🕋 تفسير سورة الزمر
(Az-Zumar) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ
📘 قرآن حقیقتِ واقعہ کا خدائی بیان ہے۔ اس کا حکیمانہ اسلوب اور ا س کے غیر معمولی طورپر پختہ مضامین اس بات کا داخلی ثبوت ہیں کہ یہ واقعۃً خدا ہی کی طرف سے ہے۔ کوئی انسان اس قسم کا غیر معمولی کلام پیش کرنے پر قادر نہیں۔
دین کو اللہ کےلیے خالص کرنے کا مطلب ہے عبادت کو اللہ کےلیے خالص کرنا۔ یعنی یہ کہ تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اپنی عبادت کو اسی کےلیے خالص کرتے ہوئے (ای فاعبد اللہ وحدہ مخلصاً لہ فی عبادتک)، صفوۃ التفاسیر، جلد 3، صفحہ
64
۔
ہر انسان کے اندر پر اسرار طور پر عبادت کا جذبہ موجود ہے۔ یعنی کسی کو بڑا تصور کرکے اس کےلیے استعجاب (Awe)کا احساس پیدا ہونا جس ہستی کے بارے میں آدمی کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے اس کو وہ سب سے زیادہ مقدس سمجھتا ہے۔ اس کے آگے اس کی پوری ہستی جھک جاتی ہے۔ اس کی جناب میں وہ غیر معمولی قسم کے احترام وآداب کا اظہار کرتاہے۔ اس سے وہ سب سے زیادہ ڈرتاہے اور اسی سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس کی یاد سے اس کی روح کو لذت ملتی ہے۔ وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا بن جاتاہے۔
اسی کانام عبادت (یا پرستش) ہے۔ اور یہ عبادت صرف ایک خدا کا حق ہے۔ مگر انسان ایسا کرتاہے کہ وہ خدا کو مانتے ہوئے عبادت میں غیر خدا کو شریک کرتاہے۔ وہ غیر خدا کےلیے عبادتی افعال انجام دیتاہے۔ یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدائی ناقابل تقسیم ہے اسی طرح عبادت کی بھی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔
قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ
📘 آدمی کو جب اللہ کی گہری معرفت حاصل ہوتی ہے تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اللہ سے ڈرنے والا بن جاتاہے۔ اللہ کی عظمتوں کا ادراک اس کو اللہ کے آگے پست کردیتاہے۔ اس کی عملی زندگی اللہ کے احکام کی پابندی میں گزرنے لگتی ہے۔ وہ اس معاملہ میں اس حد تک سنجیدہ ہوجاتا ہے کہ وه سب کچھ چھوڑ دے مگر اللہ کو نہ چھوڑے۔
ایمان کے اوپر زندگی کی تعمیر کرنا آدمی کےلیے زبردست امتحان ہے۔ اس امتحان میں وہی لوگ پورے اترتے ہیں جن کےلیے ایمان اتنی قیمتی دولت ہو کہ اس کی خاطر وہ ہر دوسری چیز پر صبر کرنے کےلیے راضی ہوجائیں۔ ایمانی زندگی عمل کے اعتبار سے صبر والی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ جو لوگ صبر کی قیمت پر مومن بننے کےلیے تیار ہوں وہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے اعلیٰ انعامات میں حصہ دار بنائے جائیں گے۔
قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ
📘 پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔
پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔
وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ الْمُسْلِمِينَ
📘 پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔
پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔
قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
📘 پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔
پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔
قُلِ اللَّهَ أَعْبُدُ مُخْلِصًا لَهُ دِينِي
📘 پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔
پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ ۗ قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ أَلَا ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
📘 پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔
پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔
لَهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِهِمْ ظُلَلٌ ۚ ذَٰلِكَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ ۚ يَا عِبَادِ فَاتَّقُونِ
📘 پیغمبر کی اصل دعوت یہ ہوتی ہے کہ لوگ صرف ایک خدا کے پرستار بنیں۔ اس کے سوا دوسری تمام چیزوں کی پرستاری چھوڑدیں۔ پیغمبر کےلیے یہ معروف معنوں میں صرف قیادتی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا ذاتی مسئلہ ہوتا ہے۔ اس ليے وہ سب سے پہلے خود اس پر قائم ہوتاہے۔ پیغمبر کو یقین ہوتا ہے کہ آدمی کے نفع اور نقصان کا اصل فیصلہ آخرت میں ہونے والا ہے۔ اس ليے وہ خود اپنی زندگی کو آخرت کی راہ میں لگاتا ہے اور دوسروں کو اس کی طرف لگنے کی دعوت دیتا ہے۔
پیغمبر کے کام کی یہ نوعیت داعی کے کام کی نوعیت کو بتا رہی ہے۔ حق کا داعی وہی شخص ہے جس کےلیے حق اس کا ذاتی مسئلہ بن جائے۔ جس کی دعوت اس کی اندرونی حالت کا ایک بے تابانہ اظہار ہو، نہ کہ لاؤڈاسپیکر کی طرح صرف ایک خارجی پکار۔
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَىٰ ۚ فَبَشِّرْ عِبَادِ
📘 موجودہ دنیا فتنہ کی دنیا ہے۔ یہاں حقیقتیں اپنی آخری بے نقاب شکل میں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر بات کو غلط معنی پہنایا جاسکتاہے۔ شیطان اسی امکان کو استعمال کرکے لوگوں کو راہ راست سے بھٹکاتا ہے۔
جب بھی کوئی حق سامنے آتا ہے تو شیطان اس کو غلط معنی پہنا کر لوگوں کے ذہن کو پھیرنے کی کوشش کرتاہے۔ وہ قول کے احسن پہلو سے ہٹا کر قول کے غیر احسن پہلو کو لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا اصل امتحان ہے۔ آدمی کو اس عقل کا ثبوت دینا ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرے۔ وہ شیطانی فریب کاپردہ پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ جو لوگ اس بصیرت کا ثبوت دیں وہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو خدائی سچائی کو پائیں گے اور جو لوگ اس بصیرت کا ثبوت دینے میں ناکام رہیں، ان کےلیے اس دنیا میں اس کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں کہ وہ قول کے غیر احسن پہلوؤں میں الجھے رہیں اور خدا کے یہاں شیطان کے پرستار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں۔
الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ
📘 موجودہ دنیا فتنہ کی دنیا ہے۔ یہاں حقیقتیں اپنی آخری بے نقاب شکل میں ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہر بات کو غلط معنی پہنایا جاسکتاہے۔ شیطان اسی امکان کو استعمال کرکے لوگوں کو راہ راست سے بھٹکاتا ہے۔
جب بھی کوئی حق سامنے آتا ہے تو شیطان اس کو غلط معنی پہنا کر لوگوں کے ذہن کو پھیرنے کی کوشش کرتاہے۔ وہ قول کے احسن پہلو سے ہٹا کر قول کے غیر احسن پہلو کو لوگوں کے سامنے لاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا اصل امتحان ہے۔ آدمی کو اس عقل کا ثبوت دینا ہے کہ وہ صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرے۔ وہ شیطانی فریب کاپردہ پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ جو لوگ اس بصیرت کا ثبوت دیں وہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو خدائی سچائی کو پائیں گے اور جو لوگ اس بصیرت کا ثبوت دینے میں ناکام رہیں، ان کےلیے اس دنیا میں اس کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں کہ وہ قول کے غیر احسن پہلوؤں میں الجھے رہیں اور خدا کے یہاں شیطان کے پرستار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں۔
أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ الْعَذَابِ أَفَأَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِي النَّارِ
📘 ہر آدمی اپنے اعمال کے انجام کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ جنت والے کو جنتی فضا گھیرے ہوئے ہے اور جہنم والے کو جہنمی فضا گھیرے ہوئے ہے۔ غیر مرئی حقیقتوں کو دیکھنے والی نگاہ ہو تو لوگ جنت والے انسان کو اسی دنیا میں جنت میں دیکھیں اور جہنم والے انسان کو اسی دنیا میں جہنم میں گھرا ہوا پائیں۔
جنت آرزوؤں کی اس دنیا کی آخری معیاری صورت ہے جس کو آدمی دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے مگر وہ اس کو حاصل نہیں کرپاتا۔ اس جنت کی قیمت اللہ کا تقویٰ ہے۔ جو لوگ دنیا میں خوفِ خدا کا ثبوت دیں گے وہی جنت کی بے خوف زندگی کے مالک بنیں گے۔
إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ
📘 قرآن حقیقتِ واقعہ کا خدائی بیان ہے۔ اس کا حکیمانہ اسلوب اور ا س کے غیر معمولی طورپر پختہ مضامین اس بات کا داخلی ثبوت ہیں کہ یہ واقعۃً خدا ہی کی طرف سے ہے۔ کوئی انسان اس قسم کا غیر معمولی کلام پیش کرنے پر قادر نہیں۔
دین کو اللہ کےلیے خالص کرنے کا مطلب ہے عبادت کو اللہ کےلیے خالص کرنا۔ یعنی یہ کہ تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اپنی عبادت کو اسی کےلیے خالص کرتے ہوئے (ای فاعبد اللہ وحدہ مخلصاً لہ فی عبادتک)، صفوۃ التفاسیر، جلد 3، صفحہ
64
۔
ہر انسان کے اندر پر اسرار طور پر عبادت کا جذبہ موجود ہے۔ یعنی کسی کو بڑا تصور کرکے اس کےلیے استعجاب (Awe)کا احساس پیدا ہونا جس ہستی کے بارے میں آدمی کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے اس کو وہ سب سے زیادہ مقدس سمجھتا ہے۔ اس کے آگے اس کی پوری ہستی جھک جاتی ہے۔ اس کی جناب میں وہ غیر معمولی قسم کے احترام وآداب کا اظہار کرتاہے۔ اس سے وہ سب سے زیادہ ڈرتاہے اور اسی سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس کی یاد سے اس کی روح کو لذت ملتی ہے۔ وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا بن جاتاہے۔
اسی کانام عبادت (یا پرستش) ہے۔ اور یہ عبادت صرف ایک خدا کا حق ہے۔ مگر انسان ایسا کرتاہے کہ وہ خدا کو مانتے ہوئے عبادت میں غیر خدا کو شریک کرتاہے۔ وہ غیر خدا کےلیے عبادتی افعال انجام دیتاہے۔ یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدائی ناقابل تقسیم ہے اسی طرح عبادت کی بھی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔
لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ الْمِيعَادَ
📘 ہر آدمی اپنے اعمال کے انجام کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ جنت والے کو جنتی فضا گھیرے ہوئے ہے اور جہنم والے کو جہنمی فضا گھیرے ہوئے ہے۔ غیر مرئی حقیقتوں کو دیکھنے والی نگاہ ہو تو لوگ جنت والے انسان کو اسی دنیا میں جنت میں دیکھیں اور جہنم والے انسان کو اسی دنیا میں جہنم میں گھرا ہوا پائیں۔
