🕋 تفسير سورة الأحقاف
(Al-Ahqaf) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم
📘 كائنات كا مطالعه بتاتا هے كه اس ميں هر طرف حكمت اور معنويت هے۔ پھر ايك ايسا كارخانه جو اپنے آغاز ميں بامعني هو وه اپنے اختتام ميں بے معني كيسے هوجائے گا۔
حق اپني ذات ميں نهايت محكم چيز هے۔ وه كائنات كي سب سے بڑي طاقت هے۔ اس كے باوجود كيوں ايسا هے كه جب لوگوں كے سامنے حق پيش كيا جاتا هے تو وه اس كا انكار كرديتے هيں۔ اس كي وجه يه هے كه موجوده دنياميں لوگوں كو حق كي صرف خبر دي جارهي هے۔ آخرت ميں يه هوگا كه حق واقعه بن كر لوگوں كے اوپر ٹوٹ پڑے گا۔ اس وقت وهي لوگ حق كے سامنے ڈھه پڑيں گے جو اس سے پهلے حق كو غير اهم سمجھ كر اس كو نظر انداز كررهے تھے۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَكَفَرْتُمْ بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
📘 ابتداء ً جو لوگ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے ساتھی بنے ان ميں كئي ایسے لوگ تھے جو غريب اور غلام طبقه سے تعلق ركھتے تھے۔ مثلاً بلال ، عمار ، صهيب ، خباب ، وغيره۔ اسي كے ساتھ آپ پر ايمان لانے والوں ميں وه لوگ بھي تھے جو عرب كے معزز خاندانوں سے تعلق ركھتے تھے۔ مثلاً ابو بكر بن أبي قحافه ،عثمان بن عفان، علي ابن ابي طالب، وغيره۔مگر آپ كے مخالفين صرف پهلي قسم كے لوگوں كا ذكر كرتے تھے، وه دوسري قسم كے لوگوں كا ذكر نهيں كرتے تھے۔ اس كي وجه يه هے كه آدمي كو جب كسي سے ضد هوجاتي هے تو وه اس كے بارے ميں يك رخا هوجاتا هے۔ وه اس كے اچھے پهلوؤں كو نظر انداز كرديتا هے اور صرف انھيں پهلوؤں كا ذكر كرتا هے جس كے ذريعه اسے اس كي تحقير كا موقع ملتا هو۔
اسي طرح يه ايك واقعه تھا كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كي دعوت وهي تھي جو پچھلے تمام پيغمبروں كي دعوت تھي۔ آپ ايك ابدي صداقت كو لے كر آئے تھے۔اس واقعه كو آپ كے مخالفين ان لفظوں ميں بھي بيان كرسكتے تھے كه ’’يه ايك بهت پرانا سچ هے‘‘۔ مگر انھوں نے يه كهه ديا كه ’’يه ايك بهت پرانا جھوٹ هے‘‘۔ ناانصافي كي يه قسم قديم زمانه كے انسانوں ميں بھي پائي جاتي تھي اور آج بھي وه پوري طرح لوگوںكے اندر پائي جارهي هے۔
وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَا سَبَقُونَا إِلَيْهِ ۚ وَإِذْ لَمْ يَهْتَدُوا بِهِ فَسَيَقُولُونَ هَٰذَا إِفْكٌ قَدِيمٌ
📘 ابتداء ً جو لوگ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے ساتھی بنے ان ميں كئي ایسے لوگ تھے جو غريب اور غلام طبقه سے تعلق ركھتے تھے۔ مثلاً بلال ، عمار ، صهيب ، خباب ، وغيره۔ اسي كے ساتھ آپ پر ايمان لانے والوں ميں وه لوگ بھي تھے جو عرب كے معزز خاندانوں سے تعلق ركھتے تھے۔ مثلاً ابو بكر بن أبي قحافه ،عثمان بن عفان، علي ابن ابي طالب، وغيره۔مگر آپ كے مخالفين صرف پهلي قسم كے لوگوں كا ذكر كرتے تھے، وه دوسري قسم كے لوگوں كا ذكر نهيں كرتے تھے۔ اس كي وجه يه هے كه آدمي كو جب كسي سے ضد هوجاتي هے تو وه اس كے بارے ميں يك رخا هوجاتا هے۔ وه اس كے اچھے پهلوؤں كو نظر انداز كرديتا هے اور صرف انھيں پهلوؤں كا ذكر كرتا هے جس كے ذريعه اسے اس كي تحقير كا موقع ملتا هو۔
اسي طرح يه ايك واقعه تھا كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كي دعوت وهي تھي جو پچھلے تمام پيغمبروں كي دعوت تھي۔ آپ ايك ابدي صداقت كو لے كر آئے تھے۔اس واقعه كو آپ كے مخالفين ان لفظوں ميں بھي بيان كرسكتے تھے كه ’’يه ايك بهت پرانا سچ هے‘‘۔ مگر انھوں نے يه كهه ديا كه ’’يه ايك بهت پرانا جھوٹ هے‘‘۔ ناانصافي كي يه قسم قديم زمانه كے انسانوں ميں بھي پائي جاتي تھي اور آج بھي وه پوري طرح لوگوںكے اندر پائي جارهي هے۔
وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ وَهَٰذَا كِتَابٌ مُصَدِّقٌ لِسَانًا عَرَبِيًّا لِيُنْذِرَ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَبُشْرَىٰ لِلْمُحْسِنِينَ
📘 قرآن كي صداقت كي ايك دليل يه هے كه پچھلي آسماني كتابيں اس كي پيشين گوئي كرتي رهي هيں۔ يه پيشين گوئياں آج بھي انجيل اور تورات ميں موجود هيں۔ اس طرح قرآن اپني سابق آسماني پيشين گوئيوں كا مصداق بن كر آيا هے۔ وه ان كي پيشگي اطلاع كو سچ كردكھاتا هے۔ يه ايك واضح قرينه هے جو ثابت كرتا هے كه قرآن، واقعةً ايك خدائي كتاب هے۔ ورنه سيكڑوں اور هزاروں سال پهلے اس كي پيشگي خبر دينا كيسے ممكن هوتا۔
’’قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا‘‘كے سلسله ميں حضرت عبد الله بن عباس سے مروي هے كه اس سے مراد اس كے فرائض كي ادائيگي پر قائم رهنا هے (ثُمَّ اسْتَقامُوا عَلَى أَدَاءِ فَرَائِضِهِ) تفسیر الطبری، جلد 20، صفحہ
425
۔
