slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة إبراهيم

(Ibrahim) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَىٰ صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ

📘 ایمان یہ ہے کہ آدمی خدا کو ایک ایسی ہستی کی حیثیت سے پالے جو ساری طاقتوں کا مالک ہے اور ساری خوبیوں والا بھی هے۔ ایساواقعہ کسی آدمی کے لیے محض ایک رسمی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی آدمی کا بے علمی کی تاریکی سے نکل کر علم کی روشنی میں آناہے۔ یہ غیب کے پردے سے گزر کر شہود کے جلوے کو دیکھ لینا ہے۔ یہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کا ادراک کرلینا ہے۔ ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک شعوری یافت ہے، نہ کہ کسی مجموعۂ الفاظ کی بے روح تکرار— خداکی کتاب اس لیے آتی ہے کہ آدمی کو اس شعوری درجہ پر پہنچائے۔ اللہ کے اذن سے ہدایت ملنا، بظاہر ہدایت کے معاملہ کو اللہ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ مگر اس ارشاد کا رخ حقیقۃً خودانسان کی طرف ہے۔ ’’اذن‘‘ سے مراد خدا کا وہ مقررہ قانون ہے جو اس نے انسان کی ہدایت وضلالت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق آدمی کی اپنی سنجیدہ طلب واحد شرط ہے جو اس کو ہدایت تک پہنچاتی ہے۔ اس دنیا میں جس شخص کو ہدایت ملتی ہے وہ محض کسی داعی کی داعیانہ کوششوں سے نہیں ملتی بلکہ خدا کے قانون کے تحت ملتی ہے۔ اور خدا کا قانون یہ ہے کہ ہدایت کی نعمت کو صرف وہ شخص پائے گا جو خود ہدایت کا طالب ہو۔ ذاتی طلب کے بغیر کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ ہدایت کے راستہ کو خدانے انتہائی حد تک صاف اور روشن بنایا ہے۔ زمین وآسمان میںاس کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ خدا کی کتاب اس کے حق میں ناقابلِ انکار دلائل فراہم کرتی ہے۔ انسانی فطرت اس کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے۔ گویا تمام بہترین قرائن اس کے حق میں جمع ہیں۔ ایسی حالت میں جو لوگ ہدایت کے راستہ کو اختیارنه کریں وہ یقینی طور پر دنیوی مفادکی بنا پر ایسا کررہے ہیں، نہ کہ کسی واقعی سبب کی بنا پر۔ اگر چہ ایسے لوگ اپنی روش کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ ’’دلائل‘‘ بھی پیش کرتے ہیں مگر یہ دلائل صرف سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں اپنے نہ ماننے کا جواز فراہم کریں۔ ایسی حالت میں ہدایت سے محروم صرف وہی شخص رہ سکتا ہے جس کی مفاد پرستی اور دنیوی رغبت نے اس کو بالکل اندھا بہرا بنادیاهو۔

۞ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ قَالُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ

📘 اس آیت کا تعلق اصلاً قدیم قوموں سے ہے۔ مگر قرآن کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خدا کی ابدی تعلیمات کو تاریخ کے سانچہ میں ڈھال کر پیش کیاگیا ہے۔ اس لیے قرآن میںایسے الفاظ استعمال كيے جاتے ہیں جن میں مخاطبِ اول کی رعایت کے ساتھ بعد کے انسانوں کی رعایت بھی پوری طرح شامل ہو۔ اس آیت میں ’’فاطر‘‘ کا لفظ اسی کی ایک مثال ہے۔ فاطرکے لفظی معنی ہیں ’’پھاڑنے والا‘‘۔ عمومی مفہوم کے لحاظ سے فاطر کا لفظ یہاں خالق کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ مگراس کا خالص لفظی ترجمہ کیا جائے تو وہ ہوگا— ’’کیا تم کو خدا کے بارہ میں شک ہے جو زمین و آسمان کا پھاڑنے والا ہے‘‘۔ لفظی ترجمہ کے اعتبار سے یہ آیت موجودہ زمانہ میں منکرین خدا کے لیے خدا کے وجود کو ثابت کررہی ہے۔ جدید تحقیقات بتاتی ہیں کہ زمین وآسمان کا مادہ ابتداء ً ایک سالم گولے کی صورت میں تھا۔ جس کو سپر ایٹم کہاجاتاہے۔ معلوم قوانینِ فطرت کے مطابق اس کے تمام اجزاء انتہائی شدت کے ساتھ اندر کی طرف جڑے ہوئے تھے۔ موجودہ وسیع کائنات اسی سپر ایٹم میں انفجار سے وجود میںآئی۔ اس آیت میں فاطر (پھاڑنے والا) کا لفظ اسی کائناتی واقعہ کی طرف اشارہ کررہا ہے جو ایک خالق کے وجود کا قطعی ثبوت ہے۔ کیوں کہ سپر ايٹم کے اجزاء جو مکمل طورپر اندر کی طرف کھنچے ہوئے تھے، ان کو بیرونی سمت میں متحرک کرنا اپنے آپ نہیں ہوسکتا۔ لازم ہے کہ اس کے لیے کسی خارجی مداخلت کو مانا جائے۔ اسی مداخلت کرنے والی طاقت کا دوسرا نام خدا ہے۔

قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَأْتِيَكُمْ بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

📘 پیغمبروں کے مخاطبین نے جب اپنے ہم عصرپیغمبروں کو یہ کہہ کر رد کیا کہ ’’تم تو ہمارے جیسے ایک بشر ہو‘‘ تو اس کی وجہ حقیقۃً یہ نہیں تھی کہ وہ پیغمبری کے لیے غیر بشر ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ دراصل وہ فرق تھا جو ان کے اپنے تصور کے مطابق ان کو پچھلے پیغمبر اور ہم عصر پیغمبر میں نظر آتا تھا۔ گزرا ہوا پیغمبر بھی اگر چہ اپنے وقت میں ویسا ہی تھا جیسا کہ ہم عصرپیغمبر۔ مگر بعد کے دور میں گزرے ہوئے پیغمبروں کے متبعین نے ان کے گرد طلسماتی قصوں کا ہالہ بنا دیا۔ بعد کے دور میں پیغمبروں کی شخصیتوں کو ایسا افسانوی رنگ دے دیاگیا جو ابتداء ً ان کے یہاں موجود نہ تھا۔ اب قوموں کے سامنے ایک طرف فرضی شعبدوں والا پیغمبر تھا، دوسری طرف حقیقی واقعات والا پیغمبر۔ اس تقابل میں پچھلا پیغمبر پیغمبری کے لیے معیاری نمونہ بن گیا۔ اور جب قوموں نے اس معیار کے اعتبار سے دیکھا تو وقت کا حقیقی پیغمبر ان کو ماضی کے افسانوی پیغمبر سے کم نظر آیا۔ چنانچہ انھوںنے اس کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ پیغمبروں نے اپنے مخاطبین سے کہا کہ تمھاری ان باتوں کے جواب میں ہمارے پاس صبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ تم غیر بشریت کی سطح پر ہدایت کے طالب ہو۔ اور خدا نے ہم کو صرف بشریت کی سطح پر ہدایت دینے کی طاقت عطا کی ہے۔ ایسی حالت میں ہم اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں کہ تمھاری ایذاؤں کو برداشت کریں اور اس سارے معاملہ کو خدا کے حوالے کردیں۔

وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللَّهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا ۚ وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَا آذَيْتُمُونَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ

📘 پیغمبروں کے مخاطبین نے جب اپنے ہم عصرپیغمبروں کو یہ کہہ کر رد کیا کہ ’’تم تو ہمارے جیسے ایک بشر ہو‘‘ تو اس کی وجہ حقیقۃً یہ نہیں تھی کہ وہ پیغمبری کے لیے غیر بشر ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ دراصل وہ فرق تھا جو ان کے اپنے تصور کے مطابق ان کو پچھلے پیغمبر اور ہم عصر پیغمبر میں نظر آتا تھا۔ گزرا ہوا پیغمبر بھی اگر چہ اپنے وقت میں ویسا ہی تھا جیسا کہ ہم عصرپیغمبر۔ مگر بعد کے دور میں گزرے ہوئے پیغمبروں کے متبعین نے ان کے گرد طلسماتی قصوں کا ہالہ بنا دیا۔ بعد کے دور میں پیغمبروں کی شخصیتوں کو ایسا افسانوی رنگ دے دیاگیا جو ابتداء ً ان کے یہاں موجود نہ تھا۔ اب قوموں کے سامنے ایک طرف فرضی شعبدوں والا پیغمبر تھا، دوسری طرف حقیقی واقعات والا پیغمبر۔ اس تقابل میں پچھلا پیغمبر پیغمبری کے لیے معیاری نمونہ بن گیا۔ اور جب قوموں نے اس معیار کے اعتبار سے دیکھا تو وقت کا حقیقی پیغمبر ان کو ماضی کے افسانوی پیغمبر سے کم نظر آیا۔ چنانچہ انھوںنے اس کو حقیر سمجھ کر نظر انداز کردیا۔ پیغمبروں نے اپنے مخاطبین سے کہا کہ تمھاری ان باتوں کے جواب میں ہمارے پاس صبر کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ تم غیر بشریت کی سطح پر ہدایت کے طالب ہو۔ اور خدا نے ہم کو صرف بشریت کی سطح پر ہدایت دینے کی طاقت عطا کی ہے۔ ایسی حالت میں ہم اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں کہ تمھاری ایذاؤں کو برداشت کریں اور اس سارے معاملہ کو خدا کے حوالے کردیں۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا ۖ فَأَوْحَىٰ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّالِمِينَ

📘 پیغمبروں کی دعوت سے ان کی قوموں کے دین پر زد پڑتی تھی۔ وہ لوگ اپنے جن افراد کو قوم کے اکابر کادرجہ ديے ہوئے تھے، پیغمبروں کے تجزیہ میں وہ اصاغر قرار پارہے تھے۔ اس بنا پر وہ پیغمبروں سے بگڑ گئے۔ وہ دلائل سے تو ان کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ البتہ وقت کے نظام میں ان کو ہر قسم کا اختیار حاصل تھا۔ چنانچہ ان کی متکبرانہ نفسیات نے انھیں سمجھایا کہ پیغمبر کو بے گھر اور بے زمین کردیا جائے۔ جس چیز کا توڑان کے پاس دلیل کی زبان میں نہ تھا، ا س کا توڑ انھوں نے طاقت کے ذریعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو زمین آدمی کے پاس ہے، وہ اس کے پاس بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور حق۔ اگر آدمی یہ سمجھے کہ یہ خدا کی چیز ہے جس کو اس نے امتحان کی غرض سے اس کی تحویل میں دیا ہے تو اس سے آدمی کے اندر تواضع کی نفسیا ت پیداہوگی۔ وہ ڈرے گا کہ جس خدا نے دیاہے وہ اس کو دوبارہ اس سے چھین نہ لے۔ مگر غافل لوگ اس کو اپنا ذاتی حق سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا یہی احساس ان کو ظالم اور متکبر بنا دیتاہے۔ پیغمبر کی دعوت جب تکمیل کے مرحلہ پر پہنچتی ہے تو یہ مخاطب قوم کے لیے مہلت امتحان ختم ہونے کے ہم معنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ دنیاکو اپنے لیے بالکل بدلا ہوا پاتے ہیں۔ جن چیزوں کو وہ اپنی چیز سمجھ کر متکبرانہ منصوبے بنا رہے تھے وہ چیزیں اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ زمین ان سے چھین کر دوسرے لوگوں کو دے دی جائے جو ان کے مقابلہ میں اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہوں۔

وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ

📘 پیغمبروں کی دعوت سے ان کی قوموں کے دین پر زد پڑتی تھی۔ وہ لوگ اپنے جن افراد کو قوم کے اکابر کادرجہ ديے ہوئے تھے، پیغمبروں کے تجزیہ میں وہ اصاغر قرار پارہے تھے۔ اس بنا پر وہ پیغمبروں سے بگڑ گئے۔ وہ دلائل سے تو ان کو رد نہیں کرسکتے تھے۔ البتہ وقت کے نظام میں ان کو ہر قسم کا اختیار حاصل تھا۔ چنانچہ ان کی متکبرانہ نفسیات نے انھیں سمجھایا کہ پیغمبر کو بے گھر اور بے زمین کردیا جائے۔ جس چیز کا توڑان کے پاس دلیل کی زبان میں نہ تھا، ا س کا توڑ انھوں نے طاقت کے ذریعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جو زمین آدمی کے پاس ہے، وہ اس کے پاس بطور امتحان ہے، نہ کہ بطور حق۔ اگر آدمی یہ سمجھے کہ یہ خدا کی چیز ہے جس کو اس نے امتحان کی غرض سے اس کی تحویل میں دیا ہے تو اس سے آدمی کے اندر تواضع کی نفسیا ت پیداہوگی۔ وہ ڈرے گا کہ جس خدا نے دیاہے وہ اس کو دوبارہ اس سے چھین نہ لے۔ مگر غافل لوگ اس کو اپنا ذاتی حق سمجھ لیتے ہیں۔ ان کا یہی احساس ان کو ظالم اور متکبر بنا دیتاہے۔ پیغمبر کی دعوت جب تکمیل کے مرحلہ پر پہنچتی ہے تو یہ مخاطب قوم کے لیے مہلت امتحان ختم ہونے کے ہم معنی ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ دنیاکو اپنے لیے بالکل بدلا ہوا پاتے ہیں۔ جن چیزوں کو وہ اپنی چیز سمجھ کر متکبرانہ منصوبے بنا رہے تھے وہ چیزیں اچانک ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ زمین ان سے چھین کر دوسرے لوگوں کو دے دی جائے جو ان کے مقابلہ میں اس کا زیادہ استحقاق رکھتے ہوں۔

وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ

📘 خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس کو خدا کی طرف بلایا جائے اور وہ جبّار اور عنید بن کر اس کا جواب دے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں ایسا شدیدعذاب کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو موت اور ہلاکت کے کنارے پائیں گے۔ جب آدمی کسی کے خلاف ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو وہ کسی برتے پر ایسا کرتاہے۔ یہ مخالفین اپنے آپ کو ’’اکابر‘‘ کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں پیغمبر اور اس کے ساتھی ان کو ’’اصاغر‘‘ دکھائی دیتے تھے۔ ان کی یہی نفسیات تھی جس نے انھیں آمادہ کیا کہ وہ پیغمبر اور اس کے ساتھوں کے اوپر ہر قسم کے ظلم کو اپنے لیے جائز سمجھ لیں۔ اپنے كو ’’اکابر‘‘ سے منسوب کرنے ہی کي وجہ سے وہ ’’اصاغر‘‘ کے خلاف ہر قسم کی کارروائیوں کے لیے دلیر ہوگئے۔

مِنْ وَرَائِهِ جَهَنَّمُ وَيُسْقَىٰ مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ

📘 خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس کو خدا کی طرف بلایا جائے اور وہ جبّار اور عنید بن کر اس کا جواب دے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں ایسا شدیدعذاب کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو موت اور ہلاکت کے کنارے پائیں گے۔ جب آدمی کسی کے خلاف ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو وہ کسی برتے پر ایسا کرتاہے۔ یہ مخالفین اپنے آپ کو ’’اکابر‘‘ کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں پیغمبر اور اس کے ساتھی ان کو ’’اصاغر‘‘ دکھائی دیتے تھے۔ ان کی یہی نفسیات تھی جس نے انھیں آمادہ کیا کہ وہ پیغمبر اور اس کے ساتھوں کے اوپر ہر قسم کے ظلم کو اپنے لیے جائز سمجھ لیں۔ اپنے كو ’’اکابر‘‘ سے منسوب کرنے ہی کي وجہ سے وہ ’’اصاغر‘‘ کے خلاف ہر قسم کی کارروائیوں کے لیے دلیر ہوگئے۔

يَتَجَرَّعُهُ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍ ۖ وَمِنْ وَرَائِهِ عَذَابٌ غَلِيظٌ

📘 خدا کے نزدیک کسی آدمی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس کو خدا کی طرف بلایا جائے اور وہ جبّار اور عنید بن کر اس کا جواب دے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں ذلت ہے اور آخرت میں ایسا شدیدعذاب کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو موت اور ہلاکت کے کنارے پائیں گے۔ جب آدمی کسی کے خلاف ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو وہ کسی برتے پر ایسا کرتاہے۔ یہ مخالفین اپنے آپ کو ’’اکابر‘‘ کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں پیغمبر اور اس کے ساتھی ان کو ’’اصاغر‘‘ دکھائی دیتے تھے۔ ان کی یہی نفسیات تھی جس نے انھیں آمادہ کیا کہ وہ پیغمبر اور اس کے ساتھوں کے اوپر ہر قسم کے ظلم کو اپنے لیے جائز سمجھ لیں۔ اپنے كو ’’اکابر‘‘ سے منسوب کرنے ہی کي وجہ سے وہ ’’اصاغر‘‘ کے خلاف ہر قسم کی کارروائیوں کے لیے دلیر ہوگئے۔

مَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ ۖ أَعْمَالُهُمْ كَرَمَادٍ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ فِي يَوْمٍ عَاصِفٍ ۖ لَا يَقْدِرُونَ مِمَّا كَسَبُوا عَلَىٰ شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

📘 عرب کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا وہ سب خداا ور مذہب کو ماننے والے لوگ تھے۔ پھر کیوں وہ آپ کے منکر بن گئے۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی سطح پر حق اپنی مجرد صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ جب کہ وہ لوگ صرف اس چیز کو حق سمجھتے تھے جو ان کے قومی بزرگوں کے ذریعہ انھیں ملا ہو۔ انھوںنے اپنے مسلّم قومی بزرگوں کے دین کو پہچانا، مگر وہ ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ کے دین کو پہچاننے میں ناکام رہے۔ جو لوگ قومی روایات کے زیرِ اثر دین کو پائیں ان کے یہاں بھی دینی مظاہر موجود ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر ان کے یہاں دین کی دھوم پائی جاتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ محض ظاہری دینداری ہوتی ہے، دین کی اصل حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر خدا کو جو چیز مطلوب ہے وہ حقیقی دینداری ہے، نہ کہ ظاہری ہنگامے۔ خدا کووہ انسان مطلوب ہے جس نے ذاتی شعور کی سطح پر حق کو پایا ہو۔ جس نے عالم غیب میں خدا کا مشاہدہ کیا ہو۔ جس نے حق کو اس کی مجرد صورت میں پہچانا ہو اور اس کا ساتھ دیا ہو۔ جس کی روح خدا کے سمندر میں نہائی ہو۔ جو خدا کی محبت میں تڑپا ہو اور خدا کے خوف سے جس کی آنکھوں نے آنسو بہائے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگوں کی دینداری اوپری دین داری ہے۔ قیامت کی آندھی اس کو اسی طرح اڑا لے جائے گی جس طرح سطحِ زمین کی خس وخاشاک تیز ہوا میں اڑجاتی ہے۔ اس کے برعکس، دوسری قسم کے لوگوں کا دین حقیقی دین ہے۔ وہ انسانی وجود کی آخری گہرا ئی تک پیوست ہوتاہے۔ ایسے وجود کے لیے آندھی صرف اس ليے آتی ہے کہ وہ اس کی مضبوطی کو ثابت کرے، نہ کہ اس کو اکھاڑ لے جائے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کی تخلیق حقائق پر ہوئی ہے۔ ایسی کائنات میں صرف حقیقی عمل کی قیمت ہوسکتی ہے، نہ کہ مفروضوں اور خوش گمانیوں کی۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ إِنْ يَشَأْ يُذْهِبْكُمْ وَيَأْتِ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ

📘 عرب کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا وہ سب خداا ور مذہب کو ماننے والے لوگ تھے۔ پھر کیوں وہ آپ کے منکر بن گئے۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی سطح پر حق اپنی مجرد صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ جب کہ وہ لوگ صرف اس چیز کو حق سمجھتے تھے جو ان کے قومی بزرگوں کے ذریعہ انھیں ملا ہو۔ انھوںنے اپنے مسلّم قومی بزرگوں کے دین کو پہچانا، مگر وہ ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ کے دین کو پہچاننے میں ناکام رہے۔ جو لوگ قومی روایات کے زیرِ اثر دین کو پائیں ان کے یہاں بھی دینی مظاہر موجود ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر ان کے یہاں دین کی دھوم پائی جاتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ محض ظاہری دینداری ہوتی ہے، دین کی اصل حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر خدا کو جو چیز مطلوب ہے وہ حقیقی دینداری ہے، نہ کہ ظاہری ہنگامے۔ خدا کووہ انسان مطلوب ہے جس نے ذاتی شعور کی سطح پر حق کو پایا ہو۔ جس نے عالم غیب میں خدا کا مشاہدہ کیا ہو۔ جس نے حق کو اس کی مجرد صورت میں پہچانا ہو اور اس کا ساتھ دیا ہو۔ جس کی روح خدا کے سمندر میں نہائی ہو۔ جو خدا کی محبت میں تڑپا ہو اور خدا کے خوف سے جس کی آنکھوں نے آنسو بہائے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگوں کی دینداری اوپری دین داری ہے۔ قیامت کی آندھی اس کو اسی طرح اڑا لے جائے گی جس طرح سطحِ زمین کی خس وخاشاک تیز ہوا میں اڑجاتی ہے۔ اس کے برعکس، دوسری قسم کے لوگوں کا دین حقیقی دین ہے۔ وہ انسانی وجود کی آخری گہرا ئی تک پیوست ہوتاہے۔ ایسے وجود کے لیے آندھی صرف اس ليے آتی ہے کہ وہ اس کی مضبوطی کو ثابت کرے، نہ کہ اس کو اکھاڑ لے جائے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کی تخلیق حقائق پر ہوئی ہے۔ ایسی کائنات میں صرف حقیقی عمل کی قیمت ہوسکتی ہے، نہ کہ مفروضوں اور خوش گمانیوں کی۔

اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ

📘 ایمان یہ ہے کہ آدمی خدا کو ایک ایسی ہستی کی حیثیت سے پالے جو ساری طاقتوں کا مالک ہے اور ساری خوبیوں والا بھی هے۔ ایساواقعہ کسی آدمی کے لیے محض ایک رسمی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی آدمی کا بے علمی کی تاریکی سے نکل کر علم کی روشنی میں آناہے۔ یہ غیب کے پردے سے گزر کر شہود کے جلوے کو دیکھ لینا ہے۔ یہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کا ادراک کرلینا ہے۔ ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک شعوری یافت ہے، نہ کہ کسی مجموعۂ الفاظ کی بے روح تکرار— خداکی کتاب اس لیے آتی ہے کہ آدمی کو اس شعوری درجہ پر پہنچائے۔ اللہ کے اذن سے ہدایت ملنا، بظاہر ہدایت کے معاملہ کو اللہ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ مگر اس ارشاد کا رخ حقیقۃً خودانسان کی طرف ہے۔ ’’اذن‘‘ سے مراد خدا کا وہ مقررہ قانون ہے جو اس نے انسان کی ہدایت وضلالت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق آدمی کی اپنی سنجیدہ طلب واحد شرط ہے جو اس کو ہدایت تک پہنچاتی ہے۔ اس دنیا میں جس شخص کو ہدایت ملتی ہے وہ محض کسی داعی کی داعیانہ کوششوں سے نہیں ملتی بلکہ خدا کے قانون کے تحت ملتی ہے۔ اور خدا کا قانون یہ ہے کہ ہدایت کی نعمت کو صرف وہ شخص پائے گا جو خود ہدایت کا طالب ہو۔ ذاتی طلب کے بغیر کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ ہدایت کے راستہ کو خدانے انتہائی حد تک صاف اور روشن بنایا ہے۔ زمین وآسمان میںاس کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ خدا کی کتاب اس کے حق میں ناقابلِ انکار دلائل فراہم کرتی ہے۔ انسانی فطرت اس کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے۔ گویا تمام بہترین قرائن اس کے حق میں جمع ہیں۔ ایسی حالت میں جو لوگ ہدایت کے راستہ کو اختیارنه کریں وہ یقینی طور پر دنیوی مفادکی بنا پر ایسا کررہے ہیں، نہ کہ کسی واقعی سبب کی بنا پر۔ اگر چہ ایسے لوگ اپنی روش کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ ’’دلائل‘‘ بھی پیش کرتے ہیں مگر یہ دلائل صرف سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں اپنے نہ ماننے کا جواز فراہم کریں۔ ایسی حالت میں ہدایت سے محروم صرف وہی شخص رہ سکتا ہے جس کی مفاد پرستی اور دنیوی رغبت نے اس کو بالکل اندھا بہرا بنادیاهو۔

وَمَا ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزٍ

📘 عرب کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا وہ سب خداا ور مذہب کو ماننے والے لوگ تھے۔ پھر کیوں وہ آپ کے منکر بن گئے۔ ا س کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی سطح پر حق اپنی مجرد صورت میں ظاہر ہوا تھا۔ جب کہ وہ لوگ صرف اس چیز کو حق سمجھتے تھے جو ان کے قومی بزرگوں کے ذریعہ انھیں ملا ہو۔ انھوںنے اپنے مسلّم قومی بزرگوں کے دین کو پہچانا، مگر وہ ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ کے دین کو پہچاننے میں ناکام رہے۔ جو لوگ قومی روایات کے زیرِ اثر دین کو پائیں ان کے یہاں بھی دینی مظاہر موجود ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر ان کے یہاں دین کی دھوم پائی جاتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ محض ظاہری دینداری ہوتی ہے، دین کی اصل حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ مگر خدا کو جو چیز مطلوب ہے وہ حقیقی دینداری ہے، نہ کہ ظاہری ہنگامے۔ خدا کووہ انسان مطلوب ہے جس نے ذاتی شعور کی سطح پر حق کو پایا ہو۔ جس نے عالم غیب میں خدا کا مشاہدہ کیا ہو۔ جس نے حق کو اس کی مجرد صورت میں پہچانا ہو اور اس کا ساتھ دیا ہو۔ جس کی روح خدا کے سمندر میں نہائی ہو۔ جو خدا کی محبت میں تڑپا ہو اور خدا کے خوف سے جس کی آنکھوں نے آنسو بہائے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگوں کی دینداری اوپری دین داری ہے۔ قیامت کی آندھی اس کو اسی طرح اڑا لے جائے گی جس طرح سطحِ زمین کی خس وخاشاک تیز ہوا میں اڑجاتی ہے۔ اس کے برعکس، دوسری قسم کے لوگوں کا دین حقیقی دین ہے۔ وہ انسانی وجود کی آخری گہرا ئی تک پیوست ہوتاہے۔ ایسے وجود کے لیے آندھی صرف اس ليے آتی ہے کہ وہ اس کی مضبوطی کو ثابت کرے، نہ کہ اس کو اکھاڑ لے جائے۔ کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس کی تخلیق حقائق پر ہوئی ہے۔ ایسی کائنات میں صرف حقیقی عمل کی قیمت ہوسکتی ہے، نہ کہ مفروضوں اور خوش گمانیوں کی۔

وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا فَقَالَ الضُّعَفَاءُ لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا إِنَّا كُنَّا لَكُمْ تَبَعًا فَهَلْ أَنْتُمْ مُغْنُونَ عَنَّا مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ قَالُوا لَوْ هَدَانَا اللَّهُ لَهَدَيْنَاكُمْ ۖ سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِنْ مَحِيصٍ

📘 انسان، بطور واقعہ اگر چہ ہر وقت ’’خدا کے سامنے‘‘ ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں آدمی اپنے آپ کو بظاہر خدا کے سامنے نہیں پاتا۔ آخرت میں یہ پردہ ہٹ جائے گا۔ اس وقت آدمی دیکھے گا کہ وہ اس طرح کامل طورپر خدا کے سامنے تھا کہ اس کی کوئی چیز خدا سے چھپی ہوئی نہیں تھی۔ دنیا میں جو لوگ حق کو نظر انداز کرتے ہیں ان کا سب سے بڑا سہارا ان کے مفروضہ اکابر ہوتے ہیں۔ خواہ وہ مُردہ اکابر ہوں یا زندہ اکابر۔ چھوٹے جو کچھ کرتے ہیں اپنے بڑوں کے بَل پر کرتے ہیں۔ آخرت میں جب یہ لوگ اپنے آپ کو بالکل بے بسی کی حالت میں پائیں گے تو وہ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ دنیا میں ہم تمھاری رہنمائی پر اعتماد كيے ہوئے تھے، اب یہاں بھی تم ہماری کچھ رہنمائی کرو۔ اس کے جواب میں ان کے بڑے اپنے چھوٹوں سے کہیں گے کہ آج کا دن تو اسی لیے آیا ہے کہ وہ ہمارے بے رہنما ہونے کو بے نقاب کرے۔ پھر اب ہم تم کو کیا رہنمائی دے سکتے ہیں۔ ہماری رہنمائی تو محض وقتی فریب تھی جو پچھلی دنیامیں ختم ہوگئی۔ اب تو یہی ہے کہ تم بھی اپنے بھٹکنے کا نتیجہ بھگتو اور ہم بھی اپنی گمراہی کا نتیجہ بھگتیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، بہر حال اب ہمارا اس کے سوا کوئی اور انجام نہیں۔

وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنْفُسَكُمْ ۖ مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 خدا کی دنیا واقعات کی دنیا ہے، نہ کہ تخیلات کی دنیا ۔ یہاں شیطان کے وعدے پر اٹھنا یہ ہے کہ آدمی غیر حقیقی بنیادوں پر اپنی زندگی کی تعمیر کرنا چاہے۔ آدمی حق کے داعی کو نظر انداز کردے اور دوسرے دوسرے کارنامے دکھا کر حق کا علم بردار ہونے کا کریڈٹ لے۔ وہ آخرت کے لیے عمل نہ کرے اور خود ساختہ مفروضوں کے تحت یہ امید قائم کرلے کہ اس کی نجات ہوجائے گی۔ وہ خدا کے احکام کے مطابق زندگی نہ گزارے اور یہ یقین کرلے کہ اس کا نام اپنے آپ خدا کے محبوب بندوں میں لکھ لیا جائے گا — یہ سب شیطان کے وعدوں پر بھروسہ کرنا ہے۔ اور آخرت میں آدمی جان لے گا کہ صرف خدا کا وعدہ سچا وعدہ تھا۔ اور باقی تمام وعدے جھوٹے بھروسے تھے جو کبھی پورے ہونے والے نہیں۔ خدا کی دنیامیں غیرِ خدا سے امید قائم کرنا شرک ہے۔ اس لیے جو لوگ خدائی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور غیر خدائی توقعات پر اپنی زندگی کا محل کھڑا کرنا چاہتے ہیں، وہ گویا خدا کے ساتھ دوسری چیزوں کو خدا کا شریک ٹھہرارہے ہیں۔ یہ دوسری چیزیں فیصلہ کے دن ان کا کچھ بھی سہارا نہ بن سکیں گی۔

وَأُدْخِلَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ

📘 ملاقات کے وقت السلام علیکم کہنا محض ایک معاشرتی رسم نہیں۔ یہ قلبی تعلق کی ایک ظاہری علامت ہے۔ دنیا کا السلام علیکم بھی اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہی ہے اور آخرت کا السلام علیکم بھی مزید اضافہ کے ساتھ یہی۔ جو لوگ دنیامیں اس طرح رہے کہ ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی کے جذبات بھرے ہوئے تھے۔ جو شکایتوں کو نظر انداز کرکے ایک دوسرے سے محبت کرنا جانتے تھے۔ جو دوسرے کے لیے ہمیشہ وہ الفاظ بولتے تھے جس میں اس کا اعتراف اور احترام شامل ہو۔ جو دوسرے کے لیے وہی چیز پسند کرتے تھے جو اپنےلیے پسند کرتے تھے۔ جن کے سینے میں دوسروں کے لیے سلامتی کے چشمے ابلتے تھے اور جن کی آنکھیں دوسرے کی بھلائی کو دیکھ كر ٹھنڈی ہوتی تھیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی نفیس دنیا میں بسائے جانے کے اہل ٹھہریں گے۔ دنیا میں بھی ان کا یہ حال تھا کہ جب وہ اپنے بھائیوں سے ملتے تو ان کے لیے ان کی محبت اور خیر خواہی ’’السلام علیکم‘‘ کی صور ت میں ٹپکتی تھی۔ آخرت میں یہی چیز اور زیادہ لطیف اور خالص بن کر اپنے جنتی پڑوسیوں کے بارے میں ان کی زبانوں سے نکلے گی۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ

📘 موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مختلف حقیقتوں کی ظاہری تمثیلات قائم کی ہیں۔ شجرۂ طیبہ (اچھا درخت) ایک اعتبار سے مومن کی تمثیل ہے۔ درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دستر خوان بناتا ہے اور اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک عظیم درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔درخت زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لے کر بڑھتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتاہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ یہی مومن کا معاملہ بھی ہے۔ عام درخت اگر مادی درخت ہے تو مومن شعوری درخت۔ مومن ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے۔ د وسری طرف ’’اوپر‘‘ سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتاہے اور خالق سے بھی اس کی قربت اور ملاقات برابر جاری رہتی ہے۔ درخت ہر موسم میں اپنے پھل دیتاہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتاہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بے زوری کی، ہر موقع پر اس کی زبان اور اس کا کردار وہی رد عمل ظاہر کرتاہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ دوسری مثال شجرۂ خبیثہ (جھاڑ جھنکاڑ) کی ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کائنات سے اس کو بالکل برعکس قسم کی خوراک مہیا کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اس کے اوپر کانٹے اگتے ہیں۔ اس کی شاخوں میں کڑوے اور بدمزہ پھل لگتے ہیں۔اس کے پاس کوئی شخص جائے تووہ بدبو سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ ایسے درخت کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ وہ جہاں اگے وہاں سے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ غیر مومن کا ہے۔ وہ زمین میں ایک غیر مطلوب وجود کی حیثیت سے اُگتا ہے۔ کائنات اپنی تمام بہترین نشانیوں کے باوجود اس کے لیے ایسی ہوجاتی ہے جیسے یہاں اس کے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی نصیحت۔ خدا کا فیضان اگر چہ ہر وقت برستا ہے مگر اس کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ اس کے کردار اور معاملات میں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔

تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

📘 موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مختلف حقیقتوں کی ظاہری تمثیلات قائم کی ہیں۔ شجرۂ طیبہ (اچھا درخت) ایک اعتبار سے مومن کی تمثیل ہے۔ درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دستر خوان بناتا ہے اور اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک عظیم درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔درخت زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لے کر بڑھتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتاہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ یہی مومن کا معاملہ بھی ہے۔ عام درخت اگر مادی درخت ہے تو مومن شعوری درخت۔ مومن ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے۔ د وسری طرف ’’اوپر‘‘ سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتاہے اور خالق سے بھی اس کی قربت اور ملاقات برابر جاری رہتی ہے۔ درخت ہر موسم میں اپنے پھل دیتاہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتاہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بے زوری کی، ہر موقع پر اس کی زبان اور اس کا کردار وہی رد عمل ظاہر کرتاہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ دوسری مثال شجرۂ خبیثہ (جھاڑ جھنکاڑ) کی ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کائنات سے اس کو بالکل برعکس قسم کی خوراک مہیا کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اس کے اوپر کانٹے اگتے ہیں۔ اس کی شاخوں میں کڑوے اور بدمزہ پھل لگتے ہیں۔اس کے پاس کوئی شخص جائے تووہ بدبو سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ ایسے درخت کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ وہ جہاں اگے وہاں سے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ غیر مومن کا ہے۔ وہ زمین میں ایک غیر مطلوب وجود کی حیثیت سے اُگتا ہے۔ کائنات اپنی تمام بہترین نشانیوں کے باوجود اس کے لیے ایسی ہوجاتی ہے جیسے یہاں اس کے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی نصیحت۔ خدا کا فیضان اگر چہ ہر وقت برستا ہے مگر اس کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ اس کے کردار اور معاملات میں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔

وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ

📘 موجودہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے مختلف حقیقتوں کی ظاہری تمثیلات قائم کی ہیں۔ شجرۂ طیبہ (اچھا درخت) ایک اعتبار سے مومن کی تمثیل ہے۔ درخت کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنا غذائی دستر خوان بناتا ہے اور اس طرح بیج سے ترقی کرکے ایک عظیم درخت کی صورت میں زمین کے اوپر کھڑا ہوجاتا ہے۔درخت زمین سے پانی اور معدنیات اور نمکیات لے کر بڑھتا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہوا اور سورج سے اپنے لیے غذا حاصل کرتاہے۔ وہ نیچے سے بھی خوراک لیتا ہے اور اوپر سے بھی۔ یہی مومن کا معاملہ بھی ہے۔ عام درخت اگر مادی درخت ہے تو مومن شعوری درخت۔ مومن ایک طرف دنیا میں خدا کی تخلیقات اور اس کے نظام کو دیکھ کر عبرت اور نصیحت حاصل کرتا ہے۔ د وسری طرف ’’اوپر‘‘ سے اس کو مسلسل خدا کا فیضان پہنچتا رہتا ہے۔وہ مخلوقات سے بھی اپنے لیے اضافۂ ایمان کی خوراک حاصل کرتاہے اور خالق سے بھی اس کی قربت اور ملاقات برابر جاری رہتی ہے۔ درخت ہر موسم میں اپنے پھل دیتاہے۔ اسی طرح مومن ہر موقع پر وہ صحیح رویہ ظاہر کرتاہے جو اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ معاشی تنگی ہو یا معاشی فراخی، خوشی کا لمحہ ہو یا غم کا۔ شکایت کی بات ہو یا تعریف کی۔ زور آوری کی حالت ہو یا بے زوری کی، ہر موقع پر اس کی زبان اور اس کا کردار وہی رد عمل ظاہر کرتاہے جو خدا کے سچے بندے کی حیثیت سے اسے ظاہر کرنا چاہیے۔ دوسری مثال شجرۂ خبیثہ (جھاڑ جھنکاڑ) کی ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کائنات سے اس کو بالکل برعکس قسم کی خوراک مہیا کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں اس کے اوپر کانٹے اگتے ہیں۔ اس کی شاخوں میں کڑوے اور بدمزہ پھل لگتے ہیں۔اس کے پاس کوئی شخص جائے تووہ بدبو سے اس کا استقبال کرتا ہے۔ ایسے درخت کو کوئی پسند نہیں کرتا۔ وہ جہاں اگے وہاں سے اس کو اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ غیر مومن کا ہے۔ وہ زمین میں ایک غیر مطلوب وجود کی حیثیت سے اُگتا ہے۔ کائنات اپنی تمام بہترین نشانیوں کے باوجود اس کے لیے ایسی ہوجاتی ہے جیسے یہاں اس کے لیے نہ کوئی دلیل ہے اور نہ کوئی نصیحت۔ خدا کا فیضان اگر چہ ہر وقت برستا ہے مگر اس کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں ملتا۔ اس کے کردار اور معاملات میں اس کا اظہار نہیں ہوتا۔

يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ

📘 ’’خدا اہل ایمان کو کلمۂ توحید کے ذریعہ دنیا میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں بھی‘‘— دنیا میں ثابت قدم رہنے سے مراد اپنی زندگی کے ہر موڑ پر خیر اور عمل صالح کی روش پر قائم رہنا ہے۔ آخرت میں ثابت قدم رہنے سے مراد یہ ہے کہ قبر کے سوال وجواب کے وقت وہ کامیاب رہیں گے۔ انسان ہر لمحہ حالت امتحان میں ہے۔ اس پر طرح طرح کے پسندیدہ اور ناپسندیدہ احوال آتے ہیں۔ ان مواقع پر صحیح خدائی روش پر صرف وہ لوگ قائم رہتے ہیں جو اپنے اندر ’’درختِ ایمان‘‘ اگا چکے ہوں۔ وہ پیش آمدہ صورتِ حال میں اس صحیح ترین رد عمل کا ثبوت دیتے ہیںجو خدا کی مرضی کے مطابق انھیں دینا چاہيے۔ اس کے برعکس، جس آدمی کی شخصیت جھاڑ جھنکاڑ کی مانند اُگی ہو وہ ہر تجربہ میں کڑواہٹ کا ثبوت دیتاہے۔ وہ ہر موقع پر کانٹا اور بدبو ثابت ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے انسان جب قبر کے مرحلہ میں آخری طورپر جانچے جائیں گے تو جو شجرۂ طیبہ تھا وہ شجرۂ طیبہ ثابت ہو کر جنت کے باغ میں داخل کردیا جائے گا۔ اور جو شجرۂ خبیثہ تھا اس کے ساتھ ایسا معاملہ ہوگا گویا وہ دنیا سے صرف اس لیے اکھاڑا گیا تھا کہ جہنم کا ایندھن بننے کے لیے جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے۔

۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ

📘 ان آیات کا ابتدائی خطاب قریش کے سرداروں سے ہے۔ مگر اس عمومی انطباق میں وہ تمام لیڈر شامل ہیں جو انکارِ حق کی مہم کی سرداری کرتے ہیں۔ کسی قوم کے بڑے وہی لوگ بنتے ہیں جن کو خصوصی نعمتیں اورمواقع حاصل ہوں۔ ان نعمتوں اور مواقع کا صحیح ترین استعمال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے حق کی دعوت اٹھے تو وہ اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کی جانب کھڑے ہوں اور اس کی پوری مدد کریں۔ جو چیزیں خدا کی دی ہوئی ہیں ان پر سب سے زیادہ حق خدا کا ہے، نہ کہ کسی اورکا۔ مگر اکثر حالات میں معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ حق کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے سے باہر اٹھنے والے حق کو قبول کرنا گویا اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنا ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس پر راضی ہو جائیں جن کو کسی وجہ سے ماحول میں بڑائی کا درجہ مل گیا ہو۔ انسان کو ایک خدا چاہیے۔ ایک ایسی ہستی جسے وہ اپنی زندگی میں سب سے بڑا مقام دے سکے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شخص لوگوں کی توجہ خدائے واحد سے ہٹاتاہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کی توجہ کسی غیر خدا کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیر خدا کو اپنا خدا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ خدا سے لوگوں کو ہٹانے والے کسی غیر خدا میں فرضی طورپر وہ اعلیٰ صفات ثابت کرتے ہیں جو صرف خدا میں پائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ جب تک غیر خدا میں وہ اعلیٰ صفات ثابت نہ کی جائیں لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب ایک خدا کی پرستش چھوڑتا ہے تو وہ اس کے بعد لازمی طورپر توہم پرستی میں پڑ جاتا ہے۔ خدا کو چھوڑنے کا واحد بدل اس دنیا میں توہم پرستی ہے۔

جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا ۖ وَبِئْسَ الْقَرَارُ

📘 ان آیات کا ابتدائی خطاب قریش کے سرداروں سے ہے۔ مگر اس عمومی انطباق میں وہ تمام لیڈر شامل ہیں جو انکارِ حق کی مہم کی سرداری کرتے ہیں۔ کسی قوم کے بڑے وہی لوگ بنتے ہیں جن کو خصوصی نعمتیں اورمواقع حاصل ہوں۔ ان نعمتوں اور مواقع کا صحیح ترین استعمال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے حق کی دعوت اٹھے تو وہ اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کی جانب کھڑے ہوں اور اس کی پوری مدد کریں۔ جو چیزیں خدا کی دی ہوئی ہیں ان پر سب سے زیادہ حق خدا کا ہے، نہ کہ کسی اورکا۔ مگر اکثر حالات میں معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ حق کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے سے باہر اٹھنے والے حق کو قبول کرنا گویا اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنا ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس پر راضی ہو جائیں جن کو کسی وجہ سے ماحول میں بڑائی کا درجہ مل گیا ہو۔ انسان کو ایک خدا چاہیے۔ ایک ایسی ہستی جسے وہ اپنی زندگی میں سب سے بڑا مقام دے سکے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شخص لوگوں کی توجہ خدائے واحد سے ہٹاتاہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کی توجہ کسی غیر خدا کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیر خدا کو اپنا خدا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ خدا سے لوگوں کو ہٹانے والے کسی غیر خدا میں فرضی طورپر وہ اعلیٰ صفات ثابت کرتے ہیں جو صرف خدا میں پائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ جب تک غیر خدا میں وہ اعلیٰ صفات ثابت نہ کی جائیں لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب ایک خدا کی پرستش چھوڑتا ہے تو وہ اس کے بعد لازمی طورپر توہم پرستی میں پڑ جاتا ہے۔ خدا کو چھوڑنے کا واحد بدل اس دنیا میں توہم پرستی ہے۔

الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

📘 ایمان یہ ہے کہ آدمی خدا کو ایک ایسی ہستی کی حیثیت سے پالے جو ساری طاقتوں کا مالک ہے اور ساری خوبیوں والا بھی هے۔ ایساواقعہ کسی آدمی کے لیے محض ایک رسمی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہ کسی آدمی کا بے علمی کی تاریکی سے نکل کر علم کی روشنی میں آناہے۔ یہ غیب کے پردے سے گزر کر شہود کے جلوے کو دیکھ لینا ہے۔ یہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کا ادراک کرلینا ہے۔ ایمان اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک شعوری یافت ہے، نہ کہ کسی مجموعۂ الفاظ کی بے روح تکرار— خداکی کتاب اس لیے آتی ہے کہ آدمی کو اس شعوری درجہ پر پہنچائے۔ اللہ کے اذن سے ہدایت ملنا، بظاہر ہدایت کے معاملہ کو اللہ کی طرف منسوب کرنا ہے۔ مگر اس ارشاد کا رخ حقیقۃً خودانسان کی طرف ہے۔ ’’اذن‘‘ سے مراد خدا کا وہ مقررہ قانون ہے جو اس نے انسان کی ہدایت وضلالت کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس قانون کے مطابق آدمی کی اپنی سنجیدہ طلب واحد شرط ہے جو اس کو ہدایت تک پہنچاتی ہے۔ اس دنیا میں جس شخص کو ہدایت ملتی ہے وہ محض کسی داعی کی داعیانہ کوششوں سے نہیں ملتی بلکہ خدا کے قانون کے تحت ملتی ہے۔ اور خدا کا قانون یہ ہے کہ ہدایت کی نعمت کو صرف وہ شخص پائے گا جو خود ہدایت کا طالب ہو۔ ذاتی طلب کے بغیر کسی کو ہدایت نہیں مل سکتی۔ ہدایت کے راستہ کو خدانے انتہائی حد تک صاف اور روشن بنایا ہے۔ زمین وآسمان میںاس کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ خدا کی کتاب اس کے حق میں ناقابلِ انکار دلائل فراہم کرتی ہے۔ انسانی فطرت اس کی صداقت کی گواہی دے رہی ہے۔ گویا تمام بہترین قرائن اس کے حق میں جمع ہیں۔ ایسی حالت میں جو لوگ ہدایت کے راستہ کو اختیارنه کریں وہ یقینی طور پر دنیوی مفادکی بنا پر ایسا کررہے ہیں، نہ کہ کسی واقعی سبب کی بنا پر۔ اگر چہ ایسے لوگ اپنی روش کو درست ثابت کرنے کے لیے کچھ ’’دلائل‘‘ بھی پیش کرتے ہیں مگر یہ دلائل صرف سیدھی بات میں ٹیڑھ نکالنے کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ وہ صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ لوگوں کی نظر میں اپنے نہ ماننے کا جواز فراہم کریں۔ ایسی حالت میں ہدایت سے محروم صرف وہی شخص رہ سکتا ہے جس کی مفاد پرستی اور دنیوی رغبت نے اس کو بالکل اندھا بہرا بنادیاهو۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ

📘 ان آیات کا ابتدائی خطاب قریش کے سرداروں سے ہے۔ مگر اس عمومی انطباق میں وہ تمام لیڈر شامل ہیں جو انکارِ حق کی مہم کی سرداری کرتے ہیں۔ کسی قوم کے بڑے وہی لوگ بنتے ہیں جن کو خصوصی نعمتیں اورمواقع حاصل ہوں۔ ان نعمتوں اور مواقع کا صحیح ترین استعمال یہ ہے کہ جب ان کے سامنے حق کی دعوت اٹھے تو وہ اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کی جانب کھڑے ہوں اور اس کی پوری مدد کریں۔ جو چیزیں خدا کی دی ہوئی ہیں ان پر سب سے زیادہ حق خدا کا ہے، نہ کہ کسی اورکا۔ مگر اکثر حالات میں معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔ ایسے لوگ نہ صرف یہ کہ حق کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے خلاف اٹھنے والی تحریک کی قیادت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے سے باہر اٹھنے والے حق کو قبول کرنا گویا اپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں چھوٹا کرنا ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس پر راضی ہو جائیں جن کو کسی وجہ سے ماحول میں بڑائی کا درجہ مل گیا ہو۔ انسان کو ایک خدا چاہیے۔ ایک ایسی ہستی جسے وہ اپنی زندگی میں سب سے بڑا مقام دے سکے۔ چنانچہ جب بھی کوئی شخص لوگوں کی توجہ خدائے واحد سے ہٹاتاہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ لوگوں کی توجہ کسی غیر خدا کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔ خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیر خدا کو اپنا خدا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ خدا سے لوگوں کو ہٹانے والے کسی غیر خدا میں فرضی طورپر وہ اعلیٰ صفات ثابت کرتے ہیں جو صرف خدا میں پائی جاتی ہیں۔ کیوں کہ جب تک غیر خدا میں وہ اعلیٰ صفات ثابت نہ کی جائیں لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب ایک خدا کی پرستش چھوڑتا ہے تو وہ اس کے بعد لازمی طورپر توہم پرستی میں پڑ جاتا ہے۔ خدا کو چھوڑنے کا واحد بدل اس دنیا میں توہم پرستی ہے۔

قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا يُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خِلَالٌ

📘 آدمی کے اوپر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتاہے۔ اگر اس کے کچھ ساتھی ہیں تو وہ ساتھیوں کا زور استعمال کرتاہے۔ اور اگر دولت ہے تو دولت کو اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اپنے کو بچانے کی تڑپ آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں کی طرف دوڑے۔ نماز اور انفاق حقیقۃً مسئلہ آخرت کے بارے میں آدمی کے اسی احساس کا دنیوی اظہار ہیں۔ نماز گویا آخرت کی ہولناکی کو یاد کرکے خدا کی پناہ کی طرف بھاگنا ہے تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے آپ کو بچائے۔ اسی طرح دنیا میں کھلے اور چھپے خرچ کرناگویا اپنی کمائی کو آخرت کی مد میں دینا ہے تاکہ وہ آخرت کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ذریعہ بنے۔ آخرت میں وہی آدمی سہارا پائے گا جس نے دنیا میں خدا کا سہارا پکڑا ہو۔ آخرت میں وہی آدمی چھٹکارا حاصل کرے گا جس نے دنیا میں اس کی خاطر اپنے دائیں بائیں خرچ کیا ہو۔ جولوگ دنیا میں ایسا نہ کرسکیں وہ آخرت میں سہارا کے لیے دوڑیں گے مگر وہاں وہ کوئی سہارا نہ پائیں گے۔ وہ آخرت میں خرچ کرنا چاہیں گے مگر ان کے پاس کچھ نہ ہوگا جس کو فدیہ دے کر وہ وہاں کی مصیبتوں سے نجات حاصل کریں۔

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ

📘 موجودہ دنیا انتہائی حیرت ناک حد تک خدا کی گواہی دے رہی ہے۔ وسیع خلا میں ستاروں اور سیاروں کی گردش، پانی کے ذریعہ زمین پر زندگی اور رزق کی فراہمی، خشکی و تری اور فضا پر انسان کو یہ قدرت ہونا کہ ان میں وہ اپنی سواریاں دوڑائے، دریاؤں اور پہاڑوں کے ذریعے زمین کا انسان کے موافق ہو جانا سورج اور چاند کے ذریعہ موسموں کا اور رات دن کا انتظام، سب کچھ اس سے زیادہ عظیم ہے کہ ان کو لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔ انسان اور کائنات میں اتنی کامل مطابقت ہے کہ انسان کی ہر قابل قیاس یاناقابل قیاس ضرورت پیشگی طورپر یہاں بافراط موجود ہے۔ یہ تمام چیزیں اتنی زیادہ عجیب ہیں کہ آدمی کو ہلا دیں اور اس کو عبدیت کے جذبے سے سرشار کردیں۔ اس کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کائنات کو دیکھ کر آدمی کے اندر استعجاب کی کیفیت پیدا ہو۔ خالق کائنات کے تصور سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتے ہی کائنات کو دیکھتا ہے، دیکھتے دیکھتے وہ اس کو ایک عام چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس میں اسے کوئی انوکھا پن نظر نہیں آتا۔ مزید یہ کہ اس دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ بظاہر اس کو اسباب کے تحت ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس بنا پر وہ سمجھ لیتاہے کہ جو چیز اس کو ملی ہے وہ اس کی اپنی محنت اور صلاحیت کی بنا پر ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی کے اندر دینے والے خدا کے ليے شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ انسان کی یہی وہ غفلت ہے جس کو یہاں بے انصافی اور ناشکر گزاری سے تعبیر کیا گیاہے۔

وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ

📘 موجودہ دنیا انتہائی حیرت ناک حد تک خدا کی گواہی دے رہی ہے۔ وسیع خلا میں ستاروں اور سیاروں کی گردش، پانی کے ذریعہ زمین پر زندگی اور رزق کی فراہمی، خشکی و تری اور فضا پر انسان کو یہ قدرت ہونا کہ ان میں وہ اپنی سواریاں دوڑائے، دریاؤں اور پہاڑوں کے ذریعے زمین کا انسان کے موافق ہو جانا سورج اور چاند کے ذریعہ موسموں کا اور رات دن کا انتظام، سب کچھ اس سے زیادہ عظیم ہے کہ ان کو لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔ انسان اور کائنات میں اتنی کامل مطابقت ہے کہ انسان کی ہر قابل قیاس یاناقابل قیاس ضرورت پیشگی طورپر یہاں بافراط موجود ہے۔ یہ تمام چیزیں اتنی زیادہ عجیب ہیں کہ آدمی کو ہلا دیں اور اس کو عبدیت کے جذبے سے سرشار کردیں۔ اس کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کائنات کو دیکھ کر آدمی کے اندر استعجاب کی کیفیت پیدا ہو۔ خالق کائنات کے تصور سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتے ہی کائنات کو دیکھتا ہے، دیکھتے دیکھتے وہ اس کو ایک عام چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس میں اسے کوئی انوکھا پن نظر نہیں آتا۔ مزید یہ کہ اس دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ بظاہر اس کو اسباب کے تحت ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس بنا پر وہ سمجھ لیتاہے کہ جو چیز اس کو ملی ہے وہ اس کی اپنی محنت اور صلاحیت کی بنا پر ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی کے اندر دینے والے خدا کے ليے شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ انسان کی یہی وہ غفلت ہے جس کو یہاں بے انصافی اور ناشکر گزاری سے تعبیر کیا گیاہے۔

وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ ۚ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ

📘 موجودہ دنیا انتہائی حیرت ناک حد تک خدا کی گواہی دے رہی ہے۔ وسیع خلا میں ستاروں اور سیاروں کی گردش، پانی کے ذریعہ زمین پر زندگی اور رزق کی فراہمی، خشکی و تری اور فضا پر انسان کو یہ قدرت ہونا کہ ان میں وہ اپنی سواریاں دوڑائے، دریاؤں اور پہاڑوں کے ذریعے زمین کا انسان کے موافق ہو جانا سورج اور چاند کے ذریعہ موسموں کا اور رات دن کا انتظام، سب کچھ اس سے زیادہ عظیم ہے کہ ان کو لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔ انسان اور کائنات میں اتنی کامل مطابقت ہے کہ انسان کی ہر قابل قیاس یاناقابل قیاس ضرورت پیشگی طورپر یہاں بافراط موجود ہے۔ یہ تمام چیزیں اتنی زیادہ عجیب ہیں کہ آدمی کو ہلا دیں اور اس کو عبدیت کے جذبے سے سرشار کردیں۔ اس کے باوجود ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ کائنات کو دیکھ کر آدمی کے اندر استعجاب کی کیفیت پیدا ہو۔ خالق کائنات کے تصور سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی پیدا ہوتے ہی کائنات کو دیکھتا ہے، دیکھتے دیکھتے وہ اس کو ایک عام چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس میں اسے کوئی انوکھا پن نظر نہیں آتا۔ مزید یہ کہ اس دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ بظاہر اس کو اسباب کے تحت ملتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس بنا پر وہ سمجھ لیتاہے کہ جو چیز اس کو ملی ہے وہ اس کی اپنی محنت اور صلاحیت کی بنا پر ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی کے اندر دینے والے خدا کے ليے شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ انسان کی یہی وہ غفلت ہے جس کو یہاں بے انصافی اور ناشکر گزاری سے تعبیر کیا گیاہے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ

📘 حضرت ابراہیم کے زمانہ تک ملکوںاور قوموں کا یہ حال ہوچکا تھا کہ ہر طرف شرک کا دور دورہ تھا۔ سورج چاند اور دوسرے مظاہر فطرت انسان کی پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ قدیم زمانہ میں زندگی کی تمام سرگرمیوں پر شرک کا اس طرح غلبہ ہوا کہ انسانی نسلوں میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔ بظاہر یہ ناممکن نظر آنے لگا کہ لوگوں کو شرک کی فضا سے نکال کر توحید کے دائرے میں لایا جاسکے۔ اس وقت خدا کے حکم خاص کے تحت حضرت ابراہیم عراق سے نکل کر عرب کے صحرا میںآئے جو تمدن سے دور بالکل غیر آباد علاقہ تھا۔ آپ نے الگ تھلگ ماحول میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچہ اسماعیل کو بسایا۔ تاکہ یہاں وقت کے مشرکانہ تسلسل سے کٹ کر ایک نئی نسل تیار ہو۔ جو آزادانہ فضا میں پرورش پاکر اپنی فطرت صحیحہ پر قائم ہوسکے— حضرت ابراہیم کا کلام دعا کے انداز میں اسی خاص حقیقت کو ظاہر کررہا ہے۔ بنواسماعیل کو خشک اور غیر آباد بیابان میں بسانے سے خدا کا منصوبہ یہی تھا۔ اب یہاں کے جن لوگوں نے توحید کو اپنے دل کی آواز بنایا وہ گویا باغ ابراہیم کی صحیح پیداوار تھے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے دوبارہ شرک کا طریقہ اختیار کرلیاوہ اس باغ کی ناقص پیداوار قرار پائیں گے۔

رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ ۖ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي ۖ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 حضرت ابراہیم کے زمانہ تک ملکوںاور قوموں کا یہ حال ہوچکا تھا کہ ہر طرف شرک کا دور دورہ تھا۔ سورج چاند اور دوسرے مظاہر فطرت انسان کی پرستش کا موضوع بنے ہوئے تھے۔ قدیم زمانہ میں زندگی کی تمام سرگرمیوں پر شرک کا اس طرح غلبہ ہوا کہ انسانی نسلوں میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔ بظاہر یہ ناممکن نظر آنے لگا کہ لوگوں کو شرک کی فضا سے نکال کر توحید کے دائرے میں لایا جاسکے۔ اس وقت خدا کے حکم خاص کے تحت حضرت ابراہیم عراق سے نکل کر عرب کے صحرا میںآئے جو تمدن سے دور بالکل غیر آباد علاقہ تھا۔ آپ نے الگ تھلگ ماحول میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بچہ اسماعیل کو بسایا۔ تاکہ یہاں وقت کے مشرکانہ تسلسل سے کٹ کر ایک نئی نسل تیار ہو۔ جو آزادانہ فضا میں پرورش پاکر اپنی فطرت صحیحہ پر قائم ہوسکے— حضرت ابراہیم کا کلام دعا کے انداز میں اسی خاص حقیقت کو ظاہر کررہا ہے۔ بنواسماعیل کو خشک اور غیر آباد بیابان میں بسانے سے خدا کا منصوبہ یہی تھا۔ اب یہاں کے جن لوگوں نے توحید کو اپنے دل کی آواز بنایا وہ گویا باغ ابراہیم کی صحیح پیداوار تھے۔ اس کے برعکس جن لوگوں نے دوبارہ شرک کا طریقہ اختیار کرلیاوہ اس باغ کی ناقص پیداوار قرار پائیں گے۔

رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ

📘 قدیم مکہ جہاں بنو اسماعیل بسائے گئے وہاں کی پہاڑی اور صحرائی دنیا گویا خدا کی معرفت کی قدرتی تربیت گاہ تھی۔ دوسری طرف وہاں انسانی تعمیرات کے اعتبار سے واحد قابل لحاظ نشان کعبۃ اللہ تھا۔ ایک طرف فطرت کاماحول انسان کے اندر خدا کی یاد ابھارنے والا تھا۔ اس کے بعد اپنے قریب اس کو جو نمایاں چیز نظر آتی تھی وہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی بنائی ہوئی پتھروں کی مسجد تھی جس میں داخل ہو کر وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ پھر اس ماحول میں بنو اسماعیل کو معجزاتی طورپر زمزم کے ذریعہ پانی مہیا کیا گیا۔ اسی کے ساتھ ان کے لیے یہ انتظام کیا گیا کہ ایسی پیدوار سے ان کو رزق ملے جو ان کے قدموں کے نیچے پیدا نہیں ہوتا۔ یہ گویا ان کو شاکر بنانے کا خصوصی اہتمام تھا۔ غیر معمولی نعمت سے آدمی کے اندر شکر کا غیر معمولی جذبہ ابھرتاہے۔ اور یہی وہ حکمت ہے جو حضرت ابراہیم کی اس دعامیں چھپی ہوئی تھی کہ صحرا میں انھیں پھلوں کی روزی دے ۔

رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ ۗ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ

📘 حضرت ابراہیم کی اس دعا میں وہ تمام جذبات جھلک رہے ہیں جو ایک سچے بندے کے اندر خدا کو پکارتے ہوئے امنڈتے ہیں۔ اس کی عبدیت زور کرتی ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عجز کا اقرار کرے۔ جو کچھ مانگے احتیاج کی بنیاد پر مانگے، نہ کہ استحقاق کی بنیاد پر۔ایک طرف وہ ملی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کرے اور دوسری طرف ادب کے تمام تقاضوں کے ساتھ اپنی درخواست پیش کرے۔ وہ اقرار کرے کہ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ وہ اپنے رب سے یہ توفیق مانگے کہ وہ دنیا میں اس کا پرستار بن کررہے۔ اسی کی درخواست وہ اپنے لیے بھی کرے اور اپنے اہل خاندان کے لیے بھی اور اسی کی درخواست تمام مومنین کے لیے بھی۔ دعا کے وقت اس کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ ہو وہ دنیا کا نہ ہو بلکہ آخرت کا ہو جہاںابدی طورپر آدمی کو رہنا ہے۔ ان آداب کے ساتھ جو دعا کی جائے وہ پیغمبرانہ دعا ہے اور ایسی دعا اگرسچے دل سے نکلے تو وہ ضرور خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ

📘 حضرت ابراہیم کی اس دعا میں وہ تمام جذبات جھلک رہے ہیں جو ایک سچے بندے کے اندر خدا کو پکارتے ہوئے امنڈتے ہیں۔ اس کی عبدیت زور کرتی ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عجز کا اقرار کرے۔ جو کچھ مانگے احتیاج کی بنیاد پر مانگے، نہ کہ استحقاق کی بنیاد پر۔ایک طرف وہ ملی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کرے اور دوسری طرف ادب کے تمام تقاضوں کے ساتھ اپنی درخواست پیش کرے۔ وہ اقرار کرے کہ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ وہ اپنے رب سے یہ توفیق مانگے کہ وہ دنیا میں اس کا پرستار بن کررہے۔ اسی کی درخواست وہ اپنے لیے بھی کرے اور اپنے اہل خاندان کے لیے بھی اور اسی کی درخواست تمام مومنین کے لیے بھی۔ دعا کے وقت اس کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ ہو وہ دنیا کا نہ ہو بلکہ آخرت کا ہو جہاںابدی طورپر آدمی کو رہنا ہے۔ ان آداب کے ساتھ جو دعا کی جائے وہ پیغمبرانہ دعا ہے اور ایسی دعا اگرسچے دل سے نکلے تو وہ ضرور خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ لِيُبَيِّنَ لَهُمْ ۖ فَيُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 خدا کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پیغمبروں کو خود مدعو قوم کے اندر سے اٹھاتاہے تاکہ وہ لوگوں کی نفسیات کی رعایت کرتے ہوئے، ان کی اپنی قابل فہم زبان میں انھیں حق کی طرف بلائے۔ مگر عجیب بات ہے کہ جو چیز انسان کی بہتری کے لیے کی گئی تھی اس سے اس نے الٹا نتیجہ نکال لیا۔ اس نے جب دیکھا کہ پیغمبر انھیں کی طرح کا ایک آدمی ہے اور ان کی اپنی مانوس زبان میں کلام کررہا ہے تو انھوں نے پیغمبر کو معمولی سمجھ کر اس کا انکار کردیا جو چیز ان کی ہدایت کو آسان بنانے کے لیے کی گئی تھی اس کو انھوںنے اپنی گمراہی کا ذریعہ بنا دیا۔ خداایسا نہیں کرتا کہ وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے شعبدے دکھائے۔ وہ کسی قوم کے پاس ایسا پیغمبر بھیجے جو انوکھی زبان یا طلسماتی اسلوب میں کلام کرکے لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دے۔ خدا لوگوں کی عجائب پسندی کی خاطر کرشمے دکھانے کے انداز اختیار نہیں کرتا۔ خدا کا طریقہ سادگی اور حقیقت پسندی کا طریقہ ہے۔ خدا نے اپنی دنیا کو حقائق کی بنیاد پر قائم کیا ہے۔ اور انسان کی ہدایت کی اسکیم کو بھی وہ حقائق کی بنیاد پر چلاتاہے، نہ کہ طلسمات کی بنیاد پر۔

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

📘 حضرت ابراہیم کی اس دعا میں وہ تمام جذبات جھلک رہے ہیں جو ایک سچے بندے کے اندر خدا کو پکارتے ہوئے امنڈتے ہیں۔ اس کی عبدیت زور کرتی ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عجز کا اقرار کرے۔ جو کچھ مانگے احتیاج کی بنیاد پر مانگے، نہ کہ استحقاق کی بنیاد پر۔ایک طرف وہ ملی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کرے اور دوسری طرف ادب کے تمام تقاضوں کے ساتھ اپنی درخواست پیش کرے۔ وہ اقرار کرے کہ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ وہ اپنے رب سے یہ توفیق مانگے کہ وہ دنیا میں اس کا پرستار بن کررہے۔ اسی کی درخواست وہ اپنے لیے بھی کرے اور اپنے اہل خاندان کے لیے بھی اور اسی کی درخواست تمام مومنین کے لیے بھی۔ دعا کے وقت اس کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ ہو وہ دنیا کا نہ ہو بلکہ آخرت کا ہو جہاںابدی طورپر آدمی کو رہنا ہے۔ ان آداب کے ساتھ جو دعا کی جائے وہ پیغمبرانہ دعا ہے اور ایسی دعا اگرسچے دل سے نکلے تو وہ ضرور خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ

📘 حضرت ابراہیم کی اس دعا میں وہ تمام جذبات جھلک رہے ہیں جو ایک سچے بندے کے اندر خدا کو پکارتے ہوئے امنڈتے ہیں۔ اس کی عبدیت زور کرتی ہے کہ وہ خدا کے سامنے اپنے عجز کا اقرار کرے۔ جو کچھ مانگے احتیاج کی بنیاد پر مانگے، نہ کہ استحقاق کی بنیاد پر۔ایک طرف وہ ملی ہوئی نعمتوں کا اعتراف کرے اور دوسری طرف ادب کے تمام تقاضوں کے ساتھ اپنی درخواست پیش کرے۔ وہ اقرار کرے کہ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ وہ اپنے رب سے یہ توفیق مانگے کہ وہ دنیا میں اس کا پرستار بن کررہے۔ اسی کی درخواست وہ اپنے لیے بھی کرے اور اپنے اہل خاندان کے لیے بھی اور اسی کی درخواست تمام مومنین کے لیے بھی۔ دعا کے وقت اس کے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ ہو وہ دنیا کا نہ ہو بلکہ آخرت کا ہو جہاںابدی طورپر آدمی کو رہنا ہے۔ ان آداب کے ساتھ جو دعا کی جائے وہ پیغمبرانہ دعا ہے اور ایسی دعا اگرسچے دل سے نکلے تو وہ ضرور خدا کے یہاں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ

📘 آدمی کے سامنے حق آتاہے تو وہ اس کا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ اس کے مقابلہ میں ایسی بے خوفی کا مظاہره کرتاہے جیسے کہ اس سے زیادہ بہادر دنیا میں اور کوئی نہیں۔ مگر یہی حق جو موجودہ دنیا میں ’’داعی‘‘ کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے وہ آخرت میں ’’خدا‘‘ کی سطح پر ظاہر ہوگا۔ اس دن ایسے لوگوں کی ساری بہادری جاتی رہے گی۔ آخرت کا ہولناک منظر دیکھ کر ان کا یہ حال ہوگا کہ جب ان کی نگاہیں اٹھیں گی تو وہ اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی، پلک جھپکنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔ وہ سر اٹھائے ہوئے تیزی سے میدان حشر کی طرف بھاگ رہے ہوں گے۔ اور ان کے دل دہشت کی وجہ سے اڑ رہے ہوں گے۔

مُهْطِعِينَ مُقْنِعِي رُءُوسِهِمْ لَا يَرْتَدُّ إِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ ۖ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَوَاءٌ

📘 آدمی کے سامنے حق آتاہے تو وہ اس کا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ وہ اس کے مقابلہ میں ایسی بے خوفی کا مظاہره کرتاہے جیسے کہ اس سے زیادہ بہادر دنیا میں اور کوئی نہیں۔ مگر یہی حق جو موجودہ دنیا میں ’’داعی‘‘ کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے وہ آخرت میں ’’خدا‘‘ کی سطح پر ظاہر ہوگا۔ اس دن ایسے لوگوں کی ساری بہادری جاتی رہے گی۔ آخرت کا ہولناک منظر دیکھ کر ان کا یہ حال ہوگا کہ جب ان کی نگاہیں اٹھیں گی تو وہ اٹھی کی اٹھی رہ جائیں گی، پلک جھپکنے کی نوبت بھی نہیں آئے گی۔ وہ سر اٹھائے ہوئے تیزی سے میدان حشر کی طرف بھاگ رہے ہوں گے۔ اور ان کے دل دہشت کی وجہ سے اڑ رہے ہوں گے۔

وَأَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخِّرْنَا إِلَىٰ أَجَلٍ قَرِيبٍ نُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ۗ أَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ

📘 آدمی کا حال یہ ہے کہ ایک دن پہلے تک بھی وہ اپنے انجام کا احساس نہیں کرتا۔ اس کو اگر کوئی قوت یا حیثیت حاصل ہو تو وہ اس طرح اکڑتاہے گویا کہ اس کی حیثیت کبھی اس سے چھننے والی نہیں۔ وہ خدا کی دعوت کو ٹھکراتا ہے اور بھول جاتاہے کہ وہ جن چیزوں کے بل پر اس کو ٹھکرا رہا ہے وہ سب خدا ہی کی دی ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے دلائل آتے ہیں مگر وہ ان پر دھیان نہیں دیتا۔ ماضی کے سرکشوں کا انجام اس کے سامنے ہوتاہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف دوسروں کے لیے تھا۔ خود اس کے اپنے لیے کبھی ایسا ہونے والا نہیں۔ موجودہ دنیا میں جن لوگوں کو مواقع حاصل ہیں وہ حق کو نظر انداز کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر موت کے بعد جب وہ اپنی سرکشی کا انجام دیکھیں گے تو ان کو اپنے ماضی پر اس قدر شرم آئے گی کہ وہ چاہیں گے کہ اگر انھیںدوبارہ مہلت ملے تو وہ موجودہ دنیا میںآکر خوداپنی تردید کریں اور اس چیز کو مان لیں جس کا اس سے پہلے انھوں نے فخریہ طورپر انکار کردیا تھا۔ حق کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے۔ جس حق کے ساتھ خدا ہو اس کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، خواہ وہ اس کے خلاف اتنی بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے ہوں جو پہاڑ کو ہلانے کے لیے بھی کافی ثابت ہو۔

وَسَكَنْتُمْ فِي مَسَاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ

📘 آدمی کا حال یہ ہے کہ ایک دن پہلے تک بھی وہ اپنے انجام کا احساس نہیں کرتا۔ اس کو اگر کوئی قوت یا حیثیت حاصل ہو تو وہ اس طرح اکڑتاہے گویا کہ اس کی حیثیت کبھی اس سے چھننے والی نہیں۔ وہ خدا کی دعوت کو ٹھکراتا ہے اور بھول جاتاہے کہ وہ جن چیزوں کے بل پر اس کو ٹھکرا رہا ہے وہ سب خدا ہی کی دی ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے دلائل آتے ہیں مگر وہ ان پر دھیان نہیں دیتا۔ ماضی کے سرکشوں کا انجام اس کے سامنے ہوتاہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف دوسروں کے لیے تھا۔ خود اس کے اپنے لیے کبھی ایسا ہونے والا نہیں۔ موجودہ دنیا میں جن لوگوں کو مواقع حاصل ہیں وہ حق کو نظر انداز کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر موت کے بعد جب وہ اپنی سرکشی کا انجام دیکھیں گے تو ان کو اپنے ماضی پر اس قدر شرم آئے گی کہ وہ چاہیں گے کہ اگر انھیںدوبارہ مہلت ملے تو وہ موجودہ دنیا میںآکر خوداپنی تردید کریں اور اس چیز کو مان لیں جس کا اس سے پہلے انھوں نے فخریہ طورپر انکار کردیا تھا۔ حق کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے۔ جس حق کے ساتھ خدا ہو اس کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، خواہ وہ اس کے خلاف اتنی بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے ہوں جو پہاڑ کو ہلانے کے لیے بھی کافی ثابت ہو۔

وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ

📘 آدمی کا حال یہ ہے کہ ایک دن پہلے تک بھی وہ اپنے انجام کا احساس نہیں کرتا۔ اس کو اگر کوئی قوت یا حیثیت حاصل ہو تو وہ اس طرح اکڑتاہے گویا کہ اس کی حیثیت کبھی اس سے چھننے والی نہیں۔ وہ خدا کی دعوت کو ٹھکراتا ہے اور بھول جاتاہے کہ وہ جن چیزوں کے بل پر اس کو ٹھکرا رہا ہے وہ سب خدا ہی کی دی ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے دلائل آتے ہیں مگر وہ ان پر دھیان نہیں دیتا۔ ماضی کے سرکشوں کا انجام اس کے سامنے ہوتاہے مگر وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہ صرف دوسروں کے لیے تھا۔ خود اس کے اپنے لیے کبھی ایسا ہونے والا نہیں۔ موجودہ دنیا میں جن لوگوں کو مواقع حاصل ہیں وہ حق کو نظر انداز کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ مگر موت کے بعد جب وہ اپنی سرکشی کا انجام دیکھیں گے تو ان کو اپنے ماضی پر اس قدر شرم آئے گی کہ وہ چاہیں گے کہ اگر انھیںدوبارہ مہلت ملے تو وہ موجودہ دنیا میںآکر خوداپنی تردید کریں اور اس چیز کو مان لیں جس کا اس سے پہلے انھوں نے فخریہ طورپر انکار کردیا تھا۔ حق کی مخالفت خدا کی مخالفت ہے۔ جس حق کے ساتھ خدا ہو اس کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ ناکام رہتے ہیں، خواہ وہ اس کے خلاف اتنی بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے ہوں جو پہاڑ کو ہلانے کے لیے بھی کافی ثابت ہو۔

فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ

📘 پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ

📘 پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔

وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَئِذٍ مُقَرَّنِينَ فِي الْأَصْفَادِ

📘 پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

📘 ’’آیات اللہ‘‘ سے مرادکائنات کی وہ نشانیاں ہیں جو خدا کی بات کو برحق ثابت کرتی ہیں۔ ’’ایام اللہ‘‘ سے مراد تاریخ کے وہ یادگار واقعات ہیں جب کہ خدا کا فیصلہ ظاہر ہوا اور خدا کی خصوصی مدد سے حق نے باطل کے اوپر فتح پائی۔ ایک اگر کائناتی دلیل ہے تو دوسری تاریخی دلیل۔ مگرعجیب بات ہے کہ یہی دونوں چیزیں ہماری دنیا میں سب سے زیادہ غیر موجود نظر آتی ہیں۔ ٓآیات اللہ کو غلط تشریح و تعبیر کے پردہ میں چھپا دیاگیا ہے اور ایام اللہ کایہ حال ہے کہ تاریخ نگاری کا کام جن لوگوں کے ہاتھ میں تھا انھوںنے ایام الانسان تو خوب قلم بند كيے مگر ایام اللہ ان کی کتابوں میں غیر مذکور رہ گئے۔ ایسی حالت میں کسی بندہ خدا کے لیے باطل کے اندھیرے سے نکلنے کی صورت یہ ہے کہ وہ صبر اور شکر کا ثبوت دے۔ حق کے اعتراف کی واحد قیمت اپنی بے اعترافی ہے۔ حق کو پانے کے لیے اپنے آپ کو کھونا پڑتا ہے۔ اور یہ چیز صبر کے بغیر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ پھر حق کا ادراک آدمی کو یہ بتاتا ہے کہ اس کائنات میں جو تقسیم ہے وہ منعم اور منعم علیہ کی ہے۔ خدا دینے والا ہے اور انسان پانے والا۔ اس حقیقتِ واقعہ کی دریافت کے بعد آدمی کے اندر جو صحیح جذبہ پیدا ہونا چاہیے اسی کا نام شکر ہے۔ گویا حقیقت تک پہنچنے کے لیے آدمی کو صبر کا ثبوت دینا پڑتا ہے اور حقیقت کو اپنے اندر اتارنے کے لیے شکر کا۔

سَرَابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَتَغْشَىٰ وُجُوهَهُمُ النَّارُ

📘 پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔

لِيَجْزِيَ اللَّهُ كُلَّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔

هَٰذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ

📘 پیغمبر خداکے دین کی گواہی اپنی کامل صورت میں دیتاہے۔ اس لیے پیغمبر کے ساتھ خدا کی نصرت بھی اپنی کامل صورت میں آتی ہے۔ بعد کے پیرو جتنا جتنا پیغمبر کے نمونہ پر پورے اتریں گے اتنا اتنا وہ خدا کی نصرت کے مستحق ہوتے چلے جائیں گے۔ آج انسان زمین پر ایسا محسوس کرتاہے جیسے وہ خشکی اور تری کا مالک ہو۔ وہ فضاؤں اور خلاؤں کو کنٹرول کرسکتاہے۔ وہ اختیار رکھتاہے کہ یہاں کے وسائل کو جس طرح چاہے استعمال کرے اور جس طرح چاہے استعمال نہ کرے۔ مگر یہ سب کچھ صرف اس لیے ہے کہ خدانے امتحان کی مدت تک زمین وآسمان کو انسان کے لیے مسخر کررکھا ہے۔ امتحان کی مدت ختم ہوتے ہی حالات یکسر بدل جائیں گے۔ اس کے بعد زمین بھی دوسری زمین ہوگی اور آسمان بھی دوسرا آسمان۔ انسان اچانک اپنے کو ایک اور ہی دنیا میں پائے گا۔ جہاں آدمی اپنے کو حکمراں سمجھتا تھا وہاں ساری حکومت صرف خداکے لیے ہوچکی ہوگی۔ جہاں ہر چیز اس کے حکم کے تابع تھی وہاں ہر چیز اس کی تابع داری کرنا چھوڑ دے گی۔ موجودہ دنیا میں جولوگ بڑے بنے ہوئے تھے وہ اس دن بے بس مجرم کے روپ میں نظر آئيں گے۔ جو لباس آج جسم کو زینت ديتا ہے وہ اس دن ایسا ہوجائے گا جیسے جسم کے اوپر تارکول پھیر دی گئی ہو۔ پُر رونق چہرے اس دن آگ میں جھلسے ہوئے ہوں گے۔اور یہ سب کچھ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو دنیا میں خدا کا بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوئے۔ جنھوںنے خدا کی طرف سے ہونے والے اعلان کو نظر انداز کیا۔ حقیقت کا حقیقت ہونا کافی نہیں ہے کہ آدمی اس کو مان لے۔ حقیقت کو ماننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود بھی اس کو ماننا چاہے۔ جو شخص حقیقت کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو خالی الذہن ہو کر اس کو سنے وہی حقیقت کو سمجھے گا، وہی حقیقت کا صحیح استقبال کرنے میں کامیاب ہوگا۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنْجَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ

📘 ان آیات میں حضرت موسیٰ کی جس تقریر کا حوالہ ہے وہ غالباً آپ کی وہ تقریر ہے جو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دنوں پہلے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے سامنے فرمائی تھی۔ یہ تقریر موجودہ بائبل (کتاب استثنا) میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ کی اس مفصل تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں خدا والے بن کر رہو اور خدا کی باتوں کا چرچا کرو تو دنیا کی تمام چیزیں تمھارا ساتھ دیں گی۔ سب قوموں کے درمیان تمھارا رعب قائم ہوگا۔ خدا تمھارے دشمنوں کو زیر کرے گا۔ حتی کہ اگر کبھی دریا تمھارے راستے میں حائل ہو تو خدا حکم دے گااور دریا پھٹ کر تمھیں راستہ دے دے گا، جب کہ اسی دریا میں تمھارے دشمن غرق ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس، اگرتم ایسا نہ کرو تو تم خدا کی نظر میں لعنتی ٹھہرو گے، یعنی تم خدا کی رحمتوں سے دور ہوجاؤگے۔ تمھاری محنت کی پیداوار دوسرے لوگ کھائیں گے، تمھارے ہر کام بگڑتے چلے جائیں گے، تم فکری اور عملی اعتبار سے دوسری قوموں کے زیرِ دست ہوجاؤگے۔ خدا کا یہ قانون معروف معنوں میں ’’یہود‘‘ کے لیے نہیں ہے بلکہ حاملِ کتاب قوم کے لیے ہے۔ جو قوم بھی حاملِ کتاب ہو، اس کے ساتھ خدا کا یہی معاملہ ہے، خواہ وہ ماضی کے حاملینِ کتاب ہوں یا حال کے حاملین کتاب۔

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ

📘 ان آیات میں حضرت موسیٰ کی جس تقریر کا حوالہ ہے وہ غالباً آپ کی وہ تقریر ہے جو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دنوں پہلے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے سامنے فرمائی تھی۔ یہ تقریر موجودہ بائبل (کتاب استثنا) میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ کی اس مفصل تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں خدا والے بن کر رہو اور خدا کی باتوں کا چرچا کرو تو دنیا کی تمام چیزیں تمھارا ساتھ دیں گی۔ سب قوموں کے درمیان تمھارا رعب قائم ہوگا۔ خدا تمھارے دشمنوں کو زیر کرے گا۔ حتی کہ اگر کبھی دریا تمھارے راستے میں حائل ہو تو خدا حکم دے گااور دریا پھٹ کر تمھیں راستہ دے دے گا، جب کہ اسی دریا میں تمھارے دشمن غرق ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس، اگرتم ایسا نہ کرو تو تم خدا کی نظر میں لعنتی ٹھہرو گے، یعنی تم خدا کی رحمتوں سے دور ہوجاؤگے۔ تمھاری محنت کی پیداوار دوسرے لوگ کھائیں گے، تمھارے ہر کام بگڑتے چلے جائیں گے، تم فکری اور عملی اعتبار سے دوسری قوموں کے زیرِ دست ہوجاؤگے۔ خدا کا یہ قانون معروف معنوں میں ’’یہود‘‘ کے لیے نہیں ہے بلکہ حاملِ کتاب قوم کے لیے ہے۔ جو قوم بھی حاملِ کتاب ہو، اس کے ساتھ خدا کا یہی معاملہ ہے، خواہ وہ ماضی کے حاملینِ کتاب ہوں یا حال کے حاملین کتاب۔

وَقَالَ مُوسَىٰ إِنْ تَكْفُرُوا أَنْتُمْ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا فَإِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ

📘 ان آیات میں حضرت موسیٰ کی جس تقریر کا حوالہ ہے وہ غالباً آپ کی وہ تقریر ہے جو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دنوں پہلے صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے سامنے فرمائی تھی۔ یہ تقریر موجودہ بائبل (کتاب استثنا) میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت موسیٰ کی اس مفصل تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم دنیا میں خدا والے بن کر رہو اور خدا کی باتوں کا چرچا کرو تو دنیا کی تمام چیزیں تمھارا ساتھ دیں گی۔ سب قوموں کے درمیان تمھارا رعب قائم ہوگا۔ خدا تمھارے دشمنوں کو زیر کرے گا۔ حتی کہ اگر کبھی دریا تمھارے راستے میں حائل ہو تو خدا حکم دے گااور دریا پھٹ کر تمھیں راستہ دے دے گا، جب کہ اسی دریا میں تمھارے دشمن غرق ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس، اگرتم ایسا نہ کرو تو تم خدا کی نظر میں لعنتی ٹھہرو گے، یعنی تم خدا کی رحمتوں سے دور ہوجاؤگے۔ تمھاری محنت کی پیداوار دوسرے لوگ کھائیں گے، تمھارے ہر کام بگڑتے چلے جائیں گے، تم فکری اور عملی اعتبار سے دوسری قوموں کے زیرِ دست ہوجاؤگے۔ خدا کا یہ قانون معروف معنوں میں ’’یہود‘‘ کے لیے نہیں ہے بلکہ حاملِ کتاب قوم کے لیے ہے۔ جو قوم بھی حاملِ کتاب ہو، اس کے ساتھ خدا کا یہی معاملہ ہے، خواہ وہ ماضی کے حاملینِ کتاب ہوں یا حال کے حاملین کتاب۔

أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ ۛ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ ۚ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ

📘 خدا کے جتنے رسول مختلف قوموں میںآئے سب کے ساتھ ایک ہی قصہ پیش آیا۔ ہر قوم نے اپنے پیغمبروں کی مخالفت کی۔ ہر جگہ ان کا منھ بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ ان کا ’’شک‘‘ تھا۔ یہ شک اس لیے تھاکہ ان کے سامنے ایک طرف ان کا آبائی دین تھا جس کی پشت پر اکابر اور اعاظم کے نام تھے۔ دوسری طرف پیغمبر کا دین تھا ،جو بظاہر ایک معمولی انسان کے ذریعہ پیش کیا جارہا تھا۔ دلائل کا زور پیغمبر کے دین کے ساتھ نظر آتا تھا مگر تاریخی عظمت اورعوامی بھیڑ آبائی دین کے ساتھ دکھائی دیتی تھی۔ پیغمبر کے مخاطبین کا یہ حال ہوا کہ وہ دلائل کو رد کرنے کی قوت اپنے اندر نہ پاتے تھے۔ اور یہ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اعاظم اوراکابر کو کس طرح غلط سمجھ لیں۔ اس دو طرفہ صورت حال نے انھیں شک میں مبتلا کردیا۔ عملاً اگر چہ وہ آبائی دین کے ساتھ وابستہ رہے مگر اپنے قلب ودماغ کو شک سے آزاد بھی نہ کرسکے۔