🕋 تفسير سورة القصص
(Al-Qasas) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ طسم
📘 فرعون کو یہاں فساد فی الارض کا مجرم بتایا گیاہے۔ فرعون کا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر کی دو قوموں میں امتیاز کیا۔ قبطی قوم جو اس کی اپنی قوم تھی، اس کو اس نے ہر قسم کے مواقع دئے، اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مواقع سے محروم کیا بلکہ ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ فرعون کا یہ عمل فطرت کے نظام میں مداخلت تھا۔ خدا کے قانون میں، نظام فطرت سے مطابقت کا نام اصلاح ہے اور نظام فطرت میں مداخلت کا نام فساد۔
عزت اور بے عزتی کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خدا نے اس کے برعکس فیصلہ کیا جو فرعون نے فیصلہ کیا تھا۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو عزت اور اقتدار دے اور فرعون کو اس کی فوجوں کے ساتھ ہلاک کردے۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ اتمام حجت کے بعد فرعون نے اپنے کو مستحق عذاب ثابت کردیا۔ چنانچہ خدا نے اس کو سمندر میں ڈبا کر ہمیشہ کے ليے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اور بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر شام و فلسطین کا حکمراں بنا دیا۔
وَأَصْبَحَ فُؤَادُ أُمِّ مُوسَىٰ فَارِغًا ۖ إِنْ كَادَتْ لَتُبْدِي بِهِ لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَىٰ قَلْبِهَا لِتَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 حضرت موسیٰ کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ حالاں کہ واقعہ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ پورا واقعہ اسباب کے تحت پیش آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا ظہور عام طورپر اسباب کے انداز میں ہوتا ہے، نہ کہ طلسمات اور خوارق کے انداز میں۔
حضرت موسیٰ بے بسی کی حالت میں دریا کی موجوں میں ڈالے گئے مگر وہ پوری طرح محفوظ رہ کر ساحل پر پہنچ گئے۔ بادشاہ وقت نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر اللہ نے اسی بادشاہ کے ذریعہ آپ کی پرورش کا انتظام کیا۔ وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شاہی محل سے وابستہ کرکے اعلیٰ ترین سطح پر ان کے ليے وقت کے علوم و آداب سیکھنے کا انتظام کیا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے منصوبہ کو ظہور میں آنے سے روک سکے۔
وَقَالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ ۖ فَبَصُرَتْ بِهِ عَنْ جُنُبٍ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ حالاں کہ واقعہ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ پورا واقعہ اسباب کے تحت پیش آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا ظہور عام طورپر اسباب کے انداز میں ہوتا ہے، نہ کہ طلسمات اور خوارق کے انداز میں۔
حضرت موسیٰ بے بسی کی حالت میں دریا کی موجوں میں ڈالے گئے مگر وہ پوری طرح محفوظ رہ کر ساحل پر پہنچ گئے۔ بادشاہ وقت نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر اللہ نے اسی بادشاہ کے ذریعہ آپ کی پرورش کا انتظام کیا۔ وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شاہی محل سے وابستہ کرکے اعلیٰ ترین سطح پر ان کے ليے وقت کے علوم و آداب سیکھنے کا انتظام کیا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے منصوبہ کو ظہور میں آنے سے روک سکے۔
۞ وَحَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ أَهْلِ بَيْتٍ يَكْفُلُونَهُ لَكُمْ وَهُمْ لَهُ نَاصِحُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ حالاں کہ واقعہ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ پورا واقعہ اسباب کے تحت پیش آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا ظہور عام طورپر اسباب کے انداز میں ہوتا ہے، نہ کہ طلسمات اور خوارق کے انداز میں۔
حضرت موسیٰ بے بسی کی حالت میں دریا کی موجوں میں ڈالے گئے مگر وہ پوری طرح محفوظ رہ کر ساحل پر پہنچ گئے۔ بادشاہ وقت نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر اللہ نے اسی بادشاہ کے ذریعہ آپ کی پرورش کا انتظام کیا۔ وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شاہی محل سے وابستہ کرکے اعلیٰ ترین سطح پر ان کے ليے وقت کے علوم و آداب سیکھنے کا انتظام کیا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے منصوبہ کو ظہور میں آنے سے روک سکے۔
فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ حالاں کہ واقعہ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ پورا واقعہ اسباب کے تحت پیش آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا ظہور عام طورپر اسباب کے انداز میں ہوتا ہے، نہ کہ طلسمات اور خوارق کے انداز میں۔
حضرت موسیٰ بے بسی کی حالت میں دریا کی موجوں میں ڈالے گئے مگر وہ پوری طرح محفوظ رہ کر ساحل پر پہنچ گئے۔ بادشاہ وقت نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر اللہ نے اسی بادشاہ کے ذریعہ آپ کی پرورش کا انتظام کیا۔ وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شاہی محل سے وابستہ کرکے اعلیٰ ترین سطح پر ان کے ليے وقت کے علوم و آداب سیکھنے کا انتظام کیا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے منصوبہ کو ظہور میں آنے سے روک سکے۔
وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ
📘 حضرت موسیٰ کی حفاظت کو اللہ تعالیٰ نے تمام تر اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ حالاں کہ واقعہ کی تفصیلات بتاتی ہیں کہ پورا واقعہ اسباب کے تحت پیش آیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا ظہور عام طورپر اسباب کے انداز میں ہوتا ہے، نہ کہ طلسمات اور خوارق کے انداز میں۔
حضرت موسیٰ بے بسی کی حالت میں دریا کی موجوں میں ڈالے گئے مگر وہ پوری طرح محفوظ رہ کر ساحل پر پہنچ گئے۔ بادشاہ وقت نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا مگر اللہ نے اسی بادشاہ کے ذریعہ آپ کی پرورش کا انتظام کیا۔ وہ ایک معمولی خاندان میں پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو شاہی محل سے وابستہ کرکے اعلیٰ ترین سطح پر ان کے ليے وقت کے علوم و آداب سیکھنے کا انتظام کیا۔ یہ ایک مثال ہے جو بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود ہے۔ کوئی نہیں جو اس کے منصوبہ کو ظہور میں آنے سے روک سکے۔
وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَٰذَا مِنْ شِيعَتِهِ وَهَٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ ۖ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ۖ قَالَ هَٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُضِلٌّ مُبِينٌ
📘 پیغمبری ملنے سے پہلے کا واقعہ ہے، حضرت موسیٰ مصر کے دار السلطنت میں تھے۔ ایک روز انھوںنے دیکھا کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیلی لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو اپنا ہم قوم سمجھ کر پکارا کہ ظالم قبطی کے مقابلہ میں میری مدد کیجيے۔ حضرت موسیٰ نے دونوں کو الگ کرنا چاہا تو قبطی آپ سے الجھ گیا۔ آپ نے دفاع کے طورپر اس کو ایک گھونسا مارا۔ وہ اتفاقاً ایسی جگہ لگا کہ قبطی مر گیا۔
قبطی قوم اس وقت بنی اسرائیل پر سخت زیادتیاں کررہی تھیں۔ ایسی حالت میں حضرت موسیٰ اگر اس واقعہ کو قومی نقطۂ نظر سے دیکھتے تو وہ اس کو مجاہدانہ کارنامہ قرار دے کر فخر کرتے۔ مگر انھیں قبطی کی موت پر شدید افسوس ہوا۔ وہ فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے معافی مانگنے لگے۔
’’اب میں کسی مجرم کی حمایت نہیں کروں گا‘‘— اس کا مطلب یہ ہے کہ اب میں بلا تحقیق کسی کی حمایت نہیں کروں گا۔ ایک شخص کا بظاہر مظلوم فرقہ سے تعلق رکھنا یا کسی کو ظالم بتا کر اس کے خلاف مدد مانگنا یہ ثابت کرنے کے ليے کافی نہیں کہ فی الواقع بھی دوسرا شخص ظالم ہے، اور فریاد کرنے والا مظلوم۔ اس ليے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اصل معاملہ کی تحقیق کی جائے اور صرف اس وقت کسی کی حمایت کی جائے جب کہ غیر جانب دارانہ تحقیق میں اس کا مظلوم ہونا ثابت ہوجائے۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
📘 پیغمبری ملنے سے پہلے کا واقعہ ہے، حضرت موسیٰ مصر کے دار السلطنت میں تھے۔ ایک روز انھوںنے دیکھا کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیلی لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو اپنا ہم قوم سمجھ کر پکارا کہ ظالم قبطی کے مقابلہ میں میری مدد کیجيے۔ حضرت موسیٰ نے دونوں کو الگ کرنا چاہا تو قبطی آپ سے الجھ گیا۔ آپ نے دفاع کے طورپر اس کو ایک گھونسا مارا۔ وہ اتفاقاً ایسی جگہ لگا کہ قبطی مر گیا۔
قبطی قوم اس وقت بنی اسرائیل پر سخت زیادتیاں کررہی تھیں۔ ایسی حالت میں حضرت موسیٰ اگر اس واقعہ کو قومی نقطۂ نظر سے دیکھتے تو وہ اس کو مجاہدانہ کارنامہ قرار دے کر فخر کرتے۔ مگر انھیں قبطی کی موت پر شدید افسوس ہوا۔ وہ فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے معافی مانگنے لگے۔
’’اب میں کسی مجرم کی حمایت نہیں کروں گا‘‘— اس کا مطلب یہ ہے کہ اب میں بلا تحقیق کسی کی حمایت نہیں کروں گا۔ ایک شخص کا بظاہر مظلوم فرقہ سے تعلق رکھنا یا کسی کو ظالم بتا کر اس کے خلاف مدد مانگنا یہ ثابت کرنے کے ليے کافی نہیں کہ فی الواقع بھی دوسرا شخص ظالم ہے، اور فریاد کرنے والا مظلوم۔ اس ليے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اصل معاملہ کی تحقیق کی جائے اور صرف اس وقت کسی کی حمایت کی جائے جب کہ غیر جانب دارانہ تحقیق میں اس کا مظلوم ہونا ثابت ہوجائے۔
قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِلْمُجْرِمِينَ
📘 پیغمبری ملنے سے پہلے کا واقعہ ہے، حضرت موسیٰ مصر کے دار السلطنت میں تھے۔ ایک روز انھوںنے دیکھا کہ ایک قبطی اور ایک اسرائیلی لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ کو اپنا ہم قوم سمجھ کر پکارا کہ ظالم قبطی کے مقابلہ میں میری مدد کیجيے۔ حضرت موسیٰ نے دونوں کو الگ کرنا چاہا تو قبطی آپ سے الجھ گیا۔ آپ نے دفاع کے طورپر اس کو ایک گھونسا مارا۔ وہ اتفاقاً ایسی جگہ لگا کہ قبطی مر گیا۔
قبطی قوم اس وقت بنی اسرائیل پر سخت زیادتیاں کررہی تھیں۔ ایسی حالت میں حضرت موسیٰ اگر اس واقعہ کو قومی نقطۂ نظر سے دیکھتے تو وہ اس کو مجاہدانہ کارنامہ قرار دے کر فخر کرتے۔ مگر انھیں قبطی کی موت پر شدید افسوس ہوا۔ وہ فوراً اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ سے معافی مانگنے لگے۔
’’اب میں کسی مجرم کی حمایت نہیں کروں گا‘‘— اس کا مطلب یہ ہے کہ اب میں بلا تحقیق کسی کی حمایت نہیں کروں گا۔ ایک شخص کا بظاہر مظلوم فرقہ سے تعلق رکھنا یا کسی کو ظالم بتا کر اس کے خلاف مدد مانگنا یہ ثابت کرنے کے ليے کافی نہیں کہ فی الواقع بھی دوسرا شخص ظالم ہے، اور فریاد کرنے والا مظلوم۔ اس ليے صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر اصل معاملہ کی تحقیق کی جائے اور صرف اس وقت کسی کی حمایت کی جائے جب کہ غیر جانب دارانہ تحقیق میں اس کا مظلوم ہونا ثابت ہوجائے۔
فَأَصْبَحَ فِي الْمَدِينَةِ خَائِفًا يَتَرَقَّبُ فَإِذَا الَّذِي اسْتَنْصَرَهُ بِالْأَمْسِ يَسْتَصْرِخُهُ ۚ قَالَ لَهُ مُوسَىٰ إِنَّكَ لَغَوِيٌّ مُبِينٌ
📘 اگلے دن وہی اسرائیلی دوبارہ ایک قبطی سے لڑ رہا تھا۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ تھاکہ یہ ایک جھگڑالو قسم کا آدمی ہے اور روزانہ کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ اپنی قوم کا فرد ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ نے اس کو مجرم ٹھہرایا۔ مذکورہ اسرائیلي کا مجرم ہونا اس واقعہ سے مزید ثابت ہوگیا کہ اس اسرائیلی نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ آج اس کی مدد نہیں کررہے ہیں اور اس کی امید کے خلاف خود اسی کو برا کہہ رہے ہیں تو وہ کمینہ پن پر اتر آیا۔ اس نے غیر ذمہ دارانہ طور پر کل کے قتل کا راز کھول دیا جو ابھی تک کسی کے علم میں نہ آیا تھا۔
اسرائیلی کی زبان سے قاتل کا نام نکلا تو بہت سے لوگوں نے سن لیا۔ چند دن میںاس کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ یہاں تک کہ حکمرانوں میں موسیٰ کے قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک نیک بخت آدمی کو اس کا پتہ چل گیا۔ وہ خفیہ طورپر حضرت موسیٰ سے ملااورکہا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں چنانچہ آپ مصر سے نکل کر مَدْیَن کی طرف روانہ ہوگئے۔ مدین خلیج عَقبہ کے مغربی ساحل پر تھا اور فرعون کی سلطنت کے حدود سے باہر تھا۔
فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَنْ يَبْطِشَ بِالَّذِي هُوَ عَدُوٌّ لَهُمَا قَالَ يَا مُوسَىٰ أَتُرِيدُ أَنْ تَقْتُلَنِي كَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْأَمْسِ ۖ إِنْ تُرِيدُ إِلَّا أَنْ تَكُونَ جَبَّارًا فِي الْأَرْضِ وَمَا تُرِيدُ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْمُصْلِحِينَ
📘 اگلے دن وہی اسرائیلی دوبارہ ایک قبطی سے لڑ رہا تھا۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ تھاکہ یہ ایک جھگڑالو قسم کا آدمی ہے اور روزانہ کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ اپنی قوم کا فرد ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ نے اس کو مجرم ٹھہرایا۔ مذکورہ اسرائیلي کا مجرم ہونا اس واقعہ سے مزید ثابت ہوگیا کہ اس اسرائیلی نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ آج اس کی مدد نہیں کررہے ہیں اور اس کی امید کے خلاف خود اسی کو برا کہہ رہے ہیں تو وہ کمینہ پن پر اتر آیا۔ اس نے غیر ذمہ دارانہ طور پر کل کے قتل کا راز کھول دیا جو ابھی تک کسی کے علم میں نہ آیا تھا۔
