🕋 تفسير سورة الشعراء
(Ash-Shuara) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ طسم
📘 حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔
وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
📘 حضرت موسیٰ کو مصر کے فرعون پر دین توحید کی تبلیغ کرنی تھی جو اپنے زمانہ میںدنیا کی سب سے بڑی اور سب سے متمدن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے فرزند تھے جن کی حیثیت اس وقت کے مصر میں غلاموں اور مزدوروں جیسی تھی۔ قوم فرعون کا ایک شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے بلاارادہ ہلاک ہوگیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر قوت بیان کی کمی محسوس فرماتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے ليے حضرت موسیٰ کا انتخاب فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ خداظاہر سے زیادہ آدمی کے باطن کو دیکھتاہے۔ اور اگر کسی کے اندر باطنی جوہر موجود ہو تو اسی باطنی جوہر کی بنیاد پر اس کو اپنے دین کے لیے منتخب فرما لیتاہے۔ باطنی جو ہر آدمی کو خود پیش کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد اگر باعتبار ظاہر کچھ کمی ہو تو وہ خدا کی طرف سے پوری کردی جاتی ہے۔
فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَلَا صَدِيقٍ حَمِيمٍ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
فَلَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَلَا تَتَّقُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
قَوْمَ فِرْعَوْنَ ۚ أَلَا يَتَّقُونَ
📘 حضرت موسیٰ کو مصر کے فرعون پر دین توحید کی تبلیغ کرنی تھی جو اپنے زمانہ میںدنیا کی سب سے بڑی اور سب سے متمدن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے فرزند تھے جن کی حیثیت اس وقت کے مصر میں غلاموں اور مزدوروں جیسی تھی۔ قوم فرعون کا ایک شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے بلاارادہ ہلاک ہوگیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر قوت بیان کی کمی محسوس فرماتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے ليے حضرت موسیٰ کا انتخاب فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ خداظاہر سے زیادہ آدمی کے باطن کو دیکھتاہے۔ اور اگر کسی کے اندر باطنی جوہر موجود ہو تو اسی باطنی جوہر کی بنیاد پر اس کو اپنے دین کے لیے منتخب فرما لیتاہے۔ باطنی جو ہر آدمی کو خود پیش کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد اگر باعتبار ظاہر کچھ کمی ہو تو وہ خدا کی طرف سے پوری کردی جاتی ہے۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
۞ قَالُوا أَنُؤْمِنُ لَكَ وَاتَّبَعَكَ الْأَرْذَلُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
قَالَ وَمَا عِلْمِي بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
إِنْ حِسَابُهُمْ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّي ۖ لَوْ تَشْعُرُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الْمُؤْمِنِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
قَالَ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِي وَمَنْ مَعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
فَأَنْجَيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
قَالَ رَبِّ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُكَذِّبُونِ
📘 حضرت موسیٰ کو مصر کے فرعون پر دین توحید کی تبلیغ کرنی تھی جو اپنے زمانہ میںدنیا کی سب سے بڑی اور سب سے متمدن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے فرزند تھے جن کی حیثیت اس وقت کے مصر میں غلاموں اور مزدوروں جیسی تھی۔ قوم فرعون کا ایک شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے بلاارادہ ہلاک ہوگیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر قوت بیان کی کمی محسوس فرماتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے ليے حضرت موسیٰ کا انتخاب فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ خداظاہر سے زیادہ آدمی کے باطن کو دیکھتاہے۔ اور اگر کسی کے اندر باطنی جوہر موجود ہو تو اسی باطنی جوہر کی بنیاد پر اس کو اپنے دین کے لیے منتخب فرما لیتاہے۔ باطنی جو ہر آدمی کو خود پیش کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد اگر باعتبار ظاہر کچھ کمی ہو تو وہ خدا کی طرف سے پوری کردی جاتی ہے۔
ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَاقِينَ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 حضرت نوح صدیوں تک اپنی قوم کے لوگوں کو حق کی طرف بلاتے رہے۔ مگر انھوںنے آپ کی بات نہ مانی۔ حتی کہ آخر کار انھوں نے فیصلہ کیا کہ سب لوگ مل کر نوح کو پتھر ماریں، یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوجائیں اور پھر صبح وشام ان کی بات سننے سے نجات مل جائے۔ جب قوم اس حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوا کہ اب اس قوم کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی فیصلہ ہے جو حضرت نوح کی دعا کی شکل میں ظاہر ہوا۔
اللہ کے حکم سے حضرت نوح نے ایک بڑی کشتی بنائی، اس میں حضرت نوح کے تمام ساتھی اور ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا رکھ لیا گیا۔ اس کےبعد اللہ نے شدید طوفان بھیجا۔ زمین سےپانی ابلنے لگا اور اوپر سے مسلسل بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ کشتی کے سوا ساری زندہ مخلوق فنا ہوگئی۔ یہ ایک تاریخی مثال ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نجات سچے اہل ایمان کے ليے ہے اور باقی لوگوں کے ليے یہاں ہلاکت کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
كَذَّبَتْ عَادٌ الْمُرْسَلِينَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
أَتَبْنُونَ بِكُلِّ رِيعٍ آيَةً تَعْبَثُونَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
وَتَتَّخِذُونَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إِلَىٰ هَارُونَ
📘 حضرت موسیٰ کو مصر کے فرعون پر دین توحید کی تبلیغ کرنی تھی جو اپنے زمانہ میںدنیا کی سب سے بڑی اور سب سے متمدن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے فرزند تھے جن کی حیثیت اس وقت کے مصر میں غلاموں اور مزدوروں جیسی تھی۔ قوم فرعون کا ایک شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے بلاارادہ ہلاک ہوگیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر قوت بیان کی کمی محسوس فرماتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے ليے حضرت موسیٰ کا انتخاب فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ خداظاہر سے زیادہ آدمی کے باطن کو دیکھتاہے۔ اور اگر کسی کے اندر باطنی جوہر موجود ہو تو اسی باطنی جوہر کی بنیاد پر اس کو اپنے دین کے لیے منتخب فرما لیتاہے۔ باطنی جو ہر آدمی کو خود پیش کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد اگر باعتبار ظاہر کچھ کمی ہو تو وہ خدا کی طرف سے پوری کردی جاتی ہے۔
وَإِذَا بَطَشْتُمْ بَطَشْتُمْ جَبَّارِينَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
وَاتَّقُوا الَّذِي أَمَدَّكُمْ بِمَا تَعْلَمُونَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
أَمَدَّكُمْ بِأَنْعَامٍ وَبَنِينَ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
وَجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
📘 عاد وہ قوم ہے جس کو قوم نوح کی تباہی کے بعد دنیا میں عروج ملا (الاعراف،
7:69
)۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے صحت، فارغ البالی اور اقتدار ہر چیز عطا فرمائی۔ ان چیزوں پر اگر وہ شکر کرتے تو ان کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا۔ مگر انھوں نے اس پر فخر کیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے ليے اپنے وسائل کا سب سے زیادہ پسندیدہ مصرف یہ بن گیا کہ وہ اپنے معیارِ زندگی کو بڑھائیں۔ وہ اپنے نام کو اونچا کریں۔ وہ اپنی عظمت کے سنگی نشانات قائم کرنے کو سب سے بڑا کام سمجھنے لگیں۔
ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتاہے کہ جب انھیں کسی سے اختلاف یا شکایت ہوجائے تو ان کی متکبرانہ نفسیات انھیں کسی حد پر رکنے نہیں دیتی۔ وہ اس کے خلاف ہر بے انصافی کو اپنے ليے جائز کرلیتے ہیں۔ وہ اس کو اپنی پوری طاقت سے پیس ڈالنا چاہتے ہیں۔ دنیا کی درستگی انھیں آخرت کی پکڑ سے بے خوف کردیتی ہے اور جو شخص اپنے آپ کو آخرت کی پکڑ سے محفوظ سمجھ لے، دوسرے لوگ اس کی پکڑ سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
جن لوگوں کو خوش حالی اور برتری حاصل ہوجائے ان کے اندر اپنے بارے میں جھوٹا اعتماد پیداہوجاتا ہے۔ یہ جھوٹا اعتماد ان کے ليے اپنے سے باہر کی صداقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتا ہے۔ وہ ناصح کی بات کو اہمیت نہیں دیتے، خواہ وہ کتنا ہی قابل اعتبار کیوں نہ ہو، خواہ وہ خدا کا رسول ہی کیوں نہ ہو۔ ایسے لوگ اسی وقت مانتے ہیں جب کہ خدا کا عذاب انھیں ماننے پر مجبور کردے۔
قَالُوا سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَوَعَظْتَ أَمْ لَمْ تَكُنْ مِنَ الْوَاعِظِينَ
📘 قوم عاد کا جھوٹا اعتماد اس کے ليے پیغمبر کی بات کو ماننے میں رکاوٹ بن گیا ۔ حتی کہ وہ اس کے پیغام کا مذاق اڑاتی رہی۔ وہ دنیا میں اپنی خوش حالی کو اس بات کی علامت سمجھتی رہی کہ وہ خدا کی انعام یافتہ ہے وہ لوگ اس راز کو نہ سمجھ سکے کہ دنیا کا اثاثہ آدمی کو بطور امتحان ملتاہے، نہ کہ بطور استحقاق۔
جب آخری طور پر ثابت ہوگیا کہ وہ حق کو ماننے والے نہیں ہیں تو خدا نے طوفانی ہوا اور شدید بارش بھیجی جو ایک ہفتہ تک مسلسل اپني تمام خوفناکیوں کے ساتھ رات دن جاری رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم اپنے شان دار تمدن سمیت برباد ہو کر رہ گئی۔ اس قوم کا نشان اب صرف وہ ریگستان ہے جو موجودہ عمان اور یمن کے درمیان دور تک پھیلا ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا۔ مگر اب وہاں کسی قسم کی زندگی نہیں پائی جاتی۔
إِنْ هَٰذَا إِلَّا خُلُقُ الْأَوَّلِينَ
📘 قوم عاد کا جھوٹا اعتماد اس کے ليے پیغمبر کی بات کو ماننے میں رکاوٹ بن گیا ۔ حتی کہ وہ اس کے پیغام کا مذاق اڑاتی رہی۔ وہ دنیا میں اپنی خوش حالی کو اس بات کی علامت سمجھتی رہی کہ وہ خدا کی انعام یافتہ ہے وہ لوگ اس راز کو نہ سمجھ سکے کہ دنیا کا اثاثہ آدمی کو بطور امتحان ملتاہے، نہ کہ بطور استحقاق۔
جب آخری طور پر ثابت ہوگیا کہ وہ حق کو ماننے والے نہیں ہیں تو خدا نے طوفانی ہوا اور شدید بارش بھیجی جو ایک ہفتہ تک مسلسل اپني تمام خوفناکیوں کے ساتھ رات دن جاری رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم اپنے شان دار تمدن سمیت برباد ہو کر رہ گئی۔ اس قوم کا نشان اب صرف وہ ریگستان ہے جو موجودہ عمان اور یمن کے درمیان دور تک پھیلا ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا۔ مگر اب وہاں کسی قسم کی زندگی نہیں پائی جاتی۔
وَمَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِينَ
📘 قوم عاد کا جھوٹا اعتماد اس کے ليے پیغمبر کی بات کو ماننے میں رکاوٹ بن گیا ۔ حتی کہ وہ اس کے پیغام کا مذاق اڑاتی رہی۔ وہ دنیا میں اپنی خوش حالی کو اس بات کی علامت سمجھتی رہی کہ وہ خدا کی انعام یافتہ ہے وہ لوگ اس راز کو نہ سمجھ سکے کہ دنیا کا اثاثہ آدمی کو بطور امتحان ملتاہے، نہ کہ بطور استحقاق۔
جب آخری طور پر ثابت ہوگیا کہ وہ حق کو ماننے والے نہیں ہیں تو خدا نے طوفانی ہوا اور شدید بارش بھیجی جو ایک ہفتہ تک مسلسل اپني تمام خوفناکیوں کے ساتھ رات دن جاری رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم اپنے شان دار تمدن سمیت برباد ہو کر رہ گئی۔ اس قوم کا نشان اب صرف وہ ریگستان ہے جو موجودہ عمان اور یمن کے درمیان دور تک پھیلا ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا۔ مگر اب وہاں کسی قسم کی زندگی نہیں پائی جاتی۔
فَكَذَّبُوهُ فَأَهْلَكْنَاهُمْ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 قوم عاد کا جھوٹا اعتماد اس کے ليے پیغمبر کی بات کو ماننے میں رکاوٹ بن گیا ۔ حتی کہ وہ اس کے پیغام کا مذاق اڑاتی رہی۔ وہ دنیا میں اپنی خوش حالی کو اس بات کی علامت سمجھتی رہی کہ وہ خدا کی انعام یافتہ ہے وہ لوگ اس راز کو نہ سمجھ سکے کہ دنیا کا اثاثہ آدمی کو بطور امتحان ملتاہے، نہ کہ بطور استحقاق۔
