slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الشورى

(Ash-Shura) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ حم

📘 اگر آدمي كو لامحدود نگاه حاصل هوجائے تو وه ديكھے گا كه يهاں ايك خدا هے جو سارے زمين وآسمان كا مالك هے۔ اس كي طاقت اتني زبردست هے كه كائنات اس كي هيبت سے گويا پھٹي جارهي هے۔ فرشتے جو براهِ راست خدا كي خدائي سے باخبر هيں وه هر آن خشيت ميں ڈوبے هوئے اس كي حمد وتسبيح كررهے هيں۔ پھر وه ديكھے گا كه خدا اپني قدرت خاص سے انسانوں ميں سے بعض افراد كو چنتا هے اور انھيں بالواسطه انداز ميں اپنا كلام پهنچاتا هے تاكه وه تمام انسانوں كو حقيقتِ واقعه سے باخبر كرديں۔انسان اگرچه ان حقيقتوں كو براهِ راست طورپر نهيں ديكھتا مگر وه عقل كے ذريعه بالواسطه طور پر ان كا ادراك كرسكتا هے۔ يهي آدمي كا اصل امتحان هے ۔ انسان كي يه ذمه داري هے كه وه بصارت سے دكھائي نه دينے والي چيزوں كو بصيرت كي نظر سے ديكھے۔ وه پيغمبروں كے كلام ميں خدا كي آواز سنے اور اس كے آگے اپنے آپ كو جھكا دے ۔ وه ديكھے بغير اس طرح مان لے گويا كه وه اپني آنكھوں سے سب كچھ ديكھ رها هے۔ قيامت كے دن كسي كے لیے يه بات عذر نه بن سكے گي كه اس نے حقيقت كو براهِ راست نه ديكھا تھا۔ كيوں كه موجوده امتحان كي دنيا ميں حقيقت كو براهِ راست دكھانا مطلوب هي نهيں۔ اگراصل پيغام كسي شخص تك پوري طرح پهنچ جائے تو اس كے بعد خدا كے نزديك اس پر حجت قائم هوجاتي هے۔ حقيقت كا دليل كي زبان ميں ظاهر هوجانا هي كافي هےكہ اس كو انكار حق كا مجرم قرار دے كر وه سزا دي جائے جو منكرينِ حق كے لیے مقدر هے۔

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهُ إِلَى اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ

📘 زمين وآسمان كي صورت ميں جو واقعه همارے سامنے هے وه اتنا عظيم واقعه هے كه يه ناقابل قياس هے كه ان معبودوں ميں سے كسي معبود نے ان كو وجود عطا كيا هو جن كی لوگ خدا كے سوا تعظيم وتقديس كرتے هيں۔ اِسي طرح انسانوں اور جانوروں كے اندروني نظام ميں ان كي نسل كي بقا كا انتظام اتنا پيچيده هے كه اس كو حقيقي طورپر نه كسي انسان كي طرف منسوب كيا جاسكتا اور نه خدا كے سوا معبودوں ميں سے كسي معبود كي طرف۔يه سب كام اتنے غير معمولي هيں كه بے مثل خدا هي كي طرف انھيں جائز طورپر منسوب كياجاسكتا هے۔ خالق كي جو صفات اس كي مخلوقات كے مشاهده كے ذريعه همارے علم ميں آتي هيں وهي يه ثابت كرنے كے لیے كافي هيں كه يه خالق كس قدر عظيم هے۔ وه سميع وبصير هے۔ وه هر قسم كے اعلي اختيارات كا مالك هے۔ كسي كو جو كچھ ملتا هے اسي كے دئے سے ملتا هے اور كسي سے جو كچھ چھنتا هے اسي كے چھيننے سے چھنتا هے۔ وه اپني مثال آپ هے، اس كے جيسا كوئي اور نهيں۔

فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۖ يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ ۚ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ

📘 زمين وآسمان كي صورت ميں جو واقعه همارے سامنے هے وه اتنا عظيم واقعه هے كه يه ناقابل قياس هے كه ان معبودوں ميں سے كسي معبود نے ان كو وجود عطا كيا هو جن كی لوگ خدا كے سوا تعظيم وتقديس كرتے هيں۔ اِسي طرح انسانوں اور جانوروں كے اندروني نظام ميں ان كي نسل كي بقا كا انتظام اتنا پيچيده هے كه اس كو حقيقي طورپر نه كسي انسان كي طرف منسوب كيا جاسكتا اور نه خدا كے سوا معبودوں ميں سے كسي معبود كي طرف۔يه سب كام اتنے غير معمولي هيں كه بے مثل خدا هي كي طرف انھيں جائز طورپر منسوب كياجاسكتا هے۔ خالق كي جو صفات اس كي مخلوقات كے مشاهده كے ذريعه همارے علم ميں آتي هيں وهي يه ثابت كرنے كے لیے كافي هيں كه يه خالق كس قدر عظيم هے۔ وه سميع وبصير هے۔ وه هر قسم كے اعلي اختيارات كا مالك هے۔ كسي كو جو كچھ ملتا هے اسي كے دئے سے ملتا هے اور كسي سے جو كچھ چھنتا هے اسي كے چھيننے سے چھنتا هے۔ وه اپني مثال آپ هے، اس كے جيسا كوئي اور نهيں۔

لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 زمين وآسمان كي صورت ميں جو واقعه همارے سامنے هے وه اتنا عظيم واقعه هے كه يه ناقابل قياس هے كه ان معبودوں ميں سے كسي معبود نے ان كو وجود عطا كيا هو جن كی لوگ خدا كے سوا تعظيم وتقديس كرتے هيں۔ اِسي طرح انسانوں اور جانوروں كے اندروني نظام ميں ان كي نسل كي بقا كا انتظام اتنا پيچيده هے كه اس كو حقيقي طورپر نه كسي انسان كي طرف منسوب كيا جاسكتا اور نه خدا كے سوا معبودوں ميں سے كسي معبود كي طرف۔يه سب كام اتنے غير معمولي هيں كه بے مثل خدا هي كي طرف انھيں جائز طورپر منسوب كياجاسكتا هے۔ خالق كي جو صفات اس كي مخلوقات كے مشاهده كے ذريعه همارے علم ميں آتي هيں وهي يه ثابت كرنے كے لیے كافي هيں كه يه خالق كس قدر عظيم هے۔ وه سميع وبصير هے۔ وه هر قسم كے اعلي اختيارات كا مالك هے۔ كسي كو جو كچھ ملتا هے اسي كے دئے سے ملتا هے اور كسي سے جو كچھ چھنتا هے اسي كے چھيننے سے چھنتا هے۔ وه اپني مثال آپ هے، اس كے جيسا كوئي اور نهيں۔

۞ شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ مَا وَصَّىٰ بِهِ نُوحًا وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَىٰ ۖ أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ ۚ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ ۚ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي إِلَيْهِ مَنْ يُنِيبُ

📘 تمام پيغمبر ايك هي دين لے كر آئے۔ اور وه دينِ توحيد هے۔ مگر ان پيغمبروں كے ماننے والے بعد كو الگ الگ ديني فرقوں ميں تقسيم هوگئے۔ اس كي وجه مركز توجه ميں تبديلي تھي۔ پيغمبروں كے اصل دين ميں مركز توجه تمام تر خدا تھا۔ هر ايك كي تعليم يه تھي كه صرف ايك خدا كے پرستار بنو۔ مگر ان كي امتوں نے بعد كو اپنا مركز توجه تبديل كرديا۔ وه خدا كے بجائے غير خدا كے پرستاربن گئے۔ قديم عرب كے لوگ ابتداء ً حضرت ابراهيم كي امت تھے۔ مگر بعد كو اپنے كچھ بزرگوں كي عظمت ان كے ذهنوں پر اس قدر چھائي كه انھيں كو انھوں نے اپنا مركز توجه بنا ليا۔ حتي كه ان كے بت بنا كر وه ا ن كو پوجنے لگے۔ يهود حضرت موسي كي امت تھے۔ مگر انھوں نے اپني نسل كو مخصوص نسل سمجھ ليا۔ ان كي توجهات اپني نسل كي طرف اتنا زياده مائل هوئيں كه بالآخر خدائي دين ان كے يهاں نسلي دين بن كر ره گيا۔ وه پيغمبر آخر الزماں كے صرف اس ليے منكر هوگئے كه وه ان كي اپني نسل ميں پيدا نهيں هوا تھا۔ اِسي طرح عيسائي حضرت عيسيٰ كي امت تھے۔ انھوں نے حضرت عيسيٰ كو خدا كا پيغمبر ماننے كے بجائے ان كو خدا كا بيٹا فرض كرليا۔ اس طرح بعد كو انھوں نے جو دين بنايا اس ميں ابنيت مسيح نے سب سے زياده اهميت حاصل كرلي۔ خدا كو اپنے بندوں سے جو دين مطلوب هے وه يه هے كه وه خالص توحيد پر قائم هوں۔ صرف ايك خدا ان كي تمام توجهات كا مركز بن جائے۔ يهي اقامتِ دين هے۔ اس مركز توجه ميں تبديلي كا دوسرا نام شرك هے۔ اور جب لوگوں ميں شرك آتا هے تو فوراً تفريق اور اختلاف شروع هوجاتا هے۔ كيوں كه توحيد كي صورت ميں مركز توجه ايك رهتا هے، جبكه شرك كي صورت ميں مركز توجه كئي بن جاتے هيں۔ پيغمبر عربي صلي الله عليه وسلم كا دين اگرچه اپنے متن كے اعتبار سے محفوظ دين هے۔ مگر آپ كي امت محفوظ امت نهيں۔ امت كے لوگوں كے لیے بدستور يه امكان كھلا هوا هے كه وه نئي نئي چيزوں كو اپنا مركز توجه بنائيں۔ وه خود ساخته تشريح وتعبير كے ذريعه اصل دين ميں تبديلياںکریں اور پھر ايك دين كو عملاً كئي دين بنا كر ركھ ديں۔

وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ أُورِثُوا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِي شَكٍّ مِنْهُ مُرِيبٍ