ايمان ايك مقدس عهد هے۔ زندگي ميں بار بار ايسے مواقع آتے هيں كه ايك روش آدمي كے عهدِ ايمان كے مطابق هوتي هے اور ايك روش اس كے عهد ايمان كے غير مطابق۔ ايسے مواقع پر جس شخص نے اپنے عهد ايمان كے مطابق عمل كيا اس نےاستقامت دكھائي اور جو شخص اپنے عهد ايمان كے مطابق عمل نه كرسكا وه استقامت دكھانے ميں ناكام رها۔
استقامت کا ثبوت نہ دینے والے لوگ ظالم لوگ ہیں ان کا دعوائے ایمان انھیں کچھ فائدہ نہ دے گا اور جن لوگوں نے استقامت کا ثبوت دیا وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 قرآن كي صداقت كي ايك دليل يه هے كه پچھلي آسماني كتابيں اس كي پيشين گوئي كرتي رهي هيں۔ يه پيشين گوئياں آج بھي انجيل اور تورات ميں موجود هيں۔ اس طرح قرآن اپني سابق آسماني پيشين گوئيوں كا مصداق بن كر آيا هے۔ وه ان كي پيشگي اطلاع كو سچ كردكھاتا هے۔ يه ايك واضح قرينه هے جو ثابت كرتا هے كه قرآن، واقعةً ايك خدائي كتاب هے۔ ورنه سيكڑوں اور هزاروں سال پهلے اس كي پيشگي خبر دينا كيسے ممكن هوتا۔
’’قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا‘‘كے سلسله ميں حضرت عبد الله بن عباس سے مروي هے كه اس سے مراد اس كے فرائض كي ادائيگي پر قائم رهنا هے (ثُمَّ اسْتَقامُوا عَلَى أَدَاءِ فَرَائِضِهِ) تفسیر الطبری، جلد 20، صفحہ
425
۔
ايمان ايك مقدس عهد هے۔ زندگي ميں بار بار ايسے مواقع آتے هيں كه ايك روش آدمي كے عهدِ ايمان كے مطابق هوتي هے اور ايك روش اس كے عهد ايمان كے غير مطابق۔ ايسے مواقع پر جس شخص نے اپنے عهد ايمان كے مطابق عمل كيا اس نےاستقامت دكھائي اور جو شخص اپنے عهد ايمان كے مطابق عمل نه كرسكا وه استقامت دكھانے ميں ناكام رها۔
استقامت کا ثبوت نہ دینے والے لوگ ظالم لوگ ہیں ان کا دعوائے ایمان انھیں کچھ فائدہ نہ دے گا اور جن لوگوں نے استقامت کا ثبوت دیا وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 قرآن كي صداقت كي ايك دليل يه هے كه پچھلي آسماني كتابيں اس كي پيشين گوئي كرتي رهي هيں۔ يه پيشين گوئياں آج بھي انجيل اور تورات ميں موجود هيں۔ اس طرح قرآن اپني سابق آسماني پيشين گوئيوں كا مصداق بن كر آيا هے۔ وه ان كي پيشگي اطلاع كو سچ كردكھاتا هے۔ يه ايك واضح قرينه هے جو ثابت كرتا هے كه قرآن، واقعةً ايك خدائي كتاب هے۔ ورنه سيكڑوں اور هزاروں سال پهلے اس كي پيشگي خبر دينا كيسے ممكن هوتا۔
’’قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا‘‘كے سلسله ميں حضرت عبد الله بن عباس سے مروي هے كه اس سے مراد اس كے فرائض كي ادائيگي پر قائم رهنا هے (ثُمَّ اسْتَقامُوا عَلَى أَدَاءِ فَرَائِضِهِ) تفسیر الطبری، جلد 20، صفحہ
425
۔
ايمان ايك مقدس عهد هے۔ زندگي ميں بار بار ايسے مواقع آتے هيں كه ايك روش آدمي كے عهدِ ايمان كے مطابق هوتي هے اور ايك روش اس كے عهد ايمان كے غير مطابق۔ ايسے مواقع پر جس شخص نے اپنے عهد ايمان كے مطابق عمل كيا اس نےاستقامت دكھائي اور جو شخص اپنے عهد ايمان كے مطابق عمل نه كرسكا وه استقامت دكھانے ميں ناكام رها۔
استقامت کا ثبوت نہ دینے والے لوگ ظالم لوگ ہیں ان کا دعوائے ایمان انھیں کچھ فائدہ نہ دے گا اور جن لوگوں نے استقامت کا ثبوت دیا وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
📘 انساني نسل كا طريقه يه هے كه آدمي ايك ماں اور ايك باپ كے ذريعه وجود ميں آتا هے جو اس كي پرورش كركے اس كو بڑا بناتے هيں۔ يه گويا انسان كي تربيت كا فطري نظام هے۔ يه اس ليے هے كه اس كے ذريعے سے انسان كے اندر حقوق وفرائض كا شعور پيدا هو۔اس كے اندر يه جذبه پيدا هو كه اسے اپنے محسن كا احسان ماننا هے اور اس كا حق ادا كرنا هے۔ يه جذبه بيك وقت انسان كو دوسرے انسانوں كے حقوق ادا كرنے كي تعليم ديتا هے اور اسي كے ساتھ خالق ومالك خدا كے عظيم تر حقوق كو ادا كرنے كي تعليم بھي۔
جو لوگ فطرت كے معلم سے سبق ليں۔ جو لوگ اپنے شعور كو اس طرح بيدار كريں كه وه اپنے والدين سے لے كر اپنے خدا تك هر ايك كے حقوق كو پهچانيں اور ان كو ٹھيك ٹھيك ادا كريں، وهي وه لوگ هيں جو آخرت ميں خدا كي ابدي رحمتوں كے مستحق قرار دئے جائيں گے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ نَتَقَبَّلُ عَنْهُمْ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَنَتَجَاوَزُ عَنْ سَيِّئَاتِهِمْ فِي أَصْحَابِ الْجَنَّةِ ۖ وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ
📘 انساني نسل كا طريقه يه هے كه آدمي ايك ماں اور ايك باپ كے ذريعه وجود ميں آتا هے جو اس كي پرورش كركے اس كو بڑا بناتے هيں۔ يه گويا انسان كي تربيت كا فطري نظام هے۔ يه اس ليے هے كه اس كے ذريعے سے انسان كے اندر حقوق وفرائض كا شعور پيدا هو۔اس كے اندر يه جذبه پيدا هو كه اسے اپنے محسن كا احسان ماننا هے اور اس كا حق ادا كرنا هے۔ يه جذبه بيك وقت انسان كو دوسرے انسانوں كے حقوق ادا كرنے كي تعليم ديتا هے اور اسي كے ساتھ خالق ومالك خدا كے عظيم تر حقوق كو ادا كرنے كي تعليم بھي۔
