🕋 تفسير سورة النور
(An-Nur) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ سُورَةٌ أَنْزَلْنَاهَا وَفَرَضْنَاهَا وَأَنْزَلْنَا فِيهَا آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
📘 سورہ نور غزوۂ بنی المصطلق کے بعد 6ہجری میں نازل ہوئی۔ اس غزوہ میں ایک معمولی واقعہ پیش آیا۔ اس کو شوشہ بنا کر مدینہ کے منافقین نے حضرت عائشہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنا شروع کیا۔ اس سورہ میں ایک طرف حضرت عائشہ کی کامل برأت کردی گئی اور دوسری وہ خاص احکام دئے گئے جو معاشرہ میں اس قسم کی صورت حال پیش آنے کے بعد نافذکيے جانے چاہئیں۔
اسلامی قانون میں زنا بے حد سنگین جرم ہے۔ تاہم اسلامی قانون دو قسم کے انسانوں میں فرق کرتاہے۔ ایک وہ جس کے ليے جائز صنفی تعلق کے مواقع موجود ہوں اس کے باوجود وہ ناجائز صنفی تعلق قائم کرے۔ دوسرا وہ جس کو ابھی جائز صنفی تعلق کے مواقع حاصل نہ ہوئے ہوں۔
’’زانی اور زانیہ کو سو کوڑے مارو‘‘— قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے
It is just to maintain a necessary level of order in society
عوام کے سامنے سزا دینا دراصل سزا میں عبرت کا پہلو شامل کرناہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حال کے مجرم کا انجام دیکھ کر مستقبل کے مجرم ڈر جائیں اور اس قسم کا جرم کرنے سے باز رہیں۔زانی اور زانیہ اگر سزا کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو وہ دوبارہ عام مسلمانوں کی طرح ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ توبہ اور اصلاح نہ کریں تو اس کے بعد وہ اس قابل نہیں رہتے کہ اسلام معاشرہ میں وہ رشتہ اور تعلق کے ليے قبول کيے جاسکیں۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ حَكِيمٌ
📘 داعی اگر واقعۃ ً سچائی پر ہے تو اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہمیشہ اس کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ جھو ٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آخر کا رکھل کر رہتی ہے۔ اور جب حقیقت کھلتی ہے تو ایک طرف داعی کا برسر حق ہونا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور جو لوگ اس کے بارے میں مذبذب تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عملاً دیکھ لیتے ہیں کہ داعیٔ حق کے مخالفین کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے خلاف الزام میں سب سے بڑا حصہ لینے والا مشہور منافق عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کے ليے قرآن میں سخت اخروی عذاب کا اعلان کیاگیا۔ مگر دنیا میں اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی موت مرگیا۔اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا اے عمرؓ، کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (فَكَيْفَ يَا عُمَرُ إذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ
291
۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مجرمین کو بھی دنیا میں سزا نہ دی جائے بلکہ ان کے معاملہ کو آخرت کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔
إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ۚ لَا تَحْسَبُوهُ شَرًّا لَكُمْ ۖ بَلْ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ ۚ وَالَّذِي تَوَلَّىٰ كِبْرَهُ مِنْهُمْ لَهُ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 داعی اگر واقعۃ ً سچائی پر ہے تو اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہمیشہ اس کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ جھو ٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آخر کا رکھل کر رہتی ہے۔ اور جب حقیقت کھلتی ہے تو ایک طرف داعی کا برسر حق ہونا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور جو لوگ اس کے بارے میں مذبذب تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عملاً دیکھ لیتے ہیں کہ داعیٔ حق کے مخالفین کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے خلاف الزام میں سب سے بڑا حصہ لینے والا مشہور منافق عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کے ليے قرآن میں سخت اخروی عذاب کا اعلان کیاگیا۔ مگر دنیا میں اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی موت مرگیا۔اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا اے عمرؓ، کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (فَكَيْفَ يَا عُمَرُ إذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ
291
۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مجرمین کو بھی دنیا میں سزا نہ دی جائے بلکہ ان کے معاملہ کو آخرت کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔
لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُبِينٌ
📘 ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان کرے۔ دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنا خود اپنے بد نفسی کا ثبوت ہے۔ اور دوسرے کے بارے میں نیک گمان کرنااپنی نیک نفسی کا ثبوت۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی کے بارے میں بری خبر دے تو فوراً اس سے ثبوت کا مطالبہ کیا جائے۔ جو شخص سنے وہ محض سن کر اس کو دہرانے نہ لگے بلکہ وہ خبر دینے والے سے کہے کہ اگر تم سچے ہو تو شریعت کے مطابق گواہ لے آؤ۔ اگر وہ گواہ لے آئے تو اس کی بات قابلِ لحاظ ہوسکتی ہے۔ اور اگر وہ اپنی بات کے حق میں گواہ نہ لائے تو وہ خود سب سے بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ بلا ثبوت کسی کے اوپر عیب لگانے لگے۔
لَوْلَا جَاءُوا عَلَيْهِ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ۚ فَإِذْ لَمْ يَأْتُوا بِالشُّهَدَاءِ فَأُولَٰئِكَ عِنْدَ اللَّهِ هُمُ الْكَاذِبُونَ
📘 ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں ہمیشہ نیک گمان کرے۔ دوسرے کے بارے میں بدگمانی کرنا خود اپنے بد نفسی کا ثبوت ہے۔ اور دوسرے کے بارے میں نیک گمان کرنااپنی نیک نفسی کا ثبوت۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی کے بارے میں بری خبر دے تو فوراً اس سے ثبوت کا مطالبہ کیا جائے۔ جو شخص سنے وہ محض سن کر اس کو دہرانے نہ لگے بلکہ وہ خبر دینے والے سے کہے کہ اگر تم سچے ہو تو شریعت کے مطابق گواہ لے آؤ۔ اگر وہ گواہ لے آئے تو اس کی بات قابلِ لحاظ ہوسکتی ہے۔ اور اگر وہ اپنی بات کے حق میں گواہ نہ لائے تو وہ خود سب سے بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ کسی شخص کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ بلا ثبوت کسی کے اوپر عیب لگانے لگے۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت حق کے داعی کی تھی۔ داعی کا معاملہ بے حد نازک معاملہ ہوتا ہے۔ کردار کی ایک غلطی اس کے پورے مشن کو ڈھادینے کے ليے کافی ہوتی ہے۔ایسی حالت میں جن لوگوں نے یہ کیا کہ ایک اسلامی خاتون کے بارے میں ایک بے بنیاد بات سن کر اس کو اِدھر اُدھر بیان کرنے لگے، انھوں نے سخت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد سے اس الزام کی بروقت تردید نہ ہو گئی ہوتی تو یہ غلطی اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی۔ اس کے نتیجے میں پورا سلامی معاشرہ بد گمانیوں کا شکار ہوجاتا۔ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگتے۔ جس گروہ کے ليے خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے شرک کا عالمی غلبہ ختم کیا جائے وہ آپس کی جنگ میں خود اپنے آپ کو ختم کرلیتا۔
إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت حق کے داعی کی تھی۔ داعی کا معاملہ بے حد نازک معاملہ ہوتا ہے۔ کردار کی ایک غلطی اس کے پورے مشن کو ڈھادینے کے ليے کافی ہوتی ہے۔ایسی حالت میں جن لوگوں نے یہ کیا کہ ایک اسلامی خاتون کے بارے میں ایک بے بنیاد بات سن کر اس کو اِدھر اُدھر بیان کرنے لگے، انھوں نے سخت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد سے اس الزام کی بروقت تردید نہ ہو گئی ہوتی تو یہ غلطی اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی۔ اس کے نتیجے میں پورا سلامی معاشرہ بد گمانیوں کا شکار ہوجاتا۔ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگتے۔ جس گروہ کے ليے خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے شرک کا عالمی غلبہ ختم کیا جائے وہ آپس کی جنگ میں خود اپنے آپ کو ختم کرلیتا۔
وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَٰذَا سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت حق کے داعی کی تھی۔ داعی کا معاملہ بے حد نازک معاملہ ہوتا ہے۔ کردار کی ایک غلطی اس کے پورے مشن کو ڈھادینے کے ليے کافی ہوتی ہے۔ایسی حالت میں جن لوگوں نے یہ کیا کہ ایک اسلامی خاتون کے بارے میں ایک بے بنیاد بات سن کر اس کو اِدھر اُدھر بیان کرنے لگے، انھوں نے سخت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد سے اس الزام کی بروقت تردید نہ ہو گئی ہوتی تو یہ غلطی اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی۔ اس کے نتیجے میں پورا سلامی معاشرہ بد گمانیوں کا شکار ہوجاتا۔ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگتے۔ جس گروہ کے ليے خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے شرک کا عالمی غلبہ ختم کیا جائے وہ آپس کی جنگ میں خود اپنے آپ کو ختم کرلیتا۔
يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت حق کے داعی کی تھی۔ داعی کا معاملہ بے حد نازک معاملہ ہوتا ہے۔ کردار کی ایک غلطی اس کے پورے مشن کو ڈھادینے کے ليے کافی ہوتی ہے۔ایسی حالت میں جن لوگوں نے یہ کیا کہ ایک اسلامی خاتون کے بارے میں ایک بے بنیاد بات سن کر اس کو اِدھر اُدھر بیان کرنے لگے، انھوں نے سخت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد سے اس الزام کی بروقت تردید نہ ہو گئی ہوتی تو یہ غلطی اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی۔ اس کے نتیجے میں پورا سلامی معاشرہ بد گمانیوں کا شکار ہوجاتا۔ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگتے۔ جس گروہ کے ليے خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے شرک کا عالمی غلبہ ختم کیا جائے وہ آپس کی جنگ میں خود اپنے آپ کو ختم کرلیتا۔
وَيُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت حق کے داعی کی تھی۔ داعی کا معاملہ بے حد نازک معاملہ ہوتا ہے۔ کردار کی ایک غلطی اس کے پورے مشن کو ڈھادینے کے ليے کافی ہوتی ہے۔ایسی حالت میں جن لوگوں نے یہ کیا کہ ایک اسلامی خاتون کے بارے میں ایک بے بنیاد بات سن کر اس کو اِدھر اُدھر بیان کرنے لگے، انھوں نے سخت غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مدد سے اس الزام کی بروقت تردید نہ ہو گئی ہوتی تو یہ غلطی اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا سبب بن جاتی۔ اس کے نتیجے میں پورا سلامی معاشرہ بد گمانیوں کا شکار ہوجاتا۔ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر آپس میں لڑنے لگتے۔ جس گروہ کے ليے خدا کا منصوبہ یہ تھا کہ اس کے ذریعے سے شرک کا عالمی غلبہ ختم کیا جائے وہ آپس کی جنگ میں خود اپنے آپ کو ختم کرلیتا۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 اس آیت میں ’’فاحشہ‘‘ کی اشاعت سے مراد اسی چیز کی اشاعت ہے جس کو اوپر آیت نمبر
11
میں اِفک کہا گیا ہے۔ یعنی کسی کے خلاف بے بنیاد الزام وضع کرنا اور اس کو لوگوں کے اندر پھیلانا۔
بات کہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی صرف وہ بات اپنے منه سے نکالے جس کے حق میں اس کے پاس فی الواقع کوئی مضبوط دلیل ہو، جو شرعی طورپر ثابت کی جاسکے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی حقیقی بنیاد کے بغیر خود اپنے ذہن سے بات گھڑنا اور اس کو لوگوں سے بیان کرنا۔ پہلا طریقہ جائز طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ سراسر ناجائز طریقہ۔
عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے مخالف کے بارے میں کوئی بات ہو تو آدمی اس کی زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ بلا بحث اس کو مان لیتا ہے اور دوسروں سے اس کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ فعل ہے بلکہ وہ بہت بڑا جرم ہے۔ وہ دنیا میں بھی قابل سزا ہے اور آخرت میں بھی۔
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
📘 سورہ نور غزوۂ بنی المصطلق کے بعد 6ہجری میں نازل ہوئی۔ اس غزوہ میں ایک معمولی واقعہ پیش آیا۔ اس کو شوشہ بنا کر مدینہ کے منافقین نے حضرت عائشہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنا شروع کیا۔ اس سورہ میں ایک طرف حضرت عائشہ کی کامل برأت کردی گئی اور دوسری وہ خاص احکام دئے گئے جو معاشرہ میں اس قسم کی صورت حال پیش آنے کے بعد نافذکيے جانے چاہئیں۔
اسلامی قانون میں زنا بے حد سنگین جرم ہے۔ تاہم اسلامی قانون دو قسم کے انسانوں میں فرق کرتاہے۔ ایک وہ جس کے ليے جائز صنفی تعلق کے مواقع موجود ہوں اس کے باوجود وہ ناجائز صنفی تعلق قائم کرے۔ دوسرا وہ جس کو ابھی جائز صنفی تعلق کے مواقع حاصل نہ ہوئے ہوں۔
’’زانی اور زانیہ کو سو کوڑے مارو‘‘— قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے
It is just to maintain a necessary level of order in society
عوام کے سامنے سزا دینا دراصل سزا میں عبرت کا پہلو شامل کرناہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حال کے مجرم کا انجام دیکھ کر مستقبل کے مجرم ڈر جائیں اور اس قسم کا جرم کرنے سے باز رہیں۔زانی اور زانیہ اگر سزا کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو وہ دوبارہ عام مسلمانوں کی طرح ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ توبہ اور اصلاح نہ کریں تو اس کے بعد وہ اس قابل نہیں رہتے کہ اسلام معاشرہ میں وہ رشتہ اور تعلق کے ليے قبول کيے جاسکیں۔
وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ وَأَنَّ اللَّهَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
📘 اس آیت میں ’’فاحشہ‘‘ کی اشاعت سے مراد اسی چیز کی اشاعت ہے جس کو اوپر آیت نمبر
11
میں اِفک کہا گیا ہے۔ یعنی کسی کے خلاف بے بنیاد الزام وضع کرنا اور اس کو لوگوں کے اندر پھیلانا۔
بات کہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی صرف وہ بات اپنے منه سے نکالے جس کے حق میں اس کے پاس فی الواقع کوئی مضبوط دلیل ہو، جو شرعی طورپر ثابت کی جاسکے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کسی حقیقی بنیاد کے بغیر خود اپنے ذہن سے بات گھڑنا اور اس کو لوگوں سے بیان کرنا۔ پہلا طریقہ جائز طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ سراسر ناجائز طریقہ۔
عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اپنے مخالف کے بارے میں کوئی بات ہو تو آدمی اس کی زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ وہ بلا بحث اس کو مان لیتا ہے اور دوسروں سے اس کو بیان کرنا شروع کردیتا ہے۔ یہ نہ صرف غیر ذمہ دارانہ فعل ہے بلکہ وہ بہت بڑا جرم ہے۔ وہ دنیا میں بھی قابل سزا ہے اور آخرت میں بھی۔
۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ۚ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَكَىٰ مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يُزَكِّي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 شیطان کے قدموں پر چلنا یہ ہے کہ آدمی شیطانی وسوسوں کی پیروی کرنے لگے۔ ایک بے بنیاد بات پر جب کسی کے اندر بد گمانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو یہ ایک شیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔ اپنے مخالف کے بارے میں جب آدمی کے اندر منفی خیالات ابھرتے ہیں تو یہ بھی دراصل شیطان ہوتا ہے جو اس کے دل میں رینگتا ہے۔ ایسے جذبات اور خیالات جب کسی کے اندر پیداہوں تو اس کو چاہيے کہ وہ اندر ہی اندر ان کو کچل دے، نہ یہ کہ وہ ان کی پیروی کرنے لگے۔ ایسے احساسات کی پیروی کرنا براہ راست شیطان کی پیروی کرناہے۔
دوسروں کے خلاف طوفان اٹھانا ایک ایسا عمل ہے جو تواضع کے خلاف ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے بارے میں ضرورت سے زیادہ خوش گمان ہوتا ہے۔ اور دوسرے کے بارے میں ضرورت سے زیادہ بدگمان۔ یہ دونوں ہی باتیں ایسی ہیں جو ایمان کےساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔ اگر آدمی کے اندر ایمانی تواضع پیدا ہوجائے تو وہ اپنے احتساب میں اتنا زیادہ مشغول ہوگا کہ اس کو فرصت ہی نہ ہوگی کہ وہ دوسرے کے احتساب کا جھوٹا جھنڈا اٹھائے۔
وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 حضرت عائشہ کے خلاف طوفان اٹھانے والوں میں ایک صاحب مسطح بن اُثاثہ تھے۔ وہ ایک مفلس مہاجر تھے اور حضرت ابوبکر کے دور کے رشتہ دار تھے۔ حضرت ابوبکر اعانت کے طورپر ان کو کچھ رقم دیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ ابوبکر کی صاحب زادی تھیں۔ قدرتی طورپر حضرت ابو بکر کو مسطح بن اثاثہ کے عمل سے تکلیف ہوئی۔ آپ نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کی کوئی مدد نہ کریںگے۔
اسلام میں محتاجوں کی مدد ان کی محتاجی کی بنیاد پر ہوتی ہے، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ چنانچہ قرآن میں یہ حکم اترا کہ تم میں سے جو لوگ صاحب مال ہیں وہ ذاتی شکایت کی بنا پر بے مال لوگوں کی امداد بند نہ کریں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتم کو معاف کردے۔ اگر تم اپنے ليے خدا سے معافی کے امیدوار ہو تو تمھیں بھی دوسروں کے بارے میں معافی کا طریقہ اختیار کرنا چاہيے۔ یہ آیت سن کر حضرت ابوبکر نے کہا بَلَى وَاَللهِ، إنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللهُ لِي (سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 303-4)۔ ہاں، خدا کی قسم، میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ مجھے معاف کردے۔ اور دوبارہ مسطح کی امداد جاری کردی۔
مومن کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت خدا کے حکم کی ہوتی ہے۔ خدا کا حکم سامنے آتے ہی وہ فوراً جھک جاتا ہے، خواہ خدا کا حکم اس کی خواہش کے سراسر خلاف کیوں نہ ہو۔
إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 انسان اپنی زبان سے دوسروں کے خلاف برے الفاظ نکالتا ہے۔ مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دوسروں تک پہنچنے سے پہلے خدا تک پہنچ رہے ہیں۔ آدمی اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں کو دوسروں پر ظلم کرنے کے ليے استعمال کرتا ہے۔ مگر وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ قیامت جب آئے گی تو اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے ہاتھ اور پاؤں نہ رہیں گے بلکہ وہ خدا کے گواہ بن جائیں گے۔
یہی بے خبری تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر آدمی کو اس حقیقت حال کا واقعی احساس ہو کہ وہ ایسی دنیا میں ہے جہاں وہ ہر آن خدا کی نگاہ میں ہے، جہاں اس کا ہر عمل خدائی نظام کے تحت ریکارڈ ہورہا ہے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ وہ ہر لفظ تول کر اپنی زبان سے نکالے۔ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی طاقت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ استعمال کرے۔
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 انسان اپنی زبان سے دوسروں کے خلاف برے الفاظ نکالتا ہے۔ مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دوسروں تک پہنچنے سے پہلے خدا تک پہنچ رہے ہیں۔ آدمی اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں کو دوسروں پر ظلم کرنے کے ليے استعمال کرتا ہے۔ مگر وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ قیامت جب آئے گی تو اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے ہاتھ اور پاؤں نہ رہیں گے بلکہ وہ خدا کے گواہ بن جائیں گے۔
یہی بے خبری تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر آدمی کو اس حقیقت حال کا واقعی احساس ہو کہ وہ ایسی دنیا میں ہے جہاں وہ ہر آن خدا کی نگاہ میں ہے، جہاں اس کا ہر عمل خدائی نظام کے تحت ریکارڈ ہورہا ہے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ وہ ہر لفظ تول کر اپنی زبان سے نکالے۔ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی طاقت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ استعمال کرے۔
يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُ
📘 انسان اپنی زبان سے دوسروں کے خلاف برے الفاظ نکالتا ہے۔ مگر وہ نہیں جانتا کہ اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ دوسروں تک پہنچنے سے پہلے خدا تک پہنچ رہے ہیں۔ آدمی اپنے ہاتھ اور اپنے پاؤں کو دوسروں پر ظلم کرنے کے ليے استعمال کرتا ہے۔ مگر وہ اس سے بے خبر ہوتا ہے کہ قیامت جب آئے گی تو اس کے ہاتھ اور پاؤں اس کے ہاتھ اور پاؤں نہ رہیں گے بلکہ وہ خدا کے گواہ بن جائیں گے۔
یہی بے خبری تمام برائیوں کی اصل جڑ ہے۔ اگر آدمی کو اس حقیقت حال کا واقعی احساس ہو کہ وہ ایسی دنیا میں ہے جہاں وہ ہر آن خدا کی نگاہ میں ہے، جہاں اس کا ہر عمل خدائی نظام کے تحت ریکارڈ ہورہا ہے تو اس کی زندگی بالکل بدل جائے۔ وہ ہر لفظ تول کر اپنی زبان سے نکالے۔ وہ اپنے ہاتھ اور پاؤں کی طاقت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ استعمال کرے۔
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