جنت آرزوؤں کی اس دنیا کی آخری معیاری صورت ہے جس کو آدمی دنیا میں حاصل کرنا چاہتا ہے مگر وہ اس کو حاصل نہیں کرپاتا۔ اس جنت کی قیمت اللہ کا تقویٰ ہے۔ جو لوگ دنیا میں خوفِ خدا کا ثبوت دیں گے وہی جنت کی بے خوف زندگی کے مالک بنیں گے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ
📘 زمین پر بارش کا حیرت انگیز نظام، پھر اس سے سبزہ کا اگنا، پھر فصل کی تیاری، ان مادی واقعات میں بے شمار معنوی نصیحتیں ہیں۔ مگر ان نصیحتوں کو وہی لوگ پاتے ہیں جو باتوں کی گہرائی میں اترنے کا مزاج رکھتے ہوں۔
ایک طرف اللہ نے خارجی دنیا کو اس ڈھنگ پر بنایا کہ اس کی ہر چیز حقیقتِ اعلیٰ کی نشانی بن گئی۔ دوسری طرف انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں رکھ دیں کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھے او ران کو سمجھ سکے۔ اب جو لوگ اپنی فطری صلاحیتوں کو زندہ رکھیں اور ان سے کام لے کر دنیا کی چیزوں پر غور کریں، ان کے سینے میں معرفت کے دروازے کھل جائیں گے۔ اور جو لوگ اپنی فطری صلاحیتوں کو زندہ نہ رکھ سکیں وہ نصیحتوں کے ہجوم میں بھی نصیحت لینے سے محروم رہیںگے۔ وہ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھیں گے اور سن کر بھی کچھ نہ سنیںگے۔
أَفَمَنْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِنْ رَبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ أُولَٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ
📘 زمین پر بارش کا حیرت انگیز نظام، پھر اس سے سبزہ کا اگنا، پھر فصل کی تیاری، ان مادی واقعات میں بے شمار معنوی نصیحتیں ہیں۔ مگر ان نصیحتوں کو وہی لوگ پاتے ہیں جو باتوں کی گہرائی میں اترنے کا مزاج رکھتے ہوں۔
ایک طرف اللہ نے خارجی دنیا کو اس ڈھنگ پر بنایا کہ اس کی ہر چیز حقیقتِ اعلیٰ کی نشانی بن گئی۔ دوسری طرف انسان کے اندر ایسی صلاحیتیں رکھ دیں کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھے او ران کو سمجھ سکے۔ اب جو لوگ اپنی فطری صلاحیتوں کو زندہ رکھیں اور ان سے کام لے کر دنیا کی چیزوں پر غور کریں، ان کے سینے میں معرفت کے دروازے کھل جائیں گے۔ اور جو لوگ اپنی فطری صلاحیتوں کو زندہ نہ رکھ سکیں وہ نصیحتوں کے ہجوم میں بھی نصیحت لینے سے محروم رہیںگے۔ وہ دیکھ کر بھی کچھ نہ دیکھیں گے اور سن کر بھی کچھ نہ سنیںگے۔
اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
📘 قرآن کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہترین کتاب انسان کو عطا کی ہے۔ اس کی دو خاص صفتیں ہیں۔ ایک یہ کہ وہ متشابہ (ملتی جلتی) ہے۔ یعنی وہ ایک بے تضاد کتاب ہے۔ اس کے ایک جزء اور اس کے دوسرے جزء میں کوئی ٹکراؤ نہیں۔ قرآن کی یہ صفت بتاتی ہے کہ یہ کتاب بیانِ حقیقت پر مبنی ہے۔ اگر اس کے بیانات عین حقیقت نہ ہوتے تو ضرور اس کے مختلف اجزاء کے درمیان اختلاف اور عدم یکسانیت (inconsistency) پیدا ہوجاتی۔
قرآن کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ مثانی (دہرائی ہوئی) کتاب ہے یعنی اس کے مضامین بار بار مختلف پیرایوں سے دہرائے گئے ہیں۔ قرآن کی یہ صفت اس کے کتابِ نصیحت ہونے کو بتاتی ہے۔ نصیحت کرنے والا ہمیشہ یہ چاہتاہے کہ اس کی بات سننے والے کے ذہن میں بیٹھ جائے۔ اس مقصد کےلیے وہ اپنی بات کو مختلف انداز سے بیان کرتاہے۔ یہی حکمت اعلیٰ ترین انداز میں قرآن میں بھی ہے۔
انسان کے اندر یہ خصوصیت ہے کہ جب وہ کوئی دہشت ناک خبر سنتاہے تو اس کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس کے وجود میں ایک قسم کی عاجزانہ نرمی پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی حال سنجیدہ انسان کا قرآن کو پڑھ کر ہوتاہے۔ قرآن میں زندگی کی سنگین حقیقتوں کو انتہائی موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس ليے انسان جیسی مخلوق اگر واقعۃً اس کو سمجھ کر پڑھے تو اس کے جسم کے اوپر وہی کیفیت طاری ہوگی جو کسی سنگین خبر کو سن کر فطری طورپر اس کے اوپر طاری ہونا چاہيے۔
أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَقِيلَ لِلظَّالِمِينَ ذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ
📘 آدمی کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے چہرہ کو چوٹ سے بچائے۔ مگر قیامت کا عذاب آدمی کو اس طرح گھیرے ہوئے ہوگا کہ وہاں یہ ممکن نه ہوگا کہ آدمی اپنے جسم کے کسی حصہ کو اس کی زد میں آنے سے روک سکے۔ وہ ناقابلِ دفاع عذاب کے سامنے اس طرح کھڑا ہوا ہوگا گویا وہ خود اپنے چہرہ کو اس کے مقابلہ میں سپر بنائے ہوئے ہے۔
اللہ کی نظر میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ آدمی کے سامنے حق آئے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ ایسے لوگ کسی حال میں خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
📘 آدمی کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے چہرہ کو چوٹ سے بچائے۔ مگر قیامت کا عذاب آدمی کو اس طرح گھیرے ہوئے ہوگا کہ وہاں یہ ممکن نه ہوگا کہ آدمی اپنے جسم کے کسی حصہ کو اس کی زد میں آنے سے روک سکے۔ وہ ناقابلِ دفاع عذاب کے سامنے اس طرح کھڑا ہوا ہوگا گویا وہ خود اپنے چہرہ کو اس کے مقابلہ میں سپر بنائے ہوئے ہے۔
اللہ کی نظر میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ آدمی کے سامنے حق آئے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ ایسے لوگ کسی حال میں خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
فَأَذَاقَهُمُ اللَّهُ الْخِزْيَ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
📘 آدمی کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے چہرہ کو چوٹ سے بچائے۔ مگر قیامت کا عذاب آدمی کو اس طرح گھیرے ہوئے ہوگا کہ وہاں یہ ممکن نه ہوگا کہ آدمی اپنے جسم کے کسی حصہ کو اس کی زد میں آنے سے روک سکے۔ وہ ناقابلِ دفاع عذاب کے سامنے اس طرح کھڑا ہوا ہوگا گویا وہ خود اپنے چہرہ کو اس کے مقابلہ میں سپر بنائے ہوئے ہے۔
اللہ کی نظر میں سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ آدمی کے سامنے حق آئے اور وہ اس کا اعتراف نہ کرے۔ ایسے لوگ کسی حال میں خدا کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔
وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَٰذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
📘 قرآن کے بیانات انسان کی معلوم زبان اور انسان کے معلوم دائرہ کے اندر ہوتے ہیں تاکہ کسی کےلیے اس کا سمجھنا مشکل نہ ہو۔
یہاں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ شرک کے مقابلہ میں توحید کا اصول زیادہ معقول اور زیادہ مطابقِ فطرت ہے۔ ایک طرف خارجی کائنات بتاتی ہے کہ یہاں ایک ہی ارادہ کی کارفرمائی ہے۔ اگر یہاں کئی ارادوں کی کارفرمائی ہوتی تو کائنات کا نظام اس قدر ہم آہنگی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ دوسری طرف انسان کی ساخت بھی ایسی ہے جو وفاداری میں وحدت کو پسند کرتی ہے۔ یہ بات انسانی ساخت کے سراسر خلاف ہے کہ ایک انسان پر بیک وقت کئی مختلف قسم کی وفاداریوں کی ذمہ داری ہو اور نتیجۃً وہ ایک کو بھی نباہ نہ سکے۔
تمام دلائل وقرائن یہی بتاتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہے جو انسان کا خالق اور اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ حقیقت اپنے جیسے انسان کی زبان سے سنائی جاتی ہے۔ قیامت میں خود خالق کائنات اس حقیقت کا اعلان فرمائے گا۔ اس وقت کسی شخص کےلیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اس امر کا انکار کرسکے۔
قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
📘 قرآن کے بیانات انسان کی معلوم زبان اور انسان کے معلوم دائرہ کے اندر ہوتے ہیں تاکہ کسی کےلیے اس کا سمجھنا مشکل نہ ہو۔
یہاں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ شرک کے مقابلہ میں توحید کا اصول زیادہ معقول اور زیادہ مطابقِ فطرت ہے۔ ایک طرف خارجی کائنات بتاتی ہے کہ یہاں ایک ہی ارادہ کی کارفرمائی ہے۔ اگر یہاں کئی ارادوں کی کارفرمائی ہوتی تو کائنات کا نظام اس قدر ہم آہنگی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ دوسری طرف انسان کی ساخت بھی ایسی ہے جو وفاداری میں وحدت کو پسند کرتی ہے۔ یہ بات انسانی ساخت کے سراسر خلاف ہے کہ ایک انسان پر بیک وقت کئی مختلف قسم کی وفاداریوں کی ذمہ داری ہو اور نتیجۃً وہ ایک کو بھی نباہ نہ سکے۔
تمام دلائل وقرائن یہی بتاتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہے جو انسان کا خالق اور اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ حقیقت اپنے جیسے انسان کی زبان سے سنائی جاتی ہے۔ قیامت میں خود خالق کائنات اس حقیقت کا اعلان فرمائے گا۔ اس وقت کسی شخص کےلیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اس امر کا انکار کرسکے۔
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 قرآن کے بیانات انسان کی معلوم زبان اور انسان کے معلوم دائرہ کے اندر ہوتے ہیں تاکہ کسی کےلیے اس کا سمجھنا مشکل نہ ہو۔
یہاں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ شرک کے مقابلہ میں توحید کا اصول زیادہ معقول اور زیادہ مطابقِ فطرت ہے۔ ایک طرف خارجی کائنات بتاتی ہے کہ یہاں ایک ہی ارادہ کی کارفرمائی ہے۔ اگر یہاں کئی ارادوں کی کارفرمائی ہوتی تو کائنات کا نظام اس قدر ہم آہنگی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ دوسری طرف انسان کی ساخت بھی ایسی ہے جو وفاداری میں وحدت کو پسند کرتی ہے۔ یہ بات انسانی ساخت کے سراسر خلاف ہے کہ ایک انسان پر بیک وقت کئی مختلف قسم کی وفاداریوں کی ذمہ داری ہو اور نتیجۃً وہ ایک کو بھی نباہ نہ سکے۔
تمام دلائل وقرائن یہی بتاتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہے جو انسان کا خالق اور اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ حقیقت اپنے جیسے انسان کی زبان سے سنائی جاتی ہے۔ قیامت میں خود خالق کائنات اس حقیقت کا اعلان فرمائے گا۔ اس وقت کسی شخص کےلیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اس امر کا انکار کرسکے۔
أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ۚ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ
📘 قرآن حقیقتِ واقعہ کا خدائی بیان ہے۔ اس کا حکیمانہ اسلوب اور ا س کے غیر معمولی طورپر پختہ مضامین اس بات کا داخلی ثبوت ہیں کہ یہ واقعۃً خدا ہی کی طرف سے ہے۔ کوئی انسان اس قسم کا غیر معمولی کلام پیش کرنے پر قادر نہیں۔
دین کو اللہ کےلیے خالص کرنے کا مطلب ہے عبادت کو اللہ کےلیے خالص کرنا۔ یعنی یہ کہ تم صرف ایک اللہ کی عبادت کرو، اپنی عبادت کو اسی کےلیے خالص کرتے ہوئے (ای فاعبد اللہ وحدہ مخلصاً لہ فی عبادتک)، صفوۃ التفاسیر، جلد 3، صفحہ
64
۔
ہر انسان کے اندر پر اسرار طور پر عبادت کا جذبہ موجود ہے۔ یعنی کسی کو بڑا تصور کرکے اس کےلیے استعجاب (Awe)کا احساس پیدا ہونا جس ہستی کے بارے میں آدمی کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے اس کو وہ سب سے زیادہ مقدس سمجھتا ہے۔ اس کے آگے اس کی پوری ہستی جھک جاتی ہے۔ اس کی جناب میں وہ غیر معمولی قسم کے احترام وآداب کا اظہار کرتاہے۔ اس سے وہ سب سے زیادہ ڈرتاہے اور اسی سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے۔ اس کی یاد سے اس کی روح کو لذت ملتی ہے۔ وہی اس کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا بن جاتاہے۔
اسی کانام عبادت (یا پرستش) ہے۔ اور یہ عبادت صرف ایک خدا کا حق ہے۔ مگر انسان ایسا کرتاہے کہ وہ خدا کو مانتے ہوئے عبادت میں غیر خدا کو شریک کرتاہے۔ وہ غیر خدا کےلیے عبادتی افعال انجام دیتاہے۔ یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدائی ناقابل تقسیم ہے اسی طرح عبادت کی بھی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ
📘 قرآن کے بیانات انسان کی معلوم زبان اور انسان کے معلوم دائرہ کے اندر ہوتے ہیں تاکہ کسی کےلیے اس کا سمجھنا مشکل نہ ہو۔
یہاں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ شرک کے مقابلہ میں توحید کا اصول زیادہ معقول اور زیادہ مطابقِ فطرت ہے۔ ایک طرف خارجی کائنات بتاتی ہے کہ یہاں ایک ہی ارادہ کی کارفرمائی ہے۔ اگر یہاں کئی ارادوں کی کارفرمائی ہوتی تو کائنات کا نظام اس قدر ہم آہنگی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ دوسری طرف انسان کی ساخت بھی ایسی ہے جو وفاداری میں وحدت کو پسند کرتی ہے۔ یہ بات انسانی ساخت کے سراسر خلاف ہے کہ ایک انسان پر بیک وقت کئی مختلف قسم کی وفاداریوں کی ذمہ داری ہو اور نتیجۃً وہ ایک کو بھی نباہ نہ سکے۔
تمام دلائل وقرائن یہی بتاتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہے جو انسان کا خالق اور اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ حقیقت اپنے جیسے انسان کی زبان سے سنائی جاتی ہے۔ قیامت میں خود خالق کائنات اس حقیقت کا اعلان فرمائے گا۔ اس وقت کسی شخص کےلیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اس امر کا انکار کرسکے۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عِنْدَ رَبِّكُمْ تَخْتَصِمُونَ
📘 قرآن کے بیانات انسان کی معلوم زبان اور انسان کے معلوم دائرہ کے اندر ہوتے ہیں تاکہ کسی کےلیے اس کا سمجھنا مشکل نہ ہو۔
یہاں تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ شرک کے مقابلہ میں توحید کا اصول زیادہ معقول اور زیادہ مطابقِ فطرت ہے۔ ایک طرف خارجی کائنات بتاتی ہے کہ یہاں ایک ہی ارادہ کی کارفرمائی ہے۔ اگر یہاں کئی ارادوں کی کارفرمائی ہوتی تو کائنات کا نظام اس قدر ہم آہنگی کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔ دوسری طرف انسان کی ساخت بھی ایسی ہے جو وفاداری میں وحدت کو پسند کرتی ہے۔ یہ بات انسانی ساخت کے سراسر خلاف ہے کہ ایک انسان پر بیک وقت کئی مختلف قسم کی وفاداریوں کی ذمہ داری ہو اور نتیجۃً وہ ایک کو بھی نباہ نہ سکے۔
تمام دلائل وقرائن یہی بتاتے ہیں کہ صرف ایک خدا ہے جو انسان کا خالق اور اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں یہ حقیقت اپنے جیسے انسان کی زبان سے سنائی جاتی ہے۔ قیامت میں خود خالق کائنات اس حقیقت کا اعلان فرمائے گا۔ اس وقت کسی شخص کےلیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ وہ اس امر کا انکار کرسکے۔
۞ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللَّهِ وَكَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْكَافِرِينَ
📘 ہر وہ نظریہ جومطابقِ حقیقت نہ ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ ہر دور میں لوگ اسی قسم کے جھوٹ پر جی رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کا داعی اس ليے اٹھتا ہے کہ وہ ایسے جھوٹ کا جھوٹ ہونا ثابت کرے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے جھوٹ پر قائم رہیں وہ ڈھٹائی کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ اور جو لوگ رجوع کرکے حق کے ساتھی بن جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیوں کو ان کے اعمال سے حذف کردے گا اور ان کے نیک اعمال کی بناپر ان کی قدر دانی فرمائے گا۔
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
📘 ہر وہ نظریہ جومطابقِ حقیقت نہ ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ ہر دور میں لوگ اسی قسم کے جھوٹ پر جی رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کا داعی اس ليے اٹھتا ہے کہ وہ ایسے جھوٹ کا جھوٹ ہونا ثابت کرے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے جھوٹ پر قائم رہیں وہ ڈھٹائی کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ اور جو لوگ رجوع کرکے حق کے ساتھی بن جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیوں کو ان کے اعمال سے حذف کردے گا اور ان کے نیک اعمال کی بناپر ان کی قدر دانی فرمائے گا۔
لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ ذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ
📘 ہر وہ نظریہ جومطابقِ حقیقت نہ ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ ہر دور میں لوگ اسی قسم کے جھوٹ پر جی رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کا داعی اس ليے اٹھتا ہے کہ وہ ایسے جھوٹ کا جھوٹ ہونا ثابت کرے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے جھوٹ پر قائم رہیں وہ ڈھٹائی کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ اور جو لوگ رجوع کرکے حق کے ساتھی بن جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیوں کو ان کے اعمال سے حذف کردے گا اور ان کے نیک اعمال کی بناپر ان کی قدر دانی فرمائے گا۔
لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا وَيَجْزِيَهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 ہر وہ نظریہ جومطابقِ حقیقت نہ ہو وہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ہے۔ ہر دور میں لوگ اسی قسم کے جھوٹ پر جی رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کا داعی اس ليے اٹھتا ہے کہ وہ ایسے جھوٹ کا جھوٹ ہونا ثابت کرے۔ اس کے بعد بھی جو لوگ اپنے جھوٹ پر قائم رہیں وہ ڈھٹائی کرنے والے لوگ ہیں۔ وہ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ اور جو لوگ رجوع کرکے حق کے ساتھی بن جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرنے والے ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی برائیوں کو ان کے اعمال سے حذف کردے گا اور ان کے نیک اعمال کی بناپر ان کی قدر دانی فرمائے گا۔
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ ۚ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کے داعی تھے۔ مگر آپ کا طریقہ یہ نہ تھا کہ ’’خدا ایک ہے‘‘کے مثبت اعلان پر اکتفافرمائیں۔ اسی کے ساتھ آپ ان غیر خدائی ہستیوں کی تردید بھی فرماتے تھے جن کو لوگوں نے بطور خود معبود کا درجہ دے رکھا تھا۔ آپ کی دعوت کا یہی دوسرا جزء لوگوں کےلیے ناقابل برداشت بن گیا۔
یہ غیر خدائی ہستیاں دراصل ان کے قومی اکابر تھے۔ صدیوں سے وہ ان کی کرامت کی مبالغہ آمیز داستانیں سنتے آرہے تھے۔ ان کے ذہن پر ان ہستیوں کی عظمت اس طرح چھا گئی تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تقدس کی تردید فرمائی تو ان کی سمجھ میں کسی طرح نہ آیا کہ وہ غیر مقدس کیسے ہوسکتے ہیں۔ انھوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو ورنہ تم تباہ ہوجاؤ گے۔ یا تم کو جنون ہو جائے گا (لَتَكُفَّنَّ عَنْ شَتْمِ آلِهَتِنَا أَوْ لَيُصِيبَنَّكَ مِنْهُمْ خَبَلٌ أَوْ جُنُونٌ) تفسیرالبغوی، جلد4، صفحہ 90۔
مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ اس قسم کی باتوں کی پروا نہ کرے۔ وہ اللہ کے بھروسے پر اثباتِ توحید اور تردیدِ شرک کا دو گونہ کام جاری رکھے۔ کیوں کہ اس کے بغیر امر حق پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا۔
وَمَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُضِلٍّ ۗ أَلَيْسَ اللَّهُ بِعَزِيزٍ ذِي انْتِقَامٍ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید کے داعی تھے۔ مگر آپ کا طریقہ یہ نہ تھا کہ ’’خدا ایک ہے‘‘کے مثبت اعلان پر اکتفافرمائیں۔ اسی کے ساتھ آپ ان غیر خدائی ہستیوں کی تردید بھی فرماتے تھے جن کو لوگوں نے بطور خود معبود کا درجہ دے رکھا تھا۔ آپ کی دعوت کا یہی دوسرا جزء لوگوں کےلیے ناقابل برداشت بن گیا۔
یہ غیر خدائی ہستیاں دراصل ان کے قومی اکابر تھے۔ صدیوں سے وہ ان کی کرامت کی مبالغہ آمیز داستانیں سنتے آرہے تھے۔ ان کے ذہن پر ان ہستیوں کی عظمت اس طرح چھا گئی تھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تقدس کی تردید فرمائی تو ان کی سمجھ میں کسی طرح نہ آیا کہ وہ غیر مقدس کیسے ہوسکتے ہیں۔ انھوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ تم ہمارے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دو ورنہ تم تباہ ہوجاؤ گے۔ یا تم کو جنون ہو جائے گا (لَتَكُفَّنَّ عَنْ شَتْمِ آلِهَتِنَا أَوْ لَيُصِيبَنَّكَ مِنْهُمْ خَبَلٌ أَوْ جُنُونٌ) تفسیرالبغوی، جلد4، صفحہ 90۔
مگر حق کے داعی کو حکم ہے کہ وہ اس قسم کی باتوں کی پروا نہ کرے۔ وہ اللہ کے بھروسے پر اثباتِ توحید اور تردیدِ شرک کا دو گونہ کام جاری رکھے۔ کیوں کہ اس کے بغیر امر حق پوری طرح واضح نہیں ہوسکتا۔
وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ ۚ قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ ۚ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ ۖ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ
📘 انسان ہر دور میں غیر اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا کہ اس کی انھیں پسندیدہ ہستیوں نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ یا تکلیف اور آرام کے واقعات کے حقیقی اسباب ان کے اختیار میں ہیں۔ اس بے یقینی کے باوجود لوگوں کا یہ یقین بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔
جب داعی کی دلیلیں مدعو پر بے اثر ثابت ہوں تو اس وقت اس کے پاس کہنے کی جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ — تم جو چاہے کرو، جب آخری فیصلے کا دن آئے گا تو وہ بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔ یہ دلیل کے بعد یقین کا اظہار ہے، اور داعی کا آخری کلمه ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوا عَلَىٰ مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
📘 انسان ہر دور میں غیر اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا کہ اس کی انھیں پسندیدہ ہستیوں نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ یا تکلیف اور آرام کے واقعات کے حقیقی اسباب ان کے اختیار میں ہیں۔ اس بے یقینی کے باوجود لوگوں کا یہ یقین بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔
جب داعی کی دلیلیں مدعو پر بے اثر ثابت ہوں تو اس وقت اس کے پاس کہنے کی جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ — تم جو چاہے کرو، جب آخری فیصلے کا دن آئے گا تو وہ بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔ یہ دلیل کے بعد یقین کا اظہار ہے، اور داعی کا آخری کلمه ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
لَوْ أَرَادَ اللَّهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا لَاصْطَفَىٰ مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ
📘 آدمی کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ ہے کہ وہ خدا کی طرف لپکے، وہ خدا کی پرستش کرے۔شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس جذبہ کو خدا کی طرف سے ہٹا کر دوسری طرف موڑ دے۔ اس کےلیے وہ لوگوں کے ذہن میں ڈالتاہے کہ خدا کی بارگاہ اونچی ہے، تم براہ راست خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس ليے تم کو بزرگوں کے وسیلہ سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہيے۔ اسی طرح وہ لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بٹھاتا ہے کہ جس طرح انسانوں کی اولاد ہوتی ہے اسی طرح خدا کی بھی اولاد ہے۔ اور خدا کو خوش رکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تم خدا کی اولاد کو خوش رکھو۔ جدید مادہ پرستی بھی اسی کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے جس نے آدمی کے جذبہ پرستش کو خالق سے ہٹا کر مخلوق کی طرف کردیا ہے۔
اس قسم کی تمام باتیں خدا کی تصغیر ہیں۔ جو خدا شمسی نظام کو چلا رہا ہے اور جس نے عظیم کائنات کو سنبھال رکھا ہے وہ یقینا اس سے بلند ہے کہ اس کے یہاں کسی کی سفارش چلے یا اس کے بیٹے بیٹیاں ہوں۔
مَنْ يَأْتِيهِ عَذَابٌ يُخْزِيهِ وَيَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُقِيمٌ
📘 انسان ہر دور میں غیر اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا کہ اس کی انھیں پسندیدہ ہستیوں نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ یا تکلیف اور آرام کے واقعات کے حقیقی اسباب ان کے اختیار میں ہیں۔ اس بے یقینی کے باوجود لوگوں کا یہ یقین بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔
جب داعی کی دلیلیں مدعو پر بے اثر ثابت ہوں تو اس وقت اس کے پاس کہنے کی جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ — تم جو چاہے کرو، جب آخری فیصلے کا دن آئے گا تو وہ بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔ یہ دلیل کے بعد یقین کا اظہار ہے، اور داعی کا آخری کلمه ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
إِنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ
📘 انسان ہر دور میں غیر اللہ کی عبادت کرتا رہا ہے۔ مگر کوئی شخص یہ کہنے کی ہمت نہیں کرتا کہ اس کی انھیں پسندیدہ ہستیوں نے زمین وآسمان کو بنایا ہے۔ یا تکلیف اور آرام کے واقعات کے حقیقی اسباب ان کے اختیار میں ہیں۔ اس بے یقینی کے باوجود لوگوں کا یہ یقین بڑا عجیب ہے کہ وہ اپنے جھوٹے معبودوں کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔
جب داعی کی دلیلیں مدعو پر بے اثر ثابت ہوں تو اس وقت اس کے پاس کہنے کی جو بات ہوتی ہے وہ یہ کہ — تم جو چاہے کرو، جب آخری فیصلے کا دن آئے گا تو وہ بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔ یہ دلیل کے بعد یقین کا اظہار ہے، اور داعی کا آخری کلمه ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
📘 نیند کے وقت آدمی پر بے خبری کی حالت طاری ہوجاتی ہے۔ اس اعتبار سے نیند گویا موت کے مشابہ ہے۔ پھر جب آدمی سو کر اٹھتا ہے تو دوبارہ وہ ہوش کی حالت میں آجاتا ہے۔ یہ گویا موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کی تصویر ہے۔
اس قانونِ فطرت کے تحت ہر آدمی کو آج ہی ابتدائی سطح پر دکھایا جارہا ہے کہ وہ کس طرح مرے گا اور کس طرح وہ دوبارہ اٹھ کھڑا ہوگا۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ اسی دنیوی واقعہ میں اپنے ليے آخرت کا سبق پالے گا۔
أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ شُفَعَاءَ ۚ قُلْ أَوَلَوْ كَانُوا لَا يَمْلِكُونَ شَيْئًا وَلَا يَعْقِلُونَ
📘 عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔
جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔
ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔
قُلْ لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا ۖ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔
جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔
ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
📘 عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔
جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔
ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔
قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
📘 عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔
جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔
ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔
وَلَوْ أَنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لَافْتَدَوْا بِهِ مِنْ سُوءِ الْعَذَابِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ وَبَدَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ
📘 عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔
جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔
ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔
وَبَدَا لَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
📘 عرب کے مشرکین جن کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ خدا کے یہاں وہ ان کی شفاعت کرنے والے بن جائیں گے وہ حقیقۃً پتھر کے بت نہ تھے۔ یہ وہ بزرگ ہستیاں تھیں جن کی علامت کے طور پر انھوںنے پتھر کے بت بنا رکھے تھے۔ ان کے شفعاء دراصل ان کے قومی اکابر تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ ان کا دامن پکڑے رہو، وہ خدا کے یہاں تمھارے ليے کافی ہوجائیںگے۔
جو لوگ غیر اللہ کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ بنائیں، دھیرے دھیرے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ ان کی ساری عقیدتیں اور شیفتگیاں ان ہی غیر خدائی شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہیں۔ ان شخصیتوں کی بڑائی کا چرچا کیا جائے تو اس کو سن کر وہ خوب خوش ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ایک خدا کی بڑائی بیان کی جائے تو ان کی روح کو اس سے کوئی غذا نہیں ملتی۔
ایسے لوگوں کے سامنے خواہ کتنے ہی طاقت وردلائل کے ساتھ توحید خالص کو بیان کیا جائے وہ اس کو ماننے والے نہیں بنتے۔ ان کی آنکھ صرف اس وقت کھلتی ہے جب کہ قیامت کا پردہ پھاڑ کر خدا کا جلال بے نقاب ہوجائے۔ آج آدمی کا حال یہ ہے کہ وہ اعتراف کے الفاظ دینے کےلیے بھی تیار نہیں ہوتا مگر جب وہ وقت آئے گا تو وہ چاہے گا کہ جو کچھ اس کے پاس ہے سب اس سے بچنے کےلیے فدیہ میں دے ڈالے۔ مگر وہاں آدمی کے اپنے اعمال کے سوا کوئی چیز نہ ہوگی جو اس کے کام آسکے۔
فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ ۚ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر خوش ہوتاہے۔ حالاں کہ دنیا کی چیزیں آزمائش کا سامان ہیں، نہ کہ لیاقت کا انعام۔ اسی حقیقت کو جاننا سب سے بڑا علم ہے۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لے تو اس سے اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی نفسیات ابھرے گی۔ اس کے برعکس، جب آدمی ان کو آزمائش کا سامان سمجھتاہے تو اس کے اندر شکر اور تواضع کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
رزقِ دنیا کی کمی یا زیادتی تمام تر انسانی اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے باہر کوئی قوت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو زیادہ ملے اور کس کو کم دیا جائے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رزق کا فیصلہ شخصی لیاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ بنیاد یہی ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نہ کہ انعام کی جگہ۔ اس ليے یہاں کسی کو جو کچھ ملتاہے وہ اس کے امتحان کا پرچہ ہوتا ہے۔ امتحان لینے والا اپنے فیصلہ کے تحت کسی کو کوئی پرچہ دیتاہے اور کسی کو کوئی پرچہ۔ کسی کو ایک قسم کے حالات میں آزماتا ہے اور کسی کو دوسرے قسم کے حالات میں۔