جب آخری طور پر ثابت ہوگیا کہ وہ حق کو ماننے والے نہیں ہیں تو خدا نے طوفانی ہوا اور شدید بارش بھیجی جو ایک ہفتہ تک مسلسل اپني تمام خوفناکیوں کے ساتھ رات دن جاری رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم اپنے شان دار تمدن سمیت برباد ہو کر رہ گئی۔ اس قوم کا نشان اب صرف وہ ریگستان ہے جو موجودہ عمان اور یمن کے درمیان دور تک پھیلا ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا۔ مگر اب وہاں کسی قسم کی زندگی نہیں پائی جاتی۔
وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ أَنْ يَقْتُلُونِ
📘 حضرت موسیٰ کو مصر کے فرعون پر دین توحید کی تبلیغ کرنی تھی جو اپنے زمانہ میںدنیا کی سب سے بڑی اور سب سے متمدن سلطنت کا بادشاہ تھا۔ دوسری طرف حضرت موسیٰ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ بنی اسرائیل کے فرزند تھے جن کی حیثیت اس وقت کے مصر میں غلاموں اور مزدوروں جیسی تھی۔ قوم فرعون کا ایک شخص حضرت موسیٰ کے ہاتھ سے بلاارادہ ہلاک ہوگیا تھا۔ مزید یہ کہ حضرت موسیٰ اپنے اندر قوت بیان کی کمی محسوس فرماتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے ليے حضرت موسیٰ کا انتخاب فرمایا۔
حقیقت یہ ہے کہ خداظاہر سے زیادہ آدمی کے باطن کو دیکھتاہے۔ اور اگر کسی کے اندر باطنی جوہر موجود ہو تو اسی باطنی جوہر کی بنیاد پر اس کو اپنے دین کے لیے منتخب فرما لیتاہے۔ باطنی جو ہر آدمی کو خود پیش کرنا پڑتاہے۔ اس کے بعد اگر باعتبار ظاہر کچھ کمی ہو تو وہ خدا کی طرف سے پوری کردی جاتی ہے۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 قوم عاد کا جھوٹا اعتماد اس کے ليے پیغمبر کی بات کو ماننے میں رکاوٹ بن گیا ۔ حتی کہ وہ اس کے پیغام کا مذاق اڑاتی رہی۔ وہ دنیا میں اپنی خوش حالی کو اس بات کی علامت سمجھتی رہی کہ وہ خدا کی انعام یافتہ ہے وہ لوگ اس راز کو نہ سمجھ سکے کہ دنیا کا اثاثہ آدمی کو بطور امتحان ملتاہے، نہ کہ بطور استحقاق۔
جب آخری طور پر ثابت ہوگیا کہ وہ حق کو ماننے والے نہیں ہیں تو خدا نے طوفانی ہوا اور شدید بارش بھیجی جو ایک ہفتہ تک مسلسل اپني تمام خوفناکیوں کے ساتھ رات دن جاری رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پوری قوم اپنے شان دار تمدن سمیت برباد ہو کر رہ گئی۔ اس قوم کا نشان اب صرف وہ ریگستان ہے جو موجودہ عمان اور یمن کے درمیان دور تک پھیلا ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ علاقہ نہایت شاداب اور آباد تھا۔ مگر اب وہاں کسی قسم کی زندگی نہیں پائی جاتی۔
كَذَّبَتْ ثَمُودُ الْمُرْسَلِينَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صَالِحٌ أَلَا تَتَّقُونَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
أَتُتْرَكُونَ فِي مَا هَاهُنَا آمِنِينَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
وَزُرُوعٍ وَنَخْلٍ طَلْعُهَا هَضِيمٌ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا فَارِهِينَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
قَالَ كَلَّا ۖ فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا ۖ إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ
📘 خدا جس شخص کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرے وہ ہر اعتبار سے خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے اسی کے ساتھ اس کے لیے مزید اہتمام یہ کیا جاتاہے کہ اس کو خصوصی نشانیاں دی جاتی ہیں جو اس بات کی صریح علامت ہوتی ہیں کہ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ اس کے باوجودوہ اعتراف نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں فرعون سے جو مطالبہ کیا اس کا تفصیلی مطلب کیا تھا، اس کے بارے میں قرآن میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ تورات کا بیان اس سلسلہ میں حسب ذیل ہے
(موسیٰ نے فرعون سے کہا) اب تو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے قربانی کریں (خروج،
3:18
)۔میرےلوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے ليے عید کریں (خروج،
5:1
)۔ تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ تم جاؤ اور اپنے خدا کے ليے اسی ملک میں قربانی کرو۔ موسیٰ نے کہاایسا کرنا مناسب نہیں ۔کیوں کہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے اس چیز کی قربانی کریںگے، جس سے مصری نفرت رکھتے ہیں۔ سو اگر ہم مصریوں کی آنکھوں کے آگے اس چیز کی قربانی کریں جس سے وہ نفرت رکھتے ہیں تو کیا وہ ہم کو سنگسار نہ کرڈالیںگے۔ پس ہم تین دن کی راہ بیابان میں جاکر خداوند اپنے خدا کے ليے جیسا وہ ہم کو حکم دے گا قربانی کریں گے۔(خروج،
8:25-27
)
بائبل کے بیان سے بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر ہجرت کے ليے نہیں بلکہ تربیت کے ليے تھا۔ مصر میں گائے مقدس مانی جاتی تھی۔ صدیوں کے عمل سے بنی اسرائیل بھی اس سے متاثر ہوگئے تھے۔ اب حضرت موسیٰ نے چاہا کہ بنی اسرائیل کو کچھ دنوں کے ليے مصر کے مشرکانہ ماحول سے باہر لے جائیں اور ان کو آزاد فضا میں رکھ کر ان کی تربیت کریں۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
وَلَا تُطِيعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِينَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ
📘 عاد کے بعد دوسری قوم جس کو عروج ملا وہ ثمود کی قوم تھی (الاعراف،
7:74
)۔اس قوم کی آبادیاں خیبر اور تبوک کے درمیان اس علاقہ میں تھیں جس کو الحجر کہاجاتا ہے۔ اس قوم کو بھی زبردست خوش حالی اور غلبہ حاصل ہوا۔مگر اس کے افراد کی بھی ساری توجہ دوبارہ صرف مادی ترقی کی طرف لگ گئی۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بڑے بڑے مکان بنانے کا فن غالباً اسی قوم نے شروع کیا۔ جس کی زیادہ ترقی یافتہ صورت اجنتا اور ایلورا کے غاروں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔
ہر شخص اور ہر گروہ جس کو دنیا کا سازوسامان ملتا ہے وہ اس غلط فہمی میں پڑ جاتا ہے کہ یہ سب اس کا حق ہے اور وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ مگر یہ سب سے بڑی بھول ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا اسباب صرف امتحان کی مدت تک کے ليے ہے۔ اس کے بعد وہ اس طرح چھین لیا جائے گا کہ آدمی کے پاس ان میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے گا۔
حد سے گزرنے والا (مسرف) وہ شخص ہے جس کے پاس دولت آئے تو وہ شکر کے بجائے فخر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔ وہ اقتدار پائے تو تواضع کے بجائے گھمنڈ کرنے لگے۔ اس کو عہدہ دیا جائے تو وہ اس کو خدمت کے بجائے اپنانام بلند کرنے کے ليے استعمال کرے۔ مواقع کے یہی غلط استعمالات ہیں جو معاشرہ میں بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔ قوم ثمود کے بڑے لوگ اسی قسم کے اسراف میں مبتلا تھے۔ اور ان کے عوام ان کی پیروی کررہے تھے ۔ پیغمبر نے انھیں متنبہ کیا کہ یہ لوگ جن کو تم بڑا سمجھتے ہو وہ تو خود بے راہ ہیں پھر وہ تم کو کیسے راستہ دکھائیں گے۔
قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
قَالَ هَٰذِهِ نَاقَةٌ لَهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَظِيمٍ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
فَعَقَرُوهَا فَأَصْبَحُوا نَادِمِينَ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 پیغمبر جس قوم میں اٹھتاہے وہ کوئی لامذہب قوم نہیں ہوتی۔ وہ پورے معنوں میں ایک مذہبی قوم ہوتی ہے۔ مگر یہ مذہب اس کے بزرگوں کا مذہب ہوتاہے اور پیغمبر خدا کا مذہب پیش کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے بزرگوں کے طریقے کو مقدس سمجھ کر اس پر قائم ہوں وہ کبھی کسی دوسرے طریقے کی اہمیت نہیں سمجھ پاتے، خواہ وہ ان کے پیغمبر کی زبان سے کیوں نہ پیش کیا جائے۔ بزرگوں کے طریقے سے انحراف قوم کی نظر میں اتنا سخت تھا کہ اس نے حضرت صالح کو دیوانہ قرار دے دیا۔ یہ کشمکش لمبی مدت تک جاری رہی۔ آخر انھوں نے مطالبہ کیا کہ کوئی معجزہ دکھاؤ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک معجزہ ظاہر ہوا۔ جو بیک وقت معجزہ بھی تھا اور قوم کے حق میں خدا کی عدالت بھی۔ یہ ایک اونٹنی تھی جو خرق عادت کے طورپر ظہور میں آئی۔ حضرت صالح نے کہا کہ یہ خدا کی اونٹنی ہے۔ یہ تمھارے کھیتوں اور باغوں میں آزادانہ طورپر گھومے گی اور پانی کا گھاٹ ایک دن صرف اس کے ليے خاص ہوگا۔ قوم نے کچھ دن تک اس اونٹنی کو برداشت کیا اس کے بعد اس کے ایک سرکش آدمی نے اس کو مار ڈالا۔ اس کے صرف تین دن کے بعد پوری قوم شدید زلزلہ سے ہلاک کردی گئی۔
اونٹنی کو ہلاک کرنے کا جرم قوم کے ایک شخص نے کیا تھا مگر جمع کے صیغہ میں فرمایا کہ انھوںنے اس کو ہلاک کرڈالا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہلاک کرنے کے وقت نہ تو قوم کے لوگوں نے اسے روکا اور نہ بعد کو اپنے اس آدمی کو بُرا کہا۔ سارے لوگ اس کی حمایت میں حضرت صالح کے خلاف بولتے رہے۔ ہلاک کرنے والے نے اگر اپنے ہاتھ سے جرم کیا تھا تو بقیہ لوگ دل اور زبان سے اس کے ساتھ شریکِ جرم تھے۔ اس ليے خدا کی نظر میں سب کے سب مجرم قرار پائے۔
فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 خدا جس شخص کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرے وہ ہر اعتبار سے خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے اسی کے ساتھ اس کے لیے مزید اہتمام یہ کیا جاتاہے کہ اس کو خصوصی نشانیاں دی جاتی ہیں جو اس بات کی صریح علامت ہوتی ہیں کہ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ اس کے باوجودوہ اعتراف نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں فرعون سے جو مطالبہ کیا اس کا تفصیلی مطلب کیا تھا، اس کے بارے میں قرآن میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ تورات کا بیان اس سلسلہ میں حسب ذیل ہے
(موسیٰ نے فرعون سے کہا) اب تو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے قربانی کریں (خروج،
3:18
)۔میرےلوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے ليے عید کریں (خروج،
5:1
)۔ تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ تم جاؤ اور اپنے خدا کے ليے اسی ملک میں قربانی کرو۔ موسیٰ نے کہاایسا کرنا مناسب نہیں ۔کیوں کہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے اس چیز کی قربانی کریںگے، جس سے مصری نفرت رکھتے ہیں۔ سو اگر ہم مصریوں کی آنکھوں کے آگے اس چیز کی قربانی کریں جس سے وہ نفرت رکھتے ہیں تو کیا وہ ہم کو سنگسار نہ کرڈالیںگے۔ پس ہم تین دن کی راہ بیابان میں جاکر خداوند اپنے خدا کے ليے جیسا وہ ہم کو حکم دے گا قربانی کریں گے۔(خروج،
8:25-27
)
بائبل کے بیان سے بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر ہجرت کے ليے نہیں بلکہ تربیت کے ليے تھا۔ مصر میں گائے مقدس مانی جاتی تھی۔ صدیوں کے عمل سے بنی اسرائیل بھی اس سے متاثر ہوگئے تھے۔ اب حضرت موسیٰ نے چاہا کہ بنی اسرائیل کو کچھ دنوں کے ليے مصر کے مشرکانہ ماحول سے باہر لے جائیں اور ان کو آزاد فضا میں رکھ کر ان کی تربیت کریں۔
كَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِينَ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَلَا تَتَّقُونَ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
أَتَأْتُونَ الذُّكْرَانَ مِنَ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَكُمْ رَبُّكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ ۚ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ عَادُونَ
📘 حضرت لو ط جس قوم میں آئے وہ شہوت پرستی میں حد کو پار کر گئی تھی۔ ان کے ليے ان کی بیویاں کافی نہ تھیں ۔ وہ نوجوان لڑکوں سے مباشرت کا فعل کرنے لگے تھے۔ حضرت لوط نے انھیں خدا پرستی اور تقویٰ کی تعلیم دی اور برے افعال سے انھیں منع کیا۔
حضرت لوط ان کے درمیان ایک ایسے داعی کی حیثیت سے اٹھے جس کی شخصیت جھوٹ اور فضول گوئی سے صد فی صد پاک تھی۔ قوم سے مادی مفاد کا جھگڑا چھیڑنے سے بھی انھوںنے مکمل پرہیز کیا۔ یہ واقعات یہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھے کہ حضرت لوط جو کچھ کہہ رہے ہیں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہہ رہے ہیں۔ مگر چوں کہ آپ کی بات قوم کی روش کے خلاف تھی وہ آپ کي دشمن ہوگئي۔ حضرت لوط کی بات کو وزن دینے کے ليے ضروری تھا کہ لوگوں کے اندر خداکا خوف ہو۔ مگر یہی وہ چیز تھی جس سے ان کی قوم کے لوگ پوری طرح خالی ہوچکے تھے۔ پھر وہ پیغمبر کی بات پر دھیان دیتے تو کس طرح دیتے۔
قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا لُوطُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
قَالَ إِنِّي لِعَمَلِكُمْ مِنَ الْقَالِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
أَنْ أَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ
📘 خدا جس شخص کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرے وہ ہر اعتبار سے خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے اسی کے ساتھ اس کے لیے مزید اہتمام یہ کیا جاتاہے کہ اس کو خصوصی نشانیاں دی جاتی ہیں جو اس بات کی صریح علامت ہوتی ہیں کہ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ اس کے باوجودوہ اعتراف نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں فرعون سے جو مطالبہ کیا اس کا تفصیلی مطلب کیا تھا، اس کے بارے میں قرآن میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ تورات کا بیان اس سلسلہ میں حسب ذیل ہے
(موسیٰ نے فرعون سے کہا) اب تو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے قربانی کریں (خروج،
3:18
)۔میرےلوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے ليے عید کریں (خروج،
5:1
)۔ تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ تم جاؤ اور اپنے خدا کے ليے اسی ملک میں قربانی کرو۔ موسیٰ نے کہاایسا کرنا مناسب نہیں ۔کیوں کہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے اس چیز کی قربانی کریںگے، جس سے مصری نفرت رکھتے ہیں۔ سو اگر ہم مصریوں کی آنکھوں کے آگے اس چیز کی قربانی کریں جس سے وہ نفرت رکھتے ہیں تو کیا وہ ہم کو سنگسار نہ کرڈالیںگے۔ پس ہم تین دن کی راہ بیابان میں جاکر خداوند اپنے خدا کے ليے جیسا وہ ہم کو حکم دے گا قربانی کریں گے۔(خروج،
8:25-27
)
بائبل کے بیان سے بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر ہجرت کے ليے نہیں بلکہ تربیت کے ليے تھا۔ مصر میں گائے مقدس مانی جاتی تھی۔ صدیوں کے عمل سے بنی اسرائیل بھی اس سے متاثر ہوگئے تھے۔ اب حضرت موسیٰ نے چاہا کہ بنی اسرائیل کو کچھ دنوں کے ليے مصر کے مشرکانہ ماحول سے باہر لے جائیں اور ان کو آزاد فضا میں رکھ کر ان کی تربیت کریں۔
فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ أَجْمَعِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
إِلَّا عَجُوزًا فِي الْغَابِرِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
ثُمَّ دَمَّرْنَا الْآخَرِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَرًا ۖ فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 بحیرۂ مردار (Dead Sea)کے جنوب اور مشرق کا علاقہ آج ویران حالت میں نظر آتا ہے۔ مگر 1900-2300 ق م کے زمانہ میں وہ نہایت سرسبز علاقہ تھا۔ قوم لوط اسی علاقہ میں آباد تھی۔ حضرت لوط کی مسلسل تبلیغ کے باوجود انھوں نے اپنی اصلاح نہیں کی حتی کہ وہ آپ کو قتل کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت انھیں زبردست زلزلہ کے ذریعہ ہلاک کردیا گیا۔ اس برباد شدہ علاقہ کا ایک حصہ بحر مردار کے نیچے دفن ہے اور ایک حصہ کھنڈر بناہواپڑا ہے۔ یہ واقعہ اب سے چار ہزار سال پہلے پیش آیا۔
حضرت لوط کی بیوی اپنے آپ کو قومی روایات سے اوپر نہ اٹھا سکی۔ وہ پیغمبر کی بیوی ہونے کے باوجود اپنے قومی مذہب کی وفادار بنی رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب خدا کا عذاب آیا تو وہ بھی عام منکرین کے ساتھ ہلاک کردی گئی۔
كَذَّبَ أَصْحَابُ الْأَيْكَةِ الْمُرْسَلِينَ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
إِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَلَا تَتَّقُونَ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ
📘 خدا جس شخص کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرے وہ ہر اعتبار سے خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے اسی کے ساتھ اس کے لیے مزید اہتمام یہ کیا جاتاہے کہ اس کو خصوصی نشانیاں دی جاتی ہیں جو اس بات کی صریح علامت ہوتی ہیں کہ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ اس کے باوجودوہ اعتراف نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں فرعون سے جو مطالبہ کیا اس کا تفصیلی مطلب کیا تھا، اس کے بارے میں قرآن میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ تورات کا بیان اس سلسلہ میں حسب ذیل ہے
(موسیٰ نے فرعون سے کہا) اب تو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے قربانی کریں (خروج،
3:18
)۔میرےلوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے ليے عید کریں (خروج،
5:1
)۔ تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ تم جاؤ اور اپنے خدا کے ليے اسی ملک میں قربانی کرو۔ موسیٰ نے کہاایسا کرنا مناسب نہیں ۔کیوں کہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے اس چیز کی قربانی کریںگے، جس سے مصری نفرت رکھتے ہیں۔ سو اگر ہم مصریوں کی آنکھوں کے آگے اس چیز کی قربانی کریں جس سے وہ نفرت رکھتے ہیں تو کیا وہ ہم کو سنگسار نہ کرڈالیںگے۔ پس ہم تین دن کی راہ بیابان میں جاکر خداوند اپنے خدا کے ليے جیسا وہ ہم کو حکم دے گا قربانی کریں گے۔(خروج،
8:25-27
)
بائبل کے بیان سے بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر ہجرت کے ليے نہیں بلکہ تربیت کے ليے تھا۔ مصر میں گائے مقدس مانی جاتی تھی۔ صدیوں کے عمل سے بنی اسرائیل بھی اس سے متاثر ہوگئے تھے۔ اب حضرت موسیٰ نے چاہا کہ بنی اسرائیل کو کچھ دنوں کے ليے مصر کے مشرکانہ ماحول سے باہر لے جائیں اور ان کو آزاد فضا میں رکھ کر ان کی تربیت کریں۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
۞ أَوْفُوا الْكَيْلَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُخْسِرِينَ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
وَزِنُوا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِيمِ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
وَاتَّقُوا الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالْجِبِلَّةَ الْأَوَّلِينَ
📘 ’’ایکہ‘‘ کے لفظی معنی جنگل کے ہیں۔یہ تبوک کا پرانا نام ہے۔ قوم شعیب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھی۔ وہ جس علاقہ میں آباد ہوئی، اس کا مرکزی شہر تبوک تھا۔ اسی ليے قرآن میں اس کو اصحاب ایکہ کہا گیا ہے۔
تمام اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی جڑ ’’میزان‘‘ میں فرق کرناہے۔ صحیح میزان (ترازو) یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو وہ دے جو از روئے حق انھیں دیناچاہيے۔ اور اپنے ليے وہ لے جو از روئے حق اسے لینا چاہيے۔ یہی خدائی میزان ہے۔ جب اس میزان میں فرق کیا جاتا ہے تو اسی وقت اجتماعی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔ تاہم اس میزان پر قائم ہونے کا راز اللہ کا خوف ہے۔ اگر اللہ کا ڈر دل سے نکل جائے تو کوئی چیزآدمی کو میزان پر قائم نہیں رکھ سکتی۔
خداکی طرف سے جتنے رسول آئے سب نے اپنی مخاطب قوموں سے کہا کہ إِنِّي لَكُمْ رَسُولٌ أَمِينٌ(میں تمھارے ليے ایک معتبر رسول ہوں)۔ اس سے اندازه ہوتاہے کہ داعی کے اندر اعتباریت (credibility)کی صفت لازمی طورپر موجود ہونا چاہيے۔ اسی اعتباریت کا ایک پہلو یہ ہے کہ داعی اپنی مدعو قوم سے معاشی اور مادی جھگڑا نہ چھیڑے تاکہ اس کی بے غرض مقصدیت مشتبہ نہ ہو۔ یہ اعتباریت اتنی اہم ہے کہ اس کو ہر حال میں حاصل کرنا ضروری ہے۔ خواہ اس کی خاطر داعی کو اپنے مادی حقوق سے یک طرفہ طورپر دست بردار ہونا پڑے۔
قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِينَ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
وَمَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَإِنْ نَظُنُّكَ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
فَأَسْقِطْ عَلَيْنَا كِسَفًا مِنَ السَّمَاءِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
قَالَ رَبِّي أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمْ عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ
📘 خدا جس شخص کو اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرے وہ ہر اعتبار سے خدا کی حفاظت میں ہوتا ہے اسی کے ساتھ اس کے لیے مزید اہتمام یہ کیا جاتاہے کہ اس کو خصوصی نشانیاں دی جاتی ہیں جو اس بات کی صریح علامت ہوتی ہیں کہ اس کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مگر انسان اتنا ظالم ہے کہ اس کے باوجودوہ اعتراف نہیں کرتا۔
حضرت موسیٰ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں فرعون سے جو مطالبہ کیا اس کا تفصیلی مطلب کیا تھا، اس کے بارے میں قرآن میں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے۔ تورات کا بیان اس سلسلہ میں حسب ذیل ہے
(موسیٰ نے فرعون سے کہا) اب تو ہم کو تین دن کی منزل تک بیابان میں جانے دے تاکہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے قربانی کریں (خروج،
3:18
)۔میرےلوگوں کو جانے دے تاکہ وہ بیابان میں میرے ليے عید کریں (خروج،
5:1
)۔ تب فرعون نے موسیٰ اور ہارون کو بلوا کر کہا کہ تم جاؤ اور اپنے خدا کے ليے اسی ملک میں قربانی کرو۔ موسیٰ نے کہاایسا کرنا مناسب نہیں ۔کیوں کہ ہم خداوند اپنے خدا کے ليے اس چیز کی قربانی کریںگے، جس سے مصری نفرت رکھتے ہیں۔ سو اگر ہم مصریوں کی آنکھوں کے آگے اس چیز کی قربانی کریں جس سے وہ نفرت رکھتے ہیں تو کیا وہ ہم کو سنگسار نہ کرڈالیںگے۔ پس ہم تین دن کی راہ بیابان میں جاکر خداوند اپنے خدا کے ليے جیسا وہ ہم کو حکم دے گا قربانی کریں گے۔(خروج،
8:25-27
)
بائبل کے بیان سے بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر ہجرت کے ليے نہیں بلکہ تربیت کے ليے تھا۔ مصر میں گائے مقدس مانی جاتی تھی۔ صدیوں کے عمل سے بنی اسرائیل بھی اس سے متاثر ہوگئے تھے۔ اب حضرت موسیٰ نے چاہا کہ بنی اسرائیل کو کچھ دنوں کے ليے مصر کے مشرکانہ ماحول سے باہر لے جائیں اور ان کو آزاد فضا میں رکھ کر ان کی تربیت کریں۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 حضرت شعیب کی قوم کو اپنے آبائی طریقہ کی صداقت پر اس قدر یقین تھا کہ پیغمبر کی بات اس کو الٹی اور بے جوڑ معلوم ہوئی۔ اس نے کہا کہ تم پر شاید کسی نے سخت جادوئي عمل کردیا ہے۔ اس ليے تم ایسی باتیں کررہے ہو۔
ان کا یہ کہنا کہ ہمارے اوپر آسمانی عذاب لاؤ، اس کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ حضرت شعیب کی طرف تھا۔ وہ حضرت شعیب کو بے حقیقت ثابت کرنے کے ليے ایسا کہتے تھے۔ کیوں کہ وہ حضرت شعیب کو ایسا نہیں سمجھتے تھے کہ ان کے کہنے سے آسمانی عذاب آجائے گا۔
آخر کار قوم کی سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سائبان کی طرح ایک بادل نے ان کے اوپر سایہ کرلیا۔ پھر خداکے حکم سے اس کے اندر سے ایسی آگ برسی جس نے پوری قوم کو مٹا کر رکھ دیا۔
وَإِنَّهُ لَتَنْزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 قرآن اگرچہ بظاہر ایک انسانی زبان میں ہے۔ مگر اس کی ادبی عظمت اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ خود اپنی زبان کے اعتبار سے ایک برتر خدائی کلام ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ قرآن کی صداقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے بہت پہلے پیدا ہونے والے پیغمبروں نے اس کی پیشین گوئی کی۔ یہ پیشین گوئی آج بھی تورات اور زبور اور انجیل میںموجود ہے۔ انھیں پیشین گوئیوں کی بنا پر اس زمانہ کے متعدد مسیحی اور یہودی علماء (مثلاً عبد اللہ بن سلّام) اس پر ایمان لائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
خداکے کلام کا اس طرح خصوصی اہتمام کے ساتھ اترنا کسی بہت خصوصی مقصد کے تحت ہی ہوسکتاہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو آنے والے سخت دن سے آگاہ کیا جائے۔ انذارِ آخرت پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا بھی خاص مقصد تھا اور یہی قرآن کا بھی خاص مقصد ہے۔
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ
📘 قرآن اگرچہ بظاہر ایک انسانی زبان میں ہے۔ مگر اس کی ادبی عظمت اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ خود اپنی زبان کے اعتبار سے ایک برتر خدائی کلام ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ قرآن کی صداقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے بہت پہلے پیدا ہونے والے پیغمبروں نے اس کی پیشین گوئی کی۔ یہ پیشین گوئی آج بھی تورات اور زبور اور انجیل میںموجود ہے۔ انھیں پیشین گوئیوں کی بنا پر اس زمانہ کے متعدد مسیحی اور یہودی علماء (مثلاً عبد اللہ بن سلّام) اس پر ایمان لائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
خداکے کلام کا اس طرح خصوصی اہتمام کے ساتھ اترنا کسی بہت خصوصی مقصد کے تحت ہی ہوسکتاہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو آنے والے سخت دن سے آگاہ کیا جائے۔ انذارِ آخرت پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا بھی خاص مقصد تھا اور یہی قرآن کا بھی خاص مقصد ہے۔
عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنْذِرِينَ
📘 قرآن اگرچہ بظاہر ایک انسانی زبان میں ہے۔ مگر اس کی ادبی عظمت اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ خود اپنی زبان کے اعتبار سے ایک برتر خدائی کلام ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ قرآن کی صداقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے بہت پہلے پیدا ہونے والے پیغمبروں نے اس کی پیشین گوئی کی۔ یہ پیشین گوئی آج بھی تورات اور زبور اور انجیل میںموجود ہے۔ انھیں پیشین گوئیوں کی بنا پر اس زمانہ کے متعدد مسیحی اور یہودی علماء (مثلاً عبد اللہ بن سلّام) اس پر ایمان لائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
خداکے کلام کا اس طرح خصوصی اہتمام کے ساتھ اترنا کسی بہت خصوصی مقصد کے تحت ہی ہوسکتاہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو آنے والے سخت دن سے آگاہ کیا جائے۔ انذارِ آخرت پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا بھی خاص مقصد تھا اور یہی قرآن کا بھی خاص مقصد ہے۔
بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُبِينٍ
📘 قرآن اگرچہ بظاہر ایک انسانی زبان میں ہے۔ مگر اس کی ادبی عظمت اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ خود اپنی زبان کے اعتبار سے ایک برتر خدائی کلام ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ قرآن کی صداقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے بہت پہلے پیدا ہونے والے پیغمبروں نے اس کی پیشین گوئی کی۔ یہ پیشین گوئی آج بھی تورات اور زبور اور انجیل میںموجود ہے۔ انھیں پیشین گوئیوں کی بنا پر اس زمانہ کے متعدد مسیحی اور یہودی علماء (مثلاً عبد اللہ بن سلّام) اس پر ایمان لائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
خداکے کلام کا اس طرح خصوصی اہتمام کے ساتھ اترنا کسی بہت خصوصی مقصد کے تحت ہی ہوسکتاہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو آنے والے سخت دن سے آگاہ کیا جائے۔ انذارِ آخرت پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا بھی خاص مقصد تھا اور یہی قرآن کا بھی خاص مقصد ہے۔
وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ
📘 قرآن اگرچہ بظاہر ایک انسانی زبان میں ہے۔ مگر اس کی ادبی عظمت اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ خود اپنی زبان کے اعتبار سے ایک برتر خدائی کلام ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ قرآن کی صداقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے بہت پہلے پیدا ہونے والے پیغمبروں نے اس کی پیشین گوئی کی۔ یہ پیشین گوئی آج بھی تورات اور زبور اور انجیل میںموجود ہے۔ انھیں پیشین گوئیوں کی بنا پر اس زمانہ کے متعدد مسیحی اور یہودی علماء (مثلاً عبد اللہ بن سلّام) اس پر ایمان لائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
خداکے کلام کا اس طرح خصوصی اہتمام کے ساتھ اترنا کسی بہت خصوصی مقصد کے تحت ہی ہوسکتاہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو آنے والے سخت دن سے آگاہ کیا جائے۔ انذارِ آخرت پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا بھی خاص مقصد تھا اور یہی قرآن کا بھی خاص مقصد ہے۔
أَوَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ آيَةً أَنْ يَعْلَمَهُ عُلَمَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ
📘 قرآن اگرچہ بظاہر ایک انسانی زبان میں ہے۔ مگر اس کی ادبی عظمت اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ خود اپنی زبان کے اعتبار سے ایک برتر خدائی کلام ہونے کی شہادت دے رہا ہے۔ قرآن کی صداقت کا مزید ثبوت یہ ہے کہ قرآن کے نزول سے بہت پہلے پیدا ہونے والے پیغمبروں نے اس کی پیشین گوئی کی۔ یہ پیشین گوئی آج بھی تورات اور زبور اور انجیل میںموجود ہے۔ انھیں پیشین گوئیوں کی بنا پر اس زمانہ کے متعدد مسیحی اور یہودی علماء (مثلاً عبد اللہ بن سلّام) اس پر ایمان لائے۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
خداکے کلام کا اس طرح خصوصی اہتمام کے ساتھ اترنا کسی بہت خصوصی مقصد کے تحت ہی ہوسکتاہے، اور وہ مقصد یہ ہے کہ انسان کو آنے والے سخت دن سے آگاہ کیا جائے۔ انذارِ آخرت پچھلی تمام آسمانی کتابوں کا بھی خاص مقصد تھا اور یہی قرآن کا بھی خاص مقصد ہے۔
وَلَوْ نَزَّلْنَاهُ عَلَىٰ بَعْضِ الْأَعْجَمِينَ
📘 قرآن عربی زبان میں آیا اور جس پیغمبر نے اسے پیش کیا اس کی بھی مادری زبان عربی تھی۔ اس بنا پر منکرین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تو خود ان کا اپنا کلام ہے۔ وہ ایک عرب ہیں اس ليے انھوں نے عربی میں ایک قرآن تصنیف کرلیا۔
مگر اعتراض کا یہ انداز خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں ہے۔ اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شوشہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسا کیا جاتا کہ کسی غیر عربی پر یہ عربی قرآن اتار دیا جاتا اور وہ شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود عربی قرآن انھیں پڑھ کر سناتا تو وہ فوراًیہ کہہ دیتے کہ ’’کوئی عرب اس کو سکھا جاتاہے‘‘۔
جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہوں ان کے ليے حق کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب حق آئے اور وہ ذاتی مصالح کو اہمیت دیتے ہوئے حق کا اعتراف نہ کریں تو انکار کا مزاج ان کی نفسیات میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ انھیں دوبارہ اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔
فَقَرَأَهُ عَلَيْهِمْ مَا كَانُوا بِهِ مُؤْمِنِينَ
📘 قرآن عربی زبان میں آیا اور جس پیغمبر نے اسے پیش کیا اس کی بھی مادری زبان عربی تھی۔ اس بنا پر منکرین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تو خود ان کا اپنا کلام ہے۔ وہ ایک عرب ہیں اس ليے انھوں نے عربی میں ایک قرآن تصنیف کرلیا۔
مگر اعتراض کا یہ انداز خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں ہے۔ اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شوشہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسا کیا جاتا کہ کسی غیر عربی پر یہ عربی قرآن اتار دیا جاتا اور وہ شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود عربی قرآن انھیں پڑھ کر سناتا تو وہ فوراًیہ کہہ دیتے کہ ’’کوئی عرب اس کو سکھا جاتاہے‘‘۔
جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہوں ان کے ليے حق کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب حق آئے اور وہ ذاتی مصالح کو اہمیت دیتے ہوئے حق کا اعتراف نہ کریں تو انکار کا مزاج ان کی نفسیات میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ انھیں دوبارہ اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔
تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ
📘 حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔
قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ
📘 حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور عصا اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ فرعون نے آپ کی اہمیت گھٹانے کے ليے اس وقت آپ کی سابقہ زندگی کی دو باتیں یاد دلائیں۔ ایک، بچپن میں حضرت موسیٰ کا فرعون کے گھر میں پرورش پانا۔ دوسري، ایک قبطی کا قتل۔ حضرت موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارے گھر میں میری پرورش کی نوبت خود تمھارے ظلم کی وجہ سے آئی۔ تم چوں کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کررہے تھے اس ليے میری ماں نے یہ کیا کہ مجھ کو ٹوکری میں رکھ کر بہتے دریا میں ڈال دیا۔ اور اس کے بعد خود تم نے مجھے دریا سے نکالا اور مجھ کو اپنے گھر میں رکھا۔ جہاں تک قبطی کے قتل کا معاملہ ہے تو وہ میں نے ارادۃً نہیں کیا۔ میں نے اپنے اسرائیلی بھائی کی طرف سے قبطی کی جارحیت کا دفاع کیا تھا اور وہ اتفاقاً مرگیا۔
حضرت موسیٰ قبطی کے قتل کے بعد مصر کو چھوڑ کر مدین چلے گئے تھے۔ وہاں وہ کئی برس تک رہے۔ شہر کی مصنوعی فضا سے نکل کر دیہات کی فطری فضا میں چند سال گزارنا شاید آپ کی تربیت کے ليے ضروری تھا۔ چنانچہ مدین سے نکل کر جب آپ دوبارہ مصر جانے لگے تو راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔
كَذَٰلِكَ سَلَكْنَاهُ فِي قُلُوبِ الْمُجْرِمِينَ
📘 قرآن عربی زبان میں آیا اور جس پیغمبر نے اسے پیش کیا اس کی بھی مادری زبان عربی تھی۔ اس بنا پر منکرین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تو خود ان کا اپنا کلام ہے۔ وہ ایک عرب ہیں اس ليے انھوں نے عربی میں ایک قرآن تصنیف کرلیا۔
مگر اعتراض کا یہ انداز خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں ہے۔ اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شوشہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسا کیا جاتا کہ کسی غیر عربی پر یہ عربی قرآن اتار دیا جاتا اور وہ شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود عربی قرآن انھیں پڑھ کر سناتا تو وہ فوراًیہ کہہ دیتے کہ ’’کوئی عرب اس کو سکھا جاتاہے‘‘۔
جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہوں ان کے ليے حق کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب حق آئے اور وہ ذاتی مصالح کو اہمیت دیتے ہوئے حق کا اعتراف نہ کریں تو انکار کا مزاج ان کی نفسیات میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ انھیں دوبارہ اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔
لَا يُؤْمِنُونَ بِهِ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ
📘 قرآن عربی زبان میں آیا اور جس پیغمبر نے اسے پیش کیا اس کی بھی مادری زبان عربی تھی۔ اس بنا پر منکرین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تو خود ان کا اپنا کلام ہے۔ وہ ایک عرب ہیں اس ليے انھوں نے عربی میں ایک قرآن تصنیف کرلیا۔
مگر اعتراض کا یہ انداز خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں ہے۔ اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شوشہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسا کیا جاتا کہ کسی غیر عربی پر یہ عربی قرآن اتار دیا جاتا اور وہ شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود عربی قرآن انھیں پڑھ کر سناتا تو وہ فوراًیہ کہہ دیتے کہ ’’کوئی عرب اس کو سکھا جاتاہے‘‘۔
جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہوں ان کے ليے حق کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب حق آئے اور وہ ذاتی مصالح کو اہمیت دیتے ہوئے حق کا اعتراف نہ کریں تو انکار کا مزاج ان کی نفسیات میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ انھیں دوبارہ اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔
فَيَأْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 قرآن عربی زبان میں آیا اور جس پیغمبر نے اسے پیش کیا اس کی بھی مادری زبان عربی تھی۔ اس بنا پر منکرین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تو خود ان کا اپنا کلام ہے۔ وہ ایک عرب ہیں اس ليے انھوں نے عربی میں ایک قرآن تصنیف کرلیا۔
مگر اعتراض کا یہ انداز خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں ہے۔ اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شوشہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسا کیا جاتا کہ کسی غیر عربی پر یہ عربی قرآن اتار دیا جاتا اور وہ شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود عربی قرآن انھیں پڑھ کر سناتا تو وہ فوراًیہ کہہ دیتے کہ ’’کوئی عرب اس کو سکھا جاتاہے‘‘۔
جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہوں ان کے ليے حق کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب حق آئے اور وہ ذاتی مصالح کو اہمیت دیتے ہوئے حق کا اعتراف نہ کریں تو انکار کا مزاج ان کی نفسیات میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ انھیں دوبارہ اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔
فَيَقُولُوا هَلْ نَحْنُ مُنْظَرُونَ
📘 قرآن عربی زبان میں آیا اور جس پیغمبر نے اسے پیش کیا اس کی بھی مادری زبان عربی تھی۔ اس بنا پر منکرین کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ تو خود ان کا اپنا کلام ہے۔ وہ ایک عرب ہیں اس ليے انھوں نے عربی میں ایک قرآن تصنیف کرلیا۔
مگر اعتراض کا یہ انداز خود بتا رہاہے کہ یہ کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں ہے۔ اور جو لوگ کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہوں وہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی شوشہ نکال لیتے ہیں۔ مثلاً اگر ایسا کیا جاتا کہ کسی غیر عربی پر یہ عربی قرآن اتار دیا جاتا اور وہ شخص عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود عربی قرآن انھیں پڑھ کر سناتا تو وہ فوراًیہ کہہ دیتے کہ ’’کوئی عرب اس کو سکھا جاتاہے‘‘۔
جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت کھڑی کئے ہوئے ہوں ان کے ليے حق کا اعتراف کرنا خود اپنی نفی کے ہم معنی ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے سامنے جب حق آئے اور وہ ذاتی مصالح کو اہمیت دیتے ہوئے حق کا اعتراف نہ کریں تو انکار کا مزاج ان کی نفسیات میں اس طرح شامل ہوجاتا ہے کہ انھیں دوبارہ اس سے نکلنا نصیب نہیں ہوتا۔
أَفَبِعَذَابِنَا يَسْتَعْجِلُونَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
أَفَرَأَيْتَ إِنْ مَتَّعْنَاهُمْ سِنِينَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
ثُمَّ جَاءَهُمْ مَا كَانُوا يُوعَدُونَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
مَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يُمَتَّعُونَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا لَهَا مُنْذِرُونَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
ذِكْرَىٰ وَمَا كُنَّا ظَالِمِينَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
فَفَرَرْتُ مِنْكُمْ لَمَّا خِفْتُكُمْ فَوَهَبَ لِي رَبِّي حُكْمًا وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُرْسَلِينَ
📘 حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور عصا اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ فرعون نے آپ کی اہمیت گھٹانے کے ليے اس وقت آپ کی سابقہ زندگی کی دو باتیں یاد دلائیں۔ ایک، بچپن میں حضرت موسیٰ کا فرعون کے گھر میں پرورش پانا۔ دوسري، ایک قبطی کا قتل۔ حضرت موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارے گھر میں میری پرورش کی نوبت خود تمھارے ظلم کی وجہ سے آئی۔ تم چوں کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کررہے تھے اس ليے میری ماں نے یہ کیا کہ مجھ کو ٹوکری میں رکھ کر بہتے دریا میں ڈال دیا۔ اور اس کے بعد خود تم نے مجھے دریا سے نکالا اور مجھ کو اپنے گھر میں رکھا۔ جہاں تک قبطی کے قتل کا معاملہ ہے تو وہ میں نے ارادۃً نہیں کیا۔ میں نے اپنے اسرائیلی بھائی کی طرف سے قبطی کی جارحیت کا دفاع کیا تھا اور وہ اتفاقاً مرگیا۔
حضرت موسیٰ قبطی کے قتل کے بعد مصر کو چھوڑ کر مدین چلے گئے تھے۔ وہاں وہ کئی برس تک رہے۔ شہر کی مصنوعی فضا سے نکل کر دیہات کی فطری فضا میں چند سال گزارنا شاید آپ کی تربیت کے ليے ضروری تھا۔ چنانچہ مدین سے نکل کر جب آپ دوبارہ مصر جانے لگے تو راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ
📘 پیغمبر کی سطح پرجب خدا کی دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کاانکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے۔ تاہم جب تک عذاب عملاً نہ آجائے آدمی اپنے کو محفوظ سمجھتا ہے۔ وہ دعوتِ حق کو بے حقیقت ثابت کرنے کے لیے طرح طرح کی باتیں کرتا ہے۔ کبھی پیغمبر کی شخصیت کی تحقیر کرتاہے۔ کبھی پیغمبر کے لائے ہوئے کلام کو بناوٹی کلام بتاتا ہے۔ کبھی یہ کہتا ہے کہ تمھارے بیان کے مطابق اگر خدا ہمارے ساتھ نہیں تو وہ ہم کو سزا کیوں نہیں دیتا۔
پیغمبر کی ذمہ داری یا پیغمبر کی تبعیت میں داعی کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ لوگوں کو امر حق سے آگاہ کردے۔ اس سے آگے کے تمام معاملات خدا کے ذمے ہیں اور وہی جب چاہتا ہے انھیں ظاہر کرتاہے۔
فَلَا تَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ فَتَكُونَ مِنَ الْمُعَذَّبِينَ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
فَإِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ إِنِّي بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
وَتَقَلُّبَكَ فِي السَّاجِدِينَ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
وَتِلْكَ نِعْمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَيَّ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرَائِيلَ
📘 حضرت موسیٰ نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی اور عصا اور ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔ فرعون نے آپ کی اہمیت گھٹانے کے ليے اس وقت آپ کی سابقہ زندگی کی دو باتیں یاد دلائیں۔ ایک، بچپن میں حضرت موسیٰ کا فرعون کے گھر میں پرورش پانا۔ دوسري، ایک قبطی کا قتل۔ حضرت موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تمھارے گھر میں میری پرورش کی نوبت خود تمھارے ظلم کی وجہ سے آئی۔ تم چوں کہ بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کررہے تھے اس ليے میری ماں نے یہ کیا کہ مجھ کو ٹوکری میں رکھ کر بہتے دریا میں ڈال دیا۔ اور اس کے بعد خود تم نے مجھے دریا سے نکالا اور مجھ کو اپنے گھر میں رکھا۔ جہاں تک قبطی کے قتل کا معاملہ ہے تو وہ میں نے ارادۃً نہیں کیا۔ میں نے اپنے اسرائیلی بھائی کی طرف سے قبطی کی جارحیت کا دفاع کیا تھا اور وہ اتفاقاً مرگیا۔
حضرت موسیٰ قبطی کے قتل کے بعد مصر کو چھوڑ کر مدین چلے گئے تھے۔ وہاں وہ کئی برس تک رہے۔ شہر کی مصنوعی فضا سے نکل کر دیہات کی فطری فضا میں چند سال گزارنا شاید آپ کی تربیت کے ليے ضروری تھا۔ چنانچہ مدین سے نکل کر جب آپ دوبارہ مصر جانے لگے تو راستہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی۔
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 اللہ کے سواکسی اور کو معبود بنانا اللہ کی نظر میں بہت بڑا جرم ہے۔ اس کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص سزا سے بچ نہیں سکتا۔ حتی کہ وہ شخص بھی نہیں جو زبان وقلم سے توحید کا علم بردار بناہوا ہو۔ داعی کا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو پوری طرح شرک سے بچاتے ہوئے لوگوں کو حق کی طرف بلائے، جن میں اس کے قریبی لوگ بدرجہ اولیٰ شامل ہیں۔
حق کا ساتھ دینے کے ليے اپنی بڑائی کے بت کو توڑنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے لوگوں میں بہت کم ایسے افراد نکلتے ہیں جو حق کا ساتھ دینے کے ليے تیار ہوں۔ زیادہ تر ایسا ہوتاہے کہ حق کا ساتھ دینے کے ليے وہ لوگ اٹھتے ہیں جو سماج میں کمتر حیثیت رکھتے ہوں۔ یہ واقعہ داعی کے ليے سخت امتحان ہوتا ہے۔داعی کو اس سے بچنا پڑتا ہے کہ دوسروں کی طرح وہ بھی انھیں حقیر سمجھے، جو لوگ غیر اسلامی سماج میں حقیر بنے ہوئے تھے وہ اسلامی حلقہ میں آکر بھی بدستور حقیر بنے رہیں۔
داعی وہ ہے جس کا خدا سے تعلق اتنا بڑھا ہوا ہو کہ رات کی تنہائیوں میں وہ بے قرار ہو کر اپنے بستر سے اٹھ کھڑا ہو۔ اپنے سجدہ گزار ساتھیوں کی قیمت اس کی نظر میں اتنی زیادہ ہو کہ وہ انھیں کو اپنی دلچسپیوں کا مرکز بنالے۔
هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلَىٰ مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيَاطِينُ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
تَنَزَّلُ عَلَىٰ كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا ۗ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ
📘 پیغمبر کے کلام میں غیر معمولی پن اتنا نمایاں تھا کہ پیغمبر کے منکرین بھی اس کی تردید نہیں کرسکتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہہ دیتے کہ یہ کاہن اور عامل ہیں اور ان کے کلام میں جو غیر معمولی پن ہے، وہ کاہن اور عامل ہونے کی بنا پر ہے،نہ کہ پیغمبر ہونے کی بنا پر۔ اسی طرح وہ قرآن کو شاعرکا کلام بتاتے تھے۔ فرمایا کہ اس بات کی تردید کے لیے یہی کافی ہے کہ پیغمبر کا اور کاہنوں اور شاعروں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے۔ دونوں کی زندگی میں اتنا زیادہ فرق ملے گا کہ کوئی سنجیدہ آدمی ہر گز ایک کو دوسرے پر قیاس نہیںکرسکتا۔
شاعری کی بنیاد تخیل پر ہے، نہ کہ حقائق وواقعات پر۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر لوگ ہمیشہ خیالات کی دنیا میں پرواز کرتے ہیں۔ وہ کبھی ایک قسم کی باتیں کرتے ہیں اور کبھی دوسرے قسم کی۔ اس کے برعکس، پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہیں جو سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ان کی زندگیاں قول وعمل کی یکسانیت کی مثالیں ہیں۔ اللہ کی گہری معرفت نے ان کو اللہ کی یاد کرنے والا بنا دیا ہے۔ ان کی احتیاط اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ اگر کسی کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو صرف اس وقت کرتے ہیں جب کہ اس نے ان کے اوپر صریح ظلم کیا ہو۔ مستقبل کی نزاکت آدمی کو اس کے حال کے بارے میں سنجیدہ بنادیتی ہے— جو شخص مستقبل کے بارے میں حساس نہ ہو وہ حال کے بارے میں بھی حساس نہیں ہوسکتا۔
قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِينَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ مُوقِنِينَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ لِمَنْ حَوْلَهُ أَلَا تَسْتَمِعُونَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ إِنَّ رَسُولَكُمُ الَّذِي أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ لَمَجْنُونٌ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ إِلَٰهًا غَيْرِي لَأَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ
📘 حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔
قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكَ بِشَيْءٍ مُبِينٍ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ فَأْتِ بِهِ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
فَأَلْقَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُبِينٌ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاءُ لِلنَّاظِرِينَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالَ لِلْمَلَإِ حَوْلَهُ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
يُرِيدُ أَنْ يُخْرِجَكُمْ مِنْ أَرْضِكُمْ بِسِحْرِهِ فَمَاذَا تَأْمُرُونَ
📘 تمھارا رب العالمین کیا ہے— فرعون کا یہ جملہ دراصل استہزاء تھا، نہ کہ سوال۔ مگر حضرت موسیٰ نے کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر بالکل معتدل انداز میں اس کا جواب دیا۔ فرعون نے دوبارہ اپنے درباریوں سے یہ کہہ کر حضرت موسیٰ کی تحقیر کی کہ ’’سنتے ہو، یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔ حضرت موسیٰ نے اس کوبھی نظر انداز کیا اور اپنا سلسلہ کلام بدستور جاری رکھا۔ فرعون نے مشتعل ہو کر حضرت موسیٰ کو دیوانہ قرار دیا۔ مگر اب بھی حضرت موسیٰ نے اپنے اعتدال کو نہیں کھویا۔ فرعون نے قید کی دھمکی دی تو حضرت موسیٰ نے اپنی آخری دلیل (معجزہ) کو اس کے سامنے رکھ دیا۔ اب فرعون کے ليے مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہ تھی۔ مگر اس نے ہار نہ مانی۔ اس نے حضرت موسیٰ کی اہمیت گھٹانے کے ليے کہا کہ یہ کوئی خدائی واقعہ نہیں۔ یہ تو محض ایک ساحرانہ واقعہ ہے۔ اور ہر جادو گر ایسا کرشمہ دکھا سکتا ہے۔
حضرت موسیٰ کی دعوت سراسر پر امن دعوت تھی۔ اس کا سیاست اور حکومت سے بھی براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر فرعون نے اپنی قوم کو آپ کے خلاف بھڑکانے کے ليے یہ کہہ دیا کہ وہ ہم کو ہمارے ملک سے نکال دینا چاہتے ہیں۔ فرعون کی غیر سنجیدگی اسی سے واضح ہے کہ حضرت موسیٰ نے تو خود اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر جانے کی بات کی تھی۔ مگر فرعون نے اس کو الٹ کر یہ کہہ دیا کہ موسیٰ ہم لوگوں کو مصر سے باہر نکال دینا چاہتے ہیں۔
قَالُوا أَرْجِهْ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
يَأْتُوكَ بِكُلِّ سَحَّارٍ عَلِيمٍ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيقَاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
وَقِيلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنْتُمْ مُجْتَمِعُونَ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
إِنْ نَشَأْ نُنَزِّلْ عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ آيَةً فَظَلَّتْ أَعْنَاقُهُمْ لَهَا خَاضِعِينَ
📘 حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔
لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ إِنْ كَانُوا هُمُ الْغَالِبِينَ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالُوا لِفِرْعَوْنَ أَئِنَّ لَنَا لَأَجْرًا إِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِينَ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
قَالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ إِذًا لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ
📘 فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ کے معاملہ کو صرف جادوکا معاملہ سمجھا۔ اس ليے جادو کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ ان کی سوچ جہاں تک پہنچی وہ صرف یہ تھا کہ — موسیٰ اگر لکڑی کو سانپ بناسکتے ہیں تو ہمارے جادو گر بھی لکڑی کو سانپ بنا سکتے ہیں ۔ اس سے آگے کی انھیں خبر نہ تھی۔ وہ موسیٰ کے معاملہ کو انسان کا معاملہ سمجھتے تھے۔ اس ليے انسان کے ذریعہ اس کا توڑ کرنا چاہتے تھے۔ انھوںنے اس راز کو نہیں جانا کہ موسیٰ کا معاملہ خدا کا معاملہ ہے اور کون انسان ہے جو خدا سے ٹکر لے سکے۔
حضرت موسیٰ اور جادوگروں کے درمیان مقابلہ کے ليے مصریوں کے سالانہ قومی تہوار کا دن مقرر ہوا۔ اور اس کے ليے ایک بہت بڑے میدان کا انتخاب ہوا تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوں اور زیادہ سے زیادہ جادوگروں کی حوصلہ افزائی کرسکیں۔
قَالَ لَهُمْ مُوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ
📘 جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کہ وہ سانپ بن کر میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ کوئی حقیقی تغیر نہ تھا، یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بننا عصا کا معجزۂ خداوندی میں ڈھل جانا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ کا عصا سانپ بن کر میدان میں چلا تو اچانک اس نے جادوگروں کے سارے طلسم کو باطل کردیا۔ اس کے بعد جادوگروں کی رسّیاں اور لاٹھیاں صرف رسّیاں اور لاٹھیاں ہو کر رہ گئیں جیسا کہ وہ حقیقۃً تھیں۔
جادوگروں نے پہلے حضرت موسیٰ کو اپنی طرح کا ایک جادو گرسمجھا تھا۔ مگر تجربہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ جادو کے فن کو بخوبی جانتے تھے اس ليے وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ جادوگری نہیں ہے بلکہ پیغمبری ہے۔ تاہم ان کے ليے ممکن تھاکہ اب بھی وہ اعتراف نہ کریں اور حضرت موسیٰ کو رد کرنے کے ليے فرعون کی طرح کچھ جھوٹے الفاظ بول دیں۔ مگر ایک زندہ انسان کے ليے یہ ناممکن ہوتاہے کہ حق کے پوری طرح کھل جانے کے بعد وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔ جادوگر اسی قسم کے زندہ انسان تھے۔ چنانچہ انھوں نے فوراً حضرت موسیٰ کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔
فَأَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَالِبُونَ
📘 جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کہ وہ سانپ بن کر میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ کوئی حقیقی تغیر نہ تھا، یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بننا عصا کا معجزۂ خداوندی میں ڈھل جانا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ کا عصا سانپ بن کر میدان میں چلا تو اچانک اس نے جادوگروں کے سارے طلسم کو باطل کردیا۔ اس کے بعد جادوگروں کی رسّیاں اور لاٹھیاں صرف رسّیاں اور لاٹھیاں ہو کر رہ گئیں جیسا کہ وہ حقیقۃً تھیں۔
جادوگروں نے پہلے حضرت موسیٰ کو اپنی طرح کا ایک جادو گرسمجھا تھا۔ مگر تجربہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ جادو کے فن کو بخوبی جانتے تھے اس ليے وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ جادوگری نہیں ہے بلکہ پیغمبری ہے۔ تاہم ان کے ليے ممکن تھاکہ اب بھی وہ اعتراف نہ کریں اور حضرت موسیٰ کو رد کرنے کے ليے فرعون کی طرح کچھ جھوٹے الفاظ بول دیں۔ مگر ایک زندہ انسان کے ليے یہ ناممکن ہوتاہے کہ حق کے پوری طرح کھل جانے کے بعد وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔ جادوگر اسی قسم کے زندہ انسان تھے۔ چنانچہ انھوں نے فوراً حضرت موسیٰ کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔
فَأَلْقَىٰ مُوسَىٰ عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ
📘 جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کہ وہ سانپ بن کر میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ کوئی حقیقی تغیر نہ تھا، یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بننا عصا کا معجزۂ خداوندی میں ڈھل جانا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ کا عصا سانپ بن کر میدان میں چلا تو اچانک اس نے جادوگروں کے سارے طلسم کو باطل کردیا۔ اس کے بعد جادوگروں کی رسّیاں اور لاٹھیاں صرف رسّیاں اور لاٹھیاں ہو کر رہ گئیں جیسا کہ وہ حقیقۃً تھیں۔
جادوگروں نے پہلے حضرت موسیٰ کو اپنی طرح کا ایک جادو گرسمجھا تھا۔ مگر تجربہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ جادو کے فن کو بخوبی جانتے تھے اس ليے وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ جادوگری نہیں ہے بلکہ پیغمبری ہے۔ تاہم ان کے ليے ممکن تھاکہ اب بھی وہ اعتراف نہ کریں اور حضرت موسیٰ کو رد کرنے کے ليے فرعون کی طرح کچھ جھوٹے الفاظ بول دیں۔ مگر ایک زندہ انسان کے ليے یہ ناممکن ہوتاہے کہ حق کے پوری طرح کھل جانے کے بعد وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔ جادوگر اسی قسم کے زندہ انسان تھے۔ چنانچہ انھوں نے فوراً حضرت موسیٰ کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔
فَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ
📘 جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کہ وہ سانپ بن کر میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ کوئی حقیقی تغیر نہ تھا، یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بننا عصا کا معجزۂ خداوندی میں ڈھل جانا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ کا عصا سانپ بن کر میدان میں چلا تو اچانک اس نے جادوگروں کے سارے طلسم کو باطل کردیا۔ اس کے بعد جادوگروں کی رسّیاں اور لاٹھیاں صرف رسّیاں اور لاٹھیاں ہو کر رہ گئیں جیسا کہ وہ حقیقۃً تھیں۔
جادوگروں نے پہلے حضرت موسیٰ کو اپنی طرح کا ایک جادو گرسمجھا تھا۔ مگر تجربہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ جادو کے فن کو بخوبی جانتے تھے اس ليے وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ جادوگری نہیں ہے بلکہ پیغمبری ہے۔ تاہم ان کے ليے ممکن تھاکہ اب بھی وہ اعتراف نہ کریں اور حضرت موسیٰ کو رد کرنے کے ليے فرعون کی طرح کچھ جھوٹے الفاظ بول دیں۔ مگر ایک زندہ انسان کے ليے یہ ناممکن ہوتاہے کہ حق کے پوری طرح کھل جانے کے بعد وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔ جادوگر اسی قسم کے زندہ انسان تھے۔ چنانچہ انھوں نے فوراً حضرت موسیٰ کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔
قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کہ وہ سانپ بن کر میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ کوئی حقیقی تغیر نہ تھا، یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بننا عصا کا معجزۂ خداوندی میں ڈھل جانا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ کا عصا سانپ بن کر میدان میں چلا تو اچانک اس نے جادوگروں کے سارے طلسم کو باطل کردیا۔ اس کے بعد جادوگروں کی رسّیاں اور لاٹھیاں صرف رسّیاں اور لاٹھیاں ہو کر رہ گئیں جیسا کہ وہ حقیقۃً تھیں۔
جادوگروں نے پہلے حضرت موسیٰ کو اپنی طرح کا ایک جادو گرسمجھا تھا۔ مگر تجربہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ جادو کے فن کو بخوبی جانتے تھے اس ليے وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ جادوگری نہیں ہے بلکہ پیغمبری ہے۔ تاہم ان کے ليے ممکن تھاکہ اب بھی وہ اعتراف نہ کریں اور حضرت موسیٰ کو رد کرنے کے ليے فرعون کی طرح کچھ جھوٹے الفاظ بول دیں۔ مگر ایک زندہ انسان کے ليے یہ ناممکن ہوتاہے کہ حق کے پوری طرح کھل جانے کے بعد وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔ جادوگر اسی قسم کے زندہ انسان تھے۔ چنانچہ انھوں نے فوراً حضرت موسیٰ کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔
رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ
📘 جادوگروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں تو دیکھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا گویا کہ وہ سانپ بن کر میدان میں دوڑ رہی ہیں۔ مگر یہ کوئی حقیقی تغیر نہ تھا، یہ صرف نظر بندی کا معاملہ تھا۔ اس کے برعکس، حضرت موسیٰ کے عصا کا سانپ بننا عصا کا معجزۂ خداوندی میں ڈھل جانا تھا۔ چنانچہ جب حضرت موسیٰ کا عصا سانپ بن کر میدان میں چلا تو اچانک اس نے جادوگروں کے سارے طلسم کو باطل کردیا۔ اس کے بعد جادوگروں کی رسّیاں اور لاٹھیاں صرف رسّیاں اور لاٹھیاں ہو کر رہ گئیں جیسا کہ وہ حقیقۃً تھیں۔
جادوگروں نے پہلے حضرت موسیٰ کو اپنی طرح کا ایک جادو گرسمجھا تھا۔ مگر تجربہ نے ان کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ جادو کے فن کو بخوبی جانتے تھے اس ليے وہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ جادوگری نہیں ہے بلکہ پیغمبری ہے۔ تاہم ان کے ليے ممکن تھاکہ اب بھی وہ اعتراف نہ کریں اور حضرت موسیٰ کو رد کرنے کے ليے فرعون کی طرح کچھ جھوٹے الفاظ بول دیں۔ مگر ایک زندہ انسان کے ليے یہ ناممکن ہوتاہے کہ حق کے پوری طرح کھل جانے کے بعد وہ حق کا اعتراف نہ کرے۔ جادوگر اسی قسم کے زندہ انسان تھے۔ چنانچہ انھوں نے فوراً حضرت موسیٰ کی صداقت کا اعتراف کرلیا۔
قَالَ آمَنْتُمْ لَهُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَكُمْ ۖ إِنَّهُ لَكَبِيرُكُمُ الَّذِي عَلَّمَكُمُ السِّحْرَ فَلَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ۚ لَأُقَطِّعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ أَجْمَعِينَ
📘 جادوگروں کا حضرت موسیٰ پر ایمان لانا فرعون کے ليے زبردست رسوائی کا باعث تھا۔ اس نے اس کے ازالہ کے ليے یہ کیا کہ اس پورے واقعہ کو سازش قرار دے دیا۔ اس نے کہا کہ تم لوگ موسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ اور تم نے جان بوجھ کر ان کے مقابلہ میں اپنی شکست کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ موسیٰ کی بڑائی لوگوں کے دلوں پر قائم ہو اور تمھارے ليے اپنا مقصد حاصل کرنا آسان ہوجائے۔ فرعون نے جادوگروں کو اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ تم لوگوں کو بغاوت کی سزا دی جائے گی۔ تمھارے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ کر تم کو برسر عام سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ اس شدید حکم کے باوجود جادو گر بے ہمت نہیں ہوئے۔ وہی جادو گر جو پہلے (آیت
41
) فرعون کے اقبال کی قسم کھارہے تھے اوراس سے انعام واکرام کی درخواست کررہے تھے انھوںنے بالکل بے خوف ہو کر کہا کہ تم جو چاہے کرو اب موسیٰ کے دین سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اس عالی، ہمتی کا سبب ایمانی دریافت تھی۔ آدمی کسی چیز کا کھونا اس وقت برداشت کرتاہے جب کہ اس کو کھو کر وہ زیادہ بڑی چیز پارہا ہو۔ ایمان سے پہلے جادوگروں کے پاس سب سے بڑی چیز فرعون اور اس کا انعام تھا۔ مگر ایمان کے بعد ان کو خدا اور اس کی جنت سب سے بڑی چیز نظر آنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان سے پہلے جس چیز کی قربانی وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے ایمان کے بعد نہایت خوشی سے وہ اس کی قربانی دینے پر راضی ہوگئے۔
وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكْرٍ مِنَ الرَّحْمَٰنِ مُحْدَثٍ إِلَّا كَانُوا عَنْهُ مُعْرِضِينَ
📘 حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔
قَالُوا لَا ضَيْرَ ۖ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا مُنْقَلِبُونَ
📘 جادوگروں کا حضرت موسیٰ پر ایمان لانا فرعون کے ليے زبردست رسوائی کا باعث تھا۔ اس نے اس کے ازالہ کے ليے یہ کیا کہ اس پورے واقعہ کو سازش قرار دے دیا۔ اس نے کہا کہ تم لوگ موسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ اور تم نے جان بوجھ کر ان کے مقابلہ میں اپنی شکست کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ موسیٰ کی بڑائی لوگوں کے دلوں پر قائم ہو اور تمھارے ليے اپنا مقصد حاصل کرنا آسان ہوجائے۔ فرعون نے جادوگروں کو اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ تم لوگوں کو بغاوت کی سزا دی جائے گی۔ تمھارے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ کر تم کو برسر عام سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ اس شدید حکم کے باوجود جادو گر بے ہمت نہیں ہوئے۔ وہی جادو گر جو پہلے (آیت
41
