🕋 تفسير سورة آل عمران
(Aal-E-Imran) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم
📘 یہ حروف مقطعات ہیں جن کے بارے میں اجمالی گفتگو ہم سورة البقرۃ کے آغاز میں کرچکے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ
📘 آیت 10 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَنْ تُغْنِیَ عَنْہُمْ اَمْوَالُہُمْ وَلَآ اَوْلاَدُہُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْءًا ط اب یہ ذرا تحدی اور چیلنج کا انداز ہے۔ زمانۂ نزول کے اعتبار سے آپ نے نوٹ کرلیا کہ یہ سورة مبارکہ 3 ھ میں غزوۂ احد کے بعد نازل ہورہی ہے ‘ لیکن یہ رکوع جو زیر مطالعہ ہے اس کے بارے میں گمان غالب ہے کہ یہ غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوا۔ غزوۂ بدر میں مسلمانوں کو بڑی زبردست فتح حاصل ہوئی تھی تو مسلمانوں کا morale بہت بلند تھا۔ لیکن ایسی روایات بھی ملتی ہیں کہ جب مسلمان بدر سے غازی بن کر ‘ فتح یاب ہو کر واپس آئے تو مدینہ منورہ میں جو یہودی قبیلے تھے ان میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ مسلمانو ! اتنا نہ اتراؤ۔ یہ تو قریش کے کچھ ناتجربہ کار چھوکرے تھے جن سے تمہارا مقابلہ پیش آیا ہے ‘ اگر کبھی ہم سے مقابلہ پیش آیا تو دن میں تارے نظر آجائیں گے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ تو اس پس منظر میں یہ الفاظ کہے جا رہے ہیں کہ صرف مشرکین مکہ پر موقوف نہیں ‘ آخر کار تمام کفار اسی طرح سے زیر ہوں گے اور اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ یوسف
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ
📘 آیت 99 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا تم چاہتے ہو کہ جو اہل ایمان ہیں وہ بھی ٹیڑھے راستے پر چلیں۔ چناچہ تم سازشیں کرتے ہو کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں بھی وسوسے اور دغدغے پیدا ہوجائیں۔وَّاَنْتُمْ شُہَدَآءُ ط حالانکہ تم خود گواہ ہو !تم راہ راست کو پہچانتے ہو اور جو کچھ کر رہے ہو جانتے بوجھتے کر رہے ہو۔وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔لیکن ان تمام سازشوں کے جواب میں اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے :
وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ۗ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 آیت 101 وَکَیْفَ تَکْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ اٰیٰتُ اللّٰہِ وَفِیْکُمْ رَسُولُہٗ ط۔تمہارے درمیان محمد رسول اللہ ﷺ بنفس نفیس تمہاری راہنمائی کے لیے موجود ہیں اور تمہیں اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ میں علماء یہود کا کتنا اثر تھا۔ اوس اور خزرج کے لوگ ان سے مرعوب تھے کیونکہ یہ اَن پڑھ لوگ تھے ‘ ان کے پاس کوئی کتاب ‘ کوئی شریعت اور کوئی قانون نہیں تھا ‘ جبکہ یہود صاحب کتاب اور صاحب شریعت تھے ‘ ان کے ہاں علماء تھے۔ لہٰذا اوس اور خزرج کے جو لوگ اسلام لے آئے تھے ان کے بارے میں اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں یہود کی ریشہ دوانیوں کا شکار نہ ہوجائیں۔ اس قسم کے خطرے سے بچنے کی تدبیر بھی بتادی گئی :وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۔جو کوئی اللہ کی پناہ میں آجائے ‘ اللہ کا دامن مضبوطی سے تھام لے اسے تو ضرور صراط مستقیم کی ہدایت ملے گی اور وہ ضلالت و گمراہی کے خطرات سے محفوظ ہوجائے گا۔ جیسے شیر خوار بچے کو کوئی خطرہ محسوس ہو تو وہ دوڑ کر آئے گا اور اپنی ماں کے ساتھ چمٹ جائے گا۔ اب وہ یہ سمجھے گا کہ میں مضبوط قلعہ میں آگیا ہوں ‘ اب مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ نہیں جانتا کہ ماں بےچاری تمام خطرات سے اس کی حفاظت نہیں کرسکتی۔ اسے کیا پتا کہ کب کوئی درندہ صفت انسان اسے ماں کی گود سے کھینچ کر اچھالے اور کسی بلم یا نیزے کی انی میں پرو دے۔ بہرحال بچہ تو یہی سمجھتا ہے کہ اب میں ماں کی گود میں آگیا ہوں تو محفوظ پناہ میں آگیا ہوں۔ اللہ کا دامن واقعتا محفوظ پناہ گاہ ہے ‘ اور جو کوئی اس کے ساتھ چمٹ جاتا ہے وہ گمراہی کی ٹھوکروں سے محفوظ ہوجاتا ہے اور جادۂ مستقیم پر گامزن ہوجاتا ہے۔ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ ! !
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
📘 اب سورة آل عمران کا نصف ثانی شروع ہو رہا ہے ‘ جس کا پہلا حصہ دو رکوعوں پر مشتمل ہے۔ آپ نے یہ مشابہت بھی نوٹ کرلی ہوگی کہ سورة البقرۃ کے نصفِ اوّل میں بھی ایک مرتبہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا سے خطاب تھا : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط اسی طرح سورة آل عمران کے نصفِ اوّل میں بھی ایک آیت اوپر آچکی ہے : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ لیکن مسلمانوں سے اصل خطاب گیارہویں رکوع سے شروع ہو رہا ہے اور یہاں پر اصل میں امت کو ایک سہ نکاتی لائحہ عمل دیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امت اب قیامت تک قائم رہنے والی ہے ‘ اور اس میں زوال بھی آئے گا اور اللہ تعالیٰ اولوالعزم اور باہمت لوگوں کو بھی پیدا کرے گا ‘ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ مجددین امت ہر صدی کے اندر اٹھتے رہے۔ لیکن جب بھی تجدید دین کا کوئی کام ہو ‘ دین کو ازسر نو تروتازہ کرنے کی کوشش ہو ‘ دین کو قائم کرنے کی جدوجہد ہو تو اس کا ایک لائحہ عمل ہوگا۔ وہ لائحہ عمل سورة آل عمران کی ان تین آیات 102 ‘ 103 ‘ 104 میں نہایت جامعیت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ یہ بھی تین آیات ہیں جیسے سورة العصر کی تین آیات ہیں ‘ جو نہایت جامع ہیں۔ ان آیات کے مضامین پر میری ایک کتاب بھی موجود ہے امت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل اور اس کا انگریزی میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس لائحہ عمل کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہے تو سب سے پہلے افراد کی شخصیت سازی ‘ کردار سازی کرنا ہوگی۔چنانچہ فرمایا :آیت 102 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہ وَلاَ تَمُوْتُنَّ الاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔قرآن مجید میں تقویٰ کی تلقین کے لیے یہ سب سے گاڑھی آیت ہے۔ اس پر صحابہ رض ‘ گھبرا گئے کہ یارسول اللہ ﷺ ! اللہ کے تقویٰ کا حق کون ادا کرسکتا ہے ؟ پھر جب سورة التغابن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَااسْتَطَعْتُمْ آیت 16 اپنی امکانی حد تک اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تب ان کی جان میں جان آئی۔ تقویٰ کے حکم کے ساتھ ہی یہ فرمایا کہ مت مرنا مگر حالت فرمانبرداری میں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی پتہ نہیں کس لمحے موت آجائے ‘ لہٰذا تمہارا کوئی لمحہ نافرمانی میں نہ گزرے ‘ مبادا موت کا ہاتھ اسی وقت آکر تمہیں دبوچ لے۔ اگر پہلے اس طرح کی شخصیتیں نہ بنی ہوں تو اجتماعی اصلاح کا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اس لیے پہلے افراد کی کردار سازی پر زور دیا گیا۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ ایک اجتماعیت اختیار کرو۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
📘 آیت 103 وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص۔یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت 101 ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے : وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے چمٹ جائے اللہ کی حفاظت میں آجائے اس کو تو ہدایت ہوگئی صراط مستقیم کی طرف۔ سورة الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے : وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ اور اللہ سے چمٹ جاؤ ! اب اللہ کی حفاظت میں کیسے آیا جائے ؟ اللہ سے کیسے چمٹیں ؟ اس کے لیے فرمایا : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور یہ اللہ کی رسّی کونسی ہے ؟ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآن ہے۔ ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو ‘ اور دوسری طرف اس میں علم آنا چاہیے ‘ قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے ‘ قرآن کے نظریات کو سمجھنا چاہیے ‘ قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی طرح نہیں ہوسکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے کر سب کو ہانک رہا ہے۔ انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں گے ‘ ان کی سوچ ایک بنانی ہوگی۔ یہ حیوان عاقل ہیں ‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک ہو ‘ نظریات ایک ہوں ‘ مقاصد ایک ہوں ‘ ہم آہنگی ہو ‘ نقطۂ ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع ہوں گے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جو ان میں یک رنگئ خیال ‘ یک رنگئ نظر ‘ یک جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے ‘ اور وہ قرآن ہے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ حضرت علی رض سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ نقل ہوئے ہیں : وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ 1 حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا : کِتَاب اللّٰہِ ‘ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ 2 اللہ کی کتاب کو تھامے رکھنا ‘ یہی وہ مضبوط رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا : اَبْشِرُوْا اَبْشِرُوْا۔۔ فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ‘ طَرْفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرْفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ 3 خوش ہوجاؤ ‘ خوشیاں مناؤ۔۔ یہ قرآن ایک واسطہ ہے ‘ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایک سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ چناچہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و سرچشمہ اور مبنیٰ و مدار قرآن ہے۔ اس کا عنوان ہی دعوت رجوع الی القرآن ہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی الحمد للہ اسی کام میں کھپائی ہے اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ایک سالہ رجوع الی القرآن کو رس برسہا برس سے جاری ہے۔ اس کو رس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں ‘ جو ایم اے؍ایم ایس سی ہوتے ہیں ‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں ‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہوگی تو پھر آپ دین کے اس رخ پر آگے چلیں گے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ اللہ کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًا ج یہاں اوّلین مخاطب انصار ہیں۔ ان کے جو دو قبیلے تھے اوس اور خزرج وہ آپس میں لڑتے آ رہے تھے۔ سو برس سے خاندانی دشمنیاں چلی آرہی تھیں اور قتل کے بعد قتل کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن جب ایمان آگیا ‘ اسلام آگیا ‘ اللہ کی کتاب آگئی ‘ محمد رسول اللہ ﷺ آگئے تو اب وہ شیر و شکر ہوگئے ‘ ان کے جھگڑے ختم ہوگئے۔ اسی طرح پورے عرب کے اندر غارت گری ہوتی تھی ‘ لیکن اب اللہ نے اسے دارالامن بنا دیا۔وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَا ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل کے یہ دو نکتے بیان ہوگئے۔ سب سے پہلے افراد کے کردار کی تعمیر ‘ انہیں تقویٰ اور فرمانبرداری جیسے اوصاف سے متصف کرنا۔۔ اور پھر ان کو ایک جمعیت ‘ تنظیم یا جماعت کی صورت میں منظم کرنا ‘ اور اس تنظیم کا معنوی محور قرآن مجید ہونا چاہیے ‘ جو حبل اللہ ہے۔ بقول علامہ اقبال : عاعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست ! اس کو مضبوطی سے تھامو کہ یہ حبل اللہ ہے ! اس جماعت سازی کا فطری طریقہ بھی ہم اسی سورت کی آیت 52 کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ داعی بن کر کھڑا ہو اور مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ کی آواز لگائے کہ میں تو اس راستے پر چل رہا ہوں ‘ اب کون ہے جو میرے ساتھ اس راستے پر آتا ہے اور اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے ؟ ایسی جمعیت جب وجود میں آئے گی تو وہ کیا کرے گی ؟ اس ضمن میں یہ تیسری آیت اہم ترین ہے :
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 آیت 104 وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط اس جماعت کے کرنے کے تین کام بتائے گئے ہیں ‘ جن میں اوّلین دعوت الی الخیر ہے ‘ اور واضح رہے کہ سب سے بڑا خیر یہ قرآن ہے۔ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہاں لفظ منکُمْ بڑا معنی خیز ہے کہ تم میں سے ایک ایسی امت وجود میں آنی چاہیے۔ گویا ایک تو بڑی امت ہے امت مسلمہ ‘ وہ تو ایک سو پچاس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ‘ جو خواب غفلت میں مدہوش ہیں ‘ اپنے منصب کو بھولے ہوئے ہیں ‘ دین سے دور ہیں۔ لہٰذا اس امت کے اندر ایک چھوٹی امت یعنی ایک جماعت وجود میں آئے جو جاگو اور جگاؤکا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ نے تمہیں جاگنے کی صلاحیت دے دی ہے ‘ اب اوروں کو جگاؤ اور اس کے لیے طاقت فراہم کرو ‘ ایک منظم جماعت بناؤ ! فرمایا کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ وہ بڑی امت جو کروڑوں افراد پر مشتمل ہے اور یہ کام نہیں کرتی وہ اگر فلاح اور نجات کی امید رکھتی ہے تو یہ ایک امید موہوم ہے۔ فلاح پانے والے صرف یہ لوگ ہوں گے جو تین کام کریں گے : i دعوت الی الخیر ii امر بالمعروف iii نہی عن المنکر۔ میں نے منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مراحل و مدارج کے ضمن میں بھی یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے آخری اقدام بھی نہی عن المنکر بالیدہو گا۔ اس لیے کہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے نہی عن المنکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 1تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے زور بازو سے روک ‘ دے۔ پس اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے۔ پھر اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو دل میں برائی سے نفرت ضرور رکھے۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ‘ ہے۔اگر دل میں نفرت بھی ختم ہوگئی ہے تو سمجھ لو کہ متاع ایمان رخصت ہوگئی ہے۔ بقول اقبال : وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا !ہاں ‘ دل میں نفرت ہے تو اگلا قدم اٹھاؤ۔ زبان سے کہنا شروع کرو کہ بھائی یہ چیز غلط ہے ‘ اللہ نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے ‘ یہ کام مت کرو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک طاقت بناتے جاؤ۔ ایک جماعت بناؤ ‘ قوت مجتمع کرو۔ جب وہ طاقت جمع ہوجائے تو پھر کھڑے ہوجاؤ کہ اب ہم یہ غلط کام نہیں کرنے دیں گے۔ پھر وہ ہوگا نہی عن المنکر بالید یعنی طاقت کے ساتھ برائی کو روک دینا۔ اور یہ ہوگا انقلاب کا آخری مرحلہ۔تو ان تین آیات کے اندر عظیم ہدایت ہے ‘ انقلاب کا پورا لائحہ عمل موجود ہے ‘ بلکہ اسی میں منہج انقلاب نبوی ﷺ کا جو آخری اقدامی عمل ہے وہ بھی پوشیدہ ہے۔
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 آیت 104 وَلْتَکُنْ مِّنکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط اس جماعت کے کرنے کے تین کام بتائے گئے ہیں ‘ جن میں اوّلین دعوت الی الخیر ہے ‘ اور واضح رہے کہ سب سے بڑا خیر یہ قرآن ہے۔ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ یہاں لفظ منکُمْ بڑا معنی خیز ہے کہ تم میں سے ایک ایسی امت وجود میں آنی چاہیے۔ گویا ایک تو بڑی امت ہے امت مسلمہ ‘ وہ تو ایک سو پچاس کروڑ نفوس پر مشتمل ہے ‘ جو خواب غفلت میں مدہوش ہیں ‘ اپنے منصب کو بھولے ہوئے ہیں ‘ دین سے دور ہیں۔ لہٰذا اس امت کے اندر ایک چھوٹی امت یعنی ایک جماعت وجود میں آئے جو جاگو اور جگاؤکا فریضہ سرانجام دے۔ اللہ نے تمہیں جاگنے کی صلاحیت دے دی ہے ‘ اب اوروں کو جگاؤ اور اس کے لیے طاقت فراہم کرو ‘ ایک منظم جماعت بناؤ ! فرمایا کہ یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ وہ بڑی امت جو کروڑوں افراد پر مشتمل ہے اور یہ کام نہیں کرتی وہ اگر فلاح اور نجات کی امید رکھتی ہے تو یہ ایک امید موہوم ہے۔ فلاح پانے والے صرف یہ لوگ ہوں گے جو تین کام کریں گے : i دعوت الی الخیر ii امر بالمعروف iii نہی عن المنکر۔ میں نے منہج انقلاب نبوی ﷺ کے مراحل و مدارج کے ضمن میں بھی یہ بات واضح کی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے آخری اقدام بھی نہی عن المنکر بالیدہو گا۔ اس لیے کہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے نہی عن المنکر کے تین مراتب بیان کیے ہیں۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ 1تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ اسے زور بازو سے روک ‘ دے۔ پس اگر اس کی طاقت نہیں ہے تو زبان سے روکے۔ پھر اگر اس کی بھی ہمت نہیں ہے تو دل میں برائی سے نفرت ضرور رکھے۔ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ‘ ہے۔اگر دل میں نفرت بھی ختم ہوگئی ہے تو سمجھ لو کہ متاع ایمان رخصت ہوگئی ہے۔ بقول اقبال : وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا !ہاں ‘ دل میں نفرت ہے تو اگلا قدم اٹھاؤ۔ زبان سے کہنا شروع کرو کہ بھائی یہ چیز غلط ہے ‘ اللہ نے اس کو حرام ٹھہرایا ہے ‘ یہ کام مت کرو۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی ایک طاقت بناتے جاؤ۔ ایک جماعت بناؤ ‘ قوت مجتمع کرو۔ جب وہ طاقت جمع ہوجائے تو پھر کھڑے ہوجاؤ کہ اب ہم یہ غلط کام نہیں کرنے دیں گے۔ پھر وہ ہوگا نہی عن المنکر بالید یعنی طاقت کے ساتھ برائی کو روک دینا۔ اور یہ ہوگا انقلاب کا آخری مرحلہ۔تو ان تین آیات کے اندر عظیم ہدایت ہے ‘ انقلاب کا پورا لائحہ عمل موجود ہے ‘ بلکہ اسی میں منہج انقلاب نبوی ﷺ کا جو آخری اقدامی عمل ہے وہ بھی پوشیدہ ہے۔
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ
📘 آیت 106 یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْقف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ہدایت کے آنے کے بعد تم لوگ تفرقے میں پڑگئے تھے اور حبل اللہ کو چھوڑ دیا تھا۔
وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 آیت 106 یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج فَاَمَّا الَّذِیْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْہُہُمْقف اَکَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ ہدایت کے آنے کے بعد تم لوگ تفرقے میں پڑگئے تھے اور حبل اللہ کو چھوڑ دیا تھا۔
تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۗ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ
📘 آیت 108 تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بالْحَقِّ ط وَمَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِیْنَ لوگ اپنے اوپر خود ظلم کرتے ہیں ‘ خود غلط راستے پر پڑتے ہیں اور پھر اس کی سزا انہیں دنیا اور آخرت میں بھگتنی پڑتی ہے۔
وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
📘 آیت 109 وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ قرآن حکیم میں اہم مباحث کے بعد اکثر اس طرح کی آیات آتی ہیں۔ یہ گویا concluding remarks ہوتے ہیں۔
كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ
📘 آیت 11 کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ لا والَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط تمہاری تو حیثیت ہی کیا ہے ! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ آل فرعون کا معاملہ یاد کرو ‘ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ فرعون بہت بڑا شہنشاہ اور بڑے لاؤ لشکر والا تھا ‘ لیکن اس کا کیا حال ہوا ؟ اور اس سے پہلے عاد وثمود جیسی زبردست قومیں اسی جزیرہ نمائے عرب میں رہی ہیں۔
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ
📘 آیت 110 کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ یہاں امت مسلمہ کی غرض تأسیس بیان کی جا رہی ہے۔ یعنی یہ پوری امت مسلمہ اس مقصد کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ دوسری بات ہے کہ امت مسلمہ اپنا مقصد حیات بھول جائے۔ ایسی صورت میں امت میں سے جو بھی جاگ جائیں وہ دوسروں کو جگا کرامت کے اندر ایک امت Ummah within Ummah بنائیں اور مذکورہ بالا تین کام کریں۔ لیکن حقیقت میں تو مجموعی طور پر اس امت مسلمہ کا فرض منصبی ہی یہی ہے۔ قبل ازیں ہم سورة البقرۃ کی آیت 143 میں امت مسلمہ کا فرض منصبی بایں الفاظ پڑھ چکے ہیں : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط سورة آل عمران کی آیت زیر مطالعہ اسی کے ہم وزن اور ہم پلہ آیت ہے۔ فرمایا : تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر قومیں اپنے لیے زندہ رہتی ہیں۔ ان کے پیش نظر اپنی ترقی ‘ اپنی بہتری ‘ اپنی بہبود اور دنیا میں اپنی عزت و عظمت ہوتی ہے ‘ لیکن تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مبعوث کیا گیا ہے : ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے جام رہے !مسلمان کی زندگی کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانا اور لوگوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی ‘ کوشش کرنا ہے۔ تمہیں جینا ہے ان کے لیے ‘ وہ جیتے ہیں اپنے لیے۔ تمہیں نکالا گیا ہے ‘ برپا کیا گیا ہے لوگوں کے لیے۔تَاْمُرُوْنَ بالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِِ ط نبی اکرم ﷺ کے دور میں پوری امت مسلمہ کی یہ کیفیت تھی۔ اور وہ جو پہلے بتایا گیا ہے کہ ایک جماعت وجود میں آئے آیت 104 وہ اس وقت کے لیے ہے جب امت اپنے مقصد وجود کو بھول گئی ہو۔ تو ظاہر بات ہے جن کو ہوش آجائے وہ لوگوں کو جگائیں اور ایک جمعیت فراہم کریں۔وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ ط اس سے مراد وہ لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اس وقت تک یہودیوں یا نصرانیوں میں سے ایمان لا چکے تھے ‘ اور وہ بھی جن کے اندر بالقوہ potentially ایمان موجود تھا اور اللہ کو معلوم تھا کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد ایمان لے آئیں گے۔وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔وہی معاملہ جو آج امت مسلمہ کا ہوچکا ہے۔ آج امت کی اکثریت کا جو حال ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ
📘 آیت 111 لَنْ یَّضُرُّوْکُمْ الاَّ اَذًی ط یہ تمہارے لیے تھوڑی سی زبان درازی اور کو فت کا سبب تو بنتے رہیں گے ‘ لیکن یہ بالفعل تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچا سکیں گے۔ وَاِنْ یُّقَاتِلُوْکُمْ یُوَلُّوْکُمُ الْاَدْبَارَقف۔ان میں جرأت نہیں ہے ‘ یہ بزدل ہیں ‘ تمہارا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔ثُمَّ لاَ یُنْصَرُوْنَ یہ ایسے بےبس ہوں گے کہ ان کو کہیں سے مدد بھی نہیں مل سکے گی۔
ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
📘 آیت 112 ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْآ اِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ جیسے آج پوری عیسائی دنیا ان کا سہارا بنی ہوئی ہے۔ اسرائیل اپنے بل پر نہیں ‘ بلکہ پوری عیسائی دنیا کی پشت پناہی پر قائم ہے۔ خلیج کی جنگ میں اتحادی افواج کے کمانڈر انچیف نے صاف کہہ دیا تھا کہ یہ ساری جنگ ہم نے اسرائیل کے تحفظ کے لیے لڑی ہے۔ گویا اس قدر خونریزی سے صرف اسرائیل کا تحفظ پیش نظر تھا۔ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِ حَقٍّ ط۔ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ۔یاد رہے کہ یہ آیت تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ سورة البقرۃ میں بھی گزر چکی ہے۔ آیت 61
۞ لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ
📘 آیت 113 لَیْسُوْا سَوَآءً ط۔ان میں اچھے بھی ہیں ‘ برے بھی ہیں۔مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ ۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خاص طور پر عیسائی راہبوں کی ایک کثیر تعداد اس کردار کی حامل تھی۔ ان ہی میں سے ایک بحیرہ راہب تھا جس نے بچپن میں آنحضور ﷺ کو پہچان لیا تھا۔ یہود میں بھی اکا دکا لوگ اس طرح کے باقی ہوں گے ‘ لیکن اکثر و بیشتر یہود میں سے یہ کردار ختم ہوچکا تھا ‘ البتہ عیسائیوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے۔
يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ
📘 آیت 113 لَیْسُوْا سَوَآءً ط۔ان میں اچھے بھی ہیں ‘ برے بھی ہیں۔مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ ۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خاص طور پر عیسائی راہبوں کی ایک کثیر تعداد اس کردار کی حامل تھی۔ ان ہی میں سے ایک بحیرہ راہب تھا جس نے بچپن میں آنحضور ﷺ کو پہچان لیا تھا۔ یہود میں بھی اکا دکا لوگ اس طرح کے باقی ہوں گے ‘ لیکن اکثر و بیشتر یہود میں سے یہ کردار ختم ہوچکا تھا ‘ البتہ عیسائیوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے۔
وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ
📘 آیت 113 لَیْسُوْا سَوَآءً ط۔ان میں اچھے بھی ہیں ‘ برے بھی ہیں۔مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ ۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خاص طور پر عیسائی راہبوں کی ایک کثیر تعداد اس کردار کی حامل تھی۔ ان ہی میں سے ایک بحیرہ راہب تھا جس نے بچپن میں آنحضور ﷺ کو پہچان لیا تھا۔ یہود میں بھی اکا دکا لوگ اس طرح کے باقی ہوں گے ‘ لیکن اکثر و بیشتر یہود میں سے یہ کردار ختم ہوچکا تھا ‘ البتہ عیسائیوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 آیت 113 لَیْسُوْا سَوَآءً ط۔ان میں اچھے بھی ہیں ‘ برے بھی ہیں۔مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَاءَ الَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ ۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خاص طور پر عیسائی راہبوں کی ایک کثیر تعداد اس کردار کی حامل تھی۔ ان ہی میں سے ایک بحیرہ راہب تھا جس نے بچپن میں آنحضور ﷺ کو پہچان لیا تھا۔ یہود میں بھی اکا دکا لوگ اس طرح کے باقی ہوں گے ‘ لیکن اکثر و بیشتر یہود میں سے یہ کردار ختم ہوچکا تھا ‘ البتہ عیسائیوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے۔
مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
📘 آیت 117 مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا قریش مکہ اہل ایمان کے خلاف جو جنگی تیاریاں کر رہے تھے تو اس کے لیے مال خرچ کرتے تھے۔ فوج تیار کرنی ہے تو اس کے لیے اونٹ اور دیگر سواریوں کی ضرورت ہے ‘ سامان حرب و ضرب کی ضرورت ہے ‘ تو ظاہر ہے اس کے لیے مال تو خرچ ہوگا۔ یہ اس انفاق مال کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ دنیا کی زندگی میں جو کچھ خرچ کرتے ہیں یا تو دین کی مخالفت کے لیے یا اپنے جی کو ذرا جھوٹی تسلی دینے کے لیے کرتے ہیں کہ ہم کچھ صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں ‘ چاہے ہمارا کردار کتنا ہی گرگیا ہو۔ تو ان کے انفاق کی مثال ایسی ہے :کَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْہَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ فَاَہْلَکَتْہُ ط۔یعنی ان کی یہ نیکیاں ‘ یہ انفاق ‘ یہ جدوجہد اور دوڑ دھوپ سب کی سب بالکل ضائع ہوجانے والی ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
📘 آیت 118 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ یعنی جس شخص کے بارے میں اطمینان ہو کہ صاحب ایمان ہے ‘ مسلمان ہے ‘ اس کے علاوہ کسی اور شخص کو اپنا بھیدی اور محرم راز نہ بناؤ۔ یہودی ایک عرصے سے مدینہ میں رہتے تھے اور اوس و خزرج کے لوگوں کی ان سے دوستیاں تھیں ‘ پرانے تعلقات اور روابط تھے۔ اس کی وجہ سے بعض اوقات سادہ لوح مسلمان اپنی سادگی میں راز کی باتیں بھی انہیں بتا دیتے تھے۔ اس سے انہیں روکا گیا۔لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً ط وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ج قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ ج ان کا کلام ایسا زہر آلود ہوتا ہے کہ اس سے اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی ٹپکی پڑتی ہے۔ یہ اپنی زبانوں سے آتش برساتے ہیں۔ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ ط ۔جو کچھ ان کی زبانوں سے ظاہر ہوتا ہے وہ تو پھر بھی کم ہے ‘ ان کے دلوں کے اندر دشمنی اور حسد کی جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ یعنی اپنے طرز عمل پر غور کرو اور اس سے باز آجاؤ !
هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 آیت 119 ہٰٓاَنْتُمْ اُولَآءِ تُحِبُّوْنَہُمْ یہ تمہاری شرافت اور سادہ لوحی ہے کہ تم ان سے محبت کرتے ہو اور پرانے تعلقات اور دوستیوں کو نبھانا چاہتے ہو۔ وَلاَ یُحِبُّوْنَکُمْ وہ تم سے دوستی نہیں رکھتے۔وَتُؤْمِنُوْنَ بالْکِتٰبِ کُلِّہٖج ۔تم تورات کو بھی مانتے ہو ‘ انجیل کو بھی مانتے ہو۔ سورة النساء میں الفاظ آئے ہیں : اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ۔۔ آیت 44 کیا تم نے ان لوگوں کو دیکھا جنہیں کتاب کا ایک حصہ دیا گیا تھا۔۔ چناچہ تمام آسمانی کتابیں اللہ تعالیٰ کی اس قدیم کتاب اُمُّ الکِتابہی کے حصے ہیں۔ اسی اُمُّ الکتاب میں سے پہلے تورات آئی ‘ پھر انجیل آئی اور پھر یہ قرآن مجید آیا ہے ‘ جو ہدایت کاملہ پر مشتمل ہے۔ تو تم تو پوری کی پوری کتاب کو مانتے ہو۔وَاِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْآ اٰمَنَّاق وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ ط جب وہ دیکھتے ہیں کہ اب ان کی کچھ پیش نہیں جارہی اور اسلام کا معاملہ اور آگے سے آگے بڑھتا جا رہا ہے تو غصے میں پیچ و تاب کھاتے ہیں اور اپنی انگلیاں چباتے ہیں۔
قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
📘 آیت 11 کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ لا والَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط تمہاری تو حیثیت ہی کیا ہے ! کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ آل فرعون کا معاملہ یاد کرو ‘ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ فرعون بہت بڑا شہنشاہ اور بڑے لاؤ لشکر والا تھا ‘ لیکن اس کا کیا حال ہوا ؟ اور اس سے پہلے عاد وثمود جیسی زبردست قومیں اسی جزیرہ نمائے عرب میں رہی ہیں۔
إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
📘 آیت 120 اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ ز۔اگر تمہیں کوئی کامیابی حاصل ہوجائے ‘ کہیں فتح نصیب ہوجائے تو ان کو اس سے تکلیف پہنچتی ہے۔ وَاِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّءَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا ط۔اگر تمہیں کوئی گزند پہنچ جائے ‘ کہیں عارضی طور پر شکست ہوجائے ‘ جیسے احد میں ہوگئی تھی ‘ تو بڑے خوش ہوتے ہیں ‘ شادیانے بجاتے ہیں۔وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْءًا ط۔سورۃ البقرۃ میں صبر اور صلوٰۃ سے مدد لینے کی تلقین کی گئی تھی ‘ یہاں صلوٰۃ کی جگہ لفظ تقویٰ آگیا ہے کہ اگر تم یہ کرتے رہو گے تو پھر بالآخر ان کی ساری سازشیں ناکام ہوں گی۔ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ ۔یہ اللہ تعالیٰ کے دائرے سے اور اس کی کھینچی ہوئی حد سے آگے نہیں نکل سکتے۔ یہ اس کے اندر اندر اچھل کود کر رہے ہیں اور سازشیں کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں یہ ضمانت دے رہا ہے کہ یہ تمہیں کوئی مستقل نقصان نہیں پہنچا سکیں گے
وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 یہاں سے سورة آل عمران کے نصف ثانی کے دوسرے حصے کا آغاز ہو رہا ہے ‘ جو چھ رکوعات پر محیط ہے۔ یہ چھ رکوع مسلسل غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل ہیں۔ غزوۂ احد شوال 3 ھ میں پیش آیا تھا۔ اس سے پہلے رمضان 2 ھ میں غزوۂ بدر پیش آچکا تھا ‘ جس کا تذکرہ ہم سورة الانفال میں پڑھیں گے۔ اس لیے کہ ترتیب مصحف نہ تو ترتیب زمانی کے اعتبار سے ہے اور نہ ہی ترتیب نزولی کے مطابق۔ غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بہت زبردست فتح دی تھی اور کفار مکہ کو بڑی زک پہنچی تھی۔ ان کے ستر 70 سربرآوردہ لوگ مارے گئے تھے ‘ جن میں قریش کے تقریباً سارے بڑے بڑے سردار بھی شامل تھے۔ اہل مکہ کے سینوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور ان کے انتقامی جذبات لاوے کی طرح کھول رہے تھے۔ چناچہ ایک سال کے اندر اندر انہوں نے پوری تیاری کی اور تمام ساز و سامان جو وہ جمع کرسکتے تھے جمع کرلیا۔ ابوجہل غزوۂ بدر میں مارا جا چکا تھا اور اب قریش کے سب سے بڑے سردار ابوسفیان تھے۔ ابوسفیان چونکہ بعد میں ایمان لے آئے تھے اور صحابیت کے مرتبے سے سرفراز ہوئے تھے لہٰذا ہم ان کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ ابوسفیان تین ہزار جنگجوؤں کا لشکر لے کر مدینہ پر چڑھ دوڑے۔ اہل مکہ اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے اس دفعہ اپنے بچوں اور خاص طور پر خواتین کو بھی ساتھ لے کر آئے تھے تاکہ ان کی غیرت بیدار رہے کہ اگر کہیں میدان سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہماری عورتیں مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائیں گی۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ بنت عتبہ بھی لشکر کے ہمراہ تھی۔ وہ بھی بعد میں فتح مکہ کے موقع پر ایمان لے آئی تھیں۔ غزوۂ بدر میں ہندہ کا باپ ‘ بھائی اور چچا مسلمانوں کے ہاتھوں واصل جہنم ہوچکے تھے ‘ لہٰذا اس کے سینے کے اندر بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ مکہ کا شاید ہی کوئی گھر بچا ہو جس کا کوئی فرد غزوۂ بدر میں مارا نہ گیا ہو۔اس موقع پر نبی اکرم ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک مشاورت منعقد فرمائی کہ اب کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے ‘ جبکہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کرنے آ رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا اپنا رجحان اس طرف تھا کہ اس صورت حال میں ہم اگر مدینہ میں محصور ہو کر مقابلہ کریں تو بہتر رہے گا۔ عجیب اتفاق ہے کہ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی بھی یہی رائے تھی۔ لیکن وہ لوگ جو بدر کے بعد ایمان لائے تھے اور وہ جو غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوپائے تھے ان میں سے خاص طور پر نوجوانوں کی طرف سے خصوصی جوش و خروش کا مظاہرہ ہو رہا تھا کہ ہمیں میدان میں نکل کر دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے ‘ ہمیں تو شہادت درکار ہے ‘ ہمیں آخر موت سے کیا ڈر ہے ؟ شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی !چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے فیصلہ فرما دیا کہ دشمن کا کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ سے جبل احد کی جانب کوچ فرمایا ‘ لیکن راستے ہی میں عبداللہ بن ابی اپنے تین سو آدمیوں کو ساتھ لے کر یہ کہہ کر واپس چلا گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا اور ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم خواہ مخواہ اپنی جانیں جوکھوں میں کیوں ڈالیں ؟ تین سو منافقین کے چلے جانے کے بعد اسلامی لشکر میں صرف سات سو افراد باقی رہ گئے تھے ‘ جن میں کمزور ایمان والے بھی تھے۔ چناچہ دامن احد میں پہنچ کر مدینہ کے دو خاندانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم بھی تھوڑی دیر کے لیے ڈگمگائے اور انہوں نے واپس لوٹنا چاہا ‘ لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو حوصلہ دیا اور ان کے قدم جما دیے۔ اس کے بعد جنگ ہوئی تو اللہ کی طرف سے مدد آئی۔ اللہ نے لشکر اسلام کو فتح دے دی اور مشرکین کے قدم اکھڑ گئے۔ نبی اکرم ﷺ نے احد پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا تھا اور اس کے دامن میں صف بندی کی تھی۔ سامنے دشمن کا لشکر تھا۔ پہاڑ میں ایک درّہ تھا اور حضور ﷺ کو اندیشہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ وہاں سے ہم پر حملہ ہوجائے اور ہم دو طرف سے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان آجائیں۔ لہٰذا آپ ﷺ نے اس درّہ پر حضرت عبداللہ بن جبیر رض کی امارت میں پچاس تیر انداز تعینات فرما دیے تھے اور انہیں تاکید فرمائی تھی یہاں سے مت ہلنا۔ چاہے تم دیکھو کہ ہم سب مارے گئے ہیں اور ہمارا اگوشت چیلیں اور کوّے نوچ رہے ہیں تب بھی یہ جگہ مت چھوڑنا ! لیکن جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی تو درّے پر مامور حضرات میں اختلاف رائے ہوگیا۔ ان میں سے اکثر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو اتنی تاکید فرمائی تھی وہ تو شکست کی صورت میں تھی ‘ اب تو فتح ہوگئی ہے ‘ لہٰذا اب ہمیں بھی چل کر مال غنیمت جمع کرنے میں باقی سب لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رض وہاں کے لوکل کمانڈر تھے ‘ وہ انہیں منع کرتے رہے کہ یہاں سے ہرگز مت ہٹو ‘ رسول اللہ ﷺ کا حکم یاد رکھو۔ لیکن وہ تو حضور ﷺ کے حکم کی تاویل کرچکے تھے۔ ان میں سے 35 افراد درّہ چھوڑ کر چلے گئے اور صرف 15 باقی رہ گئے۔ خالد بن ولید جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے مشرکین کی گھڑ سوارفوج cavalry کے کمانڈر تھے۔ ان کی عقابی نگاہ نے دیکھ لیا کہ وہ درہ خالی ہے۔ ان کی پیدل فوج infantry شکست کھا چکی تھی اور بھگدڑ مچ چکی تھی۔ ایسے میں وہ اپنے دو سو گھڑ سواروں کے دستے کے ساتھ احد کا چکر کاٹ کر پشت سے اس درے کے راستے مسلمانوں پر حملہ آور ہوگئے۔ درّے پر صرف پندرہ تیر انداز باقی تھے ‘ ان کے لیے دو سو گھڑ سواروں کی یلغار کو روکنا ممکن نہیں تھا اور وہ مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس اچانک حملے سے یکلخت جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کی فتح شکست میں بدل گئی۔ ستر صحابہ کرام رض شہید ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ خود بھی زخمی ہوگئے۔َ خود کی کڑیاں آپ ﷺ کے رخسار میں گھس گئیں اور دندان مبارک شہید ہوگئے۔ خون اتنا بہا کہ آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ اور یہ بھی مشہور ہوگیا کہ حضور ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے حوصلے پست ہوگئے۔ لیکن پھر جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو پکارا تو لوگ ہمت کر کے جمع ہوئے۔ تب آپ ﷺ نے یہ فیصلہ کیا کہ اس وقت پہاڑ پر چڑھ کر بچاؤ کرلیا جائے ‘ اور آپ تمام مسلمانوں کو لے کر کوہ احد پر چڑھ گئے۔ اس موقع پر ابوسفیان اور خالد بن ولید کے مابین اختلاف رائے ہوگیا۔ خالد بن ولید کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کے پیچھے پہاڑ پر چڑھنا چاہیے اور انہیں ختم کر کے ہی دم لینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان بڑے حقیقت پسند اور زیرک شخص تھے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ‘ مسلمان اونچائی پر ہیں ‘ وہ اوپر سے پتھر پھینکیں گے اور تیر برسائیں گے تو ہمارے لیے شدید جانی نقصان کا اندیشہ ہے۔ ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا ہے ‘ یہی بہت ہے۔ چناچہ مشرکین وہاں سے چلے گئے۔ مطالعۂ آیات سے قبل غزوۂ احد کے سلسلۂ واقعات کا یہ اجمالی خاکہ ذہن میں رہنا چاہیے۔آیت 121 وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِیْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ط۔غزوۂ احد کی صبح آپ ﷺ حضرت عائشہ رض کے حجرے سے برآمد ہوئے تھے اور جنگ کے میدان میں صف بندی کر رہے تھے ‘ وہاں مورچے معین کر رہے تھے اور ان میں صحابہ کرام رض کو مامور کر رہے تھے۔
إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
📘 آیت 122 اِذْ ہَمَّتْ طَّآءِفَتٰنِ مِنْکُمْ اَنْ تَفْشَلاَلا انہوں نے کچھ کمزوری دکھائی ‘ حوصلہ چھوڑنے لگے اور ان کے پاؤں لڑکھڑائے۔وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ rَجنگ کے آغاز سے پہلے انصار کے دو گھرانوں بنو حارثہ اور بنوسلمہ کے قدم وقتی طور پر ڈگمگا گئے تھے ‘ بربنائے طبع بشری ان کے حوصلے پست ہونے لگے تھے اور انہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا تھا ‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ثبات عطا فرمایا اور ان کے قدموں کو جما دیا۔ پھر ان کا ذکر قرآن میں کردیا گیا۔ اور وہ اس پر فخر کرتے تھے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مِنْکُمْ اور وَاللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ط کے الفاظ میں کیا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ تین سو منافقین جو میدان جنگ سے چلے گئے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر تک نہیں کیا۔ گویا وہ اس لائق بھی نہیں ہیں کہ ان کا براہ راست ذکر کیا جائے۔ البتہ آخر میں ان کا ذکر بالواسطہ طور پر indirectly آئے گا۔
وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 آیت 123 وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ ج غزوۂ بدر میں ایک ہزار مشرکین کے مقابلے میں اہل ایمان صرف تین سو تیرہ تھے ‘ جبکہ سب کے پاس تلواریں بھی نہیں تھیں۔ کل آٹھ تلواریں تھیں۔ کفار مکہ ایک سو گھوڑوں کا رسالہ لے کر آئے تھے اور ادھر صرف دو گھوڑے تھے۔ ادھر سات سو اونٹ تھے اور ادھر ستر اونٹ تھے۔ اس سب کے باوجود اللہ نے تمہاری مدد کی تھی اور تمہیں اپنے سے طاقتور دشمن پر غلبہ عطا فرمایا تھا۔
إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ
📘 آیت 124 اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ یعنی اے مسلمانو ! اگر مقابلے میں تین ہزار کا لشکر آگیا ہے تو کیا غم ہے۔ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے بھیجے گا جو آسمان سے اتریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی اس خوشخبری کو ‘ جو ایک طرح سے استدعا بھی ہوسکتی تھی ‘ فوری طور پر شرف قبولیت عطا فرمایا اور اس کی منظوری کا اعلان فرما دیا۔
بَلَىٰ ۚ إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ
📘 آیت 124 اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّکْفِیَکُمْ اَنْ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمْ بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ یعنی اے مسلمانو ! اگر مقابلے میں تین ہزار کا لشکر آگیا ہے تو کیا غم ہے۔ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے بھیجے گا جو آسمان سے اتریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کی اس خوشخبری کو ‘ جو ایک طرح سے استدعا بھی ہوسکتی تھی ‘ فوری طور پر شرف قبولیت عطا فرمایا اور اس کی منظوری کا اعلان فرما دیا۔
وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
📘 آیت 126 وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی لَکُمْ وَلِتَطْمَءِنَّ قُلُوْبُکُمْ بِہٖ ط وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ الْعَزِ یْزِ الْحَکِیْمِ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت کے طور پر تمہارے دلوں کے اطمینان کے لیے تمہیں بتادیا گیا ہے ‘ ورنہ اللہ فرشتوں کو بھیجے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا ہے ‘ وہ کُن فیکون کی شان رکھتا ہے۔ تمہیں یہ بشارت تمہاری طبع بشری کے حوالے سے دی گئی ہے کہ اگر تین ہزار کی تعداد میں دشمن سامنے ہوا تو تمہاری مدد کو تین ہزار فرشتے اتر آئیں گے ‘ اور اگر وہ فوری طور پر حملہ آور ہوگئے تو ہم پانچ ہزار فرشتے بھیج دیں گے۔
لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ
📘 آیت 127 لِیَقْطَعَ طَرَفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنْقَلِبُوْا خَآءِبِیْنَ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرہ زمانی ترتیب سے نہیں ہے۔ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کا اپنے گھر سے نکل کر میدان جنگ میں مورچہ بندی کا ذکر ہوا۔ پھر اس سے پہلے کا ذکر ہو رہا ہے جب خبریں پہنچی ہوں گی کہ تین ہزار کا لشکر مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لیے آ رہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت کی خوشخبری دی ہوگی۔ اب اس جنگ کے دوران مسلمانوں سے جو کچھ خطائیں اور غلطیاں ہوئیں ان کی نشان دہی کی جا رہی ہے۔ خود آنحضور ﷺ سے بھی خطا کا ایک معاملہ ہوا ‘ اس پر بھی گرفت ہے ‘ بلکہ سب سے پہلے اسی معاملے کو لیا جا رہا ہے۔ جب آپ ﷺ شدید زخمی ہوگئے اور آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی ‘ پھر جب ہوش آیا تو آپ ﷺ کی زبان پر یہ الفاظ آگئے : کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ 1یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا !تلوار کا وار آنحضور ﷺ کے رخسار کی ہڈی پر پڑا تھا اور اس سے آپ ﷺ کے دو دانت بھی شہید ہوگئے تھے۔ زخم سے خون کا فوارہ چھوٹا تھا جس سے آپ ﷺ کا پورا چہرۂ مبارک لہولہان ہوگیا تھا۔ خون اتنی مقدار میں بہہ گیا تھا کہ آپ ﷺ پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ آپ ﷺ ہوش میں آئے تو زبان مبارک سے یہ الفاظ اداہو گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی : لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ۔۔ اے نبی ﷺ اس معاملے میں آپ ﷺ ‘ کا کوئی اختیار نہیں ہے ‘ آپ ﷺ ‘ کا کام دعوت دینا اور تبلیغ کرنا ہے۔ لوگوں کی ہدایت اور ضلالت کے فیصلے ہم کرتے ہیں۔ اور دیکھئے اللہ نے کیا شان دکھائی ؟ جس شخص کی وجہ سے مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی ‘ یعنی خالد بن ولید ‘ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ ہی کی زبان مبارک سے اسے سیفٌ مِن سُیوف اللّٰہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار کا خطاب دلوا دیا۔
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ
📘 آیت 128 لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْ یُعَذِّبَہُمْ یہ اللہ کے اختیار میں ہے ‘ وہ چاہے گا تو ان کو توبہ کی توفیق دے دے گا ‘ وہ ایمان لے آئیں گے ‘ یا اللہ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا۔فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ ان کے ظالم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ‘ لہٰذا وہ سزا کے حق دار تو ہوچکے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے اللہ انہیں ہدایت دے دے۔ دیکھئے ‘ یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ چند سال پہلے طائف میں رسول اللہ ﷺ سے جس طرح بدسلوکی کا مظاہرہ کیا گیا وہ آپ ﷺ کی زندگی کا شدید ترین دن تھا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ یہ ملک الجبال حاضر ہے۔ یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے ‘ آپ ﷺ فرمائیں تو ان دونوں پہاڑوں کو ٹکرا دوں جن کے مابین وادی کے اندر یہ شہر طائف آباد ہے ‘ تاکہ یہ سب پس جائیں ‘ ان کا سرمہ بن جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ لیکن یہ وقت کچھ ایسا تھا کہ بربنائے طبع بشری زبان مبارک سے وہ جملہ نکل گیا۔ اس لیے کہ : وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلْ بندہ بندہ ہی رہتا ہے چاہے کتنا ہی بلند ہوجائے ‘ اور ربّ ‘ رب ہی ہے چاہے کتنا ہی نزول فرما لے !
وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 آیت 128 لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْ یُعَذِّبَہُمْ یہ اللہ کے اختیار میں ہے ‘ وہ چاہے گا تو ان کو توبہ کی توفیق دے دے گا ‘ وہ ایمان لے آئیں گے ‘ یا اللہ چاہے گا تو انہیں عذاب دے گا۔فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ ان کے ظالم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ‘ لہٰذا وہ سزا کے حق دار تو ہوچکے ہیں۔ لیکن ہوسکتا ہے اللہ انہیں ہدایت دے دے۔ دیکھئے ‘ یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ چند سال پہلے طائف میں رسول اللہ ﷺ سے جس طرح بدسلوکی کا مظاہرہ کیا گیا وہ آپ ﷺ کی زندگی کا شدید ترین دن تھا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آکر کہا کہ یہ ملک الجبال حاضر ہے۔ یہ کہتا ہے کہ مجھے اللہ نے بھیجا ہے ‘ آپ ﷺ فرمائیں تو ان دونوں پہاڑوں کو ٹکرا دوں جن کے مابین وادی کے اندر یہ شہر طائف آباد ہے ‘ تاکہ یہ سب پس جائیں ‘ ان کا سرمہ بن جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ لیکن یہ وقت کچھ ایسا تھا کہ بربنائے طبع بشری زبان مبارک سے وہ جملہ نکل گیا۔ اس لیے کہ : وَالْعَبْدُ عَبْدٌ وَاِنْ تَرَقّٰی وَالرَّبُّ رَبٌّ وَاِنْ تَنَزَّلْ بندہ بندہ ہی رہتا ہے چاہے کتنا ہی بلند ہوجائے ‘ اور ربّ ‘ رب ہی ہے چاہے کتنا ہی نزول فرما لے !
قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ
📘 آیت 13 قَدْ کَانَ لَکُمْ اٰیَۃٌ فِیْ فِءَتَیْنِ الْتَقَتَا ط یعنی بدر کی جنگ میں ایک طرف مسلمان تھے اور دوسری طرف مشرکین مکہ تھے۔ اس میں تمہارے لیے نشانی موجود ہے۔ فِءَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَاُخْرٰی کَافِرَۃٌ یَّرَوْنَہُمْ مِّثْلَیْہِمْ رَاْیَ الْعَیْنِ ط اس کے کئی معانی کیے گئے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو تو کھلم کھلا نظر آ رہا تھا کہ ہمارے مقابل ہم سے دوگنی فوج ہے ‘ جبکہ وہ تگنی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوۂ بدر میں کفار پر ایسا رعب طاری کردیا تھا کہ انہیں نظر آ رہا تھا کہ مسلمان ہم سے دگنے ہیں۔وَاللّٰہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِی الْاَبْصَارِ یہ عبرت اور سبق آموزی صرف ان کے لیے ہوتی ہے جو آنکھیں رکھتے ہوں ‘ جن کے اندر دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ اگلی آیت فطرت انسانی کے اعتبار سے بڑی اہم ہے۔ بعض لوگوں میں خاص طور پر دنیا اور علائق دنیوی کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے۔ یہاں اس کا اصل سبب بتایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے واقعتا یہ شے فطرت انسانی میں رکھی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو قیامت تک آباد رکھنا ہے اور اس کی رونقیں بحال رکھنی ہیں۔ چناچہ مرد اور عورت کی ایک دوسرے کے لیے کشش ہوگی تو اولاد پیدا ہوگی اور دنیا کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اس طرح دنیا قائم رہے گی۔ دولت کی کوئی طلب ہوگی تو آدمی محنت و مشقت کرے گا اور دولت کمائے گا۔ اس لیے یہ چیزیں فطرت انسانی میں basic animal instincts کے طور پر رکھ دی گئی ہیں۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جبلی تقاضوں کو دبا کر رکھا جائے ‘ اللہ کی محبت اور اللہ کی شریعت کو اس سے بالاتر رکھا جائے۔ یہ مطلوب نہیں ہے کہ ان کو ختم کردیا جائے۔ تعذیب نفس اور نفس کشی self annihilation اسلام میں نہیں ہے۔ یہ تو رہبانیت ہے کہ اپنے نفس کو کچل دو ‘ ختم کر دو۔ جبکہ اسلام تزکیۂ نفس اور self control کا درس دیتا ہے کہ اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ نفس انسانی ایک منہ زور گھوڑا ہے۔ گھوڑا جتنا طاقت ور ہوتا ہے اتنا ہی سوار کے لیے تیز دوڑنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن منہ زور اور طاقتور گھوڑے کو قابو میں رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ ورنہ سوار اگر اس کے رحم و کرم پر آگیا تو وہ جہاں چاہے گا اسے پٹخنی دے دے گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
📘 آیت 130 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص یہاں پر سود مرکب compound interest کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرۃ آیت 219 میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود usury سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم 9 ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرۃ میں ہے۔ وہ پورا رکوع نمبر 38 ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔
وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
📘 آیت 130 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص یہاں پر سود مرکب compound interest کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرۃ آیت 219 میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود usury سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم 9 ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرۃ میں ہے۔ وہ پورا رکوع نمبر 38 ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
📘 آیت 130 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص یہاں پر سود مرکب compound interest کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرۃ آیت 219 میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود usury سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم 9 ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرۃ میں ہے۔ وہ پورا رکوع نمبر 38 ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔
۞ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ
📘 آیت 130 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَاْکُلُوا الرِّبآوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃًص یہاں پر سود مرکب compound interest کا ذکر آیا ہے جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے۔ واضح رہے کہ شراب اور جوئے کی طرح سود کی حرمت کے احکام بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے ایک مکی سورة ‘ سورة الروم میں انفاق فی سبیل اللہ اور سود کو ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر سود کی قباحت اور شناعت کو واضح کردیا گیا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ جیسے کہ شراب اور جوئے کی خرابی کو سورة البقرۃ آیت 219 میں بیان کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد آیت زیر مطالعہ میں دوسرے قدم کے طور پر مہاجنی سود usury سے روک دیا گیا۔ ہمارے ہاں آج کل بھی ایسے سود خور موجود ہیں جو بہت زیادہ شرح سود پر لوگوں کو قرض دیتے ہیں اور ان کا خون چوس جاتے ہیں۔ تو یہاں اس سود کی مذمت آئی ہے۔ سود کے بارے میں آخری اور حتمی حکم 9 ھ میں نازل ہوا ‘ لیکن ترتیب مصحف میں وہ سورة البقرۃ میں ہے۔ وہ پورا رکوع نمبر 38 ہم مطالعہ کرچکے ہیں۔ وہاں پر سود کو دو ٹوک انداز میں حرام قرار دے دیا گیا اور سود خوری سے باز نہ آنے پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے جنگ کا الٹی میٹم دے دیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ غزوۂ احد کے حالات و واقعات کے درمیان سود خوری کی مذمت کیوں بیان ہوئی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درے پر مامور پچاس تیر اندازوں میں سے پینتیس اپنی جگہ چھوڑ کر جو چلے گئے تھے تو ان کے تحت الشعور میں مال غنیمت کی کوئی طلب تھی ‘ جو نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اس حوالے سے سود خوری کی مذمت بیان کی گئی کہ یہ بھی انسان کے اندر مال و دولت سے ایسی محبت پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے اس کے کردار میں بڑے بڑے خلا پیدا ہوسکتے ہیں۔
الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
📘 آیت 134 الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَالضَّرَّآءِ یہاں بھی تقابل ملاحظہ کیجیے کہ سود کے مقابلے میں انفاق کا ذکر ہوا ہے۔وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ یہ درجۂ احسان ہے ‘ جو اسلام اور ایمان کے بعد کا درجہ ہے۔
وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 آیت 135 وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف یہ مضمون سورة النساء میں آئے گا کہ کسی مسلمان شخص سے اگر کوئی خطا ہوجائے اور وہ فوراً توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اللّٰہُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ یعنی ایسا نہیں کہ گناہ پر گناہ کرتے چلے جا رہے ہیں کہ موت آنے پر توبہ کرلیں گے۔ اس وقت کی توبہ توبہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان سے اگر جذبات کی رو میں بہہ کر یا بھول چوک میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ ہوش آنے پر اللہ کے حضور گڑگڑائے ‘ عزم مصمم کرے کہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا ‘ اور پوری پشیمانی کے ساتھ صمیم قلب سے اللہ کی جناب میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
📘 آیت 135 وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ قف یہ مضمون سورة النساء میں آئے گا کہ کسی مسلمان شخص سے اگر کوئی خطا ہوجائے اور وہ فوراً توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر واجب ٹھہرا لیا ہے کہ اس کی توبہ ضرور قبول فرمائے گا۔ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اللّٰہُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ یعنی ایسا نہیں کہ گناہ پر گناہ کرتے چلے جا رہے ہیں کہ موت آنے پر توبہ کرلیں گے۔ اس وقت کی توبہ توبہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان سے اگر جذبات کی رو میں بہہ کر یا بھول چوک میں کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور وہ ہوش آنے پر اللہ کے حضور گڑگڑائے ‘ عزم مصمم کرے کہ دوبارہ ایسا نہیں کرے گا ‘ اور پوری پشیمانی کے ساتھ صمیم قلب سے اللہ کی جناب میں توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔
قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
📘 آیت 137 قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے تو راستے میں قوم ثمود کا مسکن بھی آتا تھا اور وہ بستیاں بھی آتی تھیں جن میں کبھی حضرت لوط علیہ السلام نے تبلیغ کی تھی۔ ان کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔
هَٰذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ
📘 آیت 137 قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ سُنَنٌ لا فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ قریش کے تجارتی قافلے شام کی طرف جاتے تھے تو راستے میں قوم ثمود کا مسکن بھی آتا تھا اور وہ بستیاں بھی آتی تھیں جن میں کبھی حضرت لوط علیہ السلام نے تبلیغ کی تھی۔ ان کے کھنڈرات سے عبرت حاصل کرو کہ ان کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 آیت 139 وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ یہ آیت بہت اہم ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا پختہ وعدہ ہے کہ تم ہی غالب و سربلند ہو گے ‘ آخری فتح تمہاری ہوگی ‘ بشرطیکہ تم مؤمن ہوئے۔ یہ آیت ہمیں دعوت فکر دیتی ہے کہ آج دنیا میں جو ہم ذلیل ہیں ‘ غالب و سربلند نہیں ہیں ‘ تو نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ یہ کہ ہمارے اندر ایمان نہیں ہے ‘ ہم حقیقی ایمان سے محروم ہیں۔ ہم جس ایمان کے مدعی ہیں وہ محض ایک موروثی عقیدہ ہے ‘ یقین قلبی اور conviction والا ایمان نہیں ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ امت کے اندر حقیقی ایمان موجود ہو اور پھر بھی وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہو۔
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
📘 آیت 14 زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ مرغوبات دنیا میں سے پہلی محبت عورتوں کی گنوائی گئی ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک بھی انسانی محرکات میں سب سے قوی اور زبردست محرک potent motive جنسی جذبہ ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے لیے پیٹ کا مسئلہ فوقیت اختیار کرجاتا ہے اور معاشی ضرورت جنسی جذبے سے بھی شدید تر ہوجاتی ہے ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے مابین کشش انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا ہے : مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ 1میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے زیادہ ضرر رساں فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔ان کی محبت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ بلعام بن باعورہ یہود میں سے ایک بہت بڑا عالم اور فاضل شخص تھا ‘ مگر ایک عورت کے چکر میں آکر وہ شیطان کا پیرو بن گیا۔ اس کا قصہّ سورة الاعراف میں بیان ہوا ہے۔ بہرحال عورتوں کی محبت انسانی فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کو بیٹے بہت پسند ہیں کہ اس کی نسل اور اس کا نام چلتا رہے ‘ وہ بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ عمدہ نسل کے گھوڑے جنہیں چن کر ان پر نشان لگائے جاتے ہیں۔وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں چوپاؤں کو مال کہا جاتا ہے۔ یہ جانور ان کے مالکوں کے لیے مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج بس نقطۂ اعتدال یہ ہے کہ جان لو یہ ساری چیزیں اس دنیا کی چند روزہ زندگی کا سازوسامان ہیں۔ اس زندگی کے لیے ضروریات کی حد تک ان سے فائدہ اٹھانا کوئیُ بری بات نہیں ہے۔وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ۔وہ جو اللہ کے پاس ہے اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایمان بالآخرت موجود ہے تو پھر انسان ان تمام مرغوبات کو ‘ اپنے تمام جذبات اور میلانات کو ایک حد کے اندر رکھے گا ‘ اس سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اگر ان میں سے کسی ایک شے کی محبت بھی اتنی زوردار ہوگئی کہ آپ کے دل کے اوپر اس کا قبضہ ہوگیا تو بس آپ اس کے غلام ہوگئے ‘ اب وہی آپ کا معبود ہے ‘ چاہے وہ دولت ہو یا کوئی اور شے ہو۔
إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
📘 آیت 140 اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ ط اہل ایمان کو غزوۂ احد میں اتنی بڑی چوٹ پہنچی تھی کہ ستر صحابہ رض ‘ شہید ہوگئے۔ ان میں حضرت حمزہ رض بھی تھے اور مصعب بن عمیر رض بھی۔ انصار کا کوئی گھرانہ ایسا نہیں تھا جس کا کوئی فرد شہید نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان جب مدینہ واپس آئے تو ہر گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ اس وقت تک میت پر بین کرنے کی ممانعت نہیں ہوئی تھی۔ عورتیں مرثیے کہہ رہی تھیں ‘ بینَ کر رہی تھیں ‘ ماتم کر رہی تھیں۔ اس حالت میں خود آنحضور ﷺ کی زبان مبارک سے الفاظ نکل گئے : لٰکِنَّ حَمْزَۃَ لَا بَوَاکِی لَہٗ ! 1 ہائے حمزہ کے لیے تو کوئی رونے والیاں بھی نہیں ہیں ! کیونکہ مدینہ میں حضرت حمزہ رض کی کوئی رشتہ دار خواتین نہیں تھیں۔ حمزہ رض تو مہاجر تھے۔ انصار کے گھرانوں کی خواتین اپنے اپنے مقتولوں پر آنسو بہا رہی تھیں اور بین کر رہی تھیں۔ پھر انصار نے اپنے گھروں سے جا کر خواتین کو حضرت حمزہ رض کی ہمشیرہ حضرت صفیہ رض کے گھر بھیجا کہ وہاں جا کر تعزیت کریں۔ بہرحال دکھ تو محمد ‘ ٌ رسول اللہ ﷺ کو بھی پہنچا ہے۔ آخر آپ ﷺ کے سینے کے اندر ایک حسّاس دل تھا ‘ پتھر کا کوئی ٹکڑا تو نہیں تھا۔ یہاں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی دلجوئی کے لیے فرما رہا ہے کہ اتنے غمگین نہ ہو ‘ اتنے ملول نہ ہو ‘ اتنے دل گرفتہ نہ ہو۔ اس وقت اگر تمہیں کوئی چرکالگا ہے تو تمہارے دشمن کو اس جیسا چرکا اس سے پہلے لگ چکا ہے۔ ایک سال پہلے ان کے بھی ستر افراد مارے گئے تھے۔ ّ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ ج یہ تو دن ہیں جن کو ہم لوگوں میں الٹ پھیر کرتے رہتے ‘ ہیں۔یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ کسی قوم کو ہم ایک سی کیفیت میں نہیں رکھتے۔وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اگر امتحان اور آزمائش نہ آئے ‘ تکلیف نہ آئے ‘ قربانی نہ دینی پڑے ‘ کوئی زک نہ پہنچے تو کیسے پتا چلے کہ حقیقی مؤمن کون ہے ؟ امتحان و آزمائش سے تو پتا چلتا ہے کہ کون ثابت قدم رہا۔ اللہ تعالیٰ جاننا چاہتا ہے ‘ دیکھنا چاہتا ہے ‘ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ کس نے اپنا سب کچھ لگا دیا ؟ کس نے صبر کیا ؟وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآءَ ط۔انہیں اپنی گواہی کے لیے قبول کرلے۔وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ اگر تمہیں تکلیف پہنچی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ نے کفار کی مدد کی ہے اور ان کو پسند کیا ہے معاذ اللہ !
وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ
📘 آیت 141 وَلِیُمَحِّصَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَمْحَقَ الْکٰفِرِیْنَ مسلمانوں میں سے خاص طور پر انصار مدینہ کی آزمائش مطلوب ہے جو ابھی ایمان لائے ہیں ‘ ان میں کچھ پختہ ایمان والے ہیں ‘ کچھ کمزور ایمان والے ہیں اور کچھ منافق بھی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ وہ پورے طریقے سے پختہ ہوجائیں ‘ اور اگر کوئی کچا ہی رہتا ہے تو وہ اہل ایمان سے کٹ جائے ‘ تاکہ بحیثیت مجموعی جماعتی قوت کو کوئی ضعف نہ پہنچے۔ تو یہ جو تمہارے اندر ہر طرح کے لوگ گڈمڈ ہوگئے ہیں کہ کچھ مؤمن صادق ہیں ‘ پختہ ایمان والے ہیں ‘ کچھ کمزور ایمان والے ہیں اور کچھ منافق بھی ہیں ‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ تمحیص کی ہے کہ سب کو چھانٹ کر الگ کردیا ہے۔ چناچہ عبداللہ بن ابی اور اس کے تین سو ساتھیوں کے نفاق کا پردہ چاک ہوگیا ‘ ورنہ ان کی اصلیت تم پر کیسے ظاہر ہوتی ؟ بحث و تمحیص ہم اردو میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ بحث کا معنی ہے کریدنا اور تمحیص الگ الگ کرنا۔
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ
📘 آیت 142 اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصّٰبِرِیْنَ گویا ع ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ! ابھی تو تمہارے لیے اس راستے میں کڑی سے کڑی منزلیں آنے والی ہیں۔ یاد رہے کہ یہ مضمون ہم سورة البقرۃ کی آیت 214 میں پڑھ آئے ہیں۔ نوٹ کیجیے کہ زیر مطالعہ آیت کا نمبر 142 ہے ‘ یعنی ہندسوں کی صرف ترتیب بدلی ہوئی ہے۔
وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ
📘 آیت 143 وَلَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَلْقَوْہُ فَقَدْ رَاَیْتُمُوْہُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ یہاں روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو نئے نئے ایمان لائے تھے اور ان میں سے خاص طور پر نوجوانوں نے کہا تھا کہ ہمیں تو شہادت چاہیے اور ہم تو کھلے میدان میں جا کر مقابلہ کریں گے۔ ان کے جذبات پر تھوڑا سا تبصرہ ہو رہا ہے کہ اس وقت تو جو شِ قتال اور ذوق شہادت کا اظہار ہو رہا تھا ‘ اب تم نے موت دیکھ لی ہے نا ! تو یہ ہے موت جسے انسان اتنی آسانی کے ساتھ قبول نہیں کرتا۔
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ
📘 آیت 144 وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُوْلٌ ج غزوۂ احد کے دوران جب یہ افواہ اڑ گئی کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے تو بعض لوگ بہت دل گرفتہ ہوگئے کہ اب کس لیے جنگ کرنی ہے ؟ حضرت عمر رض بھی ان میں سے تھے۔ آپ رض نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر سن کر تلوار پھینک دی اور دل برداشتہ ہو کر بیٹھ گئے کہ اب ہم نے جنگ کر کے کیا لینا ہے ! یہاں اس طرز عمل پر گرفت ہورہی ہے کہ تمہارا یہ رویہ غلط تھا۔ محمد ﷺ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں ‘ وہ معبود تو نہیں ہیں۔ تم ان کے لیے جہاد نہیں کر رہے ‘ بلکہ اللہ کے لیے کر رہے ہو ‘ اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنے جان و مال قربان کر رہے ہو۔ محمد ﷺ تو اللہ کے رسول ہیں۔ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ط اَفَاءِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَآٰی اَعْقَابِکُمْ ط کیا اس صورت میں تم الٹے پاؤں راہ حق سے پھر جاؤ گے ؟ کیا یہی تمہارے دین اور ایمان کی حقیقت ہے ؟وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْءًا ط وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ حضرت عمر رض چونکہ جذباتی انسان تھے لہٰذا رسول اللہ ﷺ کی وفات کی خبر سن کر حوصلہ چھوڑ گئے۔ آپ رض ‘ کی تقریباً یہی کیفیت پھر حضور ﷺ کے انتقال پر ہوگئی تھی۔ آپ رض ‘ تلوار سونت کر بیٹھ گئے تھے کہ جو کہے گا کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوگیا ہے میں اس کا سر اڑا دوں گا۔ حضرت ابوبکر رض ثانئ اسلام و غار وبدر و قبر اس وقت مدینہ کے مضافات میں تھے۔ آپ رض ‘ آتے ہی سیدھے اپنی بیٹی حضرت عائشہ رض کے حجرے میں گئے۔ رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ مبارک پر چادر تھی ‘ آپ رض نے چادر ہٹائی اور جھک کر آنحضور ﷺ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور رو دیے۔ پھر کہا : اے اللہ کے رسول ‘ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ یعنی اب دوبارہ آپ ﷺ پر موت وارد نہیں ہوگی ‘ اب تو آپ ﷺ ‘ کو حیات جاودانی حاصل ہوچکی ہے۔ حضرت ابوبکر رض باہر آئے اور لوگوں سے خطاب شروع کیا تو حضرت عمر رض بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر رض نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : مَنْ کَانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ‘ وَمَنْ کَانَ یَعْبُدُ اللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حَیٌّ لاَ یَمُوْتُجو کوئی محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد ﷺ کا انتقال ہوچکا ہے ‘ اور جو کوئی اللہ کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہو کہ اللہ تو زندہ ہے ‘ جسے موت نہیں آئے گی۔ اس کے بعد آپ رض نے یہ آیت تلاوت فرمائی : وَمَا مُحَمَّدٌ الاَّ رَسُوْلٌج قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُط اَفَاءِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَآٰی اَعْقَابِکُمْط وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْءًاط وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَ حضرت ابوبکر رض کی زبانی یہ آیت سن کر لوگوں کو ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ آیت اسی وقت نازل ہوئی ہو۔ 1
وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ
📘 آیت 145 وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلاً ط rّاجل معین کے ساتھ ہر ایک کا وقت طے ہے۔ لہٰذا انسان کی بہترین محافظ خود موت ہے۔ آپ کی موت کا جو وقت مقرر ہے اس سے پہلے کوئی آپ کے لیے موت نہیں لاسکتا۔ وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَاب الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا ج وَمَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْہَا ط یہ مضمون سورة البقرۃ کی آیات 200۔ 202 میں حج کے سلسلے میں آچکا ہے۔
وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
📘 آیت 146 وَکَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَ لا مَعَہٗ رِبِّیُّوْنَ کَثِیْرٌج ۔اے مسلمانو ! تمہارے ساتھ جو یہ واقعہ پیش آیا ہے وہ پہلا تو نہیں ہے۔ اللہ کے بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جن کی معیت میں بہت سارے اللہ والوں نے ‘ اللہ کے ماننے اور چاہنے والوں نے ‘ اللہ کے دیوانوں اور متوالوں نے ‘ اللہ کے غلاموں اور عاشقوں نے اللہ کے دشمنوں سے جنگیں کی ہیں۔ رِبِّیْ اور ربّائی کا لفظ آج بھی یہودیوں کے ہاں استعمال ہوتا ہے۔فَمَا وَہَنُوْا لِمَآ اَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَمَا ضَعُفُوْا وَمَا اسْتَکَانُوْا ط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ تو اے مسلمانو ! ان کا کردار اپناؤ اور دل گرفتہ نہ ہو۔
وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
📘 آیت 147 وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا ربَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ حضرت طالوت کے ساتھیوں کی بھی یہی دعا تھی اور سورة البقرۃ کے اختتام پر آنے والی دعا کے الفاظ بھی یہی تھے : فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔
فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
📘 آیت 148 فَاٰ ‘ تٰٹہُمُ اللّٰہُ ثَوَاب الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ ط انہیں دنیا کی سربلندی بھی دی ‘ فتوحات سے بھی نوازا اور آخرت کا بہترین اجر بھی عطا فرمایا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ
📘 آیت 148 فَاٰ ‘ تٰٹہُمُ اللّٰہُ ثَوَاب الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْاٰخِرَۃِ ط انہیں دنیا کی سربلندی بھی دی ‘ فتوحات سے بھی نوازا اور آخرت کا بہترین اجر بھی عطا فرمایا۔
۞ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
📘 آیت 15 قُلْ اَؤُنَبِّءُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ ط لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ تقویٰ یہی ہے کہ تم پر اپنے نفس کا بھی حق ہے جو تمہیں ادا کرنا ہے ‘ لیکن ناجائز راستے سے نہیں۔ تمہارے پیٹ کا بھی حق ہے ‘ وہ بھی ادا کرو ‘ لیکن اکل حلال سے۔ تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد کے بھی تم پر حقوق ہیں ‘ جو تمہیں جائز طریقوں سے ادا کرنے ہیں۔ تمہارے جو ملاقاتی آنے والے ہیں ان کا بھی تم پر حق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رض سے ارشاد فرمایا تھا : فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ‘ وَاِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ‘ وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا ‘ وَاِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا 1ان سب کے حقوق ادا کرو ‘ لیکن اللہ سے اوپر کسی حق کو فائق نہ کردینا۔ بس یہ ہے اصل بات عگر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی ! اگر یہ حفظ مراتب نہیں ہوگا تو گویا آپ کا دین بھی گیا اور دنیا بھی گئی۔
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ
📘 آیت 150 بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰٹکُمْ ج۔تمہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ تمہارا مولیٰ ‘ مددگار ‘ پشت پناہ ‘ ساتھی اور حمایتی اللہ ہے۔
سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ۖ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۚ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ
📘 آیت 151 سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا باللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا ج وَمَاْوٰٹہُمُ النَّارُط وَبِءْسَ مَثْوَی الظّٰلِمِیْنَ اس آیت میں دراصل توجیہہ بیان ہو رہی ہے کہ غزوۂ احد میں مشرکین واپس کیوں چلے گئے ‘ جب کہ ان کو اس درجے کھلی فتح حاصل ہوچکی تھی اور مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رض نے پہاڑ کے اوپر چڑھ کر پناہ لے لی تھی۔ خالد بن ولید کہہ رہے تھے کہ ہمیں ان کا تعاقب کرنا چاہیے اور اس معاملے کو ختم کردینا چاہیے۔ لیکن ابوسفیان کے دل میں اللہ نے اس وقت ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ لشکر کو لے کر وہاں سے چلے گئے۔ ورنہ واقعتا اس وقت صورت حال بہت مخدوش ہوچکی تھی۔
وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ ۚ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
📘 آیت 152 وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ اِذْ تَحُسُّوْنَہُمْ بِاِذْنِہٖ ج غزوۂ احد میں جو عارضی شکست ہوگئی تھی اور مسلمانوں کو زَک پہنچی تھی ‘ جس سے ان کے دل زخمی تھے اس کے ضمن میں اب یہ آیت ایک قول فیصل کے انداز میں آئی ہے کہ دیکھو مسلمانو ! تم ہم سے کوئی شکایت نہیں کرسکتے ‘ اللہ نے تم سے تائید و نصرت کا جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا تھا جبکہ تم انہیں اللہ کے حکم سے قتل کر رہے تھے ‘ گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے۔ تمہیں فتح حاصل ہوگئی تھی اور ہمارا وعدہ پورا ہوچکا تھا۔حَتّٰی اِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ فَشِلْتُمْ کا ترجمہ بعض مترجمین نے کچھ اور بھی کیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک یہاں نظم ڈسپلن کو ڈھیلا کرنا مراد ہے۔ اسلامی نظم جماعت میں سمع وطاعت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ‘ اور ظاہر ہے کہ سمع وطاعت میں ایک ہی شخص کی اطاعت مقصود نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت بھی فرض تھی اور آپ ﷺ اگر کسی کو امیر مقرر کرتے تو اس کی اطاعت بھی فرض تھی۔ حضرت ابوہریرہ رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مَنْ اَطَاعَنِیْ فَقَدْ اَطَاع اللّٰہَ ‘ وَمَنْ عَصَانِیْ فَقَدْ عَصَی اللّٰہَ ‘ وَمَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ ‘ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ 1جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘ اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی ‘ اور جس نے میرے نامزد کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تو انہوں نے تاویل کرلی تھی کہ حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا تھا کہ اگر ہم سب بھی اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں اور تم دیکھو کہ چیلیں اور کوے ہمارا گوشت کھا رہے ہیں تب بھی یہاں سے نہ ہٹنا ‘ تو یہ شکست کی صورت میں تھا ‘ لیکن اب تو فتح ہوگئی ہے۔ چناچہ انہوں نے جان بوجھ کر اللہ کے رسول ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنے مقامی امیر لوکل کمانڈر کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔ میرے نزدیک یہاں عَصَیْتُمْسے یہی حکم عدولی مراد ہے۔ اسلامی نظم جماعت میں اوپر سے لے کر نیچے تک ‘ سپہ سالار سے لے کر لوکل کمانڈر تک ‘ درجہ بدرجہ نظام سمع وطاعت کی پابندی ضروری ہے۔ فوج کا ایک سپہ سالار ہے ‘ لیکن پھر پوری فوج کے کئی حصے ہوتے ہیں اور ہر ایک کا ایک امیر ہوتا ہے۔ میسرہ ‘ میمنہ ‘ قلب اور ہراول دستہ وغیرہ ‘ ہر ایک کا ایک کمانڈر ہوتا ہے۔ اب اگر ان کمانڈروں کے احکام سے سرتابی ہوگی تو ایسی فوج کا جو انجام ہوگا وہ معلوم ہے۔ چناچہ ایک جماعت کے اندر درجہ بدرجہ جو بھی نظام سمع وطاعت ہے اس کی پوری پوری پابندی ضروری ہے۔وَعَصَیْتُم مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط۔عَصَیْتُمْ کے بارے میں وضاحت ہوچکی ہے کہ اس سے مراد اللہ کے رسول ﷺ کی نافرمانی نہیں ‘ بلکہ لوکل کمانڈر کی نافرمانی ہے۔ مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط سے اکثر مفسرین نے مال غنیمت مراد لیا ہے ‘ کہ درّے پر مامور حضرات مال غنیمت کی طلب میں درّہ چھوڑ کر چلے گئے ‘ لیکن میرے نزدیک یہ بات درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ مال غنیمت کی تقسیم کا قانون تو غزوۂ بدر کے بعد سورة الانفال میں نازل ہوچکا تھا۔ اس کی رو سے چاہے کوئی شخص کچھ جمع کرے یا نہ کرے اسے مال غنیمت میں سے برابر کا حصہ ملے گا۔ یہاں مِّنْم بَعْدِ مَآ اَرٰٹکُمْ مَّا تُحِبُّونَ ط سے مراد دراصل فتح ہے اور اس کے لیے القرآن یفُسِّر بعضُہ بَعْضًاکی رو سے سورة الصف کی یہ آیت ہماری رہنمائی کرتی ہے : وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط آیت 13 گویا بندۂ مؤمن کو دنیا میں فتح و نصرت محبوب تو ہوتی ہے ‘ لیکن اسے اس کو اپنا مقصود نہیں بنانا۔ اس کا مقصود اللہ کی رضا جوئی اور اپنے فرض کی ادائیگی ہے۔ باقی کامیابی یا ناکامی اللہ کی مرضی اور اس کی حکمت کے تحت ہوتی ہے۔ اللہ کب فتح لانا چاہتا ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا یعنی وہ خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا میں فتح و نصرت اور کامیابی حاصل ہوجائے ‘ ہمارا بول بالا ہوجائے ‘ ہماری حکومت قائم ہوجائے۔وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ ج ثُمَّ صَرَفَکُمْ عَنْہُمْ لِیَبْتَلِیَکُمْ ج پہلے وہ بھاگ رہے تھے اور تم ان کا تعاقب کر رہے تھے ‘ اب معاملہ الٹاہو گیا کہ تم پسپا ہوگئے اور اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر ادھر جائے پناہ ڈھونڈنے لگے۔ تمہاری یہ پسپائی تمہارے لیے آزمائش تھی۔وَلَقَدْ عَفَا عَنْکُمْ ط۔تم میں سے جس کسی سے جو بھی خطا ہوئی اللہ نے اسے معاف فرما دیا ہے۔
۞ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
📘 آیت 153 اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلاَ تَلْوٗنَ عَلٰٓی اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْ اُخْرٰٹکُمْ غزوۂ احد میں خالد بن ولید کے اچانک حملے سے ایک بھگدڑ سی مچ گئی تھی۔ بعض صحابہ رض نے رسول اللہ ﷺ کو اپنے حفاظتی حصار میں لے لیا تھا اور انہوں نے اپنے جسموں کو ڈھال بن کر آنحضور ﷺ کی حفاظت کی۔ بہت سے لوگ سراسیمہ ہو کر اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑے ہوئے۔ بعض کوہ احد پر چڑھے جا رہے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ انہیں پکار پکار کر واپس بلا رہے تھے۔ فَاَثَابَکُمْ غَمًّام بِغَمٍّ لِّکَیْلاَ تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ مَآ اَصَابَکُمْ ط یعنی ع رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج ! آدمی کو اگر کبھی اتفاقاً ہی رنج و غم کا سامنا کرنا پڑے تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے ‘ لیکن جب پے در پے رنج و غم اٹھانے پڑیں تو ان کی شدت میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ دامن احد میں مسلمانوں کو پے در پے تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ سب سے بڑا رنج جو پیش آیا وہ حضور ﷺ کے انتقال کی خبر تھی ‘ جس پر کسی کو اپنے تن بدن کا تو ہوش ہی نہیں رہا کہ خود اس کو کیا زخم لگا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس وقت کی کیفیت میں ایک تخفیف پیدا کردی۔
ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِنْكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 آیت 154 ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْم بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآءِفَۃً مِّنْکُمْ لا انسان کو نیند جو آتی ہے یہ اطمینان قلب کا مظہر ہوتی ہے کہ جیسے اب اس نے سب کچھ بھلا دیا۔ عین حالت جنگ میں ایسی کیفیت اللہ کی رحمت کا مظہر تھی۔وَطَاءِفَۃٌ قَدْ اَہَمَّتْہُمْ اَنْفُسُہُمْ یَظُنُّوْنَ باللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِط ۔عبداللہ بن ابی اور اس کے تین سو ساتھی تو میدان جنگ کے راستے ہی سے واپس ہوگئے تھے۔ اس کے بعد بھی اگر مسلمانوں کی جماعت میں کچھ منافقین باقی رہ گئے تھے تو ان کا حال یہ تھا کہ اس وقت انہیں اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ ایسی کیفیت میں انہیں اونگھ کیسے آتی ؟ ان کا حال تو یہ تھا کہ ان کے دلوں میں وسوسے آ رہے تھے کہ اللہ نے تو مدد کا وعدہ کیا تھا ‘ لیکن وہ وعدہ پورا نہیں ہوا ‘ اللہ کی بات سچی ثابت نہیں ہوئی۔ اس طرح ان کے دل و دماغ میں خلاف حقیقت زمانۂ جاہلیت کے گمان پیداہو رہے تھے۔ یَقُوْلُوْنَ ہَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ ط یہ وہ لوگ ہوسکتے ہیں جنہوں نے جنگ سے قبل مشورہ دیا تھا جیسے حضور ﷺ کی اپنی رائے بھی تھی کہ مدینے کے اندر محصور رہ کر جنگ کی جائے۔ جب ان کے مشورے پر عمل نہیں ہوا تو وہ کہنے لگے کہ ان معاملات میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے یا ساری بات محمد ﷺ ہی کی چلے گی ؟ یہ بھی جماعتی زندگی کی ایک خرابی ہے کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ میری بات بھی مانی جائے ‘ میری رائے کو بھی اہمیت دی جائے۔ آخر ہم سب اپنے امیر ہی کی رائے کیوں مانتے چلے جائیں ؟ ہمارا بھی کچھ اختیار ہے یا نہیں ؟قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ کُلَّہٗ لِلَّہِ ط۔یُخْفُوْنَ فِیْ اَنْفُسِہِمْ مَّا لاَ یُبْدُوْنَ لَکَ ط ان کے دل میں کیا ہے ‘ اب اللہ کھول کر بتارہا ہے۔یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ مَّا قُتِلْنَا ہٰہُنَا ط۔اگر ہماری رائے مانی جاتی ‘ ہمارے مشورے پر عمل ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے۔ یعنی ہمارے اتنے لوگ یہاں پر شہید نہ ہوتے۔ قُلْ لَّوْ کُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِکُمْ لَبَرَزَ الَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمْ ج اللہ کی مشیت میں جن کے لیے طے تھا کہ انہیں شہادت کی خلعت فاخرہ پہنائی جائے گی وہ خود بخود اپنے گھروں سے نکل آتے اور کشاں کشاں ان جگہوں پر پہنچ جاتے جہاں انہوں نے خلعت شہادت زیب تن کرنی تھی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہوتے ہیں ‘ تمہاری تدبیر سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
📘 آیت 155 اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ لا یہ ایسے مخلص حضرات کا تذکرہ ہے جو اچانک حملے کے بعد جنگ کی شدت سے گھبرا کر اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر پیٹھ پھیر گئے۔ ان میں سے کچھ لوگ کوہ احد پر چڑھ گئے تھے اور کچھ اس سے ذرا آگے بڑھ کر میدان ہی سے باہر چلے گئے تھے۔ ان میں بعض کبار صحابہ رض کا نام بھی آتا ہے۔ دراصل یہ بھگڈر مچ جانے کے بعد ایسی اضطراری کیفیت تھی کہ اس میں کسی سے بھی کسی ضعف اور کمزوری کا اظہار ہوجانا بالکل قرین قیاس بات ہے۔ اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا ج۔کسی وقت کوئی تقصیر ہوگئی ہو ‘ کوئی کوتاہی ہوگئی ہو ‘ یا کسی کمزوری کا اظہار ہوگیا ہو ‘ یہ مخلص مسلمانوں سے بھی بعید نہیں۔ ایسا معاملہ ہر ایک سے پیش آسکتا ہے۔ معصوم تو صرف نبی ہوتے ہیں۔ انسانی کمزوریوں کی وجہ سے شیطان کو موقع مل جاتا ہے کہ کسی وقت وہ اڑنگا لگا کر اس شخص کو پھسلا دے ‘ خواہ وہ کتنا ہی نیک اور کتنا ہی صاحب رتبہ ہو۔ وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ ط۔یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ بعض گمراہ فرقے اس بات کو بہت اچھالتے ہیں اور بعض صحابہ کرام رض کی توہین کرتے ہیں ‘ ان پر تنقید کرتے ہیں کہ یہ میدان جنگ سے پیٹھ دکھا کر بھاگ گئے تھے۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی معافی کا اعلان کرچکا ہے۔ اس کے بعد اب کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ ان پر زبان طعن دراز کرے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 آیت 156 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَقَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ کَانُوْا غُزًّی لَّوْ کَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَمَا قُتِلُوْا ج ہر شخص کی موت کا وقت تو معین ہے۔ وہ اگر تمہاری گود میں بیٹھے ہوں تب بھی موت آجائے گی۔ چاہے وہ بہت ہی مضبوط پہرے والے قلعوں میں ہوں موت تو وہاں بھی پہنچ جائے گی۔ تو تم اس طرح کی باتیں نہ کرو۔ یہ تو کافروں کے انداز کی باتیں ہیں کہ اگر ہمارے پاس ہوتے اور جنگ میں نہ جاتے تو بچ جاتے۔ یہ ساری باتیں درحقیقت ایمان کے منافی ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ 1 کاش کا لفظ شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ یعنی یہ کہنا کہ کاش ایسے ہوجاتا تو یوں ہوجاتا ‘ اس کلمہ ہی سے شیطان کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جو ہوا اس لیے ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا ہونا منظور تھا ‘ اس کی حکمتیں اسے معلوم ہیں ‘ ہم اس کی حکمت کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوبِہِمْ ط۔اس قسم کی باتوں سے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں حسرت کی آگ جلا دیتا ہے۔ یہ بھی گویا ان کے کفر کی سزا ہے۔
وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ
📘 آیت 157 وَلَءِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ اگر دنیا میں دس پندرہ سال اور جی لیتے تو کیا کچھ جمع کرلیتے ؟ اللہ تعالیٰ نے تمہیں شہادت کی موت دے دی ‘ تمہارے لیے اس سے بڑی سعادت اور کیا ہوگی !
وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ
📘 آیت 158 وَلَءِنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاِلَی اللّٰہِ تُحْشَرُوْنَ چاہے تمہیں اپنے بستروں پر موت آئے اور چاہے تم قتل ہو ‘ ہر حال میں تمہیں اللہ کی جناب میں حاضر کردیا جائے گا۔ تمہاری آخری منزل تو وہی ہے ‘ خواہ تم بستر پر پڑے ہوئے دم توڑ دو یا میدان جنگ کے اندر جام شہادت نوش کرلو۔
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ
📘 آیت 159 فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ ج۔اس سورة مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو ‘ صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں ‘ جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں ‘ ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں ‘ ان کی عزت نفس بھی ہے ‘ لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے ‘ سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں ‘ بلکہ رضاکار volunteers ہیں۔ آنحضور ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ ﷺ ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ r کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی !فَاعْفُ عَنْہُمْ چونکہ بعض صحابہ رض سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا ‘ لہٰذا آنحضور ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ ﷺ ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی ‘ بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط۔مشورے کے بعد جب آپ ﷺ ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔ غزوۂ احد سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے مشورہ کیا تھا ‘ اس وقت کچھ لوگوں کی رائے وہی تھی جو آنحضور ﷺ کی رائے تھی ‘ یعنی مدینہ میں محصور ہو کر جنگ کی جائے۔ لیکن کچھ حضرات نے کہا ہم تو کھلے میدان میں جنگ کرنا چاہتے ہیں ‘ ہمیں تو شہادت کی موت چاہیے تو حضور ﷺ نے ان کی رعایت کی اور باہر نکلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس کے فوراً بعد جب آپ ﷺ حضرت عائشہ رض کے حجرے سے برآمد ہوئے تو خلاف معمول آپ ﷺ نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ اس سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ سخت معاملہ پیش آنے والا ہے۔ چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ حضور ﷺ ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں ‘ جو آپ ﷺ کی رائے ہے آپ اس کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد جنگ کیے بغیر انہیں اتار دے۔ یہ آیت گویا نبی اکرم ﷺ کے طرز عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔
الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
📘 آیت 16 اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَاب النَّارِ آگے ان کی مدح میں الفاظ استعمال ہو رہے ہیں کہ جو یہ دعائیں کرتے ہیں ان کے یہ اوصاف ہیں۔ اس میں گویا تلقین ہے کہ اگر اللہ سے یہ دعا کرنا چاہتے ہو کہ اللہ تمہارے گناہ بخش دے اور تمہیں جہنم کے عذاب سے بچا لے تو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرو۔
إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
📘 آیت 159 فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ ج۔اس سورة مبارکہ کی یہ آیت بھی بڑی اہم ہے۔ جماعتی زندگی میں جو بھی امیر ہو ‘ صاحب امر ہو ‘ جس کے پاس ذمہ داریاں ہوں ‘ جس کے گرد اس کے ساتھی جمع ہوں ‘ اسے یہ خیال رہنا چاہیے کہ آخر وہ بھی انسان ہیں ‘ ان کے بھی کوئی جذبات اور احساسات ہیں ‘ ان کی عزت نفس بھی ہے ‘ لہٰذا ان کے ساتھ نرمی کی جانی چاہیے ‘ سختی نہیں۔ وہ کوئی ملازم نہیں ہیں ‘ بلکہ رضاکار volunteers ہیں۔ آنحضور ﷺ کے ساتھ جو لوگ تھے وہ کوئی تنخواہ یافتہ سپاہی تو نہیں تھے۔ یہ لوگ ایمان کی بنیاد پر جمع ہوئے تھے۔ اب بھی کوئی دینی جماعت وجود میں آتی ہے تو جو لوگ اس میں کام کر رہے ہیں وہ دینی جذبے کے تحت جڑے ہوئے ہیں ‘ لہٰذا ان کے امراء کو ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کر کے کہا جا رہا ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا مظہر ہے کہ آپ ﷺ ان کے حق میں بہت نرم ہیں۔وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ r کوئی کارواں سے ٹوٹا ‘ کوئی بدگماں حرم سے کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی !فَاعْفُ عَنْہُمْ چونکہ بعض صحابہ رض سے اتنی بڑی غلطی ہوئی تھی کہ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو بہت بڑا چرکا لگ گیا تھا ‘ لہٰذا آنحضور ﷺ سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے اپنے دل میں میل مت آنے دیجیے۔ ان کی غلطی اور کوتاہی کو اللہ نے معاف کردیا ہے تو آپ ﷺ ‘ بھی انہیں معاف کردیں۔ عام حالات میں بھی آپ انہیں معاف کرتے رہا کریں۔وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ ان سے جو بھی خطا ہوجائے اس پر ان کے لیے استغفار کیا کریں۔ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ ج ایسا طرز عمل اختیار نہ کریں کہ آئندہ ان کی کوئی بات نہیں سننی ‘ بلکہ ان کو بھی مشورے میں شامل رکھیے۔ اس سے بھی باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا امیر ہم سے مشورہ کرتا ہے ‘ ہماری بات کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہ بھی درحقیقت اجتماعی زندگی کے لیے بہت ہی ضروری بات ہے۔ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ ط۔مشورے کے بعد جب آپ ﷺ ‘ کا دل کسی رائے پر مطمئن ہوجائے اور آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اب کسی شخص کی بات کی پرواہ نہ کریں ‘ اب سارا توکل اللہ کی ذات پر ہو۔ غزوۂ احد سے پہلے رسول اللہ ﷺ نے مشورہ کیا تھا ‘ اس وقت کچھ لوگوں کی رائے وہی تھی جو آنحضور ﷺ کی رائے تھی ‘ یعنی مدینہ میں محصور ہو کر جنگ کی جائے۔ لیکن کچھ حضرات نے کہا ہم تو کھلے میدان میں جنگ کرنا چاہتے ہیں ‘ ہمیں تو شہادت کی موت چاہیے تو حضور ﷺ نے ان کی رعایت کی اور باہر نکلنے کا فیصلہ فرما دیا۔ اس کے فوراً بعد جب آپ ﷺ حضرت عائشہ رض کے حجرے سے برآمد ہوئے تو خلاف معمول آپ ﷺ نے زرہ پہنی ہوئی تھی اور ہتھیار لگائے ہوئے تھے۔ اس سے لوگوں کو اندازہ ہوگیا کہ کچھ سخت معاملہ پیش آنے والا ہے۔ چناچہ ان لوگوں نے کہا کہ حضور ﷺ ہم اپنی رائے واپس لیتے ہیں ‘ جو آپ ﷺ کی رائے ہے آپ اس کے مطابق فیصلہ کیجیے۔ لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ یہ فیصلہ برقرار رہے گا۔ نبی کو یہ زیبا نہیں ہے کہ ہتھیار باندھنے کے بعد جنگ کیے بغیر انہیں اتار دے۔ یہ آیت گویا نبی اکرم ﷺ کے طرز عمل کی توثیق میں نازل ہوئی ہے کہ جب آپ ایک فیصلہ کرلیں تو اللہ پر توکل کیجیے۔
وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ ۚ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 آیت 161 وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ط غَلَّ یَغُلُّ غُلُوْلًا کے معنی ہیں خیانت کرنا اور مال غنیمت میں سے کسی چیز کا چوری کرلینا ‘ جبکہ غَلَّ یَغِلُّ غلاًّ کے معنی دل میں کینہ ہونا کے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضور ﷺ پر منافقوں نے الزام لگایا تھا کہ آپ ﷺ نے مال غنیمت میں کوئی خیانت کی ہے معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ! یہ اس الزام کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کسی نبی ﷺ ‘ کی شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کا ارتکاب کرے۔ البتہ مولانا اصلاحی صاحب نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس لفظ کو صرف مالی خیانت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دراصل منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انہوں نے احد کی شکست کے بعد رسول اللہ ﷺ پر لگایا تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا ‘ اس کے ہاتھ پر بیعت کی ‘ اپنے نیک و بد کا اس کو مالک بنایا ‘ لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان و مال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ عرب پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہماری جانوں کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری و بےوفائی ہے۔ قرآن نے ان کے اس الزام کی تردید فرمائی ہے کہ تمہارا یہ الزام بالکل جھوٹ ہے ‘ کوئی نبی اپنی امت کے ساتھ کبھی بےوفائی اور بدعہدی نہیں کرتا۔ نبی جو قدم بھی اٹھاتا ہے رضائے الٰہی کی طلب میں اور اس کے احکام کے تحت اٹھاتا ہے۔وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ج اللہ تعالیٰ کے قانون جزا و سزا سے ایک نبی سے بڑھ کر کون باخبر ہوگا ؟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ نوٹ کیجیے لفظ تُوَفّٰییہاں بھی پور اپورا دیے جانے کے معنی میں آیا ہے۔
أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 آیت 161 وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ ط غَلَّ یَغُلُّ غُلُوْلًا کے معنی ہیں خیانت کرنا اور مال غنیمت میں سے کسی چیز کا چوری کرلینا ‘ جبکہ غَلَّ یَغِلُّ غلاًّ کے معنی دل میں کینہ ہونا کے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضور ﷺ پر منافقوں نے الزام لگایا تھا کہ آپ ﷺ نے مال غنیمت میں کوئی خیانت کی ہے معاذ اللہ ‘ ثم معاذ اللہ ! یہ اس الزام کا جواب دیا جا رہا ہے کہ کسی نبی ﷺ ‘ کی شان نہیں ہے کہ وہ خیانت کا ارتکاب کرے۔ البتہ مولانا اصلاحی صاحب نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اس لفظ کو صرف مالی خیانت کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ یہ دراصل منافقین کے اس الزام کی تردید ہے جو انہوں نے احد کی شکست کے بعد رسول اللہ ﷺ پر لگایا تھا کہ ہم نے تو اس شخص پر اعتماد کیا ‘ اس کے ہاتھ پر بیعت کی ‘ اپنے نیک و بد کا اس کو مالک بنایا ‘ لیکن یہ اس اعتماد سے بالکل غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہمارے جان و مال کو اپنے ذاتی حوصلوں اور امنگوں کے لیے تباہ کر رہے ہیں۔ یہ عرب پر حکومت کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہوں نے ہماری جانوں کو تختۂ مشق بنایا ہے۔ یہ صریحاً قوم کی بدخواہی اور اس کے ساتھ غداری و بےوفائی ہے۔ قرآن نے ان کے اس الزام کی تردید فرمائی ہے کہ تمہارا یہ الزام بالکل جھوٹ ہے ‘ کوئی نبی اپنی امت کے ساتھ کبھی بےوفائی اور بدعہدی نہیں کرتا۔ نبی جو قدم بھی اٹھاتا ہے رضائے الٰہی کی طلب میں اور اس کے احکام کے تحت اٹھاتا ہے۔وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ج اللہ تعالیٰ کے قانون جزا و سزا سے ایک نبی سے بڑھ کر کون باخبر ہوگا ؟ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ نوٹ کیجیے لفظ تُوَفّٰییہاں بھی پور اپورا دیے جانے کے معنی میں آیا ہے۔
هُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
📘 آیت 163 ہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ اللّٰہِ ط جیسے نیکوکاروں کے درجے ہیں اسی طرح وہاں بدکاروں کے بھی درجے ہیں۔ سب بدکار برابر نہیں اور سب نیکوکار برابر نہیں۔وَاللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ اب آگے جو آیت آرہی ہے ‘ یہ مضمون سورة البقرۃ میں دو مرتبہ آچکا ہے۔ پہلی مرتبہ سورة البقرۃ کے پندرہویں رکوع میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں یہ مضمون بایں الفاظ آیا تھا : رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ط آیت 129 پھر اٹھارہویں رکوع کے آخر میں یہ الفاظ آئے تھے : کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ اب یہ مضمون تیسری مرتبہ یہاں آ رہا ہے :
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 آیت 164 لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یعنی ان کی اپنی قوم میں سے۔یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ ج یہ انقلاب نبوی ﷺ کے اساسی منہاج کے چار عناصر ہیں ‘ جنہیں قرآن اسی ترتیب سے بیان کرتا ہے : تلاوت آیات ‘ تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں جو ترتیب تھی ‘ اللہ نے اس کو تبدیل کیا ہے۔ اس پر سورة البقرۃ آیت 151 کے ذیل میں گفتگو ہوچکی ہے۔
أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 165 اَوَلَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَالا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا ط یعنی یہ کیوں ہوگیا ؟ اللہ نے پہلے مدد کی تھی ‘ اب کیوں نہیں کی ؟ قُلْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِکُمْ ط۔غلطی تم نے کی تھی ‘ امیر کے حکم کی خلاف ورزی تم نے کی تھی ‘ جس کا خمیازہ تم کو بھگتنا پڑا۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ۔گویا اسی مضمون کو یہاں دہرا کر لایا گیا ہے جو پیچھے آیت 152 میں بیان ہوچکا ہے کہ اللہ تو وعدہ اپنا پورا کرچکا تھا اور تم دشمن پر غالب آ چکے تھے ‘ مگر تمہاری اپنی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ اللہ چاہتا تو تمہیں کوئی سزا نہ دیتا ‘ بغیر سزادیے معاف کردیتا ‘ لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ تمہیں سزا دی جائے۔ اس لیے کہ ابھی تو بڑے بڑے مراحل آنے ہیں۔ اگر اسی طرح تم نظم کو توڑتے رہے اور احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے تو پھر تمہاری حیثیت ایک جماعت کی تو نہیں ہوگی ‘ پھر تو ایک انبوہ ہوگا ‘ ہجومِ مؤمنینہو گا ‘ جبکہ اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے ایک منظم جماعت ‘ لشکر ‘ فوج ‘ حزب اللہ درکار ہے۔
وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 آیت 166 وَمَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ اللہ کے اذن کے بغیر تو یہ تکلیف نہیں آسکتی تھی۔وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔یہ ظاہر ہوجائے کہ کون ہیں اصل مؤمن ‘ حقیقی مؤمن جو صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ‘ ہیں۔
وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
📘 آیت 176 وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْاج۔لِیَعْلَمَ کا معنی ہے تاکہ جان لے۔۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ ہرچیز کا جاننے والا ہے لہٰذا ایسے مقامات پر ترجمہ کیا جاتا ہے : تاکہ اللہ ظاہر کر دے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے واقعتا ظاہر کردیا کہ کون مؤمن ہے اور کون منافق ! عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر چلا گیا تو سب پر ان کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ اب آئندہ اہل ایمان ان کی بات پر اعتبار تو نہیں کریں گے ‘ ان کی چکنی چپڑی باتیں کان لگا کر تو نہیں سنیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ یہ بالکل واضح ہوجائے کہ Who is who what is what ?۔وَقِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوِ ادْفَعُوْا ط عبداللہ بن ابی جب اپنے تین سو آدمیوں کو لے کر واپس جا رہا تھا تو اس وقت ان سے کچھ لوگوں نے کہا ہوگا کہ بیوقوفو ! کہاں جا رہے ہو ؟ اس وقت تو لشکر سامنے ہے۔ اگر ایک ہزار میں سے تین سو آدمی نکل جائیں گے تو باقی لوگوں کے دلوں میں بھی کچھ نہ کچھ کمزوری پیدا ہوگی۔ اگر تم میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتے تو کم از کم مدینہ کے دفاع کے لیے تو کمربستہ ہوجاؤ۔ اگر مدینہ پر حملہ ہوا تو کیا ہوگا ؟ اگر یہاں پر یہ لشکر شکست کھا گیا تو کیا دشمن تمہاری بہوبیٹیوں کو اپنی باندیاں بنا کر نہیں لے جائیں گے ؟ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالاً لاَّتَّبَعْنٰکُمْ ط یعنی یہ تو درحقیقت نورا کشتی ہو رہی ہے ‘ یہ حقیقت میں جنگ ہے ہی نہیں۔ یہ جو مکہ سے محمد ﷺ کے ساتھی مہاجرین آئے ہیں اور اب یہ جو مکہ ہی سے لشکر ہم پر چڑھائی کر کے آیا ہے یہ سب ایک ہی تھیلے کے چٹے بٹے ہیں اور ہمارا ان سے کوئی سروکار نہیں۔
الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 آیت 168 اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِہِمْ وَقَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا ط قُلْ فَادْرَءُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کیا تم اپنے آپ سے موت کو ٹال لو گے ؟ خود موت سے بچے رہو گے ؟ کیا موت تمہیں اپنے گھروں میں نہیں آئے گی ؟
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
📘 آیت 169 وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ط۔ یہی مضمون قبل ازیں سورة البقرۃ میں آچکا ہے : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ
الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ
📘 آیت 17 اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ راست بازی میں راست گوئی بھی شامل ہے اور راست کرداری بھی۔ یعنی آپ کا عمل بھی صحیح اور درست ہو اور قول بھی صحیح اور درست ہو۔وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْمُنْفِقِیْنَ وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بالْاَسْحَارِ وہ جو سحر کا وقت ہے small hours of the morning اس وقت اللہ کے حضور استغفار کرنے والے۔ ایک تو پنج وقتہ نمازیں ہیں ‘ اور ایک خاص وقت ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ہر رات جب رات کا آخری ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ سمائے دنیا تک نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے : ھَلْ مِنْ سَاءِلٍ یُعْطٰی ؟ ھَلْ مِنْ دَاعٍ یُسْتَجَابُ لَہٗ ؟ ھَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ یُغْفَرُلَہٗ ؟ 1 ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے ؟ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے ؟ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ اسے معاف کردیا جائے ؟ گویا : ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے راہ رو منزل ہی نہیں !
فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 آیت 169 وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ط۔ یہی مضمون قبل ازیں سورة البقرۃ میں آچکا ہے : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ
۞ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 آیت 171 یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍلا وَّاَنَّ اللّٰہَ لاَ یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اب آگے جو آیات آرہی ہیں ان کے بارے میں تاریخ و سیرت کی کتابوں میں دو قسم کی روایات آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ کفار کی فوج کے واپس چلے جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے بعض ضروری امور نمٹائے اور شہداء کی تدفین کی۔ اس کے بعد آپ ﷺ کو اچانک خیال آیا کہ یہ کفار چلے تو گئے ہیں ‘ لیکن ہوسکتا ہے انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو کہ اس وقت تو مسلمان اس حالت میں تھے کہ ہم انہیں ختم کرسکتے تھے ‘ لہٰذا وہ کہیں دوبارہ پلٹ کر حملہ آور نہ ہوجائیں۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو قریش کے تعاقب کے لیے تیار ہوجانے کا حکم دیا ‘ تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ ہم نے ہمت نہیں ہاردی۔ اس کے باوجود کہ اہل ایمان کے جسم زخموں سے چور چور تھے ‘ اتنا بڑا صدمہ پہنچا تھا ‘ وہ پھر تیار ہوگئے اور حضور ﷺ جان نثاروں کی ایک جماعت کے ساتھ کفار کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے جو مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ ادھر ابوسفیان کو واقعتا اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا اور وہ مقام روحاء پر رک کر اپنی فوج کی ازسرنو تنظیم کر کے واپس پلٹ کر مدینہ پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر رہا تھا۔ ادھر سے آنے والے ایک تاجر سے اس نے کہا بھی تھا کہ جا کر مسلمانوں کو بتادو کہ میں بہت بڑا لشکر لے کر دوبارہ آ رہا ہوں۔ لیکن جب ابوسفیان نے دیکھا کہ مسلمانوں کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے اور وہ ان کے تعاقب میں آ رہے ہیں تو ارادہ بدل لیا اور لشکرکو مکہ کی طرف کوچ کا حکم دے دیا۔اسی طرح کا ایک اور واقعہ بیان ہوتا ہے کہ ابوسفیان جاتے ہوئے یہ کہہ گیا تھا کہ اب اگلے سال بدر میں دوبارہ ملاقات ہوگی۔ یعنی ایک سال پہلے بدر میں جنگ ہوئی تھی ‘ اب احد میں ہمارا مقابلہ ہوگیا۔ اب اگلے سال پھر ہمارے اور تمہارے درمیان تیسرا مقابلہ بدر میں ہوگا۔ چناچہ اگلے سال رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام رض کو لے کر بدر تک گئے۔ یہ مہم بدرصغریٰکہلاتی ہے۔ ادھر سے ابوسفیان پورے لاؤ لشکر کے ساتھ آگیا اور اس مرتبہ بھی کچھ لوگوں کے ذریعہ سے اہل ایمان میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی کہ لوگو کیا کر رہے ہو ‘ قریش تو بہت بڑا لشکر لے کر آ رہے ہیں ‘ تم اس کا مقابلہ نہ کر پاؤ گے ! تو اس کے جواب میں مسلمانوں نے صبر و توکل کا مظاہرہ کیا اور وہ کلمات کہے جو آگے آ رہے ہیں۔ تو یہ آیات دونوں واقعات پر منطبق ہوسکتی ہیں۔
الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ
📘 آیت 172 اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِ مِنْم بَعْدِ مَآ اَصَابَہُمُ الْقَرْحُ ط۔یہ آیت سابقہ آیات کے تسلسل میں آئی ہے۔ یعنی اس اجر عظیم کے مستحق وہ لوگ ٹھہریں گے کہ احد کی شکست کا زخم کھانے کے بعد بھی ان کے عزم و ایمان کا یہ حال ہے کہ جونہی اللہ اور رسول کی جانب سے انہیں ایک تازہ مہم کے لیے پکارا گیا وہ فوراً تیار ہوگئے۔
الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ
📘 وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ اُسی کا سہارا سب سے اچھا سہارا ہے۔ چناچہ یہ لوگ بےخوف ہو کر مقابلے کے لیے نکلے۔
فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ
📘 آیت 174 فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ ابوسفیان کو جب پتا چلا کہ محمد ﷺ ہمارے تعاقب میں آ رہے ہیں تو اس نے عافیت اسی میں سمجھی کہ سیدھا مکہ مکرمہ کی طرف رخ کرلیا جائے۔ بدرِصغریٰکی مہم میں بھی یہی ہوا کہ جب اس نے سنا کہ محمد رسول اللہ ﷺ تو اپنے پورے ساتھیوں کے ساتھ مقابلے پر آگئے ہیں تو وہ کنی کترا کر اور طرح دے کر نکل گیا اور مقابلے میں نہیں آیا۔ لَّمْ یَمْسَسْہُمْ سُوْءٌ لا انہیں اس مہم میں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی جس میں وہ پورے اترے۔وَّاتَّبَعُوْا رِضْوَان اللّٰہِ ط۔انہیں اللہ کی رضا و خوشنودی پر چلنے کا شرف حاصل ہوگیا۔
إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 آیت 175 اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَ ‘ ہٗص وہ تو چاہتا ہے کہ اپنے ساتھی کفار یعنی حزب الشیطان کا خوف تم پر طاری کر دے۔ اس کے ایک معنی یہ بھی لیے گئے ہیں کہ شیطان اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے۔ یعنی شیطان کی اس تخویف کا اثر انہی پر ہوتا ہے جو اس کے ولی ہوتے ہیں ‘ لیکن جو اولیاء اللہ ہیں ان پر شیطان کی طرف سے اس قسم کی وسوسہ اندازی کا اثر نہیں ہوتا۔
وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۗ يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 آیت 176 وَلاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ ج مدینہ کے یہود اور مکہ کے مشرکین مسلمانوں کے خلاف ساز باز میں مصروف رہتے۔ کبھی یہودیوں کا کوئی وفد سرداران مکہ کے پاس جاکر کہتا کہ تم مسلمانوں پر چڑھائی کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ کبھی قریش یہودیوں سے رابطہ کرتے۔ گویا آج کل کی اصطلاح میں بڑی Diplomatic Activity ‘ ہو رہی تھی۔ ان حالات میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی وساطت سے اہل ایمان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے رنجیدہ نہ ہوں ‘ ان کی ساری ریشہ دوانیوں کی حیثیت سیلاب کے اوپر آجانے والے جھاگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا ط یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ ج یہ گویا اللہ کے اس فیصلے کا ظہور ہے کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔
إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 آیت 176 وَلاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْْکُفْرِ ج مدینہ کے یہود اور مکہ کے مشرکین مسلمانوں کے خلاف ساز باز میں مصروف رہتے۔ کبھی یہودیوں کا کوئی وفد سرداران مکہ کے پاس جاکر کہتا کہ تم مسلمانوں پر چڑھائی کرو ‘ ہم اندر سے تمہاری مدد کریں گے۔ کبھی قریش یہودیوں سے رابطہ کرتے۔ گویا آج کل کی اصطلاح میں بڑی Diplomatic Activity ‘ ہو رہی تھی۔ ان حالات میں رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کی وساطت سے اہل ایمان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے رنجیدہ نہ ہوں ‘ ان کی ساری ریشہ دوانیوں کی حیثیت سیلاب کے اوپر آجانے والے جھاگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔اِنَّہُمْ لَنْ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیْءًا ط یُرِیْدُ اللّٰہُ اَلاَّ یَجْعَلَ لَہُمْ حَظًّا فِی الْاٰخِرَۃِ ج یہ گویا اللہ کے اس فیصلے کا ظہور ہے کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ
📘 آیت 178 وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ خَیْرٌ لِّاَنْفُسِہِمْ ط ُ کافروں کو مہلت اس لیے ملتی ہے کہ وہ اپنے کفر میں اور بڑھ جائیں تاکہ اپنے آپ کو برے سے برے عذاب کا مستحق بنا لیں۔ اللہ ان کو ڈھیل ضرور دیتا ہے ‘ لیکن یہ نہ سمجھو کہ یہ ڈھیل ان کے حق میں اچھی ہے۔ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْآ اِثْمًاج ہم تو ان کو صرف اس لیے ڈھیل دیتے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور اضافہ کرلیں۔
مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ
📘 آیت 179 مَا کَان اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ ط۔یہ آیت بھی فلسفۂ آزمائش کے ضمن میں بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور صالح بندوں کو تکالیف میں کیوں ڈالتا ہے ‘ حالانکہ وہ تو قادر مطلق ہے ‘ آن واحد میں جو چاہے کرسکتا ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ یہ بات اللہ کی حکمت کے مطابق نہیں ہے کہ وہ تمہیں اسی حال میں چھوڑے رکھے جس پر تم ہو۔ ابھی تمہارے اندر کمزور اور پختہ ایمان والے گڈمڈ ہیں ‘ بلکہ ابھی تو منافق اور مؤمن بھی گڈمڈ ہیں۔ تو جب تک ان عناصر کو الگ الگ نہ کردیا جائے اور تمہاری اجتماعیت سے یہ تمام ناپاک عناصر نکال نہ دیے جائیں اس وقت تک تم آئندہ پیش آنے والے مشکل اور کٹھن حالات کے لیے تیار نہیں ہوسکتے۔ آگے تمہیں سلطنت روما سے ٹکرانا ہے ‘ تمہیں سلطنت کسریٰ سے ٹکر لینی ہے۔ ابھی تو یہ اندرون ملک عرب تمہاری جنگیں ہو رہی ہیں۔ ان آزمائشوں کا مقصد یہ ہے کہ تمہاری اجتماعیت کی تطہیر ‘ purge ‘ ہوتی رہے ‘ یہاں تک کہ منافقین اور صادق الایمان لوگ بالکل نکھر کر علیحدہ ہوجائیں۔ وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُطْلِعَکُمْ عَلَی الْغَیْبِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَجْتَبِیْ مِنْ رُّسُلِہٖ مَنْ یَّشَآءُص۔وہ اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے غیب کے حالات بھی بتاتا ہے۔ رسولوں کو غیب از خود معلوم نہیں ہوتا ‘ اللہ کے بتانے سے معلوم ہوتا ہے۔ یعنی ان آزمائشوں میں کیا حکمتیں ہیں اور ان میں تمہارے لیے کیا خیر پنہاں ہے ‘ ہرچیز ہر ایک کو نہیں بتائی جائے گی ‘ البتہ یہ چیزیں ہم اپنے رسولوں کو بتا دیتے ہیں۔
شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 آیت 18 شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَلا سب سے بڑی گواہی تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے ‘ جو کتب سماویہ سے بھی ظاہر ہے اور مظاہر فطرت سے بھی۔وَالْمَلآءِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ اولوالعلم وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن کہیں اولوالالباب قرار دیتا ہے اور کہیں ان کے لیے الَّذِیْنَ یَعْقِلُوْنَجیسے الفاظ آتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو آیات آفاقی کے حوالے سے اللہ کو پہچان لیتے ہیں اور مان لیتے ہیں کہ وہی معبود برحق ہے۔ سورة البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت ہم نے پڑھی تھی جسے میں آیت الآیاتقرار دیتا ہوں۔ اس میں بہت سے مظاہر فطرت بیان کر کے فرمایا گیا : لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ان میں یقیناً نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ تو یہ جو قَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ہیں ‘ جو اولوالالباب ہیں ‘ اولوالعلم ہیں ‘ وہ بھی گواہ ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ قَآءِمًام بالْقِسْطِ ط۔یہ اس آیت مبارکہ کے اہم ترین الفاظ ہیں۔ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ عدل قائم کرتا ہے اور عدل کرے گا ‘ البتہ اہل سنت کے نزدیک یہ کہنا سوء ادب ہے کہ اللہ پر عدل کرنا واجب ہے۔ اللہ پر کسی شے کا وجوب نہیں ہے۔ اللہ کو عدل پسند ہے اور وہ عدل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ الحجرات اور اللہ خود بھی عدل فرمائے گا۔
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 آیت 180 وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰٹہُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ہُوَ خَیْرًا لَّہُم ْ ط۔ظاہر بات ہے کہ جب جنگ احد کے لیے تیاری ہو رہی ہوگی تو حضور ﷺ نے مسلمانوں کو انفاق مال کی دعوت دی ہوگی تاکہ اسباب جنگ فراہم کیے جائیں۔ لیکن جن لوگوں نے دولت مند ہونے کے باوجود بخل کیا ان کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ انہوں نے بخل کر کے جو اپنا مال بچالیا وہ یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے کوئی اچھا کام کیا ہے۔ یہ مال اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کیا تھا ‘ اس میں بخل سے کام لے کر انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ بَلْ ہُوَ شَرٌّ لَّہُمْ ط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط وَلِلّٰہِ مِیْرَاث السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط دنیا کا مال و اسباب آج تمہارے پاس ہے تو کل کسی اور کے پاس چلا جائے گا اور بالآخر سب کچھ اللہ کے لیے رہ جائے گا۔ آسمانوں اور زمین کی میراث کا حقیقی وارث اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ یہاں وہ چھ رکوع مکمل ہوگئے ہیں جو غزوۂ احد کے حالات و واقعات اور ان پر تبصرے پر مشتمل تھے۔ اس سورة مبارکہ کے آخری دو رکوع کی نوعیت حاصل کلام کی ہے۔ یہ گویا concluding رکوع ہیں۔
لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
📘 آیت 181 لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآءُ 7 ۔یہ بات کہنے والوں میں منافقین بھی شامل ہوسکتے ہیں اور یہودی بھی۔ جب رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو انفاق مال کی ترغیب دیتے تھے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو تو یہودیوں اور ان کے زیر اثر منافقوں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنا شروع کردیا کہ ہاں اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم سے قرض مانگ رہا ہے ‘ جبکہ ہم غنی ہیں ‘ ہمارے پاس دولت ہے۔سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی جھلکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فوراً تو گرفت نہیں کرتا لیکن ایک وقت آئے گا جس دن انہیں اپنے اس قول کی پوری سزا مل جائے گی۔ اور صرف یہی نہیں :وَقَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِحَقٍّ لا اس سے پہلے یہ جو نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں ان کا یہ جرم بھی ان کے نامۂ اعمال میں ثبت ہے۔
ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ
📘 آیت 181 لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَآءُ 7 ۔یہ بات کہنے والوں میں منافقین بھی شامل ہوسکتے ہیں اور یہودی بھی۔ جب رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو انفاق مال کی ترغیب دیتے تھے کہ اللہ کو قرض حسنہ دو تو یہودیوں اور ان کے زیر اثر منافقوں نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہنا شروع کردیا کہ ہاں اللہ فقیر ہوگیا ہے اور ہم سے قرض مانگ رہا ہے ‘ جبکہ ہم غنی ہیں ‘ ہمارے پاس دولت ہے۔سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی شدید ناراضگی جھلکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فوراً تو گرفت نہیں کرتا لیکن ایک وقت آئے گا جس دن انہیں اپنے اس قول کی پوری سزا مل جائے گی۔ اور صرف یہی نہیں :وَقَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآءَ بِغَیْرِحَقٍّ لا اس سے پہلے یہ جو نبیوں کو ناحق قتل کرتے رہے ہیں ان کا یہ جرم بھی ان کے نامۂ اعمال میں ثبت ہے۔
الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 آیت 183 اَلَّذِیْنَ قَالُوْآ اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیْنَآ اَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُوْلٍ حَتّٰی یَاْتِیَنَا بِقُرْبَانٍ تَاْکُلُہُ النَّارُط یہاں روئے سخن پھر یہود کی طرف ہوگیا ہے۔ نوع انسانی جب عہد طفولیت میں تھی تو خرق عادت چیزیں بہت ہوا کرتی تھیں۔ ان میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ اگر کوئی شخص اللہ کی جناب میں کوئی جانور ذبح کر کے پیش کرتا تو آسمان سے ایک آگ اترتی جو اسے بھسم کردیتی تھی اور یہ اس بات کی علامت ہوتی تھی کہ یہ قربانی قبول ہوگئی۔ جیسے ہابیل اور قابیل کے قصے میں آیا ہے کہ : اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ ط المائدۃ : 27 جب دونوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ یہ پتا کیسے چلا ؟ عید الاضحی کے موقع پر ہم جو قربانیاں کرتے ہیں ان کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ کس کی قربانی قبول ہوئی اور کس کی قبول نہیں ہوئی۔ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ لیکن پہلے ایسی حِسّی علامات ہوتی تھیں کہ پتا چل جاتا تھا کہ یہ قربانی اللہ نے قبول کرلی ہے۔ بنی اسرائیل کے ابتدائی دور میں بھی یہ نشانی موجود تھی کہ آسمان سے اترنے والی آگ کا قربانی کو بھسم کردینا اس کی قبولیت کی علامت تھی۔ مدینہ کے یہود نے کٹ حجتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے تو اللہ نے یہ عہد لے لیا تھا کہ ہم کسی رسول پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ یہ معجزہ نہ دکھائے۔ تو اگر محمد ﷺ واقعی رسول ﷺ ہیں تو یہ معجزہ دکھائیں۔ اس کا جواب دیا جا رہا ہے :قُلْ قَدْ جَآءَ کُمْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِیْ بالْبَیِّنٰتِ وَبِالَّذِیْ قُلْتُمْ انہوں نے سوختنی قربانی کا معجزہ بھی دکھایا جس کا تم مطالبہ کر رہے ہو۔
فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ
📘 آیت 184 فَاِنْ کَذَّبُوْکَ تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ معاملہ صرف آپ ﷺ ہی کے ساتھ نہیں ہوا۔فَقَدْ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ یہ تو اس راستے کا ایک عام تجربہ ہے ‘ جس سے آپ ﷺ ‘ کو بھی گزرنا پڑے گا۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
📘 آیت 185 کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ ط موت تو ایک دن آکر رہنی ہے۔ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ اے اللہ ! ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل فرمانا !
۞ لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
📘 آیت 186 لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف یہ وہی مضمون ہے جو سورة البقرۃ کے انیسویں رکوع میں گزر چکا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط آیت 155 اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف سے اور بھوک سے اور مالوں ‘ جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ یہاں مجہول کا صیغہ ہے کہ تمہیں لازماً آزمایا جائے گا ‘ تمہاری آزمائش کی جائے گی تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ ایمان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ یہ کانٹوں بھرا بستر ہے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ٹھنڈے ٹھنڈے اور بغیر تکلیفیں اٹھائے تمہیں جنت مل جائے گی۔ سورة البقرۃ آیت 214 میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔۔وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط یہ سب کچھ سنو اور صبر کرو۔ جیسے رسول اللہ ﷺ سے ابتدا میں کہا گیا تھا : وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا المزمل اور ان باتوں پر صبر کیجیے جو یہ لوگ کہتے ہیں اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ ہوجایئے۔ آپ ﷺ کو کیا کچھ نہیں سننا پڑا۔ کسی نے کہہ دیا مجنون ہے ‘ کسی نے کہہ دیا شاعر ہے ‘ کسی نے کہا ساحر ہے ‘ کسی نے کہا مسحور ہے۔ سورة الحجر کے آخر میں ارشاد ہے : وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَ نَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ مشرکین جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ ﷺ ‘ کا سینہ بھنچتا ہے۔ ان کی زبانوں سے جو کچھ آپ ﷺ کو سننا پڑرہا ہے اس سے آپ ﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے ‘ لیکن صبر کیجیے ! وہی بات مسلمانوں سے کہی جا رہی ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
📘 آیت 186 لَتُبْلَوُنَّ فِیْ اَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ قف یہ وہی مضمون ہے جو سورة البقرۃ کے انیسویں رکوع میں گزر چکا ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط آیت 155 اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف سے اور بھوک سے اور مالوں ‘ جانوں اور ثمرات کے نقصان سے۔ یہاں مجہول کا صیغہ ہے کہ تمہیں لازماً آزمایا جائے گا ‘ تمہاری آزمائش کی جائے گی تمہارے مالوں میں بھی اور تمہاری جانوں میں بھی۔ کان کھول کر سن لو کہ یہ ایمان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ یہ کانٹوں بھرا بستر ہے۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ٹھنڈے ٹھنڈے اور بغیر تکلیفیں اٹھائے تمہیں جنت مل جائے گی۔ سورة البقرۃ آیت 214 میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تو تم پر وہ حالات و واقعات وارد نہیں ہوئے جو تم سے پہلوں پر ہوئے تھے۔۔وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا ط یہ سب کچھ سنو اور صبر کرو۔ جیسے رسول اللہ ﷺ سے ابتدا میں کہا گیا تھا : وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا المزمل اور ان باتوں پر صبر کیجیے جو یہ لوگ کہتے ہیں اور وضعداری کے ساتھ ان سے الگ ہوجایئے۔ آپ ﷺ کو کیا کچھ نہیں سننا پڑا۔ کسی نے کہہ دیا مجنون ہے ‘ کسی نے کہہ دیا شاعر ہے ‘ کسی نے کہا ساحر ہے ‘ کسی نے کہا مسحور ہے۔ سورة الحجر کے آخر میں ارشاد ہے : وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَ نَّکَ یَضِیْقُ صَدْرُکَ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ مشرکین جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے آپ ﷺ ‘ کا سینہ بھنچتا ہے۔ ان کی زبانوں سے جو کچھ آپ ﷺ کو سننا پڑرہا ہے اس سے آپ ﷺ کو تکلیف پہنچتی ہے ‘ لیکن صبر کیجیے ! وہی بات مسلمانوں سے کہی جا رہی ہے۔
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 آیت 188 لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا اگر کچھ نیکی کرلیتے ہیں ‘ کسی کو کچھ دے دیتے ہیں تو اس پر بہت اتراتے ہیں ‘ اکڑتے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کرلیا ہے۔وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْاص آج کل اس کی سب سے بڑی مثال سپاس نامے ہیں ‘ جو تقریبات میں مدعو شخصیات کو پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سپاس ناموں میں ان حضرات کے ایسے ایسے کارہائے نمایاں بیان کیے جاتے ہیں جو ان کی پشتوں میں سے بھی کسی نے نہ کیے ہوں۔ اس طرح ان کی خوشامد اور چاپلوسی کی جاتی ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔ فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ج تو ان کے بارے میں یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 188 لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَفْرَحُوْنَ بِمَآ اَتَوْا اگر کچھ نیکی کرلیتے ہیں ‘ کسی کو کچھ دے دیتے ہیں تو اس پر بہت اتراتے ہیں ‘ اکڑتے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کرلیا ہے۔وَّیُحِبُّوْنَ اَنْ یُّحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوْاص آج کل اس کی سب سے بڑی مثال سپاس نامے ہیں ‘ جو تقریبات میں مدعو شخصیات کو پیش کیے جاتے ہیں۔ ان سپاس ناموں میں ان حضرات کے ایسے ایسے کارہائے نمایاں بیان کیے جاتے ہیں جو ان کی پشتوں میں سے بھی کسی نے نہ کیے ہوں۔ اس طرح ان کی خوشامد اور چاپلوسی کی جاتی ہے اور وہ اسے پسند کرتے ہیں۔ فَلاَ تَحْسَبَنَّہُمْ بِمَفَازَۃٍ مِّنَ الْعَذَابِ ج تو ان کے بارے میں یہ خیال نہ کریں کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے۔
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
📘 آیت 19 اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ قف اللہ کا پسندیدہ اور اللہ کے ہاں منظور شدہ دین ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہے۔ سورة البقرۃ اور سورة آل عمران کی نسبت زوجیت کے حوالے سے یہ بات سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ میں ایمان پر زیادہ زور ہے اور سورة آل عمران میں اسلام پر۔ سورة البقرۃ کے آغاز میں بھی ایمانیات کا تذکرہ ہے ‘ درمیان میں آیت البر میں بھی ایمانیات کا بیان ہے اور آخری آیات میں بھی ایمانیات کا ذکر ہے : اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط جبکہ اس سورة مبارکہ میں اسلام کو emphasize کیا گیا ہے۔ یہاں فرمایا : اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ قف آگے جا کر آیت آئے گی : وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو قبول کرے گا وہ اس کی جانب سے اللہ کے ہاں منظور نہیں کیا جائے گا۔وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ الاَّ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ ط۔یہ گویا سورة البقرۃ کی آیت 213 آیت الاختلاف کا خلاصہ ہے۔ دین اسلام تو حضرت آدم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے۔ جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا ‘ پگڈنڈیاں نکالیں اور غلط راستوں پر مڑ گئے ‘ اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آچکا تھا ‘ ان کا اصلی روگ وہی ضدم ضدا کی روش اور غالب آنے کی امنگ The urge to dominate تھی۔ وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ اللہ تعالیٰ کو حساب لیتے دیر نہیں لگے گی ‘ وہ بڑی تیزی کے ساتھ حساب لے لے گا۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
📘 سورة آل عمران کا آخری رکوع قرآن مجید کے عظیم ترین مقامات میں سے ہے۔ اس کی پہلی چھ آیات کے بارے میں روایت آتی ہے کہ جس شب میں یہ نازل ہوئیں تو پوری رات حضور ﷺ پر رقت طاری رہی اور آپ ﷺ کھڑے ‘ بیٹھے ‘ لیٹے ہوئے روتے رہے۔ نماز تہجد کے دوران بھی آپ ﷺ پر رقت طاری رہی۔ پھر آپ ﷺ نے بہت طویل سجدہ کیا ‘ اس میں بھی گریہ طاری رہا اور سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ پھر آپ ﷺ کچھ دیر لیٹے رہے لیکن وہ کیفیت برقرار رہی۔ یہاں تک کہ صبح صادق ہوگئی۔ حضرت بلال رض جب فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے اور آپ ﷺ ‘ کو اس کیفیت میں دیکھا تو وجہ دریافت کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اے بلال ‘ میں کیوں نہ روؤں کہ آج کی شب میرے رب نے مجھ پر یہ آیات نازل فرمائی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی اس روایت کو امام رازی نے تفسیر کبیر میں بیان کیا ہے یعنی وہ گریہ اور رقت شکر کے جذبے کے تحت تھی۔یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہ سورة آل عمران کا بیسواں رکوع شروع ہو رہا ہے اور سورة البقرۃ کے بیسویں رکوع کی پہلی آیت کے الفاظ یہ تھے : اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ اسی آیت الآیات کا خلاصہ یہاں آگیا ہے : آیت 190 اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لّاُولِی الْاَلْبَابِ سورۃ البقرۃ کی آیت 164 ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی : لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کو اولوا الالبابکا نام دیا گیا۔ یہ ہدایت کا پہلا قدم ہے کہ کائنات کو دیکھو ‘ مظاہر فطرت کا مشاہدہ کرو کھول آنکھ ‘ زمین دیکھ ‘ فلک دیکھ ‘ فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ !یہ سب آیات الٰہیہ ہیں ‘ ان کو دیکھو اور اللہ کو پہچانو۔ اگلا قدم یہ ہے کہ جب اللہ کو پہچان لیا تو اب اسے یاد رکھو۔ یعنی َ فقر قرآں اختلاط ذکر و فکر فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر !
الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
📘 آیت 191 الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں :رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ج اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں ؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو ‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہوجاؤ ؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘ کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں ‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے ‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چناچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے ‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے ‘ مکافات عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں :سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ تو نے یقیناً ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے ‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی !
رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
📘 آیت 191 الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج اس غور و فکر سے وہ ایک دوسرے نتیجے پر پہنچتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں :رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًا ج اور پھر ان کا ذہن اپنی طرف منتقل ہوتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ میں کس لیے پیدا کیا گیا ہوں ؟ کیا میری زندگی بس یہی ہے کہ کھاؤ پیو ‘ اولاد پیدا کرو اور دنیا سے رخصت ہوجاؤ ؟ معلوم ہوا کہ نہیں ‘ کوئی خلا ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجے نکلنے چاہئیں ‘ انسان کو اس کی نیکی اور بدی کا بدلہ ملنا چاہیے ‘ جو اس دنیا میں اکثر و بیشتر نہیں ملتا۔ دنیا میں اکثر یہی دیکھا گیا ہے کہ نیکوکار فاقوں سے رہتے ہیں اور بدکار عیش کرتے ہیں۔ چناچہ کوئی اور زندگی ہونی چاہیے ‘ کوئی اور دنیا ہونی چاہیے جس میں اچھے برے اعمال کا بھرپور بدلہ مل جائے ‘ مکافات عمل ہو۔ لہٰذا وہ کہہ اٹھتے ہیں :سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَاب النَّارِ تو نے یقیناً ایک دوسری دنیا تیار کر رکھی ہے ‘ جس میں جزا وسزا کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی !
رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ
📘 آیت 193 رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّاق ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے بعد ایسے لوگوں کے کانوں میں جونہی کسی نبی یا رسول کی پکار آتی ہے تو فوراً لبیک کہتے ہیں ‘ ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رض نے فوری طور پر رسول اللہ ﷺ کی دعوت قبول کرلی ‘ اس لیے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت تک تو وہ خود پہنچ چکے تھے۔ سورة الفاتحہ کے مضامین کو ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ اولوا الالباب میں سے ایک شخص جو اپنی سلامت ‘ طبع ‘ سلامتئ فطرت اور سلامت ‘ عقل کی رہنمائی میں یہاں تک پہنچ گیا کہ اس نے اللہ کو پہچان لیا ‘ آخرت کو پہچان لیا ‘ یہ بھی طے کرلیا کہ اسے اللہ کی بندگی ہی کا راستہ اختیار کرنا ہے ‘ لیکن اس کے بعد وہ نبوت و رسالت کی راہنمائی کا محتاج ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے حضور دست سوال دراز کرتا ہے : اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یہاں بھی یہی مضمون ہے کہ اب ایسے شخص کے سامنے اگر کسی نبی کی دعوت آئے گی تو اس کا ردِّعمل کیا ہوگا۔ اب آگے ایک عظیم ترین دعا آرہی ہے۔ یہ اس دعا سے جو سورة البقرہ کے آخر میں آئی تھی بعض پہلوؤں سے کہیں زیادہ عظیم تر ہے۔ رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا ہمارے نامۂ اعمال کے دھبے بھی دھو دے اور ہمارے دامن کردار کے جو داغ ہیں وہ بھی صاف کر دے۔
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ
📘 آیت 194 رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ ہمیں شک ہے تو اس بات میں کہ آیا ہم تیرے ان وعدوں کے مصداق ثابت ہو سکیں گے یا نہیں۔ لہٰذا تو اپنی شان غفاری سے ہماری کوتاہیوں کی پردہ پوشی کرنا اور ہمیں وہ سب کچھ عطا کردینا جو تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے سے وعدہ کیا ہے۔
فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ ۖ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
📘 آیت 195 فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ یہ ہے دعا کی قبولیت کی انتہا کہ اس دعا کے فوراً بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت کا اعلان ہورہا ہے۔ اَنِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی ج بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ ج ایک ہی باپ کے نطفے سے بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی ‘ اور ایک ہی ماں کے رحم میں بیٹا بھی پلا ہے اور بیٹی ‘ بھی۔ فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ ان کے نامۂ اعمال میں اگر کوئی دھبے ہوں گے تو انہیں دھو دوں گا۔وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ ج۔ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط۔یعنی اللہ تعالیٰ کے خاص خزانۂ ‘ فضل سے۔وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ اب آخری پانچ آیات جو آرہی ہیں ان کی حیثیت اس سورة مبارکہ کے تمام مباحث پر خاتمۂ ‘ کلام کی ہے۔ یاد رہے کہ اس سورت میں اہل کتاب کا عمومی ذکر بھی ہوا ہے اور یہود و نصاریٰ کا الگ الگ بھی۔ پھر اس میں اہل ایمان کا ذکر بھی ہے اور مشرکین کا بھی۔
لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ
📘 اب فرمایا :آیت 196 لاَ یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْْبِلاَدِ یہ کافر جو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ کر رہے ہیں ‘ اور اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے سازشیں کر رہے ہیں ‘ جمعیتیں فراہم کر رہے ہیں ‘ اس سے آپ ﷺ کسی دھوکے میں نہ آئیں ‘ کسی مغالطے کا شکار نہ ہوں ‘ ان کی طاقت کے بارے میں کہیں آپ ﷺ مرعوب نہ ہوجائیں۔
مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
📘 آیت 197 مَتَاعٌ قَلِیْلٌ قف یہ تو محض چند روزہ زندگی کے لیے ہم نے انہیں کچھ ساز و سامان دے دیا ہے۔
لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِلْأَبْرَارِ
📘 آیت 198 لٰکِنِ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّہُمْ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا نُزُلاً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ جنت کی اصل نعمتیں تو بیان میں آ ہی نہیں سکتیں۔ ان کے بارے میں حضرت ابوہریرہ رض سے مروی یہ متفق علیہ حدیث یاد رکھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ 1اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے جنت میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ‘ اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں اس کا خیال ہی گزرا۔قرآن و حدیث میں جنت کی جن نعمتوں کا تذکرہ ہے ان کی حیثیت اہل جنت کے لیے نُزُل ابتدائی مہمان نوازی کی ہوگی۔
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
📘 آیت 199 وَاِنَّ مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَمَنْ یُّؤْمِنُ باللّٰہِ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہے ‘ وہ عاجزی اور تواضع اختیار کرتے ہیں۔اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔وہ حساب لینے میں دیر نہیں لگاتا۔ آخری آیت پھر بہت جامع ہے :
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ
📘 آیت 2 اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ لا الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ یہ الفاظ سورة البقرۃ میں آیت الکرسی کے آغاز میں آ چکے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسم اعظم ہے ‘ جس کے حوالے سے اگر اللہ سے کوئی دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ یہ تین سورتوں البقرۃ ‘ آل عمران اور طٰہٰ میں ہے۔ 1آنحضور ﷺ نے تعینّ کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ اسم اعظم کون سا ہے ‘ البتہ کچھ اشارے کیے ہیں۔ جیسے رمضان المبارک کی ایک شب لیلۃ القدرجو ہزار مہینوں سے افضل ہے ‘ اس کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ کون سی ہے ‘ بلکہ فرمایا : فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ 2 اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو“۔ تاکہ زیادہ ذوق و شوق کا معاملہ ہو۔ اسی طرح اسم اعظم کے بارے میں آپ ﷺ نے اشارات فرمائے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ تین سورتوں سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة طٰہٰ میں ہے۔ ان تین سورتوں میں جو الفاظ مشترک ہیں وہ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ہیں۔ سورة البقرۃ میں یہ الفاظ آیت الکرسی میں آئے ہیں ‘ سورة آل عمران میں یہاں دوسری آیت میں اور سورة طٰہٰ کی آیت 111 میں موجود ہیں۔
فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ
📘 آیت 20 فَاِنْ حَآجُّوْکَ دلیل بازی اور مناظرے کی روش اختیار کریں۔ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلّٰہِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ط۔ آپ ﷺ ان سے دو ٹوک انداز میں یہ آخری بات کہہ دیں کہ ہم نے تو اللہ کے آگے سراطاعت خم کردیا ہے۔ ہم نے ایک راستہ اختیار کرلیا ہے۔ تم جدھر جانا چاہتے ہوجاؤ ‘ جس پگڈنڈی پر مڑنا چاہتے ہو مڑ جاؤ ‘ جس کھائی میں گرنا چاہتے ہو گر جاؤ۔ لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ الکافرون۔وَقُلْ لِّلَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَالْاُمِّیّٖنَ ءَ اَسْلَمْتُمْ ط کیا تم بھی سرتسلیم خم کرتے ہو یا نہیں ؟ تابع ہوتے ہو یا نہیں ؟ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرتے ہو یا نہیں ؟فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اہْتَدَوْا ج وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ ط آپ ﷺ نے ہمارا پیغام ان تک پہنچا دیا ‘ ہماری دعوت ان تک پہنچا دی ‘ ہماری آیات انہیں پڑھ کر سنا دیں ‘ اب قبول کرنا یا نہ کرنا ان کا اپنا اختیار choice ہے۔ آپ ﷺ پر ذمہ داری نہیں ہے کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لائے۔ سورة البقرۃ میں ہم یہ الفاظ پڑھ آئے ہیں : وَلَا تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ۔وَاللّٰہُ بَصِیْرٌم بالْعِبَادِ وہ ان سے حساب کتاب کرلے گا اور ان سے نمٹ لے گا۔ آپ ﷺ کے ذمہ جو فرض ہے آپ اس کو ادا کرتے رہیے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
📘 آیت 200 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا مصابرت باب مفاعلہ سے ہے اور اس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک تو ہے صبر کرنا ‘ ثابت قدم رہنا ‘ اور ایک ہے مصابرت یعنی صبر و استقامت میں دشمن سے بڑھ جانا۔ ایک صبر وہ بھی تو کر رہے ہیں۔ تمہیں آج چرکا لگا ہے تو انہیں ایک سال پہلے ایسا ہی چرکا لگا تھا اور 70 مارے گئے تھے۔ وہ ایک سال کے اندر پھر چڑھائی کر کے آگئے ‘ تو تم اپنا دل غمگین کر کے کیوں بیٹھے ہوئے ہو ؟ تمہیں تو ان سے بڑھ کر صبر کرنا ہے ‘ ان سے بڑھ کر قربانیاں دینی ہیں ‘ تبھی تم حقیقت میں اللہ کے وفادار ثابت ہو گے۔ وَرَابِطُوْاقف۔مرابطہ پہرے کو بھی کہتے ہیں اور نظم و ضبط discipline کی پابندی کرتے ہوئے باہم جڑے رہنے کو بھی۔ غزوۂ احد میں شکست کا سبب نظم کا ڈھیلا پن اور سمع وطاعت میں کمی تھی۔ لہٰذا یہاں صبر و مصابرت کے ساتھ ساتھ نظم کی پابندی اور باہم مربوط رہنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔یہ آخری اور اہم ترین چیز ہے۔ یہ سب کچھ کرو گے تو فلاح ملے گی۔ ایسے ہی گھر بیٹھے تم فوز و فلاح سے ہمکنار نہیں ہو سکو گے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی ال قرآن العظیم۔ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
📘 آیت 21 اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّیَقْتُلُوْنَ الَّذِیْنَ یَاْمُرُوْنَ بالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِلا اس لیے کہ انصاف کی بات تو بالعموم کسی کو پسند نہیں ہوتی۔ اَلْحَقُّ مُرٌّ حق بات کڑوی ہوتی ہے۔ بہت سے مواقع پر کسی حق گو انسان کو حق گوئی کی پاداش میں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ یہاں پھر عدل و قسط کا معاملہ آیا ہے۔ اللہ خود قَآءِمًا بالْقِسْطِہے اور اللہ کے محبوب بندے وہی ہیں جو عدل کا حکم دیں ‘ انصاف کا ڈنکا بجانے کی کوشش کریں۔ تو فرمایا کہ جو ایسے لوگوں کو قتل کریں۔۔فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔لفظ بشارتیہاں طنز کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
📘 آیت 22 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِز ۔قریش کو یہ زعم تھا کہ ہم خدام کعبہ ہیں اور ہمارے پاس جو یہ لوگ حج کرنے آتے ہیں ہم ان کو کھانا کھلاتے ہیں ‘ پانی پلاتے ہیں ‘ ہماری ان خدمات کے عوض ہمیں بخش دیا جائے گا۔ فرمایا وہ سارے اعمال حبط ہوجائیں گے۔ اگر تو صحیح صحیح پورے دین کو اختیار کرو گے تو ٹھیک ہے ‘ ورنہ چاہے خیرات اور بھلائی کے بڑے سے بڑے کام کیے ہوں ‘ لوگوں کی فلاح و بہبود کے ادارے قائم کردیے ہوں ‘ اللہ کی نگاہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ
📘 آیت 23 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ اُوْتُوْا نَصِیْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ اُوْتُوْا مجہول کا صیغہ ہے اور یاد رہے کہ جہاں مذمت کا پہلو ہوتا ہے وہاں مجہول کا صیغہ آتا ہے۔یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللّٰہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ وَہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔یعنی کتاب کو مانتے بھی ہیں لیکن اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
📘 آیت 24 ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّآ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍص۔یہ مضمون سورة البقرۃ میں آچکا ہے۔ ان کی ڈھٹائی کا اصل سبب ان کے من گھڑت خیالات ہیں۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم کتاب پر ایمان رکھتے ہو تو اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے ؟ اس میں تو لکھا ہے کہ سود حرام ہے اور تم سود خوری پر کمربستہ ہو ‘ اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام کیوں نہیں جانتے ؟ تو اس کے جواب میں وہ اپنا یہ من گھڑت عقیدہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں تو جہنم کی آگ چھو ہی نہیں سکتی مگر گنتی کے چند دن۔ جب یہ عقیدہ ہے تو پھر انسان کا ہے کو دنیا کا نقصان برداشت کرے ع بابر بعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔ پھر تو حلال سے ‘ حرام سے ‘ جائز سے ‘ ناجائز سے ‘ جیسے بھی عیش دنیا حاصل کیا جاسکتا ہو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ عقیدہ درحقیقت ایمان بالآخرۃ کی نفی کردیتا ہے۔وَغَرَّہُمْ فِیْ دِیْنِہِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُوْنَ اس طرح کے جو عقائد ونظریات انہوں نے گھڑ لیے ہیں ان کے باعث یہ دین کے معاملے میں گمراہی کا شکار ہوگئے ہیں۔ اللہ نے تو ایسی کوئی ضمانت نہیں دی تھی۔ تورات لاؤ ‘ انجیل لاؤ ‘ کہیں ایسی ضمانت نہیں ہے۔ یہ تو تمہارا من گھڑت عقیدہ ہے اور اسی کی وجہ سے اب تم دین کے اندر بددین یا بےدین ہوگئے ہو۔
فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 آیت 25 فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِ قف اِس وقت تو یہ بڑھ چڑھ کر باتیں بنا رہے ہیں ‘ زبان درازیاں کر رہے ہیں۔ لیکن جب ہم انہیں ایک ایسے دن میں جمع کریں گے جس کے آنے میں ذرا شک نہیں ‘ تو اس دن ان کا کیا حال ہوگا !وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ اس کے بعد اب پھر ایک بہت عظیم دعا آرہی ہے۔ اس سورة مبارکہ میں بہت سی دعائیں ہیں۔ یہ بھی ایک عظیم دعا ہے ‘ جس کی باقاعدہ تلقین کر کے کہا گیا ہے کہ یوں کہا کرو۔
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 26 قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ کل ملک تیرے اختیار میں ہے۔ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآءُز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُ ط اس کے دونوں معنی ہیں۔ ایک یہ کہ کل خیر و خوبی تیرے ہاتھ میں ہے اور دوسرے یہ کہ تیرے ہاتھ میں خیر ہی خیر ہے۔ بسا اوقات انسان جسے اپنے لیے شر سمجھ بیٹھتا ہے وہ بھی اس کے لیے خیر ہوتا ہے۔ سورة البقرۃ آیت 216 میں ہم پڑھ چکے ہیں : وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط۔
تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
📘 آیت 27 تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَتُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّیْلِز وَتُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّز اس کی بہترین مثال مرغی اور انڈا ہے۔ انڈے میں جان نہیں ہے لیکن اسی میں سے زندہ چوزہ برآمد ہوتا ہے اور مرغی سے انڈا برآمد ہوتا ہے۔
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
📘 آیت 28 لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج اولیاء ایسے قلبی دوست ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے رازدار بھی بن جائیں اور ایک دوسرے کے پشت پناہ بھی ہوں۔ یہ تعلق کفار کے ساتھ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کے ساتھ اچھا رویہ ‘ ظاہری مدارات اور تہذیب و شائستگی سے بات چیت تو اور بات ہے ‘ لیکن دلی محبت ‘ قلبی رشتہ ‘ جذباتی تعلق ‘ باہمی نصرت و تعاون اور ایک دوسرے کے پشت پناہ ہونے کا رشتہ قائم کرلینے کی اجازت نہیں ہے۔ کفار کے ساتھ اس طرح کے تعلقات اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ہیں۔وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْءٍ اگر اللہ کے دشمنوں کے ساتھ تمہاری دوستی ہے تو ظاہر ہے پھر تمہارا اللہ کے ساتھ کوئی رشتہ وتعلق نہیں رہا ہے۔اِلاَّ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰٹۃً ط۔بعض اوقات ایسے حالات ہوتے ہیں کہ کھلے مقابلے کا ابھی موقع نہیں ہوتا تو آپ دشمن کو طرح دیتے ہیں اور اس طرح گویا وقت حاصل کرتے ہیں you are buying time تو اس دوران اگر ظاہری خاطر مدارات کا معاملہ بھی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے ‘ لیکن مستقل طور پر کفار سے قلبی محبت قائم کرلینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ قرآن کے انہی الفاظ کو ہمارے ہاں اہل تشیع نے تقیہ کی بنیادبنا لیا ہے۔ لیکن انہوں نے اسے اس حد تک پہنچا دیا ہے کہ جھوٹ بولنا اور اپنے عقائد کو چھپا لینا بھی روا سمجھتے ہیں اور اس کے لیے دلیل یہاں سے لاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک بالکل دوسری شکل ہے اور یہ صرف ظاہری مدارات کی حد تک ہے۔ جیسے کہ ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ اگرچہ تمہارے خلاف یہود کے دلوں میں حسد کی آگ بھری ہوئی ہے لیکن فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا آیت 109 ابھی ذرا درگزر کرتے رہو اور چشم پوشی سے کام لو۔ ابھی فوری طور پر ان کے ساتھ مقابلہ شروع کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس حد تک مصلحت بینی تو صحیح ہے ‘ لیکن یہ نہیں کہ جھوٹ بولا جائے ‘ معاذ اللہ !وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط۔اللہ سے ڈرو۔ یعنی کسی اور سے خواہ مخواہ ڈر کر صرف خاطر مدارات کرلینا بھی صحیح نہیں ہے۔ کسی وقت مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کرلو ‘ لیکن تمہارے دل میں خوف صرف اللہ کا رہنا چاہیے۔
قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 آیت 29 قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ اَوْ تُبْدُوْہُ یَعْلَمْہُ اللّٰہُ ط۔تم اپنے سینوں میں مخفی باتیں ایک دوسرے سے تو چھپا سکتے ہو ‘ اللہ تعالیٰ سے نہیں۔ سورة البقرۃ میں ہم پڑھ چکے ہیں : وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے ظاہر کرو خواہ چھپاؤ اللہ تم سے اس کا محاسبہ کرلے گا۔
نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
📘 آیت 3 نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ اس اللہ نے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ‘ جو الْحَیُّ ہے ‘ الْقَیُّوْمُہے۔ اس میں اس کلام کی عظمت کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ جان لو یہ کلام کس کا ہے ‘ کس نے اتارا ہے۔ اور یہاں نوٹ کیجیے ‘ لفظ نَزَّلَ آیا ہے ‘ اَنْزَلَ نہیں آیا۔مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یہ تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کی جو اس کے سامنے موجود ہے یعنی تورات اور انجیل کی جو اس سے پہلے نازل ہوچکی ہیں۔ قرآن حکیم سابقہ کتب سماویہ کی دو اعتبارات سے تصدیق کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کی کتابیں تھیں جن میں تحریف ہوگئی۔ دوسرے یہ کہ قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ ان پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آئے ہیں جو ان کتابوں میں موجود تھیں۔
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
📘 آیت 30 یَوْمَ تَجِدُ کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَیْرٍ مُّحْضَرًا ج وَّمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوْءٍ ج اس کا نقشہ سورة الزلزال میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے : فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ تو جس نے ایک ذرے کے ہم وزن نیکی کی ہوگی وہ اس کو بچشم خود دیکھ لے گا۔ اور جس نے ایک ذرے کے ہم وزن برائی کی ہوگی وہ اس کو بچشم خود دیکھ لے گا۔تَوَدُّ لَوْ اَنَّ بَیْنَہَا وَبَیْنَہٗ اَمَدًام بَعِیْدًا ط۔اس وقت ہر انسان یہ چاہے گا کہ کاش میرے اور میرے اعمال نامے کے درمیان بڑا فاصلہ آجائے اور میری نگاہ بھی اس پر نہ پڑے۔وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ ط۔یعنی تقویٰ اختیار کرنا ہے تو اس کا کرو ‘ ڈرنا ہے تو اس سے ڈرو ‘ خوف کھانا ہے تو اس سے کھاؤ ! وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌم بالْعِبَادِ ۔یہ تنبیہات warnings وہ تمہیں بار بار اسی لیے دے رہا ہے تاکہ تمہاری عاقبت خراب نہ ہو۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 آیت 31 قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یہ آیت بہت معروف ہے اور مسلمانوں کو بہت پسند بھی ہے۔ ہمارے ہاں مواعظ و خطابات میں یہ بہت کثرت سے بیان ہوتی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو ‘ میرا اتباع کرو ! اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ :یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ
📘 آیت 32 قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ ج فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ یہ دو آیتیں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں رسول اللہ ﷺ کے لیے دو الفاظ آئے ہیں اطاعت اور اتباع۔ اطاعت اگر نہیں ہے تو یہ کفر ہے۔ چناچہ اطاعت تو لازم ہے اور وہ بھی دلی آمادگی سے ‘ مارے باندھے کی اطاعت نہیں۔ لیکن اطاعت کس چیز میں ہوتی ہے ؟ جو حکم دیا گیا ہے کہ یہ کرو وہ آپ کو کرنا ہے۔ اتباع اس سے بلند تر شے ہے۔ انسان خود تلاش کرے کہ آنحضور ﷺ کے اعمال کیا تھے اور ان پر عمل پیرا ہوجائے ‘ خواہ آپ ﷺ نے ان کا حکم نہ دیا ہو۔ گویا اتباع کا دائرہ اطاعت سے وسیع تر ہے۔ انسان کو جس کسی سے محبت ہوتی ہے وہ اس سے ہر طرح سے ایک مناسبت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ چناچہ وہ اس کے لباس جیسا لباس پہننا پسند کرتا ہے ‘ جو چیزیں اس کو کھانے میں پسند ہیں وہی چیزیں خود بھی کھانا پسند کرتا ہے۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کا حکم نہیں دیا گیا لیکن ان کا التزام پسندیدہ ہے۔ ایک صحابی رض ‘ کا واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کے کرتے کے بٹن نہیں لگے ہوئے تھے اور آپ ﷺ کا گریبان کھلا تھا۔ اس کے بعد ان صحابی رض نے پھر ساری عمر اپنے ُ کرتے کے بٹن نہیں لگائے۔ حالانکہ حضور ﷺ نے تو انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا۔ یہ صحابی رض کہیں دور دراز سے آئے ہوں گے اور ایک ہی مرتبہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہوں گے ‘ لیکن انہوں نے اس وقت محمد رسول اللہ ﷺ کو جس شان میں دیکھا اس کو پھر اپنے اوپر لازم کرلیا۔اتباع کے ضمن میں یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ اگرچہ دین کے کچھ تقاضے ایسے ہیں کہ انہیں جس درجے میں محمد رسول اللہ ﷺ نے پورا فرمایا اس درجے میں پورا کرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے ‘ پھر بھی اس کی کوشش کرتے رہنا اتباع کا تقاضا ہے۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے کوئی مکان نہیں بنایا ‘ کوئی جائیداد نہیں بنائی ‘ جیسے ہی وحی کا آغاز ہوا ‘ اس کے بعد آپ ﷺ نے کوئی دنیوی کام نہیں کیا ‘ کوئی تجارت نہیں کی۔ آپ ﷺ نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اور اپنی توانائی کی ایک ایک رمق اللہ کے دین کی دعوت اور اس کی اقامت میں لگا دی۔ سب کے لیے تو اس مقام تک پہنچنا یقینامشکل ہے ‘ لیکن بہرحال بندۂ مؤمن کا آئیڈیل یہ رہے اور وہ اسی کی طرف چلنے کی کوشش کرتا رہے ‘ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت اور زیادہ سے زیادہ وسائل فارغ کرے اور اس کام کے اندر لگائے تو اتباعکا کم سے کم تقاضا پورا ہوگا۔ البتہ جہاں تک اطاعتکا تعلق ہے اس میں کوتاہی قابل قبول نہیں۔ جہاں حکم دے دیا گیا کہ یہ حلال ہے ‘ یہ حرام ہے ‘ یہ فر ض ‘ ہے یہ واجب ہے ‘ وہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں۔ اگر اطاعت ہی سے انکار ہے تو اسے قرآن کفر قرار دے رہا ہے۔ اتباع کا معاملہ یہ ہے کہ نبی ﷺ کا اتباع کرنے والا اللہ کا محبوب بن جاتا ہے۔ یہاں ارشاد فرمایا کہ اے نبی ﷺ ! اہل ایمان سے کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرا اتباع کرو ‘ میری پیروی کرو۔ دیکھو ‘ میرے شب و روز کیا ہیں ؟ میری توانائیاں کن کاموں پر لگ رہی ہیں ؟ دنیا کے اندر میری دلچسپیاں کیا ہیں ؟ ان معاملات میں تم میری پیروی کرو۔ اس کے نتیجے میں تم اللہ تعالیٰ کے محب سے بڑھ کر محبوببن جاؤ گے اور اللہ تمہارے گناہ بخش دے گا۔ وہ یقیناً غفور اور رحیم ہے۔ باقی اطاعت تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ ‘ کی بہرصورت کرنی ہے۔ اگر یہ اس اطاعت سے بھی منہ موڑیں تو اللہ تعالیٰ کو ایسے کافر پسند نہیں ہیں۔ کیونکہ اطاعت رسول ﷺ کا انکار تو کفر ہوگیا۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کا ثلث اوّل مکمل ہوگیا۔ میں نے عرض کیا تھا کہ اس سورة مبارکہ کی پہلی 32 آیات تمہیدی اور عمومی نوعیت کی ہیں۔ ان میں دین کے بڑے گہرے اصول بیان ہوئے ہیں ‘ نہایت جامع دعائیں تلقین کی گئی ہیں اور محکمات اور متشابہات کا فرق واضح کیا گیا ہے۔
۞ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ
📘 سورة آل عمران کے نصف اوّل کا دوسرا حصہ 31 آیات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں خطاب براہ راست نصاریٰ سے ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جو تم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معبود بنا لیا ہے اور تثلیث Trinity کا عقیدہ گھڑ لیا ہے یہ سب باطل ہے۔ عیسائیوں کے ہاں دو طرح کی تثلیث رائج رہی ہے۔۔ i خدا ‘ مریم اور عیسیٰ علیہ السلام۔۔ اور ii خدا ‘ روح القدس اور عیسیٰ علیہ السلام۔ یہاں پر واضح کردیا گیا کہ یہ جو تثلیثیں تم نے ایجاد کرلی ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ تمہاری کج روی ہے۔ تم نے غلط شکل اختیار کی ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بہت برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ہاں ان کی ولادت معجزانہ طریقے پر ہوئی ہے۔ لیکن ان سے متصلاً قبل حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت بھی تو معجزانہ ہوئی تھی۔ وہ بھی کوئی کم معجزہ نہیں ہے۔ اور پھر حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت بھی تو بہت بڑا معجزہ ہے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ چناچہ اگر کسی کی معجزانہ ولادت الوہیت کی دلیل ہے تو کیا حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام بھی الٰہ ہیں ؟ تو یہ ساری بحث اسی موضوع پر ہو رہی ہے۔آیت 33 اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ۔اِصطفاء کے معنی منتخب کرنے یا چن لینے selection کے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کا بھی اصطفاء ہوا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک دلیل موجود ہے جو تخلیق آدم کے ضمن میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پہلے ایک نوع species وجود میں آئی تھی اور اللہ نے اس نوع کے ایک فرد کو چن کر اس میں اپنی روح پھونکی تو وہ آدم علیہ السلام بن گئے۔ چناچہ وہ بھی چنیدہ selected تھے۔ اِصطفاء کے ایک عام معنی بھی ہوتے ہیں ‘ یعنی پسند کرلینا۔ ان معنوں میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اور نوح علیہ السلام کو اور ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کو اور عمران کے خاندان کو تمام جہان والوں پر ترجیح دے کر پسند کرلیا۔ تاریخ بنی اسرائیل میں عمران دو عظیم شخصیتوں کے نام ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام بھی عمران تھا اور حضرت مریم کے والد یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا کا نام بھی عمران تھا۔ یہاں پر غالباً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد مراد ہیں۔ لیکن آگے چونکہ حضرت مریم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ آرہا ہے ‘ لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہاں پر حضرت مریم علیہ السلام کے والد کی طرف اشارہ ہو۔
ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 آیت 34 ذُرِّیَّۃً م بَعْضُہَا مِنْم بَعْضٍ ط حضرت نوح علیہ السلام حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد سے ہیں ‘ اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پورا خاندان بنی اسماعیل ‘ بنی اسرائیل اور آل عمران ان کی اولاد میں سے ہیں۔
إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 آیت 35 اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا عمران کی بیوی یعنی حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ بہت ہی نیک ‘ متقی اور زاہدہ تھیں۔ جب ان کو حمل ہوا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ عرض کیا کہ پروردگار ! جو بچہ میرے پیٹ میں ہے ‘ جسے تو پیدا فرما رہا ہے ‘ اسے میں تیری ہی نذر کرتی ہوں۔ ہم اس پر دنیوی ذمہ داریوں کا کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے اور اس کو خالصتاً ہیکل کی خدمت کے لیے ‘ دین کی خدمت کے لیے ‘ تورات کی خدمت کے لیے وقف کردیں گے۔ ہم اپنا بھی کوئی بوجھ اس پر نہیں ڈالیں گے۔ انہیں یہ توقع تھی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا فرمائے گا۔ مُحَرَّرًا کے معنی ہیں اسے آزاد کرتے ہوئے۔ یعنی ہماری طرف سے اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی اور اسے ہم تیرے لیے خالص کردیں گے۔فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ ج اے اللہ تو میری اس نذر کو شرف قبول عطا فرما۔
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
📘 آیت 36 فَلَمَّا وَضَعَتْہَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُہَآ اُنْثٰی ط۔یعنی میرے ہاں تو بیٹی پیدا ہوگئی ہے۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ بیٹا پیدا ہوگا تو میں اس کو وقف کر دوں گی۔ اس وقت تک ہیکل کے خادموں میں کسی لڑکی کو قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ط۔اسے کیا پتا تھا کہ اس نے کیسی بیٹی جنی ہے !وَلَیْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی ج !اس جملے کے دونوں معنی کیے گئے۔ اوّلاً : اگر یہ قول مانا جائے حضرت مر یم علیہ السلام کی والدہ کا تو ترجمہ یوں ہوگا : اور لڑکا لڑکی کی مانند تو نہیں ہوتا۔ اگر لڑکا ہوتا تو میں اسے خدمت کے لیے وقف کردیتی ‘ یہ تو لڑکی ہوگئی ہے۔ ثانیاً : اگر اس قول کو اللہ کی طرف سے مانا جائے تو مفہوم یہ ہوگا کہ کوئی بیٹا ایسا ہو ہی نہیں سکتا جیسی بیٹی تو نے جنم دی ہے۔ اور اب مریم علیہ السلام کی والدہ کا کلام شروع ہوا :وَاِنِّیْ سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَاِنِّیْ اُعِیْذُہَا بِکَ وَذُرِّیَّتَہَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ۔اے اللہ ! تو اس لڑکی مریم علیہ السلام کو بھی اور اس کی آنے والی اولاد کو بھی شیطان کے شر سے اپنی حفاظت میں رکھیو !