📘 خبیثات سے مراد خبیث کلمات ہیں اور اسی طرح طیبات سے مراد طیب کلمات۔مطلب یہ ہے کہ محض کسی کے برا کہنے سے کوئی شخص برا نہیں ہوجاتا۔ آدمی خود جیسا ہو ویسی ہی بات اس کے اوپر چسپاں ہوتی ہے۔ برے لوگ اچھے لوگوں کے بارے میں بری بات کہیں تو ایسی بات آخرکار خود کہنے والے پر پڑتی ہے اور اچھے لوگ اس سے پوری طرح بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔
جو لوگ اپنی ذات میںاچھے ہوں وہ دنیا میں بھی جھوٹے الزامات سے بری ہو کر رہتے ہیں۔ اور آخرت میں تو ان کا بری ہونا بالکل یقینی ہے۔ آخرت میں انھیں مزید اضافہ کے ساتھ خدا کے انعامات ملیںگے۔ کیوں کہ ان کے خلاف ناحق باتیں دراصل اس بات کی قیمت تھیں کہ انھوںنے اپنے آپ کو ناحق سے کاٹا اور اپنے آپ کو پوری طرح حق کے ساتھ وابستہ کیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّىٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَىٰ أَهْلِهَا ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
📘 اجتماعی زندگی میں اکثر ملاقات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اب ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی بلا اطلاع کسی کے یہاں پہنچے اور اچانک اس کے مکان کے اندر داخل ہوجائے۔ یہ طریقہ دونوں ہی کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ اس ليے پیشگی اجازت کو ملاقات کے آداب میں شامل کیاگیا۔
اگر ممکن ہو تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے گھر سے روانہ ہونے سے پہلے صاحب ملاقات سے ربط قائم کیا جائے اور اس سے پیشگی طورپر ملاقات کا وقت مقرر کرلیا جائے۔ اور پھر جب آدمی اس کے مکان پر پہنچے تو اندر داخل ہونے سے پہلے اس کی باقاعدہ اجازت لے۔ تمدنی حالات کے لحاظ سے اس اجازت کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ تاہم ہر طریقہ میںاسلامی شائستگی کی شرط موجود رہنا ضروری ہے۔
اسلام اجتماعی زندگی کے تمام معاملات کو اعلیٰ ظرفی کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہی اعلیٰ ظرفی ملاقات کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ اگر آپ کسی سے ملنے کے ليے اس کے گھر جائیں، اور صاحب خانہ کسی وجہ سے اس وقت ملاقات سے معذرت کرے تو آپ کو خوش دلی کے ساتھ واپس آجانا چاہیے۔ تاہم وہ اجتماعی مقامات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جہاں اصولاً لوگوں کے ليے داخلہ کی عام اجازت ہوتی ہے۔
فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّىٰ يُؤْذَنَ لَكُمْ ۖ وَإِنْ قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ۖ هُوَ أَزْكَىٰ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
📘 اجتماعی زندگی میں اکثر ملاقات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اب ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی بلا اطلاع کسی کے یہاں پہنچے اور اچانک اس کے مکان کے اندر داخل ہوجائے۔ یہ طریقہ دونوں ہی کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ اس ليے پیشگی اجازت کو ملاقات کے آداب میں شامل کیاگیا۔
اگر ممکن ہو تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے گھر سے روانہ ہونے سے پہلے صاحب ملاقات سے ربط قائم کیا جائے اور اس سے پیشگی طورپر ملاقات کا وقت مقرر کرلیا جائے۔ اور پھر جب آدمی اس کے مکان پر پہنچے تو اندر داخل ہونے سے پہلے اس کی باقاعدہ اجازت لے۔ تمدنی حالات کے لحاظ سے اس اجازت کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ تاہم ہر طریقہ میںاسلامی شائستگی کی شرط موجود رہنا ضروری ہے۔
اسلام اجتماعی زندگی کے تمام معاملات کو اعلیٰ ظرفی کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہی اعلیٰ ظرفی ملاقات کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ اگر آپ کسی سے ملنے کے ليے اس کے گھر جائیں، اور صاحب خانہ کسی وجہ سے اس وقت ملاقات سے معذرت کرے تو آپ کو خوش دلی کے ساتھ واپس آجانا چاہیے۔ تاہم وہ اجتماعی مقامات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جہاں اصولاً لوگوں کے ليے داخلہ کی عام اجازت ہوتی ہے۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ
📘 اجتماعی زندگی میں اکثر ملاقات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اب ایک طریقہ یہ ہے کہ آدمی بلا اطلاع کسی کے یہاں پہنچے اور اچانک اس کے مکان کے اندر داخل ہوجائے۔ یہ طریقہ دونوں ہی کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔ اس ليے پیشگی اجازت کو ملاقات کے آداب میں شامل کیاگیا۔
اگر ممکن ہو تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے گھر سے روانہ ہونے سے پہلے صاحب ملاقات سے ربط قائم کیا جائے اور اس سے پیشگی طورپر ملاقات کا وقت مقرر کرلیا جائے۔ اور پھر جب آدمی اس کے مکان پر پہنچے تو اندر داخل ہونے سے پہلے اس کی باقاعدہ اجازت لے۔ تمدنی حالات کے لحاظ سے اس اجازت کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ تاہم ہر طریقہ میںاسلامی شائستگی کی شرط موجود رہنا ضروری ہے۔
اسلام اجتماعی زندگی کے تمام معاملات کو اعلیٰ ظرفی کی بنیاد پر قائم کرنا چاہتا ہے۔ یہی اعلیٰ ظرفی ملاقات کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ اگر آپ کسی سے ملنے کے ليے اس کے گھر جائیں، اور صاحب خانہ کسی وجہ سے اس وقت ملاقات سے معذرت کرے تو آپ کو خوش دلی کے ساتھ واپس آجانا چاہیے۔ تاہم وہ اجتماعی مقامات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں جہاں اصولاً لوگوں کے ليے داخلہ کی عام اجازت ہوتی ہے۔
الزَّانِي لَا يَنْكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ
📘 سورہ نور غزوۂ بنی المصطلق کے بعد 6ہجری میں نازل ہوئی۔ اس غزوہ میں ایک معمولی واقعہ پیش آیا۔ اس کو شوشہ بنا کر مدینہ کے منافقین نے حضرت عائشہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنا شروع کیا۔ اس سورہ میں ایک طرف حضرت عائشہ کی کامل برأت کردی گئی اور دوسری وہ خاص احکام دئے گئے جو معاشرہ میں اس قسم کی صورت حال پیش آنے کے بعد نافذکيے جانے چاہئیں۔
اسلامی قانون میں زنا بے حد سنگین جرم ہے۔ تاہم اسلامی قانون دو قسم کے انسانوں میں فرق کرتاہے۔ ایک وہ جس کے ليے جائز صنفی تعلق کے مواقع موجود ہوں اس کے باوجود وہ ناجائز صنفی تعلق قائم کرے۔ دوسرا وہ جس کو ابھی جائز صنفی تعلق کے مواقع حاصل نہ ہوئے ہوں۔
’’زانی اور زانیہ کو سو کوڑے مارو‘‘— قرآن میں کچھ ایسے قانونی احکام ہیں جو حکومتی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً چوری، زنا، شراب خوری، قذَف، قتل، وغیرہ۔ مگر اس قسم کے احکام بہت کم ہیں۔ ان احکام کو وضع کرنے کا مقصد ’’معیار ی سماج‘‘بنانا نہیں ہے بلکہ ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ سماج میں ضروری نظم برقرار رہے
It is just to maintain a necessary level of order in society
عوام کے سامنے سزا دینا دراصل سزا میں عبرت کا پہلو شامل کرناہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ حال کے مجرم کا انجام دیکھ کر مستقبل کے مجرم ڈر جائیں اور اس قسم کا جرم کرنے سے باز رہیں۔زانی اور زانیہ اگر سزا کے بعد توبہ اور اصلاح کرلیں تو وہ دوبارہ عام مسلمانوں کی طرح ہوجائیں گے۔ لیکن اگر وہ توبہ اور اصلاح نہ کریں تو اس کے بعد وہ اس قابل نہیں رہتے کہ اسلام معاشرہ میں وہ رشتہ اور تعلق کے ليے قبول کيے جاسکیں۔
قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ
📘 عورت اور مرد گھر میں اور معاشرہ میں کس طرح رہیں، اس سلسلہ میں یہاں دو اصولی ہدایتیں دی گئی ہیں۔ ایک ہے ستر کو ڈھانکنا۔ اور دوسرے نگاہ کو نیچی رکھنا۔
مرد کے جسم کا وہ حصہ جو اس کو ہر حال میں چھپائے رکھنا ہے وہ ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے۔ یہ ستر ہے اور اس کو اپنی بیوی کے سوا کسی اور کے سامنے کھولنا جائز نہیں۔ اِلاّ یہ کہ اس نوعیت کی کوئی ضرورت پیش آجائے جب کہ حرام بھی حلال ہوجاتا ہے۔ مثلاً طبی معائنہ کے ليے۔
دوسری ضروری چیز یہ ہے کہ جب مرد اور عورت کا سامنا ہو تو مردوں کو چاہيے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ مرد اور عورت کی ملاقات اس طرح بے تکلف انداز میں نہیں ہونی چاہيے جس طرح مرد اور مرد ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مرد اور عورت کی ملاقات میں مرد کی نگاہیں نیچی رہنی چاہئیں۔ اگر اتفاقاً مرد کی نگاہ کسی اجنبی عورت پر پڑ جائے تو وہ فوراً اپنی نظر اس سے ہٹا لے۔ وہ بالقصد دوسری بار اس کی طرف نہ دیکھے۔
غض بصر اور حفاظت فروج کا جو حکم مردوں کے ليے ہے وہی حکم عورتوں کے ليے بھی ہے، جیسا کہ اگلی آیت
31
سے واضح ہے۔
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
📘 خواتین کے سلسلہ میں اسلام کے احکام دو پہلوؤں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وہ جس کا عنوان ستر ہے اور دوسرے وہ جس کا عنوان حجاب ہے۔ ستر کا تعلق جسم کے پردہ سے ہے۔ یعنی عورت خواہ گھر کے اندر ہو یا گھر کے باہر، اس کو اپنے بدن کا کون سا حصہ، کس کے سامنے اور کن حالات میں کھلا رکھنا جائز ہے اور کب کھلا رکھنا جائز نہیں۔
حجاب کا تعلق باہر کے پردہ سے ہے، یعنی اس مسئلہ سے کہ شریعت نے عورت کوکن حالات میں گھر سے باہر نکلنے اور سفر کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان آیات میں بنیادی طورپر ستر کا مسئلہ بیان ہوا ہے۔ حجاب کا مسئلہ آگے سورہ احزاب میں ہے۔
’’اے مومنو تم سب اللہ کی طرف رجوع کرو‘‘— یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ احکام شریعت کی تعمیل کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ دلوں کے اندر اس کی آمادگی ہو۔ صحابہ اور صحابیات اس معاملہ میں آخری معیاری درجہ پر تھے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ خدا کی قسم میں نے خداکی کتاب کی تصدیق اور اس کے احکام پر ایمان کے معاملہ میں انصار کی عورتوں سے بہتر کسی کو نہیں پایا۔ جب سورہ نور کی آیت (وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ) اتری تو ان کے مرد اپنے گھروں کی طرف لوٹے۔ انھوں نے اپنی عورتوں اور لڑکیوں اور بہنوں کو وہ حکم سنایا جو خدانے ان کے ليے اتارا تھا۔ پس انصار کی عورتوں میں سے ہر عورت فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ کسی نے اپنی کمر پٹی کھول کر اور کسی نے اپنی چادر لے کر اس کا دوپٹہ بنایا اور اس کو اوڑھ لیا۔ اگلے دن صبح کی نماز انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑھی تو دوپٹہ کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ان کے سروں پر کوّے ہوں (تفسیر ابن ابی حاتم، حدیث نمبر 14406)۔
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
