slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة يس

(Ya-Sin) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يس

📘 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پیغمبر ہونے کا ثبوت خود وہ قرآن حکیم ہے جس کو آپ نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے اوپر خدا کی طرف سے اترا ہے۔ قرآن کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صراطِ مستقیم کا داعی ہے ۔ یعنی وہ اس راستے کی طرف رہنمائی کررہا ہے جو بالکل سیدھا اور سچا ہے۔ اس کی کوئی بات عقل اور فطرت سے ٹکرانے والی نہیں۔ قرآن کے نزول کو اب ڈیڑھ ہزار سال ہورہے ہیں۔ مگر آج تک اس میں کسی خلاف عقل یا خلافِ فطرت بات کی نشان دہی نہ کی جاسکی۔ قرآن کی یہی امتیازی صفت اس كے کتابِ الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ’’تاکہ تم قوم کو ڈرا دو‘‘ میں قوم سے مراد بنو اسماعیل ہیں۔ ہر نبی اولاً اپنی قوم کےلیے آتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کی اولین مخاطب بھی ان کی اپنی قوم تھی۔ مگر چونکہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ اس ليے اب قیامت تک کےلیے آپ کی نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنو اسماعیل پر آپ نے براہِ راست حجت تمام کی اور آپ کے بعد مختلف اقوام پر دعوت اور اتمام حجت کا کام آپ کی نیابت میں آپ کی امت کو انجام دینا ہے۔

وَسَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منھ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتاہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طورپر دنیا میں موجود ہوجاتاہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طورپر محفوظ کیا جارہاہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرایا جاسکے۔

إِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّكْرَ وَخَشِيَ الرَّحْمَٰنَ بِالْغَيْبِ ۖ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ

📘 جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منھ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتاہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طورپر دنیا میں موجود ہوجاتاہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طورپر محفوظ کیا جارہاہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرایا جاسکے۔

إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُبِينٍ

📘 جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منھ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتاہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طورپر دنیا میں موجود ہوجاتاہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طورپر محفوظ کیا جارہاہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرایا جاسکے۔

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا أَصْحَابَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

إِذْ أَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمْ مُرْسَلُونَ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَٰنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

قَالُوا رَبُّنَا يَعْلَمُ إِنَّا إِلَيْكُمْ لَمُرْسَلُونَ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ ۖ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ ۚ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ

📘 بستی سے مراد غالباً مصر کی بستی ہے۔ یہاں بیک وقت دو پیغمبر (حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ) لوگوں کو خبر دار کرنے کےلیے بھیجے گئے۔ مگر انھوں نے انکار کیا۔ پھر ان کی اپنی قوم سے تیسرا شخص اٹھااور اس نے دونوں رسولوں کی تائید کی۔ اس تیسرے شخص سے مراد غالباً وہی رجل مومن ہے جس کا ذکر قرآن میں سورہ مومن میں تفصیل سے آیا ہے۔ ہر زمانہ میں آدمی کےلیے سب سے زیادہ تلخ چیز یہ رہی ہے کہ اس کو ایسی نصیحت کی جائے جو اس کے مزاج کے خلاف ہو۔ ایسی بات سن کر آدمی فوراً بگڑ جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور نہیں کرپاتا۔ وہ اس کو دلیل کے اعتبار سے نہیں جانچتا بلکہ ضد اور نفرت کے تحت اس کے خلاف غیر متعلق باتیں کہتا رہتا ہے۔ کسی بات کو دلیل سے جانچنا حد کے اندر رہنا ہے اور بے دلیل مخالفت کرنا حد سے باہر نکل جانا۔

وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ

📘 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پیغمبر ہونے کا ثبوت خود وہ قرآن حکیم ہے جس کو آپ نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے اوپر خدا کی طرف سے اترا ہے۔ قرآن کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صراطِ مستقیم کا داعی ہے ۔ یعنی وہ اس راستے کی طرف رہنمائی کررہا ہے جو بالکل سیدھا اور سچا ہے۔ اس کی کوئی بات عقل اور فطرت سے ٹکرانے والی نہیں۔ قرآن کے نزول کو اب ڈیڑھ ہزار سال ہورہے ہیں۔ مگر آج تک اس میں کسی خلاف عقل یا خلافِ فطرت بات کی نشان دہی نہ کی جاسکی۔ قرآن کی یہی امتیازی صفت اس كے کتابِ الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ’’تاکہ تم قوم کو ڈرا دو‘‘ میں قوم سے مراد بنو اسماعیل ہیں۔ ہر نبی اولاً اپنی قوم کےلیے آتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کی اولین مخاطب بھی ان کی اپنی قوم تھی۔ مگر چونکہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ اس ليے اب قیامت تک کےلیے آپ کی نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنو اسماعیل پر آپ نے براہِ راست حجت تمام کی اور آپ کے بعد مختلف اقوام پر دعوت اور اتمام حجت کا کام آپ کی نیابت میں آپ کی امت کو انجام دینا ہے۔

وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ

📘 دونوں رسول اس وقت بظاہر بالکل بے زور تھے۔ مگر تیسرے شخص نے اپنے آپ کو انھیں کے ساتھ وابستہ کیا۔ حق اور ناحق کے مقابلہ میں آدمی کو حق کا ساتھ دینا پڑتا ہے، خواہ وہ طاقت ور کے مقابلہ میں کمزور کا ساتھ دینے کے ہم معنی کیوں نہ ہو۔ تیسرے شخص نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ رسول تم سے اجر نہیں مانگتے، اور وہ ہدایت یاب بھی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف بے غرضی آدمی کے ہدایت یاب ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے۔ بے غرض اور نیک نیت ہونے کے باوجود آدمی کی بات دلیل کے معیار پر پرکھی جائے گی اور وہ اسی وقت صحیح سمجھی جائے گی جب کہ وہ دلیل کے معیار پر پوری اترے۔

اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ

📘 دونوں رسول اس وقت بظاہر بالکل بے زور تھے۔ مگر تیسرے شخص نے اپنے آپ کو انھیں کے ساتھ وابستہ کیا۔ حق اور ناحق کے مقابلہ میں آدمی کو حق کا ساتھ دینا پڑتا ہے، خواہ وہ طاقت ور کے مقابلہ میں کمزور کا ساتھ دینے کے ہم معنی کیوں نہ ہو۔ تیسرے شخص نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ یہ رسول تم سے اجر نہیں مانگتے، اور وہ ہدایت یاب بھی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ صرف بے غرضی آدمی کے ہدایت یاب ہونے کی کافی دلیل نہیں ہے۔ بے غرض اور نیک نیت ہونے کے باوجود آدمی کی بات دلیل کے معیار پر پرکھی جائے گی اور وہ اسی وقت صحیح سمجھی جائے گی جب کہ وہ دلیل کے معیار پر پوری اترے۔

وَمَا لِيَ لَا أَعْبُدُ الَّذِي فَطَرَنِي وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 مردِ حق نے اپنی زندگی خطرہ میں ڈال کر پیغمبروں کی دعوت کی تائید کی تھی۔ اس کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کردیا گیا۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی ظالم قوم کو برا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ لوگ میرا انجام جانتے تو وہ حق کے مخالف نہ بنتے۔ یہ سچے مومن کی تصویر ہے۔ مومن ہر حال میں لوگوں کا خیر خواہ ہوتاہے، خواہ لوگ اس کے ساتھ کیسا ہی ظالمانہ سلوک کریں۔

أَأَتَّخِذُ مِنْ دُونِهِ آلِهَةً إِنْ يُرِدْنِ الرَّحْمَٰنُ بِضُرٍّ لَا تُغْنِ عَنِّي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا وَلَا يُنْقِذُونِ

📘 مردِ حق نے اپنی زندگی خطرہ میں ڈال کر پیغمبروں کی دعوت کی تائید کی تھی۔ اس کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کردیا گیا۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی ظالم قوم کو برا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ لوگ میرا انجام جانتے تو وہ حق کے مخالف نہ بنتے۔ یہ سچے مومن کی تصویر ہے۔ مومن ہر حال میں لوگوں کا خیر خواہ ہوتاہے، خواہ لوگ اس کے ساتھ کیسا ہی ظالمانہ سلوک کریں۔

إِنِّي إِذًا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 مردِ حق نے اپنی زندگی خطرہ میں ڈال کر پیغمبروں کی دعوت کی تائید کی تھی۔ اس کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کردیا گیا۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی ظالم قوم کو برا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ لوگ میرا انجام جانتے تو وہ حق کے مخالف نہ بنتے۔ یہ سچے مومن کی تصویر ہے۔ مومن ہر حال میں لوگوں کا خیر خواہ ہوتاہے، خواہ لوگ اس کے ساتھ کیسا ہی ظالمانہ سلوک کریں۔

إِنِّي آمَنْتُ بِرَبِّكُمْ فَاسْمَعُونِ

📘 مردِ حق نے اپنی زندگی خطرہ میں ڈال کر پیغمبروں کی دعوت کی تائید کی تھی۔ اس کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کردیا گیا۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی ظالم قوم کو برا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ لوگ میرا انجام جانتے تو وہ حق کے مخالف نہ بنتے۔ یہ سچے مومن کی تصویر ہے۔ مومن ہر حال میں لوگوں کا خیر خواہ ہوتاہے، خواہ لوگ اس کے ساتھ کیسا ہی ظالمانہ سلوک کریں۔

قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ ۖ قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ

📘 مردِ حق نے اپنی زندگی خطرہ میں ڈال کر پیغمبروں کی دعوت کی تائید کی تھی۔ اس کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کردیا گیا۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی ظالم قوم کو برا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ لوگ میرا انجام جانتے تو وہ حق کے مخالف نہ بنتے۔ یہ سچے مومن کی تصویر ہے۔ مومن ہر حال میں لوگوں کا خیر خواہ ہوتاہے، خواہ لوگ اس کے ساتھ کیسا ہی ظالمانہ سلوک کریں۔

بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ

📘 مردِ حق نے اپنی زندگی خطرہ میں ڈال کر پیغمبروں کی دعوت کی تائید کی تھی۔ اس کا یہ عمل اتنا قیمتی تھا کہ اس کے بعد اس کو جنت میں داخل کردیا گیا۔ جنت میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنی ظالم قوم کو برا نہیں کہتا۔ بلکہ یہ تمنا کرتا ہے کہ کاش وہ لوگ میرا انجام جانتے تو وہ حق کے مخالف نہ بنتے۔ یہ سچے مومن کی تصویر ہے۔ مومن ہر حال میں لوگوں کا خیر خواہ ہوتاہے، خواہ لوگ اس کے ساتھ کیسا ہی ظالمانہ سلوک کریں۔

۞ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ قَوْمِهِ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ جُنْدٍ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِينَ

📘 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتاہے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے زمینی اسباب کو اس کے خلاف کردیا جائے۔ ساری آسمانی طاقتوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ پیغمبروں کا استہزا کیوں کیاگیا، اس کا جواب خود لفظ ’’استہزاء‘‘ میں موجود ہے۔استہزا کرنے والے ہمیشہ اس انسان کا استہزاء کرتے ہیں جو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہو۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ پیغمبر کی شخصیت کو ان کے ہم زمانہ لوگوں نے اِس سے کم سمجھا کہ ان کی زبان سے خدائی صداقت کا اعلان ہو اس ليے انھوںنے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ خَامِدُونَ

📘 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتاہے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے زمینی اسباب کو اس کے خلاف کردیا جائے۔ ساری آسمانی طاقتوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ پیغمبروں کا استہزا کیوں کیاگیا، اس کا جواب خود لفظ ’’استہزاء‘‘ میں موجود ہے۔استہزا کرنے والے ہمیشہ اس انسان کا استہزاء کرتے ہیں جو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہو۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ پیغمبر کی شخصیت کو ان کے ہم زمانہ لوگوں نے اِس سے کم سمجھا کہ ان کی زبان سے خدائی صداقت کا اعلان ہو اس ليے انھوںنے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ

📘 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پیغمبر ہونے کا ثبوت خود وہ قرآن حکیم ہے جس کو آپ نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے اوپر خدا کی طرف سے اترا ہے۔ قرآن کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صراطِ مستقیم کا داعی ہے ۔ یعنی وہ اس راستے کی طرف رہنمائی کررہا ہے جو بالکل سیدھا اور سچا ہے۔ اس کی کوئی بات عقل اور فطرت سے ٹکرانے والی نہیں۔ قرآن کے نزول کو اب ڈیڑھ ہزار سال ہورہے ہیں۔ مگر آج تک اس میں کسی خلاف عقل یا خلافِ فطرت بات کی نشان دہی نہ کی جاسکی۔ قرآن کی یہی امتیازی صفت اس كے کتابِ الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ’’تاکہ تم قوم کو ڈرا دو‘‘ میں قوم سے مراد بنو اسماعیل ہیں۔ ہر نبی اولاً اپنی قوم کےلیے آتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کی اولین مخاطب بھی ان کی اپنی قوم تھی۔ مگر چونکہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ اس ليے اب قیامت تک کےلیے آپ کی نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنو اسماعیل پر آپ نے براہِ راست حجت تمام کی اور آپ کے بعد مختلف اقوام پر دعوت اور اتمام حجت کا کام آپ کی نیابت میں آپ کی امت کو انجام دینا ہے۔

يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتاہے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے زمینی اسباب کو اس کے خلاف کردیا جائے۔ ساری آسمانی طاقتوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ پیغمبروں کا استہزا کیوں کیاگیا، اس کا جواب خود لفظ ’’استہزاء‘‘ میں موجود ہے۔استہزا کرنے والے ہمیشہ اس انسان کا استہزاء کرتے ہیں جو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہو۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ پیغمبر کی شخصیت کو ان کے ہم زمانہ لوگوں نے اِس سے کم سمجھا کہ ان کی زبان سے خدائی صداقت کا اعلان ہو اس ليے انھوںنے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُونَ

📘 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتاہے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے زمینی اسباب کو اس کے خلاف کردیا جائے۔ ساری آسمانی طاقتوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ پیغمبروں کا استہزا کیوں کیاگیا، اس کا جواب خود لفظ ’’استہزاء‘‘ میں موجود ہے۔استہزا کرنے والے ہمیشہ اس انسان کا استہزاء کرتے ہیں جو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہو۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ پیغمبر کی شخصیت کو ان کے ہم زمانہ لوگوں نے اِس سے کم سمجھا کہ ان کی زبان سے خدائی صداقت کا اعلان ہو اس ليے انھوںنے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ

📘 اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کیا جاتاہے تو اتنا ہی کافی ہوتا ہے زمینی اسباب کو اس کے خلاف کردیا جائے۔ ساری آسمانی طاقتوں کو اس کے خلاف استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ پیغمبروں کا استہزا کیوں کیاگیا، اس کا جواب خود لفظ ’’استہزاء‘‘ میں موجود ہے۔استہزا کرنے والے ہمیشہ اس انسان کا استہزاء کرتے ہیں جو ان کو حقیر دکھائی دیتا ہو۔ پیغمبروں کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ پیغمبر کی شخصیت کو ان کے ہم زمانہ لوگوں نے اِس سے کم سمجھا کہ ان کی زبان سے خدائی صداقت کا اعلان ہو اس ليے انھوںنے پیغمبروں کو ماننے سے انکار کردیا۔

وَآيَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ

📘 زمین کی سطح پر زرخیز مٹی کا جمع ہونا، اس کےلیے پانی اور دھوپ اور ہوا کا انتظام، پھر بیج کے اندر نشوونما کی صلاحیت، اس طرح کے بے شمار معلوم اور غیر معلوم اسباب ہیں جو بالآخر غلہ اور پھل اور سبزی کی شکل اختیار کرکے انسان کی خوراک بنتے ہیں۔ یہ پورا نظام انسان کے بنائے بغیر بنا ہے۔ اس کو وجود میں لانا اور اس کو قائم رکھنا سراسر خدا کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اس پر سوچے تو وہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے ۔ پھر اسی نظام میں ایک عظیم تر حقیقت کی نشانی بھی موجود ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں میں جوڑے کا اصول کارفرما ہے۔ پھر جب کائنات کا نظام اس اصول پر قائم ہے کہ یہاں تمام چیزیں اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کریں تو موجودہ دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہيے جس کے ملنے سے اس کی تکمیل ہوتی ہو۔ اس طرح موجودہ دنیا میں جوڑے کانظام آخرت کے امکان کو ثابت کردیتاہے۔

وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ

📘 زمین کی سطح پر زرخیز مٹی کا جمع ہونا، اس کےلیے پانی اور دھوپ اور ہوا کا انتظام، پھر بیج کے اندر نشوونما کی صلاحیت، اس طرح کے بے شمار معلوم اور غیر معلوم اسباب ہیں جو بالآخر غلہ اور پھل اور سبزی کی شکل اختیار کرکے انسان کی خوراک بنتے ہیں۔ یہ پورا نظام انسان کے بنائے بغیر بنا ہے۔ اس کو وجود میں لانا اور اس کو قائم رکھنا سراسر خدا کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اس پر سوچے تو وہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے ۔ پھر اسی نظام میں ایک عظیم تر حقیقت کی نشانی بھی موجود ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں میں جوڑے کا اصول کارفرما ہے۔ پھر جب کائنات کا نظام اس اصول پر قائم ہے کہ یہاں تمام چیزیں اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کریں تو موجودہ دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہيے جس کے ملنے سے اس کی تکمیل ہوتی ہو۔ اس طرح موجودہ دنیا میں جوڑے کانظام آخرت کے امکان کو ثابت کردیتاہے۔

لِيَأْكُلُوا مِنْ ثَمَرِهِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

📘 زمین کی سطح پر زرخیز مٹی کا جمع ہونا، اس کےلیے پانی اور دھوپ اور ہوا کا انتظام، پھر بیج کے اندر نشوونما کی صلاحیت، اس طرح کے بے شمار معلوم اور غیر معلوم اسباب ہیں جو بالآخر غلہ اور پھل اور سبزی کی شکل اختیار کرکے انسان کی خوراک بنتے ہیں۔ یہ پورا نظام انسان کے بنائے بغیر بنا ہے۔ اس کو وجود میں لانا اور اس کو قائم رکھنا سراسر خدا کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اس پر سوچے تو وہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے ۔ پھر اسی نظام میں ایک عظیم تر حقیقت کی نشانی بھی موجود ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں میں جوڑے کا اصول کارفرما ہے۔ پھر جب کائنات کا نظام اس اصول پر قائم ہے کہ یہاں تمام چیزیں اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کریں تو موجودہ دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہيے جس کے ملنے سے اس کی تکمیل ہوتی ہو۔ اس طرح موجودہ دنیا میں جوڑے کانظام آخرت کے امکان کو ثابت کردیتاہے۔

سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لَا يَعْلَمُونَ

📘 زمین کی سطح پر زرخیز مٹی کا جمع ہونا، اس کےلیے پانی اور دھوپ اور ہوا کا انتظام، پھر بیج کے اندر نشوونما کی صلاحیت، اس طرح کے بے شمار معلوم اور غیر معلوم اسباب ہیں جو بالآخر غلہ اور پھل اور سبزی کی شکل اختیار کرکے انسان کی خوراک بنتے ہیں۔ یہ پورا نظام انسان کے بنائے بغیر بنا ہے۔ اس کو وجود میں لانا اور اس کو قائم رکھنا سراسر خدا کی رحمت سے ہوتا ہے۔ اگر انسان اس پر سوچے تو وہ شکر کے جذبہ سے بھر جائے ۔ پھر اسی نظام میں ایک عظیم تر حقیقت کی نشانی بھی موجود ہے۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کی تمام چیزوں میں جوڑے کا اصول کارفرما ہے۔ پھر جب کائنات کا نظام اس اصول پر قائم ہے کہ یہاں تمام چیزیں اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنی تکمیل کریں تو موجودہ دنیا کا بھی ایک جوڑا ہونا چاہيے جس کے ملنے سے اس کی تکمیل ہوتی ہو۔ اس طرح موجودہ دنیا میں جوڑے کانظام آخرت کے امکان کو ثابت کردیتاہے۔

وَآيَةٌ لَهُمُ اللَّيْلُ نَسْلَخُ مِنْهُ النَّهَارَ فَإِذَا هُمْ مُظْلِمُونَ

📘 زمین اور چاند اور سورج سب کا ایک مدار مقرر ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر حد درجہ صحت کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ اس گردش سے مختلف مظاہروجود میں آتے ہیں۔ مثلاً زمین پر رات اور دن کا پیدا ہونا، چاند کا کم وبیش ہو کر فلکیاتی کیلنڈر کا کام کرنا، وغیرہ۔ یہ نظام کروروں سال سے قائم ہے اور پھر بھی اس میں کسی قسم کا کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ مشاہدہ خدا کی اتھاہ قدرت کا ایک تعارف ہے۔ اگر آدمی اس سے سبق لے تو ایک خدا کی عظمت اس کے ذہن پر اس طرح چھائے کہ دوسری تمام عظمتیں اپنے آپ اس کے ذہن سے حذف ہوجائیں۔

وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ

📘 زمین اور چاند اور سورج سب کا ایک مدار مقرر ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر حد درجہ صحت کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ اس گردش سے مختلف مظاہروجود میں آتے ہیں۔ مثلاً زمین پر رات اور دن کا پیدا ہونا، چاند کا کم وبیش ہو کر فلکیاتی کیلنڈر کا کام کرنا، وغیرہ۔ یہ نظام کروروں سال سے قائم ہے اور پھر بھی اس میں کسی قسم کا کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ مشاہدہ خدا کی اتھاہ قدرت کا ایک تعارف ہے۔ اگر آدمی اس سے سبق لے تو ایک خدا کی عظمت اس کے ذہن پر اس طرح چھائے کہ دوسری تمام عظمتیں اپنے آپ اس کے ذہن سے حذف ہوجائیں۔

وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ

📘 زمین اور چاند اور سورج سب کا ایک مدار مقرر ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر حد درجہ صحت کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ اس گردش سے مختلف مظاہروجود میں آتے ہیں۔ مثلاً زمین پر رات اور دن کا پیدا ہونا، چاند کا کم وبیش ہو کر فلکیاتی کیلنڈر کا کام کرنا، وغیرہ۔ یہ نظام کروروں سال سے قائم ہے اور پھر بھی اس میں کسی قسم کا کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ مشاہدہ خدا کی اتھاہ قدرت کا ایک تعارف ہے۔ اگر آدمی اس سے سبق لے تو ایک خدا کی عظمت اس کے ذہن پر اس طرح چھائے کہ دوسری تمام عظمتیں اپنے آپ اس کے ذہن سے حذف ہوجائیں۔

عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پیغمبر ہونے کا ثبوت خود وہ قرآن حکیم ہے جس کو آپ نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے اوپر خدا کی طرف سے اترا ہے۔ قرآن کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صراطِ مستقیم کا داعی ہے ۔ یعنی وہ اس راستے کی طرف رہنمائی کررہا ہے جو بالکل سیدھا اور سچا ہے۔ اس کی کوئی بات عقل اور فطرت سے ٹکرانے والی نہیں۔ قرآن کے نزول کو اب ڈیڑھ ہزار سال ہورہے ہیں۔ مگر آج تک اس میں کسی خلاف عقل یا خلافِ فطرت بات کی نشان دہی نہ کی جاسکی۔ قرآن کی یہی امتیازی صفت اس كے کتابِ الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ’’تاکہ تم قوم کو ڈرا دو‘‘ میں قوم سے مراد بنو اسماعیل ہیں۔ ہر نبی اولاً اپنی قوم کےلیے آتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کی اولین مخاطب بھی ان کی اپنی قوم تھی۔ مگر چونکہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ اس ليے اب قیامت تک کےلیے آپ کی نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنو اسماعیل پر آپ نے براہِ راست حجت تمام کی اور آپ کے بعد مختلف اقوام پر دعوت اور اتمام حجت کا کام آپ کی نیابت میں آپ کی امت کو انجام دینا ہے۔

لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

📘 زمین اور چاند اور سورج سب کا ایک مدار مقرر ہے۔ سب اپنے اپنے مدار پر حد درجہ صحت کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ اس گردش سے مختلف مظاہروجود میں آتے ہیں۔ مثلاً زمین پر رات اور دن کا پیدا ہونا، چاند کا کم وبیش ہو کر فلکیاتی کیلنڈر کا کام کرنا، وغیرہ۔ یہ نظام کروروں سال سے قائم ہے اور پھر بھی اس میں کسی قسم کا کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ مشاہدہ خدا کی اتھاہ قدرت کا ایک تعارف ہے۔ اگر آدمی اس سے سبق لے تو ایک خدا کی عظمت اس کے ذہن پر اس طرح چھائے کہ دوسری تمام عظمتیں اپنے آپ اس کے ذہن سے حذف ہوجائیں۔

وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ

📘 ہماری دنیا میں خشکی بھی ہے اور سمندر بھی۔ اور ہمارے اوپر وسیع فضا بھی۔ خدا نے اس دنیا میں ایسے امکانات رکھ دئے ہیں کہ آدمی تینوں میں سے کسی حصہ میں بھی سفر سے عاجز نہ ہو۔ وہ خشکی میں اور پانی اور فضا میں یکساں طورپر سفر کرسکے۔ یہ تمام سفر سراسر خدا کے انتظام کے تحت ممکن ہوتے ہیں۔ یہ انسان کےلیے اتنی بڑی رحمت ہیں کہ انسان اگر ان پر غور کرے تو وہ بالکل اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے، اور کبھی سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔

وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِنْ مِثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ

📘 ہماری دنیا میں خشکی بھی ہے اور سمندر بھی۔ اور ہمارے اوپر وسیع فضا بھی۔ خدا نے اس دنیا میں ایسے امکانات رکھ دئے ہیں کہ آدمی تینوں میں سے کسی حصہ میں بھی سفر سے عاجز نہ ہو۔ وہ خشکی میں اور پانی اور فضا میں یکساں طورپر سفر کرسکے۔ یہ تمام سفر سراسر خدا کے انتظام کے تحت ممکن ہوتے ہیں۔ یہ انسان کےلیے اتنی بڑی رحمت ہیں کہ انسان اگر ان پر غور کرے تو وہ بالکل اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے، اور کبھی سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔

وَإِنْ نَشَأْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ

📘 ہماری دنیا میں خشکی بھی ہے اور سمندر بھی۔ اور ہمارے اوپر وسیع فضا بھی۔ خدا نے اس دنیا میں ایسے امکانات رکھ دئے ہیں کہ آدمی تینوں میں سے کسی حصہ میں بھی سفر سے عاجز نہ ہو۔ وہ خشکی میں اور پانی اور فضا میں یکساں طورپر سفر کرسکے۔ یہ تمام سفر سراسر خدا کے انتظام کے تحت ممکن ہوتے ہیں۔ یہ انسان کےلیے اتنی بڑی رحمت ہیں کہ انسان اگر ان پر غور کرے تو وہ بالکل اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے، اور کبھی سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔

إِلَّا رَحْمَةً مِنَّا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ

📘 ہماری دنیا میں خشکی بھی ہے اور سمندر بھی۔ اور ہمارے اوپر وسیع فضا بھی۔ خدا نے اس دنیا میں ایسے امکانات رکھ دئے ہیں کہ آدمی تینوں میں سے کسی حصہ میں بھی سفر سے عاجز نہ ہو۔ وہ خشکی میں اور پانی اور فضا میں یکساں طورپر سفر کرسکے۔ یہ تمام سفر سراسر خدا کے انتظام کے تحت ممکن ہوتے ہیں۔ یہ انسان کےلیے اتنی بڑی رحمت ہیں کہ انسان اگر ان پر غور کرے تو وہ بالکل اپنے آپ کو خدا کے آگے ڈال دے، اور کبھی سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

📘 آدمی کے پیچھے اس کے اعمال ہیں، اور اس کے آگے حساب کتاب کا دن ہے۔ زندگی گویا عمل کی دنیا سے انجام کی دنیا کی طرف سفر ہے۔ یہ بے حد نازک صورتِ حال ہے۔ آدمی کو اس کا واقعی احساس ہو تو وہ کانپ اٹھے۔ مگر آدمی نہ غور کرتاهے اور نہ کوئی نشانی اس کی آنکھ کھولنے والی ثابت ہوتی۔ وہ جھوٹی تاویلوں کے ذریعہ اپنے اعمال کو صحیح ثابت کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مرجاتاہے۔

وَمَا تَأْتِيهِمْ مِنْ آيَةٍ مِنْ آيَاتِ رَبِّهِمْ إِلَّا كَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