اسرائیلی کی زبان سے قاتل کا نام نکلا تو بہت سے لوگوں نے سن لیا۔ چند دن میںاس کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ یہاں تک کہ حکمرانوں میں موسیٰ کے قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک نیک بخت آدمی کو اس کا پتہ چل گیا۔ وہ خفیہ طورپر حضرت موسیٰ سے ملااورکہا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں چنانچہ آپ مصر سے نکل کر مَدْیَن کی طرف روانہ ہوگئے۔ مدین خلیج عَقبہ کے مغربی ساحل پر تھا اور فرعون کی سلطنت کے حدود سے باہر تھا۔
تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ
📘 فرعون کو یہاں فساد فی الارض کا مجرم بتایا گیاہے۔ فرعون کا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر کی دو قوموں میں امتیاز کیا۔ قبطی قوم جو اس کی اپنی قوم تھی، اس کو اس نے ہر قسم کے مواقع دئے، اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مواقع سے محروم کیا بلکہ ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ فرعون کا یہ عمل فطرت کے نظام میں مداخلت تھا۔ خدا کے قانون میں، نظام فطرت سے مطابقت کا نام اصلاح ہے اور نظام فطرت میں مداخلت کا نام فساد۔
عزت اور بے عزتی کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خدا نے اس کے برعکس فیصلہ کیا جو فرعون نے فیصلہ کیا تھا۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو عزت اور اقتدار دے اور فرعون کو اس کی فوجوں کے ساتھ ہلاک کردے۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ اتمام حجت کے بعد فرعون نے اپنے کو مستحق عذاب ثابت کردیا۔ چنانچہ خدا نے اس کو سمندر میں ڈبا کر ہمیشہ کے ليے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اور بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر شام و فلسطین کا حکمراں بنا دیا۔
وَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعَىٰ قَالَ يَا مُوسَىٰ إِنَّ الْمَلَأَ يَأْتَمِرُونَ بِكَ لِيَقْتُلُوكَ فَاخْرُجْ إِنِّي لَكَ مِنَ النَّاصِحِينَ
📘 اگلے دن وہی اسرائیلی دوبارہ ایک قبطی سے لڑ رہا تھا۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ تھاکہ یہ ایک جھگڑالو قسم کا آدمی ہے اور روزانہ کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ اپنی قوم کا فرد ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ نے اس کو مجرم ٹھہرایا۔ مذکورہ اسرائیلي کا مجرم ہونا اس واقعہ سے مزید ثابت ہوگیا کہ اس اسرائیلی نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ آج اس کی مدد نہیں کررہے ہیں اور اس کی امید کے خلاف خود اسی کو برا کہہ رہے ہیں تو وہ کمینہ پن پر اتر آیا۔ اس نے غیر ذمہ دارانہ طور پر کل کے قتل کا راز کھول دیا جو ابھی تک کسی کے علم میں نہ آیا تھا۔
اسرائیلی کی زبان سے قاتل کا نام نکلا تو بہت سے لوگوں نے سن لیا۔ چند دن میںاس کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ یہاں تک کہ حکمرانوں میں موسیٰ کے قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک نیک بخت آدمی کو اس کا پتہ چل گیا۔ وہ خفیہ طورپر حضرت موسیٰ سے ملااورکہا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں چنانچہ آپ مصر سے نکل کر مَدْیَن کی طرف روانہ ہوگئے۔ مدین خلیج عَقبہ کے مغربی ساحل پر تھا اور فرعون کی سلطنت کے حدود سے باہر تھا۔
فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
📘 اگلے دن وہی اسرائیلی دوبارہ ایک قبطی سے لڑ رہا تھا۔ یہ اس بات کا واضح قرینہ تھاکہ یہ ایک جھگڑالو قسم کا آدمی ہے اور روزانہ کسی نہ کسی سے لڑتا رہتا ہے۔ چنانچہ اپنی قوم کا فرد ہونے کے باوجود حضرت موسیٰ نے اس کو مجرم ٹھہرایا۔ مذکورہ اسرائیلي کا مجرم ہونا اس واقعہ سے مزید ثابت ہوگیا کہ اس اسرائیلی نے جب دیکھا کہ حضرت موسیٰ آج اس کی مدد نہیں کررہے ہیں اور اس کی امید کے خلاف خود اسی کو برا کہہ رہے ہیں تو وہ کمینہ پن پر اتر آیا۔ اس نے غیر ذمہ دارانہ طور پر کل کے قتل کا راز کھول دیا جو ابھی تک کسی کے علم میں نہ آیا تھا۔
اسرائیلی کی زبان سے قاتل کا نام نکلا تو بہت سے لوگوں نے سن لیا۔ چند دن میںاس کی خبر ہر طرف پھیل گئی۔ یہاں تک کہ حکمرانوں میں موسیٰ کے قتل کے مشورے ہونے لگے۔ ایک نیک بخت آدمی کو اس کا پتہ چل گیا۔ وہ خفیہ طورپر حضرت موسیٰ سے ملااورکہا کہ اس وقت یہی بہتر ہے کہ آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں چنانچہ آپ مصر سے نکل کر مَدْیَن کی طرف روانہ ہوگئے۔ مدین خلیج عَقبہ کے مغربی ساحل پر تھا اور فرعون کی سلطنت کے حدود سے باہر تھا۔
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسَىٰ رَبِّي أَنْ يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ
📘 حضرت موسیٰ کا یہ سفر گویا نامعلوم منزل کی طرف سفر تھا۔ ایسے حالات میں مومن کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ پوری طرح آپ کے اوپر طاری تھی۔ آپ دعاؤں کے سایہ میں اپنا قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ تقریباً دس دن کے سفر کے بعد مدین پہنچے۔ گمان غالب ہے کہ آپ بھوکے بھی ہوں گے۔
حضرت موسیٰ نے کمزوروں کی حمایت کے جذبہ کے تحت مدین کی دونوں لڑکیوں کی مدد کی۔ یہ واقعہ ان کے ليے لڑکیوں کے والد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ یہ بزرگ مدیان بن ابراہیم کی اولاد سے تھے اور حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم کی اولاد سے۔ اس اعتبار سے دونوں میں نسلی قربت بھی تھی۔
اس وقت حضرت موسیٰ کی زبان سے یہ دعا نکلی رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ۔ یہ دعا بتاتی ہے کہ ایسے وقت مومن کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملہ کو تمام تر اللہ پر ڈال دیتاہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے، اور خیر وہی ہے جو اس کو خدا کی طرف سے ملے۔
وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ ۖ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا ۖ قَالَتَا لَا نَسْقِي حَتَّىٰ يُصْدِرَ الرِّعَاءُ ۖ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ
📘 حضرت موسیٰ کا یہ سفر گویا نامعلوم منزل کی طرف سفر تھا۔ ایسے حالات میں مومن کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ پوری طرح آپ کے اوپر طاری تھی۔ آپ دعاؤں کے سایہ میں اپنا قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ تقریباً دس دن کے سفر کے بعد مدین پہنچے۔ گمان غالب ہے کہ آپ بھوکے بھی ہوں گے۔
حضرت موسیٰ نے کمزوروں کی حمایت کے جذبہ کے تحت مدین کی دونوں لڑکیوں کی مدد کی۔ یہ واقعہ ان کے ليے لڑکیوں کے والد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ یہ بزرگ مدیان بن ابراہیم کی اولاد سے تھے اور حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم کی اولاد سے۔ اس اعتبار سے دونوں میں نسلی قربت بھی تھی۔
اس وقت حضرت موسیٰ کی زبان سے یہ دعا نکلی رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ۔ یہ دعا بتاتی ہے کہ ایسے وقت مومن کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملہ کو تمام تر اللہ پر ڈال دیتاہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے، اور خیر وہی ہے جو اس کو خدا کی طرف سے ملے۔
فَسَقَىٰ لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّىٰ إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
📘 حضرت موسیٰ کا یہ سفر گویا نامعلوم منزل کی طرف سفر تھا۔ ایسے حالات میں مومن کے دل کی جو کیفیت ہوتی ہے وہ پوری طرح آپ کے اوپر طاری تھی۔ آپ دعاؤں کے سایہ میں اپنا قدم آگے بڑھا رہے تھے۔ تقریباً دس دن کے سفر کے بعد مدین پہنچے۔ گمان غالب ہے کہ آپ بھوکے بھی ہوں گے۔
حضرت موسیٰ نے کمزوروں کی حمایت کے جذبہ کے تحت مدین کی دونوں لڑکیوں کی مدد کی۔ یہ واقعہ ان کے ليے لڑکیوں کے والد تک پہنچنے کا ذریعہ بنا۔ یہ بزرگ مدیان بن ابراہیم کی اولاد سے تھے اور حضرت موسیٰ اسحاق بن ابراہیم کی اولاد سے۔ اس اعتبار سے دونوں میں نسلی قربت بھی تھی۔
اس وقت حضرت موسیٰ کی زبان سے یہ دعا نکلی رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ۔ یہ دعا بتاتی ہے کہ ایسے وقت مومن کا حال کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے معاملہ کو تمام تر اللہ پر ڈال دیتاہے۔ اس کو یقین ہوتا ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملتا ہے خدا سے ملتا ہے، اور خیر وہی ہے جو اس کو خدا کی طرف سے ملے۔
فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا ۚ فَلَمَّا جَاءَهُ وَقَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ ۖ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
📘 لڑکیاں اس دن معمول سے کچھ پہلے گھر پہنچ گئیں والد نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آج ایک مسافر نے ہماری بکریوں کو پہلے ہی پانی پلا دیا۔لڑکیوں کے والد نے کہا کہ پھر تم اس مسافر کو گھر کیوں نہ لائیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے۔ چنانچہ ایک لڑکی دوبارہ کنویں پر گئی اور حضرت موسیٰ کوبلا کر لے آئی۔
چند دن کے تجربے نے بتایا کہ حضرت موسیٰ محنتی بھی ہیں اور امانت دار بھی۔ چنانچہ مذکورہ بزرگ نے اپنی بیٹی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کو اپنے یہاں مستقل خدمت کے ليے رکھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات، امانت اور قوت (honesty & hard working) تمام ضروری صفات کی جامع ہیں۔ آدمی کے انتخاب کے ليے معیار مقرر کرنا ہو تو ان دولفظوں سے بہتر کوئی معیار نہیں ہوسکتا۔بعد کو مذکورہ بزرگ نے اپنی ایک لڑکی کی شادی بھی حضرت موسیٰ سے کردی۔ تاہم چوں کہ اس وقت انھیں اپنے گھر اور جائداد کی دیکھ بھال کے ليے ایک مرد کی شدید ضرورت تھی، انھوں نے حضرت موسیٰ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ آٹھ سال یادس سال تک ان کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد وہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔
قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ ۖ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ
📘 لڑکیاں اس دن معمول سے کچھ پہلے گھر پہنچ گئیں والد نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آج ایک مسافر نے ہماری بکریوں کو پہلے ہی پانی پلا دیا۔لڑکیوں کے والد نے کہا کہ پھر تم اس مسافر کو گھر کیوں نہ لائیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے۔ چنانچہ ایک لڑکی دوبارہ کنویں پر گئی اور حضرت موسیٰ کوبلا کر لے آئی۔
چند دن کے تجربے نے بتایا کہ حضرت موسیٰ محنتی بھی ہیں اور امانت دار بھی۔ چنانچہ مذکورہ بزرگ نے اپنی بیٹی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کو اپنے یہاں مستقل خدمت کے ليے رکھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات، امانت اور قوت (honesty & hard working) تمام ضروری صفات کی جامع ہیں۔ آدمی کے انتخاب کے ليے معیار مقرر کرنا ہو تو ان دولفظوں سے بہتر کوئی معیار نہیں ہوسکتا۔بعد کو مذکورہ بزرگ نے اپنی ایک لڑکی کی شادی بھی حضرت موسیٰ سے کردی۔ تاہم چوں کہ اس وقت انھیں اپنے گھر اور جائداد کی دیکھ بھال کے ليے ایک مرد کی شدید ضرورت تھی، انھوں نے حضرت موسیٰ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ آٹھ سال یادس سال تک ان کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد وہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔
قَالَ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُنْكِحَكَ إِحْدَى ابْنَتَيَّ هَاتَيْنِ عَلَىٰ أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ ۖ فَإِنْ أَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ ۖ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أَشُقَّ عَلَيْكَ ۚ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّالِحِينَ
📘 لڑکیاں اس دن معمول سے کچھ پہلے گھر پہنچ گئیں والد نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آج ایک مسافر نے ہماری بکریوں کو پہلے ہی پانی پلا دیا۔لڑکیوں کے والد نے کہا کہ پھر تم اس مسافر کو گھر کیوں نہ لائیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے۔ چنانچہ ایک لڑکی دوبارہ کنویں پر گئی اور حضرت موسیٰ کوبلا کر لے آئی۔
چند دن کے تجربے نے بتایا کہ حضرت موسیٰ محنتی بھی ہیں اور امانت دار بھی۔ چنانچہ مذکورہ بزرگ نے اپنی بیٹی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کو اپنے یہاں مستقل خدمت کے ليے رکھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات، امانت اور قوت (honesty & hard working) تمام ضروری صفات کی جامع ہیں۔ آدمی کے انتخاب کے ليے معیار مقرر کرنا ہو تو ان دولفظوں سے بہتر کوئی معیار نہیں ہوسکتا۔بعد کو مذکورہ بزرگ نے اپنی ایک لڑکی کی شادی بھی حضرت موسیٰ سے کردی۔ تاہم چوں کہ اس وقت انھیں اپنے گھر اور جائداد کی دیکھ بھال کے ليے ایک مرد کی شدید ضرورت تھی، انھوں نے حضرت موسیٰ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ آٹھ سال یادس سال تک ان کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد وہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔
قَالَ ذَٰلِكَ بَيْنِي وَبَيْنَكَ ۖ أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ۖ وَاللَّهُ عَلَىٰ مَا نَقُولُ وَكِيلٌ
📘 لڑکیاں اس دن معمول سے کچھ پہلے گھر پہنچ گئیں والد نے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ آج ایک مسافر نے ہماری بکریوں کو پہلے ہی پانی پلا دیا۔لڑکیوں کے والد نے کہا کہ پھر تم اس مسافر کو گھر کیوں نہ لائیں کہ وہ ہمارے ساتھ کھانا کھائے۔ چنانچہ ایک لڑکی دوبارہ کنویں پر گئی اور حضرت موسیٰ کوبلا کر لے آئی۔
چند دن کے تجربے نے بتایا کہ حضرت موسیٰ محنتی بھی ہیں اور امانت دار بھی۔ چنانچہ مذکورہ بزرگ نے اپنی بیٹی کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے حضرت موسیٰ کو اپنے یہاں مستقل خدمت کے ليے رکھ لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات، امانت اور قوت (honesty & hard working) تمام ضروری صفات کی جامع ہیں۔ آدمی کے انتخاب کے ليے معیار مقرر کرنا ہو تو ان دولفظوں سے بہتر کوئی معیار نہیں ہوسکتا۔بعد کو مذکورہ بزرگ نے اپنی ایک لڑکی کی شادی بھی حضرت موسیٰ سے کردی۔ تاہم چوں کہ اس وقت انھیں اپنے گھر اور جائداد کی دیکھ بھال کے ليے ایک مرد کی شدید ضرورت تھی، انھوں نے حضرت موسیٰ کو اس پر آمادہ کیا کہ وہ آٹھ سال یادس سال تک ان کے یہاں قیام کریں۔ اس کے بعد وہ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔
۞ فَلَمَّا قَضَىٰ مُوسَى الْأَجَلَ وَسَارَ بِأَهْلِهِ آنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّورِ نَارًا قَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا لَعَلِّي آتِيكُمْ مِنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ جَذْوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ
📘 حضرت موسیٰ غالباً دس سال مدین میں رہے۔ اس مدت میں سابقہ فرعون مرگیا اور خاندانِ فرعون کا دوسرا شخص مصر کے تخت پر بیٹھا۔ اب آپ اپنی بیوی (اور تورات کے مطابق دو بچوں) کے ساتھ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ پر طور کا تجربہ گزرا۔
جس خدا نے سینا کے پہاڑ پر ایک انسان سے براہِ اراست کلام کیا، وہ خدا تمام انسانوں کو بھی براہِ راست آواز دے کر اپنی مرضی سے باخبر کرسکتا ہے۔ مگر یہ خدا کا طریقہ نہیں۔ براہِ راست خطاب کا مطلب پردہ کو ہٹا دینا ہے، جب کہ امتحان کی مصلحت چاہتی ہے کہ پردہ لازماً باقی رہے۔ چنانچہ خدا اپنا براہِ راست کلام صرف کسی منتخب انسان کے اوپر اتارتا ہے اور بقیہ لوگوں کو اس کے ذریعے سے بالواسطہ طورپر اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔
نَتْلُو عَلَيْكَ مِنْ نَبَإِ مُوسَىٰ وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 فرعون کو یہاں فساد فی الارض کا مجرم بتایا گیاہے۔ فرعون کا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر کی دو قوموں میں امتیاز کیا۔ قبطی قوم جو اس کی اپنی قوم تھی، اس کو اس نے ہر قسم کے مواقع دئے، اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مواقع سے محروم کیا بلکہ ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ فرعون کا یہ عمل فطرت کے نظام میں مداخلت تھا۔ خدا کے قانون میں، نظام فطرت سے مطابقت کا نام اصلاح ہے اور نظام فطرت میں مداخلت کا نام فساد۔
عزت اور بے عزتی کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خدا نے اس کے برعکس فیصلہ کیا جو فرعون نے فیصلہ کیا تھا۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو عزت اور اقتدار دے اور فرعون کو اس کی فوجوں کے ساتھ ہلاک کردے۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ اتمام حجت کے بعد فرعون نے اپنے کو مستحق عذاب ثابت کردیا۔ چنانچہ خدا نے اس کو سمندر میں ڈبا کر ہمیشہ کے ليے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اور بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر شام و فلسطین کا حکمراں بنا دیا۔
فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبَارَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ يَا مُوسَىٰ إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت موسیٰ غالباً دس سال مدین میں رہے۔ اس مدت میں سابقہ فرعون مرگیا اور خاندانِ فرعون کا دوسرا شخص مصر کے تخت پر بیٹھا۔ اب آپ اپنی بیوی (اور تورات کے مطابق دو بچوں) کے ساتھ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ پر طور کا تجربہ گزرا۔
جس خدا نے سینا کے پہاڑ پر ایک انسان سے براہِ اراست کلام کیا، وہ خدا تمام انسانوں کو بھی براہِ راست آواز دے کر اپنی مرضی سے باخبر کرسکتا ہے۔ مگر یہ خدا کا طریقہ نہیں۔ براہِ راست خطاب کا مطلب پردہ کو ہٹا دینا ہے، جب کہ امتحان کی مصلحت چاہتی ہے کہ پردہ لازماً باقی رہے۔ چنانچہ خدا اپنا براہِ راست کلام صرف کسی منتخب انسان کے اوپر اتارتا ہے اور بقیہ لوگوں کو اس کے ذریعے سے بالواسطہ طورپر اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔
وَأَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ ۚ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ ۖ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ
📘 حضرت موسیٰ غالباً دس سال مدین میں رہے۔ اس مدت میں سابقہ فرعون مرگیا اور خاندانِ فرعون کا دوسرا شخص مصر کے تخت پر بیٹھا۔ اب آپ اپنی بیوی (اور تورات کے مطابق دو بچوں) کے ساتھ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ پر طور کا تجربہ گزرا۔
جس خدا نے سینا کے پہاڑ پر ایک انسان سے براہِ اراست کلام کیا، وہ خدا تمام انسانوں کو بھی براہِ راست آواز دے کر اپنی مرضی سے باخبر کرسکتا ہے۔ مگر یہ خدا کا طریقہ نہیں۔ براہِ راست خطاب کا مطلب پردہ کو ہٹا دینا ہے، جب کہ امتحان کی مصلحت چاہتی ہے کہ پردہ لازماً باقی رہے۔ چنانچہ خدا اپنا براہِ راست کلام صرف کسی منتخب انسان کے اوپر اتارتا ہے اور بقیہ لوگوں کو اس کے ذریعے سے بالواسطہ طورپر اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔
اسْلُكْ يَدَكَ فِي جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَاءَ مِنْ غَيْرِ سُوءٍ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ ۖ فَذَانِكَ بُرْهَانَانِ مِنْ رَبِّكَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَاسِقِينَ
📘 حضرت موسیٰ غالباً دس سال مدین میں رہے۔ اس مدت میں سابقہ فرعون مرگیا اور خاندانِ فرعون کا دوسرا شخص مصر کے تخت پر بیٹھا۔ اب آپ اپنی بیوی (اور تورات کے مطابق دو بچوں) کے ساتھ دوبارہ مصر کی طرف روانہ ہوئے۔ راستہ میں آپ پر طور کا تجربہ گزرا۔
جس خدا نے سینا کے پہاڑ پر ایک انسان سے براہِ اراست کلام کیا، وہ خدا تمام انسانوں کو بھی براہِ راست آواز دے کر اپنی مرضی سے باخبر کرسکتا ہے۔ مگر یہ خدا کا طریقہ نہیں۔ براہِ راست خطاب کا مطلب پردہ کو ہٹا دینا ہے، جب کہ امتحان کی مصلحت چاہتی ہے کہ پردہ لازماً باقی رہے۔ چنانچہ خدا اپنا براہِ راست کلام صرف کسی منتخب انسان کے اوپر اتارتا ہے اور بقیہ لوگوں کو اس کے ذریعے سے بالواسطہ طورپر اپنا پیغام پہنچاتا ہے۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ
📘 خدا جب کسی کو اپنی دعوت کے کام پر مامور کرتا ہے تو لازمی طورپر اس کو وہ تمام اسباب بھی دیتاہے جو کارِ دعوت کی مؤثر ادائیگی کے ليے ضروری ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کو ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد چیزیں دی گئیں۔ آپ کو ماموریت کی سند کے طورپر خارقِ عادت معجزے عطا کيے گئے۔ آپ کو مدد گار دیا گیا جو اعلان حق کے کام میں آپ کا معاون ہو۔ آپ کو شخصی ہیبت دی گئی تاکہ فرعون کی قوم آپ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرے۔ خداکی طرف سے یہ مقدر کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں (بنی اسرائیل) ہی کو آخری غلبہ حاصل ہو۔
وَأَخِي هَارُونُ هُوَ أَفْصَحُ مِنِّي لِسَانًا فَأَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْءًا يُصَدِّقُنِي ۖ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ
📘 خدا جب کسی کو اپنی دعوت کے کام پر مامور کرتا ہے تو لازمی طورپر اس کو وہ تمام اسباب بھی دیتاہے جو کارِ دعوت کی مؤثر ادائیگی کے ليے ضروری ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کو ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد چیزیں دی گئیں۔ آپ کو ماموریت کی سند کے طورپر خارقِ عادت معجزے عطا کيے گئے۔ آپ کو مدد گار دیا گیا جو اعلان حق کے کام میں آپ کا معاون ہو۔ آپ کو شخصی ہیبت دی گئی تاکہ فرعون کی قوم آپ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرے۔ خداکی طرف سے یہ مقدر کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں (بنی اسرائیل) ہی کو آخری غلبہ حاصل ہو۔
قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَانًا فَلَا يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا ۚ بِآيَاتِنَا أَنْتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَالِبُونَ
📘 خدا جب کسی کو اپنی دعوت کے کام پر مامور کرتا ہے تو لازمی طورپر اس کو وہ تمام اسباب بھی دیتاہے جو کارِ دعوت کی مؤثر ادائیگی کے ليے ضروری ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ کو ان کے حالات کے لحاظ سے متعدد چیزیں دی گئیں۔ آپ کو ماموریت کی سند کے طورپر خارقِ عادت معجزے عطا کيے گئے۔ آپ کو مدد گار دیا گیا جو اعلان حق کے کام میں آپ کا معاون ہو۔ آپ کو شخصی ہیبت دی گئی تاکہ فرعون کی قوم آپ پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ کرے۔ خداکی طرف سے یہ مقدر کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھیوں (بنی اسرائیل) ہی کو آخری غلبہ حاصل ہو۔
فَلَمَّا جَاءَهُمْ مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا مَا هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُفْتَرًى وَمَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
📘 ایک شخص اپنے کو بڑا سمجھتاہو، اس کے سامنے ایک بظاہر معمولی آدمی آئے اور اس پر براہِ راست تنقید کرے تو وہ فوراً بپھر اٹھتا ہے۔ وہ اس کا استہزا کرتاہے اور اس کا مذاق اڑانے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ یہی اس وقت فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں کیا۔
’’میں اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا‘‘— کوئی سنجیدہ جملہ نہیںہے۔ ان الفاظ سے فرعون کا مقصود بیانِ حقیقت نہیں بلکہ تحقیر موسیٰ ہے۔ اسی طرح فرعون نے جب اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ پختہ اینٹ تیار کرکے ایک اونچی عمارت بناؤ تاکہ میں آسمان میں جھانک کر موسیٰ کے خدا کو دیکھوں، تو یہ کوئی سنجیدہ حکم نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ واقعۃً وہ اپنے وزیر کے نام ایک تعمیری فرمان جاری کررہا ہے۔ یہ صرف حضرت موسیٰ کا استہزا تھا، نہ کی فی الواقع تعمیر مکان کا کوئی حکم۔
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبِّي أَعْلَمُ بِمَنْ جَاءَ بِالْهُدَىٰ مِنْ عِنْدِهِ وَمَنْ تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ
📘 ایک شخص اپنے کو بڑا سمجھتاہو، اس کے سامنے ایک بظاہر معمولی آدمی آئے اور اس پر براہِ راست تنقید کرے تو وہ فوراً بپھر اٹھتا ہے۔ وہ اس کا استہزا کرتاہے اور اس کا مذاق اڑانے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ یہی اس وقت فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں کیا۔
’’میں اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا‘‘— کوئی سنجیدہ جملہ نہیںہے۔ ان الفاظ سے فرعون کا مقصود بیانِ حقیقت نہیں بلکہ تحقیر موسیٰ ہے۔ اسی طرح فرعون نے جب اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ پختہ اینٹ تیار کرکے ایک اونچی عمارت بناؤ تاکہ میں آسمان میں جھانک کر موسیٰ کے خدا کو دیکھوں، تو یہ کوئی سنجیدہ حکم نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ واقعۃً وہ اپنے وزیر کے نام ایک تعمیری فرمان جاری کررہا ہے۔ یہ صرف حضرت موسیٰ کا استہزا تھا، نہ کی فی الواقع تعمیر مکان کا کوئی حکم۔
وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرِي فَأَوْقِدْ لِي يَا هَامَانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَلْ لِي صَرْحًا لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلَىٰ إِلَٰهِ مُوسَىٰ وَإِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَاذِبِينَ
📘 ایک شخص اپنے کو بڑا سمجھتاہو، اس کے سامنے ایک بظاہر معمولی آدمی آئے اور اس پر براہِ راست تنقید کرے تو وہ فوراً بپھر اٹھتا ہے۔ وہ اس کا استہزا کرتاہے اور اس کا مذاق اڑانے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ یہی اس وقت فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں کیا۔
’’میں اپنے سوا کوئی معبود نہیں جانتا‘‘— کوئی سنجیدہ جملہ نہیںہے۔ ان الفاظ سے فرعون کا مقصود بیانِ حقیقت نہیں بلکہ تحقیر موسیٰ ہے۔ اسی طرح فرعون نے جب اپنے وزیر ہامان سے کہا کہ پختہ اینٹ تیار کرکے ایک اونچی عمارت بناؤ تاکہ میں آسمان میں جھانک کر موسیٰ کے خدا کو دیکھوں، تو یہ کوئی سنجیدہ حکم نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ واقعۃً وہ اپنے وزیر کے نام ایک تعمیری فرمان جاری کررہا ہے۔ یہ صرف حضرت موسیٰ کا استہزا تھا، نہ کی فی الواقع تعمیر مکان کا کوئی حکم۔
وَاسْتَكْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی تحریک فرد انسانی میں ربانی انقلاب برپا کرنے کی تحریک تھی۔ آپ کا مدعا یہ تھا کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور اللہ کا بندہ بن کر دنیا میں زندگی گزارے۔ آپ کا یہی پیغام دوسرے افراد کے ليے بھی تھا اور یہی اس فرد کے ليے بھی جو ملک کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔
یہ ایک عام بات ہے کہ اختیار واقتدار پاکر آدمی گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی فرعون کا حال بھی تھا۔ حضرت موسیٰ نے فر عون کو ڈرایا کہ اگر تم متکبربن کر دنیا میں رہوگے تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔مگر فرعون نے نصیحت قبول نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ہلاک کردیاگیا۔
فرعون قدیم مشرکانہ تہذیب کا امام تھا۔ مشرکانہ تہذیب میں فرعون کو اونچا مقام حاصل تھا۔ مگر مشرکانہ تہذیب نہ صرف مصر سے بلکہ ساری دنیا سے ختم ہوگئی۔ اب دنیا کی آبادی میں زیادہ تر یا تو مسلمان ہیں یا یہودی يا عیسائی۔ اور یہ سب کے سب متفقہ طورپر فرعون کو لعنت زدہ سمجھتے ہیں۔ اب دنیا میں کوئی بھی فرعون کی عظمت کو ماننے والا نہیں۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ
📘 فرعون کو یہاں فساد فی الارض کا مجرم بتایا گیاہے۔ فرعون کا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر کی دو قوموں میں امتیاز کیا۔ قبطی قوم جو اس کی اپنی قوم تھی، اس کو اس نے ہر قسم کے مواقع دئے، اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مواقع سے محروم کیا بلکہ ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ فرعون کا یہ عمل فطرت کے نظام میں مداخلت تھا۔ خدا کے قانون میں، نظام فطرت سے مطابقت کا نام اصلاح ہے اور نظام فطرت میں مداخلت کا نام فساد۔
عزت اور بے عزتی کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خدا نے اس کے برعکس فیصلہ کیا جو فرعون نے فیصلہ کیا تھا۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو عزت اور اقتدار دے اور فرعون کو اس کی فوجوں کے ساتھ ہلاک کردے۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ اتمام حجت کے بعد فرعون نے اپنے کو مستحق عذاب ثابت کردیا۔ چنانچہ خدا نے اس کو سمندر میں ڈبا کر ہمیشہ کے ليے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اور بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر شام و فلسطین کا حکمراں بنا دیا۔
فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ
📘 حضرت موسیٰ کی تحریک فرد انسانی میں ربانی انقلاب برپا کرنے کی تحریک تھی۔ آپ کا مدعا یہ تھا کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور اللہ کا بندہ بن کر دنیا میں زندگی گزارے۔ آپ کا یہی پیغام دوسرے افراد کے ليے بھی تھا اور یہی اس فرد کے ليے بھی جو ملک کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔
یہ ایک عام بات ہے کہ اختیار واقتدار پاکر آدمی گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی فرعون کا حال بھی تھا۔ حضرت موسیٰ نے فر عون کو ڈرایا کہ اگر تم متکبربن کر دنیا میں رہوگے تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔مگر فرعون نے نصیحت قبول نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ہلاک کردیاگیا۔
فرعون قدیم مشرکانہ تہذیب کا امام تھا۔ مشرکانہ تہذیب میں فرعون کو اونچا مقام حاصل تھا۔ مگر مشرکانہ تہذیب نہ صرف مصر سے بلکہ ساری دنیا سے ختم ہوگئی۔ اب دنیا کی آبادی میں زیادہ تر یا تو مسلمان ہیں یا یہودی يا عیسائی۔ اور یہ سب کے سب متفقہ طورپر فرعون کو لعنت زدہ سمجھتے ہیں۔ اب دنیا میں کوئی بھی فرعون کی عظمت کو ماننے والا نہیں۔
وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنْصَرُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی تحریک فرد انسانی میں ربانی انقلاب برپا کرنے کی تحریک تھی۔ آپ کا مدعا یہ تھا کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور اللہ کا بندہ بن کر دنیا میں زندگی گزارے۔ آپ کا یہی پیغام دوسرے افراد کے ليے بھی تھا اور یہی اس فرد کے ليے بھی جو ملک کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔
یہ ایک عام بات ہے کہ اختیار واقتدار پاکر آدمی گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی فرعون کا حال بھی تھا۔ حضرت موسیٰ نے فر عون کو ڈرایا کہ اگر تم متکبربن کر دنیا میں رہوگے تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔مگر فرعون نے نصیحت قبول نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ہلاک کردیاگیا۔
فرعون قدیم مشرکانہ تہذیب کا امام تھا۔ مشرکانہ تہذیب میں فرعون کو اونچا مقام حاصل تھا۔ مگر مشرکانہ تہذیب نہ صرف مصر سے بلکہ ساری دنیا سے ختم ہوگئی۔ اب دنیا کی آبادی میں زیادہ تر یا تو مسلمان ہیں یا یہودی يا عیسائی۔ اور یہ سب کے سب متفقہ طورپر فرعون کو لعنت زدہ سمجھتے ہیں۔ اب دنیا میں کوئی بھی فرعون کی عظمت کو ماننے والا نہیں۔
وَأَتْبَعْنَاهُمْ فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ هُمْ مِنَ الْمَقْبُوحِينَ
📘 حضرت موسیٰ کی تحریک فرد انسانی میں ربانی انقلاب برپا کرنے کی تحریک تھی۔ آپ کا مدعا یہ تھا کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور اللہ کا بندہ بن کر دنیا میں زندگی گزارے۔ آپ کا یہی پیغام دوسرے افراد کے ليے بھی تھا اور یہی اس فرد کے ليے بھی جو ملک کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔
یہ ایک عام بات ہے کہ اختیار واقتدار پاکر آدمی گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی فرعون کا حال بھی تھا۔ حضرت موسیٰ نے فر عون کو ڈرایا کہ اگر تم متکبربن کر دنیا میں رہوگے تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔مگر فرعون نے نصیحت قبول نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ہلاک کردیاگیا۔
فرعون قدیم مشرکانہ تہذیب کا امام تھا۔ مشرکانہ تہذیب میں فرعون کو اونچا مقام حاصل تھا۔ مگر مشرکانہ تہذیب نہ صرف مصر سے بلکہ ساری دنیا سے ختم ہوگئی۔ اب دنیا کی آبادی میں زیادہ تر یا تو مسلمان ہیں یا یہودی يا عیسائی۔ اور یہ سب کے سب متفقہ طورپر فرعون کو لعنت زدہ سمجھتے ہیں۔ اب دنیا میں کوئی بھی فرعون کی عظمت کو ماننے والا نہیں۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِ مَا أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ الْأُولَىٰ بَصَائِرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی تحریک فرد انسانی میں ربانی انقلاب برپا کرنے کی تحریک تھی۔ آپ کا مدعا یہ تھا کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور اللہ کا بندہ بن کر دنیا میں زندگی گزارے۔ آپ کا یہی پیغام دوسرے افراد کے ليے بھی تھا اور یہی اس فرد کے ليے بھی جو ملک کے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔
یہ ایک عام بات ہے کہ اختیار واقتدار پاکر آدمی گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی فرعون کا حال بھی تھا۔ حضرت موسیٰ نے فر عون کو ڈرایا کہ اگر تم متکبربن کر دنیا میں رہوگے تو خدا کی پکڑ میں آجاؤ گے۔مگر فرعون نے نصیحت قبول نہیں کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ہلاک کردیاگیا۔
فرعون قدیم مشرکانہ تہذیب کا امام تھا۔ مشرکانہ تہذیب میں فرعون کو اونچا مقام حاصل تھا۔ مگر مشرکانہ تہذیب نہ صرف مصر سے بلکہ ساری دنیا سے ختم ہوگئی۔ اب دنیا کی آبادی میں زیادہ تر یا تو مسلمان ہیں یا یہودی يا عیسائی۔ اور یہ سب کے سب متفقہ طورپر فرعون کو لعنت زدہ سمجھتے ہیں۔ اب دنیا میں کوئی بھی فرعون کی عظمت کو ماننے والا نہیں۔
وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ إِذْ قَضَيْنَا إِلَىٰ مُوسَى الْأَمْرَ وَمَا كُنْتَ مِنَ الشَّاهِدِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں حضرت موسیٰ کے واقعات اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان کررہے تھے جیسے کہ آپ وہیں موقع پر کھڑے ہوں اور سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہوں۔ حالاں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت موسیٰ کے دو ہزار سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل تھی کہ قرآن کا کلام خدا کا کلام ہے، کیوں کہ کوئی انسان اس طرح کے بیان پر قادر نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آج کل کی طرح کتابیں نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت حضرت موسیٰ کے واقعات کا ذکر یہود کی غیر عربی کتابوں میں تھا جن کے صرف چند نسخے یہودی عبادت خانوں میں محفوظ تھے اور یقینی طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دسترس سے باہر تھے۔ مزید یہ کہ قرآن کے بیانات اور یہودی کتابوں کے بیانات میں بہت سے نہایت بامعنی فرق ہیں اور قرینہ بتاتاہے کہ قرآن کا بیان ہی زیادہ صحیح ہے۔ مثال کے طورپر حضرت موسیٰ کے ہاتھ قبطی کی موت قرآن کے بیان کے مطابق بلا قصد ہوئی۔ جب کہ بائبل موسیٰ کے بارے میں کہتی ہے
’’پھر اس نے اِدھر اُدھر نگاہ کی اور جب دیکھاکہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اُس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا ۔‘‘(خروج،
2:12
)
کھلی ہوئی بات ہے کہ حضرت موسیٰ جیسی مقدس شخصیت سے قرآن کا بیان مطابقت رکھتا ہے، نہ کہ تورات کا بیان۔ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اس پر قادر ہوئے کہ کسی ظاہری وسیلہ کے بغیر حضرت موسیٰ کے واقعات اس قدر صحت کے ساتھ قرآن میں پیش کرسکیں۔ اس کا کوئی بھی جواب اس کے سوا نہیں ہوسکتا کہ خدائے عالم الغیب نے یہ باتیں آپ کے اوپر بذریعہ وحی نازل فرمائیں۔
وَلَٰكِنَّا أَنْشَأْنَا قُرُونًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ ۚ وَمَا كُنْتَ ثَاوِيًا فِي أَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا وَلَٰكِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں حضرت موسیٰ کے واقعات اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان کررہے تھے جیسے کہ آپ وہیں موقع پر کھڑے ہوں اور سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہوں۔ حالاں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت موسیٰ کے دو ہزار سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل تھی کہ قرآن کا کلام خدا کا کلام ہے، کیوں کہ کوئی انسان اس طرح کے بیان پر قادر نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آج کل کی طرح کتابیں نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت حضرت موسیٰ کے واقعات کا ذکر یہود کی غیر عربی کتابوں میں تھا جن کے صرف چند نسخے یہودی عبادت خانوں میں محفوظ تھے اور یقینی طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دسترس سے باہر تھے۔ مزید یہ کہ قرآن کے بیانات اور یہودی کتابوں کے بیانات میں بہت سے نہایت بامعنی فرق ہیں اور قرینہ بتاتاہے کہ قرآن کا بیان ہی زیادہ صحیح ہے۔ مثال کے طورپر حضرت موسیٰ کے ہاتھ قبطی کی موت قرآن کے بیان کے مطابق بلا قصد ہوئی۔ جب کہ بائبل موسیٰ کے بارے میں کہتی ہے
’’پھر اس نے اِدھر اُدھر نگاہ کی اور جب دیکھاکہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اُس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا ۔‘‘(خروج،
2:12
)
کھلی ہوئی بات ہے کہ حضرت موسیٰ جیسی مقدس شخصیت سے قرآن کا بیان مطابقت رکھتا ہے، نہ کہ تورات کا بیان۔ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اس پر قادر ہوئے کہ کسی ظاہری وسیلہ کے بغیر حضرت موسیٰ کے واقعات اس قدر صحت کے ساتھ قرآن میں پیش کرسکیں۔ اس کا کوئی بھی جواب اس کے سوا نہیں ہوسکتا کہ خدائے عالم الغیب نے یہ باتیں آپ کے اوپر بذریعہ وحی نازل فرمائیں۔
وَمَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّورِ إِذْ نَادَيْنَا وَلَٰكِنْ رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن میں حضرت موسیٰ کے واقعات اس قدر تفصیل کے ساتھ بیان کررہے تھے جیسے کہ آپ وہیں موقع پر کھڑے ہوں اور سب کچھ دیکھ اور سن رہے ہوں۔ حالاں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ حضرت موسیٰ کے دو ہزار سال بعد مکہ میں پیدا ہوئے۔ یہ اس بات کی واضح دلیل تھی کہ قرآن کا کلام خدا کا کلام ہے، کیوں کہ کوئی انسان اس طرح کے بیان پر قادر نہیں ہوسکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آج کل کی طرح کتابیں نہیں ہوتی تھیں۔ اس وقت حضرت موسیٰ کے واقعات کا ذکر یہود کی غیر عربی کتابوں میں تھا جن کے صرف چند نسخے یہودی عبادت خانوں میں محفوظ تھے اور یقینی طورپر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دسترس سے باہر تھے۔ مزید یہ کہ قرآن کے بیانات اور یہودی کتابوں کے بیانات میں بہت سے نہایت بامعنی فرق ہیں اور قرینہ بتاتاہے کہ قرآن کا بیان ہی زیادہ صحیح ہے۔ مثال کے طورپر حضرت موسیٰ کے ہاتھ قبطی کی موت قرآن کے بیان کے مطابق بلا قصد ہوئی۔ جب کہ بائبل موسیٰ کے بارے میں کہتی ہے
’’پھر اس نے اِدھر اُدھر نگاہ کی اور جب دیکھاکہ وہاں کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے تو اُس مصری کو جان سے مار کر اسے ریت میں چھپا دیا ۔‘‘(خروج،
2:12
)
