slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الأنبياء

(Al-Anbiya) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُعْرِضُونَ

📘 ہر آدمی جو دنیا میں ہے وہ زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہے۔ اس اعتبار سے ہر آدمی اپنے روزِ حساب کے عین کنارے کھڑا ہوا ہے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی یادہانی پر توجہ نہیںدیتا، خواہ وہ پیغمبر کے ذریعہ کرائی جائے یا غیر پیغمبر کے ذریعہ۔حق کے داعی کی بات کو وہ بس ’’ایک انسان‘‘ کی بات کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب قرآن کے ذریعہ دعوت شروع کی تو قرآن کا خدائی کلام لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے لگا۔ یہ وہاں کے سرداروں کے ليے بڑی سخت بات تھی۔ کیوں کہ اس سے ان کی قیادت خطرہ میں پڑ رہی تھی۔ قرآن توحید کی دعوت دیتاتھا، اور مکہ کے سردار شرک کے اوپر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کے ذہن کو اس سے ہٹانے کے لیے یہ کیا کہ لوگوں سے کہا کہ اس کلام میں بظاہر جو تاثیر تم دیکھ رہے ہو وہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے۔ اس کا زور صداقت کا زور نہیں بلکہ جادو کا زور ہے۔ یہ جادو بیانی کا معاملہ ہے، نہ کہ آسمانی کلام کا معاملہ۔ اس قسم کی بات کہنے والے لوگ اگرچہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر انھیں یقین نہیں کہ خدا انھیں دیکھ اور سن رہا ہے۔ اگر انھیں خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین ہوتاتو وہ ایسی غیر سنجیدہ بات ہر گز اپنی زبان سے نہ نکالتے۔

لَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ كِتَابًا فِيهِ ذِكْرُكُمْ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 خدا کی کتاب عام معنوں میں محض ایک کتاب نہیں وہ ایک یاد دہانی ہے۔ وہ اس بات کی چیتاونی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اتفاق سے نہیں ہے، وہ ایک خدائی منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کے لیے وقتی آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد آدمی جیسا عمل کرے اس کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے۔ اس حقیقت کا جزئی ظہور ظالم قوموں کی ہلاکت کی صورت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا کلی ظہور قیامت میں ہوگا۔ جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ پیداکرکے جمع کيے جائیں گے۔ جب خدا کی پکڑ ظاہر ہوتی ہے تو وہ تمام مادی سازوسامان آدمی کو مصیبت معلوم ہونے لگتے ہیں جن کے بل پر اس سے پہلے وہ حق کی دعوت کو نظر اندازکردیتا تھا۔ مادی سامان جب تک ساتھ نہ چھوڑدیں وہ غفلت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور جب یہ سامان اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر اس وقت آنکھ کا کھلنا اس کے کام نہیں آتا۔ کیوں کہ اس وقت تمام چیزیں اپنی طاقت کھو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صرف خدا کسی کے کام آتا ہے، نہ کہ جھوٹے معبود۔

لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَهُمْ فِيهَا لَا يَسْمَعُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَىٰ أُولَٰئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

لَا يَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا ۖ وَهُمْ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ خَالِدُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيِّ السِّجِلِّ لِلْكُتُبِ ۚ كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ ۚ وَعْدًا عَلَيْنَا ۚ إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

إِنَّ فِي هَٰذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ

📘 خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی مقصد کے لیے آئے۔ ان کے ذریعہ خدا یہ چاہتا تھا کہ انسانوں کو حقیقت کا وہ علم دے جس کو اختیار کرکے وہ ابدی جنت کے باشندے بن سکتے ہیں۔ مگر انسان ہر بار پیغمبروں کو رد کرتا رہا۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر خدا کی رحمت تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی عنایت کا ذریعہ بنایا۔ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ہدایت کے اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے کھول دے جو اب تک ان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ اس بنا پر آپ کی مدعو قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فیصلہ تھا کہ اس کو بہر حال حق کے راستے پر لانا ہے۔ تاکہ پیغمبر کے ساتھ ایک طاقت ور جماعت تیار ہو اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کے رخ کو موڑ دے۔ رحمت خداوندی کا یہ خصوصی منصوبہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ بہ تمام وکمال انجام پایا۔

قُلْ إِنَّمَا يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

📘 خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی مقصد کے لیے آئے۔ ان کے ذریعہ خدا یہ چاہتا تھا کہ انسانوں کو حقیقت کا وہ علم دے جس کو اختیار کرکے وہ ابدی جنت کے باشندے بن سکتے ہیں۔ مگر انسان ہر بار پیغمبروں کو رد کرتا رہا۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر خدا کی رحمت تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی عنایت کا ذریعہ بنایا۔ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ہدایت کے اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے کھول دے جو اب تک ان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ اس بنا پر آپ کی مدعو قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فیصلہ تھا کہ اس کو بہر حال حق کے راستے پر لانا ہے۔ تاکہ پیغمبر کے ساتھ ایک طاقت ور جماعت تیار ہو اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کے رخ کو موڑ دے۔ رحمت خداوندی کا یہ خصوصی منصوبہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ بہ تمام وکمال انجام پایا۔

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ

📘 خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی مقصد کے لیے آئے۔ ان کے ذریعہ خدا یہ چاہتا تھا کہ انسانوں کو حقیقت کا وہ علم دے جس کو اختیار کرکے وہ ابدی جنت کے باشندے بن سکتے ہیں۔ مگر انسان ہر بار پیغمبروں کو رد کرتا رہا۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر خدا کی رحمت تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی عنایت کا ذریعہ بنایا۔ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ہدایت کے اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے کھول دے جو اب تک ان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ اس بنا پر آپ کی مدعو قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فیصلہ تھا کہ اس کو بہر حال حق کے راستے پر لانا ہے۔ تاکہ پیغمبر کے ساتھ ایک طاقت ور جماعت تیار ہو اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کے رخ کو موڑ دے۔ رحمت خداوندی کا یہ خصوصی منصوبہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ بہ تمام وکمال انجام پایا۔

وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ

📘 خدا کی کتاب عام معنوں میں محض ایک کتاب نہیں وہ ایک یاد دہانی ہے۔ وہ اس بات کی چیتاونی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اتفاق سے نہیں ہے، وہ ایک خدائی منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کے لیے وقتی آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد آدمی جیسا عمل کرے اس کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے۔ اس حقیقت کا جزئی ظہور ظالم قوموں کی ہلاکت کی صورت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا کلی ظہور قیامت میں ہوگا۔ جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ پیداکرکے جمع کيے جائیں گے۔ جب خدا کی پکڑ ظاہر ہوتی ہے تو وہ تمام مادی سازوسامان آدمی کو مصیبت معلوم ہونے لگتے ہیں جن کے بل پر اس سے پہلے وہ حق کی دعوت کو نظر اندازکردیتا تھا۔ مادی سامان جب تک ساتھ نہ چھوڑدیں وہ غفلت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور جب یہ سامان اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر اس وقت آنکھ کا کھلنا اس کے کام نہیں آتا۔ کیوں کہ اس وقت تمام چیزیں اپنی طاقت کھو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صرف خدا کسی کے کام آتا ہے، نہ کہ جھوٹے معبود۔

إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْتُمُونَ

📘 خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی مقصد کے لیے آئے۔ ان کے ذریعہ خدا یہ چاہتا تھا کہ انسانوں کو حقیقت کا وہ علم دے جس کو اختیار کرکے وہ ابدی جنت کے باشندے بن سکتے ہیں۔ مگر انسان ہر بار پیغمبروں کو رد کرتا رہا۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر خدا کی رحمت تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی عنایت کا ذریعہ بنایا۔ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ہدایت کے اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے کھول دے جو اب تک ان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ اس بنا پر آپ کی مدعو قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فیصلہ تھا کہ اس کو بہر حال حق کے راستے پر لانا ہے۔ تاکہ پیغمبر کے ساتھ ایک طاقت ور جماعت تیار ہو اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کے رخ کو موڑ دے۔ رحمت خداوندی کا یہ خصوصی منصوبہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ بہ تمام وکمال انجام پایا۔

وَإِنْ أَدْرِي لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَكُمْ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ

📘 خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی مقصد کے لیے آئے۔ ان کے ذریعہ خدا یہ چاہتا تھا کہ انسانوں کو حقیقت کا وہ علم دے جس کو اختیار کرکے وہ ابدی جنت کے باشندے بن سکتے ہیں۔ مگر انسان ہر بار پیغمبروں کو رد کرتا رہا۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر خدا کی رحمت تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی عنایت کا ذریعہ بنایا۔ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ہدایت کے اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے کھول دے جو اب تک ان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ اس بنا پر آپ کی مدعو قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فیصلہ تھا کہ اس کو بہر حال حق کے راستے پر لانا ہے۔ تاکہ پیغمبر کے ساتھ ایک طاقت ور جماعت تیار ہو اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کے رخ کو موڑ دے۔ رحمت خداوندی کا یہ خصوصی منصوبہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ بہ تمام وکمال انجام پایا۔

قَالَ رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ ۗ وَرَبُّنَا الرَّحْمَٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ

📘 خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے سب ایک ہی مقصد کے لیے آئے۔ ان کے ذریعہ خدا یہ چاہتا تھا کہ انسانوں کو حقیقت کا وہ علم دے جس کو اختیار کرکے وہ ابدی جنت کے باشندے بن سکتے ہیں۔ مگر انسان ہر بار پیغمبروں کو رد کرتا رہا۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر خدا کی رحمت تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز یہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے ایک خصوصی عنایت کا ذریعہ بنایا۔ خدا نے یہ فیصلہ فرمایا کہ آپ کے ذریعہ ہدایت کے اس دروازے کو ہمیشہ کے لیے کھول دے جو اب تک ان کے اوپر بند پڑا ہوا تھا۔ اس بنا پر آپ کی مدعو قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ خصوصی فیصلہ تھا کہ اس کو بہر حال حق کے راستے پر لانا ہے۔ تاکہ پیغمبر کے ساتھ ایک طاقت ور جماعت تیار ہو اور وہ دنیا میں انقلاب برپا کرکے تاریخ کے رخ کو موڑ دے۔ رحمت خداوندی کا یہ خصوصی منصوبہ آپ اور آپ کے اصحاب کے ذریعہ بہ تمام وکمال انجام پایا۔

فَلَمَّا أَحَسُّوا بَأْسَنَا إِذَا هُمْ مِنْهَا يَرْكُضُونَ

📘 خدا کی کتاب عام معنوں میں محض ایک کتاب نہیں وہ ایک یاد دہانی ہے۔ وہ اس بات کی چیتاونی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اتفاق سے نہیں ہے، وہ ایک خدائی منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کے لیے وقتی آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد آدمی جیسا عمل کرے اس کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے۔ اس حقیقت کا جزئی ظہور ظالم قوموں کی ہلاکت کی صورت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا کلی ظہور قیامت میں ہوگا۔ جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ پیداکرکے جمع کيے جائیں گے۔ جب خدا کی پکڑ ظاہر ہوتی ہے تو وہ تمام مادی سازوسامان آدمی کو مصیبت معلوم ہونے لگتے ہیں جن کے بل پر اس سے پہلے وہ حق کی دعوت کو نظر اندازکردیتا تھا۔ مادی سامان جب تک ساتھ نہ چھوڑدیں وہ غفلت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور جب یہ سامان اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر اس وقت آنکھ کا کھلنا اس کے کام نہیں آتا۔ کیوں کہ اس وقت تمام چیزیں اپنی طاقت کھو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صرف خدا کسی کے کام آتا ہے، نہ کہ جھوٹے معبود۔

لَا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَىٰ مَا أُتْرِفْتُمْ فِيهِ وَمَسَاكِنِكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ

📘 خدا کی کتاب عام معنوں میں محض ایک کتاب نہیں وہ ایک یاد دہانی ہے۔ وہ اس بات کی چیتاونی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اتفاق سے نہیں ہے، وہ ایک خدائی منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کے لیے وقتی آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد آدمی جیسا عمل کرے اس کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے۔ اس حقیقت کا جزئی ظہور ظالم قوموں کی ہلاکت کی صورت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا کلی ظہور قیامت میں ہوگا۔ جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ پیداکرکے جمع کيے جائیں گے۔ جب خدا کی پکڑ ظاہر ہوتی ہے تو وہ تمام مادی سازوسامان آدمی کو مصیبت معلوم ہونے لگتے ہیں جن کے بل پر اس سے پہلے وہ حق کی دعوت کو نظر اندازکردیتا تھا۔ مادی سامان جب تک ساتھ نہ چھوڑدیں وہ غفلت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور جب یہ سامان اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر اس وقت آنکھ کا کھلنا اس کے کام نہیں آتا۔ کیوں کہ اس وقت تمام چیزیں اپنی طاقت کھو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صرف خدا کسی کے کام آتا ہے، نہ کہ جھوٹے معبود۔

قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

📘 خدا کی کتاب عام معنوں میں محض ایک کتاب نہیں وہ ایک یاد دہانی ہے۔ وہ اس بات کی چیتاونی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اتفاق سے نہیں ہے، وہ ایک خدائی منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کے لیے وقتی آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد آدمی جیسا عمل کرے اس کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے۔ اس حقیقت کا جزئی ظہور ظالم قوموں کی ہلاکت کی صورت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا کلی ظہور قیامت میں ہوگا۔ جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ پیداکرکے جمع کيے جائیں گے۔ جب خدا کی پکڑ ظاہر ہوتی ہے تو وہ تمام مادی سازوسامان آدمی کو مصیبت معلوم ہونے لگتے ہیں جن کے بل پر اس سے پہلے وہ حق کی دعوت کو نظر اندازکردیتا تھا۔ مادی سامان جب تک ساتھ نہ چھوڑدیں وہ غفلت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور جب یہ سامان اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر اس وقت آنکھ کا کھلنا اس کے کام نہیں آتا۔ کیوں کہ اس وقت تمام چیزیں اپنی طاقت کھو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صرف خدا کسی کے کام آتا ہے، نہ کہ جھوٹے معبود۔

فَمَا زَالَتْ تِلْكَ دَعْوَاهُمْ حَتَّىٰ جَعَلْنَاهُمْ حَصِيدًا خَامِدِينَ

📘 خدا کی کتاب عام معنوں میں محض ایک کتاب نہیں وہ ایک یاد دہانی ہے۔ وہ اس بات کی چیتاونی ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اتفاق سے نہیں ہے، وہ ایک خدائی منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ انسان کو آزمائش کے لیے وقتی آزادی دے دی جائے۔ اس کے بعد آدمی جیسا عمل کرے اس کے مطابق اس کو بدلہ دیا جائے۔ اس حقیقت کا جزئی ظہور ظالم قوموں کی ہلاکت کی صورت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ اور اس کا کلی ظہور قیامت میں ہوگا۔ جب کہ تمام اگلے پچھلے انسان دوبارہ پیداکرکے جمع کيے جائیں گے۔ جب خدا کی پکڑ ظاہر ہوتی ہے تو وہ تمام مادی سازوسامان آدمی کو مصیبت معلوم ہونے لگتے ہیں جن کے بل پر اس سے پہلے وہ حق کی دعوت کو نظر اندازکردیتا تھا۔ مادی سامان جب تک ساتھ نہ چھوڑدیں وہ غفلت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور جب یہ سامان اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اس وقت اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ مگر اس وقت آنکھ کا کھلنا اس کے کام نہیں آتا۔ کیوں کہ اس وقت تمام چیزیں اپنی طاقت کھو چکی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد صرف خدا کسی کے کام آتا ہے، نہ کہ جھوٹے معبود۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

