slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة المائدة

(Al-Maidah) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ

📘 آیت 1 ‘ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ ط۔عقدہ گرہ کو کہتے ہیں جس میں مضبوطی سے بندھنے کا مفہوم شامل ہے۔ لہٰذا عُقُود سے مراد وہ معاہدے ہیں جو باقاعدہ طے پاگئے ہوں۔ معاہدوں اور قول وقرار کی اہمیت یوں سمجھ لیجیے کہ ہماری پوری کی پوری سماجی و معاشرتی زندگی قائم ہی معاہدوں پر ہے۔ معاشرتی زندگی کا بنیادی یونٹ ایک خاند ان ہے ‘ جس کی بنیاد ایک معاہدے پر رکھی جاتی ہے۔ شادی کیا ہے ؟ مرد اور عورت کے درمیان ایک ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے سے انسانی معاشرے کی بلند وبالا عمارت کی بنیادی اینٹ رکھی جاتی ہے۔ اس معاہدے کے مطابق فریقین کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ فرائض۔ ایک طرف بیوی کے حقوق اور اس کے فرائض ہیں اور دوسری طرف شوہر کے حقوق اور اس کے فرائض۔ بڑے بڑے کاروبار بھی معاہدوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ آجر اور مستاجر کا تعلق بھی ایک معاہدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح کاروبار حکومت ‘ حکومتی اداروں میں عہدے اور مناصب ‘ چھوٹے بڑے اہلکاروں کی ذمہ ‘ داریاں ‘ ان کی مراعات اور اختیارات کا معاملہ ہے۔ گویا تمام معاشرتی ‘ معاشی اور سیاسی معاملات قرآن حکیم کے ایک حکم پر عمل کرنے سے درست سمت پر چل سکتے ہیں ‘ اور وہ حکم ہے اَوْفُوْ بالْعُقُوْدِ۔اُحِلَّتْ لَکُمْ بَہِیْمَۃُ الْاَنْعَام الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ جن کا حکم آگے چل کر تمہیں بتایا جائے گا ‘ یعنی خنزیر ‘ مردار وغیرہ حرام ہیں۔ باقی جو مویشی قسم کے جانور ہیں ‘ وحوش نہیں مثلاً شیر ‘ چیتا وغیرہ وحشی ہیں وہ حلال ہیں ‘ جیسے ہرن ‘ نیل گائے اور اس طرح کے جانور جو عام طور پر گوشت خور نہیں ہیں بلکہ سبزے پر ان کا گزارا ہے ‘ ان کا گوشت تمہارے لیے حلال کردیا گیا ہے۔ البتہ استثنائی صورتوں کی تفصیل بعد میں تمہیں بتادی جائے گی۔ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ط۔یعنی اگر تم نے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا ہوا ہے تو تم اس حالت میں ان حلال جانوروں کا بھی شکار نہیں کرسکتے۔ 33اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ یہ اللہ کا اختیار ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے ‘ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

📘 آیت 8 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز یہاں پر سورة النساء کی آیت 135 کا حوالہ ضروری ہے۔ سورة النساء کی آیت 135 اور زیر مطالعہ آیت المائدۃ : 8 میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے ‘ فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب عکسی ہے دونوں سورتوں کی نسبت زوجیت بھی مدّ نظر رہے۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ اور یہاں الفاظ ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز۔ ایک حقیقت تو میں نے اس وقت بیان کردی تھی کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ گویا اللہ اور قسط مترادف ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : قسط کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور دوسری جگہ فرمایا : اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ کے گواہ بن جاؤ اور دوسری جگہ قسط کے گواہ بن جاؤ فرمایا۔ تو گویا اللہ اور قسط ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر آئے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ اس آیت سے ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ معاشرے میں عدل قائم کرنے کا حکم ہے۔ انسان فطرتاً انصاف پسند ہے۔ انصاف عام انسان کی نفسیات اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ آج پوری نوع انسانی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انصاف ہی کے لیے انسان نے بادشاہت سے نجات حاصل کی اور جمہوریت کو اپنایا تاکہ انسان پر انسان کی حاکمیت ختم ہو ‘ انصاف میسر آئے ‘ مگر جمہوریت کی منزل سراب ثابت ہوئی اور ایک دفعہ انسان پھر سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی لعنت میں گرفتار ہوگیا۔ اب سرمایہ دار اس کے آقا اور ڈکٹیٹربن گئے۔ اس لعنت سے نجات کے لیے اس نے کمیونزم Communism کا دورازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی متعلقہ پارٹی کی آمریت One Party Dictatorship اس کی منتظر تھی۔ گویا رست ازیک بند تا افتاد دربندے دگر یعنی ایک مصیبت سے نجات پائی تھی کہ دوسری آفت میں گرفتار ہوگئے۔ اب انسان عدل اور انصاف حاصل کرنے کے لیے کہاں جائے ؟ کیا کرے ؟ یہاں پر ایک روشنی تو انسان کو اپنی فطرت کے اندر سے ملتی ہے کہ اس کی فطرت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور اپنی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے وہ عدل قائم کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے ‘ مگر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے اور وہ یہ ہے کہ العدل اللہ کی ذات ہے جس کا دیا ہوا نظام ہی عادلانہ نظام ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں ‘ اس کے وفادار ہیں ‘ لہٰذا اس کے نظام کو قائم کرنا ہمارے ذمے ہے ‘ ہم پر فرض ہے۔ چناچہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز میں اسی بلند تر منزل کا ذکر ہے۔ یہ صرف فطرت انسانی ہی کا تقاضا نہیں بلکہ تمہاری عبدیت کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کے رشتے کا تقاضا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ‘ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ‘ جو بھی اسباب و ذرائع میسر ہوں ان سب کو جمع کرکے کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے ! یعنی اللہ کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس دین میں جو تصور ہے عدل ‘ انصاف اور قسط کا اس عدل و انصاف اور قسط کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ یہ ہے اس حکم کا تقاضا۔ اب دیکھئے ‘ وہاں سورۃ النساء آیت 135 میں کیا تھا : اے ایمان والو ! انصاف کے علمبردار اور اللہ واسطے کے گواہ بن جاؤ۔ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اگرچہ اس کی تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔انصاف سے روکنے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل مثبت تعلق یعنی محبت ہے۔ اپنی ذات سے محبت ‘ والدین اور رشتہ داروں وغیرہ کی محبت انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ میں اپنے خلاف کیسے فتویٰ دے دوں ؟ اپنے ہی والدین کے خلاف کیونکر فیصلہ سنا دوں ؟ سچی گواہی دے کر اپنے عزیز رشتہ دارکو کیسے پھانسی چڑھا دوں ؟ لہٰذا وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ۔۔ فرما کر اس نوعیت کی تمام عصبیتوں کی جڑکاٹ دی گئی کہ بات اگر حق کی ہے ‘ انصاف کی ہے تو پھر خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جا رہی ہو ‘ تمہارے والدین پر ہی اس کی زد کیوں نہ پڑ رہی ہو ‘ تمہارے عزیز رشتہ دار ہی اس کی کاٹ کے شکار کیوں نہ ہو رہے ہوں ‘ اس کا اظہار بغیر کسی مصلحت کے ڈنکے کی چوٹ پر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا عامل منفی تعلق ہے ‘ یعنی کسی فرد یا گروہ کی دشمنی ‘ جس کی وجہ سے انسان حق بات کہنے سے پہلو تہی کرجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بات تو حق کی ہے مگر ہے تو وہ میرا دشمن ‘ لہٰذا اپنے دشمن کے حق میں آخر کیسے فیصلہ دے دوں ؟ آیت زیر نظر میں اس عامل کو بیان کرتے ہوئے دشمنی کی بنا پر بھی کتمانِ حق سے منع کردیا گیا :وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ rّ تمہارا کوئی عمل اور کوئی قول اس کے علم سے خارج نہیں ‘ لہٰذا ہر وقت چوکس رہو ‘ چوکنے رہو۔ آیت زیر نظر اور سورة النساء کی آیت 135 کے معانی و مفہوم کا باہمی ربط اور الفاظ کی عکسی اور reciprocal ترتیب کا حسن لائقِ توجہ ہے۔

قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 آیت 100 قُلْ لاَّ یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَالطَّیِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ ج انسان تو چاہتا ہے کہ اس کے پاس ہر شے کی بہتات ہو ‘ لیکن ناجائز اور حرام طریقے سے کمایا ہوا مال اگرچہ کثرت سے جمع ہوگیا ہو مگر ہے تو خبیث اور ناپاک ہی۔ بیشک اس کی چکاچوند تمہاری آنکھوں کو خیرہ کر رہی ہو مگر اس میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں ہے۔ بقول علّامہ اقبالؔ : ؂ نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

📘 آیت 101 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَسْءَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ ج rُیہ ایک خاص قسم کی مذہبی ذہنیت کا تذکرہ ہے۔ بعض لوگ بلا ضرورت ہر بات کو کھودنے ‘ کریدنے اور بال کی کھال اتارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اگر کسی چیز کے بارے میں اللہ ‘ تعالیٰ نے خود خاموشی اختیار فرمائی ہے تو اس بارے میں خواہ مخواہ سوال کرنا اپنی ذمہ داری کو بڑھانے والی بات ہے۔ چناچہ حج کے بارے میں جب سورة آل عمران آیت 97 میں حکم نازل ہوا تو ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ ﷺ نے سوال سن لیا لیکن رُخِ مبارک دوسری طرف کرلیا۔ اب وہ صاحب ادھر تشریف لے آئے اور پھر عرض کیا ‘ حضور کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ حضور ﷺ نے پھر اعراض فرمایا۔ جب انہوں نے یہی سوال تیسری مرتبہ کیا تو پھر آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ دیکھو اگر میں ہاں کہہ دوں تو تم لوگوں پر قیامت تک کے لیے ہر سال حج فرض ہوجائے گا۔ جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے احتمال رکھا ہے اس میں تمہاری بہتری ہے۔ جو شخص ہر سال کرسکتا ہو وہ ہر سال کرلے ‘ لیکن فرضیت کے ساتھ ہر سال کی قید اللہ نے نہیں لگائی ہے۔ بےجا سوال کر کے تم اپنے لیے تنگی پیدا نہ کرو۔ جیسے گائے کے معاملے میں بنی اسرائیل نے کیا تھا کہ اس کا رنگ کیساہو ؟ اس کی عمر کیا ہو ؟ اور کیسی گائے ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ‘ جتنے سوالات کرتے گئے اتنی ہی شرائط لاگو ہوتی گئیں۔ اس نوعیت کے سارے سوال اسی ضمن میں آتے ہیں۔وَاِنْ تَسْءَلُوْا عَنْہَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَلَکُمْ ط اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت کئی چیزوں کو پردے میں رکھا ہے ‘ کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان کو ظاہر کرنے میں تمہارے لیے تنگی ہوجائے گی ‘ بوجھ زیادہ ہوجائے گا ‘ یہ تم پر گراں گزریں گی۔ لیکن اگر سوال کرو گے تو پھر ان کو ظاہر کردیا جائے گا۔ عَفَا اللّٰہُ عَنْہَاط واللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ بعض چیزوں کے بارے میں جو اللہ نے تم پر نرمی کی ہے اور تمہیں تنگی سے بچایا ہے ‘ وہ اس لیے ہے کہ وہ غفور اور حلیم ہے۔ یہ کسی نسیان ‘ بھول یا غلطی کی وجہ سے نہیں ہوا معاذ اللہ !

قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ

📘 آیت 102 قَدْ سَاَلَہَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِہَا کٰفِرِیْنَ اب یہاں ان چار چیزوں کا ذکر آ رہا ہے جو ان کے ہاں خواہ مخواہ بہت زیادہ مقدس ہوگئی تھیں۔ یہ گویا اللہ تعالیٰ کے ان چار شعائر کے مقابلے کی چار چیزیں ہیں جن کا ذکر پیچھے آیت 97 میں ہوا ہے : جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَآءِدَ ط وہاں ان چار چیزوں کی توثیق کی گئی تھی کہ وہ واقعتاً اللہ کی شریعت کے اجزاء ہیں ‘ ان کا احترام اور ان کی حرمت کو ملحوظ رکھنا اہل ایمان پر لازم ہے۔ لیکن یہاں توجہ دلائی جا رہی ہے کہ کچھ چیزیں تمہارے ہاں ایسی رائج ہیں جو دور جاہلیت کے مشرکانہ اوہام کی یادگاریں ہیں۔ چناچہ فرمایا :

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

📘 آیت 103 مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْم بَحِیْرَۃٍ وَّلاَ سَآءِبَۃٍ وَّلاَ وَصِیْلَۃٍ وَّلاَحَامٍ ان چیزوں کے تقدس کی اللہ کے طرف سے کوئی سند نہیں۔ بحیرہ ‘ سائبہ ‘ وصیلہ اور حام کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ‘ لیکن جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب رض نے ان الفاظ کی جو تفصیل بیان کی ہے ‘ وہ صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن میں وارد ہوئی ہے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب نے بھی اسے اپنے حواشی میں نقل کیا ہے۔ بحیرہ : ایسا جانور جس کا دودھ بتوں کے نام کردیا جاتا تھا اور کوئی اسے اپنے کام میں نہ لاتا تھا۔ سائبہ : وہ جانورجو بتوں کے نام پر ‘ ہمارے زمانے کے سانڈ کی طرح ‘ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وصیلہ : جو اونٹنی مسلسل مادہ بچوں کو جنم دیتی اور درمیان میں کوئی نر بچہ پیدا نہ ہوتا ‘ اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ حام : نر اونٹ جو ایک خاص تعداد میں جفتی کرچکا ہوتا ‘ اسے بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس طرح کے جانوروں کو بتوں کے نام منسوب کر کے آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا کہ اب انہیں کوئی ہاتھ نہ لگائے ‘ کوئی ان سے استفادہ نہ کرے ‘ کوئی ان کا گوشت کھائے نہ صدقہ دے ‘ نہ ان سے کوئی خدمت لے ‘ بس ان کا احترام کیا جائے۔ لہٰذا واضح کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے کوئی احکام نہیں دیے گئے ‘ بلکہ فرمایا :وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَط وَاَکْثَرُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ یہ لوگ بغیر سوچے سمجھے اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگاتے رہتے ہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

📘 آیت 104 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ اس حکم کہ آؤ اللہ کے رسول کی طرف کی ترجمانی علامہ اقبال نے کیا خوبصورت الفاظ میں کی ہے : ؂ بمصطفیٰ ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باو نرسیدی تمام بولہبیست قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط یعنی ہمارے آباء و اجداد جو اتنے عرصے سے ان چیزوں پر عمل کرتے چلے آ رہے تھے تو کیا وہ جاہل تھے ؟ یہی باتیں آج بھی سننے کو ملتی ہیں۔ کسی رسم کے بارے میں آپ کسی کو بتائیں کہ اس کی دین میں کوئی سند نہیں ہے اور صحابہ رض کے ہاں اس کا کوئی وجود نہ تھا تو اس کا جواب ہوگا کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو یونہی کرتے دیکھا ہے۔ اَوَلَوْکَانَ اٰبَآؤُہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ شَیْءًا وَّلاَ یَہْتَدُوْنَ جیسے تم اللہ کی مخلوق ہو ویسے ہی وہ بھی مخلوق تھے۔ جیسے تم غلط کام کرسکتے ہو اور غلط آراء قائم کرسکتے ہو ‘ ویسے ہی وہ بھی غلط کار ہوسکتے تھے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 آیت 105 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لاَ یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ ط اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ یہ آیت اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس کا ایک غلط مطلب اور مفہوم دور صحابہ رض میں ہی بعض لوگوں نے نکال لیا تھا۔ وہ یہ کہ دعوت و تبلیغ کی کوئی ذمہ داری ہم پر نہیں ہے ‘ ہر ایک پر اپنی ذات کی ذمہ داری ہے ‘ کوئی کیا کرتا ہے اس سے کسی دوسرے کو کچھ غرض نہیں ہونی چاہیے۔ قرآن جو کہہ رہا ہے کہ تم پر ذمہ داری صرف اپنی جانوں کی ہے۔ اگر تم ہدایت پر ہو تو جو گمراہ ہوا وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ لہٰذا ہر کسی کو بس اپنا عمل درست رکھنا چاہیے ‘ کوئی دوسرا شخص اگر غلط کام کرتا ہے تو اسے خواہ مخواہ روکنے ٹوکنے ‘ اس کی ناراضگی مول لینے ‘ اَمر با لمعروف اور نہی عن المنکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کی باتیں جب حضرت ابوبکر صدیق رض کے علم میں آئیں تو آپ رض نے باقاعدہ ایک خطبہ دیا کہ لوگو میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس آیت کا مطلب غلط سمجھ رہے ہو۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تمہاری ساری تبلیغ ‘ کوشش ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے باوجود اگر کوئی شخص گمراہ رہتا ہے تو اس کا تم پر کوئی وبال نہیں۔ سورة البقرۃ میں ہم پڑھ چکے ہیں : وَّلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی جہنمیوں کے بارے میں۔ یعنی ہم یہ نہیں پوچھیں گے کہ ہم نے آپ ﷺ کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا تھا اور پھر بھی یہ لوگ جہنّم میں کیوں چلے گئے ؟ لیکن جہاں تک دعوت و تبلیغ ‘ نصیحت و موعظت ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا تعلق ہے ‘ یہ تو فرائض میں سے ہیں۔ اس آیت کی رو سے یہ فرائض ساقط نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کا درست مفہوم یہ ہے کہ تمہاری ساری کوشش کے باوجود اگر کوئی شخص نہیں مانتا تو اب تمہاری ذمہ داری پوری ہوگئی۔ فرض کیجیے کہ کسی کا بچہ آوارہ ہوگیا ہے ‘ والد اپنی امکانی حد تک کوشش کیے جارہا ہے مگر بچہ راہ راست پر نہیں آ رہا ‘ تو ظاہر بات ہے کہ اگر اس نے بچے کی تربیت اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں چھوڑی تو اللہ کی طرف سے اس کی گمراہی کا وبال والد پر نہیں آئے گا۔ لیکن اپنا فرض ادا کرنا بہر حال لازم ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَ

📘 آیت 106 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ یعنی موت سے قبل وصیت کے وقت اپنے لوگوں میں سے دو گواہ مرد مقرر کرلو۔ واضح رہے کہ وصیت کل ترکے کے ایک تہائی حصے سے زیادہ کی نہیں ہوسکتی۔ اگر جائیداد زیادہ ہے تو اس کا ایک تہائی حصہ بھی خاصا زیادہ ہوسکتا ہے۔ ُ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ ط یا دوسرے دو آدمی تمہارے غیروں میں سے اگر تم زمین میں سفر پر نکلے ہوئے ہو اور حالت سفر میں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے۔یعنی حالت سفر میں اگر کسی کی موت کا وقت آپہنچے اور وہ وصیت کرنا چاہتا ہو تو ایسی صورت میں گواہان غیر قوم ‘ کسی دوسری بستی ‘ کسی دوسری برادری اور دوسرے قبیلے سے بھی مقرر کیے جاسکتے ہیں ‘ مگر عام حالات میں اپنی بستی ‘ اپنے خاندان میں رہتے ہوئے کوئی شخص انتقال کر رہا ہے تو اسے وصیّت کے وقت اپنے لوگوں ‘ رشتہ داروں اور قرابت داروں میں سے ہی دو معتبر آدمیوں کو گواہ بنانا چاہیے۔تَحْبِسُوْنَہُمَا مِنْم بَعْدِ الصَّلٰوۃِ یعنی جب وصیت کے بارے میں متعلقہ لوگ پوچھیں اور اس میں کچھ شک کا احتمال ہو تو نماز کے بعد ان دونوں گواہوں کو مسجد میں روک لیا جائے۔فَیُقْسِمٰنِ باللّٰہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ اگر تمہیں ان کے بارے میں کوئی شک ہو کہ کہیں یہ وصیّت کو بدل نہ دیں ‘ کہیں ان سے غلطی نہ ہوجائے تو تم ان سے قسم اٹھوا لو۔ وہ نماز کے بعد مسجد میں حلف کی بنیاد پر شہادت دیں ‘ اور اس طرح کہیں :لاَ نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ہم اس کی کوئی قیمت وصول نہیں کریں گے ‘ اگرچہ کوئی قرابت دار ہی کیوں نہ ہو یعنی ہم اس شہادت سے نہ تو خود کوئی ناجائز فائدہ اٹھائیں گے ‘ نہ کسی کے حق میں کوئی ناانصافی کریں گے اور نہ ہی کسی رشتہ دار عزیز کو کوئی ناجائز فائدہ پہنچائیں گے۔وَلاَ نَکْتُمُ شَہَادَۃَ اللّٰہِ غور کریں گواہی اتنی عظیم شے ہے کہ اسے شَھَادَۃَ اللّٰہِ ‘ کہا گیا ہے ‘ یعنی اللہ کی گواہی ‘ اللہ کی طرف سے ‘ امانت۔

فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 107 فَاِنْ عُثِرَ عَلآی اَنَّہُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا حلفیہ بیان بھی غلط دیا ہے اور وصیّت میں ترمیم کی ہے ‘ اس کے باوجود کہ نماز کے بعد مسجد کے اندر حلف اٹھا کر بات کر رہے ہیں۔ آخر انسان ہیں اور ہر معاشرے میں ہر طرح کے انسان ہر وقت موجود رہتے ہیں۔فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْاَوْلَیٰنِ اب وہ کھڑے ہو کر کہیں گے کہ یہ لوگ ہمارا حق تلف کر رہے ہیں ‘ انہوں نے وصیت کے اندر خیانت کی ‘ ہے۔

ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

📘 آیت 108 ذٰلِکَ اَدْنآی اَنْ یَّاْتُوْا بالشَّہَادَۃِ عَلٰی وَجْہِہَآ اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌم بَعْدَ اَیْمَانِہِمْ ط کیونکہ انہیں معلوم ہوگا کہ اگر ہم نے جھوٹی قسم کھا بھی لی ‘ اور پھر اگر دوسرا فریق بھی قسم کھا گیا ‘ تو ہمارا منصوبہ کامیاب نہیں ہوگا۔ لہٰذا وہ اس کی ہمت نہیں کریں گے۔وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاسْمَعُوْا ط وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ اسی طرح کا معاملہ سورة النور آیات 6 تا 9 میں بھی مذکور ہوا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو بدکاری کرتے ہوئے دیکھے اور اس کے پاس کوئی اور گواہ نہ ہو تو وہ چار مرتبہ قسم کھا کر کہے کہ میں جو کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو اس ایک شخص کی گواہی چار گواہوں کے برابر ہوجائے گی۔ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھی بتایا ہے ‘ کہ اگر بیوی بھی چار مرتبہ قسم کھا کر کہہ دے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ‘ مجھ پر تہمت لگا رہا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر اس کا الزام درست ہو ‘ تو شوہر کی گواہی ساقط ہوجائے گی۔ اس طرح دونوں طرف سے اللہ تعالیٰ نے معاملے کو متوازن کیا ہے۔ اب آخری دو رکوع اس لحاظ سے اہم ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کے مکالمے کا نقشہ کھینچا گیا ہے ‘ جو قیامت کے دن ہوگا۔ اور اس کے پس منظر میں گویا ایک پوری داستان ہے ‘ جو ایک نئی شان سے سامنے آئی ہے۔

