🕋 تفسير سورة الروم
(Ar-Rum) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَىٰ أَنْ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا يَسْتَهْزِئُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ مِنْ شُرَكَائِهِمْ شُفَعَاءُ وَكَانُوا بِشُرَكَائِهِمْ كَافِرِينَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَهُمْ فِي رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَلِقَاءِ الْآخِرَةِ فَأُولَٰئِكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَيُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ وَكَذَٰلِكَ تُخْرَجُونَ
📘 موجودہ دنیا کا ایک عجیب وغریب کرشمہ ایک چیز کا دوسری چیز میں مبدل ہونا ہے۔ یہاں غیر اضافہ پذیر مادہ اضافہ پذیر مادہ میں تبدیل ہورہاہے۔ یہاں بے جان مٹی (بالفاظ دیگر ارضی اجزاء) تبدیل ہو کر چلنے اور بولنے والے انسان کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ سب کچھ حد درجہ بامعنی طورپر ہورہاہے۔ مثال کے طورپر ’’مٹی‘‘ جب تبدیل ہو کر انسان بنتی ہے تو اس کا تقریباً نصف حصہ مرد کی صورت میں ڈھل جاتا ہے اور تقریباً نصف حصہ عورت کی صورت میں۔ اسی تقسیم کی بدولت انسانی تہذیب ہزاروں سال سے قائم ہے۔ یہ تبدیلی اور پھر منظم اور متناسب تبدیلی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک قادر مطلق خدا کی کارفرمائی مانی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خدا کی تخلیق پر غور کرے تو اس کو ایسا لگے گا جیسے ہر چیز میں خدا کا جلوہ ہو۔ ہر چیز سے خدا جھانک رہا ہو۔
غُلِبَتِ الرُّومُ
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ
📘 موجودہ دنیا کا ایک عجیب وغریب کرشمہ ایک چیز کا دوسری چیز میں مبدل ہونا ہے۔ یہاں غیر اضافہ پذیر مادہ اضافہ پذیر مادہ میں تبدیل ہورہاہے۔ یہاں بے جان مٹی (بالفاظ دیگر ارضی اجزاء) تبدیل ہو کر چلنے اور بولنے والے انسان کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ سب کچھ حد درجہ بامعنی طورپر ہورہاہے۔ مثال کے طورپر ’’مٹی‘‘ جب تبدیل ہو کر انسان بنتی ہے تو اس کا تقریباً نصف حصہ مرد کی صورت میں ڈھل جاتا ہے اور تقریباً نصف حصہ عورت کی صورت میں۔ اسی تقسیم کی بدولت انسانی تہذیب ہزاروں سال سے قائم ہے۔ یہ تبدیلی اور پھر منظم اور متناسب تبدیلی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک قادر مطلق خدا کی کارفرمائی مانی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خدا کی تخلیق پر غور کرے تو اس کو ایسا لگے گا جیسے ہر چیز میں خدا کا جلوہ ہو۔ ہر چیز سے خدا جھانک رہا ہو۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
📘 موجودہ دنیا کا ایک عجیب وغریب کرشمہ ایک چیز کا دوسری چیز میں مبدل ہونا ہے۔ یہاں غیر اضافہ پذیر مادہ اضافہ پذیر مادہ میں تبدیل ہورہاہے۔ یہاں بے جان مٹی (بالفاظ دیگر ارضی اجزاء) تبدیل ہو کر چلنے اور بولنے والے انسان کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ سب کچھ حد درجہ بامعنی طورپر ہورہاہے۔ مثال کے طورپر ’’مٹی‘‘ جب تبدیل ہو کر انسان بنتی ہے تو اس کا تقریباً نصف حصہ مرد کی صورت میں ڈھل جاتا ہے اور تقریباً نصف حصہ عورت کی صورت میں۔ اسی تقسیم کی بدولت انسانی تہذیب ہزاروں سال سے قائم ہے۔ یہ تبدیلی اور پھر منظم اور متناسب تبدیلی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے ایک قادر مطلق خدا کی کارفرمائی مانی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خدا کی تخلیق پر غور کرے تو اس کو ایسا لگے گا جیسے ہر چیز میں خدا کا جلوہ ہو۔ ہر چیز سے خدا جھانک رہا ہو۔
وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ
📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی نشانی ہے — اس کا عدم سے وجود میںآنا خدا کی قوتِ تخلیق کو بتاتا ہے۔ اس کے اندر بے شمار تنوع خدا کی قدرت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ تمام چیزوں میں حد درجہ معنویت خدا کی صفتِ رحمت کا آئینہ ہے۔ بجلی جیسی تباہ کن چیزوں کی موجودگی خدا کی صفت انتقام کا تعارف ہے۔ زمین کا خشک ہوجانے کے بعد دوبارہ ہرا بھرا ہوجانا تخلیق ثانی کے امکان کو بتارہاہے۔
یہ سب خدا کی نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں صرف ان لوگوں کےلیے ہیں جو کائنات کی خاموش پکار پر کان لگائیں۔ جو اپنی عقل اور اپنے علم کو صحیح رخ پر استعمال کریں۔
وَمِنْ آيَاتِهِ مَنَامُكُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی نشانی ہے — اس کا عدم سے وجود میںآنا خدا کی قوتِ تخلیق کو بتاتا ہے۔ اس کے اندر بے شمار تنوع خدا کی قدرت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ تمام چیزوں میں حد درجہ معنویت خدا کی صفتِ رحمت کا آئینہ ہے۔ بجلی جیسی تباہ کن چیزوں کی موجودگی خدا کی صفت انتقام کا تعارف ہے۔ زمین کا خشک ہوجانے کے بعد دوبارہ ہرا بھرا ہوجانا تخلیق ثانی کے امکان کو بتارہاہے۔
یہ سب خدا کی نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں صرف ان لوگوں کےلیے ہیں جو کائنات کی خاموش پکار پر کان لگائیں۔ جو اپنی عقل اور اپنے علم کو صحیح رخ پر استعمال کریں۔
وَمِنْ آيَاتِهِ يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيِي بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ خدا کی نشانی ہے — اس کا عدم سے وجود میںآنا خدا کی قوتِ تخلیق کو بتاتا ہے۔ اس کے اندر بے شمار تنوع خدا کی قدرت کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ تمام چیزوں میں حد درجہ معنویت خدا کی صفتِ رحمت کا آئینہ ہے۔ بجلی جیسی تباہ کن چیزوں کی موجودگی خدا کی صفت انتقام کا تعارف ہے۔ زمین کا خشک ہوجانے کے بعد دوبارہ ہرا بھرا ہوجانا تخلیق ثانی کے امکان کو بتارہاہے۔