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
📘 آیت 37 فَتَقَبَّلَہَا رَبُّہَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ شرف قبول عطا فرمایا بڑے ہی خوبصورت انداز میں۔ وَّاَنْبَتَہَا نَبَاتًا حَسَنًالا وَّکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا ط حضرت زکریا علیہ السلام ان کے سرپرست مقرر ہوئے اور انہوں نے حضرت مریم علیہ السلام کی کفالت و تربیت کی ذمہ داری اٹھائی۔ وہ حضرت مریم علیہ السلام کے خالو تھے۔ آپ علیہ السلام وقت کے نبی تھے اور اسرائیلی اصطلاح میں ہیکل سلیمانی کے کاہن اعظم Chief Priest بھی تھے۔ کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَلا وَجَدَ عِنْدَہَا رِزْقًا ج محراب سے مراد وہ گوشہ یا حجرہُ ہے جو حضرت مریم علیہ السلام کے لیے مخصوص کردیا گیا تھا۔ حضرت زکریا علیہ السلام ان کی دیکھ بھال کے لیے اکثر ان کے حجرے میں جاتے تھے۔ آپ علیہ السلام جب بھی حجرے میں جاتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم علیہ السلام کے پاس کھانے پینے کی چیزیں اور بغیر موسم کے پھل موجود ہوتے۔ بعض لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ یہاں رزق سے مراد مادی کھانا نہیں ‘ بلکہ علم و حکمت ہے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام ان سے بات کرتے تھے تو حیران رہ جاتے تھے کہ اس لڑکی کو اس قدر حکمت اور اتنی معرفت کہاں سے حاصل ہوگئی ہے ؟قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ط یہ انواع و اقسام کے کھانے اور بےموسمی پھل تمہارے پاس کہاں سے آجاتے ہیں ؟ یا یہ علم و حکمت اور معرفت کی باتیں تمہیں کہاں سے معلوم ہوتی ہیں ؟قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ط۔یہ سب اس کا فضل اور اس کا کرم ہے۔
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ
📘 آیت 38 ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ج قَالَ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ج حضرت زکریا علیہ السلام بہت بوڑھے ہوچکے تھے ‘ ان کی اہلیہ بھی بہت بوڑھی ہوچکی تھیں اور ساری عمر بانجھ رہی تھیں اور ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ یہ مضامین سورة مریم میں زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ مکی دور میں جبکہ مسلمان ہجرت حبشہ کے لیے گئے تھے ‘ تو وہاں جا کر نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر رض بن ابی طالب نے سورة مریم کی آیات پڑھ کر سنائی تھیں۔ اس مناسبت سے یہ مضامین سورة مریم میں بھی ملتے ہیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام ساری عمر بےاولاد رہے تھے ‘ لیکن حضرت مریم علیہ السلام کے پاس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کرنے کے بعد اولاد کی جو خواہش ان کے اندر دبی ہوئی تھی وہ چنگاری دفعۃً بھڑک اٹھی۔ انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ ! تو اس بچی کو یہ سب کچھ دے سکتا ہے تو اپنی قدرت سے مجھے بھی پاکیزہ اولاد عطا فرما دے !
فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ
📘 آیت 39 فَنَادَتْہُ الْمَلآءِکَۃُ وَہُوَ قَآءِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْْمِحْرَابِلا اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی مُصَدِّقًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں ‘ جن کے لیے آیت 44 میں بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُکا لفظ آرہا ہے۔وَسَیِّدًا وَّحَصُوْرًا وَّنَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ یہاں نوٹ کر لیجیے کہ آخری لفظ جو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی مدح کے لیے آیا ہے وہ نبی ہے۔
مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ
📘 آیت 4 مِنْ قَبْلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ط فرقان کا مصداق قرآن مجید بھی ہے ‘ تورات بھی ہے اور معجزات بھی ہیں۔ سورة الانفال میں یوم الفرقان غزوۂ بدر کے دن کو کہا گیا ہے۔ ہر وہ شے جو حق کو بالکل مبرہن کر دے اور حق و باطل کے مابین امتیاز پیدا کر دے وہ فرقان ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ط۔یہاں اب تہدید اور دھمکی کا انداز ہے کہ اس قرآن کا معاملہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح نہ سمجھو کہ مان لیا تب بھی کوئی حرج نہیں ‘ نہ مانا تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر پڑھنے پر طبیعت راغب ہوئی تو بھی کوئی بات نہیں ‘ طبیعت راغب نہیں ہے تو مت پڑھو ‘ کوئی الزام نہیں۔ یہ کتاب ویسی نہیں ہے ‘ بلکہ یہ وہ کتاب ہے کہ جو اس پر ایمان نہیں لائیں گے تو ان کے لیے بہت سخت سزا ہوگی۔وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ یہ لفظ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ بیشک رؤف ہے ‘ رحیم ہے ‘ شفیق ہے ‘ غفور ہے ‘ ستار ہے ‘ لیکن ساتھ ہی عزیز ذوانتقام“ بھی ہے ‘ شدید العقاب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دونوں شانیں قلب و ذہن میں رہنی چاہئیں۔
قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ
📘 آیت 40 قَالَ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ زکریا علیہ السلام نے ابھی خود دعا کر رہے تھے ‘ لیکن اللہ کی طرف سے بیٹے کی بشارت ملنے پر غالباً اس کی توثیق اور re-assurance چاہ رہے ہیں کہ میرے ہاں کیسے بیٹا ہوجائے گا ؟وَّقَدْ بَلَغَنِیَ الْکِبَرُ وَامْرَاَتِیْ عَاقِرٌ ط قَالَ کَذٰلِکَ اللّٰہُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُ اسے اسباب کی احتیاج نہیں ہے۔ اسباب اس کے محتاج ہیں ‘ اللہ اسباب کا محتاج نہیں ہے۔
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ
📘 آیت 41 قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْ اٰیَۃً ط۔مجھے معلوم ہوجائے کہ واقعی ایسا ہونا ہے اور یہ کلام جو میں سن رہا ہوں واقعتا تیری طرف سے ہے۔ قَالَ اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ الاَّ رَمْزًا ط۔یعنی ان کی قوت گویائی سلب ہوگئی اور اب وہ تین دن کسی سے بات نہیں کرسکتے تھے۔
وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کا قصہ بیان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کو شدید ضعیفی کی عمر میں ایک بانجھ اور بوڑھی عورت سے حضرت یحییٰ علیہ السلام جیسا بیٹا دے دیا۔ تو کیا یہ عام قانون کے مطابق ہے ؟ ظاہر ہے یہ بھی تو معجزہ تھا۔ اسی طرح اس سے ذرا بڑھ کر ایک معجزہ حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش ہے کہ انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمادیا۔ اب اس کا ذکر آ رہا ہے۔
يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ
📘 آیت 43 یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَا سْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرّٰکِعِیْنَ یعنی نماز باجماعت کے اندر شریک ہوجایا کرو۔
ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ
📘 آیت 44 ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْکَ ط وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلاَمَہُمْ اَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ جب حضرت مریم علیہ السلام کو ان کی والدہ نے ہیکل کی خدمت کے لیے وقف کیا تو ہیکل کے کاہنوں میں سے ہر ایک یہ چاہتا تھا کہ یہ بچی میری تحویل میں ہو ‘ اس کی تربیت اور پرورش کی سعادت مجھے حاصل ہوجائے جسے اللہ کے نام پر وقف کردیا گیا ہے۔ چناچہ اس کے لیے وہ اپنے قلم پھینک کر کسی طرح قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اس میں اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کا نام نکال دیا۔ یہاں اثنائے کلام میں نبی اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ ﷺ تو اس وقت وہاں نہیں تھے جب وہ قرعہ اندازی سے یہ معاملہ طے کر رہے تھے۔
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
📘 آیت 45 اِذْ قَالَتِ الْمَلآءِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَۃٍ مِّنْہُ ق تمہیں اللہ تعالیٰ ایک ایسی ہستی کی ولادت کی خوشخبری دے رہا ہے جو اس کی جانب سے ایک خاص کلمہ ہوگا۔
وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ
📘 آیت 46 وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْْمَہْدِ وَکَہْلاً کہولت چالیس برس کے بعد آتی ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع سماوی 33 برس کی عمر میں ہوگیا تھا۔ گویا اس آیت کا تقاضا ابھی پورا نہیں ہوا ہے۔ اور اس سے اندازہ کر لیجیے کہ یہ بات کہنے کی ضرورت کیا تھی ؟ پوری عمر کو پہنچ کر تو سبھی بولتے ہیں ‘ یہاں اس کا اشارہ کیوں کیا گیا ؟ اس لیے تاکہ ہمیں معلوم ہوجائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر موت ابھی وارد نہیں ہوئی ‘ بلکہ وہ واپس آئیں گے ‘ دنیا میں دوبارہ اتریں گے ‘ پھر ان کی کہولت کی عمر بھی ہوگی۔ وہ شادی بھی کریں گے ‘ ان کی اولاد بھی ہوگی اور ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نظام خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کو پوری دنیا میں قائم کرے گا۔
قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
📘 آیت 47 قَالَتْ رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ ط قَالَ کَذٰلِکِ اللّٰہُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ ط وہ اپنے بنائے ہوئے قوانین فطرت کا پابند نہیں ہے۔ اگرچہ عام ولادت اسی طرح ہوتی ہے کہ اس میں باپ کا بھی حصہ ہوتا ہے اور ماں کا بھی ‘ لیکن اللہ تعالیٰ ان اسباب اور وسائل و ذرائع کا محتاج نہیں ہے ‘ وہ جیسے چاہے پیدا کرتا ہے۔
وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ
📘 آیت 48 وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ یہاں پر چار چیزوں کا ذکر آیا ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو تعلیم دی : کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل۔ ان چار چیزوں کے مابین جو تین وآئے ہیں ان میں سے دو واو عطف ہیں ‘ جبکہ درمیانی وواو تفسیر ہے۔ اس طرح آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ ان کو سکھائے گا کتاب اور حکمت یعنی تورات اور انجیل۔ اس لیے کہ تورات میں صرف احکام تھے ‘ حکمت نہیں تھی اور انجیل میں صرف حکمت ہے ‘ احکام نہیں ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کو سمجھ لینے سے یہ گتھی حل ہوتی ہے اور اسے سمجھے بغیر لوگوں کے ذہنوں میں الجھنیں رہتی ہیں۔
وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 آیت 49 وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ لا اب یہ جو دو بیک وقت آنے والی contemporary اصطلاحات ہیں ان کو نوٹ کر لیجیے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے بارے میں تمام توصیفی کلمات کے بعد آخری بات یہ فرمائی : نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ نبی ہوں گے صالحین میں سے۔ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : وَرَسُوْلاً اِلٰی بَنِیْ اِسْرَآءِیْلَلا یعنی بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر آئیں گے۔ نبی اور رسول میں یہ فرق نوٹ کر لیجیے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام صرف نبی تھے اس لیے وہ قتل بھی کردیے گئے ‘ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول تھے اور رسول قتل نہیں ہوسکتے ‘ اس لیے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ یہ بہت اہم مضمون ہے۔ مطالعۂ قرآن حکیم کے دوران اس کے اور بھی حوالے آئیں گے۔اَنِّیْ قَدْ جِءْتُکُمْ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ج ابھی تک گفتگو ہو رہی تھی کہ حضرت مریم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ساری خوشخبریاں دی گئیں۔ اب یوں سمجھئے کہ قصہ مختصر ‘ ان کی ولادت ہوئی ‘ وہ پلے بڑھے ‘ یہ ساری تاریخ بیچ میں سے حذف کر کے نقشہ کھینچا جا رہا ہے کہ اب حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی دعوت کا آغاز کردیا۔ آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانی لے کر آیا ہوں۔ اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْءَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِ اللّٰہِج یہاں آپ نوٹ کرتے جایئے کہ ہر معجزے کے بعد بِاِذْنِ اللّٰہِفرمایا۔ یعنی یہ میرا کوئی دعویٰ نہیں ہے ‘ میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ جو کچھ ہے وہ اللہ کے حکم سے ہے۔وَاُبْرِئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِج وَاُنَبِّءُکُمْ بِمَا تَاْکُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَلا فِیْ بُیُوْتِکُمْ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنی رسالت کی صداقت اور دلیل کے طور پر یہ تمام معجزات پیش فرمائے۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ
📘 آیت 4 مِنْ قَبْلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ط فرقان کا مصداق قرآن مجید بھی ہے ‘ تورات بھی ہے اور معجزات بھی ہیں۔ سورة الانفال میں یوم الفرقان غزوۂ بدر کے دن کو کہا گیا ہے۔ ہر وہ شے جو حق کو بالکل مبرہن کر دے اور حق و باطل کے مابین امتیاز پیدا کر دے وہ فرقان ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ ط۔یہاں اب تہدید اور دھمکی کا انداز ہے کہ اس قرآن کا معاملہ دنیا کی دوسری کتابوں کی طرح نہ سمجھو کہ مان لیا تب بھی کوئی حرج نہیں ‘ نہ مانا تب بھی کوئی حرج نہیں۔ اگر پڑھنے پر طبیعت راغب ہوئی تو بھی کوئی بات نہیں ‘ طبیعت راغب نہیں ہے تو مت پڑھو ‘ کوئی الزام نہیں۔ یہ کتاب ویسی نہیں ہے ‘ بلکہ یہ وہ کتاب ہے کہ جو اس پر ایمان نہیں لائیں گے تو ان کے لیے بہت سخت سزا ہوگی۔وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَامٍ یہ لفظ اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اللہ تعالیٰ بیشک رؤف ہے ‘ رحیم ہے ‘ شفیق ہے ‘ غفور ہے ‘ ستار ہے ‘ لیکن ساتھ ہی عزیز ذوانتقام“ بھی ہے ‘ شدید العقاب بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ دونوں شانیں قلب و ذہن میں رہنی چاہئیں۔
وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ وَجِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 آیت 50 وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰٹۃِ وَ لِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ ۔یہ اصل میں سبت کے حکم کے بارے میں اشارہ ہے۔ جیسے ہمارے ہاں بھی بعض مذہبی مزاج کے لوگوں میں بڑی سختی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ دین کے احکام میں غلو کرتے چلے جاتے ہیں ‘ اسی طرح سبت کے حکم میں یہودیوں نے اس حد تک غلو کرلیا تھا کہ اس روز کسی مریض کے لیے دعا کرنا کہ اللہ اسے شفا دے دے ‘ یہ بھی جائز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ یہ بھی دنیا کا کام ہے۔ چناچہ وہ اس معاملے میں ایک انتہا تک پہنچ گئے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے آکر اس کی وضاحت کی کہ اس طرح کی چیزیں سبت کے تقاضوں میں شامل نہیں ہیں۔
إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ
📘 آیت 51 اِنَّ اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ط ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ یہی الفاظ سورة مریم آیت 36 میں بھی وارد ہوئے ہیں۔
۞ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
📘 آیت 52 فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْہُمُ الْکُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ ط یہاں پھر درمیانی عرصے کا ذکر چھوڑ دیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کو دعوت دیتے ہوئے حضرت مسیح علیہ السلام کو کئی سال بیت چکے تھے۔ اس دعوت سے جب علماء یہود کی مسندوں کو خطرہ لاحق ہوگیا اور ان کی چودھراہٹیں خطرے میں پڑگئیں تو انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی شدید مخالفت کی۔ اس وقت تک یہودیوں پر ان کے علماء کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا۔ جب آپ علیہ السلام نے ان کی طرف سے کفر کی شدت کو محسوس کیا کہ اب یہ ضد اور مخالفت پر تل گئے ہیں۔ تو آپ علیہ السلام نے ایک پکار لگائی ‘ ایک ندا دی ‘ ایک دعوت عام دی کہ کون ہیں جو اللہ کی راہ میں میرے مددگار ہیں ؟ یعنی اب جو کشاکش ہونے والی ہے ‘ جو تصادم ہونے والا ہے اس میں ایک حزب اللہ بنے گی اور ایک حزب الشیطان ہوگی۔ اب کون ہے جو میرا مددگار ہو اللہ کی راہ میں اس جدوجہد اور کشاکش میں ؟ دین کا کام کرنے کے لیے یہی اصل اساس ہے۔ اسی بنیاد پر کوئی شخص اٹھے کہ میں دین کا کام کرنا چاہتا ہوں ‘ کون ہے کہ جو میرا ساتھ دے ؟ یہ جماعت سازی کا ایک بالکل طبعی طریقہ ہوتا ہے۔ ایک داعی اٹھتا ہے اور اس داعی پر اعتماد کرنے والے ‘ اس سے اتفاق کرنے والے لوگ اس کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہ لوگ ذاتی اعتبار سے اس کے ساتھی نہیں ہوتے ‘ اس کی حکومت اور سرداری قائم کرنے کے لیے نہیں ‘ بلکہ اللہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے اور اللہ تعالیٰ کے دین کے غلبہ کے لیے اس کا ساتھ دیتے ہیں۔قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَار اللّٰہِ ج !حواری کے اصل معنی دھوبی کے ہیں جو کپڑے کو دھو کر صاف کردیتا ہے۔ یہ لفظ پھر آگے بڑھ کر اپنے اخلاق اور کردار کو صاف کرنے والوں کے لیے استعمال ہونے لگا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی تبلیغ زیادہ تر گلیلی جھیل کے کناروں پر ہوتی تھی ‘ جو سمندر کی طرح بہت بڑی جھیل ہے۔ آپ علیہ السلام کبھی وہاں کپڑے دھونے والے دھوبیوں میں تبلیغ کرتے تھے اور کبھی مچھلیاں پکڑنے والے مچھیروں کو دعوت دیتے تھے۔ آپ علیہ السلام ان سے فرمایا کرتے تھے کہ اے مچھلیوں کا شکار کرنے والو ! آؤ ‘ میں تمہیں انسانوں کا شکار کرنا سکھاؤں۔ آپ علیہ السلام نے دھوبیوں میں تبلیغ کی تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو پیش کردیا کہ ہم آپ کی جدوجہد میں اللہ کے مددگار بننے کو تیار ہیں۔ یہ آپ علیہ السلام کے اوّلین ساتھی تھے جو حواری کہلاتے تھے۔ اس طرح حواری کا لفظ ساتھی کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ
📘 آیت 53 رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰہِدِیْنَ یہی لفظ گواہاب عیسائیوں کے ایک خاص فرقے کی طرف سے Jehovas Witnesses اختیار کیا گیا ہے۔ لفظ یھوہ Jehova عبرانی میں خدا کے لیے آتا ہے۔ یعنی یہ لوگ اپنے آپ کو خدا کے گواہکہتے ہیں۔ سورة البقرۃ کی آیت 143 ہم پڑھ آئے ہیں : وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰٹکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط اور اے مسلمانو ! اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول ﷺ ‘ تم پر گواہ ہو۔ تو یہ لفظ شاہد گواہ قدیم ہے اور اسلامی حکمت اور اسلام کی مصطلحات میں اس کی ایک حیثیت ہے۔
وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
📘 آیت 54 وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہُ ط یہود کے علماء اور فریسی حضرت مسیح علیہ السلام کے خلاف مختلف چالیں چل رہے تھے کہ کسی طرح یہ قانون کی گرفت میں آجائیں اور ان کا کام تمام کردیا جائے۔ ان لوگوں نے آنجناب علیہ السلام کو مرتد اور واجب القتل قرار دے دیا تھا ‘ لیکن ملک پر سیاسی اقتدار چونکہ رومیوں کا تھا لہٰذا رومی گورنر کی توثیق sanction کے بغیر کسی کو سزائے موت نہیں دی جاسکتی تھی۔ ملک کا بادشاہ اگرچہ ایک یہودی تھا لیکن اس کی حیثیت کٹھ پتلی بادشاہ کی تھی ‘ جیسے انگریزی حکومت کے تحت مصر کے شاہ فاروق ہوتے تھے۔ یہود کی مذہبی عدالتیں موجود تھیں جہاں ان کے علماء ‘ مفتی اور فریسی بیٹھ کر فیصلے کرتے تھے ‘ اور اگر وہ سزائے موت کا فیصلہ دے دیتے تھے تو اس فیصلے کی تنفیذ ‘ execution رومی گورنر کے ذریعے ہوتی تھی۔ اس صورت حال میں علماء یہود کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ حضرت مسیح علیہ السلام کو رومی قانون کی زد میں لانے کے لیے اپنی سی چالیں چل رہے تھے۔ وہ آنجناب علیہ السلام سے اس طرح کے الٹے سیدھے سوالات کرتے کہ آپ علیہ السلام کے جوابات سے یہ ثابت کیا جاسکے کہ یہ شخص رومی حکومت کا باغی ہے۔ یہود کی ان چالوں کا توڑ کرنے کے لیے اللہ نے اپنی چال چلی۔ اب اللہ کی چال کیا تھی ؟ اس کی تفصیل قرآن یا حدیث میں نہیں ہے ‘ بلکہ انجیل برنباس میں ہے جو پوپ کی لائبریری سے برآمد ہوئی تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں سے ایک حواری یہودا کو یہود نے رشوت دے کر اس بات پر راضی کرلیا تھا کہ وہ آپ علیہ السلام کی مخبری کر کے گرفتار کرائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی غدار حواری کی شکل حضرت مسیح علیہ السلام کی سی بدل دی اور وہ خود گرفتارہو کر سولی چڑھ گیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام پر وہ ہاتھ ڈال ہی نہیں سکے۔ حضرت مسیح علیہ السلام ایک باغ میں روپوش تھے اور باغ کے اندر بنی ہوئی ایک کو ٹھڑی میں رات کے وقت عبادت میں مشغول تھے ‘ جبکہ آپ علیہ السلام کے بارہ حواری باہر موجود تھے۔ اس وقت وہ شخص وہاں سے چپکے سے سٹک گیا اور جا کر سپاہیوں کو لے آیا تاکہ آپ علیہ السلام کو گرفتار کرا سکے۔ یہ رومی سپاہی تھے اور قندیلیں لے کر آئے تھے۔ اس نے سپاہیوں سے کہا تھا کہ میں اندر جاؤں گا ‘ جس شخص کو میں کہوں اے ہمارے استادبس اسی کو پکڑ لینا ‘ وہی مسیح علیہ السلام ہیں۔ اس لیے کہ رومیوں کو کیا پتا تھا کہ مسیح علیہ السلام کون ہیں ؟ یہ شخص جیسے ہی کو ٹھڑی کے اندر داخل ہوا اسی وقت کو ٹھڑی کی چھت پھٹی اور چار فرشتے نازل ہوئے ‘ جو حضرت مسیح علیہ السلام کو لے کر چلے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی شکل تبدیل کردی اور حضرت مسیح علیہ السلام والی شکل بنا دی۔ اب یہ گھبرا کر باہر نکلا تو دوسرے حواریوں نے اس سے کہا اے ہمارے استاد ! یہ سنتے ہی سپاہیوں نے اسے قابو کرلیا اور اصل میں یہی شخص سولی چڑھا ہے ‘ نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام۔ یہ ساری تفاصیل انجیل برنباس میں موجود ہیں۔ یہ شہادت درحقیقت نصاریٰ ہی کے گھر سے ہمیں ملی ہے اور قرآن کا جو بیان ہے اس میں یہ پوری طرح فٹ بیٹھتی ہے کہ انہوں نے اپنی سی چالیں چلیں اور اللہ نے اپنی چال چلی۔
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
📘 آیت 55 اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ لفظ مُتَوَفِّیْکَکو قادیانیوں نے اپنے اس غلط عقیدے کے لیے بہت بڑی بنیاد بنایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ وَفٰی کے معنی ہیں پورا کرنا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے وعدہ وفا کرو۔ اسی سے باب تفعیل میں وَفّٰی۔ یُوَفِّیْ۔ تَوْفِیَۃً کا مطلب ہے کسی کو پورا دینا۔ جیسا کہ آیت 25 میں ہم پڑھ آئے ہیں : فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِقف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ تو کیا حال ہوگا جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن جس کے بارے میں کوئی شک نہیں ! اور ہر جان کو پورا پورا بدلہ اس کے اعمال کا دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ باب تفعّل میں تَوَفّٰی۔ یَتَوَفّٰیکا معنی ہوگا کسی کو پورا پورا لے لینا۔ اور یہ لفظ گویا بتمام و کمال منطبق ہوتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام پر کہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے جسم اور جان سمیت دنیا سے لے گیا۔ ہم جب کہتے ہیں کہ کوئی شخص وفات پا گیا تو یہ استعارتاً کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جسم تو یہیں رہ گیا صرف جان گئی ہے۔ اور یہی لفظ قرآن میں نیند کے لیے بھی آیا ہے : اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ج الزمر : 42 وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ نیند میں بھی انسان سے خود شعوری نکل جاتی ہے ‘ اگرچہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ روح کا تعلق خود شعوری کے ساتھ ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہے تو روح اور جان دونوں چلی جاتی ہیں اور صرف جسم رہ جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان دونوں حالتوں نیند اور موت کے لیے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ مکمل تَوَفّی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے جسم ‘ جان اور روح تینوں سمیت ‘ جوں کا توں ‘ زندہ سلامت لے گیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کا یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہے ‘ اور جہاں تک لفظ تَوَفّی کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص آپ علیہ السلام کی موت کی دلیل پکڑ سکے ‘ سوائے اس کے کہ ان لوگوں کو بہکانا آسان ہے جنہیں عربی زبان کی گرامر سے واقفیت نہیں ہے اور وہ ایک ہی وفات جانتے ہیں ‘ جبکہ ازروئے قرآن تین قسم کی وفات ثابت ہوتی ہے ‘ جس کی میں نے وضاحت کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے متذکرہ بالا ٹکڑے کا ترجمہ پھر کر لیجیے : یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں۔وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ج یہود جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا تھا اس وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں سے مار کھاتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام 30 ء یا 33 ء میں آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے یہود پر عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل عذاب کے کوڑے برستے رہے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے چالیس برس بعد 70 ء میں ٹائٹس رومی کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا اور یروشلم میں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ایک دن میں قتل کیے گئے۔ گویا دو ہزار برس ہونے کو ہیں کہ ان کا کعبہ گرا پڑا ہے۔ اس کی صرف ایک دیوار دیوار گریہ باقی ہے جس پر جا کر یہ رو دھو لیتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی اوّلاً بخت نصر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں مسمار کیا تھا اور پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اس نے لاکھوں یہودی تہ تیغ کردیے تھے اور لاکھوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا تھا۔ یہ ان کا اسارت Captivity کا دور کہلاتا ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانے میں یہ فلسطین واپس آئے تھے اور معبد ثانیتعمیر کیا تھا ‘ جو 70 ء میں منہدم کردیا گیا اور انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔ چناچہ یہ مختلف ملکوں میں منتشر ہوگئے۔ کوئی روس ‘ کوئی ہندوستان ‘ کوئی مصر اور کوئی یورپ چلا گیا۔ اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ یہ ان کا دور انتشار Diaspora کہلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رض کے دور میں جب عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یروشلم مسلمانوں کے حوالے کردیا تو حضرت عمر رض نے اسے کھلا شہر open city قرار دے دیا کہ یہاں مسلمان ‘ عیسائی اور یہودی سب آسکتے ہیں۔ اس طرح ان کی یروشلم میں آمد و رفت شروع ہوگئی۔ البتہ عیسائیوں نے اس معاہدے میں یہ شرط لکھوائی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چناچہ حضرت عمر رض کے زمانے سے خلافت عثمانیہ کے دور تک اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا رہا اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہودیوں نے عثمانی خلفاء کو بڑی سے بڑی رشوتوں کی پیشکش کی ‘ لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ چناچہ انہوں نے سازشیں کیں اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروا دیا۔ اس لیے کہ انہیں یہ نظر آتا تھا کہ اس خلافت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم کسی طرح بھی فلسطین میں دوبارہ آباد ہو سکیں۔ انہوں نے 1917 ء میں برطانوی وزیر بالفور Balfor کے ذریعے بالفور ڈیکلریشن منظور کرایا ‘ جس میں ان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ فلسطین میں آکر جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور آباد بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن کی منظوری کے 31 برس بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں آگئی۔ یہ تاریخ ذہن میں رہنی چاہیے۔ اب ایک طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ یہودی دنیا بھر میں سیاست اور اقتدار پر چھائے ہوئے ہیں ‘ تعداد میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہونے کے باوجود اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ عیسائیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ اگر عیسائی ان کی مدد نہ کریں تو عرب ایک دن میں ان کے ٹکڑے اڑا کر رکھ دیں۔ اس وقت پوری امریکی حکومت ان کی پشت پر ہے ‘ بلکہ White Anglo Saxon Protestants یعنی امریکہ اور برطانیہ تو گویا ان کے زرخرید ہیں۔ دوسرے عیسائی ممالک بھی ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ بہرحال اب بھی صورت حال یہ ہے کہ اوپر تو عیسائی ہی ہیں اور یہ معنوی طور پر سازشی انداز میں نیچے سے انہیں کنٹرول کر رہے ہیں۔
فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
📘 آیت 55 اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ لفظ مُتَوَفِّیْکَکو قادیانیوں نے اپنے اس غلط عقیدے کے لیے بہت بڑی بنیاد بنایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ وَفٰی کے معنی ہیں پورا کرنا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے وعدہ وفا کرو۔ اسی سے باب تفعیل میں وَفّٰی۔ یُوَفِّیْ۔ تَوْفِیَۃً کا مطلب ہے کسی کو پورا دینا۔ جیسا کہ آیت 25 میں ہم پڑھ آئے ہیں : فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِقف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ تو کیا حال ہوگا جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن جس کے بارے میں کوئی شک نہیں ! اور ہر جان کو پورا پورا بدلہ اس کے اعمال کا دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ باب تفعّل میں تَوَفّٰی۔ یَتَوَفّٰیکا معنی ہوگا کسی کو پورا پورا لے لینا۔ اور یہ لفظ گویا بتمام و کمال منطبق ہوتا ہے حضرت مسیح علیہ السلام پر کہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے جسم اور جان سمیت دنیا سے لے گیا۔ ہم جب کہتے ہیں کہ کوئی شخص وفات پا گیا تو یہ استعارتاً کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جسم تو یہیں رہ گیا صرف جان گئی ہے۔ اور یہی لفظ قرآن میں نیند کے لیے بھی آیا ہے : اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ج الزمر : 42 وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ نیند میں بھی انسان سے خود شعوری نکل جاتی ہے ‘ اگرچہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ روح کا تعلق خود شعوری کے ساتھ ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہے تو روح اور جان دونوں چلی جاتی ہیں اور صرف جسم رہ جاتا ہے۔ قرآن حکیم نے ان دونوں حالتوں نیند اور موت کے لیے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ مکمل تَوَفّی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح علیہ السلام کو ان کے جسم ‘ جان اور روح تینوں سمیت ‘ جوں کا توں ‘ زندہ سلامت لے گیا۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کا یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہے ‘ اور جہاں تک لفظ تَوَفّی کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص آپ علیہ السلام کی موت کی دلیل پکڑ سکے ‘ سوائے اس کے کہ ان لوگوں کو بہکانا آسان ہے جنہیں عربی زبان کی گرامر سے واقفیت نہیں ہے اور وہ ایک ہی وفات جانتے ہیں ‘ جبکہ ازروئے قرآن تین قسم کی وفات ثابت ہوتی ہے ‘ جس کی میں نے وضاحت کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے متذکرہ بالا ٹکڑے کا ترجمہ پھر کر لیجیے : یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں۔وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ج یہود جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا تھا اس وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروکاروں سے مار کھاتے رہے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام 30 ء یا 33 ء میں آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے اور اس کے بعد سے یہود پر عیسائیوں کے ہاتھوں مسلسل عذاب کے کوڑے برستے رہے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے چالیس برس بعد 70 ء میں ٹائٹس رومی کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی مسمار ہوا اور یروشلم میں ایک لاکھ بیس ہزار یا ایک لاکھ تینتیس ہزار یہودی ایک دن میں قتل کیے گئے۔ گویا دو ہزار برس ہونے کو ہیں کہ ان کا کعبہ گرا پڑا ہے۔ اس کی صرف ایک دیوار دیوار گریہ باقی ہے جس پر جا کر یہ رو دھو لیتے ہیں۔ ہیکل سلیمانی اوّلاً بخت نصر نے چھٹی صدی قبل مسیح میں مسمار کیا تھا اور پورے یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی۔ اس نے لاکھوں یہودی تہ تیغ کردیے تھے اور لاکھوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ بابل لے گیا تھا۔ یہ ان کا اسارت Captivity کا دور کہلاتا ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام کے زمانے میں یہ فلسطین واپس آئے تھے اور معبد ثانیتعمیر کیا تھا ‘ جو 70 ء میں منہدم کردیا گیا اور انہیں فلسطین سے نکال دیا گیا۔ چناچہ یہ مختلف ملکوں میں منتشر ہوگئے۔ کوئی روس ‘ کوئی ہندوستان ‘ کوئی مصر اور کوئی یورپ چلا گیا۔ اس طرح یہ پوری دنیا میں پھیل گئے۔ یہ ان کا دور انتشار Diaspora کہلاتا ہے۔ حضرت عمر فاروق رض کے دور میں جب عیسائیوں نے ایک معاہدے کے تحت یروشلم مسلمانوں کے حوالے کردیا تو حضرت عمر رض نے اسے کھلا شہر open city قرار دے دیا کہ یہاں مسلمان ‘ عیسائی اور یہودی سب آسکتے ہیں۔ اس طرح ان کی یروشلم میں آمد و رفت شروع ہوگئی۔ البتہ عیسائیوں نے اس معاہدے میں یہ شرط لکھوائی تھی کہ یہودیوں کو یہاں آباد ہونے یا جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ چناچہ حضرت عمر رض کے زمانے سے خلافت عثمانیہ کے دور تک اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا رہا اور یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ یہودیوں نے عثمانی خلفاء کو بڑی سے بڑی رشوتوں کی پیشکش کی ‘ لیکن انہیں اس میں کامیابی نہ ہوئی۔ چناچہ انہوں نے سازشیں کیں اور خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کروا دیا۔ اس لیے کہ انہیں یہ نظر آتا تھا کہ اس خلافت کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ہم کسی طرح بھی فلسطین میں دوبارہ آباد ہو سکیں۔ انہوں نے 1917 ء میں برطانوی وزیر بالفور Balfor کے ذریعے بالفور ڈیکلریشن منظور کرایا ‘ جس میں ان کو یہ حق دیا گیا کہ وہ فلسطین میں آکر جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور آباد بھی ہوسکتے ہیں۔ اس ڈیکلریشن کی منظوری کے 31 برس بعد اسرائیل کی ریاست وجود میں آگئی۔ یہ تاریخ ذہن میں رہنی چاہیے۔ اب ایک طرح سے محسوس ہوتا ہے کہ یہودی دنیا بھر میں سیاست اور اقتدار پر چھائے ہوئے ہیں ‘ تعداد میں ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہونے کے باوجود اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب کچھ عیسائیوں کی پشت پناہی کی وجہ سے ہے۔ اگر عیسائی ان کی مدد نہ کریں تو عرب ایک دن میں ان کے ٹکڑے اڑا کر رکھ دیں۔ اس وقت پوری امریکی حکومت ان کی پشت پر ہے ‘ بلکہ White Anglo Saxon Protestants یعنی امریکہ اور برطانیہ تو گویا ان کے زرخرید ہیں۔ دوسرے عیسائی ممالک بھی ان کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ بہرحال اب بھی صورت حال یہ ہے کہ اوپر تو عیسائی ہی ہیں اور یہ معنوی طور پر سازشی انداز میں نیچے سے انہیں کنٹرول کر رہے ہیں۔
وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
📘 آیت 57 وَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْہِمْ اُجُوْرَہُمْ ط۔دیکھئے یہاں پھر وفیّ یُوَفِّی آیا ہے۔ یعنی پورا پورا دے دینا۔
ذَٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ
📘 یہاں بھی گویا پس منظر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں جو اللہ کی آیات اور ذکر حکیم نبی اکرم ﷺ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
📘 آیت 59 اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ قرآن مجید کی یہ آیت ان لوگوں کے حق میں دلیل ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کی خصوصی تخلیق special creation کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام کا چناؤ ارتقاء evolution کے نتیجے میں کسی نوع species کے وجود میں آنے کے بعد اس کے ایک فرد کی حیثیت سے نہیں ہوا بلکہ براہ راست مٹی سے تخلیق کیے گئے۔ تخلیق آدم علیہ السلام کے ضمن میں یہ دونوں نظریے ملتے ہیں اور دونوں کے بارے میں دلائل بھی موجود ہیں۔ ابھی یہ کوئی طے شدہ حقائق نہیں ہیں۔ ہم غور و فکر کرسکتے ہیں کہ قرآن مجید کے کس مقام پر کس نظریے کے لیے کوئی تائید یا توثیق ملتی ہے۔ یہاں فرمایا کہ اللہ کے نزدیک تو عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدم علیہ السلام کی۔ اسے مٹی سے بنایا اور کہا ہوجا تو وہ ہوگیا۔ تو اب اگر آدم علیہ السلام کا معاملہ خصوصی تخلیق کا ہے کہ بغیر باپ کے اور بغیر ماں کے پیدا ہوگئے تو کیا وہ الٰہبن گئے ؟ ان کا خالق تو اللہ ہے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو خدا کیسے بن گئے ؟ ان کی والدہ کو حمل ہوا ہے ‘ نو مہینے ماں کے پیٹ میں رہے ہیں ‘ پھر ان کی پیدائش ہوئی ہے۔ تو تخلیق میں ان کا معاملہ اعجاز کے اعتبار سے حضرت آدم علیہ السلام سے تو کم ہی رہا ہے۔ اور اس سے کم تر معاملہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ہے کہ انتہائی بڑھاپے کو پہنچے ہوئے حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کی اہلیہ جو ساری عمر بانجھ رہیں ‘ اللہ نے ان کو اولاد دے دی۔ تو یہ سارے معجزات ہیں ‘ اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ اس میں کسی کی الوہیت کی دلیل نہیں نکلتی۔
هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 آیت 6 ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآءُ ط۔پہلی چیز اللہ کے علم سے متعلق تھی اور یہ اللہ کی قدرت سے متعلق ہے۔ وہی ہے جو تمہاری نقشہ کشی کردیتا ہے ‘ صورت بنا دیتا ہے تمہاری ماؤں کے رحموں میں جیسے چاہتا ہے۔ کسی کے پاس کوئی اختیار choice نہیں ہے کہ وہ اپنا نقشہ خود بنائے۔
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
📘 آیت 60 اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں اصل حقیقت یہی ہے جو قرآن نے واضح کردی ہے ‘ باقی سب نصاریٰ کی افسانہ طرازی ہے۔ اور یہ جو فرمایا : فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ اس میں خطاب بظاہر رسول اللہ ﷺ سے ہے مگر روئے سخن مخاطبین سے ہے۔
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
📘 آیت 61 فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ آپ ﷺ کے پاس تو العلمآ چکا ہے ‘ آپ ﷺ جو بات کہہ رہے ہیں علیٰ وجہ البصیرۃ کہہ رہے ہیں۔ اس ساری وضاحت کے بعد بھی اگر نصاریٰ آپ ﷺ سے حجت بازی کر رہے اور بحث و مناظرہ سے کنارہ کش ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ان کو آخری چیلنج دے دیجیے کہ یہ آپ ﷺ کے ساتھ مباہلہکر لیں۔ نجران سے نصاریٰ کا جو 70 افراد پر مشتمل وفد ابوحارثہ اور ابن علقمہ جیسے بڑے بڑے پادریوں کی سرکردگی میں مدینہ آیا تھا ‘ اس سے دعوت و تبلیغ اور تذکیر و تفہیم کا معاملہ کئی دن تک چلتا رہا اور پھر آخر میں رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا کہ اگر یہ اس قدر سمجھانے پر بھی قائل نہیں ہوتے تو انہیں مباہلے کی دعوت دے دیجیے۔ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔ہم سب جمع ہو کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا کریں اور کہیں کہ اے اللہ ! جو ہم میں سے جھوٹا ہو ‘ اس پر لعنت کر دے۔ یہ مباہلہ ہے۔ اور یہ مباہلہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ احقاقِ حق ہوچکے ‘ بات پوری واضح کردی جائے۔ آپ کو یقین ہو کہ میرا مخاطب بات پوری طرح سمجھ گیا ہے ‘ صرف ضد پر اڑا ہوا ہے۔ اس وقت پھر یہ مباہلہ آخری شے ہوتی ہے تاکہ حق کا حق ہونا ظاہر ہوجائے۔ اگر تو مخالف کو اپنے موقف کی صداقت کا یقین ہے تو وہ مباہلہ کا چیلنج قبول کرلے گا ‘ اور اگر اس کے دل میں چور ہے اور وہ جانتا ہے کہ حق بات تو یہی ہے جو واضح ہوچکی ہے تو پھر وہ مباہلہ سے راہ فرار اختیار کرے گا۔ چناچہ یہی ہوا۔ مباہلہ کی دعوت سن کر وفد نجران نے مہلت مانگی کہ ہم مشورہ کر کے جواب دیں گے۔ مجلس مشاورت میں ان کے بڑوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کہا : اے گروہ نصاریٰ ! تم یقیناً دلوں میں سمجھ چکے ہو کہ محمد ﷺ نبی مرسل ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق انہوں نے صاف صاف فیصلہ کن باتیں کہی ہیں۔ تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں نبی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ بعید نہیں یہ وہی نبی ہوں۔ پس ایک نبی سے مباہلہ و ملاعنہ کرنے کا نتیجہ کسی قوم کے حق میں یہی نکل سکتا ہے کہ ان کا کوئی چھوٹا بڑا ہلاکت یا عذاب الٰہی سے نہ بچے اور پیغمبر کی لعنت کا اثر نسلوں تک پہنچ کر رہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کر کے اپنی بستیوں کی طرف روانہ ہوجائیں ‘ کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینے کی طاقت ہم میں نہیں۔ چناچہ انہوں نے مقابلہ چھوڑ کر سالانہ جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کر کے واپس چلے گئے۔
إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 آیت 61 فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ کَ مِنَ الْعِلْمِ آپ ﷺ کے پاس تو العلمآ چکا ہے ‘ آپ ﷺ جو بات کہہ رہے ہیں علیٰ وجہ البصیرۃ کہہ رہے ہیں۔ اس ساری وضاحت کے بعد بھی اگر نصاریٰ آپ ﷺ سے حجت بازی کر رہے اور بحث و مناظرہ سے کنارہ کش ہونے کو تیار نہیں ہیں تو ان کو آخری چیلنج دے دیجیے کہ یہ آپ ﷺ کے ساتھ مباہلہکر لیں۔ نجران سے نصاریٰ کا جو 70 افراد پر مشتمل وفد ابوحارثہ اور ابن علقمہ جیسے بڑے بڑے پادریوں کی سرکردگی میں مدینہ آیا تھا ‘ اس سے دعوت و تبلیغ اور تذکیر و تفہیم کا معاملہ کئی دن تک چلتا رہا اور پھر آخر میں رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا کہ اگر یہ اس قدر سمجھانے پر بھی قائل نہیں ہوتے تو انہیں مباہلے کی دعوت دے دیجیے۔ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ وَنِسَآءَ نَا وَنِسَآءَ کُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَکُمْ قف ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ ۔ہم سب جمع ہو کر اللہ سے گڑگڑا کر دعا کریں اور کہیں کہ اے اللہ ! جو ہم میں سے جھوٹا ہو ‘ اس پر لعنت کر دے۔ یہ مباہلہ ہے۔ اور یہ مباہلہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ احقاقِ حق ہوچکے ‘ بات پوری واضح کردی جائے۔ آپ کو یقین ہو کہ میرا مخاطب بات پوری طرح سمجھ گیا ہے ‘ صرف ضد پر اڑا ہوا ہے۔ اس وقت پھر یہ مباہلہ آخری شے ہوتی ہے تاکہ حق کا حق ہونا ظاہر ہوجائے۔ اگر تو مخالف کو اپنے موقف کی صداقت کا یقین ہے تو وہ مباہلہ کا چیلنج قبول کرلے گا ‘ اور اگر اس کے دل میں چور ہے اور وہ جانتا ہے کہ حق بات تو یہی ہے جو واضح ہوچکی ہے تو پھر وہ مباہلہ سے راہ فرار اختیار کرے گا۔ چناچہ یہی ہوا۔ مباہلہ کی دعوت سن کر وفد نجران نے مہلت مانگی کہ ہم مشورہ کر کے جواب دیں گے۔ مجلس مشاورت میں ان کے بڑوں نے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے کہا : اے گروہ نصاریٰ ! تم یقیناً دلوں میں سمجھ چکے ہو کہ محمد ﷺ نبی مرسل ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق انہوں نے صاف صاف فیصلہ کن باتیں کہی ہیں۔ تم کو معلوم ہے کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں نبی بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ بعید نہیں یہ وہی نبی ہوں۔ پس ایک نبی سے مباہلہ و ملاعنہ کرنے کا نتیجہ کسی قوم کے حق میں یہی نکل سکتا ہے کہ ان کا کوئی چھوٹا بڑا ہلاکت یا عذاب الٰہی سے نہ بچے اور پیغمبر کی لعنت کا اثر نسلوں تک پہنچ کر رہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہم ان سے صلح کر کے اپنی بستیوں کی طرف روانہ ہوجائیں ‘ کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینے کی طاقت ہم میں نہیں۔ چناچہ انہوں نے مقابلہ چھوڑ کر سالانہ جزیہ دینا قبول کیا اور صلح کر کے واپس چلے گئے۔
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ
📘 آیت 63 فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بالْمُفْسِدِیْنَ یہاں آکر اس سورة مبارکہ کے نصف اول کا پہلا اور دوسرا حصہ مکمل ہوگیا ‘ جو 31 , 32 , 34 آیات پر مشتمل ہے۔
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
📘 سورة آل عمران کے نصف اوّل کا تیسرا حصہ 38 آیات 64 تا 101 پر مشتمل ہے اور یہ سورة البقرۃ کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے رکوع 15 تا 18 سے بہت مشابہ ہے جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ‘ بیت اللہ کا ذکر ‘ اہل کتاب کو دعوت ایمان اور تحویل قبلہ کا حکم ہے۔ کم و بیش وہی کیفیت یہاں ملتی ہے۔ فرمایا :آیت 64 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍم بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ یہاں اہل کتاب کے صیغۂ خطاب میں یہود و نصاریٰ دونوں کو جمع کرلیا گیا ‘ جبکہ سورة البقرۃ میں یٰبَنِیْ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ کے صیغۂ خطاب میں زیادہ تر گفتگو یہود سے تھی۔ یہاں ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ تھا اور گویا صرف نصرانیوں سے خطاب تھا ‘ اب اہل کتاب دونوں کے دونوں مخاطب ہیں کہ ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے مابین یکساں مشترک اور متفق علیہ ہے۔ وہ کیا ہے ؟اَلاَّ نَعْبُدَ الاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ط یہود و نصاریٰ نے اپنے احبارو رہبان کا یہ اختیار تسلیم کرلیا تھا کہ وہ جس چیز کو چاہیں حلال قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں حرام ٹھہرا دیں۔ یہ گویا ان کو رب مان لینے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ سورة التوبۃ میں فرمایا گیا : اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ آیت 31۔ مشہور سخی حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم رض جو پہلے عیسائی تھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قرآن کہتا ہے : انہوں نے اپنے احبارو رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا۔ حالانکہ ہم نے تو انہیں رب کا درجہ نہیں دیا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : أَمَا اِنَّھُمْ لَمْ یَکُوْنُوْا یَعْبُدُوْنَھُمْ وَلٰکِنَّھُمْ اِذَا اَحَلُّوْا لَھُمْ شَیْءًا اسْتَحَلُّوْہُ وَاِذَا حَرَّمُوْا عَلَیْھِمْ شَیْءًا حَرَّمُوْہُ 1وہ ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ‘ لیکن جب وہ ان کے لیے کسی شے کو حلال قرار دیتے تو وہ اسے حلال مان لیتے اور جب وہ کسی شے کو حرام قرار دے دیتے تو وہ اسے حرام مان لیتے۔چنانچہ حلت و حرمت کا اختیار صرف اللہ کا ہے ‘ اور جو کوئی اس حق کو اختیار کرتا ہے وہ گویا رب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اب یہ ساری قانون سازی جو شریعت کے خلاف کی جا رہی ہے یہ حقیقت کے اعتبار سے ان لوگوں کی جانب سے خدائی کا دعویٰ ہے جو ان قانون ساز اداروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ‘ اور جو وہاں پہنچنے کے لیے بےتاب ہوتے ہیں اور اس کے لیے کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ اگر تو پہلے سے یہ طے ہوجائے کہ کوئی قانون سازی کتاب و سنت کے منافی نہیں ہوسکتی تو پھر آپ جایئے اور وہاں جا کر قرآن و سنت کے دائرے کے اندر اندر قانون سازی کیجیے۔ لیکن اگر یہ تحدید نہیں ہے اور محض اکثریت کی بنیاد پر قانون سازی ہو رہی ہے تو یہ شرک ہے۔ اہل کتاب سے کہا گیا کہ توحید ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک عقیدہ ہے۔ اس طرح انہیں غور و فکر کی دعوت دی گئی کہ وہ موازنہ کریں کہ اس قدر مشترک کے معیار پر اسلام پورا اترتا ہے یا یہودیت اور نصرانیت ؟فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۔ہم نے تو اللہ کی اطاعت قبول کرلی ہے اور ہم متذکرہ بالا تینوں باتوں پر قائم رہیں گے۔ آپ کو اگر یہ پسند نہیں تو آپ کی مرضی !
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
📘 آیت 65 یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْ اِبْرٰہِیْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرٰٹۃُ وَالْاِنْجِیْلُ الاَّ مِنْم بَعْدِہٖ ط یہ بات تم بھی جانتے اور مانتے ہو کہ تورات بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی اور انجیل بھی۔ یہودیت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد کی پیداوار ہے اور نصرانیت بھی۔ وہ تو مسلمان تھے ‘ اللہ کے فرماں بردار تھے ‘ یہودی یا نصرانی تو نہیں تھے !
هَا أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 آیت 66 ہٰٓاَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ ط ان چیزوں کے بارے میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ‘ کوئی علمی بنیاد نہیں۔
مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 آیت 67 مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلاَ نَصْرَانِیًّا وَّلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔نزول قرآن کے وقت عربوں میں جو تین طبقات موجود تھے ‘ یعنی مشرکین عرب ‘ یہودی اور نصرانی ‘ وہ تینوں اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منسوب کرتے تھے۔ مشرکین عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہونے کی نسبت سے کہتے تھے کہ ہمارا رشتہ ابراہیم علیہ السلام سے ہے۔ اسی طرح یہودی اور نصرانی بھی ملت ابراہیمی علیہ السلام ہونے کے دعوے دار تھے۔ لیکن قرآن نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے ‘ نہ نصرانی تھے اور نہ ہی مشرکین میں سے تھے ‘ بلکہ مسلمان تھے۔
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ
📘 آیت 68 اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ وہ اہل ایمان کا حامی و مددگار ہے ‘ پشت پناہ ہے ‘ حمایتی ہے۔
وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
📘 آیت 68 اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط وَاللّٰہُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ وہ اہل ایمان کا حامی و مددگار ہے ‘ پشت پناہ ہے ‘ حمایتی ہے۔
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
📘 آیت 7 ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ کسی کسی جگہ نَزَّلَ کے بجائے اَنْزَلَ کا لفظ بھی آجاتا ہے ‘ اور یہ آہنگ rhythm کے اعتبار سے ہوتا ہے ‘ کیونکہ قرآن مجید کا اپنا ایک ملکوتی غنا Divine Music ہے ‘ اس میں اگر آہنگ کے حوالے سے ضرورت ہو تو یہ الفاظ ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں۔مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ محکم اور پختہ آیات وہ ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح ہو اور جنہیں ادھر سے ادھر کرنے کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ اس کتاب کی جڑ ‘ بنیاد اور اساس وہی ہیں۔ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ط جن کا حقیقی اور صحیح صحیح مفہوم معین کرنا بہت مشکل بلکہ عام حالات میں ناممکن ہے۔ اس کی تفصیل تعارف قرآن کے ضمن میں عرض کی جا چکی ہے۔ آیات الاحکام جتنی بھی ہیں وہ سب محکم ہیں ‘ کہ یہ کرو یہ نہ کرو ‘ یہ حلال ہے یہ حرام ! جیسا کہ ہم نے سورة البقرۃ میں دیکھا کہ بار بار کُتِبَ عَلَیْکُمْکے الفاظ آتے رہے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ کتاب درحقیقت ہے ہی مجموعۂ احکام۔ لیکن جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی بحث ہے ان کا فہم آسان نہیں ہے۔ اللہ کی ذات وصفات کا ہم کیا تصور کرسکتے ہیں ؟ اللہ کا ہاتھ ‘ اللہ کا چہرہ ‘ اللہ کی کرسی ‘ اللہ کا عرش ‘ ان کا ہم کیا تصور کریں گے ؟ اسی طرح فرشتے عالم غیب کی شے ہیں۔ عالم برزخ کی کیا کیفیت ہے ؟ قبر میں کیا ہوتا ہے ؟ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ عالم آخرت ‘ جنت اور دوزخ کی اصل حقیقتیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ چناچہ ہماری ذہنی سطح کے قریب لا کر کچھ باتیں ہمیں بتادی گئی ہیں کہ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ۔ چناچہ ان کا ایک اجمالی تصور قائم ہوجانا چاہیے ‘ اس کے بغیر آدمی کا راستہ سیدھا نہیں رہے گا۔ لیکن ان کی تفاصیل میں نہیں جانا چاہیے۔ دوسرے درجے میں میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کچھ طبیعیاتی مظاہر Physical Phenomena بھی ایک وقت تک آیات متشابہات میں سے رہے ہیں ‘ لیکن جیسے جیسے سائنس کا علم بڑھتا چلا جا رہا ہے ‘ رفتہ رفتہ ان کی حقیقت سے پردہ اٹھتا جا رہا ہے اور اب بہت سی چیزیں محکم ہو کر ہمارے سامنے آرہی ہیں۔ تاہم اب بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت سے ہم بیخبر ہیں۔ جیسے ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ سات آسمان سے مراد کیا ہے ؟ ہمارا یقین ہے کہ ان شاء اللہ وہ وقت آئے گا کہ انسان سمجھ لے گا کہ ہاں یہی بات صحیح تھی اور یہی تعبیر صحیح تھی جو قرآن نے بیان کی تھی۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَہَ مِنْہُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَۃِ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی خاص نئی بات نکالی جائے تاکہ اپنی ذہانت اور فطانت کا ڈنکا بجایا جاسکے یا کوئی فتنہ اٹھایا جائے ‘ کوئی فساد پیدا کیا جائے۔ جن کا اپنا ذہن ٹیڑھا ہوچکا ہے وہ اس ٹیڑھے ذہن کے لیے قرآن سے کوئی دلیل چاہتے ہیں۔ چناچہ اب وہ متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے مفہوم کو اپنے من پسند مفہوم کی طرف موڑ سکیں۔ یہ اس سے فتنہ اٹھانا چاہتے ہیں۔وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِہٖ ج وہ تلاش کرتے ہیں کہ ان آیات کی اصل حقیقت ‘ اصل منشا اور اصل مراد کیا ہے۔ یعنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی کا علمی ذوق ہی ایسا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک شخص کی فطرت میں کجی ہو۔وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗ الاَّ اللّٰہُ 7 ۔وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖلا کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ج۔جن لوگوں کو رسوخ فی العلم حاصل ہوگیا ہے ‘ جن کی جڑیں علم میں گہری ہوچکی ہیں ان کا طرز عمل یہ ہوتا ہے کہ جو بات صاف سمجھ میں آگئی ہے اس پر عمل کریں گے اور جو بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی ہے اس کے لیے انتظار کریں گے ‘ لیکن یہ اجمالی یقین رکھیں گے کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاََلْبَابِ اور سب سے بڑی ہوش مندی یہ ہے کہ انسان اپنی عقل کی حدود limitations کو جان لے کہ میری عقل کہاں تک جاسکتی ہے۔ اگر انسان یہ نہیں جانتا تو پھر وہ اولوالالباب میں سے نہیں ہے۔ بلاشبہ عقل بڑی شے ہے لیکن اس کی اپنی حدود ہیں۔ ایک حد سے آگے عقل تجاوز نہیں کرسکتی : گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے !یعنی منزل تک پہنچانے والی شے عقل نہیں ‘ بلکہ قلب ہے۔ لیکن عقل بہرحال ایک روشنی دیتی ہے ‘ حقیقت کی طرف اشارے کرتی ہے۔
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ
📘 آیت 70 یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ تم قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی حقانیت کے قائل ہو ‘ ان کو پہچان چکے ہو ‘ دل میں جان چکے ہو !