📘 علم آنے كے بعد متفرق هونے كا مطلب يه هے كه دين حق كي دعوت بلند هو اور پھر بھي آدمي اس سے الگ رهے۔ يا اس كا مخالف بن كر كھڑا هوجائے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے ذريعه الله تعالي نے دين كو اس كے خالص انداز ميں كھولا۔ اب چاهئے تھا كه تمام وه لوگ جو خدا كے طالب هيں وه آپ كے ساتھ جڑ جائيں۔ مگر وه آپ كے ساتھ جڑنے كے لیے تيار نهيں هوئے۔ پچھلے نبيوں كے ساتھ اپنے آپ كو منسوب كركے وه لوگوں كے درميان دين داري كا مقام حاصل كئے هوئے تھے۔ انھوں نے سمجھا كه يهي ان كے لیے كافي هے حالانكه جب دين صحيح كي دعوت بلند هو تو تمام لوگوں كے لیے لازم هوجاتا هے كه وه اپنے گھروندوں كو ڈھا ديں اور دين صحيح كے ساتھ اپنے آپ كو وابسته كريں۔ جو لوگ ايسا نه كريں وه خدا كے نزديك مجرم هيں ، خواه وه غير دين دار هوں يا بظاهر دين دار۔ دينِ حق كي دعوت جب اٹھتي هے تو كچھ لوگ ’’بغي‘‘ كي بنياد پر اس كے منكر بن جاتے هيں۔ اور كچھ لوگ شك كي بنياد پر اس سے دور رهتے هيں۔ بغي سے مراد حسد اور تكبر هے۔ يه ان لوگوں كا معامله هے جو ماحول ميں بڑائي كا مقام حاصل كيے هوئے هوں۔ حق كو ماننے ميں انھيں بڑائي كے مقام سے نيچے اترنا پڑتا هے۔ چونكه وه اپنے آپ كو چھوٹا كرنے پر راضي نهيں هوتے اس ليے وه حق كي دعوت كو چھوٹا كرنے ميں سرگرم هوجاتے هيں تاكه اپنے موقف كو جائز ثابت كرسكيں۔ شك اور تردد كا معامله اكثر عوام الناس كے ساتھ پيش آتا هے۔ داعي كي بات انھيں دليل كي سطح پر وزني معلوم هوتي هے۔مگر ان اكابر كو چھوڑنا بھي ان كے لیے مشكل هوتا هے جن كي عظمت ان كے ذهن پر پهلے سے قائم هوچكي هو۔ يه دو طرفه تقاضے ان كے لیے آخري فيصله تك پهنچنے ميں ركاوٹ بن جاتے هيں۔ پهلے گروه نے اگر تكبر كي نفسيات كے تحت حق كو نظر انداز كيا تھا تو دوسرا گروه شك كي نفسيات كے تحت اس كو اختيار نهيں كرپاتا۔ حق كو قبول كرنے سے يه بھي محروم رهتا هے اور وه بھي ۔

فَلِذَٰلِكَ فَادْعُ ۖ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۖ وَقُلْ آمَنْتُ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْ كِتَابٍ ۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ ۖ لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ ۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ ۖ اللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ

📘 يهاں ’’كتاب‘‘ سے مراد وه اصل دين هے جو پيغمبروں كے ذريعه بھيجا گيا۔ ’’اهواء‘‘ سے مراد وه خود ساخته اضافے هيں جو انسانوں نے خود اپني طرف سے دين حق ميں كيے۔ پيغمبر كو حكم دياگيا كه تم بس اصل دين پر جمے رهو۔حتي كه دعوتي مصلحت كي بناپر بھي تم كو ايسا نهيں كرنا هےكه لوگوں كے خود ساخته دين كے ساتھ رعايت كرنے لگو۔ تمھاراكام عدل كرنا هے۔ يعني مذهبي اختلافات كا فيصله كركے يه بتانا كه حق كيا هے اور باطل كيا۔ كون سا حصه وه هےجو خدا كي طرف سے هے اور كون سا حصه انساني آميزش كے تحت دين ميں شامل كرليا گيا هے۔ ’’همارے اور تمھارے درميان كوئي جھگڑا نهيں‘‘ كا مطلب يه هے كه تمھارے جھگڑنے كے باوجود هم ايسا نهيں كريں گے كه هم بھي تم سے جھگڑنے لگيں۔ تم منفي رويه اختيار كرو تب بھي هم يك طرفه طورپر اپنے مثبت رويه پر قائم رهيں گے۔ داعي كي ذمه داري صرف حق كا پيغام پهنچانے كي هے۔ اس كے علاوه جو چيزيں هيں ان كو وه خدا كے حواله كرديتا هے۔ جو لوگ حق كو قبول كرليں ان كو تنگ كرنا اور ان كو بے كار بحثوں ميں الجھانا نهايت ظالمانه كام هے۔ ايسا كرنے والے اپنے آپ كو اس خطره ميں مبتلا كررهے هيں كه آخرت ميں ان پر خدا كا غضب هو اور ان كو سخت عذاب ميں ڈال ديا جائے۔

وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ

📘 يهاں ’’كتاب‘‘ سے مراد وه اصل دين هے جو پيغمبروں كے ذريعه بھيجا گيا۔ ’’اهواء‘‘ سے مراد وه خود ساخته اضافے هيں جو انسانوں نے خود اپني طرف سے دين حق ميں كيے۔ پيغمبر كو حكم دياگيا كه تم بس اصل دين پر جمے رهو۔حتي كه دعوتي مصلحت كي بناپر بھي تم كو ايسا نهيں كرنا هےكه لوگوں كے خود ساخته دين كے ساتھ رعايت كرنے لگو۔ تمھاراكام عدل كرنا هے۔ يعني مذهبي اختلافات كا فيصله كركے يه بتانا كه حق كيا هے اور باطل كيا۔ كون سا حصه وه هےجو خدا كي طرف سے هے اور كون سا حصه انساني آميزش كے تحت دين ميں شامل كرليا گيا هے۔ ’’همارے اور تمھارے درميان كوئي جھگڑا نهيں‘‘ كا مطلب يه هے كه تمھارے جھگڑنے كے باوجود هم ايسا نهيں كريں گے كه هم بھي تم سے جھگڑنے لگيں۔ تم منفي رويه اختيار كرو تب بھي هم يك طرفه طورپر اپنے مثبت رويه پر قائم رهيں گے۔ داعي كي ذمه داري صرف حق كا پيغام پهنچانے كي هے۔ اس كے علاوه جو چيزيں هيں ان كو وه خدا كے حواله كرديتا هے۔ جو لوگ حق كو قبول كرليں ان كو تنگ كرنا اور ان كو بے كار بحثوں ميں الجھانا نهايت ظالمانه كام هے۔ ايسا كرنے والے اپنے آپ كو اس خطره ميں مبتلا كررهے هيں كه آخرت ميں ان پر خدا كا غضب هو اور ان كو سخت عذاب ميں ڈال ديا جائے۔

اللَّهُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ ۗ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيبٌ

📘 جس طرح مادي چيزوں كو تولنے كے لیے ترازو هوتي هے اسي طرح معنوي حقيقتوں كو تولنے كے لیے خدانے اپني كتاب اتاري هے۔ خدا كي كتاب حق اور باطل كو ايك دوسرے سے الگ كرنے كي كسوٹي هے۔ هر دوسري چيز كو خدا كي كتاب پر جانچا جائے گا، نه يه كه خدا كي كتاب كو دوسري چيزوں پر جانچا جانے لگے۔ پيغمبركے زمانه ميں جو لوگ آپ كي مخالفت كررهے تھے ان كي غلطي يه تھي كه ان كي قومي روايات اور ان كے اكابر كے اقوال واعمال سے ان كے يهاں جو دين بنا تھا اس كو معيار مان كر اسي كي روشني ميں وه خدا كي كتاب كو ديكھتے تھے۔ حالانكه ان كے لیے صحيح بات يه تھي كه وه قومي روايات اور بزرگوں كے اقوال وافعال كو خدا كي كتاب كي روشني ميں ديكھيں۔ جو چيز خدا كي كتاب كے معيار پر پوري اترے اس كو ليں اور جو چيز خدا كي كتاب كے معيار پر پوري نه اترے اس كو چھوڑ ديں۔ جانچنے كا يه كام موجوده دنيا ميں آدمي كو خود كرنا هے۔ آخرت ميں يه كام خدا كي طرف سے انجام ديا جائےگا۔ عقل مند وه هے جو قيامت ميں تولے جانے سے پهلے اپنے آپ كو تول لے۔كيونكه قيامت كي تول آخري فيصله كے لیے هوگي، نه كه عمل كي مهلت دينے كے ليے۔

يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِهَا ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا مُشْفِقُونَ مِنْهَا وَيَعْلَمُونَ أَنَّهَا الْحَقُّ ۗ أَلَا إِنَّ الَّذِينَ يُمَارُونَ فِي السَّاعَةِ لَفِي ضَلَالٍ بَعِيدٍ

📘 جس طرح مادي چيزوں كو تولنے كے لیے ترازو هوتي هے اسي طرح معنوي حقيقتوں كو تولنے كے لیے خدانے اپني كتاب اتاري هے۔ خدا كي كتاب حق اور باطل كو ايك دوسرے سے الگ كرنے كي كسوٹي هے۔ هر دوسري چيز كو خدا كي كتاب پر جانچا جائے گا، نه يه كه خدا كي كتاب كو دوسري چيزوں پر جانچا جانے لگے۔ پيغمبركے زمانه ميں جو لوگ آپ كي مخالفت كررهے تھے ان كي غلطي يه تھي كه ان كي قومي روايات اور ان كے اكابر كے اقوال واعمال سے ان كے يهاں جو دين بنا تھا اس كو معيار مان كر اسي كي روشني ميں وه خدا كي كتاب كو ديكھتے تھے۔ حالانكه ان كے لیے صحيح بات يه تھي كه وه قومي روايات اور بزرگوں كے اقوال وافعال كو خدا كي كتاب كي روشني ميں ديكھيں۔ جو چيز خدا كي كتاب كے معيار پر پوري اترے اس كو ليں اور جو چيز خدا كي كتاب كے معيار پر پوري نه اترے اس كو چھوڑ ديں۔ جانچنے كا يه كام موجوده دنيا ميں آدمي كو خود كرنا هے۔ آخرت ميں يه كام خدا كي طرف سے انجام ديا جائےگا۔ عقل مند وه هے جو قيامت ميں تولے جانے سے پهلے اپنے آپ كو تول لے۔كيونكه قيامت كي تول آخري فيصله كے لیے هوگي، نه كه عمل كي مهلت دينے كے ليے۔

اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ

📘 دنيا كي زندگي امتحان كے لیے هے۔ يهاں هر آدمي كو بقدر امتحان ضروري اسباب دئے جاتے هيں۔ اب جو شخص آخرت پسند هو وه موجوده دنيا كے اسباب كو آخرت كي تعمير كے لیے استعمال كرے گا اور اس كے نتيجه ميں آخرت ميں مزيد اضافه كے ساتھ اپنا انعام پائے گا۔ اس كے برعكس، جو شخص دنيا پسند هو وه صرف موجوده دنيا كے پيش نظر عمل كرےگا۔ ايسا شخص يقيناً موجوده دنيا ميں اپنا پھل پاسكتا هے۔ مگر آخرت ميں وه سراسر محروم رهے گا۔ جب اس نے آخرت كے ليے كچھ كيا هي نه تھا تو كيسے ممكن هے كه آخرت ميں اس كو كچھ ديا جائے۔

عسق

📘 اگر آدمي كو لامحدود نگاه حاصل هوجائے تو وه ديكھے گا كه يهاں ايك خدا هے جو سارے زمين وآسمان كا مالك هے۔ اس كي طاقت اتني زبردست هے كه كائنات اس كي هيبت سے گويا پھٹي جارهي هے۔ فرشتے جو براهِ راست خدا كي خدائي سے باخبر هيں وه هر آن خشيت ميں ڈوبے هوئے اس كي حمد وتسبيح كررهے هيں۔ پھر وه ديكھے گا كه خدا اپني قدرت خاص سے انسانوں ميں سے بعض افراد كو چنتا هے اور انھيں بالواسطه انداز ميں اپنا كلام پهنچاتا هے تاكه وه تمام انسانوں كو حقيقتِ واقعه سے باخبر كرديں۔انسان اگرچه ان حقيقتوں كو براهِ راست طورپر نهيں ديكھتا مگر وه عقل كے ذريعه بالواسطه طور پر ان كا ادراك كرسكتا هے۔ يهي آدمي كا اصل امتحان هے ۔ انسان كي يه ذمه داري هے كه وه بصارت سے دكھائي نه دينے والي چيزوں كو بصيرت كي نظر سے ديكھے۔ وه پيغمبروں كے كلام ميں خدا كي آواز سنے اور اس كے آگے اپنے آپ كو جھكا دے ۔ وه ديكھے بغير اس طرح مان لے گويا كه وه اپني آنكھوں سے سب كچھ ديكھ رها هے۔ قيامت كے دن كسي كے لیے يه بات عذر نه بن سكے گي كه اس نے حقيقت كو براهِ راست نه ديكھا تھا۔ كيوں كه موجوده امتحان كي دنيا ميں حقيقت كو براهِ راست دكھانا مطلوب هي نهيں۔ اگراصل پيغام كسي شخص تك پوري طرح پهنچ جائے تو اس كے بعد خدا كے نزديك اس پر حجت قائم هوجاتي هے۔ حقيقت كا دليل كي زبان ميں ظاهر هوجانا هي كافي هےكہ اس كو انكار حق كا مجرم قرار دے كر وه سزا دي جائے جو منكرينِ حق كے لیے مقدر هے۔

مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ

📘 دنيا كي زندگي امتحان كے لیے هے۔ يهاں هر آدمي كو بقدر امتحان ضروري اسباب دئے جاتے هيں۔ اب جو شخص آخرت پسند هو وه موجوده دنيا كے اسباب كو آخرت كي تعمير كے لیے استعمال كرے گا اور اس كے نتيجه ميں آخرت ميں مزيد اضافه كے ساتھ اپنا انعام پائے گا۔ اس كے برعكس، جو شخص دنيا پسند هو وه صرف موجوده دنيا كے پيش نظر عمل كرےگا۔ ايسا شخص يقيناً موجوده دنيا ميں اپنا پھل پاسكتا هے۔ مگر آخرت ميں وه سراسر محروم رهے گا۔ جب اس نے آخرت كے ليے كچھ كيا هي نه تھا تو كيسے ممكن هے كه آخرت ميں اس كو كچھ ديا جائے۔

أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 جب ايك بات خدا كي كتاب سے ثابت نه هو، اس كے باوجود آدمي اس كے حق هونے پر اصرار كرے تو اس كا مطلب يه هے كه وه دوسروں كو خدا كے برابر ٹھهرارها هے۔ وه خدا كے سوا دوسروں كو يه حق دے رها هے كه وه انسان كے لیے اس كا دين وضع كريں۔يه ايك بے حد سنگين بات هے۔ حقيقت يه هے كه ’’دين‘‘ كي نوعيت كي كوئي چيز مقرر كرنے كا حق صرف ايك خدا كو هے۔ خدا كے سوا كسي اور كو يه حق دينا كھلا هوا شرك هے۔ اور شرك ايك ايسا جرم هے جو خدا كے يهاں كسي طرح معاف هونے والا نهيں۔ ’’ميں تم سے كوئي بدله نهيں چاهتا مگر يه كه قرابت داري كي محبت‘‘ —يه بات پيغمبر كي زبان سے اس وقت كهلائي گئي جب كه آپ كے قبيله قريش كے لوگ آپ كي دعوت كي راه ميں سخت ترين ركا وٹيں ڈال رهے تھے۔ ان حالات ميں اس كا مطلب يه تھا كه اگر تم ميرا دين قبول نهيں كرتے تو نه كرو مگر كم از كم قرابت داري كا لحاظ كرتے هوئے اذيت رساني سے تو باز رهو۔ بالفاظ ديگر، اگر تم كو مجھ سے مذهبي اختلاف هے تو اپنے اختلاف ميں تم اخلاق اور شرافت كي سطح سے نه گر جاؤ۔ اس طرح گويا بالواسطه انداز ميں يه بتايا گيا كه آپ كي دعوت كے مخالفين صرف مخالفين نهيں هيںبلكه وه اخلاقي مجرم بھي هيں۔ وه اپنے آپ كو اخلاق كي سطح پر غلط ثابت كررهے هيں جس كي اهميت خود ان كے نزديك بھي مسلم هے۔

تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ ۗ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ ۖ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ

📘 جب ايك بات خدا كي كتاب سے ثابت نه هو، اس كے باوجود آدمي اس كے حق هونے پر اصرار كرے تو اس كا مطلب يه هے كه وه دوسروں كو خدا كے برابر ٹھهرارها هے۔ وه خدا كے سوا دوسروں كو يه حق دے رها هے كه وه انسان كے لیے اس كا دين وضع كريں۔يه ايك بے حد سنگين بات هے۔ حقيقت يه هے كه ’’دين‘‘ كي نوعيت كي كوئي چيز مقرر كرنے كا حق صرف ايك خدا كو هے۔ خدا كے سوا كسي اور كو يه حق دينا كھلا هوا شرك هے۔ اور شرك ايك ايسا جرم هے جو خدا كے يهاں كسي طرح معاف هونے والا نهيں۔ ’’ميں تم سے كوئي بدله نهيں چاهتا مگر يه كه قرابت داري كي محبت‘‘ —يه بات پيغمبر كي زبان سے اس وقت كهلائي گئي جب كه آپ كے قبيله قريش كے لوگ آپ كي دعوت كي راه ميں سخت ترين ركا وٹيں ڈال رهے تھے۔ ان حالات ميں اس كا مطلب يه تھا كه اگر تم ميرا دين قبول نهيں كرتے تو نه كرو مگر كم از كم قرابت داري كا لحاظ كرتے هوئے اذيت رساني سے تو باز رهو۔ بالفاظ ديگر، اگر تم كو مجھ سے مذهبي اختلاف هے تو اپنے اختلاف ميں تم اخلاق اور شرافت كي سطح سے نه گر جاؤ۔ اس طرح گويا بالواسطه انداز ميں يه بتايا گيا كه آپ كي دعوت كے مخالفين صرف مخالفين نهيں هيںبلكه وه اخلاقي مجرم بھي هيں۔ وه اپنے آپ كو اخلاق كي سطح پر غلط ثابت كررهے هيں جس كي اهميت خود ان كے نزديك بھي مسلم هے۔

ذَٰلِكَ الَّذِي يُبَشِّرُ اللَّهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۗ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ ۗ وَمَنْ يَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِيهَا حُسْنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ

📘 جب ايك بات خدا كي كتاب سے ثابت نه هو، اس كے باوجود آدمي اس كے حق هونے پر اصرار كرے تو اس كا مطلب يه هے كه وه دوسروں كو خدا كے برابر ٹھهرارها هے۔ وه خدا كے سوا دوسروں كو يه حق دے رها هے كه وه انسان كے لیے اس كا دين وضع كريں۔يه ايك بے حد سنگين بات هے۔ حقيقت يه هے كه ’’دين‘‘ كي نوعيت كي كوئي چيز مقرر كرنے كا حق صرف ايك خدا كو هے۔ خدا كے سوا كسي اور كو يه حق دينا كھلا هوا شرك هے۔ اور شرك ايك ايسا جرم هے جو خدا كے يهاں كسي طرح معاف هونے والا نهيں۔ ’’ميں تم سے كوئي بدله نهيں چاهتا مگر يه كه قرابت داري كي محبت‘‘ —يه بات پيغمبر كي زبان سے اس وقت كهلائي گئي جب كه آپ كے قبيله قريش كے لوگ آپ كي دعوت كي راه ميں سخت ترين ركا وٹيں ڈال رهے تھے۔ ان حالات ميں اس كا مطلب يه تھا كه اگر تم ميرا دين قبول نهيں كرتے تو نه كرو مگر كم از كم قرابت داري كا لحاظ كرتے هوئے اذيت رساني سے تو باز رهو۔ بالفاظ ديگر، اگر تم كو مجھ سے مذهبي اختلاف هے تو اپنے اختلاف ميں تم اخلاق اور شرافت كي سطح سے نه گر جاؤ۔ اس طرح گويا بالواسطه انداز ميں يه بتايا گيا كه آپ كي دعوت كے مخالفين صرف مخالفين نهيں هيںبلكه وه اخلاقي مجرم بھي هيں۔ وه اپنے آپ كو اخلاق كي سطح پر غلط ثابت كررهے هيں جس كي اهميت خود ان كے نزديك بھي مسلم هے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا ۖ فَإِنْ يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗ وَيَمْحُ اللَّهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 اس دنيا كے ليے خدا كا قانون يه هے كه يهاں حق حق كے روپ ميں سامنے آتا هے اور باطل باطل كے روپ ميں نماياں هوتا هے۔ اگر ايك جھوٹي روح هے تو اس سے كبھي سچا كلام ظاهر نهيں هوسكتا۔ يهي وجه هے كه يهاں كسي غير پيغمبر كے ليے ممكن نهيں كه وه پيغمبر كي زبان ميں كلام كرسكے۔ ايك شخص پيغمبر نه هواور جھوٹ بول كر اپنے كو پيغمبر بتائے تو اس كے كلام ميں لازماً جھوٹے پيغمبر كا انداز پيدا هوجائے گا۔ كوئي شخص مصنوعي طور پر كبھي سچے پيغمبر كے انداز ميں نهيں بول سكتا۔ ’’اگر الله چاهے تو وه تمھارے دل پر مهر لگا دے‘‘— اس كا مطلب بدلے هوئے الفاظ ميں يه هے كه اگر تم الله پر جھوٹ باندھتے تو اس وقت مشيت خداوندي كے تحت تمھارے دل پر مهر لگ جاتي۔ايسي حالت ميں خود قانون قدرت كے تحت يه هوتا كه تمھاري زبان اس پاكيزه رباني كلام كے اظهار سے عاجز هوجاتي جس كا كھلا هوا نمونه تمھارے كلام ميں نظر آتا هے۔ حقيقت يه هے كه پيغمبر كا اعلي كلام خود اس كے پيغمبر خدا هونے كا ثبوت هے۔ اگر وه واقعي خدا كا پيغمبر نه هوتا تو اس كي زبان سے كبھي ايسا اعلي كلام ظاهر نهيں هوسكتا تھا۔ جو لوگ حق كي مخالفت كرتے هيں وه اپنے دل كي آواز كے تحت ايسا نهيں كرتے، بلكه محض ضد اور عناد كے تحت اس كے مخالف بن كر كھڑے هوجاتے هيں۔ ايسے لوگ گويا خوداپنے ضمير كي عدالت كے سامنے مجرم بن رهے هيں، ان كے اوپر خدا كي حجت تمام هوچكي هے، اِلاّ يه كه آدمي توبه كرے اور الله سے معافي كا خواستگار هو۔

وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

📘 اس دنيا كے ليے خدا كا قانون يه هے كه يهاں حق حق كے روپ ميں سامنے آتا هے اور باطل باطل كے روپ ميں نماياں هوتا هے۔ اگر ايك جھوٹي روح هے تو اس سے كبھي سچا كلام ظاهر نهيں هوسكتا۔ يهي وجه هے كه يهاں كسي غير پيغمبر كے ليے ممكن نهيں كه وه پيغمبر كي زبان ميں كلام كرسكے۔ ايك شخص پيغمبر نه هواور جھوٹ بول كر اپنے كو پيغمبر بتائے تو اس كے كلام ميں لازماً جھوٹے پيغمبر كا انداز پيدا هوجائے گا۔ كوئي شخص مصنوعي طور پر كبھي سچے پيغمبر كے انداز ميں نهيں بول سكتا۔ ’’اگر الله چاهے تو وه تمھارے دل پر مهر لگا دے‘‘— اس كا مطلب بدلے هوئے الفاظ ميں يه هے كه اگر تم الله پر جھوٹ باندھتے تو اس وقت مشيت خداوندي كے تحت تمھارے دل پر مهر لگ جاتي۔ايسي حالت ميں خود قانون قدرت كے تحت يه هوتا كه تمھاري زبان اس پاكيزه رباني كلام كے اظهار سے عاجز هوجاتي جس كا كھلا هوا نمونه تمھارے كلام ميں نظر آتا هے۔ حقيقت يه هے كه پيغمبر كا اعلي كلام خود اس كے پيغمبر خدا هونے كا ثبوت هے۔ اگر وه واقعي خدا كا پيغمبر نه هوتا تو اس كي زبان سے كبھي ايسا اعلي كلام ظاهر نهيں هوسكتا تھا۔ جو لوگ حق كي مخالفت كرتے هيں وه اپنے دل كي آواز كے تحت ايسا نهيں كرتے، بلكه محض ضد اور عناد كے تحت اس كے مخالف بن كر كھڑے هوجاتے هيں۔ ايسے لوگ گويا خوداپنے ضمير كي عدالت كے سامنے مجرم بن رهے هيں، ان كے اوپر خدا كي حجت تمام هوچكي هے، اِلاّ يه كه آدمي توبه كرے اور الله سے معافي كا خواستگار هو۔

وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَيَزِيدُهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۚ وَالْكَافِرُونَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ

📘 اس دنيا كے ليے خدا كا قانون يه هے كه يهاں حق حق كے روپ ميں سامنے آتا هے اور باطل باطل كے روپ ميں نماياں هوتا هے۔ اگر ايك جھوٹي روح هے تو اس سے كبھي سچا كلام ظاهر نهيں هوسكتا۔ يهي وجه هے كه يهاں كسي غير پيغمبر كے ليے ممكن نهيں كه وه پيغمبر كي زبان ميں كلام كرسكے۔ ايك شخص پيغمبر نه هواور جھوٹ بول كر اپنے كو پيغمبر بتائے تو اس كے كلام ميں لازماً جھوٹے پيغمبر كا انداز پيدا هوجائے گا۔ كوئي شخص مصنوعي طور پر كبھي سچے پيغمبر كے انداز ميں نهيں بول سكتا۔ ’’اگر الله چاهے تو وه تمھارے دل پر مهر لگا دے‘‘— اس كا مطلب بدلے هوئے الفاظ ميں يه هے كه اگر تم الله پر جھوٹ باندھتے تو اس وقت مشيت خداوندي كے تحت تمھارے دل پر مهر لگ جاتي۔ايسي حالت ميں خود قانون قدرت كے تحت يه هوتا كه تمھاري زبان اس پاكيزه رباني كلام كے اظهار سے عاجز هوجاتي جس كا كھلا هوا نمونه تمھارے كلام ميں نظر آتا هے۔ حقيقت يه هے كه پيغمبر كا اعلي كلام خود اس كے پيغمبر خدا هونے كا ثبوت هے۔ اگر وه واقعي خدا كا پيغمبر نه هوتا تو اس كي زبان سے كبھي ايسا اعلي كلام ظاهر نهيں هوسكتا تھا۔ جو لوگ حق كي مخالفت كرتے هيں وه اپنے دل كي آواز كے تحت ايسا نهيں كرتے، بلكه محض ضد اور عناد كے تحت اس كے مخالف بن كر كھڑے هوجاتے هيں۔ ايسے لوگ گويا خوداپنے ضمير كي عدالت كے سامنے مجرم بن رهے هيں، ان كے اوپر خدا كي حجت تمام هوچكي هے، اِلاّ يه كه آدمي توبه كرے اور الله سے معافي كا خواستگار هو۔

۞ وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِنْ يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ

📘 زمين پر انساني زندگي كا انحصار پاني پر هے۔ مگر پاني تمام تر خداكے اختيار ميں هے۔ خدا اگر پاني فراهم نه كرے تو انسان خود سے پاني حاصل نهيں كرسكتا۔ اسي طرح رزق كي تقسيم بھي خدا كي طرف سے هوتي هے۔ اس تقسيم ميں خدا آدمي كے ظرف كو ديكھتا هے۔ اور هر ايك كو اس كے ظرف كے بقدر عطا كرتا هے۔ اگر لوگوں كو ان كے ظرف سے زياده ديا جانے لگے تو لوگ سركش بن جائيں اور زمين ميں هر طرف ظلم وفساد پھيل جائے۔ هم ديكھتے هيں كه ايك كسان جب دانے كو بكھيرتا هے تو وه اس كو سميٹنے پر بھي قادر هوتا هے۔ يه انساني مشاهده اس بات كا قرينه هے كه خدا بھي اسي طرح اپني بكھري هوئي مخلوقات كو سميٹ كر اپني عدالت ميں لاسكتا هے۔ جهاں يكجائي طورپر لوگوں كے مستقبل كا فيصله كيا جائے۔ جس خالق كے لیے پيدا كركے بكھيرنا ممكن تھا اس كے لیے موت كے بعد دوباره سميٹنا كيوں ناممكن هوجائے گا۔

وَهُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهُ ۚ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيدُ

📘 زمين پر انساني زندگي كا انحصار پاني پر هے۔ مگر پاني تمام تر خداكے اختيار ميں هے۔ خدا اگر پاني فراهم نه كرے تو انسان خود سے پاني حاصل نهيں كرسكتا۔ اسي طرح رزق كي تقسيم بھي خدا كي طرف سے هوتي هے۔ اس تقسيم ميں خدا آدمي كے ظرف كو ديكھتا هے۔ اور هر ايك كو اس كے ظرف كے بقدر عطا كرتا هے۔ اگر لوگوں كو ان كے ظرف سے زياده ديا جانے لگے تو لوگ سركش بن جائيں اور زمين ميں هر طرف ظلم وفساد پھيل جائے۔ هم ديكھتے هيں كه ايك كسان جب دانے كو بكھيرتا هے تو وه اس كو سميٹنے پر بھي قادر هوتا هے۔ يه انساني مشاهده اس بات كا قرينه هے كه خدا بھي اسي طرح اپني بكھري هوئي مخلوقات كو سميٹ كر اپني عدالت ميں لاسكتا هے۔ جهاں يكجائي طورپر لوگوں كے مستقبل كا فيصله كيا جائے۔ جس خالق كے لیے پيدا كركے بكھيرنا ممكن تھا اس كے لیے موت كے بعد دوباره سميٹنا كيوں ناممكن هوجائے گا۔

وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِنْ دَابَّةٍ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيرٌ

📘 زمين پر انساني زندگي كا انحصار پاني پر هے۔ مگر پاني تمام تر خداكے اختيار ميں هے۔ خدا اگر پاني فراهم نه كرے تو انسان خود سے پاني حاصل نهيں كرسكتا۔ اسي طرح رزق كي تقسيم بھي خدا كي طرف سے هوتي هے۔ اس تقسيم ميں خدا آدمي كے ظرف كو ديكھتا هے۔ اور هر ايك كو اس كے ظرف كے بقدر عطا كرتا هے۔ اگر لوگوں كو ان كے ظرف سے زياده ديا جانے لگے تو لوگ سركش بن جائيں اور زمين ميں هر طرف ظلم وفساد پھيل جائے۔ هم ديكھتے هيں كه ايك كسان جب دانے كو بكھيرتا هے تو وه اس كو سميٹنے پر بھي قادر هوتا هے۔ يه انساني مشاهده اس بات كا قرينه هے كه خدا بھي اسي طرح اپني بكھري هوئي مخلوقات كو سميٹ كر اپني عدالت ميں لاسكتا هے۔ جهاں يكجائي طورپر لوگوں كے مستقبل كا فيصله كيا جائے۔ جس خالق كے لیے پيدا كركے بكھيرنا ممكن تھا اس كے لیے موت كے بعد دوباره سميٹنا كيوں ناممكن هوجائے گا۔

