slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة البقرة

(Al-Baqarah) • المصدر: UR-TAFSIR-BAYAN-UL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم

📘 یہ حروف مقطعاتّ ہیں جن کے بارے میں یہ جان لیجیے کہ ان کے حقیقی ‘ حتمی اور یقینی مفہوم کو کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ اور اس کے رسول کے۔ یہ ایک راز ہے اللہ اور اس کے رسول کے مابین۔ حروف مقطعات کے بارے میں اگرچہ بہت سی آراء ظاہر کی گئی ہیں ‘ لیکن ان میں سے کوئی شے رسول اللہ سے منقول نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ثابت ہے کہ اس طرح کے حروف مقطعات کا کلام میں استعمال عرب میں معروف تھا ‘ اس لیے کسی نے ان پر اعتراض نہیں کیا۔ قرآن مجید کی 114 میں سے 29 سورتیں ایسی ہیں جن کا آغاز حروف مقطعات سے ہوا ہے۔ سورة قٓ‘ سورة القلم اور سورة صٓ کے آغاز میں ایک ایک حرف ہے۔ حٰمٓ‘ طٰہٰ اور یٰسٓ دو دو حرف ہیں۔ ا ل م اور ا ل ر تین تین حروف ہیں جو کئی سورتوں کے آغاز میں آئے ہیں۔ الم اور الر چار چار حروف ہیں۔ حروف مقطعات میں زیادہ سے زیادہ پانچ حروف یکجا آتے ہیں۔ چناچہ کٓھٰیٰعٓصٓ سورة مریم کے آغاز میں اور حٰمٓ عٓسٓقٓ سورة الشوریٰ کے آغاز میں آئے ہیں۔ ان کے بارے میں اس وقت مجھے اس سے زائد کچھ عرض نہیں کرنا ہے۔ اپنے مفصل درس قرآن میں میں نے ان پر تفصیل سے بحثیں کی ہیں۔

فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ

📘 آیت 10 فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یہ روگ اور بیماری کیا ہے ؟ ایک لفظ میں اس کو ”کردار کی کمزوری“ weakness of character سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص وہ ہوتا ہے جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیتا ہے اور پھر ”ہرچہ بادا باد“ جو ہو سو ہو کی کیفیت کے ساتھ اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو حق کو پہچان لینے کے باوجود ردّ کردیتا ہے۔ اسے ”کافر“ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک شخص وہ بھی ہے جو حق کو حق پہچان کر آیا تو سہی ‘ لیکن کردار کی کمزوری کی وجہ سے اس کی قوت ارادی کمزور ہے۔ ایسے لوگ آخرت بھی چاہتے ہیں لیکن دنیا بھی ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کا بھی کوئی نقصان نہ ہو اور آخرت کا بھی سارا بھلا ہمیں مل جائے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے دلوں میں ایک روگ ہے۔ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج یہ اللہ کی سنت ہے۔ آپ حق پر چلنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ حق کا راستہ آپ پر آسان کر دے گا ‘ لیکن اگر آپ برائی کی طرف جانا چاہیں تو بڑی سے بڑی برائی آپ کے لیے ہلکی ہوتی چلی جائے گی۔ آپ خیال کریں گے کہ کوئی خاص بات نہیں ‘ جب یہ کرلیا تو اب یہ بھی کر گزرو۔ اور اگر کوئی بین بین لٹکنا چاہے تو اللہ اس کو اسی راہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہو رہے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں اور یہودیوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھی ہیں۔ تو ان کا یہ سمجھنا کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں ‘ بالکل غلط ہے۔ حقیقت میں یہ کامیابی نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ تباہ کن راستہ ان کے لیے آسان کردیا ہے جو انہوں نے خود منتخب کیا تھا۔ ان کے دلوں میں جو روگ موجود تھا اللہ نے اس میں اضافہ فرما دیا۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا اوپر کفار کے لیے الفاظ آئے تھے : وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ اور یہاں عَذَابٌ اَلِیْمٌ کا لفظ آیا ہے کہ ان کے لیے دردناک اور المناک عذاب ہے۔ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ

أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 100 اَوَکُلَّمَا عٰہَدُوْا عَہْدًا اللہ سے کوئی میثاق کیا یا اللہ کے رسولوں سے کوئی عہد کیا۔نَّبَذَہٗ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ ط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ ان کی اکثریت ایمان و یقین کی دولت سے تہی دامن ہے۔یہی حال آج امت مسلمہ کا ہے کہ مسلمان تو سب ہیں ‘ لیکن ایمان حقیقی ‘ ایمان قلبی یعنی یقین والا ایمان کتنے لوگوں کو حاصل ہے ؟ ع ڈھونڈ اب ان کو چراغ رخ زیبا لے کر !

وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 101 وَلَمَّا جَآءَ ‘ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ نَبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللّٰہِ وَرَآءَ ظُہُوْرِہِمْ کَاَنَّہُمْ لاَ یَعْلَمُوْنَ ۔ علماء یہود نے نبی آخر الزمان ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں چھپانے کی خاطر خود تورات کو پس پشت ڈال دیا اور بالکل انجانے سے ہو کر رہ گئے۔ ان کے عوام پوچھتے ہوں گے کہ کیا یہ وہی نبی ہیں جن کا ذکر تم کیا کرتے تھے ؟ لیکن یہ جواب میں کہتے کہ یقین سے نہیں کہہ سکتے ‘ ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو ! انہوں نے ایسا رویہ اپنا لیا جیسے انہیں کچھ علم نہیں ہے۔اب ایک اور حقیقت نوٹ کیجیے۔ جب کسی مسلمان امت میں دین کی اصل حقیقت اور اصل تعلیمات سے بعد پیدا ہوتا ہے تو لوگوں کا رجحان جادو ‘ ٹونے ‘ ٹوٹکے ‘ تعویذ اور عملیات وغیرہ کی طرف ہوجاتا ہے۔ اللہ کی کتاب تو ہدایت کا سرچشمہ بن کر اتری تھی ‘ لیکن یہ اس کو اپنی دنیوی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بناتے ہیں۔ چناچہ دشمن کو زیر کرنے اور محبوب کو قدموں میں گرانے کے لیے عملیات قرآنی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ دھندے ہمارے ہاں بھی خوب چل رہے ہیں اور شاید سب سے زیادہ منفعت بخش کاروبار یہی ہے ‘ جس میں نہ تو کوئی محنت کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی سرمایہ کاری کی۔ بنی اسرائیل کا بھی یہی حال تھا کہ وہ دین کی اصل حقیقت کو چھوڑ کر جادو کے پیچھے چل پڑے تھے۔ فرمایا :

وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 102 وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ج اللہ تعالیٰ نے ّ جنات کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا تھا۔ اس وقت چونکہ ان کا انسانوں کے ساتھ زیادہ میل جول رہتا تھا ‘ لہٰذا یہ انسانوں کو جادو وغیرہ سکھاتے رہتے تھے۔وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ ق۔ جادو کفر ہے ‘ لیکن آپ کو آج بھی نقش سلیمانی کی اصطلاح سننے کو ملے گی۔ اس طرح بعض مسلمان بھی ان چیزوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور وہ ظلم اب بھی جاری ہے۔ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ط۔ بابل Babylonia عراق کا پرانا نام تھا۔ یروشلم پر حملہ کرنے والا بخت نصر Nebuchadnezzar بھی یہیں کا بادشاہ تھا اور نمرود بھی بابل ہی کا بادشاہ تھا۔ نمرود عراق کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا ‘ جس کی جمع نماردۃ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت میں جنات اور انسانوں کا باہم میل جول ہونے کی وجہ سے جنات لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی آخری آزمائش کے لیے دو فرشتوں کو زمین پر اتارا جو انسانی شکل و صورت میں لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ وہ خود ہی یہ واضح کردیتے تھے کہ دیکھو جادو کفر ہے ‘ ہم سے نہ سیکھو۔ لیکن اس کے باوجود لوگ سیکھتے تھے۔ گویا ان پر اتمام حجت ہوگیا کہ اب ان کے اندر خباثت پورے طریقے سے گھر کرچکی ہے۔ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ ط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖط۔ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا اور لوگوں کے گھروں میں فساد ڈالنا ‘ اس طرح کے کام اب بھی بعض عورتیں بڑی سرگرمی سے سرانجام دیتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تعویذ ‘ گنڈے ‘ دھاگے اور نہ جانے کیا کچھ ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مؤمن کو یہ یقین ہو کہ اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی نقصان۔ چاہے کوئی دوا ہو وہ بھی باذن رب کام کرے گی ورنہ نہیں۔ جو کوئی بھی اسباب طبیعیہ ہیں ان کے اثرات تبھی ظاہر ہوں گے اگر اللہ چاہے گا ‘ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ جادو کا اثر بھی اگر ہوگا تو اللہ کے اذن سے ہوگا۔ چناچہ بندۂ مؤمن کو اللہ کے بھروسے پر ڈٹے رہنا چاہیے اور مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ ط وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰٹہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ ط۔ وَلَبِءْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ ط لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ

وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 102 وَاتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ ج اللہ تعالیٰ نے ّ جنات کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا تھا۔ اس وقت چونکہ ان کا انسانوں کے ساتھ زیادہ میل جول رہتا تھا ‘ لہٰذا یہ انسانوں کو جادو وغیرہ سکھاتے رہتے تھے۔وَمَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَلٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاس السِّحْرَ ق۔ جادو کفر ہے ‘ لیکن آپ کو آج بھی نقش سلیمانی کی اصطلاح سننے کو ملے گی۔ اس طرح بعض مسلمان بھی ان چیزوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور وہ ظلم اب بھی جاری ہے۔ وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ہَارُوْتَ وَمَارُوْتَ ط۔ بابل Babylonia عراق کا پرانا نام تھا۔ یروشلم پر حملہ کرنے والا بخت نصر Nebuchadnezzar بھی یہیں کا بادشاہ تھا اور نمرود بھی بابل ہی کا بادشاہ تھا۔ نمرود عراق کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا ‘ جس کی جمع نماردۃ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور حکومت میں جنات اور انسانوں کا باہم میل جول ہونے کی وجہ سے جنات لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی آخری آزمائش کے لیے دو فرشتوں کو زمین پر اتارا جو انسانی شکل و صورت میں لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔ وہ خود ہی یہ واضح کردیتے تھے کہ دیکھو جادو کفر ہے ‘ ہم سے نہ سیکھو۔ لیکن اس کے باوجود لوگ سیکھتے تھے۔ گویا ان پر اتمام حجت ہوگیا کہ اب ان کے اندر خباثت پورے طریقے سے گھر کرچکی ہے۔ وَمَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ ط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْہُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖط۔ شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا اور لوگوں کے گھروں میں فساد ڈالنا ‘ اس طرح کے کام اب بھی بعض عورتیں بڑی سرگرمی سے سرانجام دیتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے تعویذ ‘ گنڈے ‘ دھاگے اور نہ جانے کیا کچھ ذرائع اختیار کیے جاتے ہیں۔ وَمَا ہُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ الاَّ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ بندۂ مؤمن کو یہ یقین ہو کہ اللہ کے اذن کے بغیر نہ کوئی چیز فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ ہی نقصان۔ چاہے کوئی دوا ہو وہ بھی باذن رب کام کرے گی ورنہ نہیں۔ جو کوئی بھی اسباب طبیعیہ ہیں ان کے اثرات تبھی ظاہر ہوں گے اگر اللہ چاہے گا ‘ اس کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ جادو کا اثر بھی اگر ہوگا تو اللہ کے اذن سے ہوگا۔ چناچہ بندۂ مؤمن کو اللہ کے بھروسے پر ڈٹے رہنا چاہیے اور مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّہُمْ وَلاَ یَنْفَعُہُمْ ط وَلَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰٹہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ ط۔ وَلَبِءْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ ط لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 104 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا ط قبل ازیں منافقین بنی اسرائیل کا ذکر ہوا تھا ‘ جن کا قول تھا : سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا۔ اب یہاں ان منافقین کا طرز عمل بیان ہو رہا ہے جو مسلمانوں میں شامل ہوگئے تھے اور یہود کے زیر اثر تھے۔ یہودی اور ان کے زیر اثر منافقین جب رسول اللہ ﷺ کی محفل میں بیٹھتے تھے تو اگر آپ ﷺ ‘ کی کوئی بات انہیں سنائی نہ دیتی یا سمجھ میں نہ آتی تو وہ راعِنَا کہتے تھے ‘ جس کا مفہوم یہ ہے کہ حضور ﷺ ! ذرا ہماری رعایت کیجیے ‘ بات کو دوبارہ دہرا دیجیے ‘ ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اہل ایمان بھی یہ لفظ استعمال کرنے لگے تھے۔ لیکن یہود اور منافقین اپنے خبث باطن کا اظہار اس طرح کرتے کہ اس لفظ کو زبان دباکر کہتے تو راعِیْنَا ہوجاتا یعنی اے ہمارے چرواہے ! اس پر دل ہی دل میں خوش ہوتے اور اس طرح اپنی خباثت نفس کو غذا مہیاّ کرتے۔ اگر کوئی ان کو ٹوک دیتا کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو تو جواب میں کہتے ہم نے تو راعِنَا کہا تھا ‘ معلوم ہوتا ہے آپ کی سماعت میں کوئی خلل پیدا ہوچکا ہے۔ چناچہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم اس لفظ ہی کو چھوڑ دو ‘ اس کی جگہ کہا کرو : اُنْظُرْنَا۔ یعنی اے نبی ﷺ ہماری طرف توجہ فرمایئے ! یا ہمیں مہلت دیجیے کہ ہم بات کو سمجھ لیں۔ اور دوسرے یہ کہ توجہ سے بات کو سنا کرو تاکہ دوبارہ پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ

مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

📘 آیت 105 مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ وَلاَ الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط۔ جن لوگوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ‘ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین مکہ میں سے ‘ وہ اس بات پر حسد کی آگ میں جل رہے ہیں کہ یہ کلام پاک آپ ﷺ پر کیوں نازل ہوگیا اور خاتم النبییّن کا یہ منصب آپ ﷺ ‘ کو کیوں مل گیا۔ وہ نہیں چاہتے کہ اللہ کی طرف سے کوئی بھی خیر آپ کو ملے۔ وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَآءُ ط۔ یہ تو اس کا اختیار اور اس کا فیصلہ ہے۔وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ ۔

۞ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 106 مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا ایک تو ہے نسخ یعنی کسی آیت کو منسوخ کردینا اور ایک ہے حافظے سے ہی کسی شے کو محو کردینا۔ نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا ط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اسے ہر شے کا اختیار حاصل ہے۔اس آیت کا اصل مفہوم اور پس منظر سمجھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا دین آدم علیہ السلام سے لے کر ایں دم تک ایک ہی ہے۔ نوح علیہ السلام کا دین ‘ موسیٰ علیہ السلام کا دین ‘ عیسیٰ علیہ السلام کا دین اورٌ محمد رسول اللہ ﷺ کا دین ایک ہی ہے ‘ جبکہ شریعتوں میں فرق رہا ہے۔ اس فرق کا اصل سبب یہ ہے کہ نوع انسانی مختلف اعتبارات سے ارتقاء کے مراحل طے کر رہی تھی۔ ذہنی پختگی ‘ شعور کی پختگی اور پھر تمدنی ارتقاء social evolution مسلسل جاری تھا۔ لہٰذا اس ارتقاء کے جس مرحلے میں رسول آئے اسی کی مناسبت سے ان کو تعلیمات دے دی گئیں۔ ان تعلیمات کے کچھ حصے ایسے تھے جو ابدی eternal ہیں ‘ وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ جبکہ کچھ حصے زمانے کی مناسبت سے تھے۔ چناچہ جب اگلا رسول آتا تو ان میں سے کچھ چیزوں میں تغیر و تبدلّ ہوجاتا ‘ کچھ چیزیں نئی آ جاتیں اور کچھ پرانی ساقط ہوجاتیں۔ یہ معاملہ نسخ کہلاتا ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ تعینّ کے ساتھ کسی حکم کو منسوخ فرما دیتے ہیں اور اس کی جگہ نیا حکم بھیج دیتے ہیں ‘ یا کسی شے کو سرے َ سے لوگوں کے ذہنوں سے خارج کردیتے ہیں۔ یہودی یہ اعتراض کر رہے تھے کہ اگر یہ دین وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کا تھا تو پھر شریعت پوری وہی ہونی چاہیے۔ یہاں اس اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔ پھر ناسخ و منسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ‘ شریعت کا ابتدائی خاکہ blue print سورة البقرۃ میں مل جاتا ہے ‘ لیکن شریعت کی تکمیل سورة المائدۃ میں ہوئی ہے۔ یہ جو تقریباً پانچ چھ سال کا عرصہ ہے اس میں کچھ احکام دیے گئے ‘ پھر ان میں ردّ و بدل کر کے نئے احکام دیے گئے اور پھر آخر میں یہ ارشاد فرمادیا گیا : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط المائدۃ : 3 آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا ہے۔ تو یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت محمدی ﷺ کے مابین ہی نہیں ہے ‘ بلکہ خود شریعت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شراب کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اس میں گناہ کا پہلو زیادہ ہے ‘ اگرچہ کچھ فائدے بھی ہیں۔ اس کے بعد حکم آیا کہ اگر شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔ پھر سورة المائدۃ میں آخری حکم آگیا اور اسے گندا شیطانی کام قرار دے کر فرمایا گیا : فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ تو کیا اب بھی باز آتے ہو یا نہیں ؟ اس طرح تدریجاً احکام آئے اور آخری حکم میں شراب حرام کردی گئی۔ یہاں فرمایا کہ اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم اس جیسا دوسرا حکم لے آتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ اس کا اختیار کامل ہے ‘ وہ مالک الملک ہے ‘ دین اس کا ہے ‘ اس میں وہ جس طرح چاہے تبدیلی کرسکتا ہے۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 آیت 106 مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا ایک تو ہے نسخ یعنی کسی آیت کو منسوخ کردینا اور ایک ہے حافظے سے ہی کسی شے کو محو کردینا۔ نَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْہَا اَوْ مِثْلِہَا ط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ اسے ہر شے کا اختیار حاصل ہے۔اس آیت کا اصل مفہوم اور پس منظر سمجھ لیجیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کا دین آدم علیہ السلام سے لے کر ایں دم تک ایک ہی ہے۔ نوح علیہ السلام کا دین ‘ موسیٰ علیہ السلام کا دین ‘ عیسیٰ علیہ السلام کا دین اورٌ محمد رسول اللہ ﷺ کا دین ایک ہی ہے ‘ جبکہ شریعتوں میں فرق رہا ہے۔ اس فرق کا اصل سبب یہ ہے کہ نوع انسانی مختلف اعتبارات سے ارتقاء کے مراحل طے کر رہی تھی۔ ذہنی پختگی ‘ شعور کی پختگی اور پھر تمدنی ارتقاء social evolution مسلسل جاری تھا۔ لہٰذا اس ارتقاء کے جس مرحلے میں رسول آئے اسی کی مناسبت سے ان کو تعلیمات دے دی گئیں۔ ان تعلیمات کے کچھ حصے ایسے تھے جو ابدی eternal ہیں ‘ وہ ہمیشہ رہیں گے ‘ جبکہ کچھ حصے زمانے کی مناسبت سے تھے۔ چناچہ جب اگلا رسول آتا تو ان میں سے کچھ چیزوں میں تغیر و تبدلّ ہوجاتا ‘ کچھ چیزیں نئی آ جاتیں اور کچھ پرانی ساقط ہوجاتیں۔ یہ معاملہ نسخ کہلاتا ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ تعینّ کے ساتھ کسی حکم کو منسوخ فرما دیتے ہیں اور اس کی جگہ نیا حکم بھیج دیتے ہیں ‘ یا کسی شے کو سرے َ سے لوگوں کے ذہنوں سے خارج کردیتے ہیں۔ یہودی یہ اعتراض کر رہے تھے کہ اگر یہ دین وہی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کا تھا تو پھر شریعت پوری وہی ہونی چاہیے۔ یہاں اس اعتراض کا جواب دیا جا رہا ہے۔ پھر ناسخ و منسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔ قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا ‘ شریعت کا ابتدائی خاکہ blue print سورة البقرۃ میں مل جاتا ہے ‘ لیکن شریعت کی تکمیل سورة المائدۃ میں ہوئی ہے۔ یہ جو تقریباً پانچ چھ سال کا عرصہ ہے اس میں کچھ احکام دیے گئے ‘ پھر ان میں ردّ و بدل کر کے نئے احکام دیے گئے اور پھر آخر میں یہ ارشاد فرمادیا گیا : اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط المائدۃ : 3 آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کرلیا ہے۔ تو یہ ناسخ و منسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت محمدی ﷺ کے مابین ہی نہیں ہے ‘ بلکہ خود شریعت محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے شراب کے بارے میں حکم دیا گیا کہ اس میں گناہ کا پہلو زیادہ ہے ‘ اگرچہ کچھ فائدے بھی ہیں۔ اس کے بعد حکم آیا کہ اگر شراب کے نشے میں ہو تو نماز کے قریب مت جاؤ۔ پھر سورة المائدۃ میں آخری حکم آگیا اور اسے گندا شیطانی کام قرار دے کر فرمایا گیا : فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ تو کیا اب بھی باز آتے ہو یا نہیں ؟ اس طرح تدریجاً احکام آئے اور آخری حکم میں شراب حرام کردی گئی۔ یہاں فرمایا کہ اگر ہم کسی حکم کو منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر لے آتے ہیں یا کم از کم اس جیسا دوسرا حکم لے آتے ہیں۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ‘ اس کا اختیار کامل ہے ‘ وہ مالک الملک ہے ‘ دین اس کا ہے ‘ اس میں وہ جس طرح چاہے تبدیلی کرسکتا ہے۔

أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِنْ قَبْلُ ۗ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

📘 آیت 108 اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْءَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُءِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ ط مثلاً ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کی بات نہیں مانیں گے جب تک کہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لیں۔ اسی طرح کے اور بہت سے مطالبے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیے جاتے تھے۔ یہاں مسلمانوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اس روش سے باز رہو ‘ ایسی بات تمہارے اندر پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ وَمَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بالْاِِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآء السَّبِیْلِ ظاہر ہے کہ جو منافقین اہل ایمان کی صفوں میں شامل تھے وہی ایسی حرکتیں کر رہے ہوں گے۔ اس لیے فرمایا کہ جو کوئی ایمان کو ہاتھ سے دے کر کفر کو اختیار کرلے گا وہ تو راہ راست سے بھٹک گیا۔ منافق کا معاملہ دو طرفہ ہوتا ہے ‘ چناچہ قرآن حکیم میں منافقین کے لیے مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ کے الفاظ آئے ہیں۔ اب اس کا بھی امکان ہوتا ہے کہ وہ کفر کی طرف یکسو ہوجائے اور اس کا بھی امکان ہوتا ہے کہ بالآخر ایمان کی طرف یکسو ہوجائے۔ جو شخص ایمان اور کفر کے درمیان معلقّ ہے اس کے لیے یہ دونوں امکانات ہیں۔ جو کفر کی طرف جا کر مستقل طور پر ادھر راغب ہوگیا یہاں اس کا ذکر ہے۔

وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 109 وَدَّ کَثِیْرٌ مِّنْ اَہْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْم بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا ج یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بلیّ کی دم کٹ جائے تو وہ یہ چاہے گی کہ ساری بلیوں کی دمیں کٹ جائیں تاکہ وہ علیحدہ سے نمایاں نہ رہے۔ چناچہ اہل کتاب یہ چاہتے تھے کہ اہل ایمان کو بھی واپس کفر میں لے آیا جائے۔حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ان کا یہ طرز عمل ان کے حسد کی وجہ سے ہے کہ یہ نعمت مسلمانوں کو کیوں دے دی گئی ؟مِّنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ ج وہ حق کو جان چکے ہیں اور پہچان چکے ہیں ‘ کسی مغالطے یا غلط فہمی میں نہیں ہیں۔فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوْا یہ بہت اہم مقام ہے۔ مسلمانوں کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ابھی تو مدنی دور کا آغاز ہو رہا ہے ‘ ابھی کشمکش ‘ کشاکش اور مقابلہ و تصادم کے بڑے سخت مراحل آ رہے ہیں۔ چونکہ تمہارا سب سے پہلا محاذ کفار مکہ کے خلاف ہے اور وہی سب سے بڑھ کر تم پر حملے کریں گے اور ان سے تمہاری جنگیں ہوں گی ‘ لہٰذا یہ جو آستین کے سانپ ہیں ‘ یعنی یہود ‘ ان کو ابھی مت چھیڑو۔ جب تک یہ خوابیدہ dormant پڑے رہیں انہیں پڑا رہنے دو۔ فی الحال ان کے طرز عمل کے بارے میں زیادہ توجہ نہ دو ‘ بلکہ عفو و درگزر اور چشم پوشی سے کام لیتے رہو۔ حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ط ایک وقت آئے گا جب اے مسلمانو تمہیں آخری غلبہ حاصل ہوجائے گا اور جب تم باہر کے دشمنوں سے نمٹ لو گے تو پھر ان اندرونی دشمنوں کے خلاف بھی تمہیں آزادی دی جائے گی کہ ان کو بھی کیفر کردار تک پہنچادو۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ

📘 آیت 11 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم نے محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مان لیا تو اب ان کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو ‘ ان ﷺ کے پیچھے چلو۔ ان ﷺ کا حکم ہے تو جنگ کے لیے نکلو۔ ان ﷺ کی طرف سے تقاضا آتا ہے تو مال پیش کرو۔ اور اگر تم اس سے کتراتے ہو تو پھر جماعتی زندگی کے اندر فتنہ و فساد پھیلا رہے ہو۔قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ہم تو صلح کرانے والے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ لڑنا بھڑنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ‘ ٹکراؤ اور تصادم کوئی اچھے کام تھوڑے ہی ہیں۔ بس لوگوں کو ٹھنڈے ٹھنڈے دعوت دیتے رہو ‘ جو چاہے قبول کرلے اور جو چاہے ردّ کر دے۔ یہ خواہ مخواہ دشمن سے ٹکرانا اور جنگ کرنا کس لیے ؟ اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے قربانیاں دینے ‘ مصیبتیں جھیلنے اور مشقتیں برداشت کرنے کے مطالبے کا ہے کے لیے ؟

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 آیت 110 وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ط جو مال تم اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہو وہ اللہ کے بینک میں جمع deposit ہوجاتا ہے اور مسلسل بڑھتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 111 وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ الاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ط جب یہ نئی امت مسلمہ تشکیل پا رہی تھی تو یہودی اور نصرانی ‘ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے ‘ مسلمانوں کے مقابلے میں جمع ہوگئے۔ انہوں نے مل کر یہ کہنا شروع کیا کہ جنت میں کوئی ہرگز نہیں داخل ہوگا سوائے اس کے جو یا تو یہودی ہو یا نصرانی ہو۔ اس طرح کی مذہبی جتھے بندیاں ہمارے ہاں بھی بن جاتی ہیں۔ مثلاً اہل حدیث کے مقابلے میں بریلوی اور دیوبندی جمع ہوجائیں گے ‘ اگرچہ ان کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بیر اپنی جگہ ہے۔ جب ایک مشترکہ دشمن نظرآتا ہے تو پھر وہ لوگ جن کے اپنے اندر بڑے اختلافات ہوتے ہیں وہ بھی ایک متحدہّ محاذ بنا لیتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے اس مشترکہ بیان کے جواب میں فرمایا :تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ ط یہ ان کی خواہشات ہیں ‘ من گھڑت خیالات ہیں ‘ خوش نما آرزوئیں wishful thinkings ہیں۔ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ کسی آسمانی کتاب سے دلیل لاؤ۔ کہیں تورات میں لکھا ہو یا انجیل میں لکھا ہو تو ہمیں دکھا دو ! اب یہاں پر پھر ایک عالمگیر صداقت universal truth بیان ہو رہی ہے :

بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 112 بَلٰی ق مَنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ اس کا سر تسلیم خم کردینے کا رویہ صدق و سچائی اور حسن کردار پر مبنی ہو۔ سر کا جھکانا منافقانہ انداز میں نہ ہو ‘ اس کی اطاعت جزوی نہ ہو کہ کچھ مانا کچھ نہیں مانا۔ َ ّ فَلَہٗ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖص تو اس کے لیے اس کا اجر محفوظ ہے اس کے رب کے پاس۔ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔ یہ دوسری آیت ہے کہ جس سے کچھ لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے ‘ لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ اس کا جواب پہلے عرض کیا جا چکا ہے۔ مختصراً یہ کہ :اوّلًا قرآن حکیم میں ہر مقام پر ساری چیزیں بیان نہیں کی جاتیں۔ کوئی شے ایک جگہ بیان کی گئی ہے تو کوئی کہیں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے۔ اس سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو اس کو پورے کا پورا ایک کتاب کی حیثیت سے لینا ہوگا۔ ثانیاً یہ سارا سلسلۂ کلام دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے اور اس سے پہلے یہ الفاظ واضح طور پر آ چکے ہیں : وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ ص چناچہ یہ عبارت ضرب کھا رہی ہے اس پورے کے پورے سلسلۂ مضامین سے جو ان دو بریکٹوں کے درمیان آ رہا ہے۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 آیت 113 وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ لَیْسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیْءٍ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے ‘ کوئی جڑ بنیاد نہیں ہے۔ وَّقَالَتِ النَّصٰرٰی لَیْسَتِ الْیَہُوْدُ عَلٰی شَیْءٍ ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ بےبنیاد لوگ ہیں ‘ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وَّہُمْ یَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط عہد نامۂ قدیم Old Testament یہودیوں اور عیسائیوں میں مشترک ہے۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اور امریکہ میں جدید عیسائیت کی صورت میں ایک بہت بڑی طاقت جو ابھر رہی ہے وہ عیسائیت کو یہودیت کے رنگ میں رنگ رہی ہے۔ رومن کیتھولک مذہب نے تو بائبل سے اپنارشتہ توڑ لیا تھا اور سارا اختیار پوپ کے ہاتھ میں آگیا تھا ‘ لیکن پروٹسٹنٹس Protestants نے پھر بائبل کو قبول کیا۔ اب اس کی منطقی انتہا یہ ہے کہ عہۂ فامہ قدیم پر بھی ان کی توجہ ہو رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اسے بھی ہم اپنی کتاب مانتے ہیں اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ امریکہ میں ہم نے ایک سیمینار منعقد کیا تھا ‘ جس میں ایک یہودی عالم نے کہا تھا کہ اس وقت اسرائیل کو سب سے بڑی نصرت و حمایت امریکہ کے ان عیسائیوں سے مل رہی ہے جو Evengelists کہلاتے ہیں اور وہاں پر ایک بڑا فرقہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ بہرحال یہ ان کا طرز عمل بیان ہوا ہے۔ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ج یہاں اشارہ ہے مشرکین مکہ کی طرف۔فَاللّٰہُ یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اب دیکھئے ‘ اس سلسلۂ کلام کی بقیہ آیات میں بھی اگرچہ خطاب تو بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ لیکن اب یہاں پر اہل مکہ سے کچھ تعریض شروع ہوگئی ہے۔ اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ آئے گا ‘ پھر تحویل قبلہ کا ذکر آئے گا۔ بیت اللہ چونکہ اس وقت مشرکین مکہ کے قبضے میں تھا ‘ لہٰذا اس حوالے سے کچھ متعلقہ مضامین آ رہے ہیں اور تحویل قبلہ کی تمہید باندھی جا رہی ہے۔ تحویل قبلہ دراصل اس بات کی علامت تھی کہ اب وہ سابقہ امت مسلمہ معزول کی جا رہی ہے اور اس مقام پر ایک نئی امت ‘ امت محمد ﷺ کی تقرریّ عمل میں لائی جا رہی ہے۔ اسی حوالے سے کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ مِثْلَ قَوْلِہِمْ ج کے الفاظ میں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ کیا گیا۔

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 114 وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو مسجد حرام میں حاضری سے محروم کردیا تھا اور ان کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی۔ 6 ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رض کے ہمراہ عمرے کے ارادے سے مکہ کا سفر فرمایا ‘ لیکن مشرکین نے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس موقع پر صلح حدیبیہ ہوئی اور آپ ﷺ ‘ کو عمرہ کیے بغیرواپس آنا پڑا۔ پھر اگلے برس 7 ہجری میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام رض کے ہمراہ عمرہ ادا کیا۔ تو یہ سات برسٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان پر بہت شاق گزرے ہیں۔ یہاں مشرکین مکہ کے اس ظلم کا ذکر ہو رہا ہے کہ انہوں نے اہل ایمان کو مسجد حرام سے روک رکھا ہے۔ وَسَعٰی فِیْ خَرَابِہَا ط خراب اور تخریب کا مادۂ اصلی ایک ہی ہے۔ تخریب دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ظاہری تخریب کہ مسجد کو گرا دینا ‘ اور ایک باطنی اور معنوی تخریب کہ اللہ کے گھر کو توحید کی بجائے شرک کا اڈہ بنا دینا۔ مشرکین مکہ نے بیت اللہ کو بت کدہ بنا دیا تھا : ؂دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا !خانہ کعبہ میں 360 بت رکھ دیے گئے تھے ‘ جسے ابراہیم علیہ السلام نے توحید خالص کے لیے تعمیر کیا تھا۔ مساجد کے ساتھ لفظ خراب ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ یہ بڑی دلدوز حدیث ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے ذہن نشین کرلیں۔حضرت علی رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یُوْشِکُ اَنْ یَاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ اندیشہ ہے کہ لوگوں پر یعنی میری امت پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَام الاَّ اسْمُہٗ اسلام میں سے اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْآن الاَّ رَسْمُہٗ اور قرآن میں سے اس کے رسم الخط الفاظ اور حروف کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کی ضمانت دی ہے کہ قرآن حکیم کے الفاظ و حروف من وعن محفوظ رہیں گے۔ مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوجائیں گی۔ یہاں بھی لفظ خراب نوٹ کیجیے۔ گویا معنوی اعتبار سے یہ ویران ہوجائیں گی۔ عُلَمَاوؤھُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَاءِ ان کے علماء آسمان کی چھت کے نیچے کے بدترین انسان ہوں گے۔ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ 13 فتنہ ان ہی کے اندر سے برآمد ہوگا اور انہی میں گھس جائے گا۔ یعنی ان کا کام ہی فتنہ انگیزی ‘ مخالفت اور جنگ وجدال ہوگا۔ اپنے اپنے فرقے کے لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے رہنا اور مسلمانوں کے اندر اختلافات کو ہوا دینا ہی ان کا کام رہ جائے گا۔آج جن کو ہم علماء کہتے ہیں ان کی عظیم اکثریت اس کیفیت سے دوچار ہوچکی ہے۔ جب مذہب اور دین پیشہ بن جائے تو اس میں کوئی خیر باقی نہیں رہتا۔ دین اور مذہب پیشہ نہیں تھا ‘ لیکن اسے پیشہ بنا لیا گیا۔ اسلام میں کوئی پیشوائیت نہیں ‘ کوئی پاپائیت نہیں ‘ کوئی برہمنیت نہیں۔ اسلام تو ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ ہر شخص کتاب اللہ پڑھے ‘ ہر شخص عربی سیکھے اور کتاب اللہ کو سمجھے۔ ہر شخص کو عبادات کے قابل ہونا چاہیے۔ ہر شخص اپنی بچی کا نکاح خود پڑھائے ‘ اپنے والد کا جنازہ خود پڑھائے۔ ہم نے خود اسے پیشہ بنا دیا ہے اور عبادات کے معاملے میں ایک خاص طبقے کے محتاج ہوگئے ہیں۔ مرزا غالبؔ نے کہا تھا : ع پیشے میں عیب نہیں ‘ رکھیے نہ فرہاد کو نام !ایک چیز جب پیشہ بن جاتی ہے تو اس میں پیشہ ورانہ چشمکیں اور رقابتیں در آتی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات واضح رہے کہ دنیا کبھی علماءِ حق سے خالی نہیں ہوگی۔ چناچہ یہاں علماءِ حق بھی ہیں اور علماءِ سو بھی ہیں ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اکثریت کا حال وہی ہوچکا ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے ‘ ورنہ امت کا یوں بیڑہ غرق نہ ہوتا۔اُولٰٓءِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْہَآ اِلاَّ خَآءِفِیْنَ ط۔ ان لوگوں کو لائق نہیں ہے کہ اللہ کی مسجدوں میں داخل ہوں ‘ یہ اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔لَہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ۔ اگلی آیت میں تحویل قبلہ کے لیے تمہید باندھی جا رہی ہے۔ قبلہ کی تبدیلی بڑا حساس معاملہ تھا۔ جن لوگوں کو یروشلم اور بیت المقدس کے ساتھ دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی عقیدت جاگزیں تھی ‘ جبکہ مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کے ساتھ جن کو دلچسپی تھی ان کے دلوں میں اس کی محبت و عقیدت تھی۔ تو اس حوالے سے قبلہ کی تبدیلی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ ہجرت کے بعد قبلہ دو دفعہ بدلا ہے۔ مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ تھا۔ مدینے میں آکر رسول اللہ ﷺ نے سولہ مہینے تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی اور پھر بیت اللہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم آیا۔ اس طرح اہل ایمان کے کئی امتحان ہوگئے ‘ ان کا ذکر آگے آجائے گا۔ لیکن یہاں اس کی تمہید بیان ہو رہی ہے۔ فرمایا :

وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 115 وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق یعنی اگر ہم مغرب کی طرف رخ کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ مغرب میں ہے معاذ اللہ۔ اللہ تو جہت اور مقام سے ماورا ہے ‘ وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے۔ یہ تو یکسانیت پیدا کرنے کے لیے اور اجتماعی رنگ دینے کے لیے ایک چیز کو قبلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ تو ایک علامت ہے۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے : ؂ َ ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود قبلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں !قبلہ ہمارا مسجود تو نہیں ہے ! فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ وہ بہت وسعت والا ہے ‘ وہ کسی بھی سمت میں محدود نہیں ہے ‘ اور ہر شے کا جاننے والا ہے۔تحویل قبلہ کی تمہید کے طور پر ایک آیت کہہ کر اب پھر اصل سلسلۂ کلام جوڑا جا رہا ہے :

وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ

📘 آیت 116 وَقَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًالا سُبْحٰنَہٗ ط ظاہر بات ہے یہاں پھر اہل مکہ ہی کی طرف اشارہ ہو رہا ہے جن کا یہ قول تھا کہ اللہ نے اپنے لیے اولاد اختیار کی ہے۔ وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ نصاریٰ کہتے تھے کہ مسیح علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ‘ اور یہودیوں کا بھی ایک گروہ ایسا تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا کہتا تھا۔بَلْ لَّہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط سب مخلوق اور مملوک ہیں ‘ خالق اور مالک صرف وہ ہے۔کُلٌّ لَّہٗ قٰنِتُوْنَ ۔ بڑے سے بڑا رسول ہو یا بڑے سے بڑا ولی یا بڑے سے بڑا فرشتہ یا بڑے بڑے اجرام سماویہ ‘ سب اسی کے حکم کے پابند ہیں۔

بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 آیت 117 بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وہ بغیر کسی شے کے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے۔ ابداع اور خلق میں فرق نوٹ کیجیے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی رح نے حجۃ اللہ البالغہ کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال بنیادی طور پر تین ہیں : ابداع ‘ خلق اور تدبیر۔ ابداع سے مراد ہے عدم محض سے کسی چیز کو وجود میں لانا ‘ جسے انگریزی میں creation ex nihilo سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جبکہ خلق ایک چیز سے دوسری چیز کا بنانا ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے گارے سے انسان بنایا ‘ آگ سے ّ جنات بنائے اور نور سے فرشتے بنائے ‘ یہ تخلیق ہے۔ تو بدیع وہ ذات ہے جس نے کسی مادۂ تخلیق کے بغیر ایک نئی کائنات پیدا فرما دی۔ ہمارے ہاں بدعت وہ شے کہلاتی ہے جو دین میں نہیں تھی اور خواہ مخواہ لا کر شامل کردی گئی۔ جس بات کی جڑ بنیاد دین میں نہیں ہے وہ بدعت ہے۔

وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

📘 آیت 118 وَقَالَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ یہاں پر مشرکین مکہ کی طرف روئے سخن ہے۔لَوْلاَ یُکَلِّمُنَا اللّٰہُ اَوْ تَاْتِیْنَآ اٰیَۃٌ ط مشرکین مکہ کا رسول اللہ ﷺ سے بڑی شدتّ کے ساتھ یہ مطالبہ تھا کہ آپ کوئی ایسے معجزات ہی دکھا دیں جیسے آپ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام نے دکھائے تھے یا موسیٰ علیہ السلام نے دکھائے تھے۔ اگر آپ ہمارے یہ مطالبے پورے کردیں تو ہم آپ کو اللہ کا رسول مان لیں گے۔ یہ مضمون تفصیل کے ساتھ سورة الانعام میں اور پھر سورة بنی اسرائیل میں آئے گا۔ کَذٰلِکَ قَالَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ مِّثْلَ قَوْلِہِمْ ط تَشَابَہَتْ قُلُوْبُہُمْ ط قَدْ بَیَّنَّا الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ

📘 آیت 119 اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا لا آپ ﷺ ‘ کی بنیادی حیثیت یہ ہے کہ آپ ﷺ اہل حق کو جنت اور اس کی تمام تر نعمتوں کی بشارت دیں ‘ اور جو غلط راستے پر چل پڑیں ‘ کفر کریں ‘ منافقت میں مبتلا ہوں ‘ ملحد ہوں اور بدعملی کریں ان کو آپ ﷺ ‘ خبردار کردیں کہ ان کے لیے جہنم تیار کردی گئی ہے۔ آپ ﷺ کا کام دعوت ‘ ابلاغ ‘ تبلیغ اور نصیحت ہے۔ وَّلاَ تُسْءَلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ ۔ جو لوگ اپنے طرز عمل کی بنا پر جہنم کے مستحق قرار پا گئے ہیں ان کے بارے میں آپ ﷺ ذمہّ دار نہیں ہیں۔ آپ ﷺ سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ یہ کیوں جہنم میں پہنچ گئے ؟ آپ ﷺ کے ہوتے ہوئے یہ جہنمی کیوں ہوگئے ؟ نہیں ‘ یہ آپ ﷺ ‘ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ کون جنت میں جانا چاہتا ہے اور کون جہنم میں ‘ یہ آدمی کا اپنا فیصلہ ہے۔ آپ ﷺ کا کام حق کو واضح کردینا ہے ‘ اس کی وضاحت میں کمی نہ رہ جائے ‘ حق واضح ہوجائے ‘ کوئی اشتباہ باقی نہ رہے ‘ بس یہ ذمہ داری آپ ﷺ کی ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں۔ انسان اگر اپنی اصل مسؤلیت سے زیادہ ذمہ داری اپنے سر پر ڈال لے تو خواہ مخواہ مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ ہمارے ہاں کی بہت سی جماعتیں اسی طرح کی غلطیوں کی وجہ سے غلط راستے پر پڑگئیں اور پوری کی پوری تحریکیں برباد ہوگئیں۔ رسول اللہ ﷺ چاہتے تھے کہ کسی طرح یہ علماء یہود ایمان لے آئیں اور جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ ان کے لیے آپ ﷺ نے اللہ کے حضور دعائیں کی ہوں گی۔ جیسے مکی دور میں آپ ﷺ دعائیں مانگتے تھے کہ اے اللہ ! عمرو بن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی ایک کو تو میری جھولی میں ڈال دے اور اس کے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما !

أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 12 اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ یہی تو ہیں جو فساد پھیلانے والے ہیں۔ اس لیے کہ محمد ﷺ کی دعوت تو زمین میں اصلاح کے لیے ہے۔ اس اصلاح کے لیے کچھ آپریشن کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ مریض اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ آپریشن کے بغیر اس کی شفا ممکن نہیں ہے۔ اب اگر تم اس آپریشن کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہو تو درحقیقت تم فساد مچا رہے ہو ‘ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔ آیت کے آخری الفاظ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ شعوری نفاق اور شے ہے ‘ جبکہ یہاں سارا تذکرہ غیر شعوری نفاق کا ہو رہا ہے۔

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 آیت 120 وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَلا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ ط لہٰذا آپ ان سے امید منقطع کر لیجیے۔ اس لیے کہ زیادہ امید ہو تو پھر مایوسی ہوجاتی ہے۔ اقبال نے بندۂ مؤمن کے بارے میں بہت خوب کہا ہے : ع اس کی امیدیں قلیل ‘ اس کے مقاصد جلیل !مقصد اونچا ہو ‘ لیکن امید قلیل رہنی چاہیے۔ اللہ چاہے گا تو ہوجائے گا ‘ نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا۔ بندۂ مؤمن کا کام اپنی حد تک اپنا فرض ادا کردینا ہے۔ اس سے زیادہ کی خواہش اگر اپنے دل میں پالیں گے تو کسی عجلت پسندی میں گرفتار ہوجائیں گے اور کسی راہ یسیر یا راہ قصیر short cut کے ذریعے منزل تک پہنچنے کی کوشش کریں گے اور اپنے آپ کو بھی برباد کرلیں گے۔قُلْ اِنَّ ہُدَی اللّٰہِ ہُوَ الْہُدٰی ط۔ جو اللہ نے بتلایا ہے وہی سیدھا راستہ ہے۔وَلَءِنِ اتَّبَعْتَ اَہْوَآءَ ‘ ہُمْ بَعْدَ الَّذِیْ جَآءَ ‘ کَ مِنَ الْعِلْمِلا اگر بفرض محال آپ ﷺ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی کہ چلو کچھ لو کچھ دو کا معاملہ کرلو ‘ کچھ ان کی بات مانوکچھ اپنی بات منوا لو ‘ تو یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل قبول نہ ہوگا۔ مکہ میں قریش کی طرف سے اس طرح کی پیشکش کی جاتی تھی کہ کچھ اپنی بات منوا لیجیے ‘ کچھ ہماری مان لیجیے ‘ compromise کرلیجیے ‘ اور اب مدینہ میں یہود کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ چناچہ اس پر متنبہ کیا جا رہا ہے۔ ّ مَا لَکَ مِنَ اللّٰہِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ معاذ اللہ ! حق کی تلوار بالکل عریاں ہے۔ اللہ کا عدل ہر فرد کے لیے الگ نہیں ہے ‘ یہ فرد سے فرد تک بدلتا نہیں ہے۔ ایسے ہی ہر قوم اور ہر امت کے لیے قانون تبدیل نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک قوم سے کوئی ایک معاملہ ہو اور دوسری قوم سے کوئی دوسرا معاملہ۔ اللہ کے اصول اور قوانین غیر مبدل ہیں۔ اس ضمن میں اس کی ایک سنت ہے جس کے بارے میں فرمایا : فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا فاطر پس تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے ‘ اور تم اللہ کے طریقے کو ہرگز ٹلتا ہوا نہیں پاؤ گے۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 آیت 121 اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تلاَوَتِہٖ ط۔ اس پر میں نے اپنے کتابچے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق میں بحث کی ہے کہ تلاوت کا اصل حق کیا ہے۔ ایک بات جان لیجیے کہ تلاوت کا لفظ ‘ جو قرآن نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ‘ بڑا جامع لفظ ہے۔ تَلَا یَتْلُوْ کا معنی پڑھنا بھی ہے اور تَلَا یَتْلُوْ کسی کے پیچھے پیچھے چلنے to follow کو بھی کہتے ہیں۔ سورة الشمس کی پہلی دو آیات ملاحظہ کیجیے : وَالشَّمْسِ وَضُحٰہَا وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰٹہَا قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی۔ اور قسم ہے چاند کی جب وہ اس کے پیچھے آتا ہے۔ جب آپ کوئی کتاب پڑھتے ہیں تو آپ اس کے متن text کے پیچھے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ چناچہ بعض لوگ جو زیادہ ماہر نہیں ہوتے ‘ کتاب پڑھتے ہوئے اپنی انگلی ساتھ ساتھ چلاتے ہیں تاکہ نگاہ ادھر سے ادھر نہ ہوجائے ‘ ایک سطر سے دوسری سطر پر نہ پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کی تلاوت کا اصل حق یہ ہوگا کہ آپ اس کتاب کو follow کریں ‘ اسے اپنا امام بنائیں ‘ اس کے پیچھے چلیں ‘ اس کا اتباعّ کریں ‘ اس کی پیروی کریں ‘ جس کی ہم دعا کرتے ہیں : وَاجْعَلْہُ لِیْ اِمَامًا وَّنُوْرًا وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً اور اسے میرے لیے امام اور روشنی اور ہدایت اور رحمت بنا دے ! اللہ تعالیٰ اس قرآن کو ہمارا امام اسی وقت بنائے گا جب ہم فیصلہ کرلیں کہ ہم اس کتاب کے پیچھے چلیں گے۔اُولٰٓءِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط۔ یعنی جو اللہ کی کتاب کی تلاوت کا حق ادا کریں اور اس کی پیروی بھی کریں۔ اور جو نہ تو تلاوت کا حق ادا کریں اور نہ کتاب کی پیروی کریں ‘ لیکن وہ دعویٰ کریں کہ ہمارا ایمان ہے اس کتاب پر تو یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : مَا آمَنَ بالْقُرْآنِ مَنِ اسْتَحَلَّ مَحَارِمَہٗ 14 جس شخص نے قرآن کی حرام کردہ چیزوں کو اپنے لیے حلال کرلیا اس کا قرآن پر کوئی ایمان نہیں ہے۔وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ اب یہود کے ساتھ اس سلسلۂ کلام کا اختتام ہو رہا ہے جس کا آغاز چھٹے رکوع سے ہوا تھا۔ اس سلسلۂ کلام کے آغاز میں جو دو آیات آئی تھیں انہیں میں نے بریکٹ سے تعبیر کیا تھا۔ وہی دو آیات یہاں دوبارہ آرہی ہیں اور اس طرح گویا بریکٹ بند ہو رہی ہے۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

📘 فرمایا :آیت 122 یٰبَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ یہ آیت بعینہٖ ان الفاظ میں چھٹے رکوع کے آغاز میں آچکی ہے۔ آیت 47 دوسری آیت بھی جوں کی توں آرہی ہے ‘ صرف الفاظ کی ترتیب تھوڑی سی بدلی ہے۔ عبارت کے شروع اور آخر والی بریکٹس ایک دوسرے کا عکس ہوتی ہیں۔ ایک کی گولائی دائیں طرف ہوتی ہے تو دوسری کی بائیں طرف۔ اسی طرح یہاں دوسری آیت کی ترتیب درمیان سے تھوڑی سی بدل دی گئی ہے۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ

📘 فرمایا :آیت 123 وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وہاں الفاظ تھے : وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی ‘۔ ‘ وَّلاَ تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اسے کوئی سفارش ہی فائدہ دے سکے گی یہاں عدل پہلے اور شفاعت بعد میں ہے ‘ وہاں شفاعت پہلے ہے اور عدل بعد میں۔ بس یہی ایک تبدیلی ‘ ہے۔ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ۔ یہ ٹکڑا بھی جوں کا توں وہی ہے جس پر چھٹے رکوع کی دوسری آیت ختم ہوئی تھی۔

۞ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ

📘 سورة البقرۃ کے ابتدائی اٹھارہ رکوعوں میں روئے سخن مجموعی طور پر سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی جانب ہے۔ ابتدائی چار رکوع اگرچہ عمومی نوعیت کے حامل ہیں ‘ لیکن ان میں بھی یہود کی طرف روئے سخن کے اشارے موجود ہیں۔ چوتھے رکوع کے آغاز سے پندرہویں رکوع کی ابتدائی دو آیات تک ‘ ان دس رکوعوں میں ساری گفتگو صراحت کے ساتھ بنی اسرائیل ہی سے ہے ‘ اِلّا یہ کہ ایک جگہ اہل ایمان سے خطاب کیا گیا اور کچھ مشرکین مکہ کا بھی تعریض کے اسلوب میں تذکرہ ہوگیا۔اس کے بعد اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر شروع ہو رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل دو شاخیں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ‘ جو بڑے تھے ‘ جبکہ دوسری بیوی حضرت سارہ سے اسحاق علیہ السلام پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام تھے ‘ جن کا لقب اسرائیل تھا۔ ان کے بارہ بیٹوں سے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے وجود میں آئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے پاس ‘ وادئ غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا ‘ جن سے ایک نسل بنی اسماعیل چلی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد نبوت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو تو ملی ‘ لیکن اس کے بعد تقریباً تین ہزار سال کا فصل ہے کہ اس شاخ میں کوئی نبوت نہیں آئی۔ نبوت کا سلسلہ دوسری شاخ میں چلا۔ حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب اور ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام سب نبی تھے۔ پھر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام سے شروع ہو کر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ علیہ السلام تک چودہ سو برس مسلسل ایسے ہیں کہ بنی اسرائیل میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ایک تیسری شاخ بنی قطورہ بھی تھی۔ یہ آپ علیہ السلام کی تیسری اہلیہ قطورہ سے تھی۔ ان ہی میں سے بنی مدین یا بنی مدیان تھے ‘ جن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت ہوئی تھی۔ اس طرح حضرت شعیب علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بعد بنی اسماعیل میں نبوت کا سلسلہ منقطع رہا۔ یہاں تک کہ تقریباً تین ہزار سال بعد محمد عربی ﷺ کی بعثت ہوئی۔ آپ ﷺ کی بعثت کے بعد امامت الناس سابقہ امت مسلمہ بنی اسرائیل سے موجودہ امت مسلمہ اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو منتقل ہوگئی۔ اس انتقال امامت کے وقت بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے ان کے اور بنی اسماعیل کے مابین قدر مشترک کا تذکرہ کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے لیے بات کا سمجھنا آسان ہوجائے۔ انہیں بتایا جا رہا ہے کہ تمہارے جدامجد بھی ابراہیم علیہ السلام ہی تھے اور یہ دوسری نسل بھی ابراہیم علیہ السلام ہی کی ہے۔ اس حوالے سے یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور اب اسے اہل توحید کا مرکز بنایا جا رہا ہے ‘ چناچہ پندرہویں رکوع سے اٹھارہویں رکوع تک یہ ساری گفتگو جو ہو رہی ہے اس کا اصل مضمون تحویل قبلہ ہے۔آیت 124 وَاِذِ ابْتَلآی اِبْرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ط عید الاضحی اور فلسفۂ قربانی کے عنوان سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیتّ پر میرا ایک کتابچہ ہے جو میری ایک تقریر اور ایک تحریر پر مشتمل ہے۔ تحریر کا عنوان ہے : حج اور عید الاضحی اور ان کی اصل روح۔ اپنی یہ تحریر مجھے بہت پسند ہے۔ اس میں میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحانات اور آزمائشوں کا ذکر کیا ہے۔ آپ علیہ السلام کے طویل سفر حیات کا خلاصہ اور لب لباب ہی امتحان و آزمائش ہے ‘ جس کے لیے قرآن کی اصطلاح ابتلاء ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ان کی پوری داستان ابتلا کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے ‘ اور فَاَتَمَّہُنَّ کا لفظ ان تمام امتحانات کا نتیجہ ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ان سب میں پورا اترے ‘ ان سب میں پاس ہوگئے ‘ ہر امتحان میں نمایاں حیثیت سے کامیابی حاصل کی۔قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ للنَّاسِ اِمَامًا ط قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ط یعنی میری نسل کے بارے میں بھی یہ وعدہ ہے یا نہیں ؟قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ یعنی تمہاری نسل میں سے جو صاحب ایمان ہوں گے ‘ نیک ہوں گے ‘ سیدھے راستے پر چلیں گے ‘ ان سے متعلق ہمارا یہ وعدہ ہے۔ لیکن یہ عہد نسلیت کی بنیاد پر نہیں ہے کہ جو بھی تمہاری نسل سے ہو وہ اس کا مصداق بن جائے۔