جو لوگ فطرت كے معلم سے سبق ليں۔ جو لوگ اپنے شعور كو اس طرح بيدار كريں كه وه اپنے والدين سے لے كر اپنے خدا تك هر ايك كے حقوق كو پهچانيں اور ان كو ٹھيك ٹھيك ادا كريں، وهي وه لوگ هيں جو آخرت ميں خدا كي ابدي رحمتوں كے مستحق قرار دئے جائيں گے۔
وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
📘 جو اولاد اپنے والدین كي فرماں بردار هو وه خدا كي بھي فرماں بردار هوتي هے۔ اس كے برعكس، نافرمان اولاد كا حال يه هوتا هے كه وه بڑي عمر كو پهنچتے هي بھول جاتے هيں كه ان كے والدين نے بے شمار مصيبتيں اٹھاكر ان كو اس مقام تك پهنچايا هے۔
كسي شخص كے سب سے زياده خير خواه اس كے والدين هوتے هيں۔ والدين اپني اولاد كو جو مشوره ديتے هيں وه سراسر بے غرضانه خير خواهي پر مبني هوتا هے۔ اس ليے انسان كو چاهيے كه وه اپنے صالح والدين كے مشوروں كا سب سے زياده لحاظ كرے۔ جو شخص اپنے صالح والدين كے مشوروں پر انھيں جھڑك دے وه اپني اس روش سے ظاهر كرتا هے كه وه نهايت سنگ دل انسان هے۔ يهي وه لوگ هيں جو سب سے زياده خساره ميں پڑنے والے هيں۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
📘 جو اولاد اپنے والدین كي فرماں بردار هو وه خدا كي بھي فرماں بردار هوتي هے۔ اس كے برعكس، نافرمان اولاد كا حال يه هوتا هے كه وه بڑي عمر كو پهنچتے هي بھول جاتے هيں كه ان كے والدين نے بے شمار مصيبتيں اٹھاكر ان كو اس مقام تك پهنچايا هے۔
كسي شخص كے سب سے زياده خير خواه اس كے والدين هوتے هيں۔ والدين اپني اولاد كو جو مشوره ديتے هيں وه سراسر بے غرضانه خير خواهي پر مبني هوتا هے۔ اس ليے انسان كو چاهيے كه وه اپنے صالح والدين كے مشوروں كا سب سے زياده لحاظ كرے۔ جو شخص اپنے صالح والدين كے مشوروں پر انھيں جھڑك دے وه اپني اس روش سے ظاهر كرتا هے كه وه نهايت سنگ دل انسان هے۔ يهي وه لوگ هيں جو سب سے زياده خساره ميں پڑنے والے هيں۔
وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا ۖ وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 ايك شخص كے سامنے حق آتا هے اور وه دنيوي مصلحت اور مادي مفاد كي خاطر اس كو اختيار نهيں كرتا۔ اس كا مطلب يه هے كه اس نے آخرت كے مقابله ميں دنيا كو اهميت دي۔ اس نے طيبات آخرت كے مقابله ميں طيبات دنيا كو اپنے ليے پسند كرليا۔
اسي طرح اپني بڑائي كا احساس آدمي كے لیے بے حد لذيذ چيز هے۔ جب ايسا هو كه اپني بڑائي كا گھروندا توڑ كر حق كو قبول كرنا هو اور آدمي اپني بڑائي كو بچانے كے ليے حق كو قبول نه كرے، اس وقت بھي گويا اس نے طيبات دنيا كو ترجيح دي اور طيبات آخرت كو ناقابل لحاظ سمجھ كر چھوڑ ديا۔
ايسے تمام لوگ جنھوں نے دنيا كي طيبات كي خاطر آخرت كي طيبات كو نظر انداز كيا وه آخرت ميں ذلّت كے عذاب سے دوچار هوں گے۔ جس كا عمل جس درجه كا هوگا اسي كے بقدر وه اپنے عمل كا انجام آخرت ميں پائے گا۔
تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
📘 كائنات كا مطالعه بتاتا هے كه اس ميں هر طرف حكمت اور معنويت هے۔ پھر ايك ايسا كارخانه جو اپنے آغاز ميں بامعني هو وه اپنے اختتام ميں بے معني كيسے هوجائے گا۔
حق اپني ذات ميں نهايت محكم چيز هے۔ وه كائنات كي سب سے بڑي طاقت هے۔ اس كے باوجود كيوں ايسا هے كه جب لوگوں كے سامنے حق پيش كيا جاتا هے تو وه اس كا انكار كرديتے هيں۔ اس كي وجه يه هے كه موجوده دنياميں لوگوں كو حق كي صرف خبر دي جارهي هے۔ آخرت ميں يه هوگا كه حق واقعه بن كر لوگوں كے اوپر ٹوٹ پڑے گا۔ اس وقت وهي لوگ حق كے سامنے ڈھه پڑيں گے جو اس سے پهلے حق كو غير اهم سمجھ كر اس كو نظر انداز كررهے تھے۔
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ
📘 ايك شخص كے سامنے حق آتا هے اور وه دنيوي مصلحت اور مادي مفاد كي خاطر اس كو اختيار نهيں كرتا۔ اس كا مطلب يه هے كه اس نے آخرت كے مقابله ميں دنيا كو اهميت دي۔ اس نے طيبات آخرت كے مقابله ميں طيبات دنيا كو اپنے ليے پسند كرليا۔
اسي طرح اپني بڑائي كا احساس آدمي كے لیے بے حد لذيذ چيز هے۔ جب ايسا هو كه اپني بڑائي كا گھروندا توڑ كر حق كو قبول كرنا هو اور آدمي اپني بڑائي كو بچانے كے ليے حق كو قبول نه كرے، اس وقت بھي گويا اس نے طيبات دنيا كو ترجيح دي اور طيبات آخرت كو ناقابل لحاظ سمجھ كر چھوڑ ديا۔
ايسے تمام لوگ جنھوں نے دنيا كي طيبات كي خاطر آخرت كي طيبات كو نظر انداز كيا وه آخرت ميں ذلّت كے عذاب سے دوچار هوں گے۔ جس كا عمل جس درجه كا هوگا اسي كے بقدر وه اپنے عمل كا انجام آخرت ميں پائے گا۔