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۖ يُكَوِّرُ اللَّيْلَ عَلَى النَّهَارِ وَيُكَوِّرُ النَّهَارَ عَلَى اللَّيْلِ ۖ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ كُلٌّ يَجْرِي لِأَجَلٍ مُسَمًّى ۗ أَلَا هُوَ الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ
📘 آدمی کے اندر فطری طورپر یہ جذبہ ہے کہ وہ خدا کی طرف لپکے، وہ خدا کی پرستش کرے۔شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس جذبہ کو خدا کی طرف سے ہٹا کر دوسری طرف موڑ دے۔ اس کےلیے وہ لوگوں کے ذہن میں ڈالتاہے کہ خدا کی بارگاہ اونچی ہے، تم براہ راست خدا تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس ليے تم کو بزرگوں کے وسیلہ سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہيے۔ اسی طرح وہ لوگوں کے ذہن میں یہ عقیدہ بٹھاتا ہے کہ جس طرح انسانوں کی اولاد ہوتی ہے اسی طرح خدا کی بھی اولاد ہے۔ اور خدا کو خوش رکھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ تم خدا کی اولاد کو خوش رکھو۔ جدید مادہ پرستی بھی اسی کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے جس نے آدمی کے جذبہ پرستش کو خالق سے ہٹا کر مخلوق کی طرف کردیا ہے۔
اس قسم کی تمام باتیں خدا کی تصغیر ہیں۔ جو خدا شمسی نظام کو چلا رہا ہے اور جس نے عظیم کائنات کو سنبھال رکھا ہے وہ یقینا اس سے بلند ہے کہ اس کے یہاں کسی کی سفارش چلے یا اس کے بیٹے بیٹیاں ہوں۔
قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
📘 دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر خوش ہوتاہے۔ حالاں کہ دنیا کی چیزیں آزمائش کا سامان ہیں، نہ کہ لیاقت کا انعام۔ اسی حقیقت کو جاننا سب سے بڑا علم ہے۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لے تو اس سے اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی نفسیات ابھرے گی۔ اس کے برعکس، جب آدمی ان کو آزمائش کا سامان سمجھتاہے تو اس کے اندر شکر اور تواضع کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
رزقِ دنیا کی کمی یا زیادتی تمام تر انسانی اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے باہر کوئی قوت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو زیادہ ملے اور کس کو کم دیا جائے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رزق کا فیصلہ شخصی لیاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ بنیاد یہی ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نہ کہ انعام کی جگہ۔ اس ليے یہاں کسی کو جو کچھ ملتاہے وہ اس کے امتحان کا پرچہ ہوتا ہے۔ امتحان لینے والا اپنے فیصلہ کے تحت کسی کو کوئی پرچہ دیتاہے اور کسی کو کوئی پرچہ۔ کسی کو ایک قسم کے حالات میں آزماتا ہے اور کسی کو دوسرے قسم کے حالات میں۔
فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا ۚ وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَٰؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّئَاتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ
📘 دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر خوش ہوتاہے۔ حالاں کہ دنیا کی چیزیں آزمائش کا سامان ہیں، نہ کہ لیاقت کا انعام۔ اسی حقیقت کو جاننا سب سے بڑا علم ہے۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لے تو اس سے اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی نفسیات ابھرے گی۔ اس کے برعکس، جب آدمی ان کو آزمائش کا سامان سمجھتاہے تو اس کے اندر شکر اور تواضع کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
رزقِ دنیا کی کمی یا زیادتی تمام تر انسانی اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے باہر کوئی قوت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو زیادہ ملے اور کس کو کم دیا جائے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رزق کا فیصلہ شخصی لیاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ بنیاد یہی ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نہ کہ انعام کی جگہ۔ اس ليے یہاں کسی کو جو کچھ ملتاہے وہ اس کے امتحان کا پرچہ ہوتا ہے۔ امتحان لینے والا اپنے فیصلہ کے تحت کسی کو کوئی پرچہ دیتاہے اور کسی کو کوئی پرچہ۔ کسی کو ایک قسم کے حالات میں آزماتا ہے اور کسی کو دوسرے قسم کے حالات میں۔
أَوَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 دنیا میں آدمی کو جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس کو اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر خوش ہوتاہے۔ حالاں کہ دنیا کی چیزیں آزمائش کا سامان ہیں، نہ کہ لیاقت کا انعام۔ اسی حقیقت کو جاننا سب سے بڑا علم ہے۔ دنیا کی چیزوں کو آدمی اگر اپنی لیاقت کا نتیجہ سمجھ لے تو اس سے اس کے اندر فخر اور گھمنڈ کی نفسیات ابھرے گی۔ اس کے برعکس، جب آدمی ان کو آزمائش کا سامان سمجھتاہے تو اس کے اندر شکر اور تواضع کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
رزقِ دنیا کی کمی یا زیادتی تمام تر انسانی اختیار سے باہر کی چیز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے باہر کوئی قوت ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس کو زیادہ ملے اور کس کو کم دیا جائے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رزق کا فیصلہ شخصی لیاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اس کا فیصلہ کسی اور بنیاد پر ہوتا ہے۔ وہ بنیاد یہی ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، نہ کہ انعام کی جگہ۔ اس ليے یہاں کسی کو جو کچھ ملتاہے وہ اس کے امتحان کا پرچہ ہوتا ہے۔ امتحان لینے والا اپنے فیصلہ کے تحت کسی کو کوئی پرچہ دیتاہے اور کسی کو کوئی پرچہ۔ کسی کو ایک قسم کے حالات میں آزماتا ہے اور کسی کو دوسرے قسم کے حالات میں۔
۞ قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
📘 جن لوگوں کے سینے میں حساس دل ہے ان کو جب خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو ان کو یہ خیال ستانے لگتا ہے کہ اب تک ان سے جو گناہ ہوئے ہیں ان کا معاملہ کیا ہوگا۔ اسی طرح خدا پرستانہ زندگی اختیار کرنے کے بعد بھی آدمی سے بار بار کوتاہیاں ہوتی ہیں اور اس کی حساسیت دوبارہ اس کو ستانے لگی ہے۔ حتی کہ یہ احساس بعض لوگوں کو مایوسی کی حد تک پہنچادیتاہے۔
ایسے لوگوں کےلیے اللہ نے اپنی کتاب میں یہ اعلان فرمایا کہ انھیں یقین کرنا چاہيے کہ ان کا معاملہ ایک ایسے خدا سے ہے جو غفور ورحیم ہے۔ وہ آدمی کے ماضی کو نہیں بلکہ اس کے حال کو دیکھتاہے۔ وہ آدمی کے ظاہر کو نہیں بلکہ اس کے باطن کو دیکھتا ہے۔ وہ آدمی سے وسعت کا معاملہ فرماتاہے ،نہ کہ خوردہ گیری کا معاملہ۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کی طرف رجوع کرتاہے تو وہ ازسرِنو اس کو اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیتاہے ، خواہ اس سے کتنا ہی بڑا قصور کیوں نہ ہوگیا ہو۔
وَأَنِيبُوا إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ
📘 جن لوگوں کے سینے میں حساس دل ہے ان کو جب خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو ان کو یہ خیال ستانے لگتا ہے کہ اب تک ان سے جو گناہ ہوئے ہیں ان کا معاملہ کیا ہوگا۔ اسی طرح خدا پرستانہ زندگی اختیار کرنے کے بعد بھی آدمی سے بار بار کوتاہیاں ہوتی ہیں اور اس کی حساسیت دوبارہ اس کو ستانے لگی ہے۔ حتی کہ یہ احساس بعض لوگوں کو مایوسی کی حد تک پہنچادیتاہے۔
ایسے لوگوں کےلیے اللہ نے اپنی کتاب میں یہ اعلان فرمایا کہ انھیں یقین کرنا چاہيے کہ ان کا معاملہ ایک ایسے خدا سے ہے جو غفور ورحیم ہے۔ وہ آدمی کے ماضی کو نہیں بلکہ اس کے حال کو دیکھتاہے۔ وہ آدمی کے ظاہر کو نہیں بلکہ اس کے باطن کو دیکھتا ہے۔ وہ آدمی سے وسعت کا معاملہ فرماتاہے ،نہ کہ خوردہ گیری کا معاملہ۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی جب اس کی طرف رجوع کرتاہے تو وہ ازسرِنو اس کو اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیتاہے ، خواہ اس سے کتنا ہی بڑا قصور کیوں نہ ہوگیا ہو۔
وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
أَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ كُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِينَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
أَوْ تَقُولَ لَوْ أَنَّ اللَّهَ هَدَانِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
أَوْ تَقُولَ حِينَ تَرَى الْعَذَابَ لَوْ أَنَّ لِي كَرَّةً فَأَكُونَ مِنَ الْمُحْسِنِينَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
بَلَىٰ قَدْ جَاءَتْكَ آيَاتِي فَكَذَّبْتَ بِهَا وَاسْتَكْبَرْتَ وَكُنْتَ مِنَ الْكَافِرِينَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَانِيَةَ أَزْوَاجٍ ۚ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَاتٍ ثَلَاثٍ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
📘 اولاً ایک انسان وجود میں آیا۔ پھر عین اس کے مطابق اس کا ایک جوڑا نکالا گیا۔ اس طرح ابتدائی مرد وعورت کے ذریعہ انسانی نسل چلی۔ پھر انسان کی ضرورت کےلیے اس سے باہر اللہ تعالیٰ نے بے شمار چیزيں بنائیں۔ بھیڑ، بکری، اونٹ اور گائے (نرومادہ کو ملا کر آٹھ قسمیں) تہذیب کے ابتدائی دور میں ہزاروں سال تک انسان کی معیشت کا ذریعہ بنی رہیں۔ پھر جب تہذیب اگلے مرحلہ میں پہنچی تو دوسری بے شمار چیزوں کو انسان نے استعمال کرنا شروع کیا جن کو خدا نے اول روز سے ایسا بنا رکھا تھا کہ انسان ان کو اپنے کام میں لاسکے۔ جس طرح پالتو جانور طبیعی طورپر انسان کےلیے مسخر ہیں۔ اسی طرح گیسیں اور معدنیات بھی مسخر کی ہوئی ہیں۔ ورنہ انسان ان کو استعمال نہ کرسکے۔ مذکورہ آٹھ قسموں کی مثال بطور علامت ہے، نہ کہ بطور حصر۔
انسان کی پیدائش کے سلسلہ میں یہاں جن تین تاریکيوں کا ذکر ہے اس سے مراد تین پردے ہیں۔ اولاً پیٹ کی دیوار، پھر رحم مادر کا پردہ، اور پھر جنین کی بیرونی جھلّی
The mother’s abdominal wall, the wall of the uterus, and the amniochorionic membrance.