كَذَٰلِكَ يُوحِي إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ اللَّهُ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 اگر آدمي كو لامحدود نگاه حاصل هوجائے تو وه ديكھے گا كه يهاں ايك خدا هے جو سارے زمين وآسمان كا مالك هے۔ اس كي طاقت اتني زبردست هے كه كائنات اس كي هيبت سے گويا پھٹي جارهي هے۔ فرشتے جو براهِ راست خدا كي خدائي سے باخبر هيں وه هر آن خشيت ميں ڈوبے هوئے اس كي حمد وتسبيح كررهے هيں۔ پھر وه ديكھے گا كه خدا اپني قدرت خاص سے انسانوں ميں سے بعض افراد كو چنتا هے اور انھيں بالواسطه انداز ميں اپنا كلام پهنچاتا هے تاكه وه تمام انسانوں كو حقيقتِ واقعه سے باخبر كرديں۔انسان اگرچه ان حقيقتوں كو براهِ راست طورپر نهيں ديكھتا مگر وه عقل كے ذريعه بالواسطه طور پر ان كا ادراك كرسكتا هے۔ يهي آدمي كا اصل امتحان هے ۔ انسان كي يه ذمه داري هے كه وه بصارت سے دكھائي نه دينے والي چيزوں كو بصيرت كي نظر سے ديكھے۔ وه پيغمبروں كے كلام ميں خدا كي آواز سنے اور اس كے آگے اپنے آپ كو جھكا دے ۔ وه ديكھے بغير اس طرح مان لے گويا كه وه اپني آنكھوں سے سب كچھ ديكھ رها هے۔ قيامت كے دن كسي كے لیے يه بات عذر نه بن سكے گي كه اس نے حقيقت كو براهِ راست نه ديكھا تھا۔ كيوں كه موجوده امتحان كي دنيا ميں حقيقت كو براهِ راست دكھانا مطلوب هي نهيں۔ اگراصل پيغام كسي شخص تك پوري طرح پهنچ جائے تو اس كے بعد خدا كے نزديك اس پر حجت قائم هوجاتي هے۔ حقيقت كا دليل كي زبان ميں ظاهر هوجانا هي كافي هےكہ اس كو انكار حق كا مجرم قرار دے كر وه سزا دي جائے جو منكرينِ حق كے لیے مقدر هے۔

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ

📘 موجوده دنيا كو اسباب كے قانون كے تحت بنايا گيا هے۔ يهاں آدمي پر جب كوئي مصيبت آتي هے تو وه واضح طورپر اس كي اپني هي كوتاهي كا نتيجه هوتي هے۔ اور كبھي ايسا هوتا هے كه ايك شخص كو تاهي كرتا هے مگر وه اس كے بُرے انجام سے بچ جاتا هے۔ دنيا كے يه واقعا ت اس ليے هيں كه آدمي ان سے سبق لے۔ جب وه ديكھےكه لوگ جو كچھ پارهے هيں وه اپنے عمل كے بقدر پارهے هيں تو اس سے وه يه نصيحت لے كه آخرت ميں بھي اسي طرح هر شخص اپنے عمل كے مطابق انجام پائے گا۔ اسي طرح جب وه ديكھے كه آدمي نے ايك كوتاهي كي مگر وه اس كے انجام سے بچ گيا تو وه اس سے يه سبق حاصل كرے كه خدا نهايت مهربان هے۔ اگر آدمي اس كي طرف رجوع هو تو وه اپني رحمتِ خاص سے اس كو اس كي كوتاهيوں كے انجام سے بچا سكتا هے۔ ايمان جب گهرا هو تو آدمي كا يهي حال هوجاتا هے۔ وه دنيا كے واقعات ميں آخرت كي تصوير ديكھنے لگتا هے۔

وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ۖ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 موجوده دنيا كو اسباب كے قانون كے تحت بنايا گيا هے۔ يهاں آدمي پر جب كوئي مصيبت آتي هے تو وه واضح طورپر اس كي اپني هي كوتاهي كا نتيجه هوتي هے۔ اور كبھي ايسا هوتا هے كه ايك شخص كو تاهي كرتا هے مگر وه اس كے بُرے انجام سے بچ جاتا هے۔ دنيا كے يه واقعا ت اس ليے هيں كه آدمي ان سے سبق لے۔ جب وه ديكھےكه لوگ جو كچھ پارهے هيں وه اپنے عمل كے بقدر پارهے هيں تو اس سے وه يه نصيحت لے كه آخرت ميں بھي اسي طرح هر شخص اپنے عمل كے مطابق انجام پائے گا۔ اسي طرح جب وه ديكھے كه آدمي نے ايك كوتاهي كي مگر وه اس كے انجام سے بچ گيا تو وه اس سے يه سبق حاصل كرے كه خدا نهايت مهربان هے۔ اگر آدمي اس كي طرف رجوع هو تو وه اپني رحمتِ خاص سے اس كو اس كي كوتاهيوں كے انجام سے بچا سكتا هے۔ ايمان جب گهرا هو تو آدمي كا يهي حال هوجاتا هے۔ وه دنيا كے واقعات ميں آخرت كي تصوير ديكھنے لگتا هے۔

وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ

📘 انسان سمندر ميں اپني كشتي دوڑاتاهے اور فضا ميں اپنے جهاز اڑاتاهے۔ يه صرف اس ليے ممكن هوتاهے كه خدا نے فطرت كے قانون كو همارے ليے سازگار بنا ركھا هے۔ فطرت كے قوانين اگر هم سے سازگاري نه كريں تو نه هماري كشتياں سمندروں ميں دوڑيں اور نه همارے جهاز هواؤں ميں اڑيں۔ زندگي كے هر واقعه ميں نصيحت هے مگر واقعات سے نصيحت كي خوراك لينے كے لیے صبر وشكر كا مزاج ضروري هے۔ زندگي ميں كبھي تكليف پيش آتي هے اور كبھي آرام۔ تكليف كے وقت آدمي كو ظاهري حالات سے اوپر اٹھنا پڑتاهے تاكه وه واقعه كو دوسرے رخ سے ديكھ سكے۔ اور يه چيز صبر كے بغير ممكن نهيں۔ اِسي طرح آرام كے وقت اس كي ضرورت هوتي هے كه بظاهر اپني كوششوں سے ملنے والي چيز كو خدا كي طرف سے ملنے والي چيز سمجھا جائے۔ اور يه وهي شخص كرسكتا هے جس كے اندر وه اعلي شعور پيدا هوچكا هو جس كو شكر كهاجاتاهے۔ نشانيوں ميں جھگڑنا يه هے كه جب كسي واقعه ميں خدائي نصيحت كے پهلو كي نشاندهي كي جائے تو آدمي اس كو نه مانے اور واقعه كو دوسرے دوسرے معني پهنانے كي كوشش كرے۔ ايسے لوگ خدا كي نظر ميں سركش هيں اور كسي كي سركشي صرف موجوده دنيا ميں چل سكتي هے، وه آخرت ميں هر گز چلنے والي نهيں۔

إِنْ يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ

📘 انسان سمندر ميں اپني كشتي دوڑاتاهے اور فضا ميں اپنے جهاز اڑاتاهے۔ يه صرف اس ليے ممكن هوتاهے كه خدا نے فطرت كے قانون كو همارے ليے سازگار بنا ركھا هے۔ فطرت كے قوانين اگر هم سے سازگاري نه كريں تو نه هماري كشتياں سمندروں ميں دوڑيں اور نه همارے جهاز هواؤں ميں اڑيں۔ زندگي كے هر واقعه ميں نصيحت هے مگر واقعات سے نصيحت كي خوراك لينے كے لیے صبر وشكر كا مزاج ضروري هے۔ زندگي ميں كبھي تكليف پيش آتي هے اور كبھي آرام۔ تكليف كے وقت آدمي كو ظاهري حالات سے اوپر اٹھنا پڑتاهے تاكه وه واقعه كو دوسرے رخ سے ديكھ سكے۔ اور يه چيز صبر كے بغير ممكن نهيں۔ اِسي طرح آرام كے وقت اس كي ضرورت هوتي هے كه بظاهر اپني كوششوں سے ملنے والي چيز كو خدا كي طرف سے ملنے والي چيز سمجھا جائے۔ اور يه وهي شخص كرسكتا هے جس كے اندر وه اعلي شعور پيدا هوچكا هو جس كو شكر كهاجاتاهے۔ نشانيوں ميں جھگڑنا يه هے كه جب كسي واقعه ميں خدائي نصيحت كے پهلو كي نشاندهي كي جائے تو آدمي اس كو نه مانے اور واقعه كو دوسرے دوسرے معني پهنانے كي كوشش كرے۔ ايسے لوگ خدا كي نظر ميں سركش هيں اور كسي كي سركشي صرف موجوده دنيا ميں چل سكتي هے، وه آخرت ميں هر گز چلنے والي نهيں۔

أَوْ يُوبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوا وَيَعْفُ عَنْ كَثِيرٍ

📘 انسان سمندر ميں اپني كشتي دوڑاتاهے اور فضا ميں اپنے جهاز اڑاتاهے۔ يه صرف اس ليے ممكن هوتاهے كه خدا نے فطرت كے قانون كو همارے ليے سازگار بنا ركھا هے۔ فطرت كے قوانين اگر هم سے سازگاري نه كريں تو نه هماري كشتياں سمندروں ميں دوڑيں اور نه همارے جهاز هواؤں ميں اڑيں۔ زندگي كے هر واقعه ميں نصيحت هے مگر واقعات سے نصيحت كي خوراك لينے كے لیے صبر وشكر كا مزاج ضروري هے۔ زندگي ميں كبھي تكليف پيش آتي هے اور كبھي آرام۔ تكليف كے وقت آدمي كو ظاهري حالات سے اوپر اٹھنا پڑتاهے تاكه وه واقعه كو دوسرے رخ سے ديكھ سكے۔ اور يه چيز صبر كے بغير ممكن نهيں۔ اِسي طرح آرام كے وقت اس كي ضرورت هوتي هے كه بظاهر اپني كوششوں سے ملنے والي چيز كو خدا كي طرف سے ملنے والي چيز سمجھا جائے۔ اور يه وهي شخص كرسكتا هے جس كے اندر وه اعلي شعور پيدا هوچكا هو جس كو شكر كهاجاتاهے۔ نشانيوں ميں جھگڑنا يه هے كه جب كسي واقعه ميں خدائي نصيحت كے پهلو كي نشاندهي كي جائے تو آدمي اس كو نه مانے اور واقعه كو دوسرے دوسرے معني پهنانے كي كوشش كرے۔ ايسے لوگ خدا كي نظر ميں سركش هيں اور كسي كي سركشي صرف موجوده دنيا ميں چل سكتي هے، وه آخرت ميں هر گز چلنے والي نهيں۔

وَيَعْلَمَ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي آيَاتِنَا مَا لَهُمْ مِنْ مَحِيصٍ

📘 انسان سمندر ميں اپني كشتي دوڑاتاهے اور فضا ميں اپنے جهاز اڑاتاهے۔ يه صرف اس ليے ممكن هوتاهے كه خدا نے فطرت كے قانون كو همارے ليے سازگار بنا ركھا هے۔ فطرت كے قوانين اگر هم سے سازگاري نه كريں تو نه هماري كشتياں سمندروں ميں دوڑيں اور نه همارے جهاز هواؤں ميں اڑيں۔ زندگي كے هر واقعه ميں نصيحت هے مگر واقعات سے نصيحت كي خوراك لينے كے لیے صبر وشكر كا مزاج ضروري هے۔ زندگي ميں كبھي تكليف پيش آتي هے اور كبھي آرام۔ تكليف كے وقت آدمي كو ظاهري حالات سے اوپر اٹھنا پڑتاهے تاكه وه واقعه كو دوسرے رخ سے ديكھ سكے۔ اور يه چيز صبر كے بغير ممكن نهيں۔ اِسي طرح آرام كے وقت اس كي ضرورت هوتي هے كه بظاهر اپني كوششوں سے ملنے والي چيز كو خدا كي طرف سے ملنے والي چيز سمجھا جائے۔ اور يه وهي شخص كرسكتا هے جس كے اندر وه اعلي شعور پيدا هوچكا هو جس كو شكر كهاجاتاهے۔ نشانيوں ميں جھگڑنا يه هے كه جب كسي واقعه ميں خدائي نصيحت كے پهلو كي نشاندهي كي جائے تو آدمي اس كو نه مانے اور واقعه كو دوسرے دوسرے معني پهنانے كي كوشش كرے۔ ايسے لوگ خدا كي نظر ميں سركش هيں اور كسي كي سركشي صرف موجوده دنيا ميں چل سكتي هے، وه آخرت ميں هر گز چلنے والي نهيں۔

فَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

📘 آخرت كا چاهنے والا وهي بن سكتاهے جو الله پر بھروسه كرنے والا هو۔ جب بھي آدمي آخرت كي طرف بڑھتا هے تو دنيا كے فائدے اس كو خطرے ميںنظر آنے لگتے هيں۔ دنيا كي مصلحتيں اس كوچھوٹتي هوئي دكھائي ديتي هيں۔ايسي حالت ميں جو چيز آدمي كو آخرت كے راسته پر ثابت قدم ركھتي هے وه صرف يه كه اس كو خدا كے وعدوں پر بھروسه هو اس كو يقين هو، كه خدا كي خاطر وه دنيا ميں جتنا كھوئے گا اس سے بهت زياده وه آخرت ميں خدا كي طرف سے پائے گا۔ دنيا كي هر نعمت وقتي هے اور آخرت كي نعمتيں ابدي هيں جوكبھي ختم هونے والي نهيں۔ اور ابدي نعمت كے مقابله ميں وقتي نعمت كي كوئي حقيقت نهيں۔

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُونَ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۖ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

📘 اگر آدمي كو لامحدود نگاه حاصل هوجائے تو وه ديكھے گا كه يهاں ايك خدا هے جو سارے زمين وآسمان كا مالك هے۔ اس كي طاقت اتني زبردست هے كه كائنات اس كي هيبت سے گويا پھٹي جارهي هے۔ فرشتے جو براهِ راست خدا كي خدائي سے باخبر هيں وه هر آن خشيت ميں ڈوبے هوئے اس كي حمد وتسبيح كررهے هيں۔ پھر وه ديكھے گا كه خدا اپني قدرت خاص سے انسانوں ميں سے بعض افراد كو چنتا هے اور انھيں بالواسطه انداز ميں اپنا كلام پهنچاتا هے تاكه وه تمام انسانوں كو حقيقتِ واقعه سے باخبر كرديں۔انسان اگرچه ان حقيقتوں كو براهِ راست طورپر نهيں ديكھتا مگر وه عقل كے ذريعه بالواسطه طور پر ان كا ادراك كرسكتا هے۔ يهي آدمي كا اصل امتحان هے ۔ انسان كي يه ذمه داري هے كه وه بصارت سے دكھائي نه دينے والي چيزوں كو بصيرت كي نظر سے ديكھے۔ وه پيغمبروں كے كلام ميں خدا كي آواز سنے اور اس كے آگے اپنے آپ كو جھكا دے ۔ وه ديكھے بغير اس طرح مان لے گويا كه وه اپني آنكھوں سے سب كچھ ديكھ رها هے۔ قيامت كے دن كسي كے لیے يه بات عذر نه بن سكے گي كه اس نے حقيقت كو براهِ راست نه ديكھا تھا۔ كيوں كه موجوده امتحان كي دنيا ميں حقيقت كو براهِ راست دكھانا مطلوب هي نهيں۔ اگراصل پيغام كسي شخص تك پوري طرح پهنچ جائے تو اس كے بعد خدا كے نزديك اس پر حجت قائم هوجاتي هے۔ حقيقت كا دليل كي زبان ميں ظاهر هوجانا هي كافي هےكہ اس كو انكار حق كا مجرم قرار دے كر وه سزا دي جائے جو منكرينِ حق كے لیے مقدر هے۔

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَٰئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

📘 ايمان جب حقيقي معنوں ميں كسي كو حاصل هوتا هے تو وه اس كے اندر انقلاب پيداكرتا هے۔ اس كے اندر ايك نئي شخصيت ابھرتي هے۔ يهاں ايك بندهٔ خدا كي جن خصوصيات كا ذكر هے وه سب وهي هيں جو اس ايماني شخصيت كے نتيجے ميں كسي كے اندر ظاهر هوتي هيں۔ ايسے شخص كے اندر حقيقتِ واقعه كے اعتراف كا مزاج پيداهوتا هے۔ وه خدا كے خدا هونے اور اپنے بنده هونے كي حيثيت كا اعتراف كرتے هوئے اس كے آگے جھك جاتا هے۔ خدا كي ايك پكار بلند هو تو اس كے ليے ناممكن هوجاتاهے كه وه اس پر لبيك نه كهے۔ ايمانی شعور اس كو صحيح اور غلط كے بارے ميں حساس بنا ديتا هے۔ وه وهي كرتا هے جو كرنا چاهئے اور وه نهيں كرتا جو نهيں كرنا چاهئے۔ اپني حيثيت واقعي كا اعتراف اس كے اندر تواضع پيدا كرتا هے جو اس سے غصه، ظلم اور سركشي كا مزاج چھين ليتا هے،يهي تواضع اس كو مجبور كرتا هے كه اجتماعي معاملات ميں وه دوسروں كے مشوره سے فائده اٹھائے وه محض اپني ذاتي رائے كي بنياد پر اقدام سے پرهيز كرے۔ دوسروں كے ساتھ اس كا رشته خير خواهي كا هوتاهے، نه كه ضد اور استحصال كا۔ايسا آدمي دوسروں كے خلاف كبھي جارحيت نهيں كرتا۔ دوسروں كے خلاف وه جب بھي اقدام كرتا هے تو دفاع كے طورپر كرتاهے اور اتنا هي كرتا هے جتنا ان كے ظلم كو روكنے كے ليے ضروري هو۔ وه عين اشتعال انگيز حالات ميں بھي اس كے لیے تيار رهتاهے كه لوگوں كو معاف كردے اور انھوں نے اس كےساتھ جو برائي كي هے اس كو بھول جائے۔ بندهٔ مومن يه سارے كام اپنے جذبهٔ ايمان كے تحت كرتاهے تاهم الله اس كي قدرداني اس طرح فرماتاهے كه اس كو اهلِ همت اور اولوالعزم كے خطاب سے نوازتا هے،اور اس كو ابدي نعمتوں كے باغ ميں داخل كرديتاهے۔

وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ وَلِيٍّ مِنْ بَعْدِهِ ۗ وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِنْ سَبِيلٍ

📘 اِس دنيا ميں هدايت كو دليل كے ذريعه كھولا جاتا هے۔ يهي اس دنيا كے لیے خدا كا قانون هے۔ اس كا مطلب يه هے كه اس دنيا ميں صرف وه شخص هدايت پاتا هے جو اس صلاحيت كا ثبوت دے كه وه دليل كي زبان ميں بات كو سمجھ سكتا هے۔ دليل كے ذريعه كسي بات كا ثابت هوجانا اس كے لیے كافي هے كه وه اس كے آگے جھك جائے جو لوگ دليل سے نه مانيں ان كو اس دنيا ميں كبھي هدايت نهيں مل سكتي۔ جو شخص موجوده دنيا ميں دليل كے آگے نهيں جھكتا وه اپنے آپ كو اس خطره ميں ڈالتا هے كه قيامت ميں اس كو خدائي طاقت كے آگے جھكا يا جائے۔ مگر قيامت كا جھكناكسي كے كچھ كام نه آئے گا۔ كيوں كه وه آدمي كو ذليل كرنے كے لیے هوگا، نه كه اس كو انعام كا مستحق بنانے كے ليے۔

وَتَرَاهُمْ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا خَاشِعِينَ مِنَ الذُّلِّ يَنْظُرُونَ مِنْ طَرْفٍ خَفِيٍّ ۗ وَقَالَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا إِنَّ الظَّالِمِينَ فِي عَذَابٍ مُقِيمٍ

📘 اِس دنيا ميں هدايت كو دليل كے ذريعه كھولا جاتا هے۔ يهي اس دنيا كے لیے خدا كا قانون هے۔ اس كا مطلب يه هے كه اس دنيا ميں صرف وه شخص هدايت پاتا هے جو اس صلاحيت كا ثبوت دے كه وه دليل كي زبان ميں بات كو سمجھ سكتا هے۔ دليل كے ذريعه كسي بات كا ثابت هوجانا اس كے لیے كافي هے كه وه اس كے آگے جھك جائے جو لوگ دليل سے نه مانيں ان كو اس دنيا ميں كبھي هدايت نهيں مل سكتي۔ جو شخص موجوده دنيا ميں دليل كے آگے نهيں جھكتا وه اپنے آپ كو اس خطره ميں ڈالتا هے كه قيامت ميں اس كو خدائي طاقت كے آگے جھكا يا جائے۔ مگر قيامت كا جھكناكسي كے كچھ كام نه آئے گا۔ كيوں كه وه آدمي كو ذليل كرنے كے لیے هوگا، نه كه اس كو انعام كا مستحق بنانے كے ليے۔

وَمَا كَانَ لَهُمْ مِنْ أَوْلِيَاءَ يَنْصُرُونَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۗ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ سَبِيلٍ

