slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الأنفال

(Al-Anfal) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ ۖ قُلِ الْأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 سورہ انفال جنگ بدر (2 ہجری) کے بعد اتری۔ اس جنگ میںمسلمانوں کو فتح ہوئی تھی اور اس کے بعد میدانِ جنگ سے کافی مال غنیمت حاصل ہوا تھا۔ مگر یہ اموال عملاً ایک گروہ کے قبضہ میں تھے۔اس بنا پر جنگ کے بعد غنیمت کی تقسیم پر نزاع پیدا ہوگئی۔ جنگ میں کچھ لوگ پچھلی صف میں تھے۔ کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ آخری مرحلہ میں دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس طرح میدان جنگ سے مالِ غنیمت لوٹنے کا موقع ایک خاص فریق کو ملا۔ دوسرے لوگ جو اس وقت میدانِ جنگ سے دور تھے وہ دشمن کے چھوڑے ہوئے اموال کو حاصل نہ کرسکے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ اصولی طو رپر تو جنگ کے تمام شرکاء اپنے کو مال غنیمت میں حصہ دارسمجھتے تھے۔ مگر مالِ غنیمت عملاً صرف ایک گروہ کے قبضہ میں تھا۔ ایک فریق کے پاس دلیل تھی اور دوسرے فریق کے پاس مال۔ ایک کے پاس اپنے حق کو ثابت کرنے کے ليے صرف الفاظ تھے، جب کہ دوسرے کا حق کسی دلیل وثبوت کے بغیر خود قبضہ کے زور پر قائم تھا۔ اس قسم کے تمام جھگڑے خدا کے خوف کے منافی ہیں۔ خدا کا خوف آدمی کے اندر ذمہ داری کی نفسیات ابھارتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ فرائض پر ہوتی ہے، نہ کہ حقوق پر۔ وہ اپنی طرف دیکھنے کے بجائے خدا کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ اس کادل خدا و رسول کی اطاعت کے ليے نرم پڑ جاتاہے۔ وہ خدا کا عبادت گزار بندہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کو دے کر اسے تسکین ملتی ہے، نہ کہ لوگوں سے چھین کر۔ یہ اوصاف آدمی کے اندر حقیقت پسندی اور حق کے اعتراف کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔حقیقت پسندی اور اعترافِ حق کی فضا کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس کے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کبھی اتفاقاً ابھرتے ہیں تو ایک بار کی تنبیہ ان کی اصلاح کے ليے کافی ہوجاتی ہے۔ خدا کی پکڑ کا اندیشہ ہرایک کو اس حد پر پہنچا دیتاہے جس حد پر اس کو فی الواقع ہونا چاہیے تھا۔ اور جہاں ہر آدمی اپنی واقعی حد پر ركنے کے ليے راضی ہوجائے وہاں جھگڑے کا کوئی گزر نہیں۔

وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 بدر کی لڑائی بڑے نازک حالات میں ہوئی۔ تقریباً ایک ہزار مسلّح دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار بھی کم تھے۔ اس قسم کے حالات دیکھ کر بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ جس مشن کے ليے وہ اپنی زندگی ویران کررہے ہیں اس کے ساتھ شاید خدا کی مدد شامل نہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو ایسے نازک موقع پر خدا کیوں ان کا ساتھ نہ دیتا۔ کیوں اسباب کے اعتبار سے دشمن برتر نظر آرهے هيں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بدر کے علاقہ میں زور کی بارش برسائی۔ مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر بارش کا پانی جمع کرلیا۔ دشمن نے مسلمانوں کو زمین کے پاني سے محروم کیا تھا، خدا نے ان کے ليے آسمان سے پانی کا انتظام کردیا۔ اسی طرح خدا نے یہ غیر معمولی انعام فرمایا کہ مسلمانوں کے اوپر نیند طاری کردی۔ سونا آدمی کے تازہ دم ہونے کے ليے بہت ضروری ہے۔ مگر میدان جنگ کے حالات اس قدر وحشت ناک ہوتے ہیں کہ آدمی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ خصوصی مدد فرمائی کہ جنگ کے دن سے پہلے والی رات کو ان پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو ذہنی بوجھ سے فارغ ہو کر سوگئے اور صبح کو پوری طرح تازہ دم ہو کر اٹھے — جو حالات مسلمانوں کے اندر وسوسہ پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے، انھیں حالات کے اندر خدا نے ایسے امکانات پیدا کرديے کہ ان کے اندر نیا یقین واعتماد ابھر آیا۔ مقابلہ کے وقت اہل حق سے جو چیز مطلوب ہے وہ ثابت قدمی ہے۔ انھیں کسی حال میں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ثابت قدمی کا نقد انعام خدا کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دشمنانِ حق کے دلوں میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جو گروہ اپنے حریف سے مرعوب ہوجائے اس کو کوئی چیز شکست سے نہیں بچاسکتی۔

إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ

📘 بدر کی لڑائی بڑے نازک حالات میں ہوئی۔ تقریباً ایک ہزار مسلّح دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار بھی کم تھے۔ اس قسم کے حالات دیکھ کر بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ جس مشن کے ليے وہ اپنی زندگی ویران کررہے ہیں اس کے ساتھ شاید خدا کی مدد شامل نہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو ایسے نازک موقع پر خدا کیوں ان کا ساتھ نہ دیتا۔ کیوں اسباب کے اعتبار سے دشمن برتر نظر آرهے هيں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بدر کے علاقہ میں زور کی بارش برسائی۔ مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر بارش کا پانی جمع کرلیا۔ دشمن نے مسلمانوں کو زمین کے پاني سے محروم کیا تھا، خدا نے ان کے ليے آسمان سے پانی کا انتظام کردیا۔ اسی طرح خدا نے یہ غیر معمولی انعام فرمایا کہ مسلمانوں کے اوپر نیند طاری کردی۔ سونا آدمی کے تازہ دم ہونے کے ليے بہت ضروری ہے۔ مگر میدان جنگ کے حالات اس قدر وحشت ناک ہوتے ہیں کہ آدمی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ خصوصی مدد فرمائی کہ جنگ کے دن سے پہلے والی رات کو ان پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو ذہنی بوجھ سے فارغ ہو کر سوگئے اور صبح کو پوری طرح تازہ دم ہو کر اٹھے — جو حالات مسلمانوں کے اندر وسوسہ پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے، انھیں حالات کے اندر خدا نے ایسے امکانات پیدا کرديے کہ ان کے اندر نیا یقین واعتماد ابھر آیا۔ مقابلہ کے وقت اہل حق سے جو چیز مطلوب ہے وہ ثابت قدمی ہے۔ انھیں کسی حال میں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ثابت قدمی کا نقد انعام خدا کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دشمنانِ حق کے دلوں میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جو گروہ اپنے حریف سے مرعوب ہوجائے اس کو کوئی چیز شکست سے نہیں بچاسکتی۔

إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ

📘 بدر کی لڑائی بڑے نازک حالات میں ہوئی۔ تقریباً ایک ہزار مسلّح دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار بھی کم تھے۔ اس قسم کے حالات دیکھ کر بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ جس مشن کے ليے وہ اپنی زندگی ویران کررہے ہیں اس کے ساتھ شاید خدا کی مدد شامل نہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو ایسے نازک موقع پر خدا کیوں ان کا ساتھ نہ دیتا۔ کیوں اسباب کے اعتبار سے دشمن برتر نظر آرهے هيں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بدر کے علاقہ میں زور کی بارش برسائی۔ مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر بارش کا پانی جمع کرلیا۔ دشمن نے مسلمانوں کو زمین کے پاني سے محروم کیا تھا، خدا نے ان کے ليے آسمان سے پانی کا انتظام کردیا۔ اسی طرح خدا نے یہ غیر معمولی انعام فرمایا کہ مسلمانوں کے اوپر نیند طاری کردی۔ سونا آدمی کے تازہ دم ہونے کے ليے بہت ضروری ہے۔ مگر میدان جنگ کے حالات اس قدر وحشت ناک ہوتے ہیں کہ آدمی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ خصوصی مدد فرمائی کہ جنگ کے دن سے پہلے والی رات کو ان پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو ذہنی بوجھ سے فارغ ہو کر سوگئے اور صبح کو پوری طرح تازہ دم ہو کر اٹھے — جو حالات مسلمانوں کے اندر وسوسہ پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے، انھیں حالات کے اندر خدا نے ایسے امکانات پیدا کرديے کہ ان کے اندر نیا یقین واعتماد ابھر آیا۔ مقابلہ کے وقت اہل حق سے جو چیز مطلوب ہے وہ ثابت قدمی ہے۔ انھیں کسی حال میں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ثابت قدمی کا نقد انعام خدا کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دشمنانِ حق کے دلوں میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جو گروہ اپنے حریف سے مرعوب ہوجائے اس کو کوئی چیز شکست سے نہیں بچاسکتی۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَمَنْ يُشَاقِقِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 بدر کی لڑائی بڑے نازک حالات میں ہوئی۔ تقریباً ایک ہزار مسلّح دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار بھی کم تھے۔ اس قسم کے حالات دیکھ کر بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ جس مشن کے ليے وہ اپنی زندگی ویران کررہے ہیں اس کے ساتھ شاید خدا کی مدد شامل نہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو ایسے نازک موقع پر خدا کیوں ان کا ساتھ نہ دیتا۔ کیوں اسباب کے اعتبار سے دشمن برتر نظر آرهے هيں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بدر کے علاقہ میں زور کی بارش برسائی۔ مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر بارش کا پانی جمع کرلیا۔ دشمن نے مسلمانوں کو زمین کے پاني سے محروم کیا تھا، خدا نے ان کے ليے آسمان سے پانی کا انتظام کردیا۔ اسی طرح خدا نے یہ غیر معمولی انعام فرمایا کہ مسلمانوں کے اوپر نیند طاری کردی۔ سونا آدمی کے تازہ دم ہونے کے ليے بہت ضروری ہے۔ مگر میدان جنگ کے حالات اس قدر وحشت ناک ہوتے ہیں کہ آدمی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ خصوصی مدد فرمائی کہ جنگ کے دن سے پہلے والی رات کو ان پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو ذہنی بوجھ سے فارغ ہو کر سوگئے اور صبح کو پوری طرح تازہ دم ہو کر اٹھے — جو حالات مسلمانوں کے اندر وسوسہ پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے، انھیں حالات کے اندر خدا نے ایسے امکانات پیدا کرديے کہ ان کے اندر نیا یقین واعتماد ابھر آیا۔ مقابلہ کے وقت اہل حق سے جو چیز مطلوب ہے وہ ثابت قدمی ہے۔ انھیں کسی حال میں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ثابت قدمی کا نقد انعام خدا کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دشمنانِ حق کے دلوں میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جو گروہ اپنے حریف سے مرعوب ہوجائے اس کو کوئی چیز شکست سے نہیں بچاسکتی۔

ذَٰلِكُمْ فَذُوقُوهُ وَأَنَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابَ النَّارِ

📘 بدر کی لڑائی بڑے نازک حالات میں ہوئی۔ تقریباً ایک ہزار مسلّح دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار بھی کم تھے۔ اس قسم کے حالات دیکھ کر بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ جس مشن کے ليے وہ اپنی زندگی ویران کررہے ہیں اس کے ساتھ شاید خدا کی مدد شامل نہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو ایسے نازک موقع پر خدا کیوں ان کا ساتھ نہ دیتا۔ کیوں اسباب کے اعتبار سے دشمن برتر نظر آرهے هيں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بدر کے علاقہ میں زور کی بارش برسائی۔ مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر بارش کا پانی جمع کرلیا۔ دشمن نے مسلمانوں کو زمین کے پاني سے محروم کیا تھا، خدا نے ان کے ليے آسمان سے پانی کا انتظام کردیا۔ اسی طرح خدا نے یہ غیر معمولی انعام فرمایا کہ مسلمانوں کے اوپر نیند طاری کردی۔ سونا آدمی کے تازہ دم ہونے کے ليے بہت ضروری ہے۔ مگر میدان جنگ کے حالات اس قدر وحشت ناک ہوتے ہیں کہ آدمی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ خصوصی مدد فرمائی کہ جنگ کے دن سے پہلے والی رات کو ان پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو ذہنی بوجھ سے فارغ ہو کر سوگئے اور صبح کو پوری طرح تازہ دم ہو کر اٹھے — جو حالات مسلمانوں کے اندر وسوسہ پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے، انھیں حالات کے اندر خدا نے ایسے امکانات پیدا کرديے کہ ان کے اندر نیا یقین واعتماد ابھر آیا۔ مقابلہ کے وقت اہل حق سے جو چیز مطلوب ہے وہ ثابت قدمی ہے۔ انھیں کسی حال میں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ثابت قدمی کا نقد انعام خدا کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دشمنانِ حق کے دلوں میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جو گروہ اپنے حریف سے مرعوب ہوجائے اس کو کوئی چیز شکست سے نہیں بچاسکتی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ

📘 اسلام اور غیر اسلام کا ٹکراؤ جب جنگ کے میدان تک پہنچ جائے تو یہ گویا دونوں فریقوں کے ليے آخری فیصلہ کا وقت ہوتا ہے۔ ایسے نازک لمحہ میں اگر کوئی شخص یا گروہ ایسا کرے کہ عین معرکہ کے وقت وہ میدان چھوڑ کر بھاگے تو اس نے بدترین جرم کیا۔ ایک طرف اس نے حق کو بچانے کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بچانے کو زیادہ اہم سمجھا، اس نے اپنے مقصد کے مقابلہ میں اپنی ذات کو ترجیح دی۔ اور یہ سب کچھ اس نے اس وقت کیا جب کہ اس حق کی زندگی کی بازی لگی ہوئی تھی جس کو اعلیٰ ترین صداقت قرار دے کر وہ اس پر ایمان لایا تھا۔ دوسرے یہ کہ ایسے نازک موقع پر اکثر ایک چھوٹا سا واقعہ بہت بڑے واقعہ کا سبب بن جاتاہے۔ ایک شخص یا ایک گروہ کا میدان چھوڑ کر بھاگنا پوری فوج کا حوصلہ توڑ دیتاہے۔ ایک شخص کی بھگدڑ بالآخر عام بھگدڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور ہنگامی حالات میں جب کسی مجمع میں عام بھگدڑ شروع ہوجائے تو وہ اپنی آخری حد پر پہنچنے سے پہلے کہیں نہیں رکتی۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ صورت ہے جب کہ کوئی سپاهی یا سپاہیوں کا کوئی دستہ جنگی تدبیر کے ليے پیچھے ہٹتاہے یا وہ اپنے ایک مورچہ سے ہٹ کر کسی دوسرے مورچہ کی طرف سمٹنا چاہتا ہے۔ فرار کے طور پر اگر کوئی پیچھے ہٹتا ہے تو وہ بلا شبہ ناقابل معافی جرم کرتاہے۔ مگر جو پیچھے ہٹنا تدبیر جنگ سے تعلق رکھتا ہو، وہ جائز ہے۔ اس کے ليے آدمی پر کوئی الزام نہیں۔ مذکورہ حکم اصلاً جنگ سے متعلق ہے۔ تاہم دوسری مشابہ صورتیں بھی درجہ بدرجہ اسی کے ذیل میں آسکتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص بے آمیز اسلام کے خاموش اور تعمیری عمل کی طرف لوگوں کو پکارے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد جب وہ دیکھے کہ اس کی دعوت لوگوں میں زیادہ مقبول نہیں ہورہی ہے تو وہ بے صبري کا شکار ہو جائے اور خاموش تعمیر کے محاذ کو چھوڑ کر ایسے اسلام کی طرف دوڑے جس کے ذریعے عوام میں بہت جلد شہرت اور مرتبہ حاصل کیا جاسکتاہے۔ جنگ کے میدان سے بھاگنا شعور اور ارادہ کے تحت ہوتا ہے۔ مگر جنگی میدان کے باہر جو معرکہ جاری ہے اس سے ’’بھاگنا‘‘ ایک غیر شعوری واقعہ هے۔ آدمی طبعی طورپر نتیجہ پسند واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے کام کا اعتراف چاہتا ہے۔ اس کا یہ مزاج غیر شعوری طورپر اس کو ان کاموں سے ہٹا دیتا ہے جن میں فوری نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہ آتا ہو۔ وہ اپنے اندر کام کرنے والے غیر شعوری اثرات کے تحت ان چیزوں کی طرف کھنچ اٹھتا ہے جن میں بظاہر یہ امید ہو کہ فوراً عزت وکامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اس قسم کا ہر انحراف اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی نوعیت کی چیز ہے جس کو مذکورہ آیت میں میدان مقابلہ سے بھاگنا کہاگیا ہے۔

وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٍ فَقَدْ بَاءَ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

📘 اسلام اور غیر اسلام کا ٹکراؤ جب جنگ کے میدان تک پہنچ جائے تو یہ گویا دونوں فریقوں کے ليے آخری فیصلہ کا وقت ہوتا ہے۔ ایسے نازک لمحہ میں اگر کوئی شخص یا گروہ ایسا کرے کہ عین معرکہ کے وقت وہ میدان چھوڑ کر بھاگے تو اس نے بدترین جرم کیا۔ ایک طرف اس نے حق کو بچانے کے مقابلہ میں اپنے آپ کو بچانے کو زیادہ اہم سمجھا، اس نے اپنے مقصد کے مقابلہ میں اپنی ذات کو ترجیح دی۔ اور یہ سب کچھ اس نے اس وقت کیا جب کہ اس حق کی زندگی کی بازی لگی ہوئی تھی جس کو اعلیٰ ترین صداقت قرار دے کر وہ اس پر ایمان لایا تھا۔ دوسرے یہ کہ ایسے نازک موقع پر اکثر ایک چھوٹا سا واقعہ بہت بڑے واقعہ کا سبب بن جاتاہے۔ ایک شخص یا ایک گروہ کا میدان چھوڑ کر بھاگنا پوری فوج کا حوصلہ توڑ دیتاہے۔ ایک شخص کی بھگدڑ بالآخر عام بھگدڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور ہنگامی حالات میں جب کسی مجمع میں عام بھگدڑ شروع ہوجائے تو وہ اپنی آخری حد پر پہنچنے سے پہلے کہیں نہیں رکتی۔ اس سے مستثنیٰ صرف وہ صورت ہے جب کہ کوئی سپاهی یا سپاہیوں کا کوئی دستہ جنگی تدبیر کے ليے پیچھے ہٹتاہے یا وہ اپنے ایک مورچہ سے ہٹ کر کسی دوسرے مورچہ کی طرف سمٹنا چاہتا ہے۔ فرار کے طور پر اگر کوئی پیچھے ہٹتا ہے تو وہ بلا شبہ ناقابل معافی جرم کرتاہے۔ مگر جو پیچھے ہٹنا تدبیر جنگ سے تعلق رکھتا ہو، وہ جائز ہے۔ اس کے ليے آدمی پر کوئی الزام نہیں۔ مذکورہ حکم اصلاً جنگ سے متعلق ہے۔ تاہم دوسری مشابہ صورتیں بھی درجہ بدرجہ اسی کے ذیل میں آسکتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص بے آمیز اسلام کے خاموش اور تعمیری عمل کی طرف لوگوں کو پکارے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد جب وہ دیکھے کہ اس کی دعوت لوگوں میں زیادہ مقبول نہیں ہورہی ہے تو وہ بے صبري کا شکار ہو جائے اور خاموش تعمیر کے محاذ کو چھوڑ کر ایسے اسلام کی طرف دوڑے جس کے ذریعے عوام میں بہت جلد شہرت اور مرتبہ حاصل کیا جاسکتاہے۔ جنگ کے میدان سے بھاگنا شعور اور ارادہ کے تحت ہوتا ہے۔ مگر جنگی میدان کے باہر جو معرکہ جاری ہے اس سے ’’بھاگنا‘‘ ایک غیر شعوری واقعہ هے۔ آدمی طبعی طورپر نتیجہ پسند واقع ہوا ہے۔ وہ اپنے کام کا اعتراف چاہتا ہے۔ اس کا یہ مزاج غیر شعوری طورپر اس کو ان کاموں سے ہٹا دیتا ہے جن میں فوری نتیجہ نکلتا ہوا نظر نہ آتا ہو۔ وہ اپنے اندر کام کرنے والے غیر شعوری اثرات کے تحت ان چیزوں کی طرف کھنچ اٹھتا ہے جن میں بظاہر یہ امید ہو کہ فوراً عزت وکامیابی حاصل ہوجائے گی۔ اس قسم کا ہر انحراف اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسی نوعیت کی چیز ہے جس کو مذکورہ آیت میں میدان مقابلہ سے بھاگنا کہاگیا ہے۔

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ وہ دوسروں سے اپنا پورا حق وصول کرے۔ مگر اعلی انسانی کردار یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو بھی ان کا پورا پورا حق ادا کرے۔ وہ دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کر رہا ہے، جو لوگ خود پورا لیں اور دوسروں کو کم دیں وہ آخرت میں اس حال میں پہنچیں گے کہ وہاں وہ برباد ہو کر رہ جائیں گے۔ جو اپنے لیے پورا وصول کر رہا ہے وہ گویا اس بات کو جانتا ہے کہ آدمی کو اس کا پورا حق ملنا چاہیے۔ ایسی حالت میں جب وہ دوسروں کو دینے کے وقت انہیں کم دیتا ہے تو وہ دوسروں کے حقوق کے بارے میںاپنی حساسیت کو گھٹاتا ہے ۔ جو شخص بار بار اس طرح کا عمل کرے اس پر بالآخر وہ وقت آئے گا جب کہ دوسروں کے حقوق کے بارے میں اس کی حساسیت بالکل ختم ہوجائے۔ اس کے دل کے اوپر پوری طرح اس کے برے عمل کا زنگ لگ جائے۔

ذَٰلِكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ مُوهِنُ كَيْدِ الْكَافِرِينَ

📘 روایات میں آتاہے کہ جب بدر کا معرکہ گرم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دعا کرتے ہوئے یہ الفاظ نکلے يَا رَبُّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا (دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد3، صفحہ 79 )۔ یعنی، اے میرے رب، اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو کبھی زمین پر تیری پرستش نہ ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں مٹھی بھر خاک لی اور اس کو مشرکین کی طرف پھینکتے ہوئے کہاشَاهَتِ الْوُجُوهُ (مسند احمد، حدیث نمبر 2762)۔ یعنی،چهرے بگڑ جائیں۔ اس کے بعد کافروں کے لشکر کا یہ حال ہوا جیسے سب کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ہو۔ چنانچہ مسلمانوں نے نہایت آسانی سے جس کو چاہا قتل کیا اور جس کو چاہا گرفتار کرلیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اہلِ ایمان کی مدد کرتا ہے۔ ان کے دشمن خواہ کتنی ہی سازش کریں وہ ان کی سازشوں کو اپنی تدبیروں سے بے اثر کردیتا ہے۔ وہ ان کو مغلوب کرکے اہل ایمان کو ان کے اوپر غالب کردیتاہے۔ مگر ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اہلِ ایمان اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ میں اس طرح ملا دیں کہ خدا کی منشا اور اہلِ ایمان کی منشا دونوں ایک ہو جائے۔ جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو خدا کے مطابق کرلیتاہے تو جو کچھ خدا کا ہے وہ اس کا ہو جاتا ہے کیوں کہ جو کچھ اس کا ہے وہ خدا کو دے چکا ہوتاہے۔ بد رکے ليے روانگی سے پہلے مکہ کے سردار بیت اللہ گئے اور کعبہ کے پردہ کو پکڑ کر یہ دعا کی خدایا، اس کی مدد کر جو دونوں لشکروں میں سب سے اعلیٰ ہو، جو دونوں گروہوں میں سب سے معزز ہو، جو دونوں قبیلوں میں سب سے بہتر ہو (اللَّهُمَّ انْصُرْ أَعْلَى الْجُنْدَيْنِ، وَأَكْرَمَ الْفِئَتَيْنِ، وَخَيْرَ الْقَبِيلَتَيْنِ )تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 33 ۔ بد رکی لڑائی میں سرداران مکہ کو کامل شکست اور اہلِ ایمان کو کامل فتح ہوئی۔ اس طرح خود سرداران مکہ کے معیار کے مطابق یہ ثابت ہوگیا کہ خدا کے نزیک اعلیٰ واشرف گروہ وہ نہیں ہیں بلکہ اہلِ اسلام ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ جو لوگ ایسا کریں ان کے ليے آخرت میں سخت ترین عذاب ہے اور اسی کے ساتھ دنیا میں بھی۔ ’’دونوں میں جو سب سے اعلیٰ اور سب سے اشرف ہو اس کو فتح دے‘‘— یہ بظاہر دعا تھی مگر حقیقۃً وہ اپنے حق میں پُرفخر اعتماد کا اظہار تھا۔ اس کے پیچھے ان کی یہ نفسیات کام کررہی تھی کہ ہم کعبہ کے پاسبان ہیں۔ ہم ابراہیم واسماعیل سے نسبت رکھنے والے ہیں۔ جب ہمارے ساتھ اتنی بڑی فضیلتیں جمع ہیں توجیت بہر حال ہماری ہونی چاہیے۔ مگر خدا کے یہاں ذاتی عمل کی قیمت ہے، نہ کہ خارجی انتسابات کی۔ خارجی انتساب خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو آدمی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ ۖ وَإِنْ تَنْتَهُوا فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ وَإِنْ تَعُودُوا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِيَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 روایات میں آتاہے کہ جب بدر کا معرکہ گرم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے دعا کرتے ہوئے یہ الفاظ نکلے يَا رَبُّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْأَرْضِ أَبَدًا (دلائل النبوۃ للبیہقی، جلد3، صفحہ 79 )۔ یعنی، اے میرے رب، اگر یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو کبھی زمین پر تیری پرستش نہ ہوگی۔ پھر آپ نے اپنے ہاتھ میں مٹھی بھر خاک لی اور اس کو مشرکین کی طرف پھینکتے ہوئے کہاشَاهَتِ الْوُجُوهُ (مسند احمد، حدیث نمبر 2762)۔ یعنی،چهرے بگڑ جائیں۔ اس کے بعد کافروں کے لشکر کا یہ حال ہوا جیسے سب کی آنکھوں میں ریت پڑ گئی ہو۔ چنانچہ مسلمانوں نے نہایت آسانی سے جس کو چاہا قتل کیا اور جس کو چاہا گرفتار کرلیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ذمہ ہے کہ وہ اہلِ ایمان کی مدد کرتا ہے۔ ان کے دشمن خواہ کتنی ہی سازش کریں وہ ان کی سازشوں کو اپنی تدبیروں سے بے اثر کردیتا ہے۔ وہ ان کو مغلوب کرکے اہل ایمان کو ان کے اوپر غالب کردیتاہے۔ مگر ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اہلِ ایمان اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ میں اس طرح ملا دیں کہ خدا کی منشا اور اہلِ ایمان کی منشا دونوں ایک ہو جائے۔ جب بندہ اس طرح اپنے آپ کو خدا کے مطابق کرلیتاہے تو جو کچھ خدا کا ہے وہ اس کا ہو جاتا ہے کیوں کہ جو کچھ اس کا ہے وہ خدا کو دے چکا ہوتاہے۔ بد رکے ليے روانگی سے پہلے مکہ کے سردار بیت اللہ گئے اور کعبہ کے پردہ کو پکڑ کر یہ دعا کی خدایا، اس کی مدد کر جو دونوں لشکروں میں سب سے اعلیٰ ہو، جو دونوں گروہوں میں سب سے معزز ہو، جو دونوں قبیلوں میں سب سے بہتر ہو (اللَّهُمَّ انْصُرْ أَعْلَى الْجُنْدَيْنِ، وَأَكْرَمَ الْفِئَتَيْنِ، وَخَيْرَ الْقَبِيلَتَيْنِ )تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 33 ۔ بد رکی لڑائی میں سرداران مکہ کو کامل شکست اور اہلِ ایمان کو کامل فتح ہوئی۔ اس طرح خود سرداران مکہ کے معیار کے مطابق یہ ثابت ہوگیا کہ خدا کے نزیک اعلیٰ واشرف گروہ وہ نہیں ہیں بلکہ اہلِ اسلام ہیں۔ اس کے باوجود انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔ جو لوگ ایسا کریں ان کے ليے آخرت میں سخت ترین عذاب ہے اور اسی کے ساتھ دنیا میں بھی۔ ’’دونوں میں جو سب سے اعلیٰ اور سب سے اشرف ہو اس کو فتح دے‘‘— یہ بظاہر دعا تھی مگر حقیقۃً وہ اپنے حق میں پُرفخر اعتماد کا اظہار تھا۔ اس کے پیچھے ان کی یہ نفسیات کام کررہی تھی کہ ہم کعبہ کے پاسبان ہیں۔ ہم ابراہیم واسماعیل سے نسبت رکھنے والے ہیں۔ جب ہمارے ساتھ اتنی بڑی فضیلتیں جمع ہیں توجیت بہر حال ہماری ہونی چاہیے۔ مگر خدا کے یہاں ذاتی عمل کی قیمت ہے، نہ کہ خارجی انتسابات کی۔ خارجی انتساب خواہ وہ کتنا ہی بڑا ہو آدمی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔

إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

📘 سورہ انفال جنگ بدر (2 ہجری) کے بعد اتری۔ اس جنگ میںمسلمانوں کو فتح ہوئی تھی اور اس کے بعد میدانِ جنگ سے کافی مال غنیمت حاصل ہوا تھا۔ مگر یہ اموال عملاً ایک گروہ کے قبضہ میں تھے۔اس بنا پر جنگ کے بعد غنیمت کی تقسیم پر نزاع پیدا ہوگئی۔ جنگ میں کچھ لوگ پچھلی صف میں تھے۔ کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ آخری مرحلہ میں دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس طرح میدان جنگ سے مالِ غنیمت لوٹنے کا موقع ایک خاص فریق کو ملا۔ دوسرے لوگ جو اس وقت میدانِ جنگ سے دور تھے وہ دشمن کے چھوڑے ہوئے اموال کو حاصل نہ کرسکے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ اصولی طو رپر تو جنگ کے تمام شرکاء اپنے کو مال غنیمت میں حصہ دارسمجھتے تھے۔ مگر مالِ غنیمت عملاً صرف ایک گروہ کے قبضہ میں تھا۔ ایک فریق کے پاس دلیل تھی اور دوسرے فریق کے پاس مال۔ ایک کے پاس اپنے حق کو ثابت کرنے کے ليے صرف الفاظ تھے، جب کہ دوسرے کا حق کسی دلیل وثبوت کے بغیر خود قبضہ کے زور پر قائم تھا۔ اس قسم کے تمام جھگڑے خدا کے خوف کے منافی ہیں۔ خدا کا خوف آدمی کے اندر ذمہ داری کی نفسیات ابھارتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ فرائض پر ہوتی ہے، نہ کہ حقوق پر۔ وہ اپنی طرف دیکھنے کے بجائے خدا کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ اس کادل خدا و رسول کی اطاعت کے ليے نرم پڑ جاتاہے۔ وہ خدا کا عبادت گزار بندہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کو دے کر اسے تسکین ملتی ہے، نہ کہ لوگوں سے چھین کر۔ یہ اوصاف آدمی کے اندر حقیقت پسندی اور حق کے اعتراف کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔حقیقت پسندی اور اعترافِ حق کی فضا کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس کے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کبھی اتفاقاً ابھرتے ہیں تو ایک بار کی تنبیہ ان کی اصلاح کے ليے کافی ہوجاتی ہے۔ خدا کی پکڑ کا اندیشہ ہرایک کو اس حد پر پہنچا دیتاہے جس حد پر اس کو فی الواقع ہونا چاہیے تھا۔ اور جہاں ہر آدمی اپنی واقعی حد پر ركنے کے ليے راضی ہوجائے وہاں جھگڑے کا کوئی گزر نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنْتُمْ تَسْمَعُونَ

📘 کائنات کا نظام تقاضا کرتا ہے کہ آخری فیصلہ کا ایک دن آئے۔ اسی دن کی خبر تمام پیغمبر اور ان کے سچے نائب دیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ حق کا اعتراف نہ کریں بلکہ حق کے داعیوں کے دشمن بن جائیں وہ ایسی سرکشی کرتے ہیں جس کے ہولناک انجام سے وہ کسی طرح بچ نہیں سکتے۔ تاہم جو لوگ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود صداقت کی آواز پر لبیک کہیں وہ خدائے مہرباں کی طرف سے ایسا انعام پائیں گے جس سے بڑا انعام اور کوئی نہیں۔ آسمانی کتابوں میں قرآن استثنائی طور پر ایک محفوظ کتاب ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قرآن کو خدا کی خصوصی مدد حاصل ہے۔ اس کو زیر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ

📘 کائنات کا نظام تقاضا کرتا ہے کہ آخری فیصلہ کا ایک دن آئے۔ اسی دن کی خبر تمام پیغمبر اور ان کے سچے نائب دیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ حق کا اعتراف نہ کریں بلکہ حق کے داعیوں کے دشمن بن جائیں وہ ایسی سرکشی کرتے ہیں جس کے ہولناک انجام سے وہ کسی طرح بچ نہیں سکتے۔ تاہم جو لوگ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود صداقت کی آواز پر لبیک کہیں وہ خدائے مہرباں کی طرف سے ایسا انعام پائیں گے جس سے بڑا انعام اور کوئی نہیں۔ آسمانی کتابوں میں قرآن استثنائی طور پر ایک محفوظ کتاب ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قرآن کو خدا کی خصوصی مدد حاصل ہے۔ اس کو زیر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

۞ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ

📘 کائنات کا نظام تقاضا کرتا ہے کہ آخری فیصلہ کا ایک دن آئے۔ اسی دن کی خبر تمام پیغمبر اور ان کے سچے نائب دیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود جو لوگ حق کا اعتراف نہ کریں بلکہ حق کے داعیوں کے دشمن بن جائیں وہ ایسی سرکشی کرتے ہیں جس کے ہولناک انجام سے وہ کسی طرح بچ نہیں سکتے۔ تاہم جو لوگ ہر قسم کی مشکلات کے باوجود صداقت کی آواز پر لبیک کہیں وہ خدائے مہرباں کی طرف سے ایسا انعام پائیں گے جس سے بڑا انعام اور کوئی نہیں۔ آسمانی کتابوں میں قرآن استثنائی طور پر ایک محفوظ کتاب ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قرآن کو خدا کی خصوصی مدد حاصل ہے۔ اس کو زیر کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں یہاں تک کہ قیامت آجائے۔

وَلَوْ عَلِمَ اللَّهُ فِيهِمْ خَيْرًا لَأَسْمَعَهُمْ ۖ وَلَوْ أَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ

📘 آدمی کے سامنے جب حق بات پیش کی جائے تو ایک صورت یہ ہے کہ وہ اس کو ان تمام صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے سنے جو خدا نے اس کو بحیثیت انسان عطا کی ہیں۔ وہ اس پر پوری طرح دھیان دے۔ وہ اس کی صداقت کے وزن کو محسوس کرلے۔ اور پھر اپنی زبان سے وہ صحیح جواب پیش کرے جو ایک حق کے مقابلہ میں انسان کی فطرت کو پیش کرنا چاہیے۔ جو شخص ایسا کرے اس نے گویا پیش کی ہوئی بات کو انسان کی طرح سنا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ وہ اس کو اس طرح سنے جیسے کہ اس کے پاس سننے کے ليے کان نہیں ہیں۔ اس کے سمجھنے کی صلاحیت اس کی سچائی کو پکڑنے سے عاجز رہ جائے۔ وہ اپنی زبان سے وہ صحیح جواب پیش نہ کرسکے جو اس کو ازروئے واقعہ پیش کرنا چاهيے۔ جو شخص ایسا کرے اس نے گویا پیش کی ہوئی بات کو جانور کی طرح سنا۔ کوئی بات خواہ وہ کتنی ہی برحق ہو اس کی حقانیت صرف اسی شخص پر کھلتی ہے جو دل کی آمادگی کے ساتھ اس کو سنے۔ اس کے برعکس، جو شخص حسد، کبر، مصلحت اندیشی اور ظاہر پرستی کا مزاج اپنے اندر ليے ہوئے ہو وہ سچائی کو قابل غور نہیں سمجھے گا، وہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں سنے گا، اس ليے وہ اس کی صداقت کو پانے میں بھی یقینی طور پر ناکام رہے گا۔ ایمان بظاہر ایک قول ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک انسانی فیصلہ ہے۔ ایمان محض شہادت کے الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ اپنی معنوی حالت کا لفظی اظہار ہے۔ اگر آدمی کی حالت فی الواقع وہی ہو جس کا وہ ان الفاظ کے ذریعے اعلان کررہا ہے تو وہ خدا کی نظر میں حقیقی مومن ہے۔ مومن سنجیدہ ترین انسان ہے اور سنجیدہ انسان کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ اس کي اندرونی حالت کچھ ہو اور بولے ہوئے الفاظ میں وہ اپنے کو کچھ ظاہر کرے۔ جس آدمی کا ایمان اپنی اندرونی حقیقت کے اعلان کے ہم معنی ہو وہ ایمان کا اقرار کرتے ہی عملاً خدا کو اپنا معبود بنالے گا اور اپنی زندگی کے تمام معاملات میں اس کی پیروی کرنے والا بن جائے گا۔ زبان سے ایمان کا اقرار اس کے ليے اپنی سمت سفر بتانے کے ہم معنی ہوگا، نہ کہ کسی قسم کے لسانی تلفظ کے ہم معنی۔ اس کے برعکس، حالت اس شخص کی ہے جس نے بات سنی۔ وہ اس کے دلائل کے مقابلہ میں لاجواب بھی ہوگیا۔ مگر وہ اس کی روح میں نہیں اتری۔ وہ اس کے دل کی دھڑکنوں میں شامل نہیں ہوئی۔ تاہم اوپری طورپر اس نے زبان سے کہہ دیا کہ ہاں ٹھیک ہے۔ مگر اس کی واقعی زندگی اس کے بعد بھی ویسی ہی رہی جیسی کہ وہ اس سے پہلے تھی۔ یہ دوسری نفاق کی صورت ہے اور خدا کے یہاں ایسے منافقانہ ایمان کی کوئی قیمت نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

📘 ’’زندگی کی پکار‘‘ سے مراد یہاں جہاد کی پکار ہے۔ یعنی حق کو دوسروں تک پہنچانے کی جدوجہد۔ یہ جدوجہد ابتداء ً زبان وقلم کے ذریعہ تلقین کی صورت میں شروع ہوتی ہے۔ مگر مدعو کا مخالفانہ رد عمل اس کو مختلف مراحل تک پہنچا دیتاہے، حتی کہ ہجرت اور جنگ تک بھی۔ آدمی انفرادی سطح پر اپنے خیال کے مطابق ایک دینی زندگی بناتا ہے۔ اس زندگی کو وہ اپنے حالات سے اس طرح مطابق کرلیتاہے کہ وہ اس کو عافیت کا جزیرہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ اگر وہ دوسروں کی اصلاح کے ليے اٹھتاتو اس کا بنا بنایا آشیانہ اجڑ جائے گا۔ اس کی لگی بندھی زندگی بے ترتیب ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے وقت اور اس کے مال کا وہ نظام باقی نہ رہے گا، جو اس نے اپنے ذاتی تقاضوں کے تحت بنا رکھا ہے۔ اس قسم کے اندیشے اس کے ليے دعوت واصلاح کی جدوجہد میں نکلنے اور اس کی راه میں جان ومال پیش کرنے کے ليے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس عافیت کدہ کو اپنے ليے زندگی سمجھ رہا ہے، وہ اس کا قبرستان ہے۔ اور جس قربانی میں اس کو اپنی موت نظر آتی ہے اسی میں اس کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔ دعوت واصلاح کا عمل، بشرطیکہ وہ آخرت کے ليے ہو، نہ کہ دنیوی مقاصد کے ليے، انتہائی اہم عمل ہے۔ وہ آدمی کے مُردہ دین کو زندہ دین بناتا ہے۔ وہ اعلیٰ ترین سطح پر انسان کو خدا سے جوڑتاہے۔ وہ ان قیمتی دینی تجربات سے آدمی کو آشنا کرتاہے جو انفرادی خول میں رہ کر کبھی حاصل نہیں ہوتے۔ خدا کی طرف سے اتنی اہم پکار کو سن کر جو لوگ اس کے بارے میں بے توجہ رہیں، وہ یہ خطرہ مول لے رهے ہیں کہ ان کے اور حق کے درمیان ایک نفسیاتی آڑ کھڑی ہوجائے۔ ان کی یہ فطری صلاحیت ہمیشہ کے ليے کُند ہوجائے کہ وہ حق کی پکار سنیں اور اس کی طرف دوڑ کر اپنے رب کو پالیں۔ انسان کی زندگی ایک سماجی زندگی ہے۔ کوئی شخص اس کے اندر اپنا انفرادی جزیرہ بنا کر نہیں رہ سکتا۔ اگر ایک شخص ذاتی دین داری پر قانع ہے تو وہ ہر وقت اس اندیشہ میں ہے کہ اجتماعی بگاڑ کے نتیجہ میں کوئی عمومی آگ پھیلے اور وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آجائے۔ اصلاحی جدوجہد اصلاح کے ساتھ برأت بھی ہے۔ اگر آدمی اپنی برأت پیش کرنے میں ناکام رہے تو خدا اس کے معاملہ کو کیوں دوسروں سے الگ کرے گا۔ کوئی برائی ہمیشہ چھوٹی سطح سے شروع ہوتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے بڑی بن جاتی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ برائی جب اپنی ابتدائی حالت میں ہو اسی وقت کچھ لوگ اس کے خلاف اٹھ جائیں تو وہ آسانی کے ساتھ اسے کچل دیں گے۔ لیکن جب برائی پھیل چکی ہو تو اس کی جڑیں اتنی گہری ہوجاتی ہیں کہ پھر اس کو ختم کرنا ممکن نہیں رہتا۔

وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 ’’زندگی کی پکار‘‘ سے مراد یہاں جہاد کی پکار ہے۔ یعنی حق کو دوسروں تک پہنچانے کی جدوجہد۔ یہ جدوجہد ابتداء ً زبان وقلم کے ذریعہ تلقین کی صورت میں شروع ہوتی ہے۔ مگر مدعو کا مخالفانہ رد عمل اس کو مختلف مراحل تک پہنچا دیتاہے، حتی کہ ہجرت اور جنگ تک بھی۔ آدمی انفرادی سطح پر اپنے خیال کے مطابق ایک دینی زندگی بناتا ہے۔ اس زندگی کو وہ اپنے حالات سے اس طرح مطابق کرلیتاہے کہ وہ اس کو عافیت کا جزیرہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوتاہے کہ اگر وہ دوسروں کی اصلاح کے ليے اٹھتاتو اس کا بنا بنایا آشیانہ اجڑ جائے گا۔ اس کی لگی بندھی زندگی بے ترتیب ہو کر رہ جائے گی۔ اس کے وقت اور اس کے مال کا وہ نظام باقی نہ رہے گا، جو اس نے اپنے ذاتی تقاضوں کے تحت بنا رکھا ہے۔ اس قسم کے اندیشے اس کے ليے دعوت واصلاح کی جدوجہد میں نکلنے اور اس کی راه میں جان ومال پیش کرنے کے ليے رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس عافیت کدہ کو اپنے ليے زندگی سمجھ رہا ہے، وہ اس کا قبرستان ہے۔ اور جس قربانی میں اس کو اپنی موت نظر آتی ہے اسی میں اس کی زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔ دعوت واصلاح کا عمل، بشرطیکہ وہ آخرت کے ليے ہو، نہ کہ دنیوی مقاصد کے ليے، انتہائی اہم عمل ہے۔ وہ آدمی کے مُردہ دین کو زندہ دین بناتا ہے۔ وہ اعلیٰ ترین سطح پر انسان کو خدا سے جوڑتاہے۔ وہ ان قیمتی دینی تجربات سے آدمی کو آشنا کرتاہے جو انفرادی خول میں رہ کر کبھی حاصل نہیں ہوتے۔ خدا کی طرف سے اتنی اہم پکار کو سن کر جو لوگ اس کے بارے میں بے توجہ رہیں، وہ یہ خطرہ مول لے رهے ہیں کہ ان کے اور حق کے درمیان ایک نفسیاتی آڑ کھڑی ہوجائے۔ ان کی یہ فطری صلاحیت ہمیشہ کے ليے کُند ہوجائے کہ وہ حق کی پکار سنیں اور اس کی طرف دوڑ کر اپنے رب کو پالیں۔ انسان کی زندگی ایک سماجی زندگی ہے۔ کوئی شخص اس کے اندر اپنا انفرادی جزیرہ بنا کر نہیں رہ سکتا۔ اگر ایک شخص ذاتی دین داری پر قانع ہے تو وہ ہر وقت اس اندیشہ میں ہے کہ اجتماعی بگاڑ کے نتیجہ میں کوئی عمومی آگ پھیلے اور وہ خود بھی اس کی لپیٹ میں آجائے۔ اصلاحی جدوجہد اصلاح کے ساتھ برأت بھی ہے۔ اگر آدمی اپنی برأت پیش کرنے میں ناکام رہے تو خدا اس کے معاملہ کو کیوں دوسروں سے الگ کرے گا۔ کوئی برائی ہمیشہ چھوٹی سطح سے شروع ہوتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے بڑی بن جاتی ہے۔ اگر ایسا ہو کہ برائی جب اپنی ابتدائی حالت میں ہو اسی وقت کچھ لوگ اس کے خلاف اٹھ جائیں تو وہ آسانی کے ساتھ اسے کچل دیں گے۔ لیکن جب برائی پھیل چکی ہو تو اس کی جڑیں اتنی گہری ہوجاتی ہیں کہ پھر اس کو ختم کرنا ممکن نہیں رہتا۔

وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آدمی دیکھتا ہے کہ اونٹ جیسا عجیب الخلقت جانور اس کا مطیع ہے۔ آسمان اپنی ساری عظمتوں کے باوجود اس کے لیے مسخر ہے۔ زمین ہماری کسی کوشش کے بغیر ہمارے لیے حد درجہ موافق بنی ہوئی ہے۔ یہ واقعات سوچنے والے کو خدا اور آخرت کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ جو لوگ دنیا کے اس نظام سے یاد دہانی کی غذا لیں انھوں نے اپنے لیے خدا کی ابدي نعمتوں کا استحقاق ثابت کیا۔ اور جو لوگ غفلت میں پڑے رہیں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف اس قابل ہیں کہ ان کو ہر قسم کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیا جائے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 مکہ میں مسلمان بالکل بے بسی کی حالت میں تھے۔ ہر وقت اندیشہ لگا رہتا کہ کب ان کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ وہ ایسے کمزور کی مانندتھے جس کو ہر طرح دبایا جاتاہے اور اس کے جائز حقوق بھی اس کو نہیں ديے جاتے۔ بالآخر ان کے ليے مدینہ کا راستہ کھلا۔ ان کو یہ موقع دیاگیا کہ وہ مدینہ جاکر اپنا مرکز بنائیں اور وہاں کے ماحول میں آزادی اور عزت کے ساتھ رہیں۔ مشکل کے بعد آسانی فراہم کرنے کا یہ معاملہ اس ليے کیا جاتاہے تاکہ آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرے۔ آدمی کے حالات جب اس حد پر پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتاہے۔ اس وقت اچانک خدا کی مدد ظاہر ہو کر حالات کو بدل دیتی ہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے تاکہ آدمی یقین کرے کہ جو کچھ ہوا وہ خدا کی طرف سے ہوا۔ اس احساس کی بنا پر وہ خدا کے انعامات کے جذبہ سے سرشار ہوجائے۔ آدمی خدا اور ا س کے رسول پر ایمان لاتاہے۔ اس طرح وہ عہد کرتاہے کہ وہ خدا ورسول کے راستہ پر چلے گا۔ مگر جب ایمانی طریقہ کو اختیار کرنے میں اس کے مال واولاد کے تقاضے حائل ہوتے ہیں تو وہ ایمان کے تقاضے کو چھوڑ کر مال واولاد کے تقاضے کو پکڑ لیتاہے۔ یہ ایمانی عہد کے ساتھ کھلی ہوئی غداری ہے۔ اس غداری کی شناعت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ دیکھا جائے کہ آدمی جس چیز کے ساتھ غداری کا معاملہ کررہا ہے وہ بھی خود خدا کا ایک عطیہ ہے۔ آدمی کا مال اور اس کی اولاد کیا ہے۔ وہ خدا ہی کا دیا ہوا تو ہے۔ وہ بندہ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس امانت کا اگر کوئی سب سے بہتر مصرف ہوسکتاہے تو وہ یہ ہے کہ جب دینے والا اس کو مانگے تو اس کو بخوشی اس کے حوالے کردیا جائے۔ مگر جب خدا کہتاہے کہ میرے دین کے ليے اٹھو اور اس میں اپنی اپنی قوتیں لگاؤ تو آدمی اسی امانت کو اپنے ليے عذر بنا لیتاہے جس کو خدا کے دین کی راہ میں دے کر اسے خدا سے كيے ہوئے عہدِ ایمان کو پورا کرنا تھا — وہ کامیابی کے کنارے پہنچ کر اپنے کو ناکاموں کی فہرست میں لکھوا لیتاہے۔ کوئی فعل خدا کے یہاں جرم اس وقت بنتا ہے جب کہ یہ جانتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے کہ وہ غلط ہے۔ کسی شخص پر اگر اس کے ایک کام کی غلطی واضح ہو جاتی ہے اور اس کے بعد بھی وہ اس کا ارتکاب کرتاہے تو وہ بہت بڑی ذمہ داری اپنے سر لے رہا ہے۔ کیوں کہ غلطی کو غلطی جاننے کے بعد اس کو دہرانا ڈھٹائی ہے اور ڈھٹائی خدا کے یہاں قابل معافی نہیں۔

وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ

📘 مکہ میں مسلمان بالکل بے بسی کی حالت میں تھے۔ ہر وقت اندیشہ لگا رہتا کہ کب ان کو اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔ وہ ایسے کمزور کی مانندتھے جس کو ہر طرح دبایا جاتاہے اور اس کے جائز حقوق بھی اس کو نہیں ديے جاتے۔ بالآخر ان کے ليے مدینہ کا راستہ کھلا۔ ان کو یہ موقع دیاگیا کہ وہ مدینہ جاکر اپنا مرکز بنائیں اور وہاں کے ماحول میں آزادی اور عزت کے ساتھ رہیں۔ مشکل کے بعد آسانی فراہم کرنے کا یہ معاملہ اس ليے کیا جاتاہے تاکہ آدمی کے اندر شکر کا جذبہ ابھرے۔ آدمی کے حالات جب اس حد پر پہنچ جاتے ہیں جہاں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرنے لگتاہے۔ اس وقت اچانک خدا کی مدد ظاہر ہو کر حالات کو بدل دیتی ہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے تاکہ آدمی یقین کرے کہ جو کچھ ہوا وہ خدا کی طرف سے ہوا۔ اس احساس کی بنا پر وہ خدا کے انعامات کے جذبہ سے سرشار ہوجائے۔ آدمی خدا اور ا س کے رسول پر ایمان لاتاہے۔ اس طرح وہ عہد کرتاہے کہ وہ خدا ورسول کے راستہ پر چلے گا۔ مگر جب ایمانی طریقہ کو اختیار کرنے میں اس کے مال واولاد کے تقاضے حائل ہوتے ہیں تو وہ ایمان کے تقاضے کو چھوڑ کر مال واولاد کے تقاضے کو پکڑ لیتاہے۔ یہ ایمانی عہد کے ساتھ کھلی ہوئی غداری ہے۔ اس غداری کی شناعت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہ دیکھا جائے کہ آدمی جس چیز کے ساتھ غداری کا معاملہ کررہا ہے وہ بھی خود خدا کا ایک عطیہ ہے۔ آدمی کا مال اور اس کی اولاد کیا ہے۔ وہ خدا ہی کا دیا ہوا تو ہے۔ وہ بندہ کے پاس خدا کی امانت ہے۔ اس امانت کا اگر کوئی سب سے بہتر مصرف ہوسکتاہے تو وہ یہ ہے کہ جب دینے والا اس کو مانگے تو اس کو بخوشی اس کے حوالے کردیا جائے۔ مگر جب خدا کہتاہے کہ میرے دین کے ليے اٹھو اور اس میں اپنی اپنی قوتیں لگاؤ تو آدمی اسی امانت کو اپنے ليے عذر بنا لیتاہے جس کو خدا کے دین کی راہ میں دے کر اسے خدا سے كيے ہوئے عہدِ ایمان کو پورا کرنا تھا — وہ کامیابی کے کنارے پہنچ کر اپنے کو ناکاموں کی فہرست میں لکھوا لیتاہے۔ کوئی فعل خدا کے یہاں جرم اس وقت بنتا ہے جب کہ یہ جانتے ہوئے اس پر عمل کیا جائے کہ وہ غلط ہے۔ کسی شخص پر اگر اس کے ایک کام کی غلطی واضح ہو جاتی ہے اور اس کے بعد بھی وہ اس کا ارتکاب کرتاہے تو وہ بہت بڑی ذمہ داری اپنے سر لے رہا ہے۔ کیوں کہ غلطی کو غلطی جاننے کے بعد اس کو دہرانا ڈھٹائی ہے اور ڈھٹائی خدا کے یہاں قابل معافی نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

