🕋 تفسير سورة المؤمنون
(Al-Muminun) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
أُولَٰئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ فِي جَهَنَّمَ خَالِدُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
أَلَمْ تَكُنْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ بِهَا تُكَذِّبُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
قَالُوا رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔
إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
📘 دنیا کی زندگی میں جب کہ ابھی آخرت کے حقائق آنکھوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔ اس وقت خدا کے کچھ بندوں نے خدا کو اس کے جلال وکمال کے ساتھ پہچانا۔ ان کے سامنے حق کی دعوت مجرد دلائل کی سطح پر آئی۔ اس کے باوجود انھوں نے اس پر یقین کیا۔وہ اس کے بارے میں اس حد تک سنجیدہ ہوئے کہ اسی کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار بنا لیا۔ ایک اجنبی حق کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کی انھیں یہ قیمت دینی پڑی کہ ماحول میں وہ مذاق کا موضوع بن گئے۔ اس کے باوجود انھوں نے اس سے اپنی وابستگی کو ختم نہیں کیا۔
یہ فکری استقامت ہی سب سے بڑا صبر ہے اور آخرت کا انعام آدمی کو اسی صبر کی قیمت میں ملتا ہے۔ وہی لوگ در اصل کامیاب ہیں جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اس صبر کا ثبوت دے سکیں۔
الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰ أَنْسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنْتُمْ مِنْهُمْ تَضْحَكُونَ
📘 دنیا کی زندگی میں جب کہ ابھی آخرت کے حقائق آنکھوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔ اس وقت خدا کے کچھ بندوں نے خدا کو اس کے جلال وکمال کے ساتھ پہچانا۔ ان کے سامنے حق کی دعوت مجرد دلائل کی سطح پر آئی۔ اس کے باوجود انھوں نے اس پر یقین کیا۔وہ اس کے بارے میں اس حد تک سنجیدہ ہوئے کہ اسی کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار بنا لیا۔ ایک اجنبی حق کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کی انھیں یہ قیمت دینی پڑی کہ ماحول میں وہ مذاق کا موضوع بن گئے۔ اس کے باوجود انھوں نے اس سے اپنی وابستگی کو ختم نہیں کیا۔
یہ فکری استقامت ہی سب سے بڑا صبر ہے اور آخرت کا انعام آدمی کو اسی صبر کی قیمت میں ملتا ہے۔ وہی لوگ در اصل کامیاب ہیں جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اس صبر کا ثبوت دے سکیں۔
إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ
📘 دنیا کی زندگی میں جب کہ ابھی آخرت کے حقائق آنکھوں کے سامنے نہیں آئے تھے۔ اس وقت خدا کے کچھ بندوں نے خدا کو اس کے جلال وکمال کے ساتھ پہچانا۔ ان کے سامنے حق کی دعوت مجرد دلائل کی سطح پر آئی۔ اس کے باوجود انھوں نے اس پر یقین کیا۔وہ اس کے بارے میں اس حد تک سنجیدہ ہوئے کہ اسی کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار بنا لیا۔ ایک اجنبی حق کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کی انھیں یہ قیمت دینی پڑی کہ ماحول میں وہ مذاق کا موضوع بن گئے۔ اس کے باوجود انھوں نے اس سے اپنی وابستگی کو ختم نہیں کیا۔
یہ فکری استقامت ہی سب سے بڑا صبر ہے اور آخرت کا انعام آدمی کو اسی صبر کی قیمت میں ملتا ہے۔ وہی لوگ در اصل کامیاب ہیں جو موجودہ امتحان کی دنیا میں اس صبر کا ثبوت دے سکیں۔
قَالَ كَمْ لَبِثْتُمْ فِي الْأَرْضِ عَدَدَ سِنِينَ
📘 عیش وہی ہے جو ابدی ہو۔ جو عیش ابدی نہ ہو وہ جب ختم ہوتا ہے تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ بس ایک لمحہ تھا جو آیا اور گزر گیا۔
دنیا کی زندگی میں آدمی اس حقیقت کو بھولا رہتاہے۔ مگر آخرت میں یہ حقیقت اس پر آخری حد تک کھل جائے گی۔ اس وقت وہ جانے گا۔ مگر اس وقت جاننے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دنیا میں آدمی کے سامنے حق آتاہے مگر وہ اپنے سکون کو برہم کرنا نہیں چاہتا اس ليے وہ اس کو قبول نہیںکرتا۔ وہ ملنے والے فائدے کی خاطر ملے ہوئے فائدہ کو چھوڑنے کے ليے تیار نہیںہوتا۔ یہاں کی عزت، یہاں کا آرام، یہاں کی مصلحتیں اس کو اتنی قیمتی معلوم ہوتی ہیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح ایسا کرے کہ ’’چیز‘‘ کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو ’’بے چیز‘‘ سے وابستہ کرلے۔ حالاں کہ جب عمر کی مہلت پوری ہوگی تو سو سال بھی ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ وہ بس ایک دن تھا جو آیا اور ختم ہوگیا۔
قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ فَاسْأَلِ الْعَادِّينَ
📘 عیش وہی ہے جو ابدی ہو۔ جو عیش ابدی نہ ہو وہ جب ختم ہوتا ہے تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ بس ایک لمحہ تھا جو آیا اور گزر گیا۔
دنیا کی زندگی میں آدمی اس حقیقت کو بھولا رہتاہے۔ مگر آخرت میں یہ حقیقت اس پر آخری حد تک کھل جائے گی۔ اس وقت وہ جانے گا۔ مگر اس وقت جاننے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دنیا میں آدمی کے سامنے حق آتاہے مگر وہ اپنے سکون کو برہم کرنا نہیں چاہتا اس ليے وہ اس کو قبول نہیںکرتا۔ وہ ملنے والے فائدے کی خاطر ملے ہوئے فائدہ کو چھوڑنے کے ليے تیار نہیںہوتا۔ یہاں کی عزت، یہاں کا آرام، یہاں کی مصلحتیں اس کو اتنی قیمتی معلوم ہوتی ہیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح ایسا کرے کہ ’’چیز‘‘ کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو ’’بے چیز‘‘ سے وابستہ کرلے۔ حالاں کہ جب عمر کی مہلت پوری ہوگی تو سو سال بھی ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ وہ بس ایک دن تھا جو آیا اور ختم ہوگیا۔
قَالَ إِنْ لَبِثْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا ۖ لَوْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 عیش وہی ہے جو ابدی ہو۔ جو عیش ابدی نہ ہو وہ جب ختم ہوتا ہے تو ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ بس ایک لمحہ تھا جو آیا اور گزر گیا۔
دنیا کی زندگی میں آدمی اس حقیقت کو بھولا رہتاہے۔ مگر آخرت میں یہ حقیقت اس پر آخری حد تک کھل جائے گی۔ اس وقت وہ جانے گا۔ مگر اس وقت جاننے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دنیا میں آدمی کے سامنے حق آتاہے مگر وہ اپنے سکون کو برہم کرنا نہیں چاہتا اس ليے وہ اس کو قبول نہیںکرتا۔ وہ ملنے والے فائدے کی خاطر ملے ہوئے فائدہ کو چھوڑنے کے ليے تیار نہیںہوتا۔ یہاں کی عزت، یہاں کا آرام، یہاں کی مصلحتیں اس کو اتنی قیمتی معلوم ہوتی ہیں کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس طرح ایسا کرے کہ ’’چیز‘‘ کو نظر انداز کرکے اپنے آپ کو ’’بے چیز‘‘ سے وابستہ کرلے۔ حالاں کہ جب عمر کی مہلت پوری ہوگی تو سو سال بھی ایسا معلوم ہوگا جیسے کہ وہ بس ایک دن تھا جو آیا اور ختم ہوگیا۔
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ
📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ کوئی انسان با اصول زندگی گزارتا ہے۔ اورکوئی بے اصول۔ کوئی اَن دیکھی صداقت کے ليے اپنے آپ کو قربان کردیتاہے اور کوئی صرف دکھائی دینے والی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ کوئی حق کی دعوت کو اس کی ساری اجنبیت کے باوجود قبول کرتا ہے۔ اور کوئی اس کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو ظلم سے روکتا ہے، صرف اس ليے کہ خدا نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ کوئی موقع پاتے ہی دوسروں کے ليے ظالم بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کا نفس اس سے ایسا ہی کرنے کے ليے کہہ رہا ہے۔
اگر اس دنیا کا کوئی انجام نہ ہو، اگر وہ اسی طرح چلتی رہے اور اسی طرح بالآخر اس کا خاتمہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بے مقصد ہنگامہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ مگر کائنات کی معنویت اس قسم کے بے معنیٰ نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ کائنات کا اعلیٰ نظام اس سے انکار کرتا ہے کہ اس کا خالق ایک غیر سنجیدہ ہستی ہو۔
کائنات اپنے وسیع نظام کے ساتھ جس خالق کا تعارف کرارہی ہے وہ ایک ایسا خالق ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ ایسے خالق کے بارے میں ناقابلِ قیاس ہے کہ وہ دو مختلف قسم کے انسانوں کا یکساں انجام ہوتے ہوئے دیکھے اور اس کو گوارا کرلے۔ یہ سراسر ناممکن ہے۔ یقیناً ایسا ہونے والا ہے کہ مالک کائنات ایک طبقہ کو بے قیمت کردے جس طرح انھوں نے حق کو بے قیمت کیا اور دوسرے طبقہ کی قدر دانی کرے جس طرح انھوں نے حق کی قدر دانی کی۔
فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ
📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ کوئی انسان با اصول زندگی گزارتا ہے۔ اورکوئی بے اصول۔ کوئی اَن دیکھی صداقت کے ليے اپنے آپ کو قربان کردیتاہے اور کوئی صرف دکھائی دینے والی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ کوئی حق کی دعوت کو اس کی ساری اجنبیت کے باوجود قبول کرتا ہے۔ اور کوئی اس کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو ظلم سے روکتا ہے، صرف اس ليے کہ خدا نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ کوئی موقع پاتے ہی دوسروں کے ليے ظالم بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کا نفس اس سے ایسا ہی کرنے کے ليے کہہ رہا ہے۔
اگر اس دنیا کا کوئی انجام نہ ہو، اگر وہ اسی طرح چلتی رہے اور اسی طرح بالآخر اس کا خاتمہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بے مقصد ہنگامہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ مگر کائنات کی معنویت اس قسم کے بے معنیٰ نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ کائنات کا اعلیٰ نظام اس سے انکار کرتا ہے کہ اس کا خالق ایک غیر سنجیدہ ہستی ہو۔
کائنات اپنے وسیع نظام کے ساتھ جس خالق کا تعارف کرارہی ہے وہ ایک ایسا خالق ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ ایسے خالق کے بارے میں ناقابلِ قیاس ہے کہ وہ دو مختلف قسم کے انسانوں کا یکساں انجام ہوتے ہوئے دیکھے اور اس کو گوارا کرلے۔ یہ سراسر ناممکن ہے۔ یقیناً ایسا ہونے والا ہے کہ مالک کائنات ایک طبقہ کو بے قیمت کردے جس طرح انھوں نے حق کو بے قیمت کیا اور دوسرے طبقہ کی قدر دانی کرے جس طرح انھوں نے حق کی قدر دانی کی۔
وَمَنْ يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ فَإِنَّمَا حِسَابُهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ
📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ کوئی انسان با اصول زندگی گزارتا ہے۔ اورکوئی بے اصول۔ کوئی اَن دیکھی صداقت کے ليے اپنے آپ کو قربان کردیتاہے اور کوئی صرف دکھائی دینے والی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ کوئی حق کی دعوت کو اس کی ساری اجنبیت کے باوجود قبول کرتا ہے۔ اور کوئی اس کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو ظلم سے روکتا ہے، صرف اس ليے کہ خدا نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ کوئی موقع پاتے ہی دوسروں کے ليے ظالم بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کا نفس اس سے ایسا ہی کرنے کے ليے کہہ رہا ہے۔
اگر اس دنیا کا کوئی انجام نہ ہو، اگر وہ اسی طرح چلتی رہے اور اسی طرح بالآخر اس کا خاتمہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بے مقصد ہنگامہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ مگر کائنات کی معنویت اس قسم کے بے معنیٰ نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ کائنات کا اعلیٰ نظام اس سے انکار کرتا ہے کہ اس کا خالق ایک غیر سنجیدہ ہستی ہو۔
کائنات اپنے وسیع نظام کے ساتھ جس خالق کا تعارف کرارہی ہے وہ ایک ایسا خالق ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ ایسے خالق کے بارے میں ناقابلِ قیاس ہے کہ وہ دو مختلف قسم کے انسانوں کا یکساں انجام ہوتے ہوئے دیکھے اور اس کو گوارا کرلے۔ یہ سراسر ناممکن ہے۔ یقیناً ایسا ہونے والا ہے کہ مالک کائنات ایک طبقہ کو بے قیمت کردے جس طرح انھوں نے حق کو بے قیمت کیا اور دوسرے طبقہ کی قدر دانی کرے جس طرح انھوں نے حق کی قدر دانی کی۔
وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
📘 انسانوں میں دو قسم کے انسان ہیں۔ کوئی انسان با اصول زندگی گزارتا ہے۔ اورکوئی بے اصول۔ کوئی اَن دیکھی صداقت کے ليے اپنے آپ کو قربان کردیتاہے اور کوئی صرف دکھائی دینے والی چیزوں میں مشغول رہتا ہے۔ کوئی حق کی دعوت کو اس کی ساری اجنبیت کے باوجود قبول کرتا ہے۔ اور کوئی اس کو نظر انداز کردیتا ہے اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو ظلم سے روکتا ہے، صرف اس ليے کہ خدا نے اس کو ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔ کوئی موقع پاتے ہی دوسروں کے ليے ظالم بن جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کا نفس اس سے ایسا ہی کرنے کے ليے کہہ رہا ہے۔
اگر اس دنیا کا کوئی انجام نہ ہو، اگر وہ اسی طرح چلتی رہے اور اسی طرح بالآخر اس کا خاتمہ ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بے مقصد ہنگامہ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ مگر کائنات کی معنویت اس قسم کے بے معنیٰ نظریہ کی تردید کرتی ہے۔ کائنات کا اعلیٰ نظام اس سے انکار کرتا ہے کہ اس کا خالق ایک غیر سنجیدہ ہستی ہو۔
کائنات اپنے وسیع نظام کے ساتھ جس خالق کا تعارف کرارہی ہے وہ ایک ایسا خالق ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ ایسے خالق کے بارے میں ناقابلِ قیاس ہے کہ وہ دو مختلف قسم کے انسانوں کا یکساں انجام ہوتے ہوئے دیکھے اور اس کو گوارا کرلے۔ یہ سراسر ناممکن ہے۔ یقیناً ایسا ہونے والا ہے کہ مالک کائنات ایک طبقہ کو بے قیمت کردے جس طرح انھوں نے حق کو بے قیمت کیا اور دوسرے طبقہ کی قدر دانی کرے جس طرح انھوں نے حق کی قدر دانی کی۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَكِينٍ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنْشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا كُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِينَ
📘 انسان ایک حقیر وجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں کائنات دہشت ناک حد تک عظیم ہے۔ مگر کائنات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے ليے انتہائی طورپر موافق ہے۔