) فرعون کے اقبال کی قسم کھارہے تھے اوراس سے انعام واکرام کی درخواست کررہے تھے انھوںنے بالکل بے خوف ہو کر کہا کہ تم جو چاہے کرو اب موسیٰ کے دین سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اس عالی، ہمتی کا سبب ایمانی دریافت تھی۔ آدمی کسی چیز کا کھونا اس وقت برداشت کرتاہے جب کہ اس کو کھو کر وہ زیادہ بڑی چیز پارہا ہو۔ ایمان سے پہلے جادوگروں کے پاس سب سے بڑی چیز فرعون اور اس کا انعام تھا۔ مگر ایمان کے بعد ان کو خدا اور اس کی جنت سب سے بڑی چیز نظر آنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان سے پہلے جس چیز کی قربانی وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے ایمان کے بعد نہایت خوشی سے وہ اس کی قربانی دینے پر راضی ہوگئے۔
إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَايَانَا أَنْ كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 جادوگروں کا حضرت موسیٰ پر ایمان لانا فرعون کے ليے زبردست رسوائی کا باعث تھا۔ اس نے اس کے ازالہ کے ليے یہ کیا کہ اس پورے واقعہ کو سازش قرار دے دیا۔ اس نے کہا کہ تم لوگ موسیٰ کے ساتھ ملے ہوئے ہو۔ اور تم نے جان بوجھ کر ان کے مقابلہ میں اپنی شکست کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ موسیٰ کی بڑائی لوگوں کے دلوں پر قائم ہو اور تمھارے ليے اپنا مقصد حاصل کرنا آسان ہوجائے۔ فرعون نے جادوگروں کو اپنا یہ فیصلہ سنایا کہ تم لوگوں کو بغاوت کی سزا دی جائے گی۔ تمھارے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ کر تم کو برسر عام سولی پر چڑھا دیا جائے گا۔ اس شدید حکم کے باوجود جادو گر بے ہمت نہیں ہوئے۔ وہی جادو گر جو پہلے (آیت
41
) فرعون کے اقبال کی قسم کھارہے تھے اوراس سے انعام واکرام کی درخواست کررہے تھے انھوںنے بالکل بے خوف ہو کر کہا کہ تم جو چاہے کرو اب موسیٰ کے دین سے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ اس عالی، ہمتی کا سبب ایمانی دریافت تھی۔ آدمی کسی چیز کا کھونا اس وقت برداشت کرتاہے جب کہ اس کو کھو کر وہ زیادہ بڑی چیز پارہا ہو۔ ایمان سے پہلے جادوگروں کے پاس سب سے بڑی چیز فرعون اور اس کا انعام تھا۔ مگر ایمان کے بعد ان کو خدا اور اس کی جنت سب سے بڑی چیز نظر آنے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ ایمان سے پہلے جس چیز کی قربانی وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے ایمان کے بعد نہایت خوشی سے وہ اس کی قربانی دینے پر راضی ہوگئے۔
۞ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُمْ مُتَّبَعُونَ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَائِنِ حَاشِرِينَ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
إِنَّ هَٰؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَائِظُونَ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
وَإِنَّا لَجَمِيعٌ حَاذِرُونَ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
فَأَخْرَجْنَاهُمْ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
وَكُنُوزٍ وَمَقَامٍ كَرِيمٍ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
كَذَٰلِكَ وَأَوْرَثْنَاهَا بَنِي إِسْرَائِيلَ
📘 برسوں کی دعوتی جدوجہد کے باوجود فرعون حضرت موسیٰ پر ایمان نہ لایا۔ آخر کار اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے باہر چلے جائیں۔ فرعون کو جب معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل اجتماعی طور پر مصر سے روانہ ہو گئے ہیں۔ تو اس نے اپنے لشکر اور اپنے اعیان سلطنت کے ساتھ ان کا پیچھا کیا۔ بظاہر فرعون کا یہ اقدام بنی اسرائیل کے خلاف تھا۔ مگر عملاً وہ خود اس کے اپنے خلاف اقدام بن گیا۔ اس طرح فرعون اوراس کے ساتھی اپنی شان دار آبادیوں کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے جہاں انھیں یکجائی طور پر سمندر میں غرق ہونا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کو ان کے ظلم کے نتیجے میں اپنی نعمتوں سے محروم کیا جو انھیں مصر میں حاصل تھیں۔ دوسری طرف بنی اسرائیل کے صالحین کے ساتھ یہ معاملہ فرمایا کہ ان کو ایک مدت کے بعد فلسطین پہنچایا۔ اور وہاں ان کو یہ تمام نعمتیں مزید اضافہ کے ساتھ دے دیں۔
فَقَدْ كَذَّبُوا فَسَيَأْتِيهِمْ أَنْبَاءُ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
📘 حق کی دعوت جب ظاہر ہوتی ہے تو وہ ہمیشہ کلام مبین میں ظاہر ہوتی ہے۔ کسی دعوت کے خدائی دعوت ہونے کی یہ بھی ایک علامت ہے کہ اس کی ہر بات واضح ہو۔ اس کی ہر بات کھلے ہوئے دلائل پر مبنی ہو ایک شخص اس کا انکار تو کرسکے مگر کوئی شخص واقعی طورپر یہ کہنے کی پوزیشن میںنہ ہو کہ اس کا پیغام میری سمجھ میں نہیں آیا۔
’’شاید تم اپنے آپ کو ہلاک کرلوگے‘‘ کاجملہ اس کامل خیر خواہی کو بتا رہا ہے جو داعی کو مدعو کے حق میں ہوتی ہے۔ دعوتی عمل خالص خیر خواہی کے جذبہ سے ابلتا ہے۔ اس ليے داعی جب دیکھتاہے کہ مدعو اس کے پیغام کو نہیں مان رہا ہے تو وہ اس کے غم میںاس طرح ہلکان ہونے لگتاہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی بھلائی کے ليے ہلکان ہوتی ہے۔ قرآن کا یہ جملہ داعیِ قرآن کی خیر خواہانہ کیفیت کی تصدیق ہے، نہ کہ اس پر تنقید۔ حق کی دعوت خدا کی دعوت ہوتی ہے۔ خدا وہ طاقت ور ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کسی کے ليے انکار و سرکشی کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ صورت حال خود خدا کے اپنے منصوبہ کی بناپر ہے۔ خدا کو اپنی جنت میں بسانے کے ليے وہ قیمتی انسان درکار ہیں جو فریب سے بھری ہوئی دنیا میں حق کو پہچانیں اور کسی دباؤ کے بغیر اس کے آگے جھک جائیں۔ ایسے انسانوں کا چناؤ ایسے ہی حالات میں کیا جاسکتا تھا جہاں ہر انسان کو فکر وعمل کی پوری آزادی دی گئی ہو۔
فَأَتْبَعُوهُمْ مُشْرِقِينَ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
قَالَ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
وَأَزْلَفْنَا ثَمَّ الْآخَرِينَ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
وَأَنْجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَنْ مَعَهُ أَجْمَعِينَ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 فرعون بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا جہاں بنی اسرائیل کے آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اس کا لشکر۔ بنی اسرائیل اس نازک صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق وہ موسیٰ سے کہنے لگے ’’کیا مصر میں قبریں نہ تھیں کہ تم ہم کو وہاں سے مرنے کے ليے بیابان میں لے آیا ہے‘‘۔
مگر حضرت موسیٰ کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ نے اپنا عصا سمندر کے پانی پر مارا۔ پانی بیچ سے پھٹ گیا۔ دونوں طرف اونچی دیواروں کی مانند پانی کھڑا ہوگیا۔ اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ بنی اسرائیل اس راستہ سے پار ہو کر اگلے کنارہ پر پہنچ گئے۔
یہ منظر دیکھ کر فرعون نے سمجھا کہ وہ بھی اس کھلے ہوئے راستہ سے پار ہوسکتا ہے۔ اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ راستہ نہیں ہے بلکہ خدا کا حکم ہے۔ فرعون اپنے پورے لشکر کے ساتھ اس کے اندر داخل ہوگیا۔ جیسے ہی وہ لوگ بیچ میں پہنچے خدا کے حکم سے سمندر کا کھڑا ہوا پانی دونوں طرف سے مل کر برابر ہوگیا۔ فرعون اپنے تمام لشکر کے ساتھ دفعۃً غرق ہوگیا۔ ایک ہی نقشہ میںایک گروہ کے ليے نجات چھپی ہوئی تھی اور دوسرے گروہ کے ليے ہلاکت۔
وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ
📘 ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔
’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الْأَرْضِ كَمْ أَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ
📘 مٹی کے اندر سے ہرے بھرے درخت کا نکلنا اتنا ہی عجیب ہے جتنا یہ واقعہ کہ مٹی کے اندر سے اچانک ایک زندہ اونٹ نکل آئے اور زمین پرچلنے پھرنے لگے۔ لوگ دوسری قسم کے واقعہ کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس سے زیادہ بڑا واقعہ ہر وقت زمین پر ہورہا ہے۔ مگر اس میں انھیں کوئی سبق نہیں ملتا۔
اللہ تعالیٰ کو انسان سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ معمولی واقعات میں چھپے ہوئے غیر معمولی پہلوؤں کو دیکھے۔ وہ اسباب کے تحت پیش آنے والے واقعہ میں خدا کی براہِ راست کارفرمائی کا مشاہدہ کرلے۔ جو لوگ اس اعلیٰ بصیرت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا پر ایمان لانے والے ہیں۔ اور وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی ابدی رحمتوں میں داخل کئے جائیں گے۔
إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ
📘 ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔
’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔
قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ
📘 ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔
’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔
قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ
📘 ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔
’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔
أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ
📘 ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔
’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔
قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ
📘 ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تھی کہ اس نے باپ دادا کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا وہی خود بھی کرنے لگی۔ دوسری طرف حضرت ابراہیم تھے جنھوںنے خود اپنی عقل سے سوچا۔ انھوںنے ماحول سے اوپر اٹھ کر سچائی کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ یہی وہ صفت خاص ہے جو آدمی کو خدا کی معرفت تک پہنچاتی ہے اور اسی صفت میں جو کمال درجہ پر ہو اس کو خدا اپنے دین کی پیغام بری کے ليے منتخب فرماتا ہے۔
’’ہم اپنے بتوں پر جمے رہیںگے‘‘ کے الفاظ بتاتے هيںکہ حضرت ابراہیم سے گفتگو میں انھوںنے اپنے آپ کو بے دلیل پایا۔ اس کے باوجود وہ ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ دلیل کی سطح پر شکست کھانے کے باوجود وہ تعصب کی سطح پر اپنے آبائی دین پر قائم رہے۔
قَالَ أَفَرَأَيْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
الَّذِي خَلَقَنِي فَهُوَ يَهْدِينِ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي وَيَسْقِينِ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً ۖ وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 مٹی کے اندر سے ہرے بھرے درخت کا نکلنا اتنا ہی عجیب ہے جتنا یہ واقعہ کہ مٹی کے اندر سے اچانک ایک زندہ اونٹ نکل آئے اور زمین پرچلنے پھرنے لگے۔ لوگ دوسری قسم کے واقعہ کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس سے زیادہ بڑا واقعہ ہر وقت زمین پر ہورہا ہے۔ مگر اس میں انھیں کوئی سبق نہیں ملتا۔
اللہ تعالیٰ کو انسان سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ معمولی واقعات میں چھپے ہوئے غیر معمولی پہلوؤں کو دیکھے۔ وہ اسباب کے تحت پیش آنے والے واقعہ میں خدا کی براہِ راست کارفرمائی کا مشاہدہ کرلے۔ جو لوگ اس اعلیٰ بصیرت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا پر ایمان لانے والے ہیں۔ اور وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی ابدی رحمتوں میں داخل کئے جائیں گے۔
وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
وَالَّذِي يُمِيتُنِي ثُمَّ يُحْيِينِ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ
📘 انسان ایک مستقل ہستی کے طورپر دنیا میں آتاہے۔ اس کے اندر عقل ہے جو خیر اور شر میں فرق کرتی ہے، جو جزئیات سے کلیات اخذ کرتی ہے اور محسوسات سے معقولات تک پہنچ جاتی ہے۔ آدمی کے ليے یہاں نہایت اعلیٰ درجہ پر وہ چیزیں موجود ہیں جو اس کو مسلسل رزق فراہم کرتی ہیں۔ آدمی بیمار ہوتاہے تو وہ پاتا ہے کہ یہاں وہ اسباب بھی مکمل طورپر موجود ہیں جن سے فن علاج وجود میں آسکے۔ پھر آدمی دیکھتاہے کہ بظاہر ساری آزادی کے باوجود وہ موت کے سامنے بے بس ہے۔ وہ ایک خاص عمر کو پہنچ کر مرجاتاہے۔
ان واقعات کا تعلق ایک خدا کے سوا کسی اور سے نہیں ہوسکتا، پھر کیسے جائز ہے کہ ایک خداکے سوا کسی اور کی عبادت کی جائے۔ مزید یہ کہ اس معاملے میں آدمی کو حد درجہ سنجیدہ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ یہی واقعات یہ اشارہ بھی کررہے ہیں کہ جو خدا یہ سب کررہاہے وہ انسان سے حساب لینے کے ليے اس کو ایک روز اپنے یہاں بلائے گا۔ موت اسی بلاوے کے عمل کا آغاز ہے۔
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