یہ سب خدا کی نشانیاں ہیں۔ مگر یہ نشانیاں صرف ان لوگوں کےلیے ہیں جو کائنات کی خاموش پکار پر کان لگائیں۔ جو اپنی عقل اور اپنے علم کو صحیح رخ پر استعمال کریں۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ
📘 اتھاہ خلا میں زمین اور سورج اور سیاروں اور ستاروں کا نظام اس قدر حیرت ناک حد تک نادر واقعہ ہے کہ وہ خود بول رہا ہے کہ وہ کسی قائم رکھنے والے کی قدرت سے قائم ہے۔ اور کسی چلانے والے کے زور پر چل رہا ہے۔ یہ غیر معمولی مدد اگر ایک لمحہ کےلیے بھی اس سے جدا ہو تو وہ بالکل درہم برہم ہوجائے۔ اس دنیامیں ایک معمولی ہوائی جہاز بھی پائلٹ کا کنٹرول کھونے کے بعد برباد ہوجاتاہے، پھر کائنات کا اتنا بڑا کارخانہ کسی کنٹرولر کے کنٹرول کے بغیر کیسے چل سکتا ہے۔
کائنات کا خالق کائنات میں اپنی قدرت کا جو مظاہرہ کررہاہے اس کے لحاظ سے اس کےلیے یہ کام آسان تر ہے کہ وہ انسان کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کرے۔ تخلیق اول کا جو مظاہرہ کائنات میں ہر آن ہورہا ہے اس کے بعد تخلیق ثانی کو مانناایسا ہی ہے جیسے ایک ثابت شدہ چیز کو ماننا۔ کائنات میں خدا کی قدرت اور اس کی حکمت کا اظہار اتنی اعلیٰ سطح پر ہور ہا ہے کہ اس کے بعد کسی بھی کارنامہ کو خدا کی طرف منسوب کرنا کوئی مستبعد چیز نہیں۔
وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ
📘 اتھاہ خلا میں زمین اور سورج اور سیاروں اور ستاروں کا نظام اس قدر حیرت ناک حد تک نادر واقعہ ہے کہ وہ خود بول رہا ہے کہ وہ کسی قائم رکھنے والے کی قدرت سے قائم ہے۔ اور کسی چلانے والے کے زور پر چل رہا ہے۔ یہ غیر معمولی مدد اگر ایک لمحہ کےلیے بھی اس سے جدا ہو تو وہ بالکل درہم برہم ہوجائے۔ اس دنیامیں ایک معمولی ہوائی جہاز بھی پائلٹ کا کنٹرول کھونے کے بعد برباد ہوجاتاہے، پھر کائنات کا اتنا بڑا کارخانہ کسی کنٹرولر کے کنٹرول کے بغیر کیسے چل سکتا ہے۔
کائنات کا خالق کائنات میں اپنی قدرت کا جو مظاہرہ کررہاہے اس کے لحاظ سے اس کےلیے یہ کام آسان تر ہے کہ وہ انسان کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کرے۔ تخلیق اول کا جو مظاہرہ کائنات میں ہر آن ہورہا ہے اس کے بعد تخلیق ثانی کو مانناایسا ہی ہے جیسے ایک ثابت شدہ چیز کو ماننا۔ کائنات میں خدا کی قدرت اور اس کی حکمت کا اظہار اتنی اعلیٰ سطح پر ہور ہا ہے کہ اس کے بعد کسی بھی کارنامہ کو خدا کی طرف منسوب کرنا کوئی مستبعد چیز نہیں۔
وَهُوَ الَّذِي يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ ۚ وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 اتھاہ خلا میں زمین اور سورج اور سیاروں اور ستاروں کا نظام اس قدر حیرت ناک حد تک نادر واقعہ ہے کہ وہ خود بول رہا ہے کہ وہ کسی قائم رکھنے والے کی قدرت سے قائم ہے۔ اور کسی چلانے والے کے زور پر چل رہا ہے۔ یہ غیر معمولی مدد اگر ایک لمحہ کےلیے بھی اس سے جدا ہو تو وہ بالکل درہم برہم ہوجائے۔ اس دنیامیں ایک معمولی ہوائی جہاز بھی پائلٹ کا کنٹرول کھونے کے بعد برباد ہوجاتاہے، پھر کائنات کا اتنا بڑا کارخانہ کسی کنٹرولر کے کنٹرول کے بغیر کیسے چل سکتا ہے۔
کائنات کا خالق کائنات میں اپنی قدرت کا جو مظاہرہ کررہاہے اس کے لحاظ سے اس کےلیے یہ کام آسان تر ہے کہ وہ انسان کو موت کے بعد دوبارہ پیدا کرے۔ تخلیق اول کا جو مظاہرہ کائنات میں ہر آن ہورہا ہے اس کے بعد تخلیق ثانی کو مانناایسا ہی ہے جیسے ایک ثابت شدہ چیز کو ماننا۔ کائنات میں خدا کی قدرت اور اس کی حکمت کا اظہار اتنی اعلیٰ سطح پر ہور ہا ہے کہ اس کے بعد کسی بھی کارنامہ کو خدا کی طرف منسوب کرنا کوئی مستبعد چیز نہیں۔
ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ ۖ هَلْ لَكُمْ مِنْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ مِنْ شُرَكَاءَ فِي مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنْتُمْ فِيهِ سَوَاءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 ایک مشترک مال یا جائداد ہو تو اس میں اس کے تمام شرکاء کا حق ہوتاہے اور ہر شریک کو دوسرے شریک کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ مگرخدا کا معاملہ اس قسم کا معاملہ نہیں۔ خدا تنہا تمام کائنات کا مالک ہے۔ خداکےلیے صحیح مثال آقا اور غلام کی ہے، نہ کہ شرکاء جائداد کی۔ خدا اور اس کی مخلوقات کے درمیان زیادہ بڑے پیمانے پر وہی نسبت ہے جو ایک آقا اور ایک غلام کے درمیان پائی جاتی ہے۔ کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کو اپنے برابر کا درجہ نہیں دیتا۔ اسی طرح کائنات میں کوئی بھی نہیں ہے جس کو خدا کے ساتھ برابری کی حیثیت حاصل ہو۔ خدا کی طرف صرف آقائی ہے اور بقیہ مخلوقات کی طرف صرف محکومی اور غلامی۔
مخلوقات کا اپنے اپنے تخلیقی نظام کا پابند ہونا بتاتا ہے کہ خدا اور مخلوقات کے درمیان صحیح نسبت آقا اور غلام کی ہے۔ اس کے سوا جو نسبت بھی قائم کی جائے گی اس کی بنیاد محض انسانی مفروضے پر ہوگی، نہ کہ کسی واقعی دلیل پر۔
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ فَمَنْ يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
📘 ایک مشترک مال یا جائداد ہو تو اس میں اس کے تمام شرکاء کا حق ہوتاہے اور ہر شریک کو دوسرے شریک کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ مگرخدا کا معاملہ اس قسم کا معاملہ نہیں۔ خدا تنہا تمام کائنات کا مالک ہے۔ خداکےلیے صحیح مثال آقا اور غلام کی ہے، نہ کہ شرکاء جائداد کی۔ خدا اور اس کی مخلوقات کے درمیان زیادہ بڑے پیمانے پر وہی نسبت ہے جو ایک آقا اور ایک غلام کے درمیان پائی جاتی ہے۔ کوئی شخص اپنے غلام یا نوکر کو اپنے برابر کا درجہ نہیں دیتا۔ اسی طرح کائنات میں کوئی بھی نہیں ہے جس کو خدا کے ساتھ برابری کی حیثیت حاصل ہو۔ خدا کی طرف صرف آقائی ہے اور بقیہ مخلوقات کی طرف صرف محکومی اور غلامی۔