📘 اسلام مرد اور عورت کے ليے شادی شدہ زندگی پسند کرتا ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر نکاح سے رکنا اسلام میں درست نہیں۔ کچھ لوگ کسی ذاتی سبب سے غیر شادی شدہ رہ جائیں تو اس وقت اسلام پورے معاشرہ میں یہ روح دیکھنا چاہتا ہے کہ تمام لوگ اس کو ایک مشترک مسئلہ سمجھیں اور اس وقت تک مطمئن نہ ہوں جب تک وہ اس مسئلہ کو شرعی طریقوں سے حل نہ کرلیں۔
کتاب یا مکاتبت کے لفظی معنی ہیں لکھنا۔ اس سے مراد وہ تحریر ہے جس میں کوئی لونڈی یا غلام اپنے آقا سے یہ عہد کرے کہ میں اتنی مدت میں اتنا مال کما کر تجھے دے دوں گا اور اس کے بعد سے میں آزاد ہوں گا۔
اسلام جس زمانہ میں آیا اس وقت عرب میں اور ساری دنیا میں غلام بنانے کا رواج تھا۔ اسلام نے نہایت منظم طورپر اس کو ختم کرناشروع کیا۔ اسی میں سے ایک طریقہ وہ تھا جس کو مکاتبت کہاجاتا ہے۔ تاہم اسلام نے فک رقبہ (گردنیں چھڑانے) کی یہ مہم اپنے عام اصول کے مطابق تدریج کے تحت چلائی۔ مختلف طریقوں سے غلاموں اور لونڈیوں کو رہا کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ خلافت راشدہ کے آخری دور تک اس ادارہ کا تقریباً خاتمہ ہوگیا۔
قدیم زمانہ میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ مدینہ کے منافق عبد اللہ بن ابی کے پاس کئی لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کراکر وہ رقم حاصل کرتا تھا۔ ان میں سے ایک لونڈی نے اسلام قبول کرلیا اور کسب سے باز آنا چاہا تو عبد اللہ بن ابی نے اس پر جبر کرنا شروع کیا۔ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ لونڈی عبد اللہ بن ابی کے قبضہ سے رہا کرائی گئی۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُمْ مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَاءِ إِنْ أَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِتَبْتَغُوا عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَنْ يُكْرِهْهُنَّ فَإِنَّ اللَّهَ مِنْ بَعْدِ إِكْرَاهِهِنَّ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 اسلام مرد اور عورت کے ليے شادی شدہ زندگی پسند کرتا ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر نکاح سے رکنا اسلام میں درست نہیں۔ کچھ لوگ کسی ذاتی سبب سے غیر شادی شدہ رہ جائیں تو اس وقت اسلام پورے معاشرہ میں یہ روح دیکھنا چاہتا ہے کہ تمام لوگ اس کو ایک مشترک مسئلہ سمجھیں اور اس وقت تک مطمئن نہ ہوں جب تک وہ اس مسئلہ کو شرعی طریقوں سے حل نہ کرلیں۔
کتاب یا مکاتبت کے لفظی معنی ہیں لکھنا۔ اس سے مراد وہ تحریر ہے جس میں کوئی لونڈی یا غلام اپنے آقا سے یہ عہد کرے کہ میں اتنی مدت میں اتنا مال کما کر تجھے دے دوں گا اور اس کے بعد سے میں آزاد ہوں گا۔
اسلام جس زمانہ میں آیا اس وقت عرب میں اور ساری دنیا میں غلام بنانے کا رواج تھا۔ اسلام نے نہایت منظم طورپر اس کو ختم کرناشروع کیا۔ اسی میں سے ایک طریقہ وہ تھا جس کو مکاتبت کہاجاتا ہے۔ تاہم اسلام نے فک رقبہ (گردنیں چھڑانے) کی یہ مہم اپنے عام اصول کے مطابق تدریج کے تحت چلائی۔ مختلف طریقوں سے غلاموں اور لونڈیوں کو رہا کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ خلافت راشدہ کے آخری دور تک اس ادارہ کا تقریباً خاتمہ ہوگیا۔
قدیم زمانہ میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ مدینہ کے منافق عبد اللہ بن ابی کے پاس کئی لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کراکر وہ رقم حاصل کرتا تھا۔ ان میں سے ایک لونڈی نے اسلام قبول کرلیا اور کسب سے باز آنا چاہا تو عبد اللہ بن ابی نے اس پر جبر کرنا شروع کیا۔ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ لونڈی عبد اللہ بن ابی کے قبضہ سے رہا کرائی گئی۔
وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِنَ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ
📘 اسلام مرد اور عورت کے ليے شادی شدہ زندگی پسند کرتا ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر نکاح سے رکنا اسلام میں درست نہیں۔ کچھ لوگ کسی ذاتی سبب سے غیر شادی شدہ رہ جائیں تو اس وقت اسلام پورے معاشرہ میں یہ روح دیکھنا چاہتا ہے کہ تمام لوگ اس کو ایک مشترک مسئلہ سمجھیں اور اس وقت تک مطمئن نہ ہوں جب تک وہ اس مسئلہ کو شرعی طریقوں سے حل نہ کرلیں۔
کتاب یا مکاتبت کے لفظی معنی ہیں لکھنا۔ اس سے مراد وہ تحریر ہے جس میں کوئی لونڈی یا غلام اپنے آقا سے یہ عہد کرے کہ میں اتنی مدت میں اتنا مال کما کر تجھے دے دوں گا اور اس کے بعد سے میں آزاد ہوں گا۔
اسلام جس زمانہ میں آیا اس وقت عرب میں اور ساری دنیا میں غلام بنانے کا رواج تھا۔ اسلام نے نہایت منظم طورپر اس کو ختم کرناشروع کیا۔ اسی میں سے ایک طریقہ وہ تھا جس کو مکاتبت کہاجاتا ہے۔ تاہم اسلام نے فک رقبہ (گردنیں چھڑانے) کی یہ مہم اپنے عام اصول کے مطابق تدریج کے تحت چلائی۔ مختلف طریقوں سے غلاموں اور لونڈیوں کو رہا کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ خلافت راشدہ کے آخری دور تک اس ادارہ کا تقریباً خاتمہ ہوگیا۔
قدیم زمانہ میں بعض لوگ اپنی لونڈیوں سے کسب کراتے تھے۔ مدینہ کے منافق عبد اللہ بن ابی کے پاس کئی لونڈیاں تھیں جن سے بدکاری کراکر وہ رقم حاصل کرتا تھا۔ ان میں سے ایک لونڈی نے اسلام قبول کرلیا اور کسب سے باز آنا چاہا تو عبد اللہ بن ابی نے اس پر جبر کرنا شروع کیا۔ بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ لونڈی عبد اللہ بن ابی کے قبضہ سے رہا کرائی گئی۔
۞ اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 یہ ایک مرکب تمثیل ہے۔ اس آیت میں روشنی سے مراد اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے۔ طاق سے مراد انسان کا دل ہے اور چراغ سے مراد ایمان کی استعداد ہے۔ شیشہ اور تیل اسی استعداد کی مزید خصوصیت کو بتارہے ہیں۔شیشہ اس بات کی تعبیر ہے کہ یہ استعداد قلبِ انسانی میں اس طرح رکھی گئی ہے کہ وہ خارجی اثرات سے پوری طرح محفوظ رہے۔ اور شفاف تیل اس بات کی تعبیر ہے کہ اس کی یہ استعداد اتنی قوی ہے کہ وہ بے تاب ہورہی ہے کہ کب اس کے سامنے حق آئے اور وہ اس کو بلا تاخیر قبول کرلے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کائنات میں روشنی کا واحد ماخذ صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ اسی سے ہر ایک کوروشنی اور ہدایات ملتی ہے۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ اس کے اندر فطری طورپر حق کی طلب موجود ہے۔ یہ طلب بے حد طاقت ور ہے۔ اور اگر اس کو ضائع نہ کیا جائے تو وہ ہر آن اپنا جواب پانے کے ليے بے تاب رہتی ہے۔ باعتبار فطرت انسان کی استعدادِ قبول اتنی بڑھی ہوئی ہے گویا وہ کوئی پٹرول ہے کہ آگ اگر اس کے قریب بھی لائی جائے تو وہ فوراً بھڑک اٹھے۔
مومن وہ حقیقی انسان ہے جس نے اپنی فطری استعداد کو ضائع نہیں کیا۔ چنانچہ حق کی دعوت سامنے آتے ہی اس کی استعداد جاگ اٹھی۔ نور فطرت کے ساتھ نور ہدایت نے مل کر اس کے پورے وجود کو روشن کردیا۔
فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ
📘 انسانی جسم میں جو مقام دل کا ہے وہی مقام انسانی بستی میں مسجد کا ہے۔ انسان کا دل ایمان سے آباد ہوتا ہے اور مسجدیں اللہ کی عبادت سے آباد ہوتی ہیں۔ مسجدیں خدا کا گھر ہیں۔وہ اسی ليے بنائی جاتی ہیں کہ وہاں اللہ کی یاد کی جائے۔ وہاں آنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس ليے آتے ہیں کہ وہاں کے روحانی ماحول میں اللہ کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ وہ اس ليے آتے ہیں کہ اپنے آپ کو یکسو کرکے کچھ وقت اللہ کی عبادت میں گزاریں۔
جس انسان کو یہ توفیق ملے کہ وہ اپنی فطرت کی آواز کو پہچان کر خدا پر ایمان لائے۔ اور پھر وہ اپنے آپ کو مسجد والے اعمال میں مشغول کرلے اس کے دل میں اللہ اپنی ہیبت کا احساس ڈال دیتا ہے جو موجودہ دنیا میں کسی انسان کے ليے سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قربانی کی سطح پر خدا پرستی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور غیر خدا سے کٹ کر خداوالے بنتے ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جو اللہ کے یہاں بہترین انعام کا مستحق ہے۔ اللہ اس کو بے حساب فضل عطا فرمائے گا۔
رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ
📘 انسانی جسم میں جو مقام دل کا ہے وہی مقام انسانی بستی میں مسجد کا ہے۔ انسان کا دل ایمان سے آباد ہوتا ہے اور مسجدیں اللہ کی عبادت سے آباد ہوتی ہیں۔ مسجدیں خدا کا گھر ہیں۔وہ اسی ليے بنائی جاتی ہیں کہ وہاں اللہ کی یاد کی جائے۔ وہاں آنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس ليے آتے ہیں کہ وہاں کے روحانی ماحول میں اللہ کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ وہ اس ليے آتے ہیں کہ اپنے آپ کو یکسو کرکے کچھ وقت اللہ کی عبادت میں گزاریں۔
جس انسان کو یہ توفیق ملے کہ وہ اپنی فطرت کی آواز کو پہچان کر خدا پر ایمان لائے۔ اور پھر وہ اپنے آپ کو مسجد والے اعمال میں مشغول کرلے اس کے دل میں اللہ اپنی ہیبت کا احساس ڈال دیتا ہے جو موجودہ دنیا میں کسی انسان کے ليے سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قربانی کی سطح پر خدا پرستی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور غیر خدا سے کٹ کر خداوالے بنتے ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جو اللہ کے یہاں بہترین انعام کا مستحق ہے۔ اللہ اس کو بے حساب فضل عطا فرمائے گا۔
لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا عَمِلُوا وَيَزِيدَهُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
📘 انسانی جسم میں جو مقام دل کا ہے وہی مقام انسانی بستی میں مسجد کا ہے۔ انسان کا دل ایمان سے آباد ہوتا ہے اور مسجدیں اللہ کی عبادت سے آباد ہوتی ہیں۔ مسجدیں خدا کا گھر ہیں۔وہ اسی ليے بنائی جاتی ہیں کہ وہاں اللہ کی یاد کی جائے۔ وہاں آنے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو اس ليے آتے ہیں کہ وہاں کے روحانی ماحول میں اللہ کی طرف متوجہ ہوسکیں۔ وہ اس ليے آتے ہیں کہ اپنے آپ کو یکسو کرکے کچھ وقت اللہ کی عبادت میں گزاریں۔
جس انسان کو یہ توفیق ملے کہ وہ اپنی فطرت کی آواز کو پہچان کر خدا پر ایمان لائے۔ اور پھر وہ اپنے آپ کو مسجد والے اعمال میں مشغول کرلے اس کے دل میں اللہ اپنی ہیبت کا احساس ڈال دیتا ہے جو موجودہ دنیا میں کسی انسان کے ليے سب سے بڑی نعمت ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو قربانی کی سطح پر خدا پرستی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور غیر خدا سے کٹ کر خداوالے بنتے ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جو اللہ کے یہاں بہترین انعام کا مستحق ہے۔ اللہ اس کو بے حساب فضل عطا فرمائے گا۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍ بِقِيعَةٍ يَحْسَبُهُ الظَّمْآنُ مَاءً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَهُ لَمْ يَجِدْهُ شَيْئًا وَوَجَدَ اللَّهَ عِنْدَهُ فَوَفَّاهُ حِسَابَهُ ۗ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