کھلی ہوئی بات ہے کہ حضرت موسیٰ جیسی مقدس شخصیت سے قرآن کا بیان مطابقت رکھتا ہے، نہ کہ تورات کا بیان۔ پھر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اس پر قادر ہوئے کہ کسی ظاہری وسیلہ کے بغیر حضرت موسیٰ کے واقعات اس قدر صحت کے ساتھ قرآن میں پیش کرسکیں۔ اس کا کوئی بھی جواب اس کے سوا نہیں ہوسکتا کہ خدائے عالم الغیب نے یہ باتیں آپ کے اوپر بذریعہ وحی نازل فرمائیں۔
وَلَوْلَا أَنْ تُصِيبَهُمْ مُصِيبَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَيَقُولُوا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَيْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آيَاتِكَ وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قدیم مصریوں کے سامنے اپنا پیغام رسالت پیش کیا تو اسی کے ساتھ آپ نے معجزے بھی دکھائے۔ مگر ان لوگوں نے نہیں مانا اور کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میں دلائل کی بنیاد پر حق کی دعوت پیش کی تو انھوںنے کہا کہ اگر یہ پیغمبر ہیں تو موسیٰ جیسے معجزے کیوں نہیں دکھاتے۔
یہ سب غیر سنجیدہ ذہن سے نکلی ہوئی باتیں ہیں۔ موجودہ دنیا میں حق کو ماننے کے ليے سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی سنجیدہ ہو۔ جو شخص حق ا ور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہو اس کو کوئی بھی چیز حق کے اعتراف پر مجبور نہیں کرسکتی۔ وہ ہر بار نئے عذر تلاش کرلے گا۔ وہ ہر بات کے جوا ب میں نئے الفاظ پالے گا۔
فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا لَوْلَا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ مُوسَىٰ ۚ أَوَلَمْ يَكْفُرُوا بِمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ مِنْ قَبْلُ ۖ قَالُوا سِحْرَانِ تَظَاهَرَا وَقَالُوا إِنَّا بِكُلٍّ كَافِرُونَ
📘 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قدیم مصریوں کے سامنے اپنا پیغام رسالت پیش کیا تو اسی کے ساتھ آپ نے معجزے بھی دکھائے۔ مگر ان لوگوں نے نہیں مانا اور کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میں دلائل کی بنیاد پر حق کی دعوت پیش کی تو انھوںنے کہا کہ اگر یہ پیغمبر ہیں تو موسیٰ جیسے معجزے کیوں نہیں دکھاتے۔
یہ سب غیر سنجیدہ ذہن سے نکلی ہوئی باتیں ہیں۔ موجودہ دنیا میں حق کو ماننے کے ليے سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی سنجیدہ ہو۔ جو شخص حق ا ور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہو اس کو کوئی بھی چیز حق کے اعتراف پر مجبور نہیں کرسکتی۔ وہ ہر بار نئے عذر تلاش کرلے گا۔ وہ ہر بات کے جوا ب میں نئے الفاظ پالے گا۔
قُلْ فَأْتُوا بِكِتَابٍ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ هُوَ أَهْدَىٰ مِنْهُمَا أَتَّبِعْهُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 حق کے پیغام کو ماننے یا نہ ماننے کا جو اصل معیار ہے وہ یہ ہے کہ پیغام کو خود اس کے جوہر ذاتی کی بنیاد پر جانچا جائے۔ اگر وہ اپنی ذات میں برتر صداقت ہونا ثابت کررہا ہو تو یہی کافی ہے کہ اس کو مان لیا جائے۔ اس کے بعد ا س کو ماننے کے ليے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
صداقت کا جواب صداقت ہے۔ اگرآدمی صداقت کا انکار کرے اور اس کے جواب میں دوسری اعلیٰ تر صداقت نہ پیش کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہش پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کررہا ہے۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ صداقت کو معقولیت کے ذریعہ رد نہ کرسکیں اور پھر بھی خواہش اور تعصب کے زیر اثر اس کو نہ مانیں وہ بدترین گمراہ لوگ ہیں۔ ایسے لوگ خدا کے یہاں ظالموں میں شمار ہوں گے۔
وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ
📘 فرعون کو یہاں فساد فی الارض کا مجرم بتایا گیاہے۔ فرعون کا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر کی دو قوموں میں امتیاز کیا۔ قبطی قوم جو اس کی اپنی قوم تھی، اس کو اس نے ہر قسم کے مواقع دئے، اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مواقع سے محروم کیا بلکہ ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ فرعون کا یہ عمل فطرت کے نظام میں مداخلت تھا۔ خدا کے قانون میں، نظام فطرت سے مطابقت کا نام اصلاح ہے اور نظام فطرت میں مداخلت کا نام فساد۔
عزت اور بے عزتی کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خدا نے اس کے برعکس فیصلہ کیا جو فرعون نے فیصلہ کیا تھا۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو عزت اور اقتدار دے اور فرعون کو اس کی فوجوں کے ساتھ ہلاک کردے۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ اتمام حجت کے بعد فرعون نے اپنے کو مستحق عذاب ثابت کردیا۔ چنانچہ خدا نے اس کو سمندر میں ڈبا کر ہمیشہ کے ليے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اور بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر شام و فلسطین کا حکمراں بنا دیا۔
فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
📘 حق کے پیغام کو ماننے یا نہ ماننے کا جو اصل معیار ہے وہ یہ ہے کہ پیغام کو خود اس کے جوہر ذاتی کی بنیاد پر جانچا جائے۔ اگر وہ اپنی ذات میں برتر صداقت ہونا ثابت کررہا ہو تو یہی کافی ہے کہ اس کو مان لیا جائے۔ اس کے بعد ا س کو ماننے کے ليے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
صداقت کا جواب صداقت ہے۔ اگرآدمی صداقت کا انکار کرے اور اس کے جواب میں دوسری اعلیٰ تر صداقت نہ پیش کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہش پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کررہا ہے۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ صداقت کو معقولیت کے ذریعہ رد نہ کرسکیں اور پھر بھی خواہش اور تعصب کے زیر اثر اس کو نہ مانیں وہ بدترین گمراہ لوگ ہیں۔ ایسے لوگ خدا کے یہاں ظالموں میں شمار ہوں گے۔
۞ وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
📘 حق کے پیغام کو ماننے یا نہ ماننے کا جو اصل معیار ہے وہ یہ ہے کہ پیغام کو خود اس کے جوہر ذاتی کی بنیاد پر جانچا جائے۔ اگر وہ اپنی ذات میں برتر صداقت ہونا ثابت کررہا ہو تو یہی کافی ہے کہ اس کو مان لیا جائے۔ اس کے بعد ا س کو ماننے کے ليے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
صداقت کا جواب صداقت ہے۔ اگرآدمی صداقت کا انکار کرے اور اس کے جواب میں دوسری اعلیٰ تر صداقت نہ پیش کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خواہش پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کررہا ہے۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ صداقت کو معقولیت کے ذریعہ رد نہ کرسکیں اور پھر بھی خواہش اور تعصب کے زیر اثر اس کو نہ مانیں وہ بدترین گمراہ لوگ ہیں۔ ایسے لوگ خدا کے یہاں ظالموں میں شمار ہوں گے۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِهِ هُمْ بِهِ يُؤْمِنُونَ
📘 ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حق ہے، اس ليے ماننا ۔دوسري یہ کہ اپنے گروہ کا ہے اس ليے ماننا۔ ان دونوں میں صرف پہلی قسم کے انسان ہیں جن کو ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اور اسی قسم کے لوگ تھے جو دور اوّل میں قرآن اور پیغمبر پر ایمان لائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک تعداد تھی جو قرآن کو سنتے ہی اس کی مومن بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو سابق پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے۔ اس ليے ان کو پیغمبر آخر الزماں کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے نئے پیغمبر کو بھی اسی طرح پہچان لیا جس طرح انھوں نے پچھلے پیغمبروں کو پہچانا تھا۔ مگر اپنے آپ کو اس قابل رکھنے کے ليے انھیں ’’صبر‘‘ کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
انھوںنے اپنے ذہن کو ان اثرات سے پاک رکھا جس کے بعد آدمی حق کی معرفت کے ليے نااہل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی اور سماجی عوامل ہیں جو آدمی کے ذہن میں خدائی دین کو گروہی دین بنا دیتے ہیں۔ آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اس دین کو پہچان سکے جو اس کے اپنے گروہ سے ملا ہو۔ وہ اس دین کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اس کے اپنے گروہ کے باہر سے اس کے پاس آئے۔ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے ليے آدمی کو زبردست نفسیاتی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس ليے اس کو صبر سے تعبیر فرمایا۔ ایسے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک ان کی اس قربانی کا کہ انھوںنے اپنے سابقہ ایمان کو گروہی ایمان بننے نہیں دیا۔ اور دوسرے ان کی جوہر شناسی کا کہ ان کے سامنے نیا پیغمبر آیا تو انھوں نے اس کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔
جن لوگوں کے اندر حق شناسی کا مادہ ہو انھیں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پاتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ برائی کریں تب بھی وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ خدا ان کی مدد کرے۔ ان کا طریقہ اعراض کا طریقہ ہوتاہے، نہ کہ لوگوں سے الجھنے کا طریقہ۔
وَإِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ قَالُوا آمَنَّا بِهِ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا مِنْ قَبْلِهِ مُسْلِمِينَ
📘 ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حق ہے، اس ليے ماننا ۔دوسري یہ کہ اپنے گروہ کا ہے اس ليے ماننا۔ ان دونوں میں صرف پہلی قسم کے انسان ہیں جن کو ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اور اسی قسم کے لوگ تھے جو دور اوّل میں قرآن اور پیغمبر پر ایمان لائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک تعداد تھی جو قرآن کو سنتے ہی اس کی مومن بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو سابق پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے۔ اس ليے ان کو پیغمبر آخر الزماں کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے نئے پیغمبر کو بھی اسی طرح پہچان لیا جس طرح انھوں نے پچھلے پیغمبروں کو پہچانا تھا۔ مگر اپنے آپ کو اس قابل رکھنے کے ليے انھیں ’’صبر‘‘ کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
انھوںنے اپنے ذہن کو ان اثرات سے پاک رکھا جس کے بعد آدمی حق کی معرفت کے ليے نااہل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی اور سماجی عوامل ہیں جو آدمی کے ذہن میں خدائی دین کو گروہی دین بنا دیتے ہیں۔ آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اس دین کو پہچان سکے جو اس کے اپنے گروہ سے ملا ہو۔ وہ اس دین کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اس کے اپنے گروہ کے باہر سے اس کے پاس آئے۔ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے ليے آدمی کو زبردست نفسیاتی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس ليے اس کو صبر سے تعبیر فرمایا۔ ایسے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک ان کی اس قربانی کا کہ انھوںنے اپنے سابقہ ایمان کو گروہی ایمان بننے نہیں دیا۔ اور دوسرے ان کی جوہر شناسی کا کہ ان کے سامنے نیا پیغمبر آیا تو انھوں نے اس کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔
جن لوگوں کے اندر حق شناسی کا مادہ ہو انھیں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پاتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ برائی کریں تب بھی وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ خدا ان کی مدد کرے۔ ان کا طریقہ اعراض کا طریقہ ہوتاہے، نہ کہ لوگوں سے الجھنے کا طریقہ۔
أُولَٰئِكَ يُؤْتَوْنَ أَجْرَهُمْ مَرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
📘 ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حق ہے، اس ليے ماننا ۔دوسري یہ کہ اپنے گروہ کا ہے اس ليے ماننا۔ ان دونوں میں صرف پہلی قسم کے انسان ہیں جن کو ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اور اسی قسم کے لوگ تھے جو دور اوّل میں قرآن اور پیغمبر پر ایمان لائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک تعداد تھی جو قرآن کو سنتے ہی اس کی مومن بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو سابق پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے۔ اس ليے ان کو پیغمبر آخر الزماں کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے نئے پیغمبر کو بھی اسی طرح پہچان لیا جس طرح انھوں نے پچھلے پیغمبروں کو پہچانا تھا۔ مگر اپنے آپ کو اس قابل رکھنے کے ليے انھیں ’’صبر‘‘ کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
انھوںنے اپنے ذہن کو ان اثرات سے پاک رکھا جس کے بعد آدمی حق کی معرفت کے ليے نااہل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی اور سماجی عوامل ہیں جو آدمی کے ذہن میں خدائی دین کو گروہی دین بنا دیتے ہیں۔ آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اس دین کو پہچان سکے جو اس کے اپنے گروہ سے ملا ہو۔ وہ اس دین کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اس کے اپنے گروہ کے باہر سے اس کے پاس آئے۔ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے ليے آدمی کو زبردست نفسیاتی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس ليے اس کو صبر سے تعبیر فرمایا۔ ایسے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک ان کی اس قربانی کا کہ انھوںنے اپنے سابقہ ایمان کو گروہی ایمان بننے نہیں دیا۔ اور دوسرے ان کی جوہر شناسی کا کہ ان کے سامنے نیا پیغمبر آیا تو انھوں نے اس کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔
جن لوگوں کے اندر حق شناسی کا مادہ ہو انھیں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پاتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ برائی کریں تب بھی وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ خدا ان کی مدد کرے۔ ان کا طریقہ اعراض کا طریقہ ہوتاہے، نہ کہ لوگوں سے الجھنے کا طریقہ۔
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
📘 ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حق ہے، اس ليے ماننا ۔دوسري یہ کہ اپنے گروہ کا ہے اس ليے ماننا۔ ان دونوں میں صرف پہلی قسم کے انسان ہیں جن کو ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اور اسی قسم کے لوگ تھے جو دور اوّل میں قرآن اور پیغمبر پر ایمان لائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک تعداد تھی جو قرآن کو سنتے ہی اس کی مومن بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو سابق پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے۔ اس ليے ان کو پیغمبر آخر الزماں کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے نئے پیغمبر کو بھی اسی طرح پہچان لیا جس طرح انھوں نے پچھلے پیغمبروں کو پہچانا تھا۔ مگر اپنے آپ کو اس قابل رکھنے کے ليے انھیں ’’صبر‘‘ کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
انھوںنے اپنے ذہن کو ان اثرات سے پاک رکھا جس کے بعد آدمی حق کی معرفت کے ليے نااہل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی اور سماجی عوامل ہیں جو آدمی کے ذہن میں خدائی دین کو گروہی دین بنا دیتے ہیں۔ آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اس دین کو پہچان سکے جو اس کے اپنے گروہ سے ملا ہو۔ وہ اس دین کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اس کے اپنے گروہ کے باہر سے اس کے پاس آئے۔ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے ليے آدمی کو زبردست نفسیاتی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس ليے اس کو صبر سے تعبیر فرمایا۔ ایسے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک ان کی اس قربانی کا کہ انھوںنے اپنے سابقہ ایمان کو گروہی ایمان بننے نہیں دیا۔ اور دوسرے ان کی جوہر شناسی کا کہ ان کے سامنے نیا پیغمبر آیا تو انھوں نے اس کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔
جن لوگوں کے اندر حق شناسی کا مادہ ہو انھیں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پاتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ برائی کریں تب بھی وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ خدا ان کی مدد کرے۔ ان کا طریقہ اعراض کا طریقہ ہوتاہے، نہ کہ لوگوں سے الجھنے کا طریقہ۔
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
📘 ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ حق ہے، اس ليے ماننا ۔دوسري یہ کہ اپنے گروہ کا ہے اس ليے ماننا۔ ان دونوں میں صرف پہلی قسم کے انسان ہیں جن کو ہدایت کی توفیق ملتی ہے۔ اور اسی قسم کے لوگ تھے جو دور اوّل میں قرآن اور پیغمبر پر ایمان لائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک تعداد تھی جو قرآن کو سنتے ہی اس کی مومن بن گئی۔ یہ وہ لوگ تھے جو سابق پیغمبروں کی حقیقی تعلیمات پر قائم تھے۔ اس ليے ان کو پیغمبر آخر الزماں کو پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ انھوں نے نئے پیغمبر کو بھی اسی طرح پہچان لیا جس طرح انھوں نے پچھلے پیغمبروں کو پہچانا تھا۔ مگر اپنے آپ کو اس قابل رکھنے کے ليے انھیں ’’صبر‘‘ کے مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
انھوںنے اپنے ذہن کو ان اثرات سے پاک رکھا جس کے بعد آدمی حق کی معرفت کے ليے نااہل ہوجاتا ہے۔ یہ وہ تاریخی اور سماجی عوامل ہیں جو آدمی کے ذہن میں خدائی دین کو گروہی دین بنا دیتے ہیں۔ آدمی کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ وہ صرف اس دین کو پہچان سکے جو اس کے اپنے گروہ سے ملا ہو۔ وہ اس دین کو پہچاننے میں ناکام رہے جو اس کے اپنے گروہ کے باہر سے اس کے پاس آئے۔ ان اثرات سے محفوظ رہنے کے ليے آدمی کو زبردست نفسیاتی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس ليے اس کو صبر سے تعبیر فرمایا۔ ایسے لوگوں کو دہرا اجر دیا جائے گا۔ ایک ان کی اس قربانی کا کہ انھوںنے اپنے سابقہ ایمان کو گروہی ایمان بننے نہیں دیا۔ اور دوسرے ان کی جوہر شناسی کا کہ ان کے سامنے نیا پیغمبر آیا تو انھوں نے اس کو پہچان لیا اور اس کے ساتھ ہوگئے۔
جن لوگوں کے اندر حق شناسی کا مادہ ہو انھیں کے اندر اعلیٰ اخلاقی اوصاف پرورش پاتے ہیں۔ لوگ ان کے ساتھ برائی کریں تب بھی وہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں تاکہ خدا ان کی مدد کرے۔ ان کا طریقہ اعراض کا طریقہ ہوتاہے، نہ کہ لوگوں سے الجھنے کا طریقہ۔
وَقَالُوا إِنْ نَتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا ۚ أَوَلَمْ نُمَكِّنْ لَهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِزْقًا مِنْ لَدُنَّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 جس نظام سے آدمی کے فائدے وابستہ ہوجائیں وہ سمجھنے لگتاہے کہ مجھ کو جو کچھ مل رہا ہے وہ اسی نظام کی بدولت مل رہا ہے۔ آدمی صرف حال کے فائدوں کو جانتا ہے، وہ مستقبل کے فائدوں کو نہیں جانتا۔
یہی معاملہ قدیم مکہ کے مشرکوں کا تھا۔ انھوں نے کعبہ میں تمام عرب قبیلوں کے بت رکھ دئے تھے۔ اس طرح انھیں پورے ملک کی مذہبی سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ اسی طرح ان بتوں کے نام پر جو نذرانے آتے تھے وہ بھی ان کی معاش کا خاص ذریعہ تھے۔
مگر یہ صرف ان کی تنگ نظری تھی۔ خدا کا رسول انھیں ایک ایسے دین کی طر ف بلا رہا تھا جو انھیں عالم کی امامت دینے والا تھا، اور وہ ایک ایسے دین کی خاطر اس کو چھوڑ رہے تھے جس کے پاس ملک کے قبیلوں کی معمولی سرداری کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا ۖ فَتِلْكَ مَسَاكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ وَكُنَّا نَحْنُ الْوَارِثِينَ
📘 دنیا میں کسی کو مادی استحکام حاصل ہو تو وہ بڑائی کے احساس میںمبتلا ہوجاتا ہے۔حالاں کہ تاریخ مسلسل یہ سبق دے رہی ہے کہ کسی بھی شخص یا قوم کا مادی استحکام مستقل نہیں۔ جب بھی کسی قوم نے حق کو نظر انداز کیا، ساری عظمت کے باوجود وہ ہلاک کردی گئی۔
عرب کے جغرافیہ میںاسلام سے پہلے مختلف قومیں ابھریں۔ مثلاً عاد، ثمود، سبا، مدین، قوم لوط وغیرہ۔ ہر ایک کبر میں مبتلا ہوگئی۔ مگر ہر ایک کا کبر زمانہ نے باطل کر دیا۔ اور بالآخر ان کی حیثیت گزری ہوئی کہانی کے سوا اور کچھ نہ رہی۔ ان قوموں کے کھنڈر چاروں طرح پھیلے ہوئے انسانی عظمت کی نفی کررہے تھے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام کے زمانہ میں جن لوگوں کو بڑائی حاصل تھی انھوںنے پیغمبر کو اس طرح جھٹلادیا جیسے کہ ماضی کے واقعات میں ان کے حال کے ليے کوئی نصیحت نہیں۔
وَمَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرَىٰ حَتَّىٰ يَبْعَثَ فِي أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۚ وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَىٰ إِلَّا وَأَهْلُهَا ظَالِمُونَ
📘 دنیا میں کسی کو مادی استحکام حاصل ہو تو وہ بڑائی کے احساس میںمبتلا ہوجاتا ہے۔حالاں کہ تاریخ مسلسل یہ سبق دے رہی ہے کہ کسی بھی شخص یا قوم کا مادی استحکام مستقل نہیں۔ جب بھی کسی قوم نے حق کو نظر انداز کیا، ساری عظمت کے باوجود وہ ہلاک کردی گئی۔
عرب کے جغرافیہ میںاسلام سے پہلے مختلف قومیں ابھریں۔ مثلاً عاد، ثمود، سبا، مدین، قوم لوط وغیرہ۔ ہر ایک کبر میں مبتلا ہوگئی۔ مگر ہر ایک کا کبر زمانہ نے باطل کر دیا۔ اور بالآخر ان کی حیثیت گزری ہوئی کہانی کے سوا اور کچھ نہ رہی۔ ان قوموں کے کھنڈر چاروں طرح پھیلے ہوئے انسانی عظمت کی نفی کررہے تھے۔ اس کے باوجود پیغمبر اسلام کے زمانہ میں جن لوگوں کو بڑائی حاصل تھی انھوںنے پیغمبر کو اس طرح جھٹلادیا جیسے کہ ماضی کے واقعات میں ان کے حال کے ليے کوئی نصیحت نہیں۔
وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ
📘 فرعون کو یہاں فساد فی الارض کا مجرم بتایا گیاہے۔ فرعون کا فساد یہ تھا کہ اس نے مصر کی دو قوموں میں امتیاز کیا۔ قبطی قوم جو اس کی اپنی قوم تھی، اس کو اس نے ہر قسم کے مواقع دئے، اور بنی اسرائیل کو نہ صرف مواقع سے محروم کیا بلکہ ان کے نومولود لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا۔ تاکہ دھیرے دھیرے ان کی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ فرعون کا یہ عمل فطرت کے نظام میں مداخلت تھا۔ خدا کے قانون میں، نظام فطرت سے مطابقت کا نام اصلاح ہے اور نظام فطرت میں مداخلت کا نام فساد۔
عزت اور بے عزتی کا فیصلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ خدا نے اس کے برعکس فیصلہ کیا جو فرعون نے فیصلہ کیا تھا۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو عزت اور اقتدار دے اور فرعون کو اس کی فوجوں کے ساتھ ہلاک کردے۔ حضرت موسیٰ کے ذریعہ اتمام حجت کے بعد فرعون نے اپنے کو مستحق عذاب ثابت کردیا۔ چنانچہ خدا نے اس کو سمندر میں ڈبا کر ہمیشہ کے ليے اس کا خاتمہ کر دیا۔ اور بنی اسرائیل کو مصر سے لے جاکر شام و فلسطین کا حکمراں بنا دیا۔
وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
📘 دنیا میں آدمی کے پاس کتنا ہی زیادہ سازوسامان ہو، بہر حال موت کے وقت وہ آدمی کا ساتھ چھوڑ دیتاہے۔ موت کے بعد جو چیز آدمی کے ساتھ جاتی ہے وہ اس کے نیک اعمال ہیں، نہ کہ دنیوی عزت اور مادی سازوسامان۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی چند دن کی کامیابی کے مقابلہ میں ابدی کامیابی کو ترجیح دے۔ وہ دنیا کی تعمیر کے بجائے آخرت کی تعمیر کی فکر کرے۔
أَفَمَنْ وَعَدْنَاهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيهِ كَمَنْ مَتَّعْنَاهُ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْمُحْضَرِينَ
📘 دنیا میں آدمی کے پاس کتنا ہی زیادہ سازوسامان ہو، بہر حال موت کے وقت وہ آدمی کا ساتھ چھوڑ دیتاہے۔ موت کے بعد جو چیز آدمی کے ساتھ جاتی ہے وہ اس کے نیک اعمال ہیں، نہ کہ دنیوی عزت اور مادی سازوسامان۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی چند دن کی کامیابی کے مقابلہ میں ابدی کامیابی کو ترجیح دے۔ وہ دنیا کی تعمیر کے بجائے آخرت کی تعمیر کی فکر کرے۔
وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ
📘 یہاں ’’شریک‘‘ سے مراد گمراہ لیڈر ہیں۔ یعنی وہ بڑے لوگ جن کی بات لوگوں نے اس طرح مانی جس طرح خدا کی بات ماننی چاہيے۔ قیامت میں جب ان بڑوں کا ساتھ دینے والے لوگ اپنا برا انجام دیکھیں گے تو ان کاعجیب حال ہوگا۔ وہ پائیں گے کہ جن بڑوں سے وابستہ ہونے پر وہ فخر کرتے تھے، ان بڑوں نے انھیں صرف جہنم تک پہنچایا ہے۔ اس وقت وہ بے زار ہو کر ان سے کہیں گے کہ ہماری بربادی کے ذمہ دار تم ہو۔ ان کے بڑے جواب دیں گے کہ تمھاری اپنی ذات کے سوا کوئی تمھاری بربادی کا ذمہ دار نہیں۔ اگر چہ بظاہر تم ہمارے کہنے پر چلے مگر ہمارا ساتھ تم نے ا س ليے دیا کہ ہماری بات تمھاری خواہشات کے مطابق تھی، تم در حقیقت اپنی خواہشات کے پیرو تھے، نہ کہ ہمارے پیرو۔ ہم بھی اپنی خواہشات پر چلے اور تم بھی اپنی خواہشات پر چلے۔ اب دونوں کو ایک ہی انجام بھگتنا ہے۔ ایک دوسرے کو برا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا أَغْوَيْنَاهُمْ كَمَا غَوَيْنَا ۖ تَبَرَّأْنَا إِلَيْكَ ۖ مَا كَانُوا إِيَّانَا يَعْبُدُونَ
📘 یہاں ’’شریک‘‘ سے مراد گمراہ لیڈر ہیں۔ یعنی وہ بڑے لوگ جن کی بات لوگوں نے اس طرح مانی جس طرح خدا کی بات ماننی چاہيے۔ قیامت میں جب ان بڑوں کا ساتھ دینے والے لوگ اپنا برا انجام دیکھیں گے تو ان کاعجیب حال ہوگا۔ وہ پائیں گے کہ جن بڑوں سے وابستہ ہونے پر وہ فخر کرتے تھے، ان بڑوں نے انھیں صرف جہنم تک پہنچایا ہے۔ اس وقت وہ بے زار ہو کر ان سے کہیں گے کہ ہماری بربادی کے ذمہ دار تم ہو۔ ان کے بڑے جواب دیں گے کہ تمھاری اپنی ذات کے سوا کوئی تمھاری بربادی کا ذمہ دار نہیں۔ اگر چہ بظاہر تم ہمارے کہنے پر چلے مگر ہمارا ساتھ تم نے ا س ليے دیا کہ ہماری بات تمھاری خواہشات کے مطابق تھی، تم در حقیقت اپنی خواہشات کے پیرو تھے، نہ کہ ہمارے پیرو۔ ہم بھی اپنی خواہشات پر چلے اور تم بھی اپنی خواہشات پر چلے۔ اب دونوں کو ایک ہی انجام بھگتنا ہے۔ ایک دوسرے کو برا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔
وَقِيلَ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَرَأَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ
📘 دنیا میںآدمی جب حق کا انکار کرتاہے تو وہ کسی بھروسہ پر حق کا انکار کرتا رہے۔ آخرت میں اس سے کہا جائے گا کہ جن کے بھروسہ پر تم نے حق کو نہیں مانا تھا آج ان کو بلاؤ تاکہ وہ تم کو انکار حق کے برے انجام سے بچائیں۔ مگر یہ خداکے ظہور کا دن ہوگا۔ اور کون ہے جو خدا کے مقابلے میں کسی کی مدد کرسکے۔
دنیا میں آدمی کسی حال میں چپ نہیں ہوتا۔ ہر دلیل کو رد کرنے کے ليے اس کو یہاں الفاظ مل جاتے ہیں۔ مگر یہ سارے الفاظ قیامت میں جھوٹے الفاظ ثابت ہوں گے۔ وہاں آدمی افسوس کرے گا کہ کتنی چھوٹی چیز کی خاطر اس نے کتنی بڑی چیز کو کھودیا۔
وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ
📘 دنیا میںآدمی جب حق کا انکار کرتاہے تو وہ کسی بھروسہ پر حق کا انکار کرتا رہے۔ آخرت میں اس سے کہا جائے گا کہ جن کے بھروسہ پر تم نے حق کو نہیں مانا تھا آج ان کو بلاؤ تاکہ وہ تم کو انکار حق کے برے انجام سے بچائیں۔ مگر یہ خداکے ظہور کا دن ہوگا۔ اور کون ہے جو خدا کے مقابلے میں کسی کی مدد کرسکے۔
دنیا میں آدمی کسی حال میں چپ نہیں ہوتا۔ ہر دلیل کو رد کرنے کے ليے اس کو یہاں الفاظ مل جاتے ہیں۔ مگر یہ سارے الفاظ قیامت میں جھوٹے الفاظ ثابت ہوں گے۔ وہاں آدمی افسوس کرے گا کہ کتنی چھوٹی چیز کی خاطر اس نے کتنی بڑی چیز کو کھودیا۔
فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنْبَاءُ يَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاءَلُونَ
📘 دنیا میںآدمی جب حق کا انکار کرتاہے تو وہ کسی بھروسہ پر حق کا انکار کرتا رہے۔ آخرت میں اس سے کہا جائے گا کہ جن کے بھروسہ پر تم نے حق کو نہیں مانا تھا آج ان کو بلاؤ تاکہ وہ تم کو انکار حق کے برے انجام سے بچائیں۔ مگر یہ خداکے ظہور کا دن ہوگا۔ اور کون ہے جو خدا کے مقابلے میں کسی کی مدد کرسکے۔
دنیا میں آدمی کسی حال میں چپ نہیں ہوتا۔ ہر دلیل کو رد کرنے کے ليے اس کو یہاں الفاظ مل جاتے ہیں۔ مگر یہ سارے الفاظ قیامت میں جھوٹے الفاظ ثابت ہوں گے۔ وہاں آدمی افسوس کرے گا کہ کتنی چھوٹی چیز کی خاطر اس نے کتنی بڑی چیز کو کھودیا۔
فَأَمَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسَىٰ أَنْ يَكُونَ مِنَ الْمُفْلِحِينَ
📘 دنیا میںآدمی جب حق کا انکار کرتاہے تو وہ کسی بھروسہ پر حق کا انکار کرتا رہے۔ آخرت میں اس سے کہا جائے گا کہ جن کے بھروسہ پر تم نے حق کو نہیں مانا تھا آج ان کو بلاؤ تاکہ وہ تم کو انکار حق کے برے انجام سے بچائیں۔ مگر یہ خداکے ظہور کا دن ہوگا۔ اور کون ہے جو خدا کے مقابلے میں کسی کی مدد کرسکے۔
دنیا میں آدمی کسی حال میں چپ نہیں ہوتا۔ ہر دلیل کو رد کرنے کے ليے اس کو یہاں الفاظ مل جاتے ہیں۔ مگر یہ سارے الفاظ قیامت میں جھوٹے الفاظ ثابت ہوں گے۔ وہاں آدمی افسوس کرے گا کہ کتنی چھوٹی چیز کی خاطر اس نے کتنی بڑی چیز کو کھودیا۔
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرتاہے۔ پھر انسانوں میں سے کسی شخص کو وہ کسی خاص کام کےلیے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ انتخاب اس کے ذاتی تقدس کی بناپر نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کے اپنے فیصلہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس ليے ایسی شخصیتوں کو مقدس مان کر ان کو خدا کا درجہ دینا سراسر بے بنیاد ہے۔ خدا کی دنیا میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
آدمی حق کا انکار کرنے کے لیے زبان سے کچھ الفاظ بول دیتاہے۔ مگر اس کے دل میں کچھ اور بات ہوتی ہے۔ وہ ذاتی مصلحتوں کی بنا پر حق کو نہیں مانتا اور الفاظ کے ذریعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دلیل اور معقولیت کی بنا پر اس کا انکار کر رہا ہے۔ آخرت میں یہ پردہ باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت کھلے طور پر معلوم ہوجائے گا کہ اس کے دل میں کچھ اور تھا مگر اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ کچھ دوسرے الفاظ بولتارہا۔
وَرَبُّكَ يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَمَا يُعْلِنُونَ
📘 اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرتاہے۔ پھر انسانوں میں سے کسی شخص کو وہ کسی خاص کام کےلیے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ انتخاب اس کے ذاتی تقدس کی بناپر نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کے اپنے فیصلہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس ليے ایسی شخصیتوں کو مقدس مان کر ان کو خدا کا درجہ دینا سراسر بے بنیاد ہے۔ خدا کی دنیا میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
آدمی حق کا انکار کرنے کے لیے زبان سے کچھ الفاظ بول دیتاہے۔ مگر اس کے دل میں کچھ اور بات ہوتی ہے۔ وہ ذاتی مصلحتوں کی بنا پر حق کو نہیں مانتا اور الفاظ کے ذریعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دلیل اور معقولیت کی بنا پر اس کا انکار کر رہا ہے۔ آخرت میں یہ پردہ باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت کھلے طور پر معلوم ہوجائے گا کہ اس کے دل میں کچھ اور تھا مگر اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ کچھ دوسرے الفاظ بولتارہا۔
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ ۖ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي ۖ إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
📘 حضرت موسیٰ کی پیدائش کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے لڑکے ہلاک کيے جارہے تھے۔ اس بنا پر حضرت موسیٰ کی والدہ پریشان ہوئیں۔ اس وقت غالباً خواب کے ذریعہ آپ کی والدہ کو یہ تدبیر بتائی گئی کہ وہ آپ کو ایک چھوٹی کشتی میںرکھ کردریائے نیل میں ڈال دیں۔ انھوں نے تین ماہ بعد ایسا ہی کیا۔ یہ چھوٹی کشتی بہتے ہوئے فرعون کے محل کے سامنے پہنچی۔ فرعون کی بیوی (آسیہ) ایک نیک بخت خاتون تھیں۔ان کو حضرت موسیٰ کے معصوم اور پرکشش حلیہ کو دیکھ کر رحم آگیا۔ چنانچہ ان کے مشورہ پر حضرت موسیٰ فرعون کے محل میں رکھ ليے گئے۔
روایات میںآتا ہے کہ فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ آنکھ کی ٹھنڈک ہے۔ فرعون نے جواب دیا کہ تمھارے ليے ہے، نہ کہ میرے ليے (لَکِ لا لِی)۔ یہ بات غالباً فرعون نے مرد اور عورت کے فرق پر کہی ہوگی مگر بعد کو وہ عین واقعہ بن گئی۔
وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرتاہے۔ پھر انسانوں میں سے کسی شخص کو وہ کسی خاص کام کےلیے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ انتخاب اس کے ذاتی تقدس کی بناپر نہیں ہوتا۔ بلکہ خدا کے اپنے فیصلہ کے تحت ہوتا ہے۔ اس ليے ایسی شخصیتوں کو مقدس مان کر ان کو خدا کا درجہ دینا سراسر بے بنیاد ہے۔ خدا کی دنیا میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔
آدمی حق کا انکار کرنے کے لیے زبان سے کچھ الفاظ بول دیتاہے۔ مگر اس کے دل میں کچھ اور بات ہوتی ہے۔ وہ ذاتی مصلحتوں کی بنا پر حق کو نہیں مانتا اور الفاظ کے ذریعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دلیل اور معقولیت کی بنا پر اس کا انکار کر رہا ہے۔ آخرت میں یہ پردہ باقی نہیں رہے گا۔ اس وقت کھلے طور پر معلوم ہوجائے گا کہ اس کے دل میں کچھ اور تھا مگر اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لیے وہ کچھ دوسرے الفاظ بولتارہا۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ اللَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَاءٍ ۖ أَفَلَا تَسْمَعُونَ
📘 جس زمین پر انسان آباد ہے اس کے بے شمار حیرت ناک پہلوؤں میں سے ایک حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلسل سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ سورج کے گرد اس کی محوری گردش اس طرح ہوتی ہے کہ ہر چوبیس گھنٹے میں اس کا ایک چکر پورا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اوپر بار بار رات اور دن آتے رہتے ہیں۔ اگر زمین کی یہ محوری گردش نہ ہوتو کرۂ زمین کے ایک حصہ میں مستقل رات ہوگی اور دوسرے حصہ میں مستقل دن۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موجودہ پُرراحت زمین انسان کے لیے ایک ناقابلِ بیان عذاب خانہ بن جائے گی۔
خلا میں زمین کا اس طرح حددرجہ صحت کے ساتھ مسلسل گردش کرنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے تمام جن وانس کی طاقتیں بھی ناکافی ہیں۔ قادر مطلق خدا کے سوا کوئی نہیں جو اتنے بڑے واقعہ کو ظہور میں لاسکے۔ ایسی حالت میں یہ کتنی بڑی گمراہی ہے کہ انسان اپنے خوف ومحبت کے جذبات کو ایک خدا کے سوا کسی اور کے ساتھ وابستہ کرے۔
قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَنْ إِلَٰهٌ غَيْرُ اللَّهِ يَأْتِيكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُونَ فِيهِ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
📘 جس زمین پر انسان آباد ہے اس کے بے شمار حیرت ناک پہلوؤں میں سے ایک حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلسل سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ سورج کے گرد اس کی محوری گردش اس طرح ہوتی ہے کہ ہر چوبیس گھنٹے میں اس کا ایک چکر پورا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اوپر بار بار رات اور دن آتے رہتے ہیں۔ اگر زمین کی یہ محوری گردش نہ ہوتو کرۂ زمین کے ایک حصہ میں مستقل رات ہوگی اور دوسرے حصہ میں مستقل دن۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موجودہ پُرراحت زمین انسان کے لیے ایک ناقابلِ بیان عذاب خانہ بن جائے گی۔
خلا میں زمین کا اس طرح حددرجہ صحت کے ساتھ مسلسل گردش کرنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے تمام جن وانس کی طاقتیں بھی ناکافی ہیں۔ قادر مطلق خدا کے سوا کوئی نہیں جو اتنے بڑے واقعہ کو ظہور میں لاسکے۔ ایسی حالت میں یہ کتنی بڑی گمراہی ہے کہ انسان اپنے خوف ومحبت کے جذبات کو ایک خدا کے سوا کسی اور کے ساتھ وابستہ کرے۔
وَمِنْ رَحْمَتِهِ جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 جس زمین پر انسان آباد ہے اس کے بے شمار حیرت ناک پہلوؤں میں سے ایک حیرت ناک پہلو یہ ہے کہ وہ مسلسل سورج کے گرد گھوم رہی ہے۔ سورج کے گرد اس کی محوری گردش اس طرح ہوتی ہے کہ ہر چوبیس گھنٹے میں اس کا ایک چکر پورا ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اوپر بار بار رات اور دن آتے رہتے ہیں۔ اگر زمین کی یہ محوری گردش نہ ہوتو کرۂ زمین کے ایک حصہ میں مستقل رات ہوگی اور دوسرے حصہ میں مستقل دن۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ موجودہ پُرراحت زمین انسان کے لیے ایک ناقابلِ بیان عذاب خانہ بن جائے گی۔
خلا میں زمین کا اس طرح حددرجہ صحت کے ساتھ مسلسل گردش کرنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے تمام جن وانس کی طاقتیں بھی ناکافی ہیں۔ قادر مطلق خدا کے سوا کوئی نہیں جو اتنے بڑے واقعہ کو ظہور میں لاسکے۔ ایسی حالت میں یہ کتنی بڑی گمراہی ہے کہ انسان اپنے خوف ومحبت کے جذبات کو ایک خدا کے سوا کسی اور کے ساتھ وابستہ کرے۔
وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ
📘 پیغمبر اور پیغمبر کی سچی پیروی کرنے والے داعی قیامت میں خدا کے گواہ بنا کر کھڑے کيے جائیں گے۔ جن قوموں پر انھوں نے خدا کا پیغام پہنچانے کا فرض انجام دیا تھا ان کے بارے میں وہ وہاں بتائیں گے کہ پیغام کو سن کر انھوں نے کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔ اس دن ان لوگوں کے تمام بھروسے ختم ہوجائیں گے جنھوں نے غیر اللہ کے اعتماد پر دعوت حق کو نظر انداز کیا تھا۔ اس دن ان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنی صفائی کرنا چاہیں گے مگر وہ اپنی صفائی کے لیے الفاظ نہ پائیں گے۔
وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوا أَنَّ الْحَقَّ لِلَّهِ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
📘 پیغمبر اور پیغمبر کی سچی پیروی کرنے والے داعی قیامت میں خدا کے گواہ بنا کر کھڑے کيے جائیں گے۔ جن قوموں پر انھوں نے خدا کا پیغام پہنچانے کا فرض انجام دیا تھا ان کے بارے میں وہ وہاں بتائیں گے کہ پیغام کو سن کر انھوں نے کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔ اس دن ان لوگوں کے تمام بھروسے ختم ہوجائیں گے جنھوں نے غیر اللہ کے اعتماد پر دعوت حق کو نظر انداز کیا تھا۔ اس دن ان کا یہ حال ہوگا کہ وہ اپنی صفائی کرنا چاہیں گے مگر وہ اپنی صفائی کے لیے الفاظ نہ پائیں گے۔
۞ إِنَّ قَارُونَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوسَىٰ فَبَغَىٰ عَلَيْهِمْ ۖ وَآتَيْنَاهُ مِنَ الْكُنُوزِ مَا إِنَّ مَفَاتِحَهُ لَتَنُوءُ بِالْعُصْبَةِ أُولِي الْقُوَّةِ إِذْ قَالَ لَهُ قَوْمُهُ لَا تَفْرَحْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ
📘 قارون کا نام یہودی کتابوں میں قورح (Korah) آیا ہے۔ وہ بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا۔ مگر وہ اپنی قوم سے کٹ کر فرعون کا وفادار بن گیا۔ اس کی اسے یہ قیمت ملی کہ وہ فرعون کا مقرب بن گیا۔ اس نے اپنی دنیا دارانہ صلاحیت کے ذریعے اتنا کمایا کہ وہ مصر کا سب سے زیادہ دولت مند شخص بن گیا۔ دولت پاکر اس کے اندر شکر کا جذبہ ابھرنا چاہيے تھا۔ مگر دولت نے اس کے اندر فخر کا جذبہ پیدا کیا۔ اپنے معاشی وسائل سے اس کو جو نیکی کمانی چاہيے تھی وہ نیکی اس نے نہیں کمائی۔
زمین میں فساد کرنا کیا ہے۔ اس آیت
77
کے مطابق، زمین میں فساد برپا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص کو زیادہ دولت ملے تو وہ اس کو صرف اپنی ذات کے لیے خرچ کرے۔ سمندر میں زمین کا پانی آکر جمع ہوتاہے تو سمندر پانی کو بھاپ کی شکل میں اڑا کردوبارہ اس کو پوری زمین پر پھیلا دیتاہے۔ یہ خدا کی دنیا میں اصلاح کا ایک نمونہ ہے۔ یہی چیز انسان سے اس طرح مطلوب ہے کہ اگر کسی وجہ سے ایک شخص کے پاس زیادہ دولت اكٹھاہوجائے تو اس کو چاہيے کہ وہ اس کو مختلف طریقوں سے ان لوگوں کی طرف لوٹائے جنھیں معاشی تقسیم میں کم حصہ ملا ہے۔ گویا جمع شدہ دولت کو گردش میں لانا اصلاح ہے اور جمع شدہ دولت کو جمع رکھنا فساد۔
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنْسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