۞ وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنْذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
📘 قوم عاد جنوبی عرب کے اس علاقہ میں آباد تھی جس کو اب الربع الخالی کہا جاتا ہے۔ اس قوم نے کافی ترقی کی۔ مگر اس کی ترقیوں نے اس کو غفلت اور سرکشی میں مبتلا کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک فرد حضرت ہود کو پیغمبر بنا کر اس کی طرف بھیجا۔
حضرت ہود نے قوم کو ڈرایا۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے اپنے پیغمبر کا استقبال جہالت سے کیا۔ آخر کار وہ خدا کی پکڑ میں آگئی۔ اس پر ایسا سخت عذاب آیا کہ اس کا سرسبز اور شاندارعلاقہ محض ایک خشک صحرا بن کر رہ گیا۔
قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 قوم عاد جنوبی عرب کے اس علاقہ میں آباد تھی جس کو اب الربع الخالی کہا جاتا ہے۔ اس قوم نے کافی ترقی کی۔ مگر اس کی ترقیوں نے اس کو غفلت اور سرکشی میں مبتلا کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک فرد حضرت ہود کو پیغمبر بنا کر اس کی طرف بھیجا۔
حضرت ہود نے قوم کو ڈرایا۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے اپنے پیغمبر کا استقبال جہالت سے کیا۔ آخر کار وہ خدا کی پکڑ میں آگئی۔ اس پر ایسا سخت عذاب آیا کہ اس کا سرسبز اور شاندارعلاقہ محض ایک خشک صحرا بن کر رہ گیا۔
قَالَ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَأُبَلِّغُكُمْ مَا أُرْسِلْتُ بِهِ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
📘 قوم عاد جنوبی عرب کے اس علاقہ میں آباد تھی جس کو اب الربع الخالی کہا جاتا ہے۔ اس قوم نے کافی ترقی کی۔ مگر اس کی ترقیوں نے اس کو غفلت اور سرکشی میں مبتلا کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ایک فرد حضرت ہود کو پیغمبر بنا کر اس کی طرف بھیجا۔
حضرت ہود نے قوم کو ڈرایا۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے اپنے پیغمبر کا استقبال جہالت سے کیا۔ آخر کار وہ خدا کی پکڑ میں آگئی۔ اس پر ایسا سخت عذاب آیا کہ اس کا سرسبز اور شاندارعلاقہ محض ایک خشک صحرا بن کر رہ گیا۔
فَلَمَّا رَأَوْهُ عَارِضًا مُسْتَقْبِلَ أَوْدِيَتِهِمْ قَالُوا هَٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۚ بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهِ ۖ رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 عذاب کے بادل کو عاد کے لوگ بارش کا بادل سمجھے۔ وہ اس کی حقیقت کو صرف اس وقت سمجھ سکے جب کہ عذاب کی آندھی نے ان کی بستیوں میں داخل ہو کر ان کو بالکل کھنڈر بنا دیا، انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ ایک لمحہ پہلے تک بھی حق کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ صرف اس وقت اعتراف کرتا ہے جب کہ اعتراف کرنے کا موقع اس سے چھین ليا گیا ہو۔
تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا فَأَصْبَحُوا لَا يُرَىٰ إِلَّا مَسَاكِنُهُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ
📘 عذاب کے بادل کو عاد کے لوگ بارش کا بادل سمجھے۔ وہ اس کی حقیقت کو صرف اس وقت سمجھ سکے جب کہ عذاب کی آندھی نے ان کی بستیوں میں داخل ہو کر ان کو بالکل کھنڈر بنا دیا، انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ ایک لمحہ پہلے تک بھی حق کا اعتراف نہیں کرتا۔ وہ صرف اس وقت اعتراف کرتا ہے جب کہ اعتراف کرنے کا موقع اس سے چھین ليا گیا ہو۔
وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِنْ مَكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُمْ مِنْ شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
📘 قریش کے سرداروں کو جو دنیوی مرتبہ حاصل تھا اس نے انہیں سرکش بنا رکھا تھا۔ ان کو یاد دلایا گیا کہ اپنے پڑوس کی قوم عاد کو دیکھو۔ اس کو تمدنی اعتبار سے تم سے بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل تھا۔ اس کے باوجودجب خدا کا فیصلہ آیا تو اس کی ساری بڑائی غارت ہو کر رہ گئی۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کا سہارا نہ بن سکی جن کو انہوں نے اپنا سہارا سمجھ رکھا تھا۔
انسان آخر کار خدا کی بڑائی کے مقابلہ میں چھوٹا ہونے والا ہے۔ مگر دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اسی دنیا میں آدمی کو بار بار دوسروں کے مقابلہ میں چھوٹا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات خدا کی نشانیاں ہیں۔ آدمی اگر ان نشانیوں سے سبق لے تو آخرت کے دن چھوٹا کیے جانے سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو چھوٹا کرلے۔ وہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں حقیقت پسند بن جائے۔
انسان کے سامنے مختلف قسم کے واقعات خدائی نشانی بن کر ظاہر ہوتے ہیں ۔ مگر وہ اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔ وہ ان سے سبق لینے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔
وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
📘 قریش کے سرداروں کو جو دنیوی مرتبہ حاصل تھا اس نے انہیں سرکش بنا رکھا تھا۔ ان کو یاد دلایا گیا کہ اپنے پڑوس کی قوم عاد کو دیکھو۔ اس کو تمدنی اعتبار سے تم سے بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل تھا۔ اس کے باوجودجب خدا کا فیصلہ آیا تو اس کی ساری بڑائی غارت ہو کر رہ گئی۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کا سہارا نہ بن سکی جن کو انہوں نے اپنا سہارا سمجھ رکھا تھا۔
انسان آخر کار خدا کی بڑائی کے مقابلہ میں چھوٹا ہونے والا ہے۔ مگر دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اسی دنیا میں آدمی کو بار بار دوسروں کے مقابلہ میں چھوٹا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات خدا کی نشانیاں ہیں۔ آدمی اگر ان نشانیوں سے سبق لے تو آخرت کے دن چھوٹا کیے جانے سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو چھوٹا کرلے۔ وہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں حقیقت پسند بن جائے۔
انسان کے سامنے مختلف قسم کے واقعات خدائی نشانی بن کر ظاہر ہوتے ہیں ۔ مگر وہ اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔ وہ ان سے سبق لینے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔
فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
📘 قریش کے سرداروں کو جو دنیوی مرتبہ حاصل تھا اس نے انہیں سرکش بنا رکھا تھا۔ ان کو یاد دلایا گیا کہ اپنے پڑوس کی قوم عاد کو دیکھو۔ اس کو تمدنی اعتبار سے تم سے بھی زیادہ بڑا درجہ حاصل تھا۔ اس کے باوجودجب خدا کا فیصلہ آیا تو اس کی ساری بڑائی غارت ہو کر رہ گئی۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کا سہارا نہ بن سکی جن کو انہوں نے اپنا سہارا سمجھ رکھا تھا۔
انسان آخر کار خدا کی بڑائی کے مقابلہ میں چھوٹا ہونے والا ہے۔ مگر دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اسی دنیا میں آدمی کو بار بار دوسروں کے مقابلہ میں چھوٹا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح کے واقعات خدا کی نشانیاں ہیں۔ آدمی اگر ان نشانیوں سے سبق لے تو آخرت کے دن چھوٹا کیے جانے سے پہلے وہ خود اپنے آپ کو چھوٹا کرلے۔ وہ آخرت سے پہلے اسی دنیا میں حقیقت پسند بن جائے۔
انسان کے سامنے مختلف قسم کے واقعات خدائی نشانی بن کر ظاہر ہوتے ہیں ۔ مگر وہ اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔ وہ ان سے سبق لینے کےلیے تیار نہیں ہوتا۔
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنْصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ
📘 نبوت کے دسویں سال مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بے حد سخت ہوچکے تھے۔ اس وقت آپ نے مکہ سے طائف کی طرف سفر فرمایا کہ شاید آپ کو کچھ ساتھ دینے والے مل سکیں۔ مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کا بہت برُا استقبال کیا۔ واپسی میں آپ رات گزارنے کے لیے نخلہ کے مقام پر ٹھہرے۔ یہاں آپ نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنات کے ایک گروہ نے قرآن کو سنا۔ اور وہ اسی وقت اس کے مومن بن گئے— ایک گروہ قرآن کو رد کر رہا تھا۔ مگر عین اسی وقت دوسرا گروہ قرآن کو قبول کر رہا تھا۔ اور اتنی شدت کے ساتھ قبول کر رہا تھا کہ اسی وقت وہ اس کا مبلغ بن گیا۔
اللہ کے داعی کی بات کو رد کرنا گویا خدا کے منصوبہ کو رد کرنا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے منصوبہ کو رد کرسکے۔ اس لیے ایسی کوشش کرنے والے کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خود رد ہو کر رہ جاتا ہے۔
مَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوا مُعْرِضُونَ
📘 كائنات كا مطالعه بتاتا هے كه اس ميں هر طرف حكمت اور معنويت هے۔ پھر ايك ايسا كارخانه جو اپنے آغاز ميں بامعني هو وه اپنے اختتام ميں بے معني كيسے هوجائے گا۔
حق اپني ذات ميں نهايت محكم چيز هے۔ وه كائنات كي سب سے بڑي طاقت هے۔ اس كے باوجود كيوں ايسا هے كه جب لوگوں كے سامنے حق پيش كيا جاتا هے تو وه اس كا انكار كرديتے هيں۔ اس كي وجه يه هے كه موجوده دنياميں لوگوں كو حق كي صرف خبر دي جارهي هے۔ آخرت ميں يه هوگا كه حق واقعه بن كر لوگوں كے اوپر ٹوٹ پڑے گا۔ اس وقت وهي لوگ حق كے سامنے ڈھه پڑيں گے جو اس سے پهلے حق كو غير اهم سمجھ كر اس كو نظر انداز كررهے تھے۔
قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 نبوت کے دسویں سال مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بے حد سخت ہوچکے تھے۔ اس وقت آپ نے مکہ سے طائف کی طرف سفر فرمایا کہ شاید آپ کو کچھ ساتھ دینے والے مل سکیں۔ مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کا بہت برُا استقبال کیا۔ واپسی میں آپ رات گزارنے کے لیے نخلہ کے مقام پر ٹھہرے۔ یہاں آپ نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنات کے ایک گروہ نے قرآن کو سنا۔ اور وہ اسی وقت اس کے مومن بن گئے— ایک گروہ قرآن کو رد کر رہا تھا۔ مگر عین اسی وقت دوسرا گروہ قرآن کو قبول کر رہا تھا۔ اور اتنی شدت کے ساتھ قبول کر رہا تھا کہ اسی وقت وہ اس کا مبلغ بن گیا۔
اللہ کے داعی کی بات کو رد کرنا گویا خدا کے منصوبہ کو رد کرنا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے منصوبہ کو رد کرسکے۔ اس لیے ایسی کوشش کرنے والے کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خود رد ہو کر رہ جاتا ہے۔
يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
📘 نبوت کے دسویں سال مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بے حد سخت ہوچکے تھے۔ اس وقت آپ نے مکہ سے طائف کی طرف سفر فرمایا کہ شاید آپ کو کچھ ساتھ دینے والے مل سکیں۔ مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کا بہت برُا استقبال کیا۔ واپسی میں آپ رات گزارنے کے لیے نخلہ کے مقام پر ٹھہرے۔ یہاں آپ نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنات کے ایک گروہ نے قرآن کو سنا۔ اور وہ اسی وقت اس کے مومن بن گئے— ایک گروہ قرآن کو رد کر رہا تھا۔ مگر عین اسی وقت دوسرا گروہ قرآن کو قبول کر رہا تھا۔ اور اتنی شدت کے ساتھ قبول کر رہا تھا کہ اسی وقت وہ اس کا مبلغ بن گیا۔
اللہ کے داعی کی بات کو رد کرنا گویا خدا کے منصوبہ کو رد کرنا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے منصوبہ کو رد کرسکے۔ اس لیے ایسی کوشش کرنے والے کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خود رد ہو کر رہ جاتا ہے۔
وَمَنْ لَا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 نبوت کے دسویں سال مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بے حد سخت ہوچکے تھے۔ اس وقت آپ نے مکہ سے طائف کی طرف سفر فرمایا کہ شاید آپ کو کچھ ساتھ دینے والے مل سکیں۔ مگر وہاں کے لوگوں نے آپ کا بہت برُا استقبال کیا۔ واپسی میں آپ رات گزارنے کے لیے نخلہ کے مقام پر ٹھہرے۔ یہاں آپ نماز میں قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے کہ جنات کے ایک گروہ نے قرآن کو سنا۔ اور وہ اسی وقت اس کے مومن بن گئے— ایک گروہ قرآن کو رد کر رہا تھا۔ مگر عین اسی وقت دوسرا گروہ قرآن کو قبول کر رہا تھا۔ اور اتنی شدت کے ساتھ قبول کر رہا تھا کہ اسی وقت وہ اس کا مبلغ بن گیا۔
اللہ کے داعی کی بات کو رد کرنا گویا خدا کے منصوبہ کو رد کرنا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ خدا کے منصوبہ کو رد کرسکے۔ اس لیے ایسی کوشش کرنے والے کا انجام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ خود رد ہو کر رہ جاتا ہے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَادِرٍ عَلَىٰ أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَىٰ ۚ بَلَىٰ إِنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 زمین و آسمان جیسی عظیم کائنات کا وجود میں آنا، اور پھر اربوں سال سے اس کا نہایت صحت اور ہم آہنگی کے ساتھ چلتے رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا عظیم ترین طاقتوں کا مالک ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات کو وجود میں لانا اس کے لیے عجز کا باعث نہیں بنا۔ تخلیق کا عمل اگر اسے تھکا دیتا تو تخلیق کے بعد وہ اتنی صحت کے ساتھ چلتی ہوئی نظر نہ آتی۔
خدا کی عظیم طاقت و قدرت کا مظاہرہ جو کائنات کی سطح پر ہو رہا ہے وہ یہ یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسانی نسل کو دوبارہ زندہ کرنا اور اس سے اس کے اعمال کا حساب لینا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
موجودہ دنیا میں آدمی کے سامنے حقیقت آتی ہے مگر وہ اس کو نہیں مانتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں حقیقت کے انکار کا انجام فوراً سامنے نہیں آتا۔ آخرت میں انکار کا ہولناک انجام ہر آدمی کے سامنے ہوگا۔ اس وقت وہ انتہائی حد تک سنجیدہ ہوجائے گا اور اس حقیقت کا فوراً اقرار کرلے گاجس کو موجودہ دنیا میں وہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَلَيْسَ هَٰذَا بِالْحَقِّ ۖ قَالُوا بَلَىٰ وَرَبِّنَا ۚ قَالَ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ
📘 زمین و آسمان جیسی عظیم کائنات کا وجود میں آنا، اور پھر اربوں سال سے اس کا نہایت صحت اور ہم آہنگی کے ساتھ چلتے رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کائنات کا پیدا کرنے والا عظیم ترین طاقتوں کا مالک ہے۔ نیز یہ کہ اس کائنات کو وجود میں لانا اس کے لیے عجز کا باعث نہیں بنا۔ تخلیق کا عمل اگر اسے تھکا دیتا تو تخلیق کے بعد وہ اتنی صحت کے ساتھ چلتی ہوئی نظر نہ آتی۔
خدا کی عظیم طاقت و قدرت کا مظاہرہ جو کائنات کی سطح پر ہو رہا ہے وہ یہ یقین کرنے کے لیے کافی ہے کہ انسانی نسل کو دوبارہ زندہ کرنا اور اس سے اس کے اعمال کا حساب لینا اس کے لیے کچھ مشکل نہیں۔
موجودہ دنیا میں آدمی کے سامنے حقیقت آتی ہے مگر وہ اس کو نہیں مانتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں حقیقت کے انکار کا انجام فوراً سامنے نہیں آتا۔ آخرت میں انکار کا ہولناک انجام ہر آدمی کے سامنے ہوگا۔ اس وقت وہ انتہائی حد تک سنجیدہ ہوجائے گا اور اس حقیقت کا فوراً اقرار کرلے گاجس کو موجودہ دنیا میں وہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ
📘 حق کی دعوت دینے والے کو ہمیشہ صبر کی زمین پر کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ صبر در اصل اس کا نام ہے کہ مدعو کی ایذا رسانیوں کو داعی یک طرفہ طور پر نظر انداز کرے۔ وہ مدعو کے ضد اور انکار کے باوجود مسلسل اس کو دعوت پہنچاتا رہے۔ داعی اپنے مدعو کا ہرحال میں خیر خواہ بنا رہے۔ خواہ مدعو کی طرف سے اس کو کتنی ہی زیادہ ناخوش گواریوں کا تجربہ کیوں نہ ہو رہا ہو۔ یہ یک طرفہ صبر اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر مدعو کے اوپر خدا کی حجت تمام نہیں ہوتی۔
خدا کے تمام پیغمبروں نے ہر زمانہ میں اسی طرح صبر و استقامت کے ساتھ دعوت حق کا کام کیا ہے۔ آئندہ بھی پیغمبروں کی نیابت میں جو لوگ دعوت حق کا کام کریں ان کو اسی نمونہ پر دعوت کا کام کرنا ہے۔ خدا کے یہاں داعی کا مقام صرف انہیں لوگوں کے لیے مقدر ہے جو یک طرفہ برداشت کا حوصلہ دکھا سکیں۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ ۖ ائْتُونِي بِكِتَابٍ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 مفسر ابن كثير نے يهاں ’’كتاب‘‘ سے مراد نقلي دليل اور ’’أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ‘‘ سے مراد عقلي دليل لي هے (أَيْ لَا دَلِيْلَ لَكُمْ لَا نَقْلِيًّا وَلَا عَقْلِيًّا عَلَى ذَلِكَ) تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ
252
۔
علم حقيقةً صرف دو هے۔ ايك الهامي علم (Revealed knowledge)۔ يعني وه علم جو پيغمبروں كے ذريعه سے انسانوں تك پهنچا۔ دوسرا ثابت شده علم (Established knowledge)۔ يعني وه علم جس كا علم هونا انساني تحقيقات اور تجربات سے ثابت هوگيا هو۔ ان دونوں ميں سے كوئي بھي علم يه نهيں بتاتا كه اس كائنات ميں ايك خدا كے سوا كوئي اور هستي هے جو خدائي کے لائق هے۔ اور جب علم كے دو ذريعوں ميں سے كوئي ذريعه شرك كي گواهي نه دے تو مشركانه عقيده انسان كے لیے كيوں كردرست هوسكتا هے۔ جو شخص خدا كو چھوڑ كر كسي اور چيز كو اپنا سهارا بنائے۔ وه سہارا آخرت كے دن اس سے برأت كرے گا، نه كه وه اس كا مددگار بنے ۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ
📘 مفسر ابن كثير نے يهاں ’’كتاب‘‘ سے مراد نقلي دليل اور ’’أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ‘‘ سے مراد عقلي دليل لي هے (أَيْ لَا دَلِيْلَ لَكُمْ لَا نَقْلِيًّا وَلَا عَقْلِيًّا عَلَى ذَلِكَ) تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ
252
۔
علم حقيقةً صرف دو هے۔ ايك الهامي علم (Revealed knowledge)۔ يعني وه علم جو پيغمبروں كے ذريعه سے انسانوں تك پهنچا۔ دوسرا ثابت شده علم (Established knowledge)۔ يعني وه علم جس كا علم هونا انساني تحقيقات اور تجربات سے ثابت هوگيا هو۔ ان دونوں ميں سے كوئي بھي علم يه نهيں بتاتا كه اس كائنات ميں ايك خدا كے سوا كوئي اور هستي هے جو خدائي کے لائق هے۔ اور جب علم كے دو ذريعوں ميں سے كوئي ذريعه شرك كي گواهي نه دے تو مشركانه عقيده انسان كے لیے كيوں كردرست هوسكتا هے۔ جو شخص خدا كو چھوڑ كر كسي اور چيز كو اپنا سهارا بنائے۔ وه سہارا آخرت كے دن اس سے برأت كرے گا، نه كه وه اس كا مددگار بنے ۔
وَإِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوا لَهُمْ أَعْدَاءً وَكَانُوا بِعِبَادَتِهِمْ كَافِرِينَ
📘 مفسر ابن كثير نے يهاں ’’كتاب‘‘ سے مراد نقلي دليل اور ’’أَثارَةٍ مِنْ عِلْمٍ‘‘ سے مراد عقلي دليل لي هے (أَيْ لَا دَلِيْلَ لَكُمْ لَا نَقْلِيًّا وَلَا عَقْلِيًّا عَلَى ذَلِكَ) تفسیر ابن کثیر، جلد7، صفحہ
252
۔