یہاں وسیع خلا میں اَن گنت ستارے اور سیارے تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہے ہیں مگر بے شمار ناموافق امکانات کے باوجود وہ انسان کے ليے کوئی ناموافق صورت حال پیدا نہیں کرتے۔ بارش اگر بہت زیادہ برسنے لگے تو انسانی آبادیا ں تباہ ہوجائیں مگر اس کی بھی ایک حد ہے، وہ اس حد سے باہر نہیں جاتی۔ زمین پر پانی کے جو ذخیرے ہیں وہ سب کے سب زمین میں جذب ہوسکتے ہیں یا بھاپ بن کر فضا میں اڑ سکتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ زمین کی صورت میں ایک استثنائی کرہ موجود ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طورپر انسان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہاں انسان کی غذائی ضروریات سے لے کر اس کی صنعتی ضروریات تک تمام چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔زمین کے جانور بظاہر وحشی مخلوق ہیں مگر ان کو خدانے طرح طرح سے انسان کے ليے کار آمد بنادیا ہے۔ ان جانوروں کا پیٹ ایک حیرت انگیز کارخانہ هے جو گھاس اور چارہ لیتا ہے اور اس کو د ودھ اور گوشت جیسی قیمتی چیزوں میں تبدیل کرتا ہے۔ جانوروں میں سے بہت سے جانور ہیں جو جانور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح انسان کے قبضہ میں دے دیتے ہیں کہ وہ ان پر سواری کرے اور ان سے دوسرے مختلف فائدے حاصل کرے۔یہ واقعات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے مہربان خدا کو پہچانے اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔
وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَأَسْكَنَّاهُ فِي الْأَرْضِ ۖ وَإِنَّا عَلَىٰ ذَهَابٍ بِهِ لَقَادِرُونَ
📘 انسان ایک حقیر وجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں کائنات دہشت ناک حد تک عظیم ہے۔ مگر کائنات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے ليے انتہائی طورپر موافق ہے۔
یہاں وسیع خلا میں اَن گنت ستارے اور سیارے تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہے ہیں مگر بے شمار ناموافق امکانات کے باوجود وہ انسان کے ليے کوئی ناموافق صورت حال پیدا نہیں کرتے۔ بارش اگر بہت زیادہ برسنے لگے تو انسانی آبادیا ں تباہ ہوجائیں مگر اس کی بھی ایک حد ہے، وہ اس حد سے باہر نہیں جاتی۔ زمین پر پانی کے جو ذخیرے ہیں وہ سب کے سب زمین میں جذب ہوسکتے ہیں یا بھاپ بن کر فضا میں اڑ سکتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ زمین کی صورت میں ایک استثنائی کرہ موجود ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طورپر انسان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہاں انسان کی غذائی ضروریات سے لے کر اس کی صنعتی ضروریات تک تمام چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔زمین کے جانور بظاہر وحشی مخلوق ہیں مگر ان کو خدانے طرح طرح سے انسان کے ليے کار آمد بنادیا ہے۔ ان جانوروں کا پیٹ ایک حیرت انگیز کارخانہ هے جو گھاس اور چارہ لیتا ہے اور اس کو د ودھ اور گوشت جیسی قیمتی چیزوں میں تبدیل کرتا ہے۔ جانوروں میں سے بہت سے جانور ہیں جو جانور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح انسان کے قبضہ میں دے دیتے ہیں کہ وہ ان پر سواری کرے اور ان سے دوسرے مختلف فائدے حاصل کرے۔یہ واقعات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے مہربان خدا کو پہچانے اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔
فَأَنْشَأْنَا لَكُمْ بِهِ جَنَّاتٍ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ لَكُمْ فِيهَا فَوَاكِهُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
📘 انسان ایک حقیر وجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں کائنات دہشت ناک حد تک عظیم ہے۔ مگر کائنات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے ليے انتہائی طورپر موافق ہے۔
یہاں وسیع خلا میں اَن گنت ستارے اور سیارے تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہے ہیں مگر بے شمار ناموافق امکانات کے باوجود وہ انسان کے ليے کوئی ناموافق صورت حال پیدا نہیں کرتے۔ بارش اگر بہت زیادہ برسنے لگے تو انسانی آبادیا ں تباہ ہوجائیں مگر اس کی بھی ایک حد ہے، وہ اس حد سے باہر نہیں جاتی۔ زمین پر پانی کے جو ذخیرے ہیں وہ سب کے سب زمین میں جذب ہوسکتے ہیں یا بھاپ بن کر فضا میں اڑ سکتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ زمین کی صورت میں ایک استثنائی کرہ موجود ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طورپر انسان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہاں انسان کی غذائی ضروریات سے لے کر اس کی صنعتی ضروریات تک تمام چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔زمین کے جانور بظاہر وحشی مخلوق ہیں مگر ان کو خدانے طرح طرح سے انسان کے ليے کار آمد بنادیا ہے۔ ان جانوروں کا پیٹ ایک حیرت انگیز کارخانہ هے جو گھاس اور چارہ لیتا ہے اور اس کو د ودھ اور گوشت جیسی قیمتی چیزوں میں تبدیل کرتا ہے۔ جانوروں میں سے بہت سے جانور ہیں جو جانور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح انسان کے قبضہ میں دے دیتے ہیں کہ وہ ان پر سواری کرے اور ان سے دوسرے مختلف فائدے حاصل کرے۔یہ واقعات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے مہربان خدا کو پہچانے اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
وَشَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُورِ سَيْنَاءَ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِلْآكِلِينَ
📘 انسان ایک حقیر وجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں کائنات دہشت ناک حد تک عظیم ہے۔ مگر کائنات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے ليے انتہائی طورپر موافق ہے۔
یہاں وسیع خلا میں اَن گنت ستارے اور سیارے تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہے ہیں مگر بے شمار ناموافق امکانات کے باوجود وہ انسان کے ليے کوئی ناموافق صورت حال پیدا نہیں کرتے۔ بارش اگر بہت زیادہ برسنے لگے تو انسانی آبادیا ں تباہ ہوجائیں مگر اس کی بھی ایک حد ہے، وہ اس حد سے باہر نہیں جاتی۔ زمین پر پانی کے جو ذخیرے ہیں وہ سب کے سب زمین میں جذب ہوسکتے ہیں یا بھاپ بن کر فضا میں اڑ سکتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ زمین کی صورت میں ایک استثنائی کرہ موجود ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طورپر انسان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہاں انسان کی غذائی ضروریات سے لے کر اس کی صنعتی ضروریات تک تمام چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔زمین کے جانور بظاہر وحشی مخلوق ہیں مگر ان کو خدانے طرح طرح سے انسان کے ليے کار آمد بنادیا ہے۔ ان جانوروں کا پیٹ ایک حیرت انگیز کارخانہ هے جو گھاس اور چارہ لیتا ہے اور اس کو د ودھ اور گوشت جیسی قیمتی چیزوں میں تبدیل کرتا ہے۔ جانوروں میں سے بہت سے جانور ہیں جو جانور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح انسان کے قبضہ میں دے دیتے ہیں کہ وہ ان پر سواری کرے اور ان سے دوسرے مختلف فائدے حاصل کرے۔یہ واقعات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے مہربان خدا کو پہچانے اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
📘 انسان ایک حقیر وجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں کائنات دہشت ناک حد تک عظیم ہے۔ مگر کائنات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے ليے انتہائی طورپر موافق ہے۔
یہاں وسیع خلا میں اَن گنت ستارے اور سیارے تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہے ہیں مگر بے شمار ناموافق امکانات کے باوجود وہ انسان کے ليے کوئی ناموافق صورت حال پیدا نہیں کرتے۔ بارش اگر بہت زیادہ برسنے لگے تو انسانی آبادیا ں تباہ ہوجائیں مگر اس کی بھی ایک حد ہے، وہ اس حد سے باہر نہیں جاتی۔ زمین پر پانی کے جو ذخیرے ہیں وہ سب کے سب زمین میں جذب ہوسکتے ہیں یا بھاپ بن کر فضا میں اڑ سکتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ زمین کی صورت میں ایک استثنائی کرہ موجود ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طورپر انسان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہاں انسان کی غذائی ضروریات سے لے کر اس کی صنعتی ضروریات تک تمام چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔زمین کے جانور بظاہر وحشی مخلوق ہیں مگر ان کو خدانے طرح طرح سے انسان کے ليے کار آمد بنادیا ہے۔ ان جانوروں کا پیٹ ایک حیرت انگیز کارخانہ هے جو گھاس اور چارہ لیتا ہے اور اس کو د ودھ اور گوشت جیسی قیمتی چیزوں میں تبدیل کرتا ہے۔ جانوروں میں سے بہت سے جانور ہیں جو جانور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح انسان کے قبضہ میں دے دیتے ہیں کہ وہ ان پر سواری کرے اور ان سے دوسرے مختلف فائدے حاصل کرے۔یہ واقعات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے مہربان خدا کو پہچانے اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔
وَعَلَيْهَا وَعَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ
📘 انسان ایک حقیر وجود ہے۔ اس کے مقابلہ میں کائنات دہشت ناک حد تک عظیم ہے۔ مگر کائنات کا سب سے زیادہ حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کے ليے انتہائی طورپر موافق ہے۔
یہاں وسیع خلا میں اَن گنت ستارے اور سیارے تیز رفتاری کے ساتھ گھوم رہے ہیں مگر بے شمار ناموافق امکانات کے باوجود وہ انسان کے ليے کوئی ناموافق صورت حال پیدا نہیں کرتے۔ بارش اگر بہت زیادہ برسنے لگے تو انسانی آبادیا ں تباہ ہوجائیں مگر اس کی بھی ایک حد ہے، وہ اس حد سے باہر نہیں جاتی۔ زمین پر پانی کے جو ذخیرے ہیں وہ سب کے سب زمین میں جذب ہوسکتے ہیں یا بھاپ بن کر فضا میں اڑ سکتے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ زمین کی صورت میں ایک استثنائی کرہ موجود ہے جو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خاص طورپر انسان کی ضروریات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہاں انسان کی غذائی ضروریات سے لے کر اس کی صنعتی ضروریات تک تمام چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔زمین کے جانور بظاہر وحشی مخلوق ہیں مگر ان کو خدانے طرح طرح سے انسان کے ليے کار آمد بنادیا ہے۔ ان جانوروں کا پیٹ ایک حیرت انگیز کارخانہ هے جو گھاس اور چارہ لیتا ہے اور اس کو د ودھ اور گوشت جیسی قیمتی چیزوں میں تبدیل کرتا ہے۔ جانوروں میں سے بہت سے جانور ہیں جو جانور ہونے کے باوجود اپنے آپ کو پوری طرح انسان کے قبضہ میں دے دیتے ہیں کہ وہ ان پر سواری کرے اور ان سے دوسرے مختلف فائدے حاصل کرے۔یہ واقعات اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ انسان اپنے مہربان خدا کو پہچانے اور اس کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
📘 حضرت نوح جس قوم میں آئے وہ معروف معنوں میں کوئی ’’کافر‘‘ قوم نہ تھی۔ بلکہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی امت تھی۔ وہ خدا پر اور رسالت پر عقیدہ رکھتی تھی۔ اس کے باوجود کیوں اس نے حضرت نوح کو خدا کا پیغمبر ماننے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی— نوح اس کو اپنے جیسے ایک آدمی معلوم ہوئے۔
پیغمبر ایک انسان ہوتا ہے وہ ماں باپ کے ذریعے پیدا ہوتاہے۔ اس ليے اپنے زمانہ کے لوگوں کو وہ ہمیشہ اپنے ہی جیسا ایک آدمی دکھائی دیتاہے۔ یہ صرف بعد کی تاریخ میں ہوتاہے کہ پیغمبر کا نام لوگوں کو ایک پُرعظمت نام محسوس ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کے ہم عصر پیغمبر کو پهچان نہیں پاتے۔ ان کو پیغمبر ایک ایسا آدمی معلوم ہوتاہے جو بڑا بننے کے ليے فرضی طورپر پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگے۔ وہ پیغمبر کو ایک مجنون سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ہر امت کا یہ حال ہوا کہ بعد کے زمانہ میں وہ خدا کی تعلیمات کے بجائے اپنے اسلاف کی روایت پر قائم ہوگئی۔ پیغمبر نے آکر جب اصل دینی تعلیمات کو دوبارہ پیش کیا تو پیغمبر کا دین اس کو اسلاف کی روایات سے ہٹا ہوا معلوم ہوا۔ اس کے اپنے ذہنی سانچہ میں اس کو اسلاف بر تر نظر آئے اور وقت کا پیغمبر ان کے مقابلہ میں اس کو کمتر دکھائی دیا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر ہر دور میں ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی دعوت ان کے ہم عصروں کے ليے اجنبی بنی رہي۔
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً مَا سَمِعْنَا بِهَٰذَا فِي آبَائِنَا الْأَوَّلِينَ
📘 حضرت نوح جس قوم میں آئے وہ معروف معنوں میں کوئی ’’کافر‘‘ قوم نہ تھی۔ بلکہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی امت تھی۔ وہ خدا پر اور رسالت پر عقیدہ رکھتی تھی۔ اس کے باوجود کیوں اس نے حضرت نوح کو خدا کا پیغمبر ماننے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی— نوح اس کو اپنے جیسے ایک آدمی معلوم ہوئے۔
پیغمبر ایک انسان ہوتا ہے وہ ماں باپ کے ذریعے پیدا ہوتاہے۔ اس ليے اپنے زمانہ کے لوگوں کو وہ ہمیشہ اپنے ہی جیسا ایک آدمی دکھائی دیتاہے۔ یہ صرف بعد کی تاریخ میں ہوتاہے کہ پیغمبر کا نام لوگوں کو ایک پُرعظمت نام محسوس ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کے ہم عصر پیغمبر کو پهچان نہیں پاتے۔ ان کو پیغمبر ایک ایسا آدمی معلوم ہوتاہے جو بڑا بننے کے ليے فرضی طورپر پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگے۔ وہ پیغمبر کو ایک مجنون سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ہر امت کا یہ حال ہوا کہ بعد کے زمانہ میں وہ خدا کی تعلیمات کے بجائے اپنے اسلاف کی روایت پر قائم ہوگئی۔ پیغمبر نے آکر جب اصل دینی تعلیمات کو دوبارہ پیش کیا تو پیغمبر کا دین اس کو اسلاف کی روایات سے ہٹا ہوا معلوم ہوا۔ اس کے اپنے ذہنی سانچہ میں اس کو اسلاف بر تر نظر آئے اور وقت کا پیغمبر ان کے مقابلہ میں اس کو کمتر دکھائی دیا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر ہر دور میں ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی دعوت ان کے ہم عصروں کے ليے اجنبی بنی رہي۔
إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ بِهِ جِنَّةٌ فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّىٰ حِينٍ
📘 حضرت نوح جس قوم میں آئے وہ معروف معنوں میں کوئی ’’کافر‘‘ قوم نہ تھی۔ بلکہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی امت تھی۔ وہ خدا پر اور رسالت پر عقیدہ رکھتی تھی۔ اس کے باوجود کیوں اس نے حضرت نوح کو خدا کا پیغمبر ماننے سے انکار کردیا۔ اس کی وجہ صرف ایک تھی— نوح اس کو اپنے جیسے ایک آدمی معلوم ہوئے۔
پیغمبر ایک انسان ہوتا ہے وہ ماں باپ کے ذریعے پیدا ہوتاہے۔ اس ليے اپنے زمانہ کے لوگوں کو وہ ہمیشہ اپنے ہی جیسا ایک آدمی دکھائی دیتاہے۔ یہ صرف بعد کی تاریخ میں ہوتاہے کہ پیغمبر کا نام لوگوں کو ایک پُرعظمت نام محسوس ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کے ہم عصر پیغمبر کو پهچان نہیں پاتے۔ ان کو پیغمبر ایک ایسا آدمی معلوم ہوتاہے جو بڑا بننے کے ليے فرضی طورپر پیغمبری کا دعویٰ کرنے لگے۔ وہ پیغمبر کو ایک مجنون سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ہر امت کا یہ حال ہوا کہ بعد کے زمانہ میں وہ خدا کی تعلیمات کے بجائے اپنے اسلاف کی روایت پر قائم ہوگئی۔ پیغمبر نے آکر جب اصل دینی تعلیمات کو دوبارہ پیش کیا تو پیغمبر کا دین اس کو اسلاف کی روایات سے ہٹا ہوا معلوم ہوا۔ اس کے اپنے ذہنی سانچہ میں اس کو اسلاف بر تر نظر آئے اور وقت کا پیغمبر ان کے مقابلہ میں اس کو کمتر دکھائی دیا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر ہر دور میں ایسا ہوا کہ پیغمبروں کی دعوت ان کے ہم عصروں کے ليے اجنبی بنی رہي۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ
📘 حضرت نوح لمبی مدت تک اپنی قوم کو تلقین کرتے رہے۔ مگر ان کی قوم ان کی بات ماننے کے ليے تیار نہ ہوئی۔ آخر کار حضرت نوح نے دعا کی کہ خدایا، میری دعوت وتبلیغ ان سے امرحق کو منوا نہ سکی۔ اب توہی ان پر امر حق کو ظاہر کردے۔مگر جب انسانی عمل کی حد ختم ہو کر خدائی عمل کی حد شروع ہو تو یہ مواخذہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ وعظ و تلقین کا۔ چنانچہ خدا کا حکم ناقابل تسخیر طوفان کی صورت میں ظاہر ہواا ور چند مومنین نوح کو چھوڑ کر بقیہ ساری قوم غرق ہو کر رہ گئی۔
امر حق کا اعتراف نہ کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جو لوگ اس ظلم کا ارتکاب کریں وہ ہمیشہ خدا کی پکڑ میں آجاتے ہیں۔ کوئی دوسری چیز انھیں اس پکڑ سے بچانے والی ثابت نہیں ہوتی۔
فَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ أَنِ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا فَإِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ۙ فَاسْلُكْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ ۖ وَلَا تُخَاطِبْنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا ۖ إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ
📘 حضرت نوح لمبی مدت تک اپنی قوم کو تلقین کرتے رہے۔ مگر ان کی قوم ان کی بات ماننے کے ليے تیار نہ ہوئی۔ آخر کار حضرت نوح نے دعا کی کہ خدایا، میری دعوت وتبلیغ ان سے امرحق کو منوا نہ سکی۔ اب توہی ان پر امر حق کو ظاہر کردے۔مگر جب انسانی عمل کی حد ختم ہو کر خدائی عمل کی حد شروع ہو تو یہ مواخذہ کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ وعظ و تلقین کا۔ چنانچہ خدا کا حکم ناقابل تسخیر طوفان کی صورت میں ظاہر ہواا ور چند مومنین نوح کو چھوڑ کر بقیہ ساری قوم غرق ہو کر رہ گئی۔
امر حق کا اعتراف نہ کرنا سب سے بڑا ظلم ہے۔ جو لوگ اس ظلم کا ارتکاب کریں وہ ہمیشہ خدا کی پکڑ میں آجاتے ہیں۔ کوئی دوسری چیز انھیں اس پکڑ سے بچانے والی ثابت نہیں ہوتی۔
فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنْتَ وَمَنْ مَعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
📘 شرک سے بھرے ہوئے ماحول میں جو چند افراد حضرت نوح پر ایمان لائے وہ اسی دن معنوی اعتبار سے خدا کی کشتی میں داخل ہوچکے تھے۔ اس کے بعد جب طوفان کے وقت وہ لکڑی کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھے تو یہ گویا ان کے ابتدائی فیصلے کی تکمیل تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو فکری طورپر بدی کے طوفان سے بچایا تھا۔ خدا نے ان کو عملی طورپر بدی کے سخت انجام سے بچا لیا۔
مومن ہر کامیابی کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے۔ اس ليے وہ ہر کامیابی پر خدا کا شکر ادا کرتاہے۔ اور طوفان نوح سے نجات تو کھلا ہوا خدائی نصرت کا واقعہ تھا۔ ایسے موقع پر مومن کی زبان سے جو کلمات نکلتے ہیں وہ وہي ہیں جن کی ایک تصویر مذکورہ آیت میں نظر آتی ہے۔ وہ حال کے ليے خدا کی قدرت کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل کے ليے مزید عنایت کی التجا کرنے لگتا ہے، کیوں کہ اس کو یقین ہوتاہے کہ حال بھی خدا کے قبضہ میں ہے اور مستقبل بھی خداکے قبضہ میں۔
وَقُلْ رَبِّ أَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُبَارَكًا وَأَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ
📘 شرک سے بھرے ہوئے ماحول میں جو چند افراد حضرت نوح پر ایمان لائے وہ اسی دن معنوی اعتبار سے خدا کی کشتی میں داخل ہوچکے تھے۔ اس کے بعد جب طوفان کے وقت وہ لکڑی کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھے تو یہ گویا ان کے ابتدائی فیصلے کی تکمیل تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو فکری طورپر بدی کے طوفان سے بچایا تھا۔ خدا نے ان کو عملی طورپر بدی کے سخت انجام سے بچا لیا۔
مومن ہر کامیابی کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے۔ اس ليے وہ ہر کامیابی پر خدا کا شکر ادا کرتاہے۔ اور طوفان نوح سے نجات تو کھلا ہوا خدائی نصرت کا واقعہ تھا۔ ایسے موقع پر مومن کی زبان سے جو کلمات نکلتے ہیں وہ وہي ہیں جن کی ایک تصویر مذکورہ آیت میں نظر آتی ہے۔ وہ حال کے ليے خدا کی قدرت کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل کے ليے مزید عنایت کی التجا کرنے لگتا ہے، کیوں کہ اس کو یقین ہوتاہے کہ حال بھی خدا کے قبضہ میں ہے اور مستقبل بھی خداکے قبضہ میں۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ وَإِنْ كُنَّا لَمُبْتَلِينَ
📘 شرک سے بھرے ہوئے ماحول میں جو چند افراد حضرت نوح پر ایمان لائے وہ اسی دن معنوی اعتبار سے خدا کی کشتی میں داخل ہوچکے تھے۔ اس کے بعد جب طوفان کے وقت وہ لکڑی کی بنائی ہوئی کشتی میں بیٹھے تو یہ گویا ان کے ابتدائی فیصلے کی تکمیل تھی۔ انھوں نے اپنے آپ کو فکری طورپر بدی کے طوفان سے بچایا تھا۔ خدا نے ان کو عملی طورپر بدی کے سخت انجام سے بچا لیا۔
مومن ہر کامیابی کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے۔ اس ليے وہ ہر کامیابی پر خدا کا شکر ادا کرتاہے۔ اور طوفان نوح سے نجات تو کھلا ہوا خدائی نصرت کا واقعہ تھا۔ ایسے موقع پر مومن کی زبان سے جو کلمات نکلتے ہیں وہ وہي ہیں جن کی ایک تصویر مذکورہ آیت میں نظر آتی ہے۔ وہ حال کے ليے خدا کی قدرت کا اعتراف کرتے ہوئے مستقبل کے ليے مزید عنایت کی التجا کرنے لگتا ہے، کیوں کہ اس کو یقین ہوتاہے کہ حال بھی خدا کے قبضہ میں ہے اور مستقبل بھی خداکے قبضہ میں۔
ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ
📘 حضرت نوح کے مومنین کی نسل بڑھی اور اس پر صدیاں گزر گئیں تو دوبارہ وہ اسی گمراہی میں مبتلا ہوگئے،جس میں ان کے پچھلے لوگ مبتلا ہوئے تھے۔ اس سے مراد غالباً وہی قوم ہے جس کو قوم عاد کہاجاتاہے۔ یہ لوگ خدا سے غافل ہو کر غیر خداؤں میں مشغول ہوگئے۔ اب دوبارہ ان کے درمیان خدا کا رسول آیا۔ اور اس نے ان کو حق سے آگاہ کیا۔
مگر دو بارہ یہی ہوا کہ قوم کے سردار پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔ یہ سردار وہ لوگ تھے جو وقت کے خیالات سے موافقت کرکے لوگوں کے قائد بنے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ خوش حالی بھی ان کے گرد جمع ہوگئی تھی۔ یہ ایک عام کمزوری ہے کہ جن لوگوں کو دولت اور اقتدار حاصل ہوجائے وہ اس کو اپنے برسر حق ہونے کی دلیل سمجھ لیتے ہیں۔ یہی ان سرداروں کے ساتھ ہوا۔ ان کی خوش حالی اور اقتدار ان کے ليے یہ سمجھنے میں مانع ہوگئے کہ وہ غلطی پر بھی ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر کے گرد نہ دولت کا ڈھیر جمع ہے اور نہ اس کو اقتدار کی گدی حاصل ہے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبر کو حقیر سمجھ لیا۔ وہ اپنی ظاہر پرستی کی بنا پر پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھنے میں ناکام رہے۔
فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ أَفَلَا تَتَّقُونَ
📘 حضرت نوح کے مومنین کی نسل بڑھی اور اس پر صدیاں گزر گئیں تو دوبارہ وہ اسی گمراہی میں مبتلا ہوگئے،جس میں ان کے پچھلے لوگ مبتلا ہوئے تھے۔ اس سے مراد غالباً وہی قوم ہے جس کو قوم عاد کہاجاتاہے۔ یہ لوگ خدا سے غافل ہو کر غیر خداؤں میں مشغول ہوگئے۔ اب دوبارہ ان کے درمیان خدا کا رسول آیا۔ اور اس نے ان کو حق سے آگاہ کیا۔
مگر دو بارہ یہی ہوا کہ قوم کے سردار پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔ یہ سردار وہ لوگ تھے جو وقت کے خیالات سے موافقت کرکے لوگوں کے قائد بنے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ خوش حالی بھی ان کے گرد جمع ہوگئی تھی۔ یہ ایک عام کمزوری ہے کہ جن لوگوں کو دولت اور اقتدار حاصل ہوجائے وہ اس کو اپنے برسر حق ہونے کی دلیل سمجھ لیتے ہیں۔ یہی ان سرداروں کے ساتھ ہوا۔ ان کی خوش حالی اور اقتدار ان کے ليے یہ سمجھنے میں مانع ہوگئے کہ وہ غلطی پر بھی ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر کے گرد نہ دولت کا ڈھیر جمع ہے اور نہ اس کو اقتدار کی گدی حاصل ہے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبر کو حقیر سمجھ لیا۔ وہ اپنی ظاہر پرستی کی بنا پر پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھنے میں ناکام رہے۔
وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ
📘 حضرت نوح کے مومنین کی نسل بڑھی اور اس پر صدیاں گزر گئیں تو دوبارہ وہ اسی گمراہی میں مبتلا ہوگئے،جس میں ان کے پچھلے لوگ مبتلا ہوئے تھے۔ اس سے مراد غالباً وہی قوم ہے جس کو قوم عاد کہاجاتاہے۔ یہ لوگ خدا سے غافل ہو کر غیر خداؤں میں مشغول ہوگئے۔ اب دوبارہ ان کے درمیان خدا کا رسول آیا۔ اور اس نے ان کو حق سے آگاہ کیا۔
مگر دو بارہ یہی ہوا کہ قوم کے سردار پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔ یہ سردار وہ لوگ تھے جو وقت کے خیالات سے موافقت کرکے لوگوں کے قائد بنے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ خوش حالی بھی ان کے گرد جمع ہوگئی تھی۔ یہ ایک عام کمزوری ہے کہ جن لوگوں کو دولت اور اقتدار حاصل ہوجائے وہ اس کو اپنے برسر حق ہونے کی دلیل سمجھ لیتے ہیں۔ یہی ان سرداروں کے ساتھ ہوا۔ ان کی خوش حالی اور اقتدار ان کے ليے یہ سمجھنے میں مانع ہوگئے کہ وہ غلطی پر بھی ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر کے گرد نہ دولت کا ڈھیر جمع ہے اور نہ اس کو اقتدار کی گدی حاصل ہے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبر کو حقیر سمجھ لیا۔ وہ اپنی ظاہر پرستی کی بنا پر پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھنے میں ناکام رہے۔
وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ
📘 حضرت نوح کے مومنین کی نسل بڑھی اور اس پر صدیاں گزر گئیں تو دوبارہ وہ اسی گمراہی میں مبتلا ہوگئے،جس میں ان کے پچھلے لوگ مبتلا ہوئے تھے۔ اس سے مراد غالباً وہی قوم ہے جس کو قوم عاد کہاجاتاہے۔ یہ لوگ خدا سے غافل ہو کر غیر خداؤں میں مشغول ہوگئے۔ اب دوبارہ ان کے درمیان خدا کا رسول آیا۔ اور اس نے ان کو حق سے آگاہ کیا۔
مگر دو بارہ یہی ہوا کہ قوم کے سردار پیغمبر کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔ یہ سردار وہ لوگ تھے جو وقت کے خیالات سے موافقت کرکے لوگوں کے قائد بنے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ خوش حالی بھی ان کے گرد جمع ہوگئی تھی۔ یہ ایک عام کمزوری ہے کہ جن لوگوں کو دولت اور اقتدار حاصل ہوجائے وہ اس کو اپنے برسر حق ہونے کی دلیل سمجھ لیتے ہیں۔ یہی ان سرداروں کے ساتھ ہوا۔ ان کی خوش حالی اور اقتدار ان کے ليے یہ سمجھنے میں مانع ہوگئے کہ وہ غلطی پر بھی ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے دیکھا کہ پیغمبر کے گرد نہ دولت کا ڈھیر جمع ہے اور نہ اس کو اقتدار کی گدی حاصل ہے۔ اس ليے انھوں نے پیغمبر کو حقیر سمجھ لیا۔ وہ اپنی ظاہر پرستی کی بنا پر پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھنے میں ناکام رہے۔
أَيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُخْرَجُونَ
📘 اس آیت میں آخرت کے بارے میں جو کلمات نقل کيے گئے ہیں وہ کبھی زبان حال سے ادا ہوتے ہیں اور کبھی زبان قال سے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ہمہ تن بس دنیا کی چیزوں میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ آخرت سے اس طرح غافل نظر آتا ہے جیسے کے آخرت اس کے نزدیک بالکل بعید از قیاس بات ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی آخرت سے غفلت اس کو سرکشی کی اس حدتک پہنچا دیتی ہے کہ وہ اپنی زبان سے بھی کہہ دیتا ہے کہ آخرت تو بہت بعید از قیاس چیز ہے۔ اس ليے آج جو کچھ مل رہا ہے اس کو حاصل کرو، کل کے موہوم فائدہ کی خاطر آج کے یقینی فائدہ کو نہ کھوؤ۔
’’اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے‘‘— اس کلمہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عین اسی جملہ کو اپنی زبان سے ادا کرے۔ د وسرے یہ کہ وہ داعیٔ حق کو اس طرح نظر انداز کرے جیسے کہ اس کی بات محض ایک سرپھرے شخص کی بات ہے۔ اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔
۞ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ
📘 اس آیت میں آخرت کے بارے میں جو کلمات نقل کيے گئے ہیں وہ کبھی زبان حال سے ادا ہوتے ہیں اور کبھی زبان قال سے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ہمہ تن بس دنیا کی چیزوں میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ آخرت سے اس طرح غافل نظر آتا ہے جیسے کے آخرت اس کے نزدیک بالکل بعید از قیاس بات ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی آخرت سے غفلت اس کو سرکشی کی اس حدتک پہنچا دیتی ہے کہ وہ اپنی زبان سے بھی کہہ دیتا ہے کہ آخرت تو بہت بعید از قیاس چیز ہے۔ اس ليے آج جو کچھ مل رہا ہے اس کو حاصل کرو، کل کے موہوم فائدہ کی خاطر آج کے یقینی فائدہ کو نہ کھوؤ۔
’’اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے‘‘— اس کلمہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عین اسی جملہ کو اپنی زبان سے ادا کرے۔ د وسرے یہ کہ وہ داعیٔ حق کو اس طرح نظر انداز کرے جیسے کہ اس کی بات محض ایک سرپھرے شخص کی بات ہے۔ اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔
إِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ
📘 اس آیت میں آخرت کے بارے میں جو کلمات نقل کيے گئے ہیں وہ کبھی زبان حال سے ادا ہوتے ہیں اور کبھی زبان قال سے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ہمہ تن بس دنیا کی چیزوں میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ آخرت سے اس طرح غافل نظر آتا ہے جیسے کے آخرت اس کے نزدیک بالکل بعید از قیاس بات ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی آخرت سے غفلت اس کو سرکشی کی اس حدتک پہنچا دیتی ہے کہ وہ اپنی زبان سے بھی کہہ دیتا ہے کہ آخرت تو بہت بعید از قیاس چیز ہے۔ اس ليے آج جو کچھ مل رہا ہے اس کو حاصل کرو، کل کے موہوم فائدہ کی خاطر آج کے یقینی فائدہ کو نہ کھوؤ۔
’’اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے‘‘— اس کلمہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عین اسی جملہ کو اپنی زبان سے ادا کرے۔ د وسرے یہ کہ وہ داعیٔ حق کو اس طرح نظر انداز کرے جیسے کہ اس کی بات محض ایک سرپھرے شخص کی بات ہے۔ اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔
إِنْ هُوَ إِلَّا رَجُلٌ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا وَمَا نَحْنُ لَهُ بِمُؤْمِنِينَ