📘 اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو خبر دی کہ تمھاری قوم فتنہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو وہ شدید جذبات میںبھرے ہوئے قوم کی طرف واپس آئے۔ انھوںنے ان کو یاد دلایا کہ ابھی ابھی خدا نے تمھارے اوپر اتنے احسانات کيے ہیں اور اپنی اتنی زیادہ نشانیاں تمھارے لیے ظاہر کی ہیں۔ پھر کیسے تم اتنی جلد سب بھول کر گمراہی میں پڑ گئے۔
حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے لیے اللہ کی کتاب لینے گئے۔ اور بنی اسرائیل کی بڑی تعداد کچھ لوگوں کی باتوں ميں آکر غیر اللہ کی پرستش میں مصروف ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بنی اسرائیل مصر کے مشرکانہ ماحول سے کتنا زیادہ متاثر ہوچکے تھے۔ اور کیوں یہ ضروری ہوگیاتھا کہ دوبارہ توحید کا پرستار بنانے کے لیے انھیں مصر کے ماحول سے نکال کر باہر لے جایا جائے۔
حضرت موسیٰ نے فرعون کے مقابلہ میں جو کچھ کیا وہ دعوت دین کا کام تھا۔ اور آپ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ تحفظ دین کا کام۔ دونوں کام آپ نے ساتھ ساتھ انجام دئے۔ اس سے دونوں کاموں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ مسلمان اگر بگڑے ہوئے ہوں تو اس بنا پر دعوتِ عام کا کام روکا نہیں جاسکتا۔ اور اگر دعوت عام کا کام کرنا ہو تو وہ اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ داخلی اصلاح کا کام بند کردیاجائے۔
وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ
📘 اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو خبر دی کہ تمھاری قوم فتنہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو وہ شدید جذبات میںبھرے ہوئے قوم کی طرف واپس آئے۔ انھوںنے ان کو یاد دلایا کہ ابھی ابھی خدا نے تمھارے اوپر اتنے احسانات کيے ہیں اور اپنی اتنی زیادہ نشانیاں تمھارے لیے ظاہر کی ہیں۔ پھر کیسے تم اتنی جلد سب بھول کر گمراہی میں پڑ گئے۔
حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے لیے اللہ کی کتاب لینے گئے۔ اور بنی اسرائیل کی بڑی تعداد کچھ لوگوں کی باتوں ميں آکر غیر اللہ کی پرستش میں مصروف ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بنی اسرائیل مصر کے مشرکانہ ماحول سے کتنا زیادہ متاثر ہوچکے تھے۔ اور کیوں یہ ضروری ہوگیاتھا کہ دوبارہ توحید کا پرستار بنانے کے لیے انھیں مصر کے ماحول سے نکال کر باہر لے جایا جائے۔
حضرت موسیٰ نے فرعون کے مقابلہ میں جو کچھ کیا وہ دعوت دین کا کام تھا۔ اور آپ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ تحفظ دین کا کام۔ دونوں کام آپ نے ساتھ ساتھ انجام دئے۔ اس سے دونوں کاموں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ مسلمان اگر بگڑے ہوئے ہوں تو اس بنا پر دعوتِ عام کا کام روکا نہیں جاسکتا۔ اور اگر دعوت عام کا کام کرنا ہو تو وہ اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ داخلی اصلاح کا کام بند کردیاجائے۔
وَاجْعَلْنِي مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ
📘 اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو خبر دی کہ تمھاری قوم فتنہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو وہ شدید جذبات میںبھرے ہوئے قوم کی طرف واپس آئے۔ انھوںنے ان کو یاد دلایا کہ ابھی ابھی خدا نے تمھارے اوپر اتنے احسانات کيے ہیں اور اپنی اتنی زیادہ نشانیاں تمھارے لیے ظاہر کی ہیں۔ پھر کیسے تم اتنی جلد سب بھول کر گمراہی میں پڑ گئے۔
حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے لیے اللہ کی کتاب لینے گئے۔ اور بنی اسرائیل کی بڑی تعداد کچھ لوگوں کی باتوں ميں آکر غیر اللہ کی پرستش میں مصروف ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بنی اسرائیل مصر کے مشرکانہ ماحول سے کتنا زیادہ متاثر ہوچکے تھے۔ اور کیوں یہ ضروری ہوگیاتھا کہ دوبارہ توحید کا پرستار بنانے کے لیے انھیں مصر کے ماحول سے نکال کر باہر لے جایا جائے۔
حضرت موسیٰ نے فرعون کے مقابلہ میں جو کچھ کیا وہ دعوت دین کا کام تھا۔ اور آپ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ تحفظ دین کا کام۔ دونوں کام آپ نے ساتھ ساتھ انجام دئے۔ اس سے دونوں کاموں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ مسلمان اگر بگڑے ہوئے ہوں تو اس بنا پر دعوتِ عام کا کام روکا نہیں جاسکتا۔ اور اگر دعوت عام کا کام کرنا ہو تو وہ اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ داخلی اصلاح کا کام بند کردیاجائے۔
وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ
📘 اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو خبر دی کہ تمھاری قوم فتنہ میں مبتلا ہوگئی ہے تو وہ شدید جذبات میںبھرے ہوئے قوم کی طرف واپس آئے۔ انھوںنے ان کو یاد دلایا کہ ابھی ابھی خدا نے تمھارے اوپر اتنے احسانات کيے ہیں اور اپنی اتنی زیادہ نشانیاں تمھارے لیے ظاہر کی ہیں۔ پھر کیسے تم اتنی جلد سب بھول کر گمراہی میں پڑ گئے۔
حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کے لیے اللہ کی کتاب لینے گئے۔ اور بنی اسرائیل کی بڑی تعداد کچھ لوگوں کی باتوں ميں آکر غیر اللہ کی پرستش میں مصروف ہوگئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بنی اسرائیل مصر کے مشرکانہ ماحول سے کتنا زیادہ متاثر ہوچکے تھے۔ اور کیوں یہ ضروری ہوگیاتھا کہ دوبارہ توحید کا پرستار بنانے کے لیے انھیں مصر کے ماحول سے نکال کر باہر لے جایا جائے۔
حضرت موسیٰ نے فرعون کے مقابلہ میں جو کچھ کیا وہ دعوت دین کا کام تھا۔ اور آپ نے بنی اسرائیل کے سلسلہ میں جو کچھ کیا وہ تحفظ دین کا کام۔ دونوں کام آپ نے ساتھ ساتھ انجام دئے۔ اس سے دونوں کاموں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ مسلمان اگر بگڑے ہوئے ہوں تو اس بنا پر دعوتِ عام کا کام روکا نہیں جاسکتا۔ اور اگر دعوت عام کا کام کرنا ہو تو وہ اس طرح نہیں کیا جائے گا کہ داخلی اصلاح کا کام بند کردیاجائے۔
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ
📘 اس آیت میں ’’حکم‘‘ سے مراد فہم صحیح ہے۔ یعنی چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ نبوت کے بعد کسی بندۂ خداکے ليے یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی ليے حدیث میں آیا ہے کہ مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر
71
)يعني، اللہ جس شخص کے ليے خیر کا ارادہ کرتاہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتاہے)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں جو باتیں کہیں وہ سب قبول ہوگئیں۔ مگر اپنے باپ (آزر) کی مغفرت کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ دعا تمام تر خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کی دعا کسی دوسرے شخص کو مغفرت نہیں دلاسکتی۔
اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قیمت ’’قلب سلیم‘‘ کی ہے۔ قلب سلیم سے مراد قلب صحیح یا پاک دل ہے یعنی وہ دل جو شرک اور نفاق اور حسد اور بغض کے جذبات سے پاک ہو۔ بالفاظ دیگر خدا نے پیدائشی طورپر جو دل آدمی کو دیا تھا وہی دل لے کر وہ خدا کے یہاں پہنچے۔ کوئی دوسرا دل لے کر وہ خدا کے یہاں حاضر نہ ہو۔
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ
📘 اس آیت میں ’’حکم‘‘ سے مراد فہم صحیح ہے۔ یعنی چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ نبوت کے بعد کسی بندۂ خداکے ليے یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی ليے حدیث میں آیا ہے کہ مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر
71
)يعني، اللہ جس شخص کے ليے خیر کا ارادہ کرتاہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتاہے)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں جو باتیں کہیں وہ سب قبول ہوگئیں۔ مگر اپنے باپ (آزر) کی مغفرت کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ دعا تمام تر خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کی دعا کسی دوسرے شخص کو مغفرت نہیں دلاسکتی۔
اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قیمت ’’قلب سلیم‘‘ کی ہے۔ قلب سلیم سے مراد قلب صحیح یا پاک دل ہے یعنی وہ دل جو شرک اور نفاق اور حسد اور بغض کے جذبات سے پاک ہو۔ بالفاظ دیگر خدا نے پیدائشی طورپر جو دل آدمی کو دیا تھا وہی دل لے کر وہ خدا کے یہاں پہنچے۔ کوئی دوسرا دل لے کر وہ خدا کے یہاں حاضر نہ ہو۔
إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ
📘 اس آیت میں ’’حکم‘‘ سے مراد فہم صحیح ہے۔ یعنی چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا جیسا کہ وہ فی الواقع ہیں۔ نبوت کے بعد کسی بندۂ خداکے ليے یہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اسی ليے حدیث میں آیا ہے کہ مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر
71
)يعني، اللہ جس شخص کے ليے خیر کا ارادہ کرتاہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتاہے)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دعا میں جو باتیں کہیں وہ سب قبول ہوگئیں۔ مگر اپنے باپ (آزر) کی مغفرت کی دعا قبول نہیں ہوئی۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ دعا تمام تر خدا اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے۔ کسی شخص کی دعا کسی دوسرے شخص کو مغفرت نہیں دلاسکتی۔
اللہ تعالیٰ کے یہاں اصل قیمت ’’قلب سلیم‘‘ کی ہے۔ قلب سلیم سے مراد قلب صحیح یا پاک دل ہے یعنی وہ دل جو شرک اور نفاق اور حسد اور بغض کے جذبات سے پاک ہو۔ بالفاظ دیگر خدا نے پیدائشی طورپر جو دل آدمی کو دیا تھا وہی دل لے کر وہ خدا کے یہاں پہنچے۔ کوئی دوسرا دل لے کر وہ خدا کے یہاں حاضر نہ ہو۔
وَإِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ
📘 مٹی کے اندر سے ہرے بھرے درخت کا نکلنا اتنا ہی عجیب ہے جتنا یہ واقعہ کہ مٹی کے اندر سے اچانک ایک زندہ اونٹ نکل آئے اور زمین پرچلنے پھرنے لگے۔ لوگ دوسری قسم کے واقعہ کو دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ حالاں کہ اس سے زیادہ بڑا واقعہ ہر وقت زمین پر ہورہا ہے۔ مگر اس میں انھیں کوئی سبق نہیں ملتا۔
اللہ تعالیٰ کو انسان سے جو چیز مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ معمولی واقعات میں چھپے ہوئے غیر معمولی پہلوؤں کو دیکھے۔ وہ اسباب کے تحت پیش آنے والے واقعہ میں خدا کی براہِ راست کارفرمائی کا مشاہدہ کرلے۔ جو لوگ اس اعلیٰ بصیرت کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا پر ایمان لانے والے ہیں۔ اور وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کی ابدی رحمتوں میں داخل کئے جائیں گے۔
وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغَاوِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَقِيلَ لَهُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
مِنْ دُونِ اللَّهِ هَلْ يَنْصُرُونَكُمْ أَوْ يَنْتَصِرُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
فَكُبْكِبُوا فِيهَا هُمْ وَالْغَاوُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَجُنُودُ إِبْلِيسَ أَجْمَعُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
قَالُوا وَهُمْ فِيهَا يَخْتَصِمُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
تَاللَّهِ إِنْ كُنَّا لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
إِذْ نُسَوِّيكُمْ بِرَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔
وَمَا أَضَلَّنَا إِلَّا الْمُجْرِمُونَ
📘 حضرت نوح کی قوم نے ان کو جھٹلایا۔ حالاں کہ ان کی دعوت میں دلیل کا وزن پوری طرح موجود تھا۔ اسی کے ساتھ ان کی سیرت ان کی صداقت کی تصدیق کررہی تھی۔ حضرت نوح کے بارے میں ان کی قوم کے لوگ جانتے تھے کہ وہ ایک سچے اور امانت دار آدمی ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت نوح جو دعوت دے رہے ہیں اس سے ان کا کوئی ذاتی مفاد وابستہ نہیں۔ یہ خصوصیات حضرت نوح کو سنجیدہ ثابت کرنے کے ليے کافی تھیں۔ اور جو آدمی مخلوق کے بارے میں سنجیدہ ہو، وہ خالق کے بارہ میں غیر سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
حضرت نوح کی قوم نے آپ کی دعوت کو ماننے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ اس انکار کے ليے ان کے پاس غیر متعلق باتوں کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کسی دعوت کو رد کرنے کے ليے یہ کہنا کہ اس کاساتھ دینے والے معمولی لوگ ہیں یہ دعوت کی تردید نہیں بلکہ خود اپنی تردید ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی دلیل کے اعتبار سے اس دعوت کے حق میں کچھ کہنے کی گنجائش نہیں پاتا، تاہم وہ صرف اس ليے اس کا ساتھ دینا نہیں چاہتا کہ اس میں معمولی قسم کے لوگ جمع ہیں۔ اس کو یہ امید نہیں کہ اس کے حلقہ میں شامل ہونے کے بعد اس کو کوئی بڑا مقام حاصل ہوسکے گا۔