📘 قارون کا نام یہودی کتابوں میں قورح (Korah) آیا ہے۔ وہ بنی اسرائیل کا ایک فرد تھا۔ مگر وہ اپنی قوم سے کٹ کر فرعون کا وفادار بن گیا۔ اس کی اسے یہ قیمت ملی کہ وہ فرعون کا مقرب بن گیا۔ اس نے اپنی دنیا دارانہ صلاحیت کے ذریعے اتنا کمایا کہ وہ مصر کا سب سے زیادہ دولت مند شخص بن گیا۔ دولت پاکر اس کے اندر شکر کا جذبہ ابھرنا چاہيے تھا۔ مگر دولت نے اس کے اندر فخر کا جذبہ پیدا کیا۔ اپنے معاشی وسائل سے اس کو جو نیکی کمانی چاہيے تھی وہ نیکی اس نے نہیں کمائی۔
زمین میں فساد کرنا کیا ہے۔ اس آیت
77
کے مطابق، زمین میں فساد برپا کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک شخص کو زیادہ دولت ملے تو وہ اس کو صرف اپنی ذات کے لیے خرچ کرے۔ سمندر میں زمین کا پانی آکر جمع ہوتاہے تو سمندر پانی کو بھاپ کی شکل میں اڑا کردوبارہ اس کو پوری زمین پر پھیلا دیتاہے۔ یہ خدا کی دنیا میں اصلاح کا ایک نمونہ ہے۔ یہی چیز انسان سے اس طرح مطلوب ہے کہ اگر کسی وجہ سے ایک شخص کے پاس زیادہ دولت اكٹھاہوجائے تو اس کو چاہيے کہ وہ اس کو مختلف طریقوں سے ان لوگوں کی طرف لوٹائے جنھیں معاشی تقسیم میں کم حصہ ملا ہے۔ گویا جمع شدہ دولت کو گردش میں لانا اصلاح ہے اور جمع شدہ دولت کو جمع رکھنا فساد۔
قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ عِنْدِي ۚ أَوَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهِ مِنَ الْقُرُونِ مَنْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُ قُوَّةً وَأَكْثَرُ جَمْعًا ۚ وَلَا يُسْأَلُ عَنْ ذُنُوبِهِمُ الْمُجْرِمُونَ
📘 قارون کا جو کرداریہاں بیان ہوا ہے یہی ہمیشہ صاحبانِ دولت کاکردار رہا ہے۔ دولت مند آدمی سمجھتا ہے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے وہ اس کے علم کی بدولت ملا ہے۔ مگر کسی دولت مند کا علم اس کو یہ نہیں بتاتا کہ تم سے پہلے بھی بہت سے لوگوں کو دولت ملی مگر ان کی دولت انھیں موت یا ہلاکت سے نہ بچا سکی۔ پھر تم کو وہ کس طرح بچانے والی ثابت ہوگی۔
فَخَرَجَ عَلَىٰ قَوْمِهِ فِي زِينَتِهِ ۖ قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
📘 جس آدمی کے پاس دولت ہو اس کے گرد لازمی طورپر دنیا کی رونق جمع ہوجاتی ہے۔ اس کو دیکھ کر بہت سے نادان لوگ اس کے اوپر رشک کرنے لگتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کو حقیقت کا علم حاصل ہوجائے ان کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ محض چند دن کی رونق ہے اور جو چیز چند روزہ ہو اس کی کوئی قیمت نہیں۔
علمِ حقیقت اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ مگر علمِ حقیقت کا مالک بننے کےلیے صبر کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ یعنی خارجی حالات کادباؤ قبول نہ کرتے ہوئے اپنا ذہن بنانا۔ظاہری چیزوں سے غیر متاثر رہ کر سوچنا۔ وقتی کشش کی چیز کو نظر انداز کرکے رائے قائم کرنا۔ یہ بلاشبہ صبر کی مشکل ترین قسم ہے، مگر اسی مشکل ترین امتحان میں پورا اترنے کے بعد آدمی کو وہ چیز ملتی ہے جس کو علم اور حکمت کہا جاتا ہے۔
فَالْتَقَطَهُ آلُ فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا ۗ إِنَّ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا كَانُوا خَاطِئِينَ
📘 حضرت موسیٰ کی پیدائش کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے لڑکے ہلاک کيے جارہے تھے۔ اس بنا پر حضرت موسیٰ کی والدہ پریشان ہوئیں۔ اس وقت غالباً خواب کے ذریعہ آپ کی والدہ کو یہ تدبیر بتائی گئی کہ وہ آپ کو ایک چھوٹی کشتی میںرکھ کردریائے نیل میں ڈال دیں۔ انھوں نے تین ماہ بعد ایسا ہی کیا۔ یہ چھوٹی کشتی بہتے ہوئے فرعون کے محل کے سامنے پہنچی۔ فرعون کی بیوی (آسیہ) ایک نیک بخت خاتون تھیں۔ان کو حضرت موسیٰ کے معصوم اور پرکشش حلیہ کو دیکھ کر رحم آگیا۔ چنانچہ ان کے مشورہ پر حضرت موسیٰ فرعون کے محل میں رکھ ليے گئے۔
روایات میںآتا ہے کہ فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ آنکھ کی ٹھنڈک ہے۔ فرعون نے جواب دیا کہ تمھارے ليے ہے، نہ کہ میرے ليے (لَکِ لا لِی)۔ یہ بات غالباً فرعون نے مرد اور عورت کے فرق پر کہی ہوگی مگر بعد کو وہ عین واقعہ بن گئی۔
وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ ثَوَابُ اللَّهِ خَيْرٌ لِمَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وَلَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الصَّابِرُونَ
📘 جس آدمی کے پاس دولت ہو اس کے گرد لازمی طورپر دنیا کی رونق جمع ہوجاتی ہے۔ اس کو دیکھ کر بہت سے نادان لوگ اس کے اوپر رشک کرنے لگتے ہیں۔ مگر جن لوگوں کو حقیقت کا علم حاصل ہوجائے ان کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگتی کہ یہ محض چند دن کی رونق ہے اور جو چیز چند روزہ ہو اس کی کوئی قیمت نہیں۔
علمِ حقیقت اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی چیز ہے۔ مگر علمِ حقیقت کا مالک بننے کےلیے صبر کی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔ یعنی خارجی حالات کادباؤ قبول نہ کرتے ہوئے اپنا ذہن بنانا۔ظاہری چیزوں سے غیر متاثر رہ کر سوچنا۔ وقتی کشش کی چیز کو نظر انداز کرکے رائے قائم کرنا۔ یہ بلاشبہ صبر کی مشکل ترین قسم ہے، مگر اسی مشکل ترین امتحان میں پورا اترنے کے بعد آدمی کو وہ چیز ملتی ہے جس کو علم اور حکمت کہا جاتا ہے۔
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِينَ
📘 بائبل کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ نے قارون کے برے اعمال کی وجہ سے اس کے لیے بد دعا فرمائی اور وہ اپنے ساتھیوں اور خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیاگیا۔ یہ اللہ کی طرف سے مشاہداتی سطح پر دکھایا گیا کہ خدا پرستی کو چھوڑ کر دولت پرستی اختیار کرنے کا آخری انجام کیا ہوتا ہے۔
دنیا کا رزق دراصل امتحان کا سامان ہے۔یہ ہر آدمی کو خداکے فیصلہ کے تحت کم یازیادہ دیا جاتاہے۔ آدمی کو چاہيے کہ رزق کم ملے تو صبر کرے۔ اور اگر رزق زیادہ ملے تو شکر کرے۔ یہی کسی انسان کےلیے نجات اور کامیابی کا واحد راستہ ہے۔
وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالْأَمْسِ يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ۖ لَوْلَا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۖ وَيْكَأَنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
📘 بائبل کے بیان کے مطابق حضرت موسیٰ نے قارون کے برے اعمال کی وجہ سے اس کے لیے بد دعا فرمائی اور وہ اپنے ساتھیوں اور خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیاگیا۔ یہ اللہ کی طرف سے مشاہداتی سطح پر دکھایا گیا کہ خدا پرستی کو چھوڑ کر دولت پرستی اختیار کرنے کا آخری انجام کیا ہوتا ہے۔
دنیا کا رزق دراصل امتحان کا سامان ہے۔یہ ہر آدمی کو خداکے فیصلہ کے تحت کم یازیادہ دیا جاتاہے۔ آدمی کو چاہيے کہ رزق کم ملے تو صبر کرے۔ اور اگر رزق زیادہ ملے تو شکر کرے۔ یہی کسی انسان کےلیے نجات اور کامیابی کا واحد راستہ ہے۔
تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
📘 جنت کی آبادی میں بسنے کے قابل وہ لوگ ہیں جن کے سینے اپنی بڑائی کے احساس سے خالی ہوں جو خدا کی بڑائی کو اس طرح پائیں کہ اپنی طرف انھیں چھوٹائی کے سوا اور کچھ نظر نہ آئے۔
فساد یہ ہے کہ آدمی خدا کی اسکیم سے موافقت نہ کرے۔ وہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے خلاف چلنے لگے۔ جو لوگ کبر سے خالی ہوجائیں وہ لازمی طور پر فساد سے بھی خالی ہوجاتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر یہ اعلیٰ اوصاف پیدا ہوجائیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے ابدی باغوں میں بسا ئے جائیں گے۔
مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِنْهَا ۖ وَمَنْ جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 جنت کی آبادی میں بسنے کے قابل وہ لوگ ہیں جن کے سینے اپنی بڑائی کے احساس سے خالی ہوں جو خدا کی بڑائی کو اس طرح پائیں کہ اپنی طرف انھیں چھوٹائی کے سوا اور کچھ نظر نہ آئے۔
فساد یہ ہے کہ آدمی خدا کی اسکیم سے موافقت نہ کرے۔ وہ خدا کی دنیا میں خدا کی مرضی کے خلاف چلنے لگے۔ جو لوگ کبر سے خالی ہوجائیں وہ لازمی طور پر فساد سے بھی خالی ہوجاتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر یہ اعلیٰ اوصاف پیدا ہوجائیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے ابدی باغوں میں بسا ئے جائیں گے۔
إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 پیغمبر کا معاملہ ہر اعتبار سے خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کو پیغمبری کسی طلب کے بغیر یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے دی جاتی ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ حق پر قائم ہوتا ہے۔ وہ مامور ہوتاہے کہ خالص بے آمیز صداقت کا اعلان کرے، خواہ وہ لوگوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس کےلیے مقدر ہوتاہے کہ وہ لازمی طورپر اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچے اور کوئی رکاوٹ اس کےلیے رکاوٹ نہ بننے پائے۔
یہی معاملہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی پیروی میں اٹھنے والے داعی کا ہوتاہے۔ وہ جس حد تک پیغمبر کی مشابہت کرے گا اسی قدر وہ خدا کے ان وعدوں کا مستحق ہوتا چلا جائے گا جو اس نے اپنے پیغمبروں سے اپنی کتاب میں کيے ہیں۔
وَمَا كُنْتَ تَرْجُو أَنْ يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِلْكَافِرِينَ
📘 پیغمبر کا معاملہ ہر اعتبار سے خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کو پیغمبری کسی طلب کے بغیر یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے دی جاتی ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ حق پر قائم ہوتا ہے۔ وہ مامور ہوتاہے کہ خالص بے آمیز صداقت کا اعلان کرے، خواہ وہ لوگوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس کےلیے مقدر ہوتاہے کہ وہ لازمی طورپر اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچے اور کوئی رکاوٹ اس کےلیے رکاوٹ نہ بننے پائے۔
یہی معاملہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی پیروی میں اٹھنے والے داعی کا ہوتاہے۔ وہ جس حد تک پیغمبر کی مشابہت کرے گا اسی قدر وہ خدا کے ان وعدوں کا مستحق ہوتا چلا جائے گا جو اس نے اپنے پیغمبروں سے اپنی کتاب میں کيے ہیں۔
وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ آيَاتِ اللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنْزِلَتْ إِلَيْكَ ۖ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 پیغمبر کا معاملہ ہر اعتبار سے خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کو پیغمبری کسی طلب کے بغیر یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے دی جاتی ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ حق پر قائم ہوتا ہے۔ وہ مامور ہوتاہے کہ خالص بے آمیز صداقت کا اعلان کرے، خواہ وہ لوگوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس کےلیے مقدر ہوتاہے کہ وہ لازمی طورپر اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچے اور کوئی رکاوٹ اس کےلیے رکاوٹ نہ بننے پائے۔
یہی معاملہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی پیروی میں اٹھنے والے داعی کا ہوتاہے۔ وہ جس حد تک پیغمبر کی مشابہت کرے گا اسی قدر وہ خدا کے ان وعدوں کا مستحق ہوتا چلا جائے گا جو اس نے اپنے پیغمبروں سے اپنی کتاب میں کيے ہیں۔
وَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ ۘ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ لَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 پیغمبر کا معاملہ ہر اعتبار سے خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کو پیغمبری کسی طلب کے بغیر یک طرفہ طور پر خدا کی طرف سے دی جاتی ہے۔ وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ حق پر قائم ہوتا ہے۔ وہ مامور ہوتاہے کہ خالص بے آمیز صداقت کا اعلان کرے، خواہ وہ لوگوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ اس کےلیے مقدر ہوتاہے کہ وہ لازمی طورپر اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچے اور کوئی رکاوٹ اس کےلیے رکاوٹ نہ بننے پائے۔
یہی معاملہ پیغمبر کے بعد پیغمبر کی پیروی میں اٹھنے والے داعی کا ہوتاہے۔ وہ جس حد تک پیغمبر کی مشابہت کرے گا اسی قدر وہ خدا کے ان وعدوں کا مستحق ہوتا چلا جائے گا جو اس نے اپنے پیغمبروں سے اپنی کتاب میں کيے ہیں۔
وَقَالَتِ امْرَأَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ ۖ لَا تَقْتُلُوهُ عَسَىٰ أَنْ يَنْفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 حضرت موسیٰ کی پیدائش کے زمانہ میں بنی اسرائیل کے لڑکے ہلاک کيے جارہے تھے۔ اس بنا پر حضرت موسیٰ کی والدہ پریشان ہوئیں۔ اس وقت غالباً خواب کے ذریعہ آپ کی والدہ کو یہ تدبیر بتائی گئی کہ وہ آپ کو ایک چھوٹی کشتی میںرکھ کردریائے نیل میں ڈال دیں۔ انھوں نے تین ماہ بعد ایسا ہی کیا۔ یہ چھوٹی کشتی بہتے ہوئے فرعون کے محل کے سامنے پہنچی۔ فرعون کی بیوی (آسیہ) ایک نیک بخت خاتون تھیں۔ان کو حضرت موسیٰ کے معصوم اور پرکشش حلیہ کو دیکھ کر رحم آگیا۔ چنانچہ ان کے مشورہ پر حضرت موسیٰ فرعون کے محل میں رکھ ليے گئے۔
روایات میںآتا ہے کہ فرعون کی بیوی نے کہا کہ یہ بچہ آنکھ کی ٹھنڈک ہے۔ فرعون نے جواب دیا کہ تمھارے ليے ہے، نہ کہ میرے ليے (لَکِ لا لِی)۔ یہ بات غالباً فرعون نے مرد اور عورت کے فرق پر کہی ہوگی مگر بعد کو وہ عین واقعہ بن گئی۔