مخلوقات کا اپنے اپنے تخلیقی نظام کا پابند ہونا بتاتا ہے کہ خدا اور مخلوقات کے درمیان صحیح نسبت آقا اور غلام کی ہے۔ اس کے سوا جو نسبت بھی قائم کی جائے گی اس کی بنیاد محض انسانی مفروضے پر ہوگی، نہ کہ کسی واقعی دلیل پر۔
فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
📘 اصل دین ایک ہے۔ اور وہ ہر پیغمبر پر اپنی کامل شکل میں اترا ہے۔ وہ ہے ایک اللہ کی طرف رجوع، ایک اللہ کا ڈر، ایک اللہ کی پرستاری، ہمہ تن ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا، یہی دین فطرت ہے۔ یہ دین ابدی طورپر ہر انسان کی نفسیات میں سمویا ہوا ہے۔ تمام پیغمبروں نے اسی ایک دین کی تعلیم دی۔ مگر ان کے پیروؤں کی بعد کی نسلوں نے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔
کئی دین ہمیشہ ان اضافی بحثوں سے بنتا ہے جو بعد کے لوگ پیغمبروں کی ابتدائی تعلیمات میں پیدا کرتے ہیں۔ عقائد میں نو ایجاد موشگافیاں، عبادات میں خود ساختہ مسائل، زمانہ کے تاثرات کے تحت دین کی نئی نئی تعبیریں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو بعد کے دور میں ایک دین کو کئی دین بنا دیتی ہیں۔ جب یہ اضافے وجود میں آتے ہیں تو لوگ اصل دین کے بجائے اپنے انھیں اضافوں پرسب سے زیادہ زور دینے لگتے ہیں جن کی بدولت وہ دوسرے گروہ سے جدا ہو کر الگ گروہ بنے ہیں۔ ایک گروہ ایک قسم کے اضافہ پر زور دیتاہے، اور دوسرا گروہ دوسرے قسم کے اضافہ پر۔ اس طرح بالآخر یہ نوبت آتی ہے کہ ایک دین کو ماننے والے عملاً کئی دینی گروہ میں بٹ کر رہ جاتے ہیں۔
۞ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 اصل دین ایک ہے۔ اور وہ ہر پیغمبر پر اپنی کامل شکل میں اترا ہے۔ وہ ہے ایک اللہ کی طرف رجوع، ایک اللہ کا ڈر، ایک اللہ کی پرستاری، ہمہ تن ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا، یہی دین فطرت ہے۔ یہ دین ابدی طورپر ہر انسان کی نفسیات میں سمویا ہوا ہے۔ تمام پیغمبروں نے اسی ایک دین کی تعلیم دی۔ مگر ان کے پیروؤں کی بعد کی نسلوں نے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔
کئی دین ہمیشہ ان اضافی بحثوں سے بنتا ہے جو بعد کے لوگ پیغمبروں کی ابتدائی تعلیمات میں پیدا کرتے ہیں۔ عقائد میں نو ایجاد موشگافیاں، عبادات میں خود ساختہ مسائل، زمانہ کے تاثرات کے تحت دین کی نئی نئی تعبیریں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو بعد کے دور میں ایک دین کو کئی دین بنا دیتی ہیں۔ جب یہ اضافے وجود میں آتے ہیں تو لوگ اصل دین کے بجائے اپنے انھیں اضافوں پرسب سے زیادہ زور دینے لگتے ہیں جن کی بدولت وہ دوسرے گروہ سے جدا ہو کر الگ گروہ بنے ہیں۔ ایک گروہ ایک قسم کے اضافہ پر زور دیتاہے، اور دوسرا گروہ دوسرے قسم کے اضافہ پر۔ اس طرح بالآخر یہ نوبت آتی ہے کہ ایک دین کو ماننے والے عملاً کئی دینی گروہ میں بٹ کر رہ جاتے ہیں۔
مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
📘 اصل دین ایک ہے۔ اور وہ ہر پیغمبر پر اپنی کامل شکل میں اترا ہے۔ وہ ہے ایک اللہ کی طرف رجوع، ایک اللہ کا ڈر، ایک اللہ کی پرستاری، ہمہ تن ایک اللہ کی طرف متوجہ ہوجانا، یہی دین فطرت ہے۔ یہ دین ابدی طورپر ہر انسان کی نفسیات میں سمویا ہوا ہے۔ تمام پیغمبروں نے اسی ایک دین کی تعلیم دی۔ مگر ان کے پیروؤں کی بعد کی نسلوں نے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔
کئی دین ہمیشہ ان اضافی بحثوں سے بنتا ہے جو بعد کے لوگ پیغمبروں کی ابتدائی تعلیمات میں پیدا کرتے ہیں۔ عقائد میں نو ایجاد موشگافیاں، عبادات میں خود ساختہ مسائل، زمانہ کے تاثرات کے تحت دین کی نئی نئی تعبیریں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو بعد کے دور میں ایک دین کو کئی دین بنا دیتی ہیں۔ جب یہ اضافے وجود میں آتے ہیں تو لوگ اصل دین کے بجائے اپنے انھیں اضافوں پرسب سے زیادہ زور دینے لگتے ہیں جن کی بدولت وہ دوسرے گروہ سے جدا ہو کر الگ گروہ بنے ہیں۔ ایک گروہ ایک قسم کے اضافہ پر زور دیتاہے، اور دوسرا گروہ دوسرے قسم کے اضافہ پر۔ اس طرح بالآخر یہ نوبت آتی ہے کہ ایک دین کو ماننے والے عملاً کئی دینی گروہ میں بٹ کر رہ جاتے ہیں۔
وَإِذَا مَسَّ النَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْا رَبَّهُمْ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا أَذَاقَهُمْ مِنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
📘 عام حالات میں آدمی اپنے کو بااختیار پاتاہے۔ اس ليے عام حالات میں وہ مصنوعی طورپر سرکش بنا رہتاہے۔ مگر جب نازک حالات اس کو اس کی بے بسی کا تجربہ کراتے ہیں، اس وقت اس کے ذہن کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اس وقت وہ اصلی انسان (man cut to size) بن جاتا ہے جو کہ وہ حقیقۃً ہے۔ اس وقت وہ اپنی عاجزانہ حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے خدا کو پکارنے لگتا ہے۔
یہ نفسیات کی سطح پر توحید الٰہ کا ثبوت ہے۔ اس طرح انسان کو اس کے ذاتی تجربہ میں حقیقت کا چہرہ دکھایا جاتا ہے۔ مگر آدمی اتنا نادان ہے کہ جیسے ہی حالات بدلے وہ دوبارہ پہلے کی طرح غفلت اور سرکشی میں مبتلا ہوجاتاہے۔
لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
📘 عام حالات میں آدمی اپنے کو بااختیار پاتاہے۔ اس ليے عام حالات میں وہ مصنوعی طورپر سرکش بنا رہتاہے۔ مگر جب نازک حالات اس کو اس کی بے بسی کا تجربہ کراتے ہیں، اس وقت اس کے ذہن کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اس وقت وہ اصلی انسان (man cut to size) بن جاتا ہے جو کہ وہ حقیقۃً ہے۔ اس وقت وہ اپنی عاجزانہ حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے خدا کو پکارنے لگتا ہے۔
یہ نفسیات کی سطح پر توحید الٰہ کا ثبوت ہے۔ اس طرح انسان کو اس کے ذاتی تجربہ میں حقیقت کا چہرہ دکھایا جاتا ہے۔ مگر آدمی اتنا نادان ہے کہ جیسے ہی حالات بدلے وہ دوبارہ پہلے کی طرح غفلت اور سرکشی میں مبتلا ہوجاتاہے۔