📘 اس آیت میں آخرت کے بارے میں جو کلمات نقل کيے گئے ہیں وہ کبھی زبان حال سے ادا ہوتے ہیں اور کبھی زبان قال سے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ہمہ تن بس دنیا کی چیزوں میں مشغول ہوتا ہے۔ وہ آخرت سے اس طرح غافل نظر آتا ہے جیسے کے آخرت اس کے نزدیک بالکل بعید از قیاس بات ہے۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی آخرت سے غفلت اس کو سرکشی کی اس حدتک پہنچا دیتی ہے کہ وہ اپنی زبان سے بھی کہہ دیتا ہے کہ آخرت تو بہت بعید از قیاس چیز ہے۔ اس ليے آج جو کچھ مل رہا ہے اس کو حاصل کرو، کل کے موہوم فائدہ کی خاطر آج کے یقینی فائدہ کو نہ کھوؤ۔
’’اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے‘‘— اس کلمہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی عین اسی جملہ کو اپنی زبان سے ادا کرے۔ د وسرے یہ کہ وہ داعیٔ حق کو اس طرح نظر انداز کرے جیسے کہ اس کی بات محض ایک سرپھرے شخص کی بات ہے۔ اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں۔
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي بِمَا كَذَّبُونِ
📘 خدا کا پیغمبر جس چیز کے اعلان کے ليے آتا ہے وہ اس کائنات کی سب سے سنگین حقیقت ہے۔ مگر پیغمبر اس حقیقت کو صرف دلیل کے روپ میں ظاہر کرتاہے۔ وہی لوگ دراصل مومن ہیں جو اس کو دلیل کے روپ میں پہچانیں اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیں۔
جب کوئی گروہ آخری طورپر یہ ثابت کردے کہ وہ حقیقت کو دلیل کے روپ میں پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو پھر خدا حقیقت کو ’’صَیْحَه‘‘ کے روپ میں ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت ایک ایسی چنگھاڑ بن جاتی ہے جس کا سامنا کرنے کی طاقت کسی کو نہ ہو۔ مگر جب حقیقت صَیْحَهکے روپ میں ظاہر ہو جائے تو یہ اس کو بھگتنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ اس کو ماننے کا۔ حقیقت جب صَیْحَهکے روپ میں ظاہر ہوتی ہے تو آدمی کے حصہ میں صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ ابد تک اپنی اس نادانی پر پچھتاتا رہے کہ اس نے حقیقت کو دیکھا مگر وہ اس کی طرف سے اندھا بنا رہا۔ حقیقت کی آواز اس کے کان سے ٹکرائی مگر اس نے اس کو سننے کے ليے اپنے کان بند کرلئے۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَيُصْبِحُنَّ نَادِمِينَ
📘 خدا کا پیغمبر جس چیز کے اعلان کے ليے آتا ہے وہ اس کائنات کی سب سے سنگین حقیقت ہے۔ مگر پیغمبر اس حقیقت کو صرف دلیل کے روپ میں ظاہر کرتاہے۔ وہی لوگ دراصل مومن ہیں جو اس کو دلیل کے روپ میں پہچانیں اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیں۔
جب کوئی گروہ آخری طورپر یہ ثابت کردے کہ وہ حقیقت کو دلیل کے روپ میں پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو پھر خدا حقیقت کو ’’صَیْحَه‘‘ کے روپ میں ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت ایک ایسی چنگھاڑ بن جاتی ہے جس کا سامنا کرنے کی طاقت کسی کو نہ ہو۔ مگر جب حقیقت صَیْحَهکے روپ میں ظاہر ہو جائے تو یہ اس کو بھگتنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ اس کو ماننے کا۔ حقیقت جب صَیْحَهکے روپ میں ظاہر ہوتی ہے تو آدمی کے حصہ میں صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ ابد تک اپنی اس نادانی پر پچھتاتا رہے کہ اس نے حقیقت کو دیکھا مگر وہ اس کی طرف سے اندھا بنا رہا۔ حقیقت کی آواز اس کے کان سے ٹکرائی مگر اس نے اس کو سننے کے ليے اپنے کان بند کرلئے۔
فَأَخَذَتْهُمُ الصَّيْحَةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاهُمْ غُثَاءً ۚ فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
📘 خدا کا پیغمبر جس چیز کے اعلان کے ليے آتا ہے وہ اس کائنات کی سب سے سنگین حقیقت ہے۔ مگر پیغمبر اس حقیقت کو صرف دلیل کے روپ میں ظاہر کرتاہے۔ وہی لوگ دراصل مومن ہیں جو اس کو دلیل کے روپ میں پہچانیں اور اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیں۔
جب کوئی گروہ آخری طورپر یہ ثابت کردے کہ وہ حقیقت کو دلیل کے روپ میں پہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو پھر خدا حقیقت کو ’’صَیْحَه‘‘ کے روپ میں ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت ایک ایسی چنگھاڑ بن جاتی ہے جس کا سامنا کرنے کی طاقت کسی کو نہ ہو۔ مگر جب حقیقت صَیْحَهکے روپ میں ظاہر ہو جائے تو یہ اس کو بھگتنے کا وقت ہوتا ہے، نہ کہ اس کو ماننے کا۔ حقیقت جب صَیْحَهکے روپ میں ظاہر ہوتی ہے تو آدمی کے حصہ میں صرف یہ رہ جاتا ہے کہ وہ ابد تک اپنی اس نادانی پر پچھتاتا رہے کہ اس نے حقیقت کو دیکھا مگر وہ اس کی طرف سے اندھا بنا رہا۔ حقیقت کی آواز اس کے کان سے ٹکرائی مگر اس نے اس کو سننے کے ليے اپنے کان بند کرلئے۔
ثُمَّ أَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قُرُونًا آخَرِينَ
📘 پیغمبروں کے بعد ہمیشہ ان کی امتوں میں بگاڑ آتا رہا۔ ان کی اصلاح کے ليے بار بار پیغمبر بھیجے گئے — امت آدم میں حضرت نوح آئے۔ اس کے بعد امت نوح (عاد) میں حضرت ہود آئے۔ پھر امت ہود (ثمود) حضرت صالح آئے، وغیرہ۔ مگر ہر بار یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ماضی کے پیغمبر کو بلا بحث مانے ہوئے تھے وہ حال کے پیغمبر کو کسی طرح ماننے پر تیار نہ ہوئے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کا پیغمبر طویل روایات کے نتیجے میں قومی فخر کا نشان بن جاتا ہے۔ وہ قوموں کے ليے ان کی قومی تشخص کی علامت ہوتا ہے۔ وہ ان کے ليے قومی ہیرو کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کو مان کر آدمی کے احساس برتری کو تسکین ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پیغمبر کو کون نہیں مانے گا۔
مگر حال کے پیغمبر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتاہے۔ حال کے پیغمبر کے ساتھ اس کی تاریخ وابستہ نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ عظمت اور تقدس کی روایت شامل نہیں ہوتی۔ اس کو ماننا صرف ایک معنوی حقیقت کے اعتراف کے ہم معنی ہوتا ہے، نہ کہ کسی ہمالیائی عظمت سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے پیغمبروں کو ماننے والے ہمیشہ حال کے پیغمبر کا انکار کرتے رہے۔
’’دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے‘‘— اس کو لفظ بدل کر کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دور ہوں وہ لوگ جو خدا کے سفیر کو خدا کے سفیر کی حیثیت سے نہیں پہچان پاتے۔ وہ خدا کے سفیر کو صرف اسی وقت پہچانتے ہیں جب کہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ان کا قومی ہیرو بن چکا ہو۔
مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمَّةٍ أَجَلَهَا وَمَا يَسْتَأْخِرُونَ
📘 پیغمبروں کے بعد ہمیشہ ان کی امتوں میں بگاڑ آتا رہا۔ ان کی اصلاح کے ليے بار بار پیغمبر بھیجے گئے — امت آدم میں حضرت نوح آئے۔ اس کے بعد امت نوح (عاد) میں حضرت ہود آئے۔ پھر امت ہود (ثمود) حضرت صالح آئے، وغیرہ۔ مگر ہر بار یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ماضی کے پیغمبر کو بلا بحث مانے ہوئے تھے وہ حال کے پیغمبر کو کسی طرح ماننے پر تیار نہ ہوئے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کا پیغمبر طویل روایات کے نتیجے میں قومی فخر کا نشان بن جاتا ہے۔ وہ قوموں کے ليے ان کی قومی تشخص کی علامت ہوتا ہے۔ وہ ان کے ليے قومی ہیرو کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کو مان کر آدمی کے احساس برتری کو تسکین ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پیغمبر کو کون نہیں مانے گا۔
مگر حال کے پیغمبر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتاہے۔ حال کے پیغمبر کے ساتھ اس کی تاریخ وابستہ نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ عظمت اور تقدس کی روایت شامل نہیں ہوتی۔ اس کو ماننا صرف ایک معنوی حقیقت کے اعتراف کے ہم معنی ہوتا ہے، نہ کہ کسی ہمالیائی عظمت سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے پیغمبروں کو ماننے والے ہمیشہ حال کے پیغمبر کا انکار کرتے رہے۔
’’دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے‘‘— اس کو لفظ بدل کر کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دور ہوں وہ لوگ جو خدا کے سفیر کو خدا کے سفیر کی حیثیت سے نہیں پہچان پاتے۔ وہ خدا کے سفیر کو صرف اسی وقت پہچانتے ہیں جب کہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ان کا قومی ہیرو بن چکا ہو۔
ثُمَّ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا تَتْرَىٰ ۖ كُلَّ مَا جَاءَ أُمَّةً رَسُولُهَا كَذَّبُوهُ ۚ فَأَتْبَعْنَا بَعْضَهُمْ بَعْضًا وَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ ۚ فَبُعْدًا لِقَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ
📘 پیغمبروں کے بعد ہمیشہ ان کی امتوں میں بگاڑ آتا رہا۔ ان کی اصلاح کے ليے بار بار پیغمبر بھیجے گئے — امت آدم میں حضرت نوح آئے۔ اس کے بعد امت نوح (عاد) میں حضرت ہود آئے۔ پھر امت ہود (ثمود) حضرت صالح آئے، وغیرہ۔ مگر ہر بار یہ ہوا کہ وہی لوگ جو ماضی کے پیغمبر کو بلا بحث مانے ہوئے تھے وہ حال کے پیغمبر کو کسی طرح ماننے پر تیار نہ ہوئے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی کا پیغمبر طویل روایات کے نتیجے میں قومی فخر کا نشان بن جاتا ہے۔ وہ قوموں کے ليے ان کی قومی تشخص کی علامت ہوتا ہے۔ وہ ان کے ليے قومی ہیرو کا درجہ اختیار کرلیتا ہے۔ اس کو مان کر آدمی کے احساس برتری کو تسکین ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے پیغمبر کو کون نہیں مانے گا۔
مگر حال کے پیغمبر کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتاہے۔ حال کے پیغمبر کے ساتھ اس کی تاریخ وابستہ نہیں ہوتی۔ اس کے ساتھ عظمت اور تقدس کی روایت شامل نہیں ہوتی۔ اس کو ماننا صرف ایک معنوی حقیقت کے اعتراف کے ہم معنی ہوتا ہے، نہ کہ کسی ہمالیائی عظمت سے اپنے آپ کو وابستہ کرنا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی کے پیغمبروں کو ماننے والے ہمیشہ حال کے پیغمبر کا انکار کرتے رہے۔
’’دور ہوں جو ایمان نہیں لاتے‘‘— اس کو لفظ بدل کر کہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دور ہوں وہ لوگ جو خدا کے سفیر کو خدا کے سفیر کی حیثیت سے نہیں پہچان پاتے۔ وہ خدا کے سفیر کو صرف اسی وقت پہچانتے ہیں جب کہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ان کا قومی ہیرو بن چکا ہو۔
ثُمَّ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ وَأَخَاهُ هَارُونَ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُبِينٍ
📘 حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون بنی اسرائیل کے فرد تھے۔ بنی اسرائیل اس وقت مصر میں تھے اور وہاں کی حکمراں قوم کے ليے مزدور کی حیثیت رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل کی کمتر حیثیت اور ان کے مقابلہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی برتر حیثیت ان کے ليے مانع بن گئی۔ وہ ایک اسرائیلی پیغمبر کو نمائندہ خدا ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ نے اگرچہ ان کے سامنے نہایت محکم دلائل پیش کئے۔ مگر دلائل کا وزن انھیں اس کے ليے مجبور نہ کرسکا کہ وہ اپنی بر تر نفسیات کو بدلیں اور ایک محکوم شخص کی زبان سے ظاہر ہونے والی صداقت کا اعتراف کریں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی مدد کی۔ فرعون اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ غرق کردیا گیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پیغمبر کا ساتھ دیا تھا۔ ان پر خدا نے یہ احسان فرمایا کہ ان کے پاس اپنا ہدایت نامہ بھیجا جس کو اختیار کرکے آدمی دنیا اور آخرت میں کامیابی کو اپنے ليے یقینی بنا سکتا ہے۔
إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ
📘 حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون بنی اسرائیل کے فرد تھے۔ بنی اسرائیل اس وقت مصر میں تھے اور وہاں کی حکمراں قوم کے ليے مزدور کی حیثیت رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل کی کمتر حیثیت اور ان کے مقابلہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی برتر حیثیت ان کے ليے مانع بن گئی۔ وہ ایک اسرائیلی پیغمبر کو نمائندہ خدا ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ نے اگرچہ ان کے سامنے نہایت محکم دلائل پیش کئے۔ مگر دلائل کا وزن انھیں اس کے ليے مجبور نہ کرسکا کہ وہ اپنی بر تر نفسیات کو بدلیں اور ایک محکوم شخص کی زبان سے ظاہر ہونے والی صداقت کا اعتراف کریں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی مدد کی۔ فرعون اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ غرق کردیا گیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پیغمبر کا ساتھ دیا تھا۔ ان پر خدا نے یہ احسان فرمایا کہ ان کے پاس اپنا ہدایت نامہ بھیجا جس کو اختیار کرکے آدمی دنیا اور آخرت میں کامیابی کو اپنے ليے یقینی بنا سکتا ہے۔
فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ
📘 حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون بنی اسرائیل کے فرد تھے۔ بنی اسرائیل اس وقت مصر میں تھے اور وہاں کی حکمراں قوم کے ليے مزدور کی حیثیت رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل کی کمتر حیثیت اور ان کے مقابلہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی برتر حیثیت ان کے ليے مانع بن گئی۔ وہ ایک اسرائیلی پیغمبر کو نمائندہ خدا ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ نے اگرچہ ان کے سامنے نہایت محکم دلائل پیش کئے۔ مگر دلائل کا وزن انھیں اس کے ليے مجبور نہ کرسکا کہ وہ اپنی بر تر نفسیات کو بدلیں اور ایک محکوم شخص کی زبان سے ظاہر ہونے والی صداقت کا اعتراف کریں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی مدد کی۔ فرعون اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ غرق کردیا گیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پیغمبر کا ساتھ دیا تھا۔ ان پر خدا نے یہ احسان فرمایا کہ ان کے پاس اپنا ہدایت نامہ بھیجا جس کو اختیار کرکے آدمی دنیا اور آخرت میں کامیابی کو اپنے ليے یقینی بنا سکتا ہے۔
فَكَذَّبُوهُمَا فَكَانُوا مِنَ الْمُهْلَكِينَ
📘 حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون بنی اسرائیل کے فرد تھے۔ بنی اسرائیل اس وقت مصر میں تھے اور وہاں کی حکمراں قوم کے ليے مزدور کی حیثیت رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل کی کمتر حیثیت اور ان کے مقابلہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی برتر حیثیت ان کے ليے مانع بن گئی۔ وہ ایک اسرائیلی پیغمبر کو نمائندہ خدا ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ نے اگرچہ ان کے سامنے نہایت محکم دلائل پیش کئے۔ مگر دلائل کا وزن انھیں اس کے ليے مجبور نہ کرسکا کہ وہ اپنی بر تر نفسیات کو بدلیں اور ایک محکوم شخص کی زبان سے ظاہر ہونے والی صداقت کا اعتراف کریں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی مدد کی۔ فرعون اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ غرق کردیا گیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پیغمبر کا ساتھ دیا تھا۔ ان پر خدا نے یہ احسان فرمایا کہ ان کے پاس اپنا ہدایت نامہ بھیجا جس کو اختیار کرکے آدمی دنیا اور آخرت میں کامیابی کو اپنے ليے یقینی بنا سکتا ہے۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
📘 حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون بنی اسرائیل کے فرد تھے۔ بنی اسرائیل اس وقت مصر میں تھے اور وہاں کی حکمراں قوم کے ليے مزدور کی حیثیت رکھتے تھے۔ بنی اسرائیل کی کمتر حیثیت اور ان کے مقابلہ میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کی برتر حیثیت ان کے ليے مانع بن گئی۔ وہ ایک اسرائیلی پیغمبر کو نمائندہ خدا ماننے کے ليے تیار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ نے اگرچہ ان کے سامنے نہایت محکم دلائل پیش کئے۔ مگر دلائل کا وزن انھیں اس کے ليے مجبور نہ کرسکا کہ وہ اپنی بر تر نفسیات کو بدلیں اور ایک محکوم شخص کی زبان سے ظاہر ہونے والی صداقت کا اعتراف کریں۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کی مدد کی۔ فرعون اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ غرق کردیا گیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پیغمبر کا ساتھ دیا تھا۔ ان پر خدا نے یہ احسان فرمایا کہ ان کے پاس اپنا ہدایت نامہ بھیجا جس کو اختیار کرکے آدمی دنیا اور آخرت میں کامیابی کو اپنے ليے یقینی بنا سکتا ہے۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ آيَةً وَآوَيْنَاهُمَا إِلَىٰ رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِينٍ
📘 حضرت مسیح کی بغیر باپ کے پیدائش ایک بے حد انوکھا واقعہ تھا۔ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ یہ ایک ’’نشانی‘‘ کے طورپر ہوا۔ قدیم زمانہ میں یہود کو حاملِ رسالت گروہ کی حیثیت حاصل تھی۔ مگر انھوں نے مسلسل سرکشی سے اپنے ليے اس کا استحقاق کھو دیا۔ اب وقت آگیا تھا کہ یہ امانت ان سے لے کر بنو اسماعیل کو دے دی جائے۔ چناںچہ یہود کے اوپر آخری اتمام حجت کے ليے ان کے آخری پیغمبر کو معجزاتی انداز میں پیدا کیا گیا۔ اور اس پیغمبر کو مزید غیر معمولی معجزے دئے گئے۔ اس کے باوجود جب یہود آپ کے منکر بنے رہے تو یہ بات آخری طور پر ثابت ہوگئی کہ وہ حامل رسالت بننے کے اہل نہیں ہیں۔
حضرت مسیح کی والدہ حضرت مریم کے ليے یہ انتہائی نازک مرحلہ تھا۔ ایسے حا ل میں ان کو سخت ضرورت تھی کہ کوئی ایسا گوشہ ہو جہاں وہ لوگوں کی نظروں سے دور ہو کر رہ سکیں۔ وہاں زندگی کی ضروری چیزیں بھی ہوں اور سکون واطمینان بھی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان کو اس نازک امتحان میں ڈالا تو اسی کے ساتھ ان کے وطن کے قریب ایک پُرامن گوشہ بھی ان کے ليے مہیا فرمادیا۔
يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا ۖ إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
📘 دین اصلاً صرف ایک ہے۔ اور یہی ایک دین تمام پیغمبروں کو بتایا گیا۔ وہ یہ کہ آدمی خدا کو ایک ایسی عظیم ہستی کی حیثیت سے پائے کہ وہ اس سے ڈرنے لگے۔ اس کے دل ودماغ پر یہ تصور چھا جائے کہ اس کے اوپر ایک خدا ہے۔ وہ ہرحال میں اس کو دیکھ رہا ہے اور وہ موت کے بعد اس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لے گا۔
یہ معرفت ہی اصل دین ہے۔ اس معرفت اور اس احساس کے تحت جو زندگی بنے وہ یہی ہوگی کہ آدمی دنیا کی چیزوں میں سے پاکیزہ اور ستھری چیزیں لے گا۔ وہ اپنے معاملات میں نیکی اور بھلائی کا طریقہ اختیار کرے گا۔ خدا کی معرفت کا لازمی نتیجہ خدا کا خوف ہے اور خدا کے خوف کا لازمی نتیجہ نیک زندگی۔
وَإِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّقُونِ
📘 دین اصلاً صرف ایک ہے۔ اور یہی ایک دین تمام پیغمبروں کو بتایا گیا۔ وہ یہ کہ آدمی خدا کو ایک ایسی عظیم ہستی کی حیثیت سے پائے کہ وہ اس سے ڈرنے لگے۔ اس کے دل ودماغ پر یہ تصور چھا جائے کہ اس کے اوپر ایک خدا ہے۔ وہ ہرحال میں اس کو دیکھ رہا ہے اور وہ موت کے بعد اس سے اس کے تمام اعمال کا حساب لے گا۔
یہ معرفت ہی اصل دین ہے۔ اس معرفت اور اس احساس کے تحت جو زندگی بنے وہ یہی ہوگی کہ آدمی دنیا کی چیزوں میں سے پاکیزہ اور ستھری چیزیں لے گا۔ وہ اپنے معاملات میں نیکی اور بھلائی کا طریقہ اختیار کرے گا۔ خدا کی معرفت کا لازمی نتیجہ خدا کا خوف ہے اور خدا کے خوف کا لازمی نتیجہ نیک زندگی۔
فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُرًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
📘 خدا کا دین جب اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہو تو وہ لوگوں میں خوف پیدا کرتاہے اور جب دین کی اصل روح نکل جائے تو وہ فخر کا ذریعہ بن جاتاہے۔ یہی وہ وقت ہے جب کہ اہلِ دین گروہوں میںبٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے حالات کے لحاظ سے کوئی ایسا پہلو لے لیتاہے جس میں اس کے ليے فخر کا سامان موجود ہو۔ فخر والے دین ہمیشہ کئی ہوتے ہیں اور خوف والا دین ہمیشہ ایک ہوتاہے۔ بے خوفی کی نفسیات رایوں کا تعدد پیدا کرتی ہے اور خوف کی نفسیات رایوں کا اتحاد۔
موجودہ دنیا میں انسان حالتِ امتحان میں ہے۔ خدا کے علم میں کسی شخص یا گروہ کی جو مدت ہے اس مدت تک اس کو زندگی کا سامان لازماً دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر غافل لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں۔ صحیح کررہے ہیں۔ اگر وہ غلطی پر ہوتے تو ان کا مال واسباب ان سے چھین لیا جاتا۔ حالاں کہ خدا کا قانون یہ ہے کہ مال واسباب مدتِ امتحان کے ختم ہونے پر چھینا جائے، نہ کہ امتحان کے دوران میں ہدایت سے انحراف پر ۔
فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ حَتَّىٰ حِينٍ
📘 خدا کا دین جب اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہو تو وہ لوگوں میں خوف پیدا کرتاہے اور جب دین کی اصل روح نکل جائے تو وہ فخر کا ذریعہ بن جاتاہے۔ یہی وہ وقت ہے جب کہ اہلِ دین گروہوں میںبٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے حالات کے لحاظ سے کوئی ایسا پہلو لے لیتاہے جس میں اس کے ليے فخر کا سامان موجود ہو۔ فخر والے دین ہمیشہ کئی ہوتے ہیں اور خوف والا دین ہمیشہ ایک ہوتاہے۔ بے خوفی کی نفسیات رایوں کا تعدد پیدا کرتی ہے اور خوف کی نفسیات رایوں کا اتحاد۔
موجودہ دنیا میں انسان حالتِ امتحان میں ہے۔ خدا کے علم میں کسی شخص یا گروہ کی جو مدت ہے اس مدت تک اس کو زندگی کا سامان لازماً دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر غافل لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں۔ صحیح کررہے ہیں۔ اگر وہ غلطی پر ہوتے تو ان کا مال واسباب ان سے چھین لیا جاتا۔ حالاں کہ خدا کا قانون یہ ہے کہ مال واسباب مدتِ امتحان کے ختم ہونے پر چھینا جائے، نہ کہ امتحان کے دوران میں ہدایت سے انحراف پر ۔
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ
📘 خدا کا دین جب اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہو تو وہ لوگوں میں خوف پیدا کرتاہے اور جب دین کی اصل روح نکل جائے تو وہ فخر کا ذریعہ بن جاتاہے۔ یہی وہ وقت ہے جب کہ اہلِ دین گروہوں میںبٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے حالات کے لحاظ سے کوئی ایسا پہلو لے لیتاہے جس میں اس کے ليے فخر کا سامان موجود ہو۔ فخر والے دین ہمیشہ کئی ہوتے ہیں اور خوف والا دین ہمیشہ ایک ہوتاہے۔ بے خوفی کی نفسیات رایوں کا تعدد پیدا کرتی ہے اور خوف کی نفسیات رایوں کا اتحاد۔
موجودہ دنیا میں انسان حالتِ امتحان میں ہے۔ خدا کے علم میں کسی شخص یا گروہ کی جو مدت ہے اس مدت تک اس کو زندگی کا سامان لازماً دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر غافل لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں۔ صحیح کررہے ہیں۔ اگر وہ غلطی پر ہوتے تو ان کا مال واسباب ان سے چھین لیا جاتا۔ حالاں کہ خدا کا قانون یہ ہے کہ مال واسباب مدتِ امتحان کے ختم ہونے پر چھینا جائے، نہ کہ امتحان کے دوران میں ہدایت سے انحراف پر ۔
نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ ۚ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 خدا کا دین جب اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہو تو وہ لوگوں میں خوف پیدا کرتاہے اور جب دین کی اصل روح نکل جائے تو وہ فخر کا ذریعہ بن جاتاہے۔ یہی وہ وقت ہے جب کہ اہلِ دین گروہوں میںبٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے حالات کے لحاظ سے کوئی ایسا پہلو لے لیتاہے جس میں اس کے ليے فخر کا سامان موجود ہو۔ فخر والے دین ہمیشہ کئی ہوتے ہیں اور خوف والا دین ہمیشہ ایک ہوتاہے۔ بے خوفی کی نفسیات رایوں کا تعدد پیدا کرتی ہے اور خوف کی نفسیات رایوں کا اتحاد۔
موجودہ دنیا میں انسان حالتِ امتحان میں ہے۔ خدا کے علم میں کسی شخص یا گروہ کی جو مدت ہے اس مدت تک اس کو زندگی کا سامان لازماً دیا جاتا ہے۔ اس بنا پر غافل لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں۔ صحیح کررہے ہیں۔ اگر وہ غلطی پر ہوتے تو ان کا مال واسباب ان سے چھین لیا جاتا۔ حالاں کہ خدا کا قانون یہ ہے کہ مال واسباب مدتِ امتحان کے ختم ہونے پر چھینا جائے، نہ کہ امتحان کے دوران میں ہدایت سے انحراف پر ۔
إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ
📘 جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔
وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ
📘 جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔
وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ
📘 جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔
إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ
📘 جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔
أُولَٰئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ
📘 جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔
وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنْطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 جو شخص اللہ کو اس طرح پائے کہ اس پر اللہ کی ہیبت طاری ہوجائے وہ عام انسانوں سے بالکل مختلف انسان ہوتاہے ۔ خوف کی نفسیات اس کو انتہائی حد تک سنجیدہ بنادیتی ہے۔ اس کی سنجیدگی اس کی ضامن بن جاتی ہے کہ وہ دلائلِ خداوندی کے وزن کو پوری طرح سمجھے اور اس کے آگے فوراً جھک جائے۔ خدا کے سوا ہر چیز اس کی نظر میں اپنا وزن کھودے۔ وہ سب کچھ کرکے بھی یہ سمجھے کہ اس نے کچھ نہیں کیا۔
موجودہ دنیا میں دوڑ دھوپ کی دو راہیں کھلی ہوئی ہیں۔ ایک دنیا کی راہ اور دوسری آخرت کی راہ۔ جن لوگوں کے اندر مذکورہ صفات پائی جائیں وہی وہ لوگ ہیں جو آخرت کی طرف دوڑنے والے ہیں۔ تاہم آخرت کی طرف دوڑنا موجودہ دنیا میں ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اس میں انسان سے طرح طرح کی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہر آدمی سے اس کی طاقت کے بقدر ہے، نہ کہ طاقت سے زیادہ۔ ہر آدمی کی استطاعت اور اس کا کارنامہ دونوں کامل طورپر خدا کے علم میں هيں۔ اور یہی واقعہ اس بات کی ضمانت ہے کہ قیامت میں ہر شخص کو وہ رعایت ملے جو ازروئے انصاف اسے ملنی چاہیے۔ اور ہر شخص وہ انعام پائے جس کا وہ فی الواقع مستحق تھا۔
بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِنْ هَٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِنْ دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ
📘 جو لوگ دنیا پرستی میں غرق ہوں انھیں خدا اور آخرت کی باتوں سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی دل چسپی کی چیزیں اس سے مختلف ہوتی ہیں جو سچے اہل ایمان کی دل چسپی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ خدا اور آخرت کی بات خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں بیان کی جائے، انھیں وہ زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ وہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرکے اپنی دوسری دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں۔ وہ داعی حق کی مجلس سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں جیسے وه کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے۔
مگر جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو ایسے لوگ غفلت اور سرکشی کو بھول کر عاجزانہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت وہ خدا کے آگے جھک جاتے ہیں۔ مگر اس وقت کا جھکنا بیکار ہو تا ہے۔ کیوں کہ خدا کے آگے جھکنا وہ معتبر ہے جب کہ آدمی خدا کی نشانی کو دیکھ کر جھک گیا ہو۔ جب خدا خود اپنی طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوجائے اس وقت جھکنے کی کوئی قیمت نہیں۔
حَتَّىٰ إِذَا أَخَذْنَا مُتْرَفِيهِمْ بِالْعَذَابِ إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ
📘 جو لوگ دنیا پرستی میں غرق ہوں انھیں خدا اور آخرت کی باتوں سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی دل چسپی کی چیزیں اس سے مختلف ہوتی ہیں جو سچے اہل ایمان کی دل چسپی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ خدا اور آخرت کی بات خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں بیان کی جائے، انھیں وہ زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ وہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرکے اپنی دوسری دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں۔ وہ داعی حق کی مجلس سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں جیسے وه کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے۔
مگر جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو ایسے لوگ غفلت اور سرکشی کو بھول کر عاجزانہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت وہ خدا کے آگے جھک جاتے ہیں۔ مگر اس وقت کا جھکنا بیکار ہو تا ہے۔ کیوں کہ خدا کے آگے جھکنا وہ معتبر ہے جب کہ آدمی خدا کی نشانی کو دیکھ کر جھک گیا ہو۔ جب خدا خود اپنی طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوجائے اس وقت جھکنے کی کوئی قیمت نہیں۔
لَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ ۖ إِنَّكُمْ مِنَّا لَا تُنْصَرُونَ
📘 جو لوگ دنیا پرستی میں غرق ہوں انھیں خدا اور آخرت کی باتوں سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی دل چسپی کی چیزیں اس سے مختلف ہوتی ہیں جو سچے اہل ایمان کی دل چسپی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ خدا اور آخرت کی بات خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں بیان کی جائے، انھیں وہ زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ وہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرکے اپنی دوسری دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں۔ وہ داعی حق کی مجلس سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں جیسے وه کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے۔
