🕋 تفسير سورة الحديد
(Al-Hadid) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 کائنات زبانِ حال سے اپنے خالق کی جن صفات کی خبر دے رہی ہے، قرآن میں انہیں صفات کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہاں جب ایک چیز ظاہر ہوتی ہے تو وہ عمل کی زبان میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ظاہر کرنے والا ہے۔ اور جب وہ چیز ختم ہوتی ہے تو وہ اس بات کا عملی اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ختم کرنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری تمام صفتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اگر خدا کی عملی تسبیح ہے تو قرآن خدا کی لفظی تسبیح۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِي مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ أُولَٰئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوا ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَىٰ نُورُهُمْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ بُشْرَاكُمُ الْيَوْمَ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انْظُرُونَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُورِكُمْ قِيلَ ارْجِعُوا وَرَاءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورًا فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ لَهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهُ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
يُنَادُونَهُمْ أَلَمْ نَكُنْ مَعَكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّىٰ جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنْكُمْ فِدْيَةٌ وَلَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ مَأْوَاكُمُ النَّارُ ۖ هِيَ مَوْلَاكُمْ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
۞ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ
📘 یہ آیتیں جس وقت نازل ہوئیں اس وقت اسلام اگرچہ مادی قوت نہیں بنا تھا۔ مگر دلائل اور تنبیہات کا زور اس وقت بھی پوری طرح اس کی پشت پر موجود تھا۔ ایسی حالت میں جو شخص دلائل کا زور محسوس نہ کرے اور خدائی تنبیہات جس کو ہلانے والی نہ بن سکیں وہ اپنے اس عمل سے صرف یہ ثبوت دے رہا ہے کہ وہ بے حسی کے مرض میں مبتلا ہے۔ مٹی میں پانی ملنے کے بعد تروتازگی پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر انسان اگر کھلے کھلے دلائل کو سن کر بھی نہ جاگے تو یہ کیسی عجیب بات ہوگی۔
اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
📘 یہ آیتیں جس وقت نازل ہوئیں اس وقت اسلام اگرچہ مادی قوت نہیں بنا تھا۔ مگر دلائل اور تنبیہات کا زور اس وقت بھی پوری طرح اس کی پشت پر موجود تھا۔ ایسی حالت میں جو شخص دلائل کا زور محسوس نہ کرے اور خدائی تنبیہات جس کو ہلانے والی نہ بن سکیں وہ اپنے اس عمل سے صرف یہ ثبوت دے رہا ہے کہ وہ بے حسی کے مرض میں مبتلا ہے۔ مٹی میں پانی ملنے کے بعد تروتازگی پیدا ہوجاتی ہے۔ پھر انسان اگر کھلے کھلے دلائل کو سن کر بھی نہ جاگے تو یہ کیسی عجیب بات ہوگی۔
إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ
📘 اللہ کی رضا کے لیے دوسروں کو مال دینا اور دین کی ضرورتوں پر خرچ کرنا بہت بڑا عمل ہے۔ جو مرد اور عورت اس طرح خرچ کریں وہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کا ثبوت دیا۔ انہوں نے حق کے خلاف شبہات کے ماحول میں حق کو دیکھا اس لیے ان کا یہ عمل آخرت میں ان کے لیے روشنی بن جائے گا۔ وہ خدا کی نشانیوں کو ماننے والے قرار پائیں گے۔ ان کو اللہ کے گواہ کا درجہ دیا جائے گا، یعنی آخرت کی عدالت میں لوگوں کے احوال بتانے والے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ۖ وَالشُّهَدَاءُ عِنْدَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