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

📘 آیت 125 وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا ط وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ط۔ دورِجدید کے بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ مقام ابراہیم علیہ السلام سے مراد کوئی خاص پتھر نہیں ہے ‘ بلکہ اصل میں وہ پوری جگہ ہی مقام ابراہیم ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام آباد ہوئے تھے۔ لیکن صحیح بات وہی ہے جو ہمارے سلف سے چلی آرہی ہے اور اس کے بارے میں پختہ روایات ہیں کہ جس طرح حجر اسود جنت سے آیا تھا ایسے ہی یہ بھی ایک پتھر تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جنت سے لایا گیا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے دوران آپ علیہ السلام اس پر کھڑے ہوتے تھے اور جیسے جیسے تعمیر اوپر جا رہی تھی اس کے لیے یہ پتھر خود بخود اونچا ہوتا جاتا تھا۔ اس پتھر پر آپ علیہ السلام کے قدموں کا نشان ہے۔ یہی پتھر مقام ابراہیم ہے جو اب بھی محفوظ ہے۔ بیت اللہ کا طواف مکمل کر کے اس کے قریب دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے۔ وَعَہِدْنَآ اِلآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَہِّرَا بَیْتِیَ للطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اس سے دونوں طرح کی تطہیر مراد ہے۔ ظاہری صفائی بھی ہو ‘ گندگی نہ ہو ‘ تاکہ زائرین آئیں تو ان کے دلوں میں کدورت پیدا نہ ہو ‘ انہیں کو فت نہ ہو۔ اور تطہیر باطنی کا بھی اہتمام ہو کہ وہاں توحید کا چرچا ہو ‘ کسی طرح کا کوئی کفر و شرک در نہ آنے پائے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

📘 آیت 126 وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَہْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود ہی احتیاط برتی اور اپنی ساری اولاد کے لیے یہ دعا نہیں کی ‘ بلکہ صرف ان کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ پہلی دعا میں وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا : لاَ یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ لیکن یہاں معاملہ مختلف نظر آتا ہے۔قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً جو لوگ ایمان سے محروم ہوں گے انہیں میں امامت میں شامل نہیں کروں گا ‘ لیکن بہرحال دنیوی زندگی کا مال و متاع تو میں ان کو بھی دوں گا۔ ثُمَّ اَضْطَرُّہٗ اِلٰی عَذَاب النَّارِ ط وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 127 وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰہٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلُ ط۔ باپ بیٹا دونوں بیت اللہ کی تعمیر میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں لفظ قَوَاعِدَ جو آیا ہے اسے نوٹ کیجیے ‘ یہ قاعدہ کی جمع ہے اور بنیادوں کو کہا جاتا ہے۔ اس لفظ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کے اصل معمار اور بانی نہیں ہیں۔ کعبہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ سورة آل عمران آیت 96 میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ للنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا یہی ہے جو مکہ میں ہے۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے لے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک ‘ کم و بیش چار ہزار برس کے دوران ‘ روئے ارضی پر کوئی مسجد تعمیر نہ ہوئی ہو ؟ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر کیا گیا سب سے پہلا گھر یہی کعبہ تھا۔ امتداد زمانہ سے اس کی صرف بنیادیں باقی رہ گئی تھیں ‘ اور چونکہ یہ وادی میں واقع تھا جو سیلاب کا راستہ تھا ‘ لہٰذا سیلاب کی وجہ سے اس کی سب دیواریں بہہ گئی تھیں۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام نے ان بنیادوں کو پھر سے اٹھایا۔ سورة الحج میں یہ مضمون تفصیل سے آیا ہے۔جب وہ ان بنیادوں کو اٹھا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے تھے : رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ط۔ ہماری اس کوشش اور ہماری اس محنت و مشقت کو قبول فرما ! جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی تعمیر کر رہے تھے اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر لگ بھگ تیرہ برس تھی ‘ آپ علیہ السلام اس کام میں اپنے والد محترم کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 128 رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ نوٹ کیجیے ‘ یہ دعا ابراہیم علیہ السلام کر رہے ہیں۔ تو میں اور آپ اگر اپنے بارے میں مطمئن ہوجائیں کہ میری موت لازماً حق پر ہوگی ‘ اسلام پر ہوگی تو یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ چناچہ ڈرتے رہنا چاہیے اور اللہ کی پناہ طلب کرتے رہنا چاہیے۔ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۔ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا اے پروردگار ! تیرا یہ گھر تو ہم نے بنا دیا ‘ اب اس کی زیارت سے متعلق جو رسومات ہیں ‘ جو مناسک حج ہیں وہ ہمیں سکھا دے۔وَتُبْ عَلَیْنَاج ۔ ہم پر اپنی شفقت کی نظر فرما۔اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 129 رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِّنْہُمْ فِیْہِمْ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نسل یعنی بنی اسماعیل مراد ہے۔ وہ دونوں دعا کر رہے تھے کہ پروردگار ! ہماری اس نسل میں ایک رسول مبعوث فرمانا جو انہی میں سے ہو ‘ باہر کا نہ ہو ‘ تاکہ ان کے اور اس کے درمیان مغائرت اور اجنبیت کا کوئی پردہ حائل نہ ہو۔ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ کتاب کا صرف پڑھ کر سنا دینا تو بہت آسان کام ہے۔ اس کے بعد کتاب اور اس میں موجود حکمت کی تعلیم دینا اور اسے دلوں میں بٹھانا اہم تر ہے۔وَیُزَکِّیْہِمْ ۔ ان کا تزکیہ کرے اور ان کے دلوں میں تیری محبت اور آخرت کی طلب کے سوا کوئی طلب باقی نہ رہنے دے۔اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 آیت 13 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ آخر دیکھو ‘ یہ دوسرے اہل ایمان ہیں ‘ جب بلاوا آتا ہے تو فوراً لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ‘ جبکہ تم نے اور ہی روش اختیار کر رکھی ہے۔ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ ط منافقینّ سچے اہل ایمان کے بارے میں کہتے تھے کہ انہیں تو اپنے نفع کی فکر ہے نہ نقصان کی ‘ نہ خطرات کا کوئی خیال ہے نہ اندیشوں کا کوئی گمان۔ جان ‘ مال اور اولاد کی کوئی پروا نہیں۔ یہ گھر بار کو چھوڑ کر آگئے ہیں ‘ اپنے بال بچے کفار مکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے ہیں کہ سرداران قریش ان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں ‘ تو یہ تو بیوقوف لوگ ہیں۔ آج کل آپ ایسے لوگوں کو fanatics کہتے ہیں بھئی دیکھ بھال کر چلنا چاہیے ‘ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا چاہیے۔ اپنے نفع و نقصان کا خیال کر کے چلنا چاہیے۔ ٹھیک ہے ‘ اسلام دین حق ہے ‘ لیکن بہرحال اپنی اور اپنے اہل و عیال کی مصلحتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ لوگ تو معلوم ہوتا ہے بالکل دیوانے اور fanatics ہوگئے ہیں۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُوْنَ وہ صادق الایمان جو ایمان کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہیں ‘ ان سے بڑا عقل مند اور ان سے بڑا سمجھ دار کوئی نہیں۔ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ‘ یہ زندگی تو عارضی ہے ‘ تو اگر کل کے بجائے آج ختم ہوجائے یا ابھی ختم ہوجائے تو کیا فرق پڑے گا ؟ یہاں سے جانا تو ہے ‘ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں ‘ جانا تو ہے۔ تو عقل تو ان کے اندر ہے۔

وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ

📘 آیت 130 وَمَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ اِبْرٰہٖمَ رغبت کا لفظ عربی زبان میں دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ رَغِبَ اِلٰی کا مفہوم ہے کسی شے کی طرف رغبت ہونا ‘ محبت ہونا ‘ میلان ہونا ‘ جبکہ رَغِبَ عَنْ کا مطلب ہے کسی شے سے متنفرّ ہونا ‘ کسی شے سے اباء کرنا ‘ اس کو چھوڑ دینا۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ 15 پس جسے میری سنت ناپسند ہو تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ ط اس کے سوا اور کون ہوگا جو ابراہیم علیہ السلام کے طریقے سے منہ موڑے ؟

إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 آیت 131 اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْلا قالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یہاں تک کہ اکلوتے بیٹے کو ذبح کرنے کا حکم آیا تو اس پر بھی سرتسلیم خم کردیا۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سلسلۂ امتحانات کا آخری امتحان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ان کا سو برس کی عمر میں لیا۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ مانگ کر ستاسی برس کی عمر میں بیٹا اسماعیل علیہ السلام لیا تھا اور اب وہ تیرہ برس کا ہوچکا تھا ‘ باپ کا دست وبازو بن گیا تھا۔ اس وقت اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا تو آپ علیہ السلام فوراً تیار ہوگئے۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ جب بھی ہم نے ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ہمارا حکم مانو تو اسے حکم برداری کے لیے سراپا تیار پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس طرز عمل کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !

وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

📘 آیت 132 وَوَصّٰی بِہَآ اِبْرٰہٖمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوْبُ ط آگے وہ نصیحت بیان ہو رہی ہے :یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ الاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ دیکھنا تمہیں موت نہ آنے پائے ‘ مگر فرماں برداری کی حالت میں ! یہی بات سورة آل عمران میں مسلمانوں سے خطاب کر کے فرمائی گئی : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلاَ تَمُوْتُنَّ الاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تم کو موت نہ آئے ‘ مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ اور فرمایا : اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلاَمُ آیت 19 یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔ مزید فرمایا : وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلاَمِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ ج آیت 85 اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔

أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

📘 آیت 133 اَمْ کُنْتُمْ شُہَدَآءَ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوْبَ الْمَوْتُ لا یعنی جب یعقوب علیہ السلام کی موت کا وقت آیا۔ اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے سب بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعے مصر میں پہنچ چکے تھے۔ یہ سارا واقعہ سورة یوسف میں بیان ہوا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا انتقال مصر میں ہوا۔ دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے بارہ کے بارہ بیٹوں کو جمع کیا۔اِذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ ط کس کی پوجا کرو گے ؟ کس کی پرستش کروگے ؟ یہ بات نہیں تھی کہ انہیں معلوم نہ تھا کہ انہیں کس کی عبادت کرنی ہے ‘ بلکہ آپ علیہ السلام نے قول وقرار کو مزید پختہ کرنے کے لیے یہ انداز اختیار فرمایا۔قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَاِلٰہَ اٰبَآءِکَ اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰہًا وَّاحِدًا ج وَّنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ہم اسی کے سامنے سرجھکاتے ہیں اور اسی کی فرماں برداری کا اقرار کرتے ہیں۔

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 134 تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج یہ آیت اس رکوع میں دو مرتبہ آئی ہے۔ یہ انسانوں کا ایک گروہ تھا جو گزر گیا۔ ابراہیم ‘ اسماعیل ‘ اسحاق ‘ یعقوب علیہ السلام اور ان کی اولاد سب گزر چکے۔لَھَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج یہاں پدرم سلطان بود کا دعویٰ کوئی مقام نہیں رکھتا۔ ہر شخص کے لیے اپنا ایمان ‘ اپنا عمل اور اپنی کمائی ہی کام آئے گی۔وَلاَ تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ تم سے تو یہی پوچھا جائے گا کہ تم کیا کر کے لائے ہو ؟ تمہارا باپ سلطان ہوگا ‘ لیکن تم اپنی بات کرو کہ تم کیا ہو ؟اس پس منظر میں اب یہود کی خباثت کو نمایاں کیا جا رہا ہے کہ ابراہیم اور یعقوب علیہ السلام کی وصیت تو یہ تھی ‘ مگر اس وقت کے یہود و نصاریٰ کا کیا رویہ ہے۔ انہوں نے اللہ کے رسول ﷺ کے خلاف متحدہ محاذ بنا رکھا ہے۔

وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 آیت 135 وَقَالُوْا کُوْنُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تَہْتَدُوْا ط قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰہٖمَ حَنِیْفًا ط۔ مِلَّۃَ سے قبل فعل نَتَّبِعُ محذوف ہے۔ گویا : بَلْ نَتَّبِعُ مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ۔ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اب مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ یہود و نصاریٰ جو کچھ کہتے ہیں اس کے جواب میں تم یہ کہو :

قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

📘 آیت 136 قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا باللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَمَآ اُنْزِلَ الآی اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ وَمَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَعِیْسٰی وَمَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّہِمْ ج لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ ز ہم سب کو مانتے ہیں ‘ کسی کا انکار نہیں کرتے۔ ایک بات سمجھ لیجیے کہ ایک ہے تفضیل یعنی کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ افضل سمجھنا ‘ یہ اور بات ہے ‘ اس کی نفی نہیں ہے۔ سورة البقرۃ ہی میں الفاظ آئے ہیں : تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ آیت 253 یہ سب رسول فضیلت دی ہم نے بعض کو بعض پر۔ جبکہ تفریق یہ ہے کہ ایک کو مانا جائے اور ایک کا انکار کردیا جائے۔ اور رسولوں میں سے کسی ایک کا انکار گویا سب کا انکار ہے۔ وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ۔ ہم نے تو اسی کی فرماں برداری کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لیا ہے۔

فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 آیت 137 فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ یعنی وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی روش ترک کردیں اور ٹھیک ٹھیک وہی دین اور وہی راستہ اختیار کریں جو محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ سے تمہیں دیا گیا ہے۔ٌ فَقَدِ اہْتَدَوْا ج وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ ج۔ اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہٹ دھرمی اور ضدم ضدا میں مبتلا ہوچکے ہیں اور دشمنی اور مخالفت پر اڑے ہوئے ہیں۔ َ ّ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ ج آپ فکر نہ کریں ‘ آپ ﷺ مداہنت compromise کی کسی دعوت کی طرف توجہ ہی نہ کریں ‘ کچھ دو کچھ لو کا معاملہ آپ بالکل بھی نہ سوچیں۔ آپ ان کی مخالفتوں سے مرعوب نہ ہوں اور ان کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہ لیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حمایت کے لیے ان سب کے مقابلے میں کافی رہے گا۔وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ایسا نہیں ہے کہ اسے معلوم نہ ہو کہ آپ ﷺ اس وقت کن حالات میں ہیں ‘ کیسی مشکلات میں ہیں ‘ کس طرح کی نازک صورت حال ہے جو دن بدن شکل بدل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے حالات میں آپ کا محافظ اور مددگار ہے۔[ حضرت عثمان رض شہادت کے وقت قرآن حکیم کے جس نسخے پر تلاوت فرما رہے تھے اس میں ان الفاظ پر خون کا دھبہّ آج بھی موجود ہے۔ باغیوں نے آپ رض ‘ کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کیا تھا۔ آپ رض کی زوجہ محترمہ نائلہ رض نے آپ کو بچانا چاہا تو ان کی انگلیاں کٹ گئیں اور خون ان الفاظ پر پڑا۔ ]

صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ

📘 آیت 138 صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ کی طرح صِبْغَۃَ اللّٰہِ میں بھی مضاف کی نصب بتارہی ہے کہ یہ مرکب اضافی مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف ہے۔

قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ

📘 آیت 139 قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللّٰہِ وَہُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ ج۔ ربّ بھی ایک ہے اور اس کا دین بھی ایک ہے ‘ ہاں شریعتوں میں فرق ضرور ہوا ہے۔وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ج وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ ۔ ہم اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنی بندگی کو خالص کرچکے ہیں۔ یہاں پے در پے آنے والے تین الفاظ کو نوٹ کیجیے۔ یہ مقام میرے اور آپ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ آیت 136 ان الفاظ پر ختم ہوئی تھی : وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ہم اسی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ ان میں تو ہم بھی شامل ہیں۔ اس کے بعد آیت 138 کے اختتام پر یہ الفاظ آئے : وَّنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ اور ہم اس ہی کی بندگی کرتے ہیں۔ صرف اسلام نہیں ‘ عبادت یعنی پوری زندگی میں اس کے ہر حکم کی پیروی اور اطاعت درکار ہے۔ اس سے آگے یہ بات آئی : وَنَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ یہ عبادت اگر اخلاص کے ساتھ نہیں ہے تو منافقت ہے۔ اس عبادت سے کوئی دنیوی منفعت پیش نظر نہ ہو۔ ع سوداگری نہیں ‘ یہ عبادت خدا کی ہے ! دین کو دنیا بنانے اور دنیا کمانے کا ذریعہ بنانے سے بڑھ کر گری ہوئی حرکت اور کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے : مَنْ صَلّٰی یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ مسند احمد جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا ‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ و خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ ان تینوں الفاظ کو حرز جان بنا لیجیے : نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ‘ نَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ ‘ نَحْنُ لَہٗ مُخْلِصُوْنَ۔۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ! !

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ

📘 آیت 14 وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا ج عام یہودی بھی کہتے تھے کہ ہم بھی تو آخر اللہ کو اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ جبکہ منافق تو رسول ﷺ ‘ کو بھی مانتے تھے۔وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا یہاں ”شیاطین“ سے مرادیہود کے علماء بھی ہوسکتے ہیں اور منافقین کے سردار بھی۔ عبداللہ بن ابی منافقین مدینہ کا سردار تھا۔ اگر وہ کبھی انہیں ملامت کرتا کہ معلوم ہوتا ہے تم تو بالکل پوری طرح سے مسلمانوں میں شامل ہی ہوگئے ہو ‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم محمد ﷺ کی ہر بات مان رہے ہو ‘ تو اب انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے کہنا پڑتا تھا کہ نہیں نہیں ‘ ہم تو مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ہم ان سے ذرا تمسخر کر رہے ہیں ‘ ہم آپ ہی کے ساتھ ہیں ‘ آپ فکر نہ کریں۔ منافق تو ہوتا ہی دو رخا ہے۔ ”نفق“ کہتے ہیں سرنگ کو ‘ جس کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ”نافقاء“ گوہ کے ِ بل کو کہا جاتا ہے۔ گوہ اپنے بل کے دو منہ رکھتا ہے کہ اگر کتا شکار کے لیے ایک طرف سے داخل ہوجائے تو وہ دوسری طرف سے نکل بھاگے۔ تو منافق بھی ایسا شخص ہے جس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ سورة النساء میں منافقین کے بارے میں کہا گیا ہے : مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط آیت 143 یعنی کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ‘ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں۔ لفظ ”شَیْطٰن“ کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مادہ ”ش ط ن“ ہے اور دوسری یہ کہ یہ ”ش و ط“ مادہ سے ہے۔ شَطَنَ کے معنی ہیں تَبَعَّدَ یعنی بہت دور ہوگیا۔ پس شیطان سے مراد ہے جو اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوگیا۔ جبکہ شاط یَشُوْطُ کے معنی ہیں اِحْتَرَقَ غَضَبًا وَحَسَدًا یعنی کوئی شخص غصے ّ اور حسد کے اندر جل اٹھا۔ اس سے فَعْلَان کے وزن پر ”شیطان“ ہے ‘ یعنی وہ جو حسد اور غضب کی آگ میں جل رہا ہے۔ چناچہ ایک تو شیطان وہ ہے جو جناتّ میں سے ہے ‘ جس کا نام پہلے ”عزازیل“ تھا ‘ اب ہم اسے ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر یہ کہ دنیا میں جو بھی اس کے پیروکار ہیں اور اس کے مشن میں شریک کار ہیں ‘ خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے ‘ وہ بھی شیاطین ہیں۔ اسی طرح اہل کفر اور اہل زیغ کے جو بڑے بڑے سردار ہوتے ہیں ان کو بھی شیاطین سے تعبیر کیا گیا۔ آیت زیر مطالعہ میں شیاطین سے یہی سردار مراد ہیں۔ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُ ‘ وْنَ جب وہ علیحدگی میں اپنے شیطانوں یعنی سرداروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ‘ ان مسلمانوں کو تو ہم بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ان سے استہزاء اور تمسخر کر رہے ہیں جو ان کے سامنے ”اٰمَنَّا“ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

📘 آیت 140 اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰہٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطَ کَانُوْا ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی ط تم جو کہتے ہو کہ یہودی ہوجاؤ یا نصرانی تب ہدایت پاؤ گے ‘ تو کیا ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے یا نصرانی ؟ اور اسحاق ‘ یعقوب ‘ یوسف ‘ موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام کون تھے ؟ یہی بات آج مسلمانوں کو سوچنی چاہیے کہ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب رض دیوبندی تھے ‘ بریلوی تھے ‘ اہل حدیث تھے یا شیعہ تھے ؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ ان تقسیموں سے بالاتر رہا جائے۔ ٹھیک ہے ایک شخص کسی فقہی مسلک کی پیروی کر رہا ہے ‘ لیکن اس مسلک کو اپنی شناخت بنا لینا ‘ اسے دین پر مقدمّ رکھنا ‘ اس مسلک ہی کے لیے ہے ساری محنت و مشقت اور بھاگ دوڑ کرنا ‘ اور اسی کی دعوت و تبلیغ کرنا ‘ دین کی اصل حقیقت اور روح کے یکسر خلاف ہے۔قُلْ ءَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ ط وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ط علماء یہود جانتے تھے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘ جن کے وہ منتظر تھے۔ لیکن وہ اس گواہی کو چھپائے بیٹھے تھے۔

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 141 تِلْکَ اُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ ج یہ اس مقدس جماعت کے گل سرسبد تھے جن کا تذکرہ ہوا۔ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَلَکُمْ مَّا کَسَبْتُمْ ج۔ جو عمل انہوں نے کمائے وہ ان کے لیے ہیں ‘ تمہارے لیے نہیں۔ تمہارے لیے وہی ہوگا جو تم کماؤگے۔وَلاَ تُسْءَلُوْنَ عَمَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کیا کیا ‘ تم سے تو یہ سوال ہوگا کہ تم نے کیا کیا !

۞ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 دو ‘ رکوعوں پر مشتمل تمہید کے بعد اب تحویل قبلہ کا مضمون براہ راست آرہا ہے ‘ جو پورے دو رکوعوں پر پھیلا ہوا ہے۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہ کون سی ایسی بڑی بات تھی جس کے لیے قرآن مجید میں اتنے شدومدّ کے ساتھ اور اس قدر تفصیل بلکہ تکرار کے ساتھ بات کی گئی ہے ؟ اس کو یوں سمجھئے کہ ایک خاص مذہبی ذہنیت ہوتی ہے ‘ جس کے حامل لوگوں کی توجہّ اعمال کے ظاہر پر زیادہ مرکوز ہوجاتی ہے اور اعمال کی روح ان کی توجہ کا مرکز نہیں بنتی۔ عوام الناس کا معاملہ بالعموم یہی ہوجاتا ہے کہ ان کے ہاں اصل اہمیت دین کے ظواہر اور مراسم عبودیت کو حاصل ہوجاتی ہے اور جو اصل روح دین ہے ‘ جو مقاصد دین ہیں ‘ ان کی طرف توجہّ نہیں ہوتی۔ نتیجتاً ظواہر میں ذرا سا فرق بھی انہیں بہت زیادہ محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی مثال یوں سامنے آتی ہے کہ احناف کی مسجد میں اگر کسی نے رفع یدین کرلیا یا کسی نے آمین ذرا اونچی آواز میں کہہ دیا تو گویا قیامت آگئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے ہماری مسجد میں کوئی اور ہی آگیا۔ اس مذہبی ذہنیت کے پس منظر میں یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں تھا۔اس کے علاوہ یہ مسئلہ قبائلی اور قومی پس منظر کے حوالے سے بھی سمجھنا چاہیے۔ مکہ مکرمہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے ظاہر ہے ان سب کو خانہ کعبہ کے ساتھ بڑی عقیدت تھی۔ خود نبی اکرم ﷺ نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو آپ ﷺ روتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اے کعبہ ! مجھے تجھ سے بڑی محبت ہے ‘ لیکن تیرے یہاں کے رہنے والے مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک آپ ﷺ مکہ میں تھے تو آپ ﷺ ‘ کعبہ کی جنوبی دیوار کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوتے۔ یوں آپ ﷺ ‘ کا رخ شمال کی طرف ہوتا ‘ کعبہ آپ ﷺ کے سامنے ہوتا اور اس کی سیدھ میں بیت المقدس بھی آجاتا۔ اس طرح استقبال القبلتین کا اہتمام ہوجاتا۔ لیکن مدینہ میں آکر آپ ﷺ نے رخ بدل دیا اور بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے لگے۔ یہاں استقبال القبلتین ممکن نہ تھا ‘ اس لیے کہ یروشلم مدینہ منورہ کے شمال میں ہے ‘ جبکہ مکہ مکرمہ جنوب میں ہے۔ اب اگر خانہ کعبہ کی طرف رخ کریں گے تو یروشلم کی طرف پیٹھ ہوگی اور یروشلم کی طرف رخ کریں گے تو کعبہ کی طرف پیٹھ ہوگی۔ چناچہ اب اہل ایمان کا امتحان ہوگیا کہ آیا وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی پیروی کرتے ہیں یا اپنی پرانی عقیدتوں اور پرانی روایات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جو لوگ مکہ مکرمہ سے آئے تھے ان کی اتنی تربیت ہوچکی تھی کہ ان میں سے کسی کے لیے یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ بقول اقبال : ؂بمصطفیٰ ﷺ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر باو نہ رسیدی تمام بولہبی است !حالانکہ قرآن مجید میں کہیں منقول نہیں ہے کہ اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ حکم وحئ خفی کے ذریعے سے دیا گیا ہو ‘ تاہم وحئ جلی میں یہ حکم کہیں نہیں ہے کہ اب یروشلم کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیے۔ یہ مسلمانوں کا اتباع رسول ﷺ کے حوالے سے ایک امتحان تھا جس میں وہ سرخرو ہوئے۔ پھر جب یہ حکم آیا کہ اپنے رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دو تو یہ اب ان مسلمانوں کا امتحان تھا جو مدینہ کے رہنے والے تھے۔ اس لیے کہ ان میں سے بعض یہودیت ترک کر کے ایمان لائے تھے۔ مثلاً عبداللہ بن سلام رض علماء یہود میں سے تھے ‘ لیکن جو اور دوسرے لوگ تھے وہ بھی علماء یہود کے زیراثر تھے اور ان کے دل میں بھی یروشلم کی عظمت تھی۔ اب جب انہیں بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہ ان کے ایمان کا امتحان ہوگیا۔ مزید برآں بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا ہوا ہوگا کہ اگر اصل قبلہ بیت اللہ تھا تو ہم نے اب تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازیں پڑھی ہیں ان کا کیا بنے گا ؟ کیا وہ نمازیں ضائع ہوگئیں ؟ نماز تو ایمان کا رکن رکین ہے ! چناچہ اس اعتبار سے بھی بڑی تشویش پیدا ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک مسئلہ سیاسی اعتبار سے یہ پیدا ہوا کہ یہود اب تک یہ سمجھ رہے تھے کہ مسلمانوں اور محمد ﷺ نے ہمارا قبلہ اختیار کرلیا ہے ‘ تو یہ گویا ہمارے ہی پیروکار ہیں ‘ لہٰذا ہمیں ان کی طرف سے کوئی خاص اندیشہ نہیں ہے۔ لیکن اب جب تحویل قبلہ کا حکم آگیا تو ان کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ تو کوئی نئی ملتّ ہے اور ایک نئی امت کی تشکیل ہو رہی ہے۔ چناچہ ان کی طرف سے مخالفت کے اندر شدت پیدا ہوگئی۔ یہ سارے مضامین یہاں پر زیر بحث آ رہے ہیں۔آیت 142 سَیَقُوْلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَاوَلّٰٹہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْہَاط ؟ یعنی سولہ سترہ مہینے تک انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے ‘ اب انہیں بیت اللہ کی طرف کس چیز نے پھیر دیا ؟ قُلْ لِّلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ط یہ وہی الفاظ ہیں جو چودہویں رکوع میں تحویل قبلہ کی تمہید کے طور پر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کسی ایک سمت میں محدود نہیں ہے ‘ بلکہ مشرق و مغرب اور شمال و جنوب سب اسی کے ہیں۔

وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 143 وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا اب یہ خاص بات کہی جا رہی ہے کہ اے مسلمانو ! تم اس تحویل قبلہ کو معمولی بات نہ سمجھو ‘ یہ علامت ہے اس بات کی کہ اب تمہیں وہ حیثیت حاصل ہوگئی ہے :لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا ط۔ اب یہ تمہارا فرض منصبی ہے کہ رسول ﷺ نے جس دین کی گواہی تم پر اپنے قول و عمل سے دی ہے اسی دین کی گواہی تمہیں اپنے قول اور عمل سے پوری نوع انسانی پر دینی ہے۔ اب تمٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور نوع انسانی کے درمیان واسطہ link بن گئے ہو۔ اب تک نبوت کا سلسلہ جاری تھا۔ ایک نبی کی تعلیم ختم ہوجاتی یا اس میں تحریف ہوجاتی تو دوسرا نبی آجاتا۔ اس طرح پے در پے انبیاء و رسل علیہ السلام چلے آ رہے تھے اور ہر دور میں یہ معاملہ تسلسل کے ساتھ چل رہا تھا۔ ابٌ محمد رسول اللہ ﷺ پر نبوت ختم ہو رہی ہے ‘ لیکن نسل انسانی کا سلسلہ تو قیامت تک جاری رہنا ہے۔ لہٰذا اب آگے لوگوں کو تبلیغ کرنا ‘ ان تک دین پہنچانا ‘ ان پر حجت قائم کرنا اور شہادت علی الناس کا فریضہ سرانجام دینا کس کیّ ذمہ داری ہوگی ؟ پہلے تو ہمیشہ یہی ہوتا رہا کہ اللہ کی طرف سے جبرائیل علیہ السلام وحی لائے اور نبی کے پاس آگئے ‘ نبی نے لوگوں کو سکھا دیا۔ اب یہ معاملہ اس طرح ہے کہ اللہ سے جبرائیل علیہ السلام وحی لائےٌ محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس اور محمد ﷺ نے سکھایا تمہیں ‘ اور اب تمہیں سکھانا ہے پوری نوع انسانی کو ! تو اب تمہاری حیثیت درمیانی واسطے کی ہے۔ یہ مضمون سورة الحج کی آخری آیات میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔وَکَذٰلِکَ اسی طرح سے مراد یہ ہے کہ تحویل قبلہ اس کا ایک مظہر ہے۔ اس سے اب تم اپنی ذمہّ داریوں کا اندازہ کرو۔ صرف خوشیاں نہ مناؤ ‘ بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری کا جو بوجھ تم پر آگیا ہے اس کا ادراک کرو۔ یہی بوجھ جب ہم نے اپنے بندے محمد ﷺ کے کاندھوں پر رکھا تھا تو ان سے بھی کہا تھا : اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا المزمل اے نبی ﷺ ! ہم آپ پر ایک بھاری بات ڈالنے والے ہیں۔ وہی بھاری بات بہت بڑے پیمانے پر اب تمہارے کاندھوں پر آگئی ہے۔ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَآ اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ ط یہاں اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے بعد وحی ‘ خفی کے ذریعے نبی اکرم ﷺ کو بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہو ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضور ﷺ کا اجتہاد ہو ‘ اور اسے اللہ نے قبول فرما لیا ہو۔ رسول اللہ ﷺ کے اجتہاد پر اگر اللہ کی طرف سے نفی نہ آئے تو وہ گویا اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کیا جانا ایک امتحان قرار دیا گیا کہ کون اتباع رسول ﷺ ‘ کی روش پر گامزن رہتا ہے اور کون دین سے پھرجاتا ہے۔ اس آزمائش میں تمام مسلمان کامیاب رہے اور ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ٹھیک ہے ‘ ہمارا قبلہ وہ تھا ‘ اب آپ نے اپنا قبلہ بدل لیا ہے تو آپ کا راستہ اور ہے ہمارا راستہ اور !وَاِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً الاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ ط۔ واقعہ یہ ہے کہ اتنی بڑی تبدیلی قبول کرلینا آسان بات نہیں ہوتی۔ یہ بڑا حساسّ مسئلہ ہوتا ہے۔وَمَا کَان اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ ط ایمان سے یہاں مراد نماز ہے جسے دین کا ستون قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات اس تشویش کے جواب میں فرمائی گئی جو بعض مسلمانوں کو لاحق ہوگئی تھی کہ ہماری ان نمازوں کا کیا بنے گا جو ہم نے سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی ہیں ؟ مسلمان تو رسول اللہ ﷺ کے حکم کا پابند ہے ‘ اس وقت رسول کا وہ حکم تھا ‘ وہ اللہ کے ہاں مقبول ٹھہرا ‘ اس وقت یہ حکم ہے جو تمہیں رسول کی جانب سے مل رہا ہے ‘ اب تم اس کی پیروی کرو۔

قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 144 قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْہِکَ فِی السَّمَآءِ ج معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کو تحویل قبلہ کے فیصلے کا انتظار تھا اور آپ ﷺ پر بھی یہ وقفہ شاق گزر رہا تھا جس میں نماز پڑھتے ہوئے بیت اللہ کی طرف پیٹھ ہو رہی تھی۔ چناچہ آپ کی نگاہیں بار بار آسمان کی طرف اٹھتی تھیں کہ کب جبریل امین تحویل قبلہ کا حکم لے کر نازل ہوں۔فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰٹہَاص اس آیت میں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے اللہ کی طرف سے بڑی محبت ‘ بڑی شفقت اور بڑی عنایت کا اظہار ہو رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو بیت اللہ کے ساتھ بڑی محبت تھی ‘ اس کے ساتھ آپ ﷺ ‘ کا ایک رشتۂ قلبی تھا۔فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ ط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّہِمْ ط تورات میں بھی یہ مذکور تھا کہ اصل قبلۂ ابراہیمی علیہ السلام بیت اللہ ہی تھا۔ بیت المقدس کو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک ہزار سال بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ‘ جسے ہیکل سلیمانی سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اَنَّہٗسے مراد یہاں بیت اللہ کا اس امت کے لیے قبلہ ہونا ہے۔ اس بات کا حق ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونا یہود پر واضح تھا اور اس کے اشارات و قرائن تورات میں موجود تھے ‘ لیکن یہود اپنے حسد اور عناد کے سبب اس حقیقت کو بھی دوسرے بہت سے حقائق کی طرح جانتے بوجھتے چھپاتے تھے۔ اس موضوع کو سمجھنے کے لیے مولانا حمیدالدین فراہی کارسالہ الرأی الصحیح فی من ھو الذبیح بہت اہم ہے ‘ جس کا اردو ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے ذبیح کون ہے ؟ کے عنوان سے کیا ہے۔

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 145 وَلَءِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ ج وَمَآ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ ج یہ تو لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ والا معاملہ ہوگیا۔وَمَا بَعْضُہُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ ط۔ حد یہ ہے کہ یہ خود آپس میں ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی نہیں کرتے۔ اگرچہ یہود و نصاریٰ سب کا قبلہ یروشلم ہے ‘ لیکن عین یروشلم میں جا کر یہودی ہیکل سلیمانی کا مغربی گوشہ اختیار کرتے تھے اور مغرب کی طرف رخ کرتے تھے ‘ جبکہ نصاریٰ مشرق کی طرف رخ کرتے تھے ‘ اس لیے کہ حضرت مریم سلامٌ علیہا نے جس مکان میں اعتکاف کیا تھا اور جہاں فرشتہ ان کے پاس آیا تھا وہ ہیکل کے مشرقی گوشے میں تھا ‘ جس کے لیے قرآن حکیم میں مَکَانًا شَرْقِیًّا کا لفظ آیا ہے۔ عیسائیوں نے اسی مشرقی گھر کو اپنا قبلہ بنا لیا۔

الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 146 اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰہُمُ الْکِتٰبَ یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ہُمْ ط۔ یہاں یہ نکتہ نوٹ کر لیجیے کہ قرآن حکیم میں تورات اور انجیل کے ماننے والوں میں سے غلط کاروں کے لیے مجہول کا صیغہ آتا ہے اُوْتُوا الْکِتٰبَ جنہیں کتاب دی گئی تھی اور جو ان میں سے صالحین تھے ‘ صحیح رخ پر تھے ‘ ان کے لیے معروف کا صیغہ آتا ہے ‘ جیسے یہاں آیا ہے۔ یَعْرِفُوْنَہٗ میں ضمیر ہٗ کا مرجع قبلہ بھی ہے ‘ قرآن بھی ہے اورٌ محمد رسول اللہ ﷺ بھی ‘ ہیں۔

الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

📘 آیت 147 اَلْحَقُّ مِنْ رَّ ‘ بِّکَ اس کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ خطاب کا رخ رسول اللہ ﷺ کی طرف ہے اور آپ ﷺ ‘ کی وساطت سے دراصل ہر مسلمان سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اس بارے میں کوئی شک و شبہ اپنے پاس مت آنے دو کہ یہی تو حق ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے۔

وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 148 وَلِکُلٍّ وِّجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیْہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ ط تو مسلمانو ! ۔ ہم نے تمہارے لیے ایک رخ معینّ کردیا ‘ یعنی بیت اللہ۔ اور ایک باطنی رخ تمہیں یہ اختیار کرنا ہے کہ نیکیوں کی راہ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ جیسے نماز کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ آپ نے باوضو ہو کر قبلے کی طرف رخ کرلیا اور ارکان نماز ادا کیے۔ جبکہ نماز کا باطن خشوع و خضوع ‘ حضور قلب اور رقتّ ہے۔ انسان کو یہ احساس ہو کہ وہ پروردگار عالم کے روبرو حاضر ہو رہا ہے۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

📘 آیت 149 وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ‘ یہاں کلام بظاہر آنحضور ﷺ سے ہے ‘ مگر اصل میں آپ ﷺ کی وساطت سے تمام مسلمانوں سے خطاب ہے۔

اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 آیت 15 اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ اللہ تعالیٰ سرکشوں کی رسّی دراز کرتا ہے۔ کوئی شخص سرکشی کے راستے پر چل پڑے تو اللہ تعالیٰ اسے فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ اسے ڈھیل دیتا ہے کہ چلتے جاؤ جہاں تک جانا چاہتے ہو۔ تو ان کی بھی اللہ تعالیٰ رسّی دراز کر رہا ہے ‘ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اصل میں مذاق تو اللہ کے نزدیک ان کا اڑ رہا ہے۔ لفظ ”یَعْمَھُوْنَ“ عقل کے اندھے پن کے لیے آیا ہے۔ اس کا مادہ ”ع م ھ“ ہے۔ آگے آیت 18 میں لفظ ”عُمْیٌ“ آ رہا ہے جو ”ع م ی“ سے ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ”عَمِہَ یَعْمَہُ“ بصیرت سے محرومی کے لیے آتا ہے اور ”عَمِیَ یَعْمٰی“ بصارت سے محرومی کے لیے۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

📘 دوبارہ فرمایا گیا :آیت 150 وَمِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ شَطْرَہٗ لا تم خواہ امریکہ میں ہو یا روس میں ‘ نماز کے وقت تمہیں بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنا ہوگا۔ لِءَلاَّ یَکُوْنَ للنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ لا یعنی اہل کتاب بالخصوص یہود کے لیے تمہارے خلاف بدگمانی پھیلانے کا کوئی موقع باقی نہ رہ جائے۔ تورات میں مذکور تھا کہ نبی آخر الزماں کا قبلہ خانہ کعبہ ہوگا۔ اگر آنحضور ﷺ یہ قبلہ اختیار نہ کرتے تو علماء یہود مسلمانوں پر حجت قائم کرتے۔ تو یہ گویا ان کے اوپر اتمام حجت بھی ہو رہا ہے اور قطع عذر بھی۔ اِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ ق شریر لوگ اس قطع حجت کے بعد بھی باز آنے والے نہیں اور وہ اعتراض کرنے کے لیے لاکھ حیلے بہانے بنائیں گے ‘ ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہوگی۔فَلاَ تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِیْ ق وَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ یہ جو تحویل قبلہ کا معاملہ ہوا ہے اورٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی بنیاد پر ایک نئی امت تشکیل دی جا رہی ہے ‘ اسے امامت الناس سے سرفراز کیا جا رہا ہے اور وراثت ابراہیمی علیہ السلام اب اسے منتقل ہوگئی ہے ‘ یہ اس لیے ہے تاکہ اے مسلمانو ! میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں۔

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 151 کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ یہاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی دعا یاد کر لیجیے جو آیت 129 میں مذکور ہوئی۔ اس دعا کا ظہور تین ہزار برس بعد بعثت محمدی ﷺ ‘ کی شکل میں ہو رہا ہے۔ یہاں ایک نکتہ بڑا اہم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعا میں جو ترتیب تھی ‘ یہاں اللہ نے اس کو بدل دیا ہے۔ دعا میں ترتیب یہ تھی : تلاوت آیات ‘ تعلیم کتاب و حکمت ‘ پھر تزکیہ۔ یہاں پہلے تلاوت آیات ‘ پھر تزکیہ اور پھر تعلیم کتاب و حکمت آیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جو بات کہی وہ بھی غلط تو نہیں ہوسکتی ‘ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کی تنفیذ شدہ imposed صورت یہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی۔ اس لیے کہ تزکیہّ مقدم ہے ‘ اگر نیت صحیح نہیں ہے تو تعلیم کتاب و حکمت مفید نہیں ہوگی ‘ بلکہ گمراہی میں اضافہ ہوگا۔ نیت کج ہے تو گمراہی بڑھتی چلی جائے گی۔ تزکیہ کا حاصل اخلاص ہے ‘ یعنی نیت درست ہوجائے۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی جتنا بڑا عالم ہوگا وہ اتنا بڑا شیطان بھی بن سکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بڑے بڑے فتنے عالموں نے ہی اٹھائے ہیں۔ دین اکبری یا دین الٰہی کی تدوین کا خیال تو اکبر کے باپ دادا کو بھی نہیں آسکتا تھا ‘ یہ تو ابوالفضل اور فیضی جیسے علماء تھے جنہوں نے اسے یہ پٹیّ پڑھائی۔ اسی طرح غلام احمد قادیانی کو بھی الٹی پٹیاں پڑھانے والا حکیم نور الدین تھا ‘ جو بہت بڑا اہل حدیث عالم تھا۔ تو درحقیقت کوئی جتنا بڑا عالم ہوگا اگر اس کی نیت کج ہوگئی تو وہ اتنا ہی بڑا فتنہ اٹھا دے گا۔ اس پہلو سے تزکیہ مقدمّ ہے۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہی مضمون سورة آل عمران میں اور پھر سورة الجمعہ میں بھی آیا ہے ‘ وہاں بھی ترتیب یہی ہے : 1 تلاوت آیات 2 تزکیہ 3 تعلیم کتاب و حکمت۔

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ

📘 آیت 152 فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ یہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک بہت بڑا میثاق اور معاہدہ ہے۔ اس کی شرح ایک حدیث قدسی میں بایں الفاظ آئی ہے : اَنَا مَعَہٗ اِذَا ذَکَرَنِیْ ‘ فَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہٗ فِیْ نَفْسِیْ ‘ وَاِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاءٍ ذَکَرْتُہٗ فِیْ مَلَاءٍ خَیْرٍ مِنْھُمْ 16 میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں ‘ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں ‘ اور اگر وہ مجھے کسی محفل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے اس سے بہت بہتر محفل میں یاد کرتا ہوں۔ اس کی محفل تو بہت بلند وبالا ہے ‘ وہ ملأاعلیٰ کی محفل ہے ‘ ملائکہ مقربین کی محفل ہے۔ امیر خسروؔ معلوم نہیں کس عالم میں یہ شعر کہہ گئے تھے : ؂خدا خود میر محفل بود اندر لامکاں خسروؔ محمد ﷺ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم !وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ میری نعمتوں کا ادراک کرو ‘ ان کا شعور حاصل کرو۔ زبان سے بھی میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور اپنے عمل سے بھی ‘ اپنے اعضاء وجوارح سے بھی ان نعمتوں کا حق ادا کرو۔ یہاں اس سورة مبارکہ کا نصف اوّل مکمل ہوگیا ہے جو اٹھارہ رکوعوں پر مشتمل ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ

📘 سورة البقرۃ کے انیسویں رکوع سے اب امت مسلمہ سے براہ راست خطاب ہے۔ اس سے قبل اس امت کی غرض تأسیس بایں الفاظ بیان کی جا چکی ہے : لِتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط آیت 143 ”تاکہ تم لوگوں پر گواہی دینے والے بنو اور رسول ﷺ تم پر گواہی دینے والا بنے“۔ گویا اب تم ہمیشہ ہمیش کے لیے ٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور نوع انسانی کے درمیان واسطہ ہو۔ ایک حدیث میں علماء حق کے بارے میں فرمایا گیا ہے : اِنَّ الْعُلَمَاءَ ھُمْ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ 17 ”یقیناً علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں“۔ اس لیے کہ اب نبوت تو ختم ہوگئی خاتم المرسلینٌ محمد رسول اللہ ﷺ ‘ پر ‘ لیکن یہ آخری کتاب قیامت تک رہے گی ‘ اس کو پہنچانا ہے ‘ اس کو عام کرنا ہے ‘ اور صرف تبلیغ سے نہیں عمل کر کے دکھانا ہے۔ وہ نظام عملاً قائم کر کے دکھانا ہے جو محمد عربی ﷺ نے قائم کیا تھا ‘ تب حجت قائم ہوگی۔ اس کے لیے تمہیں قربانیاں دینی ہوں گی ‘ مشکلات جھیلنی ہوں گی ‘ جان و مال کا نقصان برداشت کرنا ہوگا۔ آرام سے گھر بیٹھے ‘ ٹھنڈے پیٹوں حق نہیں آجائے گا ‘ کفر اس طرح جگہ نہیں چھوڑے گا۔ کفر کو ہٹانے کے لیے ‘ باطل کو ختم کرنے کے لیے اور حق کو قائم کرنے کے لیے تمہیں تن من دھن لگانے ہوں گے۔ چناچہ اب پکار آرہی ہے :آیت 153 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط پانچویں رکوع کی سات آیات کو میں نے بنی اسرائیل سے خطاب کے ضمن میں بمنزلۂ فاتحہ قرار دیا تھا۔ وہاں پر یہ الفاظ آئے تھے : وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ الاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ”اور مدد چاہو صبر اور نماز سے ‘ اور یقیناً یہ بھاری چیز ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو ڈرنے والے ہیں ‘ جو گمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملاقات کرنے والے ہیں اور وہ اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ اب یہی بات اہل ایمان سے کہی جا رہی ہے۔اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ”اللہ تعالیٰ کی معیتّ سے کیا مراد ہے ! ایک بات تو متفق علیہ ہے کہ اللہ کی مدد ‘ اللہ کی تائید ‘ اللہ کی نصرت ان کے شامل حال ہے۔ باقی یہ کہ جہاں کہیں بھی ہم ہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ اس کی کیفیت ہم نہیں جانتے ‘ لیکن خود اس کا فرمان ہے کہ ”ہم تو انسان سے اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ قٓ: 16

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِنْ لَا تَشْعُرُونَ

📘 آیت 154 وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ اب پہلے ہی قدم پر اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی بات آگئی ع شرطِ اوّل قدم ایں است کہ مجنوں باشی ! ایمان کا اوّلین تقاضا یہ ہے کہ جانیں دینے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ جو اللہ کی راہ میں قتل ہوجائیں ان کو جنت میں داخلہ کے لیے یوم آخرت تک انتظار نہیں کرنا ہوگا ‘ شہداء کو تو اسی وقت براہ راست جنت میں داخلہ ملتا ہے ‘ لہٰذا وہ تو زندہ ہیں۔ یہی مضمون سورة آل عمران میں اور زیادہ نکھر کر سامنے آئے گا۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ

📘 آیت 155 وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ دیکھ لو ‘ جس راہ میں تم نے قدم رکھا ہے یہاں اب آزمائشیں آئیں گی ‘ تکلیفیں آئیں گی۔ رشتہ دار ناراض ہوں گے ‘ شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق ہوگی ‘ اولاد والدین سے جدا ہوگی ‘ فساد ہوگا ‘ فتور ہوگا ‘ تصادم ہوگا ‘ جان و مال کا نقصان ہوگا۔ ہم خوف کی کیفیت سے بھی تمہاری آزمائش کریں گے اور بھوک سے بھی۔ چناچہ صحابہ کرام رض نے کیسی کیسی سختیاں جھیلیں اور کئی کئی روز کے فاقے برداشت کیے۔ غزوۂ احزاب میں کیا حالات پیش آئے ہیں ! اس کے بعد جیش العسرۃ غزوۂ تبوک میں کیا کچھ ہوا ہے ! وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ مالی اور جانی نقصان بھی ہوں گے اور ثمرات کا نقصان بھی ہوگا۔ ثمرات یہاں دو معنی دے رہا ہے۔ مدینہ والوں کی معیشت کا دار و مدار زراعت اور باغبانی پر تھا۔ خاص طور پر کھجور ان کی پیداوار تھی ‘ جسے آج کی اصطلاح میں cash crop کہا جائے گا۔ اب ایسا بھی ہوا کہ فصل پک کر تیار کھڑی ہے اور اگر اسے درختوں سے اتارا نہ گیا تو ضائع ہوجائے گی ‘ ادھر سے غزوۂ تبوک کا حکم آگیا کہ نکلو اللہ کی راہ میں ! تو یہ امتحان ہے ثمرات کے نقصان کا۔ اس کے علاوہ ثمرات کا ایک اور مفہوم ہے۔ انسان بہت محنت کرتا ہے ‘ جدوجہد کرتا ہے ‘ ایک کیریئر اپناتا ہے اور اس میں اپنا ایک مقام بنا لیتا ہے۔ لیکن جب وہ دین کے راستے پر آتا ہے تو کچھ اور ہی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ اپنی تجارت کے جمانے میں یا کسی پروفیشن میں اپنا مقام بنانے میں اس نے جو محنت کی تھی وہ سب کی سب صفر ہو کر رہ جاتی ہے ‘ اور اپنی محنت کے ثمرات سے بالکل تہی دامن ہو کر اسے اس وادی میں آنا پڑتا ہے۔

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

📘 آیت 156 الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ آخر کار تو یہاں سے جانا ہے ‘ اگر کل کی بجائے ہمیں آج ہی بلا لیا جائے تب بھی حاضر ہیں۔ بقول اقبال : ؂نشان مرد مؤمن با تو گویم چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست !یعنی مرد مؤمن کی تو نشانی ہی یہی ہے کہ جب موت آتی ہے تو مسرتّ کے ساتھ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔ وہ دنیا سے مسکراتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔ یہ ایمان کی علامت ہے اور بندۂ مؤمن اس دنیا میں زیادہ دیر تک رہنے کی خواہش نہیں کرسکتا۔ اسے معلوم ہے کہ وہ دنیا میں جو لمحہ بھی گزار رہا ہے اسے اس کا حساب دینا ہوگا۔ تو جتنی عمر بڑھ رہی ہے حساب بڑھ رہا ہے۔ چناچہ حدیث میں دنیا کو مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت قرار دیا گیا ہے : اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ 18

أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ

📘 آیت 157 اُولٰٓءِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ قف ان پر ہر وقت اللہ کی عنایتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے اور رحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے۔وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واقعتا ہدایت کو اختیار کیا ہے۔ اور جو ایسے مرحلے پر ٹھٹک کر کھڑے رہ جائیں ‘ پیچھے ہٹ کر بیٹھ جائیں ‘ پیٹھ موڑ لیں تو گویا وہ ہدایت سے تہی دامن ہیں۔

۞ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 158 اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ج۔ یہ آیت اصل سلسلۂ بحث یعنی قبلہ کی بحث سے متعلق ہے۔ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوا کہ حج کے مناسک میں یہ جو صفا اور مروہ کی سعی ہے تو اس کی کیا حقیقت ہے ؟ فرمایا کہ یہ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔ شعائر ‘ شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو شعور بخشے ‘ جو کسی حقیقت کا احساس دلانے والی اور اس کا مظہر اور نشان ہو۔ چناچہ وہ مظاہر جن کے ساتھ اولوالعزم پیغمبروں یا اولوالعزم اولیاء اللہ کے حالات و واقعات کا کوئی ذہنی سلسلہ قائم ہوتا ہو اور جو اللہ اور رسول ﷺ کی طرف سے بطور ایک نشان اور علامت مقرر کیے گئے ہوں شعائر کہلاتے ہیں۔ وہ گویا بعض معنوی حقائق کا شعور دلانے والے اور ذہن کو اللہ کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے بیت اللہ ‘ حجر اسود ‘ جمرات اور صفا ومروہ اللہ تعالیٰ کے شعائر میں سے ہیں۔ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ط۔ صفا ومروہ کے طواف سے مراد وہ سعی ہے جو ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان سات چکروں کی صورت میں کی جاتی ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ شاکر آیا ہے۔ لفظ شکر کی نسبت جب بندے کی طرف ہو تو اس کے معنی شکر گزاری اور احسان مندی کے ہوتے ہیں ‘ لیکن جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کے معنی قدر دانی اور قبول کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ شاکر کے ساتھ دوسری صفت علیم آئی ہے کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ چاہے کسی اور کو پتا نہ لگے اسے تو خوب معلوم ہے۔ اگر تم نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے کسی کو کوئی مالی مدد دی ہے ‘ اس حال میں کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا ہے اس کی بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہونے دی ‘ کجا یہ کہ کسی اور انسان کے سامنے اس کا تذکرہ ہو ‘ تو یہ اللہ کے تو علم میں ہے ‘ چناچہ اگر اللہ سے اجر وثواب چاہتے ہو تو اپنی نیکیوں کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوئی ضرورت نہیں ‘ لیکن اگر تم نے یہ سب کچھ لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا تھا تو گویا وہ شرک ہوگیا۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ

📘 آیت 159 اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْہُدٰی مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ للنَّاسِ فِی الْْکِتٰبِ لا اُولٰٓءِکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ اس آیت میں یہود کی طرف اشارہ ہے ‘ جن کی معاندانہ روش کا ذکر پہلے گزر چکا۔ یہاں اب گویا آخری قطعی صفائی mopping up operation کے طور پر ان کے بارے میں چند باتوں کا مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔ یہاں بیناتّ اور ہدیٰ سے خاص طور پر وہ نشانیاں مراد ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تورات میں نبی آخر الزماں ﷺ کے بارے میں یہود کی راہنمائی کے لیے واضح فرمائی تھیں۔ لیکن یہود نے ان نشانیوں سے راہنمائی حاصل کرنے کے بجائے ان کو چھپانے کی کوشش کی۔ آیت 140 میں ہم پڑھ آئے ہیں : وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک گواہی تھی جسے اس نے چھپالیا۔ یہاں اسی کی وضاحت ہو رہی ہے کہ تورات اور انجیل میں کیسی کیسی کھلی شہادتیں تھیں ‘ اور ان کو یہ چھپائے پھر رہے ہیں !