أَمْ أَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوا بِهِ يُشْرِكُونَ
📘 عام حالات میں آدمی اپنے کو بااختیار پاتاہے۔ اس ليے عام حالات میں وہ مصنوعی طورپر سرکش بنا رہتاہے۔ مگر جب نازک حالات اس کو اس کی بے بسی کا تجربہ کراتے ہیں، اس وقت اس کے ذہن کے پردے ہٹ جاتے ہیں۔ وہ اس وقت وہ اصلی انسان (man cut to size) بن جاتا ہے جو کہ وہ حقیقۃً ہے۔ اس وقت وہ اپنی عاجزانہ حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے خدا کو پکارنے لگتا ہے۔
یہ نفسیات کی سطح پر توحید الٰہ کا ثبوت ہے۔ اس طرح انسان کو اس کے ذاتی تجربہ میں حقیقت کا چہرہ دکھایا جاتا ہے۔ مگر آدمی اتنا نادان ہے کہ جیسے ہی حالات بدلے وہ دوبارہ پہلے کی طرح غفلت اور سرکشی میں مبتلا ہوجاتاہے۔
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
📘 مومن راحت اور مصیبت دونوں کو خدا کی طرف سے سمجھتاہے۔ اس ليے وہ دونوں حالتوں میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ راحت میں شکر کرتا ہے اور مصیبت میں صبر۔ اس کے برعکس، غیر مومن کا بھروسہ اپنے آپ پر ہوتا ہے۔ اس ليے وہ اچھے حالات میں نازاں ہوتا ہے اور جب اس کی قوتیں جواب دے جائیں تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے۔ کیوں کہ اس کو محسوس ہوتاہے کہ اب اس کی آخری حد آگئی۔ یہ گویا فطرت کی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ پہلا ذہن حقیقی ذہن ہے اور دوسرا ذہن غیر حقیقی ذہن۔
مومن کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو رضائے الٰہی کےلیے خرچ کرتاہے۔ چنانچہ وہ اپنے مال میں دوسرے ضرورت مندوں کا بھی حصہ لگاتا ہے، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار۔ وہ اپنے مال کو آخرت کا نفع کمانے کےلیے خرچ کرتاہے، نہ کہ سود خواروں کی طرح صرف دنیا کا نفع کمانے کےلیے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 مومن راحت اور مصیبت دونوں کو خدا کی طرف سے سمجھتاہے۔ اس ليے وہ دونوں حالتوں میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ راحت میں شکر کرتا ہے اور مصیبت میں صبر۔ اس کے برعکس، غیر مومن کا بھروسہ اپنے آپ پر ہوتا ہے۔ اس ليے وہ اچھے حالات میں نازاں ہوتا ہے اور جب اس کی قوتیں جواب دے جائیں تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے۔ کیوں کہ اس کو محسوس ہوتاہے کہ اب اس کی آخری حد آگئی۔ یہ گویا فطرت کی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ پہلا ذہن حقیقی ذہن ہے اور دوسرا ذہن غیر حقیقی ذہن۔
مومن کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو رضائے الٰہی کےلیے خرچ کرتاہے۔ چنانچہ وہ اپنے مال میں دوسرے ضرورت مندوں کا بھی حصہ لگاتا ہے، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار۔ وہ اپنے مال کو آخرت کا نفع کمانے کےلیے خرچ کرتاہے، نہ کہ سود خواروں کی طرح صرف دنیا کا نفع کمانے کےلیے۔
فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 مومن راحت اور مصیبت دونوں کو خدا کی طرف سے سمجھتاہے۔ اس ليے وہ دونوں حالتوں میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ راحت میں شکر کرتا ہے اور مصیبت میں صبر۔ اس کے برعکس، غیر مومن کا بھروسہ اپنے آپ پر ہوتا ہے۔ اس ليے وہ اچھے حالات میں نازاں ہوتا ہے اور جب اس کی قوتیں جواب دے جائیں تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے۔ کیوں کہ اس کو محسوس ہوتاہے کہ اب اس کی آخری حد آگئی۔ یہ گویا فطرت کی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ پہلا ذہن حقیقی ذہن ہے اور دوسرا ذہن غیر حقیقی ذہن۔
مومن کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو رضائے الٰہی کےلیے خرچ کرتاہے۔ چنانچہ وہ اپنے مال میں دوسرے ضرورت مندوں کا بھی حصہ لگاتا ہے، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار۔ وہ اپنے مال کو آخرت کا نفع کمانے کےلیے خرچ کرتاہے، نہ کہ سود خواروں کی طرح صرف دنیا کا نفع کمانے کےلیے۔
وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِنْدَ اللَّهِ ۖ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ
📘 مومن راحت اور مصیبت دونوں کو خدا کی طرف سے سمجھتاہے۔ اس ليے وہ دونوں حالتوں میں خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ راحت میں شکر کرتا ہے اور مصیبت میں صبر۔ اس کے برعکس، غیر مومن کا بھروسہ اپنے آپ پر ہوتا ہے۔ اس ليے وہ اچھے حالات میں نازاں ہوتا ہے اور جب اس کی قوتیں جواب دے جائیں تو وہ مایوسی کا شکار ہوجاتاہے۔ کیوں کہ اس کو محسوس ہوتاہے کہ اب اس کی آخری حد آگئی۔ یہ گویا فطرت کی شہادت ہے جو بتاتی ہے کہ پہلا ذہن حقیقی ذہن ہے اور دوسرا ذہن غیر حقیقی ذہن۔
مومن کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے مال کو رضائے الٰہی کےلیے خرچ کرتاہے۔ چنانچہ وہ اپنے مال میں دوسرے ضرورت مندوں کا بھی حصہ لگاتا ہے، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ دار۔ وہ اپنے مال کو آخرت کا نفع کمانے کےلیے خرچ کرتاہے، نہ کہ سود خواروں کی طرح صرف دنیا کا نفع کمانے کےلیے۔
فِي بِضْعِ سِنِينَ ۗ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَمِنْ بَعْدُ ۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۖ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَفْعَلُ مِنْ ذَٰلِكُمْ مِنْ شَيْءٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 ایک انسان کا پیدا ہونا، اس کو صبح وشام کا رزق ملنا، اس پر موت واقع ہونا، یہ واقعات اتنے عظیم ہیں کہ ان کے ظہور کےلیے کائناتی قوت درکار ہے۔ اور خالق کائنات کے سوا کوئی بھی مفروضہ ہستی ایسی نہیں جو اس قسم کی کائناتی قوت رکھتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید اپنی دلیل آپ ہے اور شرک اپنی تردید آپ۔