📘 اللہ کی رضا کے لیے دوسروں کو مال دینا اور دین کی ضرورتوں پر خرچ کرنا بہت بڑا عمل ہے۔ جو مرد اور عورت اس طرح خرچ کریں وہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کا ثبوت دیا۔ انہوں نے حق کے خلاف شبہات کے ماحول میں حق کو دیکھا اس لیے ان کا یہ عمل آخرت میں ان کے لیے روشنی بن جائے گا۔ وہ خدا کی نشانیوں کو ماننے والے قرار پائیں گے۔ ان کو اللہ کے گواہ کا درجہ دیا جائے گا، یعنی آخرت کی عدالت میں لوگوں کے احوال بتانے والے۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 کائنات زبانِ حال سے اپنے خالق کی جن صفات کی خبر دے رہی ہے، قرآن میں انہیں صفات کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہاں جب ایک چیز ظاہر ہوتی ہے تو وہ عمل کی زبان میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ظاہر کرنے والا ہے۔ اور جب وہ چیز ختم ہوتی ہے تو وہ اس بات کا عملی اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ختم کرنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری تمام صفتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اگر خدا کی عملی تسبیح ہے تو قرآن خدا کی لفظی تسبیح۔
اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ ۖ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا ۖ وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ ۚ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
📘 دنیا میں اللہ نے آخرت کی مثالیں قائم کردی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال کھیتی کی ہے۔ کھیتی جب پانی پاکر تیار ہوتی ہے تو تھوڑے دنوں کے لیے اس کی سرسبزی نہایت پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ مگر بہت جلد گرم ہوائیں چلتی ہیں۔ ساری سرسبزی اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ اور پھر اس کو کاٹ کر اسے چورا چورا کردیا جاتا ہے۔
اسی طرح موجودہ دنیا کی رونق بھی چند روزہ ہے۔ آدمی اس کو پا کر دھوکے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اسی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ مگر اس کے بعد جب وہ خدا کی طرف لوٹا یا جائے گا تو اس پر کھلے گا کہ دنیا کی رونقوں کی کوئی حقیقت نہ تھی۔
سَابِقُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
📘 دنیا میں اللہ نے آخرت کی مثالیں قائم کردی ہیں۔ ان میں سے ایک مثال کھیتی کی ہے۔ کھیتی جب پانی پاکر تیار ہوتی ہے تو تھوڑے دنوں کے لیے اس کی سرسبزی نہایت پرکشش معلوم ہوتی ہے۔ مگر بہت جلد گرم ہوائیں چلتی ہیں۔ ساری سرسبزی اچانک ختم ہوجاتی ہے۔ اور پھر اس کو کاٹ کر اسے چورا چورا کردیا جاتا ہے۔
اسی طرح موجودہ دنیا کی رونق بھی چند روزہ ہے۔ آدمی اس کو پا کر دھوکے میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ وہ اسی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔ مگر اس کے بعد جب وہ خدا کی طرف لوٹا یا جائے گا تو اس پر کھلے گا کہ دنیا کی رونقوں کی کوئی حقیقت نہ تھی۔
مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
📘 دنیا میں کسی چیز کا ملنا یا کسی چیز کا چھننا دونوں امتحان کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر مقرر فرما دیا ہے کہ کس شخص کو اس کے امتحان کا پر چہ کن کن صورتوں میں دیا جائے گا۔ آدمی کو اصلاً جس چیز پر توجہ دینا چاہيے وہ یہ نہیں کہ اس کو کیا ملا اور اس سے کیا چھینا گیا بلکہ یہ کہ اس نے کس موقع پر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔ صحیح اور مطلوب رد عمل یہ ہے کہ آدمی سے کھویا جائے تو وہ دل برداشتہ نہ ہو اور جب اس کو ملے تو وہ اس کی بنا پر فخر و غرور میں مبتلا نہ ہوجائے۔
لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ
📘 دنیا میں کسی چیز کا ملنا یا کسی چیز کا چھننا دونوں امتحان کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر مقرر فرما دیا ہے کہ کس شخص کو اس کے امتحان کا پر چہ کن کن صورتوں میں دیا جائے گا۔ آدمی کو اصلاً جس چیز پر توجہ دینا چاہيے وہ یہ نہیں کہ اس کو کیا ملا اور اس سے کیا چھینا گیا بلکہ یہ کہ اس نے کس موقع پر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔ صحیح اور مطلوب رد عمل یہ ہے کہ آدمی سے کھویا جائے تو وہ دل برداشتہ نہ ہو اور جب اس کو ملے تو وہ اس کی بنا پر فخر و غرور میں مبتلا نہ ہوجائے۔
الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ۗ وَمَنْ يَتَوَلَّ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ
📘 دنیا میں کسی چیز کا ملنا یا کسی چیز کا چھننا دونوں امتحان کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر مقرر فرما دیا ہے کہ کس شخص کو اس کے امتحان کا پر چہ کن کن صورتوں میں دیا جائے گا۔ آدمی کو اصلاً جس چیز پر توجہ دینا چاہيے وہ یہ نہیں کہ اس کو کیا ملا اور اس سے کیا چھینا گیا بلکہ یہ کہ اس نے کس موقع پر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔ صحیح اور مطلوب رد عمل یہ ہے کہ آدمی سے کھویا جائے تو وہ دل برداشتہ نہ ہو اور جب اس کو ملے تو وہ اس کی بنا پر فخر و غرور میں مبتلا نہ ہوجائے۔
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ
📘 دین میں دو چیزیں مطلوب ہیں۔ ایک پیروئ دین، اور دوسری حمایت دین۔ ترازو گویا پیروی دین کی علامتی تمثیل ہے۔ جس طرح ترازو پر کسی چیز کا کم و بیش ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا کی کتاب بھی حق کی ترازو ہے۔ لوگوں کو چاہيے کہ اپنے اعمال خدا کی کتاب پر جانچ کر دیکھتے رہیں کہ وہ کس حد تک درست ہیں اور کس حد تک درست نہیں۔
اسی طرح لوہا گویا حمایت دین کی علامتی مثال ہے۔ جب بھی دین کا کوئی معاملہ پڑے تو وہاں آدمی کو لوہے کی طرح مضبوط ثابت ہونا چاہيے۔ اس کو فولادی قوت کے ساتھ دین کا دفاع کرنا چاہیے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا وَإِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ ۖ فَمِنْهُمْ مُهْتَدٍ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ
📘 اللہ کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی دین لے کر آئے۔ مگر بعد کے زمانہ میں لوگوں نے پیغمبر کے نام پر بدعتیں ایجاد کرلیں۔ اس کی ایک مثال حضرت مسیح علیہ السلام کے پیرو ہیں۔ حضرت مسیح کے ذمہ صرف دعوت کا کام تھا۔ آپ کی پیغمبرانہ ذمہ داری میں قتال شامل نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے سب سے زیادہ داعیانہ اخلاق پر زور دیا۔ اور داعیانہ اخلاق سراسررافت و رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے پیروؤں سے کہا کہ وہ لوگوں کے مقابلہ میں یک طرفہ طور پر رافت و رحمت کا طریقہ اختیار کریں۔ مگر حضرت مسیح کے بعد آپ کے پیرو اس مصلحت کو سمجھ نہ سکے۔ ان کا یہ مزاج انہیں رہبانیت کی طرف بہا لے گیا۔ اعراض دنیا کی جو تعلیم انہیں دعوت کے مقصد سے دی گئی تھی اس کو انہوں نے مزید مبالغہ کے ساتھ ترک ِدنيا کے لیے اختیار کرنا شروع کردیا۔
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ۖ فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ
📘 اللہ کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی دین لے کر آئے۔ مگر بعد کے زمانہ میں لوگوں نے پیغمبر کے نام پر بدعتیں ایجاد کرلیں۔ اس کی ایک مثال حضرت مسیح علیہ السلام کے پیرو ہیں۔ حضرت مسیح کے ذمہ صرف دعوت کا کام تھا۔ آپ کی پیغمبرانہ ذمہ داری میں قتال شامل نہ تھا۔ چنانچہ آپ نے سب سے زیادہ داعیانہ اخلاق پر زور دیا۔ اور داعیانہ اخلاق سراسررافت و رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ آپ نے اپنے پیروؤں سے کہا کہ وہ لوگوں کے مقابلہ میں یک طرفہ طور پر رافت و رحمت کا طریقہ اختیار کریں۔ مگر حضرت مسیح کے بعد آپ کے پیرو اس مصلحت کو سمجھ نہ سکے۔ ان کا یہ مزاج انہیں رہبانیت کی طرف بہا لے گیا۔ اعراض دنیا کی جو تعلیم انہیں دعوت کے مقصد سے دی گئی تھی اس کو انہوں نے مزید مبالغہ کے ساتھ ترک ِدنيا کے لیے اختیار کرنا شروع کردیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 ’’اے ایمان لانے والو‘‘سے مراد حضرت مسیح پر ایمان لانے والے ہیں۔ جو لوگ پچھلے پیغمبر کو مانتے ہوں، اور اب وہ پیغمبر آخر الزماں کی صداقت کو دریافت کرکے ان پر ایمان لائیں تو ان کے لیے دہرا اجر ہے۔ اسی طرح جو لوگ نسلی طور پر مسلمان ہیں وہ دوبارہ اسلام کا مطالعہ کریں اور اپنے اندر اسلامی شعور پیدا کرکے از سر نو مومن و مسلم بنیں تو وہ بھی اللہ کے یہاں دہرے اجر کے مستحق قرار پائیں گے۔
لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَأَنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
📘 ’’اے ایمان لانے والو‘‘سے مراد حضرت مسیح پر ایمان لانے والے ہیں۔ جو لوگ پچھلے پیغمبر کو مانتے ہوں، اور اب وہ پیغمبر آخر الزماں کی صداقت کو دریافت کرکے ان پر ایمان لائیں تو ان کے لیے دہرا اجر ہے۔ اسی طرح جو لوگ نسلی طور پر مسلمان ہیں وہ دوبارہ اسلام کا مطالعہ کریں اور اپنے اندر اسلامی شعور پیدا کرکے از سر نو مومن و مسلم بنیں تو وہ بھی اللہ کے یہاں دہرے اجر کے مستحق قرار پائیں گے۔
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 کائنات زبانِ حال سے اپنے خالق کی جن صفات کی خبر دے رہی ہے، قرآن میں انہیں صفات کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہاں جب ایک چیز ظاہر ہوتی ہے تو وہ عمل کی زبان میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ظاہر کرنے والا ہے۔ اور جب وہ چیز ختم ہوتی ہے تو وہ اس بات کا عملی اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ختم کرنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری تمام صفتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اگر خدا کی عملی تسبیح ہے تو قرآن خدا کی لفظی تسبیح۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 کائنات زبانِ حال سے اپنے خالق کی جن صفات کی خبر دے رہی ہے، قرآن میں انہیں صفات کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہاں جب ایک چیز ظاہر ہوتی ہے تو وہ عمل کی زبان میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ظاہر کرنے والا ہے۔ اور جب وہ چیز ختم ہوتی ہے تو وہ اس بات کا عملی اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ختم کرنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری تمام صفتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اگر خدا کی عملی تسبیح ہے تو قرآن خدا کی لفظی تسبیح۔
لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
📘 کائنات زبانِ حال سے اپنے خالق کی جن صفات کی خبر دے رہی ہے، قرآن میں انہیں صفات کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہاں جب ایک چیز ظاہر ہوتی ہے تو وہ عمل کی زبان میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ظاہر کرنے والا ہے۔ اور جب وہ چیز ختم ہوتی ہے تو وہ اس بات کا عملی اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ختم کرنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری تمام صفتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اگر خدا کی عملی تسبیح ہے تو قرآن خدا کی لفظی تسبیح۔
يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 کائنات زبانِ حال سے اپنے خالق کی جن صفات کی خبر دے رہی ہے، قرآن میں انہیں صفات کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہے۔ یہاں جب ایک چیز ظاہر ہوتی ہے تو وہ عمل کی زبان میں کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ظاہر کرنے والا ہے۔ اور جب وہ چیز ختم ہوتی ہے تو وہ اس بات کا عملی اعلان کر رہی ہوتی ہے کہ کوئی اس کا ختم کرنے والا ہے۔ اسی طرح دوسری تمام صفتیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات اگر خدا کی عملی تسبیح ہے تو قرآن خدا کی لفظی تسبیح۔
آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۙ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَاقَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
📘 سچا اسلام جب ماحول میں اجنبی ہو، اس وقت سچے اسلام کی طرف بڑھنا اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالنے کے ہم معنی ہوتا ہے۔ اس وقت اسلام کی حقیقت پر شبہات کے پردے پڑے ہوتے ہیں۔ اس وقت اسلام کی راہ میں خرچ کرنا ایسا ہوتا ہے گویا امید موہوم پر کسی کو قرض دینا۔ شک اور تردد کی فضا ہر طرف لوگوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے۔ خدا کے وعدوں کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنے سامنے کے فائدے زیادہ یقینی معلوم ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں اپنی جان و مال کو اسلام کے حوالہ کرنا زبردست قوت فیصلہ چاہتا ہے۔ ایسے وقت میں وہی شخص آگے بڑھنے کی ہمت کرتا ہے جو عقل و بصیرت کی طاقت سے چیزوں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
جو لوگ دنیا میں اس بصیرت کا ثبوت دیں ان کی بصیرت قیامت کے دن ان کے لیے روشنی بن جائے گی جس میں وہ وہاں کے مشکل مراحل میں اپنا سفر طے کرسکیں۔ جو بصیرت دنیا میں ان کی رہنما بنی تھی وہی بصیرت آخرت میں بھی اللہ کی مدد سے ان کے لیے رہنما کا کام انجام دے گی۔