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

📘 آیت 16 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰیص یہ بڑا پیارا انداز بیان ہے۔ ان کے سامنے دونوں options تھے۔ ایک شخص نے گمراہی کو چھوڑا اور ہدایت لے لی۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑی۔ اسے تکلیفیں اٹھانی پڑیں ‘ آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا ‘ قربانیاں دینا پڑیں۔ اس نے یہ سب کچھ منظور کیا اور ہدایت لے لی۔ جبکہ ایک شخص نے ہدایت دے کر گمراہی لے لی ہے۔ آسانی تو ہوگئی ‘ فوری تکلیف سے تو بچ گئے ‘ دونوں طرف سے اپنے مفادات کو بچالیا ‘ لیکن حقیقت میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا یہی ہے۔فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ”رَبِحَ یَرْبَحُ“ کے معنی ہیں تجارت وغیرہ میں نفع اٹھانا ‘ جو ایک صحیح اور جائز نفع ہے ‘ جبکہ ”رب و“ مادہ سے رَبَا یَرْبُوْکے معنی بھی مال میں اضافہ اور بڑھوتری کے ہیں ‘ لیکن وہ حرام ہے۔ تجارت کے اندر جو نفع ہوجائے وہ ”رِبح“ ہے ‘ جو جائز نفع ہے اور اپنا مال کسی کو قرض دے کر اس سے سود وصول کرنا ”رِبا“ ہے جو حرام ہے۔ اب یہاں دو بڑی پیاری تمثیلیں آرہی ہیں۔ پہلی تمثیل کفار کے بارے میں ہے اور دوسری تمثیل منافقین کے بارے میں۔

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 160 اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا فَاُولٰٓءِکَ اَتُوْبُ عَلَیْہِمْ ج میں اپنی نگاہ التفات ان کی طرف متوجہ کر دوں گا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

📘 آیت 160 اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا فَاُولٰٓءِکَ اَتُوْبُ عَلَیْہِمْ ج میں اپنی نگاہ التفات ان کی طرف متوجہ کر دوں گا۔

خَالِدِينَ فِيهَا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ

📘 آیت 162 خٰلِدِیْنَ فِیْہَاج لاَ یُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلاَ ہُمْ یُنْظَرُوْنَ عذاب کا تسلسل ہمیشہ قائم رہے گا۔ ایسا نہیں ہوگا کہ ذرا سی دیر کے لیے وقفہ ہوجائے یا سانس لینے کی مہلت ہی مل جائے۔

وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 163 وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ج لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ رحمن اور رحیم کی وضاحت سورة الفاتحہ میں گزر چکی ہے۔

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ

📘 اب جو آیت آرہی ہے اس کے مطالعہ سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ کا نصف ثانی جو بائیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جس کا آغاز انیسویں رکوع سے ہوا ہے ‘ اس میں ترتیب کیا ہے۔ سورة البقرۃ کے پہلے اٹھارہ رکوعوں کی تقسیم عمودی verticle ہے۔ یعنی چار رکوع ادھر ‘ دس درمیان میں ‘ پھر چار ادھر۔ لیکن انیسویں رکوع سے اب افقی horizontal تقسیم کا آغاز ہوگیا ہے۔ اس حصے ّ میں چار مضامین تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ چار لڑیاں ہیں جن کو بٹ کر رسّی بنا دیا گیا ہے۔ ان چار میں سے دو لڑیاں تو شریعت کی ہیں ‘ جن میں سے ایک عبادات کی اور دوسری احکام و شرائع کی ہے کہ یہ واجب ہے ‘ یہ کرنا ہے ‘ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ نماز فرض ہے ‘ روزہ فرض ہے ‘ وغیرہ وغیرہ۔ احکام و شرائع میں خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ معاشرت انسانی کی بنیاد یہی ہے۔ لہٰذا اس سورت میں آپ دیکھیں گے کہ عائلی قوانین کے ضمن میں تفصیلی احکام آئیں گے۔ جبکہ دوسری دو لڑیاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ہیں۔ جہاد بالنفس کی آخری انتہا قتال ہے جہاں انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان کارزار میں حاضر ہوجاتا ہے۔ اب ان چاروں مضامین یا چاروں لڑیوں کو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے ‘ ایک پیلی ہے ‘ ایک نیلی ہے اور ایک سبز ہے ‘ اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔ آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ پہلے سرخ ‘ پھر پیلا ‘ پھر نیلا اور پھر سبز نظر آئے گا۔ لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔ چناچہ سورة البقرۃ کے نصف آخر میں عبادات ‘ احکام شریعت ‘ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے چار مضامین چار لڑیوں کی مانند گتھے ہوئے ہیں۔ یہ چاروں لڑیاں تانے بانے کی طرح بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اسی بنتی میں بہت بڑے بڑے پھول موجود ہیں۔ یہ پھول قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل آیات ہیں ‘ جن کی نمایاں ترین مثال آیت الکرسی کی ہے۔ ان عظیم آیات میں سے ایک آیت یہاں بیسویں رکوع کے آغاز میں آرہی ہے ‘ جسے میں نے آیت الآیات کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں اس قدر مظاہر فطرت phenomena of nature یکجا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مظاہر فطرت کو اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ آسمان اور زمین کی تخلیق ‘ رات اور دن کا الٹ پھیر ‘ آسمان کے ستارے اور زمین کی نباتات ‘ یہ سب آیات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیا گیا ہے ‘ لیکن یہاں بہت سے مظاہر فطرت کو جس طرح ایک آیت میں سمو یا گیا ہے یہ حکمت قرآنی کا ایک بہت بڑا پھول ہے جو ان چار لڑیوں کی بنتی کے اندر آگیا ہے۔ آیت 164 اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِی الْْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّآءٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا بے آب وگیاہ زمین پڑی تھی ‘ بارش ہوئی تو اسی میں سے روئیدگی آگئی۔ وَبَثَّ فِیْہَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍص وَّتَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ ہواؤں کی گردش کے مختلف انداز اور مختلف پہلو ہیں۔ کبھی شمالاً جنوباً چل رہی ہے ‘ کبھی مشرق سے آرہی ہے ‘ کبھی مغرب سے آرہی ہے۔ اس گردش میں بڑی حکمتیں کارفرما ہیں۔وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ ان مظاہر فطرت کو دیکھو اور ان کے خالق اورّ مدبر کو پہچانو ! ان آیات آفاقی پر غور و فکر اور ان کے خالق کو پہچاننے کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے اور جس تک عام طور پر لوگ نہیں پہنچ پاتے اب اگلی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ پھر محبوب اللہ ہی ہو ‘ شکر اسی کا ہو ‘ اطاعت اسی کی ہو ‘ عبادت اسی کی ہو۔ جب سورج میں اپنا کچھ نہیں ‘ اسے اللہ نے بنایا ہے اور اسے حرارت عطا کی ہے ‘ چاند میں کچھ نہیں ‘ ہوائیں چلانے والا بھی وہی ہے تو اور کسی شے کے لیے کوئی شکر نہیں ‘ کوئی عبادت نہیں ‘ کوئی ڈنڈوت نہیں ‘ کوئی سجدہ نہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود بن جائے ‘ وہی محبوب ہو۔ لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ‘ لَا مَقْصُوْدَ الاَّ اللّٰہُ ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ جن لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی وہ کسی اور شے کو اپنا محبوب و مطلوب بنا کر اس کی پرستش شروع کردیتے ہیں۔ خدا تک نہیں پہنچے تو ع اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں کے مصداق اپنے نفس ہی کو معبود بنا لیا اور خواہشات نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنی قوم کو معبود بنا لیا اور قوم کی برتری اور سربلندی کے لیے جانیں بھی دے رہے ہیں۔ بعض نے وطن کو معبود بنا لیا۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے سمجھا ہے کہ اس دور کا سب سے بڑا بت وطن ہے۔ ان کی نظم وطنیّت ملاحظہ کیجیے : ؂ اِس دور میں مَے اور ہے ‘ جام اور ہے ‘ جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور اِن تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے !اگلی آیت میں تمام معبودان باطل کی نفی کر کے ایک اللہ کو اپنا محبوب اور مطلوب و مقصود بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ

📘 آیت 165 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ ط۔ یہ دراصل ایک فلسفہ ہے کہ ہر باشعور انسان کسی شے کو اپنا آئیڈیل ‘ نصب العین یا آدرش ٹھہراتا ہے اور پھر اس سے بھرپور محبت کرتا ہے ‘ اس کے لیے جیتا ہے ‘ اس کے لیے مرتا ہے ‘ قربانیاں دیتا ہے ‘ ایثار کرتا ہے۔ چناچہ کوئی قوم کے لیے ‘ کوئی وطن کے لیے اور کوئی خود اپنی ذات کے لیے قربانی دیتا ہے۔ لیکن بندۂ مؤمن یہ سارے کام اللہ کے لیے کرتا ہے۔ وہ اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتا ہے ‘ اسی کے لیے مرتا ہے : اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الانعام بیشک میری نماز ‘ میری قربانی ‘ میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کے برعکس عام انسانوں کا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ : ؂ می تراشد فکر ما ہر دم خداوندے دگر رست از یک بند تا افتاد در بندے دگر انسان اپنے ذہن سے معبود تراشتا رہتا ہے ‘ ان سے محبت کرتا ہے اور ان کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ یہ مضمون سورة الحج کے آخری رکوع میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط۔ عگر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں ! یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ کوئی شے اگر اللہ سے بڑھ کر محبوب ہوگئی تو وہ تمہاری معبود ہے۔ تم نے اللہ کو چھوڑ کر اس کو اپنا معبود بنا لیا ‘ چاہے وہ دولت ہی ہو۔ حدیث نبوی ﷺ ہے : تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ 19 ہلاک اور برباد ہوجائے درہم و دینار کا بندہ۔ نام خواہ عبد الرحمن ہو ‘ حقیقت میں وہ عبد الدینار ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ دینار آنا چاہیے ‘ خواہ حرام سے آئے یا حلال سے ‘ جائز ذرائع سے آئے یا ناجائز ذرائع سے۔ چناچہ اس کا معبود اللہ ‘ نہیں ‘ دینار ہے۔ ہندو نے لکشمی دیوی کی مورتی بنا کر اسے پوجنا شروع کردیا کہ یہ لکشمی دیوی اگر ذرا مہربان ہوجائے گی تو دولت کی ریل پیل ہوجائے گی۔ ہم نے اس درمیانی واسطے کو بھی ہٹا کر براہ راست ڈالر اور پیڑو ڈالر کو پوجنا شروع کردیا اور اس کی خاطر اپنے وطن اور اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ چناچہ یہاں کتنے ہی لوگ سسک سسک کر مرجاتے ہیں اور آخری لمحات میں ان کا بیٹا یا بیٹی ان کے پاس موجود نہیں ہوتا بلکہ دیار غیر میں ڈالر کی پوجا میں مصروف ہوتا ہے۔وَلَوْ یَرَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ یَرَوْنَ الْعَذَابَ لا اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًالا یہاں ظلم شرک کے معنی میں آیا ہے اور ظالم سے مراد مشرک ہیں۔وَّاَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعَذَابِ ۔ اس وقت آنکھ کھلے گی تو کیا فائدہ ہوگا ؟ اب آنکھ کھلے تو فائدہ ہے۔

إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ

📘 آیت 166 اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا ہر انسانی معاشرے میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جو دوسرے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں ‘ چاہے ارباب اقتدار ہوں ‘ چاہے مذہبی مسندوں کے والی ہوں۔ لوگ انہیں اپنے پیشوا اور راہنما مان کر ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ہر سچی جھوٹی بات پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ جب عذاب آخرت ظاہر ہوگا تو یہ پیشوا اور راہنما اس عذاب سے بچانے میں اپنے پیروؤں کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور ان سے صاف صاف اظہار براءت اور اعلان لاتعلقی کردیں گے۔وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ جب جہنم ان کی نگاہوں کے سامنے آجائے گی تو تمام رشتے منقطع ہوجائیں گے۔ سورة عبس میں اس نفسا نفسی کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے : یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِئٍ مِّنْہُمْ یَوْمَءِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ اس روز آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے ‘ اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے ‘ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے۔ ان میں سے ہر شخص پر اس دن ایسا وقت آپڑے گا کہ اسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا۔ اسی طرح سورة المعارج میں فرمایا گیا ہے : یَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِءِذٍم بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُءْوِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ مجرم چاہے گا کہ اس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو ‘ اپنی بیوی کو ‘ اپنے بھائی کو ‘ اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا ‘ اور روئے زمین کے سب انسانوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے۔ یہاں فرمایا : تَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْاَسْبَابُ ان کے سارے رشتے منقطع ہوجائیں گے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جن رشتوں کی وجہ سے ہم حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر رہے ہیں ‘ جن کی دلجوئی کے لیے حرام کی کمائی کرتے ہیں اور جن کی ناراضی کے خوف سے دین کے راستے پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں ‘ یہ سارے رشتے اسی دنیا تک محدود ہیں اور اخروی زندگی میں یہ کچھ کام نہ آئیں گے۔

وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ

📘 آیت 167 وَقَالَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا لَوْ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُ وْا مِنَّا ط کَذٰلِکَ یُرِیْہِمُ اللّٰہُ اَعْمَالَہُمْ حَسَرٰتٍ عَلَیْہِمْ ط وہ کہیں گے کاش ہم نے سمجھا ہوتا ‘ کاش ہم نے ان کی پیروی نہ کی ہوتی ‘ کاش ہم نے ان کو اپنا لیڈر اور اپنا ہادی و رہنما نہ مانا ہوتا ! !

يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 آیت 168 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ یہ بحث دراصل سورة الانعام میں زیادہ وضاحت سے آئے گی۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ بتوں کے نام پر کوئی جانور چھوڑ دیتے تھے ‘ جس کو ذبح کرنا وہ حرام سمجھتے تھے۔ ایسی روایات ہندوؤں میں بھی تھیں جنہیں ہم نے بچپن میں دیکھا ہے۔ مثلاً کوئی سانڈ چھوڑ دیا ‘ کسی کے کان چیر دیے کہ یہ فلاں بت کے لیے یا فلاں دیوی کے لیے ہے۔ ایسے جانور جہاں چاہیں منہ ماریں ‘ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ظاہر ہے ان کا گوشت کیسے کھایا جاسکتا تھا ! تو عرب میں بھی یہ رواج تھے اور ظہور اسلام کے بعد بھی ان کے کچھ نہ کچھ اثرات ابھی باقی تھے۔ آباء و اَجداد کی رسمیں جو قرنوں سے چلی آرہی ہوں وہ آسانی سے چھوٹتی نہیں ہیں ‘ کچھ نہ کچھ اثرات رہتے ہیں۔ جیسے آج بھی ہمارے ہاں ہندوانہ اثرات موجود ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ مشرکانہ توہماتّ کی بنیاد پر تمہارے مشرک باپ دادا نے اگر کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تھا اور کچھ کو حلال قرار دے لیا تھا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم شیطان کی پیروی میں مشرکانہ توہمات کے تحت اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام مت ٹھہراؤ۔ جو چیز بھی اصلاً حلال اور پاکیزہ و طیب ہے اسے کھاؤ۔

إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 168 یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلاً طَیِّبًاز وَّلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ یہ بحث دراصل سورة الانعام میں زیادہ وضاحت سے آئے گی۔ عرب میں یہ رواج تھا کہ بتوں کے نام پر کوئی جانور چھوڑ دیتے تھے ‘ جس کو ذبح کرنا وہ حرام سمجھتے تھے۔ ایسی روایات ہندوؤں میں بھی تھیں جنہیں ہم نے بچپن میں دیکھا ہے۔ مثلاً کوئی سانڈ چھوڑ دیا ‘ کسی کے کان چیر دیے کہ یہ فلاں بت کے لیے یا فلاں دیوی کے لیے ہے۔ ایسے جانور جہاں چاہیں منہ ماریں ‘ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ ظاہر ہے ان کا گوشت کیسے کھایا جاسکتا تھا ! تو عرب میں بھی یہ رواج تھے اور ظہور اسلام کے بعد بھی ان کے کچھ نہ کچھ اثرات ابھی باقی تھے۔ آباء و اَجداد کی رسمیں جو قرنوں سے چلی آرہی ہوں وہ آسانی سے چھوٹتی نہیں ہیں ‘ کچھ نہ کچھ اثرات رہتے ہیں۔ جیسے آج بھی ہمارے ہاں ہندوانہ اثرات موجود ہیں۔ تو ایسے لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ مشرکانہ توہماتّ کی بنیاد پر تمہارے مشرک باپ دادا نے اگر کچھ چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تھا اور کچھ کو حلال قرار دے لیا تھا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ تم شیطان کی پیروی میں مشرکانہ توہمات کے تحت اللہ تعالیٰ کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو حرام مت ٹھہراؤ۔ جو چیز بھی اصلاً حلال اور پاکیزہ و طیب ہے اسے کھاؤ۔

مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ

📘 آیت 17 مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا ج یہاں ایک شب تاریک کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں ؂اندھیری شب ہے جدا اپنے قافلے سے ہے تو ترے لیے ہے مرا شعلۂ نوا قندیل !اندھیری شب ہے۔ قافلہ بھٹک رہا ہے۔ کچھ لوگ بڑی ہمت کرتے ہیں کہ اندھیرے میں بھی ادھر ادھر سے لکڑیاں جمع کرتے ہیں اور آگ روشن کردیتے ہیں۔ لیکن عین اس وقت جب آگ روشن ہوتی ہے تو کچھ لوگوں کی بینائی سلب ہوجاتی ہے۔ پہلے وہ اندھیرے میں اس لیے تھے کہ خارج میں روشنی نہیں تھی۔ اب بھی وہ اندھیرے ہی میں رہ گئے کہ خارج میں تو روشنی آگئی مگر ان کے اندر کی روشنی گل ہوگئی ‘ ان کی بصارت سلب ہوگئی۔ یہ مثال ہے ان کفار کی جو اسلام کی روشنی پھیلنے کے باوجود اس سے محروم رہے ‘ محمد رسول اللہ ﷺ کی آمد سے پہلے ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی حقیقت واضح نہیں تھی۔ قافلۂ انسانیت اندھیری شب میں بھٹک رہا تھا۔ محمد رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور انہوں نے آگ روشن کردی۔ اس طرح ہدایت واضح ہوگئی۔ لیکن کچھ ضد ‘ تعصب ‘ تکبرّ یا حسد کی بنیاد پر کچھ لوگوں کی اندر کی بینائی زائل ہوگئی۔ چناچہ وہ تو ویسے کے ویسے بھٹک رہے ہیں۔ جیسے پہلے اندھیرے میں تھے ویسے ہی اب بھی اندھیرے میں ہیں۔ روشنی میں آنے والے تو وہ ہیں جن کا ذکر سب سے پہلے ”المُتّقین“ کے نام سے ہوا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

📘 آیت 170 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَآ اَلْفَیْنَا عَلَیْہِ اٰبَآءَ نَا ط اَوَلَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ شَیْءًا وَّلاَ یَہْتَدُوْنَ سورۃ البقرۃ کے تیسرے رکوع کی پہلی آیت جہاں نوع انسانی کو خطاب کر کے عبادتِ رب کی دعوت دی گئی کے ضمن میں وضاحت کی گئی تھی کہ جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں وہ بھی تو مخلوق تھے جیسے تم مخلوق ہو ‘ جیسے تم سے خطا ہوسکتی ہے ان سے بھی ہوئی ‘ جیسے تم غلطی کرسکتے ہو انہوں نے بھی کی۔

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

📘 آیت 171 وَمَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لاَ یَسْمَعُ الاَّ دُعَآءً وَّنِدَآءً ط جو لوگ محض باپ دادا کی تقلید میں اپنے کفر پر اڑ گئے ہیں ان کی تشبیہہ جانوروں سے دی گئی ہے جنہیں پکارا جائے تو وہ پکارنے والے کی پکار اور آواز تو سنتے ہیں ‘ لیکن سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بالکل عاری ہوتے ہیں۔ تمثیل سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمان ان لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس دعوت پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

📘 آیت 172 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا سورة الانعام میں یہ ساری چیزیں تفصیل سے آئیں گی۔

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 173 اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ جو جانور اپنی موت آپ مرگیا ‘ ذبح نہیں کیا گیا وہ حرام ہے اور خون حرام ہے ‘ نجس ہے۔ اسی لیے ِ اہل اسلام کا ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ صرف گردن کو کاٹا جائے ‘ تاکہ اس میں شریانیں وغیرہ کٹ جائیں اور جسم کا اکثر خون نکل جائے۔ لیکن اگر جھٹکا کیا جائے ‘ یعنی تیز دھار آلے کے ایک ہی وار سے جانور کی گردن الگ کردی جائے ‘ جیسے سکھ کرتے ہیں یا جیسے یورپ وغیرہ میں ہوتا ہے ‘ تو پھر خون جسم کے اندر رہ جاتا ہے۔ اس طریقے سے مارا گیا جانور حرام ہے۔ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ ج یعنی کسی جانور کو ذبح کرتے ہوئے کسی بت کا ‘ کسی دیوی کا ‘ کسی دیوتا کا ‘ الغرض اللہ کے سوا کسی کا بھی نام لیا گیا تو وہ حرام ہوگیا ‘ اس کا گوشت کھانا حرام مطلق ہے ‘ لیکن اسی کے تابع یہ صورت بھی ہے کہ کسی بزرگ کا قرب حاصل کرنے کے لیے جانور کو اس کے مزار پر لے جا کر وہاں ذبح کیا جائے ‘ اگرچہ دعویٰ یہ ہو کہ یہ صاحب مزار کے ایصال ثواب کی خاطر اللہ تعالیٰ کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے۔ اس لیے کہ ایصال ثواب کی خاطر تو یہ عمل گھر پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ َ وہ کھانے جو اہل عرب میں اس وقت رائج تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے بنیادی طور پر ان میں سے چار چیزوں کی حرمت کا قرآن حکیم میں بار بار اعلان کیا ہے۔ مکی سورتوں میں بھی ان چیزوں کی حرمت کا متعددبار بیان ہوا ہے اور یہاں سورة البقرۃ میں بھی جو مدنی سورت ہے۔ اس کے بعد سورة المائدۃ میں یہ مضمون پھر آئے گا۔ ان چار چیزوں کی حرمت کے بیان سے حلال و حرام کی تفصیل پیش کرنا ہرگز مقصود نہیں ہے ‘ بلکہ مشرکین کی تردید ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاآ اِثْمَ عَلَیْہِ ط اگر کوئی شخص بھوک سے مجبور ہوگیا ہے ‘ جان نکل رہی ہے اور کوئی شے کھانے کو نہیں ہے تو وہ جان بچانے کے لیے حرام کردہ چیز بھی کھا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے دو شرطیں عائد کی گئی ہیں ‘ ایک تو وہ اس حرام کی طرف رغبت اور میلان نہ رکھتا ہو اور دوسرے یہ کہ جان بچانے کے لیے جو ناگزیر مقدار ہے اس سے آگے نہ بڑھے۔ ان دو شرطوں کے ساتھ جان بچانے کے لیے حرام چیز بھی کھائی جاسکتی ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 174 اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ الْکِتٰبِ وَیَشْتَرُوْنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیلْاً لا یعنی اس کے عوض دنیوی فائدوں کی صورت میں حقیر قیمت قبول کرتے ہیں۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ

📘 آیت 175 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْہُدٰی وَالْعَذَاب بالْمَغْفِرَۃِج فَمَآ اَصْبَرَہُمْ عَلَی النَّارِ ! ان کا کتنا حوصلہ ہے کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں ! اس کے لیے کس طرح تیاری کر رہے ہیں !

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

📘 آیت 176 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ ط وَاِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِی الْْکِتٰبِ لَفِیْ شِقَاقٍم بَعِیْدٍ جن لوگوں نے اللہ کی کتاب اور شریعت میں اختلاف کی پگڈنڈیاں نکالیں وہ ضد ‘ ہٹ دھرمی ‘ شقاوت اور دشمنی میں مبتلا ہوگئے اور اس میں بہت دور نکل گئے۔ اعاذنَا اللّٰہ مِنْ ذٰلِکَ !