📘 جو لوگ خدا کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں وہ گویا موجودہ دنیا کو ایک قسم کا خدائی کھلونا سمجھتے ہیں۔ جس کا وقتی تفریح کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو۔ مگر موجودہ دنیا اپنی بے پناہ حکمت ومعنویت کے ساتھ اپنے خالق کا جو تعارف کراتی ہے اس کے لحاظ سے یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خالق کوئی ایسا خدا ہو جس نے اس دنیا کو محض کھیل کے طورپر بنایا ہو۔ موجودہ دنیا میں انسان جیسی انوکھی مخلوق ہے جس کی فطرت میں حق وباطل کی تمیز پائی جاتی ہے۔ دنیا میں ایسی مخلوق کا ہونا جو ایک طریقہ کو حق اور دوسرے طریقہ کو باطل سمجھے اور پھر حق وباطل کے نام پر بار بار مقابلہ پیش آنا ظاہر کرتاہے کہ یہاں کوئی ایسا وقت آنے والا ہے جب کہ آخری طورپر یہ بات کھل جائے کہ فی الواقع حق کیا تھا اور باطل کیا۔ اور پھر جس نے حق کا ساتھ دیا ہو اس کو کامیابی حاصل ہو اور جس نے حق کا ساتھ نہ دیا ہو وہ ناکام کردیا جائے۔ جس دنیا میں ایسا ’’پتھر‘‘ ہو جو ایک شخص کے ’’سر‘‘ کو توڑدے وہاں کیا ایسا حق نہ ہوگا جو باطل کو باطل ثابت کرسکے۔

لَوْ أَرَدْنَا أَنْ نَتَّخِذَ لَهْوًا لَاتَّخَذْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا إِنْ كُنَّا فَاعِلِينَ

📘 جو لوگ خدا کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں وہ گویا موجودہ دنیا کو ایک قسم کا خدائی کھلونا سمجھتے ہیں۔ جس کا وقتی تفریح کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو۔ مگر موجودہ دنیا اپنی بے پناہ حکمت ومعنویت کے ساتھ اپنے خالق کا جو تعارف کراتی ہے اس کے لحاظ سے یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خالق کوئی ایسا خدا ہو جس نے اس دنیا کو محض کھیل کے طورپر بنایا ہو۔ موجودہ دنیا میں انسان جیسی انوکھی مخلوق ہے جس کی فطرت میں حق وباطل کی تمیز پائی جاتی ہے۔ دنیا میں ایسی مخلوق کا ہونا جو ایک طریقہ کو حق اور دوسرے طریقہ کو باطل سمجھے اور پھر حق وباطل کے نام پر بار بار مقابلہ پیش آنا ظاہر کرتاہے کہ یہاں کوئی ایسا وقت آنے والا ہے جب کہ آخری طورپر یہ بات کھل جائے کہ فی الواقع حق کیا تھا اور باطل کیا۔ اور پھر جس نے حق کا ساتھ دیا ہو اس کو کامیابی حاصل ہو اور جس نے حق کا ساتھ نہ دیا ہو وہ ناکام کردیا جائے۔ جس دنیا میں ایسا ’’پتھر‘‘ ہو جو ایک شخص کے ’’سر‘‘ کو توڑدے وہاں کیا ایسا حق نہ ہوگا جو باطل کو باطل ثابت کرسکے۔

بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ

📘 جو لوگ خدا کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہوں وہ گویا موجودہ دنیا کو ایک قسم کا خدائی کھلونا سمجھتے ہیں۔ جس کا وقتی تفریح کے سوا اور کوئی مقصد نہ ہو۔ مگر موجودہ دنیا اپنی بے پناہ حکمت ومعنویت کے ساتھ اپنے خالق کا جو تعارف کراتی ہے اس کے لحاظ سے یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خالق کوئی ایسا خدا ہو جس نے اس دنیا کو محض کھیل کے طورپر بنایا ہو۔ موجودہ دنیا میں انسان جیسی انوکھی مخلوق ہے جس کی فطرت میں حق وباطل کی تمیز پائی جاتی ہے۔ دنیا میں ایسی مخلوق کا ہونا جو ایک طریقہ کو حق اور دوسرے طریقہ کو باطل سمجھے اور پھر حق وباطل کے نام پر بار بار مقابلہ پیش آنا ظاہر کرتاہے کہ یہاں کوئی ایسا وقت آنے والا ہے جب کہ آخری طورپر یہ بات کھل جائے کہ فی الواقع حق کیا تھا اور باطل کیا۔ اور پھر جس نے حق کا ساتھ دیا ہو اس کو کامیابی حاصل ہو اور جس نے حق کا ساتھ نہ دیا ہو وہ ناکام کردیا جائے۔ جس دنیا میں ایسا ’’پتھر‘‘ ہو جو ایک شخص کے ’’سر‘‘ کو توڑدے وہاں کیا ایسا حق نہ ہوگا جو باطل کو باطل ثابت کرسکے۔

وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِنْدَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ

📘 زمین وآسمان کی ہر چیز مخلوق ہے۔ ہر چیز وہی کرتی ہے جس کا اسے اوپر سے حکم دیاگیا ہو۔ ساری کائنات میں صرف انسان ہے جو سرکشی کرتاہے۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے وہ یہ کہہ کر سرکشی کرتے ہیں کہ ہمارے اوپر کوئی مالک اور حاکم نہیں۔ ہم آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں۔ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں وہ بھی سرکشی کرتے ہیں۔ البتہ ان کے پاس اپنی سرکشی کی توجیہہ دوسری ہوتی ہے۔ وہ خدا کے سوا کسی اور کو اپنا شفیع اور وسیلہ مان لیتے ہیں۔ وہ کسی کو خدا کا مقرب مان کر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہم ان کے لیے عقیدت و احترام کا اظہار کرتے رہیں تو وہ خدا کے یہاں ہمارے ليے نجات کی سفارش کردیں گے۔ کچھ لوگ فرشتوں کو اپنا شفیع اور وسلیہ مان لیتے ہیں اور کچھ لوگ کسی دوسری ہستی کو۔ مگر اس قسم کے تمام نظريے مضحکہ خیز حد تک باطل ہیں۔ اگر کسی کو وہ نگاہ حاصل ہو کہ وہ کائناتی سطح پر حقیقت کو دیکھ سکے تو وہ دیکھے گا کہ مفروضہ ہستیاں خود تو خداکی ہیبت سے اس کے آگے جھکی ہوئی ہیں اور انسان ان کے نام پر دنیا میں سرکش بنا ہوا ہے۔

مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنْ رَبِّهِمْ مُحْدَثٍ إِلَّا اسْتَمَعُوهُ وَهُمْ يَلْعَبُونَ

📘 ہر آدمی جو دنیا میں ہے وہ زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہے۔ اس اعتبار سے ہر آدمی اپنے روزِ حساب کے عین کنارے کھڑا ہوا ہے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی یادہانی پر توجہ نہیںدیتا، خواہ وہ پیغمبر کے ذریعہ کرائی جائے یا غیر پیغمبر کے ذریعہ۔حق کے داعی کی بات کو وہ بس ’’ایک انسان‘‘ کی بات کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب قرآن کے ذریعہ دعوت شروع کی تو قرآن کا خدائی کلام لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے لگا۔ یہ وہاں کے سرداروں کے ليے بڑی سخت بات تھی۔ کیوں کہ اس سے ان کی قیادت خطرہ میں پڑ رہی تھی۔ قرآن توحید کی دعوت دیتاتھا، اور مکہ کے سردار شرک کے اوپر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کے ذہن کو اس سے ہٹانے کے لیے یہ کیا کہ لوگوں سے کہا کہ اس کلام میں بظاہر جو تاثیر تم دیکھ رہے ہو وہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے۔ اس کا زور صداقت کا زور نہیں بلکہ جادو کا زور ہے۔ یہ جادو بیانی کا معاملہ ہے، نہ کہ آسمانی کلام کا معاملہ۔ اس قسم کی بات کہنے والے لوگ اگرچہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر انھیں یقین نہیں کہ خدا انھیں دیکھ اور سن رہا ہے۔ اگر انھیں خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین ہوتاتو وہ ایسی غیر سنجیدہ بات ہر گز اپنی زبان سے نہ نکالتے۔

يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ

📘 زمین وآسمان کی ہر چیز مخلوق ہے۔ ہر چیز وہی کرتی ہے جس کا اسے اوپر سے حکم دیاگیا ہو۔ ساری کائنات میں صرف انسان ہے جو سرکشی کرتاہے۔ جو لوگ خدا کو نہیں مانتے وہ یہ کہہ کر سرکشی کرتے ہیں کہ ہمارے اوپر کوئی مالک اور حاکم نہیں۔ ہم آزاد ہیں کہ جو چاہیں کریں۔ جو لوگ خدا کو مانتے ہیں وہ بھی سرکشی کرتے ہیں۔ البتہ ان کے پاس اپنی سرکشی کی توجیہہ دوسری ہوتی ہے۔ وہ خدا کے سوا کسی اور کو اپنا شفیع اور وسیلہ مان لیتے ہیں۔ وہ کسی کو خدا کا مقرب مان کر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ہم ان کے لیے عقیدت و احترام کا اظہار کرتے رہیں تو وہ خدا کے یہاں ہمارے ليے نجات کی سفارش کردیں گے۔ کچھ لوگ فرشتوں کو اپنا شفیع اور وسلیہ مان لیتے ہیں اور کچھ لوگ کسی دوسری ہستی کو۔ مگر اس قسم کے تمام نظريے مضحکہ خیز حد تک باطل ہیں۔ اگر کسی کو وہ نگاہ حاصل ہو کہ وہ کائناتی سطح پر حقیقت کو دیکھ سکے تو وہ دیکھے گا کہ مفروضہ ہستیاں خود تو خداکی ہیبت سے اس کے آگے جھکی ہوئی ہیں اور انسان ان کے نام پر دنیا میں سرکش بنا ہوا ہے۔

أَمِ اتَّخَذُوا آلِهَةً مِنَ الْأَرْضِ هُمْ يُنْشِرُونَ

📘 زمین بقیہ کائنات سے الگ نہیں ہے۔ وہ وسیع تر کائنات کے ساتھ مسلسل طورپر مربوط ہے۔ زمین پر زندگی اور سرسبزی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ بقیہ کائنات اس کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگی کرے۔ زمین و آسمان کا یہ متوافق عمل ثابت کرتاہے کہ زمین و آسمان کا انتظام ایک ہی ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دو کے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً دونوں کے درمیان بار بار ٹکراؤ ہوتا اور زمین پر موجودہ زندگی کا قیام ممکن نہ ہوتا۔ کائنات اپنی بے پناہ عظمت اور معنویت کے ساتھ اپنے جس خالق کا تعارف کراتی ہے وہ یقینی طورپر ایسا خدا ہے جو ہر قسم کی کمیوںسے یکسر پاک ہے۔ یہ موجودہ کائنات کا کمتر اندازہ ہے کہ اس کا خالق ایک ایسی ہستی کو مانا جائے جس کے ساتھ کمیاں اور کمزوریاں لگی ہوئی ہیں۔

لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ

📘 زمین بقیہ کائنات سے الگ نہیں ہے۔ وہ وسیع تر کائنات کے ساتھ مسلسل طورپر مربوط ہے۔ زمین پر زندگی اور سرسبزی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ بقیہ کائنات اس کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگی کرے۔ زمین و آسمان کا یہ متوافق عمل ثابت کرتاہے کہ زمین و آسمان کا انتظام ایک ہی ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دو کے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً دونوں کے درمیان بار بار ٹکراؤ ہوتا اور زمین پر موجودہ زندگی کا قیام ممکن نہ ہوتا۔ کائنات اپنی بے پناہ عظمت اور معنویت کے ساتھ اپنے جس خالق کا تعارف کراتی ہے وہ یقینی طورپر ایسا خدا ہے جو ہر قسم کی کمیوںسے یکسر پاک ہے۔ یہ موجودہ کائنات کا کمتر اندازہ ہے کہ اس کا خالق ایک ایسی ہستی کو مانا جائے جس کے ساتھ کمیاں اور کمزوریاں لگی ہوئی ہیں۔

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ

📘 زمین بقیہ کائنات سے الگ نہیں ہے۔ وہ وسیع تر کائنات کے ساتھ مسلسل طورپر مربوط ہے۔ زمین پر زندگی اور سرسبزی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ بقیہ کائنات اس کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگی کرے۔ زمین و آسمان کا یہ متوافق عمل ثابت کرتاہے کہ زمین و آسمان کا انتظام ایک ہی ہستی کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ دو کے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً دونوں کے درمیان بار بار ٹکراؤ ہوتا اور زمین پر موجودہ زندگی کا قیام ممکن نہ ہوتا۔ کائنات اپنی بے پناہ عظمت اور معنویت کے ساتھ اپنے جس خالق کا تعارف کراتی ہے وہ یقینی طورپر ایسا خدا ہے جو ہر قسم کی کمیوںسے یکسر پاک ہے۔ یہ موجودہ کائنات کا کمتر اندازہ ہے کہ اس کا خالق ایک ایسی ہستی کو مانا جائے جس کے ساتھ کمیاں اور کمزوریاں لگی ہوئی ہیں۔

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً ۖ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ ۖ هَٰذَا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَذِكْرُ مَنْ قَبْلِي ۗ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ ۖ فَهُمْ مُعْرِضُونَ

📘 ایک خدا کے سوا دوسرے معبود فرض کرنا کسی واقعی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہے۔ بلکہ سراسر لاعلمی کی بنیاد پر ہے۔ جو لوگ خدا کے ليے شرکاء مانتے ہیں ان کے پاس اپنے عقیدۂ شرک کے حق میں کوئی دلیل نہیں، نہ علم انسانی میں اور نہ وحی آسمانی میں۔ وہ توحید کے دلائل سن کر ان سے اعراض کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان کا استدلالی یقین نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ صرف ا ن کا تعصب ہے۔ اپنے متعصبانہ مزاج کی وجہ سے وہ اپنے عقیدہ میں اتنا پختہ ہوگئے ہیں کہ استدلال کے اعتبار سے بے حقیقت ہونے کے باوجود وہ اس کو چھوڑ نے پر راضی نہیں ہوتے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ

📘 ایک خدا کے سوا دوسرے معبود فرض کرنا کسی واقعی دلیل کی بنیاد پر نہیں ہے۔ بلکہ سراسر لاعلمی کی بنیاد پر ہے۔ جو لوگ خدا کے ليے شرکاء مانتے ہیں ان کے پاس اپنے عقیدۂ شرک کے حق میں کوئی دلیل نہیں، نہ علم انسانی میں اور نہ وحی آسمانی میں۔ وہ توحید کے دلائل سن کر ان سے اعراض کرتے ہیں تو اس کی وجہ ان کا استدلالی یقین نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ صرف ا ن کا تعصب ہے۔ اپنے متعصبانہ مزاج کی وجہ سے وہ اپنے عقیدہ میں اتنا پختہ ہوگئے ہیں کہ استدلال کے اعتبار سے بے حقیقت ہونے کے باوجود وہ اس کو چھوڑ نے پر راضی نہیں ہوتے۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ

📘 ایک چیز کو حق اور دوسری چیز کو باطل سمجھنا آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے۔ اس لیے انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ وہ ایسا نظریہ دریافت کرے جس سے حق وباطل کا فرق مٹ جائے۔ جس سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو کہ وہ دنیا میں خواہ جس طرح بھی رہے اس سے یہ پوچھ نہیں ہونے والی ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ویسا کیوں نہیں کیا۔ غیر مذہبی لوگوں نے یہ تسکین انکارِ آخرت کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور مذہبی لوگوں نے مشرکانہ عقیدہ کے ذریعہ۔ فرشتے ایک غیبی مخلوق ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان کو فرشتوں کی موجودگی کی خبر دی گئی تاکہ وہ خدا کی قدرت کا احساس کرے۔ مگر اس نے فرشتوں کو خدا کی بیٹی بنا کر عجیب وغریب طور پر یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ وہ فرشتوں کے نام پر کچھ عبادتی رسوم ادا کرتا رہے، اور وہ آخرت میں اپنے باپ سے سفارش کرکے اس کی بخشش کرادیںگے۔ اس قسم کے تمام عقیدے خدا کی خدائی کی نفی ہیں۔ خدا اسی ليے خدا ہے کہ وہ ایسی تمام کمیوں سے پاک ہے۔ اگر وہ ان کمیوں میں مبتلا ہوتا تو وہ خدا نہ ہوتا۔

لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ

📘 ایک چیز کو حق اور دوسری چیز کو باطل سمجھنا آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے۔ اس لیے انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ وہ ایسا نظریہ دریافت کرے جس سے حق وباطل کا فرق مٹ جائے۔ جس سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو کہ وہ دنیا میں خواہ جس طرح بھی رہے اس سے یہ پوچھ نہیں ہونے والی ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ویسا کیوں نہیں کیا۔ غیر مذہبی لوگوں نے یہ تسکین انکارِ آخرت کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور مذہبی لوگوں نے مشرکانہ عقیدہ کے ذریعہ۔ فرشتے ایک غیبی مخلوق ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان کو فرشتوں کی موجودگی کی خبر دی گئی تاکہ وہ خدا کی قدرت کا احساس کرے۔ مگر اس نے فرشتوں کو خدا کی بیٹی بنا کر عجیب وغریب طور پر یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ وہ فرشتوں کے نام پر کچھ عبادتی رسوم ادا کرتا رہے، اور وہ آخرت میں اپنے باپ سے سفارش کرکے اس کی بخشش کرادیںگے۔ اس قسم کے تمام عقیدے خدا کی خدائی کی نفی ہیں۔ خدا اسی ليے خدا ہے کہ وہ ایسی تمام کمیوں سے پاک ہے۔ اگر وہ ان کمیوں میں مبتلا ہوتا تو وہ خدا نہ ہوتا۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَىٰ وَهُمْ مِنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ

📘 ایک چیز کو حق اور دوسری چیز کو باطل سمجھنا آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے۔ اس لیے انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ وہ ایسا نظریہ دریافت کرے جس سے حق وباطل کا فرق مٹ جائے۔ جس سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو کہ وہ دنیا میں خواہ جس طرح بھی رہے اس سے یہ پوچھ نہیں ہونے والی ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ویسا کیوں نہیں کیا۔ غیر مذہبی لوگوں نے یہ تسکین انکارِ آخرت کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور مذہبی لوگوں نے مشرکانہ عقیدہ کے ذریعہ۔ فرشتے ایک غیبی مخلوق ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان کو فرشتوں کی موجودگی کی خبر دی گئی تاکہ وہ خدا کی قدرت کا احساس کرے۔ مگر اس نے فرشتوں کو خدا کی بیٹی بنا کر عجیب وغریب طور پر یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ وہ فرشتوں کے نام پر کچھ عبادتی رسوم ادا کرتا رہے، اور وہ آخرت میں اپنے باپ سے سفارش کرکے اس کی بخشش کرادیںگے۔ اس قسم کے تمام عقیدے خدا کی خدائی کی نفی ہیں۔ خدا اسی ليے خدا ہے کہ وہ ایسی تمام کمیوں سے پاک ہے۔ اگر وہ ان کمیوں میں مبتلا ہوتا تو وہ خدا نہ ہوتا۔

۞ وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَٰهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَٰلِكَ نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ

📘 ایک چیز کو حق اور دوسری چیز کو باطل سمجھنا آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے۔ اس لیے انسان ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہے کہ وہ ایسا نظریہ دریافت کرے جس سے حق وباطل کا فرق مٹ جائے۔ جس سے اس کو یہ اطمینان حاصل ہو کہ وہ دنیا میں خواہ جس طرح بھی رہے اس سے یہ پوچھ نہیں ہونے والی ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا اور ویسا کیوں نہیں کیا۔ غیر مذہبی لوگوں نے یہ تسکین انکارِ آخرت کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور مذہبی لوگوں نے مشرکانہ عقیدہ کے ذریعہ۔ فرشتے ایک غیبی مخلوق ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعہ انسان کو فرشتوں کی موجودگی کی خبر دی گئی تاکہ وہ خدا کی قدرت کا احساس کرے۔ مگر اس نے فرشتوں کو خدا کی بیٹی بنا کر عجیب وغریب طور پر یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ وہ فرشتوں کے نام پر کچھ عبادتی رسوم ادا کرتا رہے، اور وہ آخرت میں اپنے باپ سے سفارش کرکے اس کی بخشش کرادیںگے۔ اس قسم کے تمام عقیدے خدا کی خدائی کی نفی ہیں۔ خدا اسی ليے خدا ہے کہ وہ ایسی تمام کمیوں سے پاک ہے۔ اگر وہ ان کمیوں میں مبتلا ہوتا تو وہ خدا نہ ہوتا۔

لَاهِيَةً قُلُوبُهُمْ ۗ وَأَسَرُّوا النَّجْوَى الَّذِينَ ظَلَمُوا هَلْ هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ ۖ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنْتُمْ تُبْصِرُونَ

📘 ہر آدمی جو دنیا میں ہے وہ زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہے۔ اس اعتبار سے ہر آدمی اپنے روزِ حساب کے عین کنارے کھڑا ہوا ہے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی یادہانی پر توجہ نہیںدیتا، خواہ وہ پیغمبر کے ذریعہ کرائی جائے یا غیر پیغمبر کے ذریعہ۔حق کے داعی کی بات کو وہ بس ’’ایک انسان‘‘ کی بات کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب قرآن کے ذریعہ دعوت شروع کی تو قرآن کا خدائی کلام لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے لگا۔ یہ وہاں کے سرداروں کے ليے بڑی سخت بات تھی۔ کیوں کہ اس سے ان کی قیادت خطرہ میں پڑ رہی تھی۔ قرآن توحید کی دعوت دیتاتھا، اور مکہ کے سردار شرک کے اوپر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کے ذہن کو اس سے ہٹانے کے لیے یہ کیا کہ لوگوں سے کہا کہ اس کلام میں بظاہر جو تاثیر تم دیکھ رہے ہو وہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے۔ اس کا زور صداقت کا زور نہیں بلکہ جادو کا زور ہے۔ یہ جادو بیانی کا معاملہ ہے، نہ کہ آسمانی کلام کا معاملہ۔ اس قسم کی بات کہنے والے لوگ اگرچہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر انھیں یقین نہیں کہ خدا انھیں دیکھ اور سن رہا ہے۔ اگر انھیں خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین ہوتاتو وہ ایسی غیر سنجیدہ بات ہر گز اپنی زبان سے نہ نکالتے۔

أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا ۖ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۖ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ

📘 رتق کے معنی کسی چیز کا منھ بند (منضم الاجزاء) ہونا ہے اور فتق کا مطلب اس کا کھل جانا ہے۔غالباً اس سے زمین وآسمان کی وہ ابتدائی حالت مراد ہے جس کو موجودہ زمانہ میں بِگ بینگ نظریہ کہاجاتا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادہ ابتداء ً ایک بہت بڑے گولے (سپر ایٹم) کی صورت میں تھا۔ معلوم طبیعیاتی قوانین کے مطابق اس وقت اس کے تمام اجزاء اپنی اندرونی مرکز کی طرف کھنچ رہے تھے اور انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد اس گولے کے اندر ایک دھماکہ ہوا اور اس کے اجزاء اچانک بیرونی سمت میں پھیلنا شروع ہوئے۔ اس طرح بالآخر وہ وسیع کائنات بنی جو آج ہمارے سامنے موجود ہے۔ ابتدائی مادی گولے (سپر ایٹم) میں یہ غیر معمولی واقعہ بیرونی مداخلت کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اس طرح آغازِ کائنات کی یہ تاریخ واضح طورپر ایک ایسی ہستی کو ثابت کرتی ہے جو کائنات کے باہر اپنا مستقل وجود رکھتی ہے اور جو اپنی ذاتی قوت سے کائنات کے اوپر اثر انداز ہوتی ہے۔ ہماری دنیا میں ہر جاندار چیز سب سے زیادہ جس چیز سے مرکب ہوتی ہے وہ پانی ہے۔ پانی نہ ہو تو زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ یہ پانی ہماری زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔ وسیع کائنات میں استثنائی طورپر صرف ایک مقام پر پانی کا پایا جانا واضح طورپر ’’خصوصی تخلیق‘‘ کا پتہ دیتا ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ایسی کھلی کھلی نشانیوں کے بعد بھی آدمی خدا کو نہیں پاتا۔ اس کے باوجود وہ بدستور محروم پڑا رہتا ہے۔

وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ

📘 یہاں زمین کی چند نمایاں نشانیوں کا ذکر ہے جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہیں تاکہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے۔ ان میں سے ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر جگہ جگہ ابھر آئے ہیں۔اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن(Isostasy)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک نشانی ہے کہ انسان اس پر اپنے ليے راستے بنا سکتا ہے، کہیں ہموار میدان کی صورت میں، کہیں پہاڑی دروں کی صورت میں اور کہیں دریائی شگاف کی صورت میں۔ آسمان کی ’’چھت‘‘ جو ہماری بالائی فضا ہے، اس کی ترکیب اس طرح سے ہے کہ وہ ہم کو سورج کے نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے۔ وہ شہاب ثاقب کی مسلسل بارش کو ہم تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ اسی طرح سورج اور چاند کا ٹکرائے بغیر ایک خاص دائرہ میں گھومنا اور اس کی وجہ سے زمین پر دن اور رات کا باقاعدگی کے ساتھ پیدا ہونا۔ اس قسم کی بے شمار نشانیاں ہماری دنیا میںہیں۔ آدمی ان کو گہرائی کے ساتھ دیکھے تو وہ خدا کی قدرتوں اور نعمتوں کے احساس میں ڈوب جائے۔ مگر آدمی ان کو نظر انداز کردیتاہے۔ وہ کھلے کھلے واقعات کو دیکھ کر بھی اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔

وَجَعَلْنَا السَّمَاءَ سَقْفًا مَحْفُوظًا ۖ وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ

📘 یہاں زمین کی چند نمایاں نشانیوں کا ذکر ہے جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہیں تاکہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے۔ ان میں سے ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر جگہ جگہ ابھر آئے ہیں۔اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن(Isostasy)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک نشانی ہے کہ انسان اس پر اپنے ليے راستے بنا سکتا ہے، کہیں ہموار میدان کی صورت میں، کہیں پہاڑی دروں کی صورت میں اور کہیں دریائی شگاف کی صورت میں۔ آسمان کی ’’چھت‘‘ جو ہماری بالائی فضا ہے، اس کی ترکیب اس طرح سے ہے کہ وہ ہم کو سورج کے نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے۔ وہ شہاب ثاقب کی مسلسل بارش کو ہم تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ اسی طرح سورج اور چاند کا ٹکرائے بغیر ایک خاص دائرہ میں گھومنا اور اس کی وجہ سے زمین پر دن اور رات کا باقاعدگی کے ساتھ پیدا ہونا۔ اس قسم کی بے شمار نشانیاں ہماری دنیا میںہیں۔ آدمی ان کو گہرائی کے ساتھ دیکھے تو وہ خدا کی قدرتوں اور نعمتوں کے احساس میں ڈوب جائے۔ مگر آدمی ان کو نظر انداز کردیتاہے۔ وہ کھلے کھلے واقعات کو دیکھ کر بھی اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ

📘 یہاں زمین کی چند نمایاں نشانیوں کا ذکر ہے جو انسان کو خدا کی یاد دلاتی ہیں تاکہ وہ اس کا شکر گزار بندہ بنے۔ ان میں سے ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر جگہ جگہ ابھر آئے ہیں۔اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن(Isostasy)کہا جاتا ہے۔ اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک نشانی ہے کہ انسان اس پر اپنے ليے راستے بنا سکتا ہے، کہیں ہموار میدان کی صورت میں، کہیں پہاڑی دروں کی صورت میں اور کہیں دریائی شگاف کی صورت میں۔ آسمان کی ’’چھت‘‘ جو ہماری بالائی فضا ہے، اس کی ترکیب اس طرح سے ہے کہ وہ ہم کو سورج کے نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے۔ وہ شہاب ثاقب کی مسلسل بارش کو ہم تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے۔ اسی طرح سورج اور چاند کا ٹکرائے بغیر ایک خاص دائرہ میں گھومنا اور اس کی وجہ سے زمین پر دن اور رات کا باقاعدگی کے ساتھ پیدا ہونا۔ اس قسم کی بے شمار نشانیاں ہماری دنیا میںہیں۔ آدمی ان کو گہرائی کے ساتھ دیکھے تو وہ خدا کی قدرتوں اور نعمتوں کے احساس میں ڈوب جائے۔ مگر آدمی ان کو نظر انداز کردیتاہے۔ وہ کھلے کھلے واقعات کو دیکھ کر بھی اندھا بہرا بنا رہتا ہے۔

وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۖ أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ

📘 مکہ میں جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھے وہ وسائل کے اعتبار سے آپ سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ ان کو اس وقت کے ماحول میں عزت اور برتری حاصل تھی۔ اس فرق کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ وہ حق پر ہیں اور محمدؐ ناحق پر۔ مگر دنیوی چیزوں کی زیادتی اور کمی حق اور ناحق کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ صرف امتحان کے لیے ہوتی ہے۔ یہ خدا کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ دنیوی سامان پاکر اگر کوئی شخص اپنے کو بڑا سمجھنے لگے تو گویا وہ اپنے کو ان چیزوں کا نااہل ثابت کررہا ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی میں اس کو ہمیشہ کے لیے محروم کردیا جائے۔ مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام کرنے کے لیے ہر قسم کی مخالفانہ کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ حتی کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کا خاتمہ کردیں تاکہ یہ مشن اپنی جڑ سے محروم ہو کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ فرمایا کہ پیغمبر کے خلاف اس قسم کی سازشیں کرنے والے لوگ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ جس قبر میں وہ دوسرے کو داخل کرنا چاہتے ہیں اسی قبر میں بالآخر انھیں خود بھی داخل ہونا ہے۔ پھر موت کے بعد جب ان کا سامنا مالک حقیقی سے ہوگا تو وہاں وہ کیا کریں گے۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۖ وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ

📘 مکہ میں جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھے وہ وسائل کے اعتبار سے آپ سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ ان کو اس وقت کے ماحول میں عزت اور برتری حاصل تھی۔ اس فرق کا مطلب ان کے نزدیک یہ تھا کہ وہ حق پر ہیں اور محمدؐ ناحق پر۔ مگر دنیوی چیزوں کی زیادتی اور کمی حق اور ناحق کی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ صرف امتحان کے لیے ہوتی ہے۔ یہ خدا کی طرف سے بطور آزمائش ہے۔ دنیوی سامان پاکر اگر کوئی شخص اپنے کو بڑا سمجھنے لگے تو گویا وہ اپنے کو ان چیزوں کا نااہل ثابت کررہا ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہے کہ موت کے بعد کی زندگی میں اس کو ہمیشہ کے لیے محروم کردیا جائے۔ مکہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام کرنے کے لیے ہر قسم کی مخالفانہ کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ حتی کہ وہ چاہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح آپ کا خاتمہ کردیں تاکہ یہ مشن اپنی جڑ سے محروم ہو کر ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ فرمایا کہ پیغمبر کے خلاف اس قسم کی سازشیں کرنے والے لوگ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ جس قبر میں وہ دوسرے کو داخل کرنا چاہتے ہیں اسی قبر میں بالآخر انھیں خود بھی داخل ہونا ہے۔ پھر موت کے بعد جب ان کا سامنا مالک حقیقی سے ہوگا تو وہاں وہ کیا کریں گے۔

وَإِذَا رَآكَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي يَذْكُرُ آلِهَتَكُمْ وَهُمْ بِذِكْرِ الرَّحْمَٰنِ هُمْ كَافِرُونَ

📘 قریش کے معبود اکثر ان کی قوم کے اکابر تھے۔ ایک طرف اپنے ان اکابر کی خیالی عظمت ان کے ذہنوں میں بسی ہوئی تھی۔ دوسری طرف پیغمبر تھا جس کی تصویر اس وقت ایک عام انسان سے زیادہ نہ تھی۔ اس تقابل میں پیغمبر انھیں بالکل معمولی نظر آتا۔ وہ حقارت کے ساتھ کہتے کہ کیا یہی وہ شخص ہے جو ہمارے اکابر پر تنقید کرتاہے اور اکابر کے جس دین پر ہم قائم ہیں اس کو رد کرکے دوسرا دین پیش کررہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو صرف ایک خدا کی طرف بلاتے تھے۔ مگر انھیں خدا سے کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ ان کی تمام دل چسپیاں اپنے اکابر سے وابستہ تھیں۔ انھوں نے اپنے ان اکابر کو معبود کا درجہ دے رکھا تھا۔ آپ کی دعوت سے چوں کہ ان اکابر پر زد پڑتی تھی۔ اس ليے وہ آپ کے سخت مخالف ہوگئے۔ وہ بھول گئے کہ معبودوں کو رد کرکے آپ خدا کو پیش کررہے ہیں، نہ کہ خود اپنی ذات کو۔

خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ

📘 عرب کے لوگ آخرت کے منکر نہ تھے۔ وہ آخرت کی اس نوعیت کے منکر تھے جس کی خبر انھیں ان کی قوم کا ایک شخص ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ دے رہا تھا۔ انھیں فخر تھا کہ وہ ایک ایسے دین پر ہیں جو ان کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس یقین کی تردید کی تو وہ بگڑ گئے۔ وہ اپنی بے خوف نفسیات کی بناپر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب ہمیں دکھاؤ جس کی تم ہم کو دھمکی دے رہے ہو۔ فرمایا کہ ان کی یہ جلد بازی صرف اس ليے ہے کہ ابھی امتحان کے دور میں ہونے کی وجہ سے وہ عذاب سے دور کھڑے ہوئے ہیں۔ جس دن یہ مہلت ختم ہوگی اور خدا کا عذاب انھیں گھیر لے گا، اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ رسول کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو کر انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 عرب کے لوگ آخرت کے منکر نہ تھے۔ وہ آخرت کی اس نوعیت کے منکر تھے جس کی خبر انھیں ان کی قوم کا ایک شخص ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ دے رہا تھا۔ انھیں فخر تھا کہ وہ ایک ایسے دین پر ہیں جو ان کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس یقین کی تردید کی تو وہ بگڑ گئے۔ وہ اپنی بے خوف نفسیات کی بناپر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب ہمیں دکھاؤ جس کی تم ہم کو دھمکی دے رہے ہو۔ فرمایا کہ ان کی یہ جلد بازی صرف اس ليے ہے کہ ابھی امتحان کے دور میں ہونے کی وجہ سے وہ عذاب سے دور کھڑے ہوئے ہیں۔ جس دن یہ مہلت ختم ہوگی اور خدا کا عذاب انھیں گھیر لے گا، اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ رسول کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو کر انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔

لَوْ يَعْلَمُ الَّذِينَ كَفَرُوا حِينَ لَا يَكُفُّونَ عَنْ وُجُوهِهِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُهُورِهِمْ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ

📘 عرب کے لوگ آخرت کے منکر نہ تھے۔ وہ آخرت کی اس نوعیت کے منکر تھے جس کی خبر انھیں ان کی قوم کا ایک شخص ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ دے رہا تھا۔ انھیں فخر تھا کہ وہ ایک ایسے دین پر ہیں جو ان کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس یقین کی تردید کی تو وہ بگڑ گئے۔ وہ اپنی بے خوف نفسیات کی بناپر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب ہمیں دکھاؤ جس کی تم ہم کو دھمکی دے رہے ہو۔ فرمایا کہ ان کی یہ جلد بازی صرف اس ليے ہے کہ ابھی امتحان کے دور میں ہونے کی وجہ سے وہ عذاب سے دور کھڑے ہوئے ہیں۔ جس دن یہ مہلت ختم ہوگی اور خدا کا عذاب انھیں گھیر لے گا، اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ رسول کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو کر انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔

قَالَ رَبِّي يَعْلَمُ الْقَوْلَ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 ہر آدمی جو دنیا میں ہے وہ زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہے۔ اس اعتبار سے ہر آدمی اپنے روزِ حساب کے عین کنارے کھڑا ہوا ہے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ وہ کسی بھی یادہانی پر توجہ نہیںدیتا، خواہ وہ پیغمبر کے ذریعہ کرائی جائے یا غیر پیغمبر کے ذریعہ۔حق کے داعی کی بات کو وہ بس ’’ایک انسان‘‘ کی بات کہہ کر نظر انداز کردیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں جب قرآن کے ذریعہ دعوت شروع کی تو قرآن کا خدائی کلام لوگوں کے دلوں کو مسخر کرنے لگا۔ یہ وہاں کے سرداروں کے ليے بڑی سخت بات تھی۔ کیوں کہ اس سے ان کی قیادت خطرہ میں پڑ رہی تھی۔ قرآن توحید کی دعوت دیتاتھا، اور مکہ کے سردار شرک کے اوپر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے لوگوں کے ذہن کو اس سے ہٹانے کے لیے یہ کیا کہ لوگوں سے کہا کہ اس کلام میں بظاہر جو تاثیر تم دیکھ رہے ہو وہ اس لیے نہیں ہے کہ وہ خدا کا کلام ہے۔ اس کا زور صداقت کا زور نہیں بلکہ جادو کا زور ہے۔ یہ جادو بیانی کا معاملہ ہے، نہ کہ آسمانی کلام کا معاملہ۔ اس قسم کی بات کہنے والے لوگ اگرچہ خدا کا نام لیتے ہیں مگر انھیں یقین نہیں کہ خدا انھیں دیکھ اور سن رہا ہے۔ اگر انھیں خدا کے عالم الغیب ہونے کا یقین ہوتاتو وہ ایسی غیر سنجیدہ بات ہر گز اپنی زبان سے نہ نکالتے۔

بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً فَتَبْهَتُهُمْ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ رَدَّهَا وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ

📘 عرب کے لوگ آخرت کے منکر نہ تھے۔ وہ آخرت کی اس نوعیت کے منکر تھے جس کی خبر انھیں ان کی قوم کا ایک شخص ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ دے رہا تھا۔ انھیں فخر تھا کہ وہ ایک ایسے دین پر ہیں جو ان کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس یقین کی تردید کی تو وہ بگڑ گئے۔ وہ اپنی بے خوف نفسیات کی بناپر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب ہمیں دکھاؤ جس کی تم ہم کو دھمکی دے رہے ہو۔ فرمایا کہ ان کی یہ جلد بازی صرف اس ليے ہے کہ ابھی امتحان کے دور میں ہونے کی وجہ سے وہ عذاب سے دور کھڑے ہوئے ہیں۔ جس دن یہ مہلت ختم ہوگی اور خدا کا عذاب انھیں گھیر لے گا، اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ رسول کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو کر انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔

وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِينَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 عرب کے لوگ آخرت کے منکر نہ تھے۔ وہ آخرت کی اس نوعیت کے منکر تھے جس کی خبر انھیں ان کی قوم کا ایک شخص ’’محمد بن عبد اللہ‘‘ دے رہا تھا۔ انھیں فخر تھا کہ وہ ایک ایسے دین پر ہیں جو ان کی کامیابی کی یقینی ضمانت ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس یقین کی تردید کی تو وہ بگڑ گئے۔ وہ اپنی بے خوف نفسیات کی بناپر یہ کہنے لگے کہ وہ عذاب ہمیں دکھاؤ جس کی تم ہم کو دھمکی دے رہے ہو۔ فرمایا کہ ان کی یہ جلد بازی صرف اس ليے ہے کہ ابھی امتحان کے دور میں ہونے کی وجہ سے وہ عذاب سے دور کھڑے ہوئے ہیں۔ جس دن یہ مہلت ختم ہوگی اور خدا کا عذاب انھیں گھیر لے گا، اس وقت ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ رسول کی دعوت کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو کر انھوں نے کتنی بڑی غلطی کی تھی۔

قُلْ مَنْ يَكْلَؤُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ مِنَ الرَّحْمَٰنِ ۗ بَلْ هُمْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِمْ مُعْرِضُونَ

📘 خداکی پکڑ کا مسئلہ کسی دور دراز مستقبل کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اسی دن رات کے اندر چھپا ہوا ہے جس میں آدمی اپنے آپ کو مامون ومحفوظ سمجھتا ہے۔ مثلاً سورج اور زمین کا فاصلہ اگر نصف کے بقدر گھٹ جائے تو ہمارے دن اتنے گرم ہوجائیں کہ وہ ہم کو آگ کے شعلہ کی طرح جلادیں۔ اس کے برعکس، اگر زمین سے سورج کا فاصلہ دگنا بڑھ جائے تو ہماري راتیں اتنی ٹھنڈی ہوجائیں کہ ہم برف کی طرح جم کر رہ جائیں۔ زمین وآسمان کا یہ حد درجہ موافق نظام جس نے قائم کر رکھا ہے وہ اس قابل ہے کہ انسان اپنی تمام عقیدتیں اور وفاداریاں اس سے وابستہ کرے، نہ کہ وہ ان جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے لگے جو اس کو کچھ نہیں دے سکتے۔

أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ۚ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ وَلَا هُمْ مِنَّا يُصْحَبُونَ

📘 خداکی پکڑ کا مسئلہ کسی دور دراز مستقبل کا مسئلہ نہیں ہے۔ وہ اسی دن رات کے اندر چھپا ہوا ہے جس میں آدمی اپنے آپ کو مامون ومحفوظ سمجھتا ہے۔ مثلاً سورج اور زمین کا فاصلہ اگر نصف کے بقدر گھٹ جائے تو ہمارے دن اتنے گرم ہوجائیں کہ وہ ہم کو آگ کے شعلہ کی طرح جلادیں۔ اس کے برعکس، اگر زمین سے سورج کا فاصلہ دگنا بڑھ جائے تو ہماري راتیں اتنی ٹھنڈی ہوجائیں کہ ہم برف کی طرح جم کر رہ جائیں۔ زمین وآسمان کا یہ حد درجہ موافق نظام جس نے قائم کر رکھا ہے وہ اس قابل ہے کہ انسان اپنی تمام عقیدتیں اور وفاداریاں اس سے وابستہ کرے، نہ کہ وہ ان جھوٹے معبودوں کی پرستش کرنے لگے جو اس کو کچھ نہیں دے سکتے۔

بَلْ مَتَّعْنَا هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ۚ أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ

📘 ’’وحی کے ذریعے ڈرانا‘‘ گویا دلیل کے ذریعہ لوگوں کو متنبہ کرنا ہے۔ حق کا داعی ہمیشہ دلیل کی زبان میں اپنی بات کو پیش کرتا ہے۔ اور دلیل ہی کی زبان میں لوگوں کو اسے پہچاننا پڑتا ہے۔ جو لوگ دلیل کے سامنے اندھے بہرے بنے رہیں، ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ خدا کی طاقت کھلے طورپر ظاہر ہوجائے۔ اس وقت ہر سرکش اور متکبر فوراً مان لے گا۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

قُلْ إِنَّمَا أُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْيِ ۚ وَلَا يَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَاءَ إِذَا مَا يُنْذَرُونَ

📘 ’’وحی کے ذریعے ڈرانا‘‘ گویا دلیل کے ذریعہ لوگوں کو متنبہ کرنا ہے۔ حق کا داعی ہمیشہ دلیل کی زبان میں اپنی بات کو پیش کرتا ہے۔ اور دلیل ہی کی زبان میں لوگوں کو اسے پہچاننا پڑتا ہے۔ جو لوگ دلیل کے سامنے اندھے بہرے بنے رہیں، ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ خدا کی طاقت کھلے طورپر ظاہر ہوجائے۔ اس وقت ہر سرکش اور متکبر فوراً مان لے گا۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

وَلَئِنْ مَسَّتْهُمْ نَفْحَةٌ مِنْ عَذَابِ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ

📘 ’’وحی کے ذریعے ڈرانا‘‘ گویا دلیل کے ذریعہ لوگوں کو متنبہ کرنا ہے۔ حق کا داعی ہمیشہ دلیل کی زبان میں اپنی بات کو پیش کرتا ہے۔ اور دلیل ہی کی زبان میں لوگوں کو اسے پہچاننا پڑتا ہے۔ جو لوگ دلیل کے سامنے اندھے بہرے بنے رہیں، ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ خدا کی طاقت کھلے طورپر ظاہر ہوجائے۔ اس وقت ہر سرکش اور متکبر فوراً مان لے گا۔ مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا ۖ وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا ۗ وَكَفَىٰ بِنَا حَاسِبِينَ

📘 ’’ترازو‘‘ موجودہ دنیا میں کسی چیز کا وزن معلوم کرنے کی علامت ہے۔ اس ليے اللہ تعالیٰ نے اسی معلوم اصطلاح کو آخرت کا معاملہ سمجھانے کے لیے استعمال کیا۔ دنیا کا ترازو مادی چیزوں کو تولتا ہے۔ آخرت میں خدا کا ترازو معنوی حقیقتوں کو تول کر اس کا وزن بتائے گا۔ دنیا میں آدمی کسی چیز کو اسی وقت پاتا ہے جب کہ وہ اس کی قیمت ادا کرے۔ کم قیمت دینے والا کم چیز پاتاہے۔ اور زیادہ قیمت دینے والا زیادہ چیز۔ یہی معاملہ آخرت میں بھی پیش آئے گا۔ وہاں کی اعلیٰ چیزیں بھی آدمی کو قیمت دے کر ملیںگی۔ قیمت ادا کيے بغیر جس طرح دنیا کی چیز کسی کو نہیں ملتی۔ اسی طرح آخرت کی چیزیں بھی اسی کو ملیں گی جو ان کی ضروری قیمت اداکردے— قرآن اسی قیمت کی نشان دہی کرنے والی کتاب ہے۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِلْمُتَّقِينَ

📘 فرقان اور ضیاء اور ذکر جو حضرت موسیٰ کودیاگیا، یہی خدا کی طرف سے تمام پیغمبروں کو ملا تھا۔ فرقان سے مراد وہ نظریاتی معیار ہے جس کے ذریعہ آدمی حق اور باطل کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔ ضیا سے مراد خدا کی رہنمائی ہے جو آدمی کو بے راہی کے اندھیرے سے نکال کر صراطِ مستقیم کے اجالے میں لاتی ہے۔ ذکر سے مراد یاددہانی ہے۔ یعنی چیزوں کے اندر چھپے ہوئے نصیحت کے پہلو کو کھولنا۔ تاکہ چیزیں لوگوں کے لیے محض چیزیں نہ رہیں بلکہ وہ نصیحت اور معرفت کا خزانہ بن جائیں۔ اس طرح خدا نے انسان کی ہدایت کا انتظام کیا۔ مگر خدائی ہدایت نامہ کو واقعی طورپر اپنے ليے ہدایت بنانا اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی انجام کا اندیشہ رکھتا ہو۔ اس کی اندیشہ ناک نفسیات اس کو اس حد تک سنجیدہ بنا دے کہ وہ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں حق وصداقت کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔

الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ

📘 فرقان اور ضیاء اور ذکر جو حضرت موسیٰ کودیاگیا، یہی خدا کی طرف سے تمام پیغمبروں کو ملا تھا۔ فرقان سے مراد وہ نظریاتی معیار ہے جس کے ذریعہ آدمی حق اور باطل کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔ ضیا سے مراد خدا کی رہنمائی ہے جو آدمی کو بے راہی کے اندھیرے سے نکال کر صراطِ مستقیم کے اجالے میں لاتی ہے۔ ذکر سے مراد یاددہانی ہے۔ یعنی چیزوں کے اندر چھپے ہوئے نصیحت کے پہلو کو کھولنا۔ تاکہ چیزیں لوگوں کے لیے محض چیزیں نہ رہیں بلکہ وہ نصیحت اور معرفت کا خزانہ بن جائیں۔ اس طرح خدا نے انسان کی ہدایت کا انتظام کیا۔ مگر خدائی ہدایت نامہ کو واقعی طورپر اپنے ليے ہدایت بنانا اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی انجام کا اندیشہ رکھتا ہو۔ اس کی اندیشہ ناک نفسیات اس کو اس حد تک سنجیدہ بنا دے کہ وہ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں حق وصداقت کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔

بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ شَاعِرٌ فَلْيَأْتِنَا بِآيَةٍ كَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ

📘 حق کا داعی ہمیشہ حق کی دعوت کو دلیل کے زور پر پیش کرتا ہے۔ مخالفین جب دیکھتے ہیں کہ وہ دلیل سے اس کا توڑ نہیں کرسکتے تو وہ طرح طرح کی باتیں نکال کر عوام کو اس سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ شاعرانہ کلام ہے۔ یہ ادبی ساحری ہے۔یہ ایک دیوانے کے تخیّلات ہیں۔ یہ اپنے جی سے بنائی ہوئی باتیں ہیں، وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوں کہ اہل مکہ کے سامنے کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایاتھا۔ اس لیے آپ کی رسالت کو مشتبہ کرنے کے لیے وہ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ اگر خدا کے بھیجے ہوئے ہیں تو پچھلے پیغمبروں کی طرح خدا کے پاس سے کوئی معجزہ لے کر کیوں نہیں آئے۔ مگر تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ دلیل سے بات کو نہ مانیں وہ معجزہ کو دیکھ کر بھی اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔اس ليے لوگوں کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ دلیل کی زبان میں ان کی نصیحت جاری رکھی جائے، نہ کہ معجزہ دکھا کر ان پر اتمام حجت کردی جائے۔ کیوں کہ معجزے سے نہ ماننے کے بعد دوسرا مرحلہ ہلاکت ہوتا ہے۔