۞ يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

📘 آیت 109 یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اُجِبْتُمْ ط آپ لوگوں کی دعوت کے جواب میں آپ کی قوموں نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا ؟قَالُوْا لاَ عِلْمَ لَنَاط اِنَّکَ اَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ وہ اللہ تعالیٰ کے جناب میں زبان کھولنے سے گریز کریں گے اور کہیں گے کہ تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے ‘ ہر حقیقت تجھ پر منکشف ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

📘 آیت 11 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ ہَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ فَکَفَّ اَیْدِیھُمْ عَنْکُمْ ج یہ غزوۂ احزاب کے بعد کے حالات پر تبصرہ ہے۔ اس غزوہ کے بعد ابھی کفارّ میں سے بہت سے لوگ پیچ و تاب کھا رہے تھے اور بعید نہیں تھا کہ وہ دو بار مہم جوئی کرتے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کردیے اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ دوبارہ لشکر کشی کی جرأت نہ کرسکے۔ اس صورت حال کا ذکر اللہ تعالیٰ یہاں پر اپنے انعام کے طور پر کر رہے ہیں کہ جب کفار نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں ‘ تمہارے اوپر زیادتی کرنے کے لیے ‘ تم پر فوج کشی کے لیے اقدام کریں۔اس میں خاص طور پر اشارہ صلح حدیبیہ کی طرف ہے۔ اس وقت بھی قریش لڑائی کے لیے بیتاب ہو رہے تھے ‘ ان کے نوجوانوں کا خون کھول رہا تھا ‘ لیکن بالآخر انہیں اس حقیقت کا ادراک ہوگیا کہ اب ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور ان کے ہاتھوں کو مسلمانوں کے خلاف اٹھنے سے روک دیا۔

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ

📘 آیت 110 اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ اب روز قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خاص پیشی کا منظر ہے۔ دنیا میں ان کی پرستش کی گئی ‘ ان کو اللہ کا بیٹا بنایا گیا ‘ ثالث ثلاثۃ قرار دیا گیا۔ لہٰذا اب آنجناب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جو شرمندگی اٹھانا پڑے گی ‘ اس کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے جب اللہ ان کو مخاطب کر کے فرمائے گا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم :اذْکُرْ نِعْمَتِیْ عَلَیْکَ وَعَلٰی وَالِدَتِکَ 7 اِذْ اَیَّدْتُّکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے تمہاری تائید کی تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْْمَہْدِ وَکَہْلاً ج۔تم شیر خوارگی کی عمر میں بھی لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور ادھیڑ عمر کو پہنچ کر بھی۔ آگے وہی سورة آل عمران آیت 48 والے الفاظ دہرائے جا رہے ہیں۔وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ ج درمیان کا واؤتفسیریہ ہے ‘ لہٰذا یعنی کے مفہوم میں آئے گا۔وَاِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ کَہَیْءَۃِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْہَا فَتَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِیْ وَتُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ بِاِذْنِیْ ج ان کے ہاتھ تم تک نہیں پہنچنے دیے اور تمہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا۔ یہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام گرفتار نہیں ہوئے ‘ اور عین اس وقت جب پولیس والے آپ علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لیے باغ میں داخل ہوئے تو چار فرشتے اترے ‘ جو آپ علیہ السلام کو لے کر آسمان پر چلے گئے۔

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ

📘 آیت 111 وَاِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَبِرَسُوْلِیْ ج ان کے دل میں ڈال دیا ‘ الہام کردیا ‘ ان کی طرف وحی کردی۔ یہ وحئ خفی ہے۔ ظاہر ہے حواریوں کی طرف وحی جلی تو نہیں آسکتی تھی جو خاصۂ نبوت ہے۔ لیکن جیسا کہ شہد کی مکھی کے لیے وحی کا لفظ آیا ہے النحل : 68 یا جیسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو وحی کی فصلت : 12 یہ وحئ خفی کی مثالیں ہیں۔

إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 قَالَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ مؤمنین کو ایسی دعائیں نہیں کرنی چاہئیں۔ ایسے مطالبات آپ لوگوں کو زیب نہیں دیتے۔

قَالُوا نُرِيدُ أَنْ نَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ

📘 آیت 113 قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْکُلَ مِنْہَا وَتَطْمَءِنَّ قُلُوْبُنَا یہ اس طرح کی بات ہے جیسی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہی تھی : رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط البقرہ : 260۔ اسی طرح کا مشاہدہ وہ بھی طلب کر رہے تھے۔وَنَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَکُوْنَ عَلَیْہَا مِنَ الشّٰہِدِیْنَ تا کہ ہمیں آپ علیہ السلام کی کسی بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہے اور ایسایقین کامل ہوجائے کہ پھر ہم جب آپ علیہ السلام کی جانب سے لوگوں کو تبلیغ کریں تو ہمارے اپنے دلوں میں کہیں شک وشبہ کا کوئی کانٹا چبھا ہو انہ رہ جائے

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

📘 آیت 114 قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰہُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآءِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَۃً مِّنْکَ ج آسمان سے ‘ خاص تیرے ہاں سے کھانے سے بھرے ہوئے دستر خوان کا نازل ہونا یقیناً ہمارے لیے جشن کا موقع ہوگا ‘ ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے ایک یادگار واقعہ اور تیری طرف سے ایک خاص نشانی ہوگا۔

قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 115 قَال اللّٰہُ اِنِّیْ مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ ج فَمَنْ یَّکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُہٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ یعنی جب اس طرح کی کوئی خرق عادت چیز دکھا دی جائے گی ‘ کھلا معجزہ سامنے آجائے گا تو پھر رعایت نہیں ہوگی۔ گزشتہ قوموں کے ساتھ ایسے ہی ہوا تھا۔ قوم ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ابھی اس چٹان میں سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہوجانی چاہیے۔ وہ اونٹنی برآمد ہوگئی ‘ لیکن ساتھ ہی رعایت بھی ختم ہوگئی۔ ان سے واضح طور پر کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے لیے مہلت کے صرف چند دن ہیں ‘ اگر ان دنوں میں ایمان نہیں لاؤ گے تو نیست و نابود کردیے جاؤ گے۔ یہ بات سورة الشُّعراء میں بہت تفصیل سے آئے گی کہ اے نبی ﷺ یہ لوگ اب جو نشانیاں مانگ رہے ہیں تو ہم یہ ان کی خیر خواہی میں انہیں نہیں دکھا رہے ہیں۔ اگر ان کے کہنے پر ایسی نشانیاں ہم دکھا دیں تو پھر ان کو مزید رعایت نہیں دی جائے گی اور ان کی مہلت ابھی ختم ہوجائے گی۔ اس قسم کے معجزے دیکھ کر نہ کوئی پہلے ایمان لایا ‘ نہ اب یہ لوگ لائیں گے۔ ان کے اندر جو نیتّ کا فساد ہے وہ کہاں انہیں ماننے دے گا ؟ جیسے قوم صالح علیہ السلام نے نہیں مانا ‘ حالانکہ اپنی نگاہوں کے سامنے انہوں نے ایسا کھلامعجزہ دیکھ لیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کو یہودیوں نے نہیں مانا ‘ الٹا انہیں جادُو قرار دے دیا۔ تو اس قدر واضح معجزات دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ سوائے ان جادُوگروں کے جن کا فرعون کے دربار میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مقابلہ ہو اتھا۔ نہ تو خود فرعون ایمان لایا تھا نہ فرعون کے درباری اور نہ ہی عوام الناس۔ چناچہ معجزے کا ظہور در اصل متعلقہ قوم کے خلاف جاتا ہے۔ معجزے کے ظہور سے پہلے تو امید ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ شاید اس قوم کو کچھ ڈھیل دے دے ‘ شاید کچھ اور لوگوں کو ایمان کی توفیق مل جائے ‘ لیکن معجزے کے ظہور سے مہلت کا وہ سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

📘 اب یہ اس پیشی کا آخری منظر ہے اور اس کا انداز بہت سخت ہے۔

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

📘 آیت 117 مَا قُلْتُ لَہُمْ الاَّ مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ ج وَکُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ ج ان کی دیکھ بھال کرتا رہا ‘ نگرانی کرتا رہا۔ یہاں لفظ شہید نگران کے معنوں میں آیا ہے۔فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ ط واضح رہے کہ یہاں بھی تَوَفَّیْتَنِیْ موت کے معنوں میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں سورة آل عمران آیت 55 اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ کی تشریح مدنظر رہے۔ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ تو ہرچیز پر نگران ہے ‘ ہرچیز سے باخبر ہے۔

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 118 اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ج۔تجھے ان پر پورا اختیار حاصل ہے ‘ تیری مخلوق ہیں۔وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ یہ بہترین انداز ہے۔ معافی کی درخواست بھی ہے ‘ جس میں بہت خوبصورت انداز میں شفقت و رأفت کا اظہار ہے ‘ جو نوع انسانی کے لیے انبیاء کی شخصیت کا خاصہّ ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھ کر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ مقام عبدیت یہی ہے۔ تو اے اللہ ! تیرا ہی اختیار ہے اور تو عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ اگر تو انہیں معاف فرمانا چاہے تو تجھ سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا ‘ کوئی جواب طلبی نہیں کرسکتا کہ تو نے کیسے معاف کردیا ! اب آ رہا ہے کہ اس پوری پیشی کا ڈراپ سین اور آخری نقشہ کیا ہوگا۔

قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُط ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ یہ ہے باہمی رضا مندی کا آخری مقام ‘ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔

۞ وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

📘 اب یہاں سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند واقعات آ رہے ہیں۔ آیت 12 وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ ج یعنی اے مسلمانو ! جس طرح آج تم سے یہ میثاق لیا گیا ہے اور اللہ نے تمہیں شریعت کے میثاق میں باندھ لیا ہے ‘ بالکل اسی طرح کا میثاق اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے بنی اسرائیل سے بھی لیا تھا۔وَبَعَثْنَا مِنْہُمُ اثْنَیْ عَشَرَ نَقِیْبًا ط۔بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ ہر قبیلے میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک نقیب مقرر کیا۔ نبی اکرم ﷺ نے بھی انصار میں بارہ نقیب فرمائے تھے ‘ نو خزرج میں سے اور تین اوس سے۔وَقَال اللّٰہُ اِنِّیْ مَعَکُمْ ط۔ میری مدد ‘ میری تائید ‘ میری نصرت تمہارے ساتھ شامل حال رہے گی۔لَءِنْ اَقَمْتُمُ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَیْتُمُ الزَّکٰوۃَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِیْ وَعَزَّرْتُمُوْہُمْ یہ جن رسولوں کا ذکر ہے وہ پے در پے بنی اسرائیل میں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تو رسالت کا یہ سلسلہ ایک تار کی مانند تھا جو چھ سو برس تک ٹوٹا ہی نہیں۔ پھر ذرا سا وقفہ چھ سوبرس کا آیا اور پھر اس کے بعد نبی آخر الزمان ﷺ تشریف لائے۔ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یعنی اللہ کے دین کے لیے مال خرچ کرتے رہے۔

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 120 لِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا فِیْہِنَّ ط وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ یہاں پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے سورة المائدۃ کے اختتام کے ساتھ ہی مکی اور مدنی سورتوں کے گروپس groups میں سے پہلا گروپ ختم ہوگیا ہے ‘ جس میں ایک مکیّ سورة یعنی سورة الفاتحہ اور چارمدنی سورتیں ہیں۔ سورة الفاتحہ اگرچہ حجم میں بہت چھوٹی ہے لیکن یہ اپنی معنوی عظمت کے لحاظ سے پورے قرآن کے ہم وزن ہے۔ سورة الحجر کی آیت : وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ مفسرین کی رائے کے مطابق سورة الفاتحہ ہی کے بارے میں ہے۔ اس گروپ کی چار مدنی سورتیں البقرۃ ‘ آل عمران ‘ النساء اور المائدۃ دو دو کے جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ ان تمام سورتوں کے مضامین کا عمود ایک دفعہ پھر ذہن میں تازہ کرلیں۔ مکمل شریعت آسمانی ‘ اہل کتاب سے خطاب اور ردّوقدح ‘ ان پر الزامات کا تذکرہ ‘ ان کے غلط عقائد کی نفی ‘ انہیں ایمان کی دعوت ‘ ان کی تاریخ کے اہم واقعات کی تفصیلات ‘ ان کا امت مسلمہ کے منصب سے معزول کیا جانا ‘ جس پر وہ دو ہزار برس سے فائز تھے اور امت محمد ﷺ کا اس منصب پر فائز کیا جانا۔ یہ موضوعات آخری درجے میں اس گروپ کی سورتوں میں مکمل ہوگئے ہیں۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 13 فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ میں نے سورة النساء آیت 155 میں لَعَنّٰہُمْ محذوف قرار دیا تھا ‘ لیکن یہاں پر یہ واضح ہو کر آگیا ہے کہ ہم نے ان کے اس میثاق کو توڑنے کی پاداش میں ان پر لعنت فرمائی۔وَجَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃًج ۔جیسے سورة البقرہ آیت 74 میں فرمایا : ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس کے بعد ‘ پتھروں کی طرح بلکہ پتھروں سے بھی بڑھ کر سخت۔ یہاں پر وہی بات دہرائی گئی ہے۔یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ لا ‘ وَنَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ ج اور انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیا۔ وَلاَ تَزَالُ تَطَّلِِعُ عَلٰی خَآءِنَۃٍ مِّنْہُمْ رسول اللہ ﷺ جیسے ہی مدینہ پہنچے تھے تو آپ ﷺ نے اس نئی جگہ پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے پہلے چھ مہینوں میں جو تین کام کیے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ یہود کے تینوں قبیلوں سے مدینہ کے مشترکہ دفاع کے معاہدے کرلیے کہ اگر مدینے پر حملہ ہوگا تو سب مل کر اس کا دفاع کریں گے ‘ لیکن بعد میں ان میں سے ہر قبیلے نے ایک ایک کرکے غداری کی۔ چناچہ نبی اکرم ﷺ سے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کی طرف سے مسلسل خیانتیں ہوتی رہیں گی ‘ لہٰذا آپ کو ان کی طرف سے ہوشیار رہنا چاہیے اور ان کا توڑ کرنے کے لیے پہلے سے تیار رہنا چاہیے۔ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں۔

وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

📘 آیت 14 وَمِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّا نَصٰرآی اَخَذْنَا مِیْثَاقَہُمْ فَنَسُوْاحَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھانا بھول گئے۔ فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط ‘ یہاں ایک اہم نکتہ تو یہ ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان پورے انیس سو برس شدید دشمنی رہی ہے۔ موجودہ دور میں صورت حال عارضی طور پر کچھ تبدیل ہوگئی ہے۔ عیسائی جنھیں اللہ کا بیٹا بلکہ خدا سمجھتے ہیں ‘ یہودیوں نے انہیں ولد الزنا قرار دیا اور کافر و مرتد کہتے ہوئے واجب القتل ٹھہرایا۔ یہ بنیادی اختلاف دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں اس قدر اہم اور شدید ہے کہ اس کی موجودگی میں دونوں میں اتحاد و اتفاق ممکن ہی نہیں۔ لیکن آیت زیرنظر میں بنیادی طور پر عیسائیوں کی آپس کی دشمنی اور ان کا باہمی بغض وعناد مراد ہے۔ ان کے مختلف فرقوں کے درمیان نظر یاتی اختلافات ان کی دلی کدورتوں اور نفرتوں سے بڑھ کر بارہا باہمی جنگ و جدل کی شکل میں نمودار ہوتے رہے ہیں۔ مذہبی بنیادوں پر عیسائی فرقوں کی آپس کی خانہ جنگیوں کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مذہب کے نام پر عیسائیوں کی خون ریزی اور قتل و غارت گری کی عبرت آموز اور رونگٹے کھڑے کردینے والی تفصیلات Blood on the Cross نامی ضخیم کتاب میں ملتی ہیں ‘ جو لندن سے شائع ہوئی ہے۔ خاص طور پر پروٹسٹنٹس Protestants اور کیتھولکس Catholics کی باہمی چپقلش تو کوئی پوشیدہ راز نہیں ‘ جس کی ہلکی سی جھلک آج بھی ہمیں آئرلینڈ میں نظر آتی ہے۔ وَسَوْفَ یُنَبِّءُہُمُ اللّٰہُ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ اب پھر وہی انداز ہے جو سورة النساء کے آخر میں تھا۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ

📘 آیت 15 یٰٓاَ ہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۔ یہاں نور سے مراد نبی اکرم ﷺ کی شخصیت بھی ہوسکتی ہے۔ سورة النساء آیت 174 میں جو فرمایا گیا : وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا اور نازل کردیا ہے ہم نے تمہاری طرف ایک روشن نور وہاں نور سے مراد قرآن ہے ‘ اس لیے کہ حضور ﷺ کے لیے فعل اَنْزَلْنَادرست نہیں۔ لیکن یہاں زیادہ احتمال یہی ہے کہ نور سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ ہے ‘ یعنی آپ ﷺ کی روح پر نور ‘ کیونکہ آپ ﷺ کی روح اور روحانیت آپ ﷺ کے پورے وجود پر غالب تھی ‘ چھائی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کو نور مجسم بھی کہا جاسکتا ہے۔ گویا آپ ﷺ کو استعارۃً نور کہا گیا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نور بھی قرآن پاک ہی کو کہا گیا ہو اور و اس میں واؤ تفسیری ہو۔ اس صورت میں مفہوم یوں ہوگا : آگیا ہے تمہارے پاس نور یعنی کتاب مبین۔

يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 15 یٰٓاَ ہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ کَثِیْرًا مِّمَّا کُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍط قَدْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۔ یہاں نور سے مراد نبی اکرم ﷺ کی شخصیت بھی ہوسکتی ہے۔ سورة النساء آیت 174 میں جو فرمایا گیا : وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا اور نازل کردیا ہے ہم نے تمہاری طرف ایک روشن نور وہاں نور سے مراد قرآن ہے ‘ اس لیے کہ حضور ﷺ کے لیے فعل اَنْزَلْنَادرست نہیں۔ لیکن یہاں زیادہ احتمال یہی ہے کہ نور سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ ہے ‘ یعنی آپ ﷺ کی روح پر نور ‘ کیونکہ آپ ﷺ کی روح اور روحانیت آپ ﷺ کے پورے وجود پر غالب تھی ‘ چھائی ہوئی تھی۔ اس لحاظ سے آپ ﷺ کو نور مجسم بھی کہا جاسکتا ہے۔ گویا آپ ﷺ کو استعارۃً نور کہا گیا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی ہے کہ یہاں نور بھی قرآن پاک ہی کو کہا گیا ہو اور و اس میں واؤ تفسیری ہو۔ اس صورت میں مفہوم یوں ہوگا : آگیا ہے تمہارے پاس نور یعنی کتاب مبین۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 17 لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ ط حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں کے ہاں جودو عقیدے رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ ہی مسیح علیہ السلام ہے۔ اس عقیدے کی بنیاد اس نظریہ پر قائم ہے کہ خدا خود ہی انسانی شکل میں ظہور کرلیتا ہے۔ اس عقیدے کو God Incarnate کہا جاتا ہے ‘ یعنی اوتار کا عقیدہ جو ہندوؤں میں بھی ہے۔ جیسے رام چندر جی ‘ کرشن جی مہاراج ان کے ہاں خدا کے اوتار مانے جاتے ہیں۔ چناچہ عیسائیوں کا فرقہ Jacobites خاص طور پر God Incarnate کے عقیدے کا سختی سے قائل رہا ہے ‘ کہ اصل میں اللہ ہی نے حضرت مسیح علیہ السلام کی شکل میں دنیا میں ظہور فرمایا۔ جیسے ہمارے ہاں بھی بعض لوگ نبی مکرم ﷺ کی محبت و عقیدت اور عظمت کے اظہار میں غلو سے کام لے کر حد سے تجاوز کرتے ہوئے یہاں تک کہہ جاتے ہیں : ؂وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ ہو کر عیسائیوں کے اسی عقیدے کا ابطال اس آیت میں کیا گیا ہے۔وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔وہ جو چاہتا ہے ‘ جیسے چاہتا ہے ‘ تخلیق فرماتا ہے۔ اس نے آدم ‘ عیسیٰ اور یحییٰ f کو تخلیق فرمایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اعجاز تخلیق کی مختلف مثالیں ہیں۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ ۖ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ

📘 آیت 18 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصٰرٰی نَحْنُ اَبْنآؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤُہٗ ط یعنی بیٹوں کی مانند ہیں ‘ بڑے لاڈلے اور پیارے ہیں۔قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ط اگر تم اللہ کی اولاد ہو ‘ اس کے بڑے چہیتے ہو ‘ تو کیا اسی لیے بخت نصر Nebukadnezar کے ہاتھوں اس نے تمہیں پٹوایا ‘ تمہارے چھ لاکھ افراد قتل کر وا دیے ‘ چھ لاکھ قیدی بنے ‘ تمہارا ہیکل اوّل بھی شہید کردیا گیا۔ پھر آشوریوں نے تمہاری سلطنت اسرائیل کو روند ڈالا۔ پھر یونانیوں کے ہاتھوں تمہارا استحاصل ہوا۔ پھر رومیوں نے تمہارے اوپر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے اور رومن جنرل طیطس Titus نے تمہارا دوسرا ہیکل بھی مسمار کردیا۔ کیا ایسے ہی لاڈلے ہوتے ہیں اللہ کے ؟ کیا اللہ اتنا ہی لاچار اور عاجز ہے کہ اپنے لاڈلوں کو ذلت و خواری اور ظلم و ستم سے بچا نہیں سکتا ؟بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ ط نہیں بلکہ تم بھی انسان ہو جیسے دوسرے انسان اس نے پیدا کیے ہیں۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 19 یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ قَدْ جَآءَ کُمْ رَسُوْلُنَا یُبَیِّنُ لَکُمْ عَلٰی فَتْرَۃٍ مِّنَ الرُّسُلِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورٌ محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان چھ سو برس ایسے گزرے ہیں کہ اس دوران دنیا میں کوئی نبی ‘ کوئی رسول نہیں رہا۔ اس وقفے کو اصطلاح میں ’ فترت ‘ کہا جاتا ہے۔ پھر حضور ﷺ کی بعثت ہوئی اور پھر اس کے بعد تاقیام قیامت رسالت کا دروازہ بند ہوگیا۔ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَ نَا مِنْم بَشِیْرٍ وَّلاَ نَذِیْرٍز فَقَدْ جَآءَ کُمْ بَشِیْرٌ وَّنَذِیْرٌ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ سورۃ النساء میں یہی بات اس انداز سے بیان ہوچکی ہے : رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِط وَکَان اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 آیت 2 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہِ وَلا الشَّہْرَ الْحَرَامَ یعنی اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اپنی خواہش کے مطابق حلال مت کرلیا کرو۔ وَلاَ الْہَدْیَ یعنی قربانی کے وہ جانور جو حج یا عمرے پر جاتے ہوئے لوگ ساتھ لے کر جاتے تھے۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ وہ حج یا عمرے پر جاتے وقت قربانی کے جانور ساتھ لے کر جاتے تھے۔ یہاں ان جانوروں کی بےحرمتی کی ممانعت بیان ہو رہی ہے۔وَلاَ الْقَلَآءِدَ اور نہ ان جانوروں کی بےحرمتی ہونے پائے جن کی گردنوں میں پٹے ڈال دیے گئے ہوں یہ پٹے قلادے علامت کے طور پر ڈال دیے جاتے تھے کہ یہ قربانی کے جانور ہیں اور کعبے کی طرف جا رہے ہیں۔ وَلَآ ا آمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یعنی وہ لوگ جو بیت الحرام کی طرف چل پڑے ہوں ‘ حج یا عمرے کا قصد کر کے سفر کر رہے ہوں ‘ اب ان کی بھی اللہ کے گھر کے ساتھ ایک نسبت ہوگئی ہے ‘ وہ اللہ کے گھر کے مسافر ہیں ‘ جیسا کہ اہل عرب حجاج کرام کو کہتے ہیں : مَرْحَبًا بِضُیُوْفِ الرَّحْمٰن مرحبا ان لوگوں کو جو رحمن کے مہمان ہیں۔ یعنی تمام حجاجِّ کرام اصل میں اللہ کے مہمان ہیں ‘ اللہ ان تمام زائرین کعبہ کا میزبان ہے۔ تو اللہ کے ان تمام مہمانوں کی ہتک عزت اور بےحرمتی سے منع کردیا گیا۔ یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرِضْوَانًا ط۔ یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں ‘ اللہ کو راضی کرنے کی کوشش میں مکان محترم کعبہ کی طرف جا رہے ہیں۔ وَاِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا ط۔حلال ہوجانا ایک اصطلاح ہے ‘ یعنی احرام کھول دینا ‘ حالت احرام سے باہر آجانا۔ اب تمہیں شکار کی آزادی ہے ‘ اس پر پابندی صرف احرام کی حالت میں تھی۔ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا 7یعنی جیسے اہل مکہ نے تم لوگوں کو چھ سات برس تک حج وعمرہ سے روکے رکھا ‘ اب کہیں اس کے جواب میں تم لوگ بھی ان پر زیادتی نہ کرنا۔ وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ دیکھئے یہ انداز بالکل وہی ہے جو سورة النساء کا تھا ‘ وہی معاشرتی معاملات اور ان کے بارے میں بنیادی اصول بیان ہو رہے ہیں۔ اب آ رہے ہیں وہ استثنائی احکام جن کا ذکر آغازسورۃ میں ہوا تھا کہ الاَّ مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ۔ کھانے پینے کے لیے جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں ان کا ذکر یہاں آخری مرتبہ آ رہا ہے اور وہ بھی بہت وضاحت کے ساتھ :

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ

📘 اب حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ واقعہ آ رہا ہے جب آپ علیہ السلام مصر سے اپنی قوم کو لے کر نکلے ‘ صحرائے سینا میں رہے ‘ آپ علیہ السلام کو کوہ طور پر بلایا گیا اور تورات دی گئی۔ اس کے بعد انھیں حکم ہوا کہ فلسطین میں داخل ہوجاؤ اور وہاں پر آباد مشرک اور کافر قوم جو فلسطی کہلاتے تھے کے ساتھ جنگ کرو اور انہیں وہاں سے نکالو ‘ کیونکہ یہ ارض مقدس تمہارے لیے اللہ کی طرف سے موعود ہے۔ اس لیے کہ ان کے جد امجدّ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام کا تعلق اسّ خطہ سے تھا۔ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے میں حضرت یوسف علیہ السلام کی وساطت سے بنی اسرائیل مصر میں منتقل ہوئے تو انہیں حکم ہوا کہ اب جاؤ ‘ اپنے اصل گھر ارضِ ‘ فلسطین کو دوبارہ حاصل کرو۔ لیکن جب جنگ کا موقع آیا تو پوری قوم نے کو را جواب دے دیا کہ ہم جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جو تلخی پیدا ہوئی اور طبیعت کے اندر بےزاری کی جو کیفیت پیدا ہوئی ‘ اس کی شدت یہاں نظر آتی ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ رسول اپنی امت کے حق میں سراپا شفقت ہوتا ہے ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی کا معاملہ بھی اللہ تعالیٰ کی مانند ہے۔ جیسے اللہ رؤف بھی ہے ‘ وَدُود بھی ‘ لیکن ساتھ ہی وہ عزیزٌ ذُوانتقام بھی ہے اللہ کی یہ دونوں شانیں ایک ساتھ ہیں اسی طرح رسول کا معاملہ ہے کہ رسول شفیق اور رحیم ہونے کے ساتھ ساتھ غیور بھی ہوتا ہے۔ نبی کے دل میں دین کی غیرت اپنے پیروکاروں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ لہٰذا قوم کے منفی ردّ عمل پر نبی کی بےزاری لازمی ہے۔یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ سمجھنے کا یہ ہے کہ بنی اسرائیل کو پے درپے معجزات کے ظہور نے تساہل پسند بنادیا تھا۔ پیاس لگی تو چٹان پر موسیٰ علیہ السلام کی ایک ہی ضرب سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے ‘ بھوک محسوس ہوئی تو منّ وسلویٰ نازل ہوگیا ‘ دھوپ نے ستایا توابر کا سائبان ساتھ ساتھ چل پڑا ‘ سمندر راستے میں آیا تو عصا کی ضرب سے راستہ بن گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس لاڈ پیار کی وجہ سے وہ بگڑ گئے ‘ آرام طلب ہوگئے ‘ مشکل کی ہر گھڑی میں انھیں معجزے کے ظہور کی عادت سی پڑگئی اور جنگ کے موقع پر دشمن کا سامنا کرنے سے انکار کردیا ‘ باوجودیکہ ان کے کم ‘ ازکم ایک لاکھ افراد تو ایسے تھے جو جنگ کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی حکمت ہے کہ محمد رٌسول ‘ اللہ ﷺ کی پوری زندگی میں اس قسم کا کوئی معجزہ نظر نہیں آتا ‘ بلکہ یہ نقشہ نظر آتا ہے کہ مسلمانو ! تمہیں جو کچھ کرنا ہے اپنی جان دے کر ‘ ایثار و قربانی سے ‘ محنت و مشقت سے ‘ بھوک جھیل کر ‘ فاقے برداشت کر کے کرنا ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل کے برعکس رسول اللہ ﷺ کے ‘ ساتھیوں میں ایثار و قربانی ‘ جرأت و بہادری اور بلندہمتی نظر آتی ہے ‘ جس کی واضح مثال غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت مقداد رض کا یہ قول ہے : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ لِمُوْسٰی فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ وَلٰکِنِ امْضِ وَنَحْنُ مَعَکَ ‘ فَکَاَنَّہٗ سُرِّیَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ 1 یارسول اللہ ! ہم آپ ﷺ سے بنی اسرائیل کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تم اور تمہارا رب جا کر قتال کرو ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔ بلکہ ہم کہیں گے آپ ﷺ قدم بڑھایئے ‘ ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں ! اس پر گویا رسول اللہ ﷺ کی پریشانی کا ازالہ ہوگیا۔آیت 0 2 وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ یعنی خود میں نبی ہوں ‘ میرے بھائی ہارون نبی ہیں۔ حضرت یوسف ‘ حضرت یعقوب ‘ حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سب نبی تھے۔وَجَعَلَکُمْ مُّلُوْکًاق اگرچہ اس وقت تک ان کی بادشاہت تو قائم نہیں ہوئی تھی مگر ہوسکتا ہے کہ یہ پیشین گوئی ہو کہ آئندہ تمہیں اللہ تعالیٰ زمین کی سلطنت اور خلافت عطا کرنے والا ہے۔ چناچہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل کی عظیم الشان سلطنت قائم ہوئی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہاں حضرت یوسف علیہ السلام کے اقتدار کی طرف اشارہ ہے ‘ وہ اگرچہ مصر کے بادشاہ تو نہیں تھے لیکن بادشاہوں کے بھی مخدوم و ممدوح تھے اور بنی اسرائیل کو مصر میں پیرزادوں کا سا عزت و احترام حاصل ہوگیا تھا۔

يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ

📘 آیت 21 یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ اللہ کا فیصلہ ہے کہ وہ زمین تمہیں ملے گی۔

قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ

📘 آیت 22 قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ ق ہم فلسطین میں کیسے داخل ہوجائیں ؟ یہاں تو جو لوگ آباد ہیں وہ بڑے طاقت ور ‘ گراں ڈیل اور زبردست ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں ؟

قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 23 قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمَا یہ دو اشخاص حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شاگرد اور قریبی حواری تھے۔ ایک تو یوشع بن نون تھے ‘ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے جانشین بھی ہوئے اور گمان غالب ہے کہ وہ نبی بھی تھے ‘ جبکہ دوسرے شخص کالب بن یفنّا تھے۔ ان دونوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانا چاہا کہ ہمت کرو :ادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ ج۔تم لوگ ایک دفعہ دروازے میں گھس کر ان کا سامنا تو کرو۔

قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

📘 آیت 24 قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْہَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا گویا وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ساتھ اپنی یہ لٹھیا بھی لیتے جاؤ ‘ جس نے بڑے بڑے کارنامے دکھائے ہیں ‘ اس کی مدد سے ان جباروں کو شکست دے دو۔ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَ ہم تو یہاں ٹکے ہوئے ہیں ‘ یہاں سے نہیں ہلیں گے ‘ زمین جنبد ‘ نہ جنبد گل محمد ! یہ مقام عبرت ہے ‘ تورات Book of Exsodus سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ لگ بھگ چھ لاکھ افراد نکلے تھے۔ ان میں سے عورتیں ‘ بچے اور بوڑھے نکال دیں تو ایک لاکھ افراد تو جنگ کے قابل ہوں گے۔ مزید محتاط اندازہ لگائیں تو پچاس ہزار جنگجو تو دستیاب ہوسکتے تھے ‘ مگر اس قوم کی پست ہمتی اور نظر یاتی کمزوری ملاحظہ ہو کہ چھ لاکھ کے ہجوم میں سے صرف دو اشخاص نے اللہ کے اس حکم پر لبیک کہا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار !اب نبی کی بیزاری ملاحظہ فرمائیں۔ وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام جنہوں نے اپنے ہم قوم اسرائیلی کی مدافعت کرتے ہوئے ایک مکا رسید کر کے قبطی کی جان نکال دی تھی فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِز القصص : 15 اب اپنی قوم سے کس قدر بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔

قَالَ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ۖ فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ

📘 آیت 25 قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ باقی یہ پوری قوم انکار کر رہی ہے۔ میرا کسی پر کچھ زور نہیں ہے۔فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم کے رویے ّ سے اس درجہ آزردہ خاطر ہوئے کہ قوم سے علیحدگی کی تمنا کرنے لگے کہ میں اب ان ناہنجاروں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔ انہوں نے تیری عطا کردہ کیا کچھ نعمتیں برتی ہیں اور میرے ہاتھوں سے کیا کیا معجزے یہ لوگ دیکھ چکے ہیں ‘ اس کے باوجود ان کا یہ حال ہے تو مجھے ان سے علیحدہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ درخواست قبول نہیں کی لیکن اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔

قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ

📘 آیت 26 قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج ‘۔یہ ہماری طرف سے ان کی بزدلی کی سزا ہے۔ اگر یہ بزدلی نہ دکھاتے تو ارض فلسطین ابھی ان کو عطا کردی جاتی ‘ مگر اب یہ چالیس سال تک ان پر حرام رہے گی۔یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط ۔ اس صحرائے سینا میں یہ چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔ ۔اب آپ ان نافرمانوں کا غم نہ کھایئے۔ اب جو کچھ ان پر بیتے گی اس پر آپ علیہ السلام کو ترس نہیں کھانا چاہیے۔ آپ بہرحال ان کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں ‘ جب تک زندگی ہے آپ کو ان کے ساتھ رہنا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے مطابق بنی اسرائیل چالیس برس تک صحرائے سینا میں بھٹکتے پھرے۔ اس دوران میں وہ سب لوگ مر کھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے اور صحرا میں ایک نئی نسل پروان چڑھی جو خوئے غلامی سے مبراّ تھی۔ حضرت موسیٰ اور ہارون علیہ السلام دونوں کا انتقال ہوگیا اور اس کے بعد حضرت یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین فتح کرسکیں۔اب ذرا اس پس منظر میں سورة النساء میں نازل ہونے والے حکم کو بھی یاد کریں۔ یہاں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول نقل ہوا ہے : لَآ اَمْلِکُ الاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ لیکن وہاں حضور ﷺ سے فرمایا گیا تھا : فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِج لاَ تُکَلَّفُ الاَّ نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُوْمِنِیْنَ النساء : 84۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اللہ کی راہ میں قتال کیجیے ‘ آپ ﷺ اپنے سوا کسی کے ذمہ دار نہیں ہیں ‘ البتہ اہل ایمان کو بھی ترغیب دیں۔ آپ ﷺ پر کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے سوائے اپنی جان کے ‘ البتہ آپ ﷺ اہل ایمان کو جس قدر ترغیب و تشویق دلا سکتے ہیں دلائیں ‘ ان ‘ کے جذبات ایمانی کو جس جس انداز سے اپیل کرنا ممکن ہے کریں ‘ اور بس اس سے زیادہ آپ ﷺ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اب پانچویں رکوع میں قتل ناحق ‘ ملک میں فساد پھیلانے اور چوری ڈاکے جیسے جرائم کے بارے میں اسلامی نقطہ نظر اور پھر ان کی سزاؤں کا ذکر ہوگا۔

۞ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 27 وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْ اٰدَمَ بالْحَقِّ 7 فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط آدم علیہ السلام کے یہ دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے۔ ہابیل بھیڑ بکریاں چراتا تھا اور قابیل کاشت کار تھا۔ ان دونوں نے اللہ کے حضور قربانی دی۔ ہابیل نے کچھ جانور پیش کیے ‘ جبکہ قابیل نے اناج نذر کیا۔ ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی مگر قابیل کی قبول نہیں ہوئی۔ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ ہوتی تھی کہ آسمان سے ایک شعلہ نیچے اترتا تھا اور وہ قربانی کی چیز کو جلا کر بھسم کردیتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے قربانی کو قبول فرما لیا۔ قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ ط اس نے کہا میں تمہیں قتل کر کے رہوں گا۔قابیل نے ‘ جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی تھی ‘ حسد کی آگ میں جل کر اپنے بھائی ہابیل سے کہا کہ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ ۔ہابیل نے کہا بھائی جان ‘ اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ صرف اپنے متقی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے۔

لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 28 لَءِنْم بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ ج یعنی اگر ایسا ہوا تو یہ یکطرفہ قتل ہی ہوگا

إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 29 اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓ اَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ ج اگر آپ اس انتہا تک پہنچ جائیں گے کہ مجھے قتل کر ہی دیں گے تو آپ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ میری خطاؤں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیں گے۔ ایک بےگناہ انسان کو قتل کرنے والاگویا مقتول کے تمام گناہوں کا بوجھ بھی اپنے سر اٹھا لیتا ہے۔ یعنی اگر آپ مجھے ناحق قتل کریں گے تو میرے گناہوں کا وبال بھی آپ کے سر ہوگا اور میرے لیے تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ البتہ اس جرم کی وجہ سے آپ جہنمی ہوجائیں گے۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 3 حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وہ جانور جو خود اپنی موت مرگیا ہو وہ حرام ہے۔ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ یعنی وہ جانور جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے نامزد ہے ‘ اور غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے اس کو ذبح کیا جا رہا ہے۔ وَالْمُنْخَنِقَۃُ ُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّیَۃُ وَالنَّطِیْحَۃُ وَمَآ اَکَلَ السَّبُعُ یعنی اَلْمَیْتَۃکی یہ پانچ قسمیں ہیں۔ کوئی جانور ان میں سے کسی سبب سے مرگیا ‘ ذبح ہونے کی نوبت نہیں آئی ‘ اس کے جسم سے خون نکلنے کا امکان نہ رہا ‘ بلکہ خون اس کے جسم کے اندر ہی جم گیا اور اس کے گوشت کا حصہ بن گیا تو وہ مردار کے حکم میں ہوگا۔ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ قف۔ یعنی مذکورہ بالا اقسام میں سے جو جانور ابھی مرا نہ ہو اور اسے ذبح کرلیا جائے تو اسے کھایا جاسکتا ہے۔ مثلاً شیر نے ہرن کا شکار کیا ‘ لیکن اس سے پہلے کہ وہ ہرن مرتا شیر نے کسی سبب سے اسے چھوڑ دیا۔ اس حالت میں اگر اسے ذبح کرلیا گیا اور اس میں سے خون بھی نکلا تو وہ حلال جانا جائے گا۔ جہاں جہاں شیر کا منہ لگا ہو وہ حصہ کاٹ کر پھینک دیا جائے تو باقی گوشت کھانا جائز ہے۔ وَمَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ یعنی کسی خاص آستانے پر ‘ خواہ وہ کسی ولی اللہ کا مزار ہو یا دیوتا ‘ دیوی کا کوئی استھان ہو ‘ ایسی جگہوں پر جاکر ذبح کیا گیا جانور بھی حرام ہے۔ وَاَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بالْاَزْلاَمِ ط اور یہ کہ جوئے کے تیروں کے ذریعے سے تقسیم کرو۔یہ بھی جوئے کی ایک قسم تھی۔ عربوں کے ہاں رواج تھا کہ قربانی کے بعد گوشت کے ڈھیر لگا دیتے تھے اور تیروں کے ذریعے گوشت پر جوا کھیلتے تھے۔ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ ط اَلْیَوْمَ یَءِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ یعنی یہ لوگ اب یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ اللہ کا دین غالب ہوا چاہتا ہے اور اس کا راستہ روکنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ‘ سورة المائدۃ نزول کے اعتبار سے آخری سورتوں میں سے ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب عرب میں اسلام کے غلبہ کے آثار صاف نظر آنا شروع ہوگئے تھے۔ فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ط میرے ہاں پسندیدہ اور مقبول دین ہمیشہ ہمیش کے لیے صرف اسلام ہے۔فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ شدید فاقہ کی کیفیت ہو ‘ بھوک سے جان نکل رہی ہو تو ان حرام کردہ چیزوں میں سے جان بچانے کے بقدر کھا سکتا ہے۔غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِثْمٍ لا نیت میں کوئی فتور نہ ہو ‘ بلکہ حقیقت میں جان پر بنی ہو اور دل میں نافرمانی کا کوئی خیال نہ ہو

فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 آیت 30 فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ ان الفاظ کے بین السطور اس کے ضمیر کی کش مکش کا مکمل نقشہ موجود ہے۔ ایک طرف اللہ کا خوف ‘ نیکی کا جذبہ ‘ خون کا رشتہ اور دوسری طرف شیطانی ترغیب ‘ حسد کی آگ اور نفسانی خواہش کی اکساہٹ۔ اور پھر بالآخر اس اندرونی کشمکش میں اس کا نفس جیت ہی گیا۔

فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ ۚ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَٰذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي ۖ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ

📘 آیت 31 فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ یہ پہلا خون تھا جو نسل آدم میں ہوا۔ قابیل نے ہابیل کو قتل تو کردیا لیکن اب اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بھائی کی لاش کا کیا کرے ‘ اسے کیسے dispose off کرے ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کو بھیج دیا جو اس کے سامنے اپنی چونچ سے زمین کھودنے لگا۔لِیُرِیَہٗ کَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَ ‘ ۃَ اَخِیْہِ ط۔کوّے کے زمین کھودنے کے عمل سے اسے سمجھ آجائے کہ زمین کھود کر لاش کو دفن کیا جاسکتا ہے۔قَالَ یٰوَیْلَتٰٓی اَعَجَزْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِثْلَ ہٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَ ‘ ۃَ اَخِیْ ج۔افسوس مجھ پر ! کیا میرے اندر اس کوّے جیسی عقل بھی نہ تھی کہ یہ طریقہ مجھے خود ہی سوجھ جاتا۔ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ ۔اس احساس پر اس کے اندر بڑی شدید ندامت پیدا ہوئی۔

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ

📘 آیت 32 مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَج کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ج والا فقرہ پچھلی آیت کے ساتھ بھی پڑھا جاسکتا ہے اور اس آیت کے ساتھ بھی ‘ یہ دونوں طرف بامعنی بن سکتا ہے۔ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ یعنی اگر کسی نے قتل کیا ہے اور وہ اس کے قصاص میں قتل کیا جائے تو یہ قتل ناحق نہیں ہے۔اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ اگر کوئی شخص ملک میں فساد پھیلانے کا مجرم ہے اور اسے اس جرم کی سزا کے طور پر قتل کردیا جائے تو اس کا قتل بھی قتل ناحق نہیں۔ لیکن ان صورتوں کے علاوہ اگر کسی نے کسی بےقصور انسان کا قتل کردیا۔ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا ط۔اس کا یہ فعل ایسا ہی ہے جیسے اس نے پوری نوع انسانی کو تہہ تیغ کردیا۔ اس لیے کہ اس نے قتل ناحق سے تمدن و معاشرت کی جڑ کاٹ ڈالی۔ جان اور مال کا احترام ہی تو تمدن کی جڑ اور بنیاد ہے۔وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط وَلَقَدْ جَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا بالْبَیِّنٰتِ ز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ اب آیت محاربہ آرہی ہے جو اسلامی قوانین کے لحاظ سے بہت اہم آیت ہے۔ محاربہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں کوئی گروہ فتنہ و فساد مچا رہا ہے ‘ دہشت گردی کر رہا ہے ‘ خونریزی اور قتل و غارت کر رہا ہے ‘ راہزنی اور ڈاکہ زنی کر رہا ہے ‘ گینگ ریپ ہو رہے ہیں۔ اس آیت میں ایسے لوگوں کی سزا بیان ہوئی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ یہ اسلامی ریاست کی بات ہو رہی ہے ‘ جہاں اسلامی قانون نافذ ہو ‘ جہاں اسلام کا پورا نظام قائم ہو۔ ورنہ اگر نظام ایسا ہو کہ جھوٹی گواہیاں دینے والے کھلے عام سودے کر رہے ہوں ‘ ایمان فروش موجود ہوں ‘ ججوں کو خریدا جاسکتا ہو اور ایسے نظام کے تحت شرعی قوانین کا نفاذ کردیا جائے تو پھر اس سے جو نتائج نکلیں گے ان سے شریعت الٹا بدنام ہوگی۔ لہٰذا ریاست میں حکومتی نظام اور مروّجہ قوانین دونوں کا درست ہونا لازمی ہے۔ اگر ایسا ہوگا تو یہ دونوں ایک دوسرے کو مضبوط و مستحکم کریں گے اور اسی صورت میں مطلوبہ نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 33 اِنَّمَا جَََزآؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ‘ یعنی اسلامی ریاست کی عملداری کو چیلنج کرتے ہیں۔ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا واضح رہے کہ یہاں فعل یُقْتَلُوْا استعمال نہیں ہوا بلکہ یُقَتَّلُوْاہے کہ ان کے ٹکڑے کیے ‘ جائیں۔ اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ یعنی ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا ایک پاؤں کاٹا جائے۔