اگر انسان ایک خدا کو اپنا معبود بنائے تو سب کا مرکز توجہ ایک ہوتاہے۔ اس سے انسانوں کے درمیان اتحادکی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب دوسرے دوسرے معبود بنائے جانے لگیں تو بے شمار چیزیں مرکز توجہ بن جاتی ہیں۔ اس سے افراد اور قوموں میں عناد اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ خشکی اور سمندر اور فضا سب فساد سے بھر جاتے ہیں۔
انسان کی بے راہ روی کا مستقل انجام موت کے بعد سامنے آنے والا ہے۔ مگر انسان کی بے راہ روی کا وقتی انجام اسی دنیا میں دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو یاد دہانی ہو۔
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
📘 ایک انسان کا پیدا ہونا، اس کو صبح وشام کا رزق ملنا، اس پر موت واقع ہونا، یہ واقعات اتنے عظیم ہیں کہ ان کے ظہور کےلیے کائناتی قوت درکار ہے۔ اور خالق کائنات کے سوا کوئی بھی مفروضہ ہستی ایسی نہیں جو اس قسم کی کائناتی قوت رکھتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید اپنی دلیل آپ ہے اور شرک اپنی تردید آپ۔
اگر انسان ایک خدا کو اپنا معبود بنائے تو سب کا مرکز توجہ ایک ہوتاہے۔ اس سے انسانوں کے درمیان اتحادکی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب دوسرے دوسرے معبود بنائے جانے لگیں تو بے شمار چیزیں مرکز توجہ بن جاتی ہیں۔ اس سے افراد اور قوموں میں عناد اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ خشکی اور سمندر اور فضا سب فساد سے بھر جاتے ہیں۔
انسان کی بے راہ روی کا مستقل انجام موت کے بعد سامنے آنے والا ہے۔ مگر انسان کی بے راہ روی کا وقتی انجام اسی دنیا میں دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو یاد دہانی ہو۔
قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلُ ۚ كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُشْرِكِينَ
📘 ایک انسان کا پیدا ہونا، اس کو صبح وشام کا رزق ملنا، اس پر موت واقع ہونا، یہ واقعات اتنے عظیم ہیں کہ ان کے ظہور کےلیے کائناتی قوت درکار ہے۔ اور خالق کائنات کے سوا کوئی بھی مفروضہ ہستی ایسی نہیں جو اس قسم کی کائناتی قوت رکھتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید اپنی دلیل آپ ہے اور شرک اپنی تردید آپ۔
اگر انسان ایک خدا کو اپنا معبود بنائے تو سب کا مرکز توجہ ایک ہوتاہے۔ اس سے انسانوں کے درمیان اتحادکی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب دوسرے دوسرے معبود بنائے جانے لگیں تو بے شمار چیزیں مرکز توجہ بن جاتی ہیں۔ اس سے افراد اور قوموں میں عناد اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ خشکی اور سمندر اور فضا سب فساد سے بھر جاتے ہیں۔
انسان کی بے راہ روی کا مستقل انجام موت کے بعد سامنے آنے والا ہے۔ مگر انسان کی بے راہ روی کا وقتی انجام اسی دنیا میں دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو یاد دہانی ہو۔
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ الْقَيِّمِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
📘 موجودہ دنیا میں اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ آخرت اس ليے آئے گی کہ وہ دونوں قسم کے لوگوں کو الگ الگ کردے۔ اس دن خدا کا انعام ان لوگوں کےلیے ہوگا جو موجودہ دنیا میں صرف خداوالے بن کر رہے۔ اور جن لوگوں کی دلچسپیاں غیر خدا کے ساتھ وابستہ رہیں وہ وہاں ابدی طور پر خدا کی رحمتوں سے محروم کر دئے جائیں گے۔
مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِأَنْفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ
📘 موجودہ دنیا میں اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ آخرت اس ليے آئے گی کہ وہ دونوں قسم کے لوگوں کو الگ الگ کردے۔ اس دن خدا کا انعام ان لوگوں کےلیے ہوگا جو موجودہ دنیا میں صرف خداوالے بن کر رہے۔ اور جن لوگوں کی دلچسپیاں غیر خدا کے ساتھ وابستہ رہیں وہ وہاں ابدی طور پر خدا کی رحمتوں سے محروم کر دئے جائیں گے۔
لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْ فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
📘 موجودہ دنیا میں اچھے اور برے دونوں قسم کے لوگ ملے ہوئے ہیں۔ آخرت اس ليے آئے گی کہ وہ دونوں قسم کے لوگوں کو الگ الگ کردے۔ اس دن خدا کا انعام ان لوگوں کےلیے ہوگا جو موجودہ دنیا میں صرف خداوالے بن کر رہے۔ اور جن لوگوں کی دلچسپیاں غیر خدا کے ساتھ وابستہ رہیں وہ وہاں ابدی طور پر خدا کی رحمتوں سے محروم کر دئے جائیں گے۔
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ يُرْسِلَ الرِّيَاحَ مُبَشِّرَاتٍ وَلِيُذِيقَكُمْ مِنْ رَحْمَتِهِ وَلِتَجْرِيَ الْفُلْكُ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 بارش سے پہلے ٹھنڈی ہواؤں کا آنا اس بات کا اعلان هے کہ اس دنیا کا خدا رحمتوں والا خدا ہے۔ سمندری جہاز رانی تمدن کےلیے انتہائی اہم ہے۔ مگر سمندری جہازرانی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ ہوا ایک خاص حد کے اندر رہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر کا بھی بہت گہرا تعلق اس انتظام سے ہے کہ خدانے زمین کی سطح کے اوپر ہوا کا دبیز غلاف قائم کر رکھا ہے۔
یہ سارا اہتمام اس ليے کیاگیا ہے تا کہ انسان خدا کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔ خدا کے پیغمبر انھیں حقیقتوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کےلیے آئے۔ پھر کچھ لوگوں نے ان کو مانا، اور کچھ لوگوں نے ان کا انکار کردیا۔ اس وقت خدا نے ماننے والوں کی مدد کی اور انکار کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ یہی معاملہ دونوں قسم کے انسانوں کے ساتھ آخرت میں زیادہ بڑے پیمانہ پر پیش آئے گا۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوا ۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ
📘 بارش سے پہلے ٹھنڈی ہواؤں کا آنا اس بات کا اعلان هے کہ اس دنیا کا خدا رحمتوں والا خدا ہے۔ سمندری جہاز رانی تمدن کےلیے انتہائی اہم ہے۔ مگر سمندری جہازرانی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ ہوا ایک خاص حد کے اندر رہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر کا بھی بہت گہرا تعلق اس انتظام سے ہے کہ خدانے زمین کی سطح کے اوپر ہوا کا دبیز غلاف قائم کر رکھا ہے۔
یہ سارا اہتمام اس ليے کیاگیا ہے تا کہ انسان خدا کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔ خدا کے پیغمبر انھیں حقیقتوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کےلیے آئے۔ پھر کچھ لوگوں نے ان کو مانا، اور کچھ لوگوں نے ان کا انکار کردیا۔ اس وقت خدا نے ماننے والوں کی مدد کی اور انکار کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ یہی معاملہ دونوں قسم کے انسانوں کے ساتھ آخرت میں زیادہ بڑے پیمانہ پر پیش آئے گا۔
اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
📘 آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کےلیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔
وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمُبْلِسِينَ
📘 آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کےلیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔
بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنْصُرُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
فَانْظُرْ إِلَىٰ آثَارِ رَحْمَتِ اللَّهِ كَيْفَ يُحْيِي الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کےلیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔
وَلَئِنْ أَرْسَلْنَا رِيحًا فَرَأَوْهُ مُصْفَرًّا لَظَلُّوا مِنْ بَعْدِهِ يَكْفُرُونَ
📘 آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کےلیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔
فَإِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَىٰ وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَاءَ إِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِينَ
📘 آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کےلیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔
وَمَا أَنْتَ بِهَادِ الْعُمْيِ عَنْ ضَلَالَتِهِمْ ۖ إِنْ تُسْمِعُ إِلَّا مَنْ يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ مُسْلِمُونَ
📘 آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کےلیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔
۞ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ ضَعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضَعْفًا وَشَيْبَةً ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْقَدِيرُ
📘 انسان پیدا ہوتا ہے تووہ نہایت کمزور بچہ ہوتاہے۔ پھر درمیان میں طاقت اور جوانی کے کچھ سال گزارنے کے بعد دوبارہ بڑھاپے کی کمزوری آجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طاقت اس کی اپنی نہیں ہے۔ وہ اس کو دینے سے ملتی ہے۔ یہ دینے والے کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے دے اور جب چاہے واپس لے لے۔
دنیا کی زندگی میں آدمی آخرت کےلیے فکر مند نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ قیامت اس کو بہت دور کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صرف بے خبری کی بات ہے۔ قیامت جب آئے گی تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ بس ایک گھڑی پچھلی دنیا میں رہنا ہوا تھا کہ اگلی دنیا کا مرحلہ پیش آگیا۔
وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُقْسِمُ الْمُجْرِمُونَ مَا لَبِثُوا غَيْرَ سَاعَةٍ ۚ كَذَٰلِكَ كَانُوا يُؤْفَكُونَ
📘 انسان پیدا ہوتا ہے تووہ نہایت کمزور بچہ ہوتاہے۔ پھر درمیان میں طاقت اور جوانی کے کچھ سال گزارنے کے بعد دوبارہ بڑھاپے کی کمزوری آجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طاقت اس کی اپنی نہیں ہے۔ وہ اس کو دینے سے ملتی ہے۔ یہ دینے والے کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے دے اور جب چاہے واپس لے لے۔
دنیا کی زندگی میں آدمی آخرت کےلیے فکر مند نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ قیامت اس کو بہت دور کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صرف بے خبری کی بات ہے۔ قیامت جب آئے گی تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ بس ایک گھڑی پچھلی دنیا میں رہنا ہوا تھا کہ اگلی دنیا کا مرحلہ پیش آگیا۔
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَىٰ يَوْمِ الْبَعْثِ ۖ فَهَٰذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَٰكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 انسان پیدا ہوتا ہے تووہ نہایت کمزور بچہ ہوتاہے۔ پھر درمیان میں طاقت اور جوانی کے کچھ سال گزارنے کے بعد دوبارہ بڑھاپے کی کمزوری آجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طاقت اس کی اپنی نہیں ہے۔ وہ اس کو دینے سے ملتی ہے۔ یہ دینے والے کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے دے اور جب چاہے واپس لے لے۔
دنیا کی زندگی میں آدمی آخرت کےلیے فکر مند نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ قیامت اس کو بہت دور کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صرف بے خبری کی بات ہے۔ قیامت جب آئے گی تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ بس ایک گھڑی پچھلی دنیا میں رہنا ہوا تھا کہ اگلی دنیا کا مرحلہ پیش آگیا۔
فَيَوْمَئِذٍ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَعْذِرَتُهُمْ وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