یہ سارا نظام اتنا حیرت ناک حد تک پیچیدہ اور عظیم ہے کہ خالق کائنات کے سوا کوئی اور ان کو ظہور میں نہیں لا سکتا۔ پھر اس کے سوا کون اس قابل ہے کہ اس کو معبود کا درجہ دیا جائے۔
وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
وَيُنَجِّي اللَّهُ الَّذِينَ اتَّقَوْا بِمَفَازَتِهِمْ لَا يَمَسُّهُمُ السُّوءُ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 خدا کے کلام میں بہتر اور غیر بہتر کی تقسیم نہیں۔ نہ قرآن میں ایسا ہے کہ اس کی کچھ آیتیں بہتر ہیں اور کچھ آیتیں غیر بہتر اور نہ قرآن اور دوسری آسمانی کتابوں میں یہ فرق ہے کہ ان میں سے کوئی کتاب باعتبار حقیقت بہتر ہے اور کوئی کتاب غیر بہتر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں آدمی کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں اس کے لیے یہ موقع ہے کہ ایک کلام کو خواہ سیدھے رخ سے لے یا الٹے رخ سے۔ وہ چاہے کلام کے اصل مدعا پر دھیان دے یا اس میں بے جا شوشے نکالے اور اس کو غلط معنی پہنائے۔ کلام الٰہی کا مذاق اڑانا اسی کی ایک مثال ہے۔ آدمی ایک آیت کو لے کر اس میں الٹا مفہوم نکالتاہے اور پھر اس خود ساختہ مفہوم کی بنا پر اس کا مذاق اڑانے لگتاہے۔
دنیا میں آدمی اپنے آپ کو چھپائے ہوئے ہے۔ وہ محض تکبر کی بنیاد پر حق کو نہیں مانتا اور ایسے الفاظ بولتا ہے گویا کہ وہ اصول کی بنیاد پر اس کا انکار کررہا ہے۔ مگر قیامت کے دن آدمی کا چہرہ اس کی اندرونی حالت کا مظہر بن جائے گا۔ اس وقت آدمی کا اپنا چہرہ بتائے گا کہ وہ جس حق میں ’’غیر بہتر‘‘ پہلو نکال کر اس کا منکر بنا رہا وہ صرف اس کے جھوٹے الفاظ تھے۔ ورنہ حق بذات خود بالکل صاف اور واضح تھا۔ اس وقت وہ افسوس کرے گا مگر اس وقت کا افسوس کرنا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔
اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
📘 کائنات کی موجودگی اس کے خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح کائنات جتنے با معنی اور جس قدر منظم طور پر چل رہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہر آن ایک نگرانی کرنے والا اس کی نگرانی کررہا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ کائنات میں اس کے خالق کی نشانی پالے گا اور اسی طرح اس کے ناظم اور مدبر کی نشانی بھی۔
ایسی حالت میں جو لوگ ایک خدا کے سوا دوسری ہستیوں کے عبادت گزار بنتے ہیں وہ ایک ایسا عمل کررہے ہیں جس کی موجودہ کائنات میں کوئی قیمت نہیں۔ کیوں کہ خالق اور وکیل جب صرف ایک ہے تو اسی کی عبادت آدمی کو نفع دے سکتی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا گویا ایسے معبود کو پکارنا ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 کائنات کی موجودگی اس کے خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح کائنات جتنے با معنی اور جس قدر منظم طور پر چل رہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہر آن ایک نگرانی کرنے والا اس کی نگرانی کررہا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ کائنات میں اس کے خالق کی نشانی پالے گا اور اسی طرح اس کے ناظم اور مدبر کی نشانی بھی۔
ایسی حالت میں جو لوگ ایک خدا کے سوا دوسری ہستیوں کے عبادت گزار بنتے ہیں وہ ایک ایسا عمل کررہے ہیں جس کی موجودہ کائنات میں کوئی قیمت نہیں۔ کیوں کہ خالق اور وکیل جب صرف ایک ہے تو اسی کی عبادت آدمی کو نفع دے سکتی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا گویا ایسے معبود کو پکارنا ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ
📘 کائنات کی موجودگی اس کے خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح کائنات جتنے با معنی اور جس قدر منظم طور پر چل رہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہر آن ایک نگرانی کرنے والا اس کی نگرانی کررہا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ کائنات میں اس کے خالق کی نشانی پالے گا اور اسی طرح اس کے ناظم اور مدبر کی نشانی بھی۔
ایسی حالت میں جو لوگ ایک خدا کے سوا دوسری ہستیوں کے عبادت گزار بنتے ہیں وہ ایک ایسا عمل کررہے ہیں جس کی موجودہ کائنات میں کوئی قیمت نہیں۔ کیوں کہ خالق اور وکیل جب صرف ایک ہے تو اسی کی عبادت آدمی کو نفع دے سکتی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا گویا ایسے معبود کو پکارنا ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
📘 کائنات کی موجودگی اس کے خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح کائنات جتنے با معنی اور جس قدر منظم طور پر چل رہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہر آن ایک نگرانی کرنے والا اس کی نگرانی کررہا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ کائنات میں اس کے خالق کی نشانی پالے گا اور اسی طرح اس کے ناظم اور مدبر کی نشانی بھی۔
ایسی حالت میں جو لوگ ایک خدا کے سوا دوسری ہستیوں کے عبادت گزار بنتے ہیں وہ ایک ایسا عمل کررہے ہیں جس کی موجودہ کائنات میں کوئی قیمت نہیں۔ کیوں کہ خالق اور وکیل جب صرف ایک ہے تو اسی کی عبادت آدمی کو نفع دے سکتی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا گویا ایسے معبود کو پکارنا ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ
📘 کائنات کی موجودگی اس کے خالق کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ اسی طرح کائنات جتنے با معنی اور جس قدر منظم طور پر چل رہی ہے وہ اس کا ثبوت ہے کہ ہر آن ایک نگرانی کرنے والا اس کی نگرانی کررہا ہے۔ آدمی اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو وہ کائنات میں اس کے خالق کی نشانی پالے گا اور اسی طرح اس کے ناظم اور مدبر کی نشانی بھی۔
ایسی حالت میں جو لوگ ایک خدا کے سوا دوسری ہستیوں کے عبادت گزار بنتے ہیں وہ ایک ایسا عمل کررہے ہیں جس کی موجودہ کائنات میں کوئی قیمت نہیں۔ کیوں کہ خالق اور وکیل جب صرف ایک ہے تو اسی کی عبادت آدمی کو نفع دے سکتی ہے۔ اس کے سوا کسی اور کی عبادت کرنا گویا ایسے معبود کو پکارنا ہے جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔
وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 اکثر گمراہیوں کی جڑ خدا کا کمتر اندازہ ہے۔آدمی دوسری عظمتوں میں اس ليے گم ہوتاہے کہ اس کو خدا کی اتھاہ عظمت کا پتہ نہیں۔ وہ اپنے اکابر سے وابستگی کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے تو اسی ليے سمجھتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ خدا اس سے زیادہ بڑا ہے کہ وہاں کوئی شخص اپنی زبان کھولنے کی جرأت کرسکے۔ قیامت جب لوگوں کی آنکھ کا پردہ ہٹائے گی تو ان کو معلوم ہوگا کہ خدا تو اتنا عظیم تھا جیسے کہ زمین ایک چھوٹے سکہ کی طرح اس کی مٹھی میں ہو اور آسمان ایک معمولی کاغذ کی طرح اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ہو۔
جس طرح امتحان ہال میں امتحان کے ختم ہونے پر اَلارم بجتاہے اسی طرح موجودہ دنیا کی مدت ختم ہونے پر صور پھونکا جائے گا۔اس کے بعد سارا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد ایک نئی دنیا بنے گی۔ ہماری موجودہ دنیا سورج کی روشنی سے روشن ہوتی ہے۔ جو صرف محسوس مادی اشیاء کو ہمیں دکھا پاتی ہے۔ آخرت کی دنیا براہِ راست خدا کے نور سے روشن ہوگی۔ اس ليے وہاں یہ ممکن ہوگا کہ معنوی حقیقتوں کو بھی کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکے۔ اس وقت تمام لوگ خدا کی عدالت میں حاضر کيے جائیں گے۔ دنیا میں لوگوں نے پیغمبروں کو اور ان کی تبعيت میںاٹھنے والے داعیوں کو نظر انداز کیا تھا۔ مگر آخرت میں لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیںگے کہ لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ وہاں اسی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ کس نے ان کا ساتھ دیا اور کس نے ان کا انکار کردیا۔
وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ۖ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ
📘 اکثر گمراہیوں کی جڑ خدا کا کمتر اندازہ ہے۔آدمی دوسری عظمتوں میں اس ليے گم ہوتاہے کہ اس کو خدا کی اتھاہ عظمت کا پتہ نہیں۔ وہ اپنے اکابر سے وابستگی کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے تو اسی ليے سمجھتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ خدا اس سے زیادہ بڑا ہے کہ وہاں کوئی شخص اپنی زبان کھولنے کی جرأت کرسکے۔ قیامت جب لوگوں کی آنکھ کا پردہ ہٹائے گی تو ان کو معلوم ہوگا کہ خدا تو اتنا عظیم تھا جیسے کہ زمین ایک چھوٹے سکہ کی طرح اس کی مٹھی میں ہو اور آسمان ایک معمولی کاغذ کی طرح اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ہو۔