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 34 اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْہِمْ ج یعنی پکڑے جانے سے پہلے ایسے لوگ اگر توبہ کرلیں تو ان کے لیے رعایت کی گنجائش ہے ‘ لیکن جب پکڑ لیے گئے تو توبہ کا دروازہ بند ہوگیا۔ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ حضرت علی رض نے خوراج کے ساتھ یہی معاملہ کیا تھا کہ اگر تم اپنے غلط عقیدے کو اپنے تک رکھو تو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا ‘ لیکن اگر تم خونریزی کرو گے ‘ قتل و غارت کرو گے تو پھر تمہارے ساتھ رعایت نہیں کی ‘ جاسکتی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 آیت 35 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ یہاں لفظ وسیلہ قابل غور ہے اور اس لفظ نے کافی لوگوں کو پریشان بھی کیا ہے۔ لفظ وسیلہ اردو میں تو ذریعہ کے معنی میں آتا ہے ‘ یعنی کسی تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بنا لینا ‘ سفارش کے لیے کسی کو وسیلہ بنا لینا۔ لیکن عربی زبان میں وسیلہ کے معنی ہیں قرب۔ بعض الفاظ ایسے ہیں جن کا عربی میں مفہوم کچھ اور ہے جبکہ اردو میں کچھ اور ہے۔ جیسے لفظ ذلیل ہے ‘ عربی میں اس کے معنی کمزور جبکہ اردو میں کمینے کے ہیں۔ جیسا کہ ہم پڑھ آئے ہیں : وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج آل عمران : 123 یعنی اے مسلمانو ! یاد کرو اللہ نے تمہاری مدد کی تھی بدر میں جب کہ تم بہت کمزور تھے۔ اب اگر یہاں ذلیل کا ترجمہ اردو والا کردیا جائے تو ہمارے ایمان کے لالے پڑجائیں گے۔ اسی طرح عربی میں جہل کے معنی جذباتی ہونا ہے ‘ اَن پڑھ ہونا نہیں۔ ایک پڑھا لکھا شخص بھی جاہل یعنی جذباتی ‘ اکھڑ مزاج ہوسکتا ہے لیکن اردو میں جاہل عالم کا متضاد ہے ‘ یعنی جو اَن پڑھ ہو۔ اسی طرح کا معاملہ لفظ وسیلہ کا ہے۔ اس کا اصل مفہوم قرب ہے اور یہاں بھی یہی مراد لیا جائے گا۔ یہاں ارشاد ہوا ہے :اے ایمان والو ‘ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور آگے بڑھ کر اس کا قرب تلاش کرو تقویٰ کے معنی ہیں اللہ کے غضب سے ‘ اللہ کی ناراضگی سے اور اللہ کے احکام توڑنے سے بچنا۔ یہ ایک منفی محرک ہے ‘ جبکہ قرب الٰہی کی طلب ایک مثبت محرک ہے کہ اللہ کے نزدیک سے نزدیک تر ہوتے چلے جاؤ۔ لیکن اس کے قرب کا ذریعہ کیا ہوگا ؟وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔اس سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ تقرّب الی اللہ کے لیے جہاد کرو۔ تقویٰ شرط لازم ہے۔ یعنی پہلے جو حرام چیزیں ہیں ان سے اپنے آپ کو بچاؤ ‘ جن چیزوں سے روک دیا گیا ہے ان سے رک جاؤ اور اللہ کی نافرمانی سے باز آجاؤ۔ اور پھر اس کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کی راہ میں جدوجہد کرو۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 36 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ اَنَّ لَہُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہٗ مَعَہٗ لِیَفْتَدُوْا بِہٖ مِنْ عَذَابِ یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَا تُقُبِّلَ مِنْہُمْ ج یہ حکم گویا تعلیق بالمحال ہے کہ نہ ایسا ممکن ہے اور نہ ایسا ہوگا۔ لیکن بات کی سختی واضح کرنے کے لیے یہ انداز اپنایا گیا ہے اور آخری درجے میں وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر بالفرض ان کے پاس اتنی دولت موجود بھی ہو تب بھی اللہ کے ہاں ان کا فدیہ قبول نہیں ہوگا۔

يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ

📘 آیت 37 یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا ہُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْہَاز وَلَہُمْ عَذَابٌ مُّقِیْم یعنی ان کو مسلسل دائم اور قائم رہنے والا عذاب دیا جائے گا۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 38 وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا یعنی چور کا ایک ہاتھ کاٹ دو۔جَزَآءًً م بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ ط دیکھئے قرآن خود اپنی حفاظت کس طرح کرتا ہے اور کیوں چیلنج کرتا ہے کہ اس کلام پر باطل حملہ آور نہیں ہوسکتا کسی بھی جانب سے حٰآ السجدہ : 42۔ ذرا ملاحظہ کیجیے اس آیت کے ضمن میں غلام احمد پرویز صاحب کہتے ہیں کہ یہاں چور کا ہاتھ کاٹنے کا مطلب ہے کہ ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں کسی کو چوری کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ یہ تو ہم بھی چاہتے ہیں کہ ایسا نظام ہو ‘ ریاست کی طرف سے کفالت عامہ کی سہولت موجود ہو تاکہ کوئی شخص مجبوراً چوری نہ کرے ‘ لیکن فاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا کے الفاظ سے جو مطلب پرویز صاحب نے نکالا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اور اگر فرض کرلیں کہ ایسا ہی ہے تو پھر جَزَآءًًم بِمَا کَسَبَا یہ بدلہ ہے ان کی اپنی کمائی کا کی کیا تاویل ہوگی ؟ یعنی جو کمائی انہوں نے کی ہے اس کا بدلہ یہ ہے کہ ایک اچھا نظام قائم کردیا جائے ؟ اس کے بعد پھر نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ کے الفاظ مزید آئے ہیں۔ نکال کہتے ہیں عبرتناک سزا کو۔ تو کیا ایسے نظام کا قائم کرنا اللہ کی طرف سے عبرتناک سزا ہوگی ؟ آپ نے دیکھا قرآن کے معانی و مفہوم کی حفاظت کے لیے بھی الفاظ کے کیسے کیسے پہرے بٹھائے گئے ہیں !دراصل حدودو تعزیرات کے فلسفے کو سمجھنا بہت ضروری ہے اور اس کے لیے لفظ نکال بہت اہم ہے۔ قرآن میں تعزیرات اور حدود کے سلسلے میں یہ لفظ اکثر استعمال ہوا ہے۔ یعنی اگر سزا ہوگی تو عبرت ناک ہوگی۔ اسلام میں شہادت کا قانون بہت سخت رکھا گیا ہے۔ ذرا سا شبہ ہو تو اس کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے سزا کا نفاذ آسان نہیں۔ لیکن اگر تمام مراحل طے کر کے جرم پوری طرح ثابت ہوجائے تو پھر سزا ایسی دی جائے کہ ایک کو سزا ملے اور لاکھوں کی آنکھیں کھل جائیں تاکہ آئندہ کسی کو جرم کرنے کی ہمت نہ ہو۔ یہ فلسفہ ہے اسلامی سزاؤں کا۔ یہ درحقیقت ایک تسدید deterrence ہے جس کے سبب معاشرے سے برائی کا استیصال کرنا ممکن ہے۔ آج امریکہ جیسے نام نہاد مہذبّ معاشرے میں بھی آئے دن انتہائی گھناؤنے جرائم ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ احتساب اور سزا کا نظام درست نہیں۔ لوگ جرم کرتے ہیں ‘ سزا ہوتی ہے ‘ جیل جاتے ہیں ‘ کچھ دن وہاں گزارنے کے بعد واپس آتے ہیں ‘ پھر جرم کرتے ہیں ‘ پھر جیل چلے جاتے ہیں۔ جیل کیا ہے ؟ سرکاری مہمان داری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے معاشروں میں جرائم روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 39 فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ لیکن اس توبہ سے جرم کی سزا دنیا میں ختم نہیں ہوگی۔ یہ جرم ہے دنیا قانون کا اور گناہ ہے اللہ کا۔ جرم کی سزا دنیا میں ملے گی ‘ گناہ کی سزا اللہ نے دینی ہے ‘ اگر توبہ کرلی تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا اور اگر توبہ نہیں کی تو اس کی سزا بھی ملے گی۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ اسے حساب لینے میں دیر نہیں لگتی۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 40 اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ وَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اب یہاں پھر ذکر آ رہا ہے ان لوگوں کا جو دوغلی پالیسی پر کاربند تھے ‘ لیکن سورة البقرۃ کی طرح یہاں بھی روئے سخن قطعیت کے ساتھ واضح نہیں کیا گیا۔ لہٰذا اس کا انطباق منافقین پر بھی ہوگا اور اہل کتاب پر بھی۔ منافق اہل کتاب میں سے بھی تھے ‘ جن کا میلان اسلام کی طرف بھی تھا اور چاہتے بھی تھے کہ مسلمانوں میں شامل رہیں لیکن وہ اپنے ساتھیوں کو بھی چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ تو یہ لوگ جو مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِک کی مثال تھے ‘ یہ دونوں طرف کے لوگ تھے۔

۞ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 41 یٰٓاَ یُّہَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ ج۔ آپ ﷺ ان لوگوں کی سرگرمیوں اور بھاگ دوڑ سے غمگین اور رنجیدۂ خاطر نہ ہوں۔وَمِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا ج سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ لا لَمْ یَاْتُوْکَ ط یعنی ایک تو یہ لوگ اپنے شیاطین کی جھوٹی باتیں بڑی توجہ سے سنتے ہیں ‘ جیسے سورة البقرۃ آیت 14 میں فرمایا : وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّاج وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ لا قالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِءُ وْنَ پھر یہ لوگ ان کی طرف سے جاسوس بن کر مسلمانوں کے ہاں آتے ہیں کہ یہاں سے سن کر ان کو رپورٹ دے سکیں کہ آج محمد ﷺ نے یہ کہا ‘ آج آپ ﷺ کی مجلس میں فلاں معاملہ ہوا۔ سَمّٰعُوْنَ لِقَوْمٍ اٰخَرِیْنَ کا ترجمہ دونوں طرح سے ہوسکتا ہے : دوسری قوم کے لوگوں کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے ہیں یا سنتے ہیں دوسری قوم کے لوگوں کے لیے یعنی انہیں رپورٹ کرنے کے لیے ان کے جاسوس کی حیثیت سے۔ ان کے جو لیڈر اور شیاطین ہیں ‘ وہ آپ ﷺ کے پاس خود نہیں آتے اور یہ جو بین بین کے لوگ ہیں یہ آپ ﷺ کے پاس آتے ہیں اور ان کے ذریعے سے جاسوسی کا یہ سارا معاملہ چل رہا ہے۔یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ ج یَقُوْلُوْنَ اِنْ اُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَاِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا ط اہل کتاب کے سرداروں کو اگر کسی مقدمے کا فیصلہ مطلوب ہوتا تو اپنے لوگوں کو رسول ‘ اللہ ﷺ کے پاس بھیجتے اور پہلے سے انہیں بتا دیتے کہ اگر فیصلہ اس طرح ہو تو تم قبول کرلینا ‘ ورنہ رد کردینا۔ واضح رہے کہ مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست اور پورے طور پر ایک ہمہ گیر اسلامی حکومت دراصل فتح مکہ کے بعد قائم ہوئی اور یہ صورت حال اس سے پہلے کی تھی۔ ورنہ کسی ریاست میں دوہرا عدالتی نظام نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ یہ لوگ جب چاہتے اپنے فیصلوں کے لیے حضور ﷺ کے پاس آجاتے اور جب چاہتے کسی اور کے پاس چلے جاتے تھے۔ گویا بیک وقت دو متوازی نظام چل رہے تھے۔ اسی لیے تو وہ لوگ یہ کہنے کی جسارت کرتے تھے کہ یہ فیصلہ ہوا تو قبول کرلینا ‘ ورنہ نہیں۔وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط اور جس کو اللہ ہی نے فتنے میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو تو تم اس کے لیے اللہ کے مقابلے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے۔

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

📘 آیت 42 سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ للسُّحْتِ ط فَاِنْ جَآءُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ ج آپ ﷺ کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ آپ چاہیں تو ان کا مقدمہ سنیں اور فیصلہ کردیں اور چاہیں تو مقدمہ لینے ہی سے انکار کردیں ‘ کیونکہ ان کی نیت درست نہیں ہوتی اور وہ آپ ﷺ ‘ کا فیصلہ لینے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن یہ اندیشہ بھی تھا کہ وہ پراپیگنڈا کریں گے کہ دیکھو جی ہم تو گئے تھے محمد ﷺ کے پاس مقدمہ لے کر ‘ یہ کیسے نبی ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ کرنے کو ہی تیار نہیں ! اس ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور ﷺ کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ اس کی پرواہ نہ کریں۔وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ یَّضُرُّوْکَ شَیْءًا ط۔یعنی ان کے مخالفانہ پراپیگنڈے سے قطعاً فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 43 وَکَیْفَ یُحَکِّمُوْنَکَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰٹۃُ فِیْہَا حُکْمُ اللّٰہِ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہود کی بدنیتی کو بالکل بےنقاب کردیا ہے کہ اگر ان کی نیت درست ہو تو تورات سے راہنمائی حاصل کرلیں۔ثُمَّ یَتَوَلَّوْنَ مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَآ اُولٰٓءِکَ بالْمُؤْمِنِیْنَ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان سے تہی دست ہیں ‘ ان کے دل ایمان سے خالی ہیں۔ یہ ہے ان کا اصل ‘ روگ۔

إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

📘 سورة المائدۃ کا یہ ساتواں رکوع حسن اتفاق سے سات ہی آیات پر مشتمل ہے۔ اس میں بہت سخت تہدید ‘ تنبیہہ اور دھمکی ہے ان لوگوں کے لیے جو کسی آسمانی شریعت پر ایمان کے دعوے دار ہوں اور پھر اس کے بجائے کسی اور قانوں کے مطابق اپنی زندگی گزار رہے ہوں۔ قرآن حکیم کی طویل سورتوں میں کہیں کہیں تین تین آیتوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ملتے ہیں جو معانی و مفہوم کے لحاظ سے بہت جامع ہوتے ہیں ‘ جیسا کہ سورة آل عمران کی آیات 102 ‘ 103 اور 104 ہیں۔ ابھی سورة المائدۃ میں بھی تین آیات پر مشتمل نہایت جامع احکامات کا حامل ایک مقام آئے گا۔ اسی طرح کہیں کہیں سات سات آیات کا مجموعہ بھی ملتا ہے۔ جیسے سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع کی سات آیات 40 تا 46 بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں نہایت جامع ہیں۔ یہ دعوت کے ابتدائی انداز پر مشتمل ہیں اور دعوت کے باب میں بمنزلہ فاتحہ ہیں۔ اسی طرح قانون شریعت کی تنفیذ ‘ اس کی اہمیت اور اس سے پہلو تہی پر وعید کے ضمن میں زیر مطالعہ رکوع کی سات آیات نہایت تاکیدی اور جامع ہیں ‘ بلکہ یہ مقام اس موضوع پر قرآن حکیم کا ذروۂ سنام climax ہے۔آیت 44 اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْہَا ہُدًی وَّنُوْرٌ ج یَحْکُمُ بِہَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا ظاہر ہے کہ تمام انبیا کرام علیہ السلام خود بھی اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار تھے۔لِلَّذِیْنَ ہَادُوْا یعنی انبیا کرام علیہ السلام یہودیوں کے تمام فیصلے تورات شریعت موسوی کے مطابق کرتے تھے ‘ جیسا کہ حدیث میں ہے کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَاءِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ 1 یعنی بنی اسرائیل کی سیاست اور حکومت کے معاملات ‘ انتظام و انصرام ‘ انبیاء کے ہاتھ میں ہوتا تھا۔ اس لیے وہی ان کے مابین نزاعات کے فیصلے کرتے تھے۔وَالرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ ان کے ہاں اللہ والے صوفیاء اور علماء و فقہاء بھی تورات ہی کے مطابق فیصلے کرتے تھے۔بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ ُ انہیں ذمہ داری دی گئی تھی کہ انہیں کتاب اللہ کی حفاظت کرنی ہے۔وَکَانُوْا عَلَیْہِ شُہَدَآءَ ج فَلاَ تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً ط یعنی اللہ کا طے کردہ قانون موجود ہے ‘ اس کے مطابق فیصلے کرو۔ لوگوں کو پسند ہو یا ناپسند ‘ اس سے تمہارا بالکل کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ اب آرہی ہے وہ کانٹے والی بات :وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ ۔ بقول علامہ اقبالؔ ؂ ُ بتوں سے تجھ کو امیدیں ‘ خدا سے ناامیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے ؟

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 آیت 45 وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِض وَالْعَیْنَ بالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّلا وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ط کسی نے ایک شخص کا کان کاٹ دیا ‘ اب وہ جواباً اس کا کان کاٹنے کا حق دار ہے ‘ لیکن اگر وہ قصاص نہیں لیتا اور معاف کردیتا ہے تو اسے اپنے بہت سے گناہوں کا کفارہ بنا لے گا۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجرم کو جب معاف کردیا گیا تو اس کے ذمے سے وہ گناہ دھل گیا۔ّ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ اور ظالم یہاں بمعنی مشرک ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے : اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ لقمان : 13 اب دیکھئے ‘ ایک قانون اللہ کا ہے اور ایک انسانوں کا۔ پھر انسانوں کے بھی مختلف قوانین ہیں ‘ ایک Roman Law ہے ‘ ایک پاکستانی قانون ہے ‘ ایک رواج پر مبنی قانون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ فیصلہ کس قانون کے مطابق کر رہے ہیں ؟ اللہ کے قانون کے تحت یا کسی اور قانون کے مطابق ؟ اگر آپ نے اللہ کے قانون کے ساتھ ساتھ کسی اور قانون کو بھی مان لیا یا اللہ کے قانون کے مقابلے میں کسی اور قانون کو ترجیح دی تو یہ شرک ہے۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ

📘 آیت 45 وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَآ اَنَّ النَّفْسَ بالنَّفْسِض وَالْعَیْنَ بالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بالسِّنِّلا وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ ط فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ط کسی نے ایک شخص کا کان کاٹ دیا ‘ اب وہ جواباً اس کا کان کاٹنے کا حق دار ہے ‘ لیکن اگر وہ قصاص نہیں لیتا اور معاف کردیتا ہے تو اسے اپنے بہت سے گناہوں کا کفارہ بنا لے گا۔ اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجرم کو جب معاف کردیا گیا تو اس کے ذمے سے وہ گناہ دھل گیا۔ّ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ اور ظالم یہاں بمعنی مشرک ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم قرار دیا ہے : اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ لقمان : 13 اب دیکھئے ‘ ایک قانون اللہ کا ہے اور ایک انسانوں کا۔ پھر انسانوں کے بھی مختلف قوانین ہیں ‘ ایک Roman Law ہے ‘ ایک پاکستانی قانون ہے ‘ ایک رواج پر مبنی قانون ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ فیصلہ کس قانون کے مطابق کر رہے ہیں ؟ اللہ کے قانون کے تحت یا کسی اور قانون کے مطابق ؟ اگر آپ نے اللہ کے قانون کے ساتھ ساتھ کسی اور قانون کو بھی مان لیا یا اللہ کے قانون کے مقابلے میں کسی اور قانون کو ترجیح دی تو یہ شرک ہے۔

وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

📘 آیت 47 وَلْیَحْکُمْ اَہْلُ الْاِنْجِیْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْہِ ط وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ وہی تو سرکش ہیں ‘ وہی تو نافرمان ہیں ‘ وہی تو ناہنجار ہیں۔ غور کیجیے ایک رکوع میں تین دفعہ یہ الفاظ دہرائے گئے ہیں :وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ان آیات قرآنیہ کو سامنے رکھیے اور ملت اسلامیہ کی موجودہ کیفیت کا جائزہ لیجیے کہ دنیا میں کتنے ممالک ہیں ‘ جہاں اللہ کا قانون نافذ ہے ؟ آج روئے زمین پر کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شریعت اسلامی پورے طور پر نافذ ہو اور اسلام کا مکمل نظام قائم ہو۔ اگرچہ ہم انفرادی اعتبار سے مسلمان ہیں لیکن ہمارے نظام کافرانہ ہیں۔