علم حقيقةً صرف دو هے۔ ايك الهامي علم (Revealed knowledge)۔ يعني وه علم جو پيغمبروں كے ذريعه سے انسانوں تك پهنچا۔ دوسرا ثابت شده علم (Established knowledge)۔ يعني وه علم جس كا علم هونا انساني تحقيقات اور تجربات سے ثابت هوگيا هو۔ ان دونوں ميں سے كوئي بھي علم يه نهيں بتاتا كه اس كائنات ميں ايك خدا كے سوا كوئي اور هستي هے جو خدائي کے لائق هے۔ اور جب علم كے دو ذريعوں ميں سے كوئي ذريعه شرك كي گواهي نه دے تو مشركانه عقيده انسان كے لیے كيوں كردرست هوسكتا هے۔ جو شخص خدا كو چھوڑ كر كسي اور چيز كو اپنا سهارا بنائے۔ وه سہارا آخرت كے دن اس سے برأت كرے گا، نه كه وه اس كا مددگار بنے ۔
وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمْ هَٰذَا سِحْرٌ مُبِينٌ
📘 قديم عرب ميں قرآن كے مخاطبين قرآن كے پيغام كو يه كهه كر رد كرديتے تھے كه يه همارے اكابر كے دين كے خلاف هے۔ اور چونكه لوگوں كے اوپر اكابر كي عظمت بيٹھي هوئي تھي وه اس كو مان كر قرآن كے پيغام سے متوحش هوجاتے تھے۔ مگر قرآن كا ايك اور پهلو تھا اور وه اس كا ادبي اعجاز تھا۔ هر عربي داں محسوس كررها تھا كه يه ايك غير معمولي كلام هے۔ اس دوسرے پهلو سے قرآن كي اهميت كو گھٹانے كے ليے انھوں نے كهه ديا كه يه ’’سحر‘‘ هے۔ يعني يه جادو بياني كا كرشمه هے نه كه حقيقت بياني كا كمال۔
يه صحيح هے كه بعض انسانوں كے كلام ميں غير معمولي ادبيت هوتي هے مگر انساني كلام كي ادبيت كي ايك حد هے۔ قرآن كا ادبي اعجاز اس حد سے بهت آگے هے۔ قرآن كي ادبي عظمت اس سے زياده هے كه اس كو انساني دماغ كا كرشمه كهاجاسكے۔
جب فريق ثاني ضد پر اتر آئے تو اس وقت ايك سنجيده انسان يه كرتا هے كه وه يه كهه كر چپ هوجاتا هے كه ميرا اور تمھارا معامله الله كے حوالے هے۔ تاهم يه پسپائي نهيں بلكه ايك اقدامي تدبير هے۔ آدمي جب ايك ضدي كے سامنے چپ هوجائے تو وه اپنے آپ كو اس كے سامنے سے هٹا كر خود اس كو اس كے ضمير كے سامنے كھڑا كرديتا هے تاكه اس كے اندر احساس كا كوئي درجه هو تو وه بیدار هوجائے۔
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
📘 قديم عرب ميں قرآن كے مخاطبين قرآن كے پيغام كو يه كهه كر رد كرديتے تھے كه يه همارے اكابر كے دين كے خلاف هے۔ اور چونكه لوگوں كے اوپر اكابر كي عظمت بيٹھي هوئي تھي وه اس كو مان كر قرآن كے پيغام سے متوحش هوجاتے تھے۔ مگر قرآن كا ايك اور پهلو تھا اور وه اس كا ادبي اعجاز تھا۔ هر عربي داں محسوس كررها تھا كه يه ايك غير معمولي كلام هے۔ اس دوسرے پهلو سے قرآن كي اهميت كو گھٹانے كے ليے انھوں نے كهه ديا كه يه ’’سحر‘‘ هے۔ يعني يه جادو بياني كا كرشمه هے نه كه حقيقت بياني كا كمال۔
يه صحيح هے كه بعض انسانوں كے كلام ميں غير معمولي ادبيت هوتي هے مگر انساني كلام كي ادبيت كي ايك حد هے۔ قرآن كا ادبي اعجاز اس حد سے بهت آگے هے۔ قرآن كي ادبي عظمت اس سے زياده هے كه اس كو انساني دماغ كا كرشمه كهاجاسكے۔
جب فريق ثاني ضد پر اتر آئے تو اس وقت ايك سنجيده انسان يه كرتا هے كه وه يه كهه كر چپ هوجاتا هے كه ميرا اور تمھارا معامله الله كے حوالے هے۔ تاهم يه پسپائي نهيں بلكه ايك اقدامي تدبير هے۔ آدمي جب ايك ضدي كے سامنے چپ هوجائے تو وه اپنے آپ كو اس كے سامنے سے هٹا كر خود اس كو اس كے ضمير كے سامنے كھڑا كرديتا هے تاكه اس كے اندر احساس كا كوئي درجه هو تو وه بیدار هوجائے۔
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ
📘 ابتداء ً جو لوگ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے ساتھی بنے ان ميں كئي ایسے لوگ تھے جو غريب اور غلام طبقه سے تعلق ركھتے تھے۔ مثلاً بلال ، عمار ، صهيب ، خباب ، وغيره۔ اسي كے ساتھ آپ پر ايمان لانے والوں ميں وه لوگ بھي تھے جو عرب كے معزز خاندانوں سے تعلق ركھتے تھے۔ مثلاً ابو بكر بن أبي قحافه ،عثمان بن عفان، علي ابن ابي طالب، وغيره۔مگر آپ كے مخالفين صرف پهلي قسم كے لوگوں كا ذكر كرتے تھے، وه دوسري قسم كے لوگوں كا ذكر نهيں كرتے تھے۔ اس كي وجه يه هے كه آدمي كو جب كسي سے ضد هوجاتي هے تو وه اس كے بارے ميں يك رخا هوجاتا هے۔ وه اس كے اچھے پهلوؤں كو نظر انداز كرديتا هے اور صرف انھيں پهلوؤں كا ذكر كرتا هے جس كے ذريعه اسے اس كي تحقير كا موقع ملتا هو۔
اسي طرح يه ايك واقعه تھا كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كي دعوت وهي تھي جو پچھلے تمام پيغمبروں كي دعوت تھي۔ آپ ايك ابدي صداقت كو لے كر آئے تھے۔اس واقعه كو آپ كے مخالفين ان لفظوں ميں بھي بيان كرسكتے تھے كه ’’يه ايك بهت پرانا سچ هے‘‘۔ مگر انھوں نے يه كهه ديا كه ’’يه ايك بهت پرانا جھوٹ هے‘‘۔ ناانصافي كي يه قسم قديم زمانه كے انسانوں ميں بھي پائي جاتي تھي اور آج بھي وه پوري طرح لوگوںكے اندر پائي جارهي هے۔