📘 انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جس کا ذکر آیت
35
میں تھا۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنی فطری استعداد کو زندہ رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایمان کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے۔ اب آیت
39-40
میںانسانوں کی مزید دو قسموں کا ذکر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تیل دعوتِ حق کی آگ سے بھڑکنے کے ليے تیار نہیں ہوتا۔
ایک قسم وہ ہے جو کسی خود ساختہ دین پر قائم رہتی ہے۔ وہ جھوٹی تمناؤں کا ایک محل بناکر اس میں خوش رہتی ہے۔ یہ لوگ اسی طرح خوش گمانیوں میں پڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب موت آتی ہے تو ان کی خوش گمانیوں کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ اور پھر اچانک انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کو وہ منزل سمجھے ہوئے تھے وہ ہلاکت کے گڑھے کے سوا اور کچھ نہ تھی۔
دوسری قسم وہ ہے جو کھلم کھلا منکروں اور باغیوں کی ہے۔ یہ لوگ خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر بطور خود ہدایت وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وہ سراسر ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں ہدایت دینے والا خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔ خدا کو چھوڑنے کے بعد آدمی کے حصہ میں اس کے سوا کچھ نہیں رہتا کہ وہ ابدی طورپر اندھیرے میں بھٹکتا رہے۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
📘 زنا کو شدید جرم قرار دینے کا فطری تقاضا یہ ہے کہ کسی غیر زانی پر زنا کا الزام لگانا بھی شدید جرم ہو۔ چنانچہ یہ حکم دیاگیا کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے اور پھر اس کو شرعی قاعدہ کے مطابق ثابت نہ کرسکے، اس کو اَسّی کوڑے مارے جائیں۔ مزید یہ کہ ایسے شخص کو ہمیشہ کے ليے مردود الشہادت قرار دے دیا جائے۔ حتی کہ احناف کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی گواہی معاملات میں قبول نہیں کی جائے گی۔
کسی شخص پر جھوٹا الزام لگانااس کو اخلاقی طورپر قتل کرنے کی کوشش ہے۔ ایسے جرم پر اسلام میں سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص دنیا میں سزا پانے سے بچ جائے تب بھی وہ آخرت کی سزا سے بہر حال نہیں بچ سکتا۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کرے اور اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔
أَوْ كَظُلُمَاتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشَاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ۚ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا ۗ وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ
📘 انسانوں کی ایک قسم وہ ہے جس کا ذکر آیت
35
میں تھا۔ یہ وہ انسان ہے جو اپنی فطری استعداد کو زندہ رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں ایمان کی دولت سے سرفراز ہوتا ہے۔ اب آیت
39-40
میںانسانوں کی مزید دو قسموں کا ذکر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا تیل دعوتِ حق کی آگ سے بھڑکنے کے ليے تیار نہیں ہوتا۔
ایک قسم وہ ہے جو کسی خود ساختہ دین پر قائم رہتی ہے۔ وہ جھوٹی تمناؤں کا ایک محل بناکر اس میں خوش رہتی ہے۔ یہ لوگ اسی طرح خوش گمانیوں میں پڑے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب موت آتی ہے تو ان کی خوش گمانیوں کا طلسم ٹوٹ جاتا ہے۔ اور پھر اچانک انھیں معلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کو وہ منزل سمجھے ہوئے تھے وہ ہلاکت کے گڑھے کے سوا اور کچھ نہ تھی۔
دوسری قسم وہ ہے جو کھلم کھلا منکروں اور باغیوں کی ہے۔ یہ لوگ خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر بطور خود ہدایت وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر وہ سراسر ناکام رہتے ہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں ہدایت دینے والا خدا کے سوا اور کوئی نہیں۔ خدا کو چھوڑنے کے بعد آدمی کے حصہ میں اس کے سوا کچھ نہیں رہتا کہ وہ ابدی طورپر اندھیرے میں بھٹکتا رہے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ ۖ كُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَهُ وَتَسْبِيحَهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
📘 انسان سے خدا کا جو مطالبہ ہے اس کو لفظ بدل کر کہیں تو وہ یہ ہے کہ انسان ویسا ہی رہے جیسا کہ از روئے حقیقت اسے رہنا چاہيے۔ یہی دین حق ہے۔ اس اعتبار سے ساری کائنات دین حق پر ہے۔ کیوں کہ اس کائنات کی ہر چیز عین اسی طرح عمل کرتی ہے جیسا کہ فی الواقع اسے عمل کرنا چاہيے۔ انسان کے سوا اس کائنات میں کوئی بھی چیزنہیں جس کے عمل میں اور حقیقت واقعہ میں کوئی ٹکراؤ ہو۔
انھیں بے شمار چیزوں میں سے ایک مثال چڑیا کی ہے۔ چڑیا جب اپناپر پھیلائے ہوئے فضا میں اڑتی ہے تو وہ اسی حقیقت کا ایک کامل نمونہ ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہ ابدی حقیقت کی دنیا میں کامل موافقت کرکے تیر رہی ہو۔ گویا اس نے اپنے انفرادی وجود کو حقائق کے وسیع تر سمندر میں گم کردیا ہو۔
ہر ایک کی ایک تسبیح ِخداوندی ہے اور وہی اس سے مطلوب ہے۔ اسی طرح انسان کی ایک تسبیح ِخداوندی ہے اور وہ اس سے مطلوب ہے۔ انسان اگر اس معاملہ میں غفلت یا سرکشی کا رویہ اختیار کرے تو اس وقت اس کو اس کی سخت قیمت ادا کرنی ہوگی جب خدا کے ساتھ اس کا سامنا پیش آئے گا۔
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ
📘 انسان سے خدا کا جو مطالبہ ہے اس کو لفظ بدل کر کہیں تو وہ یہ ہے کہ انسان ویسا ہی رہے جیسا کہ از روئے حقیقت اسے رہنا چاہيے۔ یہی دین حق ہے۔ اس اعتبار سے ساری کائنات دین حق پر ہے۔ کیوں کہ اس کائنات کی ہر چیز عین اسی طرح عمل کرتی ہے جیسا کہ فی الواقع اسے عمل کرنا چاہيے۔ انسان کے سوا اس کائنات میں کوئی بھی چیزنہیں جس کے عمل میں اور حقیقت واقعہ میں کوئی ٹکراؤ ہو۔
انھیں بے شمار چیزوں میں سے ایک مثال چڑیا کی ہے۔ چڑیا جب اپناپر پھیلائے ہوئے فضا میں اڑتی ہے تو وہ اسی حقیقت کا ایک کامل نمونہ ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا وہ ابدی حقیقت کی دنیا میں کامل موافقت کرکے تیر رہی ہو۔ گویا اس نے اپنے انفرادی وجود کو حقائق کے وسیع تر سمندر میں گم کردیا ہو۔
ہر ایک کی ایک تسبیح ِخداوندی ہے اور وہی اس سے مطلوب ہے۔ اسی طرح انسان کی ایک تسبیح ِخداوندی ہے اور وہ اس سے مطلوب ہے۔ انسان اگر اس معاملہ میں غفلت یا سرکشی کا رویہ اختیار کرے تو اس وقت اس کو اس کی سخت قیمت ادا کرنی ہوگی جب خدا کے ساتھ اس کا سامنا پیش آئے گا۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهُ ثُمَّ يَجْعَلُهُ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ جِبَالٍ فِيهَا مِنْ بَرَدٍ فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشَاءُ ۖ يَكَادُ سَنَا بَرْقِهِ يَذْهَبُ بِالْأَبْصَارِ
📘 مکہ کے لوگ اس زمانہ میں عرب کے قائد سمجھے جاتے تھے۔ یہ قیادت ان کے ليے خدا کی ایک نعمت تھی۔ مگر اس سے انھوں نے کبر کی غذا لی۔ چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حق کا اعلان ہوا تو انھوںنے اپنی متکبرانہ نفسیات کی بنا پر اس کا انکار کردیا۔
یہ مکہ میں اسلام کا حال تھا۔ مگر باہر کي عوام جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہ تھي ان کے اندر اسلام کی صداقت پھیلتی جارہی تھی۔ مکہ میں اسلام کو رد کردیا گیا تھا مگر باہر کے قبائل میں اسلام کو اختیار کیا جارہا تھا۔ مدینہ کے باشندوں کے بڑے پیمانے پر قبولِ اسلام نے یہ بات آخری طورپر واضح کردی کہ مکہ كے لوگوں کی قیادت کا دائرہ سمٹتا جارہا ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی تنبیہ تھی۔ مگر جو لوگ بڑائی کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ کسی بھی تنبیہ سے سبق لینے والے نہیں بنتے۔
يُقَلِّبُ اللَّهُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ
📘 مکہ کے لوگ اس زمانہ میں عرب کے قائد سمجھے جاتے تھے۔ یہ قیادت ان کے ليے خدا کی ایک نعمت تھی۔ مگر اس سے انھوں نے کبر کی غذا لی۔ چنانچہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حق کا اعلان ہوا تو انھوںنے اپنی متکبرانہ نفسیات کی بنا پر اس کا انکار کردیا۔
یہ مکہ میں اسلام کا حال تھا۔ مگر باہر کي عوام جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا نہ تھي ان کے اندر اسلام کی صداقت پھیلتی جارہی تھی۔ مکہ میں اسلام کو رد کردیا گیا تھا مگر باہر کے قبائل میں اسلام کو اختیار کیا جارہا تھا۔ مدینہ کے باشندوں کے بڑے پیمانے پر قبولِ اسلام نے یہ بات آخری طورپر واضح کردی کہ مکہ كے لوگوں کی قیادت کا دائرہ سمٹتا جارہا ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی تنبیہ تھی۔ مگر جو لوگ بڑائی کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ کسی بھی تنبیہ سے سبق لینے والے نہیں بنتے۔
وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِنْ مَاءٍ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَىٰ بَطْنِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَمْشِي عَلَىٰ أَرْبَعٍ ۚ يَخْلُقُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 دنیا کی چیزوں میں بظاہر تعدد ہے۔ اس سے مشرک انسان نے یہ قیاس کیا کہ چیزوں کے خالق بھی متعدد ہیں۔ مگر جب چیزوں کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ ظاہری تعداد اور تنوع کے اندر ایک یکسانیت چھپی ہوئی ہے تو معاملہ بالکل بدل جاتا ہے۔
حیوانات کی لاکھوں قسمیں ہیں۔ مگر گہرا مطالعہ بتاتاہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے۔ تمام حیوانات کا حیاتیاتی نظام بالکل یکساں ہے۔ اس مطالعہ کے بعد چیزوں کا تعدد اور تنوع خالق کی قدرت کا کرشمہ بن جاتا ہے۔ ایک اعتبار سے جو چیز تعددِ تخلیق کا اظہار معلوم ہورہی تھی وہ دوسرے اعتبار سے توحید تخلیق کا ثبوت بن جاتی ہے۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں فریب کے درمیان حقیقت کو پانا پڑتا ہے۔ یہاں اپنے آپ کو دھوکا دینے والی باتوں سے اوپر اٹھانا پڑتا ہے۔ تاکہ آدمی حق کا مشاہدہ کرسکے۔ اسی خاص کام کے ليے اللہ تعالیٰ نے آدمی کو عقل کی صلاحیت دی ہے۔ جو شخص اس خدائی ٹارچ کو صحیح طورپر استعمال کرے گا وہ راستہ پالے گا۔ اور جو شخص اس کو استعمال نہیں کرے گا اس کے ليے اس دنیا میں بھٹکنے کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔
لَقَدْ أَنْزَلْنَا آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ ۚ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 دنیا کی چیزوں میں بظاہر تعدد ہے۔ اس سے مشرک انسان نے یہ قیاس کیا کہ چیزوں کے خالق بھی متعدد ہیں۔ مگر جب چیزوں کو اس پہلو سے دیکھا جائے کہ ظاہری تعداد اور تنوع کے اندر ایک یکسانیت چھپی ہوئی ہے تو معاملہ بالکل بدل جاتا ہے۔
حیوانات کی لاکھوں قسمیں ہیں۔ مگر گہرا مطالعہ بتاتاہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے۔ تمام حیوانات کا حیاتیاتی نظام بالکل یکساں ہے۔ اس مطالعہ کے بعد چیزوں کا تعدد اور تنوع خالق کی قدرت کا کرشمہ بن جاتا ہے۔ ایک اعتبار سے جو چیز تعددِ تخلیق کا اظہار معلوم ہورہی تھی وہ دوسرے اعتبار سے توحید تخلیق کا ثبوت بن جاتی ہے۔
موجودہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں فریب کے درمیان حقیقت کو پانا پڑتا ہے۔ یہاں اپنے آپ کو دھوکا دینے والی باتوں سے اوپر اٹھانا پڑتا ہے۔ تاکہ آدمی حق کا مشاہدہ کرسکے۔ اسی خاص کام کے ليے اللہ تعالیٰ نے آدمی کو عقل کی صلاحیت دی ہے۔ جو شخص اس خدائی ٹارچ کو صحیح طورپر استعمال کرے گا وہ راستہ پالے گا۔ اور جو شخص اس کو استعمال نہیں کرے گا اس کے ليے اس دنیا میں بھٹکنے کے سوا کوئی اور انجام مقدر نہیں۔
وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِنْهُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ
📘 قدیم مدینہ میںایک طبقہ وہ تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا مگر وہ اسلام کے معاملہ میں مخلص نہ تھا۔ اس گروہ کو منافق کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ زبان سے تو خدا ورسول کی اطاعت کے الفاظ بولتے تھے مگر جب تجربہ پیش آتا تو وہ خود اپنے عمل سے اپنے اس دعوے کی تردید کردیتے۔
اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں باقاعدہ نوعیت کی اسلامی عدالت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ وہاں ایک طرف یہودی سردار تھے جو سیکڑوں سال سے رواجی طورپر لوگوں کے فیصلے کرتے چلے آرہے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ منافقین کا حال یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان سے ان کی نزاع ہو جائے اور وہ کہے کہ چلو رسول اللہ کے یہاں اس کا فیصلہ کرالو تو مذکورہ منافق اس کے ليے صرف اس صورت میں راضی ہوتا تھا، جب کہ اس کو یقین ہوتا کہ مقدمے کی نوعیت ایسی ہے کہ فیصلہ اس کے اپنے حق میں ہوجائے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ کہتا کہ فلاں یہودی سردار کے یہاں چلو اور اس سے فیصلہ کرالو۔
یہ بظاہر ہوشیاری ہے مگر یہ خود اپنے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس طرح جیتنے والے آخرت میں اس حال میں پہنچیں گے کہ وہ اپنا مقدمہ بالکل ہارچکے ہوں گے۔
وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْهُمْ مُعْرِضُونَ
📘 قدیم مدینہ میںایک طبقہ وہ تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا مگر وہ اسلام کے معاملہ میں مخلص نہ تھا۔ اس گروہ کو منافق کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ زبان سے تو خدا ورسول کی اطاعت کے الفاظ بولتے تھے مگر جب تجربہ پیش آتا تو وہ خود اپنے عمل سے اپنے اس دعوے کی تردید کردیتے۔
اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں باقاعدہ نوعیت کی اسلامی عدالت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ وہاں ایک طرف یہودی سردار تھے جو سیکڑوں سال سے رواجی طورپر لوگوں کے فیصلے کرتے چلے آرہے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ منافقین کا حال یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان سے ان کی نزاع ہو جائے اور وہ کہے کہ چلو رسول اللہ کے یہاں اس کا فیصلہ کرالو تو مذکورہ منافق اس کے ليے صرف اس صورت میں راضی ہوتا تھا، جب کہ اس کو یقین ہوتا کہ مقدمے کی نوعیت ایسی ہے کہ فیصلہ اس کے اپنے حق میں ہوجائے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ کہتا کہ فلاں یہودی سردار کے یہاں چلو اور اس سے فیصلہ کرالو۔
یہ بظاہر ہوشیاری ہے مگر یہ خود اپنے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس طرح جیتنے والے آخرت میں اس حال میں پہنچیں گے کہ وہ اپنا مقدمہ بالکل ہارچکے ہوں گے۔
وَإِنْ يَكُنْ لَهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ
📘 قدیم مدینہ میںایک طبقہ وہ تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا مگر وہ اسلام کے معاملہ میں مخلص نہ تھا۔ اس گروہ کو منافق کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ زبان سے تو خدا ورسول کی اطاعت کے الفاظ بولتے تھے مگر جب تجربہ پیش آتا تو وہ خود اپنے عمل سے اپنے اس دعوے کی تردید کردیتے۔
اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں باقاعدہ نوعیت کی اسلامی عدالت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ وہاں ایک طرف یہودی سردار تھے جو سیکڑوں سال سے رواجی طورپر لوگوں کے فیصلے کرتے چلے آرہے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ منافقین کا حال یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان سے ان کی نزاع ہو جائے اور وہ کہے کہ چلو رسول اللہ کے یہاں اس کا فیصلہ کرالو تو مذکورہ منافق اس کے ليے صرف اس صورت میں راضی ہوتا تھا، جب کہ اس کو یقین ہوتا کہ مقدمے کی نوعیت ایسی ہے کہ فیصلہ اس کے اپنے حق میں ہوجائے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ کہتا کہ فلاں یہودی سردار کے یہاں چلو اور اس سے فیصلہ کرالو۔
یہ بظاہر ہوشیاری ہے مگر یہ خود اپنے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس طرح جیتنے والے آخرت میں اس حال میں پہنچیں گے کہ وہ اپنا مقدمہ بالکل ہارچکے ہوں گے۔
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 زنا کو شدید جرم قرار دینے کا فطری تقاضا یہ ہے کہ کسی غیر زانی پر زنا کا الزام لگانا بھی شدید جرم ہو۔ چنانچہ یہ حکم دیاگیا کہ جو شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے اور پھر اس کو شرعی قاعدہ کے مطابق ثابت نہ کرسکے، اس کو اَسّی کوڑے مارے جائیں۔ مزید یہ کہ ایسے شخص کو ہمیشہ کے ليے مردود الشہادت قرار دے دیا جائے۔ حتی کہ احناف کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی گواہی معاملات میں قبول نہیں کی جائے گی۔
کسی شخص پر جھوٹا الزام لگانااس کو اخلاقی طورپر قتل کرنے کی کوشش ہے۔ ایسے جرم پر اسلام میں سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص دنیا میں سزا پانے سے بچ جائے تب بھی وہ آخرت کی سزا سے بہر حال نہیں بچ سکتا۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کرے اور اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔
أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
📘 قدیم مدینہ میںایک طبقہ وہ تھا جس نے بظاہر اسلام قبول کرلیا تھا مگر وہ اسلام کے معاملہ میں مخلص نہ تھا۔ اس گروہ کو منافق کہاجاتا ہے۔ یہ لوگ زبان سے تو خدا ورسول کی اطاعت کے الفاظ بولتے تھے مگر جب تجربہ پیش آتا تو وہ خود اپنے عمل سے اپنے اس دعوے کی تردید کردیتے۔
اس وقت صورت حال یہ تھی کہ مدینہ میں باقاعدہ نوعیت کی اسلامی عدالت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی۔ وہاں ایک طرف یہودی سردار تھے جو سیکڑوں سال سے رواجی طورپر لوگوں کے فیصلے کرتے چلے آرہے تھے۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ منافقین کا حال یہ تھا کہ اگر کسی مسلمان سے ان کی نزاع ہو جائے اور وہ کہے کہ چلو رسول اللہ کے یہاں اس کا فیصلہ کرالو تو مذکورہ منافق اس کے ليے صرف اس صورت میں راضی ہوتا تھا، جب کہ اس کو یقین ہوتا کہ مقدمے کی نوعیت ایسی ہے کہ فیصلہ اس کے اپنے حق میں ہوجائے گا۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتا تو وہ کہتا کہ فلاں یہودی سردار کے یہاں چلو اور اس سے فیصلہ کرالو۔
یہ بظاہر ہوشیاری ہے مگر یہ خود اپنے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس طرح جیتنے والے آخرت میں اس حال میں پہنچیں گے کہ وہ اپنا مقدمہ بالکل ہارچکے ہوں گے۔
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَنْ يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 عام آدمی اپنے مفاد کے تابع ہوتا ہے۔ مومن وہ ہے جو اپنے آپ کو اللہ اور رسول کا تابع بنالے۔ جب خدا اور رسول کا فیصلہ سامنے آجائے تو وہ ہر حال میں وہی کرے جو خدا ورسول کا فیصلہ ہو۔ خواہ وہ اس کی خواہش کے مطابق ہو یا اس کی خواہش کے خلاف۔ خواہ اس میں اس کا مفاد محفوظ ہوتا ہو یا اس میں اس کا مفاد مجروح ہو رہا ہو۔
آخرت کی کامیابی صرف اس شخص کے ليے ہے جس کا ایمان اس کو خدا اور رسول کے حکم کے آگے جھکادے۔ خدا کا احساس اس کے دل میںاس طرح اتر جائے کہ وہ اسی سے سب سے زیادہ ڈرنے لگے۔ خدا کی ناراضگی سے اپنے آپ کو بچانا اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
📘 عام آدمی اپنے مفاد کے تابع ہوتا ہے۔ مومن وہ ہے جو اپنے آپ کو اللہ اور رسول کا تابع بنالے۔ جب خدا اور رسول کا فیصلہ سامنے آجائے تو وہ ہر حال میں وہی کرے جو خدا ورسول کا فیصلہ ہو۔ خواہ وہ اس کی خواہش کے مطابق ہو یا اس کی خواہش کے خلاف۔ خواہ اس میں اس کا مفاد محفوظ ہوتا ہو یا اس میں اس کا مفاد مجروح ہو رہا ہو۔
آخرت کی کامیابی صرف اس شخص کے ليے ہے جس کا ایمان اس کو خدا اور رسول کے حکم کے آگے جھکادے۔ خدا کا احساس اس کے دل میںاس طرح اتر جائے کہ وہ اسی سے سب سے زیادہ ڈرنے لگے۔ خدا کی ناراضگی سے اپنے آپ کو بچانا اس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن جائے۔
۞ وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِنْ أَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ ۖ قُلْ لَا تُقْسِمُوا ۖ طَاعَةٌ مَعْرُوفَةٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
📘 جس شخص کے دل میں گہرائی کے ساتھ خدا اترا ہوا ہو اس کی نگاہیں جھک جاتی ہیں۔اس کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ اس کا احساسِ ذمہ داری اس سے بڑی بڑی قربانیاں کرادیتاہے۔ مگر زبانی دعدوں کے وقت وہ دیکھنے والے لوگوں کو گونگا نظر آتا ہے۔
اس کے برعکس، جو شخص خدا سے تعلق کے معاملہ میں کم ہو وہ الفاظ کے معاملہ میں زیادہ ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمل کی کمی کو الفاظ کی زیادتی سے پورا کرتا ہے۔ اس کے پاس چونکہ کردار کی گواہی نہیں ہوتی اس ليے وہ اپنے کو معتبر ثابت کرنے کے ليے بڑے بڑے الفاظ کا مظاہرہ کرتا ہے۔
جو لوگ الفاظ کا کمال دکھا کر دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سارا معاملہ بس انسانوں کا معاملہ ہے۔ مگر جس شخص کو یقین ہو کہ اصل معاملہ وہ ہے جو خدا کے یہاں پیش آنے والا ہے۔ اس کا سارا انداز بالکل بدل جائے گا۔
قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَا حُمِّلْتُمْ ۖ وَإِنْ تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ۚ وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