جس طرح امتحان ہال میں امتحان کے ختم ہونے پر اَلارم بجتاہے اسی طرح موجودہ دنیا کی مدت ختم ہونے پر صور پھونکا جائے گا۔اس کے بعد سارا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد ایک نئی دنیا بنے گی۔ ہماری موجودہ دنیا سورج کی روشنی سے روشن ہوتی ہے۔ جو صرف محسوس مادی اشیاء کو ہمیں دکھا پاتی ہے۔ آخرت کی دنیا براہِ راست خدا کے نور سے روشن ہوگی۔ اس ليے وہاں یہ ممکن ہوگا کہ معنوی حقیقتوں کو بھی کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکے۔ اس وقت تمام لوگ خدا کی عدالت میں حاضر کيے جائیں گے۔ دنیا میں لوگوں نے پیغمبروں کو اور ان کی تبعيت میںاٹھنے والے داعیوں کو نظر انداز کیا تھا۔ مگر آخرت میں لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیںگے کہ لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ وہاں اسی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ کس نے ان کا ساتھ دیا اور کس نے ان کا انکار کردیا۔
وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتَابُ وَجِيءَ بِالنَّبِيِّينَ وَالشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 اکثر گمراہیوں کی جڑ خدا کا کمتر اندازہ ہے۔آدمی دوسری عظمتوں میں اس ليے گم ہوتاہے کہ اس کو خدا کی اتھاہ عظمت کا پتہ نہیں۔ وہ اپنے اکابر سے وابستگی کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے تو اسی ليے سمجھتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ خدا اس سے زیادہ بڑا ہے کہ وہاں کوئی شخص اپنی زبان کھولنے کی جرأت کرسکے۔ قیامت جب لوگوں کی آنکھ کا پردہ ہٹائے گی تو ان کو معلوم ہوگا کہ خدا تو اتنا عظیم تھا جیسے کہ زمین ایک چھوٹے سکہ کی طرح اس کی مٹھی میں ہو اور آسمان ایک معمولی کاغذ کی طرح اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ہو۔
جس طرح امتحان ہال میں امتحان کے ختم ہونے پر اَلارم بجتاہے اسی طرح موجودہ دنیا کی مدت ختم ہونے پر صور پھونکا جائے گا۔اس کے بعد سارا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد ایک نئی دنیا بنے گی۔ ہماری موجودہ دنیا سورج کی روشنی سے روشن ہوتی ہے۔ جو صرف محسوس مادی اشیاء کو ہمیں دکھا پاتی ہے۔ آخرت کی دنیا براہِ راست خدا کے نور سے روشن ہوگی۔ اس ليے وہاں یہ ممکن ہوگا کہ معنوی حقیقتوں کو بھی کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکے۔ اس وقت تمام لوگ خدا کی عدالت میں حاضر کيے جائیں گے۔ دنیا میں لوگوں نے پیغمبروں کو اور ان کی تبعيت میںاٹھنے والے داعیوں کو نظر انداز کیا تھا۔ مگر آخرت میں لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیںگے کہ لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ وہاں اسی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ کس نے ان کا ساتھ دیا اور کس نے ان کا انکار کردیا۔
إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
📘 خدا کو ماننااور اس کا شکر گزار بننا خود انسانی عقل کا تقاضا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ِ واقعہ کا اعتراف ہے اور حقیقت ِ واقعہ کا اعتراف بلا شبہ سب سے بڑا عقلی تقاضا ہے۔
آخرت عدلِ کامل کا ظہور ہے اور یہ ناممکن ہے کہ عدل کامل کی دنیا میں وہ ناقص صورت حال جاری رہے جو موجودہ دنیا میں نظر آتی ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی عین وہی ثابت ہو جو کہ فی الواقع وہ ہے، اور عین وہی پائے جس کا وہ حقیقۃً مستحق تھا۔ موجودہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ آخرت اس ليے آئے گی کہ وہ دنیا کی اس کمی کو دور کرے، وہ ناقص دنیا کو آخری حد تک کامل دنیا بنادے۔
وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَا يَفْعَلُونَ
📘 اکثر گمراہیوں کی جڑ خدا کا کمتر اندازہ ہے۔آدمی دوسری عظمتوں میں اس ليے گم ہوتاہے کہ اس کو خدا کی اتھاہ عظمت کا پتہ نہیں۔ وہ اپنے اکابر سے وابستگی کو نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے تو اسی ليے سمجھتا ہے کہ اس کو معلوم نہیں کہ خدا اس سے زیادہ بڑا ہے کہ وہاں کوئی شخص اپنی زبان کھولنے کی جرأت کرسکے۔ قیامت جب لوگوں کی آنکھ کا پردہ ہٹائے گی تو ان کو معلوم ہوگا کہ خدا تو اتنا عظیم تھا جیسے کہ زمین ایک چھوٹے سکہ کی طرح اس کی مٹھی میں ہو اور آسمان ایک معمولی کاغذ کی طرح اس کے ہاتھ میں لپٹا ہوا ہو۔
جس طرح امتحان ہال میں امتحان کے ختم ہونے پر اَلارم بجتاہے اسی طرح موجودہ دنیا کی مدت ختم ہونے پر صور پھونکا جائے گا۔اس کے بعد سارا نظام بدل جائے گا۔ اس کے بعد ایک نئی دنیا بنے گی۔ ہماری موجودہ دنیا سورج کی روشنی سے روشن ہوتی ہے۔ جو صرف محسوس مادی اشیاء کو ہمیں دکھا پاتی ہے۔ آخرت کی دنیا براہِ راست خدا کے نور سے روشن ہوگی۔ اس ليے وہاں یہ ممکن ہوگا کہ معنوی حقیقتوں کو بھی کھلی آنکھ سے دیکھا جاسکے۔ اس وقت تمام لوگ خدا کی عدالت میں حاضر کيے جائیں گے۔ دنیا میں لوگوں نے پیغمبروں کو اور ان کی تبعيت میںاٹھنے والے داعیوں کو نظر انداز کیا تھا۔ مگر آخرت میں لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیںگے کہ لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ وہاں اسی بنیاد پر کیا جارہا ہے کہ کس نے ان کا ساتھ دیا اور کس نے ان کا انکار کردیا۔
وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِ رَبِّكُمْ وَيُنْذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا بَلَىٰ وَلَٰكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَافِرِينَ
📘 حق سے اعراض وانکارکرنے کے درجے ہیں۔ اسی لحاظ سے جہنم والوں کے بھی درجے ہیں۔ آخرت میں ان کو ان کے درجات کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا اور پھر ہر گروہ کو جہنم کے اس طبقہ میں ڈال دیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ اس موقع پر جہنم کی نگرانی کرنے والے فرشتوں کی گفتگو سے اس منظر کی تصویر کشی ہورہی ہے جو لوگوں کے جہنم میں داخل ہونے کے وقت پیش آئے گی۔
جو لوگ موجودہ دنیا میں حق کو نہیں مانتے ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ ہمیشہ تکبر ہوتاہے۔ تاہم ان کا تکبر حقیقۃً حق کے مقابلہ میں نہیں ہوتا بلکہ وہ حق کو پیش کرنے والے شخص کے مقابلہ میں ہوتاہے۔ حق کو پیش کرنے والا بظاہر ایک آدمی کو اپنے سے چھوٹا دکھائی دیتا ہے اس ليے وہ آدمی حق کو بھی چھوٹا سمجھ لیتاہے۔ اور اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کردیتاہے۔
قِيلَ ادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ
📘 حق سے اعراض وانکارکرنے کے درجے ہیں۔ اسی لحاظ سے جہنم والوں کے بھی درجے ہیں۔ آخرت میں ان کو ان کے درجات کے لحاظ سے مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا اور پھر ہر گروہ کو جہنم کے اس طبقہ میں ڈال دیا جائے گا جس کا وہ مستحق ہے۔ اس موقع پر جہنم کی نگرانی کرنے والے فرشتوں کی گفتگو سے اس منظر کی تصویر کشی ہورہی ہے جو لوگوں کے جہنم میں داخل ہونے کے وقت پیش آئے گی۔
جو لوگ موجودہ دنیا میں حق کو نہیں مانتے ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ ہمیشہ تکبر ہوتاہے۔ تاہم ان کا تکبر حقیقۃً حق کے مقابلہ میں نہیں ہوتا بلکہ وہ حق کو پیش کرنے والے شخص کے مقابلہ میں ہوتاہے۔ حق کو پیش کرنے والا بظاہر ایک آدمی کو اپنے سے چھوٹا دکھائی دیتا ہے اس ليے وہ آدمی حق کو بھی چھوٹا سمجھ لیتاہے۔ اور اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کردیتاہے۔
وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ
📘 جنت میں جانے والے وہ لوگ ہیں جن میں تقویٰ کی صفت پائی جائے۔ جب آدمی خدا کی بڑائی کو اس طرح پائے کہ اس کے اندر سے اپنی بڑائی کا احساس ختم ہوجائے تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خدا سے ڈرنے لگتاہے۔ اپنے عجز اور خدا کی قدرت کا احساس اس کو اندیشہ ناک بنا دیتاہے۔ وہ خدا کے معاملہ میں حد درجہ محتاج ہوجاتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتاہے کہ آخرت میں اس کا خدا اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں اسی طرح خوف کیا وہی آخرت کی بے خوف زندگی کے وارث قرار دئے جائیں گے۔
اہل جنت کے ساتھ آخرت میں وہ معاملہ کیا جائے گا جو دنیا میں شاہی مہمانوں کے ساتھ کیا جاتاہے۔ ان کو کمال اعزاز واکرام کے ساتھ ان کی قیام گاہوں کی طرف لے جایا جائے گا۔ جب وہ جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو بے اختیار ان کی زبان پر حمد اور شکر کے کلمات جاری ہوجائیں گے۔ جنت میں ان کےلیے نہ صرف اعلیٰ قیام گاہیں ہوں گی بلکہ وہاں سیر اور ملاقات کےلیے آنے جانے پر کوئی روک نہ ہوگی۔ سفر اور مواصلات کی اعلیٰ ترین سہولتیں وافر مقدار میں حاصل ہوں گی۔
حمد کی مستحق صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ مگر موجودہ امتحان کی دنیا میں اس کا ظہور نہیں ہوتا۔آخرت حمد الٰہی کے کامل ظہور کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام تر زبانیں اور سارا ماحول حمد خداوندی کے نغمہ سے معمورہوجائے گا۔ تمام جھوٹی بڑائیاں ختم ہوجائیں گی۔ وہاں صرف ایک بستی ہوگی جس کا آدمی نام لے۔ وہاں صرف ایک بڑائی ہوگی جس کی بڑائی سے سرشار ہو کر وہ اس کی حمد کرے۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۖ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
📘 جنت میں جانے والے وہ لوگ ہیں جن میں تقویٰ کی صفت پائی جائے۔ جب آدمی خدا کی بڑائی کو اس طرح پائے کہ اس کے اندر سے اپنی بڑائی کا احساس ختم ہوجائے تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خدا سے ڈرنے لگتاہے۔ اپنے عجز اور خدا کی قدرت کا احساس اس کو اندیشہ ناک بنا دیتاہے۔ وہ خدا کے معاملہ میں حد درجہ محتاج ہوجاتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتاہے کہ آخرت میں اس کا خدا اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں اسی طرح خوف کیا وہی آخرت کی بے خوف زندگی کے وارث قرار دئے جائیں گے۔
اہل جنت کے ساتھ آخرت میں وہ معاملہ کیا جائے گا جو دنیا میں شاہی مہمانوں کے ساتھ کیا جاتاہے۔ ان کو کمال اعزاز واکرام کے ساتھ ان کی قیام گاہوں کی طرف لے جایا جائے گا۔ جب وہ جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو بے اختیار ان کی زبان پر حمد اور شکر کے کلمات جاری ہوجائیں گے۔ جنت میں ان کےلیے نہ صرف اعلیٰ قیام گاہیں ہوں گی بلکہ وہاں سیر اور ملاقات کےلیے آنے جانے پر کوئی روک نہ ہوگی۔ سفر اور مواصلات کی اعلیٰ ترین سہولتیں وافر مقدار میں حاصل ہوں گی۔
حمد کی مستحق صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ مگر موجودہ امتحان کی دنیا میں اس کا ظہور نہیں ہوتا۔آخرت حمد الٰہی کے کامل ظہور کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام تر زبانیں اور سارا ماحول حمد خداوندی کے نغمہ سے معمورہوجائے گا۔ تمام جھوٹی بڑائیاں ختم ہوجائیں گی۔ وہاں صرف ایک بستی ہوگی جس کا آدمی نام لے۔ وہاں صرف ایک بڑائی ہوگی جس کی بڑائی سے سرشار ہو کر وہ اس کی حمد کرے۔
وَتَرَى الْمَلَائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 جنت میں جانے والے وہ لوگ ہیں جن میں تقویٰ کی صفت پائی جائے۔ جب آدمی خدا کی بڑائی کو اس طرح پائے کہ اس کے اندر سے اپنی بڑائی کا احساس ختم ہوجائے تو اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ خدا سے ڈرنے لگتاہے۔ اپنے عجز اور خدا کی قدرت کا احساس اس کو اندیشہ ناک بنا دیتاہے۔ وہ خدا کے معاملہ میں حد درجہ محتاج ہوجاتا ہے۔ اس کو ہر وقت یہ کھٹکا لگا رہتاہے کہ آخرت میں اس کا خدا اس کے ساتھ کیا معاملہ فرمائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں اسی طرح خوف کیا وہی آخرت کی بے خوف زندگی کے وارث قرار دئے جائیں گے۔
اہل جنت کے ساتھ آخرت میں وہ معاملہ کیا جائے گا جو دنیا میں شاہی مہمانوں کے ساتھ کیا جاتاہے۔ ان کو کمال اعزاز واکرام کے ساتھ ان کی قیام گاہوں کی طرف لے جایا جائے گا۔ جب وہ جنت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے تو بے اختیار ان کی زبان پر حمد اور شکر کے کلمات جاری ہوجائیں گے۔ جنت میں ان کےلیے نہ صرف اعلیٰ قیام گاہیں ہوں گی بلکہ وہاں سیر اور ملاقات کےلیے آنے جانے پر کوئی روک نہ ہوگی۔ سفر اور مواصلات کی اعلیٰ ترین سہولتیں وافر مقدار میں حاصل ہوں گی۔
حمد کی مستحق صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ مگر موجودہ امتحان کی دنیا میں اس کا ظہور نہیں ہوتا۔آخرت حمد الٰہی کے کامل ظہور کا دن ہوگا۔ اس وقت تمام تر زبانیں اور سارا ماحول حمد خداوندی کے نغمہ سے معمورہوجائے گا۔ تمام جھوٹی بڑائیاں ختم ہوجائیں گی۔ وہاں صرف ایک بستی ہوگی جس کا آدمی نام لے۔ وہاں صرف ایک بڑائی ہوگی جس کی بڑائی سے سرشار ہو کر وہ اس کی حمد کرے۔
۞ وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلًا ۖ إِنَّكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ
📘 ہر آدمی پر ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتاہے۔ وہ جن چیزوں کو اپنا سہارا سمجھ رہا تھا وہ بھی اس نازک لمحہ میں اس کے مدد گار نہیں بنتے۔ اس وقت آدمی سب کچھ بھول کر خدا کو پکارنے لگتاہے۔ اس طرح مصیبت کی گھڑیوں میں ہر آدمی جان لیتاہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مگر مصیبت دور ہوتے ہی وہ دوبارہ پہلے کی طرح بن جاتاہے۔
انسان کی مزید سرکشی یہ ہے کہ وہ اپنی نجات کو خدا کے سوا دوسری چیزوں کی طرف منسوب کرنے لگتاہے۔ کچھ لوگ اس کو اسباب کا کرشمہ بتاتے ہیں اور کچھ لوگ فرضی معبودوں کا کرشمہ۔ آدمی اگر غلطی کرکے خاموش رہے تو یہ صرف ایک شخص کا گمراہ ہونا ہے۔ مگر جب وہ اپنی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کےلیے اس کی جھوٹی توجیہ کرنے لگے تو وہ گمراہ ہونے کے ساتھ گمراہ کرنے والا بھی بنا۔
ایک انسان وہ ہے جس کو صرف مادی غم بے قرار کرے۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کو خدا کی یاد بے قرار کردیتی ہو۔ یہی دوسرا انسان دراصل خدا والا انسان ہے۔ اس کا اقرارِ خدا حالات کی پیداوار نہیں ہوتا، وہ اس کی شعوری دریافت ہوتا ہے۔ وہ خدا کو ایک ایسی برتر ہستی کی حیثیت سے پاتا ہے کہ اس کی امیدیں اور اس کے اندیشے سب ایک خدا کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی بے قراریاں رات کے لمحات میں بھی ا س کو بستر سے جدا کردیتی ہیں۔ اس کی تنہائی غفلت کی تنہائی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی یاد کی تنہائی بن جاتی ہے۔
علم والا وہ ہے جس کی نفسیات میں خدا کی یاد سے ہلچل پیدا ہوتی ہو،اور بے علم والا وہ ہے جس کی نفسیات کو صرف مادی حالات بیدار کریں۔ وہ مادی جھٹکوں سے جاگے اور اس کے بعد دوبارہ غفلت کی نیند سو جائے۔
أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ
📘 ہر آدمی پر ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتاہے۔ وہ جن چیزوں کو اپنا سہارا سمجھ رہا تھا وہ بھی اس نازک لمحہ میں اس کے مدد گار نہیں بنتے۔ اس وقت آدمی سب کچھ بھول کر خدا کو پکارنے لگتاہے۔ اس طرح مصیبت کی گھڑیوں میں ہر آدمی جان لیتاہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مگر مصیبت دور ہوتے ہی وہ دوبارہ پہلے کی طرح بن جاتاہے۔
انسان کی مزید سرکشی یہ ہے کہ وہ اپنی نجات کو خدا کے سوا دوسری چیزوں کی طرف منسوب کرنے لگتاہے۔ کچھ لوگ اس کو اسباب کا کرشمہ بتاتے ہیں اور کچھ لوگ فرضی معبودوں کا کرشمہ۔ آدمی اگر غلطی کرکے خاموش رہے تو یہ صرف ایک شخص کا گمراہ ہونا ہے۔ مگر جب وہ اپنی غلطی کو صحیح ثابت کرنے کےلیے اس کی جھوٹی توجیہ کرنے لگے تو وہ گمراہ ہونے کے ساتھ گمراہ کرنے والا بھی بنا۔
ایک انسان وہ ہے جس کو صرف مادی غم بے قرار کرے۔ دوسرا انسان وہ ہے جس کو خدا کی یاد بے قرار کردیتی ہو۔ یہی دوسرا انسان دراصل خدا والا انسان ہے۔ اس کا اقرارِ خدا حالات کی پیداوار نہیں ہوتا، وہ اس کی شعوری دریافت ہوتا ہے۔ وہ خدا کو ایک ایسی برتر ہستی کی حیثیت سے پاتا ہے کہ اس کی امیدیں اور اس کے اندیشے سب ایک خدا کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اس کی بے قراریاں رات کے لمحات میں بھی ا س کو بستر سے جدا کردیتی ہیں۔ اس کی تنہائی غفلت کی تنہائی نہیں ہوتی بلکہ خدا کی یاد کی تنہائی بن جاتی ہے۔
علم والا وہ ہے جس کی نفسیات میں خدا کی یاد سے ہلچل پیدا ہوتی ہو،اور بے علم والا وہ ہے جس کی نفسیات کو صرف مادی حالات بیدار کریں۔ وہ مادی جھٹکوں سے جاگے اور اس کے بعد دوبارہ غفلت کی نیند سو جائے۔