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 آیت 71 یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سورۃ البقرۃ کے پانچویں رکوع میں یہ مضمون بایں الفاظ آیا تھا : وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یٰٓاََہْلَ الْکِتٰبِ کے صیغۂ خطاب کے ساتھ ان آیات میں اسی طرح کا داعیانہ انداز ہے جو سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع میں ہے۔
وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
📘 آیت 72 وَقَالَتْ طَّآءِفَۃٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ اٰمِنُوْا بالَّذِیْ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّہَارِ وَاکْفُرُوْآ اٰخِرَہٗ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ یہاں یہود کی ایک بہت بڑی سازش کا ذکرہو رہا ہے جو ان کے ایک گروہ نے محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت کو ناکام بنانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف تیار کی تھی۔ اس سازش کا پس منظر یہ تھا کہ دنیا کے سامنے یہ بات آچکی تھی کہ جو کوئی ایک مرتبہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوجاتا تھا وہ واپس نہیں آتا تھا ‘ چاہے اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جائے ‘ بھوکا پیاسا رکھا جائے ‘ حتیٰ کہ جان سے مار دیا جائے۔ اس طرح اسلام کی ایک دھاک بیٹھ گئی تھی کہ اس کے اندر کوئی ایسی کشش ‘ ایسی حقانیت اور ایسی مٹھاس ہے کہ آدمی ایک مرتبہ اسلام قبول کرلینے کے بعد بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوجاتا ہے ‘ لیکن اسلام سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہوتا۔ اسلام کی یہ جو ساکھ بن گئی تھی اس کو توڑنے کا طریقہ انہوں نے یہ سوچا کہ ایسا کرو صبح کے وقت اعلان کرو کہ ہم ایمان لے آئے۔ سارا دن محمد ﷺ کی صحبت میں رہو اور شام کو کہہ دو ہم نے دیکھ لیا ‘ یہاں کچھ نہیں ہے ‘ یہ دور کے ڈھول سہانے ہیں ‘ ہم تو اپنے کفر میں واپس جا رہے ہیں ‘ ہمیں یہاں سے کچھ نہیں ملا۔ اس سے مسلمانوں میں سے کچھ لوگ تو سمجھیں گے کہ انہوں نے سازش کی ہوگی ‘ لیکن یقیناً کچھ لوگ یہ بھی سمجھیں گے کہ بھئی بڑے متقی لوگ تھے ‘ متلاشیانِ حق تھے ‘ بڑے جذبے اور بڑی شان کے ساتھ انہوں نے کلمہ پڑھا تھا اور ایمان قبول کیا تھا ‘ پھر سارا دن رسول اللہ ﷺ کی محفل میں بیٹھے رہے ہیں ‘ آخر انہوں نے کچھ نہ کچھ تو دیکھا ہی ہوگا جو واپس پلٹ گئے۔ اس انداز سے عام لوگوں کے دلوں میں وسوسہ اندازی کرنا بہت آسان کام ہے۔ چناچہ انہوں نے منافقانہ شرارت کی یہ سازش تیار کی۔ اسلام میں قتل مرتد کی سزا کا تعلق اسی سے جڑتا ہے۔ اسلامی ریاست میں اس طرح کی سازشوں کا راستہ روکنے کے لیے یہ سزا تجویز کی گئی ہے کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد پھر کفر میں جائے گا تو قتل کردیا جائے گا ‘ کیونکہ اسلامی ریاست ایک نظریاتی ideological ریاست ہے ‘ ایمان اور اسلام ہی تو اس کی بنیادیں ہیں۔ چناچہ اس کی بنیادوں کو کمزور کرنے اور اس کی جڑوں کو کھودنے والی جو چیز بھی ہوسکتی ہے اس کا سدباب پوری قوت سے کرنا چاہیے۔ ّ َ
وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَنْ يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
📘 آیت 73 وَلاَ تُؤْمِنُوْآ اِلاَّ لِمَنْ تَبِعَ دِیْنَکُمْ ط یعنی اس سازشی گروہ کو یہ خطرہ بھی تھا کہ اگر ہم جا کر چند گھنٹے اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گزاریں گے تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم میں سے واقعی کسی کو انشراح صدر ہوجائے اور وہ دل سے ایمان لے آئے۔ لہٰذا وہ طے کر کے گئے کہ دیکھو ‘ ان پر ایمان نہیں لانا ہے ‘ صرف ایمان کا اعلان کرنا ہے۔ قرآن مجید میں یہ شعوری نفاق کی مثال ہے۔ یعنی جو وقت انہوں نے اپنے ایمان کا اعلان کرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ گزارا اس میں وہ قانوناً تو مسلمان تھے ‘ اگر اس دوران کوئی ان میں سے مرجاتا تو اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جاتی ‘ لیکن خود انہیں معلوم تھا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔ یہ شعوری نفاق ہے ‘ جبکہ ایک غیر شعوری نفاق ہے کہ اندر ایمان ختم ہوچکا ہوتا ہے مگر انسان سمجھتا ہے کہ میں تو مؤمن ہوں ‘ حالانکہ اس کا کردار اور عمل منافقانہ ہے اور اس کے اندر سے ایمان کی پونجی ختم ہوچکی ہے ‘ جیسے دیمک کسی شہتیر کو چٹ کرچکی ہوتی ہے لیکن اس کے اوپر ایک پردہ veneer بہرحال برقرار رہتا ہے۔ شعوری نفاق اور غیر شعوری نفاق کے اس فرق کو سمجھ لینا چاہیے۔ قُلْ اِنَّ الْہُدٰی ہُدَی اللّٰہِ لا آگے یہود کے سازشی ٹولے کے قول کا تسلسل ہے کہ دیکھو ایمان مت لانا !اَنْ یُّؤْتٰٓی اَحَدٌ مِّثْلَ مَآ اُوْتِیْتُمْ یعنی یہ رسالت و نبوت اور مذہبی پیشوائی تو ہماری میراث تھی ‘ ہم اگر ان پر ایمان لے آئیں گے تو وہ چیز ہم سے ان کو منتقل ہوجائے گی۔ لہٰذا ماننا تو ہرگز نہیں ہے ‘ لیکن کسی طرح سے ان کی ہوا اکھیڑنے کے لیے ہمیں یہ کام کرنا ہے۔اَوْ یُحَآجُّوْکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ ط قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ ج یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ ط اس نے دو ہزار برس تک تمہیں ایک منصب پر فائز رکھا ‘ اب تم اس منصب کے نااہل ثابت ہوچکے ہو ‘ لہٰذا تمہیں معزول کردیا گیا ہے ‘ اور اب ایک نئی امت اُمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام پر فائز کردیا گیا ہے۔
يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
📘 آیت 74 یَّخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط وَاللّٰہُ ذو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ اگلی آیت میں حکمت دعوت کے اعتبار سے بہت اہم نکتہ موجود ہے کہ برے سے برے گروہ کے اندر بھی کہیں نہ کہیں کوئی اچھے افراد لازماً ہوتے ہیں۔ داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کا تذکرہ بھی کرتا رہے کہ ان میں اچھے لوگ بھی ہیں ‘ تاکہ ایسے لوگوں کے دلوں کے اندر نرمی پیدا ہو۔ اسی طرح فرد کا معاملہ ہے کہ برے سے برے آدمی کے اندر کوئی اچھائی بھی موجود ہوتی ہے۔ آپ اگر اسے حق کی دعوت دے رہے ہیں تو اس میں جو اچھائی ہے اس کو مانیے ‘ تاکہ اسے معلوم ہو کہ اسے مجھ سے کوئی دشمنی نہیں ہے ‘ میری جو بات واقعی اچھی ہے اس کو یہ تسلیم کر رہا ہے ‘ لیکن جو بات غلط ہے اس کو ردّ کر رہا ہے۔ اس طرح اس کے دل میں کشادگی پیدا ہوگی اور وہ آپ کی بات سننے پر آمادہ ہوگا۔
۞ وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 فرمایا :آیت 75 وَمِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ج یعنی ان میں امانت دار لوگ بھی موجود ہیں۔ وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآءِمًا ط اگر تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ اور اس کو ادائیگی پر مجبور کر دو تب تو تمہاری امانت واپس کر دے گا ‘ ورنہ نہیں دے گا۔ ان میں سے اکثر کا کردار تو یہی ہے ‘ لیکن اہل کتاب میں سے جو تھوڑے بہت دیانت دار تھے ان کی اچھائی کا ذکر بھی کردیا گیا۔ بالفعل اس قسم کے کردار کے حامل لوگ عیسائیوں میں تو موجود تھے ‘ یہودیوں میں نہ ہونے کے برابر تھے ‘ لیکن اہل کتاب کے عنوان سے ان کا ذکر مشترک طور پر کردیا گیا۔ آگے خاص طور پر یہود کا تذکرہ ہے کہ ان میں یہ بددیانتی ‘ بےایمانی اور خیانت کیوں آگئی ہے۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ج یہودیوں کا یہ عقیدہ تورات میں نہیں ہے ‘ لیکن ان کی اصل مذہبی کتاب کا درجہ تورات کی بجائے تالمود کو حاصل ہے۔ یوں سمجھئے کہ تورات تو ان کے لیے اُمّ الکتاب ہے ‘ جبکہ ان کی ساری شریعت ‘ قوانین و ضوابط اور عبادات کی ساری تفاصیل تالمود میں ہیں۔ اور تالمود میں یہ بات موجود ہے کہ یہودی کے لیے یہودی سے جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ لیکن غیر یہودی سے جیسے چاہو جھوٹ بولو۔ یہودی کے لیے کسی یہودی کا مال ہڑپ کرنا حرام اور ناجائز ہے ‘ لیکن غیر یہودی کا مال جس طرح چاہو ‘ دھوکہ ‘ فریب اور بددیانتی سے ہڑپ کرو۔ ہم پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت کا شرف صرف یہودیوں کو حاصل ہے اور غیر یہودی انسان ہیں ہی نہیں ‘ یہ اصل میں انسان نما حیوان Goyems Gentiles ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانا ہمارا حق ہے ‘ جیسا کہ گھوڑے کو تانگے میں جوتنا اور بیل کو ہل کے اندر جوت لینا انسان کا حق ہے۔ یہودی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان انسان نما حیوانوں سے ہم جس طرح چاہیں لوٹ کھسوٹ کا معاملہ کریں اور جس طرح چاہیں ان پر ظلم و ستم کریں ‘ اس پر ہماری کوئی پکڑ نہیں ہوگی ‘ کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ امریکہ میں اس پر ایک مووی بھی بنائی گئی ہے :" The Other Side of Israel" یہ دستاویزی فلم وہاں کے عیسائیوں نے بنائی ہے اور اس میں ایک شخص نے ایک یہودی کتب خانے میں جا کر وہاں ان کی کتابیں نکال نکال کر ان کے حوالے سے یہودیوں کے نظریات کو واضح کیا ہے اور یہودیت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ اب اسی عنوان سے کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ اور وہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی۔
بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ
📘 فرمایا :آیت 75 وَمِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ ج یعنی ان میں امانت دار لوگ بھی موجود ہیں۔ وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْکَ اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْہِ قَآءِمًا ط اگر تم اس کے سر پر سوار ہوجاؤ اور اس کو ادائیگی پر مجبور کر دو تب تو تمہاری امانت واپس کر دے گا ‘ ورنہ نہیں دے گا۔ ان میں سے اکثر کا کردار تو یہی ہے ‘ لیکن اہل کتاب میں سے جو تھوڑے بہت دیانت دار تھے ان کی اچھائی کا ذکر بھی کردیا گیا۔ بالفعل اس قسم کے کردار کے حامل لوگ عیسائیوں میں تو موجود تھے ‘ یہودیوں میں نہ ہونے کے برابر تھے ‘ لیکن اہل کتاب کے عنوان سے ان کا ذکر مشترک طور پر کردیا گیا۔ آگے خاص طور پر یہود کا تذکرہ ہے کہ ان میں یہ بددیانتی ‘ بےایمانی اور خیانت کیوں آگئی ہے۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْسَ عَلَیْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ ج یہودیوں کا یہ عقیدہ تورات میں نہیں ہے ‘ لیکن ان کی اصل مذہبی کتاب کا درجہ تورات کی بجائے تالمود کو حاصل ہے۔ یوں سمجھئے کہ تورات تو ان کے لیے اُمّ الکتاب ہے ‘ جبکہ ان کی ساری شریعت ‘ قوانین و ضوابط اور عبادات کی ساری تفاصیل تالمود میں ہیں۔ اور تالمود میں یہ بات موجود ہے کہ یہودی کے لیے یہودی سے جھوٹ بولنا حرام ہے ‘ لیکن غیر یہودی سے جیسے چاہو جھوٹ بولو۔ یہودی کے لیے کسی یہودی کا مال ہڑپ کرنا حرام اور ناجائز ہے ‘ لیکن غیر یہودی کا مال جس طرح چاہو ‘ دھوکہ ‘ فریب اور بددیانتی سے ہڑپ کرو۔ ہم پر اس کا کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک انسانیت کا شرف صرف یہودیوں کو حاصل ہے اور غیر یہودی انسان ہیں ہی نہیں ‘ یہ اصل میں انسان نما حیوان Goyems Gentiles ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانا ہمارا حق ہے ‘ جیسا کہ گھوڑے کو تانگے میں جوتنا اور بیل کو ہل کے اندر جوت لینا انسان کا حق ہے۔ یہودی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان انسان نما حیوانوں سے ہم جس طرح چاہیں لوٹ کھسوٹ کا معاملہ کریں اور جس طرح چاہیں ان پر ظلم و ستم کریں ‘ اس پر ہماری کوئی پکڑ نہیں ہوگی ‘ کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ امریکہ میں اس پر ایک مووی بھی بنائی گئی ہے :" The Other Side of Israel" یہ دستاویزی فلم وہاں کے عیسائیوں نے بنائی ہے اور اس میں ایک شخص نے ایک یہودی کتب خانے میں جا کر وہاں ان کی کتابیں نکال نکال کر ان کے حوالے سے یہودیوں کے نظریات کو واضح کیا ہے اور یہودیت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا ہے۔ اب اسی عنوان سے کتاب بھی شائع ہوچکی ہے۔ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ اور وہ جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی۔
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 آیت 77 اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَہْدِ اللّٰہِ وَاَیْمَانِہِمْ ثَمَنًا قَلِیْلاً یعنی جب وہ دیکھتے ہیں کہ لوگ ہماری بات میں کچھ شک کر رہے ہیں تو خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہے۔وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔یہ مضمون بھی تقریباً پورا سورة البقرۃ آیت 174 میں آچکا ہے۔
وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 آیت 78 وَاِنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقًا یَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَہُمْ بالْکِتٰبِ لِتَحْسَبُوْہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَمَا ہُوَ مِنَ الْکِتٰبِ ج۔علماء یہود الفاظ کو ذرا سا ادھر سے ادھر مروڑ کر اور معنی پیدا کرلیتے تھے۔ ہم سورة البقرۃ میں پڑھ چکے ہیں کہ یہود سے کہا گیا حِطَّۃٌکہو تو حِنْطَۃٌکہنے لگے۔ یعنی بجائے اس کے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے انہوں نے کہنا شروع کردیا ہمیں گیہوں دے۔ انہیں تلقین کی گئی کہ تم کہو : سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا مگر انہوں نے کہا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ اسی طرح کا معاملہ وہ تورات کو پڑھتے ہوئے بھی کرتے تھے۔ جب وہ دیکھتے کہ جو سائل فتویٰ مانگنے آیا ہے اس کی پسند کچھ اور ہے جبکہ تورات کا حکم کچھ اور ہے تو وہ الفاظ کو توڑ مروڑ کر پڑھ دیتے کہ دیکھو یہ کتاب کے اندر موجود ہے ‘ اور اس طرح سائل کو خوش کر کے اس سے کچھ رقم حاصل کرلیتے۔ وَیَقُوْلُوْنَ ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَمَا ہُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج ہم یہ مضمون سورة البقرۃ آیت 79 میں بھی پڑھ چکے ہیں۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ
📘 آیت 79 مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ للنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ یہ اب نصرانیوں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ہم نے تمہاری طرف رسول بھیجے ‘ پھر عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کو بھیجا ‘ انہیں کتاب دی ‘ حکمت دی ‘ نبوت دی ‘ معجزات دیے۔ اور اس کا تو کوئی امکان نہیں کہ وہ علیہ السلام کہتے کہ مجھے اللہ کے سوا اپنا معبود بنا لو !وَلٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَبِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ ۔کتابِ الٰہی کی تعلیم و تعلّم کا یہی تقاضا ہے۔ دین کا سیکھنا ‘ سکھانا ‘ قرآن کا پڑھنا پڑھانا اور حدیث و فقہ کا درس و تدریس اس لیے ہونا چاہیے کہ لوگوں کو اللہ والے بنایا جائے ‘ نہ یہ کہ اپنے بندے بنا کر اور ان سے نذرانے وصول کر کے ان کا استحاصل کیا جائے۔
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
📘 آیت 8 رَبَّنَا لاَ تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ہَدَیْتَنَا وَہَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً ج اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ ہمیں جو بھی ملے گا تیری ہی بارگاہ سے ملے گا۔ تو ہی فیاض حقیقی ہے۔
وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
📘 آیت 80 وَلاَ یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلآءِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا ط۔مشرکین مکہ نے فرشتوں کو رب بنایا اور ان کے نام پر لات ‘ منات اور عزیٰ جیسی مورتیاں بنا لیں ‘ جبکہ نصاریٰ نے اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنا رب بنا لیا۔ اَیَاْمُرُکُمْ بالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اللہ کا وہ بندہ جسے اللہ نے کتاب ‘ حکمت اور نبوت عطا کی ہو ‘ کیا تمہیں کفر کا حکم دے سکتا ہے جبکہ تم فرمانبرداری اختیار کرچکے ہو ؟
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ
📘 آیت 81 وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط اس لیے کہ انبیاء و رسل کا ایک طویل سلسلہ چل رہا تھا ‘ اور ہر نبی نے آئندہ آنے والے نبی ﷺ ‘ کی پیشین گوئی کی ہے اور اپنی امت کو اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ اور یہ بھی ختم نبوت کے بارے میں بہت بڑی دلیل ہے کہ ایسی کسی شے کا ذکر قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے ایسا کوئی عہد لیا گیا ہو یا آپ ﷺ نے اپنی امت کو کسی بعد میں آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ‘ بلکہ اس کے برعکس قرآن میں صراحت کے ساتھ آنحضور ﷺ کو خاتم النبییّن فرمایا گیا ہے اور متعدد احادیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارت دے کر گئے ہیں اور دیگر انبیاء کی کتابوں میں بھی بشارتیں موجود ہیں۔ انجیل برنباس کا تو کوئی صفحہ خالی نہیں ہے جس میں آنحضور ﷺ کی بشارت نہ ہو ‘ لیکن باقی انجیلوں میں سے یہ بشارتیں نکال دی گئی ہیں۔قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْآ اَقْرَرْنَا ط انبیاء و رسل سے یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا۔ جس طرح تمام ارواح انسانیہ سے عہد الستلیا گیا تھا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی اسی طرح جنہیں نبوت سے سرفراز ہونا تھا ان کی ارواح سے اللہ تعالیٰ نے یہ اضافی عہد لیا کہ میں تمہیں نبی بنا کر بھیجوں گا ‘ تم اپنی امت کو یہ ہدایت کر کے جانا کہ تمہارے بعد جو نبی بھی آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد اور نصرت کرنا۔
فَمَنْ تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
📘 آیت 81 وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط اس لیے کہ انبیاء و رسل کا ایک طویل سلسلہ چل رہا تھا ‘ اور ہر نبی نے آئندہ آنے والے نبی ﷺ ‘ کی پیشین گوئی کی ہے اور اپنی امت کو اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ اور یہ بھی ختم نبوت کے بارے میں بہت بڑی دلیل ہے کہ ایسی کسی شے کا ذکر قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے ایسا کوئی عہد لیا گیا ہو یا آپ ﷺ نے اپنی امت کو کسی بعد میں آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ‘ بلکہ اس کے برعکس قرآن میں صراحت کے ساتھ آنحضور ﷺ کو خاتم النبییّن فرمایا گیا ہے اور متعدد احادیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارت دے کر گئے ہیں اور دیگر انبیاء کی کتابوں میں بھی بشارتیں موجود ہیں۔ انجیل برنباس کا تو کوئی صفحہ خالی نہیں ہے جس میں آنحضور ﷺ کی بشارت نہ ہو ‘ لیکن باقی انجیلوں میں سے یہ بشارتیں نکال دی گئی ہیں۔قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْآ اَقْرَرْنَا ط انبیاء و رسل سے یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا۔ جس طرح تمام ارواح انسانیہ سے عہد الستلیا گیا تھا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی اسی طرح جنہیں نبوت سے سرفراز ہونا تھا ان کی ارواح سے اللہ تعالیٰ نے یہ اضافی عہد لیا کہ میں تمہیں نبی بنا کر بھیجوں گا ‘ تم اپنی امت کو یہ ہدایت کر کے جانا کہ تمہارے بعد جو نبی بھی آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد اور نصرت کرنا۔
أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ
📘 آیت 81 وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاق النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ ط اس لیے کہ انبیاء و رسل کا ایک طویل سلسلہ چل رہا تھا ‘ اور ہر نبی نے آئندہ آنے والے نبی ﷺ ‘ کی پیشین گوئی کی ہے اور اپنی امت کو اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ اور یہ بھی ختم نبوت کے بارے میں بہت بڑی دلیل ہے کہ ایسی کسی شے کا ذکر قرآن یا حدیث میں نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے ایسا کوئی عہد لیا گیا ہو یا آپ ﷺ نے اپنی امت کو کسی بعد میں آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ‘ بلکہ اس کے برعکس قرآن میں صراحت کے ساتھ آنحضور ﷺ کو خاتم النبییّن فرمایا گیا ہے اور متعدد احادیث میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح علیہ السلام محمد رسول اللہ ﷺ کی بشارت دے کر گئے ہیں اور دیگر انبیاء کی کتابوں میں بھی بشارتیں موجود ہیں۔ انجیل برنباس کا تو کوئی صفحہ خالی نہیں ہے جس میں آنحضور ﷺ کی بشارت نہ ہو ‘ لیکن باقی انجیلوں میں سے یہ بشارتیں نکال دی گئی ہیں۔قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ ط قَالُوْآ اَقْرَرْنَا ط انبیاء و رسل سے یہ عہد عالم ارواح میں لیا گیا۔ جس طرح تمام ارواح انسانیہ سے عہد الستلیا گیا تھا اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی اسی طرح جنہیں نبوت سے سرفراز ہونا تھا ان کی ارواح سے اللہ تعالیٰ نے یہ اضافی عہد لیا کہ میں تمہیں نبی بنا کر بھیجوں گا ‘ تم اپنی امت کو یہ ہدایت کر کے جانا کہ تمہارے بعد جو نبی بھی آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد اور نصرت کرنا۔
قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
📘 آیت 84 قُلْ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا یاد رہے کہ سورة البقرۃ کی آیت 136 میں تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ یہی مضمون بیان ہوا ہے۔
وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
📘 آیت 84 قُلْ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا یاد رہے کہ سورة البقرۃ کی آیت 136 میں تھوڑے سے لفظی فرق کے ساتھ یہی مضمون بیان ہوا ہے۔
كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
📘 آیت 86 کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ یعنی ان کے دل ایمان لے آئے تھے ‘ ان پر حقیقت منکشف ہوگئی تھی ‘ لیکن دنیوی مصلحتیں آڑے آگئیں اور زبان سے انکار کردیا۔ جیسے سورة النمل میں ہم پڑھیں گے : وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط آیت 14 انہوں نے ظلم اور تکبر کے مارے ان معجزات کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔وَشَہِدُوْآ اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ اہل کتاب جب آپس میں باتیں کرتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ واقعتا نبی آخر الزمان ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کردہ پیشینگوئیوں کا مصداق ہیں۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ علقمہ کے دو بیٹے ابوحارثہ اور کرز جب نجران سے مدینہ منورہ چلے آ رہے تھے تو راستے میں کرز کے گھوڑے کو کہیں ٹھوکر لگی تو اس نے کہا : تَعِسَ الْاَبْعَدُ ہلاک ہوجائے وہ دور والا یعنی جس کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ اس کا اشارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف تھا۔ اس پر اس کے بڑے بھائی ابوحارثہ نے کہا بَلْ تَعِسَتْ اُمُّکَ بلکہ تیری ماں ہلاک ہوجائے ! اس نے کہا میرے بھائی ! تمہیں میری بات اس قدر بری کیوں لگی ؟ ابوحارثہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یقیناً وہ وہی نبی امی ہیں جس کے ہم منتظر تھے۔ کرز نے کہا : جب آپ یہ سب جانتے ہیں تو ان پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ ابوحارثہ کہنے لگا : ان بادشاہوں نے ہمیں بڑا مقام و مرتبہ عطا کر رکھا ہے ‘ اگر ہم ایمان لے آئے تو وہ ہم سے یہ سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ لوگ سلطنت روما کے تحت تھے اور انہیں مصر کی حکومت کی طرف سے بڑی مراعات حاصل تھیں ‘ انہیں مال و دولت اور عزت و وجاہت حاصل تھی۔ ابھی یہ لوگ محمد عربی ﷺ سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو یہ حال تھا ‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کئی روز گزارنے کے بعد مباہلہ سے راہ فرار اختیار کر کے واپس جاتے ہوئے انہیں کس قدر یقین حاصل ہوگیا ہوگا کہ یہی وہ نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کے وہ منتظر تھے۔ ان کے دل گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول برحق ﷺ ہیں۔
أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
📘 آیت 86 کَیْفَ یَہْدِی اللّٰہُ قَوْمًا کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ یعنی ان کے دل ایمان لے آئے تھے ‘ ان پر حقیقت منکشف ہوگئی تھی ‘ لیکن دنیوی مصلحتیں آڑے آگئیں اور زبان سے انکار کردیا۔ جیسے سورة النمل میں ہم پڑھیں گے : وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ط آیت 14 انہوں نے ظلم اور تکبر کے مارے ان معجزات کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان کے قائل ہوچکے تھے۔وَشَہِدُوْآ اَنَّ الرَّسُوْلَ حَقٌّ اہل کتاب جب آپس میں باتیں کرتے تھے تو کہتے تھے کہ یہ واقعتا نبی آخر الزمان ہیں جو ہماری کتابوں میں بیان کردہ پیشینگوئیوں کا مصداق ہیں۔ چناچہ روایات میں آتا ہے کہ علقمہ کے دو بیٹے ابوحارثہ اور کرز جب نجران سے مدینہ منورہ چلے آ رہے تھے تو راستے میں کرز کے گھوڑے کو کہیں ٹھوکر لگی تو اس نے کہا : تَعِسَ الْاَبْعَدُ ہلاک ہوجائے وہ دور والا یعنی جس کی طرف ہم جا رہے ہیں۔ اس کا اشارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف تھا۔ اس پر اس کے بڑے بھائی ابوحارثہ نے کہا بَلْ تَعِسَتْ اُمُّکَ بلکہ تیری ماں ہلاک ہوجائے ! اس نے کہا میرے بھائی ! تمہیں میری بات اس قدر بری کیوں لگی ؟ ابوحارثہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یقیناً وہ وہی نبی امی ہیں جس کے ہم منتظر تھے۔ کرز نے کہا : جب آپ یہ سب جانتے ہیں تو ان پر ایمان کیوں نہیں لے آتے ؟ ابوحارثہ کہنے لگا : ان بادشاہوں نے ہمیں بڑا مقام و مرتبہ عطا کر رکھا ہے ‘ اگر ہم ایمان لے آئے تو وہ ہم سے یہ سب کچھ چھین لیں گے۔ یہ لوگ سلطنت روما کے تحت تھے اور انہیں مصر کی حکومت کی طرف سے بڑی مراعات حاصل تھیں ‘ انہیں مال و دولت اور عزت و وجاہت حاصل تھی۔ ابھی یہ لوگ محمد عربی ﷺ سے ملاقات کے لیے جا رہے تھے تو یہ حال تھا ‘ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں کئی روز گزارنے کے بعد مباہلہ سے راہ فرار اختیار کر کے واپس جاتے ہوئے انہیں کس قدر یقین حاصل ہوگیا ہوگا کہ یہی وہ نبی آخر الزمان ﷺ ہیں جن کے وہ منتظر تھے۔ ان کے دل گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول برحق ﷺ ہیں۔
خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ
📘 آیت 88 خٰلِدِیْنَ فِیْہَا ج لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنْظَرُوْنَ یہ الفاظ بھی سورة البقرۃ آیات 161۔ 162 میں آ چکے ہیں۔
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 آیت 89 اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْاقف۔ یعنی سچے دل سے ایمان لا کر عمل صالح کی روش پر گامزن ہو جائیں فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ توبہ کا دروازہ ابھی بند نہیں ہے۔
رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
📘 آیت 9 رَبَّنَآ اِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِ ط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ لہٰذا جو اس نے بتایا ہے وہ ہو کر رہے گا اور قیامت کا دن آکر رہے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ
📘 آیت 90 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِیْمَانِہِمْ ثُمَّ ازْدَادُوْا کُفْرًا یعنی حق کو پہچان لینے کے بعد ‘ چاہے زبان سے مانا ہو یا نہ مانا ہو ‘ پھر اگر وہ کفر کرتے ہیں یا زبان سے ماننے کے بعد مرتد ہوجاتے ہیں ‘ اور پھر وہ اپنے کفر میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
📘 آیت 91 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَمَاتُوْا وَہُمْ کُفَّارٌ فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْ اَحَدِہِمْ مِّلْءُ الْاَرْضِ ذَہَبًا وَّلَوِ افْتَدٰی بِہٖ ط ظاہر ہے کہ یہ محال ہے ‘ ناممکن ہے ‘ لیکن یہ بات سمجھانے کے لیے کہ وہاں پر کوئی فدیہ نہیں ہے فرمایا کہ اگر کوئی زمین کے حجم کے برابر سونا دے کر بھی چھوٹنا چاہے گا تو نہیں چھوٹ سکے گا۔ یہ وہی بات ہے جو سورة البقرۃ کی آیت 48 اور آیت 123 میں فرمائی گئی کہ اس دن کسی سے کوئی فدیہ نہیں لیا جائے گا۔
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
📘 آیت 92 لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط۔آیۃ البر البقرۃ : 177 کے ضمن میں اس آیت کا حوالہ بھی آیا تھا کہ نیکی کے مظاہر میں سے سب سے بڑی اور سب سے مقدم شے انسانی ہمدردی ہے ‘ اور انسانی ہمدردی میں اپنا وہ مال خرچ کرنا مطلوب ہے جو خود اپنے آپ کو محبوب ہو۔ ایسا مال جو ردّی ہو ‘ دل سے اتر گیا ہو ‘ بوسیدہ ہوگیا ہو وہ کسی کو دے کر سمجھا جائے کہ ہم نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی ہے تو یہ بجائے خود حماقت ہے۔
۞ كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 آیت 93 کُلُّ الطَّعَامِ کَان حلاًّ لِّبَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ اِلاَّ مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِ یْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰٹۃُ ط یہودی شریعت محمدی ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ اس میں بعض ایسی چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں جو شریعت موسوی علیہ السلام میں حرام تھیں۔ مثلاً ان کے ہاں اونٹ کا گوشت حرام تھا ‘ لیکن شریعت محمدی ﷺ میں یہ حرام نہیں ہے۔ اگر یہ بھی آسمانی شریعت ہے تو یہ تغیر کیسے ہوگیا ؟ یہاں اس کی حقیقت بتائی جا رہی ہے کہ تورات کے نزول سے قبل حضرت یعقوب علیہ السلام نے طبعی کراہت یا کسی مرض کے باعث بعض چیزیں اپنے لیے ممنوع قرار دے لی تھیں جن میں اونٹ کا گوشت بھی شامل تھا۔ جیسے نبی اکرم ﷺ نے اپنی دو ازواج کی دلجوئی کی خاطر شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی ‘ جس پر یہ آیت نازل ہوئی : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط التحریم : 1 حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نے بعد میں ان چیزوں کو حرام سمجھ لیا ‘ اور یہ چیز ان کے ہاں رواج کے طور پر چلی آرہی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت تورات میں نازل نہیں ہوئی۔ کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جو اسلام نے حلال کی ہیں وہ بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ‘ سوائے ان چیزوں کے کہ جنہیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی ذاتی ناپسند کے باعث اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا ‘ اور یہ بات تورات کے نزول سے بہت پہلے کی ہے۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام میں اور نزول تورات میں چار پانچ سو سال کا فصل ہے۔ قُلْ فَاْتُوْا بالتَّوْرٰٹۃِ فَاتْلُوْہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ تورات کے اندر تو کہیں بھی اونٹ کے گوشت کی حرمت مذکور نہیں ہے۔
فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
📘 آیت 93 کُلُّ الطَّعَامِ کَان حلاًّ لِّبَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ اِلاَّ مَا حَرَّمَ اِسْرَآءِ یْلُ عَلٰی نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰٹۃُ ط یہودی شریعت محمدی ﷺ پر اعتراض کرتے تھے کہ اس میں بعض ایسی چیزیں حلال قرار دی گئی ہیں جو شریعت موسوی علیہ السلام میں حرام تھیں۔ مثلاً ان کے ہاں اونٹ کا گوشت حرام تھا ‘ لیکن شریعت محمدی ﷺ میں یہ حرام نہیں ہے۔ اگر یہ بھی آسمانی شریعت ہے تو یہ تغیر کیسے ہوگیا ؟ یہاں اس کی حقیقت بتائی جا رہی ہے کہ تورات کے نزول سے قبل حضرت یعقوب علیہ السلام نے طبعی کراہت یا کسی مرض کے باعث بعض چیزیں اپنے لیے ممنوع قرار دے لی تھیں جن میں اونٹ کا گوشت بھی شامل تھا۔ جیسے نبی اکرم ﷺ نے اپنی دو ازواج کی دلجوئی کی خاطر شہد نہ کھانے کی قسم کھالی تھی ‘ جس پر یہ آیت نازل ہوئی : یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَج تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ ط التحریم : 1 حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نے بعد میں ان چیزوں کو حرام سمجھ لیا ‘ اور یہ چیز ان کے ہاں رواج کے طور پر چلی آرہی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت تورات میں نازل نہیں ہوئی۔ کھانے پینے کی وہ تمام چیزیں جو اسلام نے حلال کی ہیں وہ بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ‘ سوائے ان چیزوں کے کہ جنہیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی ذاتی ناپسند کے باعث اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا تھا ‘ اور یہ بات تورات کے نزول سے بہت پہلے کی ہے۔ اس لیے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام میں اور نزول تورات میں چار پانچ سو سال کا فصل ہے۔ قُلْ فَاْتُوْا بالتَّوْرٰٹۃِ فَاتْلُوْہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ تورات کے اندر تو کہیں بھی اونٹ کے گوشت کی حرمت مذکور نہیں ہے۔
قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 آیت 95 قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ قف فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ط حَنِیْفًاابراہیم کا حال ہے۔ اگر اسے اِتَّبِعُوْا“ کا حال بمعنی حَنِیْفِیِّیْنَ مانا جائے تو دوسرا ترجمہ ہوگا۔ یعنی یکسو ہو کر ‘ بعد کی تمام تقسیمات سے بلند تر ہو کر ‘ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی پیروی کرو !
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ
📘 آیت 96 اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ بَکَّۃ اور مَکَّۃدرحقیقت ایک ہی لفظ کے لیے دو تلفظ pronunciations ہیں۔
فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
📘 آیت 97 فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ ج ۔سورۃ البقرۃ کے نصفِ اوّل کے آخری چار رکوعوں 15 ‘ 16 ‘ 17 ‘ 18 میں پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خانہ کعبہ کا ذکر ہے ‘ پھر باقی ساری گفتگو ہے۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خانہ کعبہ کا تذکرہ آخر میں آیا ہے۔ گویا مضامین وہی ہیں ‘ ترتیب بدل گئی ہے۔وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط آ جاتا ہے۔جاہلیت کے بدترین دور میں بھی بیت اللہ امن کا گہوارہ تھا۔ پورے عرب کے اندر خونریزی ہوتی تھی ‘ لیکن حرم کعبہ میں اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تھا تو اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ حرم کی یہ روایات ہمیشہ سے رہی ہیں اور آج تک یہ اللہ کے فضل و کرم سے دارالامن ہے کہ وہاں پر امن ہی امن ہے۔ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اس کے گھر کا ‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ نوٹ کیجیے کہ یہاں لفظ کَفَرَآیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کوئی استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا وہ گویا کفر کرتا ہے۔اگلی آیت میں اہل کتاب کو بڑے تیکھے اور جھنجوڑنے کے سے انداز میں مخاطب کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی پر نگاہیں گاڑ کر اس سے بات کی جائے۔
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ
📘 آیت 97 فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰہِیْمَ ج ۔سورۃ البقرۃ کے نصفِ اوّل کے آخری چار رکوعوں 15 ‘ 16 ‘ 17 ‘ 18 میں پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خانہ کعبہ کا ذکر ہے ‘ پھر باقی ساری گفتگو ہے۔ یہاں سورة آل عمران کے نصفِ اوّل کے تیسرے حصے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خانہ کعبہ کا تذکرہ آخر میں آیا ہے۔ گویا مضامین وہی ہیں ‘ ترتیب بدل گئی ہے۔وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا ط آ جاتا ہے۔جاہلیت کے بدترین دور میں بھی بیت اللہ امن کا گہوارہ تھا۔ پورے عرب کے اندر خونریزی ہوتی تھی ‘ لیکن حرم کعبہ میں اگر کوئی اپنے باپ کے قاتل کو بھی دیکھ لیتا تھا تو اسے کچھ نہیں کہتا تھا۔ حرم کی یہ روایات ہمیشہ سے رہی ہیں اور آج تک یہ اللہ کے فضل و کرم سے دارالامن ہے کہ وہاں پر امن ہی امن ہے۔ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً ط اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اس کے گھر کا ‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی۔ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ نوٹ کیجیے کہ یہاں لفظ کَفَرَآیا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کوئی استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا وہ گویا کفر کرتا ہے۔اگلی آیت میں اہل کتاب کو بڑے تیکھے اور جھنجوڑنے کے سے انداز میں مخاطب کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی پر نگاہیں گاڑ کر اس سے بات کی جائے۔
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
📘 آیت 99 قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ تَبْغُوْنَہَا عِوَجًا تم چاہتے ہو کہ جو اہل ایمان ہیں وہ بھی ٹیڑھے راستے پر چلیں۔ چناچہ تم سازشیں کرتے ہو کہ صبح کو ایمان لاؤ اور شام کو کافر ہوجاؤ تاکہ اہل ایمان کے دلوں میں بھی وسوسے اور دغدغے پیدا ہوجائیں۔وَّاَنْتُمْ شُہَدَآءُ ط حالانکہ تم خود گواہ ہو !تم راہ راست کو پہچانتے ہو اور جو کچھ کر رہے ہو جانتے بوجھتے کر رہے ہو۔وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ۔لیکن ان تمام سازشوں کے جواب میں اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے :