slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الحجر

(Al-Hijr) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ

📘 دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ صرف امتحان کی مدّت تک کے لیے ہے۔ یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے۔ اگر آدمی واقعی طورپر اس کو سوچے تو وہ ایسا محسوس کرے گا کہ جو مدت کل ختم ہونے والی ہے وہ گویا آج ختم ہوچکی ہے۔ یہ خیال اس کو ہلا کر رکھ دے گا۔ مگر آدمی صرف ’’آج‘‘ میں جیتا ہے، وہ ’’کل‘‘ پر دھیان نہیں دیتا۔ اس کے سامنے حقیقت کھولی جاتی ہے مگر وہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ خود ساختہ طورپر کچھ فرضی سہارے تلاش کرلیتاہے اور سمجھتا ہے کہ یہ سہارے فیصلہ کے وقت اس کے کام آئیں گے۔ مگر غفلت اور خوش گمانی کا طلسم اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب مدت ختم ہوتی ہے اور خدا کے فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں تاکہ اس کو امتحان کی دنیا سے نکال کر انجام کی دنیا میں پہنچا دیں۔ اس وقت اس کو وہ مواقع یادآنے لگتے ہیں جب کہ اس نے ایک سچی دلیل کو جھوٹے الفاظ کے ذریعہ رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس نے ضمیر کی آواز کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی تھی۔ جب اس نے خدا کے داعی میں خدا کی جھلکیاں پانے کے باوجود ذاتی پندار کی خاطر اس کو نظرانداز کردیا تھا۔ جب وہ دیکھے گا کہ میری کوئی تدبیر میرے کام نہیں آئی تو وہ کہے گا کہ کاش میں نے وہ نہ کیا ہوتا جومیں نے کیا۔ کاش میں ’’منکر‘‘ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ’’مسلم‘‘ کا طریقہ اختیار کرتا۔

وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي شِيَعِ الْأَوَّلِينَ

📘 ہر دور میں خداکے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بطور خود جو فرضی معیار کسی کو نمائندۂ خدا قرار دینے کے لیے بنا رکھے تھے، اس پر ان کے پیغمبر پورے نہیں اترتے تھے، اس معیار کے اعتبار سے پیغمبر انھیں کم تر نظر آتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا۔ کسی نئی حقیقت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور خالص واقعات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو لوگ سچائی کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ سچائی ان کو اپنے مانوس معیار کے اعتبار سے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ یہ مانوس معیار لمبے عرصے کے بعد ان کے دل میں ایسا رچ بس جاتا ہے کہ اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔ وہ آخر وقت تک بھی اپنے مانوس دائرے سے باہر کی سچائی کو پہچان نہیں پاتے۔ قوموں کے اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ معجزے کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ جس شخصیت کے بارے میں ان کے مادی حالات کی بنا پر ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ یہ ایک معمولی آدمی ہے وہ پھر بھی ان کی نظر میں معمولی ہی رہا۔ بعد کو اگر اس نے کوئی خارقِ عادت چیز دکھائی تو چونكه دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بظاہر اب بھی ان کے لیے غیر اہم تھي۔ انھوںنے سمجھ لیا کہ یہ کوئی جادو یا نظر بندی ہے، نہ کہ حقیقۃً ان کے نمائندۂ خدا ہونے کا ثبوت۔

وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ

📘 ہر دور میں خداکے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بطور خود جو فرضی معیار کسی کو نمائندۂ خدا قرار دینے کے لیے بنا رکھے تھے، اس پر ان کے پیغمبر پورے نہیں اترتے تھے، اس معیار کے اعتبار سے پیغمبر انھیں کم تر نظر آتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا۔ کسی نئی حقیقت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور خالص واقعات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو لوگ سچائی کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ سچائی ان کو اپنے مانوس معیار کے اعتبار سے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ یہ مانوس معیار لمبے عرصے کے بعد ان کے دل میں ایسا رچ بس جاتا ہے کہ اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔ وہ آخر وقت تک بھی اپنے مانوس دائرے سے باہر کی سچائی کو پہچان نہیں پاتے۔ قوموں کے اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ معجزے کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ جس شخصیت کے بارے میں ان کے مادی حالات کی بنا پر ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ یہ ایک معمولی آدمی ہے وہ پھر بھی ان کی نظر میں معمولی ہی رہا۔ بعد کو اگر اس نے کوئی خارقِ عادت چیز دکھائی تو چونكه دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بظاہر اب بھی ان کے لیے غیر اہم تھي۔ انھوںنے سمجھ لیا کہ یہ کوئی جادو یا نظر بندی ہے، نہ کہ حقیقۃً ان کے نمائندۂ خدا ہونے کا ثبوت۔

كَذَٰلِكَ نَسْلُكُهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ

📘 ہر دور میں خداکے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بطور خود جو فرضی معیار کسی کو نمائندۂ خدا قرار دینے کے لیے بنا رکھے تھے، اس پر ان کے پیغمبر پورے نہیں اترتے تھے، اس معیار کے اعتبار سے پیغمبر انھیں کم تر نظر آتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا۔ کسی نئی حقیقت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور خالص واقعات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو لوگ سچائی کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ سچائی ان کو اپنے مانوس معیار کے اعتبار سے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ یہ مانوس معیار لمبے عرصے کے بعد ان کے دل میں ایسا رچ بس جاتا ہے کہ اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔ وہ آخر وقت تک بھی اپنے مانوس دائرے سے باہر کی سچائی کو پہچان نہیں پاتے۔ قوموں کے اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ معجزے کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ جس شخصیت کے بارے میں ان کے مادی حالات کی بنا پر ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ یہ ایک معمولی آدمی ہے وہ پھر بھی ان کی نظر میں معمولی ہی رہا۔ بعد کو اگر اس نے کوئی خارقِ عادت چیز دکھائی تو چونكه دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بظاہر اب بھی ان کے لیے غیر اہم تھي۔ انھوںنے سمجھ لیا کہ یہ کوئی جادو یا نظر بندی ہے، نہ کہ حقیقۃً ان کے نمائندۂ خدا ہونے کا ثبوت۔

لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ ۖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْأَوَّلِينَ

📘 ہر دور میں خداکے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بطور خود جو فرضی معیار کسی کو نمائندۂ خدا قرار دینے کے لیے بنا رکھے تھے، اس پر ان کے پیغمبر پورے نہیں اترتے تھے، اس معیار کے اعتبار سے پیغمبر انھیں کم تر نظر آتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا۔ کسی نئی حقیقت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور خالص واقعات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو لوگ سچائی کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ سچائی ان کو اپنے مانوس معیار کے اعتبار سے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ یہ مانوس معیار لمبے عرصے کے بعد ان کے دل میں ایسا رچ بس جاتا ہے کہ اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔ وہ آخر وقت تک بھی اپنے مانوس دائرے سے باہر کی سچائی کو پہچان نہیں پاتے۔ قوموں کے اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ معجزے کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ جس شخصیت کے بارے میں ان کے مادی حالات کی بنا پر ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ یہ ایک معمولی آدمی ہے وہ پھر بھی ان کی نظر میں معمولی ہی رہا۔ بعد کو اگر اس نے کوئی خارقِ عادت چیز دکھائی تو چونكه دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بظاہر اب بھی ان کے لیے غیر اہم تھي۔ انھوںنے سمجھ لیا کہ یہ کوئی جادو یا نظر بندی ہے، نہ کہ حقیقۃً ان کے نمائندۂ خدا ہونے کا ثبوت۔

وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا مِنَ السَّمَاءِ فَظَلُّوا فِيهِ يَعْرُجُونَ

📘 ہر دور میں خداکے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بطور خود جو فرضی معیار کسی کو نمائندۂ خدا قرار دینے کے لیے بنا رکھے تھے، اس پر ان کے پیغمبر پورے نہیں اترتے تھے، اس معیار کے اعتبار سے پیغمبر انھیں کم تر نظر آتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا۔ کسی نئی حقیقت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور خالص واقعات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو لوگ سچائی کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ سچائی ان کو اپنے مانوس معیار کے اعتبار سے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ یہ مانوس معیار لمبے عرصے کے بعد ان کے دل میں ایسا رچ بس جاتا ہے کہ اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔ وہ آخر وقت تک بھی اپنے مانوس دائرے سے باہر کی سچائی کو پہچان نہیں پاتے۔ قوموں کے اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ معجزے کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ جس شخصیت کے بارے میں ان کے مادی حالات کی بنا پر ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ یہ ایک معمولی آدمی ہے وہ پھر بھی ان کی نظر میں معمولی ہی رہا۔ بعد کو اگر اس نے کوئی خارقِ عادت چیز دکھائی تو چونكه دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بظاہر اب بھی ان کے لیے غیر اہم تھي۔ انھوںنے سمجھ لیا کہ یہ کوئی جادو یا نظر بندی ہے، نہ کہ حقیقۃً ان کے نمائندۂ خدا ہونے کا ثبوت۔

لَقَالُوا إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ

📘 ہر دور میں خداکے پیغمبروں کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے بطور خود جو فرضی معیار کسی کو نمائندۂ خدا قرار دینے کے لیے بنا رکھے تھے، اس پر ان کے پیغمبر پورے نہیں اترتے تھے، اس معیار کے اعتبار سے پیغمبر انھیں کم تر نظر آتا تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیغمبروں کو استہزاء کا موضوع بنا لیا۔ کسی نئی حقیقت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے اور خالص واقعات کی بنیاد پر رائے قائم کرنے کے لیے تیار ہو۔ جو لوگ سچائی کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ سچائی ان کو اپنے مانوس معیار کے اعتبار سے اجنبی معلوم ہوتی ہے۔ یہ مانوس معیار لمبے عرصے کے بعد ان کے دل میں ایسا رچ بس جاتا ہے کہ اس سے باہر نکل کر سوچنا ان کے لیے ناممکن ہوجاتاہے۔ وہ آخر وقت تک بھی اپنے مانوس دائرے سے باہر کی سچائی کو پہچان نہیں پاتے۔ قوموں کے اسی مزاج کا نتیجہ تھا کہ معجزے کو دیکھ کر بھی لوگ ایمان نہیں لائے۔ جس شخصیت کے بارے میں ان کے مادی حالات کی بنا پر ان کا یہ ذہن بن گیا تھا کہ یہ ایک معمولی آدمی ہے وہ پھر بھی ان کی نظر میں معمولی ہی رہا۔ بعد کو اگر اس نے کوئی خارقِ عادت چیز دکھائی تو چونكه دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بظاہر اب بھی ان کے لیے غیر اہم تھي۔ انھوںنے سمجھ لیا کہ یہ کوئی جادو یا نظر بندی ہے، نہ کہ حقیقۃً ان کے نمائندۂ خدا ہونے کا ثبوت۔

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ

📘 کائنات میں بے شمار ستارے پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر یہ ستارے مجموعوں کی صورت میں ہیں۔ ہر ایک مجموعہ کو ایک کہکشاں کہاجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد یہ کہکشائیں ہوں۔ وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ میں سادہ طور پر صرف ’’زینت‘‘ مراد نہیں ہے بلکہ آسمان کا وہ حیران کن منظر مراد ہے جو رات کے وقت اس کا ہوتاہے۔ رات کو جب بادل اور گردوغبار نہ ہوں، کھلے میدان میں کھڑے ہو کر آسمان کی طرف نظر ڈالیں تو وسیع آسمان میں جگمگاتے ہوئے ستاروں کا منظر اتنا حیران کن حد تک شاندار ہوتاہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر خدا كي عظمت وجلال کے احساس میں ڈوب جائے۔ پچھلے تقریباً چار سو سال کے درمیان فلکیات کے میدان میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، اس سے بھی ’’زینت‘‘ کی توجیہہ ہوتی ہے۔ جدید فلکیاتی مطالعے کے بعد انسان اس حقیقت کو ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ کائنات میں کمال درجے کی معنویت پائی جاتی ہے۔کائنات ویل پلانڈ (well planned) کائنات ہے، کائنات ایک ویل مینجڈ (well managed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈیزائنڈ (well designed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈسپلنڈ (well disciplined) کائنات ہے۔اس دریافت سے انسان کے اندر ایک تحیر کا احساس (sense of awe) پیدا ہوجاتا ہے۔ اب سائنسداں عام طورپر یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک انٹلجنٹ کائنات (intelligent universe) ہے۔ جو لوگ پیغمبر سے کہتے تھے کہ آسمان سے فرشتہ اترتا ہوا ہمیں دکھاؤ ان سے کہاگیا کہ تاروں بھرے آسمان کا وہ منظر جو ہر روز تمھارے سامنے کھولا جاتا ہے کیا وہ تمھارے شعور کو جگانے اور تمھارے دلوںکو پگھلانے کے لیے کم ہے کہ تم دوسرے معجزات کا تقاضا کرتے ہو۔ زمین پر انسان کے ساتھ شیطان بھی بسائے گئے ہیں۔ یہاں شیاطین کو پوری آزادی ہے کہ وہ جدھر چاہیں جائیں اور جس طرح چاہیں لوگوں کو بہکائیں، مگر زمین سے ماوراء جو خدا کی دنیا ہے اس میں شیاطین کی پرواز کے لیے ناقابل عبور رکاوٹیں قائم کردی گئی ہیں۔ وہ ایک خاص حد سے آگے اس کے اندر داخل نہیں ہوپاتے۔

وَحَفِظْنَاهَا مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ

📘 کائنات میں بے شمار ستارے پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر یہ ستارے مجموعوں کی صورت میں ہیں۔ ہر ایک مجموعہ کو ایک کہکشاں کہاجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد یہ کہکشائیں ہوں۔ وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ میں سادہ طور پر صرف ’’زینت‘‘ مراد نہیں ہے بلکہ آسمان کا وہ حیران کن منظر مراد ہے جو رات کے وقت اس کا ہوتاہے۔ رات کو جب بادل اور گردوغبار نہ ہوں، کھلے میدان میں کھڑے ہو کر آسمان کی طرف نظر ڈالیں تو وسیع آسمان میں جگمگاتے ہوئے ستاروں کا منظر اتنا حیران کن حد تک شاندار ہوتاہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر خدا كي عظمت وجلال کے احساس میں ڈوب جائے۔ پچھلے تقریباً چار سو سال کے درمیان فلکیات کے میدان میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، اس سے بھی ’’زینت‘‘ کی توجیہہ ہوتی ہے۔ جدید فلکیاتی مطالعے کے بعد انسان اس حقیقت کو ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ کائنات میں کمال درجے کی معنویت پائی جاتی ہے۔کائنات ویل پلانڈ (well planned) کائنات ہے، کائنات ایک ویل مینجڈ (well managed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈیزائنڈ (well designed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈسپلنڈ (well disciplined) کائنات ہے۔اس دریافت سے انسان کے اندر ایک تحیر کا احساس (sense of awe) پیدا ہوجاتا ہے۔ اب سائنسداں عام طورپر یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک انٹلجنٹ کائنات (intelligent universe) ہے۔ جو لوگ پیغمبر سے کہتے تھے کہ آسمان سے فرشتہ اترتا ہوا ہمیں دکھاؤ ان سے کہاگیا کہ تاروں بھرے آسمان کا وہ منظر جو ہر روز تمھارے سامنے کھولا جاتا ہے کیا وہ تمھارے شعور کو جگانے اور تمھارے دلوںکو پگھلانے کے لیے کم ہے کہ تم دوسرے معجزات کا تقاضا کرتے ہو۔ زمین پر انسان کے ساتھ شیطان بھی بسائے گئے ہیں۔ یہاں شیاطین کو پوری آزادی ہے کہ وہ جدھر چاہیں جائیں اور جس طرح چاہیں لوگوں کو بہکائیں، مگر زمین سے ماوراء جو خدا کی دنیا ہے اس میں شیاطین کی پرواز کے لیے ناقابل عبور رکاوٹیں قائم کردی گئی ہیں۔ وہ ایک خاص حد سے آگے اس کے اندر داخل نہیں ہوپاتے۔

إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ

📘 کائنات میں بے شمار ستارے پھیلے ہوئے ہیں۔ مگر یہ ستارے مجموعوں کی صورت میں ہیں۔ ہر ایک مجموعہ کو ایک کہکشاں کہاجاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بروج سے مراد یہ کہکشائیں ہوں۔ وَزَيَّنَّاهَا لِلنَّاظِرِينَ میں سادہ طور پر صرف ’’زینت‘‘ مراد نہیں ہے بلکہ آسمان کا وہ حیران کن منظر مراد ہے جو رات کے وقت اس کا ہوتاہے۔ رات کو جب بادل اور گردوغبار نہ ہوں، کھلے میدان میں کھڑے ہو کر آسمان کی طرف نظر ڈالیں تو وسیع آسمان میں جگمگاتے ہوئے ستاروں کا منظر اتنا حیران کن حد تک شاندار ہوتاہے کہ آدمی اس کو دیکھ کر خدا كي عظمت وجلال کے احساس میں ڈوب جائے۔ پچھلے تقریباً چار سو سال کے درمیان فلکیات کے میدان میں جو دریافتیں ہوئی ہیں، اس سے بھی ’’زینت‘‘ کی توجیہہ ہوتی ہے۔ جدید فلکیاتی مطالعے کے بعد انسان اس حقیقت کو ماننے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے کہ کائنات میں کمال درجے کی معنویت پائی جاتی ہے۔کائنات ویل پلانڈ (well planned) کائنات ہے، کائنات ایک ویل مینجڈ (well managed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈیزائنڈ (well designed) کائنات ہے، کائنات ایک ویل ڈسپلنڈ (well disciplined) کائنات ہے۔اس دریافت سے انسان کے اندر ایک تحیر کا احساس (sense of awe) پیدا ہوجاتا ہے۔ اب سائنسداں عام طورپر یہ مانتے ہیں کہ کائنات ایک انٹلجنٹ کائنات (intelligent universe) ہے۔ جو لوگ پیغمبر سے کہتے تھے کہ آسمان سے فرشتہ اترتا ہوا ہمیں دکھاؤ ان سے کہاگیا کہ تاروں بھرے آسمان کا وہ منظر جو ہر روز تمھارے سامنے کھولا جاتا ہے کیا وہ تمھارے شعور کو جگانے اور تمھارے دلوںکو پگھلانے کے لیے کم ہے کہ تم دوسرے معجزات کا تقاضا کرتے ہو۔ زمین پر انسان کے ساتھ شیطان بھی بسائے گئے ہیں۔ یہاں شیاطین کو پوری آزادی ہے کہ وہ جدھر چاہیں جائیں اور جس طرح چاہیں لوگوں کو بہکائیں، مگر زمین سے ماوراء جو خدا کی دنیا ہے اس میں شیاطین کی پرواز کے لیے ناقابل عبور رکاوٹیں قائم کردی گئی ہیں۔ وہ ایک خاص حد سے آگے اس کے اندر داخل نہیں ہوپاتے۔

وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوْزُونٍ

📘 جغرافی مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین ابتداء ً خشک گولے کی صورت میں تھی پھر وہ پھٹی جس کی وجہ سے سمندر کی گہرائیاں پیدا ہوئیں اور ان میں پانی جمع ہوگیا۔ ان گہرائیوں کو متوازن رکھنے کے لیے زمین پر جگہ جگہ اونچے پہاڑ ابھر آئے۔اس کے بعد زمین پر نباتات اور حیوانات وجو د میں آئے اور خوب پھیلے۔ ان میں سے ہر ایک کے اندر بڑھنے کی لامحدود صلاحیت ہے، مگر ان کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ہر ایک کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ ہر چیز بڑھتے بڑھتے ایک خاص حد پر رک جاتی ہے، وہ اس سے آگے نہیں جانے پاتی۔ مثلاً پودوں اور درختوں میں اپنی نسل بڑھانے کی اتنی زیادہ استعداد ہے کہ اگر کسی ایک پودے کو اس کی اندرونی استعداد کے اعتبار سے بلا روک ٹوک بڑھنے دیا جائے تو چند سال کے اندر ساری سطح زمین پر ہر طرف بس وہی پودا نظر آئے گا۔ کسی دوسری چیز کے لیے یہاں کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔ مگر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی زبردست ناظم ہے جو ہر ایک پر کنٹرول قائم کيے ہوئے ہے۔ یہی معاملہ حیوانات کا ہے۔ ان کے اندر بھی افزائش نسل کی لامحدود صلاحیت ہے۔ مگر ہر ایک کی تعداد ایک حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں اپنی جسامت بڑھانے کی استعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک پتنگے کو بڑھنے دیا جائے تو وہ ہاتھی کے برابر ہوجائے۔ مگر قدرتی کنٹرول ایک خاص حد پر اس کی جسامت کو روک دیتاہے۔ اگر چیزیں اپنی حد پر نہ رکیں تو زمین پر انسان کی رہائش ناممکن ہوجائے گی۔ انسان کو اپنی معیشت اور تمدن کے لیے بے شمار چیزیں درکار ہیں۔ یہ ساری چیزیں عین ہماری ضرورت کے مطابق زمین پر مہیا کردی گئی ہیں۔ ان تمام چیزوں کی فراہمی اور ہر ایک کی بقا کا انتظام خدا کی طرف سے ہے۔ اگر ہم کو ان كے ليے رزق كا انتظام كرنا ہو تو ہمارے لیے ان کا حصول نا ممکن ہوجائے۔

رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ

📘 دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ صرف امتحان کی مدّت تک کے لیے ہے۔ یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے۔ اگر آدمی واقعی طورپر اس کو سوچے تو وہ ایسا محسوس کرے گا کہ جو مدت کل ختم ہونے والی ہے وہ گویا آج ختم ہوچکی ہے۔ یہ خیال اس کو ہلا کر رکھ دے گا۔ مگر آدمی صرف ’’آج‘‘ میں جیتا ہے، وہ ’’کل‘‘ پر دھیان نہیں دیتا۔ اس کے سامنے حقیقت کھولی جاتی ہے مگر وہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ خود ساختہ طورپر کچھ فرضی سہارے تلاش کرلیتاہے اور سمجھتا ہے کہ یہ سہارے فیصلہ کے وقت اس کے کام آئیں گے۔ مگر غفلت اور خوش گمانی کا طلسم اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب مدت ختم ہوتی ہے اور خدا کے فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں تاکہ اس کو امتحان کی دنیا سے نکال کر انجام کی دنیا میں پہنچا دیں۔ اس وقت اس کو وہ مواقع یادآنے لگتے ہیں جب کہ اس نے ایک سچی دلیل کو جھوٹے الفاظ کے ذریعہ رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس نے ضمیر کی آواز کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی تھی۔ جب اس نے خدا کے داعی میں خدا کی جھلکیاں پانے کے باوجود ذاتی پندار کی خاطر اس کو نظرانداز کردیا تھا۔ جب وہ دیکھے گا کہ میری کوئی تدبیر میرے کام نہیں آئی تو وہ کہے گا کہ کاش میں نے وہ نہ کیا ہوتا جومیں نے کیا۔ کاش میں ’’منکر‘‘ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ’’مسلم‘‘ کا طریقہ اختیار کرتا۔

وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَسْتُمْ لَهُ بِرَازِقِينَ

📘 جغرافی مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین ابتداء ً خشک گولے کی صورت میں تھی پھر وہ پھٹی جس کی وجہ سے سمندر کی گہرائیاں پیدا ہوئیں اور ان میں پانی جمع ہوگیا۔ ان گہرائیوں کو متوازن رکھنے کے لیے زمین پر جگہ جگہ اونچے پہاڑ ابھر آئے۔اس کے بعد زمین پر نباتات اور حیوانات وجو د میں آئے اور خوب پھیلے۔ ان میں سے ہر ایک کے اندر بڑھنے کی لامحدود صلاحیت ہے، مگر ان کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ ہر ایک کا ایک اندازہ مقرر ہے۔ ہر چیز بڑھتے بڑھتے ایک خاص حد پر رک جاتی ہے، وہ اس سے آگے نہیں جانے پاتی۔ مثلاً پودوں اور درختوں میں اپنی نسل بڑھانے کی اتنی زیادہ استعداد ہے کہ اگر کسی ایک پودے کو اس کی اندرونی استعداد کے اعتبار سے بلا روک ٹوک بڑھنے دیا جائے تو چند سال کے اندر ساری سطح زمین پر ہر طرف بس وہی پودا نظر آئے گا۔ کسی دوسری چیز کے لیے یہاں کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔ مگر ایسا معلوم ہوتاہے کہ کوئی زبردست ناظم ہے جو ہر ایک پر کنٹرول قائم کيے ہوئے ہے۔ یہی معاملہ حیوانات کا ہے۔ ان کے اندر بھی افزائش نسل کی لامحدود صلاحیت ہے۔ مگر ہر ایک کی تعداد ایک حد پر پہنچ کر رک جاتی ہے۔ اسی طرح حیوانات میں اپنی جسامت بڑھانے کی استعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک پتنگے کو بڑھنے دیا جائے تو وہ ہاتھی کے برابر ہوجائے۔ مگر قدرتی کنٹرول ایک خاص حد پر اس کی جسامت کو روک دیتاہے۔ اگر چیزیں اپنی حد پر نہ رکیں تو زمین پر انسان کی رہائش ناممکن ہوجائے گی۔ انسان کو اپنی معیشت اور تمدن کے لیے بے شمار چیزیں درکار ہیں۔ یہ ساری چیزیں عین ہماری ضرورت کے مطابق زمین پر مہیا کردی گئی ہیں۔ ان تمام چیزوں کی فراہمی اور ہر ایک کی بقا کا انتظام خدا کی طرف سے ہے۔ اگر ہم کو ان كے ليے رزق كا انتظام كرنا ہو تو ہمارے لیے ان کا حصول نا ممکن ہوجائے۔

وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ

📘 حد بندی کا اصول کائنا ت کی تمام چیزوں میں رائج ہے۔ ہوا ایک حد کے اندر چلتی ہے، حالانکہ خدا کبھی کبھی دکھاتا ہے کہ وہ آندھی بھی بن سکتی ہے۔ سورج ایک خاص فاصلہ پر ہے۔ اگر وہ اس سے اوپر چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے۔ سورج نیچے آجائے تو زمین جلتی ہوئی بھٹی بن جائے۔ زمین کی کشش نہایت موزوں مقدار میں ہے۔ اگر زمین کی جسامت دگنا ہوتی تو اس کی کشش اتنی بڑھ جاتی کہ بوجھ کی وجہ سے آدمی کے لیے زمین پر چلنا مشکل ہوتا۔ اور اگر زمین کی جسامت موجودہ جسامت سے نصف کے بقدر کم ہوتی تو اس کی کشش اتنی گھٹ جاتی کہ آدمی اور اس کے مکانات ہلکے پن کی وجہ سے زمین پر ٹھہر نہ سکتے۔ یہی حال ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان رہتا ہے۔ ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے وہ نہ اس سے گھٹتاہے اور نہ اس سے بڑھتاہے۔ زمین پر انسان اور تمام جانداروں کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ زیرِ زمین پانی کے ذخیروں سے لے کر فضائی بادلوں تک پانی کی فراہمی کا نظام اتنے عجیب اور اتنے عظیم پیمانے پر ہے جس کا قائم کرنا ہرگز انسان کے بس میں نہیں۔ اس عجیب اور عظیم انتظام کو خدا مسلسل عین انسانی ضرورت کے مطابق قائم کيے ہوئے ہے۔ انسان ایک بے حدنازک مخلوق ہے۔ اس کے ماحول میں کوئی فرق اس کی پوری ہستی کو تہ وبالا کردینے کے لیے کافی ہے۔ ایسی حالت میں بے شمار اجزاء کی ایک کائنات، لاتعداد امکانات کا حامل ہونے کے باوجود، عین اسی مخصوص امکانی انداز ے پر قائم ہے جو انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے مناسب ہے۔ یہ اعتدال اور تناسب ہر گز اتفاقی نہیں ہوسکتا۔ یقیناً اس کا کوئی زبردست خالق اور ناظم ہے۔ ایسی حالت میں جو شخص خدا کو نہ مانے یا خدا کو مان کر اس کا شریک ٹھہرائے وہ صرف اپنے غیر معقول ہونے کا ثبوت دیتا ہے، نہ کہ عقیدۂ توحید کے غیر معقول ہونے کا۔

وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنْتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ

📘 حد بندی کا اصول کائنا ت کی تمام چیزوں میں رائج ہے۔ ہوا ایک حد کے اندر چلتی ہے، حالانکہ خدا کبھی کبھی دکھاتا ہے کہ وہ آندھی بھی بن سکتی ہے۔ سورج ایک خاص فاصلہ پر ہے۔ اگر وہ اس سے اوپر چلا جائے تو زمین برف کی طرح جم جائے۔ سورج نیچے آجائے تو زمین جلتی ہوئی بھٹی بن جائے۔ زمین کی کشش نہایت موزوں مقدار میں ہے۔ اگر زمین کی جسامت دگنا ہوتی تو اس کی کشش اتنی بڑھ جاتی کہ بوجھ کی وجہ سے آدمی کے لیے زمین پر چلنا مشکل ہوتا۔ اور اگر زمین کی جسامت موجودہ جسامت سے نصف کے بقدر کم ہوتی تو اس کی کشش اتنی گھٹ جاتی کہ آدمی اور اس کے مکانات ہلکے پن کی وجہ سے زمین پر ٹھہر نہ سکتے۔ یہی حال ان تمام چیزوں کا ہے جن کے درمیان انسان رہتا ہے۔ ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے وہ نہ اس سے گھٹتاہے اور نہ اس سے بڑھتاہے۔ زمین پر انسان اور تمام جانداروں کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے۔ زیرِ زمین پانی کے ذخیروں سے لے کر فضائی بادلوں تک پانی کی فراہمی کا نظام اتنے عجیب اور اتنے عظیم پیمانے پر ہے جس کا قائم کرنا ہرگز انسان کے بس میں نہیں۔ اس عجیب اور عظیم انتظام کو خدا مسلسل عین انسانی ضرورت کے مطابق قائم کيے ہوئے ہے۔ انسان ایک بے حدنازک مخلوق ہے۔ اس کے ماحول میں کوئی فرق اس کی پوری ہستی کو تہ وبالا کردینے کے لیے کافی ہے۔ ایسی حالت میں بے شمار اجزاء کی ایک کائنات، لاتعداد امکانات کا حامل ہونے کے باوجود، عین اسی مخصوص امکانی انداز ے پر قائم ہے جو انسان جیسی ایک مخلوق کے لیے مناسب ہے۔ یہ اعتدال اور تناسب ہر گز اتفاقی نہیں ہوسکتا۔ یقیناً اس کا کوئی زبردست خالق اور ناظم ہے۔ ایسی حالت میں جو شخص خدا کو نہ مانے یا خدا کو مان کر اس کا شریک ٹھہرائے وہ صرف اپنے غیر معقول ہونے کا ثبوت دیتا ہے، نہ کہ عقیدۂ توحید کے غیر معقول ہونے کا۔

وَإِنَّا لَنَحْنُ نُحْيِي وَنُمِيتُ وَنَحْنُ الْوَارِثُونَ

📘 دنیا میںانسان کو بسانا، پھر یہاں سے اس کو اٹھا لینا دونوں خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر یہ انسان کی مرضی سے ہوتا تو وہ کبھی یہاں نہ آسکتا اور آنے کے بعدکبھی یہاں سے واپس نہ جاتا۔ اسی سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے بھی زمین وآسمان خداکے تھے اور اس کے بعد بھی وہ خدا کے رہیں گے۔ زمین پر اَن گنت چیزیں ہیں۔ مگر ہر ایک کی ایک انفرادیت ہے۔ ہر چیز وہی خاص اور متعین کردار ادا کرتی ہے، جو اس کو ادا کرنا چاہیے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ زمین کا خالق ایک ایک چیز کا انفرادی علم رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز کو اس کے اپنے خصوصی وظیفہ میں لگائے ہوئے ہے۔ حتی کہ ایک آدمی کے ہاتھ کے انگوٹھے پر جو نشان ہوتا ہے، وہ بھی تمام دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہوتاہے۔ ایک شخص کے انگوٹھے کا نشان پھر کبھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ دہرایا نہیں جاتا۔ ایسے قادر اور باخبر خدا کے لیے اس میں کیا مشکل ہے کہ وہ ہر آدمی کا الگ الگ حساب لے اور ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔

وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرِينَ

📘 دنیا میںانسان کو بسانا، پھر یہاں سے اس کو اٹھا لینا دونوں خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر یہ انسان کی مرضی سے ہوتا تو وہ کبھی یہاں نہ آسکتا اور آنے کے بعدکبھی یہاں سے واپس نہ جاتا۔ اسی سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے بھی زمین وآسمان خداکے تھے اور اس کے بعد بھی وہ خدا کے رہیں گے۔ زمین پر اَن گنت چیزیں ہیں۔ مگر ہر ایک کی ایک انفرادیت ہے۔ ہر چیز وہی خاص اور متعین کردار ادا کرتی ہے، جو اس کو ادا کرنا چاہیے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ زمین کا خالق ایک ایک چیز کا انفرادی علم رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز کو اس کے اپنے خصوصی وظیفہ میں لگائے ہوئے ہے۔ حتی کہ ایک آدمی کے ہاتھ کے انگوٹھے پر جو نشان ہوتا ہے، وہ بھی تمام دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہوتاہے۔ ایک شخص کے انگوٹھے کا نشان پھر کبھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ دہرایا نہیں جاتا۔ ایسے قادر اور باخبر خدا کے لیے اس میں کیا مشکل ہے کہ وہ ہر آدمی کا الگ الگ حساب لے اور ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔

وَإِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَحْشُرُهُمْ ۚ إِنَّهُ حَكِيمٌ عَلِيمٌ

📘 دنیا میںانسان کو بسانا، پھر یہاں سے اس کو اٹھا لینا دونوں خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر یہ انسان کی مرضی سے ہوتا تو وہ کبھی یہاں نہ آسکتا اور آنے کے بعدکبھی یہاں سے واپس نہ جاتا۔ اسی سے یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش سے پہلے بھی زمین وآسمان خداکے تھے اور اس کے بعد بھی وہ خدا کے رہیں گے۔ زمین پر اَن گنت چیزیں ہیں۔ مگر ہر ایک کی ایک انفرادیت ہے۔ ہر چیز وہی خاص اور متعین کردار ادا کرتی ہے، جو اس کو ادا کرنا چاہیے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ زمین کا خالق ایک ایک چیز کا انفرادی علم رکھتا ہے۔ وہ ہر چیز کو اس کے اپنے خصوصی وظیفہ میں لگائے ہوئے ہے۔ حتی کہ ایک آدمی کے ہاتھ کے انگوٹھے پر جو نشان ہوتا ہے، وہ بھی تمام دوسرے انسانوں سے بالکل مختلف ہوتاہے۔ ایک شخص کے انگوٹھے کا نشان پھر کبھی کسی دوسرے انسان کے ساتھ دہرایا نہیں جاتا۔ ایسے قادر اور باخبر خدا کے لیے اس میں کیا مشکل ہے کہ وہ ہر آدمی کا الگ الگ حساب لے اور ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کا وہ فی الواقع مستحق ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