📘 انسان پیدا ہوتا ہے تووہ نہایت کمزور بچہ ہوتاہے۔ پھر درمیان میں طاقت اور جوانی کے کچھ سال گزارنے کے بعد دوبارہ بڑھاپے کی کمزوری آجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی طاقت اس کی اپنی نہیں ہے۔ وہ اس کو دینے سے ملتی ہے۔ یہ دینے والے کے اختیار میں ہے کہ وہ جب چاہے دے اور جب چاہے واپس لے لے۔
دنیا کی زندگی میں آدمی آخرت کےلیے فکر مند نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ قیامت اس کو بہت دور کی چیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صرف بے خبری کی بات ہے۔ قیامت جب آئے گی تو اس کو ایسا معلوم ہوگا کہ بس ایک گھڑی پچھلی دنیا میں رہنا ہوا تھا کہ اگلی دنیا کا مرحلہ پیش آگیا۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ۚ وَلَئِنْ جِئْتَهُمْ بِآيَةٍ لَيَقُولَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا مُبْطِلُونَ
📘 مکہ میں لوگ کہتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو کوئی خارق عادت کرشمہ دکھاؤ۔ مگر ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کیاگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خارق عادت کرشمہ اصل مقصد کے اعتبار سے بے فائدہ تھا۔ اسلام کا مقصد تو یہ تھا کہ لوگوں کے عمل میں تبدیلی ہو اور عمل میں تبدیلی فکر کی تبدیلی سے آتی ہے، نہ کہ خارق عادت کرشمہ دکھا کر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دینے سے۔
چنانچہ قرآن کا سارا زور استدلال پر ہے۔ وہ دلیل کے ذریعہ انسان کے ذہن کو بدلنا چاہتا ہے۔وہ آدمی کو اس قابل بنانا چاہتا ہے کہ واقعات کو صحیح رخ سے دیکھے اور معاملات پر صحیح رائے قائم کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ صحت فکر ہے۔ اگر آدمی کے اندر صحیح فکر نہ جاگا ہو تو کرشموں اور معجزوں کو دیکھ کر دوبارہ وہ کوئی ناسمجھی کا لفظ بول دے گا جس طرح وہ اس سے پہلے ناسمجھی کے الفاظ بولتا رہا ہے۔
لاعلمی کی بنا پر مہر لگنا صحت فکر نہ ہونے کی وجہ سے باتوں کو نہ سمجھنا ہے۔ آدمی کے اندر رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ چیزوں کو ان کے صحیح رخ سے نہیں دیکھ پاتا۔ اس بنا پر وہ چیزوں سے اپنے ليے صحیح رہنمائی بھی حاصل نہیں کرپاتا۔جو اللہ کا بندہ بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھے اس کو ہمیشہ لوگوں کی طرف سے حوصلہ شکن رد عمل کا سامنا پیش آتا ہے۔ داعی تمام تر آخرت کی بات کرتا ہے جب کہ لوگوں کا ذہن دنیا کے مسائل میں الجھا ہوا ہوتاہے۔ اس بنا پر لوگ داعی کی تحقیر کرتے ہیں۔ وہ اس کو ہر لحاظ سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماحول میں داعی کی بات بے وزن معلوم ہونے لگتی ہے۔
یہ صورت حال مدعو کے ساتھ داعی کو بھی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ ایسے وقت میں داعی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے یقین کو نہ کھوئے۔ اگر حالات کے دباؤ کے تحت اس نے اپنے یقین کو کھو دیا تو وہ ایسی بات بولنے لگے گا جو عام لوگوں کو شاید اہم معلوم ہو، مگر اللہ کی نظر میں اس سے زیادہ غیر اہم بات اور کوئی نہ ہوگی۔
كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
📘 مکہ میں لوگ کہتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو کوئی خارق عادت کرشمہ دکھاؤ۔ مگر ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کیاگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خارق عادت کرشمہ اصل مقصد کے اعتبار سے بے فائدہ تھا۔ اسلام کا مقصد تو یہ تھا کہ لوگوں کے عمل میں تبدیلی ہو اور عمل میں تبدیلی فکر کی تبدیلی سے آتی ہے، نہ کہ خارق عادت کرشمہ دکھا کر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دینے سے۔
چنانچہ قرآن کا سارا زور استدلال پر ہے۔ وہ دلیل کے ذریعہ انسان کے ذہن کو بدلنا چاہتا ہے۔وہ آدمی کو اس قابل بنانا چاہتا ہے کہ واقعات کو صحیح رخ سے دیکھے اور معاملات پر صحیح رائے قائم کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ صحت فکر ہے۔ اگر آدمی کے اندر صحیح فکر نہ جاگا ہو تو کرشموں اور معجزوں کو دیکھ کر دوبارہ وہ کوئی ناسمجھی کا لفظ بول دے گا جس طرح وہ اس سے پہلے ناسمجھی کے الفاظ بولتا رہا ہے۔
لاعلمی کی بنا پر مہر لگنا صحت فکر نہ ہونے کی وجہ سے باتوں کو نہ سمجھنا ہے۔ آدمی کے اندر رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ چیزوں کو ان کے صحیح رخ سے نہیں دیکھ پاتا۔ اس بنا پر وہ چیزوں سے اپنے ليے صحیح رہنمائی بھی حاصل نہیں کرپاتا۔جو اللہ کا بندہ بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھے اس کو ہمیشہ لوگوں کی طرف سے حوصلہ شکن رد عمل کا سامنا پیش آتا ہے۔ داعی تمام تر آخرت کی بات کرتا ہے جب کہ لوگوں کا ذہن دنیا کے مسائل میں الجھا ہوا ہوتاہے۔ اس بنا پر لوگ داعی کی تحقیر کرتے ہیں۔ وہ اس کو ہر لحاظ سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماحول میں داعی کی بات بے وزن معلوم ہونے لگتی ہے۔
یہ صورت حال مدعو کے ساتھ داعی کو بھی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ ایسے وقت میں داعی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے یقین کو نہ کھوئے۔ اگر حالات کے دباؤ کے تحت اس نے اپنے یقین کو کھو دیا تو وہ ایسی بات بولنے لگے گا جو عام لوگوں کو شاید اہم معلوم ہو، مگر اللہ کی نظر میں اس سے زیادہ غیر اہم بات اور کوئی نہ ہوگی۔
وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّكَ الَّذِينَ لَا يُوقِنُونَ
📘 مکہ میں لوگ کہتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو کوئی خارق عادت کرشمہ دکھاؤ۔ مگر ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کیاگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خارق عادت کرشمہ اصل مقصد کے اعتبار سے بے فائدہ تھا۔ اسلام کا مقصد تو یہ تھا کہ لوگوں کے عمل میں تبدیلی ہو اور عمل میں تبدیلی فکر کی تبدیلی سے آتی ہے، نہ کہ خارق عادت کرشمہ دکھا کر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دینے سے۔