📘 اِس دنيا ميں هدايت كو دليل كے ذريعه كھولا جاتا هے۔ يهي اس دنيا كے لیے خدا كا قانون هے۔ اس كا مطلب يه هے كه اس دنيا ميں صرف وه شخص هدايت پاتا هے جو اس صلاحيت كا ثبوت دے كه وه دليل كي زبان ميں بات كو سمجھ سكتا هے۔ دليل كے ذريعه كسي بات كا ثابت هوجانا اس كے لیے كافي هے كه وه اس كے آگے جھك جائے جو لوگ دليل سے نه مانيں ان كو اس دنيا ميں كبھي هدايت نهيں مل سكتي۔ جو شخص موجوده دنيا ميں دليل كے آگے نهيں جھكتا وه اپنے آپ كو اس خطره ميں ڈالتا هے كه قيامت ميں اس كو خدائي طاقت كے آگے جھكا يا جائے۔ مگر قيامت كا جھكناكسي كے كچھ كام نه آئے گا۔ كيوں كه وه آدمي كو ذليل كرنے كے لیے هوگا، نه كه اس كو انعام كا مستحق بنانے كے ليے۔

اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ ۚ مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ

📘 موجوده دنيا ميں آدمي كا اصل امتحان يه هے كه جو صورت حال بھي اس كے سامنے آئے، وه اس ميں صحيح ردعمل پيش كرے۔ مگر انسان ايسا نهيں كرتا۔ اس كو جب كوئي كاميابي ملتي هے تو وه فخر وناز كي نفسيات ميں مبتلا هوجاتا هے۔ اورجب وه كسي مصيبت ميں پڑتا هے تو وه منفي جذبات كا اظهار كرنے لگتا هے۔ يهي وه لوگ هيں جو دعوت حق كے مقابله ميں صحيح رد عمل پيش نهيں كرپاتے۔ ان كا غير حقيقت پسندانه مزاج يهاں بھي ان كو غير حقيقت پسند بناديتاهے۔ دعوت حق كا صحيح رد عمل يه هے كه آدمي فوراً اس كي حقانيت كا اعتراف كرلے۔ مگر آدمي يه كرتاهے كه وه اس كو اپني ساكھ كا مسئله بنا ليتا هے۔ وه سمجھتا هے كه دعوت كو مان كر ميں اس كو پيش كرنے والے كے سامنے چھوٹا هوجاؤں گا۔ يه احساس اس كے ليے حق كو قبول كرنے كي راه ميں ركاوٹ بن جاتا هے۔ وه اس كي صداقت پر يقين كرنے كے باوجود اپني ذاتي مصلحتوں كي بنا پر اس كو نظر انداز كرديتا هے۔

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنْسَانَ كَفُورٌ

📘 موجوده دنيا ميں آدمي كا اصل امتحان يه هے كه جو صورت حال بھي اس كے سامنے آئے، وه اس ميں صحيح ردعمل پيش كرے۔ مگر انسان ايسا نهيں كرتا۔ اس كو جب كوئي كاميابي ملتي هے تو وه فخر وناز كي نفسيات ميں مبتلا هوجاتا هے۔ اورجب وه كسي مصيبت ميں پڑتا هے تو وه منفي جذبات كا اظهار كرنے لگتا هے۔ يهي وه لوگ هيں جو دعوت حق كے مقابله ميں صحيح رد عمل پيش نهيں كرپاتے۔ ان كا غير حقيقت پسندانه مزاج يهاں بھي ان كو غير حقيقت پسند بناديتاهے۔ دعوت حق كا صحيح رد عمل يه هے كه آدمي فوراً اس كي حقانيت كا اعتراف كرلے۔ مگر آدمي يه كرتاهے كه وه اس كو اپني ساكھ كا مسئله بنا ليتا هے۔ وه سمجھتا هے كه دعوت كو مان كر ميں اس كو پيش كرنے والے كے سامنے چھوٹا هوجاؤں گا۔ يه احساس اس كے ليے حق كو قبول كرنے كي راه ميں ركاوٹ بن جاتا هے۔ وه اس كي صداقت پر يقين كرنے كے باوجود اپني ذاتي مصلحتوں كي بنا پر اس كو نظر انداز كرديتا هے۔

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ

📘 دين كي اساس اس تصور پر قائم هے كه اس كائنات ميں هر قسم كا اختيار صرف ايك خدا كو حاصل هے۔ اس كے سوا كسي كے پاس كوئي اختيار نهيں، خواه وه زمين وآسمان كے نظام كو چلانا هو يا ايك انسان كو اولاد عطا كرنا۔ آدمي جو كچھ پاتا هے خدا كے دئے سے پاتاهے اور وهي جب چاهتا هے اس كو اس سے چھين ليتا هے۔ خداكے بارے ميں يه عقيده هي آدمي کے اندر وہ صحیح احساس پیدا کرتا ہے جس کو ’’ عبدیت‘‘ کہا جاتا ہے اور خداكے بارے ميں يه عقيده هي آدمي كو مجبور كرتاهے كه وه اپني زندگي ميں اس روش كو اپنائے جس كا الٰهي شريعت ميں حكم دياگيا هے۔

تَكَادُ السَّمَاوَاتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ ۚ وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 اگر آدمي كو لامحدود نگاه حاصل هوجائے تو وه ديكھے گا كه يهاں ايك خدا هے جو سارے زمين وآسمان كا مالك هے۔ اس كي طاقت اتني زبردست هے كه كائنات اس كي هيبت سے گويا پھٹي جارهي هے۔ فرشتے جو براهِ راست خدا كي خدائي سے باخبر هيں وه هر آن خشيت ميں ڈوبے هوئے اس كي حمد وتسبيح كررهے هيں۔ پھر وه ديكھے گا كه خدا اپني قدرت خاص سے انسانوں ميں سے بعض افراد كو چنتا هے اور انھيں بالواسطه انداز ميں اپنا كلام پهنچاتا هے تاكه وه تمام انسانوں كو حقيقتِ واقعه سے باخبر كرديں۔انسان اگرچه ان حقيقتوں كو براهِ راست طورپر نهيں ديكھتا مگر وه عقل كے ذريعه بالواسطه طور پر ان كا ادراك كرسكتا هے۔ يهي آدمي كا اصل امتحان هے ۔ انسان كي يه ذمه داري هے كه وه بصارت سے دكھائي نه دينے والي چيزوں كو بصيرت كي نظر سے ديكھے۔ وه پيغمبروں كے كلام ميں خدا كي آواز سنے اور اس كے آگے اپنے آپ كو جھكا دے ۔ وه ديكھے بغير اس طرح مان لے گويا كه وه اپني آنكھوں سے سب كچھ ديكھ رها هے۔ قيامت كے دن كسي كے لیے يه بات عذر نه بن سكے گي كه اس نے حقيقت كو براهِ راست نه ديكھا تھا۔ كيوں كه موجوده امتحان كي دنيا ميں حقيقت كو براهِ راست دكھانا مطلوب هي نهيں۔ اگراصل پيغام كسي شخص تك پوري طرح پهنچ جائے تو اس كے بعد خدا كے نزديك اس پر حجت قائم هوجاتي هے۔ حقيقت كا دليل كي زبان ميں ظاهر هوجانا هي كافي هےكہ اس كو انكار حق كا مجرم قرار دے كر وه سزا دي جائے جو منكرينِ حق كے لیے مقدر هے۔

أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ

📘 دين كي اساس اس تصور پر قائم هے كه اس كائنات ميں هر قسم كا اختيار صرف ايك خدا كو حاصل هے۔ اس كے سوا كسي كے پاس كوئي اختيار نهيں، خواه وه زمين وآسمان كے نظام كو چلانا هو يا ايك انسان كو اولاد عطا كرنا۔ آدمي جو كچھ پاتا هے خدا كے دئے سے پاتاهے اور وهي جب چاهتا هے اس كو اس سے چھين ليتا هے۔ خداكے بارے ميں يه عقيده هي آدمي کے اندر وہ صحیح احساس پیدا کرتا ہے جس کو ’’ عبدیت‘‘ کہا جاتا ہے اور خداكے بارے ميں يه عقيده هي آدمي كو مجبور كرتاهے كه وه اپني زندگي ميں اس روش كو اپنائے جس كا الٰهي شريعت ميں حكم دياگيا هے۔

۞ وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ

📘 موجوده دنيا ميں كوئي انسان براهِ راست خدا سے هم كلام نهيں هوسكتا۔ انسان كا عجز اس قسم كے كلام ميں مانع هے۔ چنانچه پيغمبروں پر خدا كا جو كلام اترا وه بالواسطه انداز ميں اترا۔ بالواسطه خطاب كے كئي طريقے هيں ان كي مثاليں مختلف پيغمبروں كي زندگي ميں پائي جاتي هيں۔ ايك عالم جب كوئي كتاب لكھتاهے يا ايك مفكر جب كوئي كلام پيش كرتاهے تو اس كے ماضي ميں ايسے اسباب موجود هوتے هيں جو اس كے علمي اور فكري كارنامه كي توجيهه كرسكيں۔ مگر پيغمبر كا معامله اس سے بالكل مختلف هے۔ پيغمبر كي نبوت كے بعد كي زندگي اس كي نبوت سے پهلے كي زندگی سے سراسر مختلف هوتي هے۔ غير پيغمبر كا حال كا كلام اس كي ماضي كي زندگي كا تسلسل نظر آتا هے۔ مگر پيغمبر كي زبان سے بعد از نبوت جو كلام جاري هوتا هے وه اس كے قبل از نبوت كلام سے اتنا زياده ممتاز هوتا هے كه پيغمبر كے ماضي سے اس كي توجيهه نهيں كي جاسكتي۔ يه ايك واضح قرينه هے جو يه ثابت كرتاهے كه پيغمبر كا كلام خدائي كلام هے، نه كه عام انسانی كلام۔ پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كو يه خصوصيت حاصل ہے كه آپ كا دياهوا قرآن اور آپ كي اپني زبان سے نكلا هوا كلام، دونوںآج بھي اپني اصل حالت ميں موجود هيں۔ كوئي شخص جو عربي زبان جانتا هو اور وه ان دونوں كو تقابلي طورپر ديكھے تو وه دونوں كے درميان كھلا هوا فرق پائے گا۔ حديث كي زبان واضح طورپر محمد بن عبد الله كي زبان هے اور قرآن كي زبان واضح طورپر خدا كي زبان۔