وَهَٰذَا ذِكْرٌ مُبَارَكٌ أَنْزَلْنَاهُ ۚ أَفَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ

📘 فرقان اور ضیاء اور ذکر جو حضرت موسیٰ کودیاگیا، یہی خدا کی طرف سے تمام پیغمبروں کو ملا تھا۔ فرقان سے مراد وہ نظریاتی معیار ہے جس کے ذریعہ آدمی حق اور باطل کے درمیان فرق کرسکتا ہے۔ ضیا سے مراد خدا کی رہنمائی ہے جو آدمی کو بے راہی کے اندھیرے سے نکال کر صراطِ مستقیم کے اجالے میں لاتی ہے۔ ذکر سے مراد یاددہانی ہے۔ یعنی چیزوں کے اندر چھپے ہوئے نصیحت کے پہلو کو کھولنا۔ تاکہ چیزیں لوگوں کے لیے محض چیزیں نہ رہیں بلکہ وہ نصیحت اور معرفت کا خزانہ بن جائیں۔ اس طرح خدا نے انسان کی ہدایت کا انتظام کیا۔ مگر خدائی ہدایت نامہ کو واقعی طورپر اپنے ليے ہدایت بنانا اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی انجام کا اندیشہ رکھتا ہو۔ اس کی اندیشہ ناک نفسیات اس کو اس حد تک سنجیدہ بنا دے کہ وہ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں حق وصداقت کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔

۞ وَلَقَدْ آتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَالِمِينَ

📘 خدا کے یہاں فیض بقدرِ استعداد کا اصول ہے۔ حضرت ابراہیم نے مختلف امتحانات سے گزر کر جس استعداد کا ثبوت دیا تھا اس کو خدا نے جانا اور اس کے مطابق ان کو ہدایت اور معرفت عطا فرمائی۔ یہی معاملہ خدا کا اپنے ہر بندے کے ساتھ ہے۔ حضرت ابراہیم عراق کے قدیم شہر اُر میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یہاں کی زندگی میں پوری طرح شرک چھایا ہوا تھا۔مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کہ باوجود وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے چیزوں کو خود اپنی عقل سے جانچا اور ماحول کے علی الرغم توحید کی صداقت کو پالیا۔ وہ ایسی دنیا میں تھے جہاں ہر قسم کی عزت اور ترقی شرک سے وابستہ ہو گئی تھی۔ مگر انھوں نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔ تمام مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر قوم کی روش پر تنقید کی اور اس کے سامنے حق کا اعلان کرنے کے ليے کھڑے ہو گئے— یہی وہ صفات ہیں جو کسی شخص کو اس قابل بناتی ہیں کہ اس کو خدا کی ہدایت حاصل ہو۔

إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَٰذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ

📘 خدا کے یہاں فیض بقدرِ استعداد کا اصول ہے۔ حضرت ابراہیم نے مختلف امتحانات سے گزر کر جس استعداد کا ثبوت دیا تھا اس کو خدا نے جانا اور اس کے مطابق ان کو ہدایت اور معرفت عطا فرمائی۔ یہی معاملہ خدا کا اپنے ہر بندے کے ساتھ ہے۔ حضرت ابراہیم عراق کے قدیم شہر اُر میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یہاں کی زندگی میں پوری طرح شرک چھایا ہوا تھا۔مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کہ باوجود وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے چیزوں کو خود اپنی عقل سے جانچا اور ماحول کے علی الرغم توحید کی صداقت کو پالیا۔ وہ ایسی دنیا میں تھے جہاں ہر قسم کی عزت اور ترقی شرک سے وابستہ ہو گئی تھی۔ مگر انھوں نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔ تمام مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر قوم کی روش پر تنقید کی اور اس کے سامنے حق کا اعلان کرنے کے ليے کھڑے ہو گئے— یہی وہ صفات ہیں جو کسی شخص کو اس قابل بناتی ہیں کہ اس کو خدا کی ہدایت حاصل ہو۔

قَالُوا وَجَدْنَا آبَاءَنَا لَهَا عَابِدِينَ

📘 خدا کے یہاں فیض بقدرِ استعداد کا اصول ہے۔ حضرت ابراہیم نے مختلف امتحانات سے گزر کر جس استعداد کا ثبوت دیا تھا اس کو خدا نے جانا اور اس کے مطابق ان کو ہدایت اور معرفت عطا فرمائی۔ یہی معاملہ خدا کا اپنے ہر بندے کے ساتھ ہے۔ حضرت ابراہیم عراق کے قدیم شہر اُر میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یہاں کی زندگی میں پوری طرح شرک چھایا ہوا تھا۔مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کہ باوجود وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے چیزوں کو خود اپنی عقل سے جانچا اور ماحول کے علی الرغم توحید کی صداقت کو پالیا۔ وہ ایسی دنیا میں تھے جہاں ہر قسم کی عزت اور ترقی شرک سے وابستہ ہو گئی تھی۔ مگر انھوں نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔ تمام مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر قوم کی روش پر تنقید کی اور اس کے سامنے حق کا اعلان کرنے کے ليے کھڑے ہو گئے— یہی وہ صفات ہیں جو کسی شخص کو اس قابل بناتی ہیں کہ اس کو خدا کی ہدایت حاصل ہو۔

قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 خدا کے یہاں فیض بقدرِ استعداد کا اصول ہے۔ حضرت ابراہیم نے مختلف امتحانات سے گزر کر جس استعداد کا ثبوت دیا تھا اس کو خدا نے جانا اور اس کے مطابق ان کو ہدایت اور معرفت عطا فرمائی۔ یہی معاملہ خدا کا اپنے ہر بندے کے ساتھ ہے۔ حضرت ابراہیم عراق کے قدیم شہر اُر میں پیدا ہوئے۔ اس وقت یہاں کی زندگی میں پوری طرح شرک چھایا ہوا تھا۔مشرکانہ ماحول میں پرورش پانے کہ باوجود وہ اس سے متاثر نہیں ہوئے۔ انھوں نے چیزوں کو خود اپنی عقل سے جانچا اور ماحول کے علی الرغم توحید کی صداقت کو پالیا۔ وہ ایسی دنیا میں تھے جہاں ہر قسم کی عزت اور ترقی شرک سے وابستہ ہو گئی تھی۔ مگر انھوں نے کسی چیز کی پروا نہیں کی۔ تمام مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر قوم کی روش پر تنقید کی اور اس کے سامنے حق کا اعلان کرنے کے ليے کھڑے ہو گئے— یہی وہ صفات ہیں جو کسی شخص کو اس قابل بناتی ہیں کہ اس کو خدا کی ہدایت حاصل ہو۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللَّاعِبِينَ

📘 حضرت ابراہیم کے زمانے میں مشرکانہ تخیلات لوگوں کے ذہنوں پر اتنا زیادہ چھائے ہوئے تھے کہ ابتداء ً وہ حضرت ابراہیم کی تنقید کو غیر سنجیدہ بات سمجھے۔ انھوں نے کہا کہ تم کوئی سوچی سمجھی بات کہہ رہے ہو یا محض تفریح کے طورپر کچھ الفاظ اپنی زبان سے نکال رہے ہو۔ حضرت ابراہیم نے کہا کہ یہ تمھاری مزید ناسمجھی ہے کہ تم اس اہم ترین بات کو غیر سنجیدہ بات سمجھ رہے ہو۔ حالاں کہ تمام زمین و آسمان اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ اگلے دن انھوں نے مزید یہ کیا کہ غیر معمولی جرأت سے کام لے کر ان کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ اس طرح گویا حضرت ابراہیم نے عملاً دکھادیا کہ یہ بت فی الواقع بھی اتنے ہی بے حقیقت ہیں جتنا میں نے لفظی طورپر تمھیں بتایا تھا۔

قَالَ بَلْ رَبُّكُمْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الَّذِي فَطَرَهُنَّ وَأَنَا عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ

📘 حضرت ابراہیم کے زمانے میں مشرکانہ تخیلات لوگوں کے ذہنوں پر اتنا زیادہ چھائے ہوئے تھے کہ ابتداء ً وہ حضرت ابراہیم کی تنقید کو غیر سنجیدہ بات سمجھے۔ انھوں نے کہا کہ تم کوئی سوچی سمجھی بات کہہ رہے ہو یا محض تفریح کے طورپر کچھ الفاظ اپنی زبان سے نکال رہے ہو۔ حضرت ابراہیم نے کہا کہ یہ تمھاری مزید ناسمجھی ہے کہ تم اس اہم ترین بات کو غیر سنجیدہ بات سمجھ رہے ہو۔ حالاں کہ تمام زمین و آسمان اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ اگلے دن انھوں نے مزید یہ کیا کہ غیر معمولی جرأت سے کام لے کر ان کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ اس طرح گویا حضرت ابراہیم نے عملاً دکھادیا کہ یہ بت فی الواقع بھی اتنے ہی بے حقیقت ہیں جتنا میں نے لفظی طورپر تمھیں بتایا تھا۔

وَتَاللَّهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ

📘 حضرت ابراہیم کے زمانے میں مشرکانہ تخیلات لوگوں کے ذہنوں پر اتنا زیادہ چھائے ہوئے تھے کہ ابتداء ً وہ حضرت ابراہیم کی تنقید کو غیر سنجیدہ بات سمجھے۔ انھوں نے کہا کہ تم کوئی سوچی سمجھی بات کہہ رہے ہو یا محض تفریح کے طورپر کچھ الفاظ اپنی زبان سے نکال رہے ہو۔ حضرت ابراہیم نے کہا کہ یہ تمھاری مزید ناسمجھی ہے کہ تم اس اہم ترین بات کو غیر سنجیدہ بات سمجھ رہے ہو۔ حالاں کہ تمام زمین و آسمان اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ اگلے دن انھوں نے مزید یہ کیا کہ غیر معمولی جرأت سے کام لے کر ان کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ اس طرح گویا حضرت ابراہیم نے عملاً دکھادیا کہ یہ بت فی الواقع بھی اتنے ہی بے حقیقت ہیں جتنا میں نے لفظی طورپر تمھیں بتایا تھا۔

فَجَعَلَهُمْ جُذَاذًا إِلَّا كَبِيرًا لَهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ

📘 حضرت ابراہیم کے زمانے میں مشرکانہ تخیلات لوگوں کے ذہنوں پر اتنا زیادہ چھائے ہوئے تھے کہ ابتداء ً وہ حضرت ابراہیم کی تنقید کو غیر سنجیدہ بات سمجھے۔ انھوں نے کہا کہ تم کوئی سوچی سمجھی بات کہہ رہے ہو یا محض تفریح کے طورپر کچھ الفاظ اپنی زبان سے نکال رہے ہو۔ حضرت ابراہیم نے کہا کہ یہ تمھاری مزید ناسمجھی ہے کہ تم اس اہم ترین بات کو غیر سنجیدہ بات سمجھ رہے ہو۔ حالاں کہ تمام زمین و آسمان اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ اگلے دن انھوں نے مزید یہ کیا کہ غیر معمولی جرأت سے کام لے کر ان کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ اس طرح گویا حضرت ابراہیم نے عملاً دکھادیا کہ یہ بت فی الواقع بھی اتنے ہی بے حقیقت ہیں جتنا میں نے لفظی طورپر تمھیں بتایا تھا۔

قَالُوا مَنْ فَعَلَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّالِمِينَ

📘 اگلے دن جب لوگ بت خانہ میں گئے اور دیکھا کہ وہاں کے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو ان کو سخت دھکا لگا۔ بالآخر ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ اس نوجوان کا قصہ معلوم ہوتاہے جو ہمارے آبائی دین سے منحرف ہے اور اس کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑتے ہوئے بالقصد سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا تھا۔ اب جب وہ بلائے گئے اور ان سے باز پرس ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بڑا بت صحیح وسالم موجود ہے۔ اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ واقعی معبود ہے تو بول کر تمھیں بتائے گا کہ یہ قصہ ان بتوں کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ حضرت ابراہیم نے براہِ راست طور پر کوئی بات نہیں کہی۔ مگر بالواسطہ طورپر انھوں نے وہ بات کہہ دی جو اس موقع پر براہِ راست کلام سے بھی زیادہ مؤثر تھی۔

مَا آمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ۖ أَفَهُمْ يُؤْمِنُونَ

📘 حق کا داعی ہمیشہ حق کی دعوت کو دلیل کے زور پر پیش کرتا ہے۔ مخالفین جب دیکھتے ہیں کہ وہ دلیل سے اس کا توڑ نہیں کرسکتے تو وہ طرح طرح کی باتیں نکال کر عوام کو اس سے برگشتہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ شاعرانہ کلام ہے۔ یہ ادبی ساحری ہے۔یہ ایک دیوانے کے تخیّلات ہیں۔ یہ اپنے جی سے بنائی ہوئی باتیں ہیں، وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوں کہ اہل مکہ کے سامنے کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایاتھا۔ اس لیے آپ کی رسالت کو مشتبہ کرنے کے لیے وہ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ اگر خدا کے بھیجے ہوئے ہیں تو پچھلے پیغمبروں کی طرح خدا کے پاس سے کوئی معجزہ لے کر کیوں نہیں آئے۔ مگر تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ جو لوگ دلیل سے بات کو نہ مانیں وہ معجزہ کو دیکھ کر بھی اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔اس ليے لوگوں کے ساتھ خیر خواہی یہ ہے کہ دلیل کی زبان میں ان کی نصیحت جاری رکھی جائے، نہ کہ معجزہ دکھا کر ان پر اتمام حجت کردی جائے۔ کیوں کہ معجزے سے نہ ماننے کے بعد دوسرا مرحلہ ہلاکت ہوتا ہے۔

قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ

📘 اگلے دن جب لوگ بت خانہ میں گئے اور دیکھا کہ وہاں کے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو ان کو سخت دھکا لگا۔ بالآخر ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ اس نوجوان کا قصہ معلوم ہوتاہے جو ہمارے آبائی دین سے منحرف ہے اور اس کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑتے ہوئے بالقصد سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا تھا۔ اب جب وہ بلائے گئے اور ان سے باز پرس ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بڑا بت صحیح وسالم موجود ہے۔ اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ واقعی معبود ہے تو بول کر تمھیں بتائے گا کہ یہ قصہ ان بتوں کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ حضرت ابراہیم نے براہِ راست طور پر کوئی بات نہیں کہی۔ مگر بالواسطہ طورپر انھوں نے وہ بات کہہ دی جو اس موقع پر براہِ راست کلام سے بھی زیادہ مؤثر تھی۔

قَالُوا فَأْتُوا بِهِ عَلَىٰ أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ

📘 اگلے دن جب لوگ بت خانہ میں گئے اور دیکھا کہ وہاں کے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو ان کو سخت دھکا لگا۔ بالآخر ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ اس نوجوان کا قصہ معلوم ہوتاہے جو ہمارے آبائی دین سے منحرف ہے اور اس کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑتے ہوئے بالقصد سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا تھا۔ اب جب وہ بلائے گئے اور ان سے باز پرس ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بڑا بت صحیح وسالم موجود ہے۔ اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ واقعی معبود ہے تو بول کر تمھیں بتائے گا کہ یہ قصہ ان بتوں کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ حضرت ابراہیم نے براہِ راست طور پر کوئی بات نہیں کہی۔ مگر بالواسطہ طورپر انھوں نے وہ بات کہہ دی جو اس موقع پر براہِ راست کلام سے بھی زیادہ مؤثر تھی۔

قَالُوا أَأَنْتَ فَعَلْتَ هَٰذَا بِآلِهَتِنَا يَا إِبْرَاهِيمُ

📘 اگلے دن جب لوگ بت خانہ میں گئے اور دیکھا کہ وہاں کے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو ان کو سخت دھکا لگا۔ بالآخر ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ اس نوجوان کا قصہ معلوم ہوتاہے جو ہمارے آبائی دین سے منحرف ہے اور اس کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑتے ہوئے بالقصد سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا تھا۔ اب جب وہ بلائے گئے اور ان سے باز پرس ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بڑا بت صحیح وسالم موجود ہے۔ اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ واقعی معبود ہے تو بول کر تمھیں بتائے گا کہ یہ قصہ ان بتوں کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ حضرت ابراہیم نے براہِ راست طور پر کوئی بات نہیں کہی۔ مگر بالواسطہ طورپر انھوں نے وہ بات کہہ دی جو اس موقع پر براہِ راست کلام سے بھی زیادہ مؤثر تھی۔

قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ

📘 اگلے دن جب لوگ بت خانہ میں گئے اور دیکھا کہ وہاں کے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو ان کو سخت دھکا لگا۔ بالآخر ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ اس نوجوان کا قصہ معلوم ہوتاہے جو ہمارے آبائی دین سے منحرف ہے اور اس کے خلاف بولتا رہتا ہے۔ حضرت ابراہیم نے بتوں کو توڑتے ہوئے بالقصد سب سے بڑے بت کو چھوڑ دیا تھا۔ اب جب وہ بلائے گئے اور ان سے باز پرس ہوئی تو انھوں نے کہا کہ یہ بڑا بت صحیح وسالم موجود ہے۔ اس سے پوچھ لو۔ اگر وہ واقعی معبود ہے تو بول کر تمھیں بتائے گا کہ یہ قصہ ان بتوں کے ساتھ کیسے پیش آیا۔ حضرت ابراہیم نے براہِ راست طور پر کوئی بات نہیں کہی۔ مگر بالواسطہ طورپر انھوں نے وہ بات کہہ دی جو اس موقع پر براہِ راست کلام سے بھی زیادہ مؤثر تھی۔

فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ

📘 حضرت ابراہیم کے ان جوابات پر وہ لوگ آپ کو گستاخ ٹھہرا کر بگڑ سکتے تھے۔ جیسا کہ ان مواقع پر عام طور ہوتا ہے۔ تاہم بت پرستی کے باوجود ان میں ابھی زندگی موجود تھی۔ چنانچہ انھوں نے آپ کے جواب کے استدلالی وزن کو محسوس کیا۔ اور شرمندہ ہو کر اپنے برسرناحق ہونے کا اعتراف کیا۔ بعد کو اگر عصبیت کے جذبات نہ ابھر آتے تو یہ تجربہ انھیں ایمان تک پہنچانے کے لیے کافی ہوجاتا۔

ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ

📘 حضرت ابراہیم کے ان جوابات پر وہ لوگ آپ کو گستاخ ٹھہرا کر بگڑ سکتے تھے۔ جیسا کہ ان مواقع پر عام طور ہوتا ہے۔ تاہم بت پرستی کے باوجود ان میں ابھی زندگی موجود تھی۔ چنانچہ انھوں نے آپ کے جواب کے استدلالی وزن کو محسوس کیا۔ اور شرمندہ ہو کر اپنے برسرناحق ہونے کا اعتراف کیا۔ بعد کو اگر عصبیت کے جذبات نہ ابھر آتے تو یہ تجربہ انھیں ایمان تک پہنچانے کے لیے کافی ہوجاتا۔

قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ

📘 حضرت ابراہیم کے ان جوابات پر وہ لوگ آپ کو گستاخ ٹھہرا کر بگڑ سکتے تھے۔ جیسا کہ ان مواقع پر عام طور ہوتا ہے۔ تاہم بت پرستی کے باوجود ان میں ابھی زندگی موجود تھی۔ چنانچہ انھوں نے آپ کے جواب کے استدلالی وزن کو محسوس کیا۔ اور شرمندہ ہو کر اپنے برسرناحق ہونے کا اعتراف کیا۔ بعد کو اگر عصبیت کے جذبات نہ ابھر آتے تو یہ تجربہ انھیں ایمان تک پہنچانے کے لیے کافی ہوجاتا۔

أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 حضرت ابراہیم کے ان جوابات پر وہ لوگ آپ کو گستاخ ٹھہرا کر بگڑ سکتے تھے۔ جیسا کہ ان مواقع پر عام طور ہوتا ہے۔ تاہم بت پرستی کے باوجود ان میں ابھی زندگی موجود تھی۔ چنانچہ انھوں نے آپ کے جواب کے استدلالی وزن کو محسوس کیا۔ اور شرمندہ ہو کر اپنے برسرناحق ہونے کا اعتراف کیا۔ بعد کو اگر عصبیت کے جذبات نہ ابھر آتے تو یہ تجربہ انھیں ایمان تک پہنچانے کے لیے کافی ہوجاتا۔

قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ

📘 جو لوگ اختیارات کے مالک ہوتے ہیں وہ دلیل کے میدان میں ہار جانے کے بعد ہمیشہ ظلم کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی حضرت ابراہیم کے ساتھ ہوا۔ بت شکنی کے واقعہ کے بعد جب قوم کے لیڈروں نے محسوس کیا کہ وہ ابراہیم کے مقابلہ میں بے دلیل ہو چکے ہیں تو اب انھوںنے آپ کے اوپر سختیاں شروع کردیں۔ یہاں تک کہ طاقت کے گھمنڈ میں آکر ایک روز آپ کو آگ کہ الاؤ میں ڈال دیا۔ مگر خدا کا پیغمبر دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہوتاہے۔ اس لیے خدا استثنائی طورپر پیغمبر کی غیر معمولی مدد کرتاہے۔ چنانچہ خدا نے حکم دیا اور آگ آپ کے ليے ٹھنڈی ہو گئی۔ اس نوعیت کی نصرت غیر پیغمبروں کے لیے بھی نازل ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے منصوبہ کے ساتھ اس حد تک وابستہ کریں جس طرح پیغمبر اس کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرتا ہے۔

قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ

📘 جو لوگ اختیارات کے مالک ہوتے ہیں وہ دلیل کے میدان میں ہار جانے کے بعد ہمیشہ ظلم کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی حضرت ابراہیم کے ساتھ ہوا۔ بت شکنی کے واقعہ کے بعد جب قوم کے لیڈروں نے محسوس کیا کہ وہ ابراہیم کے مقابلہ میں بے دلیل ہو چکے ہیں تو اب انھوںنے آپ کے اوپر سختیاں شروع کردیں۔ یہاں تک کہ طاقت کے گھمنڈ میں آکر ایک روز آپ کو آگ کہ الاؤ میں ڈال دیا۔ مگر خدا کا پیغمبر دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہوتاہے۔ اس لیے خدا استثنائی طورپر پیغمبر کی غیر معمولی مدد کرتاہے۔ چنانچہ خدا نے حکم دیا اور آگ آپ کے ليے ٹھنڈی ہو گئی۔ اس نوعیت کی نصرت غیر پیغمبروں کے لیے بھی نازل ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے منصوبہ کے ساتھ اس حد تک وابستہ کریں جس طرح پیغمبر اس کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرتا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۖ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

📘 جو لوگ یہ کہہ کہ پیغمبر کا انکار کرتے تھے کہ یہ تو ہماری طرح کے ایک انسان ہیں، ان سے کہاگیا کہ اگر تم اپنے اس اعتراض میں سنجیدہ ہو تو تمھارے لیے معاملہ کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ بہت سی گزری ہوئی ہستیاں جن کو تم پیغمبر تسلیم کرتے ہو، ان کے جاننے والے موجود ہیں۔ پھر ان جاننے والوں سے تحقیق کر لو کہ وہ انسان تھے یا غیر انسان اگر وہ انسان تھے تو موجودہ پیغمبر کو تم صرف اس بنا پر کیسے رد کرسکتے ہو کہ وہ ایک ماں باپ کے ذریعہ عام انسان کی طرح پیدا ہوئے ہیں۔ گزشتہ پیغمبروں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان کا اقرار یا انکار لوگوں کے لیے محض سادہ قسم کا اقرار یا انکار نہ تھا۔ اس نے دونوں گروہوں کے لیے واضح طورپر الگ الگ نتیجہ پیدا کیا۔ اقرار کرنے والوں نے نجات پائی اور انکار کرنے والے ہلاک کردئے گئے۔ اس لیے اس معاملہ میں تم کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہیے۔

وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَاهُمُ الْأَخْسَرِينَ

📘 جو لوگ اختیارات کے مالک ہوتے ہیں وہ دلیل کے میدان میں ہار جانے کے بعد ہمیشہ ظلم کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی حضرت ابراہیم کے ساتھ ہوا۔ بت شکنی کے واقعہ کے بعد جب قوم کے لیڈروں نے محسوس کیا کہ وہ ابراہیم کے مقابلہ میں بے دلیل ہو چکے ہیں تو اب انھوںنے آپ کے اوپر سختیاں شروع کردیں۔ یہاں تک کہ طاقت کے گھمنڈ میں آکر ایک روز آپ کو آگ کہ الاؤ میں ڈال دیا۔ مگر خدا کا پیغمبر دنیا میں خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہوتاہے۔ اس لیے خدا استثنائی طورپر پیغمبر کی غیر معمولی مدد کرتاہے۔ چنانچہ خدا نے حکم دیا اور آگ آپ کے ليے ٹھنڈی ہو گئی۔ اس نوعیت کی نصرت غیر پیغمبروں کے لیے بھی نازل ہوسکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے منصوبہ کے ساتھ اس حد تک وابستہ کریں جس طرح پیغمبر اس کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرتا ہے۔

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ

📘 یہ مقابلہ محض دو قسم کے آدمیوں کے کرتب کا مقابلہ نہ تھا بلکہ وہ توحید اور شرک کا مقابلہ تھا۔ یعنی اس کے ذریعہ سے یہ فیصلہ ہونا تھا کہ صداقت شرک کی طرف ہے یا توحید کی طرف۔ چوں کہ فرعون کی بڑائی کی بنیاد تمام تر شرک کے اوپر قائم تھی اس ليے وہ شرک کی شکست کو برداشت نہ کرسکا اور جادوگروںکے ليے اس سخت ترین سزا کا حکم سنا دیا جو مصرمیں قدیم زمانہ میں رائج تھی۔ فرعون جب دلیل کے میدان میں ہار گیاتو اس نے یہ کوشش کی کہ طاقت کے ذریعہ حق کو دبا دے۔ یہ ہر زمانہ میں ارباب اقتدار کی عام نفسیات رہی ہے، خواہ وہ شاہانہ اختیار رکھنے والے اربابِ اقتدار ہوں یا غیر شاہانہ اختیار رکھنے والے۔

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی قوم اور وہاں کا بادشاہ نمرود آپ کا دشمن ہوگیا تو اتمام حجت کے بعد آپ نے اپنا وطن چھوڑ دیا۔ اور اللہ کے حکم سے شام وفلسطین کے سرسبز علاقہ کی طرف چلے گئے۔ آپ کے ملک والوں نے اگرچہ آپ کا ساتھ نہیں دیا تھا مگر خدا نے آپ کو بیٹے اور پوتے دئے جو آپ کے راستہ پر چلنے والے بنے۔ حتی کہ ان کی صالحیت خدا نے اس طرح قبول فرمائی کہ آپ کی نسل میں نبوت کا سلسلہ جاری کردیا۔

وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ

📘 حضرت ابراہیم عراق میں پیدا ہوئے۔ جب ان کی قوم اور وہاں کا بادشاہ نمرود آپ کا دشمن ہوگیا تو اتمام حجت کے بعد آپ نے اپنا وطن چھوڑ دیا۔ اور اللہ کے حکم سے شام وفلسطین کے سرسبز علاقہ کی طرف چلے گئے۔ آپ کے ملک والوں نے اگرچہ آپ کا ساتھ نہیں دیا تھا مگر خدا نے آپ کو بیٹے اور پوتے دئے جو آپ کے راستہ پر چلنے والے بنے۔ حتی کہ ان کی صالحیت خدا نے اس طرح قبول فرمائی کہ آپ کی نسل میں نبوت کا سلسلہ جاری کردیا۔

وَلُوطًا آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَلُ الْخَبَائِثَ ۗ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَاسِقِينَ

📘 حکمت سے مرادمعرفت اور علم سے مراد وحی ہے۔ حضرت لوط کو یہ چیزیں عطا ہوئیں۔ دوسرے تمام پیغمبروں کو بھی یہ چیزیں دی جاتی رہی ہیں۔ اب ختم نبوت کے بعد وحی کا قائم مقام قرآن ہے۔ تاہم حکمت (معرفت) سے غیر پیغمبروں کو بھی بقدرِ استعداد حصہ ملتا ہے۔ جن لوگوں پر اللہ کی نظر ہوتی ہے وہ ان کا ولی وکارساز بن جاتا ہے۔ وہ ان کو برے لوگوں کے ماحول سے نکال کر اچھے لوگوں کے ماحول میں لے جاتاہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر ان کا مدد گار بن جاتا ہے۔ وہ ان کو وہ حکمت عطا فرماتا ہے جس کے بعد ان کی پوری زندگی رحمتِ خداوندی کے آبشار میں نہا اٹھتی ہے۔

وَأَدْخَلْنَاهُ فِي رَحْمَتِنَا ۖ إِنَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 حکمت سے مرادمعرفت اور علم سے مراد وحی ہے۔ حضرت لوط کو یہ چیزیں عطا ہوئیں۔ دوسرے تمام پیغمبروں کو بھی یہ چیزیں دی جاتی رہی ہیں۔ اب ختم نبوت کے بعد وحی کا قائم مقام قرآن ہے۔ تاہم حکمت (معرفت) سے غیر پیغمبروں کو بھی بقدرِ استعداد حصہ ملتا ہے۔ جن لوگوں پر اللہ کی نظر ہوتی ہے وہ ان کا ولی وکارساز بن جاتا ہے۔ وہ ان کو برے لوگوں کے ماحول سے نکال کر اچھے لوگوں کے ماحول میں لے جاتاہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر ان کا مدد گار بن جاتا ہے۔ وہ ان کو وہ حکمت عطا فرماتا ہے جس کے بعد ان کی پوری زندگی رحمتِ خداوندی کے آبشار میں نہا اٹھتی ہے۔

وَنُوحًا إِذْ نَادَىٰ مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ

📘 حضرت نوح نے انتہائی لمبی مدت تک اپنی قوم کو دعوت دی۔ مگر چند لوگوں کے سوا کسی نے اصلاح قبول نہ کی۔ آخر کار حضرت نوح نے اپنی قوم کی ہلاکت کی دعا کی۔ اس کے بعد ایسا سخت سیلاب آیا کہ پہاڑ کی چوٹیاں بھی لوگوں کو بچانے سے عاجز ہوگئیں۔ یہ واقعہ اگرچہ پیغمبر کی سطح پر پیش آیا۔ تاہم عام انسانوں کے لیے بھی اس میں بہت تسکین کا سامان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں بگاڑ پیدا کرنے والے بالکل آزاد نہیں ہیں۔ اور سچائی کے لیے اٹھنے والا شخص بالکل اکیلا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص سچائی سے اس حد تک اپنے آپ کو وابستہ کرے کہ وہ دنیا میں سچائی کا نمائندہ بن جائے تو اس کے بعد وہ دنیا میں اکیلا نہیں رہتا۔ بلکہ خدا اس کے ساتھ ہوجاتا ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوجائے اس کو کون زیر کرسکتا ہے۔

وَنَصَرْنَاهُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 حضرت نوح نے انتہائی لمبی مدت تک اپنی قوم کو دعوت دی۔ مگر چند لوگوں کے سوا کسی نے اصلاح قبول نہ کی۔ آخر کار حضرت نوح نے اپنی قوم کی ہلاکت کی دعا کی۔ اس کے بعد ایسا سخت سیلاب آیا کہ پہاڑ کی چوٹیاں بھی لوگوں کو بچانے سے عاجز ہوگئیں۔ یہ واقعہ اگرچہ پیغمبر کی سطح پر پیش آیا۔ تاہم عام انسانوں کے لیے بھی اس میں بہت تسکین کا سامان ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دنیا میں بگاڑ پیدا کرنے والے بالکل آزاد نہیں ہیں۔ اور سچائی کے لیے اٹھنے والا شخص بالکل اکیلا نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص سچائی سے اس حد تک اپنے آپ کو وابستہ کرے کہ وہ دنیا میں سچائی کا نمائندہ بن جائے تو اس کے بعد وہ دنیا میں اکیلا نہیں رہتا۔ بلکہ خدا اس کے ساتھ ہوجاتا ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوجائے اس کو کون زیر کرسکتا ہے۔

وَدَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَكُنَّا لِحُكْمِهِمْ شَاهِدِينَ