📘 آدمی کے پیچھے اس کے اعمال ہیں، اور اس کے آگے حساب کتاب کا دن ہے۔ زندگی گویا عمل کی دنیا سے انجام کی دنیا کی طرف سفر ہے۔ یہ بے حد نازک صورتِ حال ہے۔ آدمی کو اس کا واقعی احساس ہو تو وہ کانپ اٹھے۔ مگر آدمی نہ غور کرتاهے اور نہ کوئی نشانی اس کی آنکھ کھولنے والی ثابت ہوتی۔ وہ جھوٹی تاویلوں کے ذریعہ اپنے اعمال کو صحیح ثابت کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مرجاتاہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 آدمی کے پیچھے اس کے اعمال ہیں، اور اس کے آگے حساب کتاب کا دن ہے۔ زندگی گویا عمل کی دنیا سے انجام کی دنیا کی طرف سفر ہے۔ یہ بے حد نازک صورتِ حال ہے۔ آدمی کو اس کا واقعی احساس ہو تو وہ کانپ اٹھے۔ مگر آدمی نہ غور کرتاهے اور نہ کوئی نشانی اس کی آنکھ کھولنے والی ثابت ہوتی۔ وہ جھوٹی تاویلوں کے ذریعہ اپنے اعمال کو صحیح ثابت کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مرجاتاہے۔

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ آخرت کی طرف سے اس طرح بے فکررہتے ہیں گویا کہ آخرت کوئی بہت دور کی چیز ہے۔ ان میں سے جو لوگ زیادہ غیر سنجیدہ ہیں و ہ بعض اوقات آخرت کا مذاق بھی اڑانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنی اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ قیامت انھیں اس طرح دفعۃً پکڑ لے گی کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اسرافیل صور اپنے منھ میں ليے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ ا س میں پھونک مار دیں۔ صور کا پھونکا جانا ایسا ہی ہے جیسے امتحان کا وقت ختم ہوجانے کا گھنٹہ بجنا۔ اس کے فوراً بعد دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد انجام کا مرحلہ شروع ہوگا، جب کہ آج ہم عمل کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔

مَا يَنْظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَ

📘 جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ آخرت کی طرف سے اس طرح بے فکررہتے ہیں گویا کہ آخرت کوئی بہت دور کی چیز ہے۔ ان میں سے جو لوگ زیادہ غیر سنجیدہ ہیں و ہ بعض اوقات آخرت کا مذاق بھی اڑانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنی اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ قیامت انھیں اس طرح دفعۃً پکڑ لے گی کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اسرافیل صور اپنے منھ میں ليے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ ا س میں پھونک مار دیں۔ صور کا پھونکا جانا ایسا ہی ہے جیسے امتحان کا وقت ختم ہوجانے کا گھنٹہ بجنا۔ اس کے فوراً بعد دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد انجام کا مرحلہ شروع ہوگا، جب کہ آج ہم عمل کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔

تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ

📘 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پیغمبر ہونے کا ثبوت خود وہ قرآن حکیم ہے جس کو آپ نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے اوپر خدا کی طرف سے اترا ہے۔ قرآن کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صراطِ مستقیم کا داعی ہے ۔ یعنی وہ اس راستے کی طرف رہنمائی کررہا ہے جو بالکل سیدھا اور سچا ہے۔ اس کی کوئی بات عقل اور فطرت سے ٹکرانے والی نہیں۔ قرآن کے نزول کو اب ڈیڑھ ہزار سال ہورہے ہیں۔ مگر آج تک اس میں کسی خلاف عقل یا خلافِ فطرت بات کی نشان دہی نہ کی جاسکی۔ قرآن کی یہی امتیازی صفت اس كے کتابِ الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ’’تاکہ تم قوم کو ڈرا دو‘‘ میں قوم سے مراد بنو اسماعیل ہیں۔ ہر نبی اولاً اپنی قوم کےلیے آتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کی اولین مخاطب بھی ان کی اپنی قوم تھی۔ مگر چونکہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ اس ليے اب قیامت تک کےلیے آپ کی نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنو اسماعیل پر آپ نے براہِ راست حجت تمام کی اور آپ کے بعد مختلف اقوام پر دعوت اور اتمام حجت کا کام آپ کی نیابت میں آپ کی امت کو انجام دینا ہے۔

فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَىٰ أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ

📘 جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ آخرت کی طرف سے اس طرح بے فکررہتے ہیں گویا کہ آخرت کوئی بہت دور کی چیز ہے۔ ان میں سے جو لوگ زیادہ غیر سنجیدہ ہیں و ہ بعض اوقات آخرت کا مذاق بھی اڑانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنی اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ قیامت انھیں اس طرح دفعۃً پکڑ لے گی کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اسرافیل صور اپنے منھ میں ليے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ ا س میں پھونک مار دیں۔ صور کا پھونکا جانا ایسا ہی ہے جیسے امتحان کا وقت ختم ہوجانے کا گھنٹہ بجنا۔ اس کے فوراً بعد دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد انجام کا مرحلہ شروع ہوگا، جب کہ آج ہم عمل کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ

📘 جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ آخرت کی طرف سے اس طرح بے فکررہتے ہیں گویا کہ آخرت کوئی بہت دور کی چیز ہے۔ ان میں سے جو لوگ زیادہ غیر سنجیدہ ہیں و ہ بعض اوقات آخرت کا مذاق بھی اڑانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنی اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ قیامت انھیں اس طرح دفعۃً پکڑ لے گی کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اسرافیل صور اپنے منھ میں ليے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ ا س میں پھونک مار دیں۔ صور کا پھونکا جانا ایسا ہی ہے جیسے امتحان کا وقت ختم ہوجانے کا گھنٹہ بجنا۔ اس کے فوراً بعد دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد انجام کا مرحلہ شروع ہوگا، جب کہ آج ہم عمل کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔

قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا ۜ ۗ هَٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمَٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُونَ

📘 جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ آخرت کی طرف سے اس طرح بے فکررہتے ہیں گویا کہ آخرت کوئی بہت دور کی چیز ہے۔ ان میں سے جو لوگ زیادہ غیر سنجیدہ ہیں و ہ بعض اوقات آخرت کا مذاق بھی اڑانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنی اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ قیامت انھیں اس طرح دفعۃً پکڑ لے گی کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اسرافیل صور اپنے منھ میں ليے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ ا س میں پھونک مار دیں۔ صور کا پھونکا جانا ایسا ہی ہے جیسے امتحان کا وقت ختم ہوجانے کا گھنٹہ بجنا۔ اس کے فوراً بعد دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد انجام کا مرحلہ شروع ہوگا، جب کہ آج ہم عمل کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔

إِنْ كَانَتْ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً فَإِذَا هُمْ جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ

📘 جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ آخرت کی طرف سے اس طرح بے فکررہتے ہیں گویا کہ آخرت کوئی بہت دور کی چیز ہے۔ ان میں سے جو لوگ زیادہ غیر سنجیدہ ہیں و ہ بعض اوقات آخرت کا مذاق بھی اڑانے لگتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ اپنی اسی غفلت میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ قیامت انھیں اس طرح دفعۃً پکڑ لے گی کہ وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہ کرسکیں گے۔ حدیث میں ہے کہ اسرافیل صور اپنے منھ میں ليے ہوئے عرش کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کب حکم ہو اور وہ ا س میں پھونک مار دیں۔ صور کا پھونکا جانا ایسا ہی ہے جیسے امتحان کا وقت ختم ہوجانے کا گھنٹہ بجنا۔ اس کے فوراً بعد دنیا کا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد انجام کا مرحلہ شروع ہوگا، جب کہ آج ہم عمل کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں۔