📘 انسان کاوجود دو چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک جسم اور دوسرے روح۔ جسم تمام تر ارضی مادوں سے بناہے۔ انسانی جسم کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ انھیں اجزاء کی ترکیب سے بنا ہے جس کو عرف عام میں پانی اور مٹی کہتے ہیں۔ گویا جسم کے اعتبار سے انسان سراسر ایک بے حیات اور بے شعور وجود کا نام ہے۔ مگر جب خدا اس کے اندر اپنے پاس سے روح ڈال دے تو اچانک یہی جسم ایسی صلاحیتوں کا حامل بن جاتاہے جو معلوم کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔یہاں دوسری مخلوق وہ ہے جس کو جن کہتے ہیں۔ جن انسان کے حریف ہیں۔ جن آگ کے شعلوں سے بنائے گئے ہیں۔ گویا کہ وہ عین اپنی پیدائش کے اعتبار سے جلانے والی مخلوق ہیں۔ جس طرح مٹی والی زمین اپنے آپ کو آگ والے سورج سے دور رکھتی ہے تاکہ وہ جل نہ جائے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جنوں سے بچائے۔ ورنہ وہ اس کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے جلا ڈالیں گے۔

وَالْجَانَّ خَلَقْنَاهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ

📘 انسان کاوجود دو چیزوں سے مرکب ہے۔ ایک جسم اور دوسرے روح۔ جسم تمام تر ارضی مادوں سے بناہے۔ انسانی جسم کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ انھیں اجزاء کی ترکیب سے بنا ہے جس کو عرف عام میں پانی اور مٹی کہتے ہیں۔ گویا جسم کے اعتبار سے انسان سراسر ایک بے حیات اور بے شعور وجود کا نام ہے۔ مگر جب خدا اس کے اندر اپنے پاس سے روح ڈال دے تو اچانک یہی جسم ایسی صلاحیتوں کا حامل بن جاتاہے جو معلوم کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔یہاں دوسری مخلوق وہ ہے جس کو جن کہتے ہیں۔ جن انسان کے حریف ہیں۔ جن آگ کے شعلوں سے بنائے گئے ہیں۔ گویا کہ وہ عین اپنی پیدائش کے اعتبار سے جلانے والی مخلوق ہیں۔ جس طرح مٹی والی زمین اپنے آپ کو آگ والے سورج سے دور رکھتی ہے تاکہ وہ جل نہ جائے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو جنوں سے بچائے۔ ورنہ وہ اس کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے جلا ڈالیں گے۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

📘 ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ بتائی کہ انسان میرے مقابلہ میں کم تر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ خود ابلیس کا اپنا احساس کمتری تھا۔ وہ یہ دیکھ کر جل اٹھا کہ میں پہلے سے کائنات میں ہوں اور مجھ کو یہ عزت نہیں ملی کہ تمام مخلوقات سے مجھے سجدہ کرایا جائے۔ اور انسان جو ابھی پیدا کیاگیاہے اس کو تمام مخلوقات سے سجدہ کرایا جارہا ہے۔ اس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ’’انسان مجھ سے کم تر ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کا مستحق دراصل میں تھا پھر غیر مستحق کی عزت افزائی کو میں کیوں کر تسلیم کروں۔ یہی گھمنڈ اور حسد تمام اجتماعی خرابیوں کی جڑ ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے مواقع انسان کے سامنے بار بار آتے ہیں۔ جو شخص ایسے موقع پر جلن کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو اس نے فرشتوں کی پیروی کی اور جو شخص جلن کا شکار ہو جائے وہ گویا شیطان کا پیرو بنا۔

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ

📘 ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ بتائی کہ انسان میرے مقابلہ میں کم تر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ خود ابلیس کا اپنا احساس کمتری تھا۔ وہ یہ دیکھ کر جل اٹھا کہ میں پہلے سے کائنات میں ہوں اور مجھ کو یہ عزت نہیں ملی کہ تمام مخلوقات سے مجھے سجدہ کرایا جائے۔ اور انسان جو ابھی پیدا کیاگیاہے اس کو تمام مخلوقات سے سجدہ کرایا جارہا ہے۔ اس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ’’انسان مجھ سے کم تر ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کا مستحق دراصل میں تھا پھر غیر مستحق کی عزت افزائی کو میں کیوں کر تسلیم کروں۔ یہی گھمنڈ اور حسد تمام اجتماعی خرابیوں کی جڑ ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے مواقع انسان کے سامنے بار بار آتے ہیں۔ جو شخص ایسے موقع پر جلن کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو اس نے فرشتوں کی پیروی کی اور جو شخص جلن کا شکار ہو جائے وہ گویا شیطان کا پیرو بنا۔

ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ صرف امتحان کی مدّت تک کے لیے ہے۔ یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے۔ اگر آدمی واقعی طورپر اس کو سوچے تو وہ ایسا محسوس کرے گا کہ جو مدت کل ختم ہونے والی ہے وہ گویا آج ختم ہوچکی ہے۔ یہ خیال اس کو ہلا کر رکھ دے گا۔ مگر آدمی صرف ’’آج‘‘ میں جیتا ہے، وہ ’’کل‘‘ پر دھیان نہیں دیتا۔ اس کے سامنے حقیقت کھولی جاتی ہے مگر وہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ خود ساختہ طورپر کچھ فرضی سہارے تلاش کرلیتاہے اور سمجھتا ہے کہ یہ سہارے فیصلہ کے وقت اس کے کام آئیں گے۔ مگر غفلت اور خوش گمانی کا طلسم اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب مدت ختم ہوتی ہے اور خدا کے فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں تاکہ اس کو امتحان کی دنیا سے نکال کر انجام کی دنیا میں پہنچا دیں۔ اس وقت اس کو وہ مواقع یادآنے لگتے ہیں جب کہ اس نے ایک سچی دلیل کو جھوٹے الفاظ کے ذریعہ رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس نے ضمیر کی آواز کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی تھی۔ جب اس نے خدا کے داعی میں خدا کی جھلکیاں پانے کے باوجود ذاتی پندار کی خاطر اس کو نظرانداز کردیا تھا۔ جب وہ دیکھے گا کہ میری کوئی تدبیر میرے کام نہیں آئی تو وہ کہے گا کہ کاش میں نے وہ نہ کیا ہوتا جومیں نے کیا۔ کاش میں ’’منکر‘‘ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ’’مسلم‘‘ کا طریقہ اختیار کرتا۔

فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ

📘 ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ بتائی کہ انسان میرے مقابلہ میں کم تر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ خود ابلیس کا اپنا احساس کمتری تھا۔ وہ یہ دیکھ کر جل اٹھا کہ میں پہلے سے کائنات میں ہوں اور مجھ کو یہ عزت نہیں ملی کہ تمام مخلوقات سے مجھے سجدہ کرایا جائے۔ اور انسان جو ابھی پیدا کیاگیاہے اس کو تمام مخلوقات سے سجدہ کرایا جارہا ہے۔ اس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ’’انسان مجھ سے کم تر ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کا مستحق دراصل میں تھا پھر غیر مستحق کی عزت افزائی کو میں کیوں کر تسلیم کروں۔ یہی گھمنڈ اور حسد تمام اجتماعی خرابیوں کی جڑ ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے مواقع انسان کے سامنے بار بار آتے ہیں۔ جو شخص ایسے موقع پر جلن کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو اس نے فرشتوں کی پیروی کی اور جو شخص جلن کا شکار ہو جائے وہ گویا شیطان کا پیرو بنا۔

إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَنْ يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ

📘 ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ بتائی کہ انسان میرے مقابلہ میں کم تر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ خود ابلیس کا اپنا احساس کمتری تھا۔ وہ یہ دیکھ کر جل اٹھا کہ میں پہلے سے کائنات میں ہوں اور مجھ کو یہ عزت نہیں ملی کہ تمام مخلوقات سے مجھے سجدہ کرایا جائے۔ اور انسان جو ابھی پیدا کیاگیاہے اس کو تمام مخلوقات سے سجدہ کرایا جارہا ہے۔ اس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ’’انسان مجھ سے کم تر ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کا مستحق دراصل میں تھا پھر غیر مستحق کی عزت افزائی کو میں کیوں کر تسلیم کروں۔ یہی گھمنڈ اور حسد تمام اجتماعی خرابیوں کی جڑ ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے مواقع انسان کے سامنے بار بار آتے ہیں۔ جو شخص ایسے موقع پر جلن کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو اس نے فرشتوں کی پیروی کی اور جو شخص جلن کا شکار ہو جائے وہ گویا شیطان کا پیرو بنا۔

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا لَكَ أَلَّا تَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ

📘 ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ بتائی کہ انسان میرے مقابلہ میں کم تر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ خود ابلیس کا اپنا احساس کمتری تھا۔ وہ یہ دیکھ کر جل اٹھا کہ میں پہلے سے کائنات میں ہوں اور مجھ کو یہ عزت نہیں ملی کہ تمام مخلوقات سے مجھے سجدہ کرایا جائے۔ اور انسان جو ابھی پیدا کیاگیاہے اس کو تمام مخلوقات سے سجدہ کرایا جارہا ہے۔ اس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ’’انسان مجھ سے کم تر ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کا مستحق دراصل میں تھا پھر غیر مستحق کی عزت افزائی کو میں کیوں کر تسلیم کروں۔ یہی گھمنڈ اور حسد تمام اجتماعی خرابیوں کی جڑ ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے مواقع انسان کے سامنے بار بار آتے ہیں۔ جو شخص ایسے موقع پر جلن کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو اس نے فرشتوں کی پیروی کی اور جو شخص جلن کا شکار ہو جائے وہ گویا شیطان کا پیرو بنا۔

قَالَ لَمْ أَكُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ

📘 ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ بظاہر یہ بتائی کہ انسان میرے مقابلہ میں کم تر ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی وجہ خود ابلیس کا اپنا احساس کمتری تھا۔ وہ یہ دیکھ کر جل اٹھا کہ میں پہلے سے کائنات میں ہوں اور مجھ کو یہ عزت نہیں ملی کہ تمام مخلوقات سے مجھے سجدہ کرایا جائے۔ اور انسان جو ابھی پیدا کیاگیاہے اس کو تمام مخلوقات سے سجدہ کرایا جارہا ہے۔ اس نے انسان کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ’’انسان مجھ سے کم تر ہے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ سجدہ کا مستحق دراصل میں تھا پھر غیر مستحق کی عزت افزائی کو میں کیوں کر تسلیم کروں۔ یہی گھمنڈ اور حسد تمام اجتماعی خرابیوں کی جڑ ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسے مواقع انسان کے سامنے بار بار آتے ہیں۔ جو شخص ایسے موقع پر جلن کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو اس نے فرشتوں کی پیروی کی اور جو شخص جلن کا شکار ہو جائے وہ گویا شیطان کا پیرو بنا۔

قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ

📘 انسان کی تخلیق کے بعد واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس نے شیطان کو مستقل طورپر انسان کا دشمن بنا دیا۔ اب قیامت تک کے لیے آدمی شیطان کی زد میں ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ وہ شیطان کے فریب سے چوکنا رہے۔ موجودہ دنیا میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی کامیابی کا فیصلہ بھی ہورہا ہے اور اسی مقام پر اس کی ناکامی کا فیصلہ بھی۔

وَإِنَّ عَلَيْكَ اللَّعْنَةَ إِلَىٰ يَوْمِ الدِّينِ

📘 انسان کی تخلیق کے بعد واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس نے شیطان کو مستقل طورپر انسان کا دشمن بنا دیا۔ اب قیامت تک کے لیے آدمی شیطان کی زد میں ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ وہ شیطان کے فریب سے چوکنا رہے۔ موجودہ دنیا میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی کامیابی کا فیصلہ بھی ہورہا ہے اور اسی مقام پر اس کی ناکامی کا فیصلہ بھی۔

قَالَ رَبِّ فَأَنْظِرْنِي إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ

📘 انسان کی تخلیق کے بعد واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس نے شیطان کو مستقل طورپر انسان کا دشمن بنا دیا۔ اب قیامت تک کے لیے آدمی شیطان کی زد میں ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ وہ شیطان کے فریب سے چوکنا رہے۔ موجودہ دنیا میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی کامیابی کا فیصلہ بھی ہورہا ہے اور اسی مقام پر اس کی ناکامی کا فیصلہ بھی۔

قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ

📘 انسان کی تخلیق کے بعد واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس نے شیطان کو مستقل طورپر انسان کا دشمن بنا دیا۔ اب قیامت تک کے لیے آدمی شیطان کی زد میں ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ وہ شیطان کے فریب سے چوکنا رہے۔ موجودہ دنیا میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی کامیابی کا فیصلہ بھی ہورہا ہے اور اسی مقام پر اس کی ناکامی کا فیصلہ بھی۔

إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ

📘 انسان کی تخلیق کے بعد واقعات نے جو رخ اختیار کیا اس نے شیطان کو مستقل طورپر انسان کا دشمن بنا دیا۔ اب قیامت تک کے لیے آدمی شیطان کی زد میں ہے۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ قابل لحاظ بات یہ ہے کہ وہ شیطان کے فریب سے چوکنا رہے۔ موجودہ دنیا میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی کامیابی کا فیصلہ بھی ہورہا ہے اور اسی مقام پر اس کی ناکامی کا فیصلہ بھی۔

قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 ابلیس کے سامنے ایک آزمائشی صورت حال آئی۔ اس میں وہ شکست کھاگیا ۔ اب اس کے لیے صحیح طریقہ یہ تھاکہ وہ اپنی ہار مان لے۔ مگر اس کے بجائے اس نے یہ کیا کہ خود خدا پر الزام دینے لگا کہ اس نے جو کچھ کیا مجھ کو گمراہ کرنے کی خاطر کیا۔ جس واقعہ سے اس کی اپنی کمزوری ثابت ہو رہی تھی اس کو اس نے چاہا کہ خداکے اوپر ڈال دے — اپنی شکست کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا اسی شیطانی اسوہ کی پیروی ہے۔ ابلیس نے انسان کو سجدہ نہ کرنے کا سبب یہ بتایا کہ انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھ کو آگ سے۔ اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ مٹی کے مقابلہ میں آگ کو فضیلت کیوںحاصل ہو۔ مگر ابلیس کے اپنے ذہنی خانہ میں خود ساختہ تصور کے تحت یہ ہوا کہ مٹی حقیر چیز بن گئی اور آگ افضل چیز۔ اسی کا نام تزئین ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی چیز ہے، نہ کہ کوئی عقلی چیز۔ ابلیس نے اپنی غلطی ماننے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوسروں سے بھی وہی غلطی کرائے۔ وہ خود جس نفسیاتی کمزوری کا شکار ہوا ہے، اسی نفسیاتی کمزوری میں تمام انسانوں کو مبتلا کردے۔ ابلیس نے کہا کہ تیرے منتخب بندوں کے علاوہ سب کو میں گمراہ کروں گا— یہ خدا کے منتخب بندے کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے مقابلہ میں سیدھی راہ پر آچکے ہیں، یعنی عبدیت کی راہ۔ بالفاظ دیگر، خداکے مقابلہ میں اپنی حیثیت واقعی کے اعتراف کی راہ۔

وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا وَلَهَا كِتَابٌ مَعْلُومٌ

📘 دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ صرف امتحان کی مدّت تک کے لیے ہے۔ یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے۔ اگر آدمی واقعی طورپر اس کو سوچے تو وہ ایسا محسوس کرے گا کہ جو مدت کل ختم ہونے والی ہے وہ گویا آج ختم ہوچکی ہے۔ یہ خیال اس کو ہلا کر رکھ دے گا۔ مگر آدمی صرف ’’آج‘‘ میں جیتا ہے، وہ ’’کل‘‘ پر دھیان نہیں دیتا۔ اس کے سامنے حقیقت کھولی جاتی ہے مگر وہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ خود ساختہ طورپر کچھ فرضی سہارے تلاش کرلیتاہے اور سمجھتا ہے کہ یہ سہارے فیصلہ کے وقت اس کے کام آئیں گے۔ مگر غفلت اور خوش گمانی کا طلسم اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب مدت ختم ہوتی ہے اور خدا کے فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں تاکہ اس کو امتحان کی دنیا سے نکال کر انجام کی دنیا میں پہنچا دیں۔ اس وقت اس کو وہ مواقع یادآنے لگتے ہیں جب کہ اس نے ایک سچی دلیل کو جھوٹے الفاظ کے ذریعہ رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس نے ضمیر کی آواز کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی تھی۔ جب اس نے خدا کے داعی میں خدا کی جھلکیاں پانے کے باوجود ذاتی پندار کی خاطر اس کو نظرانداز کردیا تھا۔ جب وہ دیکھے گا کہ میری کوئی تدبیر میرے کام نہیں آئی تو وہ کہے گا کہ کاش میں نے وہ نہ کیا ہوتا جومیں نے کیا۔ کاش میں ’’منکر‘‘ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ’’مسلم‘‘ کا طریقہ اختیار کرتا۔

