slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الفرقان

(Al-Furqan) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

📘 ’’فرقان‘‘ کے لفظی معنی ہیں فرق کرنے والا۔ یعنی حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے کا معیار (criterion)۔ یہاں فرقان سے مراد قرآن ہے۔ خدا علیم وخبیربھی ہے اور حاکم مطلق بھی۔ اس ليے خدا کی طرف سے ایک کتاب فرقان کا آنا بیک وقت اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ یقینی طورپر صحیح ہے اس کی صحت و قطعیت میں کوئی شبہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کو ماننا اور اس کو نہ ماننا دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔ خدا تنہا تمام اختیارات کا مالک ہے۔ کوئی اس کی رائے پراثر انداز نہیں ہوسکتا۔ کوئی اس کے اور اس کے فیصلوں کے درمیان حائل نہیں ہوسکتا۔ یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ جو شخص قرآن کو اپنی رہنما کتاب بنائے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص اس کو نظر انداز کرے گا اس کے ليے کسی طرح یہ ممکن نہیں کہ اپنے آپ کو اس ناکامی سے بچائے جو حق کو نظر انداز کرنے والے کے ليے خدا نے مقدر کردیا ہے۔

تَبَارَكَ الَّذِي إِنْ شَاءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِنْ ذَٰلِكَ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُورًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَنْ كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

إِذَا رَأَتْهُمْ مِنْ مَكَانٍ بَعِيدٍ سَمِعُوا لَهَا تَغَيُّظًا وَزَفِيرًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

وَإِذَا أُلْقُوا مِنْهَا مَكَانًا ضَيِّقًا مُقَرَّنِينَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُورًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

لَا تَدْعُوا الْيَوْمَ ثُبُورًا وَاحِدًا وَادْعُوا ثُبُورًا كَثِيرًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

قُلْ أَذَٰلِكَ خَيْرٌ أَمْ جَنَّةُ الْخُلْدِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۚ كَانَتْ لَهُمْ جَزَاءً وَمَصِيرًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ خَالِدِينَ ۚ كَانَ عَلَىٰ رَبِّكَ وَعْدًا مَسْئُولًا

📘 حق کے مخالفین اکثر حق کے داعی کی ذات کو نشانہ بناتے ہیں۔ وہ داعی کو غیر معتبر ثابت کرنے کے ليے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ حق کا داعی اگر ان کے معیار پر ہوتاہے تو وہ اس کی بات مان لیتے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ حق کا داعی ان کو قابل اعتبار نظر نہیں آتا۔ ان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ قیامت کی پکڑ سے بے خوف ہیں، اس ليے وہ غیر ذمہ دارانہ طورپر طرح طرح کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ حق اور ناحق کے معاملہ کی ساری اہمیت اس بنا پر ہے کہ آخرت میں اس کی بابت پوچھ ہوگی۔ جو لوگ آخرت کی پکڑ کے بارے میں بے خوف ہوجائیں وہ اس کے بالکل لازمی نتیجہ کے طورپر حق اور ناحق کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں رہتے۔ اور جس چیز کے بارے میں آدمی سنجیدہ نہ ہو وہ اس کی اہمیت کو کسی طرح محسوس نہیں کرسکتا، خواہ اس کے حق میں کتنی ہی زیادہ دلیلیں دے دی جائیں۔ ایسے لوگوں کے الفاظ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ قیامت کی چنگھاڑ ان سے ان کے الفاظ چھین لے۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَقُولُ أَأَنْتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي هَٰؤُلَاءِ أَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيلَ

📘 ’’ذکر‘‘ کی تشریح مفسر ابن کثیر نے ان الفاظ میں کی ہے أَيْ نَسُوا مَا أَنْزَلْتَهُ إِلَيْهِمْ عَلَى أَلْسِنَةِ رُسُلِكَ، مِنَ الدَّعْوَةِ إِلَى عِبَادَتِكَ وَحْدَكَ لا شريك لك (تفسیر ابن کثیر، جلد6، صفحہ 99 )۔ یعنی،وہ اس دعوتي پیغام کو بھول گئے جو ان کی طرف تونے اپنے پیغمبروں کی زبان سے تنہا اور لاشریک اپنی عبادت کے ليے اتارا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی مخاطب قومیں معروف معنوں میں کافر اور مشرک قومیں نہ تھیں۔ وہ دراصل پچھلے انبیاء کی امتیں تھیں۔ ان کے پیغمبروں نے ان کو خدا کی ہدایت پہنچائی۔ مگر زمانہ گزرنے کے بعد وہ دنیا میں مشغول ہوگئے اور اپنے بزرگوں اور پیغمبروں کے بارے میں یہ عقیدہ بنالیا کہ وہ خدا کے یہاں ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائیں گے۔ مگر جب قیامت آئے گی تو اس قسم کے تمام عقیدے باطل ثابت ہوں گے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اللہ کی پکڑ سے بچانے والا خود اللہ کے سوا کوئی اور نہ تھا۔

قَالُوا سُبْحَانَكَ مَا كَانَ يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَتَّخِذَ مِنْ دُونِكَ مِنْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنْ مَتَّعْتَهُمْ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ نَسُوا الذِّكْرَ وَكَانُوا قَوْمًا بُورًا

📘 ’’ذکر‘‘ کی تشریح مفسر ابن کثیر نے ان الفاظ میں کی ہے أَيْ نَسُوا مَا أَنْزَلْتَهُ إِلَيْهِمْ عَلَى أَلْسِنَةِ رُسُلِكَ، مِنَ الدَّعْوَةِ إِلَى عِبَادَتِكَ وَحْدَكَ لا شريك لك (تفسیر ابن کثیر، جلد6، صفحہ 99 )۔ یعنی،وہ اس دعوتي پیغام کو بھول گئے جو ان کی طرف تونے اپنے پیغمبروں کی زبان سے تنہا اور لاشریک اپنی عبادت کے ليے اتارا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی مخاطب قومیں معروف معنوں میں کافر اور مشرک قومیں نہ تھیں۔ وہ دراصل پچھلے انبیاء کی امتیں تھیں۔ ان کے پیغمبروں نے ان کو خدا کی ہدایت پہنچائی۔ مگر زمانہ گزرنے کے بعد وہ دنیا میں مشغول ہوگئے اور اپنے بزرگوں اور پیغمبروں کے بارے میں یہ عقیدہ بنالیا کہ وہ خدا کے یہاں ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائیں گے۔ مگر جب قیامت آئے گی تو اس قسم کے تمام عقیدے باطل ثابت ہوں گے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اللہ کی پکڑ سے بچانے والا خود اللہ کے سوا کوئی اور نہ تھا۔

فَقَدْ كَذَّبُوكُمْ بِمَا تَقُولُونَ فَمَا تَسْتَطِيعُونَ صَرْفًا وَلَا نَصْرًا ۚ وَمَنْ يَظْلِمْ مِنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا

📘 ’’ذکر‘‘ کی تشریح مفسر ابن کثیر نے ان الفاظ میں کی ہے أَيْ نَسُوا مَا أَنْزَلْتَهُ إِلَيْهِمْ عَلَى أَلْسِنَةِ رُسُلِكَ، مِنَ الدَّعْوَةِ إِلَى عِبَادَتِكَ وَحْدَكَ لا شريك لك (تفسیر ابن کثیر، جلد6، صفحہ 99 )۔ یعنی،وہ اس دعوتي پیغام کو بھول گئے جو ان کی طرف تونے اپنے پیغمبروں کی زبان سے تنہا اور لاشریک اپنی عبادت کے ليے اتارا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی مخاطب قومیں معروف معنوں میں کافر اور مشرک قومیں نہ تھیں۔ وہ دراصل پچھلے انبیاء کی امتیں تھیں۔ ان کے پیغمبروں نے ان کو خدا کی ہدایت پہنچائی۔ مگر زمانہ گزرنے کے بعد وہ دنیا میں مشغول ہوگئے اور اپنے بزرگوں اور پیغمبروں کے بارے میں یہ عقیدہ بنالیا کہ وہ خدا کے یہاں ان کی بخشش کا ذریعہ بن جائیں گے۔ مگر جب قیامت آئے گی تو اس قسم کے تمام عقیدے باطل ثابت ہوں گے۔ اس وقت لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اللہ کی پکڑ سے بچانے والا خود اللہ کے سوا کوئی اور نہ تھا۔

الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا

📘 ’’فرقان‘‘ کے لفظی معنی ہیں فرق کرنے والا۔ یعنی حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے کا معیار (criterion)۔ یہاں فرقان سے مراد قرآن ہے۔ خدا علیم وخبیربھی ہے اور حاکم مطلق بھی۔ اس ليے خدا کی طرف سے ایک کتاب فرقان کا آنا بیک وقت اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ یقینی طورپر صحیح ہے اس کی صحت و قطعیت میں کوئی شبہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کو ماننا اور اس کو نہ ماننا دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔ خدا تنہا تمام اختیارات کا مالک ہے۔ کوئی اس کی رائے پراثر انداز نہیں ہوسکتا۔ کوئی اس کے اور اس کے فیصلوں کے درمیان حائل نہیں ہوسکتا۔ یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ جو شخص قرآن کو اپنی رہنما کتاب بنائے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص اس کو نظر انداز کرے گا اس کے ليے کسی طرح یہ ممکن نہیں کہ اپنے آپ کو اس ناکامی سے بچائے جو حق کو نظر انداز کرنے والے کے ليے خدا نے مقدر کردیا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ ۗ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيرًا

📘 قرآن کے مخاطبین اوّل حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل ، حضرت موسیٰ اور دوسرے پیغمبروں کو مانتے تھے۔ اس کے باوجود انھوںنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ اپنے گزرے ہوئے پیغمبروں کو اعلیٰ اور افضل ثابت کرنے کے ليے بطور خود طلسماتی کہانیاں وضع کرتے ہیں۔ ان کہانیوں میں ان کے سابق پیغمبر کی شخصیت ایک پر عجوبہ شخصیت کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔اب اس کے بعد جب ان کا ہم عصر نبی ان کے سامنے آتا ہے تو وہ بظاہر صرف ایک انسان دکھائی دیتا ہے۔ ان کے تصور میں ایک طرف ماضی کا پیغمبر ہوتا ے جو ان کو فوق البشر ہستی معلوم ہوتا ہے۔ دوسری طرف زندہ پیغمبر ہوتاہے جو صرف ایک بشر کے روپ میں نظر آتا ہے۔ اس تقابل میں وہ حال کے پیغمبر پر یقین نہیں کرپاتے۔ وہ پیغمبری کو مانتے ہوئے پیغمبر کا انکار کردیتے ہیں۔ منکرین کے ليے رسول اور اہل ایمان آزمائش ہیں۔ اور رسول اور اہل ایمان کے ليے منکرین آزمائش ہیں۔ منکرین کی آزمائش یہ ہے کہ وہ رسول کے بظاہر بے عظمت حلیہ میں اس کے اندر چھپی ہوئی عظمت کو دریافت کریں۔ اور اہل ایمان کی آزمائش یہ ہے کہ وہ منکرین کی لایعنی باتوں پر بے برداشت نہ ہوں۔ وہ ہر حال میں صابر و شاکر بنے رہیں۔

۞ وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلَائِكَةُ أَوْ نَرَىٰ رَبَّنَا ۗ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيرًا

📘 جو لوگ داعی کے پیغام کو ماننے کے ليے فرشتے اور خدا کے ظہور کا مطالبہ کریں وہ کوئی واقعی بات نہیں کہتے۔ وہ صرف اپنی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ خدا اور فرشتوں کا ظہور کیا معنی رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ليے بولنے کا جو موقع ہے وہ صرف اسی وقت تک ہے جب تک حق کو داعی کی سطح پر ظاہر کیا گیا ہو۔ جب حق خدا اور فرشتوں کی سطح پر ظاہر ہو جائے تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ماننے اور تصدیق کرنے کا۔ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ قیامت میں جب خدا پوچھے گا کہ کیا لائے تو میں اپنا فلاں عمل پیش کردوں گا۔ میں کہوں گا کہ فلاں اور فلاں بزرگوں کی نسبت مجھے حاصل ہے۔ مگر قیامت کے آتے ہی اس قسم کی خوش خیالیاں اس طرح بے حقیقت ثابت ہوں گی جیسے گرم لوہے پر پانی کا قطرہ پڑے اور فوراً اڑ جائے۔ اس دن صرف حقیقی عمل کسی کے کام آئے گا، نہ کہ کسی قسم کی جھوٹی خوش خیالی۔

يَوْمَ يَرَوْنَ الْمَلَائِكَةَ لَا بُشْرَىٰ يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ وَيَقُولُونَ حِجْرًا مَحْجُورًا

📘 جو لوگ داعی کے پیغام کو ماننے کے ليے فرشتے اور خدا کے ظہور کا مطالبہ کریں وہ کوئی واقعی بات نہیں کہتے۔ وہ صرف اپنی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ خدا اور فرشتوں کا ظہور کیا معنی رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ليے بولنے کا جو موقع ہے وہ صرف اسی وقت تک ہے جب تک حق کو داعی کی سطح پر ظاہر کیا گیا ہو۔ جب حق خدا اور فرشتوں کی سطح پر ظاہر ہو جائے تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ماننے اور تصدیق کرنے کا۔ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ قیامت میں جب خدا پوچھے گا کہ کیا لائے تو میں اپنا فلاں عمل پیش کردوں گا۔ میں کہوں گا کہ فلاں اور فلاں بزرگوں کی نسبت مجھے حاصل ہے۔ مگر قیامت کے آتے ہی اس قسم کی خوش خیالیاں اس طرح بے حقیقت ثابت ہوں گی جیسے گرم لوہے پر پانی کا قطرہ پڑے اور فوراً اڑ جائے۔ اس دن صرف حقیقی عمل کسی کے کام آئے گا، نہ کہ کسی قسم کی جھوٹی خوش خیالی۔

وَقَدِمْنَا إِلَىٰ مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا

📘 جو لوگ داعی کے پیغام کو ماننے کے ليے فرشتے اور خدا کے ظہور کا مطالبہ کریں وہ کوئی واقعی بات نہیں کہتے۔ وہ صرف اپنی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ خدا اور فرشتوں کا ظہور کیا معنی رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ليے بولنے کا جو موقع ہے وہ صرف اسی وقت تک ہے جب تک حق کو داعی کی سطح پر ظاہر کیا گیا ہو۔ جب حق خدا اور فرشتوں کی سطح پر ظاہر ہو جائے تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ماننے اور تصدیق کرنے کا۔ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ قیامت میں جب خدا پوچھے گا کہ کیا لائے تو میں اپنا فلاں عمل پیش کردوں گا۔ میں کہوں گا کہ فلاں اور فلاں بزرگوں کی نسبت مجھے حاصل ہے۔ مگر قیامت کے آتے ہی اس قسم کی خوش خیالیاں اس طرح بے حقیقت ثابت ہوں گی جیسے گرم لوہے پر پانی کا قطرہ پڑے اور فوراً اڑ جائے۔ اس دن صرف حقیقی عمل کسی کے کام آئے گا، نہ کہ کسی قسم کی جھوٹی خوش خیالی۔

أَصْحَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَئِذٍ خَيْرٌ مُسْتَقَرًّا وَأَحْسَنُ مَقِيلًا

📘 جو لوگ داعی کے پیغام کو ماننے کے ليے فرشتے اور خدا کے ظہور کا مطالبہ کریں وہ کوئی واقعی بات نہیں کہتے۔ وہ صرف اپنی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہیں۔ انھیں معلوم نہیں کہ خدا اور فرشتوں کا ظہور کیا معنی رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے ليے بولنے کا جو موقع ہے وہ صرف اسی وقت تک ہے جب تک حق کو داعی کی سطح پر ظاہر کیا گیا ہو۔ جب حق خدا اور فرشتوں کی سطح پر ظاہر ہو جائے تو وہ فیصلہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ ماننے اور تصدیق کرنے کا۔ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ قیامت میں جب خدا پوچھے گا کہ کیا لائے تو میں اپنا فلاں عمل پیش کردوں گا۔ میں کہوں گا کہ فلاں اور فلاں بزرگوں کی نسبت مجھے حاصل ہے۔ مگر قیامت کے آتے ہی اس قسم کی خوش خیالیاں اس طرح بے حقیقت ثابت ہوں گی جیسے گرم لوہے پر پانی کا قطرہ پڑے اور فوراً اڑ جائے۔ اس دن صرف حقیقی عمل کسی کے کام آئے گا، نہ کہ کسی قسم کی جھوٹی خوش خیالی۔

وَيَوْمَ تَشَقَّقُ السَّمَاءُ بِالْغَمَامِ وَنُزِّلَ الْمَلَائِكَةُ تَنْزِيلًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَىٰ يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنْسَانِ خَذُولًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَاةً وَلَا نُشُورًا

📘 ’’فرقان‘‘ کے لفظی معنی ہیں فرق کرنے والا۔ یعنی حق وباطل کے درمیان امتیاز کرنے کا معیار (criterion)۔ یہاں فرقان سے مراد قرآن ہے۔ خدا علیم وخبیربھی ہے اور حاکم مطلق بھی۔ اس ليے خدا کی طرف سے ایک کتاب فرقان کا آنا بیک وقت اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ یقینی طورپر صحیح ہے اس کی صحت و قطعیت میں کوئی شبہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس کو ماننا اور اس کو نہ ماننا دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوسکتا۔ خدا تنہا تمام اختیارات کا مالک ہے۔ کوئی اس کی رائے پراثر انداز نہیں ہوسکتا۔ کوئی اس کے اور اس کے فیصلوں کے درمیان حائل نہیں ہوسکتا۔ یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ جو شخص قرآن کو اپنی رہنما کتاب بنائے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو شخص اس کو نظر انداز کرے گا اس کے ليے کسی طرح یہ ممکن نہیں کہ اپنے آپ کو اس ناکامی سے بچائے جو حق کو نظر انداز کرنے والے کے ليے خدا نے مقدر کردیا ہے۔

وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ ۗ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِيرًا

📘 جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں جو حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکال کر داعی کی صداقت کو مشتبہ ثابت کرتے ہیں، اور بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا لیتے ہیں۔ جو لوگ ان جھوٹے لیڈروں کی باتوں پر یقین کرکے حق کے داعی کا ساتھ نہیں دیتے ان پر قیامت کے دن کھل جائے گا کہ لیڈروں کی دلیلیں دلیلیں نہ تھیں۔ وہ محض جھوٹے شوشے تھے جن کو انھوں نے اپنے مفاد کے مطابق پاکر مان لیا، اور اس کو حق سے دور رہنے کا بہانہ بنا لیا۔ اس وقت وہ افسوس کریںگے کہ کیوں انھوں نے ایسا کیا کہ وہ لیڈروں کے جھوٹے شوشوں کے فریب میں پڑے رہے، اور داعی حق کا ساتھ دینے والے نہ بنے۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً ۚ كَذَٰلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ ۖ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلًا

📘 قرآن جب اترا تو وہ بیک وقت ایک پوری کتاب کی شکل میں نہیں اترا بلکہ جزء جزء کرکے 23 سال میںاتارا گیا۔ اس کو منکرین نے شوشہ بنالیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسان کی کتاب ہے، نہ کہ خدا کی کتاب۔ کیوں کہ خداکے ليے بیک وقت پوری کتاب بنا دینا کچھ مشکل نہیں۔ فرمایا کہ قرآن محض ایک تصنیف نہیں، وہ ایک دعوت ہے۔ اور دعوت کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ اس کو بتدریج سامنے لایا جائے تاکہ وہ ماحول میں مستحکم ہوتی چلی جائے۔ جو دعوت کامل حق ہو اس کے خلاف ہر اعتراض جھوٹا اعتراض ہوتاہے۔ اس کے خلاف جب بھی کوئی اعتراض اٹھے اور پھر اس کی سچی وضاحت کردی جائے تو اس سے دعوت کی صداقت مزید ثابت ہوجاتی ہے۔ وہ کسی بھی درجہ میں مشتبہ نہیں ہوتی۔

وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا

📘 قرآن جب اترا تو وہ بیک وقت ایک پوری کتاب کی شکل میں نہیں اترا بلکہ جزء جزء کرکے 23 سال میںاتارا گیا۔ اس کو منکرین نے شوشہ بنالیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسان کی کتاب ہے، نہ کہ خدا کی کتاب۔ کیوں کہ خداکے ليے بیک وقت پوری کتاب بنا دینا کچھ مشکل نہیں۔ فرمایا کہ قرآن محض ایک تصنیف نہیں، وہ ایک دعوت ہے۔ اور دعوت کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ اس کو بتدریج سامنے لایا جائے تاکہ وہ ماحول میں مستحکم ہوتی چلی جائے۔ جو دعوت کامل حق ہو اس کے خلاف ہر اعتراض جھوٹا اعتراض ہوتاہے۔ اس کے خلاف جب بھی کوئی اعتراض اٹھے اور پھر اس کی سچی وضاحت کردی جائے تو اس سے دعوت کی صداقت مزید ثابت ہوجاتی ہے۔ وہ کسی بھی درجہ میں مشتبہ نہیں ہوتی۔

الَّذِينَ يُحْشَرُونَ عَلَىٰ وُجُوهِهِمْ إِلَىٰ جَهَنَّمَ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ سَبِيلًا

📘 قرآن جب اترا تو وہ بیک وقت ایک پوری کتاب کی شکل میں نہیں اترا بلکہ جزء جزء کرکے 23 سال میںاتارا گیا۔ اس کو منکرین نے شوشہ بنالیا اور کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسان کی کتاب ہے، نہ کہ خدا کی کتاب۔ کیوں کہ خداکے ليے بیک وقت پوری کتاب بنا دینا کچھ مشکل نہیں۔ فرمایا کہ قرآن محض ایک تصنیف نہیں، وہ ایک دعوت ہے۔ اور دعوت کی مصلحتوں میں سے ایک مصلحت یہ ہے کہ اس کو بتدریج سامنے لایا جائے تاکہ وہ ماحول میں مستحکم ہوتی چلی جائے۔ جو دعوت کامل حق ہو اس کے خلاف ہر اعتراض جھوٹا اعتراض ہوتاہے۔ اس کے خلاف جب بھی کوئی اعتراض اٹھے اور پھر اس کی سچی وضاحت کردی جائے تو اس سے دعوت کی صداقت مزید ثابت ہوجاتی ہے۔ وہ کسی بھی درجہ میں مشتبہ نہیں ہوتی۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَا مَعَهُ أَخَاهُ هَارُونَ وَزِيرًا

📘 قرآن بار بار جن پیغمبروں کا حوالہ دیتاہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا ذکر انسانیت کی مدون تاریخ میں جگہ نہ پاسکا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان پیغمبروں کے ہم عصر عقلاء نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوںنے بادشاہوں اور فوجی ہیروؤں کے حالات جوش کے ساتھ لکھے کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی پہلو موجود تھا۔ مگر انھوں نے پیغمبروں کو نظر انداز کردیا کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی ذوق کی تسکین کا سامان موجود نہ تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مزاج آج بھی مکمل طورپر موجود ہے۔ آج بھی جو لوگ اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کریں وہ فوراً پریس اور ریڈیو میں جگہ پالیتے ہیں اور جو لوگ غیر سیاسی میدان میں کام کریں ان کو آج کا انسان بھی زیادہ قابل تذکرہ نہیں سمجھتا۔ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے، موجودہ زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے کے زمانہ میں بھی۔

فَقُلْنَا اذْهَبَا إِلَى الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَدَمَّرْنَاهُمْ تَدْمِيرًا

📘 قرآن بار بار جن پیغمبروں کا حوالہ دیتاہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا ذکر انسانیت کی مدون تاریخ میں جگہ نہ پاسکا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان پیغمبروں کے ہم عصر عقلاء نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوںنے بادشاہوں اور فوجی ہیروؤں کے حالات جوش کے ساتھ لکھے کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی پہلو موجود تھا۔ مگر انھوں نے پیغمبروں کو نظر انداز کردیا کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی ذوق کی تسکین کا سامان موجود نہ تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مزاج آج بھی مکمل طورپر موجود ہے۔ آج بھی جو لوگ اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کریں وہ فوراً پریس اور ریڈیو میں جگہ پالیتے ہیں اور جو لوگ غیر سیاسی میدان میں کام کریں ان کو آج کا انسان بھی زیادہ قابل تذکرہ نہیں سمجھتا۔ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے، موجودہ زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے کے زمانہ میں بھی۔

وَقَوْمَ نُوحٍ لَمَّا كَذَّبُوا الرُّسُلَ أَغْرَقْنَاهُمْ وَجَعَلْنَاهُمْ لِلنَّاسِ آيَةً ۖ وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا

📘 قرآن بار بار جن پیغمبروں کا حوالہ دیتاہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا ذکر انسانیت کی مدون تاریخ میں جگہ نہ پاسکا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان پیغمبروں کے ہم عصر عقلاء نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوںنے بادشاہوں اور فوجی ہیروؤں کے حالات جوش کے ساتھ لکھے کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی پہلو موجود تھا۔ مگر انھوں نے پیغمبروں کو نظر انداز کردیا کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی ذوق کی تسکین کا سامان موجود نہ تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مزاج آج بھی مکمل طورپر موجود ہے۔ آج بھی جو لوگ اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کریں وہ فوراً پریس اور ریڈیو میں جگہ پالیتے ہیں اور جو لوگ غیر سیاسی میدان میں کام کریں ان کو آج کا انسان بھی زیادہ قابل تذکرہ نہیں سمجھتا۔ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے، موجودہ زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے کے زمانہ میں بھی۔

وَعَادًا وَثَمُودَ وَأَصْحَابَ الرَّسِّ وَقُرُونًا بَيْنَ ذَٰلِكَ كَثِيرًا

📘 قرآن بار بار جن پیغمبروں کا حوالہ دیتاہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا ذکر انسانیت کی مدون تاریخ میں جگہ نہ پاسکا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان پیغمبروں کے ہم عصر عقلاء نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوںنے بادشاہوں اور فوجی ہیروؤں کے حالات جوش کے ساتھ لکھے کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی پہلو موجود تھا۔ مگر انھوں نے پیغمبروں کو نظر انداز کردیا کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی ذوق کی تسکین کا سامان موجود نہ تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مزاج آج بھی مکمل طورپر موجود ہے۔ آج بھی جو لوگ اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کریں وہ فوراً پریس اور ریڈیو میں جگہ پالیتے ہیں اور جو لوگ غیر سیاسی میدان میں کام کریں ان کو آج کا انسان بھی زیادہ قابل تذکرہ نہیں سمجھتا۔ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے، موجودہ زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے کے زمانہ میں بھی۔

وَكُلًّا ضَرَبْنَا لَهُ الْأَمْثَالَ ۖ وَكُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِيرًا

📘 قرآن بار بار جن پیغمبروں کا حوالہ دیتاہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا ذکر انسانیت کی مدون تاریخ میں جگہ نہ پاسکا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان پیغمبروں کے ہم عصر عقلاء نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوںنے بادشاہوں اور فوجی ہیروؤں کے حالات جوش کے ساتھ لکھے کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی پہلو موجود تھا۔ مگر انھوں نے پیغمبروں کو نظر انداز کردیا کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی ذوق کی تسکین کا سامان موجود نہ تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مزاج آج بھی مکمل طورپر موجود ہے۔ آج بھی جو لوگ اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کریں وہ فوراً پریس اور ریڈیو میں جگہ پالیتے ہیں اور جو لوگ غیر سیاسی میدان میں کام کریں ان کو آج کا انسان بھی زیادہ قابل تذکرہ نہیں سمجھتا۔ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے، موجودہ زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے کے زمانہ میں بھی۔

وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَٰذَا إِلَّا إِفْكٌ افْتَرَاهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمٌ آخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا

📘 منکرین بظاہر قرآن کو جھوٹی کتاب کہتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس قول کا رخ پیغمبر کی طرف تھا۔ پیغمبر انھیں دیکھنے میں ایک معمولی انسان دکھائی دیتا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک معمولی انسان ایک غیر معمولی کتاب کا مالک کس طرح ہوسکتا ہے۔ قرآن ہر قسم کے مضامین کو چھوتا ہے— تاریخی، طبیعی، نفسیاتی، معاشرتی، وغیرہ۔ مگر اس میں آج تک کسی واقعی غلطی کی نشاندہی نہ کی جاسکی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جو کائنات کے بھیدوں کو آخری حد تک جاننے والا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن میں بھی غلطیاں ملتیں جس طرح دوسری انسانی کتابوں میں ملتی ہیں۔ یہی واقعہ قرآن کے خدائی کتاب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جو لوگ قرآن کے بارے میں بے بنیاد باتیں کہیں وہ بہت زیادہ جسارت کی بات کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یقیناً خداکی پکڑ میںآجائیںگے۔ البتہ اگر وہ رجوع کرلیں تو خدا کا یہ طریقہ نہیں کہ اس کے بعد بھی وہ ان سے انتقام لے۔ خدا آدمی کے حال کو دیکھتا ہے، نہ کہ اس کے ماضی کو۔

وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَى الْقَرْيَةِ الَّتِي أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ۚ أَفَلَمْ يَكُونُوا يَرَوْنَهَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَرْجُونَ نُشُورًا

📘 قرآن بار بار جن پیغمبروں کا حوالہ دیتاہے ان میں سے اکثر وہ ہیں جن کا ذکر انسانیت کی مدون تاریخ میں جگہ نہ پاسکا۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ان پیغمبروں کے ہم عصر عقلاء نے ان کو کوئی اہمیت نہ دی۔ انھوںنے بادشاہوں اور فوجی ہیروؤں کے حالات جوش کے ساتھ لکھے کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی پہلو موجود تھا۔ مگر انھوں نے پیغمبروں کو نظر انداز کردیا کیوں کہ ان کے حالات میں سیاسی ذوق کی تسکین کا سامان موجود نہ تھا۔ عجیب بات ہے کہ یہ مزاج آج بھی مکمل طورپر موجود ہے۔ آج بھی جو لوگ اپنے آپ کو سیاسی پلیٹ فارم پر نمایاں کریں وہ فوراً پریس اور ریڈیو میں جگہ پالیتے ہیں اور جو لوگ غیر سیاسی میدان میں کام کریں ان کو آج کا انسان بھی زیادہ قابل تذکرہ نہیں سمجھتا۔ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ وہ واقعات سے سبق لے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے، موجودہ زمانہ میں بھی اور اس سے پہلے کے زمانہ میں بھی۔

وَإِذَا رَأَوْكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا أَهَٰذَا الَّذِي بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا

📘 ’’اگر ہم جمے نہ رہتے تو وہ ہم کو ہمارے دین سے ہٹا دیتا‘‘— اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے دین پر قائم رہنے کی وجہ ان کا تعصب تھا نہ کہ کوئی دلیل۔ دلیل کے میدان میں وہ بے ہتھیار ہوچکے تھے۔ مگر تعصب کے بل پر وہ اپنے آبائی دین پر جمے رہے۔ یہی اکثر انسانوں کا حال ہوتا ہے۔ بیشتر انسان محض تعصب کی زمین پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ زبان سے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دلیل کی زمین پر کھڑے ہوئے ہیں۔ کسی دعوت کا مقابلہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے اس کو دلیل سے رد کرنا۔ دوسراہے اس کا مذاق اڑانا۔ پہلا طریقہ جائز ہے اور دوسرا طریقہ سراسر ناجائز۔ جو لوگ کسی دعوت کا مذاق اڑائیں وہ صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنی بازی ہار چکے ہیں۔ اور اب مذاق اور استہزاء کی باتوں سے اپنی ہارپر پرده ڈالنا چاہتے ہوں۔

إِنْ كَادَ لَيُضِلُّنَا عَنْ آلِهَتِنَا لَوْلَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا ۚ وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِينَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِيلًا

📘 ’’اگر ہم جمے نہ رہتے تو وہ ہم کو ہمارے دین سے ہٹا دیتا‘‘— اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے دین پر قائم رہنے کی وجہ ان کا تعصب تھا نہ کہ کوئی دلیل۔ دلیل کے میدان میں وہ بے ہتھیار ہوچکے تھے۔ مگر تعصب کے بل پر وہ اپنے آبائی دین پر جمے رہے۔ یہی اکثر انسانوں کا حال ہوتا ہے۔ بیشتر انسان محض تعصب کی زمین پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اگرچہ زبان سے وہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ دلیل کی زمین پر کھڑے ہوئے ہیں۔ کسی دعوت کا مقابلہ کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے اس کو دلیل سے رد کرنا۔ دوسراہے اس کا مذاق اڑانا۔ پہلا طریقہ جائز ہے اور دوسرا طریقہ سراسر ناجائز۔ جو لوگ کسی دعوت کا مذاق اڑائیں وہ صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ دلیل کے میدان میں وہ اپنی بازی ہار چکے ہیں۔ اور اب مذاق اور استہزاء کی باتوں سے اپنی ہارپر پرده ڈالنا چاہتے ہوں۔

أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا

📘 ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کے سایہ کے نیچے اللہ کے سوا پوجے جانے والے معبودں میں سب سے زیادہ سنگین اللہ کے نزدیک وہ خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے( مَا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ مِنْ إِلَهٍ يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ أَعْظَمُ مِنْ عِنْدِ اللهِ مِنْ هَوًى مُتَّبَعٍ )المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7502۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بڑا بت آدمی کی خواہش نفس ہے۔ بلکہ یہی اصل بت ہے۔ بقیہ تمام بت صرف خواہش پرستی کے دین کو جائز ثابت کرنے کے ليے وضع کيے گئے ہیں۔ خواہش کو اپنا رہبر بنانے کے بعد انسان اسی سطح پر آجاتا ہے جو جانوروں کی سطح ہے۔ جانور سوچ کر کوئی کام نہیں کرتے بلکہ صرف جبلّی تقاضے کے تحت کرتے ہیں۔ اب اگر انسان بھی اپنے سوچنے کی صلاحیت کو کام میں نہ لائے اور صرف خواہش نفس کے تحت چلنے لگے تو اس میں اور جانور میں کیا فرق باقی رہا۔

أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا

📘 ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کے سایہ کے نیچے اللہ کے سوا پوجے جانے والے معبودں میں سب سے زیادہ سنگین اللہ کے نزدیک وہ خواہش ہے جس کی پیروی کی جائے( مَا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ مِنْ إِلَهٍ يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ أَعْظَمُ مِنْ عِنْدِ اللهِ مِنْ هَوًى مُتَّبَعٍ )المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 7502۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سب سے بڑا بت آدمی کی خواہش نفس ہے۔ بلکہ یہی اصل بت ہے۔ بقیہ تمام بت صرف خواہش پرستی کے دین کو جائز ثابت کرنے کے ليے وضع کيے گئے ہیں۔ خواہش کو اپنا رہبر بنانے کے بعد انسان اسی سطح پر آجاتا ہے جو جانوروں کی سطح ہے۔ جانور سوچ کر کوئی کام نہیں کرتے بلکہ صرف جبلّی تقاضے کے تحت کرتے ہیں۔ اب اگر انسان بھی اپنے سوچنے کی صلاحیت کو کام میں نہ لائے اور صرف خواہش نفس کے تحت چلنے لگے تو اس میں اور جانور میں کیا فرق باقی رہا۔

أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا

📘 یہاں عام مشاہد کی زبان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو موجود زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتاہے۔ زمین اپنے محور پر ہر 24 گھنٹے میں ایک بار گھوم جاتی ہے۔ اسی سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے۔ اگر زمین کی محوری گردش نہ ہو تو زمین کے نصف حصہ پر مسلسل تیز دھوپ رہے۔ اور دوسرے نصف حصہ پر مسلسل رات کی تاریکی چھائی رہے۔ اور اس طرح زمین پر زندگی گزارنا انتہائی حد تک دشوار ہوجائے۔ زمین کے اس نظام میں بہت سی معنوی نصیحتیں موجود ہیں۔ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد لازماً دن کی روشنی آتی ہے۔ اسی طرح ناحق کے بعد حق کا آنا بھی اس زمین پر لازمی ہے۔ رات کو سو کر دوبارہ صبح کو اٹھنا موت کے بعد دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھنے کی تمثیل ہے، وغیرہ۔ اسی طرح بارش کے نظام میں اس کے مادی پہلو کے ساتھ عظیم معنوی سبق کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین سر سبز ہوجاتی ہے اسی طرح خدا کی ہدایت اس سینہ کو ایمان اور تقویٰ کا چمنستان بنادیتی ہے جس کے اندر واقعی صلاحیت ہو، جو بنجر زمین کی طرح بے جان نہ ہوچکا۔

ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا

📘 یہاں عام مشاہد کی زبان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو موجود زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتاہے۔ زمین اپنے محور پر ہر 24 گھنٹے میں ایک بار گھوم جاتی ہے۔ اسی سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے۔ اگر زمین کی محوری گردش نہ ہو تو زمین کے نصف حصہ پر مسلسل تیز دھوپ رہے۔ اور دوسرے نصف حصہ پر مسلسل رات کی تاریکی چھائی رہے۔ اور اس طرح زمین پر زندگی گزارنا انتہائی حد تک دشوار ہوجائے۔ زمین کے اس نظام میں بہت سی معنوی نصیحتیں موجود ہیں۔ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد لازماً دن کی روشنی آتی ہے۔ اسی طرح ناحق کے بعد حق کا آنا بھی اس زمین پر لازمی ہے۔ رات کو سو کر دوبارہ صبح کو اٹھنا موت کے بعد دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھنے کی تمثیل ہے، وغیرہ۔ اسی طرح بارش کے نظام میں اس کے مادی پہلو کے ساتھ عظیم معنوی سبق کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین سر سبز ہوجاتی ہے اسی طرح خدا کی ہدایت اس سینہ کو ایمان اور تقویٰ کا چمنستان بنادیتی ہے جس کے اندر واقعی صلاحیت ہو، جو بنجر زمین کی طرح بے جان نہ ہوچکا۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِبَاسًا وَالنَّوْمَ سُبَاتًا وَجَعَلَ النَّهَارَ نُشُورًا

📘 یہاں عام مشاہد کی زبان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو موجود زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتاہے۔ زمین اپنے محور پر ہر 24 گھنٹے میں ایک بار گھوم جاتی ہے۔ اسی سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے۔ اگر زمین کی محوری گردش نہ ہو تو زمین کے نصف حصہ پر مسلسل تیز دھوپ رہے۔ اور دوسرے نصف حصہ پر مسلسل رات کی تاریکی چھائی رہے۔ اور اس طرح زمین پر زندگی گزارنا انتہائی حد تک دشوار ہوجائے۔ زمین کے اس نظام میں بہت سی معنوی نصیحتیں موجود ہیں۔ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد لازماً دن کی روشنی آتی ہے۔ اسی طرح ناحق کے بعد حق کا آنا بھی اس زمین پر لازمی ہے۔ رات کو سو کر دوبارہ صبح کو اٹھنا موت کے بعد دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھنے کی تمثیل ہے، وغیرہ۔ اسی طرح بارش کے نظام میں اس کے مادی پہلو کے ساتھ عظیم معنوی سبق کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین سر سبز ہوجاتی ہے اسی طرح خدا کی ہدایت اس سینہ کو ایمان اور تقویٰ کا چمنستان بنادیتی ہے جس کے اندر واقعی صلاحیت ہو، جو بنجر زمین کی طرح بے جان نہ ہوچکا۔

وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا

📘 یہاں عام مشاہد کی زبان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو موجود زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتاہے۔ زمین اپنے محور پر ہر 24 گھنٹے میں ایک بار گھوم جاتی ہے۔ اسی سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے۔ اگر زمین کی محوری گردش نہ ہو تو زمین کے نصف حصہ پر مسلسل تیز دھوپ رہے۔ اور دوسرے نصف حصہ پر مسلسل رات کی تاریکی چھائی رہے۔ اور اس طرح زمین پر زندگی گزارنا انتہائی حد تک دشوار ہوجائے۔ زمین کے اس نظام میں بہت سی معنوی نصیحتیں موجود ہیں۔ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد لازماً دن کی روشنی آتی ہے۔ اسی طرح ناحق کے بعد حق کا آنا بھی اس زمین پر لازمی ہے۔ رات کو سو کر دوبارہ صبح کو اٹھنا موت کے بعد دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھنے کی تمثیل ہے، وغیرہ۔ اسی طرح بارش کے نظام میں اس کے مادی پہلو کے ساتھ عظیم معنوی سبق کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین سر سبز ہوجاتی ہے اسی طرح خدا کی ہدایت اس سینہ کو ایمان اور تقویٰ کا چمنستان بنادیتی ہے جس کے اندر واقعی صلاحیت ہو، جو بنجر زمین کی طرح بے جان نہ ہوچکا۔

لِنُحْيِيَ بِهِ بَلْدَةً مَيْتًا وَنُسْقِيَهُ مِمَّا خَلَقْنَا أَنْعَامًا وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا

📘 یہاں عام مشاہد کی زبان میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے جس کو موجود زمانہ میں زمین کی محوری گردش کہاجاتاہے۔ زمین اپنے محور پر ہر 24 گھنٹے میں ایک بار گھوم جاتی ہے۔ اسی سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ ہے۔ اگر زمین کی محوری گردش نہ ہو تو زمین کے نصف حصہ پر مسلسل تیز دھوپ رہے۔ اور دوسرے نصف حصہ پر مسلسل رات کی تاریکی چھائی رہے۔ اور اس طرح زمین پر زندگی گزارنا انتہائی حد تک دشوار ہوجائے۔ زمین کے اس نظام میں بہت سی معنوی نصیحتیں موجود ہیں۔ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد لازماً دن کی روشنی آتی ہے۔ اسی طرح ناحق کے بعد حق کا آنا بھی اس زمین پر لازمی ہے۔ رات کو سو کر دوبارہ صبح کو اٹھنا موت کے بعد دوبارہ آخرت کی دنیا میں اٹھنے کی تمثیل ہے، وغیرہ۔ اسی طرح بارش کے نظام میں اس کے مادی پہلو کے ساتھ عظیم معنوی سبق کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے۔ جس طرح بارش سے مردہ زمین سر سبز ہوجاتی ہے اسی طرح خدا کی ہدایت اس سینہ کو ایمان اور تقویٰ کا چمنستان بنادیتی ہے جس کے اندر واقعی صلاحیت ہو، جو بنجر زمین کی طرح بے جان نہ ہوچکا۔

وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا

📘 منکرین بظاہر قرآن کو جھوٹی کتاب کہتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس قول کا رخ پیغمبر کی طرف تھا۔ پیغمبر انھیں دیکھنے میں ایک معمولی انسان دکھائی دیتا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک معمولی انسان ایک غیر معمولی کتاب کا مالک کس طرح ہوسکتا ہے۔ قرآن ہر قسم کے مضامین کو چھوتا ہے— تاریخی، طبیعی، نفسیاتی، معاشرتی، وغیرہ۔ مگر اس میں آج تک کسی واقعی غلطی کی نشاندہی نہ کی جاسکی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جو کائنات کے بھیدوں کو آخری حد تک جاننے والا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن میں بھی غلطیاں ملتیں جس طرح دوسری انسانی کتابوں میں ملتی ہیں۔ یہی واقعہ قرآن کے خدائی کتاب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جو لوگ قرآن کے بارے میں بے بنیاد باتیں کہیں وہ بہت زیادہ جسارت کی بات کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یقیناً خداکی پکڑ میںآجائیںگے۔ البتہ اگر وہ رجوع کرلیں تو خدا کا یہ طریقہ نہیں کہ اس کے بعد بھی وہ ان سے انتقام لے۔ خدا آدمی کے حال کو دیکھتا ہے، نہ کہ اس کے ماضی کو۔

وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا

📘 قرآن میں توحید اور آخرت کے مضامین مختلف انداز اور مختلف اسلوب سے بار بار بیان ہوئے ہیں۔ آدمی اگر سنجیدہ ہو تو یہ مضامین اس کو تڑپا دینے کے ليے کافی ہیں۔ مگر غافل انسان کسی دلیل سے کوئی اثرنہیں لیتا۔ ’’ اس کے ذریعہ جہاد کبیر کرو‘‘ سے مراد قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرنا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ قرآن کے ذریعہ جہاد، بالفاظ دیگر، پُرامن دعوتی جدوجہد ہی اصل جہاد ہے۔ بلکہ یہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ منکر لوگ اگر یہ کوشش کریں کہ اہلِ ایمان کو دعوت کے میدان سے ہٹا کر دوسرے میدان میں الجھائیں تب بھی اہل ایمان کی ساری کوشش یہ ہونی چاہيے کہ وہ اپنے عمل کو قرآنی دعوت کے میدان میں مرتکز رکھیں۔ اور اگر مخالفین کے ہنگاموں کی وجہ سے کسی وقت عمل کا میدان بدلتا ہوانظر آئے تو ہر ممکن تدبیر کرکے دوبارہ اس کو دعوت کے میدان میں لے آئیں۔

وَلَوْ شِئْنَا لَبَعَثْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ نَذِيرًا

📘 قرآن میں توحید اور آخرت کے مضامین مختلف انداز اور مختلف اسلوب سے بار بار بیان ہوئے ہیں۔ آدمی اگر سنجیدہ ہو تو یہ مضامین اس کو تڑپا دینے کے ليے کافی ہیں۔ مگر غافل انسان کسی دلیل سے کوئی اثرنہیں لیتا۔ ’’ اس کے ذریعہ جہاد کبیر کرو‘‘ سے مراد قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرنا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ قرآن کے ذریعہ جہاد، بالفاظ دیگر، پُرامن دعوتی جدوجہد ہی اصل جہاد ہے۔ بلکہ یہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ منکر لوگ اگر یہ کوشش کریں کہ اہلِ ایمان کو دعوت کے میدان سے ہٹا کر دوسرے میدان میں الجھائیں تب بھی اہل ایمان کی ساری کوشش یہ ہونی چاہيے کہ وہ اپنے عمل کو قرآنی دعوت کے میدان میں مرتکز رکھیں۔ اور اگر مخالفین کے ہنگاموں کی وجہ سے کسی وقت عمل کا میدان بدلتا ہوانظر آئے تو ہر ممکن تدبیر کرکے دوبارہ اس کو دعوت کے میدان میں لے آئیں۔

فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا

📘 قرآن میں توحید اور آخرت کے مضامین مختلف انداز اور مختلف اسلوب سے بار بار بیان ہوئے ہیں۔ آدمی اگر سنجیدہ ہو تو یہ مضامین اس کو تڑپا دینے کے ليے کافی ہیں۔ مگر غافل انسان کسی دلیل سے کوئی اثرنہیں لیتا۔ ’’ اس کے ذریعہ جہاد کبیر کرو‘‘ سے مراد قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرنا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ قرآن کے ذریعہ جہاد، بالفاظ دیگر، پُرامن دعوتی جدوجہد ہی اصل جہاد ہے۔ بلکہ یہی سب سے بڑا جہاد ہے۔ منکر لوگ اگر یہ کوشش کریں کہ اہلِ ایمان کو دعوت کے میدان سے ہٹا کر دوسرے میدان میں الجھائیں تب بھی اہل ایمان کی ساری کوشش یہ ہونی چاہيے کہ وہ اپنے عمل کو قرآنی دعوت کے میدان میں مرتکز رکھیں۔ اور اگر مخالفین کے ہنگاموں کی وجہ سے کسی وقت عمل کا میدان بدلتا ہوانظر آئے تو ہر ممکن تدبیر کرکے دوبارہ اس کو دعوت کے میدان میں لے آئیں۔

۞ وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَحْجُورًا

📘 جب کسی سنگم پر دو دریا ملتے ہیں یا کوئی بڑا دریا سمندر میں جاکر گرتاہے تو ایسے مقام پر باہم ملنے کے باوجود دونوں پانی الگ الگ رہتا ہے۔ دونوں کے بیچ میں ایک دھاری دور تک جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ راقم الحروف نےیہ منظر الٰہ آباد میں گنگا اور جمنا کے سنگم پر دیکھا ہے۔ یہ واقعہ اس قدرتی قانون کے تحت ہوتا ہے جس کو موجودہ زمانہ میں سطحی تناؤ (surface tension) کہاجاتا ہے۔ اسی طرح جب سمندر میں جوار بھاٹا آتا ہے تو سمندر کا کھاری پانی ساحلی دریا کے میٹھے پانی کے اوپر چڑھ جاتاہے۔ مگر سطحی تناؤ دونوں پانی کو بالکل الگ رکھتا ہے۔اور جب سمندر کا پانی دوبارہ اترتا ہے تو اس کا کھاری پانی اوپر اوپر سے واپس چلا جاتاہے اور نیچے کا میٹھا پانی بدستور اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتا ہے۔ حتی کہ اسی سطحی تناؤ کے قانون کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ کھاری سمندروں کے عین بیچ میں میٹھے پانی کے ذخیرے موجود رہیں اور بحری مسافروں کو میٹھا پانی فراہم کرسکیں۔ انسانی جسم کی اصل پانی ہے۔ پانی سے انسان جیسی حیرت انگیز نوع بنی۔ پھر نسبی تعلقات اور سسرالی روابط کے ذریعے اس کی نسل چلتی رہی— اس طرح کے مختلف واقعات جو زمین پر پائے جاتے ہیں ان پر غور کیا جائے تو ان میں خدا کی قدرت کی نشانیاں چھپی ہوئی نظر آئیں گی۔

وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا

📘 جب کسی سنگم پر دو دریا ملتے ہیں یا کوئی بڑا دریا سمندر میں جاکر گرتاہے تو ایسے مقام پر باہم ملنے کے باوجود دونوں پانی الگ الگ رہتا ہے۔ دونوں کے بیچ میں ایک دھاری دور تک جاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ راقم الحروف نےیہ منظر الٰہ آباد میں گنگا اور جمنا کے سنگم پر دیکھا ہے۔ یہ واقعہ اس قدرتی قانون کے تحت ہوتا ہے جس کو موجودہ زمانہ میں سطحی تناؤ (surface tension) کہاجاتا ہے۔ اسی طرح جب سمندر میں جوار بھاٹا آتا ہے تو سمندر کا کھاری پانی ساحلی دریا کے میٹھے پانی کے اوپر چڑھ جاتاہے۔ مگر سطحی تناؤ دونوں پانی کو بالکل الگ رکھتا ہے۔اور جب سمندر کا پانی دوبارہ اترتا ہے تو اس کا کھاری پانی اوپر اوپر سے واپس چلا جاتاہے اور نیچے کا میٹھا پانی بدستور اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتا ہے۔ حتی کہ اسی سطحی تناؤ کے قانون کی وجہ سے یہ ممکن ہوا ہے کہ کھاری سمندروں کے عین بیچ میں میٹھے پانی کے ذخیرے موجود رہیں اور بحری مسافروں کو میٹھا پانی فراہم کرسکیں۔ انسانی جسم کی اصل پانی ہے۔ پانی سے انسان جیسی حیرت انگیز نوع بنی۔ پھر نسبی تعلقات اور سسرالی روابط کے ذریعے اس کی نسل چلتی رہی— اس طرح کے مختلف واقعات جو زمین پر پائے جاتے ہیں ان پر غور کیا جائے تو ان میں خدا کی قدرت کی نشانیاں چھپی ہوئی نظر آئیں گی۔

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ ۗ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَىٰ رَبِّهِ ظَهِيرًا

📘 خدا نے انسان کو ایسی دنیا میں رکھا ہے جہاں کی ہر چیز اور اس کا پورا ماحول توحید کی گواہی دیتا ہے۔ مگر انسان اس سے روشنی حاصل نہیں کرتا۔ وہ اپنی گمراہی میں اس حد تک جاتا ہے کہ وہ توحید کے بجائے شرک کی بنیاد پر اپنی زندگی کا نظام بناتا ہے۔ اور جب کوئی خدا کا بندہ انسانوں کو توحید کی طرف پکارنے کے ليے اٹھے تو وہ دعوت توحید کا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتاہے۔ تاہم حق کے داعی کو جارحیت کی حد تک جانے کی اجازت نہیں۔اس کو صرف تلقین اور نصیحت کے دائرہ میں اپنا کام جاری رکھنا ہے۔ اگر دعوت کار گر نہ ہورہی ہو تو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ دعوت پر جارحیت کا اضافہ کرے۔ اسے جس چیز کا اضافہ کرنا ہے وہ ہے — خدا سے دعا، ہر قسم کے مادی جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا، بے غرضی اور اخلاق کے ذریعہ مخاطب کے دل کو متاثر کرنا۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا

📘 خدا نے انسان کو ایسی دنیا میں رکھا ہے جہاں کی ہر چیز اور اس کا پورا ماحول توحید کی گواہی دیتا ہے۔ مگر انسان اس سے روشنی حاصل نہیں کرتا۔ وہ اپنی گمراہی میں اس حد تک جاتا ہے کہ وہ توحید کے بجائے شرک کی بنیاد پر اپنی زندگی کا نظام بناتا ہے۔ اور جب کوئی خدا کا بندہ انسانوں کو توحید کی طرف پکارنے کے ليے اٹھے تو وہ دعوت توحید کا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتاہے۔ تاہم حق کے داعی کو جارحیت کی حد تک جانے کی اجازت نہیں۔اس کو صرف تلقین اور نصیحت کے دائرہ میں اپنا کام جاری رکھنا ہے۔ اگر دعوت کار گر نہ ہورہی ہو تو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ دعوت پر جارحیت کا اضافہ کرے۔ اسے جس چیز کا اضافہ کرنا ہے وہ ہے — خدا سے دعا، ہر قسم کے مادی جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا، بے غرضی اور اخلاق کے ذریعہ مخاطب کے دل کو متاثر کرنا۔

قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا

📘 خدا نے انسان کو ایسی دنیا میں رکھا ہے جہاں کی ہر چیز اور اس کا پورا ماحول توحید کی گواہی دیتا ہے۔ مگر انسان اس سے روشنی حاصل نہیں کرتا۔ وہ اپنی گمراہی میں اس حد تک جاتا ہے کہ وہ توحید کے بجائے شرک کی بنیاد پر اپنی زندگی کا نظام بناتا ہے۔ اور جب کوئی خدا کا بندہ انسانوں کو توحید کی طرف پکارنے کے ليے اٹھے تو وہ دعوت توحید کا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتاہے۔ تاہم حق کے داعی کو جارحیت کی حد تک جانے کی اجازت نہیں۔اس کو صرف تلقین اور نصیحت کے دائرہ میں اپنا کام جاری رکھنا ہے۔ اگر دعوت کار گر نہ ہورہی ہو تو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ دعوت پر جارحیت کا اضافہ کرے۔ اسے جس چیز کا اضافہ کرنا ہے وہ ہے — خدا سے دعا، ہر قسم کے مادی جھگڑوں کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا، بے غرضی اور اخلاق کے ذریعہ مخاطب کے دل کو متاثر کرنا۔

وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ ۚ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًا

📘 ’’رحمان کی بابت جاننے والے سے پوچھو‘‘— اس میں پوچھي جانے والی بات پر زور ہے، نہ کہ پوچھے جانے والے شخص پر۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدائے رحمان کے کرشموں کو جانے تو وہ تم کو بتائے گا کہ رحمن کی ذات کتنی بلند و برتر ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنس دانوں نے کائنات میں جو تحقیق کی ہے وہ جزئی طورپر اس آیت کی مصداق ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیقات سے کائنات کے جو بھید سامنے آئے ہیں وہ اتنے حیرت ناک ہیں کہ ان کو پڑھ کر آدمی کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور اس کا دل بے اختیار خالق کی عظمتوں کے آگے جھک جائے۔ ’’چھ دن‘‘ سے مراد خدا کے چھ دن ہیں۔ انسان کی زبان میںاس کو چھ ادوار کہا جاسکتا ہے۔ چھ دوروں میں پیدا کرنا ظاہر کرتاہے کہ کائنات کی تخلیق منصوبہ بند طريقے سے ہوئی ہے۔ اور جو چیز منصوبہ اور اہتمام کے ساتھ وجود میں لائی جائے وہ کبھی عبث نہیں ہوسکتی ۔

الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۚ الرَّحْمَٰنُ فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًا

📘 ’’رحمان کی بابت جاننے والے سے پوچھو‘‘— اس میں پوچھي جانے والی بات پر زور ہے، نہ کہ پوچھے جانے والے شخص پر۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدائے رحمان کے کرشموں کو جانے تو وہ تم کو بتائے گا کہ رحمن کی ذات کتنی بلند و برتر ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنس دانوں نے کائنات میں جو تحقیق کی ہے وہ جزئی طورپر اس آیت کی مصداق ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیقات سے کائنات کے جو بھید سامنے آئے ہیں وہ اتنے حیرت ناک ہیں کہ ان کو پڑھ کر آدمی کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور اس کا دل بے اختیار خالق کی عظمتوں کے آگے جھک جائے۔ ’’چھ دن‘‘ سے مراد خدا کے چھ دن ہیں۔ انسان کی زبان میںاس کو چھ ادوار کہا جاسکتا ہے۔ چھ دوروں میں پیدا کرنا ظاہر کرتاہے کہ کائنات کی تخلیق منصوبہ بند طريقے سے ہوئی ہے۔ اور جو چیز منصوبہ اور اہتمام کے ساتھ وجود میں لائی جائے وہ کبھی عبث نہیں ہوسکتی ۔

قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا

📘 منکرین بظاہر قرآن کو جھوٹی کتاب کہتے تھے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس قول کا رخ پیغمبر کی طرف تھا۔ پیغمبر انھیں دیکھنے میں ایک معمولی انسان دکھائی دیتا تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ایک معمولی انسان ایک غیر معمولی کتاب کا مالک کس طرح ہوسکتا ہے۔ قرآن ہر قسم کے مضامین کو چھوتا ہے— تاریخی، طبیعی، نفسیاتی، معاشرتی، وغیرہ۔ مگر اس میں آج تک کسی واقعی غلطی کی نشاندہی نہ کی جاسکی۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ایک ایسی ہستی کا کلام ہے جو کائنات کے بھیدوں کو آخری حد تک جاننے والا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو قرآن میں بھی غلطیاں ملتیں جس طرح دوسری انسانی کتابوں میں ملتی ہیں۔ یہی واقعہ قرآن کے خدائی کتاب ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ جو لوگ قرآن کے بارے میں بے بنیاد باتیں کہیں وہ بہت زیادہ جسارت کی بات کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یقیناً خداکی پکڑ میںآجائیںگے۔ البتہ اگر وہ رجوع کرلیں تو خدا کا یہ طریقہ نہیں کہ اس کے بعد بھی وہ ان سے انتقام لے۔ خدا آدمی کے حال کو دیکھتا ہے، نہ کہ اس کے ماضی کو۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمْ نُفُورًا ۩

📘 ’’رحمان کی بابت جاننے والے سے پوچھو‘‘— اس میں پوچھي جانے والی بات پر زور ہے، نہ کہ پوچھے جانے والے شخص پر۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خدائے رحمان کے کرشموں کو جانے تو وہ تم کو بتائے گا کہ رحمن کی ذات کتنی بلند و برتر ہے۔ موجودہ زمانہ میں سائنس دانوں نے کائنات میں جو تحقیق کی ہے وہ جزئی طورپر اس آیت کی مصداق ہے۔ سائنس دانوں کی تحقیقات سے کائنات کے جو بھید سامنے آئے ہیں وہ اتنے حیرت ناک ہیں کہ ان کو پڑھ کر آدمی کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور اس کا دل بے اختیار خالق کی عظمتوں کے آگے جھک جائے۔ ’’چھ دن‘‘ سے مراد خدا کے چھ دن ہیں۔ انسان کی زبان میںاس کو چھ ادوار کہا جاسکتا ہے۔ چھ دوروں میں پیدا کرنا ظاہر کرتاہے کہ کائنات کی تخلیق منصوبہ بند طريقے سے ہوئی ہے۔ اور جو چیز منصوبہ اور اہتمام کے ساتھ وجود میں لائی جائے وہ کبھی عبث نہیں ہوسکتی ۔

تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا

📘 برج کے لفظی معنی قلعہ کے ہیں۔ آسمانی برج سے کیا مراد ہے، اس کی کوئی متفقہ تفسیر ابھی تک نہیں کی جاسکی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ چیز ہو جس کو موجودہ زمانہ میں شمسی نظام کہاجاتا ہے۔ کائنات میں کروڑوں کی تعداد میں شمسی نظام پائے جاتے ہیں۔ انھیں میں سے ایک وہ ہے جو ہم سے قریب ہے اور جس کے اندر ہماری زمین اور سورج اور چاند واقع ہیں۔ شمسی نظام کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی زمین کا سورج کے گرد مسلسل گھومنا ہے۔ اس کی ایک گردش مدار پر ہوتی ہے۔ یہ گردش سال میں پوری ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے موسم واقع ہوتے ہیں۔ اس کی دوسری گردش اس کے محور پر ہوتی ہے۔ یہ 24 گھنٹہ میں پوری ہوجاتی ہے اور اس سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ اتھاہ خلا میں حددرجہ صحت کے ساتھ زمین کی گردش اور اس کا انسانی مصلحتوں کے اتنا زیادہ موافق ہونا اتنے حیرت ناک واقعات ہیں کہ جو شخص ان پر غور کرے گا وہ شکر خداوندی کے جذبہ میں غرق ہو کر رہ جائے گا۔

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا

📘 برج کے لفظی معنی قلعہ کے ہیں۔ آسمانی برج سے کیا مراد ہے، اس کی کوئی متفقہ تفسیر ابھی تک نہیں کی جاسکی ہے۔ ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ چیز ہو جس کو موجودہ زمانہ میں شمسی نظام کہاجاتا ہے۔ کائنات میں کروڑوں کی تعداد میں شمسی نظام پائے جاتے ہیں۔ انھیں میں سے ایک وہ ہے جو ہم سے قریب ہے اور جس کے اندر ہماری زمین اور سورج اور چاند واقع ہیں۔ شمسی نظام کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی زمین کا سورج کے گرد مسلسل گھومنا ہے۔ اس کی ایک گردش مدار پر ہوتی ہے۔ یہ گردش سال میں پوری ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے موسم واقع ہوتے ہیں۔ اس کی دوسری گردش اس کے محور پر ہوتی ہے۔ یہ 24 گھنٹہ میں پوری ہوجاتی ہے اور اس سے رات اور دن پیدا ہوتے ہیں۔ اتھاہ خلا میں حددرجہ صحت کے ساتھ زمین کی گردش اور اس کا انسانی مصلحتوں کے اتنا زیادہ موافق ہونا اتنے حیرت ناک واقعات ہیں کہ جو شخص ان پر غور کرے گا وہ شکر خداوندی کے جذبہ میں غرق ہو کر رہ جائے گا۔

وَعِبَادُ الرَّحْمَٰنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا

📘 ’’چلنا‘‘ پوری شخصیت کی علامت ہے۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کا یقین اتر جائے وہ سراپا عجز وتواضع بن جاتے ہیں۔ خدا کا خوف ان سے بڑائی کا احساس چھین لیتاہے۔ ان کا چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ایسا ہوجاتا ہے جس میں عبدیت کی روح پوری طرح سمائی ہوئی ہو۔ رحمن کے بندوں کا معاملہ اگر صرف اتنا ہی ہو تو کوئی بھی ان سے نہ الجھے۔ مگر خدا کی معرفت انھیں خدا کا داعی بھی بنا دیتی ہے۔ بس یہیںسے ان کا ٹکراؤ دوسروں سے شروع ہوجاتاہے۔ ان کا اعلان حق باطل پرستوں کے ليے ناقابل برداشت ہوجاتاہے اور وہ ان سے ٹکرانے کے ليے آجاتے ہیں۔ مگر یہاں بھی خدا کا خوف انھیں جوابی ٹکراؤ سے روک دیتاہے۔ وہ ان کے حق میں ہدایت کی دعا کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ خدا کی معرفت ہی کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ ان کی زندگی میںایک کبھی نہ ختم ہونے والی بے چینی شامل ہوجاتی ہے۔ وہ نہ صرف دن کے وقت خدا کو بے تابانہ پکارتے رہتے ہیں بلکہ ان کی راتوں کی تنہائیاں بھی خدا کی یاد میں بسر ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح خدا کا احساس انھیں حد درجہ محتاط بنا دیتاہے۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر کماتے ہیں اور ذمہ دارانہ طورپر خرچ کرتے ہیں۔ خداکے آگے جواب دہی کا احساس انھیں اپنے آمد وخرچ کے معاملے میں معتدل اور محتاط بنا دیتاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ یہ آدمی کی دانائی میں سے ہے کہ وہ اپنی معیشت میں بیچ کی راہ اختیار کرے (مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ) مسند احمد، حدیث نمبر 21695۔ رفقہ ای قصدہ۔

وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا

📘 ’’چلنا‘‘ پوری شخصیت کی علامت ہے۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کا یقین اتر جائے وہ سراپا عجز وتواضع بن جاتے ہیں۔ خدا کا خوف ان سے بڑائی کا احساس چھین لیتاہے۔ ان کا چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ایسا ہوجاتا ہے جس میں عبدیت کی روح پوری طرح سمائی ہوئی ہو۔ رحمن کے بندوں کا معاملہ اگر صرف اتنا ہی ہو تو کوئی بھی ان سے نہ الجھے۔ مگر خدا کی معرفت انھیں خدا کا داعی بھی بنا دیتی ہے۔ بس یہیںسے ان کا ٹکراؤ دوسروں سے شروع ہوجاتاہے۔ ان کا اعلان حق باطل پرستوں کے ليے ناقابل برداشت ہوجاتاہے اور وہ ان سے ٹکرانے کے ليے آجاتے ہیں۔ مگر یہاں بھی خدا کا خوف انھیں جوابی ٹکراؤ سے روک دیتاہے۔ وہ ان کے حق میں ہدایت کی دعا کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ خدا کی معرفت ہی کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ ان کی زندگی میںایک کبھی نہ ختم ہونے والی بے چینی شامل ہوجاتی ہے۔ وہ نہ صرف دن کے وقت خدا کو بے تابانہ پکارتے رہتے ہیں بلکہ ان کی راتوں کی تنہائیاں بھی خدا کی یاد میں بسر ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح خدا کا احساس انھیں حد درجہ محتاط بنا دیتاہے۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر کماتے ہیں اور ذمہ دارانہ طورپر خرچ کرتے ہیں۔ خداکے آگے جواب دہی کا احساس انھیں اپنے آمد وخرچ کے معاملے میں معتدل اور محتاط بنا دیتاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ یہ آدمی کی دانائی میں سے ہے کہ وہ اپنی معیشت میں بیچ کی راہ اختیار کرے (مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ) مسند احمد، حدیث نمبر 21695۔ رفقہ ای قصدہ۔

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا

📘 ’’چلنا‘‘ پوری شخصیت کی علامت ہے۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کا یقین اتر جائے وہ سراپا عجز وتواضع بن جاتے ہیں۔ خدا کا خوف ان سے بڑائی کا احساس چھین لیتاہے۔ ان کا چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ایسا ہوجاتا ہے جس میں عبدیت کی روح پوری طرح سمائی ہوئی ہو۔ رحمن کے بندوں کا معاملہ اگر صرف اتنا ہی ہو تو کوئی بھی ان سے نہ الجھے۔ مگر خدا کی معرفت انھیں خدا کا داعی بھی بنا دیتی ہے۔ بس یہیںسے ان کا ٹکراؤ دوسروں سے شروع ہوجاتاہے۔ ان کا اعلان حق باطل پرستوں کے ليے ناقابل برداشت ہوجاتاہے اور وہ ان سے ٹکرانے کے ليے آجاتے ہیں۔ مگر یہاں بھی خدا کا خوف انھیں جوابی ٹکراؤ سے روک دیتاہے۔ وہ ان کے حق میں ہدایت کی دعا کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ خدا کی معرفت ہی کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ ان کی زندگی میںایک کبھی نہ ختم ہونے والی بے چینی شامل ہوجاتی ہے۔ وہ نہ صرف دن کے وقت خدا کو بے تابانہ پکارتے رہتے ہیں بلکہ ان کی راتوں کی تنہائیاں بھی خدا کی یاد میں بسر ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح خدا کا احساس انھیں حد درجہ محتاط بنا دیتاہے۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر کماتے ہیں اور ذمہ دارانہ طورپر خرچ کرتے ہیں۔ خداکے آگے جواب دہی کا احساس انھیں اپنے آمد وخرچ کے معاملے میں معتدل اور محتاط بنا دیتاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ یہ آدمی کی دانائی میں سے ہے کہ وہ اپنی معیشت میں بیچ کی راہ اختیار کرے (مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ) مسند احمد، حدیث نمبر 21695۔ رفقہ ای قصدہ۔

إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا

📘 ’’چلنا‘‘ پوری شخصیت کی علامت ہے۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کا یقین اتر جائے وہ سراپا عجز وتواضع بن جاتے ہیں۔ خدا کا خوف ان سے بڑائی کا احساس چھین لیتاہے۔ ان کا چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ایسا ہوجاتا ہے جس میں عبدیت کی روح پوری طرح سمائی ہوئی ہو۔ رحمن کے بندوں کا معاملہ اگر صرف اتنا ہی ہو تو کوئی بھی ان سے نہ الجھے۔ مگر خدا کی معرفت انھیں خدا کا داعی بھی بنا دیتی ہے۔ بس یہیںسے ان کا ٹکراؤ دوسروں سے شروع ہوجاتاہے۔ ان کا اعلان حق باطل پرستوں کے ليے ناقابل برداشت ہوجاتاہے اور وہ ان سے ٹکرانے کے ليے آجاتے ہیں۔ مگر یہاں بھی خدا کا خوف انھیں جوابی ٹکراؤ سے روک دیتاہے۔ وہ ان کے حق میں ہدایت کی دعا کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ خدا کی معرفت ہی کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ ان کی زندگی میںایک کبھی نہ ختم ہونے والی بے چینی شامل ہوجاتی ہے۔ وہ نہ صرف دن کے وقت خدا کو بے تابانہ پکارتے رہتے ہیں بلکہ ان کی راتوں کی تنہائیاں بھی خدا کی یاد میں بسر ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح خدا کا احساس انھیں حد درجہ محتاط بنا دیتاہے۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر کماتے ہیں اور ذمہ دارانہ طورپر خرچ کرتے ہیں۔ خداکے آگے جواب دہی کا احساس انھیں اپنے آمد وخرچ کے معاملے میں معتدل اور محتاط بنا دیتاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ یہ آدمی کی دانائی میں سے ہے کہ وہ اپنی معیشت میں بیچ کی راہ اختیار کرے (مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ) مسند احمد، حدیث نمبر 21695۔ رفقہ ای قصدہ۔