مگر جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو ایسے لوگ غفلت اور سرکشی کو بھول کر عاجزانہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت وہ خدا کے آگے جھک جاتے ہیں۔ مگر اس وقت کا جھکنا بیکار ہو تا ہے۔ کیوں کہ خدا کے آگے جھکنا وہ معتبر ہے جب کہ آدمی خدا کی نشانی کو دیکھ کر جھک گیا ہو۔ جب خدا خود اپنی طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوجائے اس وقت جھکنے کی کوئی قیمت نہیں۔
قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ فَكُنْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ تَنْكِصُونَ
📘 جو لوگ دنیا پرستی میں غرق ہوں انھیں خدا اور آخرت کی باتوں سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی دل چسپی کی چیزیں اس سے مختلف ہوتی ہیں جو سچے اہل ایمان کی دل چسپی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ خدا اور آخرت کی بات خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں بیان کی جائے، انھیں وہ زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ وہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرکے اپنی دوسری دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں۔ وہ داعی حق کی مجلس سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں جیسے وه کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے۔
مگر جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو ایسے لوگ غفلت اور سرکشی کو بھول کر عاجزانہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت وہ خدا کے آگے جھک جاتے ہیں۔ مگر اس وقت کا جھکنا بیکار ہو تا ہے۔ کیوں کہ خدا کے آگے جھکنا وہ معتبر ہے جب کہ آدمی خدا کی نشانی کو دیکھ کر جھک گیا ہو۔ جب خدا خود اپنی طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوجائے اس وقت جھکنے کی کوئی قیمت نہیں۔
مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ
📘 جو لوگ دنیا پرستی میں غرق ہوں انھیں خدا اور آخرت کی باتوں سے دل چسپی نہیں ہوتی۔ ان کی دل چسپی کی چیزیں اس سے مختلف ہوتی ہیں جو سچے اہل ایمان کی دل چسپی کی چیزیں ہوتی ہیں۔ خدا اور آخرت کی بات خواہ کتنے ہی مؤثر انداز میں بیان کی جائے، انھیں وہ زیادہ اپیل نہیں کرتی۔ وہ ایسی باتوں کو نظر انداز کرکے اپنی دوسری دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں۔ وہ داعی حق کی مجلس سے اس طرح اٹھ جاتے ہیں جیسے وه کسی فضول قصہ گو کو چھوڑ کر چلے گئے۔
مگر جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو ایسے لوگ غفلت اور سرکشی کو بھول کر عاجزانہ فریاد کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت وہ خدا کے آگے جھک جاتے ہیں۔ مگر اس وقت کا جھکنا بیکار ہو تا ہے۔ کیوں کہ خدا کے آگے جھکنا وہ معتبر ہے جب کہ آدمی خدا کی نشانی کو دیکھ کر جھک گیا ہو۔ جب خدا خود اپنی طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوجائے اس وقت جھکنے کی کوئی قیمت نہیں۔
أَفَلَمْ يَدَّبَّرُوا الْقَوْلَ أَمْ جَاءَهُمْ مَا لَمْ يَأْتِ آبَاءَهُمُ الْأَوَّلِينَ
📘 حق وہ ہے جو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ مگر خواہش پرست انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ حق کو اس کی خواہش کے تابع کردیا جائے۔ اس قسم کے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ داعی جب حق بات کہتا ہے تو وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ وہ حق کے تابع نہیں بننا چاہتے۔ اس ليے وہ چاہنے لگتے ہیں کہ حق کو ان کے تابع کردیا جائے۔ اپنی اس نفسیات کی بنا پر وہ حق کی آواز پر دھیان نہیں دیتے۔ حق ان کو اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ وہ داعی حق کو اس کی اصل حیثیت میں پہچان نہیں پاتے۔ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے وہ داعی کو مطعون کرنے لگتے ہیں۔
کائنات میں کامل درستگی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا میں ہر طرف فساداور بگاڑ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ یعنی وہی ہونا جو ہونا چاہيے، اور وہ نہ ہونا جو نہ ہونا چاہيے۔ اب اگر کائنات کا نظام بھی انسان کی خواہشوں پر چلنے لگے تو جو فساد انسانی دنیا میں ہے وہی فساد بقیہ کائنات میں بھی برپا ہوجائے گا۔
نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے ليے سب سے زیادہ تلخ چیز ہوتی ہے۔ بہت ہی کم وہ خداکے بندے ہیں جو نصیحت اور تنقید کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔ بیشتر لوگ اس کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں۔
أَمْ لَمْ يَعْرِفُوا رَسُولَهُمْ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ
📘 حق وہ ہے جو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ مگر خواہش پرست انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ حق کو اس کی خواہش کے تابع کردیا جائے۔ اس قسم کے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ داعی جب حق بات کہتا ہے تو وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ وہ حق کے تابع نہیں بننا چاہتے۔ اس ليے وہ چاہنے لگتے ہیں کہ حق کو ان کے تابع کردیا جائے۔ اپنی اس نفسیات کی بنا پر وہ حق کی آواز پر دھیان نہیں دیتے۔ حق ان کو اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ وہ داعی حق کو اس کی اصل حیثیت میں پہچان نہیں پاتے۔ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے وہ داعی کو مطعون کرنے لگتے ہیں۔
کائنات میں کامل درستگی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا میں ہر طرف فساداور بگاڑ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ یعنی وہی ہونا جو ہونا چاہيے، اور وہ نہ ہونا جو نہ ہونا چاہيے۔ اب اگر کائنات کا نظام بھی انسان کی خواہشوں پر چلنے لگے تو جو فساد انسانی دنیا میں ہے وہی فساد بقیہ کائنات میں بھی برپا ہوجائے گا۔
نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے ليے سب سے زیادہ تلخ چیز ہوتی ہے۔ بہت ہی کم وہ خداکے بندے ہیں جو نصیحت اور تنقید کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔ بیشتر لوگ اس کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں۔
فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ ۚ بَلْ جَاءَهُمْ بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ
📘 حق وہ ہے جو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ مگر خواہش پرست انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ حق کو اس کی خواہش کے تابع کردیا جائے۔ اس قسم کے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ داعی جب حق بات کہتا ہے تو وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ وہ حق کے تابع نہیں بننا چاہتے۔ اس ليے وہ چاہنے لگتے ہیں کہ حق کو ان کے تابع کردیا جائے۔ اپنی اس نفسیات کی بنا پر وہ حق کی آواز پر دھیان نہیں دیتے۔ حق ان کو اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ وہ داعی حق کو اس کی اصل حیثیت میں پہچان نہیں پاتے۔ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے وہ داعی کو مطعون کرنے لگتے ہیں۔
کائنات میں کامل درستگی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا میں ہر طرف فساداور بگاڑ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ یعنی وہی ہونا جو ہونا چاہيے، اور وہ نہ ہونا جو نہ ہونا چاہيے۔ اب اگر کائنات کا نظام بھی انسان کی خواہشوں پر چلنے لگے تو جو فساد انسانی دنیا میں ہے وہی فساد بقیہ کائنات میں بھی برپا ہوجائے گا۔
نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے ليے سب سے زیادہ تلخ چیز ہوتی ہے۔ بہت ہی کم وہ خداکے بندے ہیں جو نصیحت اور تنقید کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔ بیشتر لوگ اس کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں۔
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ
📘 حق وہ ہے جو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ہو۔ مگر خواہش پرست انسان یہ چاہنے لگتا ہے کہ حق کو اس کی خواہش کے تابع کردیا جائے۔ اس قسم کے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ داعی جب حق بات کہتا ہے تو وہ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں۔ وہ حق کے تابع نہیں بننا چاہتے۔ اس ليے وہ چاہنے لگتے ہیں کہ حق کو ان کے تابع کردیا جائے۔ اپنی اس نفسیات کی بنا پر وہ حق کی آواز پر دھیان نہیں دیتے۔ حق ان کو اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ وہ داعی حق کو اس کی اصل حیثیت میں پہچان نہیں پاتے۔ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے وہ داعی کو مطعون کرنے لگتے ہیں۔
کائنات میں کامل درستگی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس، انسانی دنیا میں ہر طرف فساداور بگاڑ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ یعنی وہی ہونا جو ہونا چاہيے، اور وہ نہ ہونا جو نہ ہونا چاہيے۔ اب اگر کائنات کا نظام بھی انسان کی خواہشوں پر چلنے لگے تو جو فساد انسانی دنیا میں ہے وہی فساد بقیہ کائنات میں بھی برپا ہوجائے گا۔
نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے ليے سب سے زیادہ تلخ چیز ہوتی ہے۔ بہت ہی کم وہ خداکے بندے ہیں جو نصیحت اور تنقید کو کھلے ذہن کے ساتھ سنیں۔ بیشتر لوگ اس کو نظر انداز کرکے گزر جاتے ہیں۔
أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
📘 پیغمبر اپنے مخاطبین سے کبھی مالی غرض نہیں رکھتا۔ پیغمبر اور اس کے مخاطبین کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہوتا ہے۔ داعی اور مدعو کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ داعی اگر ایک طرف لوگوں کو آخرت کا پیغام دے اور اسی کے ساتھ وہ ان سے دنیا کے مطالبات بھی چھیڑے ہوئے ہو تو اس کی دعوت لوگوں کی نظر میں مذاق بن کررہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کسی بھی حال میں اپنے مدعو سے کوئی مادی مطالبہ نہیں کرتا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو یک طرفہ طور پر ہر قسم کا نقصان برداشت کرنا پڑے۔
داعی کا اصل معاوضہ خود وہ حق ہوتا ہے جس کو لے کر وہ کھڑا ہوا ہے۔ خدا کی دریافت اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔ داعیانہ زندگی گزارنے کے نتیجہ میں اس کو جو ربانی تجربات ہوتے ہیں وہ اس کی روح کو سب سے بڑی غذا فراہم کرتے ہیں۔ اعلیٰ ترین مقصد کے ليے سرگرم رہنے سے جو لذت ملتی ہے وہ اس کی تسکین كا سب سے بڑا سامان ہوتی ہے۔
حق کی دعوت کو وہی شخص مانے گا جس کو آخرت کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ آخرت کا احساس آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے اور سنجیدگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حقیقت کو مانے۔ جو شخص سنجیدہ نہ ہو وہ کبھی حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا، خواہ اس کو دلائل سے کتنا ہی زیادہ ثابت شدہ بنادیا جائے۔
وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 پیغمبر اپنے مخاطبین سے کبھی مالی غرض نہیں رکھتا۔ پیغمبر اور اس کے مخاطبین کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہوتا ہے۔ داعی اور مدعو کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ داعی اگر ایک طرف لوگوں کو آخرت کا پیغام دے اور اسی کے ساتھ وہ ان سے دنیا کے مطالبات بھی چھیڑے ہوئے ہو تو اس کی دعوت لوگوں کی نظر میں مذاق بن کررہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کسی بھی حال میں اپنے مدعو سے کوئی مادی مطالبہ نہیں کرتا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو یک طرفہ طور پر ہر قسم کا نقصان برداشت کرنا پڑے۔
داعی کا اصل معاوضہ خود وہ حق ہوتا ہے جس کو لے کر وہ کھڑا ہوا ہے۔ خدا کی دریافت اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔ داعیانہ زندگی گزارنے کے نتیجہ میں اس کو جو ربانی تجربات ہوتے ہیں وہ اس کی روح کو سب سے بڑی غذا فراہم کرتے ہیں۔ اعلیٰ ترین مقصد کے ليے سرگرم رہنے سے جو لذت ملتی ہے وہ اس کی تسکین كا سب سے بڑا سامان ہوتی ہے۔
حق کی دعوت کو وہی شخص مانے گا جس کو آخرت کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ آخرت کا احساس آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے اور سنجیدگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حقیقت کو مانے۔ جو شخص سنجیدہ نہ ہو وہ کبھی حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا، خواہ اس کو دلائل سے کتنا ہی زیادہ ثابت شدہ بنادیا جائے۔
وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ
📘 پیغمبر اپنے مخاطبین سے کبھی مالی غرض نہیں رکھتا۔ پیغمبر اور اس کے مخاطبین کا تعلق داعی اور مدعو کا تعلق ہوتا ہے۔ داعی اور مدعو کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ داعی اگر ایک طرف لوگوں کو آخرت کا پیغام دے اور اسی کے ساتھ وہ ان سے دنیا کے مطالبات بھی چھیڑے ہوئے ہو تو اس کی دعوت لوگوں کی نظر میں مذاق بن کررہ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کسی بھی حال میں اپنے مدعو سے کوئی مادی مطالبہ نہیں کرتا، خواہ اس کی وجہ سے اس کو یک طرفہ طور پر ہر قسم کا نقصان برداشت کرنا پڑے۔
داعی کا اصل معاوضہ خود وہ حق ہوتا ہے جس کو لے کر وہ کھڑا ہوا ہے۔ خدا کی دریافت اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے۔ داعیانہ زندگی گزارنے کے نتیجہ میں اس کو جو ربانی تجربات ہوتے ہیں وہ اس کی روح کو سب سے بڑی غذا فراہم کرتے ہیں۔ اعلیٰ ترین مقصد کے ليے سرگرم رہنے سے جو لذت ملتی ہے وہ اس کی تسکین كا سب سے بڑا سامان ہوتی ہے۔
حق کی دعوت کو وہی شخص مانے گا جس کو آخرت کا کھٹکا لگا ہوا ہو۔ آخرت کا احساس آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے اور سنجیدگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ حقیقت کو مانے۔ جو شخص سنجیدہ نہ ہو وہ کبھی حقیقت کو تسلیم نہیں کرے گا، خواہ اس کو دلائل سے کتنا ہی زیادہ ثابت شدہ بنادیا جائے۔
۞ وَلَوْ رَحِمْنَاهُمْ وَكَشَفْنَا مَا بِهِمْ مِنْ ضُرٍّ لَلَجُّوا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
📘 مکی دور میں جب قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کورد کردیا تو اللہ تعالیٰ نے چند سال کے ليے مکہ والوں کو قحط میں مبتلا کردیا۔ یہ قحط اتنا شدید تھا کہ بہت سے لوگ مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عام سنت ہے کہ جب کوئی گروہی سرکشی اختیار کرتا ہے اور نصیحت قبول کرنے پر تیارنہیںہوتا تو وہ اس گروہ پر تنبیہی عذاب بھیجتا ہے تاکہ ان کے دل نرم ہوں اور وہ حق بات کی طرف دھیان دے سکیں۔
