت یا پورا کا پورا انسان ایک ہی بیج يا ايك ہی بوند سے بتدریج نکل کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ انتہائی انوکھی تکنیک ہے جس پر کسی بھی انسان کو قابو نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں انسان سے برتر ایک ہستی موجود ہے جس کا منصوبہ تمام منصوبوں سے بلند ہے۔ سورج کی جسامت زمین سے بارہ لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اور زمین چاند سے چوگنا زیادہ بڑی ہے۔ یہ سب اجرام مسلسل حركت ميں هيں۔ چاند زمين سے تقریباً ڈھائي لاكھ ميل دور ره كر زمين كے گرد چكر لگا رها هے۔ اور زمين سورج سے تقريباً ساڑھے نو کروڑ میل کے فاصلے پر رہتے ہوئے سورج کے گرد دو طریقہ سے گھوم رہی ہے، ایک اپنے محور پر اور دوسرے سورج کے مدار پر۔ اسی طرح ستاروں کی گردش کا معاملہ ہےجو دہشت ناک حد تک بعید فاصلوں پر حد درجہ باقاعدگی کے ساتھ متحرک ہیں۔ اسی کائناتی تنظیم سے دن اور رات پیداہوتے هيں۔ اسی سے اوقات کا نقشہ مقرر ہوتا ہے۔ اسی سے خشکی اور تری میں انسان کے لیے اپني زندگی کی ترتیب قائم کرنا ممکن ہوتاہے۔ یہ اتنا بڑا نظام اتنی صحت کے ساتھ چل رہا ہے کہ ہزاروں سال میں بھی اس کے اندر کوئی فرق نہیں آتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسی ہستی ہے جس کی طاقتیں لامحدود حد تک زیادہ ہیں۔ خدا کی یہ نشانیاں بہت بڑے پیمانہ پر بتا رہی ہیں کہ اس کارخانہ کا بنانے والا بہت بڑے علم والا ہے۔ کوئی بے علم ہستی اتنا بڑا ڈھانچہ قائم نہیں کرسکتی۔ وہ بہت غلبہ والا ہے، اس کے بغیر اتنے بڑے کارخانہ کا اس طرح چلنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی انتہائی حد تک کامل ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اتنی بڑی کائنات میں اس قدر معنویت اور ہم آہنگی کا وجود ناممکن ہوجائے۔ خدا کی دنیا خدا کے دلائل سے بھری ہوئی ہے۔ مگر دلیل ایک نظری معقولیت کا نام ہے، نہ کہ کسی ہتھوڑے کا۔ اس لیے دلیل کو ماننا کسی کے لیے صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہ فی الواقع سنجیدہ ہو، وہ شعوری طورپر اس کے لیے تیار ہو کہ وہ دلیل کو مان لے گا، خواہ وه اس کی موافقت میں جارہی ہو یا اس کے خلاف۔

فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّيْلَ سَكَنًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

📘 انسان کو جب ایک موٹر کار یا اور کوئی چیز بنانا ہوتا ہے تو وہ اس کے ہر جزء کو الگ الگ بناتا ہے۔ اور پھر اس کے اجزاء جوڑ کر مطلوبہ چیز تیار کرتاہے، مگر خدا جب ایک درخت اگاتا ہے یا ایک انسان پیدا کرتاہے تو اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ وہ کسی چیز کو اس کے پورے مجموعہ کے ساتھ بیک وقت برآمد کردیتا ہے۔ خدائی کارخانہ میں پورا کا پورا درخت یا پورا کا پورا انسان ایک ہی بیج يا ايك ہی بوند سے بتدریج نکل کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ انتہائی انوکھی تکنیک ہے جس پر کسی بھی انسان کو قابو نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں انسان سے برتر ایک ہستی موجود ہے جس کا منصوبہ تمام منصوبوں سے بلند ہے۔ سورج کی جسامت زمین سے بارہ لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اور زمین چاند سے چوگنا زیادہ بڑی ہے۔ یہ سب اجرام مسلسل حركت ميں هيں۔ چاند زمين سے تقریباً ڈھائي لاكھ ميل دور ره كر زمين كے گرد چكر لگا رها هے۔ اور زمين سورج سے تقريباً ساڑھے نو کروڑ میل کے فاصلے پر رہتے ہوئے سورج کے گرد دو طریقہ سے گھوم رہی ہے، ایک اپنے محور پر اور دوسرے سورج کے مدار پر۔ اسی طرح ستاروں کی گردش کا معاملہ ہےجو دہشت ناک حد تک بعید فاصلوں پر حد درجہ باقاعدگی کے ساتھ متحرک ہیں۔ اسی کائناتی تنظیم سے دن اور رات پیداہوتے هيں۔ اسی سے اوقات کا نقشہ مقرر ہوتا ہے۔ اسی سے خشکی اور تری میں انسان کے لیے اپني زندگی کی ترتیب قائم کرنا ممکن ہوتاہے۔ یہ اتنا بڑا نظام اتنی صحت کے ساتھ چل رہا ہے کہ ہزاروں سال میں بھی اس کے اندر کوئی فرق نہیں آتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسی ہستی ہے جس کی طاقتیں لامحدود حد تک زیادہ ہیں۔ خدا کی یہ نشانیاں بہت بڑے پیمانہ پر بتا رہی ہیں کہ اس کارخانہ کا بنانے والا بہت بڑے علم والا ہے۔ کوئی بے علم ہستی اتنا بڑا ڈھانچہ قائم نہیں کرسکتی۔ وہ بہت غلبہ والا ہے، اس کے بغیر اتنے بڑے کارخانہ کا اس طرح چلنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی انتہائی حد تک کامل ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اتنی بڑی کائنات میں اس قدر معنویت اور ہم آہنگی کا وجود ناممکن ہوجائے۔ خدا کی دنیا خدا کے دلائل سے بھری ہوئی ہے۔ مگر دلیل ایک نظری معقولیت کا نام ہے، نہ کہ کسی ہتھوڑے کا۔ اس لیے دلیل کو ماننا کسی کے لیے صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہ فی الواقع سنجیدہ ہو، وہ شعوری طورپر اس کے لیے تیار ہو کہ وہ دلیل کو مان لے گا، خواہ وه اس کی موافقت میں جارہی ہو یا اس کے خلاف۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 انسان کو جب ایک موٹر کار یا اور کوئی چیز بنانا ہوتا ہے تو وہ اس کے ہر جزء کو الگ الگ بناتا ہے۔ اور پھر اس کے اجزاء جوڑ کر مطلوبہ چیز تیار کرتاہے، مگر خدا جب ایک درخت اگاتا ہے یا ایک انسان پیدا کرتاہے تو اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ وہ کسی چیز کو اس کے پورے مجموعہ کے ساتھ بیک وقت برآمد کردیتا ہے۔ خدائی کارخانہ میں پورا کا پورا درخت یا پورا کا پورا انسان ایک ہی بیج يا ايك ہی بوند سے بتدریج نکل کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ انتہائی انوکھی تکنیک ہے جس پر کسی بھی انسان کو قابو نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں انسان سے برتر ایک ہستی موجود ہے جس کا منصوبہ تمام منصوبوں سے بلند ہے۔ سورج کی جسامت زمین سے بارہ لاکھ گنا زیادہ ہے۔ اور زمین چاند سے چوگنا زیادہ بڑی ہے۔ یہ سب اجرام مسلسل حركت ميں هيں۔ چاند زمين سے تقریباً ڈھائي لاكھ ميل دور ره كر زمين كے گرد چكر لگا رها هے۔ اور زمين سورج سے تقريباً ساڑھے نو کروڑ میل کے فاصلے پر رہتے ہوئے سورج کے گرد دو طریقہ سے گھوم رہی ہے، ایک اپنے محور پر اور دوسرے سورج کے مدار پر۔ اسی طرح ستاروں کی گردش کا معاملہ ہےجو دہشت ناک حد تک بعید فاصلوں پر حد درجہ باقاعدگی کے ساتھ متحرک ہیں۔ اسی کائناتی تنظیم سے دن اور رات پیداہوتے هيں۔ اسی سے اوقات کا نقشہ مقرر ہوتا ہے۔ اسی سے خشکی اور تری میں انسان کے لیے اپني زندگی کی ترتیب قائم کرنا ممکن ہوتاہے۔ یہ اتنا بڑا نظام اتنی صحت کے ساتھ چل رہا ہے کہ ہزاروں سال میں بھی اس کے اندر کوئی فرق نہیں آتا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں ایک ایسی ہستی ہے جس کی طاقتیں لامحدود حد تک زیادہ ہیں۔ خدا کی یہ نشانیاں بہت بڑے پیمانہ پر بتا رہی ہیں کہ اس کارخانہ کا بنانے والا بہت بڑے علم والا ہے۔ کوئی بے علم ہستی اتنا بڑا ڈھانچہ قائم نہیں کرسکتی۔ وہ بہت غلبہ والا ہے، اس کے بغیر اتنے بڑے کارخانہ کا اس طرح چلنا ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کی منصوبہ بندی انتہائی حد تک کامل ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اتنی بڑی کائنات میں اس قدر معنویت اور ہم آہنگی کا وجود ناممکن ہوجائے۔ خدا کی دنیا خدا کے دلائل سے بھری ہوئی ہے۔ مگر دلیل ایک نظری معقولیت کا نام ہے، نہ کہ کسی ہتھوڑے کا۔ اس لیے دلیل کو ماننا کسی کے لیے صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ وہ فی الواقع سنجیدہ ہو، وہ شعوری طورپر اس کے لیے تیار ہو کہ وہ دلیل کو مان لے گا، خواہ وه اس کی موافقت میں جارہی ہو یا اس کے خلاف۔

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ

📘 انسانی کارخانے اس پر قادر نہیں کہ وہ ایک ایسی مشین بنادیں کہ اس کے بطن سے اسی قسم کی بے شمار مشینیں خود بخود نکلتی چلی جائیں۔ ہمارے کارخانوں کو ہر مشین الگ الگ بنانی پڑتی ہے۔ مگر خدا کے کارخانہ میں یہ واقعہ ہر روز ہورہا ہے۔ درخت کا ایک بیج بودیا جاتاہے۔ پھر اس بیج سے بے شمار درخت نکلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ایک مرد اور ایک عورت سے شروع ہو کر کھرب ہا کھرب انسان پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جس خدانے کائنات کو پیدا کیا ہے اس کی قدرت بے حد وسیع ہے۔ وہ اس نادر تخلیق پر قادر ہے کہ ایک ابتدائی چیز وجود میں لائے اور پھر اس کے اندر سے بے حساب گنا زیادہ بڑی بڑی چیزیں مسلسل نکلتی چلی جائیں۔ اسی طرح خدا موجودہ دنیا سے ایک زیادہ شاندار اور زیادہ معیاری دنیا نکال سکتا ہے۔ آخرت کا عقیدہ کوئی دور کا عقیدہ نہیں بلکہ جس امکان کو ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں اسی امکان کو مستقبل کے ایک واقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے۔ مٹی بظاہر ایک مُردہ اور جامد چیز ہے۔ پھر اس کے اوپر بارش ہوتی ہے۔ پانی پاتے ہی مٹی کے اندر سے ایک نئی سر سبز دنیا نکل آتی ہے۔ اس کے اندر سے طرح طرح کی فصلیں اور قسم قسم کے پھل دار درخت وجود میںآجاتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی موجودہ دنیا کے بعد آنے والی دنیا کی ایک تمثیل ہے۔ مٹی پر پانی پڑنے سے زمین کے اوپر رنگ اور خوشبو اور ذائقہ کا ایک سر سبز وشاداب چمن کھل اٹھنا اُس امکان کو بتاتا ہے جو دنیا کے خالق نے یہاں رکھ دیا ہے۔ آج کی دنیا میں انسان جو نیک عمل کرتاہے وہ اسی قسم کا ایک امکان ہے۔ جب خداکی رحمتوں کی بارش ہوگی تو یہ امکان ہرا بھرا ہو کر آخرت کی لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں تبدیل ہوجائے گا۔ انسان اولاً ماں کے بطن کے سپرد ہوتاہے پھر موجودہ دنیا میں آتاہے۔ قبربھی گویا اسی قسم کا ایک ’’بطن‘‘ ہے۔ آدمی قبر کے سپرد کیاجاتاہے اور اس کے بعد وہ اگلی دنیامیں آنکھ کھولتا ہے تاکہ اپنے عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل کردیا جائے — انسان سے غیب کی جس دنیا کو ماننے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس کی جھلکیاں اور اس کے دلائل موجودہ محسوس کائنات میں پوری طرح موجود ہیں۔ مگر مانتا وہی ہے جو پہلے سے ماننے کے لیے تیار ہو۔ ’’ایمان‘‘ کی راہ میں آدمی جب آدھا سفر طے کرچکا ہوتا ہے اس کے بعد یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایمان کی دعوت اس کے ذہن کا جزء بنے اور وہ اس کو قبول کرلے۔ جو شخص ایمان کے الٹے رخ پر سفر کررہا ہو اس کو ایمان کی دعوت کبھی نفع نہیں پہنچا سکتی۔

وَهُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ فَأَخْرَجْنَا مِنْهُ خَضِرًا نُخْرِجُ مِنْهُ حَبًّا مُتَرَاكِبًا وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِهَا قِنْوَانٌ دَانِيَةٌ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنَابٍ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُشْتَبِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ۗ انْظُرُوا إِلَىٰ ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَيَنْعِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكُمْ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

📘 انسانی کارخانے اس پر قادر نہیں کہ وہ ایک ایسی مشین بنادیں کہ اس کے بطن سے اسی قسم کی بے شمار مشینیں خود بخود نکلتی چلی جائیں۔ ہمارے کارخانوں کو ہر مشین الگ الگ بنانی پڑتی ہے۔ مگر خدا کے کارخانہ میں یہ واقعہ ہر روز ہورہا ہے۔ درخت کا ایک بیج بودیا جاتاہے۔ پھر اس بیج سے بے شمار درخت نکلتے چلے جاتے ہیں۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ایک مرد اور ایک عورت سے شروع ہو کر کھرب ہا کھرب انسان پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ یہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ جس خدانے کائنات کو پیدا کیا ہے اس کی قدرت بے حد وسیع ہے۔ وہ اس نادر تخلیق پر قادر ہے کہ ایک ابتدائی چیز وجود میں لائے اور پھر اس کے اندر سے بے حساب گنا زیادہ بڑی بڑی چیزیں مسلسل نکلتی چلی جائیں۔ اسی طرح خدا موجودہ دنیا سے ایک زیادہ شاندار اور زیادہ معیاری دنیا نکال سکتا ہے۔ آخرت کا عقیدہ کوئی دور کا عقیدہ نہیں بلکہ جس امکان کو ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں اسی امکان کو مستقبل کے ایک واقعہ کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے۔ مٹی بظاہر ایک مُردہ اور جامد چیز ہے۔ پھر اس کے اوپر بارش ہوتی ہے۔ پانی پاتے ہی مٹی کے اندر سے ایک نئی سر سبز دنیا نکل آتی ہے۔ اس کے اندر سے طرح طرح کی فصلیں اور قسم قسم کے پھل دار درخت وجود میںآجاتے ہیں۔ یہ واقعہ بھی موجودہ دنیا کے بعد آنے والی دنیا کی ایک تمثیل ہے۔ مٹی پر پانی پڑنے سے زمین کے اوپر رنگ اور خوشبو اور ذائقہ کا ایک سر سبز وشاداب چمن کھل اٹھنا اُس امکان کو بتاتا ہے جو دنیا کے خالق نے یہاں رکھ دیا ہے۔ آج کی دنیا میں انسان جو نیک عمل کرتاہے وہ اسی قسم کا ایک امکان ہے۔ جب خداکی رحمتوں کی بارش ہوگی تو یہ امکان ہرا بھرا ہو کر آخرت کی لہلہاتی ہوئی فصل کی صورت میں تبدیل ہوجائے گا۔ انسان اولاً ماں کے بطن کے سپرد ہوتاہے پھر موجودہ دنیا میں آتاہے۔ قبربھی گویا اسی قسم کا ایک ’’بطن‘‘ ہے۔ آدمی قبر کے سپرد کیاجاتاہے اور اس کے بعد وہ اگلی دنیامیں آنکھ کھولتا ہے تاکہ اپنے عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل کردیا جائے — انسان سے غیب کی جس دنیا کو ماننے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس کی جھلکیاں اور اس کے دلائل موجودہ محسوس کائنات میں پوری طرح موجود ہیں۔ مگر مانتا وہی ہے جو پہلے سے ماننے کے لیے تیار ہو۔ ’’ایمان‘‘ کی راہ میں آدمی جب آدھا سفر طے کرچکا ہوتا ہے اس کے بعد یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایمان کی دعوت اس کے ذہن کا جزء بنے اور وہ اس کو قبول کرلے۔ جو شخص ایمان کے الٹے رخ پر سفر کررہا ہو اس کو ایمان کی دعوت کبھی نفع نہیں پہنچا سکتی۔