وَالَّذِينَ إِذَا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَٰلِكَ قَوَامًا

📘 ’’چلنا‘‘ پوری شخصیت کی علامت ہے۔ جن لوگوں کے دل میں اللہ کا یقین اتر جائے وہ سراپا عجز وتواضع بن جاتے ہیں۔ خدا کا خوف ان سے بڑائی کا احساس چھین لیتاہے۔ ان کا چلنا پھرنا اور رہنا سہنا ایسا ہوجاتا ہے جس میں عبدیت کی روح پوری طرح سمائی ہوئی ہو۔ رحمن کے بندوں کا معاملہ اگر صرف اتنا ہی ہو تو کوئی بھی ان سے نہ الجھے۔ مگر خدا کی معرفت انھیں خدا کا داعی بھی بنا دیتی ہے۔ بس یہیںسے ان کا ٹکراؤ دوسروں سے شروع ہوجاتاہے۔ ان کا اعلان حق باطل پرستوں کے ليے ناقابل برداشت ہوجاتاہے اور وہ ان سے ٹکرانے کے ليے آجاتے ہیں۔ مگر یہاں بھی خدا کا خوف انھیں جوابی ٹکراؤ سے روک دیتاہے۔ وہ ان کے حق میں ہدایت کی دعا کرتے ہوئے ان سے الگ ہوجاتے ہیں۔ خدا کی معرفت ہی کا یہ نتیجہ بھی ہے کہ ان کی زندگی میںایک کبھی نہ ختم ہونے والی بے چینی شامل ہوجاتی ہے۔ وہ نہ صرف دن کے وقت خدا کو بے تابانہ پکارتے رہتے ہیں بلکہ ان کی راتوں کی تنہائیاں بھی خدا کی یاد میں بسر ہونے لگتی ہیں۔ اسی طرح خدا کا احساس انھیں حد درجہ محتاط بنا دیتاہے۔ وہ ذمہ دارانہ طورپر کماتے ہیں اور ذمہ دارانہ طورپر خرچ کرتے ہیں۔ خداکے آگے جواب دہی کا احساس انھیں اپنے آمد وخرچ کے معاملے میں معتدل اور محتاط بنا دیتاہے۔ حدیث میں آتاہے کہ یہ آدمی کی دانائی میں سے ہے کہ وہ اپنی معیشت میں بیچ کی راہ اختیار کرے (مِنْ فِقْهِ الرَّجُلِ رِفْقُهُ فِي مَعِيشَتِهِ) مسند احمد، حدیث نمبر 21695۔ رفقہ ای قصدہ۔

وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا

📘 اِس آیت میں تین گناہوں کا ذکر ہے۔ شرک اور قتل ناحق اور زنا۔ یہ تینوں گناہ خدااور بندوں کے حق میں سب سے بڑے گناہ ہیں۔ اللہ پر حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ آدمی ان تینوں گناہوں سے دور ہو جائے جو لوگ ان گناہوں میں ملوث ہوں وہ توبہ کرکے ان کے انجام سے بچ سکتے ہیں۔ جو لوگ توبہ اور رجوع کے بغیر مرجائیں ان کے ليے خدا کے یہاں نہایت سخت سزا ہے جس سے وہ کسی حال میں بچ نہ سکیں گے۔ خدا کے نزدیک اصل نیکی یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرنے والا بن جائے۔ جو نیکی آدمی کو خدا سے بے خوف کرے وہ بدی ہے۔ اور جو بدی آدمی کو خدا سے ڈرائے وہ اپنے انجام کے اعتبار سے نیکی۔ اگر ایک آدمی سے برائی ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو خدا کی یاد آئے۔ وہ خداکی باز پرس کو سوچ کر تڑپ اٹھے اور توبہ اور استغفار کرتے ہوئے خدا کی طرف دوڑ پڑے تو خدا اپنی رحمت سے ایسی برائی کو نیکی کے خانہ میں لکھ دے گا۔ کیوں کہ وہ آدمی کو خدا کی طرف رجوع کرنے کا سبب بن گئی۔

يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا

📘 اِس آیت میں تین گناہوں کا ذکر ہے۔ شرک اور قتل ناحق اور زنا۔ یہ تینوں گناہ خدااور بندوں کے حق میں سب سے بڑے گناہ ہیں۔ اللہ پر حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ آدمی ان تینوں گناہوں سے دور ہو جائے جو لوگ ان گناہوں میں ملوث ہوں وہ توبہ کرکے ان کے انجام سے بچ سکتے ہیں۔ جو لوگ توبہ اور رجوع کے بغیر مرجائیں ان کے ليے خدا کے یہاں نہایت سخت سزا ہے جس سے وہ کسی حال میں بچ نہ سکیں گے۔ خدا کے نزدیک اصل نیکی یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرنے والا بن جائے۔ جو نیکی آدمی کو خدا سے بے خوف کرے وہ بدی ہے۔ اور جو بدی آدمی کو خدا سے ڈرائے وہ اپنے انجام کے اعتبار سے نیکی۔ اگر ایک آدمی سے برائی ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو خدا کی یاد آئے۔ وہ خداکی باز پرس کو سوچ کر تڑپ اٹھے اور توبہ اور استغفار کرتے ہوئے خدا کی طرف دوڑ پڑے تو خدا اپنی رحمت سے ایسی برائی کو نیکی کے خانہ میں لکھ دے گا۔ کیوں کہ وہ آدمی کو خدا کی طرف رجوع کرنے کا سبب بن گئی۔

وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُ نَذِيرًا

📘 حق کے ہر داعی کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ اس کے زمانہ کے لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا۔ اور بعد کے لوگوں نے اس کی پرستش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں وہ اپنی حقیقی شخصیت کے ساتھ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس ليے وہ انھیں بس ایک عام انسان کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ مگر بعد کو اس کی شخصیت کے گرد افسانوی قصوں کا ہالہ بن جاتا ہے۔ بعد کے لوگ اس کو مبالغہ آمیز روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس ليے بعد کے لوگ مبالغہ آمیز حد تک اس کی تعظیم وتقدیس کرنے لگتے ہیں۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیغمبر کی غیر معمولی عظمت قائم ہوجاتی ہے۔ اس ليے کوئی بڑا اپنے آپ کو پیغمبر سے بڑا نہیں پاتا۔ مگر پیغمبر کی زندگی میں اس کی جو ظاہری صورت حال ہوتی ہے وہ وقت کے بڑوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ پیغمبر کے مقابلہ میں متکبرانہ نفسیات میں مبتلا ہوسکیں۔ ایسے لوگ جب کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ پیغمبر کی باتوں کو سن کر متاثر ہورہے ہیں تو وہ ان کے تاثر کو گھٹانے کے ليے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک مجنون ہے، یہ تو ایک سحر زدہ انسان ہے، وغیرہ۔ وہ دلیل کے میدان میں اپنے آپ کو عاجز پاکر عیب لگانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ حالاں کہ دلیل کے ذریعہ کسی کو ردکرنا عین درست ہے جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست۔

إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا

📘 اِس آیت میں تین گناہوں کا ذکر ہے۔ شرک اور قتل ناحق اور زنا۔ یہ تینوں گناہ خدااور بندوں کے حق میں سب سے بڑے گناہ ہیں۔ اللہ پر حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ آدمی ان تینوں گناہوں سے دور ہو جائے جو لوگ ان گناہوں میں ملوث ہوں وہ توبہ کرکے ان کے انجام سے بچ سکتے ہیں۔ جو لوگ توبہ اور رجوع کے بغیر مرجائیں ان کے ليے خدا کے یہاں نہایت سخت سزا ہے جس سے وہ کسی حال میں بچ نہ سکیں گے۔ خدا کے نزدیک اصل نیکی یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرنے والا بن جائے۔ جو نیکی آدمی کو خدا سے بے خوف کرے وہ بدی ہے۔ اور جو بدی آدمی کو خدا سے ڈرائے وہ اپنے انجام کے اعتبار سے نیکی۔ اگر ایک آدمی سے برائی ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو خدا کی یاد آئے۔ وہ خداکی باز پرس کو سوچ کر تڑپ اٹھے اور توبہ اور استغفار کرتے ہوئے خدا کی طرف دوڑ پڑے تو خدا اپنی رحمت سے ایسی برائی کو نیکی کے خانہ میں لکھ دے گا۔ کیوں کہ وہ آدمی کو خدا کی طرف رجوع کرنے کا سبب بن گئی۔

وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا

📘 اِس آیت میں تین گناہوں کا ذکر ہے۔ شرک اور قتل ناحق اور زنا۔ یہ تینوں گناہ خدااور بندوں کے حق میں سب سے بڑے گناہ ہیں۔ اللہ پر حقیقی ایمان کی علامت یہ ہے کہ آدمی ان تینوں گناہوں سے دور ہو جائے جو لوگ ان گناہوں میں ملوث ہوں وہ توبہ کرکے ان کے انجام سے بچ سکتے ہیں۔ جو لوگ توبہ اور رجوع کے بغیر مرجائیں ان کے ليے خدا کے یہاں نہایت سخت سزا ہے جس سے وہ کسی حال میں بچ نہ سکیں گے۔ خدا کے نزدیک اصل نیکی یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرنے والا بن جائے۔ جو نیکی آدمی کو خدا سے بے خوف کرے وہ بدی ہے۔ اور جو بدی آدمی کو خدا سے ڈرائے وہ اپنے انجام کے اعتبار سے نیکی۔ اگر ایک آدمی سے برائی ہوجائے۔ اس کے بعد اس کو خدا کی یاد آئے۔ وہ خداکی باز پرس کو سوچ کر تڑپ اٹھے اور توبہ اور استغفار کرتے ہوئے خدا کی طرف دوڑ پڑے تو خدا اپنی رحمت سے ایسی برائی کو نیکی کے خانہ میں لکھ دے گا۔ کیوں کہ وہ آدمی کو خدا کی طرف رجوع کرنے کا سبب بن گئی۔

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا

📘 موجودہ دنیا میں جو غلط کام ہیں ان سب کا معاملہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کو ظاہری طورپر خوب صورت بنا رکھا ہے۔ ہر باطل پرست اپنے نظریہ کو خوش نما الفاظ میں پیش کرتاہے۔ اسی ظاہر فریبی کی وجہ سے لوگ ان چیزوں کی طرف کھنچتے ہیں۔ اگر ان کے اس ظاہری غلاف کو ہٹا دیا جائے تو ہر چیز اتنی مکروہ دکھائی دینے لگے کہ کوئی شخص اس کے قریب جانے کے ليے تیار نہ ہو۔ اس اعتبار سے ہر برائی ایک قسم کا جھوٹ ہے جس میںآدمی مبتلا ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو پہچانے۔ وہ ظاہری پردہ کو پھاڑ کر چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھ سکے۔ جب کسی کو ایک ایسی نصیحت کی جائے جس میں اس کی ذات پر زد پڑتی ہو تو وہ فوراً بپھر اٹھتاہے۔ ایسا شخص خدا کی نظر میں اندھا بہرا ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنی آنکھ سے یہ کام نہ لیا کہ وہ حقیقت کو دیکھے۔ اس نے اپنے کان سے یہ کام نہ لیا کہ وہ سچائی کی آواز کو سنے۔ اس نے نصیحت کا استقبال سننے اور دیکھنے والے آدمی کی حیثیت سے نہیں کیا۔ اس نے نصیحت کا استقبال ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے کیا جو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ خدا کی نظر میں دیکھنے اور سننے والا وہ ہے جو لغو کو دیکھے تو اس سے اعراض کرے اور جب اس کے سامنے سچی نصیحت آئے تو فوراً اس کو قبول کرلے۔ ہر آدمی جو کنبہ والا ہے وہ اپنے کنبہ کا ’’امام‘‘ ہے۔ اگر اس کے کنبہ والے متقی ہیں تو وہ متقیوں کا امام ہے۔ اور اگر اس کے کنبہ والے خدا فراموش ہیں تو وہ خدا فراموشوں کا امام۔

وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا

📘 موجودہ دنیا میں جو غلط کام ہیں ان سب کا معاملہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کو ظاہری طورپر خوب صورت بنا رکھا ہے۔ ہر باطل پرست اپنے نظریہ کو خوش نما الفاظ میں پیش کرتاہے۔ اسی ظاہر فریبی کی وجہ سے لوگ ان چیزوں کی طرف کھنچتے ہیں۔ اگر ان کے اس ظاہری غلاف کو ہٹا دیا جائے تو ہر چیز اتنی مکروہ دکھائی دینے لگے کہ کوئی شخص اس کے قریب جانے کے ليے تیار نہ ہو۔ اس اعتبار سے ہر برائی ایک قسم کا جھوٹ ہے جس میںآدمی مبتلا ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو پہچانے۔ وہ ظاہری پردہ کو پھاڑ کر چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھ سکے۔ جب کسی کو ایک ایسی نصیحت کی جائے جس میں اس کی ذات پر زد پڑتی ہو تو وہ فوراً بپھر اٹھتاہے۔ ایسا شخص خدا کی نظر میں اندھا بہرا ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنی آنکھ سے یہ کام نہ لیا کہ وہ حقیقت کو دیکھے۔ اس نے اپنے کان سے یہ کام نہ لیا کہ وہ سچائی کی آواز کو سنے۔ اس نے نصیحت کا استقبال سننے اور دیکھنے والے آدمی کی حیثیت سے نہیں کیا۔ اس نے نصیحت کا استقبال ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے کیا جو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ خدا کی نظر میں دیکھنے اور سننے والا وہ ہے جو لغو کو دیکھے تو اس سے اعراض کرے اور جب اس کے سامنے سچی نصیحت آئے تو فوراً اس کو قبول کرلے۔ ہر آدمی جو کنبہ والا ہے وہ اپنے کنبہ کا ’’امام‘‘ ہے۔ اگر اس کے کنبہ والے متقی ہیں تو وہ متقیوں کا امام ہے۔ اور اگر اس کے کنبہ والے خدا فراموش ہیں تو وہ خدا فراموشوں کا امام۔

وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا

📘 موجودہ دنیا میں جو غلط کام ہیں ان سب کا معاملہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کو ظاہری طورپر خوب صورت بنا رکھا ہے۔ ہر باطل پرست اپنے نظریہ کو خوش نما الفاظ میں پیش کرتاہے۔ اسی ظاہر فریبی کی وجہ سے لوگ ان چیزوں کی طرف کھنچتے ہیں۔ اگر ان کے اس ظاہری غلاف کو ہٹا دیا جائے تو ہر چیز اتنی مکروہ دکھائی دینے لگے کہ کوئی شخص اس کے قریب جانے کے ليے تیار نہ ہو۔ اس اعتبار سے ہر برائی ایک قسم کا جھوٹ ہے جس میںآدمی مبتلا ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو پہچانے۔ وہ ظاہری پردہ کو پھاڑ کر چیزوں کو ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے دیکھ سکے۔ جب کسی کو ایک ایسی نصیحت کی جائے جس میں اس کی ذات پر زد پڑتی ہو تو وہ فوراً بپھر اٹھتاہے۔ ایسا شخص خدا کی نظر میں اندھا بہرا ہے۔ کیوں کہ اس نے اپنی آنکھ سے یہ کام نہ لیا کہ وہ حقیقت کو دیکھے۔ اس نے اپنے کان سے یہ کام نہ لیا کہ وہ سچائی کی آواز کو سنے۔ اس نے نصیحت کا استقبال سننے اور دیکھنے والے آدمی کی حیثیت سے نہیں کیا۔ اس نے نصیحت کا استقبال ایک ایسے آدمی کی حیثیت سے کیا جو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو۔ خدا کی نظر میں دیکھنے اور سننے والا وہ ہے جو لغو کو دیکھے تو اس سے اعراض کرے اور جب اس کے سامنے سچی نصیحت آئے تو فوراً اس کو قبول کرلے۔ ہر آدمی جو کنبہ والا ہے وہ اپنے کنبہ کا ’’امام‘‘ ہے۔ اگر اس کے کنبہ والے متقی ہیں تو وہ متقیوں کا امام ہے۔ اور اگر اس کے کنبہ والے خدا فراموش ہیں تو وہ خدا فراموشوں کا امام۔

أُولَٰئِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَامًا

📘 جنت کے اونچے بالا خانوں میں وہ لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میںاپنے آپ کو حق کی خاطر نیچا کرلیاتھا۔ انھوں نے دنیا میں تواضع اختیار کی تھی اس ليے آخرت میں ان کا خدا انھیں سرفرازی عطا فرمائے گا۔ یہی وہ بات ہے جس کو حضرت مسیح نے ان لفظوں میں ادا فرمایا مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔ آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے(متی 5:3 )۔ وہ اوصاف جو کسی آدمی کو جنت میں لے جانے والے ہیں ان کو حاصل کرنا اس شخص کے ليے ممکن ہوتاہے جو صبر کرنے کے ليے تیار ہو۔ جنت وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں آدمی کی تمام خواہشیں کامل طورپر پوری ہوں گی۔ مگر جنت اسی صابر انسان کے حصہ میں آئے گی جس نے دنیا میں اپنی خواہشوں پر کامل روک لگائی ہو۔ جنت صبر کی قیمت ہے۔ اور جہنم اس کے ليے ہے جو دنیا کی زندگی میں صبر کی مطلوبہ قیمت دینے کے ليے تیار نہیں ہوا تھا۔

خَالِدِينَ فِيهَا ۚ حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا

📘 جنت کے اونچے بالا خانوں میں وہ لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میںاپنے آپ کو حق کی خاطر نیچا کرلیاتھا۔ انھوں نے دنیا میں تواضع اختیار کی تھی اس ليے آخرت میں ان کا خدا انھیں سرفرازی عطا فرمائے گا۔ یہی وہ بات ہے جس کو حضرت مسیح نے ان لفظوں میں ادا فرمایا مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔ آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے(متی 5:3 )۔ وہ اوصاف جو کسی آدمی کو جنت میں لے جانے والے ہیں ان کو حاصل کرنا اس شخص کے ليے ممکن ہوتاہے جو صبر کرنے کے ليے تیار ہو۔ جنت وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں آدمی کی تمام خواہشیں کامل طورپر پوری ہوں گی۔ مگر جنت اسی صابر انسان کے حصہ میں آئے گی جس نے دنیا میں اپنی خواہشوں پر کامل روک لگائی ہو۔ جنت صبر کی قیمت ہے۔ اور جہنم اس کے ليے ہے جو دنیا کی زندگی میں صبر کی مطلوبہ قیمت دینے کے ليے تیار نہیں ہوا تھا۔

قُلْ مَا يَعْبَأُ بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ ۖ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامًا

📘 جنت کے اونچے بالا خانوں میں وہ لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میںاپنے آپ کو حق کی خاطر نیچا کرلیاتھا۔ انھوں نے دنیا میں تواضع اختیار کی تھی اس ليے آخرت میں ان کا خدا انھیں سرفرازی عطا فرمائے گا۔ یہی وہ بات ہے جس کو حضرت مسیح نے ان لفظوں میں ادا فرمایا مبارک ہیں وہ جو دل کے غریب ہیں۔ آسمان کی بادشاہی میں وہی داخل ہوں گے(متی 5:3 )۔ وہ اوصاف جو کسی آدمی کو جنت میں لے جانے والے ہیں ان کو حاصل کرنا اس شخص کے ليے ممکن ہوتاہے جو صبر کرنے کے ليے تیار ہو۔ جنت وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں آدمی کی تمام خواہشیں کامل طورپر پوری ہوں گی۔ مگر جنت اسی صابر انسان کے حصہ میں آئے گی جس نے دنیا میں اپنی خواہشوں پر کامل روک لگائی ہو۔ جنت صبر کی قیمت ہے۔ اور جہنم اس کے ليے ہے جو دنیا کی زندگی میں صبر کی مطلوبہ قیمت دینے کے ليے تیار نہیں ہوا تھا۔

أَوْ يُلْقَىٰ إِلَيْهِ كَنْزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ الظَّالِمُونَ إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَسْحُورًا

📘 حق کے ہر داعی کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ اس کے زمانہ کے لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا۔ اور بعد کے لوگوں نے اس کی پرستش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں وہ اپنی حقیقی شخصیت کے ساتھ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس ليے وہ انھیں بس ایک عام انسان کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ مگر بعد کو اس کی شخصیت کے گرد افسانوی قصوں کا ہالہ بن جاتا ہے۔ بعد کے لوگ اس کو مبالغہ آمیز روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس ليے بعد کے لوگ مبالغہ آمیز حد تک اس کی تعظیم وتقدیس کرنے لگتے ہیں۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیغمبر کی غیر معمولی عظمت قائم ہوجاتی ہے۔ اس ليے کوئی بڑا اپنے آپ کو پیغمبر سے بڑا نہیں پاتا۔ مگر پیغمبر کی زندگی میں اس کی جو ظاہری صورت حال ہوتی ہے وہ وقت کے بڑوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ پیغمبر کے مقابلہ میں متکبرانہ نفسیات میں مبتلا ہوسکیں۔ ایسے لوگ جب کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ پیغمبر کی باتوں کو سن کر متاثر ہورہے ہیں تو وہ ان کے تاثر کو گھٹانے کے ليے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک مجنون ہے، یہ تو ایک سحر زدہ انسان ہے، وغیرہ۔ وہ دلیل کے میدان میں اپنے آپ کو عاجز پاکر عیب لگانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ حالاں کہ دلیل کے ذریعہ کسی کو ردکرنا عین درست ہے جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست۔

انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثَالَ فَضَلُّوا فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا

📘 حق کے ہر داعی کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ اس کے زمانہ کے لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا۔ اور بعد کے لوگوں نے اس کی پرستش کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی زندگی میں وہ اپنی حقیقی شخصیت کے ساتھ لوگوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس ليے وہ انھیں بس ایک عام انسان کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ مگر بعد کو اس کی شخصیت کے گرد افسانوی قصوں کا ہالہ بن جاتا ہے۔ بعد کے لوگ اس کو مبالغہ آمیز روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس ليے بعد کے لوگ مبالغہ آمیز حد تک اس کی تعظیم وتقدیس کرنے لگتے ہیں۔ بعد کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں میں پیغمبر کی غیر معمولی عظمت قائم ہوجاتی ہے۔ اس ليے کوئی بڑا اپنے آپ کو پیغمبر سے بڑا نہیں پاتا۔ مگر پیغمبر کی زندگی میں اس کی جو ظاہری صورت حال ہوتی ہے وہ وقت کے بڑوں کو موقع دیتی ہے کہ وہ پیغمبر کے مقابلہ میں متکبرانہ نفسیات میں مبتلا ہوسکیں۔ ایسے لوگ جب کچھ لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ پیغمبر کی باتوں کو سن کر متاثر ہورہے ہیں تو وہ ان کے تاثر کو گھٹانے کے ليے کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو ایک مجنون ہے، یہ تو ایک سحر زدہ انسان ہے، وغیرہ۔ وہ دلیل کے میدان میں اپنے آپ کو عاجز پاکر عیب لگانے کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ حالاں کہ دلیل کے ذریعہ کسی کو ردکرنا عین درست ہے جب کہ عیب لگا کر کسی کو بدنام کرنا سراسر نادرست۔