📘 ان آیات میں دو اسرائیلی پیغمبروں کا ذکر ہے۔ ایک حضرت داؤد اور دوسرے ان کے صاحب زادہ حضرت سلیمان — ان کو اللہ تعالیٰ نے انسانی معاملات کا صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی۔ حضرت داؤد اللہ کی تسبیح اتنے اعلیٰ طریقہ پر کرتے تھے کہ پہاڑ اور چڑیاں بھی ان کی ہم نوا ہوجاتیں۔ اس طرح اللہ نے انھیں بتایا کہ لوہے کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خداکے پیغمبروں ہی نے انسان کو بتایا کہ وہ اپنے رب کی تسبیح وعبادت کس طرح کرے۔ مگر ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ دوسری ضروری چیزیں بھی انسان کو صحیح طورپر پیغمبروں ہی کے ذریعہ معلوم ہوئیں۔ مثلاً عدلِ اجتماعی کا اصول اور معدنیات کا استعمال بھی پیغمبروں ہی کے ذریعہ انسانوں کے علم میںآیا۔ زندگی سے متعلق ہر ضروری چیز کا ابتدائی علم غالباً پیغمبروں ہی کے ذریعہ انسان کو دیاگیا ہے۔

فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ ۚ وَكُلًّا آتَيْنَا حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاوُودَ الْجِبَالَ يُسَبِّحْنَ وَالطَّيْرَ ۚ وَكُنَّا فَاعِلِينَ

📘 ان آیات میں دو اسرائیلی پیغمبروں کا ذکر ہے۔ ایک حضرت داؤد اور دوسرے ان کے صاحب زادہ حضرت سلیمان — ان کو اللہ تعالیٰ نے انسانی معاملات کا صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی۔ حضرت داؤد اللہ کی تسبیح اتنے اعلیٰ طریقہ پر کرتے تھے کہ پہاڑ اور چڑیاں بھی ان کی ہم نوا ہوجاتیں۔ اس طرح اللہ نے انھیں بتایا کہ لوہے کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خداکے پیغمبروں ہی نے انسان کو بتایا کہ وہ اپنے رب کی تسبیح وعبادت کس طرح کرے۔ مگر ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ دوسری ضروری چیزیں بھی انسان کو صحیح طورپر پیغمبروں ہی کے ذریعہ معلوم ہوئیں۔ مثلاً عدلِ اجتماعی کا اصول اور معدنیات کا استعمال بھی پیغمبروں ہی کے ذریعہ انسانوں کے علم میںآیا۔ زندگی سے متعلق ہر ضروری چیز کا ابتدائی علم غالباً پیغمبروں ہی کے ذریعہ انسان کو دیاگیا ہے۔

وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ

📘 جو لوگ یہ کہہ کہ پیغمبر کا انکار کرتے تھے کہ یہ تو ہماری طرح کے ایک انسان ہیں، ان سے کہاگیا کہ اگر تم اپنے اس اعتراض میں سنجیدہ ہو تو تمھارے لیے معاملہ کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ بہت سی گزری ہوئی ہستیاں جن کو تم پیغمبر تسلیم کرتے ہو، ان کے جاننے والے موجود ہیں۔ پھر ان جاننے والوں سے تحقیق کر لو کہ وہ انسان تھے یا غیر انسان اگر وہ انسان تھے تو موجودہ پیغمبر کو تم صرف اس بنا پر کیسے رد کرسکتے ہو کہ وہ ایک ماں باپ کے ذریعہ عام انسان کی طرح پیدا ہوئے ہیں۔ گزشتہ پیغمبروں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان کا اقرار یا انکار لوگوں کے لیے محض سادہ قسم کا اقرار یا انکار نہ تھا۔ اس نے دونوں گروہوں کے لیے واضح طورپر الگ الگ نتیجہ پیدا کیا۔ اقرار کرنے والوں نے نجات پائی اور انکار کرنے والے ہلاک کردئے گئے۔ اس لیے اس معاملہ میں تم کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہیے۔

وَعَلَّمْنَاهُ صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ لِتُحْصِنَكُمْ مِنْ بَأْسِكُمْ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ شَاكِرُونَ

📘 ان آیات میں دو اسرائیلی پیغمبروں کا ذکر ہے۔ ایک حضرت داؤد اور دوسرے ان کے صاحب زادہ حضرت سلیمان — ان کو اللہ تعالیٰ نے انسانی معاملات کا صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت دی۔ حضرت داؤد اللہ کی تسبیح اتنے اعلیٰ طریقہ پر کرتے تھے کہ پہاڑ اور چڑیاں بھی ان کی ہم نوا ہوجاتیں۔ اس طرح اللہ نے انھیں بتایا کہ لوہے کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خداکے پیغمبروں ہی نے انسان کو بتایا کہ وہ اپنے رب کی تسبیح وعبادت کس طرح کرے۔ مگر ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ دوسری ضروری چیزیں بھی انسان کو صحیح طورپر پیغمبروں ہی کے ذریعہ معلوم ہوئیں۔ مثلاً عدلِ اجتماعی کا اصول اور معدنیات کا استعمال بھی پیغمبروں ہی کے ذریعہ انسانوں کے علم میںآیا۔ زندگی سے متعلق ہر ضروری چیز کا ابتدائی علم غالباً پیغمبروں ہی کے ذریعہ انسان کو دیاگیا ہے۔

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا ۚ وَكُنَّا بِكُلِّ شَيْءٍ عَالِمِينَ

📘 یہاں ہواؤں کی تسخیر سے مراد بحری جہاز رانی ہے۔ قدیم زمانہ میں سمندری سفر میں اس وقت انقلاب آیا جب کہ انسان نے بادبانی جہاز بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ باد بان گویا ہواؤں کو مسخر کرنے کا ذریعہ تھے اور اس زمانہ کے جہازوں کے لیے انجن کا کام کرتے تھے۔ بادبانی جہازوں کی ایجاد نے سمندروں کو زیادہ بڑے پیمانے پر نقل وحمل کے لیے قابل استعمال بنادیا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بحری جہاز رانی کی سائنس بھی غالباً انسان کو پیغمبروں کے ذریعہ سکھائی گئی۔ اس کے علاوہ جنوں میں سے بھی ایک گروہ کو اللہ نے حضرت سلیمان کے تابع کردیا تھا۔ وہ ان کے لیے ایسے بڑے بڑے رفاہی کام کرتے تھے جو عام انسان نہیں کرسکتے۔ جدید مشینی دور میں انسانی فائدے کے زیادہ بڑے کام مشینیں انجام دیتی ہیں۔مشینی دور سے پہلے اس قسم کے بڑے بڑے کاموں کو ممکن بنانے کے ليے خدا نے جنوں کو اپنے پیغمبر کی ماتحتی میں دے دیا تھا۔

وَمِنَ الشَّيَاطِينِ مَنْ يَغُوصُونَ لَهُ وَيَعْمَلُونَ عَمَلًا دُونَ ذَٰلِكَ ۖ وَكُنَّا لَهُمْ حَافِظِينَ

📘 یہاں ہواؤں کی تسخیر سے مراد بحری جہاز رانی ہے۔ قدیم زمانہ میں سمندری سفر میں اس وقت انقلاب آیا جب کہ انسان نے بادبانی جہاز بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ باد بان گویا ہواؤں کو مسخر کرنے کا ذریعہ تھے اور اس زمانہ کے جہازوں کے لیے انجن کا کام کرتے تھے۔ بادبانی جہازوں کی ایجاد نے سمندروں کو زیادہ بڑے پیمانے پر نقل وحمل کے لیے قابل استعمال بنادیا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بحری جہاز رانی کی سائنس بھی غالباً انسان کو پیغمبروں کے ذریعہ سکھائی گئی۔ اس کے علاوہ جنوں میں سے بھی ایک گروہ کو اللہ نے حضرت سلیمان کے تابع کردیا تھا۔ وہ ان کے لیے ایسے بڑے بڑے رفاہی کام کرتے تھے جو عام انسان نہیں کرسکتے۔ جدید مشینی دور میں انسانی فائدے کے زیادہ بڑے کام مشینیں انجام دیتی ہیں۔مشینی دور سے پہلے اس قسم کے بڑے بڑے کاموں کو ممکن بنانے کے ليے خدا نے جنوں کو اپنے پیغمبر کی ماتحتی میں دے دیا تھا۔

۞ وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ

📘 پیغمبروں کے ذریعہ خدا ہر قسم کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے ليے نمونہ ہوں۔ انھیں میں ایک مثال حضرت ایوب کی ہے۔ حضرت ایوب غالباً نویں صدی قبل مسیح کے اسرائیلی پیغمبر تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق ابتداء ً۔ وہ بہت دولت مند تھے۔ کھیتی، مویشی، مکانات، آل اولاد، ہر چیز کی اتنی کثرت تھی کہ کہاجانے لگا کہ اہلِ مشرق میں کوئی اتنا بڑا آدمی نہیں۔ اس کے باوجود حضرت ایوب بے حد شکر گزار اور وفادار بندے تھے۔ ان کی زندگی اس بات کا نمونہ بن گئی کہ عزت اور دولت پانے کے باوجود کس طرح ایک آدمی متواضع بندہ بنا رہتا ہے۔ مگر شیطان نے اس واقعہ کو لوگوں کے ذہنوں میں الٹ دیا۔ اس نے لوگوں کو سکھایا کہ ایوب کی یہ غیرمعمولی خدا پرستی اس لیے ہے کہ ان کو غیر معمولی نعمتیں حاصل ہیں۔ اگر یہ نعمتیں ان کے پاس نہ رہیں تو ان کی ساری شکر گزاری ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد خدا نے آپ کے ذریعہ سے دوسری مثال قائم کی۔ حضرت ایوب کے مویشی مرگئے۔ کھیتیاں برباد ہوگئیں۔ اولاد ختم ہوگئی۔ حتی کہ جسم بھی بیماری کی نذر ہوگیا۔ دوستوں اور رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ صرف ایک بیوی آپ کے ساتھ باقی رہ گئی۔ مگر حضرت ایوب خداکے فیصلے پر راضی رہے۔ انھوںنے کامل صبر کا مظاہرہ کیا۔ بائبل کے الفاظ میں ’’تب ایوب نے زمین پر گر کر سجدہ کیا۔ اور کہا ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلااور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو۔ ان سب باتوں میں ایوب نے نہ تو گناہ کیا اور نہ خدا پر بے جا کام کا عیب لگایا‘‘ (ایوب، 1:22 )۔ حضرت ایوب نے جب مصیبتوں میں اس طرح صبر وشکر کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف آخرت میں ان کے لیے بہترین اجر لکھ دیاگیا بلکہ دنیا میں بھی ان کی حالت بدل دی گئی۔ اور خدا وند نے ایوب کو جتنا اس کے پاس پہلے تھا اس کا دو چند اس کو دیا (ایوب، 12:42 )۔ حدیث میں اسی کو تمثیل کے الفاظ میں اس طرح کہاگیاہے کہ خدا نے جب دوبارہ ایوب کے دن پھیرے تو ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش کردی (أَمْطَرَ عَلَيْهِ جَرَادًا مِنْ ذَهَبٍ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2533۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ ۖ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَعَهُمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِكْرَىٰ لِلْعَابِدِينَ

📘 پیغمبروں کے ذریعہ خدا ہر قسم کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے ليے نمونہ ہوں۔ انھیں میں ایک مثال حضرت ایوب کی ہے۔ حضرت ایوب غالباً نویں صدی قبل مسیح کے اسرائیلی پیغمبر تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق ابتداء ً۔ وہ بہت دولت مند تھے۔ کھیتی، مویشی، مکانات، آل اولاد، ہر چیز کی اتنی کثرت تھی کہ کہاجانے لگا کہ اہلِ مشرق میں کوئی اتنا بڑا آدمی نہیں۔ اس کے باوجود حضرت ایوب بے حد شکر گزار اور وفادار بندے تھے۔ ان کی زندگی اس بات کا نمونہ بن گئی کہ عزت اور دولت پانے کے باوجود کس طرح ایک آدمی متواضع بندہ بنا رہتا ہے۔ مگر شیطان نے اس واقعہ کو لوگوں کے ذہنوں میں الٹ دیا۔ اس نے لوگوں کو سکھایا کہ ایوب کی یہ غیرمعمولی خدا پرستی اس لیے ہے کہ ان کو غیر معمولی نعمتیں حاصل ہیں۔ اگر یہ نعمتیں ان کے پاس نہ رہیں تو ان کی ساری شکر گزاری ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد خدا نے آپ کے ذریعہ سے دوسری مثال قائم کی۔ حضرت ایوب کے مویشی مرگئے۔ کھیتیاں برباد ہوگئیں۔ اولاد ختم ہوگئی۔ حتی کہ جسم بھی بیماری کی نذر ہوگیا۔ دوستوں اور رشتہ داروں نے ساتھ چھوڑ دیا۔ صرف ایک بیوی آپ کے ساتھ باقی رہ گئی۔ مگر حضرت ایوب خداکے فیصلے پر راضی رہے۔ انھوںنے کامل صبر کا مظاہرہ کیا۔ بائبل کے الفاظ میں ’’تب ایوب نے زمین پر گر کر سجدہ کیا۔ اور کہا ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلااور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو۔ ان سب باتوں میں ایوب نے نہ تو گناہ کیا اور نہ خدا پر بے جا کام کا عیب لگایا‘‘ (ایوب، 1:22 )۔ حضرت ایوب نے جب مصیبتوں میں اس طرح صبر وشکر کا مظاہرہ کیا تو نہ صرف آخرت میں ان کے لیے بہترین اجر لکھ دیاگیا بلکہ دنیا میں بھی ان کی حالت بدل دی گئی۔ اور خدا وند نے ایوب کو جتنا اس کے پاس پہلے تھا اس کا دو چند اس کو دیا (ایوب، 12:42 )۔ حدیث میں اسی کو تمثیل کے الفاظ میں اس طرح کہاگیاہے کہ خدا نے جب دوبارہ ایوب کے دن پھیرے تو ان پر سونے کی ٹڈیوں کی بارش کردی (أَمْطَرَ عَلَيْهِ جَرَادًا مِنْ ذَهَبٍ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2533۔

وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِنَ الصَّابِرِينَ

📘 حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے صاحب زادے تھے۔ کچھ مفسرین نے حضرت ادریس سے وہ پیغمبر مراد لیا ہے جن کا ذکر بائبل میں حنوک (Enoch) کے نام سے آیا ہے۔ اسی طرح حضرت ذوالکفل سے مراد غالباً وہ نبی ہیں جو بائبل میں حزقی ایل کے نام سے مذکور ہوئے ہیں۔ ان پیغمبروں کی نمایاں صفت صبر بتائی گئی ہے۔ اس کی وجہ يه هے كه صبر تمام خدا پرستانہ اعمال کی بنیاد ہے۔ صبر کا مطلب اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے نہ بچائے وہ امتحان کی اس دنیا میں کبھی خداکی پسندیدہ زندگی پر قائم نہیں ہوسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ صبر خدا کی تمام رحمتوں کا دروازہ ہے، اس دنیا میں بھی اور موت کے بعد آنے والی دوسری دنیا میں بھی۔

وَأَدْخَلْنَاهُمْ فِي رَحْمَتِنَا ۖ إِنَّهُمْ مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم کے صاحب زادے تھے۔ کچھ مفسرین نے حضرت ادریس سے وہ پیغمبر مراد لیا ہے جن کا ذکر بائبل میں حنوک (Enoch) کے نام سے آیا ہے۔ اسی طرح حضرت ذوالکفل سے مراد غالباً وہ نبی ہیں جو بائبل میں حزقی ایل کے نام سے مذکور ہوئے ہیں۔ ان پیغمبروں کی نمایاں صفت صبر بتائی گئی ہے۔ اس کی وجہ يه هے كه صبر تمام خدا پرستانہ اعمال کی بنیاد ہے۔ صبر کا مطلب اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے بچانا ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو رد عمل کی نفسیات سے نہ بچائے وہ امتحان کی اس دنیا میں کبھی خداکی پسندیدہ زندگی پر قائم نہیں ہوسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ صبر خدا کی تمام رحمتوں کا دروازہ ہے، اس دنیا میں بھی اور موت کے بعد آنے والی دوسری دنیا میں بھی۔

وَذَا النُّونِ إِذْ ذَهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

📘 حضرت یونس ، عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ اس وقت نینویٰ کی آبادی ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ انھوںنے ایک عرصہ تک قوم کو توحید اور آخرت کی طرف بلایا۔ مگر وہ لوگ ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پیغمبروں کے بارے میں خدا کی سنت یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد اگر قوم بدستور پیغمبر کی منکر بنی رہے تو پیغمبر کو بستی چھوڑنے کا حکم ہوتاہے اور قوم پر عذاب آجاتا ہے۔ حضرت یونس نے خیال کیا کہ وہ وقت آگیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم ملے بغیر قوم کو چھوڑکر چلے گئے۔ شہر سے نکل کر وہ ساحل سمندر پر آئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ راستے میں کشتی ڈوبنے لگی۔ لوگوں نے سمجھا کہ کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگا ہے۔ قدیم رواج کے مطابق اس کا حل یہ تھا کہ اس غلام کو معلوم کرکے اسے دریا میں پھینک دیاجائے۔ قرعہ نکالا گیا تو حضرت یونس کا نام قرعہ میں نکلا۔ چنانچہ انھوں نے آپ کو دریا میں پھینک دیا۔ عین اسی وقت ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔ مچھلی آپ کو اپنے پیٹ میں ليے رہی اور پھر خدا کے حکم سے آپ کو لاکر ساحل پر ڈال دیا۔ آپ تندرست ہو کر دوبارہ اپنی قوم میں واپس آئے۔ ایک پیغمبر نے دعوت کے محاذ کو صرف تکمیل سے پہلے چھوڑ دیا تو ان کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا۔ پھر ان وارثینِ پیغمبر کا کیا انجام ہوگا جو دعوت کے محاذ کو یکسر چھوڑ ے ہوئے ہوں۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ ۚ وَكَذَٰلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ

📘 حضرت یونس ، عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے۔ اس وقت نینویٰ کی آبادی ایک لاکھ سے کچھ زیادہ تھی۔ انھوںنے ایک عرصہ تک قوم کو توحید اور آخرت کی طرف بلایا۔ مگر وہ لوگ ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ پیغمبروں کے بارے میں خدا کی سنت یہ ہے کہ اتمام حجت کے بعد اگر قوم بدستور پیغمبر کی منکر بنی رہے تو پیغمبر کو بستی چھوڑنے کا حکم ہوتاہے اور قوم پر عذاب آجاتا ہے۔ حضرت یونس نے خیال کیا کہ وہ وقت آگیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے ہجرت کا حکم ملے بغیر قوم کو چھوڑکر چلے گئے۔ شہر سے نکل کر وہ ساحل سمندر پر آئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے۔ راستے میں کشتی ڈوبنے لگی۔ لوگوں نے سمجھا کہ کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگا ہے۔ قدیم رواج کے مطابق اس کا حل یہ تھا کہ اس غلام کو معلوم کرکے اسے دریا میں پھینک دیاجائے۔ قرعہ نکالا گیا تو حضرت یونس کا نام قرعہ میں نکلا۔ چنانچہ انھوں نے آپ کو دریا میں پھینک دیا۔ عین اسی وقت ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا۔ مچھلی آپ کو اپنے پیٹ میں ليے رہی اور پھر خدا کے حکم سے آپ کو لاکر ساحل پر ڈال دیا۔ آپ تندرست ہو کر دوبارہ اپنی قوم میں واپس آئے۔ ایک پیغمبر نے دعوت کے محاذ کو صرف تکمیل سے پہلے چھوڑ دیا تو ان کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا۔ پھر ان وارثینِ پیغمبر کا کیا انجام ہوگا جو دعوت کے محاذ کو یکسر چھوڑ ے ہوئے ہوں۔

وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ

📘 پیغمبر خصوصی انعام یافتہ لوگ ہیں۔ ان کی سب سے بڑی شخصی صفت یہ ہوتی ہے کہ ان کی دوڑ دھوپ دنیا کے لیے نہیں ہوتی۔ بلکہ ان چیزوں کی طرف ہوتی ہے جو آخرت کے اعتبار سے قیمت رکھتی ہوں۔اللہ کی عظمت کو وہ اس طرح پالیتے ہیںکہ وہی ان کو سب کچھ نظر آنے لگتا ہے۔ وہ صرف اسی سے ڈرتے ہیں اور صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ وہ ہر حال میں خشوع اور تواضع کی روش پر قائم رہتے ہیں۔ یہ چیزیں حضرت زکریا اور دوسرے نبیوں میں کمال درجہ پر تھیں۔ اور اسی بنا پر اللہ نے ان کو اپنی خصوصی نعمتوں سے نوازا۔ عام اہلِ ایمان بھی جس قدر ان اوصاف کا ثبوت دیں گے، اسی قدر وہ خدا کی نصرت وعنایت کے مستحق قرار پائیں گے۔

ثُمَّ صَدَقْنَاهُمُ الْوَعْدَ فَأَنْجَيْنَاهُمْ وَمَنْ نَشَاءُ وَأَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِينَ

📘 جو لوگ یہ کہہ کہ پیغمبر کا انکار کرتے تھے کہ یہ تو ہماری طرح کے ایک انسان ہیں، ان سے کہاگیا کہ اگر تم اپنے اس اعتراض میں سنجیدہ ہو تو تمھارے لیے معاملہ کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں۔ بہت سی گزری ہوئی ہستیاں جن کو تم پیغمبر تسلیم کرتے ہو، ان کے جاننے والے موجود ہیں۔ پھر ان جاننے والوں سے تحقیق کر لو کہ وہ انسان تھے یا غیر انسان اگر وہ انسان تھے تو موجودہ پیغمبر کو تم صرف اس بنا پر کیسے رد کرسکتے ہو کہ وہ ایک ماں باپ کے ذریعہ عام انسان کی طرح پیدا ہوئے ہیں۔ گزشتہ پیغمبروں کی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ ان کا اقرار یا انکار لوگوں کے لیے محض سادہ قسم کا اقرار یا انکار نہ تھا۔ اس نے دونوں گروہوں کے لیے واضح طورپر الگ الگ نتیجہ پیدا کیا۔ اقرار کرنے والوں نے نجات پائی اور انکار کرنے والے ہلاک کردئے گئے۔ اس لیے اس معاملہ میں تم کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہیے۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا ۖ وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ

📘 پیغمبر خصوصی انعام یافتہ لوگ ہیں۔ ان کی سب سے بڑی شخصی صفت یہ ہوتی ہے کہ ان کی دوڑ دھوپ دنیا کے لیے نہیں ہوتی۔ بلکہ ان چیزوں کی طرف ہوتی ہے جو آخرت کے اعتبار سے قیمت رکھتی ہوں۔اللہ کی عظمت کو وہ اس طرح پالیتے ہیںکہ وہی ان کو سب کچھ نظر آنے لگتا ہے۔ وہ صرف اسی سے ڈرتے ہیں اور صرف اسی کو پکارتے ہیں۔ وہ ہر حال میں خشوع اور تواضع کی روش پر قائم رہتے ہیں۔ یہ چیزیں حضرت زکریا اور دوسرے نبیوں میں کمال درجہ پر تھیں۔ اور اسی بنا پر اللہ نے ان کو اپنی خصوصی نعمتوں سے نوازا۔ عام اہلِ ایمان بھی جس قدر ان اوصاف کا ثبوت دیں گے، اسی قدر وہ خدا کی نصرت وعنایت کے مستحق قرار پائیں گے۔

وَالَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَجَعَلْنَاهَا وَابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ

📘 حضرت مریم کی صفت خاص یہ بتائی گئی ہے کہ انھوں نے اپنی شہوت کو قابو میں رکھا۔ اس کا انھیں یہ انعام ملا کہ وہ اس پیغمبر کی ماں بنائی گئیں جو براہ راست معجزۂ خداوندی کے تحت پیدا ہوا۔ یہی بات عام مردوں اور عورتوں کے لیے بھی صحیح ہے۔ ہر ایک کا امتحان موجودہ دنیا میں یہ ہے کہ وہ اپنی شہوتوں اور خواہشوں کو قابو میں رکھے۔ جو شخص جتنا زیادہ اس ضبط کا ثبوت دے گا اسی کے بقدر وہ خدا کی خصوصی عنایتوں میں حصہ دار بنے گا۔

إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ

📘 خدا نے تمام نبیوں کو ایک ہی دین دے کربھیجا ہے۔ وہ یہ کہ صرف ایک خدا کو اپنا خدا بناؤ اور اور اسی کی عبادت کرو۔ اگر لوگ اسی اصل دین پر قائم رہتے تو سب ایک ہی امت بنے رہتے۔ مگر لوگوں نے اپنی طرف سے نئی نئی بحثیں نکال کر دین کے مختلف ایڈیشن تیار کرلئے۔ کسی نے ایک کو لیا اور کسی نے دوسرے کو۔ اس طرح ایک دین کئی دینوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا۔ خدا کے یہاں ایمان وعمل کی قیمت ہے، یعنی خدا کی سچی معرفت اور خدا کی سچی تابع داری۔ اس کے سوا جو چیزیں ہیں ان کی خداکے یہاں کوئی قدردانی نہ ہوگی، خواہ کوئی شخص بطور خود ان کو کتنا ہی زیادہ قابل قدر کیوں نہ سمجھتا ہو۔

وَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ ۖ كُلٌّ إِلَيْنَا رَاجِعُونَ

📘 خدا نے تمام نبیوں کو ایک ہی دین دے کربھیجا ہے۔ وہ یہ کہ صرف ایک خدا کو اپنا خدا بناؤ اور اور اسی کی عبادت کرو۔ اگر لوگ اسی اصل دین پر قائم رہتے تو سب ایک ہی امت بنے رہتے۔ مگر لوگوں نے اپنی طرف سے نئی نئی بحثیں نکال کر دین کے مختلف ایڈیشن تیار کرلئے۔ کسی نے ایک کو لیا اور کسی نے دوسرے کو۔ اس طرح ایک دین کئی دینوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا۔ خدا کے یہاں ایمان وعمل کی قیمت ہے، یعنی خدا کی سچی معرفت اور خدا کی سچی تابع داری۔ اس کے سوا جو چیزیں ہیں ان کی خداکے یہاں کوئی قدردانی نہ ہوگی، خواہ کوئی شخص بطور خود ان کو کتنا ہی زیادہ قابل قدر کیوں نہ سمجھتا ہو۔

فَمَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْيِهِ وَإِنَّا لَهُ كَاتِبُونَ

📘 خدا نے تمام نبیوں کو ایک ہی دین دے کربھیجا ہے۔ وہ یہ کہ صرف ایک خدا کو اپنا خدا بناؤ اور اور اسی کی عبادت کرو۔ اگر لوگ اسی اصل دین پر قائم رہتے تو سب ایک ہی امت بنے رہتے۔ مگر لوگوں نے اپنی طرف سے نئی نئی بحثیں نکال کر دین کے مختلف ایڈیشن تیار کرلئے۔ کسی نے ایک کو لیا اور کسی نے دوسرے کو۔ اس طرح ایک دین کئی دینوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا۔ خدا کے یہاں ایمان وعمل کی قیمت ہے، یعنی خدا کی سچی معرفت اور خدا کی سچی تابع داری۔ اس کے سوا جو چیزیں ہیں ان کی خداکے یہاں کوئی قدردانی نہ ہوگی، خواہ کوئی شخص بطور خود ان کو کتنا ہی زیادہ قابل قدر کیوں نہ سمجھتا ہو۔

وَحَرَامٌ عَلَىٰ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

📘 کسی بستی کے لیے ایمان میں داخلہ حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے قبولِ ایمان کی استعداد ختم ہوجائے۔ جب حق واضح دلائل کے ساتھ سامنے آتا ہے تو آدمی اپنی عین فطرت کے تحت مجبور ہوتا ہے کہ وہ اس کو پہچانے۔ اب جو لوگ اس پہچان کے بعد حق کا اعتراف کرلیں وہ اپنی فطرت کو باقی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ دوسری چیزوں کو اہمیت دینے کی بنا پر اس کا اعتراف نہ کریں وہ گویا اپنی فطرت پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ حق کا انکار ہمیشہ اپني فطرت کو اندھا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی فطرت کو اندھا بنانے کا خطرہ مول لیں ان کا انجام یہی ہے کہ ان کے لیے ایمان میں داخل ہونا بالکل ناممکن ہوجائے۔ جو لوگ دلائل کی زبان میں حق کو نہ پہچانیں وہ حق کو صرف اس وقت پہچانیں گے جب کہ قیامت ان کی آنکھ کا پردہ پھاڑ دے گی۔ مگر اس وقت کا پہچاننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ ماننے کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ ماننے کا۔

حَتَّىٰ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ

📘 کسی بستی کے لیے ایمان میں داخلہ حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے قبولِ ایمان کی استعداد ختم ہوجائے۔ جب حق واضح دلائل کے ساتھ سامنے آتا ہے تو آدمی اپنی عین فطرت کے تحت مجبور ہوتا ہے کہ وہ اس کو پہچانے۔ اب جو لوگ اس پہچان کے بعد حق کا اعتراف کرلیں وہ اپنی فطرت کو باقی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ دوسری چیزوں کو اہمیت دینے کی بنا پر اس کا اعتراف نہ کریں وہ گویا اپنی فطرت پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ حق کا انکار ہمیشہ اپني فطرت کو اندھا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی فطرت کو اندھا بنانے کا خطرہ مول لیں ان کا انجام یہی ہے کہ ان کے لیے ایمان میں داخل ہونا بالکل ناممکن ہوجائے۔ جو لوگ دلائل کی زبان میں حق کو نہ پہچانیں وہ حق کو صرف اس وقت پہچانیں گے جب کہ قیامت ان کی آنکھ کا پردہ پھاڑ دے گی۔ مگر اس وقت کا پہچاننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ ماننے کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ ماننے کا۔

وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ أَبْصَارُ الَّذِينَ كَفَرُوا يَا وَيْلَنَا قَدْ كُنَّا فِي غَفْلَةٍ مِنْ هَٰذَا بَلْ كُنَّا ظَالِمِينَ

📘 کسی بستی کے لیے ایمان میں داخلہ حرام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے قبولِ ایمان کی استعداد ختم ہوجائے۔ جب حق واضح دلائل کے ساتھ سامنے آتا ہے تو آدمی اپنی عین فطرت کے تحت مجبور ہوتا ہے کہ وہ اس کو پہچانے۔ اب جو لوگ اس پہچان کے بعد حق کا اعتراف کرلیں وہ اپنی فطرت کو باقی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ دوسری چیزوں کو اہمیت دینے کی بنا پر اس کا اعتراف نہ کریں وہ گویا اپنی فطرت پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ حق کا انکار ہمیشہ اپني فطرت کو اندھا بنانے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی فطرت کو اندھا بنانے کا خطرہ مول لیں ان کا انجام یہی ہے کہ ان کے لیے ایمان میں داخل ہونا بالکل ناممکن ہوجائے۔ جو لوگ دلائل کی زبان میں حق کو نہ پہچانیں وہ حق کو صرف اس وقت پہچانیں گے جب کہ قیامت ان کی آنکھ کا پردہ پھاڑ دے گی۔ مگر اس وقت کا پہچاننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ ماننے کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ ماننے کا۔

إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )

لَوْ كَانَ هَٰؤُلَاءِ آلِهَةً مَا وَرَدُوهَا ۖ وَكُلٌّ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 کائنات کا موجودہ پھیلاؤ امتحان والی دنیا بنانے کے لیے تھا۔ اس کے بعد جب انجام والی دنیا بنانے کا وقت آئے گا تو خدا اس عالم کو سمیٹ دے گا اور غالباً اسی مادہ سے دوسرا عالم بنائے گا جو انجام والے مقاصد کے حسبِ حال ہو۔ ایک دنیا کا وجود میں آنا۔ یہی اس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ دوسری دنیا بھی وجود میں لائی جاسکتی ہے۔ موجودہ دنیامیں اکثر برے لوگ بڑائی کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ مگر یہ صرف امتحان کی مدت تک کے لیے ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی اور ابدی طورپر خدا کی معیاری دنیا بنائی جائے گی تو وہاں ہر قسم کی عزت اور راحت صرف ان لوگوں کا حصہ ہوگی جو موجودہ امتحانی دور میں خدا کے سچے بندے ثابت ہوئے تھے۔ یہ بات موجودہ زبور میں بھی تفصیل سے موجود ہے۔ اس کے چند الفاظ یہ ہیں اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر۔ خداوند پر توکل کر اور نیکی کر۔ وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیوں کہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، صادق زمین کے وارث ہوں گے۔ اور وہ اس میں ہمیشہ بسے رہیںگے (زبور، 37:29 )