مگر تاریخ کا تجربہ ہے کہ انسان نہ اچھے حالات سے سبق لیتا هے اور نہ برے حالات سے۔ دونوں قسم کے حالات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مگر انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اچھے حالات کو اپنی تدبیر کا نتیجہ سمجھ لیتاہے اور برے حالات کو زمانہ کے الٹ پھیر کا۔ اس طرح وہ دونوں ہی قسم کے واقعات سے سبق لینے سے محروم رہتا ہے۔
آدمی اسی طرح غفلت میں پڑا رہتا ہے يہاں تک کہ خدا کا آخری فیصلہ آجاتا ہے۔ اس وقت وہ حیران رہ جاتا ہے کہ وہ چیز جس کو اس نے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا وہی اس دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت تھی۔
وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ
📘 مکی دور میں جب قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کورد کردیا تو اللہ تعالیٰ نے چند سال کے ليے مکہ والوں کو قحط میں مبتلا کردیا۔ یہ قحط اتنا شدید تھا کہ بہت سے لوگ مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عام سنت ہے کہ جب کوئی گروہی سرکشی اختیار کرتا ہے اور نصیحت قبول کرنے پر تیارنہیںہوتا تو وہ اس گروہ پر تنبیہی عذاب بھیجتا ہے تاکہ ان کے دل نرم ہوں اور وہ حق بات کی طرف دھیان دے سکیں۔
مگر تاریخ کا تجربہ ہے کہ انسان نہ اچھے حالات سے سبق لیتا هے اور نہ برے حالات سے۔ دونوں قسم کے حالات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مگر انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اچھے حالات کو اپنی تدبیر کا نتیجہ سمجھ لیتاہے اور برے حالات کو زمانہ کے الٹ پھیر کا۔ اس طرح وہ دونوں ہی قسم کے واقعات سے سبق لینے سے محروم رہتا ہے۔
آدمی اسی طرح غفلت میں پڑا رہتا ہے يہاں تک کہ خدا کا آخری فیصلہ آجاتا ہے۔ اس وقت وہ حیران رہ جاتا ہے کہ وہ چیز جس کو اس نے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا وہی اس دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت تھی۔
حَتَّىٰ إِذَا فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَابًا ذَا عَذَابٍ شَدِيدٍ إِذَا هُمْ فِيهِ مُبْلِسُونَ
📘 مکی دور میں جب قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کورد کردیا تو اللہ تعالیٰ نے چند سال کے ليے مکہ والوں کو قحط میں مبتلا کردیا۔ یہ قحط اتنا شدید تھا کہ بہت سے لوگ مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک عام سنت ہے کہ جب کوئی گروہی سرکشی اختیار کرتا ہے اور نصیحت قبول کرنے پر تیارنہیںہوتا تو وہ اس گروہ پر تنبیہی عذاب بھیجتا ہے تاکہ ان کے دل نرم ہوں اور وہ حق بات کی طرف دھیان دے سکیں۔
مگر تاریخ کا تجربہ ہے کہ انسان نہ اچھے حالات سے سبق لیتا هے اور نہ برے حالات سے۔ دونوں قسم کے حالات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ آدمی اللہ کی طرف رجوع کرے۔ مگر انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اچھے حالات کو اپنی تدبیر کا نتیجہ سمجھ لیتاہے اور برے حالات کو زمانہ کے الٹ پھیر کا۔ اس طرح وہ دونوں ہی قسم کے واقعات سے سبق لینے سے محروم رہتا ہے۔
آدمی اسی طرح غفلت میں پڑا رہتا ہے يہاں تک کہ خدا کا آخری فیصلہ آجاتا ہے۔ اس وقت وہ حیران رہ جاتا ہے کہ وہ چیز جس کو اس نے غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کردیا تھا وہی اس دنیا کی سب سے بڑی اور سب سے اہم حقیقت تھی۔
وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ
📘 انسان اس کائنات کی وہ خاص مخلوق ہے جس کو استثنائی طورپر سننے اور دیکھنے او ر سوچنے کی اعلیٰ صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ یہ خصوصی صلاحیتیں یقیناً کسی خصوصی مقصد کے ليے ہیں۔ وہ مقصد یہ ہے کہ آدمی ان کو حقیقتِ حیات کی معرفت کے ليے استعمال کرے۔ وہ اپنے کان سے اس صداقت کی آواز کو سنے جس کا اعلان یہاں کیا جارہا ہے۔ وہ اپنی آنکھ سے ان نشانیوں کو دیکھے جو اس کے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرکے ان کی گہرائی تک پہنچے۔ یہی کان اور آنکھ اور دل کا شکر ہے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اس شکر کا ثبوت نہ دیں وہ ان انعامات کا استحقاق ہمیشہ کے ليے کھورہے ہیں۔
خدا کی جو صفات دنیا میں نمایاں ہورہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زندہ کو مُردہ اور مُردہ کو زندہ کرتا ہے۔ یہ خدا بالآخر تمام مَرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ جمع کرے گا۔ پھر جس طرح وہ رات کو دن بناتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی نگاہوں سے غفلت کا پردہ ہٹادے گا۔ اس کے بعد اشیاء کی حقیقت لوگوں پر ٹھیک ٹھیک منکشف ہوجائے گی۔
وَهُوَ الَّذِي ذَرَأَكُمْ فِي الْأَرْضِ وَإِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
📘 انسان اس کائنات کی وہ خاص مخلوق ہے جس کو استثنائی طورپر سننے اور دیکھنے او ر سوچنے کی اعلیٰ صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ یہ خصوصی صلاحیتیں یقیناً کسی خصوصی مقصد کے ليے ہیں۔ وہ مقصد یہ ہے کہ آدمی ان کو حقیقتِ حیات کی معرفت کے ليے استعمال کرے۔ وہ اپنے کان سے اس صداقت کی آواز کو سنے جس کا اعلان یہاں کیا جارہا ہے۔ وہ اپنی آنکھ سے ان نشانیوں کو دیکھے جو اس کے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرکے ان کی گہرائی تک پہنچے۔ یہی کان اور آنکھ اور دل کا شکر ہے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اس شکر کا ثبوت نہ دیں وہ ان انعامات کا استحقاق ہمیشہ کے ليے کھورہے ہیں۔
خدا کی جو صفات دنیا میں نمایاں ہورہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زندہ کو مُردہ اور مُردہ کو زندہ کرتا ہے۔ یہ خدا بالآخر تمام مَرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ جمع کرے گا۔ پھر جس طرح وہ رات کو دن بناتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی نگاہوں سے غفلت کا پردہ ہٹادے گا۔ اس کے بعد اشیاء کی حقیقت لوگوں پر ٹھیک ٹھیک منکشف ہوجائے گی۔
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
وَهُوَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ وَلَهُ اخْتِلَافُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
📘 انسان اس کائنات کی وہ خاص مخلوق ہے جس کو استثنائی طورپر سننے اور دیکھنے او ر سوچنے کی اعلیٰ صلاحیتیں دی گئی ہیں۔ یہ خصوصی صلاحیتیں یقیناً کسی خصوصی مقصد کے ليے ہیں۔ وہ مقصد یہ ہے کہ آدمی ان کو حقیقتِ حیات کی معرفت کے ليے استعمال کرے۔ وہ اپنے کان سے اس صداقت کی آواز کو سنے جس کا اعلان یہاں کیا جارہا ہے۔ وہ اپنی آنکھ سے ان نشانیوں کو دیکھے جو اس کے چاروں طرف بکھری ہوئی ہیں۔ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرکے ان کی گہرائی تک پہنچے۔ یہی کان اور آنکھ اور دل کا شکر ہے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اس شکر کا ثبوت نہ دیں وہ ان انعامات کا استحقاق ہمیشہ کے ليے کھورہے ہیں۔
خدا کی جو صفات دنیا میں نمایاں ہورہی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ زندہ کو مُردہ اور مُردہ کو زندہ کرتا ہے۔ یہ خدا بالآخر تمام مَرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ جمع کرے گا۔ پھر جس طرح وہ رات کو دن بناتا ہے اسی طرح وہ لوگوں کی نگاہوں سے غفلت کا پردہ ہٹادے گا۔ اس کے بعد اشیاء کی حقیقت لوگوں پر ٹھیک ٹھیک منکشف ہوجائے گی۔
بَلْ قَالُوا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُونَ
📘 انسان کو عقل دی گئی ہے۔ عقل کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ معاملات کی گہرائی میں داخل ہو اور اصل حقیقت کو دریافت کرکے اس کو سمجھ سکے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں اپنی عقل کو استعمال کرے۔ وہ بس ظاہری تأثر کے تحت ایک رائے قائم کرلیتا ہے اور اس کو دہرانے لگتا ہے۔ ماضی کے لوگ بھی ایسا کرتے رہے اور حال کے لوگ بھی یہی کررہے ہیں۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا شعوری یا لفظی انکار کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو اس عقیدے کا عملی منکر کہاجاسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رسمی طورپر زندگی بعد موت کو مانتے ہوئے عملاً ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسے کہ انھیں اس پر یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اور جس طرح آج وہ ہوش وحواس کے ساتھ زندہ ہیں، اسی طرح دوبارہ ہوش وحواس اس کے ساتھ زندہ ہو کر خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔
قَالُوا أَإِذَا مِتْنَا وَكُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ
📘 انسان کو عقل دی گئی ہے۔ عقل کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ معاملات کی گہرائی میں داخل ہو اور اصل حقیقت کو دریافت کرکے اس کو سمجھ سکے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں اپنی عقل کو استعمال کرے۔ وہ بس ظاہری تأثر کے تحت ایک رائے قائم کرلیتا ہے اور اس کو دہرانے لگتا ہے۔ ماضی کے لوگ بھی ایسا کرتے رہے اور حال کے لوگ بھی یہی کررہے ہیں۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا شعوری یا لفظی انکار کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو اس عقیدے کا عملی منکر کہاجاسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رسمی طورپر زندگی بعد موت کو مانتے ہوئے عملاً ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسے کہ انھیں اس پر یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اور جس طرح آج وہ ہوش وحواس کے ساتھ زندہ ہیں، اسی طرح دوبارہ ہوش وحواس اس کے ساتھ زندہ ہو کر خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔
لَقَدْ وُعِدْنَا نَحْنُ وَآبَاؤُنَا هَٰذَا مِنْ قَبْلُ إِنْ هَٰذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
📘 انسان کو عقل دی گئی ہے۔ عقل کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ معاملات کی گہرائی میں داخل ہو اور اصل حقیقت کو دریافت کرکے اس کو سمجھ سکے۔ مگر بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ انسان حقیقی معنوں میں اپنی عقل کو استعمال کرے۔ وہ بس ظاہری تأثر کے تحت ایک رائے قائم کرلیتا ہے اور اس کو دہرانے لگتا ہے۔ ماضی کے لوگ بھی ایسا کرتے رہے اور حال کے لوگ بھی یہی کررہے ہیں۔
موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کا شعوری یا لفظی انکار کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کو اس عقیدے کا عملی منکر کہاجاسکتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رسمی طورپر زندگی بعد موت کو مانتے ہوئے عملاً ایسی زندگی گزارتے ہیں جیسے کہ انھیں اس پر یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد وہ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ اور جس طرح آج وہ ہوش وحواس کے ساتھ زندہ ہیں، اسی طرح دوبارہ ہوش وحواس اس کے ساتھ زندہ ہو کر خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔
قُلْ لِمَنِ الْأَرْضُ وَمَنْ فِيهَا إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 ان آیات میں اس تضادِ فکر کا تذکرہ ہے جس میں ہر دور کے بیشتر لوگ مبتلا رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا غیر مشرک۔ بظاہر خدا کو ایک ماننے والے ہوں یا کئی ماننے والے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق ایک اللہ ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ تمام بر تر اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ مگر اس ماننے کا جو لازمی تقاضا ہے اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔
اس عظیم اقرار کا تقاضا ہے کہ وہی ان کی سوچ بن جائے۔ خدا کا احساس ان کے اندر خوف بن کر داخل ہوجائے۔ ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو کہ ان کے سامنے حق آئے تو وہ فوراً اس کا اعتراف کرلیں۔ ان کی زندگی پوری کی پوری اسی میں ڈھل جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اگرچہ عقیدہ کے طورپر خدا کو مانتے ہیں مگر ان کا عقیدۂ خدا الگ رہتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی الگ۔
خدا کا تصور انسان کو مسحور نہیں کرتا۔ البتہ دوسری چیزیں اس کی نظر میں اتنی اہم بن جاتی ہیں جن سے وہ مسحور ہو کر رہ جائے۔ کیسا عجیب ہے انسان کا معاملہ۔
سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
📘 ان آیات میں اس تضادِ فکر کا تذکرہ ہے جس میں ہر دور کے بیشتر لوگ مبتلا رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا غیر مشرک۔ بظاہر خدا کو ایک ماننے والے ہوں یا کئی ماننے والے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق ایک اللہ ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ تمام بر تر اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ مگر اس ماننے کا جو لازمی تقاضا ہے اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔
اس عظیم اقرار کا تقاضا ہے کہ وہی ان کی سوچ بن جائے۔ خدا کا احساس ان کے اندر خوف بن کر داخل ہوجائے۔ ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو کہ ان کے سامنے حق آئے تو وہ فوراً اس کا اعتراف کرلیں۔ ان کی زندگی پوری کی پوری اسی میں ڈھل جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اگرچہ عقیدہ کے طورپر خدا کو مانتے ہیں مگر ان کا عقیدۂ خدا الگ رہتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی الگ۔
خدا کا تصور انسان کو مسحور نہیں کرتا۔ البتہ دوسری چیزیں اس کی نظر میں اتنی اہم بن جاتی ہیں جن سے وہ مسحور ہو کر رہ جائے۔ کیسا عجیب ہے انسان کا معاملہ۔
قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ
📘 ان آیات میں اس تضادِ فکر کا تذکرہ ہے جس میں ہر دور کے بیشتر لوگ مبتلا رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا غیر مشرک۔ بظاہر خدا کو ایک ماننے والے ہوں یا کئی ماننے والے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق ایک اللہ ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ تمام بر تر اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ مگر اس ماننے کا جو لازمی تقاضا ہے اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔
اس عظیم اقرار کا تقاضا ہے کہ وہی ان کی سوچ بن جائے۔ خدا کا احساس ان کے اندر خوف بن کر داخل ہوجائے۔ ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو کہ ان کے سامنے حق آئے تو وہ فوراً اس کا اعتراف کرلیں۔ ان کی زندگی پوری کی پوری اسی میں ڈھل جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اگرچہ عقیدہ کے طورپر خدا کو مانتے ہیں مگر ان کا عقیدۂ خدا الگ رہتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی الگ۔
خدا کا تصور انسان کو مسحور نہیں کرتا۔ البتہ دوسری چیزیں اس کی نظر میں اتنی اہم بن جاتی ہیں جن سے وہ مسحور ہو کر رہ جائے۔ کیسا عجیب ہے انسان کا معاملہ۔
سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ
📘 ان آیات میں اس تضادِ فکر کا تذکرہ ہے جس میں ہر دور کے بیشتر لوگ مبتلا رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا غیر مشرک۔ بظاہر خدا کو ایک ماننے والے ہوں یا کئی ماننے والے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق ایک اللہ ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ تمام بر تر اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ مگر اس ماننے کا جو لازمی تقاضا ہے اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔
اس عظیم اقرار کا تقاضا ہے کہ وہی ان کی سوچ بن جائے۔ خدا کا احساس ان کے اندر خوف بن کر داخل ہوجائے۔ ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو کہ ان کے سامنے حق آئے تو وہ فوراً اس کا اعتراف کرلیں۔ ان کی زندگی پوری کی پوری اسی میں ڈھل جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اگرچہ عقیدہ کے طورپر خدا کو مانتے ہیں مگر ان کا عقیدۂ خدا الگ رہتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی الگ۔
خدا کا تصور انسان کو مسحور نہیں کرتا۔ البتہ دوسری چیزیں اس کی نظر میں اتنی اہم بن جاتی ہیں جن سے وہ مسحور ہو کر رہ جائے۔ کیسا عجیب ہے انسان کا معاملہ۔
قُلْ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَهُوَ يُجِيرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 ان آیات میں اس تضادِ فکر کا تذکرہ ہے جس میں ہر دور کے بیشتر لوگ مبتلا رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا غیر مشرک۔ بظاہر خدا کو ایک ماننے والے ہوں یا کئی ماننے والے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق ایک اللہ ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ تمام بر تر اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ مگر اس ماننے کا جو لازمی تقاضا ہے اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔
اس عظیم اقرار کا تقاضا ہے کہ وہی ان کی سوچ بن جائے۔ خدا کا احساس ان کے اندر خوف بن کر داخل ہوجائے۔ ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو کہ ان کے سامنے حق آئے تو وہ فوراً اس کا اعتراف کرلیں۔ ان کی زندگی پوری کی پوری اسی میں ڈھل جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اگرچہ عقیدہ کے طورپر خدا کو مانتے ہیں مگر ان کا عقیدۂ خدا الگ رہتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی الگ۔
خدا کا تصور انسان کو مسحور نہیں کرتا۔ البتہ دوسری چیزیں اس کی نظر میں اتنی اہم بن جاتی ہیں جن سے وہ مسحور ہو کر رہ جائے۔ کیسا عجیب ہے انسان کا معاملہ۔
سَيَقُولُونَ لِلَّهِ ۚ قُلْ فَأَنَّىٰ تُسْحَرُونَ
📘 ان آیات میں اس تضادِ فکر کا تذکرہ ہے جس میں ہر دور کے بیشتر لوگ مبتلا رہے ہیں۔ خواہ وہ مشرک ہوں یا غیر مشرک۔ بظاہر خدا کو ایک ماننے والے ہوں یا کئی ماننے والے۔
بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ زمین وآسمان کا خالق ایک اللہ ہے۔ وہی اس کا مالک ہے۔ وہی اس کو چلا رہا ہے۔ تمام بر تر اختیارات اسی کو حاصل ہیں۔ مگر اس ماننے کا جو لازمی تقاضا ہے اس کا کوئی اثر ان کی زندگیوں میں نہیں پایا جاتا۔
اس عظیم اقرار کا تقاضا ہے کہ وہی ان کی سوچ بن جائے۔ خدا کا احساس ان کے اندر خوف بن کر داخل ہوجائے۔ ان کے اندر یہ مادہ پیدا ہو کہ ان کے سامنے حق آئے تو وہ فوراً اس کا اعتراف کرلیں۔ ان کی زندگی پوری کی پوری اسی میں ڈھل جائے۔ مگر یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ وہ اگرچہ عقیدہ کے طورپر خدا کو مانتے ہیں مگر ان کا عقیدۂ خدا الگ رہتا ہے اور ان کی حقیقی زندگی الگ۔
خدا کا تصور انسان کو مسحور نہیں کرتا۔ البتہ دوسری چیزیں اس کی نظر میں اتنی اہم بن جاتی ہیں جن سے وہ مسحور ہو کر رہ جائے۔ کیسا عجیب ہے انسان کا معاملہ۔
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ
📘 انسان کا بچہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں استقرار حمل سے لے کر بچہ کی پیدائش تک کی پوری مدت انسان کے ليے ایک چھپی ہوئی چیز کی حیثیت رکھتی تھی۔ بیسویں صدی میں جدید سائنسی ذرائع کے بعد یہ ممکن ہوا ہے كه پیٹ میں پرورش پانے والے بچہ کا مشاہدہ کیا جائے اور اس کی بابت براہ راست معلومات حاصل کی جائیں۔
قرآن نے چودہ سو سال پہلے انسانی تخلیق کے جو مختلف تدریجی مراحل بتائے تھے، وہ حیرت انگیز طورپر دور جدید کے مشینی مشاہدہ کے عین مطابق ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ایک کھلا ہوا ثبوت ہے کہ قرآن خدا کی کتاب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو جدید تحقیق اور قرآن کے بیان میں اتنی کامل مطابقت ممکن نہ تھی۔
تخلیق کا یہ واقعہ جو ہر روز ماں کے پیٹ میں ہورہا ہے وہ بتاتاہے کہ اس دنیا کاخالق ایک حد درجہ باکمال ہستی ہے۔ انسان کی تخلیقِ اول کا حیرت ناک واقعہ جو ہر روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رها ہے وہی یہ یقین دلانے کے لیے کافی ہے کہ اسی طرح تخلیقِ ثانی کا واقعہ بھی ہوگا۔ اور عین اس کے مطابق ہوگا جس کی خبر نبیوں کے ذریعہ دی گئی ہے۔
بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِالْحَقِّ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
📘 اقتدار کی یہ فطرت ہے کہ وہ تقسیم کو گوارا نہیں کرتا۔ انسانوں میں جب بھی کئی صاحب اقتدار ہوں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو زیر کرنے یا نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حتی کہ جو قومیں مختلف دیوتاؤں کو مانتی ہیں ان کی میتھا لوجی میں کثرت سے دکھایا گیا ہے کہ ایک دیوتا اور دوسرے دیوتا میں لڑائیاں جاری ہیں۔
کائنات میں اس صورت حال کی موجود گی کہ اس کے ایک حصہ اور اس کے دوسرے حصہ میں کوئی ٹکراؤ نہیںہوتا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر حصہ کا خدا ایک ہی ہے۔ اگر ہر حصہ کے الگ الگ خداہوتے تو ہر حصہ کا خدا اپنے حصہ کو لے کر الگ ہوجاتا اور اس کے نتیجہ میں کائنات کے مختلف حصوں کی موجودہ ہم آہنگی باقی نہ رہتی۔ مختلف خداؤں کی کشاکش میں کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ایسی حالت میں توحید کا نظریہ سراپا سچائی ہے اور شرک کا نظریہ سراپا جھوٹ۔
مَا اتَّخَذَ اللَّهُ مِنْ وَلَدٍ وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَٰهٍ ۚ إِذًا لَذَهَبَ كُلُّ إِلَٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يَصِفُونَ
📘 اقتدار کی یہ فطرت ہے کہ وہ تقسیم کو گوارا نہیں کرتا۔ انسانوں میں جب بھی کئی صاحب اقتدار ہوں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو زیر کرنے یا نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حتی کہ جو قومیں مختلف دیوتاؤں کو مانتی ہیں ان کی میتھا لوجی میں کثرت سے دکھایا گیا ہے کہ ایک دیوتا اور دوسرے دیوتا میں لڑائیاں جاری ہیں۔
کائنات میں اس صورت حال کی موجود گی کہ اس کے ایک حصہ اور اس کے دوسرے حصہ میں کوئی ٹکراؤ نہیںہوتا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر حصہ کا خدا ایک ہی ہے۔ اگر ہر حصہ کے الگ الگ خداہوتے تو ہر حصہ کا خدا اپنے حصہ کو لے کر الگ ہوجاتا اور اس کے نتیجہ میں کائنات کے مختلف حصوں کی موجودہ ہم آہنگی باقی نہ رہتی۔ مختلف خداؤں کی کشاکش میں کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ایسی حالت میں توحید کا نظریہ سراپا سچائی ہے اور شرک کا نظریہ سراپا جھوٹ۔
عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 اقتدار کی یہ فطرت ہے کہ وہ تقسیم کو گوارا نہیں کرتا۔ انسانوں میں جب بھی کئی صاحب اقتدار ہوں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو زیر کرنے یا نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ حتی کہ جو قومیں مختلف دیوتاؤں کو مانتی ہیں ان کی میتھا لوجی میں کثرت سے دکھایا گیا ہے کہ ایک دیوتا اور دوسرے دیوتا میں لڑائیاں جاری ہیں۔
کائنات میں اس صورت حال کی موجود گی کہ اس کے ایک حصہ اور اس کے دوسرے حصہ میں کوئی ٹکراؤ نہیںہوتا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہر حصہ کا خدا ایک ہی ہے۔ اگر ہر حصہ کے الگ الگ خداہوتے تو ہر حصہ کا خدا اپنے حصہ کو لے کر الگ ہوجاتا اور اس کے نتیجہ میں کائنات کے مختلف حصوں کی موجودہ ہم آہنگی باقی نہ رہتی۔ مختلف خداؤں کی کشاکش میں کائنات کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ایسی حالت میں توحید کا نظریہ سراپا سچائی ہے اور شرک کا نظریہ سراپا جھوٹ۔
قُلْ رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ
📘 پیغمبر کی اس دعا کا تعلق خود پیغمبر کے دل کی کیفیت سے ہے، نہ کہ خدا کے عذاب سے۔ پیغمبر کی یہ دعا بتاتی ہے کہ مومن ہر حال میں خدا سے ڈرنے والا انسان ہوتا ہے۔ خدا کا عذاب جب دوسروں کے ليے آرہا ہو اس وقت بھی مومن کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ وہ عاجزی کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ انسان صرف خدا کی عنایت سے بچ سکتا ہے نہ کہ اپنے کسی عمل یا اپنی کسی طاقت سے۔
پیغمبر کے منکرین پر خدا کا فیصلہ کبھی پیغمبر کی زندگی میں آتا ہے اور کبھی پیغمبر کی وفات کے بعد۔ آیت کا آخری ٹکڑا بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پر خدا کا یہ فیصلہ آپ کی زندگی ہی میں آیا۔ آپ کے دشمن آپ کی زندگی ہی میں پامال کردئے گئے۔
رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ
📘 پیغمبر کی اس دعا کا تعلق خود پیغمبر کے دل کی کیفیت سے ہے، نہ کہ خدا کے عذاب سے۔ پیغمبر کی یہ دعا بتاتی ہے کہ مومن ہر حال میں خدا سے ڈرنے والا انسان ہوتا ہے۔ خدا کا عذاب جب دوسروں کے ليے آرہا ہو اس وقت بھی مومن کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ وہ عاجزی کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ انسان صرف خدا کی عنایت سے بچ سکتا ہے نہ کہ اپنے کسی عمل یا اپنی کسی طاقت سے۔
پیغمبر کے منکرین پر خدا کا فیصلہ کبھی پیغمبر کی زندگی میں آتا ہے اور کبھی پیغمبر کی وفات کے بعد۔ آیت کا آخری ٹکڑا بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پر خدا کا یہ فیصلہ آپ کی زندگی ہی میں آیا۔ آپ کے دشمن آپ کی زندگی ہی میں پامال کردئے گئے۔
وَإِنَّا عَلَىٰ أَنْ نُرِيَكَ مَا نَعِدُهُمْ لَقَادِرُونَ
📘 پیغمبر کی اس دعا کا تعلق خود پیغمبر کے دل کی کیفیت سے ہے، نہ کہ خدا کے عذاب سے۔ پیغمبر کی یہ دعا بتاتی ہے کہ مومن ہر حال میں خدا سے ڈرنے والا انسان ہوتا ہے۔ خدا کا عذاب جب دوسروں کے ليے آرہا ہو اس وقت بھی مومن کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ وہ عاجزی کے ساتھ خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ انسان صرف خدا کی عنایت سے بچ سکتا ہے نہ کہ اپنے کسی عمل یا اپنی کسی طاقت سے۔
پیغمبر کے منکرین پر خدا کا فیصلہ کبھی پیغمبر کی زندگی میں آتا ہے اور کبھی پیغمبر کی وفات کے بعد۔ آیت کا آخری ٹکڑا بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین پر خدا کا یہ فیصلہ آپ کی زندگی ہی میں آیا۔ آپ کے دشمن آپ کی زندگی ہی میں پامال کردئے گئے۔
ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۚ نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ
📘 خدا کا داعی جب لوگوں کو حق کی طرف بلاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتاہے کہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ اس کے خلاف جھوٹے پروپيگنڈے کرتے ہیں۔ وہ اس کو اپنے شرکا نشانہ بناتے ہیں۔ اس وقت داعی کے اندر بھی جوابی ذہن ابھرتا ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ جن لوگوں نے تمھارے ساتھ برا سلوک کیا ہے تم بھی ان کے ساتھ برا سلوک کرو۔ اگر تم خاموش رہے تو ان کے حوصلے بڑھیں گے اور وہ مزید مخالفانہ کارروائی کرنے کے ليے دلیر ہوجائیں گے۔
مگر اس قسم کے خیالات شیطان کا وسوسہ ہیں۔ شیطان اس نازک موقع پر آدمی کو بہکاتا ہے تاکہ اس کو راہ سے بے راہ کردے۔ ایسے موقع پر داعی اور مومن کو چاہيے کہ وہ شیطانی بہکاووں کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے نہ کہ شیطانی بہکاووں کو مان کر اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے لگے۔
وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ
📘 خدا کا داعی جب لوگوں کو حق کی طرف بلاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتاہے کہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ اس کے خلاف جھوٹے پروپيگنڈے کرتے ہیں۔ وہ اس کو اپنے شرکا نشانہ بناتے ہیں۔ اس وقت داعی کے اندر بھی جوابی ذہن ابھرتا ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ جن لوگوں نے تمھارے ساتھ برا سلوک کیا ہے تم بھی ان کے ساتھ برا سلوک کرو۔ اگر تم خاموش رہے تو ان کے حوصلے بڑھیں گے اور وہ مزید مخالفانہ کارروائی کرنے کے ليے دلیر ہوجائیں گے۔
مگر اس قسم کے خیالات شیطان کا وسوسہ ہیں۔ شیطان اس نازک موقع پر آدمی کو بہکاتا ہے تاکہ اس کو راہ سے بے راہ کردے۔ ایسے موقع پر داعی اور مومن کو چاہيے کہ وہ شیطانی بہکاووں کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے نہ کہ شیطانی بہکاووں کو مان کر اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے لگے۔
وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ
📘 خدا کا داعی جب لوگوں کو حق کی طرف بلاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتاہے کہ لوگ اس کے دشمن بن جاتے ہیں۔ وہ اس کے خلاف جھوٹے پروپيگنڈے کرتے ہیں۔ وہ اس کو اپنے شرکا نشانہ بناتے ہیں۔ اس وقت داعی کے اندر بھی جوابی ذہن ابھرتا ہے۔ اس کے دل میں یہ خیال آتاہے کہ جن لوگوں نے تمھارے ساتھ برا سلوک کیا ہے تم بھی ان کے ساتھ برا سلوک کرو۔ اگر تم خاموش رہے تو ان کے حوصلے بڑھیں گے اور وہ مزید مخالفانہ کارروائی کرنے کے ليے دلیر ہوجائیں گے۔
مگر اس قسم کے خیالات شیطان کا وسوسہ ہیں۔ شیطان اس نازک موقع پر آدمی کو بہکاتا ہے تاکہ اس کو راہ سے بے راہ کردے۔ ایسے موقع پر داعی اور مومن کو چاہيے کہ وہ شیطانی بہکاووں کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے نہ کہ شیطانی بہکاووں کو مان کر اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے لگے۔
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ
📘 آخرت کے مناظر آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد کسی کویہ موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں آکر رہے اور صحیح عمل کا ثبوت دے۔ کیوں کہ دنیا کی زندگی کا مقصد امتحان ہے— اس بات کا امتحان کہ آدمی دیکھے بغیر جھکتا ہے یا نہیں۔ جب آخرت کا مشاہدہ کرادیا جائے تو اس کے بعد نہ جھکنے کی کوئی قیمت ہے اور نہ واپس بھیجنے کا کوئی امکان۔
آدمی کا امتحان دیکھ کر ماننے میں نہیں ہے بلکہ سوچ کر ماننے میں ہے۔ طالب علم کی جانچ پرچہ آؤٹ ہونے سے پہلے کی جاتی ہے۔ جب پرچہ آؤٹ ہو کر اخباروں میں چھپ چکا ہو، اس کے بعد کسی طالب علم کی جانچ کرنے کا کوئی سوال نہیں۔