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ

📘 ابلیس کے سامنے ایک آزمائشی صورت حال آئی۔ اس میں وہ شکست کھاگیا ۔ اب اس کے لیے صحیح طریقہ یہ تھاکہ وہ اپنی ہار مان لے۔ مگر اس کے بجائے اس نے یہ کیا کہ خود خدا پر الزام دینے لگا کہ اس نے جو کچھ کیا مجھ کو گمراہ کرنے کی خاطر کیا۔ جس واقعہ سے اس کی اپنی کمزوری ثابت ہو رہی تھی اس کو اس نے چاہا کہ خداکے اوپر ڈال دے — اپنی شکست کا ذمہ دار دوسروں کو قرار دینا اسی شیطانی اسوہ کی پیروی ہے۔ ابلیس نے انسان کو سجدہ نہ کرنے کا سبب یہ بتایا کہ انسان کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھ کو آگ سے۔ اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ مٹی کے مقابلہ میں آگ کو فضیلت کیوںحاصل ہو۔ مگر ابلیس کے اپنے ذہنی خانہ میں خود ساختہ تصور کے تحت یہ ہوا کہ مٹی حقیر چیز بن گئی اور آگ افضل چیز۔ اسی کا نام تزئین ہے ۔ یہ ایک نفسیاتی چیز ہے، نہ کہ کوئی عقلی چیز۔ ابلیس نے اپنی غلطی ماننے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوسروں سے بھی وہی غلطی کرائے۔ وہ خود جس نفسیاتی کمزوری کا شکار ہوا ہے، اسی نفسیاتی کمزوری میں تمام انسانوں کو مبتلا کردے۔ ابلیس نے کہا کہ تیرے منتخب بندوں کے علاوہ سب کو میں گمراہ کروں گا— یہ خدا کے منتخب بندے کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے مقابلہ میں سیدھی راہ پر آچکے ہیں، یعنی عبدیت کی راہ۔ بالفاظ دیگر، خداکے مقابلہ میں اپنی حیثیت واقعی کے اعتراف کی راہ۔

قَالَ هَٰذَا صِرَاطٌ عَلَيَّ مُسْتَقِيمٌ

📘 صراطِ مستقیم کی تشریح مجاہد اور حسن اور قتادہ سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد حق کا راستہ ہے جو اللہ کی طرف نکلتاہے اور اسی پر ختم ہوتاہے (طَرِيقُ الْحَقِّ مَرْجِعُهَا إِلَى اللهِ تَعَالَى، وَإِلَيْهِ تَنْتَهِي) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 535 ۔ اگر آدمی شرک کی راہِ چلے تو وہ راہ خدا تک نہیں پہنچے گی بلکہ شریکوں تک پہنچے گی۔ وہ اگر سرکشی کا طریقہ اختیار کرے تو اس کی منزل آدمی کا اپنا وجود ہوگا،نہ کہ خدا۔ اگر وہ بے قید ہو کر زندگی گزارے تو وہ مختلف سمتوںمیں بھٹکے گا۔ اس کا سفر خدا پر منتہیٰ نہیں ہوسکتا۔ مگر جب آدمی صرف خداکو اپنا مرکز توجہ بناتاہے اوراسی کو سب کچھ سمجھ کر اپنی زندگی کو خدا کے رخ پر چلاتا ہے تو بالکل قدرتی بات ہے کہ اس کا سفر خدا کی طرف جاری ہو اور بالآخر وہ خدا تک پہنچ جائے۔ خدا قادر ہے اور انسان عاجز۔ اس لیے خدا اور بندے کے درمیان ایک ہی صحیح نسبت ہے اور وہ عبدیت کی نسبت ہے۔ عبدیت کی روش اختیار کرنا خداکے ساتھ اپنی صحیح ترین نسبت کو پالینا ہے ۔ جس شخص کی نسبت خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس پر شیطان کا ز ور نہیں چلتا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ اپنی نسبت قائم نہ کی، اس کی نسبت شیطان کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے مشوروں پر چلنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پہنچ جاتاہے جہاں بالآخر شیطان کو پہنچنا ہے۔ جہنم جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کا آخری ٹھکانا ہے،اس کے سات درجے ہیں۔ (قَالَ عِكْرمة ’’سَبْعَةُ أَبْوَابٍ‘‘ سَبْعَةُ أَطْبَاقٍ) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 536 ۔ جہنمی لوگ اپنے اعمال کے فرق کے لحاظ سے سات بڑے گروہوں میں تقسیم کيے جائیں گے اور اس کے مطابق جہنم کے سات طبقات میں سے کسی ایک طبقہ میں جگہ پائیں گے۔

إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ

📘 صراطِ مستقیم کی تشریح مجاہد اور حسن اور قتادہ سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد حق کا راستہ ہے جو اللہ کی طرف نکلتاہے اور اسی پر ختم ہوتاہے (طَرِيقُ الْحَقِّ مَرْجِعُهَا إِلَى اللهِ تَعَالَى، وَإِلَيْهِ تَنْتَهِي) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 535 ۔ اگر آدمی شرک کی راہِ چلے تو وہ راہ خدا تک نہیں پہنچے گی بلکہ شریکوں تک پہنچے گی۔ وہ اگر سرکشی کا طریقہ اختیار کرے تو اس کی منزل آدمی کا اپنا وجود ہوگا،نہ کہ خدا۔ اگر وہ بے قید ہو کر زندگی گزارے تو وہ مختلف سمتوںمیں بھٹکے گا۔ اس کا سفر خدا پر منتہیٰ نہیں ہوسکتا۔ مگر جب آدمی صرف خداکو اپنا مرکز توجہ بناتاہے اوراسی کو سب کچھ سمجھ کر اپنی زندگی کو خدا کے رخ پر چلاتا ہے تو بالکل قدرتی بات ہے کہ اس کا سفر خدا کی طرف جاری ہو اور بالآخر وہ خدا تک پہنچ جائے۔ خدا قادر ہے اور انسان عاجز۔ اس لیے خدا اور بندے کے درمیان ایک ہی صحیح نسبت ہے اور وہ عبدیت کی نسبت ہے۔ عبدیت کی روش اختیار کرنا خداکے ساتھ اپنی صحیح ترین نسبت کو پالینا ہے ۔ جس شخص کی نسبت خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس پر شیطان کا ز ور نہیں چلتا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ اپنی نسبت قائم نہ کی، اس کی نسبت شیطان کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے مشوروں پر چلنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پہنچ جاتاہے جہاں بالآخر شیطان کو پہنچنا ہے۔ جہنم جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کا آخری ٹھکانا ہے،اس کے سات درجے ہیں۔ (قَالَ عِكْرمة ’’سَبْعَةُ أَبْوَابٍ‘‘ سَبْعَةُ أَطْبَاقٍ) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 536 ۔ جہنمی لوگ اپنے اعمال کے فرق کے لحاظ سے سات بڑے گروہوں میں تقسیم کيے جائیں گے اور اس کے مطابق جہنم کے سات طبقات میں سے کسی ایک طبقہ میں جگہ پائیں گے۔

وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 صراطِ مستقیم کی تشریح مجاہد اور حسن اور قتادہ سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد حق کا راستہ ہے جو اللہ کی طرف نکلتاہے اور اسی پر ختم ہوتاہے (طَرِيقُ الْحَقِّ مَرْجِعُهَا إِلَى اللهِ تَعَالَى، وَإِلَيْهِ تَنْتَهِي) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 535 ۔ اگر آدمی شرک کی راہِ چلے تو وہ راہ خدا تک نہیں پہنچے گی بلکہ شریکوں تک پہنچے گی۔ وہ اگر سرکشی کا طریقہ اختیار کرے تو اس کی منزل آدمی کا اپنا وجود ہوگا،نہ کہ خدا۔ اگر وہ بے قید ہو کر زندگی گزارے تو وہ مختلف سمتوںمیں بھٹکے گا۔ اس کا سفر خدا پر منتہیٰ نہیں ہوسکتا۔ مگر جب آدمی صرف خداکو اپنا مرکز توجہ بناتاہے اوراسی کو سب کچھ سمجھ کر اپنی زندگی کو خدا کے رخ پر چلاتا ہے تو بالکل قدرتی بات ہے کہ اس کا سفر خدا کی طرف جاری ہو اور بالآخر وہ خدا تک پہنچ جائے۔ خدا قادر ہے اور انسان عاجز۔ اس لیے خدا اور بندے کے درمیان ایک ہی صحیح نسبت ہے اور وہ عبدیت کی نسبت ہے۔ عبدیت کی روش اختیار کرنا خداکے ساتھ اپنی صحیح ترین نسبت کو پالینا ہے ۔ جس شخص کی نسبت خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس پر شیطان کا ز ور نہیں چلتا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ اپنی نسبت قائم نہ کی، اس کی نسبت شیطان کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے مشوروں پر چلنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پہنچ جاتاہے جہاں بالآخر شیطان کو پہنچنا ہے۔ جہنم جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کا آخری ٹھکانا ہے،اس کے سات درجے ہیں۔ (قَالَ عِكْرمة ’’سَبْعَةُ أَبْوَابٍ‘‘ سَبْعَةُ أَطْبَاقٍ) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 536 ۔ جہنمی لوگ اپنے اعمال کے فرق کے لحاظ سے سات بڑے گروہوں میں تقسیم کيے جائیں گے اور اس کے مطابق جہنم کے سات طبقات میں سے کسی ایک طبقہ میں جگہ پائیں گے۔

لَهَا سَبْعَةُ أَبْوَابٍ لِكُلِّ بَابٍ مِنْهُمْ جُزْءٌ مَقْسُومٌ

📘 صراطِ مستقیم کی تشریح مجاہد اور حسن اور قتادہ سے یہ مروی ہے کہ اس سے مراد حق کا راستہ ہے جو اللہ کی طرف نکلتاہے اور اسی پر ختم ہوتاہے (طَرِيقُ الْحَقِّ مَرْجِعُهَا إِلَى اللهِ تَعَالَى، وَإِلَيْهِ تَنْتَهِي) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 535 ۔ اگر آدمی شرک کی راہِ چلے تو وہ راہ خدا تک نہیں پہنچے گی بلکہ شریکوں تک پہنچے گی۔ وہ اگر سرکشی کا طریقہ اختیار کرے تو اس کی منزل آدمی کا اپنا وجود ہوگا،نہ کہ خدا۔ اگر وہ بے قید ہو کر زندگی گزارے تو وہ مختلف سمتوںمیں بھٹکے گا۔ اس کا سفر خدا پر منتہیٰ نہیں ہوسکتا۔ مگر جب آدمی صرف خداکو اپنا مرکز توجہ بناتاہے اوراسی کو سب کچھ سمجھ کر اپنی زندگی کو خدا کے رخ پر چلاتا ہے تو بالکل قدرتی بات ہے کہ اس کا سفر خدا کی طرف جاری ہو اور بالآخر وہ خدا تک پہنچ جائے۔ خدا قادر ہے اور انسان عاجز۔ اس لیے خدا اور بندے کے درمیان ایک ہی صحیح نسبت ہے اور وہ عبدیت کی نسبت ہے۔ عبدیت کی روش اختیار کرنا خداکے ساتھ اپنی صحیح ترین نسبت کو پالینا ہے ۔ جس شخص کی نسبت خدا کے ساتھ قائم ہوجائے اس پر شیطان کا ز ور نہیں چلتا۔ اور جس نے خدا کے ساتھ اپنی نسبت قائم نہ کی، اس کی نسبت شیطان کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے۔ پھر وہ شیطان کے مشوروں پر چلنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پہنچ جاتاہے جہاں بالآخر شیطان کو پہنچنا ہے۔ جہنم جو شیطان اور اس کے ساتھیوں کا آخری ٹھکانا ہے،اس کے سات درجے ہیں۔ (قَالَ عِكْرمة ’’سَبْعَةُ أَبْوَابٍ‘‘ سَبْعَةُ أَطْبَاقٍ) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 536 ۔ جہنمی لوگ اپنے اعمال کے فرق کے لحاظ سے سات بڑے گروہوں میں تقسیم کيے جائیں گے اور اس کے مطابق جہنم کے سات طبقات میں سے کسی ایک طبقہ میں جگہ پائیں گے۔

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ

📘 جنت کی زندگی بے خوف زندگی ہوگی۔ اس کے مستحق وہ لوگ قرار پائیںگے جنھوں نے دنیا میں خدا کا خوف کیا۔ دنیا میں خدا کا خوف آخرت کی بے خوفی کی قیمت ہے۔ آپس کی رنجشیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک سرکشی کی وجہ سے، دوسری غلط فہمی کی وجہ سے۔ سرکشی کی بنا پر رنجش اور عناد پیدا ہونا سب سے بڑی اجتماعی برائی ہے۔ اہل ایمان کو اسے دنیا ہی میں ختم کرلینا ہے۔ جو لوگ اس کو دنیا میں ختم نہ کریں وہ آخرت میں جہنم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ دوسری رنجش وہ ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کبھی ختم ہوجاتی ہے اور کبھی طرفین کے اخلاص کے باوجود آخر وقت تک باقی رہتی ہے۔ یہ دوسری قسم کی رنجش آخرت میں مکمل طورپر ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ آخرت حقیقتوں کے کامل ظہور کی دنیا ہے۔ جب تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی تو ایک مخلص آدمی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے گی کہ وہ کیوں اپنے بھائی کے خلاف خواہ مخواہ رنجش رکھے۔ جنت کی زندگی اتنی لطیف اور نفیس زندگی ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم موجودہ دنیا کی لذتیں اور خوشیاں آنے والی لذتوں اور خوشیوں کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہیں۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس جنت کا تعارف اتنا لذیذ ہو وہ خود کتنی زیادہ لذیذ ہوگی۔ موجودہ دنیا میں کوئی شخص بالفرض ہر قسم کی لذتیں جمع کرلے تب بھی طرح طرح کی ناخوشگواریاں اس کی ہر لذت کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔ مگر جنت ایک ایسی جگہ ہے جس کی لذّتیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں سے پاک ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہوگے ۔ اب تم ہمیشہ جیوگے اور کبھی نہ مروگے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔ اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے تم کو یہاں سے کبھی جانا نہ ہوگا (يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَمْرَضُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أبدا، وإن لكم أَنْ تُقِيمُوا فَلَا تَظْعَنُوا أَبَدًا) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 539

ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ

📘 جنت کی زندگی بے خوف زندگی ہوگی۔ اس کے مستحق وہ لوگ قرار پائیںگے جنھوں نے دنیا میں خدا کا خوف کیا۔ دنیا میں خدا کا خوف آخرت کی بے خوفی کی قیمت ہے۔ آپس کی رنجشیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک سرکشی کی وجہ سے، دوسری غلط فہمی کی وجہ سے۔ سرکشی کی بنا پر رنجش اور عناد پیدا ہونا سب سے بڑی اجتماعی برائی ہے۔ اہل ایمان کو اسے دنیا ہی میں ختم کرلینا ہے۔ جو لوگ اس کو دنیا میں ختم نہ کریں وہ آخرت میں جہنم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ دوسری رنجش وہ ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کبھی ختم ہوجاتی ہے اور کبھی طرفین کے اخلاص کے باوجود آخر وقت تک باقی رہتی ہے۔ یہ دوسری قسم کی رنجش آخرت میں مکمل طورپر ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ آخرت حقیقتوں کے کامل ظہور کی دنیا ہے۔ جب تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی تو ایک مخلص آدمی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے گی کہ وہ کیوں اپنے بھائی کے خلاف خواہ مخواہ رنجش رکھے۔ جنت کی زندگی اتنی لطیف اور نفیس زندگی ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم موجودہ دنیا کی لذتیں اور خوشیاں آنے والی لذتوں اور خوشیوں کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہیں۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس جنت کا تعارف اتنا لذیذ ہو وہ خود کتنی زیادہ لذیذ ہوگی۔ موجودہ دنیا میں کوئی شخص بالفرض ہر قسم کی لذتیں جمع کرلے تب بھی طرح طرح کی ناخوشگواریاں اس کی ہر لذت کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔ مگر جنت ایک ایسی جگہ ہے جس کی لذّتیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں سے پاک ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہوگے ۔ اب تم ہمیشہ جیوگے اور کبھی نہ مروگے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔ اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے تم کو یہاں سے کبھی جانا نہ ہوگا (يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَمْرَضُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أبدا، وإن لكم أَنْ تُقِيمُوا فَلَا تَظْعَنُوا أَبَدًا) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 539

وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُتَقَابِلِينَ

📘 جنت کی زندگی بے خوف زندگی ہوگی۔ اس کے مستحق وہ لوگ قرار پائیںگے جنھوں نے دنیا میں خدا کا خوف کیا۔ دنیا میں خدا کا خوف آخرت کی بے خوفی کی قیمت ہے۔ آپس کی رنجشیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک سرکشی کی وجہ سے، دوسری غلط فہمی کی وجہ سے۔ سرکشی کی بنا پر رنجش اور عناد پیدا ہونا سب سے بڑی اجتماعی برائی ہے۔ اہل ایمان کو اسے دنیا ہی میں ختم کرلینا ہے۔ جو لوگ اس کو دنیا میں ختم نہ کریں وہ آخرت میں جہنم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ دوسری رنجش وہ ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کبھی ختم ہوجاتی ہے اور کبھی طرفین کے اخلاص کے باوجود آخر وقت تک باقی رہتی ہے۔ یہ دوسری قسم کی رنجش آخرت میں مکمل طورپر ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ آخرت حقیقتوں کے کامل ظہور کی دنیا ہے۔ جب تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی تو ایک مخلص آدمی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے گی کہ وہ کیوں اپنے بھائی کے خلاف خواہ مخواہ رنجش رکھے۔ جنت کی زندگی اتنی لطیف اور نفیس زندگی ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم موجودہ دنیا کی لذتیں اور خوشیاں آنے والی لذتوں اور خوشیوں کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہیں۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس جنت کا تعارف اتنا لذیذ ہو وہ خود کتنی زیادہ لذیذ ہوگی۔ موجودہ دنیا میں کوئی شخص بالفرض ہر قسم کی لذتیں جمع کرلے تب بھی طرح طرح کی ناخوشگواریاں اس کی ہر لذت کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔ مگر جنت ایک ایسی جگہ ہے جس کی لذّتیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں سے پاک ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہوگے ۔ اب تم ہمیشہ جیوگے اور کبھی نہ مروگے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔ اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے تم کو یہاں سے کبھی جانا نہ ہوگا (يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَمْرَضُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أبدا، وإن لكم أَنْ تُقِيمُوا فَلَا تَظْعَنُوا أَبَدًا) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 539

لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ

📘 جنت کی زندگی بے خوف زندگی ہوگی۔ اس کے مستحق وہ لوگ قرار پائیںگے جنھوں نے دنیا میں خدا کا خوف کیا۔ دنیا میں خدا کا خوف آخرت کی بے خوفی کی قیمت ہے۔ آپس کی رنجشیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک سرکشی کی وجہ سے، دوسری غلط فہمی کی وجہ سے۔ سرکشی کی بنا پر رنجش اور عناد پیدا ہونا سب سے بڑی اجتماعی برائی ہے۔ اہل ایمان کو اسے دنیا ہی میں ختم کرلینا ہے۔ جو لوگ اس کو دنیا میں ختم نہ کریں وہ آخرت میں جہنم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ دوسری رنجش وہ ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کبھی ختم ہوجاتی ہے اور کبھی طرفین کے اخلاص کے باوجود آخر وقت تک باقی رہتی ہے۔ یہ دوسری قسم کی رنجش آخرت میں مکمل طورپر ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ آخرت حقیقتوں کے کامل ظہور کی دنیا ہے۔ جب تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی تو ایک مخلص آدمی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے گی کہ وہ کیوں اپنے بھائی کے خلاف خواہ مخواہ رنجش رکھے۔ جنت کی زندگی اتنی لطیف اور نفیس زندگی ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم موجودہ دنیا کی لذتیں اور خوشیاں آنے والی لذتوں اور خوشیوں کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہیں۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس جنت کا تعارف اتنا لذیذ ہو وہ خود کتنی زیادہ لذیذ ہوگی۔ موجودہ دنیا میں کوئی شخص بالفرض ہر قسم کی لذتیں جمع کرلے تب بھی طرح طرح کی ناخوشگواریاں اس کی ہر لذت کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔ مگر جنت ایک ایسی جگہ ہے جس کی لذّتیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں سے پاک ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہوگے ۔ اب تم ہمیشہ جیوگے اور کبھی نہ مروگے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔ اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے تم کو یہاں سے کبھی جانا نہ ہوگا (يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَمْرَضُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أبدا، وإن لكم أَنْ تُقِيمُوا فَلَا تَظْعَنُوا أَبَدًا) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 539

۞ نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 جنت کی زندگی بے خوف زندگی ہوگی۔ اس کے مستحق وہ لوگ قرار پائیںگے جنھوں نے دنیا میں خدا کا خوف کیا۔ دنیا میں خدا کا خوف آخرت کی بے خوفی کی قیمت ہے۔ آپس کی رنجشیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک سرکشی کی وجہ سے، دوسری غلط فہمی کی وجہ سے۔ سرکشی کی بنا پر رنجش اور عناد پیدا ہونا سب سے بڑی اجتماعی برائی ہے۔ اہل ایمان کو اسے دنیا ہی میں ختم کرلینا ہے۔ جو لوگ اس کو دنیا میں ختم نہ کریں وہ آخرت میں جہنم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ دوسری رنجش وہ ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کبھی ختم ہوجاتی ہے اور کبھی طرفین کے اخلاص کے باوجود آخر وقت تک باقی رہتی ہے۔ یہ دوسری قسم کی رنجش آخرت میں مکمل طورپر ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ آخرت حقیقتوں کے کامل ظہور کی دنیا ہے۔ جب تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی تو ایک مخلص آدمی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے گی کہ وہ کیوں اپنے بھائی کے خلاف خواہ مخواہ رنجش رکھے۔ جنت کی زندگی اتنی لطیف اور نفیس زندگی ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم موجودہ دنیا کی لذتیں اور خوشیاں آنے والی لذتوں اور خوشیوں کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہیں۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس جنت کا تعارف اتنا لذیذ ہو وہ خود کتنی زیادہ لذیذ ہوگی۔ موجودہ دنیا میں کوئی شخص بالفرض ہر قسم کی لذتیں جمع کرلے تب بھی طرح طرح کی ناخوشگواریاں اس کی ہر لذت کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔ مگر جنت ایک ایسی جگہ ہے جس کی لذّتیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں سے پاک ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہوگے ۔ اب تم ہمیشہ جیوگے اور کبھی نہ مروگے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔ اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے تم کو یہاں سے کبھی جانا نہ ہوگا (يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَمْرَضُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أبدا، وإن لكم أَنْ تُقِيمُوا فَلَا تَظْعَنُوا أَبَدًا) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 539

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ

📘 دنیا میں انسان کو جو آزادی ملی ہوئی ہے وہ صرف امتحان کی مدّت تک کے لیے ہے۔ یہ ایک بہت نازک صورت حال ہے۔ اگر آدمی واقعی طورپر اس کو سوچے تو وہ ایسا محسوس کرے گا کہ جو مدت کل ختم ہونے والی ہے وہ گویا آج ختم ہوچکی ہے۔ یہ خیال اس کو ہلا کر رکھ دے گا۔ مگر آدمی صرف ’’آج‘‘ میں جیتا ہے، وہ ’’کل‘‘ پر دھیان نہیں دیتا۔ اس کے سامنے حقیقت کھولی جاتی ہے مگر وہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ خود ساختہ طورپر کچھ فرضی سہارے تلاش کرلیتاہے اور سمجھتا ہے کہ یہ سہارے فیصلہ کے وقت اس کے کام آئیں گے۔ مگر غفلت اور خوش گمانی کا طلسم اس وقت ٹوٹ جاتا ہے جب مدت ختم ہوتی ہے اور خدا کے فرشتے اس کے پاس آجاتے ہیں تاکہ اس کو امتحان کی دنیا سے نکال کر انجام کی دنیا میں پہنچا دیں۔ اس وقت اس کو وہ مواقع یادآنے لگتے ہیں جب کہ اس نے ایک سچی دلیل کو جھوٹے الفاظ کے ذریعہ رد کرنے کی کوشش کی تھی۔ جب اس نے ضمیر کی آواز کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی پیروی کی تھی۔ جب اس نے خدا کے داعی میں خدا کی جھلکیاں پانے کے باوجود ذاتی پندار کی خاطر اس کو نظرانداز کردیا تھا۔ جب وہ دیکھے گا کہ میری کوئی تدبیر میرے کام نہیں آئی تو وہ کہے گا کہ کاش میں نے وہ نہ کیا ہوتا جومیں نے کیا۔ کاش میں ’’منکر‘‘ کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائے ’’مسلم‘‘ کا طریقہ اختیار کرتا۔

وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ

📘 جنت کی زندگی بے خوف زندگی ہوگی۔ اس کے مستحق وہ لوگ قرار پائیںگے جنھوں نے دنیا میں خدا کا خوف کیا۔ دنیا میں خدا کا خوف آخرت کی بے خوفی کی قیمت ہے۔ آپس کی رنجشیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک سرکشی کی وجہ سے، دوسری غلط فہمی کی وجہ سے۔ سرکشی کی بنا پر رنجش اور عناد پیدا ہونا سب سے بڑی اجتماعی برائی ہے۔ اہل ایمان کو اسے دنیا ہی میں ختم کرلینا ہے۔ جو لوگ اس کو دنیا میں ختم نہ کریں وہ آخرت میں جہنم کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ دوسری رنجش وہ ہے جو غلط فہمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ کبھی ختم ہوجاتی ہے اور کبھی طرفین کے اخلاص کے باوجود آخر وقت تک باقی رہتی ہے۔ یہ دوسری قسم کی رنجش آخرت میں مکمل طورپر ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ آخرت حقیقتوں کے کامل ظہور کی دنیا ہے۔ جب تمام حقیقتیں بے نقاب ہو کر سامنے آجائیں گی تو ایک مخلص آدمی کے لیے کوئی وجہ باقی نہ رہے گی کہ وہ کیوں اپنے بھائی کے خلاف خواہ مخواہ رنجش رکھے۔ جنت کی زندگی اتنی لطیف اور نفیس زندگی ہے کہ موجودہ دنیا میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم موجودہ دنیا کی لذتیں اور خوشیاں آنے والی لذتوں اور خوشیوں کی دنیا کا ایک ابتدائی تعارف ہیں۔ ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جس جنت کا تعارف اتنا لذیذ ہو وہ خود کتنی زیادہ لذیذ ہوگی۔ موجودہ دنیا میں کوئی شخص بالفرض ہر قسم کی لذتیں جمع کرلے تب بھی طرح طرح کی ناخوشگواریاں اس کی ہر لذت کو بے معنی بنا دیتی ہیں۔ مگر جنت ایک ایسی جگہ ہے جس کی لذّتیں ہر قسم کی ناخوش گواریوں سے پاک ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ صحت مند رہو گے اور کبھی بیمار نہ ہوگے ۔ اب تم ہمیشہ جیوگے اور کبھی نہ مروگے۔ اب تم ہمیشہ جوان رہو گے اور کبھی بوڑھے نہ ہوگے۔ اب تم ہمیشہ یہاں رہو گے تم کو یہاں سے کبھی جانا نہ ہوگا (يُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ، إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَمْرَضُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَعِيشُوا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أبدا، وإن لكم أَنْ تُقِيمُوا فَلَا تَظْعَنُوا أَبَدًا) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 539

وَنَبِّئْهُمْ عَنْ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ

📘 حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے انسانی صورت میںآئے۔ سوال وجواب کے دوران انھوںنے کہا کہ ہم حق کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ حق (امر واقعی) کیا تھا جس کے لیے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی انعام کی بشارت تھی جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان پر جب خدا کوئی غیر معمولی انعام کرنا چاہتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے وہ اس کے پاس خصوصی فرشتے بھیجتاہے۔ اس قسم کے فرشتے پیغمبروں کے پاس بھی آتے ہیں اور غیر پیغمبروں کے پاس بھی۔ فرق یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس فرشتے آتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتا ہے اور شعوری طورپر واقف ہوتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ مگر عام انسان کو اس قسم کا یقینی ادراک نہیں ہوتا۔ البتہ فرشتوں کی خصوصی قربت اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ یہ کیفیات گویا اس کا اشارہ ہوتی ہیں کہ اس وقت آدمی خداکے بھیجے ہوئے خصوصی فرشتوں کی صحبت میں ہے۔

إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ إِنَّا مِنْكُمْ وَجِلُونَ

📘 حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے انسانی صورت میںآئے۔ سوال وجواب کے دوران انھوںنے کہا کہ ہم حق کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ حق (امر واقعی) کیا تھا جس کے لیے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی انعام کی بشارت تھی جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان پر جب خدا کوئی غیر معمولی انعام کرنا چاہتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے وہ اس کے پاس خصوصی فرشتے بھیجتاہے۔ اس قسم کے فرشتے پیغمبروں کے پاس بھی آتے ہیں اور غیر پیغمبروں کے پاس بھی۔ فرق یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس فرشتے آتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتا ہے اور شعوری طورپر واقف ہوتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ مگر عام انسان کو اس قسم کا یقینی ادراک نہیں ہوتا۔ البتہ فرشتوں کی خصوصی قربت اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ یہ کیفیات گویا اس کا اشارہ ہوتی ہیں کہ اس وقت آدمی خداکے بھیجے ہوئے خصوصی فرشتوں کی صحبت میں ہے۔

قَالُوا لَا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ

📘 حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے انسانی صورت میںآئے۔ سوال وجواب کے دوران انھوںنے کہا کہ ہم حق کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ حق (امر واقعی) کیا تھا جس کے لیے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی انعام کی بشارت تھی جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان پر جب خدا کوئی غیر معمولی انعام کرنا چاہتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے وہ اس کے پاس خصوصی فرشتے بھیجتاہے۔ اس قسم کے فرشتے پیغمبروں کے پاس بھی آتے ہیں اور غیر پیغمبروں کے پاس بھی۔ فرق یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس فرشتے آتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتا ہے اور شعوری طورپر واقف ہوتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ مگر عام انسان کو اس قسم کا یقینی ادراک نہیں ہوتا۔ البتہ فرشتوں کی خصوصی قربت اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ یہ کیفیات گویا اس کا اشارہ ہوتی ہیں کہ اس وقت آدمی خداکے بھیجے ہوئے خصوصی فرشتوں کی صحبت میں ہے۔

قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَىٰ أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ

📘 حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے انسانی صورت میںآئے۔ سوال وجواب کے دوران انھوںنے کہا کہ ہم حق کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ حق (امر واقعی) کیا تھا جس کے لیے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی انعام کی بشارت تھی جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان پر جب خدا کوئی غیر معمولی انعام کرنا چاہتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے وہ اس کے پاس خصوصی فرشتے بھیجتاہے۔ اس قسم کے فرشتے پیغمبروں کے پاس بھی آتے ہیں اور غیر پیغمبروں کے پاس بھی۔ فرق یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس فرشتے آتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتا ہے اور شعوری طورپر واقف ہوتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ مگر عام انسان کو اس قسم کا یقینی ادراک نہیں ہوتا۔ البتہ فرشتوں کی خصوصی قربت اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ یہ کیفیات گویا اس کا اشارہ ہوتی ہیں کہ اس وقت آدمی خداکے بھیجے ہوئے خصوصی فرشتوں کی صحبت میں ہے۔

قَالُوا بَشَّرْنَاكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْقَانِطِينَ

📘 حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے انسانی صورت میںآئے۔ سوال وجواب کے دوران انھوںنے کہا کہ ہم حق کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ حق (امر واقعی) کیا تھا جس کے لیے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی انعام کی بشارت تھی جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان پر جب خدا کوئی غیر معمولی انعام کرنا چاہتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے وہ اس کے پاس خصوصی فرشتے بھیجتاہے۔ اس قسم کے فرشتے پیغمبروں کے پاس بھی آتے ہیں اور غیر پیغمبروں کے پاس بھی۔ فرق یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس فرشتے آتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتا ہے اور شعوری طورپر واقف ہوتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ مگر عام انسان کو اس قسم کا یقینی ادراک نہیں ہوتا۔ البتہ فرشتوں کی خصوصی قربت اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ یہ کیفیات گویا اس کا اشارہ ہوتی ہیں کہ اس وقت آدمی خداکے بھیجے ہوئے خصوصی فرشتوں کی صحبت میں ہے۔

قَالَ وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ

📘 حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے انسانی صورت میںآئے۔ سوال وجواب کے دوران انھوںنے کہا کہ ہم حق کے ساتھ آئے ہیں۔ یہ حق (امر واقعی) کیا تھا جس کے لیے فرشتے حضرت ابراہیم کے پاس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی انعام کی بشارت تھی جس کی عام حالات میں توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان پر جب خدا کوئی غیر معمولی انعام کرنا چاہتا ہے تو اس کی تکمیل کے لیے وہ اس کے پاس خصوصی فرشتے بھیجتاہے۔ اس قسم کے فرشتے پیغمبروں کے پاس بھی آتے ہیں اور غیر پیغمبروں کے پاس بھی۔ فرق یہ ہے کہ پیغمبر کے پاس فرشتے آتے ہیں تو وہ ان کو دیکھتا ہے اور شعوری طورپر واقف ہوتا ہے کہ یہ فرشتے ہیں۔ مگر عام انسان کو اس قسم کا یقینی ادراک نہیں ہوتا۔ البتہ فرشتوں کی خصوصی قربت اس کے اندر خصوصی کیفیات پیدا کردیتی ہے۔ یہ کیفیات گویا اس کا اشارہ ہوتی ہیں کہ اس وقت آدمی خداکے بھیجے ہوئے خصوصی فرشتوں کی صحبت میں ہے۔

قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ أَيُّهَا الْمُرْسَلُونَ

📘 حضرت ابراہیم فلسطین میں رہتے تھے۔ اس کے قریب ہی بحر مردار کے کنارے آپ کے بھتیجے حضرت لوط تھے۔ حضرت لوط نے اس علاقہ میں بسنے والوں پر تبلیغ کی۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی سرکشی بڑھتی چلی گئی۔ یہاںتک کہ خدا کا فیصلہ یہ ہوا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے۔ یہ فرشتے اسی خدائی فیصلہ کے نفاذ کے لیے آئے تھے۔ غالباً حضرت لوط کے چند اہل خاندان کے سوا اور کوئی شخص ان پر ایمان نہ لایا۔ گھر سے باہر والوں کے لیے داعی حق کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ کیوںکہ ان کے لیے بہت سی نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہے۔ تاہم خود اپنے خونی رشتہ داروں کے لیے یہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ چنانچہ لوگ نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ داعئ حق کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ حضرت لوط کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ آپ کی دعوت پر غالباً صرف آپ کی لڑکیاںایمان لائیں۔ اولاد کو اپنے باپ سے جو خصوصی تعلق ہوتا ہے، وہ باپ کی دعوت کو قبول کرنے میں خصوصی مدد گار بن جاتا ہے۔ ان لڑکیوں نے حضرت لوط کے ساتھ نجات پائی۔ مگر آپ کی بیوی دل سے آپ کی مومن نہ بن سکی۔ چنانچہ اس کو دوسرے مجرموں کے ساتھ ہلاک کردیاگیا۔ خدا کے قانون میں محض رشتہ داری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُجْرِمِينَ

📘 حضرت ابراہیم فلسطین میں رہتے تھے۔ اس کے قریب ہی بحر مردار کے کنارے آپ کے بھتیجے حضرت لوط تھے۔ حضرت لوط نے اس علاقہ میں بسنے والوں پر تبلیغ کی۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی سرکشی بڑھتی چلی گئی۔ یہاںتک کہ خدا کا فیصلہ یہ ہوا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے۔ یہ فرشتے اسی خدائی فیصلہ کے نفاذ کے لیے آئے تھے۔ غالباً حضرت لوط کے چند اہل خاندان کے سوا اور کوئی شخص ان پر ایمان نہ لایا۔ گھر سے باہر والوں کے لیے داعی حق کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ کیوںکہ ان کے لیے بہت سی نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہے۔ تاہم خود اپنے خونی رشتہ داروں کے لیے یہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ چنانچہ لوگ نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ داعئ حق کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ حضرت لوط کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ آپ کی دعوت پر غالباً صرف آپ کی لڑکیاںایمان لائیں۔ اولاد کو اپنے باپ سے جو خصوصی تعلق ہوتا ہے، وہ باپ کی دعوت کو قبول کرنے میں خصوصی مدد گار بن جاتا ہے۔ ان لڑکیوں نے حضرت لوط کے ساتھ نجات پائی۔ مگر آپ کی بیوی دل سے آپ کی مومن نہ بن سکی۔ چنانچہ اس کو دوسرے مجرموں کے ساتھ ہلاک کردیاگیا۔ خدا کے قانون میں محض رشتہ داری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔

إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 حضرت ابراہیم فلسطین میں رہتے تھے۔ اس کے قریب ہی بحر مردار کے کنارے آپ کے بھتیجے حضرت لوط تھے۔ حضرت لوط نے اس علاقہ میں بسنے والوں پر تبلیغ کی۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی سرکشی بڑھتی چلی گئی۔ یہاںتک کہ خدا کا فیصلہ یہ ہوا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے۔ یہ فرشتے اسی خدائی فیصلہ کے نفاذ کے لیے آئے تھے۔ غالباً حضرت لوط کے چند اہل خاندان کے سوا اور کوئی شخص ان پر ایمان نہ لایا۔ گھر سے باہر والوں کے لیے داعی حق کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ کیوںکہ ان کے لیے بہت سی نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہے۔ تاہم خود اپنے خونی رشتہ داروں کے لیے یہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ چنانچہ لوگ نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ داعئ حق کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ حضرت لوط کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ آپ کی دعوت پر غالباً صرف آپ کی لڑکیاںایمان لائیں۔ اولاد کو اپنے باپ سے جو خصوصی تعلق ہوتا ہے، وہ باپ کی دعوت کو قبول کرنے میں خصوصی مدد گار بن جاتا ہے۔ ان لڑکیوں نے حضرت لوط کے ساتھ نجات پائی۔ مگر آپ کی بیوی دل سے آپ کی مومن نہ بن سکی۔ چنانچہ اس کو دوسرے مجرموں کے ساتھ ہلاک کردیاگیا۔ خدا کے قانون میں محض رشتہ داری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔

وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ

📘 پیغمبر کے مخاطبین نے پیغمبر کے اوپر دیوانگی کا شبہ کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ پیغمبر کی دعوت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’میںخدا کا نمائندہ ہوں۔ جو شخص میری بات مانے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص نہیں مانے گا وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا‘‘۔مگر یہ مخاطبین عملاً جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ اس کے برعکس تھا۔ ان کا اپنا یہ حا ل تھا کہ ان کو رائج الوقت نظام میں سرداری اور پیشوائی کا مقام حاصل تھا۔ دوسری طرف پیغمبر ایک غیر رواجی دین کا داعی ہونے کی وجہ سے مروجہ نظام میں بے حیثیت اور اجنبی بنا ہوا تھا۔ اس فرق کی بنا پر مخاطبین کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ تم ہم کو دیوانہ معلوم ہوتے ہو۔ ہر قسم کی دنیوی خوبیاںتو خدا نے ہم کو دے رکھی ہیں اور تم کہتے ہو کہ کامیابی تمھارے لیے ہے اور تمھارا ساتھ دینے والوں کے لیے۔مگر یہ ان کے زاویۂ نظر کا فرق تھا ۔ وہ اپنی چیزوں کو ’’انعام‘‘ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ حالاں کہ یہ تمام چیزیں صرف ’’آزمائش‘‘ کا سامان ہیں جو موجودہ دنیا میں کسی کو وقتی طورپر دی جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ تمھارے دعوے کے مطابق تمھارے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں تو یہ فرشتے ہمیں کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ یہ بھی زاویۂ نظر کے فرق کی بنا پر تھا۔ پیغمبر کے پاس جو فرشتہ آتا ہے وہ وحی کا فرشتہ ہوتا ہے جو خدا کا کلام پیغمبر تک پہنچاتاہے۔ اس کے علاوہ خداکے وہ فرشتے بھی ہیں جو اس لیے آتے ہیں کہ وہ حقیقت کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کردیں ۔ مگر وہ دعوت کی تکمیل کے بعد آتے ہیں اورجب وہ آتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ایمان کی طرف بلانے کا۔

إِلَّا امْرَأَتَهُ قَدَّرْنَا ۙ إِنَّهَا لَمِنَ الْغَابِرِينَ

📘 حضرت ابراہیم فلسطین میں رہتے تھے۔ اس کے قریب ہی بحر مردار کے کنارے آپ کے بھتیجے حضرت لوط تھے۔ حضرت لوط نے اس علاقہ میں بسنے والوں پر تبلیغ کی۔ مگر وہ اصلاح قبول کرنے پر راضی نہ ہوئے۔ ان کی سرکشی بڑھتی چلی گئی۔ یہاںتک کہ خدا کا فیصلہ یہ ہوا کہ ان کو ہلاک کردیا جائے۔ یہ فرشتے اسی خدائی فیصلہ کے نفاذ کے لیے آئے تھے۔ غالباً حضرت لوط کے چند اہل خاندان کے سوا اور کوئی شخص ان پر ایمان نہ لایا۔ گھر سے باہر والوں کے لیے داعی حق کو قبول کرنا بہت مشکل ہوتاہے۔ کیوںکہ ان کے لیے بہت سی نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہوجاتی ہے۔ تاہم خود اپنے خونی رشتہ داروں کے لیے یہ رکاوٹیں نہیں ہوتیں۔ چنانچہ لوگ نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ داعئ حق کے ساتھی بن جاتے ہیں۔ حضرت لوط کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ آپ کی دعوت پر غالباً صرف آپ کی لڑکیاںایمان لائیں۔ اولاد کو اپنے باپ سے جو خصوصی تعلق ہوتا ہے، وہ باپ کی دعوت کو قبول کرنے میں خصوصی مدد گار بن جاتا ہے۔ ان لڑکیوں نے حضرت لوط کے ساتھ نجات پائی۔ مگر آپ کی بیوی دل سے آپ کی مومن نہ بن سکی۔ چنانچہ اس کو دوسرے مجرموں کے ساتھ ہلاک کردیاگیا۔ خدا کے قانون میں محض رشتہ داری کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی۔

فَلَمَّا جَاءَ آلَ لُوطٍ الْمُرْسَلُونَ

📘 ایک ’’حق‘‘ وہ تھا جس کو لے کر فرشتے حضرت ابراہیم ؑکے پاس آئے تھے۔ دوسرا حق وہ ہے جس کو لے کر وہ حضرت لوط کے پاس پہنچے۔ پہلا حق خداکے خصوصی انعام کی صورت میں تھا۔ دوسرا حق خدا کی خصوصی سزا کی صورت میں۔ حضرت لوط کے پاس فرشتے انسان کی صورت میں آئے۔ یہ فرشتے اس لیے آئے تھے کہ وہ پیغمبر کو نہ ماننے والوں کے درمیان وہ فیصلہ نافذ کردیں جو خدا نے ان کی سرکشی کی بنا پر ان کے لیے مقدر کیاہے۔ ان کی ہدایت کے مطابق، حضرت لوط رات کے اندھیرے میں دوسرے اہل ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ اس کے بعد صبح سویرے شدید زلزلہ کے دھماکوں سے وہ پورا علاقہ تلپٹ ہوگیا۔ تمام منکرین انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔ یہ ہلاکت کہاں ہوئی۔ یہ ان کی اسی دنیا میں ہوئی جس کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے۔ جہاں کی ہر چیز ان کو اپنی ساتھی اور مدد گار دکھائی دیتی تھی۔ خدا جب حکم دیتا ہے تو عین وہی نقشہ آدمی کے لیے ہلاکت کا نقشہ بن جاتاہے، جس کو وہ اپنے لیے کامیابی کا نقشہ سمجھے ہوئے تھا۔ جس محل کے اندر اپنے آپ کو پاکر آدمی فخر کرتاہے اس محل کو اس طرح کھنڈر کردیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ایک ملبہ تھا جو آدمی کے سرپر پٹک دیاگیا۔

قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُنْكَرُونَ

📘 ایک ’’حق‘‘ وہ تھا جس کو لے کر فرشتے حضرت ابراہیم ؑکے پاس آئے تھے۔ دوسرا حق وہ ہے جس کو لے کر وہ حضرت لوط کے پاس پہنچے۔ پہلا حق خداکے خصوصی انعام کی صورت میں تھا۔ دوسرا حق خدا کی خصوصی سزا کی صورت میں۔ حضرت لوط کے پاس فرشتے انسان کی صورت میں آئے۔ یہ فرشتے اس لیے آئے تھے کہ وہ پیغمبر کو نہ ماننے والوں کے درمیان وہ فیصلہ نافذ کردیں جو خدا نے ان کی سرکشی کی بنا پر ان کے لیے مقدر کیاہے۔ ان کی ہدایت کے مطابق، حضرت لوط رات کے اندھیرے میں دوسرے اہل ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ اس کے بعد صبح سویرے شدید زلزلہ کے دھماکوں سے وہ پورا علاقہ تلپٹ ہوگیا۔ تمام منکرین انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔ یہ ہلاکت کہاں ہوئی۔ یہ ان کی اسی دنیا میں ہوئی جس کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے۔ جہاں کی ہر چیز ان کو اپنی ساتھی اور مدد گار دکھائی دیتی تھی۔ خدا جب حکم دیتا ہے تو عین وہی نقشہ آدمی کے لیے ہلاکت کا نقشہ بن جاتاہے، جس کو وہ اپنے لیے کامیابی کا نقشہ سمجھے ہوئے تھا۔ جس محل کے اندر اپنے آپ کو پاکر آدمی فخر کرتاہے اس محل کو اس طرح کھنڈر کردیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ایک ملبہ تھا جو آدمی کے سرپر پٹک دیاگیا۔

قَالُوا بَلْ جِئْنَاكَ بِمَا كَانُوا فِيهِ يَمْتَرُونَ

📘 ایک ’’حق‘‘ وہ تھا جس کو لے کر فرشتے حضرت ابراہیم ؑکے پاس آئے تھے۔ دوسرا حق وہ ہے جس کو لے کر وہ حضرت لوط کے پاس پہنچے۔ پہلا حق خداکے خصوصی انعام کی صورت میں تھا۔ دوسرا حق خدا کی خصوصی سزا کی صورت میں۔ حضرت لوط کے پاس فرشتے انسان کی صورت میں آئے۔ یہ فرشتے اس لیے آئے تھے کہ وہ پیغمبر کو نہ ماننے والوں کے درمیان وہ فیصلہ نافذ کردیں جو خدا نے ان کی سرکشی کی بنا پر ان کے لیے مقدر کیاہے۔ ان کی ہدایت کے مطابق، حضرت لوط رات کے اندھیرے میں دوسرے اہل ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ اس کے بعد صبح سویرے شدید زلزلہ کے دھماکوں سے وہ پورا علاقہ تلپٹ ہوگیا۔ تمام منکرین انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔ یہ ہلاکت کہاں ہوئی۔ یہ ان کی اسی دنیا میں ہوئی جس کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے۔ جہاں کی ہر چیز ان کو اپنی ساتھی اور مدد گار دکھائی دیتی تھی۔ خدا جب حکم دیتا ہے تو عین وہی نقشہ آدمی کے لیے ہلاکت کا نقشہ بن جاتاہے، جس کو وہ اپنے لیے کامیابی کا نقشہ سمجھے ہوئے تھا۔ جس محل کے اندر اپنے آپ کو پاکر آدمی فخر کرتاہے اس محل کو اس طرح کھنڈر کردیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ایک ملبہ تھا جو آدمی کے سرپر پٹک دیاگیا۔

وَأَتَيْنَاكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ

📘 ایک ’’حق‘‘ وہ تھا جس کو لے کر فرشتے حضرت ابراہیم ؑکے پاس آئے تھے۔ دوسرا حق وہ ہے جس کو لے کر وہ حضرت لوط کے پاس پہنچے۔ پہلا حق خداکے خصوصی انعام کی صورت میں تھا۔ دوسرا حق خدا کی خصوصی سزا کی صورت میں۔ حضرت لوط کے پاس فرشتے انسان کی صورت میں آئے۔ یہ فرشتے اس لیے آئے تھے کہ وہ پیغمبر کو نہ ماننے والوں کے درمیان وہ فیصلہ نافذ کردیں جو خدا نے ان کی سرکشی کی بنا پر ان کے لیے مقدر کیاہے۔ ان کی ہدایت کے مطابق، حضرت لوط رات کے اندھیرے میں دوسرے اہل ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ اس کے بعد صبح سویرے شدید زلزلہ کے دھماکوں سے وہ پورا علاقہ تلپٹ ہوگیا۔ تمام منکرین انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔ یہ ہلاکت کہاں ہوئی۔ یہ ان کی اسی دنیا میں ہوئی جس کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے۔ جہاں کی ہر چیز ان کو اپنی ساتھی اور مدد گار دکھائی دیتی تھی۔ خدا جب حکم دیتا ہے تو عین وہی نقشہ آدمی کے لیے ہلاکت کا نقشہ بن جاتاہے، جس کو وہ اپنے لیے کامیابی کا نقشہ سمجھے ہوئے تھا۔ جس محل کے اندر اپنے آپ کو پاکر آدمی فخر کرتاہے اس محل کو اس طرح کھنڈر کردیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ایک ملبہ تھا جو آدمی کے سرپر پٹک دیاگیا۔

فَأَسْرِ بِأَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِنَ اللَّيْلِ وَاتَّبِعْ أَدْبَارَهُمْ وَلَا يَلْتَفِتْ مِنْكُمْ أَحَدٌ وَامْضُوا حَيْثُ تُؤْمَرُونَ

📘 ایک ’’حق‘‘ وہ تھا جس کو لے کر فرشتے حضرت ابراہیم ؑکے پاس آئے تھے۔ دوسرا حق وہ ہے جس کو لے کر وہ حضرت لوط کے پاس پہنچے۔ پہلا حق خداکے خصوصی انعام کی صورت میں تھا۔ دوسرا حق خدا کی خصوصی سزا کی صورت میں۔ حضرت لوط کے پاس فرشتے انسان کی صورت میں آئے۔ یہ فرشتے اس لیے آئے تھے کہ وہ پیغمبر کو نہ ماننے والوں کے درمیان وہ فیصلہ نافذ کردیں جو خدا نے ان کی سرکشی کی بنا پر ان کے لیے مقدر کیاہے۔ ان کی ہدایت کے مطابق، حضرت لوط رات کے اندھیرے میں دوسرے اہل ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ اس کے بعد صبح سویرے شدید زلزلہ کے دھماکوں سے وہ پورا علاقہ تلپٹ ہوگیا۔ تمام منکرین انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔ یہ ہلاکت کہاں ہوئی۔ یہ ان کی اسی دنیا میں ہوئی جس کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے۔ جہاں کی ہر چیز ان کو اپنی ساتھی اور مدد گار دکھائی دیتی تھی۔ خدا جب حکم دیتا ہے تو عین وہی نقشہ آدمی کے لیے ہلاکت کا نقشہ بن جاتاہے، جس کو وہ اپنے لیے کامیابی کا نقشہ سمجھے ہوئے تھا۔ جس محل کے اندر اپنے آپ کو پاکر آدمی فخر کرتاہے اس محل کو اس طرح کھنڈر کردیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ایک ملبہ تھا جو آدمی کے سرپر پٹک دیاگیا۔

وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَٰلِكَ الْأَمْرَ أَنَّ دَابِرَ هَٰؤُلَاءِ مَقْطُوعٌ مُصْبِحِينَ

📘 ایک ’’حق‘‘ وہ تھا جس کو لے کر فرشتے حضرت ابراہیم ؑکے پاس آئے تھے۔ دوسرا حق وہ ہے جس کو لے کر وہ حضرت لوط کے پاس پہنچے۔ پہلا حق خداکے خصوصی انعام کی صورت میں تھا۔ دوسرا حق خدا کی خصوصی سزا کی صورت میں۔ حضرت لوط کے پاس فرشتے انسان کی صورت میں آئے۔ یہ فرشتے اس لیے آئے تھے کہ وہ پیغمبر کو نہ ماننے والوں کے درمیان وہ فیصلہ نافذ کردیں جو خدا نے ان کی سرکشی کی بنا پر ان کے لیے مقدر کیاہے۔ ان کی ہدایت کے مطابق، حضرت لوط رات کے اندھیرے میں دوسرے اہل ایمان کو لے کر بستی سے نکل گئے۔ اس کے بعد صبح سویرے شدید زلزلہ کے دھماکوں سے وہ پورا علاقہ تلپٹ ہوگیا۔ تمام منکرین انتہائی بے دردی کے ساتھ ہلاک کردیے گئے۔ یہ ہلاکت کہاں ہوئی۔ یہ ان کی اسی دنیا میں ہوئی جس کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے۔ جہاں کی ہر چیز ان کو اپنی ساتھی اور مدد گار دکھائی دیتی تھی۔ خدا جب حکم دیتا ہے تو عین وہی نقشہ آدمی کے لیے ہلاکت کا نقشہ بن جاتاہے، جس کو وہ اپنے لیے کامیابی کا نقشہ سمجھے ہوئے تھا۔ جس محل کے اندر اپنے آپ کو پاکر آدمی فخر کرتاہے اس محل کو اس طرح کھنڈر کردیا جاتا ہے جیسے کہ وہ ایک ملبہ تھا جو آدمی کے سرپر پٹک دیاگیا۔

وَجَاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ

📘 قومِ لوط کی بستی (سدوم) میں جو فرشتے آئے وہ نہایت خوبصورت نوجوان کی صورت میں آئے۔ یہ گویا فحاشی میں ڈوبی ہوئی اس قوم کی جانچ کا آخری پرچہ تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی بڑھی ہوئی سرکشی کی بنا پر ان نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ حسب عادت ان کے ساتھ بد کاری کرنا چاہتے تھے۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ جن کو پرکشش نوجوان سمجھ رہے ہیں وہ دراصل عذاب کے فرشتے ہیں، جو صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کو ہمیشہ کے لیے ذلیل کرکے چھوڑ دیں۔ ’’میری بیٹیاں‘‘ سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت لوط نے جب دیکھا کہ ظالم لوگ منع کرنے کے باوجود مہمانوںپر ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے کہا کہ خدارا، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھ کو رسوا نہ کرو۔ اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو یہ قوم کی لڑکیاں ہیں ان میں سے جس سے چاہو نکاح کرلو۔

قَالَ إِنَّ هَٰؤُلَاءِ ضَيْفِي فَلَا تَفْضَحُونِ

📘 قومِ لوط کی بستی (سدوم) میں جو فرشتے آئے وہ نہایت خوبصورت نوجوان کی صورت میں آئے۔ یہ گویا فحاشی میں ڈوبی ہوئی اس قوم کی جانچ کا آخری پرچہ تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی بڑھی ہوئی سرکشی کی بنا پر ان نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ حسب عادت ان کے ساتھ بد کاری کرنا چاہتے تھے۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ جن کو پرکشش نوجوان سمجھ رہے ہیں وہ دراصل عذاب کے فرشتے ہیں، جو صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کو ہمیشہ کے لیے ذلیل کرکے چھوڑ دیں۔ ’’میری بیٹیاں‘‘ سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت لوط نے جب دیکھا کہ ظالم لوگ منع کرنے کے باوجود مہمانوںپر ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے کہا کہ خدارا، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھ کو رسوا نہ کرو۔ اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو یہ قوم کی لڑکیاں ہیں ان میں سے جس سے چاہو نکاح کرلو۔

وَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ

📘 قومِ لوط کی بستی (سدوم) میں جو فرشتے آئے وہ نہایت خوبصورت نوجوان کی صورت میں آئے۔ یہ گویا فحاشی میں ڈوبی ہوئی اس قوم کی جانچ کا آخری پرچہ تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی بڑھی ہوئی سرکشی کی بنا پر ان نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ حسب عادت ان کے ساتھ بد کاری کرنا چاہتے تھے۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ جن کو پرکشش نوجوان سمجھ رہے ہیں وہ دراصل عذاب کے فرشتے ہیں، جو صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کو ہمیشہ کے لیے ذلیل کرکے چھوڑ دیں۔ ’’میری بیٹیاں‘‘ سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت لوط نے جب دیکھا کہ ظالم لوگ منع کرنے کے باوجود مہمانوںپر ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے کہا کہ خدارا، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھ کو رسوا نہ کرو۔ اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو یہ قوم کی لڑکیاں ہیں ان میں سے جس سے چاہو نکاح کرلو۔

لَوْ مَا تَأْتِينَا بِالْمَلَائِكَةِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ

📘 پیغمبر کے مخاطبین نے پیغمبر کے اوپر دیوانگی کا شبہ کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ پیغمبر کی دعوت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’میںخدا کا نمائندہ ہوں۔ جو شخص میری بات مانے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص نہیں مانے گا وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا‘‘۔مگر یہ مخاطبین عملاً جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ اس کے برعکس تھا۔ ان کا اپنا یہ حا ل تھا کہ ان کو رائج الوقت نظام میں سرداری اور پیشوائی کا مقام حاصل تھا۔ دوسری طرف پیغمبر ایک غیر رواجی دین کا داعی ہونے کی وجہ سے مروجہ نظام میں بے حیثیت اور اجنبی بنا ہوا تھا۔ اس فرق کی بنا پر مخاطبین کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ تم ہم کو دیوانہ معلوم ہوتے ہو۔ ہر قسم کی دنیوی خوبیاںتو خدا نے ہم کو دے رکھی ہیں اور تم کہتے ہو کہ کامیابی تمھارے لیے ہے اور تمھارا ساتھ دینے والوں کے لیے۔مگر یہ ان کے زاویۂ نظر کا فرق تھا ۔ وہ اپنی چیزوں کو ’’انعام‘‘ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ حالاں کہ یہ تمام چیزیں صرف ’’آزمائش‘‘ کا سامان ہیں جو موجودہ دنیا میں کسی کو وقتی طورپر دی جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ تمھارے دعوے کے مطابق تمھارے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں تو یہ فرشتے ہمیں کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ یہ بھی زاویۂ نظر کے فرق کی بنا پر تھا۔ پیغمبر کے پاس جو فرشتہ آتا ہے وہ وحی کا فرشتہ ہوتا ہے جو خدا کا کلام پیغمبر تک پہنچاتاہے۔ اس کے علاوہ خداکے وہ فرشتے بھی ہیں جو اس لیے آتے ہیں کہ وہ حقیقت کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کردیں ۔ مگر وہ دعوت کی تکمیل کے بعد آتے ہیں اورجب وہ آتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ایمان کی طرف بلانے کا۔

قَالُوا أَوَلَمْ نَنْهَكَ عَنِ الْعَالَمِينَ

📘 قومِ لوط کی بستی (سدوم) میں جو فرشتے آئے وہ نہایت خوبصورت نوجوان کی صورت میں آئے۔ یہ گویا فحاشی میں ڈوبی ہوئی اس قوم کی جانچ کا آخری پرچہ تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی بڑھی ہوئی سرکشی کی بنا پر ان نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ حسب عادت ان کے ساتھ بد کاری کرنا چاہتے تھے۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ جن کو پرکشش نوجوان سمجھ رہے ہیں وہ دراصل عذاب کے فرشتے ہیں، جو صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کو ہمیشہ کے لیے ذلیل کرکے چھوڑ دیں۔ ’’میری بیٹیاں‘‘ سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت لوط نے جب دیکھا کہ ظالم لوگ منع کرنے کے باوجود مہمانوںپر ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے کہا کہ خدارا، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھ کو رسوا نہ کرو۔ اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو یہ قوم کی لڑکیاں ہیں ان میں سے جس سے چاہو نکاح کرلو۔

قَالَ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي إِنْ كُنْتُمْ فَاعِلِينَ

📘 قومِ لوط کی بستی (سدوم) میں جو فرشتے آئے وہ نہایت خوبصورت نوجوان کی صورت میں آئے۔ یہ گویا فحاشی میں ڈوبی ہوئی اس قوم کی جانچ کا آخری پرچہ تھا۔ چنانچہ یہ لوگ اپنی بڑھی ہوئی سرکشی کی بنا پر ان نوجوان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ حسب عادت ان کے ساتھ بد کاری کرنا چاہتے تھے۔ مگر انھیں معلوم نہ تھا کہ وہ جن کو پرکشش نوجوان سمجھ رہے ہیں وہ دراصل عذاب کے فرشتے ہیں، جو صرف اس لیے آئے ہیں کہ ان کو ہمیشہ کے لیے ذلیل کرکے چھوڑ دیں۔ ’’میری بیٹیاں‘‘ سے مراد قوم کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت لوط نے جب دیکھا کہ ظالم لوگ منع کرنے کے باوجود مہمانوںپر ٹوٹے پڑ رہے ہیں تو آپ نے ان سے کہا کہ خدارا، میرے مہمانوں کے معاملہ میں مجھ کو رسوا نہ کرو۔ اگر تم کو کچھ کرنا ہے تو یہ قوم کی لڑکیاں ہیں ان میں سے جس سے چاہو نکاح کرلو۔

لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 قوم لوط کا یہ حال کیوں ہوا کہ وہ سرکشی میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے معاملہ کو حضرت لوط کی نسبت سے دیکھا۔ چونکہ وہ حضرت لوط کے مقابلہ میں طاقت ور تھے۔ اس لیے انھوں نے سمجھا کہ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارا کچھ بگاڑنے والا نہیں۔ اگر وہ معاملہ کو اللہ کی نسبت سے دیکھتے تو صورت حال بالکل برعکس ہوتی۔ اب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کی سرکشی سراسر مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ خداکے مقابلہ میں کسی بھی طاقت ور کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عین صبح کو ان پر کڑک چمک کا شدید طوفان آیا۔ خدا نے ہواؤں کوحکم دیا اور انھوں نے قوم لوط کی بستیوں (سدوم اور عمورہ) پر کنکریوں کی بارش شروع کردی۔ قوم کی قوم تھوڑی دیر میں تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعہ میں غور کرنے والوںکے لیے یہ نصیحت ہے کہ اس دنیا میں کسی کا سابقہ حقیقۃً انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہوجائے۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُشْرِقِينَ

📘 قوم لوط کا یہ حال کیوں ہوا کہ وہ سرکشی میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے معاملہ کو حضرت لوط کی نسبت سے دیکھا۔ چونکہ وہ حضرت لوط کے مقابلہ میں طاقت ور تھے۔ اس لیے انھوں نے سمجھا کہ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارا کچھ بگاڑنے والا نہیں۔ اگر وہ معاملہ کو اللہ کی نسبت سے دیکھتے تو صورت حال بالکل برعکس ہوتی۔ اب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کی سرکشی سراسر مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ خداکے مقابلہ میں کسی بھی طاقت ور کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عین صبح کو ان پر کڑک چمک کا شدید طوفان آیا۔ خدا نے ہواؤں کوحکم دیا اور انھوں نے قوم لوط کی بستیوں (سدوم اور عمورہ) پر کنکریوں کی بارش شروع کردی۔ قوم کی قوم تھوڑی دیر میں تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعہ میں غور کرنے والوںکے لیے یہ نصیحت ہے کہ اس دنیا میں کسی کا سابقہ حقیقۃً انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہوجائے۔

فَجَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِنْ سِجِّيلٍ

📘 قوم لوط کا یہ حال کیوں ہوا کہ وہ سرکشی میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے معاملہ کو حضرت لوط کی نسبت سے دیکھا۔ چونکہ وہ حضرت لوط کے مقابلہ میں طاقت ور تھے۔ اس لیے انھوں نے سمجھا کہ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارا کچھ بگاڑنے والا نہیں۔ اگر وہ معاملہ کو اللہ کی نسبت سے دیکھتے تو صورت حال بالکل برعکس ہوتی۔ اب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کی سرکشی سراسر مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ خداکے مقابلہ میں کسی بھی طاقت ور کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عین صبح کو ان پر کڑک چمک کا شدید طوفان آیا۔ خدا نے ہواؤں کوحکم دیا اور انھوں نے قوم لوط کی بستیوں (سدوم اور عمورہ) پر کنکریوں کی بارش شروع کردی۔ قوم کی قوم تھوڑی دیر میں تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعہ میں غور کرنے والوںکے لیے یہ نصیحت ہے کہ اس دنیا میں کسی کا سابقہ حقیقۃً انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہوجائے۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِينَ

📘 قوم لوط کا یہ حال کیوں ہوا کہ وہ سرکشی میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے معاملہ کو حضرت لوط کی نسبت سے دیکھا۔ چونکہ وہ حضرت لوط کے مقابلہ میں طاقت ور تھے۔ اس لیے انھوں نے سمجھا کہ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارا کچھ بگاڑنے والا نہیں۔ اگر وہ معاملہ کو اللہ کی نسبت سے دیکھتے تو صورت حال بالکل برعکس ہوتی۔ اب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کی سرکشی سراسر مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ خداکے مقابلہ میں کسی بھی طاقت ور کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عین صبح کو ان پر کڑک چمک کا شدید طوفان آیا۔ خدا نے ہواؤں کوحکم دیا اور انھوں نے قوم لوط کی بستیوں (سدوم اور عمورہ) پر کنکریوں کی بارش شروع کردی۔ قوم کی قوم تھوڑی دیر میں تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعہ میں غور کرنے والوںکے لیے یہ نصیحت ہے کہ اس دنیا میں کسی کا سابقہ حقیقۃً انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہوجائے۔

وَإِنَّهَا لَبِسَبِيلٍ مُقِيمٍ

📘 قوم لوط کا یہ حال کیوں ہوا کہ وہ سرکشی میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے معاملہ کو حضرت لوط کی نسبت سے دیکھا۔ چونکہ وہ حضرت لوط کے مقابلہ میں طاقت ور تھے۔ اس لیے انھوں نے سمجھا کہ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارا کچھ بگاڑنے والا نہیں۔ اگر وہ معاملہ کو اللہ کی نسبت سے دیکھتے تو صورت حال بالکل برعکس ہوتی۔ اب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کی سرکشی سراسر مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ خداکے مقابلہ میں کسی بھی طاقت ور کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عین صبح کو ان پر کڑک چمک کا شدید طوفان آیا۔ خدا نے ہواؤں کوحکم دیا اور انھوں نے قوم لوط کی بستیوں (سدوم اور عمورہ) پر کنکریوں کی بارش شروع کردی۔ قوم کی قوم تھوڑی دیر میں تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعہ میں غور کرنے والوںکے لیے یہ نصیحت ہے کہ اس دنیا میں کسی کا سابقہ حقیقۃً انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہوجائے۔

إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 قوم لوط کا یہ حال کیوں ہوا کہ وہ سرکشی میں آپے سے باہر ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے معاملہ کو حضرت لوط کی نسبت سے دیکھا۔ چونکہ وہ حضرت لوط کے مقابلہ میں طاقت ور تھے۔ اس لیے انھوں نے سمجھا کہ ہم جو چاہیں کریں، کوئی ہمارا کچھ بگاڑنے والا نہیں۔ اگر وہ معاملہ کو اللہ کی نسبت سے دیکھتے تو صورت حال بالکل برعکس ہوتی۔ اب ان کو معلوم ہوتا کہ ان کی سرکشی سراسر مضحکہ خیز ہے۔ کیوں کہ خداکے مقابلہ میں کسی بھی طاقت ور کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ عین صبح کو ان پر کڑک چمک کا شدید طوفان آیا۔ خدا نے ہواؤں کوحکم دیا اور انھوں نے قوم لوط کی بستیوں (سدوم اور عمورہ) پر کنکریوں کی بارش شروع کردی۔ قوم کی قوم تھوڑی دیر میں تباہ ہو کر رہ گئی۔ اس واقعہ میں غور کرنے والوںکے لیے یہ نصیحت ہے کہ اس دنیا میں کسی کا سابقہ حقیقۃً انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اگر آدمی اس حقیقت کو جان لے تو اس کی ساری سرکشی ختم ہوجائے۔

وَإِنْ كَانَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ لَظَالِمِينَ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ وَإِنَّهُمَا لَبِإِمَامٍ مُبِينٍ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا كَانُوا إِذًا مُنْظَرِينَ

📘 پیغمبر کے مخاطبین نے پیغمبر کے اوپر دیوانگی کا شبہ کیا۔ اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی وجہ پیغمبر کی دعوت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ’’میںخدا کا نمائندہ ہوں۔ جو شخص میری بات مانے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص نہیں مانے گا وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا‘‘۔مگر یہ مخاطبین عملاً جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ اس کے برعکس تھا۔ ان کا اپنا یہ حا ل تھا کہ ان کو رائج الوقت نظام میں سرداری اور پیشوائی کا مقام حاصل تھا۔ دوسری طرف پیغمبر ایک غیر رواجی دین کا داعی ہونے کی وجہ سے مروجہ نظام میں بے حیثیت اور اجنبی بنا ہوا تھا۔ اس فرق کی بنا پر مخاطبین کو یہ کہنے کی جرأت ہوئی کہ تم ہم کو دیوانہ معلوم ہوتے ہو۔ ہر قسم کی دنیوی خوبیاںتو خدا نے ہم کو دے رکھی ہیں اور تم کہتے ہو کہ کامیابی تمھارے لیے ہے اور تمھارا ساتھ دینے والوں کے لیے۔مگر یہ ان کے زاویۂ نظر کا فرق تھا ۔ وہ اپنی چیزوں کو ’’انعام‘‘ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ حالاں کہ یہ تمام چیزیں صرف ’’آزمائش‘‘ کا سامان ہیں جو موجودہ دنیا میں کسی کو وقتی طورپر دی جاتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ تمھارے دعوے کے مطابق تمھارے پاس خدا کے فرشتے آتے ہیں تو یہ فرشتے ہمیں کیوں نہیں دکھائی دیتے۔ یہ بھی زاویۂ نظر کے فرق کی بنا پر تھا۔ پیغمبر کے پاس جو فرشتہ آتا ہے وہ وحی کا فرشتہ ہوتا ہے جو خدا کا کلام پیغمبر تک پہنچاتاہے۔ اس کے علاوہ خداکے وہ فرشتے بھی ہیں جو اس لیے آتے ہیں کہ وہ حقیقت کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کردیں ۔ مگر وہ دعوت کی تکمیل کے بعد آتے ہیں اورجب وہ آتے ہیں تو یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ایمان کی طرف بلانے کا۔

وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

وَآتَيْنَاهُمْ آيَاتِنَا فَكَانُوا عَنْهَا مُعْرِضِينَ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

وَكَانُوا يَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا آمِنِينَ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ مُصْبِحِينَ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 اصحاب ایکہ سے مراد حضرت شعیب کی قوم ہے۔ اس قوم کا اصل نام بنی مدیان تھا۔ یہ لوگ موجودہ تبوک کے علاقہ میں آباد تھے۔ اصحاب حجر سے مراد قوم ثمود ہے جس کی طرف حضرت صالح مبعوث ہوئے۔ یہ علاقہ موجودہ مدینہ کے شمال میں واقع تھا۔ اصحاب ایکہ کی سرکشی نے ان کو نہ صرف شرک میں مبتلا کیا بلکہ ان کو بدترین اخلاقی جرائم تک پہنچا دیا۔ حضرت شعیب کی یاد دہانی کے باوجود انھوں نے سبق نہیں لیاتو خدا نے زمین کو حکم دیا۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جو زمین ان کے لیے گہوارہ عیش بنی ہوئی تھی، وہی ان کے لیے گہوارۂ عذاب بن گئی۔ قوم ثمود سنگ تراشی کے فن میں ماہر تھے۔ انھوںنے پہاڑوں کو کاٹ کر ان کو شاندار گھروں میں تبدیل کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ انھوں نے اپنی حفاظت کا آخری انتظام کرلیا ہے۔ جب انھوں نے خدا کی پکار کو نظر انداز کردیا تو خدا نے حکم دیا اور ان کے عظیم مکانات ان کے لیے عظیم قبروں میں تبدیل ہوگئے۔

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ ۖ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ

📘 زمین وآسمان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورا نظام حد درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر چیز ٹھیک ویسی ہی ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے۔ اس پورے نظام میں صرف انسان ہے جو خلافِ حقیقت رویہ اختیار کرتاہے۔ انسان اور کائنات میں یہ تضاد تقاضا کرتاہے کہ وہ ختم ہو۔ قیامت کا عقیدہ اس اعتبار سے عین عقلی اور منطقی عقیدہ ہے۔ کیوں کہ قیامت کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے جو اس تضاد کو ختم کرنے والی ہو۔ دعوت الی اللہ کے عمل کا ایک اہم جزء ’’اعراض‘‘ ہے۔ یعنی مخاطب جب غیر متعلق بحث اور جھگڑا چھیڑے تو اس کے ساتھ مشغول ہونے کے بجائے اس سے الگ ہوجانا۔ اعراض کا اصول اختیار کيے بغیر دعوت کا کام موثر طورپر نہیں کیا جاسکتا۔ اعراض کی مصلحت یہ ہے کہ مدعو ہمیشہ داعی سے غیر متعلق جھگڑے چھیڑتا ہے۔ اب اگر داعی یہ کرے کہ ہر ایسے موقع پر مدعو سے لڑ جائے تو غیر متعلق امور پر ٹکراؤ تو خوب ہوگا مگر اصل دعوتی کام بغیر ہوئے پڑا رہ جائے گا۔

إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ

📘 زمین وآسمان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ پورا نظام حد درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ یہاں ہر چیز ٹھیک ویسی ہی ہے جیسا کہ اسے ہونا چاہیے۔ اس پورے نظام میں صرف انسان ہے جو خلافِ حقیقت رویہ اختیار کرتاہے۔ انسان اور کائنات میں یہ تضاد تقاضا کرتاہے کہ وہ ختم ہو۔ قیامت کا عقیدہ اس اعتبار سے عین عقلی اور منطقی عقیدہ ہے۔ کیوں کہ قیامت کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے جو اس تضاد کو ختم کرنے والی ہو۔ دعوت الی اللہ کے عمل کا ایک اہم جزء ’’اعراض‘‘ ہے۔ یعنی مخاطب جب غیر متعلق بحث اور جھگڑا چھیڑے تو اس کے ساتھ مشغول ہونے کے بجائے اس سے الگ ہوجانا۔ اعراض کا اصول اختیار کيے بغیر دعوت کا کام موثر طورپر نہیں کیا جاسکتا۔ اعراض کی مصلحت یہ ہے کہ مدعو ہمیشہ داعی سے غیر متعلق جھگڑے چھیڑتا ہے۔ اب اگر داعی یہ کرے کہ ہر ایسے موقع پر مدعو سے لڑ جائے تو غیر متعلق امور پر ٹکراؤ تو خوب ہوگا مگر اصل دعوتی کام بغیر ہوئے پڑا رہ جائے گا۔

وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ

📘 قرآن کو خدا نے اتارا ہے اور وہی اس کی حفاظت کرنے والا ہے— نزولِ قرآن کے وقت اس ارشاد کا براہِ راست خطاب قریش سے تھا۔ مگر وسیع تر معنوں میں یہ پوری انسانیت کے لیے ایک چیلنج تھا۔ اس طرح ساتویں صدی عیسوی سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کے سامنے ایک ایسا قطعی معیار رکھ دیاگیا جس کے اوپر جانچ کر وہ دیکھ سکیں کہ قرآن واقعی خدا کی کتاب ہے یا نہیں۔ جس وقت یہ چیلنج دیاگیا اس وقت تمام ظاہری امکانات اس کے سراسر خلاف تھے۔ کسی نزاعی کتاب کو مستقل طورپر محفوظ رکھنے کے لیے طاقت ور جماعت درکار ہے۔ اور نزولِ قرآن کے وقت اس کے حاملین اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں بالکل کمزور حیثیت رکھتے تھے۔ کاغذ اور پریس کا دور ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا جس نے موجودہ زمانہ میں کسی کتاب کی حفاظت کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ کتاب جیسی ایک چیز کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کی زبان کو محفوظ رکھنا بھی لازمی طورپر ضروری تھا، جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی زبان کبھی مستقل طورپر باقی نہیں رہتی۔ قرآن موجودہ سائنسی دور سے بہت پہلے روایتی دور میں آیا۔ ایسی حالت میں اس کے زندہ اور محفوظ رہنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے مضامین ابدی جانچ میں پورے اتریں۔ ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن پوری طرح محفوظ رہا۔ اور آج بھی وہ پوری طرح محفوظ ہے۔ یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ یہ خدا کی کتاب ہے۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے دور میں تیار کی جانے والی کوئی بھی کتاب اس طرح زندہ اور محفوظ نہیں جس طرح قرآن آج زندہ اور محفوظ ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، راقم الحروف کی کتاب عظمتِ قرآن)

كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِينَ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 سات مثانی سے مراد سورہ فاتحہ ہے۔ سورہ فاتحہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے اور بقیہ قرآن اس کی تفصیل۔ یہ قرآن بلا شبہ زمین و آسمان کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا ہدایت نامہ ہونا اس کے ماننے والوں کے لیے آخرت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اور اس کا آخری کتاب ہونا لازم ٹھہراتا ہے کہ ضرور اس کو اپنے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل ہو۔ کیوں کہ اگر غلبہ نہ ہو تو وہ آخری کتاب کی حیثیت سے باقی نہیں رہ سکتی۔ داعی کوچاہیے کہ جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کو سوچ کر وہ مایوس نہ ہو۔ بلکہ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو دیکھ کر مطمئن ہو اور ان کی دل جوئی اور تربیت میں پوری توجہ صرف کرے۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے مراد تورات کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا ہے۔ یہود نے اپنی آسمانی کتاب کو عملاً دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا اس کی جو تعلیم ان کی خواہشات کے خلاف ہوتی اس کو وہ چھوڑ دیتے اور جو ان کی خواہشوں کے مطابق ہوتی اس کو لے لیتے۔ پہلی قسم کی آیتیں ان کے یہاں صرف تقدس کے خانہ میں پڑی رہتیں۔ ان پر وہ نہ زیادہ دھیان دیتے اور نہ ان کو زیادہ پھیلاتے۔ البتہ دوسری قسم کی آیتوں کی وہ خوب اشاعت کرتے۔ بالفاظ دیگر انھوںنے کتاب خداوندی کو اپنے مفادات کے تابع بنا لیا تھا، نہ کہ خدائی احکام کے تابع۔ کسی چیز کو پانے کے دو درجے ہیں۔ ایک ہے اس کے اجزاء کو پانا۔ دوسرا ہے ا س کو اس کی کلی حیثیت میں پانا۔ درخت کو جب آدمی اس کی کلی حیثیت میں پہچان لے تو وہ کہتا ہے کہ یہ درخت ہے۔ لیکن اگر وہ اس کو اس کی کلی حیثیت میں نہ پہچانے تو وہ تنہ اور شاخ اور پتی اور پھول اور پھل کا ذکر کرے گا۔ وہ اس واحد لفظ کو نہ بول سکے گا جس کے بولنے کے بعد اس کے تمام متفرق اجزاء ایک اصل میں جڑ کر وحدت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ یہی معاملہ خدا کی کتاب کا بھی ہے۔ خدا کی کتاب میں بہت سے متفرق احکام ہیں اسی کے ساتھ اس کا ایک کلی اور مرکزی نکتہ ہے۔ جو لوگ خدا کی کتاب میں گم ہوں وہ خدا کی کتاب کو اس کی کلی حیثیت میں پالیں گے ۔ اس کے برعکس، جو لوگ خود اپنے آپ میں گم ہوں وہ خدا کی کتا ب کو دیکھتے ہیں تو خدا کی کتاب ان کو بس مختلف اور متفرق احکام کا مجموعہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ ان میں سے اپنے ذوق اورحالات کے مطابق کوئی جزء لے لیتے ہیں اور اس پر اس طرح زور صرف کرنے لگتے ہیں جیسے کہ بس وہی ایک چیز سب کچھ ہو۔ درخت کی جڑ میں پانی دینے سے پورے درخت میں پانی پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح جب خدا کی کتاب کے کلی اور مرکزی پہلو کو زندہ کیا جائے تو ا س کے زندہ ہوتے ہی بقیہ تمام اجزاء لازمی طورپر زندہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر کسی ایک جزء کو لے کر اس پر زور دیا جائے تو اس کی ظاہری دھوم تو مچ سکتی ہے مگر اس سے دین کا حقیقی احیاء نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اس کو زندگی مرکزی پہلو کے زندہ ہونے سے ملتی ہے اور وہ سرے سے زندہ ہی نہیںہوا۔

فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ

📘 موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بولنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے داعی جب خدا کی طرف بلانے کا کام شروع کرتاہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کی بے معنی باتیں کہی جاتی ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے غیر متعلق مسائل چھیڑ دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے مقابلہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر لوگوں سے لڑنے لگے تو وہ دعوتِ حق کے مثبت کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ اس دنیا میں حق کے داعی کے لیے ایک ہی مثبت طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ الجھنے والوں سے نہ الجھے۔ اور جو حق اسے ملا ہے اس کا وہ پوری طرح اعلان کردے۔ ہر اس بات کو وہ خدا کے حوالے کردے جس سے نمٹنے کی طاقت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہو۔ دنیا کے ناموافق حالات جب اس کو ستائیں تو وہ آخرت کی طرف اپنی توجہ کو پھیر دے۔ انسانوں کی بے اعتنائی جب اس کو تنگ دل کرے تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ سچے داعی کا حال یہ ہوتاہے کہ جب اس پر غم کی کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ نماز میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ سرگوشیوں میں مشغول ہو کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے وہ سب کچھ پالیا جو اس کو پانا چاہیے تھا۔

إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ

📘 موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بولنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے داعی جب خدا کی طرف بلانے کا کام شروع کرتاہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کی بے معنی باتیں کہی جاتی ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے غیر متعلق مسائل چھیڑ دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے مقابلہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر لوگوں سے لڑنے لگے تو وہ دعوتِ حق کے مثبت کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ اس دنیا میں حق کے داعی کے لیے ایک ہی مثبت طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ الجھنے والوں سے نہ الجھے۔ اور جو حق اسے ملا ہے اس کا وہ پوری طرح اعلان کردے۔ ہر اس بات کو وہ خدا کے حوالے کردے جس سے نمٹنے کی طاقت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہو۔ دنیا کے ناموافق حالات جب اس کو ستائیں تو وہ آخرت کی طرف اپنی توجہ کو پھیر دے۔ انسانوں کی بے اعتنائی جب اس کو تنگ دل کرے تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ سچے داعی کا حال یہ ہوتاہے کہ جب اس پر غم کی کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ نماز میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ سرگوشیوں میں مشغول ہو کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے وہ سب کچھ پالیا جو اس کو پانا چاہیے تھا۔

الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۚ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

📘 موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بولنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے داعی جب خدا کی طرف بلانے کا کام شروع کرتاہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کی بے معنی باتیں کہی جاتی ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے غیر متعلق مسائل چھیڑ دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے مقابلہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر لوگوں سے لڑنے لگے تو وہ دعوتِ حق کے مثبت کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ اس دنیا میں حق کے داعی کے لیے ایک ہی مثبت طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ الجھنے والوں سے نہ الجھے۔ اور جو حق اسے ملا ہے اس کا وہ پوری طرح اعلان کردے۔ ہر اس بات کو وہ خدا کے حوالے کردے جس سے نمٹنے کی طاقت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہو۔ دنیا کے ناموافق حالات جب اس کو ستائیں تو وہ آخرت کی طرف اپنی توجہ کو پھیر دے۔ انسانوں کی بے اعتنائی جب اس کو تنگ دل کرے تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ سچے داعی کا حال یہ ہوتاہے کہ جب اس پر غم کی کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ نماز میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ سرگوشیوں میں مشغول ہو کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے وہ سب کچھ پالیا جو اس کو پانا چاہیے تھا۔

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ

📘 موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بولنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے داعی جب خدا کی طرف بلانے کا کام شروع کرتاہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کی بے معنی باتیں کہی جاتی ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے غیر متعلق مسائل چھیڑ دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے مقابلہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر لوگوں سے لڑنے لگے تو وہ دعوتِ حق کے مثبت کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ اس دنیا میں حق کے داعی کے لیے ایک ہی مثبت طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ الجھنے والوں سے نہ الجھے۔ اور جو حق اسے ملا ہے اس کا وہ پوری طرح اعلان کردے۔ ہر اس بات کو وہ خدا کے حوالے کردے جس سے نمٹنے کی طاقت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہو۔ دنیا کے ناموافق حالات جب اس کو ستائیں تو وہ آخرت کی طرف اپنی توجہ کو پھیر دے۔ انسانوں کی بے اعتنائی جب اس کو تنگ دل کرے تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ سچے داعی کا حال یہ ہوتاہے کہ جب اس پر غم کی کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ نماز میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ سرگوشیوں میں مشغول ہو کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے وہ سب کچھ پالیا جو اس کو پانا چاہیے تھا۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ

📘 موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بولنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے داعی جب خدا کی طرف بلانے کا کام شروع کرتاہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کی بے معنی باتیں کہی جاتی ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے غیر متعلق مسائل چھیڑ دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے مقابلہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر لوگوں سے لڑنے لگے تو وہ دعوتِ حق کے مثبت کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ اس دنیا میں حق کے داعی کے لیے ایک ہی مثبت طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ الجھنے والوں سے نہ الجھے۔ اور جو حق اسے ملا ہے اس کا وہ پوری طرح اعلان کردے۔ ہر اس بات کو وہ خدا کے حوالے کردے جس سے نمٹنے کی طاقت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہو۔ دنیا کے ناموافق حالات جب اس کو ستائیں تو وہ آخرت کی طرف اپنی توجہ کو پھیر دے۔ انسانوں کی بے اعتنائی جب اس کو تنگ دل کرے تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ سچے داعی کا حال یہ ہوتاہے کہ جب اس پر غم کی کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ نماز میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ سرگوشیوں میں مشغول ہو کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے وہ سب کچھ پالیا جو اس کو پانا چاہیے تھا۔

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ

📘 موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بولنے اور کرنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ اس لیے داعی جب خدا کی طرف بلانے کا کام شروع کرتاہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کی بے معنی باتیں کہی جاتی ہیں۔ لوگ مختلف قسم کے غیر متعلق مسائل چھیڑ دیتے ہیں۔ ایسے مواقع پر داعی کے لیے لازم ہے کہ وہ ان تمام باتوں کے مقابلہ میں اعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اگر وہ ایسے مواقع پر لوگوں سے لڑنے لگے تو وہ دعوتِ حق کے مثبت کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ اس دنیا میں حق کے داعی کے لیے ایک ہی مثبت طریقہ ہے۔ وہ یہ کہ وہ الجھنے والوں سے نہ الجھے۔ اور جو حق اسے ملا ہے اس کا وہ پوری طرح اعلان کردے۔ ہر اس بات کو وہ خدا کے حوالے کردے جس سے نمٹنے کی طاقت وہ اپنے اندر نہ پاتا ہو۔ دنیا کے ناموافق حالات جب اس کو ستائیں تو وہ آخرت کی طرف اپنی توجہ کو پھیر دے۔ انسانوں کی بے اعتنائی جب اس کو تنگ دل کرے تو وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوجائے۔ سچے داعی کا حال یہ ہوتاہے کہ جب اس پر غم کی کوئی حالت طاری ہوتی ہے تو وہ ہمہ تن خداکی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ جو چیز وہ انسانوں سے نہ پاسکا اس کو وہ خدا سے پانے کی کوشش کرتا ہے۔ نماز میں خدا کے سامنے کھڑے ہونے سے اس کو تسکین ملتی ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ خدا کے ساتھ سرگوشیوں میں مشغول ہو کر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے وہ سب کچھ پالیا جو اس کو پانا چاہیے تھا۔