📘 فرقان کے معنی ہیں فرق کرنے والی چیز۔ یہاں فرقان سے مراد حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ آدمی اگر اللہ سے ڈرے، وہ وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس سے بچے جس سے اللہ نے منع کیا ہے تو اس کو اس بات کی توفیق ملتی ہے کہ وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے (مَنِ اتَّقَى اللهَ بِفِعْلِ أَوَامِرِهِ وَتَرْكِ زَوَاجِرِهِ، وُفِّقَ لِمَعْرِفَةِ الْحَقِّ مِنَ الْبَاطِلِ )تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 43 ۔ انسانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والي سب سے بڑی چیز ڈر ہے۔ جس معاملہ میں انسان کے اندر ڈر کی نفسیات پیدا ہوجائے اس معاملہ میں وہ حد درجہ حقیقت پسند بن جاتاہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے ذہن کے تمام پردوں كو اس طرح هٹا ديتي هےكه اس بارے ميں وه هر قسم كي غفلت يا غلط فهمي سے بلند هو كر صحیح ترین رائے قائم کرسکے۔ یہی معاملہ اس بندۂ خدا کے ساتھ پیش آتاہے جس کو رب العالمین کے ساتھ تقویٰ (ڈر) کاتعلق پیداہوگیا ہو۔ یہ فرقان تقریباً وہی چیز ہے جس کو معرفت یا بصیرت کہاجاتاہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیداکرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی معاملہ میںاپنے کو اتنا زیادہ شامل کرتا ہے کہ وہ اس کی پروا کرنے لگے۔ وہ اس کے بارے میں اندیشہ ناک رہتاہو تو اس کے بعد اس کے اندر ایک خاص طرح کی حساسيت پیدا ہوتی ہے جو اس کو اس معاملہ کے موافق اور مخالف کی پہچان کرادیتی ہے۔ یہ فرقانی معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتاہے خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر اور ڈاکٹر اور انجینئر۔ کوئی بھی آدمی جب اپنے کام سے تقویٰ (کھٹک) کی حد تک اپنے کو وابستہ کرتاہے تو اس کو اس معاملہ کی ایسی معرفت ہوجاتی ہے کہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میںاُلجھے بغیر وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے۔ کسی آدمی کے اندر یہ خدائی بصیرت (فرقان) پیدا ہونا اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ برائیوں سے بچے، وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرے اور بالآخر خداکے فضل کا مستحق بن جائے۔ یہ فرقان (حق وباطل کی نفسیاتی تمیز) پیدا ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حق کے ساتھ اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہے کہ اس میں اور حق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ اور حق دونوں ایک دوسرے کا مُثني (counterpart) بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اس کا بچایا جانا اتنا ہی ضروری ہو جاتاہے جتنا حق کو بچایا جانا۔ ایسے لوگ براہِ راست خدا کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اب ان کے خلاف تدبیریں کرنا خود حق کے خلاف تدبیریں کرنا بن جاتا ہے۔ اور خدا کے خلاف تدبیر کرنے والا ہمیشہ ناکام رہتا ہے خواہ اس نے کتنی ہی بڑی تدبیر کر رکھی ہو۔

الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

📘 سورہ انفال جنگ بدر (2 ہجری) کے بعد اتری۔ اس جنگ میںمسلمانوں کو فتح ہوئی تھی اور اس کے بعد میدانِ جنگ سے کافی مال غنیمت حاصل ہوا تھا۔ مگر یہ اموال عملاً ایک گروہ کے قبضہ میں تھے۔اس بنا پر جنگ کے بعد غنیمت کی تقسیم پر نزاع پیدا ہوگئی۔ جنگ میں کچھ لوگ پچھلی صف میں تھے۔ کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ آخری مرحلہ میں دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس طرح میدان جنگ سے مالِ غنیمت لوٹنے کا موقع ایک خاص فریق کو ملا۔ دوسرے لوگ جو اس وقت میدانِ جنگ سے دور تھے وہ دشمن کے چھوڑے ہوئے اموال کو حاصل نہ کرسکے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ اصولی طو رپر تو جنگ کے تمام شرکاء اپنے کو مال غنیمت میں حصہ دارسمجھتے تھے۔ مگر مالِ غنیمت عملاً صرف ایک گروہ کے قبضہ میں تھا۔ ایک فریق کے پاس دلیل تھی اور دوسرے فریق کے پاس مال۔ ایک کے پاس اپنے حق کو ثابت کرنے کے ليے صرف الفاظ تھے، جب کہ دوسرے کا حق کسی دلیل وثبوت کے بغیر خود قبضہ کے زور پر قائم تھا۔ اس قسم کے تمام جھگڑے خدا کے خوف کے منافی ہیں۔ خدا کا خوف آدمی کے اندر ذمہ داری کی نفسیات ابھارتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ فرائض پر ہوتی ہے، نہ کہ حقوق پر۔ وہ اپنی طرف دیکھنے کے بجائے خدا کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ اس کادل خدا و رسول کی اطاعت کے ليے نرم پڑ جاتاہے۔ وہ خدا کا عبادت گزار بندہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کو دے کر اسے تسکین ملتی ہے، نہ کہ لوگوں سے چھین کر۔ یہ اوصاف آدمی کے اندر حقیقت پسندی اور حق کے اعتراف کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔حقیقت پسندی اور اعترافِ حق کی فضا کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس کے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کبھی اتفاقاً ابھرتے ہیں تو ایک بار کی تنبیہ ان کی اصلاح کے ليے کافی ہوجاتی ہے۔ خدا کی پکڑ کا اندیشہ ہرایک کو اس حد پر پہنچا دیتاہے جس حد پر اس کو فی الواقع ہونا چاہیے تھا۔ اور جہاں ہر آدمی اپنی واقعی حد پر ركنے کے ليے راضی ہوجائے وہاں جھگڑے کا کوئی گزر نہیں۔

وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

📘 فرقان کے معنی ہیں فرق کرنے والی چیز۔ یہاں فرقان سے مراد حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ آدمی اگر اللہ سے ڈرے، وہ وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس سے بچے جس سے اللہ نے منع کیا ہے تو اس کو اس بات کی توفیق ملتی ہے کہ وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے (مَنِ اتَّقَى اللهَ بِفِعْلِ أَوَامِرِهِ وَتَرْكِ زَوَاجِرِهِ، وُفِّقَ لِمَعْرِفَةِ الْحَقِّ مِنَ الْبَاطِلِ )تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 43 ۔ انسانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والي سب سے بڑی چیز ڈر ہے۔ جس معاملہ میں انسان کے اندر ڈر کی نفسیات پیدا ہوجائے اس معاملہ میں وہ حد درجہ حقیقت پسند بن جاتاہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے ذہن کے تمام پردوں كو اس طرح هٹا ديتي هےكه اس بارے ميں وه هر قسم كي غفلت يا غلط فهمي سے بلند هو كر صحیح ترین رائے قائم کرسکے۔ یہی معاملہ اس بندۂ خدا کے ساتھ پیش آتاہے جس کو رب العالمین کے ساتھ تقویٰ (ڈر) کاتعلق پیداہوگیا ہو۔ یہ فرقان تقریباً وہی چیز ہے جس کو معرفت یا بصیرت کہاجاتاہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیداکرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی معاملہ میںاپنے کو اتنا زیادہ شامل کرتا ہے کہ وہ اس کی پروا کرنے لگے۔ وہ اس کے بارے میں اندیشہ ناک رہتاہو تو اس کے بعد اس کے اندر ایک خاص طرح کی حساسيت پیدا ہوتی ہے جو اس کو اس معاملہ کے موافق اور مخالف کی پہچان کرادیتی ہے۔ یہ فرقانی معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتاہے خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر اور ڈاکٹر اور انجینئر۔ کوئی بھی آدمی جب اپنے کام سے تقویٰ (کھٹک) کی حد تک اپنے کو وابستہ کرتاہے تو اس کو اس معاملہ کی ایسی معرفت ہوجاتی ہے کہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میںاُلجھے بغیر وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے۔ کسی آدمی کے اندر یہ خدائی بصیرت (فرقان) پیدا ہونا اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ برائیوں سے بچے، وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرے اور بالآخر خداکے فضل کا مستحق بن جائے۔ یہ فرقان (حق وباطل کی نفسیاتی تمیز) پیدا ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حق کے ساتھ اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہے کہ اس میں اور حق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ اور حق دونوں ایک دوسرے کا مُثني (counterpart) بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اس کا بچایا جانا اتنا ہی ضروری ہو جاتاہے جتنا حق کو بچایا جانا۔ ایسے لوگ براہِ راست خدا کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اب ان کے خلاف تدبیریں کرنا خود حق کے خلاف تدبیریں کرنا بن جاتا ہے۔ اور خدا کے خلاف تدبیر کرنے والا ہمیشہ ناکام رہتا ہے خواہ اس نے کتنی ہی بڑی تدبیر کر رکھی ہو۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هَٰذَا ۙ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ

📘 ہم بھی ایسا کلام بنا سکتے ہیں، ہم ناحق پر ہیں تو ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برستا — یہ سب گھمنڈ کی باتیں ہیں۔ آدمی جب دنیا میں اپنے کو محفوظ حیثیت میں پاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیداہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ اس کا یہ احساس اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلواتا ہے جو عام حالات میں کسی کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ دلیری خدا کے قانونِ مہلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا یقینا ًمجرموں کو سزا دیتا ہے مگر خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہمیشہ اس وقت پکڑتاہے جب کہ اس کے اوپر حق وباطل کی وضاحت کا کام مکمل طورپر انجام دے دیا گیا ہو۔ اس کام کی تکمیل سے پہلے کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ دعوتی عمل کے درمیان اگرا یک ایک دو دو آدمی اس سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کررہے ہوں تب بھی سزا کا نزول رکا رہتا ہے تاکہ یہ عمل اس حد تک مکمل ہوجائے کہ جتنی سعید روحیں ہیں سب اس سے باہر آچکی ہوں۔ امتوں میں بگاڑ آتاہے تو ایسانہیں ہوتاکہ ان کے درمیان سے دین کی صورتیں مٹ جائیں۔ بگاڑ کے زمانہ میں ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ خوفِ خدا والا دین جاتا رہتا ہے اور اس کی جگہ دھوم والا دین آجاتاہے۔ اب قوم کے پاس عمل نہیں ہوتا بلکہ ماضی کی شخصیتیں اور ان کے نام پر قائم شدہ گدّیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ان شخصیتوں اور ان گدیوں سے وابستہ ہوکر سمجھتے ہیں کہ ان کو وہی عظمت حاصل ہوگئی ہے جو تاریخی اسباب سے خود ان شخصیتوں اور گدیوں کو حاصل ہے۔ لوگ اندر سے خالی ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے ناموں پر نمائشی اعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا دینی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسی قسم کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ ان کو فخر تھا کہ وہ بیت اللہ کے وارث ہیں۔ ابراہیم واسماعیل جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی امت ہیں۔ ان کو کعبہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کو اتنے دینی اعزازات حاصل ہیں اور وہ اتنے بڑے بڑے دینی کارنامے انجام دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو جہنم میں ڈال دے۔

وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ أَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 ہم بھی ایسا کلام بنا سکتے ہیں، ہم ناحق پر ہیں تو ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برستا — یہ سب گھمنڈ کی باتیں ہیں۔ آدمی جب دنیا میں اپنے کو محفوظ حیثیت میں پاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیداہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ اس کا یہ احساس اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلواتا ہے جو عام حالات میں کسی کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ دلیری خدا کے قانونِ مہلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا یقینا ًمجرموں کو سزا دیتا ہے مگر خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہمیشہ اس وقت پکڑتاہے جب کہ اس کے اوپر حق وباطل کی وضاحت کا کام مکمل طورپر انجام دے دیا گیا ہو۔ اس کام کی تکمیل سے پہلے کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ دعوتی عمل کے درمیان اگرا یک ایک دو دو آدمی اس سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کررہے ہوں تب بھی سزا کا نزول رکا رہتا ہے تاکہ یہ عمل اس حد تک مکمل ہوجائے کہ جتنی سعید روحیں ہیں سب اس سے باہر آچکی ہوں۔ امتوں میں بگاڑ آتاہے تو ایسانہیں ہوتاکہ ان کے درمیان سے دین کی صورتیں مٹ جائیں۔ بگاڑ کے زمانہ میں ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ خوفِ خدا والا دین جاتا رہتا ہے اور اس کی جگہ دھوم والا دین آجاتاہے۔ اب قوم کے پاس عمل نہیں ہوتا بلکہ ماضی کی شخصیتیں اور ان کے نام پر قائم شدہ گدّیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ان شخصیتوں اور ان گدیوں سے وابستہ ہوکر سمجھتے ہیں کہ ان کو وہی عظمت حاصل ہوگئی ہے جو تاریخی اسباب سے خود ان شخصیتوں اور گدیوں کو حاصل ہے۔ لوگ اندر سے خالی ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے ناموں پر نمائشی اعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا دینی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسی قسم کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ ان کو فخر تھا کہ وہ بیت اللہ کے وارث ہیں۔ ابراہیم واسماعیل جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی امت ہیں۔ ان کو کعبہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کو اتنے دینی اعزازات حاصل ہیں اور وہ اتنے بڑے بڑے دینی کارنامے انجام دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو جہنم میں ڈال دے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ

📘 ہم بھی ایسا کلام بنا سکتے ہیں، ہم ناحق پر ہیں تو ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برستا — یہ سب گھمنڈ کی باتیں ہیں۔ آدمی جب دنیا میں اپنے کو محفوظ حیثیت میں پاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیداہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ اس کا یہ احساس اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلواتا ہے جو عام حالات میں کسی کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ دلیری خدا کے قانونِ مہلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا یقینا ًمجرموں کو سزا دیتا ہے مگر خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہمیشہ اس وقت پکڑتاہے جب کہ اس کے اوپر حق وباطل کی وضاحت کا کام مکمل طورپر انجام دے دیا گیا ہو۔ اس کام کی تکمیل سے پہلے کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ دعوتی عمل کے درمیان اگرا یک ایک دو دو آدمی اس سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کررہے ہوں تب بھی سزا کا نزول رکا رہتا ہے تاکہ یہ عمل اس حد تک مکمل ہوجائے کہ جتنی سعید روحیں ہیں سب اس سے باہر آچکی ہوں۔ امتوں میں بگاڑ آتاہے تو ایسانہیں ہوتاکہ ان کے درمیان سے دین کی صورتیں مٹ جائیں۔ بگاڑ کے زمانہ میں ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ خوفِ خدا والا دین جاتا رہتا ہے اور اس کی جگہ دھوم والا دین آجاتاہے۔ اب قوم کے پاس عمل نہیں ہوتا بلکہ ماضی کی شخصیتیں اور ان کے نام پر قائم شدہ گدّیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ان شخصیتوں اور ان گدیوں سے وابستہ ہوکر سمجھتے ہیں کہ ان کو وہی عظمت حاصل ہوگئی ہے جو تاریخی اسباب سے خود ان شخصیتوں اور گدیوں کو حاصل ہے۔ لوگ اندر سے خالی ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے ناموں پر نمائشی اعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا دینی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسی قسم کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ ان کو فخر تھا کہ وہ بیت اللہ کے وارث ہیں۔ ابراہیم واسماعیل جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی امت ہیں۔ ان کو کعبہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کو اتنے دینی اعزازات حاصل ہیں اور وہ اتنے بڑے بڑے دینی کارنامے انجام دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو جہنم میں ڈال دے۔

وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 ہم بھی ایسا کلام بنا سکتے ہیں، ہم ناحق پر ہیں تو ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برستا — یہ سب گھمنڈ کی باتیں ہیں۔ آدمی جب دنیا میں اپنے کو محفوظ حیثیت میں پاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیداہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ اس کا یہ احساس اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلواتا ہے جو عام حالات میں کسی کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ دلیری خدا کے قانونِ مہلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا یقینا ًمجرموں کو سزا دیتا ہے مگر خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہمیشہ اس وقت پکڑتاہے جب کہ اس کے اوپر حق وباطل کی وضاحت کا کام مکمل طورپر انجام دے دیا گیا ہو۔ اس کام کی تکمیل سے پہلے کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ دعوتی عمل کے درمیان اگرا یک ایک دو دو آدمی اس سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کررہے ہوں تب بھی سزا کا نزول رکا رہتا ہے تاکہ یہ عمل اس حد تک مکمل ہوجائے کہ جتنی سعید روحیں ہیں سب اس سے باہر آچکی ہوں۔ امتوں میں بگاڑ آتاہے تو ایسانہیں ہوتاکہ ان کے درمیان سے دین کی صورتیں مٹ جائیں۔ بگاڑ کے زمانہ میں ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ خوفِ خدا والا دین جاتا رہتا ہے اور اس کی جگہ دھوم والا دین آجاتاہے۔ اب قوم کے پاس عمل نہیں ہوتا بلکہ ماضی کی شخصیتیں اور ان کے نام پر قائم شدہ گدّیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ان شخصیتوں اور ان گدیوں سے وابستہ ہوکر سمجھتے ہیں کہ ان کو وہی عظمت حاصل ہوگئی ہے جو تاریخی اسباب سے خود ان شخصیتوں اور گدیوں کو حاصل ہے۔ لوگ اندر سے خالی ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے ناموں پر نمائشی اعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا دینی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسی قسم کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ ان کو فخر تھا کہ وہ بیت اللہ کے وارث ہیں۔ ابراہیم واسماعیل جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی امت ہیں۔ ان کو کعبہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کو اتنے دینی اعزازات حاصل ہیں اور وہ اتنے بڑے بڑے دینی کارنامے انجام دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو جہنم میں ڈال دے۔

وَمَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَتَصْدِيَةً ۚ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

📘 ہم بھی ایسا کلام بنا سکتے ہیں، ہم ناحق پر ہیں تو ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برستا — یہ سب گھمنڈ کی باتیں ہیں۔ آدمی جب دنیا میں اپنے کو محفوظ حیثیت میں پاتاہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیداہو جاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ حق کا انکار کرنے یا اس کو نظر انداز کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑا تو اس کے اندر جھوٹے اعتماد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ وہ سمجھتاہے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں وہ بالکل درست ہے۔ اس کا یہ احساس اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلواتا ہے جو عام حالات میں کسی کی زبان سے نہیں نکلتے۔ اس قسم کے لوگوں میں یہ دلیری خدا کے قانونِ مہلت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ خدا یقینا ًمجرموں کو سزا دیتا ہے مگر خدا کی سنت یہ ہے کہ وہ آدمی کو ہمیشہ اس وقت پکڑتاہے جب کہ اس کے اوپر حق وباطل کی وضاحت کا کام مکمل طورپر انجام دے دیا گیا ہو۔ اس کام کی تکمیل سے پہلے کسی کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ نیز یہ کہ دعوتی عمل کے درمیان اگرا یک ایک دو دو آدمی اس سے متاثر ہوکر اپنی اصلاح کررہے ہوں تب بھی سزا کا نزول رکا رہتا ہے تاکہ یہ عمل اس حد تک مکمل ہوجائے کہ جتنی سعید روحیں ہیں سب اس سے باہر آچکی ہوں۔ امتوں میں بگاڑ آتاہے تو ایسانہیں ہوتاکہ ان کے درمیان سے دین کی صورتیں مٹ جائیں۔ بگاڑ کے زمانہ میں ہمیشہ یہ ہوتاہے کہ خوفِ خدا والا دین جاتا رہتا ہے اور اس کی جگہ دھوم والا دین آجاتاہے۔ اب قوم کے پاس عمل نہیں ہوتا بلکہ ماضی کی شخصیتیں اور ان کے نام پر قائم شدہ گدّیاں ہوتی ہیں۔ لوگ ان شخصیتوں اور ان گدیوں سے وابستہ ہوکر سمجھتے ہیں کہ ان کو وہی عظمت حاصل ہوگئی ہے جو تاریخی اسباب سے خود ان شخصیتوں اور گدیوں کو حاصل ہے۔ لوگ اندر سے خالی ہوتے ہیں مگر بڑے بڑے ناموں پر نمائشی اعمال کرکے سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بڑا دینی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ مکہ کے لوگ اسی قسم کی نفسیات میں مبتلا تھے۔ ان کو فخر تھا کہ وہ بیت اللہ کے وارث ہیں۔ ابراہیم واسماعیل جیسے جلیل القدر پیغمبروں کی امت ہیں۔ ان کو کعبہ کے خادم ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جب ان کو اتنے دینی اعزازات حاصل ہیں اور وہ اتنے بڑے بڑے دینی کارنامے انجام دے رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو جہنم میں ڈال دے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ ۗ وَالَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ

📘 انسانوں میں کچھ پاک ہیں اور كچھ ناپاک۔ کچھ روحوں کی غذا وہ چیزیں ہوتی ہیں جو خدا کو پسند ہیں اورکچھ روحوں کو ان چیزوں میں لذت ملتی ہے جو ان کے نفس کو یا شیطان کو مرغوب ہیں۔ عام حالات میں یہ دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے ملے رہتے ہیں۔ بظاہر ان میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق وباطل کی کش مکش برپا کرتاہے تاکہ دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے الگ ہوجائيں اور یہ معلوم ہوجائے کہ کون کیا تھا اور کون کیا نهيں تھا۔ اس کش مکش کے دوران کھل جاتاہے کہ کون حق کے سامنے آنے کے بعد فوراً اس کو مان لیتاہے اور کون وہ ہے جو اس کا انکار کردیتاہے۔ کون دوسروں کے ساتھ معاملہ پڑنے پر انصاف کی حد پر قائم رہتاہے اور کون بے انصافی پر اترآتا ہے۔ کون خدا کی زمین میںمتواضع بن کر رہتاہے اور کون سرکش بن کر۔ کون سچائی کی راه میں اپنا مال خرچ کرنے والا هے اور کون تعصب اورنمائش کی راہ میں۔ جو لوگ حق کو چھوڑ کر دوسری راہوں میں اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں ان کے اس عمل کو شیطان ان کی نظر میں اس طرح حسین بناتارہتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ کارنامے انجام دے رہے ہیں، وہ شان دار مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر اس غلط فہمی کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ بہت جلد آدمی پر وہ وقت آجاتا ہے جب کہ وہ جان لیتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا وہ صرف اپنی قوت اور اپنے مال کو ضائع کرنا تھا، وہ جس مستقبل کی طرف بڑھ رہا تھاوہ حسرت اور مایوسی کا مستقبل تھا، اگر چہ جھوٹی خوش فہمی کے تحت وہ اس کو روشن مستقبل کی طرف سفر کے ہم معنیٰ سمجھتارہا تھا۔ بے آمیز حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو ملاوٹی دین کی بنیاد پر سرداری قائم كيے ہوئے تھے۔ وہ اس رواجی ڈھانچہ کی حفاظت میں اپنی ساری طاقت خرچ کردیتے ہیں جس کے اندر انھیں بڑائی کا مقام حاصل ہے۔ مگر ایسے لوگ بے آمیز حق کے مقابلہ میں لازماً ناکام ہوتے ہیں، کبھی دلیل کے میدان میں اور کبھی اسی کے ساتھ عمل کے میدان میں بھی۔ موجودہ دنیا کے ہنگامے صرف اس ليے جاری كيے گئے ہیں کہ پاک روحوں اور ناپاک روحوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ یہ چھانٹنے کا عمل جب پورا ہوجائے گا تو خدا پاک روحوں کو جنت میں داخل کردے گا اور ناپاک روحوں کو ایک ساتھ جمع کرکے جہنم میں دھکیل دے گا۔

لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 انسانوں میں کچھ پاک ہیں اور كچھ ناپاک۔ کچھ روحوں کی غذا وہ چیزیں ہوتی ہیں جو خدا کو پسند ہیں اورکچھ روحوں کو ان چیزوں میں لذت ملتی ہے جو ان کے نفس کو یا شیطان کو مرغوب ہیں۔ عام حالات میں یہ دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے ملے رہتے ہیں۔ بظاہر ان میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اس ليے اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان حق وباطل کی کش مکش برپا کرتاہے تاکہ دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے سے الگ ہوجائيں اور یہ معلوم ہوجائے کہ کون کیا تھا اور کون کیا نهيں تھا۔ اس کش مکش کے دوران کھل جاتاہے کہ کون حق کے سامنے آنے کے بعد فوراً اس کو مان لیتاہے اور کون وہ ہے جو اس کا انکار کردیتاہے۔ کون دوسروں کے ساتھ معاملہ پڑنے پر انصاف کی حد پر قائم رہتاہے اور کون بے انصافی پر اترآتا ہے۔ کون خدا کی زمین میںمتواضع بن کر رہتاہے اور کون سرکش بن کر۔ کون سچائی کی راه میں اپنا مال خرچ کرنے والا هے اور کون تعصب اورنمائش کی راہ میں۔ جو لوگ حق کو چھوڑ کر دوسری راہوں میں اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں ان کے اس عمل کو شیطان ان کی نظر میں اس طرح حسین بناتارہتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اعلیٰ کارنامے انجام دے رہے ہیں، وہ شان دار مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر اس غلط فہمی کی عمر بہت تھوڑی ہے۔ بہت جلد آدمی پر وہ وقت آجاتا ہے جب کہ وہ جان لیتا ہے کہ اس نے جو کچھ کیا وہ صرف اپنی قوت اور اپنے مال کو ضائع کرنا تھا، وہ جس مستقبل کی طرف بڑھ رہا تھاوہ حسرت اور مایوسی کا مستقبل تھا، اگر چہ جھوٹی خوش فہمی کے تحت وہ اس کو روشن مستقبل کی طرف سفر کے ہم معنیٰ سمجھتارہا تھا۔ بے آمیز حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو ملاوٹی دین کی بنیاد پر سرداری قائم كيے ہوئے تھے۔ وہ اس رواجی ڈھانچہ کی حفاظت میں اپنی ساری طاقت خرچ کردیتے ہیں جس کے اندر انھیں بڑائی کا مقام حاصل ہے۔ مگر ایسے لوگ بے آمیز حق کے مقابلہ میں لازماً ناکام ہوتے ہیں، کبھی دلیل کے میدان میں اور کبھی اسی کے ساتھ عمل کے میدان میں بھی۔ موجودہ دنیا کے ہنگامے صرف اس ليے جاری كيے گئے ہیں کہ پاک روحوں اور ناپاک روحوں کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے۔ یہ چھانٹنے کا عمل جب پورا ہوجائے گا تو خدا پاک روحوں کو جنت میں داخل کردے گا اور ناپاک روحوں کو ایک ساتھ جمع کرکے جہنم میں دھکیل دے گا۔

قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ

📘 اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرے اس کے مطابق وہ اپنا بدلہ پائے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس عام اصول میں اپنی رحمت سے ایک خاص استثناء رکھا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی جب ’’توبہ‘‘ کرلے تو اس کے بعد اس کے پچھلے اعمال پر اس کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ ایک شخص خدا سے دوری کی زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کو ہدایت کی روشنی ملی۔ اس نے سچا مومن بن کر صالح زندگی اختیار کرلی تو اس سے پہلے اس نے جو برائیاں کی تھیں وہ سب معاف کردی جائیںگی۔ اس کے پچھلے گناہوں کی بنا پر اس کو نہیں پکڑا جائے گا۔ ٹھیک یہی اصول اجتماعی اور سیاسی معاملہ میں بھی ہے۔ کسی مقام پر حق اور باطل کی کش مکش برپا ہوتی ہے، آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے، اس ٹکراؤ کے دوران باطل کے علم بردار حق کے ليے اٹھنے والوں پر ظلم کرتے ہیں۔ بالآخر جنگ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حق پرست غالباً آجاتے ہیں اور ناحق کے علم بردار مغلوب ہو کر زیر کرديے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی اسلام کا اصول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ یعنی فتح کے بعد پچھلے ظلم وستم پر کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ جو شخص فتح کے بعد کوئی ایسی حرکت کرے جو اسلامی قانون میں جرم قرار دی گئی ہو تو ضرور کارروائی کے بعد اس کو وہ سزا ملے گی جو شریعت نے ایسے ایک مجرم کے ليے مقرر کی ہے۔ فتنہ کا مطلب ستانا (persecution) ہے۔ قدیم زمانہ میں سرداری اور حکومت شرک کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ آج حکومت کرنے والے عوام کے نمائندہ بن کر حکومت کرتے ہیں۔ ماضی میں خدا یا خدا کے شریکوں کا نمائندہ بن کر لوگ حکومت کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں شرک کو قدیم سماج میں با اقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اہل شرک اہل توحید کو ستاتے رہتے تھے۔ اللہ نے اپنے رسول اور آپ کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ شرک اور اقتدار کے باہمی تعلق کو توڑ دو تاکہ مشرکین اہل توحید کو ستانے کی طاقت سے محروم ہوجائیں۔ چنانچہ آپ کے ذریعہ جو عالمی انقلاب آیا اس نے ہمیشہ کے ليے شرک کا رشتہ سیاسی نظام سے ختم کردیا۔ اب شرک ساری دنیا میں صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، نہ کہ وہ سیاسی نظریہ جس کی بنیاد پر حکومتوں کا قیام عمل میںآتا ہے۔ تاہم جہاں تک عرب کا تعلق ہے وہاں یہ مقصد دہری صورت میں مطلوب تھا، یہاں شرک اور مشرکین دونوں کو ختم کرنا تھا تاکہ حرمین کے علاقہ کو ابدی طورپر خالص توحید کا مرکز بنا دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شر وع ہوا اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ ۚ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرے اس کے مطابق وہ اپنا بدلہ پائے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس عام اصول میں اپنی رحمت سے ایک خاص استثناء رکھا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی جب ’’توبہ‘‘ کرلے تو اس کے بعد اس کے پچھلے اعمال پر اس کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ ایک شخص خدا سے دوری کی زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کو ہدایت کی روشنی ملی۔ اس نے سچا مومن بن کر صالح زندگی اختیار کرلی تو اس سے پہلے اس نے جو برائیاں کی تھیں وہ سب معاف کردی جائیںگی۔ اس کے پچھلے گناہوں کی بنا پر اس کو نہیں پکڑا جائے گا۔ ٹھیک یہی اصول اجتماعی اور سیاسی معاملہ میں بھی ہے۔ کسی مقام پر حق اور باطل کی کش مکش برپا ہوتی ہے، آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے، اس ٹکراؤ کے دوران باطل کے علم بردار حق کے ليے اٹھنے والوں پر ظلم کرتے ہیں۔ بالآخر جنگ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حق پرست غالباً آجاتے ہیں اور ناحق کے علم بردار مغلوب ہو کر زیر کرديے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی اسلام کا اصول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ یعنی فتح کے بعد پچھلے ظلم وستم پر کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ جو شخص فتح کے بعد کوئی ایسی حرکت کرے جو اسلامی قانون میں جرم قرار دی گئی ہو تو ضرور کارروائی کے بعد اس کو وہ سزا ملے گی جو شریعت نے ایسے ایک مجرم کے ليے مقرر کی ہے۔ فتنہ کا مطلب ستانا (persecution) ہے۔ قدیم زمانہ میں سرداری اور حکومت شرک کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ آج حکومت کرنے والے عوام کے نمائندہ بن کر حکومت کرتے ہیں۔ ماضی میں خدا یا خدا کے شریکوں کا نمائندہ بن کر لوگ حکومت کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں شرک کو قدیم سماج میں با اقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اہل شرک اہل توحید کو ستاتے رہتے تھے۔ اللہ نے اپنے رسول اور آپ کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ شرک اور اقتدار کے باہمی تعلق کو توڑ دو تاکہ مشرکین اہل توحید کو ستانے کی طاقت سے محروم ہوجائیں۔ چنانچہ آپ کے ذریعہ جو عالمی انقلاب آیا اس نے ہمیشہ کے ليے شرک کا رشتہ سیاسی نظام سے ختم کردیا۔ اب شرک ساری دنیا میں صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، نہ کہ وہ سیاسی نظریہ جس کی بنیاد پر حکومتوں کا قیام عمل میںآتا ہے۔ تاہم جہاں تک عرب کا تعلق ہے وہاں یہ مقصد دہری صورت میں مطلوب تھا، یہاں شرک اور مشرکین دونوں کو ختم کرنا تھا تاکہ حرمین کے علاقہ کو ابدی طورپر خالص توحید کا مرکز بنا دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شر وع ہوا اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔

أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

📘 سورہ انفال جنگ بدر (2 ہجری) کے بعد اتری۔ اس جنگ میںمسلمانوں کو فتح ہوئی تھی اور اس کے بعد میدانِ جنگ سے کافی مال غنیمت حاصل ہوا تھا۔ مگر یہ اموال عملاً ایک گروہ کے قبضہ میں تھے۔اس بنا پر جنگ کے بعد غنیمت کی تقسیم پر نزاع پیدا ہوگئی۔ جنگ میں کچھ لوگ پچھلی صف میں تھے۔ کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں لگے ہوئے تھے۔ کچھ لوگ آخری مرحلہ میں دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے۔ اس طرح میدان جنگ سے مالِ غنیمت لوٹنے کا موقع ایک خاص فریق کو ملا۔ دوسرے لوگ جو اس وقت میدانِ جنگ سے دور تھے وہ دشمن کے چھوڑے ہوئے اموال کو حاصل نہ کرسکے۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ اصولی طو رپر تو جنگ کے تمام شرکاء اپنے کو مال غنیمت میں حصہ دارسمجھتے تھے۔ مگر مالِ غنیمت عملاً صرف ایک گروہ کے قبضہ میں تھا۔ ایک فریق کے پاس دلیل تھی اور دوسرے فریق کے پاس مال۔ ایک کے پاس اپنے حق کو ثابت کرنے کے ليے صرف الفاظ تھے، جب کہ دوسرے کا حق کسی دلیل وثبوت کے بغیر خود قبضہ کے زور پر قائم تھا۔ اس قسم کے تمام جھگڑے خدا کے خوف کے منافی ہیں۔ خدا کا خوف آدمی کے اندر ذمہ داری کی نفسیات ابھارتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ فرائض پر ہوتی ہے، نہ کہ حقوق پر۔ وہ اپنی طرف دیکھنے کے بجائے خدا کی طرف دیکھنے لگتا ہے۔ اس کادل خدا و رسول کی اطاعت کے ليے نرم پڑ جاتاہے۔ وہ خدا کا عبادت گزار بندہ بن جاتا ہے۔ لوگوں کو دے کر اسے تسکین ملتی ہے، نہ کہ لوگوں سے چھین کر۔ یہ اوصاف آدمی کے اندر حقیقت پسندی اور حق کے اعتراف کا مادہ پیدا کرتے ہیں۔حقیقت پسندی اور اعترافِ حق کی فضا کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس کے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ اور اگر کبھی اتفاقاً ابھرتے ہیں تو ایک بار کی تنبیہ ان کی اصلاح کے ليے کافی ہوجاتی ہے۔ خدا کی پکڑ کا اندیشہ ہرایک کو اس حد پر پہنچا دیتاہے جس حد پر اس کو فی الواقع ہونا چاہیے تھا۔ اور جہاں ہر آدمی اپنی واقعی حد پر ركنے کے ليے راضی ہوجائے وہاں جھگڑے کا کوئی گزر نہیں۔

وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَوْلَاكُمْ ۚ نِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ

📘 اسلام کا اصول یہ ہے کہ جو شخص جیسا عمل کرے اس کے مطابق وہ اپنا بدلہ پائے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اس عام اصول میں اپنی رحمت سے ایک خاص استثناء رکھا ہے۔ وہ یہ کہ آدمی جب ’’توبہ‘‘ کرلے تو اس کے بعد اس کے پچھلے اعمال پر اس کو کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ ایک شخص خدا سے دوری کی زندگی گزار رہا تھا۔ پھر اس کو ہدایت کی روشنی ملی۔ اس نے سچا مومن بن کر صالح زندگی اختیار کرلی تو اس سے پہلے اس نے جو برائیاں کی تھیں وہ سب معاف کردی جائیںگی۔ اس کے پچھلے گناہوں کی بنا پر اس کو نہیں پکڑا جائے گا۔ ٹھیک یہی اصول اجتماعی اور سیاسی معاملہ میں بھی ہے۔ کسی مقام پر حق اور باطل کی کش مکش برپا ہوتی ہے، آپس میں ٹکراؤ ہوتا ہے، اس ٹکراؤ کے دوران باطل کے علم بردار حق کے ليے اٹھنے والوں پر ظلم کرتے ہیں۔ بالآخر جنگ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حق پرست غالباً آجاتے ہیں اور ناحق کے علم بردار مغلوب ہو کر زیر کرديے جاتے ہیں۔ اس معاملہ میں بھی اسلام کا اصول وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ یعنی فتح کے بعد پچھلے ظلم وستم پر کسی کو سزا نہیں دی جائے گی۔ البتہ جو شخص فتح کے بعد کوئی ایسی حرکت کرے جو اسلامی قانون میں جرم قرار دی گئی ہو تو ضرور کارروائی کے بعد اس کو وہ سزا ملے گی جو شریعت نے ایسے ایک مجرم کے ليے مقرر کی ہے۔ فتنہ کا مطلب ستانا (persecution) ہے۔ قدیم زمانہ میں سرداری اور حکومت شرک کی بنیاد پر قائم ہوتی تھی۔ آج حکومت کرنے والے عوام کے نمائندہ بن کر حکومت کرتے ہیں۔ ماضی میں خدا یا خدا کے شریکوں کا نمائندہ بن کر لوگ حکومت کیا کرتے تھے۔ اس کے نتیجہ میں شرک کو قدیم سماج میں با اقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اہل شرک اہل توحید کو ستاتے رہتے تھے۔ اللہ نے اپنے رسول اور آپ کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ شرک اور اقتدار کے باہمی تعلق کو توڑ دو تاکہ مشرکین اہل توحید کو ستانے کی طاقت سے محروم ہوجائیں۔ چنانچہ آپ کے ذریعہ جو عالمی انقلاب آیا اس نے ہمیشہ کے ليے شرک کا رشتہ سیاسی نظام سے ختم کردیا۔ اب شرک ساری دنیا میں صرف ایک مذہبی عقیدہ ہے، نہ کہ وہ سیاسی نظریہ جس کی بنیاد پر حکومتوں کا قیام عمل میںآتا ہے۔ تاہم جہاں تک عرب کا تعلق ہے وہاں یہ مقصد دہری صورت میں مطلوب تھا، یہاں شرک اور مشرکین دونوں کو ختم کرنا تھا تاکہ حرمین کے علاقہ کو ابدی طورپر خالص توحید کا مرکز بنا دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جزیرہ عرب سے مشرکین کو نکال دو۔ یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شر وع ہوا اور حضرت عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔

۞ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 غنیمت عربی زبان میں اس مال کو کہتے ہیں جو میدانِ جنگ میں دشمن سے لڑکر حاصل کیا گیاہو۔ قدیم زمانہ میں یہ رواج تھا کہ جنگ کے بعد دشمن کی جو چیز جس کے ہاتھ لگے وہ اسی کی سمجھی جائے۔ اسلام نے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر ایک کو جو کچھ ملا وہ سب کا سب لاکر امیر کے پاس جمع کرے، کوئی شخص سوئی کا دھاگا تک چھپا کر نہ رکھے۔ اس طرح سارا مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کے بعد اس میں سے پانچواں حصہ خدا کا ہے جس کو رسول نیابت کے طورپر وصول کرکے پانچ جگہ اس طرح خرچ کرے گا کہ — ایک حصہ اپنی ذات پر، پھر اپنے ان رشتہ داروں پر جنھوں نے رشتہ کی بنیاد پر مشکل وقتوں میں آپ کے دینی مشن میں آپ کا ساتھ دیا، اور یتیموں پر اور حاجت مندوں پر اور مسافروں پر — اس کے بعد بقیہ چار حصے کو تمام فوجیوں کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ سوار کو دو حصہ ملے اور پیدل کو ایک حصہ۔ اسلام یہ ذہن بنانا چاہتا ہے کہ آدمی جو چیز پائے اس کو وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھے۔ اس دنیا میں کسی واقعہ کو ظہور میں لانے کے ليے بے شمار اسباب کی بیک وقت موافقت ضروری هے جو کسی بھی انسان کے بس میں نہیں۔ بدر کی لڑائی میںایک بے حد طاقت ور گروہ کے مقابلہ میں ایک کمزور گروہ کا فیصلہ کن طورپر غلبہ پانا اس بات کا ایک غیر معمولی ثبوت تھا کہ جو کچھ ہوا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوا ہے۔ ایسی حالت میں فتح کے بعد ملی ہوئی چیز کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھنا عین اس حقیقت کو ماننا تھا جو واقعات کے نتیجے میں فطری طورپر سامنے آئی ہے۔ مال غنیمت میں دوسرے مستحق بھائیوں کا حصہ رکھنا اس بات کا سبق ہے کہ اموال میں حق دار ہونے کی بنیاد صرف محنت اور وراثت نہیں بلکہ ایسی بنیادیں بھی ہیں جو محنت اور وراثت جیسی چیزوں کے دائرہ میں نہیں آتیں۔ استحقاق کی ان دوسری مدوں کا اعتراف گویا اس واقعہ کا عملی اعتراف ہے کہ آدمی چیزوں کو خدا کی چیز سمجھتا ہے، نہ کہ اپنی چیز۔ غنیمت کے اس قانون میں تیسرا زبردست سبق یہ ہے کہ ملکیت کی بنیاد قبضہ نہیں بلکہ اصول ہے۔ کوئی شخص محض اس بنا پر کسی چیز کا مالک نہیں بن جائیگا کہ وہ اتفاق سے اس کے قبضہ میں آگئی ہے۔ قبضہ کے باوجود آدمی کو چاہيے کہ وه اس چیز کو ذمہ دار افراد کے حوالے کردے اور اصولی اور قانونی بنیاد پر اس کو جتنا ملنا چاہیے اس کو لے کر اس پر راضی ہوجائے۔

إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنْكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدْتُمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِنْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا لوگوں پر پوری طرح کھل جائے۔ یہ کام ابتداء ً دعوت کے ذریعہ دلائل کی زبان میں ہوتا ہے۔ داعی طاقت ور اور عام فہم دلائل کے ذریعہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کرتاہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے اس کام کی تکمیل بالآخر غیر معمولی واقعات سے کی جاتی ہے، خواہ یہ غیر معمولی واقعہ کوئی آسمانی معجزہ ہو یا زمیني غلبہ۔ بدر کی جنگ میں یہی دوسرا واقعہ پیش آیا۔ قریش مکہ سے اس ليے نکلے کہ شام سے آنے والے اپنے تجارتی قافلہ کی مدد کریں۔ مسلمان مدینہ سے اس ليے نکلے کہ تجارتی قافلہ پر حملہ کریں۔ تجارتی قافلہ معروف راستہ کو چھوڑ کر سمندری ساحل سے گزرا اور بچ گیا۔ اور یہ دونوں فریق بدر پہنچ کر آمنے سامنے ہوگئے۔ یہ اللہ کی تدبیر سے ہوا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر اہل ایمان کو فتح دی گئی۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کی صداقت لوگوں پر پوری طرح کھل گئی۔ جو لوگ سچے طالب تھے ان پر آخری حد تک یہ بات واضح ہوگئی کہ یہی حق ہے۔ اور جو لوگ اپنے اندر کسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگی ليے ہوئے تھے انھوں نے اس کے بعد بھی اپنے مسلک پر قائم رہ کر ثابت کردیا کہ وہ اسی قابل ہیں کہ انھیں ہلاک کردیا جائے۔ بدر میں قریش کی فوج کی تعداد زیادہ تھی۔ اگر مسلمان ان کی اصل تعداد کو دیکھتے تو کوئی کہتا کہ لڑو اور کوئی کہتا کہ نہ لڑو۔ اس طرح اختلاف پیدا ہوجاتا اور اصل کام ہونے سے رہ جاتا۔ خدا نے حسب موقع کبھی تعداد گھٹا کر دکھائی اور کبھی بڑھا کر۔ اس طرح ممکن ہوسکا کہ تمام مسلمان بے جگری کے ساتھ لڑیں۔ خدا کو جب کوئی کام مطلوب ہوتا ہے تو وہ اسی طرح اپنی مدد بھیج کر اس کام کی تکمیل کا سامان کردیتا ہے۔ عمل کے دوران جو حالات پیش آتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور یہ دیکھنے کے ليے ہوتے ہیں کہ کس شخص نے اپنے حالات کے اندر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔

إِذْ يُرِيكَهُمُ اللَّهُ فِي مَنَامِكَ قَلِيلًا ۖ وَلَوْ أَرَاكَهُمْ كَثِيرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ ۗ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا لوگوں پر پوری طرح کھل جائے۔ یہ کام ابتداء ً دعوت کے ذریعہ دلائل کی زبان میں ہوتا ہے۔ داعی طاقت ور اور عام فہم دلائل کے ذریعہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کرتاہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے اس کام کی تکمیل بالآخر غیر معمولی واقعات سے کی جاتی ہے، خواہ یہ غیر معمولی واقعہ کوئی آسمانی معجزہ ہو یا زمیني غلبہ۔ بدر کی جنگ میں یہی دوسرا واقعہ پیش آیا۔ قریش مکہ سے اس ليے نکلے کہ شام سے آنے والے اپنے تجارتی قافلہ کی مدد کریں۔ مسلمان مدینہ سے اس ليے نکلے کہ تجارتی قافلہ پر حملہ کریں۔ تجارتی قافلہ معروف راستہ کو چھوڑ کر سمندری ساحل سے گزرا اور بچ گیا۔ اور یہ دونوں فریق بدر پہنچ کر آمنے سامنے ہوگئے۔ یہ اللہ کی تدبیر سے ہوا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر اہل ایمان کو فتح دی گئی۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کی صداقت لوگوں پر پوری طرح کھل گئی۔ جو لوگ سچے طالب تھے ان پر آخری حد تک یہ بات واضح ہوگئی کہ یہی حق ہے۔ اور جو لوگ اپنے اندر کسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگی ليے ہوئے تھے انھوں نے اس کے بعد بھی اپنے مسلک پر قائم رہ کر ثابت کردیا کہ وہ اسی قابل ہیں کہ انھیں ہلاک کردیا جائے۔ بدر میں قریش کی فوج کی تعداد زیادہ تھی۔ اگر مسلمان ان کی اصل تعداد کو دیکھتے تو کوئی کہتا کہ لڑو اور کوئی کہتا کہ نہ لڑو۔ اس طرح اختلاف پیدا ہوجاتا اور اصل کام ہونے سے رہ جاتا۔ خدا نے حسب موقع کبھی تعداد گھٹا کر دکھائی اور کبھی بڑھا کر۔ اس طرح ممکن ہوسکا کہ تمام مسلمان بے جگری کے ساتھ لڑیں۔ خدا کو جب کوئی کام مطلوب ہوتا ہے تو وہ اسی طرح اپنی مدد بھیج کر اس کام کی تکمیل کا سامان کردیتا ہے۔ عمل کے دوران جو حالات پیش آتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور یہ دیکھنے کے ليے ہوتے ہیں کہ کس شخص نے اپنے حالات کے اندر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔

وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

📘 اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا لوگوں پر پوری طرح کھل جائے۔ یہ کام ابتداء ً دعوت کے ذریعہ دلائل کی زبان میں ہوتا ہے۔ داعی طاقت ور اور عام فہم دلائل کے ذریعہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کرتاہے۔ احقاق حق اور ابطال باطل کے اس کام کی تکمیل بالآخر غیر معمولی واقعات سے کی جاتی ہے، خواہ یہ غیر معمولی واقعہ کوئی آسمانی معجزہ ہو یا زمیني غلبہ۔ بدر کی جنگ میں یہی دوسرا واقعہ پیش آیا۔ قریش مکہ سے اس ليے نکلے کہ شام سے آنے والے اپنے تجارتی قافلہ کی مدد کریں۔ مسلمان مدینہ سے اس ليے نکلے کہ تجارتی قافلہ پر حملہ کریں۔ تجارتی قافلہ معروف راستہ کو چھوڑ کر سمندری ساحل سے گزرا اور بچ گیا۔ اور یہ دونوں فریق بدر پہنچ کر آمنے سامنے ہوگئے۔ یہ اللہ کی تدبیر سے ہوا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے ٹکرا کر اہل ایمان کو فتح دی گئی۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مشن کی صداقت لوگوں پر پوری طرح کھل گئی۔ جو لوگ سچے طالب تھے ان پر آخری حد تک یہ بات واضح ہوگئی کہ یہی حق ہے۔ اور جو لوگ اپنے اندر کسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگی ليے ہوئے تھے انھوں نے اس کے بعد بھی اپنے مسلک پر قائم رہ کر ثابت کردیا کہ وہ اسی قابل ہیں کہ انھیں ہلاک کردیا جائے۔ بدر میں قریش کی فوج کی تعداد زیادہ تھی۔ اگر مسلمان ان کی اصل تعداد کو دیکھتے تو کوئی کہتا کہ لڑو اور کوئی کہتا کہ نہ لڑو۔ اس طرح اختلاف پیدا ہوجاتا اور اصل کام ہونے سے رہ جاتا۔ خدا نے حسب موقع کبھی تعداد گھٹا کر دکھائی اور کبھی بڑھا کر۔ اس طرح ممکن ہوسکا کہ تمام مسلمان بے جگری کے ساتھ لڑیں۔ خدا کو جب کوئی کام مطلوب ہوتا ہے تو وہ اسی طرح اپنی مدد بھیج کر اس کام کی تکمیل کا سامان کردیتا ہے۔ عمل کے دوران جو حالات پیش آتے ہیں وہ خدا کی طرف سے ہوتے ہیں اور یہ دیکھنے کے ليے ہوتے ہیں کہ کس شخص نے اپنے حالات کے اندر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 کامیابی خدا کی مدد سے آتی ہے۔ مگر خدا کی مدد ہمیشہ اسباب کے پردہ میں آتی ہے، نہ کہ بے اسبابی کے حالات میں۔ مسلمان اگر اپنے ممکن اسباب کو جمع کردیں تو بقیہ کمی خدا کی طرف سے پوری کرکے انھیں کامیاب کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ بے اسبابی کا مظاہرہ کریں تو خدا کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ بے اسبابی کے نقشہ میںان کے ليے اپنی مدد بھیج دے۔ اسباب کیا ہیں۔ اسباب یہ ہیں کہ مسلمان اقدام میں پہل نہ کریں۔ وہ اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے میں لگے رہیں تاآں کہ حریف خود چڑھائی کرکے ان سے لڑنے کے ليے آجائے۔ پھر جب ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اس کے مقابلہ میں پوری طرح جماؤ کا ثبوت دیں۔ اللہ کی یاد، بالفاظ دیگر، مقصود اصلی کا مکمل استحضار رکھیں تاکہ ان کا قلبی حوصلہ باقی رہے۔ سردار کے حکم کے تحت پوری طرح منظم رہیں۔ باہمی اختلافات کو نظر انداز کریں، نہ یہ کہ اختلافات کو بڑھا کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ وہ اپنے اتحاد سے حریف کو مرعوب کردیں۔ وہ صبر کریں، یعنی جوش کے بجائے ہوش کو اپنائیں۔ جلد کامیابی کے شوق میں غیر پختہ اقدام نہ کریں۔ ان کی نظر ہمیشہ آخری منزل پر ہو، نہ کہ وقتی مصالح اور منافع پر— انھیں چیزوں کا نام اسباب ہے اور انھیں اسباب کے پردہ میں خدا کی مدد آتی ہے۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں خدا ’’غیب‘‘ میں رہ کر اپنے تمام تصرفات انجام دیتا ہے، اسی ليے جب وہ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے تو اسباب کے پردہ میں کرتاہے۔ مسلمان اگر اسباب کا ماحول پیدا نہ کریں وہ بے حوصلگی کا ثبوت دیں، وہ ابتدائی تیاری کے بغیر اقدامات کرنے لگیں، وہ اختلاف وانتشار میں مبتلا ہوں، تو ان کو کبھی یہ امید نہ کرنی چاہيے کہ خدا غیب کا پردہ پھاڑ کر سامنے آجائے گا اور بے اسبابی کا شکار ہونے کے باوجود ماورائے اسباب طریقوں سے ان کی مدد کرکے ان کے تمام کام بنادے گا۔ مسلمان اگر اپنے حریف کے مقابلہ میں اپنے کو بہتر حالات میں پائیں تب بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کافروں کی طرح اپنی طاقت پر گھمنڈ کریں، وہ فخر ونمائش کے جذبات میں مبتلا ہوجائیں۔ وہ بڑائی کے زعم میں اس حد تک آگے بڑھیں کہ ایک شخص کے صرف اس ليے مخالف بن جائیں کہ وہ ایسے حق کی دعوت دے رہا ہے جس کی زد خود ان کی اپنی ذات پر بھی پڑ رہی ہے۔

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

📘 کامیابی خدا کی مدد سے آتی ہے۔ مگر خدا کی مدد ہمیشہ اسباب کے پردہ میں آتی ہے، نہ کہ بے اسبابی کے حالات میں۔ مسلمان اگر اپنے ممکن اسباب کو جمع کردیں تو بقیہ کمی خدا کی طرف سے پوری کرکے انھیں کامیاب کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ بے اسبابی کا مظاہرہ کریں تو خدا کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ بے اسبابی کے نقشہ میںان کے ليے اپنی مدد بھیج دے۔ اسباب کیا ہیں۔ اسباب یہ ہیں کہ مسلمان اقدام میں پہل نہ کریں۔ وہ اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے میں لگے رہیں تاآں کہ حریف خود چڑھائی کرکے ان سے لڑنے کے ليے آجائے۔ پھر جب ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اس کے مقابلہ میں پوری طرح جماؤ کا ثبوت دیں۔ اللہ کی یاد، بالفاظ دیگر، مقصود اصلی کا مکمل استحضار رکھیں تاکہ ان کا قلبی حوصلہ باقی رہے۔ سردار کے حکم کے تحت پوری طرح منظم رہیں۔ باہمی اختلافات کو نظر انداز کریں، نہ یہ کہ اختلافات کو بڑھا کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ وہ اپنے اتحاد سے حریف کو مرعوب کردیں۔ وہ صبر کریں، یعنی جوش کے بجائے ہوش کو اپنائیں۔ جلد کامیابی کے شوق میں غیر پختہ اقدام نہ کریں۔ ان کی نظر ہمیشہ آخری منزل پر ہو، نہ کہ وقتی مصالح اور منافع پر— انھیں چیزوں کا نام اسباب ہے اور انھیں اسباب کے پردہ میں خدا کی مدد آتی ہے۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں خدا ’’غیب‘‘ میں رہ کر اپنے تمام تصرفات انجام دیتا ہے، اسی ليے جب وہ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے تو اسباب کے پردہ میں کرتاہے۔ مسلمان اگر اسباب کا ماحول پیدا نہ کریں وہ بے حوصلگی کا ثبوت دیں، وہ ابتدائی تیاری کے بغیر اقدامات کرنے لگیں، وہ اختلاف وانتشار میں مبتلا ہوں، تو ان کو کبھی یہ امید نہ کرنی چاہيے کہ خدا غیب کا پردہ پھاڑ کر سامنے آجائے گا اور بے اسبابی کا شکار ہونے کے باوجود ماورائے اسباب طریقوں سے ان کی مدد کرکے ان کے تمام کام بنادے گا۔ مسلمان اگر اپنے حریف کے مقابلہ میں اپنے کو بہتر حالات میں پائیں تب بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کافروں کی طرح اپنی طاقت پر گھمنڈ کریں، وہ فخر ونمائش کے جذبات میں مبتلا ہوجائیں۔ وہ بڑائی کے زعم میں اس حد تک آگے بڑھیں کہ ایک شخص کے صرف اس ليے مخالف بن جائیں کہ وہ ایسے حق کی دعوت دے رہا ہے جس کی زد خود ان کی اپنی ذات پر بھی پڑ رہی ہے۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ

📘 کامیابی خدا کی مدد سے آتی ہے۔ مگر خدا کی مدد ہمیشہ اسباب کے پردہ میں آتی ہے، نہ کہ بے اسبابی کے حالات میں۔ مسلمان اگر اپنے ممکن اسباب کو جمع کردیں تو بقیہ کمی خدا کی طرف سے پوری کرکے انھیں کامیاب کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ بے اسبابی کا مظاہرہ کریں تو خدا کبھی ایسا نہیں کرسکتا کہ بے اسبابی کے نقشہ میںان کے ليے اپنی مدد بھیج دے۔ اسباب کیا ہیں۔ اسباب یہ ہیں کہ مسلمان اقدام میں پہل نہ کریں۔ وہ اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے میں لگے رہیں تاآں کہ حریف خود چڑھائی کرکے ان سے لڑنے کے ليے آجائے۔ پھر جب ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو وہ اس کے مقابلہ میں پوری طرح جماؤ کا ثبوت دیں۔ اللہ کی یاد، بالفاظ دیگر، مقصود اصلی کا مکمل استحضار رکھیں تاکہ ان کا قلبی حوصلہ باقی رہے۔ سردار کے حکم کے تحت پوری طرح منظم رہیں۔ باہمی اختلافات کو نظر انداز کریں، نہ یہ کہ اختلافات کو بڑھا کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ وہ اپنے اتحاد سے حریف کو مرعوب کردیں۔ وہ صبر کریں، یعنی جوش کے بجائے ہوش کو اپنائیں۔ جلد کامیابی کے شوق میں غیر پختہ اقدام نہ کریں۔ ان کی نظر ہمیشہ آخری منزل پر ہو، نہ کہ وقتی مصالح اور منافع پر— انھیں چیزوں کا نام اسباب ہے اور انھیں اسباب کے پردہ میں خدا کی مدد آتی ہے۔ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔یہاں خدا ’’غیب‘‘ میں رہ کر اپنے تمام تصرفات انجام دیتا ہے، اسی ليے جب وہ مسلمانوں کی مدد کرتا ہے تو اسباب کے پردہ میں کرتاہے۔ مسلمان اگر اسباب کا ماحول پیدا نہ کریں وہ بے حوصلگی کا ثبوت دیں، وہ ابتدائی تیاری کے بغیر اقدامات کرنے لگیں، وہ اختلاف وانتشار میں مبتلا ہوں، تو ان کو کبھی یہ امید نہ کرنی چاہيے کہ خدا غیب کا پردہ پھاڑ کر سامنے آجائے گا اور بے اسبابی کا شکار ہونے کے باوجود ماورائے اسباب طریقوں سے ان کی مدد کرکے ان کے تمام کام بنادے گا۔ مسلمان اگر اپنے حریف کے مقابلہ میں اپنے کو بہتر حالات میں پائیں تب بھی ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کافروں کی طرح اپنی طاقت پر گھمنڈ کریں، وہ فخر ونمائش کے جذبات میں مبتلا ہوجائیں۔ وہ بڑائی کے زعم میں اس حد تک آگے بڑھیں کہ ایک شخص کے صرف اس ليے مخالف بن جائیں کہ وہ ایسے حق کی دعوت دے رہا ہے جس کی زد خود ان کی اپنی ذات پر بھی پڑ رہی ہے۔

وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 مکہ کے مخالفین اپنے آپ کو برسر حق اور پیغمبر کے ساتھیوں کو برسر باطل سمجھتے تھے۔ اس پر ان کو اتنا یقین تھا کہ انھوں نے کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کی کہ خدایا، دونوں فریقوں میں سے جو فریق حق پر ہو تو اس کو کامیاب کر اور جو فریق باطل پر ہو تو اس کو ہلاک کردے۔ تاہم ان کا یہ یقین جھوٹا یقین تھا۔ اس قسم کا یقین ہمیشہ شیطان کی تزئین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ شیطان نے مکہ کے لوگوں کو سکھایا کہ تم تاریخ کے مسلّمہ پیغمبروں (ابراہیم واسماعیل علیہما السلام) کے ماننے والے ہو جب کہ مسلمان ایک ایسے شخص کو مانتے ہیں جس کا پیغمبر ہونا ابھی ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ تم کعبہ کے وارث ہو جب کہ مسلمانوں کو کعبہ کی سر زمین سے نکال دیا گیا ہے۔ تم اسلاف کی روایتوں کو قائم رکھنے کے ليے لڑ رہے ہو جب کہ مسلمان اسلاف کی روایتوں کو توڑنے کے ليے اٹھے ہیں۔ شیطان نے مکہ والوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات ڈال کر ان کو جھوٹے یقین میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں بالکل درست کررہے ہیں اور خدا کی مدد بہر حال ہمیں حاصل ہوگی۔ مکہ کے مخالفین ایک طرف اپنے جھوٹے یقین کو اس قسم کی چیزوں کی بنا پر سچا یقین سمجھ رہے تھے۔ دوسری طرف جب وہ دیکھتے کہ پیغمبر کے ساتھی ان سے بھی زیادہ یقین اور سرفروشی کے جذبہ کے ساتھ اسلام کے محاذ پر اپنے آپ کو لگائے ہوئے ہیں تو وہ ان کے سچے یقین کو یہ کہہ کر بے اعتبار ثابت کرتے تھے کہ یہ محض ایک مذہبی جنون ہے۔ وہ ایک شخص (پیغمبر) کی خوبصورت باتوں سے جوش میں آکر دیوانے ہورہے ہیں۔ ان کے یقین اور قربانی کی اس سے زیادہ اور کوئی حقیقت نہیں۔ مگر جب دونوں گروہوں میں مقابلہ ہوا اور مسلمانوں کے ليے اللہ کی مدد اتر پڑی تو شیطان مخالفین اسلام کو چھوڑ کر بھاگا۔ ایک طرف خدا کی مدد سے مسلمانوں کے دل اور زیادہ قوی ہوگئے۔ دوسری طرف مخالفین کا جھوٹا یقین بے دلی اور پست ہمتی میں تبدیل ہوگیا۔ کیوں کہ ان کا اعتماد شیطان پر تھا اور شیطان اب ان کو چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔ جو لوگ اللہ پر بھروسہ کریں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے۔ مگر الله کی مدد ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب کہ اہلِ ایمان اللہ پر یقین کا اتنا بڑا ثبوت دے دیں کہ بے یقین لوگ کہہ اٹھیں کہ یہ مجنون ہوگئے ہیں۔

إِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ غَرَّ هَٰؤُلَاءِ دِينُهُمْ ۗ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 مکہ کے مخالفین اپنے آپ کو برسر حق اور پیغمبر کے ساتھیوں کو برسر باطل سمجھتے تھے۔ اس پر ان کو اتنا یقین تھا کہ انھوں نے کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر دعا کی کہ خدایا، دونوں فریقوں میں سے جو فریق حق پر ہو تو اس کو کامیاب کر اور جو فریق باطل پر ہو تو اس کو ہلاک کردے۔ تاہم ان کا یہ یقین جھوٹا یقین تھا۔ اس قسم کا یقین ہمیشہ شیطان کی تزئین کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ شیطان نے مکہ کے لوگوں کو سکھایا کہ تم تاریخ کے مسلّمہ پیغمبروں (ابراہیم واسماعیل علیہما السلام) کے ماننے والے ہو جب کہ مسلمان ایک ایسے شخص کو مانتے ہیں جس کا پیغمبر ہونا ابھی ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔ تم کعبہ کے وارث ہو جب کہ مسلمانوں کو کعبہ کی سر زمین سے نکال دیا گیا ہے۔ تم اسلاف کی روایتوں کو قائم رکھنے کے ليے لڑ رہے ہو جب کہ مسلمان اسلاف کی روایتوں کو توڑنے کے ليے اٹھے ہیں۔ شیطان نے مکہ والوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات ڈال کر ان کو جھوٹے یقین میں مبتلا کردیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں بالکل درست کررہے ہیں اور خدا کی مدد بہر حال ہمیں حاصل ہوگی۔ مکہ کے مخالفین ایک طرف اپنے جھوٹے یقین کو اس قسم کی چیزوں کی بنا پر سچا یقین سمجھ رہے تھے۔ دوسری طرف جب وہ دیکھتے کہ پیغمبر کے ساتھی ان سے بھی زیادہ یقین اور سرفروشی کے جذبہ کے ساتھ اسلام کے محاذ پر اپنے آپ کو لگائے ہوئے ہیں تو وہ ان کے سچے یقین کو یہ کہہ کر بے اعتبار ثابت کرتے تھے کہ یہ محض ایک مذہبی جنون ہے۔ وہ ایک شخص (پیغمبر) کی خوبصورت باتوں سے جوش میں آکر دیوانے ہورہے ہیں۔ ان کے یقین اور قربانی کی اس سے زیادہ اور کوئی حقیقت نہیں۔ مگر جب دونوں گروہوں میں مقابلہ ہوا اور مسلمانوں کے ليے اللہ کی مدد اتر پڑی تو شیطان مخالفین اسلام کو چھوڑ کر بھاگا۔ ایک طرف خدا کی مدد سے مسلمانوں کے دل اور زیادہ قوی ہوگئے۔ دوسری طرف مخالفین کا جھوٹا یقین بے دلی اور پست ہمتی میں تبدیل ہوگیا۔ کیوں کہ ان کا اعتماد شیطان پر تھا اور شیطان اب ان کو چھوڑ کر بھاگ چکا تھا۔ جو لوگ اللہ پر بھروسہ کریں اللہ ضرور ان کی مدد کرتا ہے۔ مگر الله کی مدد ہمیشہ اس وقت آتی ہے جب کہ اہلِ ایمان اللہ پر یقین کا اتنا بڑا ثبوت دے دیں کہ بے یقین لوگ کہہ اٹھیں کہ یہ مجنون ہوگئے ہیں۔

كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ

📘 شعبان 2 ھ میں معلوم ہوا کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ اس قافلہ کے ساتھ تقریباً 50 ہزار اشرفی کا سامان تھا۔ اس کا راستہ مدینہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے قافلۂ تجارت پر حملہ کریں۔ چنانچہ قافلہ کے سردار ابو سفیان بن حرب نے تیز رفتار اونٹنی کے ذریعہ مکہ والوں کے پاس یہ خبر بھیجی کہ مدد کے ليے دوڑو ورنہ مسلمان تجارتی قافلہ کو لوٹ لیں گے۔ مکہ میں اس خبر سے بڑا جوش پیدا ہوگیا۔ چنانچہ 950 سوار جن میں 600 زرہ پوش تھے مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام خبریں مل رہی تھیں۔ اب مدینہ کے مسلمان دو گروہوں کے درمیان تھے۔ ایک شام سے آنے والا تجارتی قافلہ۔ دوسرا مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھنے والا جنگی لشکر۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ تجارتی قافلہ کی طرف بڑھا جائے۔ اس قافلہ کے ساتھ بمشکل 40 محافظ تھے۔ اس کو به آسانی مغلوب کرکے اس کے سامان پر قبضہ کیا جاسکتاتھا۔ مگر خدا کا منصوبہ دوسرا تھا۔ خدا کو دراصل منکرین حق کا زور توڑنا تھا، نہ کہ کچھ اقتصادی فائدہ حاصل کرنا۔ خدا نے مخصوص حالات پیدا کرکے ایسا کیا کہ تمام مخالف سرداروں کو مکہ سے نکالا اور ان کو مدینہ سے 20 میل کے فاصلہ پر بدر کے مقام پر پہنچا دیا تاکہ مسلمانوں کو ان سے ٹکرا کر ہمیشہ کے ليے ان کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ کے رسول نے جب مسلمانوں کو خدا کے اس منصوبہ سے مطلع کیا تو سب کے سب متفق ہو کر بدر کی طرف بڑھے۔ ان کی تعداد اگر چہ صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار کم تھے۔ مگر اللہ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے قریش کے لشکر کو بری طرح شکست دی۔ ان کے ستر سردار قتل ہوئے اور ستر گرفتار کر ليے گئے۔ بد رکا میدان کفر کے مقابلہ میں اسلام کی فتح کا میدان بن گیا— جب بھی ایسا ہو کہ ایک طرف مادی فائدہ ہو اور دوسری طرف دینی فائدہ تو یہ تقسیم خود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی مرضی دینی فائدہ کی طرف ہے، نہ کہ مادی فائدہ کی طرف۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ کبھی معاشی مفاد حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ ہمیشہ باطل کا زور توڑنا ہوتاہے۔ خواہ وہ نظریاتی طاقت کے ذریعہ ہو یا حالات کے اعتبار سے مادی طاقت کے ذریعہ۔

وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ

📘 نعمت کا انحصار حالتِ استحقاق نعمت پر ہے۔ قومی سطح پر کسی کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ ہمیشہ اس استحقاق کے بقدر ہوتی ہیں جو نفسی حالت کے اعتبار سے اس کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ’’نفس‘‘ چونکہ فرد کے اندر ہوتاہے اس ليے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی انعامات کا انحصار انفرادی حالات پر ہے۔ افراد کی سطح پر قوم جس درجہ میں ہو اسی کے بقدر اس کو اجتماعی انعامات ديے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ اگر خدا کے اجتماعی انعامات کو پانا چاہتاہے تو اس کو اپنے افراد کی نفسی اصلاح پر اپنی طاقت صرف کرنا چاہيے۔ اسی طرح کوئی قوم اگراپنے کو اس حال میں دیکھے کہ اس سے اجتماعی نعمتیں چھن گئی ہیں تو اس کو خود نعمتوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے افراد كي اصلاح کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ افراد ہی کے بگڑنے سے اس کی نعمتیں چھنی ہیں اور افراد ہی کے بننے سے دوبارہ وہ اسے مل سکتی ہیں۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم اور تواضع کے بجائے سرکشی کا رويہ اختیار کرتی ہے تو خدا کی طرف سے اس کے سامنے سچائی کا اعلان کرایا جاتاہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائے۔ یہ اعلان کمالِ وضاحت کے اعتبار سے خدا کی ایک نشانی ہوتاہے۔ اس کو ماننا خدا کو ماننا ہوتا ہے اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔ خدا کی دعوت جب آیت (نشانی) کی حد تک برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے پھر بھی وہ اس کا انکار کریں تو اس کے بعد لازماً وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اس سزا کا آغاز اگر چہ دنیا ہی سے ہوجاتاہے۔ تاہم دنیا کی سزا اس سزا کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو موت کے بعد آدمی کے سامنے آنے والی ہے۔ فرشتوں کی مار، ساری مخلوق کے سامنے رسوائی اور جہنم کی آگ میں جلنا ۔ یہ سب اتنے ہولناک مراحل ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو اولاً اس کے ليے تنبیہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان سے سبق نہ لے تو بالآخر وہ خدا کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

📘 نعمت کا انحصار حالتِ استحقاق نعمت پر ہے۔ قومی سطح پر کسی کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ ہمیشہ اس استحقاق کے بقدر ہوتی ہیں جو نفسی حالت کے اعتبار سے اس کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ’’نفس‘‘ چونکہ فرد کے اندر ہوتاہے اس ليے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی انعامات کا انحصار انفرادی حالات پر ہے۔ افراد کی سطح پر قوم جس درجہ میں ہو اسی کے بقدر اس کو اجتماعی انعامات ديے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ اگر خدا کے اجتماعی انعامات کو پانا چاہتاہے تو اس کو اپنے افراد کی نفسی اصلاح پر اپنی طاقت صرف کرنا چاہيے۔ اسی طرح کوئی قوم اگراپنے کو اس حال میں دیکھے کہ اس سے اجتماعی نعمتیں چھن گئی ہیں تو اس کو خود نعمتوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے افراد كي اصلاح کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ افراد ہی کے بگڑنے سے اس کی نعمتیں چھنی ہیں اور افراد ہی کے بننے سے دوبارہ وہ اسے مل سکتی ہیں۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم اور تواضع کے بجائے سرکشی کا رويہ اختیار کرتی ہے تو خدا کی طرف سے اس کے سامنے سچائی کا اعلان کرایا جاتاہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائے۔ یہ اعلان کمالِ وضاحت کے اعتبار سے خدا کی ایک نشانی ہوتاہے۔ اس کو ماننا خدا کو ماننا ہوتا ہے اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔ خدا کی دعوت جب آیت (نشانی) کی حد تک برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے پھر بھی وہ اس کا انکار کریں تو اس کے بعد لازماً وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اس سزا کا آغاز اگر چہ دنیا ہی سے ہوجاتاہے۔ تاہم دنیا کی سزا اس سزا کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو موت کے بعد آدمی کے سامنے آنے والی ہے۔ فرشتوں کی مار، ساری مخلوق کے سامنے رسوائی اور جہنم کی آگ میں جلنا ۔ یہ سب اتنے ہولناک مراحل ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو اولاً اس کے ليے تنبیہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان سے سبق نہ لے تو بالآخر وہ خدا کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔

كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 نعمت کا انحصار حالتِ استحقاق نعمت پر ہے۔ قومی سطح پر کسی کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ ہمیشہ اس استحقاق کے بقدر ہوتی ہیں جو نفسی حالت کے اعتبار سے اس کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ’’نفس‘‘ چونکہ فرد کے اندر ہوتاہے اس ليے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی انعامات کا انحصار انفرادی حالات پر ہے۔ افراد کی سطح پر قوم جس درجہ میں ہو اسی کے بقدر اس کو اجتماعی انعامات ديے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ اگر خدا کے اجتماعی انعامات کو پانا چاہتاہے تو اس کو اپنے افراد کی نفسی اصلاح پر اپنی طاقت صرف کرنا چاہيے۔ اسی طرح کوئی قوم اگراپنے کو اس حال میں دیکھے کہ اس سے اجتماعی نعمتیں چھن گئی ہیں تو اس کو خود نعمتوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے افراد كي اصلاح کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ افراد ہی کے بگڑنے سے اس کی نعمتیں چھنی ہیں اور افراد ہی کے بننے سے دوبارہ وہ اسے مل سکتی ہیں۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم اور تواضع کے بجائے سرکشی کا رويہ اختیار کرتی ہے تو خدا کی طرف سے اس کے سامنے سچائی کا اعلان کرایا جاتاہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائے۔ یہ اعلان کمالِ وضاحت کے اعتبار سے خدا کی ایک نشانی ہوتاہے۔ اس کو ماننا خدا کو ماننا ہوتا ہے اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔ خدا کی دعوت جب آیت (نشانی) کی حد تک برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے پھر بھی وہ اس کا انکار کریں تو اس کے بعد لازماً وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اس سزا کا آغاز اگر چہ دنیا ہی سے ہوجاتاہے۔ تاہم دنیا کی سزا اس سزا کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو موت کے بعد آدمی کے سامنے آنے والی ہے۔ فرشتوں کی مار، ساری مخلوق کے سامنے رسوائی اور جہنم کی آگ میں جلنا ۔ یہ سب اتنے ہولناک مراحل ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو اولاً اس کے ليے تنبیہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان سے سبق نہ لے تو بالآخر وہ خدا کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 نعمت کا انحصار حالتِ استحقاق نعمت پر ہے۔ قومی سطح پر کسی کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ ہمیشہ اس استحقاق کے بقدر ہوتی ہیں جو نفسی حالت کے اعتبار سے اس کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ’’نفس‘‘ چونکہ فرد کے اندر ہوتاہے اس ليے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی انعامات کا انحصار انفرادی حالات پر ہے۔ افراد کی سطح پر قوم جس درجہ میں ہو اسی کے بقدر اس کو اجتماعی انعامات ديے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ اگر خدا کے اجتماعی انعامات کو پانا چاہتاہے تو اس کو اپنے افراد کی نفسی اصلاح پر اپنی طاقت صرف کرنا چاہيے۔ اسی طرح کوئی قوم اگراپنے کو اس حال میں دیکھے کہ اس سے اجتماعی نعمتیں چھن گئی ہیں تو اس کو خود نعمتوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے افراد كي اصلاح کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ افراد ہی کے بگڑنے سے اس کی نعمتیں چھنی ہیں اور افراد ہی کے بننے سے دوبارہ وہ اسے مل سکتی ہیں۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم اور تواضع کے بجائے سرکشی کا رويہ اختیار کرتی ہے تو خدا کی طرف سے اس کے سامنے سچائی کا اعلان کرایا جاتاہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائے۔ یہ اعلان کمالِ وضاحت کے اعتبار سے خدا کی ایک نشانی ہوتاہے۔ اس کو ماننا خدا کو ماننا ہوتا ہے اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔ خدا کی دعوت جب آیت (نشانی) کی حد تک برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے پھر بھی وہ اس کا انکار کریں تو اس کے بعد لازماً وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اس سزا کا آغاز اگر چہ دنیا ہی سے ہوجاتاہے۔ تاہم دنیا کی سزا اس سزا کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو موت کے بعد آدمی کے سامنے آنے والی ہے۔ فرشتوں کی مار، ساری مخلوق کے سامنے رسوائی اور جہنم کی آگ میں جلنا ۔ یہ سب اتنے ہولناک مراحل ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو اولاً اس کے ليے تنبیہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان سے سبق نہ لے تو بالآخر وہ خدا کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔

كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ۚ وَكُلٌّ كَانُوا ظَالِمِينَ

📘 نعمت کا انحصار حالتِ استحقاق نعمت پر ہے۔ قومی سطح پر کسی کو جو نعمتیں ملتی ہیں وہ ہمیشہ اس استحقاق کے بقدر ہوتی ہیں جو نفسی حالت کے اعتبار سے اس کے یہاں پایا جاتا ہے۔ یہ ’’نفس‘‘ چونکہ فرد کے اندر ہوتاہے اس ليے اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اجتماعی انعامات کا انحصار انفرادی حالات پر ہے۔ افراد کی سطح پر قوم جس درجہ میں ہو اسی کے بقدر اس کو اجتماعی انعامات ديے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی گروہ اگر خدا کے اجتماعی انعامات کو پانا چاہتاہے تو اس کو اپنے افراد کی نفسی اصلاح پر اپنی طاقت صرف کرنا چاہيے۔ اسی طرح کوئی قوم اگراپنے کو اس حال میں دیکھے کہ اس سے اجتماعی نعمتیں چھن گئی ہیں تو اس کو خود نعمتوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے اپنے افراد كي اصلاح کے پیچھے دوڑنا چاہیے۔ کیوں کہ افراد ہی کے بگڑنے سے اس کی نعمتیں چھنی ہیں اور افراد ہی کے بننے سے دوبارہ وہ اسے مل سکتی ہیں۔ جب کوئی قوم عدل کے بجائے ظلم اور تواضع کے بجائے سرکشی کا رويہ اختیار کرتی ہے تو خدا کی طرف سے اس کے سامنے سچائی کا اعلان کرایا جاتاہے تاکہ وہ متنبہ ہوجائے۔ یہ اعلان کمالِ وضاحت کے اعتبار سے خدا کی ایک نشانی ہوتاہے۔ اس کو ماننا خدا کو ماننا ہوتا ہے اور اس کو نہ ماننا خدا کو نہ ماننا۔ خدا کی دعوت جب آیت (نشانی) کی حد تک برہنہ ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے پھر بھی وہ اس کا انکار کریں تو اس کے بعد لازماً وہ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ اس سزا کا آغاز اگر چہ دنیا ہی سے ہوجاتاہے۔ تاہم دنیا کی سزا اس سزا کے مقابلہ میں بہت کم ہے جو موت کے بعد آدمی کے سامنے آنے والی ہے۔ فرشتوں کی مار، ساری مخلوق کے سامنے رسوائی اور جہنم کی آگ میں جلنا ۔ یہ سب اتنے ہولناک مراحل ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انسان جب ظلم اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتاہے تو اولاً اس کے ليے تنبیہات ظاہر ہوتی ہیں۔ اگر وہ ان سے سبق نہ لے تو بالآخر وہ خدا کے فیصلہ کن عذاب کی زد میں آجاتا ہے۔

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 مدینہ کے یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاانکار کرکے خدا کی نظر میں مجرم ہوچکے تھے۔ اس جرم پر مزید اضافہ ان کی بد عہدی تھی۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود مدینہ کے درمیان یہ تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں غیر جانب دار رہیں گے۔ مگر یہود خفیہ طورپر آپ کے دشمنوں (مشرکین) سے مل کر آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ یہ کفر پر بد عہدی کا اضافہ تھا۔ یہ انکار کے ساتھ کمینگی کو جمع کرنا تھا۔ ایسے لوگوں کے ليے آخرت میں ہولناک عذاب ہے اور دنیا میں یہ حکم ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ان کی شرارتوں کا خاتمہ ہو اور ان کے ارادے پست ہوجائیں۔ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا عہد ہو اور مسلمان ان کی طرف سے بد عہدی کے اندیشہ کی بنا پر اس عہد کو توڑنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ پہلے انھیں اس کی اطلاع دیں تاکہ دونوں پیشگی طورپر یہ جان لیں کہ اب دونوں کے درمیان عہد کی حالت باقی نہیں رہی۔ امیر معاویہ اور رومی حکمراں میں ایک بار میعادی معاہدہ تھا۔ معاہدہ کی مدت قریب آئی تو امیر معاویہ نے اپنی فوجوں کو خاموشی کے ساتھ روم کی سرحد پر جمع کرنا شروع کیا تاکہ معاہدہ کی تاریخ ختم ہوتے ہی اگلی صبح کو اچانک رومی علاقہ پر حملہ کردیا جائے۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمرو بن عنبسہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ وہ بآواز بلند کہہ رہے تھے اللہ اکبر اللہ اکبر وفاءٌ لا غدرٌ (اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کو پورا کرو، عہد کو نہ توڑو)، انھوں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائیمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 17015)۔يعني، جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو کوئی گرہ نہ کھولی جائے اور نہ باندھی جائے یہاں تک کہ معاہدہ کی مدت پوری ہوجائے یا برابری کے ساتھ عہد اس کی طرف پھینک دیا جائے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ صرف اندیشہ کی بات نہ ہو بلکہ فریق ثانی کی طرف سے عملاً معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہو چکی ہو۔ ایسی صورت میں اجازت ہے کہ فریق ثانی کو مطلع كيے بغیر جوابی کارروائی کی جائے۔ غزوۂ مکہ اسی کی مثال ہے۔ قریش نے آپ کے حلیف (بنو خزاعہ) کے خلاف بنو بکر کی جارحانہ کارروائی میں شریک ہو کر معاہدۂ حدیبیہ کی یک طرفہ خلاف ورزی کی تو آپ نے قریش کو پیشگی اطلاع ديے بغیر ان کے خلاف خاموش کارروائی فرمائی۔

الَّذِينَ عَاهَدْتَ مِنْهُمْ ثُمَّ يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ وَهُمْ لَا يَتَّقُونَ

📘 مدینہ کے یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاانکار کرکے خدا کی نظر میں مجرم ہوچکے تھے۔ اس جرم پر مزید اضافہ ان کی بد عہدی تھی۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود مدینہ کے درمیان یہ تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں غیر جانب دار رہیں گے۔ مگر یہود خفیہ طورپر آپ کے دشمنوں (مشرکین) سے مل کر آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ یہ کفر پر بد عہدی کا اضافہ تھا۔ یہ انکار کے ساتھ کمینگی کو جمع کرنا تھا۔ ایسے لوگوں کے ليے آخرت میں ہولناک عذاب ہے اور دنیا میں یہ حکم ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ان کی شرارتوں کا خاتمہ ہو اور ان کے ارادے پست ہوجائیں۔ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا عہد ہو اور مسلمان ان کی طرف سے بد عہدی کے اندیشہ کی بنا پر اس عہد کو توڑنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ پہلے انھیں اس کی اطلاع دیں تاکہ دونوں پیشگی طورپر یہ جان لیں کہ اب دونوں کے درمیان عہد کی حالت باقی نہیں رہی۔ امیر معاویہ اور رومی حکمراں میں ایک بار میعادی معاہدہ تھا۔ معاہدہ کی مدت قریب آئی تو امیر معاویہ نے اپنی فوجوں کو خاموشی کے ساتھ روم کی سرحد پر جمع کرنا شروع کیا تاکہ معاہدہ کی تاریخ ختم ہوتے ہی اگلی صبح کو اچانک رومی علاقہ پر حملہ کردیا جائے۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمرو بن عنبسہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ وہ بآواز بلند کہہ رہے تھے اللہ اکبر اللہ اکبر وفاءٌ لا غدرٌ (اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کو پورا کرو، عہد کو نہ توڑو)، انھوں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائیمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 17015)۔يعني، جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو کوئی گرہ نہ کھولی جائے اور نہ باندھی جائے یہاں تک کہ معاہدہ کی مدت پوری ہوجائے یا برابری کے ساتھ عہد اس کی طرف پھینک دیا جائے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ صرف اندیشہ کی بات نہ ہو بلکہ فریق ثانی کی طرف سے عملاً معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہو چکی ہو۔ ایسی صورت میں اجازت ہے کہ فریق ثانی کو مطلع كيے بغیر جوابی کارروائی کی جائے۔ غزوۂ مکہ اسی کی مثال ہے۔ قریش نے آپ کے حلیف (بنو خزاعہ) کے خلاف بنو بکر کی جارحانہ کارروائی میں شریک ہو کر معاہدۂ حدیبیہ کی یک طرفہ خلاف ورزی کی تو آپ نے قریش کو پیشگی اطلاع ديے بغیر ان کے خلاف خاموش کارروائی فرمائی۔

فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ

📘 مدینہ کے یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاانکار کرکے خدا کی نظر میں مجرم ہوچکے تھے۔ اس جرم پر مزید اضافہ ان کی بد عہدی تھی۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود مدینہ کے درمیان یہ تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں غیر جانب دار رہیں گے۔ مگر یہود خفیہ طورپر آپ کے دشمنوں (مشرکین) سے مل کر آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ یہ کفر پر بد عہدی کا اضافہ تھا۔ یہ انکار کے ساتھ کمینگی کو جمع کرنا تھا۔ ایسے لوگوں کے ليے آخرت میں ہولناک عذاب ہے اور دنیا میں یہ حکم ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ان کی شرارتوں کا خاتمہ ہو اور ان کے ارادے پست ہوجائیں۔ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا عہد ہو اور مسلمان ان کی طرف سے بد عہدی کے اندیشہ کی بنا پر اس عہد کو توڑنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ پہلے انھیں اس کی اطلاع دیں تاکہ دونوں پیشگی طورپر یہ جان لیں کہ اب دونوں کے درمیان عہد کی حالت باقی نہیں رہی۔ امیر معاویہ اور رومی حکمراں میں ایک بار میعادی معاہدہ تھا۔ معاہدہ کی مدت قریب آئی تو امیر معاویہ نے اپنی فوجوں کو خاموشی کے ساتھ روم کی سرحد پر جمع کرنا شروع کیا تاکہ معاہدہ کی تاریخ ختم ہوتے ہی اگلی صبح کو اچانک رومی علاقہ پر حملہ کردیا جائے۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمرو بن عنبسہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ وہ بآواز بلند کہہ رہے تھے اللہ اکبر اللہ اکبر وفاءٌ لا غدرٌ (اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کو پورا کرو، عہد کو نہ توڑو)، انھوں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائیمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 17015)۔يعني، جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو کوئی گرہ نہ کھولی جائے اور نہ باندھی جائے یہاں تک کہ معاہدہ کی مدت پوری ہوجائے یا برابری کے ساتھ عہد اس کی طرف پھینک دیا جائے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ صرف اندیشہ کی بات نہ ہو بلکہ فریق ثانی کی طرف سے عملاً معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہو چکی ہو۔ ایسی صورت میں اجازت ہے کہ فریق ثانی کو مطلع كيے بغیر جوابی کارروائی کی جائے۔ غزوۂ مکہ اسی کی مثال ہے۔ قریش نے آپ کے حلیف (بنو خزاعہ) کے خلاف بنو بکر کی جارحانہ کارروائی میں شریک ہو کر معاہدۂ حدیبیہ کی یک طرفہ خلاف ورزی کی تو آپ نے قریش کو پیشگی اطلاع ديے بغیر ان کے خلاف خاموش کارروائی فرمائی۔

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ

📘 مدینہ کے یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاانکار کرکے خدا کی نظر میں مجرم ہوچکے تھے۔ اس جرم پر مزید اضافہ ان کی بد عہدی تھی۔ ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود مدینہ کے درمیان یہ تحریری معاہدہ ہوا کہ دونوں ایک دوسرے کے معاملہ میں غیر جانب دار رہیں گے۔ مگر یہود خفیہ طورپر آپ کے دشمنوں (مشرکین) سے مل کر آپ کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ یہ کفر پر بد عہدی کا اضافہ تھا۔ یہ انکار کے ساتھ کمینگی کو جمع کرنا تھا۔ ایسے لوگوں کے ليے آخرت میں ہولناک عذاب ہے اور دنیا میں یہ حکم ہے کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے تاکہ ان کی شرارتوں کا خاتمہ ہو اور ان کے ارادے پست ہوجائیں۔ اگر کسی قوم سے مسلمانوں کا عہد ہو اور مسلمان ان کی طرف سے بد عہدی کے اندیشہ کی بنا پر اس عہد کو توڑنا چاہیں تو ضروری ہے کہ وہ پہلے انھیں اس کی اطلاع دیں تاکہ دونوں پیشگی طورپر یہ جان لیں کہ اب دونوں کے درمیان عہد کی حالت باقی نہیں رہی۔ امیر معاویہ اور رومی حکمراں میں ایک بار میعادی معاہدہ تھا۔ معاہدہ کی مدت قریب آئی تو امیر معاویہ نے اپنی فوجوں کو خاموشی کے ساتھ روم کی سرحد پر جمع کرنا شروع کیا تاکہ معاہدہ کی تاریخ ختم ہوتے ہی اگلی صبح کو اچانک رومی علاقہ پر حملہ کردیا جائے۔ اس وقت ایک صحابی حضرت عمرو بن عنبسہ گھوڑے پر سوار ہو کر آئے۔ وہ بآواز بلند کہہ رہے تھے اللہ اکبر اللہ اکبر وفاءٌ لا غدرٌ (اللہ اکبر، اللہ اکبر، عہد کو پورا کرو، عہد کو نہ توڑو)، انھوں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائیمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَوْمٍ عَهْدٌ، فَلَا يَحِلَّنَّ عُقْدَةً وَلَا يَشُدَّهَا حَتَّى يَنْقَضِيَ أَمَدُهَا، أَوْ يَنْبِذَ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ (مسند احمد، حدیث نمبر 17015)۔يعني، جس کا کسی قوم سے معاہدہ ہو تو کوئی گرہ نہ کھولی جائے اور نہ باندھی جائے یہاں تک کہ معاہدہ کی مدت پوری ہوجائے یا برابری کے ساتھ عہد اس کی طرف پھینک دیا جائے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ صرف اندیشہ کی بات نہ ہو بلکہ فریق ثانی کی طرف سے عملاً معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہو چکی ہو۔ ایسی صورت میں اجازت ہے کہ فریق ثانی کو مطلع كيے بغیر جوابی کارروائی کی جائے۔ غزوۂ مکہ اسی کی مثال ہے۔ قریش نے آپ کے حلیف (بنو خزاعہ) کے خلاف بنو بکر کی جارحانہ کارروائی میں شریک ہو کر معاہدۂ حدیبیہ کی یک طرفہ خلاف ورزی کی تو آپ نے قریش کو پیشگی اطلاع ديے بغیر ان کے خلاف خاموش کارروائی فرمائی۔

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَبَقُوا ۚ إِنَّهُمْ لَا يُعْجِزُونَ

📘 اسلام کا اعتماد استعمال قوت سے زیادہ مظاہرۂ قوت پر ہے۔ اسی ليے اہل اسلام کو قوت مُرہبہ فراہم کرنے کا حکم دیاگیا ، یعنی وہ چیزیں جو حریف کو اس قدر مرعوب کریں کہ وہ اقدام کا حوصلہ کھو دے۔ اسلام وقت کے معیار کے مطابق اپنے کو طاقت ور بناتا ہے، مگر لازماً لڑنے کے ليے نہیں۔ بلکہ اس ليے تاکہ اس کے دشمنوں پر اس کی دھاک قائم رہے اور وہ اس کے خلاف جارحانہ کارروائی کی ہمت نہ کریں۔ اسلام كو وقت کے معیار کے مطابق فكري اور عملی اعتبار سے طاقت ور بنانے میں جو لوگ اپنی کمائی خرچ کریں گے وہ کئی گناہ زیادہ مقدار میں اس کا بدلہ اپنے رب کے یہاں پائیںگے۔ اسلام کی فتح کا راز اصلاً جنگی مقابلوں میں نہیں بلکہ اس کے اصولوں کی تبلیغ میں ہے۔ اس ليے حکم ہوا کہ جب بھی فریق ثانی صلح کی پیش کش کرے تو ہر اندیشہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو قبول کرلو۔ کیوں کہ اندیشہ بہر حال یقینی نہیں اور جنگ بندی کا یہ فائدہ یقینی ہے کہ پُرامن فضا میںاسلام کا دعوتی عمل شروع ہو جائے اور اس طرح جنگ کا رکنا اسلام کی نظریاتی توسیع کا سبب بن جائے۔ اسلام خود اپنی ذا ت میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ خدا اور آخرت کا عقیدہ اگر پوری طرح کسی گروہ کے افراد میں پیدا ہوجائے تو ان کے اندر سے وہ تمام نفسیاتی خرابیاں نکل جاتی ہیں جو نااتفاقی اور باہمی ٹکراؤ کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لازماً ایسا ہوتاہے کہ وہ سب کے سب باہم جڑ کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے۔ متحد گروہ اگر تعداد میں کم ہو تب بھی وہ اپنے سے زیادہ تعداد رکھنے والے گروہ پر غالب آجائے گا۔ باہمی اتفاق سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ کسی گروہ کی نصرت یافتہ ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس کے افراد باہم متحد رہیں، کوئی بھی چیز ان کے اتحاد کو توڑنے والی ثابت نہ ہو۔

يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ

📘 شعبان 2 ھ میں معلوم ہوا کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ اس قافلہ کے ساتھ تقریباً 50 ہزار اشرفی کا سامان تھا۔ اس کا راستہ مدینہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے قافلۂ تجارت پر حملہ کریں۔ چنانچہ قافلہ کے سردار ابو سفیان بن حرب نے تیز رفتار اونٹنی کے ذریعہ مکہ والوں کے پاس یہ خبر بھیجی کہ مدد کے ليے دوڑو ورنہ مسلمان تجارتی قافلہ کو لوٹ لیں گے۔ مکہ میں اس خبر سے بڑا جوش پیدا ہوگیا۔ چنانچہ 950 سوار جن میں 600 زرہ پوش تھے مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام خبریں مل رہی تھیں۔ اب مدینہ کے مسلمان دو گروہوں کے درمیان تھے۔ ایک شام سے آنے والا تجارتی قافلہ۔ دوسرا مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھنے والا جنگی لشکر۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ تجارتی قافلہ کی طرف بڑھا جائے۔ اس قافلہ کے ساتھ بمشکل 40 محافظ تھے۔ اس کو به آسانی مغلوب کرکے اس کے سامان پر قبضہ کیا جاسکتاتھا۔ مگر خدا کا منصوبہ دوسرا تھا۔ خدا کو دراصل منکرین حق کا زور توڑنا تھا، نہ کہ کچھ اقتصادی فائدہ حاصل کرنا۔ خدا نے مخصوص حالات پیدا کرکے ایسا کیا کہ تمام مخالف سرداروں کو مکہ سے نکالا اور ان کو مدینہ سے 20 میل کے فاصلہ پر بدر کے مقام پر پہنچا دیا تاکہ مسلمانوں کو ان سے ٹکرا کر ہمیشہ کے ليے ان کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ کے رسول نے جب مسلمانوں کو خدا کے اس منصوبہ سے مطلع کیا تو سب کے سب متفق ہو کر بدر کی طرف بڑھے۔ ان کی تعداد اگر چہ صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار کم تھے۔ مگر اللہ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے قریش کے لشکر کو بری طرح شکست دی۔ ان کے ستر سردار قتل ہوئے اور ستر گرفتار کر ليے گئے۔ بد رکا میدان کفر کے مقابلہ میں اسلام کی فتح کا میدان بن گیا— جب بھی ایسا ہو کہ ایک طرف مادی فائدہ ہو اور دوسری طرف دینی فائدہ تو یہ تقسیم خود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی مرضی دینی فائدہ کی طرف ہے، نہ کہ مادی فائدہ کی طرف۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ کبھی معاشی مفاد حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ ہمیشہ باطل کا زور توڑنا ہوتاہے۔ خواہ وہ نظریاتی طاقت کے ذریعہ ہو یا حالات کے اعتبار سے مادی طاقت کے ذریعہ۔

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ

📘 اسلام کا اعتماد استعمال قوت سے زیادہ مظاہرۂ قوت پر ہے۔ اسی ليے اہل اسلام کو قوت مُرہبہ فراہم کرنے کا حکم دیاگیا ، یعنی وہ چیزیں جو حریف کو اس قدر مرعوب کریں کہ وہ اقدام کا حوصلہ کھو دے۔ اسلام وقت کے معیار کے مطابق اپنے کو طاقت ور بناتا ہے، مگر لازماً لڑنے کے ليے نہیں۔ بلکہ اس ليے تاکہ اس کے دشمنوں پر اس کی دھاک قائم رہے اور وہ اس کے خلاف جارحانہ کارروائی کی ہمت نہ کریں۔ اسلام كو وقت کے معیار کے مطابق فكري اور عملی اعتبار سے طاقت ور بنانے میں جو لوگ اپنی کمائی خرچ کریں گے وہ کئی گناہ زیادہ مقدار میں اس کا بدلہ اپنے رب کے یہاں پائیںگے۔ اسلام کی فتح کا راز اصلاً جنگی مقابلوں میں نہیں بلکہ اس کے اصولوں کی تبلیغ میں ہے۔ اس ليے حکم ہوا کہ جب بھی فریق ثانی صلح کی پیش کش کرے تو ہر اندیشہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو قبول کرلو۔ کیوں کہ اندیشہ بہر حال یقینی نہیں اور جنگ بندی کا یہ فائدہ یقینی ہے کہ پُرامن فضا میںاسلام کا دعوتی عمل شروع ہو جائے اور اس طرح جنگ کا رکنا اسلام کی نظریاتی توسیع کا سبب بن جائے۔ اسلام خود اپنی ذا ت میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ خدا اور آخرت کا عقیدہ اگر پوری طرح کسی گروہ کے افراد میں پیدا ہوجائے تو ان کے اندر سے وہ تمام نفسیاتی خرابیاں نکل جاتی ہیں جو نااتفاقی اور باہمی ٹکراؤ کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لازماً ایسا ہوتاہے کہ وہ سب کے سب باہم جڑ کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے۔ متحد گروہ اگر تعداد میں کم ہو تب بھی وہ اپنے سے زیادہ تعداد رکھنے والے گروہ پر غالب آجائے گا۔ باہمی اتفاق سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ کسی گروہ کی نصرت یافتہ ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس کے افراد باہم متحد رہیں، کوئی بھی چیز ان کے اتحاد کو توڑنے والی ثابت نہ ہو۔

۞ وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 اسلام کا اعتماد استعمال قوت سے زیادہ مظاہرۂ قوت پر ہے۔ اسی ليے اہل اسلام کو قوت مُرہبہ فراہم کرنے کا حکم دیاگیا ، یعنی وہ چیزیں جو حریف کو اس قدر مرعوب کریں کہ وہ اقدام کا حوصلہ کھو دے۔ اسلام وقت کے معیار کے مطابق اپنے کو طاقت ور بناتا ہے، مگر لازماً لڑنے کے ليے نہیں۔ بلکہ اس ليے تاکہ اس کے دشمنوں پر اس کی دھاک قائم رہے اور وہ اس کے خلاف جارحانہ کارروائی کی ہمت نہ کریں۔ اسلام كو وقت کے معیار کے مطابق فكري اور عملی اعتبار سے طاقت ور بنانے میں جو لوگ اپنی کمائی خرچ کریں گے وہ کئی گناہ زیادہ مقدار میں اس کا بدلہ اپنے رب کے یہاں پائیںگے۔ اسلام کی فتح کا راز اصلاً جنگی مقابلوں میں نہیں بلکہ اس کے اصولوں کی تبلیغ میں ہے۔ اس ليے حکم ہوا کہ جب بھی فریق ثانی صلح کی پیش کش کرے تو ہر اندیشہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو قبول کرلو۔ کیوں کہ اندیشہ بہر حال یقینی نہیں اور جنگ بندی کا یہ فائدہ یقینی ہے کہ پُرامن فضا میںاسلام کا دعوتی عمل شروع ہو جائے اور اس طرح جنگ کا رکنا اسلام کی نظریاتی توسیع کا سبب بن جائے۔ اسلام خود اپنی ذا ت میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ خدا اور آخرت کا عقیدہ اگر پوری طرح کسی گروہ کے افراد میں پیدا ہوجائے تو ان کے اندر سے وہ تمام نفسیاتی خرابیاں نکل جاتی ہیں جو نااتفاقی اور باہمی ٹکراؤ کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لازماً ایسا ہوتاہے کہ وہ سب کے سب باہم جڑ کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے۔ متحد گروہ اگر تعداد میں کم ہو تب بھی وہ اپنے سے زیادہ تعداد رکھنے والے گروہ پر غالب آجائے گا۔ باہمی اتفاق سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ کسی گروہ کی نصرت یافتہ ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس کے افراد باہم متحد رہیں، کوئی بھی چیز ان کے اتحاد کو توڑنے والی ثابت نہ ہو۔

وَإِنْ يُرِيدُوا أَنْ يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللَّهُ ۚ هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ

📘 اسلام کا اعتماد استعمال قوت سے زیادہ مظاہرۂ قوت پر ہے۔ اسی ليے اہل اسلام کو قوت مُرہبہ فراہم کرنے کا حکم دیاگیا ، یعنی وہ چیزیں جو حریف کو اس قدر مرعوب کریں کہ وہ اقدام کا حوصلہ کھو دے۔ اسلام وقت کے معیار کے مطابق اپنے کو طاقت ور بناتا ہے، مگر لازماً لڑنے کے ليے نہیں۔ بلکہ اس ليے تاکہ اس کے دشمنوں پر اس کی دھاک قائم رہے اور وہ اس کے خلاف جارحانہ کارروائی کی ہمت نہ کریں۔ اسلام كو وقت کے معیار کے مطابق فكري اور عملی اعتبار سے طاقت ور بنانے میں جو لوگ اپنی کمائی خرچ کریں گے وہ کئی گناہ زیادہ مقدار میں اس کا بدلہ اپنے رب کے یہاں پائیںگے۔ اسلام کی فتح کا راز اصلاً جنگی مقابلوں میں نہیں بلکہ اس کے اصولوں کی تبلیغ میں ہے۔ اس ليے حکم ہوا کہ جب بھی فریق ثانی صلح کی پیش کش کرے تو ہر اندیشہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو قبول کرلو۔ کیوں کہ اندیشہ بہر حال یقینی نہیں اور جنگ بندی کا یہ فائدہ یقینی ہے کہ پُرامن فضا میںاسلام کا دعوتی عمل شروع ہو جائے اور اس طرح جنگ کا رکنا اسلام کی نظریاتی توسیع کا سبب بن جائے۔ اسلام خود اپنی ذا ت میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ خدا اور آخرت کا عقیدہ اگر پوری طرح کسی گروہ کے افراد میں پیدا ہوجائے تو ان کے اندر سے وہ تمام نفسیاتی خرابیاں نکل جاتی ہیں جو نااتفاقی اور باہمی ٹکراؤ کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لازماً ایسا ہوتاہے کہ وہ سب کے سب باہم جڑ کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے۔ متحد گروہ اگر تعداد میں کم ہو تب بھی وہ اپنے سے زیادہ تعداد رکھنے والے گروہ پر غالب آجائے گا۔ باہمی اتفاق سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ کسی گروہ کی نصرت یافتہ ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس کے افراد باہم متحد رہیں، کوئی بھی چیز ان کے اتحاد کو توڑنے والی ثابت نہ ہو۔

وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 اسلام کا اعتماد استعمال قوت سے زیادہ مظاہرۂ قوت پر ہے۔ اسی ليے اہل اسلام کو قوت مُرہبہ فراہم کرنے کا حکم دیاگیا ، یعنی وہ چیزیں جو حریف کو اس قدر مرعوب کریں کہ وہ اقدام کا حوصلہ کھو دے۔ اسلام وقت کے معیار کے مطابق اپنے کو طاقت ور بناتا ہے، مگر لازماً لڑنے کے ليے نہیں۔ بلکہ اس ليے تاکہ اس کے دشمنوں پر اس کی دھاک قائم رہے اور وہ اس کے خلاف جارحانہ کارروائی کی ہمت نہ کریں۔ اسلام كو وقت کے معیار کے مطابق فكري اور عملی اعتبار سے طاقت ور بنانے میں جو لوگ اپنی کمائی خرچ کریں گے وہ کئی گناہ زیادہ مقدار میں اس کا بدلہ اپنے رب کے یہاں پائیںگے۔ اسلام کی فتح کا راز اصلاً جنگی مقابلوں میں نہیں بلکہ اس کے اصولوں کی تبلیغ میں ہے۔ اس ليے حکم ہوا کہ جب بھی فریق ثانی صلح کی پیش کش کرے تو ہر اندیشہ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو قبول کرلو۔ کیوں کہ اندیشہ بہر حال یقینی نہیں اور جنگ بندی کا یہ فائدہ یقینی ہے کہ پُرامن فضا میںاسلام کا دعوتی عمل شروع ہو جائے اور اس طرح جنگ کا رکنا اسلام کی نظریاتی توسیع کا سبب بن جائے۔ اسلام خود اپنی ذا ت میں سب سے بڑی طاقت ہے۔ خدا اور آخرت کا عقیدہ اگر پوری طرح کسی گروہ کے افراد میں پیدا ہوجائے تو ان کے اندر سے وہ تمام نفسیاتی خرابیاں نکل جاتی ہیں جو نااتفاقی اور باہمی ٹکراؤ کا باعث ہوتی ہیں۔ اس کے بعد لازماً ایسا ہوتاہے کہ وہ سب کے سب باہم جڑ کر ایک ہوجاتے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اتحاد سب سے بڑی طاقت ہے۔ متحد گروہ اگر تعداد میں کم ہو تب بھی وہ اپنے سے زیادہ تعداد رکھنے والے گروہ پر غالب آجائے گا۔ باہمی اتفاق سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ کسی گروہ کی نصرت یافتہ ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ اس کے افراد باہم متحد رہیں، کوئی بھی چیز ان کے اتحاد کو توڑنے والی ثابت نہ ہو۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 اہلِ ایمان کی تعداد غیر اہل ایمان کی زیادہ تعداد پر غالب آنے کی وجہ یہ بتائی کہ اہلِ ایمان کے اندر فقہ ہوتی ہے جب کہ غیر اہلِ ایمان فقہ سے محروم ہیں۔ فقہ کے لفظی معنی سمجھ کے ہیں۔ اس سے مراد وہ بصیرت اور شعور ہے جو ایمان کے نتیجہ میںایک شخص کو حاصل ہوتاہے۔ خدا پر ایمان کسی آدمی کے ليے وہی معنی رکھتا ہے جو اندھیرے کمرے میں بجلی كے بلب كا جل جانا۔ بلب پورے کمرے کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ اس کی ہر چیز واضح طورپر دکھائی دینے لگے۔اسی طرح ایمان آدمی کو ایک ربانی شعور عطا کرتاہے جس کے بعد وہ تمام حقیقتوں کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔ ایمان کے نتیجہ میں یہ ہوتاہے کہ آدمی زندگی اور موت کی حقیقت کو سمجھ لیتاہے ۔ وہ جان لیتاہے کہ اصل چیز حیاتِ دنیا نہیں بلکہ حیات ِآخرت ہے۔ یہ چیز اس کو بے پناہ حد تک نڈر بنادیتی ہے۔ وہ موت کو اس نظر سے دیکھنے لگتاہے کہ وہ اس کے ليے جنت میںداخلہ کا دروازہ ہے۔ مومن شہادت کو جنت کا مختصر راستہ سمجھتاہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینا اس کے ليے مطلوب چیز بن جاتاہے، جب کہ غیر مومن کی جنت یہی موجودہ دنیا ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تاکہ اپنی جنت کا لطف اٹھاسکے۔ غیر مومن قومی شعور کے تحت لڑتاہے اورمومن جنتی شعور کے تحت، اور قومی شعور والا کبھی اتنی بے جگری کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتاہے، وہ آخرت کی فکر کرنے والا ہوتا ہے، یہ مزاج اس کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کرتاہے۔ وہ ضد، نفرت، تعصب، انتقام اور گھمنڈ جیسی چیزوں سے اوپر اٹھ جاتاہے۔ دوسری طرف غیر مومن کا معاملہ سراسر اس کے برعکس ہوتاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غیر مومن کے اقدامات منفی نفسیات کے تحت ہوتے ہیں اور مومن کے اقدامات ایجابی نفسیات کے تحت۔ غیر مومن جذباتی انداز سے عمل کرتاہے اور مومن حقیقت پسندانہ انداز سے۔ غیر مومن انسانوں کا دشمن ہوتاہے اور مومن صرف انسانوں کی برائی کا۔ غیر مومن تنگ ظرفی کے ساتھ معاملہ کرتاہے اور مومن وسعتِ ظرف کے ساتھ۔ ہزار کے مقابلہ میں سو اور دوہزار کے مقابلہ میں ایک ہزار کے الفاظ بتاتے ہیں کہ قتال کا حکم جماعت اور فوج کے ليے ہے۔ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا کہ ایک دو آدمی ہوںتب بھی وہ لڑنے کے ليے کھڑے ہوجائیں۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ

📘 اہلِ ایمان کی تعداد غیر اہل ایمان کی زیادہ تعداد پر غالب آنے کی وجہ یہ بتائی کہ اہلِ ایمان کے اندر فقہ ہوتی ہے جب کہ غیر اہلِ ایمان فقہ سے محروم ہیں۔ فقہ کے لفظی معنی سمجھ کے ہیں۔ اس سے مراد وہ بصیرت اور شعور ہے جو ایمان کے نتیجہ میںایک شخص کو حاصل ہوتاہے۔ خدا پر ایمان کسی آدمی کے ليے وہی معنی رکھتا ہے جو اندھیرے کمرے میں بجلی كے بلب كا جل جانا۔ بلب پورے کمرے کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ اس کی ہر چیز واضح طورپر دکھائی دینے لگے۔اسی طرح ایمان آدمی کو ایک ربانی شعور عطا کرتاہے جس کے بعد وہ تمام حقیقتوں کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔ ایمان کے نتیجہ میں یہ ہوتاہے کہ آدمی زندگی اور موت کی حقیقت کو سمجھ لیتاہے ۔ وہ جان لیتاہے کہ اصل چیز حیاتِ دنیا نہیں بلکہ حیات ِآخرت ہے۔ یہ چیز اس کو بے پناہ حد تک نڈر بنادیتی ہے۔ وہ موت کو اس نظر سے دیکھنے لگتاہے کہ وہ اس کے ليے جنت میںداخلہ کا دروازہ ہے۔ مومن شہادت کو جنت کا مختصر راستہ سمجھتاہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینا اس کے ليے مطلوب چیز بن جاتاہے، جب کہ غیر مومن کی جنت یہی موجودہ دنیا ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تاکہ اپنی جنت کا لطف اٹھاسکے۔ غیر مومن قومی شعور کے تحت لڑتاہے اورمومن جنتی شعور کے تحت، اور قومی شعور والا کبھی اتنی بے جگری کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتاہے، وہ آخرت کی فکر کرنے والا ہوتا ہے، یہ مزاج اس کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کرتاہے۔ وہ ضد، نفرت، تعصب، انتقام اور گھمنڈ جیسی چیزوں سے اوپر اٹھ جاتاہے۔ دوسری طرف غیر مومن کا معاملہ سراسر اس کے برعکس ہوتاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غیر مومن کے اقدامات منفی نفسیات کے تحت ہوتے ہیں اور مومن کے اقدامات ایجابی نفسیات کے تحت۔ غیر مومن جذباتی انداز سے عمل کرتاہے اور مومن حقیقت پسندانہ انداز سے۔ غیر مومن انسانوں کا دشمن ہوتاہے اور مومن صرف انسانوں کی برائی کا۔ غیر مومن تنگ ظرفی کے ساتھ معاملہ کرتاہے اور مومن وسعتِ ظرف کے ساتھ۔ ہزار کے مقابلہ میں سو اور دوہزار کے مقابلہ میں ایک ہزار کے الفاظ بتاتے ہیں کہ قتال کا حکم جماعت اور فوج کے ليے ہے۔ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا کہ ایک دو آدمی ہوںتب بھی وہ لڑنے کے ليے کھڑے ہوجائیں۔

الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَلْفٌ يَغْلِبُوا أَلْفَيْنِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

📘 اہلِ ایمان کی تعداد غیر اہل ایمان کی زیادہ تعداد پر غالب آنے کی وجہ یہ بتائی کہ اہلِ ایمان کے اندر فقہ ہوتی ہے جب کہ غیر اہلِ ایمان فقہ سے محروم ہیں۔ فقہ کے لفظی معنی سمجھ کے ہیں۔ اس سے مراد وہ بصیرت اور شعور ہے جو ایمان کے نتیجہ میںایک شخص کو حاصل ہوتاہے۔ خدا پر ایمان کسی آدمی کے ليے وہی معنی رکھتا ہے جو اندھیرے کمرے میں بجلی كے بلب كا جل جانا۔ بلب پورے کمرے کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ اس کی ہر چیز واضح طورپر دکھائی دینے لگے۔اسی طرح ایمان آدمی کو ایک ربانی شعور عطا کرتاہے جس کے بعد وہ تمام حقیقتوں کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔ ایمان کے نتیجہ میں یہ ہوتاہے کہ آدمی زندگی اور موت کی حقیقت کو سمجھ لیتاہے ۔ وہ جان لیتاہے کہ اصل چیز حیاتِ دنیا نہیں بلکہ حیات ِآخرت ہے۔ یہ چیز اس کو بے پناہ حد تک نڈر بنادیتی ہے۔ وہ موت کو اس نظر سے دیکھنے لگتاہے کہ وہ اس کے ليے جنت میںداخلہ کا دروازہ ہے۔ مومن شہادت کو جنت کا مختصر راستہ سمجھتاہے۔ اللہ کی راہ میں جان دینا اس کے ليے مطلوب چیز بن جاتاہے، جب کہ غیر مومن کی جنت یہی موجودہ دنیا ہے۔ وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تاکہ اپنی جنت کا لطف اٹھاسکے۔ غیر مومن قومی شعور کے تحت لڑتاہے اورمومن جنتی شعور کے تحت، اور قومی شعور والا کبھی اتنی بے جگری کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتاہے، وہ آخرت کی فکر کرنے والا ہوتا ہے، یہ مزاج اس کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کرتاہے۔ وہ ضد، نفرت، تعصب، انتقام اور گھمنڈ جیسی چیزوں سے اوپر اٹھ جاتاہے۔ دوسری طرف غیر مومن کا معاملہ سراسر اس کے برعکس ہوتاہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ غیر مومن کے اقدامات منفی نفسیات کے تحت ہوتے ہیں اور مومن کے اقدامات ایجابی نفسیات کے تحت۔ غیر مومن جذباتی انداز سے عمل کرتاہے اور مومن حقیقت پسندانہ انداز سے۔ غیر مومن انسانوں کا دشمن ہوتاہے اور مومن صرف انسانوں کی برائی کا۔ غیر مومن تنگ ظرفی کے ساتھ معاملہ کرتاہے اور مومن وسعتِ ظرف کے ساتھ۔ ہزار کے مقابلہ میں سو اور دوہزار کے مقابلہ میں ایک ہزار کے الفاظ بتاتے ہیں کہ قتال کا حکم جماعت اور فوج کے ليے ہے۔ ایسا کرنا صحیح نہ ہوگا کہ ایک دو آدمی ہوںتب بھی وہ لڑنے کے ليے کھڑے ہوجائیں۔

مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے ستر بڑے بڑے مشرکینِ مکہ کو قتل کیا۔ اس کے بعد جب ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو ان کے 70آدمیوں کو گرفتار کرلیا۔ ان گرفتار ہونے والوں میں اکثر سردار تھے۔ جنگ کے بعد مشورہ ہوا کہ ان قيدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت اسلام دشمنوں نے مسلسل حالت جنگ برپا کر رکھی تھی۔ مگر مسلمانوں کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے سامانِ جنگ کی بہت کمی تھی۔ یہ خیال کیاگیا کہ فدیہ سے جو رقم ملے گی اس سے سامانِ جنگ خریدا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ اس رائے کے خلاف تھے۔ حضرت عمر نے کہا اے خدا کے رسول یہ قیدی کفر کے امام اور مشرکین کے سردار ہیں۔ یعنی اس وقت دشمنوں کی اصل طاقت ہماری مٹھی میں آگئی ہے، ان کو قتل کرکے اس مسئلہ کا ہمیشہ کے ليے خاتمہ کردیا جائے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رائے پر عمل فرمایا۔ بعد کو جب وہ آیتیں اتریں جن میں جنگ پر تبصرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے فدیہ کی رقم کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس روش پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا اگرچہ بظاہر رحمت وشفقت کا معاملہ تھا۔ مگر وہ اللہ کے دور رس منصوبہ کے مطابق نہ تھا۔ اللہ کا اصل منصوبہ کفروشرک کی جڑ اکھاڑنا تھا۔ اس مقصد کے ليے اللہ تعالیٰ نے قریش کے تمام لیڈروں کو (ابولہب اور ابوسفیان کو چھوڑ کر) بدر کے میدان میں جمع کردیا اور ایسے حالات پیدا كيے کہ وہ پوری طرح مسلمانوں کے قابو میںآگئے۔ اگر ان لیڈروں کو اس وقت ختم کردیا جاتا تو کفر وشرک کی مزاحمت بدر کے میدان میں پوری طرح دفن ہو جاتی۔ مگر لیڈروں کو چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منظم ہو کر دوبارہ اپنی مزاحمت کی تحریک جاری رکھنے کے قابل ہوگئے۔ یہ فیصلہ جنگی مصلحت کے خلاف تھا۔ وہ مسلمانوں کے ليے عذاب عظیم (سخت مصیبتوں) کا باعث بن جاتا۔ یہ لیڈر اپنے عوام کو ساتھ لے کر اسلام کے سارے معاملہ کو تہس نہس کردیتے۔ مگر اللہ نے آخری رسول اورآپ کے اصحاب کے ليے پہلے سے مقدر کردیا تھا کہ وہ لازماً غالب رہیں گے، ان کو زیر کرنے میں کوئی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی تدبیرمیں اس کوتاہی کے باوجود قریش اہل ایمان کے اوپر غالب نہ آسکے۔ اور بالآخر وہی ہوا جس کا ہونا پہلے سے خدا کے یہاں لکھا جاچکا تھا، یعنی مسلمانوں کی فتح اور اسلام کا غلبہ۔

لَوْلَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے ستر بڑے بڑے مشرکینِ مکہ کو قتل کیا۔ اس کے بعد جب ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو ان کے 70آدمیوں کو گرفتار کرلیا۔ ان گرفتار ہونے والوں میں اکثر سردار تھے۔ جنگ کے بعد مشورہ ہوا کہ ان قيدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت اسلام دشمنوں نے مسلسل حالت جنگ برپا کر رکھی تھی۔ مگر مسلمانوں کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے سامانِ جنگ کی بہت کمی تھی۔ یہ خیال کیاگیا کہ فدیہ سے جو رقم ملے گی اس سے سامانِ جنگ خریدا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ اس رائے کے خلاف تھے۔ حضرت عمر نے کہا اے خدا کے رسول یہ قیدی کفر کے امام اور مشرکین کے سردار ہیں۔ یعنی اس وقت دشمنوں کی اصل طاقت ہماری مٹھی میں آگئی ہے، ان کو قتل کرکے اس مسئلہ کا ہمیشہ کے ليے خاتمہ کردیا جائے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رائے پر عمل فرمایا۔ بعد کو جب وہ آیتیں اتریں جن میں جنگ پر تبصرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے فدیہ کی رقم کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس روش پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا اگرچہ بظاہر رحمت وشفقت کا معاملہ تھا۔ مگر وہ اللہ کے دور رس منصوبہ کے مطابق نہ تھا۔ اللہ کا اصل منصوبہ کفروشرک کی جڑ اکھاڑنا تھا۔ اس مقصد کے ليے اللہ تعالیٰ نے قریش کے تمام لیڈروں کو (ابولہب اور ابوسفیان کو چھوڑ کر) بدر کے میدان میں جمع کردیا اور ایسے حالات پیدا كيے کہ وہ پوری طرح مسلمانوں کے قابو میںآگئے۔ اگر ان لیڈروں کو اس وقت ختم کردیا جاتا تو کفر وشرک کی مزاحمت بدر کے میدان میں پوری طرح دفن ہو جاتی۔ مگر لیڈروں کو چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منظم ہو کر دوبارہ اپنی مزاحمت کی تحریک جاری رکھنے کے قابل ہوگئے۔ یہ فیصلہ جنگی مصلحت کے خلاف تھا۔ وہ مسلمانوں کے ليے عذاب عظیم (سخت مصیبتوں) کا باعث بن جاتا۔ یہ لیڈر اپنے عوام کو ساتھ لے کر اسلام کے سارے معاملہ کو تہس نہس کردیتے۔ مگر اللہ نے آخری رسول اورآپ کے اصحاب کے ليے پہلے سے مقدر کردیا تھا کہ وہ لازماً غالب رہیں گے، ان کو زیر کرنے میں کوئی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی تدبیرمیں اس کوتاہی کے باوجود قریش اہل ایمان کے اوپر غالب نہ آسکے۔ اور بالآخر وہی ہوا جس کا ہونا پہلے سے خدا کے یہاں لکھا جاچکا تھا، یعنی مسلمانوں کی فتح اور اسلام کا غلبہ۔

فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 بدر کی لڑائی میں مسلمانوں نے ستر بڑے بڑے مشرکینِ مکہ کو قتل کیا۔ اس کے بعد جب ان کے پاؤں اکھڑنے لگے تو ان کے 70آدمیوں کو گرفتار کرلیا۔ ان گرفتار ہونے والوں میں اکثر سردار تھے۔ جنگ کے بعد مشورہ ہوا کہ ان قيدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ صحابہ کی اکثریت نے یہ رائے دی کہ ان کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اس وقت اسلام دشمنوں نے مسلسل حالت جنگ برپا کر رکھی تھی۔ مگر مسلمانوں کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے سامانِ جنگ کی بہت کمی تھی۔ یہ خیال کیاگیا کہ فدیہ سے جو رقم ملے گی اس سے سامانِ جنگ خریدا جاسکتا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت سعد بن معاذ اس رائے کے خلاف تھے۔ حضرت عمر نے کہا اے خدا کے رسول یہ قیدی کفر کے امام اور مشرکین کے سردار ہیں۔ یعنی اس وقت دشمنوں کی اصل طاقت ہماری مٹھی میں آگئی ہے، ان کو قتل کرکے اس مسئلہ کا ہمیشہ کے ليے خاتمہ کردیا جائے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی رائے پر عمل فرمایا۔ بعد کو جب وہ آیتیں اتریں جن میں جنگ پر تبصرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے فدیہ کی رقم کو جائز ٹھہراتے ہوئے اس روش پر اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا اگرچہ بظاہر رحمت وشفقت کا معاملہ تھا۔ مگر وہ اللہ کے دور رس منصوبہ کے مطابق نہ تھا۔ اللہ کا اصل منصوبہ کفروشرک کی جڑ اکھاڑنا تھا۔ اس مقصد کے ليے اللہ تعالیٰ نے قریش کے تمام لیڈروں کو (ابولہب اور ابوسفیان کو چھوڑ کر) بدر کے میدان میں جمع کردیا اور ایسے حالات پیدا كيے کہ وہ پوری طرح مسلمانوں کے قابو میںآگئے۔ اگر ان لیڈروں کو اس وقت ختم کردیا جاتا تو کفر وشرک کی مزاحمت بدر کے میدان میں پوری طرح دفن ہو جاتی۔ مگر لیڈروں کو چھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ منظم ہو کر دوبارہ اپنی مزاحمت کی تحریک جاری رکھنے کے قابل ہوگئے۔ یہ فیصلہ جنگی مصلحت کے خلاف تھا۔ وہ مسلمانوں کے ليے عذاب عظیم (سخت مصیبتوں) کا باعث بن جاتا۔ یہ لیڈر اپنے عوام کو ساتھ لے کر اسلام کے سارے معاملہ کو تہس نہس کردیتے۔ مگر اللہ نے آخری رسول اورآپ کے اصحاب کے ليے پہلے سے مقدر کردیا تھا کہ وہ لازماً غالب رہیں گے، ان کو زیر کرنے میں کوئی کامیاب نہ ہوسکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی تدبیرمیں اس کوتاہی کے باوجود قریش اہل ایمان کے اوپر غالب نہ آسکے۔ اور بالآخر وہی ہوا جس کا ہونا پہلے سے خدا کے یہاں لکھا جاچکا تھا، یعنی مسلمانوں کی فتح اور اسلام کا غلبہ۔

وَإِذْ يَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ أَنَّهَا لَكُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذَاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ وَيُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُحِقَّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ

📘 شعبان 2 ھ میں معلوم ہوا کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ اس قافلہ کے ساتھ تقریباً 50 ہزار اشرفی کا سامان تھا۔ اس کا راستہ مدینہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے قافلۂ تجارت پر حملہ کریں۔ چنانچہ قافلہ کے سردار ابو سفیان بن حرب نے تیز رفتار اونٹنی کے ذریعہ مکہ والوں کے پاس یہ خبر بھیجی کہ مدد کے ليے دوڑو ورنہ مسلمان تجارتی قافلہ کو لوٹ لیں گے۔ مکہ میں اس خبر سے بڑا جوش پیدا ہوگیا۔ چنانچہ 950 سوار جن میں 600 زرہ پوش تھے مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام خبریں مل رہی تھیں۔ اب مدینہ کے مسلمان دو گروہوں کے درمیان تھے۔ ایک شام سے آنے والا تجارتی قافلہ۔ دوسرا مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھنے والا جنگی لشکر۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ تجارتی قافلہ کی طرف بڑھا جائے۔ اس قافلہ کے ساتھ بمشکل 40 محافظ تھے۔ اس کو به آسانی مغلوب کرکے اس کے سامان پر قبضہ کیا جاسکتاتھا۔ مگر خدا کا منصوبہ دوسرا تھا۔ خدا کو دراصل منکرین حق کا زور توڑنا تھا، نہ کہ کچھ اقتصادی فائدہ حاصل کرنا۔ خدا نے مخصوص حالات پیدا کرکے ایسا کیا کہ تمام مخالف سرداروں کو مکہ سے نکالا اور ان کو مدینہ سے 20 میل کے فاصلہ پر بدر کے مقام پر پہنچا دیا تاکہ مسلمانوں کو ان سے ٹکرا کر ہمیشہ کے ليے ان کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ کے رسول نے جب مسلمانوں کو خدا کے اس منصوبہ سے مطلع کیا تو سب کے سب متفق ہو کر بدر کی طرف بڑھے۔ ان کی تعداد اگر چہ صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار کم تھے۔ مگر اللہ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے قریش کے لشکر کو بری طرح شکست دی۔ ان کے ستر سردار قتل ہوئے اور ستر گرفتار کر ليے گئے۔ بد رکا میدان کفر کے مقابلہ میں اسلام کی فتح کا میدان بن گیا— جب بھی ایسا ہو کہ ایک طرف مادی فائدہ ہو اور دوسری طرف دینی فائدہ تو یہ تقسیم خود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی مرضی دینی فائدہ کی طرف ہے، نہ کہ مادی فائدہ کی طرف۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ کبھی معاشی مفاد حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ ہمیشہ باطل کا زور توڑنا ہوتاہے۔ خواہ وہ نظریاتی طاقت کے ذریعہ ہو یا حالات کے اعتبار سے مادی طاقت کے ذریعہ۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِمَنْ فِي أَيْدِيكُمْ مِنَ الْأَسْرَىٰ إِنْ يَعْلَمِ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْرًا يُؤْتِكُمْ خَيْرًا مِمَّا أُخِذَ مِنْكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا مسلمانوں کے ليے ایک جنگي غلطی تھی۔ مگر خود قیدیوں کے حق میں یہ ایک نئی زندگی فراہم کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ جو اپنی مخالفتِ حق کے نتیجہ میں ہلاکت کے مستحق ہوچکے تھے ان کو ایک بار اور موقع مل گیا کہ وہ اسلام کی دعوت اور اس کے مقابلہ میں اپنی بے جا روش پر دوبارہ غور کرسکیں۔ اس مہلت نے ان کے ليے اپنی اصلاح کا نیا دروازہ کھول دیا۔ اب ایک صورت یہ تھی کہ ان قیدیوں کے دل میں شکست کی بنا پر انتقام کی آگ بھڑکے۔ فدیہ دینے کی وجہ سے ان کو جو ذلت اور نقصان ہوا ہے اس کا بدلہ لینے کے ليے وہ بے چین ہوجائیں۔ ایسی صورت میں وہ پھر اسی غلطی کو دہرائیں گے جس کے نتیجے میں وہ خدا کی پکڑ کے مستحق بن گئے تھے۔ وہ اپنی قوتوں کو اسلام کی مخالفت میں صرف کریںگے، جس کا انجام دنیا میں ہلاکت ہے اور آخرت میں عذاب۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ بدر کے میدان میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعہ پر غور کریں کہ مسلمانوں کو کم تر اسباب کے باوجود اتنی کھلی ہوئی فتح کیوں نصیب ہوئی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا مسلمانوں کے دین کے ساتھ ہے، نہ کہ قریش کے دین کے ساتھ۔ یہ دوسرا ذہن اگر پیدا ہوجائے تو وہ ان کو آمادہ کرے گا کہ وہ اپنی سابقہ روش کو بدلیں اور جس دین کو پہلے اختیار نہ کرسکے، اس کو اب سے اختیار کرلیں۔ اور اس طرح دنیا اور آخرت میں خداکے انعام کے مستحق بنیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قریش کے لوگوں میں ایک تعداد ایسی نکلی جن کے دل میں مذکورہ سوال جاگ اٹھا اور جلد یا بدیر وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ حضرت عباس بن عبد المطلب نے زمانہ قید ہی میں اسلام قبول کرلیا۔ کچھ دوسرے لوگ بعد کو اسلام کے حلقہ میں آگئے۔ یہ لوگ اگرچہ گروہی تعصب کی نظر میں ذلیل ہوئے مگر انھوں نے خدا کی نظر میں عزت حاصل کرلی۔ دنیا کا نقصان اٹھا کر وہ آخرت کے فائدہ کے مالک بن گئے۔ قیدیوں کو چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ اس کو احسان سمجھ کر اس کا اعتراف نہیں کریں گے بلکہ پہلے کی طرح دوبارہ سازش اور تخریب کاری کا راستہ اختیار کرکے اسلام کی راه میں رکاوٹ بن جائیں گے۔ مگر قرآن نے اس اندیشہ کو اہمیت نہ دی۔ کیوں خالص حق کے ليے جو تحریک اٹھتی ہے وہ عام طرز کی انسانی تحریک نہیں ہوتی۔ وہ ایک خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کی پشت پر خود خدا ہوتا ہے اور خدا سے لڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

وَإِنْ يُرِيدُوا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللَّهَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْكَنَ مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑنا مسلمانوں کے ليے ایک جنگي غلطی تھی۔ مگر خود قیدیوں کے حق میں یہ ایک نئی زندگی فراہم کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ لوگ جو اپنی مخالفتِ حق کے نتیجہ میں ہلاکت کے مستحق ہوچکے تھے ان کو ایک بار اور موقع مل گیا کہ وہ اسلام کی دعوت اور اس کے مقابلہ میں اپنی بے جا روش پر دوبارہ غور کرسکیں۔ اس مہلت نے ان کے ليے اپنی اصلاح کا نیا دروازہ کھول دیا۔ اب ایک صورت یہ تھی کہ ان قیدیوں کے دل میں شکست کی بنا پر انتقام کی آگ بھڑکے۔ فدیہ دینے کی وجہ سے ان کو جو ذلت اور نقصان ہوا ہے اس کا بدلہ لینے کے ليے وہ بے چین ہوجائیں۔ ایسی صورت میں وہ پھر اسی غلطی کو دہرائیں گے جس کے نتیجے میں وہ خدا کی پکڑ کے مستحق بن گئے تھے۔ وہ اپنی قوتوں کو اسلام کی مخالفت میں صرف کریںگے، جس کا انجام دنیا میں ہلاکت ہے اور آخرت میں عذاب۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ بدر کے میدان میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعہ پر غور کریں کہ مسلمانوں کو کم تر اسباب کے باوجود اتنی کھلی ہوئی فتح کیوں نصیب ہوئی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خدا مسلمانوں کے دین کے ساتھ ہے، نہ کہ قریش کے دین کے ساتھ۔ یہ دوسرا ذہن اگر پیدا ہوجائے تو وہ ان کو آمادہ کرے گا کہ وہ اپنی سابقہ روش کو بدلیں اور جس دین کو پہلے اختیار نہ کرسکے، اس کو اب سے اختیار کرلیں۔ اور اس طرح دنیا اور آخرت میں خداکے انعام کے مستحق بنیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ قریش کے لوگوں میں ایک تعداد ایسی نکلی جن کے دل میں مذکورہ سوال جاگ اٹھا اور جلد یا بدیر وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ حضرت عباس بن عبد المطلب نے زمانہ قید ہی میں اسلام قبول کرلیا۔ کچھ دوسرے لوگ بعد کو اسلام کے حلقہ میں آگئے۔ یہ لوگ اگرچہ گروہی تعصب کی نظر میں ذلیل ہوئے مگر انھوں نے خدا کی نظر میں عزت حاصل کرلی۔ دنیا کا نقصان اٹھا کر وہ آخرت کے فائدہ کے مالک بن گئے۔ قیدیوں کو چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو یہ اندیشہ تھا کہ وہ اس کو احسان سمجھ کر اس کا اعتراف نہیں کریں گے بلکہ پہلے کی طرح دوبارہ سازش اور تخریب کاری کا راستہ اختیار کرکے اسلام کی راه میں رکاوٹ بن جائیں گے۔ مگر قرآن نے اس اندیشہ کو اہمیت نہ دی۔ کیوں خالص حق کے ليے جو تحریک اٹھتی ہے وہ عام طرز کی انسانی تحریک نہیں ہوتی۔ وہ ایک خدائی معاملہ ہوتاہے۔ اس کی پشت پر خود خدا ہوتا ہے اور خدا سے لڑنا کسی کے بس کی بات نہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُمْ مِنْ وَلَايَتِهِمْ مِنْ شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنْصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 عام طورپر جب ایک آدمی دوسرے کی مدد کرتاہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ آدمی اس کے اپنے خاندان کا ہے، اس سے گروہی اور جماعتی تعلق ہے۔ مگر ہجرت کے بعد مدینہ میں جو اسلامی معاشرہ قائم ہوا وہ ایسا معاشرہ تھا جس میں گھر والوں نے اپنے گھر ایسے لوگوں کو ديے جن سے تعلق کی بنیاد صرف دین تھی۔ جو لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ آئے وہ بھی اللہ کے ليے اور آخرت طلبی کے ليے آئے۔ اور جنھوں نے ان اجنبی لوگوں کو اپنے مال اور اپنی جائداد میں شریک کیا وہ بھی صرف اس ليے تاکہ ان کا خدا ان سے خوش ہو اور آخرت میں انھیں جنتوں میں داخل کرے۔ یہ ایسا سماج تھا جس میںاہم چیز خاندان اور نسب نہیں بلکہ ایمان و اسلام تھا۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے مگر دنیوی فائدہ کے ليے نہیں بلکہ آخرت کے فائدہ کے ليے۔ وہ ایک دوسرے کو دیتے تھے مگر پانے والےسے کسی بدلہ کی امید میں نہیں بلکہ اللہ سے انعام کی امید میں۔ وہی معاشرہ حقیقۃ ً اسلامی معاشرہ ہے جہاں تعلقات خاندانی رشتوں اور گروہی عصبیتوں پر قائم نہ ہوں بلکہ حق کی بنیاد پر قائم ہوں۔ جہاں لوگ ایک دوسرے کے حامی وناصر اس بنیاد پر ہوں کہ وہ ان کے دینی بھائی ہیں، نہ کہ اس بنیاد پر کہ دنیوی مصلحتوں میں سے کوئی مصلحت ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے حق کے معاملہ میں مدد طلب کرے تو اس وقت اس کی مدد کرنا بالکل لازم ہے۔ اگر مسلمانوں میں باہمی مدد کی یہ روح باقی نہ رہے تو یہ ہوگا کہ شریر لوگ کمزور مسلمانوں پر دلیر ہوجائیں گے اور ان کی زندگی اور ان کے ایمان کا محفوظ رہنا سخت مشکل ہوجائے گا۔ حق کے مخالفین اپنے ساتھیوں کی مدد کے ليے انتهائی متعصب ہوتے ہیں پھر حق کے ماننے والے اپنے ساتھیوں کی مدد میں کیوں نہ سرگرم ہوں۔ اس میں استثنا صرف اس وقت ہے جب کہ معاملہ بین اقوامی ہو اور مسلمانوں کی مدد کرنا بین اقوامی پیچیدگیاں پیدا کرنے کے ہم معنی سمجھا جائے۔ ’’ہجرت‘‘ جنت میں داخلہ کا دروازہ ہے۔ ایک بندہ جب خدا کے ناپسندیدہ مقام سے نکل کر خدا کے پسندیدہ مقام کی طرف جاتاہے تو دراصل وہ غیر جنت کو چھوڑ کر جنت میں داخل ہوتا ہے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ

📘 عام طورپر جب ایک آدمی دوسرے کی مدد کرتاہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ آدمی اس کے اپنے خاندان کا ہے، اس سے گروہی اور جماعتی تعلق ہے۔ مگر ہجرت کے بعد مدینہ میں جو اسلامی معاشرہ قائم ہوا وہ ایسا معاشرہ تھا جس میں گھر والوں نے اپنے گھر ایسے لوگوں کو ديے جن سے تعلق کی بنیاد صرف دین تھی۔ جو لوگ اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ آئے وہ بھی اللہ کے ليے اور آخرت طلبی کے ليے آئے۔ اور جنھوں نے ان اجنبی لوگوں کو اپنے مال اور اپنی جائداد میں شریک کیا وہ بھی صرف اس ليے تاکہ ان کا خدا ان سے خوش ہو اور آخرت میں انھیں جنتوں میں داخل کرے۔ یہ ایسا سماج تھا جس میںاہم چیز خاندان اور نسب نہیں بلکہ ایمان و اسلام تھا۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے مگر دنیوی فائدہ کے ليے نہیں بلکہ آخرت کے فائدہ کے ليے۔ وہ ایک دوسرے کو دیتے تھے مگر پانے والےسے کسی بدلہ کی امید میں نہیں بلکہ اللہ سے انعام کی امید میں۔ وہی معاشرہ حقیقۃ ً اسلامی معاشرہ ہے جہاں تعلقات خاندانی رشتوں اور گروہی عصبیتوں پر قائم نہ ہوں بلکہ حق کی بنیاد پر قائم ہوں۔ جہاں لوگ ایک دوسرے کے حامی وناصر اس بنیاد پر ہوں کہ وہ ان کے دینی بھائی ہیں، نہ کہ اس بنیاد پر کہ دنیوی مصلحتوں میں سے کوئی مصلحت ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے حق کے معاملہ میں مدد طلب کرے تو اس وقت اس کی مدد کرنا بالکل لازم ہے۔ اگر مسلمانوں میں باہمی مدد کی یہ روح باقی نہ رہے تو یہ ہوگا کہ شریر لوگ کمزور مسلمانوں پر دلیر ہوجائیں گے اور ان کی زندگی اور ان کے ایمان کا محفوظ رہنا سخت مشکل ہوجائے گا۔ حق کے مخالفین اپنے ساتھیوں کی مدد کے ليے انتهائی متعصب ہوتے ہیں پھر حق کے ماننے والے اپنے ساتھیوں کی مدد میں کیوں نہ سرگرم ہوں۔ اس میں استثنا صرف اس وقت ہے جب کہ معاملہ بین اقوامی ہو اور مسلمانوں کی مدد کرنا بین اقوامی پیچیدگیاں پیدا کرنے کے ہم معنی سمجھا جائے۔ ’’ہجرت‘‘ جنت میں داخلہ کا دروازہ ہے۔ ایک بندہ جب خدا کے ناپسندیدہ مقام سے نکل کر خدا کے پسندیدہ مقام کی طرف جاتاہے تو دراصل وہ غیر جنت کو چھوڑ کر جنت میں داخل ہوتا ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوْا وَنَصَرُوا أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

📘 خدا پر ایمان لانا خداکے ليے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ ایسے لوگ اکثر ان لوگوں کے درمیان اجنبی بن جاتے ہیں جو خدا کے سوا کسی اور چیز کی خاطر زندگی گزار رہے ہوں۔ یہ اجنبیت کبھی اتنی بڑھتی ہے کہ ہجرت کی نوبت آجاتی ہے۔ ماحول کی مخالفت کے نتیجہ میں پوری زندگی جدوجہد اور جاں فشانی کی زندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک سچے مومن ہیں۔ اس کے بعد سچا ایمان ان لوگوں کا ہے جو اسلام کی خاطر برباد ہوجانے والے اس قافلہ کے پشت پناہ بنیں وہ ان کو جگہ دیں اور ان کی ہر ممکن مدد کے ليے کھڑے ہوجائیں۔ جن کی زندگیاں نہیں لٹی ہیں وہ اپنا اثاثہ ان لوگوں کے حوالے کردیں جن کی زندگیاں اسلام کی راہ میں لٹ گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی مسلم بننے کے ليے آدمی کو دو میں سے کم از کم ایک چیز کا ثبوت دینا ہے۔ آدمی یا تو اپنے آپ کو اسلام کے ساتھ اس طرح وابستہ کرے کہ اگر اس کو اپنی بنی بنائی دنیا اجاڑ دینی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے، آرام کی زندگی کو بے آرام کی زندگی بنا دینا پڑے تو اس کو بھی گوارا کرلے۔ پھر یہ کہ اسلام کی خاطر جب کچھ لوگ اپنا اثاثہ لٹا دیں تو وہ لوگ جو ابھی لٹنے سے محفوظ ہیں وہ پہلے فریق کی مدد کے ليے اپنا بازو کھول دیں، حتی کہ ضرورت ہو تو اپنی کمائی اور اپنی جائداد میں بھی ان کو شریک کرلیں— سچا ایمان کسی کو یا تو ’’مہاجر‘‘ بننے کی سطح پر ملتا ہے یا ’’انصار‘‘ بننے کی سطح پر۔ یہی دو قسم کے لوگ ہیں جن کے ليے خدا کے یہاں مغفرت اور رزق کریم ہے۔ آخرت میں آنے والی جنت انتہائی ستھری اور نفیس دنیا ہے۔ وہ ایک کامل دنیا ہے اور کامل دنیا میں بسائے جانے کے لائق وہی لوگ ہوسکتے ہیںجو خود بھی کامل ہوں۔ کوئی انسان اپنی بشری کمزوریوں کی بنا پر ایسی کاملیت کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ تاہم اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جوشخص مذکورہ دونوں کسوٹی میں سے کسی ایک کسوٹی پر پورا اترے گا خدا اپنی قدرت سے اس کی کمیوں کی تلافی کرکے اس کو جنت میں داخل کردے گا۔ دین کی بنیاد پر بھائی بننے والوں کی مدد اور حمایت بے حد اہم ہے تاہم وہ رحمی رشتوں کے حقوق اور ان کے درمیان وراثتوں کی تقسیم پر اثر انداز نہ ہوگی۔ اپنی خواہش کے تحت کوئی شخص اپنے اہل خاندان کے ليے جن چیزوں کو ضروری سمجھ لے ان کی کوئی اہمیت اللہ کے نزدیک نہیں ہے۔ تاہم اللہ نے خود اپنی کتاب میں اہل خاندان کے لیے حقوق اور وراثت کا جو قانون مقرر کردیا ہے وہ ہر حال میں قائم رہے گا۔ اور کوئی دوسری چیز اس کی ادائيگی کے ليے عذر نہیں بن سکتی۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَٰئِكَ مِنْكُمْ ۚ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 خدا پر ایمان لانا خداکے ليے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرنا ہے۔ ایسے لوگ اکثر ان لوگوں کے درمیان اجنبی بن جاتے ہیں جو خدا کے سوا کسی اور چیز کی خاطر زندگی گزار رہے ہوں۔ یہ اجنبیت کبھی اتنی بڑھتی ہے کہ ہجرت کی نوبت آجاتی ہے۔ ماحول کی مخالفت کے نتیجہ میں پوری زندگی جدوجہد اور جاں فشانی کی زندگی بن کر رہ جاتی ہے۔ یہی لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک سچے مومن ہیں۔ اس کے بعد سچا ایمان ان لوگوں کا ہے جو اسلام کی خاطر برباد ہوجانے والے اس قافلہ کے پشت پناہ بنیں وہ ان کو جگہ دیں اور ان کی ہر ممکن مدد کے ليے کھڑے ہوجائیں۔ جن کی زندگیاں نہیں لٹی ہیں وہ اپنا اثاثہ ان لوگوں کے حوالے کردیں جن کی زندگیاں اسلام کی راہ میں لٹ گئی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقی مسلم بننے کے ليے آدمی کو دو میں سے کم از کم ایک چیز کا ثبوت دینا ہے۔ آدمی یا تو اپنے آپ کو اسلام کے ساتھ اس طرح وابستہ کرے کہ اگر اس کو اپنی بنی بنائی دنیا اجاڑ دینی پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کرے، آرام کی زندگی کو بے آرام کی زندگی بنا دینا پڑے تو اس کو بھی گوارا کرلے۔ پھر یہ کہ اسلام کی خاطر جب کچھ لوگ اپنا اثاثہ لٹا دیں تو وہ لوگ جو ابھی لٹنے سے محفوظ ہیں وہ پہلے فریق کی مدد کے ليے اپنا بازو کھول دیں، حتی کہ ضرورت ہو تو اپنی کمائی اور اپنی جائداد میں بھی ان کو شریک کرلیں— سچا ایمان کسی کو یا تو ’’مہاجر‘‘ بننے کی سطح پر ملتا ہے یا ’’انصار‘‘ بننے کی سطح پر۔ یہی دو قسم کے لوگ ہیں جن کے ليے خدا کے یہاں مغفرت اور رزق کریم ہے۔ آخرت میں آنے والی جنت انتہائی ستھری اور نفیس دنیا ہے۔ وہ ایک کامل دنیا ہے اور کامل دنیا میں بسائے جانے کے لائق وہی لوگ ہوسکتے ہیںجو خود بھی کامل ہوں۔ کوئی انسان اپنی بشری کمزوریوں کی بنا پر ایسی کاملیت کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ تاہم اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ جوشخص مذکورہ دونوں کسوٹی میں سے کسی ایک کسوٹی پر پورا اترے گا خدا اپنی قدرت سے اس کی کمیوں کی تلافی کرکے اس کو جنت میں داخل کردے گا۔ دین کی بنیاد پر بھائی بننے والوں کی مدد اور حمایت بے حد اہم ہے تاہم وہ رحمی رشتوں کے حقوق اور ان کے درمیان وراثتوں کی تقسیم پر اثر انداز نہ ہوگی۔ اپنی خواہش کے تحت کوئی شخص اپنے اہل خاندان کے ليے جن چیزوں کو ضروری سمجھ لے ان کی کوئی اہمیت اللہ کے نزدیک نہیں ہے۔ تاہم اللہ نے خود اپنی کتاب میں اہل خاندان کے لیے حقوق اور وراثت کا جو قانون مقرر کردیا ہے وہ ہر حال میں قائم رہے گا۔ اور کوئی دوسری چیز اس کی ادائيگی کے ليے عذر نہیں بن سکتی۔

لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

📘 شعبان 2 ھ میں معلوم ہوا کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ اس قافلہ کے ساتھ تقریباً 50 ہزار اشرفی کا سامان تھا۔ اس کا راستہ مدینہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے قافلۂ تجارت پر حملہ کریں۔ چنانچہ قافلہ کے سردار ابو سفیان بن حرب نے تیز رفتار اونٹنی کے ذریعہ مکہ والوں کے پاس یہ خبر بھیجی کہ مدد کے ليے دوڑو ورنہ مسلمان تجارتی قافلہ کو لوٹ لیں گے۔ مکہ میں اس خبر سے بڑا جوش پیدا ہوگیا۔ چنانچہ 950 سوار جن میں 600 زرہ پوش تھے مکہ سے نکل کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تمام خبریں مل رہی تھیں۔ اب مدینہ کے مسلمان دو گروہوں کے درمیان تھے۔ ایک شام سے آنے والا تجارتی قافلہ۔ دوسرا مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھنے والا جنگی لشکر۔ مسلمانوں کے ایک طبقہ میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ تجارتی قافلہ کی طرف بڑھا جائے۔ اس قافلہ کے ساتھ بمشکل 40 محافظ تھے۔ اس کو به آسانی مغلوب کرکے اس کے سامان پر قبضہ کیا جاسکتاتھا۔ مگر خدا کا منصوبہ دوسرا تھا۔ خدا کو دراصل منکرین حق کا زور توڑنا تھا، نہ کہ کچھ اقتصادی فائدہ حاصل کرنا۔ خدا نے مخصوص حالات پیدا کرکے ایسا کیا کہ تمام مخالف سرداروں کو مکہ سے نکالا اور ان کو مدینہ سے 20 میل کے فاصلہ پر بدر کے مقام پر پہنچا دیا تاکہ مسلمانوں کو ان سے ٹکرا کر ہمیشہ کے ليے ان کا خاتمہ کردیا جائے۔ اللہ کے رسول نے جب مسلمانوں کو خدا کے اس منصوبہ سے مطلع کیا تو سب کے سب متفق ہو کر بدر کی طرف بڑھے۔ ان کی تعداد اگر چہ صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار کم تھے۔ مگر اللہ نے ان کی خصوصی مدد فرمائی۔ انھوں نے قریش کے لشکر کو بری طرح شکست دی۔ ان کے ستر سردار قتل ہوئے اور ستر گرفتار کر ليے گئے۔ بد رکا میدان کفر کے مقابلہ میں اسلام کی فتح کا میدان بن گیا— جب بھی ایسا ہو کہ ایک طرف مادی فائدہ ہو اور دوسری طرف دینی فائدہ تو یہ تقسیم خود اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی مرضی دینی فائدہ کی طرف ہے، نہ کہ مادی فائدہ کی طرف۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ کبھی معاشی مفاد حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ اسلامی جدوجہد کا نشانہ ہمیشہ باطل کا زور توڑنا ہوتاہے۔ خواہ وہ نظریاتی طاقت کے ذریعہ ہو یا حالات کے اعتبار سے مادی طاقت کے ذریعہ۔

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ

📘 بدر کی لڑائی بڑے نازک حالات میں ہوئی۔ تقریباً ایک ہزار مسلّح دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد صرف 313 تھی۔ ان کے پاس ہتھیار بھی کم تھے۔ اس قسم کے حالات دیکھ کر بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ آنے لگا کہ جس مشن کے ليے وہ اپنی زندگی ویران کررہے ہیں اس کے ساتھ شاید خدا کی مدد شامل نہیں۔ اگر وہ حق ہوتا تو ایسے نازک موقع پر خدا کیوں ان کا ساتھ نہ دیتا۔ کیوں اسباب کے اعتبار سے دشمن برتر نظر آرهے هيں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے بدر کے علاقہ میں زور کی بارش برسائی۔ مسلمانوں نے حوض بنا بنا کر بارش کا پانی جمع کرلیا۔ دشمن نے مسلمانوں کو زمین کے پاني سے محروم کیا تھا، خدا نے ان کے ليے آسمان سے پانی کا انتظام کردیا۔ اسی طرح خدا نے یہ غیر معمولی انعام فرمایا کہ مسلمانوں کے اوپر نیند طاری کردی۔ سونا آدمی کے تازہ دم ہونے کے ليے بہت ضروری ہے۔ مگر میدان جنگ کے حالات اس قدر وحشت ناک ہوتے ہیں کہ آدمی کی نیند اڑ جاتی ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی یہ خصوصی مدد فرمائی کہ جنگ کے دن سے پہلے والی رات کو ان پر نیند طاری کردی۔ وہ رات کو ذہنی بوجھ سے فارغ ہو کر سوگئے اور صبح کو پوری طرح تازہ دم ہو کر اٹھے — جو حالات مسلمانوں کے اندر وسوسہ پیدا کرنے کا سبب بن رہے تھے، انھیں حالات کے اندر خدا نے ایسے امکانات پیدا کرديے کہ ان کے اندر نیا یقین واعتماد ابھر آیا۔ مقابلہ کے وقت اہل حق سے جو چیز مطلوب ہے وہ ثابت قدمی ہے۔ انھیں کسی حال میں بد دل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ثابت قدمی کا نقد انعام خدا کی طرف سے یہ ملتا ہے کہ دشمنانِ حق کے دلوں میں رعب ڈال دیا جاتا ہے۔ اور جو گروہ اپنے حریف سے مرعوب ہوجائے اس کو کوئی چیز شکست سے نہیں بچاسکتی۔