چنانچہ قرآن کا سارا زور استدلال پر ہے۔ وہ دلیل کے ذریعہ انسان کے ذہن کو بدلنا چاہتا ہے۔وہ آدمی کو اس قابل بنانا چاہتا ہے کہ واقعات کو صحیح رخ سے دیکھے اور معاملات پر صحیح رائے قائم کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ صحت فکر ہے۔ اگر آدمی کے اندر صحیح فکر نہ جاگا ہو تو کرشموں اور معجزوں کو دیکھ کر دوبارہ وہ کوئی ناسمجھی کا لفظ بول دے گا جس طرح وہ اس سے پہلے ناسمجھی کے الفاظ بولتا رہا ہے۔
لاعلمی کی بنا پر مہر لگنا صحت فکر نہ ہونے کی وجہ سے باتوں کو نہ سمجھنا ہے۔ آدمی کے اندر رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ چیزوں کو ان کے صحیح رخ سے نہیں دیکھ پاتا۔ اس بنا پر وہ چیزوں سے اپنے ليے صحیح رہنمائی بھی حاصل نہیں کرپاتا۔جو اللہ کا بندہ بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھے اس کو ہمیشہ لوگوں کی طرف سے حوصلہ شکن رد عمل کا سامنا پیش آتا ہے۔ داعی تمام تر آخرت کی بات کرتا ہے جب کہ لوگوں کا ذہن دنیا کے مسائل میں الجھا ہوا ہوتاہے۔ اس بنا پر لوگ داعی کی تحقیر کرتے ہیں۔ وہ اس کو ہر لحاظ سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماحول میں داعی کی بات بے وزن معلوم ہونے لگتی ہے۔
یہ صورت حال مدعو کے ساتھ داعی کو بھی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ ایسے وقت میں داعی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے یقین کو نہ کھوئے۔ اگر حالات کے دباؤ کے تحت اس نے اپنے یقین کو کھو دیا تو وہ ایسی بات بولنے لگے گا جو عام لوگوں کو شاید اہم معلوم ہو، مگر اللہ کی نظر میں اس سے زیادہ غیر اہم بات اور کوئی نہ ہوگی۔
يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ
📘 ظہور اسلام کے وقت دنیا میں دو بہت بڑی سلطنتیں تھیں۔ ایک، مسیحی رومی سلطنت۔ دوسرے مجوسی ایرانی سلطنت۔ دونوں میں ہمیشہ رقیبانہ کش مکش جاری رہتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے بعد
603
ء کا واقعہ ہے کہ بعض کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر ایران نے رومی سلطنت پر حملہ کردیا۔ رومیوں کو شکست پر شکست ہوئی۔ یہاں تک کہ
616
ء تک یروشلم سمیت روم کی مشرقی سلطنت کا بڑا حصہ ایرانیوں کے قبضہ میں چلا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت 610 ء میں ملی اور آپؐ نے مکہ میں دعوت توحید کا کام شروع کیا۔ اس لحاظ سے یہ عین وہی زمانہ تھا جب کہ مکہ میں توحید اور شرک کی کش مکش جاری تھی۔ مکہ کے مشرکین نے سرحدی واقعہ سے فال لیتے ہوئے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے مشرک بھائیوں (مجوس) نے تمھارے اہل کتاب بھائیوں (مسیحی) کو شکست دي ہے۔ اسی طرح ہم بھی تمھارا خاتمہ کردیں گے۔
اس وقت قرآن میں حالات كے سراسر خلاف یہ پیشین گوئی اتری کہ دس سال کے اندر رومی دوبارہ ایرانیوں پر غالب آجائیں گے۔ رومی مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کے جلد ہی بعد روم کے شکست خوردہ بادشاہ (ہرقل) میں پُراسرار طور پر تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ
623
ء میں اس نے ایران پر جوابی حملہ کیا۔
624
ء میں اس نے ایران پر فیصلہ کن فتح حاصل کی۔
627
ء تک اس نے اپنے سارے مقبوضہ علاقے ایرانیوں سے واپس لے ليے۔ قرآن کی پیشین گوئی لفظ بلفظ پوری ہوئی اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کا مصنف خداہے۔ خدا کے سوا کوئی بھی مستقبل کے بارے میں اتنا صحیح بیان نہیں دے سکتا۔
مزیدیہ واقعہ بتاتا ہے کہ ہار اور جیت براہِ راست خدا کے اختیار میں ہے۔ اسی کے فیصلہ سے کسی کو اقتدار ملتاہے اور کسی سے اقتدار چھن جاتاہے۔ ایک قوم کا گرنا اور دوسری قوم کا اٹھنا بظاہر عام دنیوی واقعہ ہے۔ مگر اس ظاہر کا ایک باطن ہے۔ ہر واقعہ کے پیچھے خدا کے فرشتے فیصلہ کن طورپر کام کررہے ہوتے ہیں، اگر چہ وہ عام انسانی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتے — — اسی طرح موجودہ عالم ظاہر کا بھی ایک باطن ہے اور وہ عالم آخرت ہے۔
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ۗ مَا خَلَقَ اللَّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّهِمْ لَكَافِرُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُوا الْأَرْضَ وَعَمَرُوهَا أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
📘 ایک مکمل دنیا کا موجود ہونا پہلی تخلیق کا یقینی ثبوت ہے۔ پھر جب پہلی تخلیق ممکن ہے تو دوسری تخلیق کیوں ممکن نہیں۔ جو شخص موجودہ دنیا کو مانے اور آخرت کو نہ مانے وہ خود اپنی مانی ہوئی بات کے لازمی تقاضے کا انکار کررہا ہے۔
’’مجرمین‘‘ سے مراد وہ بڑے لوگ ہیں جنھوںنے انکار حق کی مہم کی قیادت کی۔ جنھوں نے انکار حق کےلیے دلائل فراہم کيے۔ قیامت کا دھماکہ جب نظام عالم کو بدلے گا تو اچانک یہ مجرمین دیکھیں گے کہ وہ تمام سہارے بالکل بے بنیاد تھے جن پر انھیں بڑا ناز تھا۔ وہ تمام الفاظ جھوٹے الفاظ ثابت ہوئے جن کو وہ اپنے موقف کے حق میں ناقابل تردید دلیل سمجھتے تھے۔ اپنی امیدوں اور خوش خیالیوں کے برعکس جب وہ اِس صورت حال کو دیکھیں گے تو وہ بالکل حیرت زدہ ہو کر رہ جائیںگے۔
قیامت میں انسانوں کی دو تقسیم کی جائے گی۔ ایک، خدا کی حمد وتسبیح کرنے والے لوگ۔ دوسرے، حمد وتسبیح سے خالی لوگ۔ خدا کی حمدوتسبیح کرنے والے لوگ وہ ہیں جو خدا کو اس طرح پائیں کہ وہ ان کی یادوں میں سما جائے۔ وہ ان کے دماغ کی سوچ اور ان کی زبان کا تذکرہ بن جائے۔ اسی حمد وتسبیح کی ایک متعین صورت کانام پانچ وقت کی نماز ہے۔ آیت میں صبح کی تسبیح سے مراد فجر کی نماز ہے۔ شام کی تسبیح میں مغرب اور عشا ء کی نمازیں شامل ہیں۔ دوپہر ڈھلنے کے بعد کی تسبیح سے مراد ظہر کی نماز ہے۔ اور دن کے پچھلے وقت کی تسبیح سے مراد عصرکی نماز۔