📘 جس شخص کے دل میں گہرائی کے ساتھ خدا اترا ہوا ہو اس کی نگاہیں جھک جاتی ہیں۔اس کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ اس کا احساسِ ذمہ داری اس سے بڑی بڑی قربانیاں کرادیتاہے۔ مگر زبانی دعدوں کے وقت وہ دیکھنے والے لوگوں کو گونگا نظر آتا ہے۔
اس کے برعکس، جو شخص خدا سے تعلق کے معاملہ میں کم ہو وہ الفاظ کے معاملہ میں زیادہ ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے عمل کی کمی کو الفاظ کی زیادتی سے پورا کرتا ہے۔ اس کے پاس چونکہ کردار کی گواہی نہیں ہوتی اس ليے وہ اپنے کو معتبر ثابت کرنے کے ليے بڑے بڑے الفاظ کا مظاہرہ کرتا ہے۔
جو لوگ الفاظ کا کمال دکھا کر دوسروں کو متاثر کرنا چاہتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ سارا معاملہ بس انسانوں کا معاملہ ہے۔ مگر جس شخص کو یقین ہو کہ اصل معاملہ وہ ہے جو خدا کے یہاں پیش آنے والا ہے۔ اس کا سارا انداز بالکل بدل جائے گا۔
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
📘 یہاں جس غلبہ کا وعدہ کیاگیا ہے اس کا تعلق اولاً رسول اور اصحابِ رسول سے ہے۔ مگر تبعاً اس کا تعلق پوری امت سے ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلبہ اور اقتدار اہلِ ایمان کے عمل کا نشانہ نہیں۔ وہ ایک خدائی انعام ہے جو ایمان اور عمل کے نتیجہ میں مومنین کی جماعت کو دیا جاتا ہے۔
اس غلبہ کا مقصد یہ ہے کہ اہل ایمان کو زمین میںاستحکام عطا کیا جائے۔ ان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ دشمنانِ حق کے اندیشوں سے مامون ہو کر رہ سکیں۔ وہ آزادانہ طورپر خدا کی عبادت کریں۔ اور صرف ایک خدا کے بندے بن کر زندگی گزاریں۔ اہل ایمان کے غلبہ کی یہ حالت اس وقت تک باقی رہے گی جب تک وہ خدا کے شکر کرنے والے بنے رہیں، اور تقویٰ کی کیفیت نہ کھوئیں۔
خلیفہ کے معنی عربی زبان میں جانشین یا بعد کو آنے والے کے ہیں۔ استخلاف یا خلیفہ بنانا یہ ہے کہ ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو اس کی جگہ پر غلبہ اور استحکام عطا کیا جائے — غلبہ دراصل خدائی امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ خدا ایک کے بعد ایک، ہر قوم کو زمین میں غلبہ دیتا ہے۔ اور اس طرح اس کو جانچتا ہے۔ اہل ایمان کی جماعت کے ليے یہ غلبہ امتحان کے ساتھ ایک انعام بھی ہے۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
📘 خدا کی رحمت یہ ہے کہ دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت عطا کی جائے۔ جو لوگ خدا کی اس رحمت کا مستحق بننا چاہیں انھیں اپنے اندر تین صفتیں پیدا کرنی چاہئیں۔
ایک اقامت صلوٰۃ۔ اقامت صلوٰۃ صورتاً پنچ وقتہ نماز کا نظام قائم کرنے کا نام ہے۔ اور معنوي طور پر اس کا مطلب یہ هے کہ لوگ خشوع اورتواضع میں جینے والے بنیں، نہ کہ کبر اور سرکشی میں جینے والے۔
اسی طرح زکوٰۃ کی عملی صورت یہ ہے کہ اپنے اموال میں مقررہ شرح کے مطابق سالانہ ایک رقم نکالی جائے اور اس کو بیت المال کے حوالے کیا جائےاور بيت المال نه هونے كي صورت ميں مستحقين كو براهِ راست دے ديا جائے۔ اور زکوٰۃ اپنی معنوی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ لوگ خود غرض بن کر نہ رہیں بلکہ وہ دوسروں کے خیر خواہ بن کررہیں۔ حتی کہ ان کی خیر خواہی اتنی بڑھے کہ اپنی ذات اور اثاثہ میں وہ دوسروں کا حق سمجھنے لگیں۔
رسو ل کی اطاعت رسول کے زمانے میں ذاتِ رسول کی اطاعت تھی۔ اور بعد کے زمانہ میں سنتِ رسول کی اطاعت۔ اس کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ليے زندگی کا نمونہ اللہ کا رسول ہو۔ لوگ اپنی زندگی کے تمام معاملات میںصرف رسولِ خدا کو اپنا رہنما سمجھیں۔ رسول کی رائے سامنے آنے کے بعد لوگ اپنی ذاتی رائے سے دست بردار ہوجائیں۔ رسول آگے ہو اور تمام لوگ اس کے پیچھے۔
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مُعْجِزِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۖ وَلَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 خدا کی رحمت یہ ہے کہ دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت عطا کی جائے۔ جو لوگ خدا کی اس رحمت کا مستحق بننا چاہیں انھیں اپنے اندر تین صفتیں پیدا کرنی چاہئیں۔
ایک اقامت صلوٰۃ۔ اقامت صلوٰۃ صورتاً پنچ وقتہ نماز کا نظام قائم کرنے کا نام ہے۔ اور معنوي طور پر اس کا مطلب یہ هے کہ لوگ خشوع اورتواضع میں جینے والے بنیں، نہ کہ کبر اور سرکشی میں جینے والے۔
اسی طرح زکوٰۃ کی عملی صورت یہ ہے کہ اپنے اموال میں مقررہ شرح کے مطابق سالانہ ایک رقم نکالی جائے اور اس کو بیت المال کے حوالے کیا جائےاور بيت المال نه هونے كي صورت ميں مستحقين كو براهِ راست دے ديا جائے۔ اور زکوٰۃ اپنی معنوی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ لوگ خود غرض بن کر نہ رہیں بلکہ وہ دوسروں کے خیر خواہ بن کررہیں۔ حتی کہ ان کی خیر خواہی اتنی بڑھے کہ اپنی ذات اور اثاثہ میں وہ دوسروں کا حق سمجھنے لگیں۔
رسو ل کی اطاعت رسول کے زمانے میں ذاتِ رسول کی اطاعت تھی۔ اور بعد کے زمانہ میں سنتِ رسول کی اطاعت۔ اس کامطلب یہ ہے کہ لوگوں کے ليے زندگی کا نمونہ اللہ کا رسول ہو۔ لوگ اپنی زندگی کے تمام معاملات میںصرف رسولِ خدا کو اپنا رہنما سمجھیں۔ رسول کی رائے سامنے آنے کے بعد لوگ اپنی ذاتی رائے سے دست بردار ہوجائیں۔ رسول آگے ہو اور تمام لوگ اس کے پیچھے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِنْ قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
📘 اوپر معاشرتی احکام بیان ہوئے تھے۔ یہ آیتیں غالباً بعد کو ان کے تتمہ یا توضیح کے طورپر نازل ہوئیں۔ مثلاً اوپر (آيت
31
)عورتوں کے ليے گھر کے اندر پردہ کی جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں یہ ہے کہ عورتیں اپنی اوڑھنی کے آنچل اپنے سینہ پر ڈال لیا کریں۔ یہاں (آیت 60) میں اس عام حکم سے ان عورتوں کو الگ کردیا گیا جو نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں۔ فرمایا کہ اگر وہ اوڑھنی کا اہتمام نہ کریں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ دونوں قسم کے احکام ایک ساتھ اتر سکتے تھے۔ مگر ان کے درمیان
29
آيتوں کا فاصلہ ہے۔ ان درمیانی آيات میں دوسرے مضامین ہیں۔ جیسا کہ روایت سے معلوم ہوتاہے، ابتدائی احکام اترنے کے بعد کچھ عملی سوالات پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان کی وضاحت میں یہ آخری آیتیں اتریں اور یہاں شامل کی گئیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا انداز ترتیب اور تدریج کا انداز ہے، نہ کہ یکبارگی اقدام کا۔ خدا کے ليے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تمام احکام ایک ساتھ بیک وقت نازل کردے، مگر خدا نے حالات کے اعتبار سے احکام کو بتدریج نازل فرمایا۔
وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
📘 اوپر معاشرتی احکام بیان ہوئے تھے۔ یہ آیتیں غالباً بعد کو ان کے تتمہ یا توضیح کے طورپر نازل ہوئیں۔ مثلاً اوپر (آيت
31
)عورتوں کے ليے گھر کے اندر پردہ کی جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں یہ ہے کہ عورتیں اپنی اوڑھنی کے آنچل اپنے سینہ پر ڈال لیا کریں۔ یہاں (آیت 60) میں اس عام حکم سے ان عورتوں کو الگ کردیا گیا جو نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں۔ فرمایا کہ اگر وہ اوڑھنی کا اہتمام نہ کریں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ دونوں قسم کے احکام ایک ساتھ اتر سکتے تھے۔ مگر ان کے درمیان
29
آيتوں کا فاصلہ ہے۔ ان درمیانی آيات میں دوسرے مضامین ہیں۔ جیسا کہ روایت سے معلوم ہوتاہے، ابتدائی احکام اترنے کے بعد کچھ عملی سوالات پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان کی وضاحت میں یہ آخری آیتیں اتریں اور یہاں شامل کی گئیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا انداز ترتیب اور تدریج کا انداز ہے، نہ کہ یکبارگی اقدام کا۔ خدا کے ليے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تمام احکام ایک ساتھ بیک وقت نازل کردے، مگر خدا نے حالات کے اعتبار سے احکام کو بتدریج نازل فرمایا۔
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلَّا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ
📘 داعی اگر واقعۃ ً سچائی پر ہے تو اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہمیشہ اس کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ جھو ٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آخر کا رکھل کر رہتی ہے۔ اور جب حقیقت کھلتی ہے تو ایک طرف داعی کا برسر حق ہونا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور جو لوگ اس کے بارے میں مذبذب تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عملاً دیکھ لیتے ہیں کہ داعیٔ حق کے مخالفین کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے خلاف الزام میں سب سے بڑا حصہ لینے والا مشہور منافق عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کے ليے قرآن میں سخت اخروی عذاب کا اعلان کیاگیا۔ مگر دنیا میں اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی موت مرگیا۔اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا اے عمرؓ، کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (فَكَيْفَ يَا عُمَرُ إذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ
291
۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مجرمین کو بھی دنیا میں سزا نہ دی جائے بلکہ ان کے معاملہ کو آخرت کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔
وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ اللَّاتِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحًا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَنْ يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَاتٍ بِزِينَةٍ ۖ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَهُنَّ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 اوپر معاشرتی احکام بیان ہوئے تھے۔ یہ آیتیں غالباً بعد کو ان کے تتمہ یا توضیح کے طورپر نازل ہوئیں۔ مثلاً اوپر (آيت
31
)عورتوں کے ليے گھر کے اندر پردہ کی جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں یہ ہے کہ عورتیں اپنی اوڑھنی کے آنچل اپنے سینہ پر ڈال لیا کریں۔ یہاں (آیت 60) میں اس عام حکم سے ان عورتوں کو الگ کردیا گیا جو نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں۔ فرمایا کہ اگر وہ اوڑھنی کا اہتمام نہ کریں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ دونوں قسم کے احکام ایک ساتھ اتر سکتے تھے۔ مگر ان کے درمیان
29