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِنْ جَعَلْنَاهُ نُورًا نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 موجوده دنيا ميں كوئي انسان براهِ راست خدا سے هم كلام نهيں هوسكتا۔ انسان كا عجز اس قسم كے كلام ميں مانع هے۔ چنانچه پيغمبروں پر خدا كا جو كلام اترا وه بالواسطه انداز ميں اترا۔ بالواسطه خطاب كے كئي طريقے هيں ان كي مثاليں مختلف پيغمبروں كي زندگي ميں پائي جاتي هيں۔ ايك عالم جب كوئي كتاب لكھتاهے يا ايك مفكر جب كوئي كلام پيش كرتاهے تو اس كے ماضي ميں ايسے اسباب موجود هوتے هيں جو اس كے علمي اور فكري كارنامه كي توجيهه كرسكيں۔ مگر پيغمبر كا معامله اس سے بالكل مختلف هے۔ پيغمبر كي نبوت كے بعد كي زندگي اس كي نبوت سے پهلے كي زندگی سے سراسر مختلف هوتي هے۔ غير پيغمبر كا حال كا كلام اس كي ماضي كي زندگي كا تسلسل نظر آتا هے۔ مگر پيغمبر كي زبان سے بعد از نبوت جو كلام جاري هوتا هے وه اس كے قبل از نبوت كلام سے اتنا زياده ممتاز هوتا هے كه پيغمبر كے ماضي سے اس كي توجيهه نهيں كي جاسكتي۔ يه ايك واضح قرينه هے جو يه ثابت كرتاهے كه پيغمبر كا كلام خدائي كلام هے، نه كه عام انسانی كلام۔ پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كو يه خصوصيت حاصل ہے كه آپ كا دياهوا قرآن اور آپ كي اپني زبان سے نكلا هوا كلام، دونوںآج بھي اپني اصل حالت ميں موجود هيں۔ كوئي شخص جو عربي زبان جانتا هو اور وه ان دونوں كو تقابلي طورپر ديكھے تو وه دونوں كے درميان كھلا هوا فرق پائے گا۔ حديث كي زبان واضح طورپر محمد بن عبد الله كي زبان هے اور قرآن كي زبان واضح طورپر خدا كي زبان۔

صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ أَلَا إِلَى اللَّهِ تَصِيرُ الْأُمُورُ

📘 موجوده دنيا ميں كوئي انسان براهِ راست خدا سے هم كلام نهيں هوسكتا۔ انسان كا عجز اس قسم كے كلام ميں مانع هے۔ چنانچه پيغمبروں پر خدا كا جو كلام اترا وه بالواسطه انداز ميں اترا۔ بالواسطه خطاب كے كئي طريقے هيں ان كي مثاليں مختلف پيغمبروں كي زندگي ميں پائي جاتي هيں۔ ايك عالم جب كوئي كتاب لكھتاهے يا ايك مفكر جب كوئي كلام پيش كرتاهے تو اس كے ماضي ميں ايسے اسباب موجود هوتے هيں جو اس كے علمي اور فكري كارنامه كي توجيهه كرسكيں۔ مگر پيغمبر كا معامله اس سے بالكل مختلف هے۔ پيغمبر كي نبوت كے بعد كي زندگي اس كي نبوت سے پهلے كي زندگی سے سراسر مختلف هوتي هے۔ غير پيغمبر كا حال كا كلام اس كي ماضي كي زندگي كا تسلسل نظر آتا هے۔ مگر پيغمبر كي زبان سے بعد از نبوت جو كلام جاري هوتا هے وه اس كے قبل از نبوت كلام سے اتنا زياده ممتاز هوتا هے كه پيغمبر كے ماضي سے اس كي توجيهه نهيں كي جاسكتي۔ يه ايك واضح قرينه هے جو يه ثابت كرتاهے كه پيغمبر كا كلام خدائي كلام هے، نه كه عام انسانی كلام۔ پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم كو يه خصوصيت حاصل ہے كه آپ كا دياهوا قرآن اور آپ كي اپني زبان سے نكلا هوا كلام، دونوںآج بھي اپني اصل حالت ميں موجود هيں۔ كوئي شخص جو عربي زبان جانتا هو اور وه ان دونوں كو تقابلي طورپر ديكھے تو وه دونوں كے درميان كھلا هوا فرق پائے گا۔ حديث كي زبان واضح طورپر محمد بن عبد الله كي زبان هے اور قرآن كي زبان واضح طورپر خدا كي زبان۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ

📘 اگر آدمي كو لامحدود نگاه حاصل هوجائے تو وه ديكھے گا كه يهاں ايك خدا هے جو سارے زمين وآسمان كا مالك هے۔ اس كي طاقت اتني زبردست هے كه كائنات اس كي هيبت سے گويا پھٹي جارهي هے۔ فرشتے جو براهِ راست خدا كي خدائي سے باخبر هيں وه هر آن خشيت ميں ڈوبے هوئے اس كي حمد وتسبيح كررهے هيں۔ پھر وه ديكھے گا كه خدا اپني قدرت خاص سے انسانوں ميں سے بعض افراد كو چنتا هے اور انھيں بالواسطه انداز ميں اپنا كلام پهنچاتا هے تاكه وه تمام انسانوں كو حقيقتِ واقعه سے باخبر كرديں۔انسان اگرچه ان حقيقتوں كو براهِ راست طورپر نهيں ديكھتا مگر وه عقل كے ذريعه بالواسطه طور پر ان كا ادراك كرسكتا هے۔ يهي آدمي كا اصل امتحان هے ۔ انسان كي يه ذمه داري هے كه وه بصارت سے دكھائي نه دينے والي چيزوں كو بصيرت كي نظر سے ديكھے۔ وه پيغمبروں كے كلام ميں خدا كي آواز سنے اور اس كے آگے اپنے آپ كو جھكا دے ۔ وه ديكھے بغير اس طرح مان لے گويا كه وه اپني آنكھوں سے سب كچھ ديكھ رها هے۔ قيامت كے دن كسي كے لیے يه بات عذر نه بن سكے گي كه اس نے حقيقت كو براهِ راست نه ديكھا تھا۔ كيوں كه موجوده امتحان كي دنيا ميں حقيقت كو براهِ راست دكھانا مطلوب هي نهيں۔ اگراصل پيغام كسي شخص تك پوري طرح پهنچ جائے تو اس كے بعد خدا كے نزديك اس پر حجت قائم هوجاتي هے۔ حقيقت كا دليل كي زبان ميں ظاهر هوجانا هي كافي هےكہ اس كو انكار حق كا مجرم قرار دے كر وه سزا دي جائے جو منكرينِ حق كے لیے مقدر هے۔

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنْذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ

📘 پيغمبر كي دعوت كا اصل نشانه يه هوتا هے كه لوگوں كو اس حقيقت سے آگاه كرديا جائے كه آخر كار وه خدا كے سامنے حاضر كيے جانے والے هيں۔ اس كے بعد لوگوں كے عمل كے مطابق كسي كے لیے ابدي جنت كا فيصله هوگا اور كسي كے ليے ابدي جهنم كا۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم اسي حقيقت سے آگاه كرنے كے ليے آئے۔ آپ كي بعثت كے دودور هيں ايك براهِ راست دوسرا بالواسطه ۔ آپ كي براهِ راست بعثت مكه اور اطرافِ مكه كے ليے تھي۔ اس كي تكميل آپ نے خود اپني زندگي ميں فرمادي۔آپ كي بالواسطه بعثت بواسطهٔ امت تمام عالم كے لیے هے۔ آپ كي يه دوسري بعثت جاري هے اور قيامت تك جاري رهے گي۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے اهلِ عرب كے سامنے عربي زبان ميں اپنا پيغام پهنچايا۔ آپ كے بعد آپ كي امت كو بھي آپ كي نيابت ميں اسي اصول پر اپنا دعوتي فريضه انجام دينا هے۔ اس كو هر قوم كے سامنے اس كي اپني زبان ميں حق كا پيغام پهنچانا هے۔ جب تك كسي قوم كو اس كي اپني زبان ميں پيغام نه پهنچايا جائے اس پر پيغام رساني كا حق ادا نه هوگا۔

وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُمْ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 زمين وآسمان كي صورت ميں جو واقعه همارے سامنے هے وه اتنا عظيم واقعه هے كه يه ناقابل قياس هے كه ان معبودوں ميں سے كسي معبود نے ان كو وجود عطا كيا هو جن كی لوگ خدا كے سوا تعظيم وتقديس كرتے هيں۔ اِسي طرح انسانوں اور جانوروں كے اندروني نظام ميں ان كي نسل كي بقا كا انتظام اتنا پيچيده هے كه اس كو حقيقي طورپر نه كسي انسان كي طرف منسوب كيا جاسكتا اور نه خدا كے سوا معبودوں ميں سے كسي معبود كي طرف۔يه سب كام اتنے غير معمولي هيں كه بے مثل خدا هي كي طرف انھيں جائز طورپر منسوب كياجاسكتا هے۔ خالق كي جو صفات اس كي مخلوقات كے مشاهده كے ذريعه همارے علم ميں آتي هيں وهي يه ثابت كرنے كے لیے كافي هيں كه يه خالق كس قدر عظيم هے۔ وه سميع وبصير هے۔ وه هر قسم كے اعلي اختيارات كا مالك هے۔ كسي كو جو كچھ ملتا هے اسي كے دئے سے ملتا هے اور كسي سے جو كچھ چھنتا هے اسي كے چھيننے سے چھنتا هے۔ وه اپني مثال آپ هے، اس كے جيسا كوئي اور نهيں۔

أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۖ فَاللَّهُ هُوَ الْوَلِيُّ وَهُوَ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 زمين وآسمان كي صورت ميں جو واقعه همارے سامنے هے وه اتنا عظيم واقعه هے كه يه ناقابل قياس هے كه ان معبودوں ميں سے كسي معبود نے ان كو وجود عطا كيا هو جن كی لوگ خدا كے سوا تعظيم وتقديس كرتے هيں۔ اِسي طرح انسانوں اور جانوروں كے اندروني نظام ميں ان كي نسل كي بقا كا انتظام اتنا پيچيده هے كه اس كو حقيقي طورپر نه كسي انسان كي طرف منسوب كيا جاسكتا اور نه خدا كے سوا معبودوں ميں سے كسي معبود كي طرف۔يه سب كام اتنے غير معمولي هيں كه بے مثل خدا هي كي طرف انھيں جائز طورپر منسوب كياجاسكتا هے۔ خالق كي جو صفات اس كي مخلوقات كے مشاهده كے ذريعه همارے علم ميں آتي هيں وهي يه ثابت كرنے كے لیے كافي هيں كه يه خالق كس قدر عظيم هے۔ وه سميع وبصير هے۔ وه هر قسم كے اعلي اختيارات كا مالك هے۔ كسي كو جو كچھ ملتا هے اسي كے دئے سے ملتا هے اور كسي سے جو كچھ چھنتا هے اسي كے چھيننے سے چھنتا هے۔ وه اپني مثال آپ هے، اس كے جيسا كوئي اور نهيں۔