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

📘 آیت 48 وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہ یہ کتاب تورات اور انجیل کی مصداق بھی ہے اور مصدق بھیّ۔ اور اس کی حیثیت کسوٹی کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہوگئی تھیں اب ان کی تصحیح اس کے ذریعے سے ہوگی۔ ِ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَل اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ عَمَّا جَآءَ کَ مِنَ الْحَقِّ ط لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ط جہاں تک شریعت کا تعلق ہے سب کو معلوم ہے کہ شریعت موسوی علیہ السلام شریعت محمدی ﷺ سے مختلف تھی۔ مزید برآں رسولوں کے منہاج طریق کار میں بھی فرق تھا۔ مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے منہاج میں ہم دیکھتے ہیں کہ آپ علیہ السلام ایک مسلمان امت بنی اسرائیل کے لیے بھیجے گئے تھے۔ وہ امت جو کہ دبی ہوئی تھی ‘ پسی ہوئی تھی ‘ غلام تھی۔ اس میں اخلاقی خرابیاں بھی تھیں ‘ دینی اعتبار سے ضعف بھی تھا ‘ وہ آل فرعون کے ظلم و ستم کا تختۂ مشق بنی ہوئی تھی۔ چناچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقصد بعثت میں یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک بگڑی ہوئی مسلمان امت کو کافروں کے تسلط اور غلبے سے نجات دلائیں۔ اس کا ایک خاص طریقہ کار اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں بتایا گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ایک مسلمان امت کے لیے مبعوث کیے گئے ‘ یعنی یہودیوں ہی کی طرف۔ اس قوم میں نظریاتی فتور آچکا تھا ‘ ان کے معاشرے میں اخلاقی و روحانی گراوٹ انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ ان کے علماء کی توجہ بھی دین کے صرف ظاہری احکام اور قانونی پہلوؤں پر رہ گئی تھی اور وہ اصل مقاصد دین کو بھول چکے تھے۔ دین کی اصل روح نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی۔ اس سارے بگاڑ کی اصلاح کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک خاص منہج ‘ ایک خاص طریقہ کار عطا فرمایا۔ محمد رٌسول اللہ ﷺ کو ان لوگوں میں مبعوث کیا گیا جو مشرک تھے ‘ اَن پڑھ تھے ‘ کسی نبی کے نام سے ناواقف تھے سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے۔ ان کا احترام بھی وہ اپنے جد امجدّ کے طور پر کرتے تھے ‘ ایک نبی کے طور پر نہیں۔ کوئی شریعت ان میں موجود نہیں تھی ‘ کوئی کتاب ان کے پاس نہیں تھی۔ گویا ضَلَّ ضَلَالاً بَعِیْدًاکی مجسّم تصویر ! آپ ﷺ نے اپنی دعوت و تبلیغ کے ذریعے ان میں سے صحابہ کرام رض کی ایک عظیم جماعت پیدا کی ‘ انہیں حزب اللہ بنایا ‘ اور پھر اس جماعت کو ساتھ لے کر آپ ﷺ نے کفر ‘ شرک اور ائمہ کفر کے خلاف جہاد و قتال کیا ‘ اور بالآخر اللہ کے دین کو اس معاشرے میں قائم کردیا۔ یہ منہاج ہے محمد رسول اللہ ﷺ کا۔ تو یہ مفہوم ہے اس آیت کا لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا ط ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک منہاج طریقہ کار ‘ منہج عمل مقرر کیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت بہت اہم ہے۔وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰکِنْ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰٹکُمْ یعنی اللہ کی حکمت اس کی متقاضی ہوئی کہ جس کو جو جو کچھ دیا گیا ہے اس کے حوالے سے اس کو آزمائے۔ چناچہ اب ہمارے لیے اصل اسوہ نہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں اور نہ ہی حضرت ‘ عیسیٰ علیہ السلام ‘ بلکہ لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ الاحزاب : 21 کے مصداق ہمارے لیے اسوہ ہے تو صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اگر شادی نہیں کی تو یہ ہمارے لیے اسوہ نہیں ہے۔ ہمیں تو حضور ﷺ کے فرمان کو پیش نظر رکھنا ہے ‘ جنہوں نے فرمایا : اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِی 1 اور پھر فرمایا : فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّی 2۔ تو واقعہ یہ ہے کہ تمام انبیاء اللہ ہی کی طرف سے مبعوث تھے ‘ اور ہر ایک کے لیے جو بھی طریقہ اللہ تعالیٰ نے مناسب سمجھاوہ ان کو عطا کیا ‘ البتہ ہمارے لیے قابل تقلید منہاج نبوی ﷺ ہے۔ اب ہم پر فرض ہے کہ اس منہج انقلاب نبوی ﷺ کا گہرا شعور حاصل کریں ‘ پھر اس راستے پر اسی طرح چلیں جس طرح حضور ﷺ چلے۔ جس طرح آپ ﷺ نے دین کو قائم کیا ‘ غالب کیا ‘ ایک نظام برپا کیا ‘ پھر اس نظام کے تحت اللہ کا قانون نافذ کیا ‘ اسی طرح ہم بھی اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔

وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ

📘 آیت 49 وَاَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ اَہْوَآءَ ہُمْ آج ہمارا کیا حال ہے ؟ ہم کن لوگوں کی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں ؟ آج ہم احکام الٰہی کو پس پشت ڈال کر اپنے سیاسی پیشواؤں کی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں۔ وہ جو چاہتے ہیں قانون بنا دیتے ہیں ‘ جو چاہتے ہیں فیصلہ کردیتے ہیں اور پوری قوم اس کی پابند ہوتی ہے۔ ہم اس جال سے اسی صورت میں نکل سکتے ہیں کہ ایک زبردست جماعت بنائیں ‘ طاقت پیدا کریں ‘ ایک بھر پور تحریک اٹھائیں ‘ قربانیاں دیں ‘ جانیں لڑائیں تاکہ یہ موجودہ نظام تبدیل ہو ‘ اللہ کا دین قائم ہو ‘ اور پھر اس دین کے مطابق ہمارے فیصلے ہوں۔ یہاں حضور ﷺ کو ایک بار پھر سے تاکید کی جا رہی ہے کہ آپ ﷺ ان کی خواہشات کی پیروی مت کیجیے اور اللہ کے احکام کے مطابق فیصلے کیجیے۔وَاحْذَرْہُمْ اَنْ یَّفْتِنُوْکَ عَنْم بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکَ ط۔یعنی ہر طرف سے دباؤ آئے گا ‘ لیکن آپ ﷺ کو ثابت قدمی سے کھڑے رہنا ہے اس شریعت پر جو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر نازل فرمائی ہے۔فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ ط یہ دراصل لرزا دینے والا مقام ہے۔ اگر ہم اپنے اس ملک کے اندر اسلام کو قائم نہیں کرتے اور ہماری ساری کوششوں کے باوجود دین نافذ نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے عذاب کا کوئی کوڑا مقدرّ ہوچکا ہے۔ واضح الفاظ میں فرمایا جارہا ہے کہ اگر وہ اللہ کے احکامات سے ُ منہ موڑیں ‘ شریعت کے فیصلوں کا انکار کریں تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ در حقیقت ان کے گناہوں کی پاداش میں ان پر عذاب نازل کرنا چاہتا ہے اور اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیْدٌ البروج کے مصداق انہیں کوئی سزادینا چاہتا ہے۔

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 آیت 5 اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ ط یہ وہی اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔۔ والا انداز ہے۔ یعنی اس سے پہلے اگر مختلف مذاہب کے احکام کی وجہ سے ‘ یہود کی شریعت یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی ذاتی پسند و ناپسند کی بنا پر اگر کوئی رکاوٹیں پیدا ہوگئی تھیں یا معاشرے میں رائج مشرکانہ رسومات و اوہام کی وجہ سے تمہارے ذہنوں میں کچھ الجھنیں تھیں تو آج ان سب کو صاف کیا جا رہا ہے اور آج تمہارے لیے تمام صاف ستھری اور پاکیزہ چیزوں کے حلال ہونے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ ۔لیکن یہ صرف اس صورت میں ہے کہ وہ کھانا اصلاً حلال ہو ‘ کیونکہ اگر ایک عیسائیُ سؤر کھا رہا ہوگا تو وہ ہمارے لیے حلال نہیں ہوگا۔ اس کھانے میں ان کا ذبیحہ بھی شامل ہے ‘ دو بنیادی شرائط کے ساتھ : ایک یہ کہ جانور حلال ہو اور دوسرے یہ کہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو۔ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ یعنی مسلمان مرد عیسائی یا یہودی عورت سے شادی کرسکتا ہے۔ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ مُحْصِنِیْنَ نیت یہ ہو کہ تم نے ان کو اپنے گھر میں بسانا ہے ‘ مستقل طور پر ایک خاندان کی بنیاد رکھنی ‘ ہے۔ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَلاَ مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ ط بلکہ معروف طریقے سے علی الاعلان نکاح کر کے تم انہیں اپنے گھروں میں آباد کرو اور ان کے محافظ بنو۔ اس ضمن میں بعض اشکالات کا رفع کرنا ضروری ہے۔ جہاں تک شریعت اسلامی کا حکم ہے تو شریعت رسول اللہ ﷺ پر مکمل ہوچکی ہے ‘ اب اس میں تغیر و تبدل ممکن نہیں۔ اس لحاظ سے یہ قانون اپنی جگہ قائم ہے اور قائم رہے گا۔ یہ تو ہے اس کا جواز ‘ البتہ اگر آج اس کے خلاف کسی کو کوئی مصلحت نظر آتی ہے تو وہ اپنی جگہ درست ہوسکتی ہے ‘ لیکن اس کے باوجود قانون کو بدلا نہیں جاسکتا۔ البتہ اگر ایک خالص اسلامی ریاست ہو تو حالات کی سنگینی کے پیش نظر کچھ عرصے کے لیے کسی ایسی اجازت یا حکم کو موقوف کیا جاسکتا ہے۔ جیسے حضرت عمر رض نے ایک مرتبہ اپنے زمانے میں قحط کے سبب قطع ید ہاتھ کاٹنے کی سزا کو موقوف کردیا تھا۔ اس طرح کسی قانون میں اسلامی حکومت کے کسی عارضی انتظامی حکم Executive Order کے ذریعے سے کوئی عارضی تبدیلی کی جاسکتی ہے۔ مزیدبرآں اس اجازت کے پس منظر میں جو فلسفہ اور حکمت ہے اس کی اصل روح کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ یہ اجازت صرف مسلمان مردوں کو دی گئی ہے کہ وہ عیسائی یا یہودی عورتوں سے شادی کرسکتے ہیں ‘ مسلمان عورت عیسائی یا یہودی مرد سے شادی نہیں کرسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مرد عورت پر غالب ہوتا ہے ‘ لہٰذا امکان غالب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو اسلام کی طرف راغب کرلے گا۔ دوسرے یہ کہ اس زمانے میں یہّ بات مسلمہ تھی کہ اولاد مرد کی ہے ‘ اور مرد کے غالب اور فعالّ ہونے کا مطلب تھا کہ ایسے میاں بیوی کی اولاد عیسائی یا یہودی نہیں بلکہ مسلمان ہوگی۔ اس وقت ویسے بھی مسلمانوں کا غلبہ تھا اور یہودی اور عیسائی ان کے تابع ہوچکے تھے۔ آج کل حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں۔ آج عیسائی اور یہودی غالب ہیں ‘ جبکہ مسلمان انتہائی مغلوب۔ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست میں عورتوں کا غلبہ ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسی شادیاں نہ ہوں ‘ لیکن بہرحال ان کو حرام نہیں کہا جاسکتا ‘ کیونکہ اس کے جواز کا واضح حکم موجود ہے۔ ہاں اگر کوئی اسلامی ریاست کہیں قائم ہوجائے تو وہ عارضی طور پر جب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہ آجائے اس اجازت کو منسوخ کرسکتی ہے۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ ز اس میں اشارہ اہل کتاب کی طرف بھی ہوسکتا ہے کہ جب تکٌ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف نہیں لائے تھے تب تک وہ اہل ایمان تھے لیکن اب اگر وہ نبی آخر الزماں ﷺ پر ایمان نہیں لا رہے تو گویا وہ کفر کر رہے ہیں۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایمان کا مدعی ہو کر کافرانہ حرکتیں کرے تو اس کے تمام اعمال ضائع ہوجائیں گے۔

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

📘 آیت 50 اَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ ط جاہلیت سے مراد حضور ﷺ کی بعثت سے پہلے کا دور ہے۔ یعنی کیا قانونِ الٰہی نازل ہوجانے کے بعد بھی یہ لوگ جاہلیت کے دستور ‘ اپنی روایات اور اپنی رسومات پر عمل کرنا چاہتے ہیں ؟ جیسا کہ ہندوستان میں مسلمان زمیندار انگریز کی عدالت میں کھڑے ہو کر کہہ دیتے تھے کہ ہمیں اپنی وراثت کے مقدمات میں شریعت کا فیصلہ نہیں چاہیے بلکہ رواج کا فیصلہ چاہیے۔وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ اللہ تعالیٰ ہمیں اس یقین اور ایمان حقیقی کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ آمین !

۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 51 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ط ان میں سے بعض بعض کے پشت پناہ اور مددگار ہیں۔ یہ درحقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو اس دور میں آکر پوری ہوئی ہے۔ جب قرآن نازل ہوا تو صورت حال وہ تھی جو ہم قبل ازیں اس سورة کی آیت 14 میں پڑھ آئے ہیں : فَاَغْرَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط پس ہم نے ان کے مابین عداوت اور بغض کی آگ بھڑکا دی روز قیامت تک کے لیے۔ چناچہ عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین ہمیشہ شدید دشمنی رہی ہے اور آپس میں کشت و خون ہوتا رہا ہے ‘ لیکن زیر نظر الفاظ بَعضُھُمْ اَوْلیَاءُ بَعْضٍ میں جو پیشین گوئی تھی وہ بیسویں صدی میں آکر پوری ہوئی ہے۔ بالفور ڈیکلریشن 1917 ء کے بعد کی صورت حال میں ان کا باہمی گٹھ جوڑ شروع ہوا ‘ جس کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکہ کے زیراثر اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی ‘ اور اب بھی اگر وہ قائم ہے تو اصل میں انہی عیسائی ملکوں کی پشت پناہی کی وجہ سے قائم ہے۔ عیسائی اب یہودیوں کی اس لیے پشت پناہی کر رہے ہیں کہ ان کی ساری معیشت یہودی بینکاروں کے زیر تسلط ہے۔ عیسائیوں کی معیشت پر یہودیوں کے قبضہ کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ اس درجہ مستحکم ہوچکا ہے کہ آج عیسائیوں کی پوری عسکری طاقت یہودیوں کی پشت پر ہے۔ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ ط۔یعنی جو کوئی ان سے دوستی کے معاہدے کرے گا ‘ ان سے نصرت و حمایت کا طلب گار ہوگا ‘ ہماری نگاہوں میں وہ یہودی یا نصرانی شمار ہوگا۔ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ آج ہمارے اکثر مسلمان ممالک کی پالیسیاں کیا ہیں اور اس سلسلے میں قرآن کا فتویٰ کیا ہے ‘ وہ آپ کے سامنے ہے۔

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ

📘 آیت 52 فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یُسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ فلاں ملک سے دوستی کا معاہدہ ‘ فلاں سے مدد کی درخواست ‘ فلاں سے حمایت کی توقع ‘ ان کی ساری بھاگ دوڑ ‘ تگ و دو ‘ خارجہ پالیسی یُسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ کی عملی تصویر ہے۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں روگ یعنی نفاق ہے۔ اگر اللہ پر ایمان ہو ‘ اعتماد اور یقین ہو ‘ اس سے خلوص اور اخلاص کا رشتہ ہو تو پھر اسی سے نصرت و حمایت کی امید ہو اور اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ محمد : 7 کے وعدے پر یقین ہو !یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآءِرَۃٌ ط۔ یعنی ہم یہود و نصاریٰ سے اس لیے تعلقات استوار کر رہے ہیں کہ کل کلاں کسی نا گہانی آفت سے بچ سکیں۔فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِہِ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ جن کی دوستی کا سہارا انہوں نے اپنے زعم میں لے رکھا تھا وہی انہیں دھوکا دے رہے ہیں ‘ ع جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے !

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ

📘 آیت 53 وَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَہٰٓؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْلا اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ ط حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ اب جو تین آیتیں آرہی ہیں ان میں ان اہل ایمان کا ذکر ہے جو پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ اللہ کے راستے میں جدوجہد کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی توفیق دے کہ کمرہمتِ کس کر اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰہمارے دلوں میں یہ احساس پیدا فرما دے کہ اس کی شریعت کو نافذ کرنا ہے اور الکافِرون ‘ الظالِمُون اور الفاسِقون المائدۃ : 44 ‘ 45 اور 47 کی صفوں سے باہر نکلنا ہے۔ اس طرح کیّ جدوجہد میں محنت کرنا پڑتی ہے ‘ مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں ‘ تکالیف سہنا پڑتی ہیں۔ ایسے حالات میں بعض اوقات انسان کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور عزم و ہمت میں کچھ کمزوری آنے لگتی ہے۔ ایسے موقع پر اس راہ کے مسافروں کی ایک خاص ذہنی اور نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ تین آیات نہایت اہم اور جامع ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 54 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ یہاں پر جو لفظ یَرْتَدَّ آیا ہے اس کے مفہوم میں ایک تو قانونی اور ظاہری ارتداد ہے۔ جیسے ایک شخص اسلام کو چھوڑ کر کافر ہوجائے ‘ یہودی یا نصرانی ہوجائے۔ یہ تو بہت واضح قانونی ارتداد ہے ‘ لیکن ایک باطنی ارتداد بھی ہے ‘ یعنی الٹے پاؤں پھرنے لگنا ‘ پسپائی اختیار کرلینا۔ اوپر اسلام کا لبادہ تو جوں کا توں ہے ‘ لیکن فرق یہ واقع ہوگیا ہے کہ پہلے غلبۂ دین کی جدوجہد میں لگے ہوئے تھے ‘ محنتیں کر رہے تھے ‘ وقت لگا رہے تھے ‘ ایثار کر رہے تھے ‘ انفاق کر رہے تھے ‘ بھاگ دوڑ کر رہے تھے ‘ اور اب کوئی آزمائش آئی ہے تو ٹھٹک کر کھڑے رہ گئے ہیں۔ جیسے سورة البقرۃ آیت 20 میں ارشاد ہے : کُلَّمَا اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط جب ذرا روشنی ہوتی ہے ان پر تو اس میں کچھ چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب کیفیت یہ ہے کہ نہ صرف کھڑے رہ گئے ہیں بلکہ کچھ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ ایسی کیفیت کے بارے میں فرمایا گیا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ اللہ تمہارا محتاج ہے ‘ بلکہ تم اللہ کے محتاج ہو۔ تمہیں اپنی نجات کے لیے اپنے اس فرض کو ادا کرنا ہے۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہٹائے گا اور کسی دوسری قوم کو لے آئے گا ‘ کسی اور کے ہاتھ میں اپنے دین کا جھنڈا تھما دے گا۔یہاں پر مؤمنین صادقین کے اوصاف کے ضمن میں جو تین جوڑے آئے ہیں ان پر ذرا دوبارہ غور کریں :1 یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اللہ ان سے محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُم ! 2 اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَز وہ اہل ایمان کے حق میں بہت نرم ہوں گے ‘ کافروں پر بہت سخت ہوں گے۔ یہی مضمون سورة الفتح آیت 29 میں دوسرے انداز سے آیا ہے : اَشِدِّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ آپس میں بہت رحیم و شفیق ‘ کفار پر بہت سخت۔ بقول اقبالؔ : ؂ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مؤمن !3 یُجَاھِدُوْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ءِمٍ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہیں کریں گے۔ ان کے رشتہ دار ان کو سمجھائیں گے ‘ دوست احباب نصیحتیں کریں گے کہ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا ؟ تم fanatic ہوگئے ہو ؟ تمہیں اولاد کا خیال نہیں ‘ اپنے مستقبل کی فکر نہیں ! مگر یہ لوگ کسی کی کوئی پروا نہیں کریں گے ‘ بس اپنی ہی دھن میں مگن ہوں گے۔ اور ان کی کیفیت یہ ہوگی : ؂واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی خیریت جاں ‘ راحتِ تن ‘ صحت داماں سب بھول گئیں مصلحتیں اہل ہوس کی اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے سو گزری تنہا پس زنداں ‘ کبھی رسوا سر بازار کڑکے ہیں بہت شیخ سر گوشۂ منبر گرجے ہیں بہت اہل حکم بر سر دربار چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرز ملامت اِس عشق ‘ نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت !یہ ایک کردار ہے جس کو واضح کرنے کے لیے دو دو اوصاف کے یہ تین جوڑے آئے ہیں۔ ان کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمیں اس کردار کو عملاً اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ اللہ کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ اگر تم اپنے بھائیوں ‘ عزیزوں ‘ دوستوں ‘ ساتھیوں اور رفیقوں کو دیکھتے ہو کہ ان پر اللہ کا بڑا فضل ہوا ہے ‘ انہوں نے کیسے کیسے مرحلے َ سر کرلیے ہیں ‘ کیسی کیسی بازیاں جیت لیں ہیں ‘ تو تم بھی اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔ اللہ تمہیں بھیّ ہمت دے گا۔ اس لیے کہ اس دین کے کام میں اس قسم کا رشک بہت پسندیدہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رض کو ‘ رشک آیاحضرت ابوبکر صدیق رض پر۔ جب غزوۂ تبوک کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا حکم دیا تو آپ رض نے سوچا کہ آج تو میں ابوبکر رض سے بازی لے جاؤں گا ‘ کیونکہ اتفاق سے اس وقت میرے پاس خاصا مال ہے۔ چناچہ انہوں رض نے اپنے پورے مال کے دو برابر حصے کیے ‘ اور پورا ایک حصہ یعنی آدھا مال لا کر حضور ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق رض کے گھر میں جو کچھ تھا وہ سب لے آئے۔ یہ دیکھ کر حضرت عمر رض نے کہا میں نے جان لیا کہ ابوبکر رض سے آگے کوئی نہیں بڑھ سکتا۔ تو دین کے معاملے میں اللہ کا حکم ہے : فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ المائدۃ : 48 یعنی نیکیوں میں ‘ خیر میں ‘ بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہو !اب پھر اہل ایمان کو دوستانہ تعلقات کے معیار کے بارے میں خبردار کیا جا رہا ہے۔ اہل ایمان کی دلی دوستی کفار سے ‘ یہود ہنود اور نصاریٰ سے ممکن ہی نہیں ‘ اس لیے کہ یہ ایمان کے منافی ہے۔ اگر دین کی غیرت و حمیت ہوگی ‘ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت دل میں ہوگی تو ان کے دشمنوں سے دلی دوستی ہو ہی نہیں سکتی۔

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ

📘 آیت 55 اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا تمہارے دوست ‘ پشت پناہ ‘ حمایتی ‘ معتمد اور راز دار تو بس اللہ ‘ اس کا رسول ﷺ اور اہل ایمان ہیں۔ اور یہ اہل ایمان بھی پیدائشی اور قانونی مسلمان نہیں ‘ بلکہ : َ الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ ۔یہاں وَہُمْ رٰکِعُوْنَ کا مطلب وہ رکوع کرتے ہیں صحیح نہیں ہے۔ یہ درحقیقت زکوٰۃ دینے کی کیفیت ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں فروتنی کرتے ہوئے۔ ہم سورة البقرۃ آیت 273 میں پڑھ آئے ہیں کہ سب سے بڑھ کر انفاق فی سبیل اللہ کے مستحق کون لوگ ہیں : لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔۔ جو اللہ کے دین کے لیے ہمہ وقت اور ہمہ تن مصروف ہیں اور ان کے پاس اب اپنی معاشی جدوجہدّ کے لیے وقت نہیں ہے۔ لیکن وہ فقیر تو نہیں کہ آپ سے جھک کر مانگیں ‘ یہ تو آپ کو جھک کر ‘ فروتنی کرتے ہوئے ان کی مدد کرنا ہوگی۔ آپ انہیں دیں اور وہ قبول کرلیں تو آپ کو ان کا ممنون احسان ہونا چاہیے۔

وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ

📘 آیت 56 وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یوں سمجھ لیں کہ یہاں یہ فقرہ محذوف ہے : تو وہ شامل ہوجائے گا حزب اللہ اللہ کی پارٹی میں۔فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ یہ شرائط پہلے پوری کی جائیں ‘ ان تمام معیارات پر پورا اترا جائے ‘ اللہ تعالیٰ کے وعدے پر ایمان رکھا جائے ‘ تو پھر یقیناً حزب اللہ ہی غالب رہے گی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 57 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ ج پھر وہی بات فرمائی گئی کہ مشرکین اور اہل کتاب میں سے کسی کو اپنا ولی اور دوست نہ بناؤ۔

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ

📘 آیت 58 وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ط۔یعنی اذان کی آواز سن کر اس کی نقلیں اتارتے ہیں اور تمسخر کرتے ہیں۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ

📘 آیت 58 وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ط۔یعنی اذان کی آواز سن کر اس کی نقلیں اتارتے ہیں اور تمسخر کرتے ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَٰكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 6 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصّلٰوۃِ یعنی نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو۔وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ ط یہاں پر واضح رہے کہ اَرْجُلَکُمْ اور اَرْجُلِکُمْ دونوں قراءتیں مستند ہیں ‘ لہٰذا اہل تشیّع اس کو مستقلاً ‘ اَرْجُلِکُمْپڑھتے ہیں اور ان کے نزدیک اس میں پاؤں پر مسح کا حکم ہے۔ چناچہ وہ وَامْسَحُوْا بِرُءُ وْسِکُم وَاَرْجُلِکُمْ کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں : اور مسح کرلیا کرو اپنے سروں پر بھی اور اپنے پاؤں پر بھی۔ لیکن اہل سنت کے نزدیک یہ اَرْجُلَکُمہے اور اِلَی الْکَعْبَیْنِکے اضافے سے یہاں پاؤں کو دھونے کا حکم بالکل واضح ہوگیا ہے۔ اگر صرف مسح کرنا مطلوب ہوتا تو اس میں کوئی حد بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا اِلَی الْکَعْبَیْن کی شرط سے یہ ٹکڑا فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِق کے بالکل مساوی ہوگیا ہے۔ جیسے ہاتھوں کا دھونا ہے کہنیوں تک ‘ ایسے ہی پاؤں کا دھونا ہے ٹخنوں تک۔ اس حکم میں وضو کے فرائض بیان ہوئے ہیں۔وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوْا ط یعنی پورے جسم کا غسل کرو۔ جنابت کی حالت میں نماز پڑھنا یا قرآن کو ہاتھ لگانا جائز نہیں۔وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضآی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآءِطِ یہ استعارہ ہے قضائے حاجت کے لیے۔ عام طور پر لوگ قضائے حاجت کے لیے نشیبی جگہوں پر جاتے تھے۔ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا یعنی پاک مٹی سے تیمم کرلیا کرو۔

قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ

📘 آیت 58 وَاِذَا نَادَیْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ط۔یعنی اذان کی آواز سن کر اس کی نقلیں اتارتے ہیں اور تمسخر کرتے ہیں۔

وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ

📘 آیت 61 وَاِذَا جَآءُ وْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَقَدْ دَّخَلُوْا بالْکُفْرِ وَہُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ ط میرے نزدیک یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر سورة آل عمران آیت 72 میں آیا ہے ‘ جنہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ۔ ان کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ کفر کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور کفر کے ساتھ ہی نکلے ہیں ‘ ایک لمحہ کے لیے بھی انہیں ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ شعوری طور پر فیصلہ کرچکے تھے کہ رہنا تو ہمیں اپنے دین پر ہے ‘ لیکن اسلام کی جو ساکھ بن گئی ہے اس کو نقصان پہنچانے کی خاطر ہم یہ دھوکہ اور سازش کرر ہے ہیں۔

وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 61 وَاِذَا جَآءُ وْکُمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَقَدْ دَّخَلُوْا بالْکُفْرِ وَہُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِہٖ ط میرے نزدیک یہ ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر سورة آل عمران آیت 72 میں آیا ہے ‘ جنہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ۔ ان کے بارے میں یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ کفر کے ساتھ داخل ہوئے تھے اور کفر کے ساتھ ہی نکلے ہیں ‘ ایک لمحہ کے لیے بھی انہیں ایمان کی حلاوت نصیب نہیں ہوئی۔ وہ شعوری طور پر فیصلہ کرچکے تھے کہ رہنا تو ہمیں اپنے دین پر ہے ‘ لیکن اسلام کی جو ساکھ بن گئی ہے اس کو نقصان پہنچانے کی خاطر ہم یہ دھوکہ اور سازش کرر ہے ہیں۔

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

📘 آیت 63 لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط آج ہمارے ہاں بھی اکثر و بیشتر پیر اپنے مریدوں کو حرام خوری سے منع نہیں کرتے۔ انہیں اس میں سے نذرانے مل جانے چاہئیں ‘ اللہ اللہ خیر سلا۔ کہاں سے کھایا ؟ کیسے کھایا ؟ اس سے کوئی بحث نہیں۔ حالانکہ اللہ والوں کا کام تو برائی سے روکنا ہے ‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

📘 آیت 64 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ ط۔ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی رحمت جو ہمارے لیے تھی وہ بند ہوگئی ہے ‘ نبوت کی رحمت ہمارے لیے مختص تھی اور اب یہ دست رحمت ہماری طرف سے بند ہوگیا ہے۔ یا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے جو منافقین کہا کرتے تھے کہ اللہ ہم سے قرض حسنہ مانگتا ہے تو گویا اللہ فقیر ہوگیا ہے نعوذ باللہ اور ہم اغنیاء ہیں۔ جواب میں فرمایا گیا :غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں یا بندھ جائیں ان کے ہاتھ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا 7 بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآءُ ط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ط یعنی ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت پر مبنی اس کلام کی مخالفت شروع کردی ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسے جیسے جو جو احسانات بھی آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر ہو رہے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو غنیمتیں دے رہا ہے ‘ دین کو رفتہ رفتہ جو غلبہ حاصل ہو رہا ہے ‘ اس کے حسد کے نتیجے میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد تو خاص طور پر عرب کے اندر بہت تیزی کے ساتھ صورتحال بدلنی شروع ہوگئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ یہ لوگ سمجھ جاتے کہ واقعی یہ اللہ کی طرف سے حق ہے اور یک سو ہو کر اس کا ساتھ دیتے ‘ ان کے اندر کی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ لا جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے یہودی اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے۔ خاص طور پر غزوۂ احزاب تو ان ہی کی سازشوں کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ مدینے کے یہودی قبائلِ عرب کے پاس جا جا کر ‘ اِدھر ادھر وفد بھیج کر لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ آؤ تم باہر سے حملہ کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ ان کی انہی سازشوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ

📘 آیت 64 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ ط۔ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی رحمت جو ہمارے لیے تھی وہ بند ہوگئی ہے ‘ نبوت کی رحمت ہمارے لیے مختص تھی اور اب یہ دست رحمت ہماری طرف سے بند ہوگیا ہے۔ یا اس کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے جو منافقین کہا کرتے تھے کہ اللہ ہم سے قرض حسنہ مانگتا ہے تو گویا اللہ فقیر ہوگیا ہے نعوذ باللہ اور ہم اغنیاء ہیں۔ جواب میں فرمایا گیا :غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ ان کے ہاتھ بندھ گئے ہیں یا بندھ جائیں ان کے ہاتھ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا 7 بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآءُ ط وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ط یعنی ضد میں آکر انہوں نے حق و صداقت پر مبنی اس کلام کی مخالفت شروع کردی ہے۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جیسے جیسے جو جو احسانات بھی آپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کے ساتھیوں پر ہو رہے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو جو غنیمتیں دے رہا ہے ‘ دین کو رفتہ رفتہ جو غلبہ حاصل ہو رہا ہے ‘ اس کے حسد کے نتیجے میں ان کی ضد اور ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ صلح حدیبیہ کے بعد تو خاص طور پر عرب کے اندر بہت تیزی کے ساتھ صورتحال بدلنی شروع ہوگئی تھی۔ اس کے نتیجے میں بجائے اس کے کہ یہ لوگ سمجھ جاتے کہ واقعی یہ اللہ کی طرف سے حق ہے اور یک سو ہو کر اس کا ساتھ دیتے ‘ ان کے اندر کی جلن اور حسد کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ وَاَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ط کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ لا جنگ کی آگ بھڑکانے کے لیے یہودی اکثر سازشیں کرتے رہتے تھے۔ خاص طور پر غزوۂ احزاب تو ان ہی کی سازشوں کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ مدینے کے یہودی قبائلِ عرب کے پاس جا جا کر ‘ اِدھر ادھر وفد بھیج کر لوگوں کو جمع کرتے تھے کہ آؤ تم باہر سے حملہ کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ ان کی انہی سازشوں کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ ۚ مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ

📘 جو آیت آگے آرہی ہے اس پر غور کیجیے اور اسے خود پر بھی منطبق کر کے ذرا سوچئے۔آیت 66 وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط یعنی ہم نے انہیں تورات اس لیے دی تھی کہ اس کے احکامات کو نافذ کیا جائے۔ اسی سورت کے ساتویں رکوع آیات 44 تا 50 میں اس کا مفصّل ذکر ہم پڑھ آئے ہیں کہ کس طرح انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اپنے فیصلے تورات کے احکامات کے مطابق کرو۔ اس سے اگلا مرحلہ اس پورے نظام کے نفاذ کا تھا جو تورات نے دیا تھا۔ اسی طرح ہم پر بھی فرض ہے کہ ہم نے قرآن کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے ‘ کہ اگر انہوں نے اللہ کا وہ نظام قائم کیا ہوتا تو ان کے اوپر سے بھی ان کے رب کی طرف سے نعمتوں کی بارش ہوتی اور ان کے قدموں کے نیچے سے بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے دھارے پھوٹتے۔مِنْہُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ ط وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ سَآءَ مَا یَعْمَلُوْنَ ان کا عمل اور رویہ نہایت غلط ہے۔

۞ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 67 یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ بہت سخت آیت ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اگر وحی میں کہیں رسول اللہ ﷺ پر تنقید نازل ہوئی ہے تو وہ بھی قرآن میں جوں کی توں موجود ہے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ ایسی چیزوں کو چھپالیا گیا ہو۔ تیسویں پارے میں سورة عبس کی ابتدائی آیات عَبَسَ وَتَوَلّٰیٓ۔ اَنْ جَآءَ ہُ الْاَعْمٰی۔ بھی ویسے ہی موجود ہیں جیسے نازل ہوئی تھیں۔ سورة آل عمران میں بھی ہم پڑھ کر آئے ہیں کہ حضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا : لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِشَیْءٌ۔۔ آیت 128۔ اس طرح کی آیات اپنی جگہ پر من وعن موجود ہیں ‘ اور یہ قرآن کے محفوظ من اللہ ہونے پر حجت ہیں۔ آیت زیر نظر میں تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ وحئ الٰہی میں سے کوئی چیز کسی وجہ سے پہنچنے سے رہ نہ جائے۔ لوگوں کے خوف سے یا اپنی کسی مصلحت کی وجہ سے بالفرض اگر ایسا ہوا تو گویا آپ ﷺ فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کوتاہی کا ثبوت دیں گے۔ اَلْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی ‘ وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّل ! وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ط آپ کو لوگوں سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 68 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلَی شَیءٍ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ کوئی مقام نہیں ہے ‘ کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے ‘ تم ہم سے ہم ‘ کلام ہونے کے مستحق نہیں ہو۔ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّورٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط۔اب اپنے لیے اس آیت کو آپ اس طرح پڑھ لیجیے : یٰٓاَہْلَ الْقُرآنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْءٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْآنَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْاے قرآن کے ماننے والو ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔۔ تم سمجھتے ہو کہ ہم امت مسلمہ ہیں ‘ اللہ والے ہیں ‘ اللہ کے لاڈلے اور پیارے ہیں ‘ اللہ کے رسول ﷺ کے امتیّ ہیں۔ لیکن تم دیکھ رہے ہو کہ ذلتّ و خواری تمہارا مقدر بنی ہوئی ہے ‘ ہر طرف سے تم پر یلغار ہے ‘ عزت و وقار نام کی کوئی شے تمہارے پاس نہیں رہی۔ تم کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہو ‘ دنیا میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں ‘ اور اس سے زیادہ بےتوقیری کے لیے بھی تیار رہو۔ تمہاری کوئی اصل نہیں جب تک تم قائم نہ کرو قرآن کو اور اس کے ساتھ جو کچھ مزید تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ قرآن وحی جلی ہے۔ اس کے علاوہ حضور ﷺ کو وحی خفی کے ذریعے سے بھی تو احکامات ملتے تھے اور سنتّ رسول ﷺ وحی خفی کا ظہور ہی تو ہے۔ تو جب تک تم کتاب و سنت کا نظام قائم نہیں کرتے ‘ تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ یَا اَہْلَ الْقُرْآنِ کا خطاب خود حضور ﷺ نے ہمیں دیا ہے۔ میرے کتابچے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں یہ حدیث موجود ہے جس میں حضور ﷺ سے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : َ یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لَا تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ ‘ وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ مِنْ آنَاء اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ ‘ وَأَفْشُوْہُ وَتَغَنَّوْہُ وَتَدَبَّرُوْا ما فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ 1اے اہل قرآن ‘ قرآن کو اپنا تکیہ نہ بنا لینا ‘ بلکہ اسے پڑھا کرو رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی ‘ جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے ‘ اور اسے عام کرو اور خوش الحانی سے پڑھو اور اس میں تدبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ج۔ان کی سرکشی اور طغیانی میں اور اضافہ ہوگا ‘ ان کی مخالفت اور بڑھتی چلی جائے گی ‘ حسد کی آگ میں وہ مزید جلتے چلے جائیں گے۔فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔ نبی چونکہ اپنی امت کے حق میں نہایت رحیم و شفیق ہوتا ہے لہٰذا وہ لوگوں پر عذاب کو پسند نہیں کرتا اور قوم پر عذاب کے تصور سے اسے صدمہ ہوتا ہے۔ پھر خصوصاً جب وہ اپنی برادری بھی ہو ‘ جیسا کہ بنی اسماعیل علیہ السلام تھے ‘ تو یہ رنج و صدمہ دوچند ہوجاتا ہے۔ چناچہ جب ان کے بارے میں سورة یونس اور سورة ہود میں عذاب کی خبریں آرہی تھیں تو آپ ﷺ بہت فکر مند اور غمگین ہوئے اور آپ ﷺ کے بالوں میں یک دم سفیدی آگئی۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق رض نے پوچھا ‘ حضور ﷺ کیا ہوا ؟ آپ ﷺ پر بڑھاپا طاری ہوگیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَاَخَوَاتُھَا 2 مجھے سورة ہود اور اس کی بہنوں ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کردیا ہے۔ کیونکہ ان سورتوں کا انداز ایسا ہے کہ جیسے اب مہلت ختم ہوئی چاہتی ہے اور عذاب کا دھارا چھوٹنے ہی والا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 69 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِءُوْنَ وَالنَّصٰرٰی اس آیت میں تقریباً وہی مضمون ہے جو اس سے پہلے سورة البقرۃ کے آٹھویں رکوع آیت 62 میں آچکا ہے ‘ جس سے بعض لوگوں کو دھوکا ہوتا ہے کہ شاید نجات کے لیے ایمان بالرسالت کی ضرورت نہیں ہے ‘ حالانکہ سورة النساء آیات 50 ‘ 51 اور 52 میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مابین تفریق کرنے والوں کے لیے بہت واضح انداز میں فرمایا گیا ہے : اُوْلٰٓءِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا وہی لوگ تو پکے کافر ہیں۔ دوسری بات یہاں ذہن میں یہ رکھیے کہ ان تمام سورتوں میں محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت قدم قدم پر ہے ‘ بار بار ہے ‘ لہٰذا اس سے استغناء کا کوئی جواز رہتا ہی نہیں ‘ سوائے اس کے کہ کسی کی نیت میں فساد ہو اور دل میں کجی پیدا ہوچکی ہو۔ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وعَمِلَ صَالِحًا فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ یہاں وہ تمام لوگ مراد ہیں جو اپنے اپنے دور میں اللہ اور آخرت پر ایمان و یقین رکھتے تھے اور اپنے وقت کے نبی اور گزشتہ انبیاء پر ایمان رکھتے تھے۔ جیسے حضرت مسیح علیہ السلام سے ماقبل زمانہ میں یہودی تھے ‘ جو کتاب اللہ تورات پر یقین رکھتے تھے ‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانتے تھے ‘ دوسرے نبیوں کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے۔ لیکن عمل کے معاملے میں اصل چیز اور اصل بنیاد اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کی جزا طلبی ہے ‘ جس سے کوئی عمل ‘ عمل صالح بنتا ہے۔

وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُمْ بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 آیت 7 وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ ایک میثاق وہ تھا جو بنی اسرائیل سے لیا گیا تھا ‘ اب ایک میثاق یہ ہے جو اہل ایمان سے ہو رہا ہے۔ چونکہ یہ سورة شروع ہوئی تھی یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآسے ‘ یعنی اہل ایمان سے خطاب ہے ‘ لہٰذا اس میثاق میں بھی اہل ایمان ہی مخاطب ہیں۔ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز سورۃ البقرۃ کی آخری آیت سے پہلے والی آیت میں اہل ایمان کا یہ اقرار موجود ہے : سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاز غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ۔ اب جو مسلمان بھی سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاکہتا ہے وہ گویا ایک میثاق اور ایک ‘ بہت مضبوط معاہدے کے اندر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندھ جاتا ہے۔ یعنی اب اسے اللہ کی شریعت کی پابندی کرنی ہے۔

لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ

📘 آیت 70 لَقَدْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَاَرْسَلْنَآ اِلَیْہِمْ رُسُلاً ط یہاں بہت سے رسول بھیجنے سے مراد ہے بہت سے انبیاء بھیجے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں ‘ قرآن مجید میں رسول کا لفظ نبی کی جگہ استعمال ہوا ہے ‘ البتہ جہاں تک لفظ رسول کے اصطلاحی مفہوم کا تعلق ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں رسول صرف ایک آئے ہیں یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ‘ باقی سب نبی تھے۔

وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 71 وَحَسِبُوْآ اَلاَّ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ کوئی عقوبت نہیں ہوگی ‘ ہم پر کوئی سرزنش نہیں ہوگی۔فَعَمُوْا وَصَمُّوْا ثُمَّ تَاب اللّٰہُ عَلَیْہِم اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں فوراً نہیں پکڑا۔ انہیں توبہ کی مہلت دی ‘ موقع دیا۔ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا کَثِیْرٌ مِّنْہُمْ ط۔بجائے اللہ کے دامن رحمت میں آنے کے اپنی گمراہی میں اور بڑھتے چلے گئے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ

📘 آیت 72 لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَا لُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَم ط یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے اسی سورة کی آیت 17 میں آچکی ہے ‘ یعنی اللہ ہی نے مسیح علیہ السلام کی شخصیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰٹہ النَّارُط وَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ اب عیسائیوں کے شرک کی ایک دوسری شکل کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان کا ایک عقیدہ تو God incarnate کا تھا۔ یہ ان میں سے ایک فرقے Jacobites کا عقیدہ تھا کہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں انسانی روپ دھار لیا ہے۔ اوپر اسی عقیدے کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن عیسائیوں کے ہاں ایک عقیدہ تثلیث کا بھی ہے ‘ اور اس عقیدہ کی بھی ان کے ہاں دو شکلیں ہیں۔ ابتدا میں جو تثلیث تھی اس میں اللہ ‘ حضرت مریم اور حضرت مسیح شامل تھے۔ یعنی God the Father , God the Mother and God the Son. دراصل یہ تثلیث مصر میں فراعنہ کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ اسی کے اندر انہوں نے عیسائیت کو ڈھال دیا ‘ تاکہ مصر کے لوگ آسانی سے عیسائیت قبول کرلیں۔ اس کے بعد حضرت مریم کو اس تثلیث میں سے نکال دیا گیا اور Holy Ghost یا Holy Spirit روح القدس کو ان کی جگہ شامل کرلیا گیا اور اس طرح "God the father , God the Son and God the Holy Ghost" پر مشتمل تثلیث وجود میں آئی۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 72 لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَا لُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَم ط یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے اسی سورة کی آیت 17 میں آچکی ہے ‘ یعنی اللہ ہی نے مسیح علیہ السلام کی شخصیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰٹہ النَّارُط وَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ اب عیسائیوں کے شرک کی ایک دوسری شکل کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان کا ایک عقیدہ تو God incarnate کا تھا۔ یہ ان میں سے ایک فرقے Jacobites کا عقیدہ تھا کہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں انسانی روپ دھار لیا ہے۔ اوپر اسی عقیدے کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن عیسائیوں کے ہاں ایک عقیدہ تثلیث کا بھی ہے ‘ اور اس عقیدہ کی بھی ان کے ہاں دو شکلیں ہیں۔ ابتدا میں جو تثلیث تھی اس میں اللہ ‘ حضرت مریم اور حضرت مسیح شامل تھے۔ یعنی God the Father , God the Mother and God the Son. دراصل یہ تثلیث مصر میں فراعنہ کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ اسی کے اندر انہوں نے عیسائیت کو ڈھال دیا ‘ تاکہ مصر کے لوگ آسانی سے عیسائیت قبول کرلیں۔ اس کے بعد حضرت مریم کو اس تثلیث میں سے نکال دیا گیا اور Holy Ghost یا Holy Spirit روح القدس کو ان کی جگہ شامل کرلیا گیا اور اس طرح "God the father , God the Son and God the Holy Ghost" پر مشتمل تثلیث وجود میں آئی۔

أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 72 لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَا لُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَم ط یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے اسی سورة کی آیت 17 میں آچکی ہے ‘ یعنی اللہ ہی نے مسیح علیہ السلام کی شخصیت کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ اِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰٹہ النَّارُط وَمَا للظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ اب عیسائیوں کے شرک کی ایک دوسری شکل کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان کا ایک عقیدہ تو God incarnate کا تھا۔ یہ ان میں سے ایک فرقے Jacobites کا عقیدہ تھا کہ خود اللہ تعالیٰ ہی نے عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں انسانی روپ دھار لیا ہے۔ اوپر اسی عقیدے کا ذکر ہوا ہے ‘ لیکن عیسائیوں کے ہاں ایک عقیدہ تثلیث کا بھی ہے ‘ اور اس عقیدہ کی بھی ان کے ہاں دو شکلیں ہیں۔ ابتدا میں جو تثلیث تھی اس میں اللہ ‘ حضرت مریم اور حضرت مسیح شامل تھے۔ یعنی God the Father , God the Mother and God the Son. دراصل یہ تثلیث مصر میں فراعنہ کے زمانے سے چلی آرہی تھی۔ اسی کے اندر انہوں نے عیسائیت کو ڈھال دیا ‘ تاکہ مصر کے لوگ آسانی سے عیسائیت قبول کرلیں۔ اس کے بعد حضرت مریم کو اس تثلیث میں سے نکال دیا گیا اور Holy Ghost یا Holy Spirit روح القدس کو ان کی جگہ شامل کرلیا گیا اور اس طرح "God the father , God the Son and God the Holy Ghost" پر مشتمل تثلیث وجود میں آئی۔

مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

📘 آیت 75 مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ الاَّ رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو سورة آل عمران آیت 144 میں محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں آئے ہیں : وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط محمد ﷺ اس کے سوا کیا ہیں کہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور آپ ﷺ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ تو اسی طرح فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت اللہ کے ایک رسول کی ہے ‘ جس طرح ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ ط قبل ازیں ہم سورة النساء آیت 69 میں پڑھ چکے ہیں کہ نبیوں کے بعد سب سے اونچا درجہ صدیقین کا ہے۔ خواتین کو اگرچہ نبوت تو نہیں ملی ہے لیکن انبیاء کے بعد کا جو دوسرا درجہ ہے اس میں بہت چوٹی کی حیثیتیں انہیں ملی ہیں۔ ہماری امت کی صدیقہ الکبریّٰ یعنی سب سے بڑی صدیقہ حضرت خدیجہ رض ہیں اور صدیق اکبر کی حیثیت اس امت میں حضرت ابوبکر رض کو ملی ہے۔ حضرت عائشہ رض بھی صدیقہ ہیں۔ اسی طرح حضرت مریم علیہ السلام بھی صدیقہ تھیں۔ کَانَا یَاکُلٰنِ الطَّعَامَ ط۔دونوں انسان تھے ‘ بشر تھے اور سارے بشری تقاضے ان کے ساتھ تھے۔

قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 75 مَا الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ الاَّ رَسُوْلٌ ج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط یہ بالکل وہی الفاظ ہیں جو سورة آل عمران آیت 144 میں محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں آئے ہیں : وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط محمد ﷺ اس کے سوا کیا ہیں کہ اللہ کے رسول ہیں ‘ اور آپ ﷺ سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ تو اسی طرح فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیثیت اللہ کے ایک رسول کی ہے ‘ جس طرح ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔وَاُمُّہٗ صِدِّیْقَۃٌ ط قبل ازیں ہم سورة النساء آیت 69 میں پڑھ چکے ہیں کہ نبیوں کے بعد سب سے اونچا درجہ صدیقین کا ہے۔ خواتین کو اگرچہ نبوت تو نہیں ملی ہے لیکن انبیاء کے بعد کا جو دوسرا درجہ ہے اس میں بہت چوٹی کی حیثیتیں انہیں ملی ہیں۔ ہماری امت کی صدیقہ الکبریّٰ یعنی سب سے بڑی صدیقہ حضرت خدیجہ رض ہیں اور صدیق اکبر کی حیثیت اس امت میں حضرت ابوبکر رض کو ملی ہے۔ حضرت عائشہ رض بھی صدیقہ ہیں۔ اسی طرح حضرت مریم علیہ السلام بھی صدیقہ تھیں۔ کَانَا یَاکُلٰنِ الطَّعَامَ ط۔دونوں انسان تھے ‘ بشر تھے اور سارے بشری تقاضے ان کے ساتھ تھے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ

📘 آیت 77 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ یہ تم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو محبت اور عقیدت کی وجہ سے جو کچھ بنا دیا ہے ‘ وہ سراسر مبالغہ ہے۔ حضور ﷺ کی شان میں بھی مبالغہ آرائی اگر لوگ کرتے ہیں تو محبت کی وجہ سے کرتے ہیں ‘ عشق رسول ﷺ کے نام پر کرتے ہیں ‘ عقیدت کے غلو کی وجہ سے کرتے ہیں۔ تو غلو مبالغہ درحقیقت انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ چناچہ اس سے منع کیا جا رہا ہے۔ َ وَلاَ تَتَّبِعُوْٓا اَہْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ‘ یہ تثلیث مصر میں زمانۂ قدیم سے موجود تھی ‘ اسی کو انہوں نے اختیار کیا

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ

📘 آیت 78 لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْم بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَعِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ط بنی اسرائیل کا جو کردار رہا ہے اس پر ان کے انبیاء ان کو مسلسل لعن طعن کرتے رہے ہیں۔ Old` Testament میں حضرت داؤد علیہ السلام کے حوالے سے اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ New` Testament گوسپلز میں حضرت مسیح علیہ السلام کے تنقیدی فرمودات بار بار ملتے ہیں ‘ جن میں اکثر ان کے علماء ‘ احبار اور صوفیاء مخاطب ہیں کہ تم سانپوں کے سنپولیے ہو۔ تمہارا حال ان قبروں جیسا ہے جن کے اوپر تو سفیدی پھری ہوئی ہے ‘ مگر اندر گلی سڑی ہڈیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تم نے اپنے اوپر صرف مذہبی لبادے اوڑھے ہوئے ہیں ‘ لیکن تمہارے اندر خیانت بھری ہوئی ہے۔ تم مچھر چھانتے ہو اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہو ‘ یعنی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر تو زور دار بحثیں ہوتی ہیں جبکہ بڑے بڑے گناہ کھلے بندوں کرتے ہو۔ یہ تو یہودی قوم اور ان کے علماء کے کردار کی جھلک ہے ان کے اپنے نبی کی زبان سے ‘ مگر دوسری طرف یہی نقشہ بعینہٖ آج ہمیں اپنے علماءِ سُوء میں بھی نظر آتا ہے۔

كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

📘 آیت 79 کَانُوْا لاَ یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ ط۔جس معاشرے سے نہی عن المنکر ختم ہوجائے گا ‘ وہ پورا معاشرہ سنڈاس بن جائے گا۔ یہ تو گویا انتظام صفائی ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اپنے ارد گرد نگاہ رکھے ‘ ایک دوسرے کو روکتا رہے کہ یہ کام غلط ہے ‘ یہ مت کرو ! جس معاشرے سے یہ تنقید اور احتساب ختم ہوجائے گا ‘ اس کے اندر لازماً خرابی پیدا ہوجائے گی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

📘 آیت 8 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز یہاں پر سورة النساء کی آیت 135 کا حوالہ ضروری ہے۔ سورة النساء کی آیت 135 اور زیر مطالعہ آیت المائدۃ : 8 میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے ‘ فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب عکسی ہے دونوں سورتوں کی نسبت زوجیت بھی مدّ نظر رہے۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ اور یہاں الفاظ ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز۔ ایک حقیقت تو میں نے اس وقت بیان کردی تھی کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ گویا اللہ اور قسط مترادف ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : قسط کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور دوسری جگہ فرمایا : اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ کے گواہ بن جاؤ اور دوسری جگہ قسط کے گواہ بن جاؤ فرمایا۔ تو گویا اللہ اور قسط ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر آئے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ اس آیت سے ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ معاشرے میں عدل قائم کرنے کا حکم ہے۔ انسان فطرتاً انصاف پسند ہے۔ انصاف عام انسان کی نفسیات اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ آج پوری نوع انسانی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انصاف ہی کے لیے انسان نے بادشاہت سے نجات حاصل کی اور جمہوریت کو اپنایا تاکہ انسان پر انسان کی حاکمیت ختم ہو ‘ انصاف میسر آئے ‘ مگر جمہوریت کی منزل سراب ثابت ہوئی اور ایک دفعہ انسان پھر سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی لعنت میں گرفتار ہوگیا۔ اب سرمایہ دار اس کے آقا اور ڈکٹیٹربن گئے۔ اس لعنت سے نجات کے لیے اس نے کمیونزم Communism کا دورازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی متعلقہ پارٹی کی آمریت One Party Dictatorship اس کی منتظر تھی۔ گویا رست ازیک بند تا افتاد دربندے دگر یعنی ایک مصیبت سے نجات پائی تھی کہ دوسری آفت میں گرفتار ہوگئے۔ اب انسان عدل اور انصاف حاصل کرنے کے لیے کہاں جائے ؟ کیا کرے ؟ یہاں پر ایک روشنی تو انسان کو اپنی فطرت کے اندر سے ملتی ہے کہ اس کی فطرت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور اپنی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے وہ عدل قائم کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے ‘ مگر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے اور وہ یہ ہے کہ العدل اللہ کی ذات ہے جس کا دیا ہوا نظام ہی عادلانہ نظام ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں ‘ اس کے وفادار ہیں ‘ لہٰذا اس کے نظام کو قائم کرنا ہمارے ذمے ہے ‘ ہم پر فرض ہے۔ چناچہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز میں اسی بلند تر منزل کا ذکر ہے۔ یہ صرف فطرت انسانی ہی کا تقاضا نہیں بلکہ تمہاری عبدیت کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کے رشتے کا تقاضا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ‘ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ‘ جو بھی اسباب و ذرائع میسر ہوں ان سب کو جمع کرکے کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے ! یعنی اللہ کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس دین میں جو تصور ہے عدل ‘ انصاف اور قسط کا اس عدل و انصاف اور قسط کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ یہ ہے اس حکم کا تقاضا۔ اب دیکھئے ‘ وہاں سورۃ النساء آیت 135 میں کیا تھا : اے ایمان والو ! انصاف کے علمبردار اور اللہ واسطے کے گواہ بن جاؤ۔ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اگرچہ اس کی تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔انصاف سے روکنے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل مثبت تعلق یعنی محبت ہے۔ اپنی ذات سے محبت ‘ والدین اور رشتہ داروں وغیرہ کی محبت انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ میں اپنے خلاف کیسے فتویٰ دے دوں ؟ اپنے ہی والدین کے خلاف کیونکر فیصلہ سنا دوں ؟ سچی گواہی دے کر اپنے عزیز رشتہ دارکو کیسے پھانسی چڑھا دوں ؟ لہٰذا وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ۔۔ فرما کر اس نوعیت کی تمام عصبیتوں کی جڑکاٹ دی گئی کہ بات اگر حق کی ہے ‘ انصاف کی ہے تو پھر خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جا رہی ہو ‘ تمہارے والدین پر ہی اس کی زد کیوں نہ پڑ رہی ہو ‘ تمہارے عزیز رشتہ دار ہی اس کی کاٹ کے شکار کیوں نہ ہو رہے ہوں ‘ اس کا اظہار بغیر کسی مصلحت کے ڈنکے کی چوٹ پر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا عامل منفی تعلق ہے ‘ یعنی کسی فرد یا گروہ کی دشمنی ‘ جس کی وجہ سے انسان حق بات کہنے سے پہلو تہی کرجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بات تو حق کی ہے مگر ہے تو وہ میرا دشمن ‘ لہٰذا اپنے دشمن کے حق میں آخر کیسے فیصلہ دے دوں ؟ آیت زیر نظر میں اس عامل کو بیان کرتے ہوئے دشمنی کی بنا پر بھی کتمانِ حق سے منع کردیا گیا :وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ rّ تمہارا کوئی عمل اور کوئی قول اس کے علم سے خارج نہیں ‘ لہٰذا ہر وقت چوکس رہو ‘ چوکنے رہو۔ آیت زیر نظر اور سورة النساء کی آیت 135 کے معانی و مفہوم کا باہمی ربط اور الفاظ کی عکسی اور reciprocal ترتیب کا حسن لائقِ توجہ ہے۔

تَرَىٰ كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ

📘 آیت 80 تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط۔خود کافروں کے حمایتی بنتے ہیں اور اپنے لیے ان کی حمایت تلاش کرتے ہیں۔لَبِءْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ یہ ان کے جو کرتوت ہیں وہ سب آگے اللہ کے ہاں جمع ہو رہے ہیں اور ان کا وبال ان پر آئے گا۔

وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ

📘 آیت 80 تَرٰی کَثِیْرًا مِّنْہُمْ یَتَوَلَّوْنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ط۔خود کافروں کے حمایتی بنتے ہیں اور اپنے لیے ان کی حمایت تلاش کرتے ہیں۔لَبِءْسَ مَا قَدَّمَتْ لَہُمْ اَنْفُسُہُمْ یہ ان کے جو کرتوت ہیں وہ سب آگے اللہ کے ہاں جمع ہو رہے ہیں اور ان کا وبال ان پر آئے گا۔

۞ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

📘 آیت 82 لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ج یہ بہت اہم آیت ہے۔ مکہ کے مشرکین بھی مسلمانوں کے دشمن تھے ‘ لیکن ان کی دشمنی کم از کم کھلی دشمنی تھی ‘ ان کا دشمن ہونا بالکل ظاہر و باہر تھا ‘ وہ سامنے سے حملہ کرتے تھے۔ لیکن مسلمانوں سے بد ترین دشمنی یہود کی تھی ‘ وہ آستین کے سانپ تھے اور سازشی انداز میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں مشرکین مکہ سے کہیں آگے تھے۔ آج بھی یہود اور ہنود مسلمانوں کی دشمنی میں سب سے آگے ہیں ‘ کیونکہ اس قسم بت پرستی کا شرک تو اب صرف ہندوستان میں رہ گیا ہے ‘ اور کہیں نہیں رہا۔ ہندوستان کے بھی اب یہ صرف نچلے طبقے میں ہے جبکہ عام طور پر اوپر کے طبقے میں نہیں ہے۔ لیکن بہرحال اب بھی مسلمانوں کے خلاف یہود اور ہنود کا گٹھ جوڑ ہے۔وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ط یہ تاریخی حقیقت ہے اور سیرت محمد ﷺ سے ثابت ہے کہ جس طرح کی شدید دشمنی اس وقت یہود نے آپ ﷺ سے کی ویسی نصاریٰ نے نہیں کی۔ حضرت نجاشی رح شاہ حبشہ نے اس وقت کے مسلمان مہاجروں کو پناہ دی ‘ مقوقس شاہ مصر نے بھی حضور ﷺ کی خدمت میں ہدیے بھیجے۔ ہرقل نے بھی حضور ﷺ کے نامۂ مبارک کا احترام کیا۔ وہ چاہتا بھی تھا کہ اگر میری پوری قوم مان لے تو ہم اسلام قبول کرلیں۔ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ جس کا ذکر سورة آل عمران آیت 61 میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ وہ لوگ اگرچہ مسلمان تو نہیں ہوئے مگر ان کارویّہ انتہائی محتاط رہا۔ بہر حال یہ حقیقت ہے کہ حضور ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کی مخالفت میں وہ شدت نہ تھی جو یہودیوں کی مخالفت میں تھی۔ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَنَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ یعنی عیسائیوں میں اس وقت تک علمائے حق بھی موجود تھے اور درویش راہب بھی جو واقعی اللہ والے تھے۔ بحیرہ راہب عیسائی تھا جس نے حضور ﷺ کو بچپن میں پہچانا تھا۔ اسی طرح ورقہ بن نوفل نے حضور ﷺ کی سب سے پہلے تصدیق کی تھی اور بتایا تھا کہ اے محمد ﷺ آپ پر وہی ناموس نازل ہوا ہے جو اس سے پہلے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ ورقہ بن نوفل تھے تو عرب کے رہنے والے ‘ لیکن وہ حق کی تلاش میں شام گئے اور عیسائیت اختیار کی۔ وہ عبرانی زبان میں تورات لکھا کرتے تھے۔ یہ اس دور کے چند عیسائی علماء اور راہبوں کی مثالیں ہیں۔ لیکن وہ قِسِّیسِین اور رُہْبان اب آپ کو عیسائیوں میں نہیں ملیں گے ‘ وہ دور ختم ہوچکا ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قرآن نازل ہو رہا تھا۔ اس کے بعد جو صورت حال بدلی ہے اور صلیبی جنگوں کے اندر عیسائیت نے جو وحشت و بربر یت دکھائی ہے ‘ اور عیسائی علماء اور مذہبی پیشواؤں نے جس طرح مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے اور اپنی قوم سے اس سلسلے میں جو کارنامے انجام دلوائے ہیں وہ تاریخ کے چہرے پر بہت ہی بد نما داغ ہے۔

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ

📘 آیت 83 وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِ ج یہ ایک واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ مکی دورّ میں جب صحابہ رض ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے تو ان کے ذریعے سے وہاں کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پھر جب مدینہ منورہ میں اسلام کا غلبہ ہوگیا اور عرب میں امن قائم ہوگیا تو ان کا ایک وفد مدینہ آیاجوستر 70 افراد پر مشتمل تھا اور اس میں کچھ نو مسلم بھی شامل تھے۔ آیت زیر نظر میں اس وفد کے ارکان کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے قرآن سناتو حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں۔

وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ

📘 آیت 83 وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرٰٓی اَعْیُنَہُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِ ج یہ ایک واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ مکی دورّ میں جب صحابہ رض ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے تو ان کے ذریعے سے وہاں کچھ لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ پھر جب مدینہ منورہ میں اسلام کا غلبہ ہوگیا اور عرب میں امن قائم ہوگیا تو ان کا ایک وفد مدینہ آیاجوستر 70 افراد پر مشتمل تھا اور اس میں کچھ نو مسلم بھی شامل تھے۔ آیت زیر نظر میں اس وفد کے ارکان کا ذکر ہے کہ جب انہوں نے قرآن سناتو حق کو پہچان لینے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہوگئیں۔

فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 85 فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ط وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ جو خوش قسمت نفوس اسلام قبول کریں ‘ اور اسلام کے بعد ایمان اور پھر ایمان سے آگے بڑھ کر احسان کے درجے تک پہنچ جائیں ان کا بدلہ یہی ہے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

📘 آیت 85 فَاَثَابَہُمُ اللّٰہُ بِمَا قَالُوْا جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ط وَذٰلِکَ جَزَآءُ الْمُحْسِنِیْنَ جو خوش قسمت نفوس اسلام قبول کریں ‘ اور اسلام کے بعد ایمان اور پھر ایمان سے آگے بڑھ کر احسان کے درجے تک پہنچ جائیں ان کا بدلہ یہی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

📘 کھانے پینے کی چیزوں میں حلتّ و حرمت اور تحلیل و تحریم الہامی شریعتوں کا ایک اہم موضوع رہا ہے۔ قرآن حکیم میں بھی بار بار ان مسائل پر بحث کی گئی ہے اور یہ موضوع سورة البقرۃ سے مسلسل چل رہا ہے۔ عربوں کے ہاں نسل در نسل رائج مشرکانہ اوہام کی وجہ سے بہت سی چیزوں کے بارے میں حلّت و حرمت کے غلط تصورات ذہنوں میں پختہ ہوچکے تھے۔ اس قسم کے خیالات ذہنوں ‘ دلوں اور مزاجوں سے نکلنے میں وقت لگتا ہے۔ اس لیے بار بار ان مسائل کی طرف توجہ دلائی جار ہی ہے۔آیت 87 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا ط بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ تقویٰ کے جوش میں اور بہت زیادہ نیکی کمانے کے جذبے میں بھی کئی حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر بیٹھتے ہیں ‘ اس لیے فرمایا گیا کہ حد سے تجاوز نہ کرو۔

وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ

📘 آیت 88 وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلاً طَیِّبًاص یعنی وہ چیزیں جو قانونی طور پر حلال ہوں اور ظاہری طور پر بھی صاف ستھری ہوں۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 89 لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ قسموں کے سلسلے میں سورة البقرہ آیت 225 میں ہدایات گزر چکی ہیں ‘ اب یہاں اس ضمن میں آخری حکم آ رہا ہے۔ یعنی ایسی قسمیں جو بغیر کسی ارادے کے کھائی جاتی ہیں ‘ ان پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ جیسے واللہ ‘ باللہ وغیرہ کا تکیہ کلام کے طور پر استعمال عربوں کی خاص عادت تھی اور آج بھی ہے۔ ظاہر ہے اس کو سن کر کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ یہ شخص باقاعدہ قسم کھارہا ہے۔ تو ایسی صورت میں کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ ج۔عَقَّدْتُّم عقد سے باب تفعیل ہے۔ یعنی پورے اہتمام کے ساتھ ایک بات طے کی گئی اور اس پر کسی نے قسم کھائی۔ اب اگر ایسی قسم ٹوٹ جائے یا اس کو توڑنا مقصودہو تو اس کا کفّارہ ادا کرنا ہوگا۔فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَہْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُہُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ ط فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ط یعنی اگر کسی کے پاس ان تینوں میں سے کوئی صورت بھی موجود نہ ہو ‘ کوئی شخص خود فقیر اور مفلس ہو ‘ اس کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ تین دن روزے رکھ لے۔ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ ط وَاحْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ ط یعنی جب کسی صحیح معاملے میں بالارادہ قسم کھائی جائے تو اسے پورا کیا جائے ‘ اور اگر کسی وجہ سے قسم توڑنے کی نوبت آجائے تو اسے توڑنے کا باقاعدہ کفارہ دیا جائے۔کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ اب شراب اور جوئے کے بارے میں بھی آخری حکم آ رہا ہے۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 8 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز یہاں پر سورة النساء کی آیت 135 کا حوالہ ضروری ہے۔ سورة النساء کی آیت 135 اور زیر مطالعہ آیت المائدۃ : 8 میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے ‘ فرق صرف یہ ہے کہ ترتیب عکسی ہے دونوں سورتوں کی نسبت زوجیت بھی مدّ نظر رہے۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بالْقِسْطِ شُہَدَاءَ لِلّٰہِ اور یہاں الفاظ ہیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِ ز۔ ایک حقیقت تو میں نے اس وقت بیان کردی تھی کہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ گویا اللہ اور قسط مترادف ہیں۔ ایک جگہ فرمایا : قسط کے لیے کھڑے ہوجاؤ اور دوسری جگہ فرمایا : اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ اسی طرح ایک جگہ اللہ کے گواہ بن جاؤ اور دوسری جگہ قسط کے گواہ بن جاؤ فرمایا۔ تو گویا اللہ اور قسط ایک دوسرے کے مترادف کے طور پر آئے ہیں۔ دوسرا اہم نکتہ اس آیت سے ہمارے سامنے یہ آرہا ہے کہ معاشرے میں عدل قائم کرنے کا حکم ہے۔ انسان فطرتاً انصاف پسند ہے۔ انصاف عام انسان کی نفسیات اور اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ آج پوری نوع انسانی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ انصاف ہی کے لیے انسان نے بادشاہت سے نجات حاصل کی اور جمہوریت کو اپنایا تاکہ انسان پر انسان کی حاکمیت ختم ہو ‘ انصاف میسر آئے ‘ مگر جمہوریت کی منزل سراب ثابت ہوئی اور ایک دفعہ انسان پھر سرمایہ دارانہ نظام Capitalism کی لعنت میں گرفتار ہوگیا۔ اب سرمایہ دار اس کے آقا اور ڈکٹیٹربن گئے۔ اس لعنت سے نجات کے لیے اس نے کمیونزم Communism کا دورازہ کھٹکھٹایا مگر یہاں بھی متعلقہ پارٹی کی آمریت One Party Dictatorship اس کی منتظر تھی۔ گویا رست ازیک بند تا افتاد دربندے دگر یعنی ایک مصیبت سے نجات پائی تھی کہ دوسری آفت میں گرفتار ہوگئے۔ اب انسان عدل اور انصاف حاصل کرنے کے لیے کہاں جائے ؟ کیا کرے ؟ یہاں پر ایک روشنی تو انسان کو اپنی فطرت کے اندر سے ملتی ہے کہ اس کی فطرت انصاف کا تقاضا کرتی ہے اور اپنی فطرت کے اس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے وہ عدل قائم کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے ‘ مگر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے اور وہ یہ ہے کہ العدل اللہ کی ذات ہے جس کا دیا ہوا نظام ہی عادلانہ نظام ہے۔ ہم اس کے بندے ہیں ‘ اس کے وفادار ہیں ‘ لہٰذا اس کے نظام کو قائم کرنا ہمارے ذمے ہے ‘ ہم پر فرض ہے۔ چناچہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآء بالْقِسْطِز میں اسی بلند تر منزل کا ذکر ہے۔ یہ صرف فطرت انسانی ہی کا تقاضا نہیں بلکہ تمہاری عبدیت کا تقاضا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ وفاداری کے رشتے کا تقاضا ہے کہ پوری قوت کے ساتھ ‘ اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ‘ جو بھی اسباب و ذرائع میسر ہوں ان سب کو جمع کرکے کھڑے ہوجاؤ اللہ کے لیے ! یعنی اللہ کے دین کے گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ اور اس دین میں جو تصور ہے عدل ‘ انصاف اور قسط کا اس عدل و انصاف اور قسط کو قائم کرنے کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ یہ ہے اس حکم کا تقاضا۔ اب دیکھئے ‘ وہاں سورۃ النساء آیت 135 میں کیا تھا : اے ایمان والو ! انصاف کے علمبردار اور اللہ واسطے کے گواہ بن جاؤ۔ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ اگرچہ اس کی تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔انصاف سے روکنے والے عوامل میں سے ایک اہم عامل مثبت تعلق یعنی محبت ہے۔ اپنی ذات سے محبت ‘ والدین اور رشتہ داروں وغیرہ کی محبت انسان کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ میں اپنے خلاف کیسے فتویٰ دے دوں ؟ اپنے ہی والدین کے خلاف کیونکر فیصلہ سنا دوں ؟ سچی گواہی دے کر اپنے عزیز رشتہ دارکو کیسے پھانسی چڑھا دوں ؟ لہٰذا وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ۔۔ فرما کر اس نوعیت کی تمام عصبیتوں کی جڑکاٹ دی گئی کہ بات اگر حق کی ہے ‘ انصاف کی ہے تو پھر خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف ہی کیوں نہ جا رہی ہو ‘ تمہارے والدین پر ہی اس کی زد کیوں نہ پڑ رہی ہو ‘ تمہارے عزیز رشتہ دار ہی اس کی کاٹ کے شکار کیوں نہ ہو رہے ہوں ‘ اس کا اظہار بغیر کسی مصلحت کے ڈنکے کی چوٹ پر کرنا ہے۔ اس سلسلے میں دوسرا عامل منفی تعلق ہے ‘ یعنی کسی فرد یا گروہ کی دشمنی ‘ جس کی وجہ سے انسان حق بات کہنے سے پہلو تہی کرجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ بات تو حق کی ہے مگر ہے تو وہ میرا دشمن ‘ لہٰذا اپنے دشمن کے حق میں آخر کیسے فیصلہ دے دوں ؟ آیت زیر نظر میں اس عامل کو بیان کرتے ہوئے دشمنی کی بنا پر بھی کتمانِ حق سے منع کردیا گیا :وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ rّ تمہارا کوئی عمل اور کوئی قول اس کے علم سے خارج نہیں ‘ لہٰذا ہر وقت چوکس رہو ‘ چوکنے رہو۔ آیت زیر نظر اور سورة النساء کی آیت 135 کے معانی و مفہوم کا باہمی ربط اور الفاظ کی عکسی اور reciprocal ترتیب کا حسن لائقِ توجہ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 آیت 90 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ شراب اور جوئے کے بارے میں تو پہلے بھی حکم آچکا ہے ‘ لیکن انصاب اور ازلام کا یہاں اضافہ کیا گیا ہے۔ اَنصاب سے مرادبتوں کے استھان ہیں اور ازلام جوئے ہی کی ایک قسم تھی جس میں اہل عرب تیروں کے ذریعے پانسے ڈالتے تھے ‘ قرعہ اندازی کرتے تھے۔ ان تمام کاموں کو رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ قرار دے دیا گیا۔ ُ

إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ

📘 آیت 91 اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآءَ فِی الْْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ یہ بہت اہم بات ہے ‘ کیونکہ شراب کے نشے میں انسان اپنا ہوش اور شعور کھو بیٹھتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کو کچھ خبر نہیں رہتی کہ وہ منہ سے کیا بکواس کر رہا ہے اور اس کے اعضاء وجوارح سے کیا افعال سرزد ہو رہے ہیں ‘ لہٰذا کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ایسی حالت میں کسی بات یا کسی حرکت سے کیا کیا گل کھلیں گے ‘ کیسے کیسے جھگڑے اور فسادات جنم لیں گے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حکومتی اور ریاستی سطح کے بڑے بڑے راز شراب کے نشے میں چرالیے جاتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان چیزوں سے بچانا چاہتا ہے ‘ جبکہ شیطان چاہتا ہے کہ تمہارے مابین عداوت اور بغض پیدا کرے۔ اسی طرح جوئے سے بھی بغض و عداوت کی کو نپلیں پھوٹتی ہیں۔ مثلاً ایک آدمی جوئے میں ہار جاتا ہے ‘ پھر پے در پے ہارتا چلا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ پھٹ پڑتا ہے اور غصّے میں آگ بگولا ہو کر آپے سے باہر ہوجاتا ہے۔ اس لیے کہ اسے نظر آ رہا ہے کہ میرا جو حریف مجھ سے جیت رہا ہے وہ کسی محنت کی وجہ سے نہیں جیت رہا۔ کسی نے محنت اور کوشش سے کچھ کمایا ہو تو اس سے دوسرے کو جلن محسوس نہیں ہوتی ‘ لیکن جوئے میں بےمحنت کی کمائی ہوتی ہے جسے مخالف فریق برداشت نہیں کرسکتا ‘ اور اس طرح انسانی تعلقات میں کئی منفی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِج ۔اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنے والا معاملہ بھی شراب کا تو بالکل واضح ہے ‘ لیکن جوئے میں بھی یونہی ہوتا ہے کہ آدمی ایک بار اس میں لگ جائے تو پھر وہاں سے نکلنامشکل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ تاش اور شطر نج وغیرہ بھی ایسے کھیل ہیں کہ ان میں مشغول ہو کر انسان ذکر اور نماز جیسی چیزوں سے بالکل غافل ہوجاتا ہے۔ فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ یہ انداز بڑا سخت ہے اور اس کا ایک خاص پس منظر ہے۔ شراب اور جوئے کے بارے میں ایک واضح ہدایت قبل ازیں آچکی تھی : فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ للنَّاسِز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط البقرۃ : 219 ان دونوں کے اندر بہت بڑے گناہ کے پہلو ہیں ‘ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں ‘ البتہ ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑا ہے۔ تو اسی وقت تمہیں سمجھ لینا چاہیے تھا اور باز آجانا چاہیے تھا۔ اس پہلے حکم میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت ‘ مشیّت اور شریعت کا رخ تو واضح ہوگیا تھا۔ پھر اگلا قدم اٹھایا گیا اور حکم دیا گیا : جب تم لوگ شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔۔ النساء : 43۔ اس سے تو پورے طور سے واضح ہوجانا چاہیے تھا کہ دین کا اہم ترین ستون نماز ہے : اَلصَّلٰوۃُ عِمَاد الدِّیْنِ 1 اور یہ شراب نماز سے روک رہی ہے ‘ تو تمہیں یہ چھوڑ دینی چاہیے تھی۔ بہر حال اب آخری بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آگئی ہے ‘ تو اسے سن کر کیا اب بھی باز نہیں آؤ گے ؟

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 آیت 92 وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاحْذَرُوْا ج فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ rّیہ اللہ کا حکم ہے۔ اللہ کا حکم پہنچانا رسول ﷺ کے ذمے تھا ‘ تو رسول ﷺ نے پہنچا کر اپنی ذمہ داری ادا کردی ‘ اب معاملہ اللہ کا اور تمہارا ہوگا۔ اللہ تم سے نمٹ لے گا ‘ تم سے حساب لے لے گا۔اب جو اگلی آیت آرہی ہے یہ بھی قرآن مجید کے فلسفہ اور حکمت کے ضمن میں بہت بنیادی آیت ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب شراب کے بارے میں اتنا سخت انداز آیا کہ شراب اور جوا گندے شیطانی کام ہیں ‘ ان سے باز آتے ہو یا نہیں ؟ تو بہت سے مسلمانوں کو تشویش لاحق ہوگئی کہ ہم جو اتنے عرصے تک شراب پیتے رہے تو یہ گندگی تو ہماری ہڈیوں میں بیٹھ گئی ہوگی۔ آج سائنس کی زبان میں جیسے کوئی شخص کہے کہ میرے جسم کا تو کوئی ایک خلیہ cell بھی ایسا نہیں ہوگا جس میں شراب کے اثرات نہ پہنچے ہوں۔ تو اب ہم کیسے پاک ہوں گے ؟ اب کس طریقے سے یہ گندگی ہمارے جسموں سے دھلے گی ؟ ان کی یہ تشویش بجا تھی۔ جیسے تحویل قبلہ کے وقت تشویش پیدا ہوگئی تھی کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا اور ہم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھتے رہے تو وہ نمازیں تو ضائع ہوگئیں ‘ اور نماز ہی تو ایمان ہے۔ تو اس پر مؤمنین کی تسلی کے لیے فرمایا گیا تھا : وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط اللہ تمہارے ایمان کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔ ایسے ہی یہاں ان کی دل جوئی کے لیے فرمایا :

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 93 لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا کسی شے کی حرمت کے قطعی حکم آنے سے پہلے جو کچھ کھایا پیا گیا ‘ اس کا کوئی گناہ ان پر نہیں رہے گا۔ یہ کوئی ہڈیوں میں بیٹھ جانے والی شے نہیں ہے ‘ یہ تو شرعی اور اخلاقی قانون Moral Law کا معاملہ ہے ‘ طبعی قانون Physical Law کا نہیں ہے۔ طبعی Physical طور پر تو کچھ چیزوں کے اثرات واقعی دائمی ہوجاتے ہیں ‘ لیکن Moral Law کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ گناہ تو احد پہاڑ کے برابر بھی ہوں تو سچی توبہ سے بالکل صاف ہوجاتے ہیں۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : اَلتَّاءِبُ مِنَ ا لذَّنْبِ کَمَنْ لاَ ذَنْبَ لَہٗ 1 گناہ سے حقیقی توبہ کرنے والا بالکل ایسے ہے جیسے اس نے کبھی وہ گناہ کیا ہی نہیں تھا۔ صدق دل سے توبہ کی جائے تو نامۂ اعمال بالکل دھل جاتا ہے۔ لہٰذا ایسی کسی تشویش کو بالکل اپنے قریب مت آنے دو۔ اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط واللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ دراصل تین درجے ہیں۔ پہلا درجہ ’ اسلام ‘ ہے۔ یعنی اللہ کو مان لیا ‘ رسول ﷺ کو مان لیا اور اس کے احکام پر چل پڑے۔ اس سے اوپر کا درجہ ’ ایمان ‘ ہے ‘ یعنی دل کا کامل یقین ‘ جو ایمان کے دل میں اتر جانے سے حاصل ہوتا ہے۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ الحجرات : 7 کے مصداق ایمان قلب میں اتر جائے گا تو اعمال کی کیفیت بدل جائے گی ‘ اعمال میں ایک نئی شان پیدا ہوجائے گی ‘ زندگی کے اندر ایک نیا رنگ آجائے گا جو کہ خالص اللہ کا رنگ ہوگا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًر البقرۃ : 138۔ اور اس سے بھی آگے جب ایمان عین الیقین کا درجہ حاصل کرلے تو یہی درجۂ احسان ہے۔ حدیث نبوی ﷺ میں اس کی کیفیت یہ بیان ہوئی ہے : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ 2 یہ کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی تو پھر یہ کیفیت تو پیدا ہونی چاہیے کہ وہ تو تجھے دیکھتا ہے۔ یعنی تم اللہ کی بندگی کرو ‘ اللہ کے لیے جہاد کرو ‘ اس کی راہ میں بھاگ دوڑ کرو ‘ اور اس میں تقویٰ کی کیفیت ایسی ہوجائے کہ جیسے تم اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو۔ احسان کی یہ تعریف حدیث جبرائیل میں موجود ہے۔ اس حدیث کو اُمّ السُّنَّۃ کہا گیا ہے ‘ جیسے سورة الفاتحہ کو اُمّ القرآن کا نام دیا گیا ہے۔ جس طرح سورة الفاتحہ اساس القرآن ہے ‘ اسی طرح حدیث جبرائیل علیہ السلام سنت کی اساس ہے۔ اس حدیث میں ہمیں یہ تفصیل ملتی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں حضور ﷺ کے پاس آئے۔ صحابہ رض کا مجمع تھا ‘ وہاں انہوں نے کچھ سوالات کیے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلا سوال اسلام کے بارے میں کیا : یَامُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ ! اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا : اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ اد اکرو ‘ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو اگر تمہیں اس کے لیے سفر کی استطاعت ہو۔ یعنی اسلام کے ضمن میں اعمال کا ذکر آگیا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ مجھے ایمان کے بارے میں بتلایئے ! اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر ‘ اس کے فرشتوں پر ‘ اس کی کتابوں پر ‘ اس کے رسولوں پر ‘ یوم آخرت پر اور تقدیر کی اچھائی اور برائی پر۔ اب یہاں یہ نکتہ غور طلب ہے کہ ایمان تو اسلام میں بھی موجود ہے ‘ یعنی زبانی اور قانونی ایمان ‘ لیکن دوسرے درجے میں ایمان کو اسلام سے علیحدہ کیا گیا ہے اور اعمال صالحہ کا تعلق ایمان کے بجائے اسلام سے بتایا گیا ہے۔ اس لیے کہ جب ایمان دل میں اتر کر یقین کی صورت اختیار کر جائے تو پھر اعمال کا ذکر الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ ایمان کے اس مرحلے پر اعمال لازماً درست ہوجائیں گے۔ پھر ایمان جب دل میں مزید گہرا اور پختہ ہوتا ہے تو اعمال بھی مزید درست ہوں گے۔ یوں سمجھئے کہ جتنا جتنا درخت اوپر جا رہا ہے اسی نسبت سے جڑ نیچے گہرائی میں اتر رہی ہے۔ ایمان کی جڑ نے دل کی زمین میں قرار پکڑا تو اسلام سے ایمان بن گیا۔ جب یہ جڑ مزید گہری ہوئی تو تیسری منزل یعنی احسان تک رسائی ہوگئی اور یہاں اعمال میں مزید نکھار پیدا ہوا۔ چناچہ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے احسان کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔۔ آپ ﷺ کا جواب تین روایتوں میں تین مختلف الفاظ میں نقل ہوا ہے : 1 اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔۔ 2 اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ تَعَالٰی کَاَنَّکَ تَرَاہُ۔۔ 1 3 اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَاَنَّکَ تَرَاہُ 2۔ اگلے الفاظ : فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ تینوں روایتوں میں یکساں ہیں۔ یعنی ایک بندۂ مؤمن اللہ کی بندگی ‘ اللہ کی پرستش ‘ اللہ کے لیے بھاگ دوڑ ‘ اللہ کے لیے عمل ‘ اللہ کے لیے جہاد ایسی کیفیت سے سرشار ہو کر کر رہا ہوگویاوہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ تو جب اللہ سامنے ہوگا ‘ تو پھر کیسے کچھ ہمارے جذبات عبدیت ہوں گے ‘ کیسی کیسی ہماری قلبی کیفیات ہوں گی۔ اس دنیا میں بھی یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے ‘ لیکن یہ کیفیت بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ چناچہ اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو احسان کا ایک اس سے نچلا درجہ بھی ہے۔ یعنی کم از کم یہ بات ہر وقت مستحضر رہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ تو یہ ہیں وہ تین درجے جن کا ذکر اس آیت میں ہے۔ تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں مولانا مودودی مرحوم کی ایک قابل قدر کتاب ہے۔ اس میں مولانا نے اسلام ‘ ایمان ‘ احسان اور تقویٰ چار مراتب بیان کیے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک تقویٰ علیحدہ سے کوئی مرتبہ ومقام نہیں ہے۔ تقویٰ وہ روح spirit اور وہ قوت محرکہ driving force ہے جو انسان کو نیکی کی طرف دھکیلتی اور ابھارتی ہے۔ چناچہ آیت زیر نظر میں تقویٰ کی تکرار کا مفہوم یوں ہے کہ تقویٰ نے آپ کو baseline سے اوپر اٹھایا اور اب آپ کے ایمان اور عمل صالح میں اور رنگ پیدا ہوگیا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۔ پھر تقویٰ میں مزید اضافہ ہوا اور تقویٰ نے آپ کو مزید اوپر اٹھایا تو اب وہ یقین والا ایمان پیدا ہوگیا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا۔ اب یہاں عمل صالح کے علیحدہ ذکر کی ضرورت ہی نہیں۔ جب دل میں ایمان اتر گیا تو اعمال خود بخود درست ہوگئے۔ پھر تقویٰ اگر مزید روبہ ترقی ہے ثُمَّ اتَّقَوْا تو اس کے نتیجے میں وَاَحْسَنُوْا کا درجہ آجائے گا ‘ یعنی انسان درجۂ احسان پر فائز ہوجائے گا۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔ آمین ! ایمان اور تقویٰ سے اعمال کی درستی کے ضمن میں نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان پیش نظر رہنا چاہیے : اَلَا وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً ‘ اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُُ کُلُّہٗ ‘ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُکُلُّہٗ ‘ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ 1آگاہ رہو ‘ یقیناً جسم کے اندر ایک گوشت کا لوتھڑا ہے ‘ جب وہ درست ہو تو سارا جسم ‘ درست ہوتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ آگاہ رہو کہ وہ دل ہے۔وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اور اللہ ایسے محسن بندوں کو محبوب رکھتا ہے۔اللہ کے جو بندے درجۂ احسان تک پہنچ جاتے ہیں وہ اس کے محبوب بن جاتے ہیں۔اس سورة مبارکہ آیت 71 میں پہلے ایک غلط راستے کی نشاندہی کی گئی تھی : فَعَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ ثُمَّ عَمُوْا وَصَمُّوْا۔۔ یہ گمراہی و ضلالت کے مختلف مراحل کا ذکر ہے کہ وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے پھر ڈھیل دی تو اس پر وہ اور بھی اندھے اور بہرے ہوگئے ‘ اللہ نے مزید ڈھیل دی تو وہ اور زیادہ اندھے اور بہرے ہوگئے۔ اس راستے پر انسان قدم بہ قدم گمراہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ مگر ایک راستہ یہ ہے ‘ ہدایت کا راستہ ‘ اسلام ‘ ایمان ‘ احسان ‘ اور تقویٰ کا راستہ۔ یہاں انسان کو درجہ بہ درجہ ترقی ملتی چلی جاتی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 اس سورة مبارکہ کے شروع میں حالت احرام میں شکار کرنے کی ممانعت آچکی ہے۔ اب اللہ کی اس سنت کا ذکر ہے کہ اللہ اپنے ماننے والوں کو آزماتا ہے ‘ سخت ترین امتحان لیتا ہے۔ فرض کیجیے کہ حاجیوں کا ایک قافلہ جا رہا ہے ‘ سب نے احرام باندھا ہوا ہے ‘ اتفاق سے ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ اب ایک ہرن اٹھکیلیاں کرتے ہوئے قریب آ رہا ہے ‘ بھوک بھی ستا رہی ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو ذرا سا نیزہ ماریں اور شکار کرلیں یا ویسے ہی بھاگ کر پکڑ لیں ‘ لیکن پکڑ نہیں سکتے ‘ شکار نہیں کرسکتے ‘ کیونکہ احرام میں ہیں اور اس حالت میں اجازت نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس طرح آزماتا ہے۔آیت 94 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَیَبْلُوَنَّکُمُ اللّٰہُ بِشَیْءٍ مِّنَ الصَّیْدِ تَنَالُہٗٓ اَیْدِیْکُمْ وَرِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّخَافُہٗ بالْغَیْب ِج شکار پہنچ میں بھی ہے ‘ ان کے ہاتھوں اور نیزوں کی زد میں ہے ‘ ضرورت بھی ہے ‘ چاہیں تو شکار کرلیں ‘ لیکن مجبور ہیں ‘ کیونکہ احرام باندھا ہوا ہے۔ تو جس کے دل میں ایمان ہوگا وہ اپنی بھوک کو برداشت کرے گا ‘ اللہ کے حکم کو نہیں توڑے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ

📘 آیت 95 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌ ط وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ کفارے کے طور پر اللہ کی راہ میں ویسا ہی ایک چوپایہ صدقہ کیا جائے گا۔ یعنی اگر آپ نے ہرن مارا تو بکری یا بھیڑ دی جائے گی اور اگر نیل گائے مار دی تو پھر گائے بطور کفارہ دینا ہوگی۔ اس طرح جس قسم اور جس جسامت کا حیوان شکار کیا گیا ہے ‘ اس کے برابر کا چوپایہ صدقہ کرنا ہوگا۔یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ یعنی دو متقی اور معتبر اشخاص اس کی گواہی دیں کہ یہ جانور اس شکار کیے جانے والے جانور کے برابر ہے۔ہَدْیًام بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ یہ جانور ہدی کے طور پر خانہ کعبہ کی نذر کیا جائے گا۔ اَوْ کَفَّارَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْنَ اس میں فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر اناج یا رقم دینا ہو تو وہ صدقۂ فطر کے حساب سے ہوگی۔ اَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا یا اتنے ہی روزے رکھنا یہ دیکھنا ہوگا کہ جو جانورشکار ہوا ہے اسے کتنے آدمی کھا سکتے تھے۔ اتنے آدمیوں کو کھانا کھلایا جائے یا اتنے دن کے روزے رکھے جائیں۔

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

📘 آیت 96 اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ سمندر اور دریا کا شکار حالت احرام میں بھی حلال ہے۔ حاجی لوگ اگر کشتیوں اور بحری جہازوں کے ذریعے سے سفر کر رہے ہوں تو وہ احرام کی حالت میں بھی مچھلی وغیرہ کا شکار کرسکتے ہیں۔ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ ج سمندر کی خوراک sea food تو یوں سمجھ لیجیے کہ پوری دنیا کے انسانوں کے لیے غذا کا ایک نیا خزانہ ہے جو سامنے آیا ہے۔ یہ بہت سی خرابیوں اور بیماریوں سے بچانے والی بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں یہ آج کل بہت مقبول ہو رہی ہے۔وَحُرِّم عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ تم سب اس کی طرف گھیراؤ کر کے لے جائے جاؤ گے۔

۞ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 آیت 97 جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیٰمًا لِّلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَآءِدَ ط یہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر ہیں اور اسی کے معیّن کردہ ہیں۔ سورة کے شروع میں بھی ان کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں در اصل تو ثیق ہو رہی ہے کہ یہ سب چیزیں زمانہ جاہلیت کی روایات نہیں ہیں بلکہ خانہ کعبہ کی حرمت اور عظمت کی علامت ہیں۔ ئ ذٰلِکَ لِتَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ آگے چل کر ان چیزوں کے مقابلے میں ان چار چیزوں کا ذکر آئے گا جو اہل عرب کے ہاں بغیر کسی سند کے حرام کرلی گئی تھیں۔

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 98 اِعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ وَاَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ یعنی اس کی تو دونوں شانیں ایک ساتھ جلوہ گرہیں۔ اب دیکھو کہ تم اپنے آپ کو کس شان کے ساتھ متعلق کر رہے ہو اور خود کو کیسے سلوک کا مستحق بنا رہے ہو ؟ اس کی عقوبت کا یا اس کی رحمت اور مغفرت کا ؟

مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ

📘 آیت 99 مَا عَلَی الرَّسُوْلِ الاَّ الْبَلٰغُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا تَکْتُمُوْنَ جب رسول اللہ ﷺ نے پیغام پہنچا دیا تو باقی ساری ذمہ داری اب تمہاری ہے۔