آيتوں کا فاصلہ ہے۔ ان درمیانی آيات میں دوسرے مضامین ہیں۔ جیسا کہ روایت سے معلوم ہوتاہے، ابتدائی احکام اترنے کے بعد کچھ عملی سوالات پیدا ہوئے۔ چنانچہ ان کی وضاحت میں یہ آخری آیتیں اتریں اور یہاں شامل کی گئیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کا انداز ترتیب اور تدریج کا انداز ہے، نہ کہ یکبارگی اقدام کا۔ خدا کے ليے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تمام احکام ایک ساتھ بیک وقت نازل کردے، مگر خدا نے حالات کے اعتبار سے احکام کو بتدریج نازل فرمایا۔
لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
📘 اسلام سے پہلے عرب کا معاشرہ ایک آزاد معاشرہ تھا۔ وہاں کسی قسم کی کوئی پابندی نہ تھی۔ اس کے بعد اسلام نے گھروں کے اندر جانے پر پردہ کی پابندیاں عائد کیں جن کا بیان اوپر کی آیتوں میں ہے، تو کچھ لوگوں کو احساس ہوا کہ ان پابندیوں کے بعد ہماری سماجی زندگی بالکل محدود ہو کر رہ جائے گی۔
اس سلسلہ میں یہ وضاحتی آیتیں نازل ہوئیں۔ فرمایا کہ یہ پابندیاں تمھاری سماجی زندگی کو منظم کرنے کے لیے ہیں، نہ کہ تمہاری آزادی کو ختم کرنے کے لیے۔ مثلاً اندھے، لنگڑے اور بیمار اگر اپنے تعلق کے لوگوں سے دورہوجائیں تو یہ عملاً ان کو بے سہارا کردینے کے ہم معنیٰ ہوگا۔ مگر اسلام کا یہ منشا ہر گز نہیں۔ چنانچہ سابقہ احکام میں ضروری گنجائشیں دیتے ہوئے اس کی اصل روح کی نشان دہی فرمادی۔
ارشاد ہوا کہ اسلام کا اصل مطلوب یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی سچی خیر خواہی ہو۔ جب ایک آدمی دوسرے کے گھر میں داخل ہو تو وہ سلام کرے۔ اور کہے کہ ’’تمھارے اوپر سلامتی ہو اور اللہ کی برکتیں تمھارے اوپر نازل ہوں‘‘۔ یہ روح اگر حقیقی طورپر لوگوں کے اندر موجود ہو تو اکثر اجتماعی خرابیوں کا اپنے آپ خاتمہ ہوجائے گا۔
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَىٰ أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّىٰ يَسْتَأْذِنُوهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ فَإِذَا اسْتَأْذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَنْ لِمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 جب کچھ لوگ اپنے آپ کو اسلام کے ساتھ وابستہ کریں تو مختلف اسباب سے بار بار اس کي ضرورت پیش آتی ہے کہ انھیں اكٹھا کیا جائے۔ مثلاً مسلمانوں کے کسی مشترک معاملہ میں مشورہ کرنے کے ليے، کسی اجتماعی مہم پر لوگوں کا تعاون حاصل کرنے کے ليے، وغیرہ۔
ایسے مواقع پر یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں پر اپنے انفرادی تقاضے غالب ہوں وہ تھوڑی دیر کے بعد اپنی دلچسپی کھو دیتے ہیں۔ اور چاہتے ہیں کہ خاموشی کے ساتھ اٹھ کر چلے جائیں۔ یہ مزاج صحیح اسلامی مزاج نہیں۔ تاہم جو لوگ اس ذہنیت سے پاک ہوں ان میں بھی بعض ایسے افراد ہوسکتے ہیں جو کسی وقتی ضرورت کی بنا پر اجتماع کے ختم ہونے سے پہلے اٹھنا چاہیں۔ ایسے افراد کا طریقہ یہ ہوتاہے کہ وہ ذمہ دار شخصیت سے (اور رسول کے زمانہ میں رسول سے) باقاعدہ اجازت لے کر اواپس جاتے ہیں۔ نیز اگر ذمہ دار انھیں کسی وجہ سے اجازت نہ دے تو وہ کسی ناگواری کے بغیر آخر وقت تک کارروائی میں شریک رہتے ہیں۔
جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمہ دار ہو اس کے اندر یہ مزاج ہونا چاہیے کہ کوئی شخص اگر وقتی ضرورت کی بناپر معذرت پیش کرے تو وہ اس کی معذرت کو دل سے قبول کرے۔ اور اس کے حق میں دعا کرے که اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائے۔
لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَنْ تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 یہاں جس اطاعتِ رسول کا ذکر ہے اس کا تعلق رسول کی زندگی میں رسول سے تھا۔ رسول کے بعد اس کا تعلق ہر اس شخص سے ہے جو مسلمانوں کے معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے۔
اجتماعی معاملات میں اپنا حصہ ادا کرنے سے جو لوگ کترائیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اجتماعی کام میں وقت ضائع نہ کرکے اپنے انفرادی معاملہ کو مضبوط کررہے ہیں۔ مگر جو گروہ اجتماعیت کو کھو دے اس کے دشمن اس کے اندر گھسنے کی راہ پالیتے ہیں۔ اس طرح جو بربادی آتی ہے وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عمومی بربادی ہوتی ہے۔ اس کا نقصان ہر ایک کو پہنچتا ہے، حتی کہ اس کو بھی جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے ذاتی معاملات میں پوری توجہ لگا کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے۔
آدمی جب اس قسم کی کمزوری دکھاتا ہے تو بطور خود وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے انسانوں کے ساتھ کررہاہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرر ہا ہوتا ہے وہ خدا کے ساتھ کررہا ہوتاہے۔ اگر یہ احساس زندہ ہو تو آدمی کبھی اس قسم کی بے اصولی کی جرأت نہ کرے۔
أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ قَدْ يَعْلَمُ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ وَيَوْمَ يُرْجَعُونَ إِلَيْهِ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 یہاں جس اطاعتِ رسول کا ذکر ہے اس کا تعلق رسول کی زندگی میں رسول سے تھا۔ رسول کے بعد اس کا تعلق ہر اس شخص سے ہے جو مسلمانوں کے معاملہ کا ذمہ دار بنایا جائے۔
اجتماعی معاملات میں اپنا حصہ ادا کرنے سے جو لوگ کترائیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اجتماعی کام میں وقت ضائع نہ کرکے اپنے انفرادی معاملہ کو مضبوط کررہے ہیں۔ مگر جو گروہ اجتماعیت کو کھو دے اس کے دشمن اس کے اندر گھسنے کی راہ پالیتے ہیں۔ اس طرح جو بربادی آتی ہے وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے عمومی بربادی ہوتی ہے۔ اس کا نقصان ہر ایک کو پہنچتا ہے، حتی کہ اس کو بھی جو یہ سمجھ رہا تھا کہ اس نے ذاتی معاملات میں پوری توجہ لگا کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے۔
آدمی جب اس قسم کی کمزوری دکھاتا ہے تو بطور خود وہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے انسانوں کے ساتھ کررہاہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرر ہا ہوتا ہے وہ خدا کے ساتھ کررہا ہوتاہے۔ اگر یہ احساس زندہ ہو تو آدمی کبھی اس قسم کی بے اصولی کی جرأت نہ کرے۔
وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
📘 داعی اگر واقعۃ ً سچائی پر ہے تو اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہمیشہ اس کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ جھو ٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آخر کا رکھل کر رہتی ہے۔ اور جب حقیقت کھلتی ہے تو ایک طرف داعی کا برسر حق ہونا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور جو لوگ اس کے بارے میں مذبذب تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عملاً دیکھ لیتے ہیں کہ داعیٔ حق کے مخالفین کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے خلاف الزام میں سب سے بڑا حصہ لینے والا مشہور منافق عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کے ليے قرآن میں سخت اخروی عذاب کا اعلان کیاگیا۔ مگر دنیا میں اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی موت مرگیا۔اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا اے عمرؓ، کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (فَكَيْفَ يَا عُمَرُ إذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ
291
۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مجرمین کو بھی دنیا میں سزا نہ دی جائے بلکہ ان کے معاملہ کو آخرت کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔
وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ ۙ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ
📘 داعی اگر واقعۃ ً سچائی پر ہے تو اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہمیشہ اس کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ جھو ٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آخر کا رکھل کر رہتی ہے۔ اور جب حقیقت کھلتی ہے تو ایک طرف داعی کا برسر حق ہونا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور جو لوگ اس کے بارے میں مذبذب تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عملاً دیکھ لیتے ہیں کہ داعیٔ حق کے مخالفین کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے خلاف الزام میں سب سے بڑا حصہ لینے والا مشہور منافق عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کے ليے قرآن میں سخت اخروی عذاب کا اعلان کیاگیا۔ مگر دنیا میں اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی موت مرگیا۔اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا اے عمرؓ، کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (فَكَيْفَ يَا عُمَرُ إذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ
291
۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مجرمین کو بھی دنیا میں سزا نہ دی جائے بلکہ ان کے معاملہ کو آخرت کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔
وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ
📘 داعی اگر واقعۃ ً سچائی پر ہے تو اس کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے ہمیشہ اس کے حق میں مفید ثابت ہوتے ہیں کیوں کہ جھو ٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آخر کا رکھل کر رہتی ہے۔ اور جب حقیقت کھلتی ہے تو ایک طرف داعی کا برسر حق ہونا اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے اور جو لوگ اس کے بارے میں مذبذب تھے وہ اس کے بعد یقین کے درجہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ عملاً دیکھ لیتے ہیں کہ داعیٔ حق کے مخالفین کے پاس جھوٹے الزام اور بے بنیاد اتہام کے سوا اور کچھ نہیں۔
حضرت عائشہ ؓصدیقہ کے خلاف الزام میں سب سے بڑا حصہ لینے والا مشہور منافق عبد اللہ بن ابی تھا۔ اس کے ليے قرآن میں سخت اخروی عذاب کا اعلان کیاگیا۔ مگر دنیا میں اس کو کوئی سزا نہیں دی گئی، یہاں تک کہ وہ اپنی طبعی موت مرگیا۔اس واقعہ کے بعد حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس شخص کو قتل کردیا جائے۔ آپ نے فرمایا اے عمرؓ، کیا ہوگا جب لوگ کہیں گے کہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں (فَكَيْفَ يَا عُمَرُ إذَا تَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ) سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ
291
۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات حکمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مجرمین کو بھی دنیا میں سزا نہ دی جائے بلکہ ان کے معاملہ کو آخرت کے اوپر چھوڑ دیا جائے۔