فَالْيَوْمَ لَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَلَا تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 موجودہ دنیا میں آدمی کے عمل کے معنوی نتائج سامنے نہیں آتے۔آخرت وہ جگہ ہے جہاں ہر آدمی اپنے عمل کے معنوی نتائج کو پائے گا۔ جو شخص یہاں صرف وقتی مفادات کےلیے سرگرم رہا وہ آخرت کی ابدی دنیا میں اس طرح اٹھے گا کہ وہاں وہ بالکل خالی ہاتھ ہوگا۔ اس کے برعکس، جو لوگ اعلیٰ مقصد کےلیے جئے وہ وہاں شاندار انجام میں خوش ہورہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات اس کے علاوہ ہوں گی۔

إِنَّ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ الْيَوْمَ فِي شُغُلٍ فَاكِهُونَ

📘 موجودہ دنیا میں آدمی کے عمل کے معنوی نتائج سامنے نہیں آتے۔آخرت وہ جگہ ہے جہاں ہر آدمی اپنے عمل کے معنوی نتائج کو پائے گا۔ جو شخص یہاں صرف وقتی مفادات کےلیے سرگرم رہا وہ آخرت کی ابدی دنیا میں اس طرح اٹھے گا کہ وہاں وہ بالکل خالی ہاتھ ہوگا۔ اس کے برعکس، جو لوگ اعلیٰ مقصد کےلیے جئے وہ وہاں شاندار انجام میں خوش ہورہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات اس کے علاوہ ہوں گی۔

هُمْ وَأَزْوَاجُهُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَى الْأَرَائِكِ مُتَّكِئُونَ

📘 موجودہ دنیا میں آدمی کے عمل کے معنوی نتائج سامنے نہیں آتے۔آخرت وہ جگہ ہے جہاں ہر آدمی اپنے عمل کے معنوی نتائج کو پائے گا۔ جو شخص یہاں صرف وقتی مفادات کےلیے سرگرم رہا وہ آخرت کی ابدی دنیا میں اس طرح اٹھے گا کہ وہاں وہ بالکل خالی ہاتھ ہوگا۔ اس کے برعکس، جو لوگ اعلیٰ مقصد کےلیے جئے وہ وہاں شاندار انجام میں خوش ہورہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات اس کے علاوہ ہوں گی۔

لَهُمْ فِيهَا فَاكِهَةٌ وَلَهُمْ مَا يَدَّعُونَ

📘 موجودہ دنیا میں آدمی کے عمل کے معنوی نتائج سامنے نہیں آتے۔آخرت وہ جگہ ہے جہاں ہر آدمی اپنے عمل کے معنوی نتائج کو پائے گا۔ جو شخص یہاں صرف وقتی مفادات کےلیے سرگرم رہا وہ آخرت کی ابدی دنیا میں اس طرح اٹھے گا کہ وہاں وہ بالکل خالی ہاتھ ہوگا۔ اس کے برعکس، جو لوگ اعلیٰ مقصد کےلیے جئے وہ وہاں شاندار انجام میں خوش ہورہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات اس کے علاوہ ہوں گی۔

سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ

📘 موجودہ دنیا میں آدمی کے عمل کے معنوی نتائج سامنے نہیں آتے۔آخرت وہ جگہ ہے جہاں ہر آدمی اپنے عمل کے معنوی نتائج کو پائے گا۔ جو شخص یہاں صرف وقتی مفادات کےلیے سرگرم رہا وہ آخرت کی ابدی دنیا میں اس طرح اٹھے گا کہ وہاں وہ بالکل خالی ہاتھ ہوگا۔ اس کے برعکس، جو لوگ اعلیٰ مقصد کےلیے جئے وہ وہاں شاندار انجام میں خوش ہورہے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایات اس کے علاوہ ہوں گی۔

وَامْتَازُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ

📘 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے پیغمبر ہونے کا ثبوت خود وہ قرآن حکیم ہے جس کو آپ نے یہ کہہ کر پیش کیا کہ یہ میرے اوپر خدا کی طرف سے اترا ہے۔ قرآن کے حکیم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صراطِ مستقیم کا داعی ہے ۔ یعنی وہ اس راستے کی طرف رہنمائی کررہا ہے جو بالکل سیدھا اور سچا ہے۔ اس کی کوئی بات عقل اور فطرت سے ٹکرانے والی نہیں۔ قرآن کے نزول کو اب ڈیڑھ ہزار سال ہورہے ہیں۔ مگر آج تک اس میں کسی خلاف عقل یا خلافِ فطرت بات کی نشان دہی نہ کی جاسکی۔ قرآن کی یہی امتیازی صفت اس كے کتابِ الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ’’تاکہ تم قوم کو ڈرا دو‘‘ میں قوم سے مراد بنو اسماعیل ہیں۔ ہر نبی اولاً اپنی قوم کےلیے آتا ہے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام کی اولین مخاطب بھی ان کی اپنی قوم تھی۔ مگر چونکہ آپ کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ اس ليے اب قیامت تک کےلیے آپ کی نبوت کا تسلسل جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ بنو اسماعیل پر آپ نے براہِ راست حجت تمام کی اور آپ کے بعد مختلف اقوام پر دعوت اور اتمام حجت کا کام آپ کی نیابت میں آپ کی امت کو انجام دینا ہے۔

۞ أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

وَأَنِ اعْبُدُونِي ۚ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًّا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

هَٰذِهِ جَهَنَّمُ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

اصْلَوْهَا الْيَوْمَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 موجودہ زندگی میںاچھے لوگ اور برے لوگ ایک ہی دنیا میں رہتے ہیں۔ اگلی زندگی میں دونوں کی دنیائیں الگ الگ کردی جائیں گی۔ شیطان کے بندے شیطان کے ساتھ اور رحمان کے بندے رحمان کے ساتھ۔ کوئی آدمی شیطان کے نام پر شیطان کی پرستش نہیں کرتا۔ مگر بالواسطہ طورپر غیر اللہ کا ہر پرستار دراصل شیطان کا پرستار ہے۔ کیونکہ وہ شیطان ہی کی تزئین کے تحت ایسا کررہا ہے۔ مثلاً فرشتوں اور قومی بزرگوں کی پرستش اس طرح شروع ہوئی کہ شیطان نے ان کے بارے میں جھوٹے عقیدے لوگوں کے ذہن میں ڈالے اور لوگ ان شیطانی ترغیبات سے متاثر ہو کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ جدید تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان کی کھال ایک قسم کا ریکارڈر ہے جس پر آدمی کی بولی ہوئی آوازیں مرتسم ہوجاتی ہیں اور ان کو دہرایا جاسکتاہے۔ یہ ایک نشانی ہے جو اس بات کو قابل فہم بنارہی ہے کہ کس طرح آخرت میں آدمی کے ہاتھ اور پاؤں آدمی کے احوال سنانے لگیں گے۔

وَلَوْ نَشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلَىٰ أَعْيُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَأَنَّىٰ يُبْصِرُونَ

📘 انسان کو آنکھ اور ہاتھ پاؤں اور دوسری جو صلاحیتیں حاصل ہیں ان کو پاکر وہ سرکش بن جاتاہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو یہی واقعہ اس کی نصیحت کےلیے کافی ہوجائے کہ یہ صلاحیتیں اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ خالق کے دینے سے اس کو ملی ہیں۔ اور جب دینے والا کوئی اور ہو تو اس نے جس طرح دیا ہے اسی طرح وہ ان کو واپس لے سکتاہے۔ مزید یہ کہ بڑھاپے کی صورت میں اس امکان کی ایک جھلک عملاً بھی لوگوں کو دکھائی جارهی ہے۔ آدمی جب زیادہ بوڑھا ہوتاہے تو اس کی تمام طاقتیں بھی چھن جاتی ہیں۔ حتی کہ وہ دوبارہ ویسا ہی کمزور اور محتاج ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت تھا جب کہ وہ ایک چھوٹا بچہ تھا۔ مگر انسان اتنا نادان ہے کہ اس کے باوجود وہ کوئی سبق نہیں لیتا۔

وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَاهُمْ عَلَىٰ مَكَانَتِهِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوا مُضِيًّا وَلَا يَرْجِعُونَ

📘 انسان کو آنکھ اور ہاتھ پاؤں اور دوسری جو صلاحیتیں حاصل ہیں ان کو پاکر وہ سرکش بن جاتاہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو یہی واقعہ اس کی نصیحت کےلیے کافی ہوجائے کہ یہ صلاحیتیں اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ خالق کے دینے سے اس کو ملی ہیں۔ اور جب دینے والا کوئی اور ہو تو اس نے جس طرح دیا ہے اسی طرح وہ ان کو واپس لے سکتاہے۔ مزید یہ کہ بڑھاپے کی صورت میں اس امکان کی ایک جھلک عملاً بھی لوگوں کو دکھائی جارهی ہے۔ آدمی جب زیادہ بوڑھا ہوتاہے تو اس کی تمام طاقتیں بھی چھن جاتی ہیں۔ حتی کہ وہ دوبارہ ویسا ہی کمزور اور محتاج ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت تھا جب کہ وہ ایک چھوٹا بچہ تھا۔ مگر انسان اتنا نادان ہے کہ اس کے باوجود وہ کوئی سبق نہیں لیتا۔

وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ ۖ أَفَلَا يَعْقِلُونَ

📘 انسان کو آنکھ اور ہاتھ پاؤں اور دوسری جو صلاحیتیں حاصل ہیں ان کو پاکر وہ سرکش بن جاتاہے۔ حالانکہ اگر وہ سوچے تو یہی واقعہ اس کی نصیحت کےلیے کافی ہوجائے کہ یہ صلاحیتیں اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ خالق کے دینے سے اس کو ملی ہیں۔ اور جب دینے والا کوئی اور ہو تو اس نے جس طرح دیا ہے اسی طرح وہ ان کو واپس لے سکتاہے۔ مزید یہ کہ بڑھاپے کی صورت میں اس امکان کی ایک جھلک عملاً بھی لوگوں کو دکھائی جارهی ہے۔ آدمی جب زیادہ بوڑھا ہوتاہے تو اس کی تمام طاقتیں بھی چھن جاتی ہیں۔ حتی کہ وہ دوبارہ ویسا ہی کمزور اور محتاج ہوجاتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت تھا جب کہ وہ ایک چھوٹا بچہ تھا۔ مگر انسان اتنا نادان ہے کہ اس کے باوجود وہ کوئی سبق نہیں لیتا۔

وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ

📘 قرآن کا معجزانہ اسلوب سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ چنانچہ مخالفین نے لوگوں کے تاثر کو گھٹانے کےلیے یہ کہنا شروع کیاکہ یہ ایک شاعرانہ کلام ہے، نہ کہ کوئی خدائی کلام۔ مگر یہ سراسر بے اصل بات ہے۔ قرآن میں اتھاہ حدتک جو سنجیدہ فضا ہے، اس میں حقائق غیب کا جو بے مثال انکشاف ہے، اس میں معرفت حق کی جو اعلیٰ ترین تعلیمات ہیں، اس میں شروع سے آخر تک جو نادر اتحاد خیال ہے، اس میں خدا کی خدائی کی جو ناقابلِ بیان جھلکیاں ہیں،یہ سب یقینی طور پر اشارہ کر رہی ہیں کہ قرآن اس سے برتر کلام ہے کہ اس کو انسانی شاعری کہاجاسکے۔ مگر حقیقت کو ہمیشہ زندہ لوگ مانتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کی صداقت بھی صرف زندہ انسانوں کو نظر آئے گی، مُردہ انسان اس کو دیکھنے والے نہیں بن سکتے۔

لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منھ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتاہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طورپر دنیا میں موجود ہوجاتاہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طورپر محفوظ کیا جارہاہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرایا جاسکے۔

لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ

📘 قرآن کا معجزانہ اسلوب سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ چنانچہ مخالفین نے لوگوں کے تاثر کو گھٹانے کےلیے یہ کہنا شروع کیاکہ یہ ایک شاعرانہ کلام ہے، نہ کہ کوئی خدائی کلام۔ مگر یہ سراسر بے اصل بات ہے۔ قرآن میں اتھاہ حدتک جو سنجیدہ فضا ہے، اس میں حقائق غیب کا جو بے مثال انکشاف ہے، اس میں معرفت حق کی جو اعلیٰ ترین تعلیمات ہیں، اس میں شروع سے آخر تک جو نادر اتحاد خیال ہے، اس میں خدا کی خدائی کی جو ناقابلِ بیان جھلکیاں ہیں،یہ سب یقینی طور پر اشارہ کر رہی ہیں کہ قرآن اس سے برتر کلام ہے کہ اس کو انسانی شاعری کہاجاسکے۔ مگر حقیقت کو ہمیشہ زندہ لوگ مانتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کی صداقت بھی صرف زندہ انسانوں کو نظر آئے گی، مُردہ انسان اس کو دیکھنے والے نہیں بن سکتے۔

أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ

📘 مویشی جانور ایک قسم کے زندہ علامت ہیں جو بتاتے ہیں کہ مادی دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس کو مسخر کرکے اس کو استعمال کرسکے۔ مادی دنیا کی اسی صلاحیت کے اوپر انسانی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر گھوڑے اور بیل میں بھی وہی وحشیانہ مزاج ہو جو ریچھ اور بھیڑئے میں ہوتاہے یا لوہا اور پٹرول اسی طرح انسان کے قابوسے باہرہوں جس طرح زمین کے اندر کا آتش فشانی مادہ انسان کے قابو سے باہر ہے تو تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ناممکن ہوجائے۔ جس خالق نے یہ عظیم احسانات کيے ہیں، انسان کو چاہيے تھا کہ وہ اسی کاشکر کرے اور اسی کا عبادت گزار بنے۔ مگر وہ دوسروں کو اپنامعبود بناتا ہے،اور جب اس کو نصیحت کی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑی سرکشی ہے جس کے انجام سے بچنا کسی کےلیے ممکن نہیں۔

وَذَلَّلْنَاهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ

📘 مویشی جانور ایک قسم کے زندہ علامت ہیں جو بتاتے ہیں کہ مادی دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس کو مسخر کرکے اس کو استعمال کرسکے۔ مادی دنیا کی اسی صلاحیت کے اوپر انسانی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر گھوڑے اور بیل میں بھی وہی وحشیانہ مزاج ہو جو ریچھ اور بھیڑئے میں ہوتاہے یا لوہا اور پٹرول اسی طرح انسان کے قابوسے باہرہوں جس طرح زمین کے اندر کا آتش فشانی مادہ انسان کے قابو سے باہر ہے تو تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ناممکن ہوجائے۔ جس خالق نے یہ عظیم احسانات کيے ہیں، انسان کو چاہيے تھا کہ وہ اسی کاشکر کرے اور اسی کا عبادت گزار بنے۔ مگر وہ دوسروں کو اپنامعبود بناتا ہے،اور جب اس کو نصیحت کی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑی سرکشی ہے جس کے انجام سے بچنا کسی کےلیے ممکن نہیں۔

وَلَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَمَشَارِبُ ۖ أَفَلَا يَشْكُرُونَ

📘 مویشی جانور ایک قسم کے زندہ علامت ہیں جو بتاتے ہیں کہ مادی دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس کو مسخر کرکے اس کو استعمال کرسکے۔ مادی دنیا کی اسی صلاحیت کے اوپر انسانی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر گھوڑے اور بیل میں بھی وہی وحشیانہ مزاج ہو جو ریچھ اور بھیڑئے میں ہوتاہے یا لوہا اور پٹرول اسی طرح انسان کے قابوسے باہرہوں جس طرح زمین کے اندر کا آتش فشانی مادہ انسان کے قابو سے باہر ہے تو تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ناممکن ہوجائے۔ جس خالق نے یہ عظیم احسانات کيے ہیں، انسان کو چاہيے تھا کہ وہ اسی کاشکر کرے اور اسی کا عبادت گزار بنے۔ مگر وہ دوسروں کو اپنامعبود بناتا ہے،اور جب اس کو نصیحت کی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑی سرکشی ہے جس کے انجام سے بچنا کسی کےلیے ممکن نہیں۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ

📘 مویشی جانور ایک قسم کے زندہ علامت ہیں جو بتاتے ہیں کہ مادی دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس کو مسخر کرکے اس کو استعمال کرسکے۔ مادی دنیا کی اسی صلاحیت کے اوپر انسانی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر گھوڑے اور بیل میں بھی وہی وحشیانہ مزاج ہو جو ریچھ اور بھیڑئے میں ہوتاہے یا لوہا اور پٹرول اسی طرح انسان کے قابوسے باہرہوں جس طرح زمین کے اندر کا آتش فشانی مادہ انسان کے قابو سے باہر ہے تو تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ناممکن ہوجائے۔ جس خالق نے یہ عظیم احسانات کيے ہیں، انسان کو چاہيے تھا کہ وہ اسی کاشکر کرے اور اسی کا عبادت گزار بنے۔ مگر وہ دوسروں کو اپنامعبود بناتا ہے،اور جب اس کو نصیحت کی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑی سرکشی ہے جس کے انجام سے بچنا کسی کےلیے ممکن نہیں۔

لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُمْ جُنْدٌ مُحْضَرُونَ

📘 مویشی جانور ایک قسم کے زندہ علامت ہیں جو بتاتے ہیں کہ مادی دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس کو مسخر کرکے اس کو استعمال کرسکے۔ مادی دنیا کی اسی صلاحیت کے اوپر انسانی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر گھوڑے اور بیل میں بھی وہی وحشیانہ مزاج ہو جو ریچھ اور بھیڑئے میں ہوتاہے یا لوہا اور پٹرول اسی طرح انسان کے قابوسے باہرہوں جس طرح زمین کے اندر کا آتش فشانی مادہ انسان کے قابو سے باہر ہے تو تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ناممکن ہوجائے۔ جس خالق نے یہ عظیم احسانات کيے ہیں، انسان کو چاہيے تھا کہ وہ اسی کاشکر کرے اور اسی کا عبادت گزار بنے۔ مگر وہ دوسروں کو اپنامعبود بناتا ہے،اور جب اس کو نصیحت کی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑی سرکشی ہے جس کے انجام سے بچنا کسی کےلیے ممکن نہیں۔

فَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ

📘 مویشی جانور ایک قسم کے زندہ علامت ہیں جو بتاتے ہیں کہ مادی دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ انسان اس کو مسخر کرکے اس کو استعمال کرسکے۔ مادی دنیا کی اسی صلاحیت کے اوپر انسانی تہذیب کی پوری عمارت قائم ہے۔ اگر گھوڑے اور بیل میں بھی وہی وحشیانہ مزاج ہو جو ریچھ اور بھیڑئے میں ہوتاہے یا لوہا اور پٹرول اسی طرح انسان کے قابوسے باہرہوں جس طرح زمین کے اندر کا آتش فشانی مادہ انسان کے قابو سے باہر ہے تو تہذیبِ انسانی کا ارتقاء ناممکن ہوجائے۔ جس خالق نے یہ عظیم احسانات کيے ہیں، انسان کو چاہيے تھا کہ وہ اسی کاشکر کرے اور اسی کا عبادت گزار بنے۔ مگر وہ دوسروں کو اپنامعبود بناتا ہے،اور جب اس کو نصیحت کی جائے تو وہ اس پر دھیان نہیں دیتا۔ یہ بلاشبہ سب سے بڑی سرکشی ہے جس کے انجام سے بچنا کسی کےلیے ممکن نہیں۔

أَوَلَمْ يَرَ الْإِنْسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَالًا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُقْمَحُونَ

📘 جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منھ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتاہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طورپر دنیا میں موجود ہوجاتاہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طورپر محفوظ کیا جارہاہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرایا جاسکے۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمْ مِنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنْتُمْ مِنْهُ تُوقِدُونَ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ۚ بَلَىٰ وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 انسان اپنا خالق آپ نہیں۔ وہ بلا شبہ خالق کی مخلوق ہے۔ اس واقعہ کا تقاضا تھاکہ انسان کے اندر عجز کی صفت پائی جائے۔ مگر وہ حقیقت پسندی کو کھو کر ایسی بحثیں کرتا ہے جو اس کی حیثیت عجز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ انسان کی اور کائنات کی تخلیق اول ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ تخلیق دوسری بار بھی ممکن ہے۔ مگراس کونظر انداز کرکے انسان یہ بحث نکالتا ہے کہ مردہ انسان دوبارہ زندہ انسان کیسے بن جائے گا۔ انسان کا مُردہ ہو کر پھر زندہ حالت میں تبدیل ہونے کا واقعہ بلا شبہ قیامت میں ہوگا۔ مگردوسری چیزوں میں یہ امکان آج ہی نظر آرہا ہے۔ مثلاً درخت کو دیکھو۔ درخت بظاہر ہرا بھرا ہوتا ہے۔ مگر جب وہ کاٹ کر لکڑی کی صورت میں جلایا جاتاہے تو وہ بالکل ایک مختلف صورت اختیار کرلیتا ہے جس کو آگ کہتے ہیں۔ایک چیز کا بدل کر بالکل دوسری چیز بن جانا ایک ثابت شدہ واقعہ ہے۔ بقیہ چیزوں میں خدا آج ہی اس کو ممکن بنا رہا ہے۔ انسانوں کےلیے وہ قیامت میں اس کو ممکن بنائے گا۔ مگر یہ منوانے کےلیے نہیں ہوگابلکہ اس ليے ہوگا کہ انسان کو اس کی سرکشی کا بدلہ دیا جائے۔

وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ

📘 جدید تحقیقات نے بتایا ہے کہ انسان اپنے منھ سے جو آواز نکالتا ہے وہ نقوش کی صورت میں فضا میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسی طرح انسان جو عمل کرتاہے اس کا عکس بھی حرارتی لہروں کی شکل میں مستقل طورپر دنیا میں موجود ہوجاتاہے۔ گویا اس دنیا میں ہر آدمی کی ویڈیو ریکارڈنگ ہورہی ہے۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ انسان کے علم کے بغیر اور اس کے ارادہ سے آزاد اس کا قول اور عمل مکمل طورپر محفوظ کیا جارہاہو اور کسی بھی لمحہ اس کو دہرایا جاسکے۔