۞ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ

📘 جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ اس سورة مبارکہ میں کئی ایسی عظیم آیات آئی ہیں جو حجم کے اعتبار سے بھی اور معنی و حکمت کے اعتبار سے بھی بہت عظیم ہیں ‘ جیسے دو ‘ رکوع پہلے آیت الآیات گزر چکی ہے۔ اسی طرح سے اب یہ آیت البر آرہی ہے ‘ جس میں نیکی کی حقیقت واضح کی گئی ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں نیکی کے مختلف تصوّرات ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طبقہ وہ ہے جس کا نیکی کا تصور یہ ہے کہ بس سچ بولنا چاہیے ‘ کسی کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے ‘ کسی کا حق نہیں مارنا چاہیے ‘ یہ نیکی ہے ‘ باقی کوئی نماز روزہ کی پابندی کرے یا نہ کرے ‘ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ! ایک طبقہ وہ ہے جس میں چورّ اُچکے ‘ گرہ کٹ ‘ ڈاکو اور بدمعاش شامل ہیں۔ ان میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یتیموں اور بیواؤں کی مدد بھی کرتے ہیں اور یہ کام ان کے ہاں نیکی شمار ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جسم فروش خواتین بھی اپنے ہاں نیکی کا ایک تصور رکھتی ہیں ‘ وہ خیرات بھی کرتی ہیں اور مسجدیں بھی تعمیر کراتی ہیں۔ ہمارے ہاں مذہبی طبقات میں ایک طبقہ وہ ہے جو مذہب کے ظاہر کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور وہ اس کی روح سے ناآشنا ہوتا ہے۔ ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ مچھر چھانتے ہیں اور سموچے اونٹ نگل جاتے ہیں۔ ان کے اختلافات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ رفع یدین کے بغیر نماز ہوئی یا نہیں ؟ تراویح آٹھ ہیں یا بیس ہیں ؟ باقی یہ کہ سودی کاروبار تم بھی کرو اور ہم بھی ‘ اس سے کسی کی حنفیتّ یا اہل حدیثیّت پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔ نیکی کے یہ سارے تصورات مسخ شدہ perverted ہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے اندھوں نے ایک ہاتھی کو دیکھ کر اندازہ کرنا چاہا تھا کہ وہ کیسا ہے۔ کسی نے اس کے پیر کو ٹٹول کر کہا کہ یہ تو ستون کی مانند ہے ‘ جس کا ہاتھ اس کے کان پر پڑگیا اس نے کہا یہ چھاج کی طرح ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں نیکی کا تصور تقسیم ہو کر رہ گیا ہے۔ بقول اقبال : ؂اڑائے کچھ ورق لالے نے ‘ کچھ نرگس نے کچھ گل نے چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری !یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی عظیم ترین آیت ہے کہ نیکی کی حقیقت کیا ہے ‘ اس کی جڑ بنیاد کیا ہے ‘ اس کی روح کیا ہے ‘ اس کے مظاہر کیا ہیں ؟ پھر ان مظاہر میں اہم ترین کون سے ہیں اور ثانوی حیثیت کن کی ہے ؟ چناچہ اس ایک آیت کی روشنی میں قرآن کے علم الاخلاق پر ایک جامع کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ گویا اخلاقیات قرآنی Quranic Ethics کے لیے یہ آیت جڑ اور بنیاد ہے۔ لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ یہ آیت یہاں کیونکر آئی ہے۔ اس کے پس منظر میں بھی وہی تحویل قبلہ ہے۔ تحویل قبلہ کے بارے میں چار رکوع 15 تا 18 تو مسلسل ہیں۔ اس سے پہلے چودھویں رکوع میں آیت آئی ہے : وَلِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُق فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ ط آیت 115 ادھر بھی اٹھارہویں رکوع کے بعد اتنی آیتیں چھوڑ کر یہ آیت آرہی ہے۔ فرمایا :آیت 177 لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اس عمل کے نیکی ہونے کی نفی نہیں کی گئی۔ یہ نہیں کہا گیا کہ یہ کوئی نیکی ہی نہیں ہے۔ یہ بھی نیکی ہے۔ نیکی کا جو ظاہر ہے وہ بھی نیکی ہے ‘ لیکن اصل شے اس کا باطن ہے۔ اگر باطن صحیح ہے تو حقیقت میں نیکی نیکی ہے ‘ ورنہ نہیں۔ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَآٰءِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج۔ سب سے پہلے نیکی کی جڑ بنیاد بیان کردی گئی کہ یہ ایمان ہے ‘ تاکہ تصحیح نیت ہوجائے۔ ایمانیات میں سب سے پہلے اللہ پر ایمان ہے۔ یعنی جو نیکی کر رہا ہے وہ صرف اللہ سے اجر کا طالب ہے۔ پھر قیامت کے دن پر ایمان کا ذکر ہوا کہ اس نیکی کا اجر دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں مطلوب ہے۔ ورنہ تو یہ سوداگری ہوگئی۔ اور آدمی اگر سوداگری اور دکانداری کرے تو دنیا کی چیزیں بیچے ‘ دین تو نہ بیچے۔ دین کا کام کر رہا ہے تو اس کے لیے سوائے اخروی نجات کے اور اللہ کی رضا کے کوئی اور شے مقصود نہ ہو۔ یوم آخرت کے بعد فرشتوں ‘ کتابوں اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان کا ذکر کیا گیا۔ یہ تینوں مل کر ایک یونٹ بنتے ہیں۔ فرشتہ وحی کی صورت میں کتاب لے کر آیا ‘ جو انبیاء کرام علیہ السلام پر نازل ہوئی۔ ایمان بالرسالت کا تعلق نیکی کے ساتھ یہ ہے کہ نیکی کا ایکّ مجسمہ ‘ ایک ماڈل ‘ ایک آئیڈیل اسوۂ رسول ﷺ ‘ کی صورت میں انسانوں کے سامنے رہے۔ ایسا نہ ہو کہ اونچ نیچ ہوجائے۔ نیکیوں کے معاملے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی جذبات میں ایک طرف کو نکل گیا اور کوئی دوسری طرف کو نکل گیا۔ اس گمراہی سے بچنے کی ایک ہی شکل ہے کہ ایک مکمل اسوہ سامنے رہے ‘ جس میں تمام چیزیں معتدل ہوں اور وہ اسوہ ہمارے لیے ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت ہے۔ نیکی کے ظاہر کے لیے ہم آپ ﷺ ہی کو معیار سمجھیں گے۔ جو شے جتنی آپ ﷺ ‘ کی سیرت میں ہے ‘ اس سے زیادہ نہ ہو اور اس سے کم نہ ہو۔ کوشش یہ ہو کہ انسان بالکل رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ کاملہ کی پیروی کرے۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ یعنی مال کی محبت کے علی الرغم۔ عَلٰی حُبِّہٖ میں ضمیر متصلّ اللہ کے لیے نہیں ہے بلکہ مال کے لیے ہے۔ مال اگرچہ محبوب ہے ‘ پھر بھی وہ خرچ کر رہا ہے۔ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِلا والسَّآءِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ ج۔ گویا نیکی کے مظاہر میں اوّلین مظہر انسانی ہمدردی ہے۔ اگر یہ نہیں ہے تو نیکی کا وجود نہیں ہے۔ عبادات کے انبار لگے ہوں مگر دل میں شقاوت ہو ‘ انسان کو حاجت میں دیکھ کر دل نہ پسیجے ‘ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تجوری کی طرف ہاتھ نہ بڑھے ‘ حالانکہ تجوری میں مال موجود ہو ‘ تو یہ طرز عمل دین کی روح سے بالکل خالی ہے۔ سورة آل عمران آیت 92 میں الفاظ آئے ہیں : لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ط تم نیکی کے مقام کو پہنچ ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو اس میں سے جو تمہیں محبوب ہے۔ یہ نہیں کہ جس شے سے طبیعت اکتا گئی ہو ‘ جو کپڑے بوسیدہ ہوگئے ہوں وہ کسی کو دے کر حاتم طائی کی قبر پر لات مار دی جائے۔ جو شے خود کو پسند ہو ‘ عزیز ہو ‘ اگر اس میں سے نہیں دیتے تو تم نیکی کو پہنچ ہی نہیں سکتے۔ وَاَقَام الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ ج اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ۔ حکمت دین ملاحظہ کیجیے کہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد آیا ہے۔ اس لیے کہ روح دین ایمان ہے اور نیکی کے مظاہر میں سے مظہر اوّل انسانی ہمدردی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیجیے کہ یہاں زکوٰۃ کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے ‘ جبکہ اس سے قبل ایتائے مال کا ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اِنَّ فِی الْمَالِ لَحَقًّا سِوَی الزَّکَاۃِ 20یقیناً مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہے۔یعنی اگر کچھ لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ بس ہم نے اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکال دی تو پورا حق ادا ہوگیا ‘ تو یہ ان کی خام خیالی ہے ‘ مال میں زکوٰۃ کے سوا بھی حق ہے۔ اور آپ ﷺ نے یہی مذکورہ بالا آیت پڑھی۔ایمان اور انسانی ہمدردی کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے نماز ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ طٰہٰ نماز قائم کرو میری یاد کے لیے۔ اور انسانی ہمدردی میں مال خرچ کرنے کے جذبے کو پروان چڑھانے اور برقرار رکھنے کے لیے زکوٰۃ ہے کہ اتنا تو کم سے کم دینا ہوگا ‘ تاکہ بوتل کا منہ تو کھلے۔ اگر بوتل کا کارک نکل جائے گا تو امید ہے کہ اس میں سے کوئی شربت اور بھی نکل آئے گا۔ چناچہ اڑھائی فیصد تو فرض زکوٰۃ ہے۔ جو یہ بھی نہیں دیتا وہ مزید کیا دے گا ؟ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَہْدِہِمْ اِذَا عٰہَدُوْا ج۔ انسان نے سب سے بڑا عہد اپنے پروردگار سے کیا تھا جو عہد الست کہلاتا ہے ‘ پھر شریعت کا عہد ہے جو ہم نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے۔ پھر آپس میں جو بھی معاہدے ہوں ان کو پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ معاملات انسانی سارے کے سارے معاہدات کی شکل میں ہیں۔ شادی بھی شوہر اور بیوی کے مابین ایک سماجی معاہدہ social contract ہے۔ شوہر کی بھی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں اور بیوی کی بھی کچھّ ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔ شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں ‘ بیوی کے شوہر پر حقوق ہیں۔ پھر آجر اور مستأجر کا جو باہمی تعلق ہے وہ بھی ایک معاہدہ ہے۔ تمام بڑے بڑے کاروبار معاہدوں پر ہی چلتے ہیں۔ پھر ہمارا جو سیاسی نظام ہے وہ بھی معاہدوں پر مبنی ہے۔ تو اگر لوگوں میں ایک چیز پیدا ہوجائے کہ جو عہد کرلیا ہے اسے پورا کرنا ہے تو تمام معاملات سدھر جائیں گے ‘ ان کی stream lining ہوجائے گی۔ وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ط۔ یہ نیکی بدھ مت کے بھکشوؤں کی نیکی سے مختلف ہے۔ یہ نیکی باطل کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ نیکی خانقاہوں تک محدود نہیں ہوتی ‘ صرف انفرادی سطح تک محدود نہیں رہتی ‘ بلکہ اللہ کو جو نیکی مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ اب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ۔ اور جب باطل کا سر کچلنے کے لیے میدان میں آؤ گے تو خود بھی تکلیفیں اٹھانی پڑیں گی۔ اس راہ میں صحابہ کرام رض کو بھی تکلیفیں اٹھانی پڑی ہیں اور جانیں دینی پڑی ہیں۔ اللہ کا کلمہ سربلند کرنے کے لیے سینکڑوں صحابہ کرام رض نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ دنیا کے ہر نظام اخلاق میں خیراعلیٰ summum bonumکا ایک تصوّر ہوتا ہے کہ سب سے اونچی نیکی کیا ہے ! قرآن کی رو سے سب سے اعلیٰ نیکی یہ ہے کہ حق کے غلبے کے لیے ‘ صداقت ‘ دیانت اور امانت کی بالادستی کے لیے اپنی گردن کٹا دی جائے۔ وہ آیت یاد کر لیجیے جو چند رکوع پہلے ہم پڑھ چکے ہیں : وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ اور جو اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں جام شہادت نوش کرلیں انہیں مردہ مت کہو ‘ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعورحاصل نہیں ہے۔ اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ط۔ راست بازی اور نیکوکاری کا دعویٰ تو بہت سوں کو ہے ‘ لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دعوے میں سچے ‘ ہیں۔ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ۔ ہمارے ذہنوں میں نیکی اور تقویٰ کے کچھ اور نقشے بیٹھے ہوئے ہیں کہ شاید تقویٰ کسی مخصوص لباس اور خاص وضع قطع کا نام ہے۔ یہاں قرآن حکیم نے نیکی اور تقویٰ کی حامل انسانی شخصیت کا ایک ہیولا اور اس کے کردار کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ اس کے باطن میں روح ایمان موجود ہے اور خارج میں اس ترتیب کے ساتھ دین کے یہ تقاضے اور نیکی کے یہ مظاہر موجود ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ‘ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ آمین یا رب العالمیناس کے بعد وہی جو انسانی معاملات ہیں ان پر بحث چلے گی۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کے بارے میں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ یہ گویا چار لڑیوں پر مشتمل ہیں ‘ جن میں سے دو لڑیاں عبادات اور احکام و شرائع کی ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَىٰ بِالْأُنْثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 آیت 178 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْْقَتْلٰی ط۔ قَتْلٰیقَتِیْلٌکی جمع ہے جس کے معنی مقتول کے ہیں۔ کُتِبَکے بعد عَلٰی فرضیتّ کے لیے آتا ہے ‘ یعنی تم پر یہ فرض کردیا گیا ہے ‘ اس معاملے میں سہل انگاری صحیح نہیں ہے۔ جب کسی معاشرے میں انسان کا خون بہانا عام ہوجائے تو تمدن کی جڑ کٹ جائے گی ‘ لہٰذا قصاص تم پر واجب ہے۔اَلْحُرُّ بالْحُرِّ آزاد آزاد کے بدلے اگر کسی آزاد آدمی نے قتل کیا ہے تو قصاص میں وہ آزاد ہی قتل ہوگا۔ یہ نہیں کہ وہ کہہ دے کہ میرا غلام لے جاؤ ‘ یا میری جگہ میرے دو غلام لے جا کر قتل کر دو۔ وَالْعَبْدُ بالْعَبْدِ اگر غلام قاتل ہے تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے گا۔وَالْاُنْثٰی بالْاُنْثٰی ط۔ اگر قتل کرنے والی عورت ہے تو وہ عورت ہی قتل ہوگی۔ قصاص و دیت کے معاملے میں اسلام سے پہلے عرب میں مختلف معیارات قائم تھے۔ مثلاً اگر اوسی خزرجی کو قتل کر دے تو تین گنا خون بہا وصول کیا جائے گا اور خزرجی اوسی کو قتل کرے تو ایک تہائی خون بہا ادا کیا جائے گا۔ یہ ان کا قانون تھا۔ اسی طرح آزاد اور غلام میں بھی فرق روا رکھا جاتا تھا۔ لیکن شریعت اسلامی نے اس ضمن میں کامل مساوات قائم کی اور زمانۂ جاہلیت کی ہر طرح کی عدم مساوات کا خاتمہ کردیا۔ اس بارے میں امام ابوحنیفہ رض کا قول یہی ہے کہ تمام مسلمان آپس میں کفو برابر ہیں ‘ لہٰذا قتل کے مقدمات میں کوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ یعنی مقتول کے ورثاء اگر قاتل کو کچھ رعایت دے دیں کہ ہم اس کی جان بخشی کرنے کو تیار ہیں ‘ چاہے وہ خون بہا لے لیں ‘ چاہے ویسے ہی معاف کردیں ‘ تو جو بھی خون بہا طے ہوا ہو اس کے بارے میں ارشاد ہوا :فَاتِّبَاعٌم بالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط۔ اس کا رحمت ہونا بہت واضح ہے۔ اگر یہ شکل نہ ہو تو پھر قتل در قتل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن اگر قاتل کو لا کر مقتول کے ورثاء کے سامنے کھڑا کردیا جائے کہ اب تمہارے ہاتھ میں اس کی جان ہے ‘ تم چاہو تو اس کو قتل کردیا جائے گا ‘ اور اگر تم احسان کرنا چاہو ‘ اس کی جان بخشی کرنا چاہو تو تمہیں اختیار حاصل ہے۔ چاہو تو ویسے ہی بخش دو ‘ چاہو تو خون بہا لے لو۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ دشمنیوں کا دائرہ سمٹ جاتا ہے ‘ بڑھتا نہیں ہے۔ اس میں اللہ کی طرف سے بڑی رحمت ہے۔ اسلامی معاشرے میں قاتل کی گرفتاری اور قصاص کی تنفیذ حکومت کیّ ذمہ داری ہوتی ہے ‘ لیکن اس میں مدعی ریاست نہیں ہوتی۔ آج کل ہمارے نظام میں غلطی یہ ہے کہ ریاست ہی مدعی بن جاتی ہے ‘ حالانکہ مدعی تو مقتول کے ورثاء ہیں۔ اسلامی نظام میں کسی صدر یا وزیراعظم کو اختیار نہیں ہے کہ کسی قاتل کو معاف کر دے۔ قاتل کو معاف کرنے کا اختیار صرف مقتول کے ورثاء کو ہے۔ لیکن ہمارے ملکی دستور کی رو سے صدر مملکت کو سزائے موت معاف کرنے کا حق دیا گیا ہے۔فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ ۔ یعنی جو لوگ اس رعایت سے فائدہ اٹھانے کے بعد ظلم و زیادتی کا وطیرہ اپنائیں گے ان کے لیے آخرت میں دردناک عذاب ہے۔

وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

📘 آیت 179 وَلَکُمْ فِی الْْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ معاشرتی زندگی میں عفو و درگزر اگرچہ ایک اچھی قدر ہے اور اسلام اس کی تعلیم دیتا ہے : وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ التغابن اور اگر تم معاف کردیا کرو اور چشم پوشی سے کام لو اور بخش دیا کرو تو بیشک اللہ بھی بخشنے والا ‘ رحم کرنے والا ہے۔ لیکن قتل کے مقدمات میں سہل انگاری اور چشم پوشی کو قصاص کی راہ میں حائل نہیں ہونے دینا چاہیے ‘ بلکہ شدتّ کے ساتھ پیروی ہونی چاہیے ‘ تاکہ اس سے آگے قتل کا سلسلہ بند ہو۔ آیت کے آخر میں فرمایا : لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یعنی اللہ کی حدود کی خلاف ورزی اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدیّ سے بچو۔

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ

📘 آیت 8 1 صُمٌّ م بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ اَصَمُّ بہرے کو کہتے ہیں ‘ صُمٌّ اس کی جمع ہے ‘ اَبْکَمُ گونگے کو کہا جاتا ہے ‘ بُکْمٌ اس کی جمع ہے۔ اَعْمٰی اندھے کو کہتے ہیں ‘ عُمْیٌ اس کی جمع ہے۔ فرمایا کہ یہ بہرے ہیں ‘ گونگے ہیں ‘ اندھے ہیں ‘ اب یہ لوٹنے والے نہیں ہیں۔ یہ کون ہیں ؟ ابوجہل ‘ ابولہب ‘ ولید بن مغیرہ اور عقبہ ابن ابی معیط سب کے سب ابھی زندہ تھے جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں۔ یہ سب تو غزوۂ بدر میں واصل جہنم ہوئے جو سن 2 ہجری میں ہوا۔ تو یہ لوگ اس مثال کا مصداق کامل تھے۔ آگے اب دوسری مثال بیان کی جا رہی ہے۔

كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 180 کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ ا ج الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بالْمَعْرُوْفِ ج۔ ابھی قانون وراثت نازل نہیں ہوا تھا ‘ اس ضمن میں یہ ابتدائی قدم اٹھایا گیا۔ دورِجاہلیت میں وراثت کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی ‘ جیسے آج بھی ہندوؤں میں ہوتی ہے ‘ کہ مرنے والے کی ساری جائیداد کا مالک بڑا بیٹا بن جاتا تھا۔ اس کی بیوی ‘ بیٹیاں ‘ حتیٰ کہ دوسرے بیٹے بھی وراثت سے محروم رہتے۔ چناچہ یہاں وراثت کے بارے میں پہلا حکم دیا گیا کہ مرنے والا والدین اوراقرباء کے بارے میں وصیت کر جائے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ ہو سکے۔ پھر جب سورة النساء میں پورا قانون وراثت آگیا تو اب یہ آیت منسوخ شمار ہوتی ہے۔ البتہ اس کے ایک جزو کو رسول اللہ ﷺ نے باقی رکھا ہے کہ مرنے والا اپنے ایک تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتا ہے ‘ اس سے زیادہ نہیں ‘ اور یہ کہ جس شخص کا وراثت میں حق مقرر ہوچکا ہے ‘ اس کے لیے وصیت نہیں ہوگی۔ وصیت غیر وارث کے لیے ہوگی۔ مرنے والا کسی یتیم کو ‘ بیوہ کو ‘ کسی یتیم خانہ کو یا کسی دینی ادارے کو اپنی وراثت میں سے کچھ دینا چاہے تو اسے حق حاصل ہے کہ ایک تہائی کی وصیت کر دے۔ باقی دو تہائی میں لازمی طور پر قانونی وراثت کی تنفیذ ہوگی۔ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ ان پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ وصیت کر جائیں کہ ہمارے والدین کو یہ مل جائے ‘ فلاں رشتہ دار کو یہ مل جائے ‘ باقی جو بھی ورثاء ہیں ان کے حصے میں یہ آجائے۔

فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 181 فَمَنْم بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ ط وصیت کرنے والا ان کے اس گناہ سے َ بری ہے ‘ اس نے تو صحیح وصیت کی تھی۔ اگر گواہوں نے بعد میں وصیت میں تحریف اور تبدیلی کی تو اس کا وبال اور اس کا بوجھ ان ہی پر آئے گا۔اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ

فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 182 فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا اگر کسی کو یہ اندیشہ ہو اور دیانت داری کے ساتھ اس کی یہ رائے ہو کہ وصیت کرنے والے نے ٹھیک وصیت نہیں کی ‘ بلکہ بےجا جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے یا کسی کی حق تلفی کر کے گناہ کمایا ہے۔فَاَصْلَحَ بَیْنَہُمْ اس طرح کے اندیشے کے بعد کسی نے ورثاء کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ دیکھو ‘ ان کی وصیت تو یہ تھی ‘ لیکن اس میں یہ زیادتی والی بات ہے ‘ اگر تم لوگ متفق ہوجاؤ تو اس میں اتنی تبدیلی کردی جائے ؟فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ط۔ یعنی ایسی بات نہیں ہے کہ اس وصیت کو ایسا تقدس حاصل ہوگیا کہ اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ‘ بلکہ باہمی مشورے سے اور اصلاح کے جذبے سے وصیت میں تغیر و تبدل ہوسکتا ہے

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

📘 سورة البقرۃ کے نصف آخر کے مضامین کے بارے میں عرض کیا جا چکا ہے کہ یہ چار لڑیوں کی مانند ہیں جو آپس میں گتھی ہوئی ہیں۔ اب ان میں سے عبادات والی لڑی آرہی ہے اور زیر مطالعہ رکوع میں صوم کی عبادت کا تذکرہ ہے۔ جہاں تک صلوٰۃ نماز کا تعلق ہے تو اس کا ذکر مکی سورتوں میں بےتحاشا آیا ہے ‘ لیکن مکی دور میں صوم کا بطور عبادت کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔عربوں کے ہاں صوم یا صیام کے لفظ کا اطلاق اور مفہوم کیا تھا اور اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے ‘ اسے ذراسمجھ لیجیے ! عرب خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے ‘ البتہ اپنے گھوڑوں کو رکھواتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر عربوں کا پیشہ غارت گری اور لوٹ مار تھا۔ پھر مختلف قبائل کے مابین وقفہ وقفہ سے جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کاموں کے لیے ان کو گھوڑوں کی ضرورت تھی اور گھوڑا اس مقصد کے لیے نہایت موزوں جانور تھا کہ اس پر بیٹھ کر تیزی سے جائیں ‘ لوٹ مار کریں ‘ شب خون ماریں اور تیزی سے واپس آجائیں۔ اونٹ تیز رفتار جانور نہیں ہے ‘ پھر وہ گھوڑے کے مقابلے میں تیزی سے اپنا رخ بھی نہیں پھیر سکتا۔ مگر گھوڑا جہاں تیز رفتار جانور ہے ‘ وہاں تنک مزاج اور نازک مزاج بھی ہے۔ چناچہ وہ تربیت کے لیے ان گھوڑوں سے یہ مشقت کراتے تھے کہ ان کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے اور ان کے ُ منہ پر ایک تو بڑا چڑھا دیتے تھے۔ اس عمل کو وہ صوم کہتے تھے اور جس گھوڑے پر یہ عمل کیا جائے اسے وہ صائم کہتے تھے ‘ یعنی یہ روزہ سے ہے۔ اس طرح وہ گھوڑوں کو بھوک پیاس جھیلنے کا عادی بناتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہم کے دوران گھوڑا بھوک پیاس برداشت نہ کرسکے اور جی ہار دے۔ اس طرح تو سوار کی جان شدید خطرے میں پڑجائے گی اور اسے زندگی کے لالے پڑجائیں گے ! مزید یہ کہ عرب اس طور پر گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر موسم گرما اور لو کی حالت میں انہیں لے کر میدان میں جا کھڑے ہوتے تھے۔ وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے سروں پر ڈھاٹے باندھ کر اور جسم پر کپڑے وغیرہ لپیٹ کر ان گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار رہتے تھے اور ان گھوڑوں کا منہ سیدھا لو اور باد صرصر کے تھپیڑوں کی طرف رکھتے تھے ‘ تاکہ ان کے اندر بھوک پیاس کے ساتھ ساتھ لو کے ان تھپیڑوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی پڑجائے ‘ تاکہ کسی ڈاکے کی مہم یا قبائلی جنگ کے موقع پر گھوڑا سوار کے قابو میں رہے اور بھوک پیاس یا باد صرصر کے تھپیڑوں کو برداشت کر کے سوار کی مرضی کے مطابق مطلوبہُ رخ برقرار رکھے اور اس سے منہ نہ پھیرے۔ تو عرب اپنے گھوڑوں کو بھوکا پیاسا رکھ کر جو مشقت کراتے تھے اس پر وہ صوم کے لفظ یعنی روزہ کا اطلاق کرتے تھے۔لیکن رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہود کے ہاں روزہ رکھنے کا رواج تھا۔ وہ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ‘ اس لیے کہ اس روز بنی اسرائیل کو فرعونیوں سے نجات ملی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو ابتداءً ہر مہینے ایامِّ بیض کے تین روزے رکھنے کا حکم دیا۔ اس رکوع کی ابتدائی دو آیات میں غالباً اسی کی توثیق ہے۔ اگر ابتدا ہی میں پورے مہینے کے روزے فرض کردیے جاتے تو وہ یقیناً شاق گزرتے۔ ظاہر بات ہے کہ مہینے سخت گرم بھی ہوسکتے ہیں۔ اب اگر تیس کے تیس روزے ایک ہی مہینے میں فرض کردیے گئے ہوتے اور وہ جون جولائی کے ہوتے تو جان ہی تو نکل جاتی۔ چناچہ بہترین تدبیر یہ کی گئی کہ ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا اور یہ روزے مختلف موسموں میں آتے رہے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد رمضان کے روزے فرض کیے گئے۔ ہر مہینے میں تین دن کے روزوں کا جو ابتدائی حکم تھا اس میں علی الاطلاق یہ اجازت تھی کہ جو شخص یہ روزہ نہ رکھے وہ اس کا فدیہ دے ‘ اگرچہ وہ بیمار یا مسافر نہ ہو اور روزہ رکھنے کی طاقت بھی رکھتا ہو۔ جب رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم آگیا تو اب یہ رخصت ختم کردی گئی۔ البتہ رسول اللہ ﷺ نے فدیہ کی اس رخصت کو ایسے شخص کے لیے باقی رکھا جو بہت بوڑھا ہے ‘ یا کسی ایسی سخت بیماری میں مبتلا ہے کہ روزہ رکھنے سے اس کے لیے جان کی ہلاکت کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ یہ ہے ان آیات کی تاویل جس پر میں بہت عرصہ پہلے پہنچ گیا تھا ‘ لیکن چونکہ اکثر مفسرین نے یہ بات نہیں لکھی اس لیے میں اسے بیان کرنے سے جھجکتا رہا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ مولانا انور شاہ کا شمیری رح کی رائے یہی ہے تو مجھے اپنی رائے پر اعتماد ہوگیا۔ پھر مجھے اس کا ذکر تفسیر کبیر میں امام رازی رح کے ہاں بھی مل گیا کہ متقدمین کے ہاں یہ رائے موجود ہے کہ روزے سے متعلق پہلی دو آیتیں 183 ‘ 184 رمضان کے روزے سے متعلق نہیں ہیں ‘ بلکہ وہ ایام بیض کے روزوں سے متعلق ہیں۔ ایام بیض کے روزے رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد بھی نفلاً رکھے ہیں۔روزے کے احکام پر مشتمل یہ رکوع چھ آیتوں پر مشتمل ہے اور یہ اس اعتبار سے ایک عجیب مقام ہے کہ اس ایک جگہ روزے کا تذکرہ جامعیت کے ساتھ آگیا ہے۔ قرآن مجید میں دیگراحکام بہت دفعہ آئے ہیں۔ نماز کے احکام بہت سے مقامات پر آئے ہیں۔ کہیں وضو کے احکام آئے ہیں تو کہیں تیمم کے ‘ کہیں نماز قصر اور نماز خوف کا ذکر ہے۔ لیکن صوم کی عبادت پر یہ کل چھ آیات ہیں ‘ جن میں اس کی حکمت ‘ اس کی غرض وغایت اور اس کے احکام سب کے سب ایک جگہ آگئے ہیں۔ فرمایا :آیت 183 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ وہ جنگ کے لیے گھوڑے کو تیار کرواتے تھے ‘ تمہیں تقویٰ کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے۔ روزے کی مشق تم سے اس لیے کرائی جا رہی ہے تاکہ تم بھوک کو قابو میں رکھ سکو ‘ شہوت کو قابو میں رکھ سکو ‘ پیاس کو برداشت کرسکو۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں جنگ کے لیے نکلنا ہوگا ‘ اس میں بھوک بھی آئے گی ‘ پیاس بھی آئے گی۔ اپنے آپ کو جہاد و قتال کے لیے تیار کرو۔ سورة البقرۃ کے اگلے رکوع سے قتال کی بحث شروع ہوجائے گی۔ چناچہ روزے کی یہ بحث گویا قتال کے لیے بطور تمہیدآ رہی ہے۔

أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 184 اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط مَعْدُوْدٰت جمع قلت ہے ‘ جو تین سے نو تک کے لیے آتی ہے۔ یہ گویا اس کا ثبوت ہے کہ یہاں مہینے بھر کے روزے مراد نہیں ہیں۔ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَ یَّامٍ اُخَرَ ط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط ان آیات کی تفسیر میں ‘ جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ میں نے اپنے مطالعے کے بعد جو رائے قائم کی ہے َ میں صرف وہی بیان کر رہا ہوں کہ اس وقت امام رازی رح کے بقول یہ فرضیتّ علی التّعیین نہیں تھی بلکہ علی التّخییر تھی۔ یعنی روزہ فرض تو کیا گیا ہے لیکن اس کا بدل بھی دیا جا رہا ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کی استطاعت کے باوجود نہیں رکھنا چاہتے تو ایک مسکین کو کھانا کھلا دو۔ چونکہ روزے کے وہ پہلے سے عادی نہیں تھے ‘ لہٰذا انہیں تدریجاً اس کا خوگر بنایا جا رہا تھا۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَہُوَ خَیْرٌ لَّہٗ ط۔ اگر کوئی روزہ بھی رکھے اور مسکین کو کھانا بھی کھلائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہوگا۔وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہاں بھی ایک طرح کی رعایت کا انداز ہے۔ یہ دو آیات ہیں جن میں میرے نزدیک روزے کا پہلا حکم دیا گیا ‘ جس کے تحت رسول اللہ ﷺ اور اہل ایمان نے ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان روزوں کا حکم رسول اللہ ﷺ نے اہل ایمان کو اپنے طور پر دیا ہو اور بعد میں ان آیات نے اس کی توثیق کردی ہو۔اب وہ آیات آرہی ہیں جو خاص رمضان کے روزے سے متعلق ہیں۔ ان میں سے دو آیات میں روزے کی حکمت اور غرض وغایت بیان کی گئی ہے۔ پھر ایک طویل آیت روزہ کے احکام پر مشتمل ہے اور آخر میں ایک آیت گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 185 شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَہِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ ط اب وہ وجوب علی التخییرّ کا معاملہ ختم ہوگیا اور وجوب علی التعیین ہوگیا کہ یہ لازم ہے ‘ یہ رکھنا ہے۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط یہ رعایت حسب سابق برقرار رکھی گئی۔یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَز لوگ خواہ مخواہ اپنے اوپر سختیاں جھیلتے ہیں ‘ شدید سفر کے اندر بھی روزے رکھتے ہیں ‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنے کی اجازت دی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک سفر میں ان لوگوں پر کافی سرزنش کی جنہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپ ﷺ ‘ صحابہ کرام رض کے ہمراہ جہاد و قتال کے لیے نکلے تھے کہ کچھ لوگوں نے اس سفر میں بھی روزہ رکھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سفر کے بعد جہاں منزل پر جا کر خیمے لگانے تھے وہ نڈھال ہو کر گرگئے اور جن لوگوں کا روزہ نہیں تھا انہوں نے خیمے لگائے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لَیْسَ مِنَ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِی السَّفَرِ 21 سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔ لیکن ہمارا نیکی کا تصور مختلف ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ خواہ 105 بخار چڑھا ہوا ہو وہ کہیں گے کہ روزہ تو میں نہیں چھوڑوں گا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی رعایت سے فائدہ نہ اٹھانا ایک طرح کا کفران نعمت ہے۔ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ مرض یا سفر کے دوران جو روزے چھوٹ جائیں تمہیں دوسرے دنوں میں ان کی تعداد پوری کرنی ہوگی۔ وہ جو ایک رعایت تھی کہ فدیہ دے کر فارغ ہوجاؤ وہ اب منسوخ ہوگئی۔وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٹکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ وہ نعمت عظمیٰ جو قرآن حکیم کی شکل میں تمہیں دی گئی ہے ‘ تم اس کا شکر ادا کرو۔ اس موضوع پر میرے دو کتابچوں عظمت صوم اور عظمت صیام و قیام رمضان مبارک کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ ان میں یہ سارے مضامین تفصیل سے آئے ہیں کہ روزے کی کیا حکمت ہے ‘ کیا غرض وغایت ہے ‘ کیا مقصد ہے اور آخری منزل کیا ہے۔ مطلوب تو یہ ہے کہ تمہارا یہ جو جسم حیوانی ہے ‘ یہ کچھ کمزور پڑے اور روح ربانی جو تم میں پھونکی گئی ہے اسے تقویت حاصل ہو۔ چناچہ دن میں روزہ رکھو اور اس حیوانی وجود کو ذرا کمزور کرو ‘ اس کے تقاضوں کو دباؤ۔ پھر راتوں کو کھڑے ہوجاؤ اور اللہ کا کلام سنو اور پڑھو ‘ تاکہ تمہاری روح کی آبیاری ہو ‘ اس پر آب حیات کا ترشح ہو۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ خود تمہارے اندر سے تقربّ الی اللہ کی ایک پیاس ابھرے گی۔

وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ

📘 آیت 186 وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط میرے نزدیک یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور Magna Carta ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے۔ فصل اگر ہے تو وہ تمہاری اپنی خباثت ہے۔ اگر تمہاری نیت میں فساد ہے کہ حرام خوری تو کرنی ہی کرنی ہے تو اب کس منہ سے اللہ سے دعا کرو گے ؟ لہٰذا کسی پیر کے پاس جاؤ گے کہ آپ دعا کردیجیے ‘ یہ نذرانہ حاضر ہے۔ بندے اور خدا کے درمیان خود انسان کا نفس حائل ہے اور کوئی نہیں ‘ ورنہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو یہ ہے کہ : ؂ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے ‘ راہ رو منزل ہی نہیں !اس تک پہنچنے کا واسطہ کوئی پوپ نہیں ‘ کوئی پادری نہیں ‘ کوئی پنڈت نہیں ‘ کوئی پروہت نہیں ‘ کوئی پیر نہیں۔ جب چاہو اللہ سے ہم کلام ہوجاؤ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے : ؂کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے ؟پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو !اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ میرا ہر بندہ جب چاہے ‘ جہاں چاہے مجھ سے ہم کلام ہوسکتا ہے۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا اجابت کے مفہوم میں کسی کی پکار کا سننا ‘ اس کا جواب دینا اور اسے قبول کرنا ‘ یہ تینوں چیزیں شامل ہیں۔ لیکن اس کے لیے ایک شرط عائد کی جا رہی ہے : فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ یہ یک طرفہ بات نہیں ہے ‘ بلکہ یہ دو طرفہ معاملہ ہے۔ جیسے ہم پڑھ چکے ہیں : فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ پس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا تم میرا شکر کرو گے تو میں تمہاری قدردانی کروں گا۔ تم میری طرف چل کر آؤ گے تو میں دوڑ کر آؤں گا۔ تم بالشت بھر آؤ گے تو میں ہاتھ بھر آؤں گا۔ لیکن اگر تم رخ موڑ لو گے تو ہم بھی رخ موڑ لیں گے۔ ہماری تو کوئی غرض نہیں ہے ‘ غرض تو تمہاری ہے۔ تم رجوع کرو گے تو ہم بھی رجوع کریں گے۔ تم توبہ کرو گے تو ہم اپنی نظر کرم تم پر متوجہ کردیں گے۔ سورة محمد ﷺ میں الفاظ آئے ہیں : اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ آیت 7 اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔ لیکن اگر تم اللہ کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھاؤ ‘ ان کے ساتھ تمہاری ساز باز ہو اور کھڑے ہوجاؤ قنوت نازلہ میں اللہ سے مدد مانگنے کے لیے تو تم سے بڑا بیوقوف کون ہوگا ؟ پہلے اللہ کی طرف اپنا رخ تو کرو ‘ اللہ سے اپنا معاملہ تو درست کرو۔ اس میں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ پہلے ولی کامل بن جاؤ ‘ بلکہ اسی وقت خلوص نیت سے توبہ کرو ‘ سارے پردے ہٹ جائیں گے۔ آیت کے آخر میں فرمایا :لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ ۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے احکام پر چلنے کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔

أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

📘 آیت 187 اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَام الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآءِکُمْ ط۔ احکام روزہ سے متعلق یہ آیت بڑی طویل ہے۔ یہود کے ہاں شریعت موسوی میں روزہ شام کو ہی شروع ہوجاتا تھا اور رات بھی روزے میں شامل تھی۔ چناچہ تعلق زن و شو بھی قائم نہیں ہوسکتا تھا۔ ان کے ہاں سحری وغیرہ کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔ جیسے ہی رات کو سوتے روزہ شروع ہوجاتا اور اگلے دن غروب آفتاب تک روزہ رہتا۔ ہمارے ہاں روزے میں نرمی کی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ رات کو روزے سے خارج کردیا گیا۔ روزہ بس دن کا ہے اور رات کے وقت روزے کی ساری پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔ چناچہ رات کو تعلق زن و شو بھی قائم کیا جاسکتا ہے اور کھانے پینے کی بھی اجازت ہے۔ لیکن بعض مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید ہمارے ہاں بھی روزے کے وہی احکام ہیں جو یہود کے ہاں ہیں۔ اس لیے ایسا بھی ہوتا تھا کہ روزوں کی راتوں میں بعض لوگ جذبات میں بیویوں سے مقاربت کرلیتے تھے ‘ لیکن دل میں سمجھتے تھے کہ شاید ہم نے غلط کام کیا ہے۔ یہاں اب ان کو اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ تمہارے لیے روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا گیا ہے۔ ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ط۔ یہ بڑا لطیف کنایہ ہے کہ وہ تمہارے لیے بمنزلۂ لباس ہیں اور تم ان کے لیے بمنزلۂ لباس ہو۔ جیسے لباس میں اور جسم میں کوئی پردہ نہیں ایسے ہی بیوی میں اور شوہر میں کوئی پردہ نہیں ہے۔ خود لباس ہی تو پردہ ہے۔ ویسے بھی مرد کے اخلاق کی حفاظت کرنے والی بیوی ہے اور بیوی کے اخلاق کی حفاظت کرنے والا مرد ہے۔ مجھے اقبال کا شعر یاد آگیا : ؂نے پردہ نہ تعلیم ‘ نئی ہو کہ پرانی نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد بہرحال مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے ایک ضرورت بھی ہیں اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی بھی کرتے ‘ ہیں۔عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ تم ایک کام کر رہے تھے جو گناہ نہیں ہے ‘ لیکن تم سمجھتے تھے کہ گناہ ہے ‘ پھر بھی اس کا ارتکاب کر رہے تھے۔ اس طرح تم اپنے آپ سے خیانت کے مرتکب ہو رہے تھے۔ فَتَابَ عَلَیْکُمْ تو اللہ نے تم پر نظر رحمت فرمائی وَعَفَا عَنْکُمْ ج۔ اس سلسلے میں جو بھی خطائیں ہوگئی ہیں وہ سب کی سب معاف سمجھو۔فَالْءٰنَ بَاشِرُوْہُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْص یعنی اولاد ‘ جو تعلق زن و شو کا اصل مقصد ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس تعلق زن و شو کو سکون و راحت کا ذریعہ بنایا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں لِتَسْکُنُوْا اِلَیْھَا کے الفاظ آئے ہیں۔ اس تعلق کے بعد اعصاب کے تناؤ میں ایک سکون کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور اس میں یہی حکمت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ہر سفر میں ایک زوجۂ محترمہ کو ضرور ساتھ رکھتے تھے۔ اس لیے کہ قائد اور سپہ سالار کو کسی وقت کسی ایسی پریشان کن صورت حال میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں کہ جذبات پر اور اعصاب پر دباؤ ہوتا ہے۔وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِص۔ یہ پو پھٹنے کے لیے استعارہ ہے۔ یعنی جب سپیدۂ سحر نمایاں ہوتا ہے ‘ صبح صادق ہوتی ہے اس وقت تک کھانے پینے کی چھوٹ ہے۔ بلکہ یہاں وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا اور کھاؤ اور پیو امر کے صیغے آئے ہیں۔ سحری کرنے کی حدیث میں بھی تاکید آئی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ہمارے اور یہود کے روزے کے مابین سحری کا فرق ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے : تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَۃً 22 سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحری میں برکت ہے۔ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج۔ رات تک سے اکثر فقہاء کے نزدیک غروب آفتاب مراد ہے۔ اہل تشیع اس سے ذرا آگے جاتے ہیں کہ غروب آفتاب پر چند منٹ مزید گزر جائیں۔ وَلاَ تُبَاشِرُوْہُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْْمَسٰجِدِ ط۔ یہ رعایت جو تمہیں دی جا رہی ہے اس میں ایک استثناء ہے کہ جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو پھر اپنی بیویوں سے رات کے دوران بھی کوئی تعلق قائم نہ کرو۔ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَقْرَبُوْہَا ط۔ بعض مقامات پر آتا ہے : تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ پس ان سے تجاوز نہ کرو ان کو عبور نہ کرو۔ اصلاً حرام تو وہی شے ہوگی کہ حدود سے تجاوز کیا جائے۔ لیکن بہرحال احتیاط اس میں ہے کہ ان حدود سے دور رہا جائے to keep at a safe distance آخری حد تک چلے جاؤ گے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس حد کو عبورنہ کر جاؤ۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ للنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُوْنَ اب اس رکوع کی آخری آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ تقویٰ کا معیار اور اس کی کسوٹی کیا ہے۔ روزہ اس لیے فرض کیا گیا ہے اور یہ سارے احکام تمہیں اسی لیے دیے جا رہے ہیں تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہوجائے اور تقویٰ کا لٹمس ٹیسٹ ہے اکل حلال۔ اگر یہ نہیں ہے تو کوئی نیکی نیکی نہیں ہے۔

وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 فرمایا :آیت 188 وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِہَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَال النَّاس بالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ تقویٰ کے لیے معیار اور کسوٹی ہے۔ جو شخص اکل حلال پر قانع ہوگیا اور حرام خوری سے بچ گیا وہ متقی ہے۔ ورنہ نمازوں اور روزوں کے انبار کے ساتھ ساتھ جو شخص حرام خوری کی روش اختیار کیے ہوئے ہے وہ متقی نہیں ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ لوگوں نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ احکام کی آیات کے درمیان یہ آیت کیونکر آئی ہے۔ اس سے پہلے روزے کے احکام آئے ہیں ‘ آگے حج کے احکام آ رہے ہیں ‘ پھر قتال کے احکام آئیں گے۔ ان کے درمیان میں اس آیت کی کیا حکمت ہے ؟ واقعہ یہ ہے کہ جیسے روزے کی حکمت کا نقطۂعروج یہ ہے کہ روح انسانی میں تقرّب الی اللہ کی طلب پیدا ہوجائے اسی طرح احکام صوم کا نقطۂعروج اکل حلال ہے۔

۞ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 آیت 189 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْاَہِلَّۃِ ط قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ للنَّاسِ وَالْحَجِّ ط یہ اللہ تعالیٰ نے ایک کیلنڈر لٹکا دیا ہے۔ ہلال کو دیکھ کر معلوم ہوگیا کہ چاند کی پہلی تاریخ ہوگئی۔ کچھ دنوں کے بعد نصف چاند دیکھ کر پتا چل گیا کہ اب ایک ہفتہ گزر گیا ہے۔ دو ہفتے ہوگئے تو پورا چاند ہوگیا۔ اب اس نے گھٹنا شروع کیا۔ تو یہ نظام گویا لوگوں کے لیے اوقات کار کی تعیین کے لیے ہے اور اس ضمن میں خاص طور پر سب سے اہم معاملہ حج کا ہے۔ یہ نوٹ کیجیے کہ صوم کے بعد حج اور حج کے ساتھ ہی قتال کا ذکر آ رہا ہے۔ اس لیے کہ حج وہ عبادت ہے جو ایک خاص جگہ پر ہوسکتی ہے۔ نماز اور روزہ ہر جگہ ہوسکتے ہیں ‘ زکوٰۃ ہر جگہ دی جاسکتی ہے ‘ لیکن حجتو مکہ مکرمہ ہی میں ہوگا ‘ اور وہ مشرکین کے زیر تسلط تھا اور اسے مشرکین کے تسلطّ سے نکالنے کے لیے قتال لازم تھا۔ قتال کے لیے پہلے صبر کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ چناچہ پہلے روزے کا حکم دیا گیا کہ جیسے اپنے گھوڑوں کو روزہ رکھواتے تھے ایسے ہی خود روزہ رکھو۔ سورة البقرۃ میں صوم ‘ حج اور قتال کے احکام کے درمیان یہ ترتیب اور ربط ہے۔وَلَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُہُوْرِہَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ج۔ اہل عرب ایام جاہلیت میں بھی حج تو کر رہے تھے ‘ مناسک حج کی کچھ بگڑی ہوئی شکلیں بھی موجود تھیں ‘ اور اس کے ساتھ انہوں نے کچھ بدعات و رسوم کا اضافہ بھی کرلیا تھا۔ ان میں سے ایک بدعت یہ تھی کہ جب وہ احرام باندھ کر گھر سے نکل پڑتے تو اس کے بعد اگر انہیں گھروں میں داخل ہونے کی ضرورت پیش آتی تو گھروں کے دروازوں سے داخل نہ ہوتے بلکہ پچھواڑے سے دیوار پھلاند کر آتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ بڑا تقویٰ ہے۔ فرمایا یہ سرے َ سے کوئی نیکی کی بات نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑوں سے داخل ہو ‘ بلکہ اصل نیکی تو اس کی نیکی ہے جو تقویٰ کی روش اختیار کرے اور حدود الٰہی کا احترام ملحوظ رکھے۔ یہاں پوری آیت البر کو ذہن میں رکھ لیجیے جس کے آخر میں الفاظ آئے تھے : وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ چناچہ آیت زیر مطالعہ میں وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی ج کے الفاظ میں نیکی کا وہ پورا تصور مضمر ہے جو آیت البر میں بیان ہوچکا ہے۔

أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ

📘 آیت 19 اَوْ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْہِ ظُلُمٰتٌ وَّرَعْدٌ وَّبَرْقٌ ج یعنی اس ہیبت ناک کڑک سے کہیں ان کی جانیں نہ نکل جائیں۔وَاللّٰہُ مُحِیْطٌ بالْکٰفِرِیْنَ وہ ان منکرین حق کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ‘ یہ بچ کر کہاں جائیں گے ؟

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

📘 آیت 190 وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ لیجیے قتال کا حکم آگیا۔ سورة البقرۃ کے نصف ثانی کے مضامین کی جو چار لڑیاں میں نے گنوائی تھیں یعنی عبادات ‘ معاملات ‘ انفاق اور قتال یہ ان میں سے چوتھی لڑی ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کر رہے ہیں۔

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 191 وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ مہاجرین مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے ‘ وہاں پرٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی اہل ایمان پر قافیہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ تبھی تو آپ ﷺ نے ہجرت کی۔ اب حکم دیا جا رہا ہے کہ نکالو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج ۔ کفار و مشرکین سے قتال کے ضمن میں کہیں یہ خیال نہ آئے کہ قتل اور خونریزی بری بات ہے۔ یاد رکھو کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری بات ہے۔ فتنہ کیا ہے ؟ ایسے حالات جن میں انسان خدائے واحد کی بندگی نہ کرسکے ‘ اسے غلط کاموں پر مجبور کیا جائے ‘ وہ حرام خوری پر مجبور ہوگیا ہو ‘ یہ سارے حالات فتنہ ہیں۔ تو واضح رہے کہ قتل اور خونریزی اتنی بری شے نہیں ہے جتنی فتنہ ہے۔ وَلاَ تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ ج فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ ط پھر اگر وہ تم سے جنگ کریں تو ان کو قتل کرو۔

فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 191 وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْہُمْ وَاَخْرِجُوْہُمْ مِّنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ مہاجرین مکہ مکرمہ سے نکالے گئے تھے ‘ وہاں پرٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی اہل ایمان پر قافیہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ تبھی تو آپ ﷺ نے ہجرت کی۔ اب حکم دیا جا رہا ہے کہ نکالو انہیں وہاں سے جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے۔ وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج ۔ کفار و مشرکین سے قتال کے ضمن میں کہیں یہ خیال نہ آئے کہ قتل اور خونریزی بری بات ہے۔ یاد رکھو کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری بات ہے۔ فتنہ کیا ہے ؟ ایسے حالات جن میں انسان خدائے واحد کی بندگی نہ کرسکے ‘ اسے غلط کاموں پر مجبور کیا جائے ‘ وہ حرام خوری پر مجبور ہوگیا ہو ‘ یہ سارے حالات فتنہ ہیں۔ تو واضح رہے کہ قتل اور خونریزی اتنی بری شے نہیں ہے جتنی فتنہ ہے۔ وَلاَ تُقٰتِلُوْہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ ج فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ ط پھر اگر وہ تم سے جنگ کریں تو ان کو قتل کرو۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ

📘 آیت 193 وَقٰتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط فَاِنِ انْتَہَوْا فَلاَ عُدْوَان الاَّ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ دعوت محمدی ﷺ کے ضمن میں اب یہ جنگ کا مرحلہ شروع ہوگیا ہے۔ مسلمانو جان لو ‘ ایک دوروہ تھا کہ بارہ تیرہ برس تک تمہیں حکم تھا کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ اپنے ہاتھ باندھے رکھو ! ماریں کھاؤ لیکن ہاتھ مت اٹھانا۔ اب تمہاری دعوت اور تحریک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے۔ اب جب تمہاری تلواریں نیام سے باہر آگئی ہیں تو یہ نیام میں نہ جائیں جب تک کہ فتنہ بالکل ختم نہ ہوجائے اور دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے ‘ اللہ کا دین قائم ہوجائے ‘ پوری زندگی میں اس کے احکام کی تنفیذ ہو رہی ہو۔ یہ آیت دوبارہ سورة الانفال میں زیادہ نکھری ہوئی شان کے ساتھ آئی ہے : وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج آیت 39 اور جنگ کرو ان سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین کل کا کُل اللہ کے لیے ہوجائے۔ دین کی بالادستی جزوی طور پر نہیں بلکہ کلی طور پر پوری انسانی زندگی پر قائم ہوجائے ‘ انفرادی زندگی پر بھی اور اجتماعی زندگی پر بھی۔ اور اجتماعی زندگی کے بھی سارے پہلو ‘ Politico- Socio- Economic System کلیُ طور پر اللہ کے احکام کے تابع ہوں۔

الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 194 اَلشَّہْرُ الْحَرَام بالشَّہْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ ط یعنی اگر انہوں نے اشہر حرم کی بےحرمتی کی ہے تو اس کے بدلے میں یہ نہیں ہوگا کہ ہم تو ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں کہ یہ تو اشہر حرم ہیں۔ حدود حرم اور اشہر حرم کی حرمت اہل عرب کے ہاں مسلّم تھی۔ ان کے ہاں یہ طے تھا کہ ان چار مہینوں میں کوئی خونریزی ‘ کوئی جنگ نہیں ہوگی ‘ یہاں تک کہ کوئی اپنے باپ کے قاتل کو پالے تو وہ اس کو بھی قتل نہیں کرے گا۔ یہاں وضاحت کی جا رہی ہے کہ اشہرحرم اور حدود حرم میں جنگ واقعتا بہت بڑا گناہ ہے ‘ لیکن اگر کفار کی طرف سے ان کی حرمت کا لحاظ نہ رکھا جائے اور وہ اقدام کریں تو اب یہ نہیں ہوگا کہ ہاتھ پاؤں باندھ کر اپنے آپ کو پیش کردیا جائے ‘ بلکہ جوابی کارروائی کرنا ہوگی۔ اس جوابی اقدام میں اگر حدود حرم یا اشہر حرم کی بےحرمتی کرنی پڑے تو اس کا وبال بھی ان پر آئے گا جنہوں نے اس معاملے میں پہل کی۔فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ یعنی اللہ کی تائید و نصرت اور اس کی مدد اہل تقویٰ کے لیے آئے گی۔ اب آگے انفاق کا حکم آ رہا ہے جو مضامین کی چار لڑیوں میں سے تیسری لڑی ہے۔ قتال کے لیے انفاق مال لازم ہے۔ اگر فوج کے لیے ساز و سامان نہ ہو ‘ رسد کا اہتمام نہ ہو ‘ ہتھیار نہ ہوں ‘ سواریاں نہ ہوں تو جنگ کیسے ہوگی ؟

وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 195 وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ ج۔ یعنی جس وقت اللہ کے دین کو روپے پیسے کی ضرورت ہو اس وقت جو لوگ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر عام اپیل کی اور اس وقت جو لوگ اپنے مال کو سمیٹ کر بیٹھے رہے تو گویا انہوں نے اپنے آپ کو خود ہلاکت میں ڈال دیا۔ وَاَحْسِنُوْا ج۔ اپنے دین کے اندر خوبصورتی پیدا کرو۔ دین میں بہتر سے بہتر مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ دنیا میں آگے سے آگے اور دین میں پیچھے سے پیچھے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دین میں یہ دیکھیں گے کہ کم سے کم پر گزارا ہوجائے ‘ جبکہ دنیا کے معاملے میں آگے سے آگے نکلنے کی کوشش ہوگی ع ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ! یہ جستجو جو دنیا میں ہے اس سے کہیں بڑھ کر دین میں ہونی چاہیے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ پس تم نیکیوں میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ حدیث جبرائیل علیہ السلام جسے اُمّ السُّنّۃ کہا جاتا ہے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے تین سوال کیے تھے : 1 اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَام مجھے اسلام کے بارے میں بتایئے کہ اسلام کیا ہے ؟ 2 اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَان مجھے ایمان کے بارے میں بتایئے کہ ایمان کیا ہے ؟ 3 ‘ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَان مجھے احسان کے بارے میں بتایئے کہ احسان کیا ہے ؟ احسان کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ ‘ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ 23 احسان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے ‘ پھر اگر تو اسے نہ دیکھ سکے یعنی یہ کیفیت حاصل نہ ہو سکے تو کم از کم یہ خیال رہے کہ وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ دین کے سارے کام ‘ عبادات ‘ انفاق اور جہاد و قتال ایسی کیفیت میں اور ایسے اخلاص کے ساتھ ہوں گویا تم اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھ رہے ہو ‘ اور اگر یہ مقام اور کیفیت حاصل نہ ہو تو کم سے کم یہ کیفیت تو ہوجائے کہ تمہیں مستحضر رہے کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ یہ احسان ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ اس انداز میں نہیں کیا گیا۔ اس کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ ویسے یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ سورة المائدۃ میں آئے گا۔

وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 آیت 196 وَاَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ط۔ عمرہ کے لیے احرام تو مدینہ منورہ سے سات میل باہر نکل کر ہی باندھ لیا جائے گا ‘ لیکن حج مکمل تب ہوگا جب طواف بھی ہوگا ‘ وقوف عرفہ بھی ہوگا اور اس کے سارے مناسک ادا کیے جائیں گے۔ لہٰذا جو شخص بھی حج یا عمرہ کی نیت کرلے تو پھر اسے تمام مناسک کو مکمل کرنا چاہیے ‘ کوئی کمی نہ رہے۔فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ یعنی روک دیا جائے ‘ جیسا کہ 6 ہجری میں ہوا کہ مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کرنی پڑی اور عمرہ ادا کیے بغیر واپس جانا پڑا۔ مشرکین مکہ اڑ گئے تھے کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِ ج۔ یہ دم احصار کہلاتا ہے کہ چونکہ اب ہم آگے نہیں جاسکتے ‘ ہمیں یہیں احرام کھولنا پڑ رہا ہے تو ہم اللہ کے نام پر یہ جانور دے رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے اس کا کفارہ ہے۔ّوَلاَ تَحْلِقُوْا رُءُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْہَدْیُ مَحِلَّہٗ ط۔ یعنی جہاں جا کر قربانی کا جانور ذبح ہونا ہے وہاں پہنچ نہ جائے۔ اگر آپ کو حج یا عمرہ سے روک دیا گیا اور آپ نے قربانی کے جانور آگے بھیج دیے تو آپ کو روکنے والے ان جانوروں کو نہیں روکیں گے ‘ اس لیے کہ ان کا گوشت تو انہیں کھانے کو ملے گا۔ اب اندازہ کرلیا جائے کہ اتنا وقت گزر گیا ہے کہ قربانی کا جانور اپنے مقام پر پہنچ گیا ہوگا۔فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ یعنی سر میں کوئی زخم وغیرہ ہو اور اس کی وجہ سے بال کٹوانے ضروری ہوجائیں۔فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ ج۔ اگر اس ہدی کے جانور کے کعبہ پہنچنے سے پہلے پہلے تمہیں اپنے بال کاٹنے پڑیں تو فدیہ ادا کرنا ہوگا۔ یعنی ایک کمی جو رہ گئی ہے اس کی تلافی کے لیے کفارہّ ادا کرنا ہوگا۔ اس کفارے ّ کی تین صورتیں بیان ہوئی ہیں : روزے ‘ یا صدقہ یا قربانی۔ اس کی وضاحت احادیث نبویہ ﷺ سے ہوتی ہے کہ یا تو تین دن کے روزے رکھے جائیں ‘ یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے یا کم از کم ایک بکری کی قربانی دی جائے۔ اس قربانی کو دم جنایت کہتے ہیں۔فَاِذَآ اَمِنْتُمْ قف فَمَنْ تَمَتَّعَ بالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْہَدْیِج رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے اہل عرب کے ہاں ایک سفر میں حج اور عمرہ دونوں کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک یہ کعبہ کی توہین تھی۔ ان کے ہاں حج کے لیے تین مہینے شوال ‘ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ تھے ‘ جبکہ رجب کا مہینہ عمرے کے لیے مخصوص تھا۔ وہ عمرے کے لیے علیحدہ سفر کرتے اور حج کے لیے علیحدہ۔ یہ بات حدود حرم میں رہنے والوں کے لیے تو آسان تھی ‘ لیکن اس امت کو تو پوری دنیا میں پھیلنا تھا اور دور دراز سے سفر کر کے آنے والوں کے لیے اس میں مشقت تھی۔ لہٰذا شریعت محمدی ﷺ میں لوگوں کے لیے جہاں اور آسانیاں پیدا کی گئیں وہاں حج وعمرہ کے ضمن میں یہ آسانی بھی پیدا کی گئی کہ ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرلیا جائے۔ اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ پہلے عمرہ کر کے احرام کھول دیا جائے اور پھر آٹھویں ذوالحجہ کو حج کا احرام باندھ لیا جائے۔ یہ حج تمتع کہلاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حج کے لیے احرام باندھا تھا ‘ جاتے ہی عمرہ بھی کرلیا ‘ لیکن احرام کھولا نہیں اور اسی احرام میں حج بھی کرلیا۔ یہ حج قرآن کہلاتا ہے۔ لیکن اگر شروع ہی سے صرف حج کا احرام باندھا جائے اور عمرہ نہ کیا جائے تو یہ حج افراد کہلاتا ہے۔ قرآن یا تمتع کرنے والے پر قربانی ضروری ہے۔ امام ابوحنیفہ رض اسے دم شکر کہتے ہیں اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت دیتے ہیں۔ امام شافعی رح کے نزدیک یہ دم جبر ہے اور قربانی کرنے والے کو اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں ہے۔فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْْحَجِّ یعنی عین ایام حج میں ساتویں ‘ آٹھویں اور نویں ذوالحجہ کو روزہ رکھے۔ دسویں کا روزہ نہیں ہوسکتا ‘ وہ عید کا دن یوم النحر ہے۔وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ ط اپنے گھروں میں جا کر سات روزے رکھو۔تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ط ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَہْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ط یعنی ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ کو جمع کرنے کی رعایت ‘ خواہ تمتعّ کی صورت میں ہو یا قران کی صورت میں ‘ صرف آفاقی کے لیے ہے ‘ جس کے اہل و عیال جوار حرم میں نہ رہتے ہوں ‘ یعنی جو حدودحرم کے باہر سے حج کرنے آیا ہو۔

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ

📘 پچھلے رکوع سے مناسک حج کا تذکرہ شروع ہوچکا ہے۔ اب اس پچیسویں رکوع میں حج کا اصل فلسفہ ‘ اس کی اصل حکمت اور اس کی اصل روح کا بیان ہے۔ فرمایا : آیت 197 اَلْحَجُّ اَشْہُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌج ۔ یعنی عرب میں جو بھی پہلے سے رواج چلا آ رہا تھا اس کی توثیق فرما دی گئی کہ واقعی حج کے مواقیت کا تعین اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ّفَمَنْ فَرَضَ فِیْہِنَّ الْحَجَّ لازم کرنے سے مراد حج کا عزم اور نیت پختہ کرنا ہے اور اس کی علامت احرام باندھ لینا ہے۔فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوْقَ وَلاَ جِدَالَ فِی الْْحَجِّ ط۔ زمانۂ حج میں جن باتوں سے روکا گیا ہے ان میں اوّلین یہ ہے کہ شہوت کی کوئی بات نہیں ہونی چاہیے۔ میاں بیوی بھی اگر ساتھ حج کر رہے ہوں تو احرام کی حالت میں ان کے لیے وہی قید ہے جو اعتکاف کی حالت میں ہے۔ باقی یہ کہ فسوق وجدال یعنی اللہ کی نافرمانی اور باہم لڑائی جھگڑا تو ویسے ہی ناجائز ہے ‘ دورانِ حج اس سے خاص طور پر روک دیا گیا۔ اس لیے کہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے ‘ سفر میں بھی لوگ ساتھ ہوتے ہیں۔ اس حالت میں لوگوں کے غصوں کے پارے جلدی چڑھ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ لہٰذا اس سے خاص طور پر روکا گیا تاکہ مناسک حج کی ادائیگی کے دوران امن اور سکون ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ آج بھی یہ بات معجزات میں سے ہے کہ دنیا بھر سے اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے جمع ہونے کے باوجود وہاں امن و سکون رہتا ہے اور جنگ وجدال اور جھگڑا و فساد وغیرہ کہیں نظر نہیں آتا۔ مجھے الحمد للہ پانچ چھ مرتبہ حج کی سعادت حاصل ہوئی ہے ‘ لیکن وہاں پر جھگڑا اور گالم گلوچ کی کیفیت میں نے کبھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھی۔ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ ط۔ حج کے دوران مناسک حج پر مستزاد جو بھی نیکی کے کام کرسکو ‘ مثلاً نوافل پڑھو یا اضافی طواف کرو تو تمہاری یہ نیکیاں اللہ کے علم میں ہوں گی ‘ کسی اور کو دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّاد التَّقْوٰیز۔ اس کے دو معنی لیے گئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ یعنی سفر حج میں مادی زاد راہ کے علاوہ تقویٰ کی پونجی بھی ضروری ہے۔ اگر آپ نے اخراجات سفر کے لیے روپیہ پیسہ تو وافر لے لیا ‘ لیکن تقویٰ کی پونجی سے تہی دامن رہے تو دورانِ حج اچھی سہولیات تو حاصل کرلیں گے مگر حج کی روح اور اس کی برکات سے محروم رہیں گے۔لیکن اس کا ایک دوسرا مفہوم بھی بہت اہم ہے کہ اگر انسان خود اپنا زاد راہ ساتھ نہ لے تو پھر وہاں دوسروں سے مانگنا پڑتا ہے۔ اس طرح یہاں تقویٰ سے مراد سوال سے بچنا ہے۔ یعنی بہتر یہ ہے کہ زاد راہ لے کر چلو تاکہ تمہیں کسی کے سامنے سائل نہ بننا پڑے۔ اگر تم صاحب استطاعت نہیں ہو تو حج تم پر فرض ہی نہیں ہے۔ اور ایک شے جو تم پر فرض نہیں ہے اس کے لیے خواہ مخواہ وہاں جا کر بھیک مانگنا یا یہاں سے بھیک مانگ کر یا چندہ اکٹھا کر کے جانا قطعاً غلط حرکت ہے۔

لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ

📘 آیت 198 لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط آدمی ہندوستان سے یا پاکستان سے حج کے لیے جا رہا ہے اور وہ اپنے ساتھ کچھ ایسی اجناس لے جائے جنہیں وہاں پر بیچ کر کچھ نفع حاصل کرلے تو یہ تقویٰ کے منافی نہیں ہے۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِص۔ وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اَلْحَجُّ عَرَفَۃُ 24 یعنی اصل حج تو عرفہ ہی ہے۔ اگر کسی سے حج کے باقی تمام مناسک رہ جائیں ‘ صرف قیام عرفہ میں شمولیت ہوجائے تو اس کا حج ہوگیا ‘ باقی جو چیزیں رہ گئی ہیں ان کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص عرفات کے قیام میں ہی شریک نہیں ہوا تو پھر اس کا حج نہیں ہوا۔ ایّامِ حج کا ٹائم ٹیبل نوٹ کیجیے کہ 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے نکل کر رات منیٰ میں گزارنا ہوتی ہے۔ اگلا دن 9 ذوالحجہ یوم عرفہ ہے۔ اس روز صبح کو عرفات کے لیے قافلے چلتے ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوپہر سے پہلے وہاں پہنچ جایا جائے۔ وہاں پر ظہر کے وقت ظہر اور عصر دونوں نمازیں ملا کر پڑھی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سے غروب آفتاب تک عرفات کا قیام ہے ‘ جس میں کوئی نماز نہیں۔ یعنی روایتی عبادت کے سب دروازے بند ہیں۔ اب تو صرف دعا ہے۔ اگر آپ کے اندر دعا کی ایک روح پیدا ہوچکی ہے ‘ آپ اپنے رب سے ہم کلام ہوسکتے ہیں اور آپ کو حلاوت مناجات حاصل ہوگئی ہے تو بس دعا مانگتے رہیے۔ قیام عرفہ کے دوران کھڑے ہو کر یا بیٹھے ہوئے ‘ جس طرح بھی ہو اللہ سے مناجات کی جائے۔ یا اس میں اگر کسی وجہ سے کمی ہوجائے تو آدمی تلاوت کرے۔ لیکن عام نماز اب کوئی نہیں۔ 9 ذوالحجہ کو وقوف عرفات کے بعد مغرب کی نماز کا وقت ہو چکنے کے بعد عرفات سے روانگی ہے ‘ لیکن وہاں مغرب کی نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ اب مزدلفہ میں جا کر مغرب اور عشاء دونوں نمازیں جمع کر کے ادا کرنی ہیں اور رات وہیں کھلے آسمان تلے بسر کرنی ہے۔ یہ مزدلفہ کا قیام ہے۔ مشعر حرام ایک پہاڑ کا نام ہے جو مزدلفہ میں واقع ہے۔وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدٰٹکُمْ ج۔ یعنی اللہ کا ذکر کرو جس طرح اللہ نے تمہیں اپنے رسول ﷺ کے ذریعے سکھایا ہے۔ ذکر کے جو طور طریقے رسول اللہ ﷺ نے سکھائے ہیں انہیں اختیار کرو اور زمانۂ جاہلیت کے طریقے ترک کر دو۔ وَاِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ تم حج کی حقیقت سے ناواقف تھے۔ حج کی بس شکل باقی رہ گئی تھی ‘ اس کی روح ختم ہوگئی تھی ‘ اس کے مناسک میں بھی ردّوبدل کردیا گیا تھا۔

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 199 ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاض النَّاسُ زمانۂ جاہلیت میں قریش مکہّ عرفات تک نہ جاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری خاص حیثیت ہے ‘ لہٰذا ہم منیٰ ہی میں مقیم رہیں گے ‘ باہر سے آنے والے لوگ عرفات جائیں اور وہاں سے طواف کے لیے واپس لوٹیں ‘ یہ سارے مناسک ہمارے لیے نہیں ہیں۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ ایک غلط بات ہے جو تم نے ایجاد کرلی ہے۔ تم بھی وہیں سے طواف کے لیے واپس لوٹو جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں ‘ یعنی عرفات سے۔وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ ط۔ اپنی اگلی تقصیر پر نادم ہو اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہو۔

ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ

📘 ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ یا ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔“آیت کے اس ٹکڑے کے دو ترجمے ہوسکتے ہیں۔ پہلے ترجمے کی رو سے یہ ہے وہ کتاب موعود جس کی خبر دی گئی تھی کہ نبی آخر الزماں آئیں گے اور ان کو ہم ایک کتاب دیں گے۔ یہ گویا حوالہ ہے محمد رسول اللہ کے بارے میں پیشین گوئیوں کی طرف کہ جو تورات میں موجود تھیں۔ آج بھی ”کتاب مقدس“ کی کتاب استثناء Deuteronomy کے اٹھارہویں باب کی اٹھارہویں آیت کے اندر یہ الفاظ موجود ہیں کہ : ”میں ان بنی اسرائیل کے لیے ان کے بھائیوں بنی اسماعیل میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا“۔ تو یہ بائبل میں حضرت محمد کی پیشین گوئیاں تھیں۔ آگے چل کر سورة الاعراف میں ہم اسے تفصیل سے پڑھ بھی لیں گے۔ یہاں اس بات کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ یہی وہ کتاب موعود ہے کہ جو نازل کردی گئی ہے محمد رسول اللہ پر۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں ہر شے اپنی جگہ پر یقینی ہے ‘ حتمی ہے ‘ اٹل ہے ‘ اور یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جو یہ دعویٰ لے کر اٹھی ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ جو کتابیں آسمانی کہلائی جاتی ہیں ان کے اندر بھی یہ دعویٰ کہیں موجود نہیں ہے ‘ انسانی کتابوں میں تو اس کا سوال ہی نہیں ہے۔ علامہ اقبال جیسے نابغہ عصر فلسفی بھی اپنے لیکچرز کی تمہید میں لکھتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ سب صحیح ہے ‘ ہوسکتا ہے جیسے جیسے علم آگے بڑھے مزید نئی باتیں سامنے آئیں۔ لیکن قرآن کا دعویٰ ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ”اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے“۔ پہلے ترجمہ کی رو سے ”ذٰلِکَ الْکِتٰبُ“ ایک جملہ مکمل ہوگیا اور ”لَا رَیْبَ فِیْہِ“ دوسرا جملہ ہے۔ جبکہ دوسرے ترجمہ کی رو سے ”ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ“ مکمل جملہ ہے۔ یعنی ”یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔“ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ”یعنی ان لوگوں کے لیے جو بچنا چاہیں۔ تقویٰ کا لفظی معنی ہے بچنا۔ ”وَقٰی۔ یَقِی“ کا مفہوم ہے ”کسی کو بچانا“ جبکہ تقویٰ کا معنی ہے خود بچنا۔ یعنی کج روی سے بچنا ‘ غلط روی سے بچنا اور افراط وتفریط کے دھکوں سے بچنا۔ جن لوگوں کے اندر فطرت سلیمہ ہوتی ہے ان کے اندر یہ اخلاقی حس موجود ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ہر بری چیز سے بچنا چاہتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن مجید کے اصل مخاطبین ہیں۔ گویا جس کے اندر بھی بچنے کی خواہش ہے اس کے لیے یہ کتاب ہدایت ہے۔ سورة الفاتحہ میں ہماری فطرت کی ترجمانی کی گئی تھی اور ہم سے یہ کہلوایا گیا تھا : اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ”اے پروردگار ! ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت بخش“۔ آیت زیر مطالعہ گویا اس کا جواب ہے : ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَج فِیْہِج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ لو وہ کتاب موجود ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہ ان تمام لوگوں کے لیے ہدایت کے تقاضوں کے اعتبار سے کفایت کرتی ہے جن میں غلط روی سے بچنے کی خواہش موجود ہے۔وہ لوگ کون ہیں ؟ اب یہاں دیکھئے تاویل خاص کا معاملہ آجائے گا کہ اس وقت رسول اللہ کی تیرہ برس کی محنت کے نتیجہ میں مہاجرین و انصار کی ایک جماعت وجود میں آگئی تھی ‘ جس میں حضرات ابوبکر ‘ عمر ‘ عثمان ‘ علی ‘ طلحہ ‘ زبیر ‘ سعد بن عبادہ اور سعد ابن معاذ جیسے نفوس قدسیہ شامل تھے۔ تو گویا اشارہ کر کے دکھایا جا رہا ہے کہ دیکھو یہ وہ لوگ ہیں ‘ دیکھ لو ان میں کیا اوصاف ہیں۔

يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 20 یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَھُمْ ط کُلَّمَآ اَضَآءَ لَھُمْ مَّشَوْا فِیْہِ ق جونہی انہیں ذرا روشنی محسوس ہوتی ہے اور دائیں بائیں کچھ نظر آتا ہے تو کچھ دور چل لیتے ہیں۔وَاِذَآ اَظْلَمَ عَلَیْھِمْ قَامُوْا ط یہ ایک نقشہ کھینچا گیا ہے کہ ایک طرف بارش ہو رہی ہے۔ یعنی قرآن مجید آسمان سے نازل ہو رہا ہے۔ بارش کو قرآن مجید ”مَاءً مُّبَارَکاً“ قرار دیتا ہے اور یہ خود ”کِتَابٌ مُّبَارَکٌ“ ہے۔ لیکن یہ کہ اس کے ساتھ کڑکے ہیں ‘ گرج ہے ‘ کفر سے مقابلہ ہے ‘ کفر کی طرف سے دھمکیاں ہیں ‘ اندیشے اور خطرات ہیں ‘ امتحانات اور آزمائشیں ہیں۔ چناچہ منافقین کا معاملہ یہ ہے کہ ذرا کہیں حالات کچھ بہتر ہوئے ‘ کچھ breething space ملی تو مسلمانوں کے شانہ بشانہ تھوڑا سا چل لیے کہ ہم بھی مسلمان ہیں۔ جب وہ دیکھتے کہ حالات کچھ پرسکون ہیں ‘ کسی جنگ کے لیے بلایا نہیں جا رہا ہے تو بڑھ چڑھ کر باتیں کرتے اور اپنے ایمان کا اظہار بھی کرتے ‘ لیکن جیسے ہی کوئی آزمائش آتی ٹھٹک کر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے۔ وَلَوْ شَآء اللّٰہُ لَذَھَبَ بِسَمْعِھِمْ وَاَبْصَارِھِمْ ط لیکن اللہ کا قانون یہی ہے کہ وہ فوری گرفت نہیں کرتا۔ اس نے انسان کو ارادے اور عمل کی آزادی دی ہے۔ تم اگر مؤمن صادق بن کر رہنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ اس روش کو تمہارے لیے آسان کر دے گا۔ اور اگر تم نے اپنے تعصبّ یا تکبرّ کی وجہ سے کفر کا راستہ اختیار کیا تو اللہ اسی کو تمہارے لیے کھول دے گا۔ اور اگر تم بیچ میں لٹکنا چاہتے ہو لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط تو لٹکتے رہو۔ اللہ تعالیٰ نہ کسی کو جبراً حق پر لائے گا اور نہ ہی کسی کو جبراً باطل کی راہ پر لے کر جائے گا۔ اس لیے کہ اگر جبر کا معاملہ ہو تو پھر امتحان کیسا ؟ پھر تو جزا و سزا کا تصور غیر منطقی اور غیر معقول ٹھہرتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ سورة البقرۃ کے یہ ابتدائی دو ‘ رکوع اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں انسانی شخصیتوں کی تین گروہوں میں تقسیم کردی گئی ہے ‘ اور تأویل عام ذہن میں رکھیے کہ جب بھی کوئی دعوت حق اٹھے گی ‘ اگر وہ واقعتا کل کی کل حق کی دعوت ہو اور اس میں انقلابی رنگ ہو کہ باطل سے پنجہ آزمائی کر کے اسے نیچا دکھانا ہے اور حق کو غالب کرنا ہے ‘ تو یہ تین قسم کے افراد لازماً وجود میں آجائیں گے۔ ان کو پہچاننا اور ان کے کردار کے پیچھے جو اصل پس منظر ہے اس کو جاننا بہت ضروری ہے۔

فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ

📘 آیت 200 فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآءَ ‘ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا ط یعنی دسویں ذوالحجہ کو جب افعالِ حج سے فراغت پا چکو تو قیام منیٰ کے دوران اللہ کا خوب ذکر کرو جیس ئزمانہ جاہلیت میں اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کیا کرتے تھے ‘ بلکہ اس سے بھی بڑھ چڑھ کر اللہ کا ذکر کرو۔ ان کا قدیم دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر تین دن منیٰ میں قیام کرتے اور بازار لگاتے۔ وہاں میلے کا سا سماں ہوتا جہاں مختلف قبائل کے شعراء اپنے قبیلوں کی مدح سرائی کرتے تھے اور اپنے اسلاف کی عظمت بیان کرتے تھے۔ اللہ کا ذکر ختم ہوچکا تھا۔ فرمایا کہ جس شدو مدّ کے ساتھ تم اپنے آباء و اَجداد کا ذکر کرتے رہے ہو اب اسی انداز سے ‘ بلکہ اس سے بھی زیادہ شدومدّ کے ساتھ ‘ اللہ کا ذکر کرو۔فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَمَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلاَقٍ یعنی ارض حرم میں پہنچ کر دورانِ حج بھی ان کی ساری دعائیں دنیوی چیزوں ہی کے لیے ہیں۔ چناچہ وہ مال کے لیے ‘ اولاد کے لیے ‘ ترقی کے لیے ‘ دنیوی ضروریات کے لیے اور اپنی مشکلات کے حل کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دلوں میں دنیا رچی بسی ہوئی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل کے دلوں میں بچھڑے کا تقدس اور اس کی محبت جاگزیں کردی گئی تھی اسی طرح ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے ‘ لہٰذا وہاں جا کر بھی دنیا ہی کی دعائیں مانگتے ہیں۔ یہاں واضح فرما دیا گیا کہ ایسے لوگوں کے لیے پھر آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

📘 آیت 201 وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَاب النَّارِ یہی وہ دعا ہے جو طواف کے ہر چکر میں رکن یمانی سے حجرِ اسود کے درمیان چلتے ہوئے مانگی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا خیر ایمان اور ہدایت ہے۔ دنیا کا کوئی خیر خیر نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ ہدایت اور ایمان نہ ہو۔ چناچہ سب سے پہلے انسان ہدایت ‘ ایمان اور استقامت طلب کرے ‘ پھر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دنیا میں کشادگی اور رزق میں کشائش کی دعا بھی کرے تو یہ بات پسندیدہ ہے۔

أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 آیت 202 اُولٰٓءِکَ لَہُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا ط۔ یہ الفاظ بہت اہم ہیں۔ محض دعا کافی نہیں ہوجائے گی ‘ بلکہ اپنا عمل بھی ضروری ہے۔ یہاں پر یہ جو فرمایا کہ ان کے لیے حصہ ہے اس میں سے جو انہوں نے کمایا اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس میں سے کیوں ؟ وہ تو سارا ملنا چاہیے ! لیکن نہیں ‘ بندے کو اپنے اعمال پر غرّہ نہیں ہونا چاہیے ‘ اسے ڈرتے رہنا چاہیے کہ کہیں کسی مسئلے میں میری نیت میں فساد نہ آگیا ہو ‘ ممکن ہے میرے کسی عمل کے اندر کوئی کمی یا کوتاہی ہوگئی ہو۔ اس لیے یہ نہ سمجھ لیں کہ جو کچھ بھی کیا ہے اس کا اجر لازماً ملے گا۔ جو کچھ انہوں نے کمایا ہے اس میں اگر خلوص ہے ‘ ریاکاری نہیں ہے ‘ اس کے تمام آداب اور شرائط ملحوظ رکھے گئے ہیں تو ان کو ان کا حصہ ملے گا۔وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ اللہ تعالیٰ کو حساب چکانے میں دیر نہیں لگتی ‘ وہ بہت جلدی حساب کرلے گا۔ اب تو ہمارے لیے یہ سمجھ لینا کچھ مشکل نہیں رہا ‘ ہمارے ہاں کمپیوٹرز پر کتنی جلدی حساب ہوجاتا ہے ‘ اللہ کے ہاں تو پتا نہیں کیسا سپر کمپیوٹر ہوگا کہ اسے حساب نکالنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی !

۞ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

📘 آیت 203 وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْ اَ یَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ط اس سے مراد ذوالحجہ کی گیارہویں ‘ بارہویں اور تیرہویں تاریخیں ہیں جن میں یوم نحر کے بعد منیٰ میں قیام کیا جاتا ہے۔ اِن تین دنوں میں کنکریاں مارنے کے وقت اور ہر نماز کے بعد تکبیر کہنے کا حکم ہے۔ دیگر اوقات میں بھی ان دنوں میں تکبیر اور ذکر الٰہی کثرت سے کرنا چاہیے۔فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ج۔ یعنی جو کوئی تین دن پورے نہیں کرتا ‘ بلکہ دو دن ہی میں واپسی اختیار کرلیتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔وَمَنْ تَاَخَّرَ یعنی منیٰ میں ٹھہرا رہے اور تین دن کی مقدار پوری کرے۔فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی ط۔ اصل چیز تقویٰ ہے۔ جو کوئی زمانۂ حج میں پرہیزگاری کی روش اختیار کیے رکھے تو اس پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ منیٰ میں دو دن قیام کرے یا تین دن۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا اجر محفوظ ہے۔ اگر کسی شخص نے منیٰ میں قیام تو تین دن کا کیا ‘ لیکن تیسرے دن اس نے کچھ اور ہی حرکتیں شروع کردیں ‘ اس لیے کہ جی اکتایا ہوا ہے اور طبیعت کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہے تو وہ تیسرا دن اس کے لیے کچھ خاص مفید ثابت نہیں ہوگا۔ اصل شے جو اللہ کے ہاں قبولیت کے لیے شرط لازم ہے ‘ وہ تقویٰ ہے۔ آگے پھر فرمایا :وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ ۔ تم سب کے سب ہانک کر اسی کی جناب میں لے جائے جاؤ گے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

📘 آیت 204 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّعْجِبُکَ قَوْلُہٗ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا یہ منافقین میں سے ایک خاص گروہ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ منافقین میں سے بعض تو ایسے تھے کہ ان کی زبانوں پر بھی نفاق واضح طور پر ظاہر ہوجاتا تھا ‘ جبکہ منافقین کی ایک قسم وہ تھی کہ بڑے چاپلوس اور چرب زبان تھے۔ ان کی گفتگو ایسی ہوتی تھی گویا وہ تو بڑے ہی مخلص اور بڑے ہی فداکار ہیں۔ اپنا موقف اس انداز سے پیش کرتے کہ یوں لگتا تھا کہ بڑی ہی نیک نیتی پر مبنی ہے ‘ لیکن ان کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا۔ ان کی ساری بھاگ دوڑ رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی مخالفت کی راہ میں ہوتی تھی۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی باتیں دنیا کی زندگی میں تمہیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ وَیُشْہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیْ قَلْبِہٖ لا اور وہ اللہ کو بھی گواہ ٹھہراتا ہے اپنے دل کی بات پر۔ اس کا انداز کلام یہ ہوتا ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اللہ جانتا ہے کہ خلوص سے کہہ رہا ہوں ‘ پوری نیک نیتی سے کہہ رہا ہوں۔ منافق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے بات بات پر قسم کھاتا ہے۔

وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ

📘 آیت 205 وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ط یہ لوگ جب آپ ﷺ کے پاس سے ہٹتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور لوگوں کی کھیتیاں اور جانیں تباہ و برباد کریں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ

📘 آیت 206 وَاِذَا قِیْلَ لَہُ اتَّقِ اللّٰہَ اَخَذَتْہُ الْعِزَّۃُ بالْاِثْمِ جب ایسے شخص سے کہا جاتا ہے کہ تم اللہ کا خوف کرو ‘ اللہ سے ڈرو ‘ تم باتیں ایسی خوبصورت کرتے ہو اور عمل تمہارا اتنا گھناؤنا ہے ‘ ذرا سوچو تو سہی ‘ تو اس کو اپنی جھوٹی انا اور عزت نفس گناہ پر اور جما دیتی ہے۔ ایک شخص وہ ہوتا ہے جس سے خطا ہوگئی تو اس نے اپنی غلطی تسلیم کرلی اور اپنی اصلاح کرلی۔ جبکہ ایک شخص وہ ہے جس کا طرزعمل یہ ہوتا ہے کہ میں کیسے مان لوں کہ میری غلطی ہے ؟ اس کی جھوٹی انا اور جھوٹی عزت نفس اسے گناہ سے ہٹنے نہیں دیتی بلکہ مزید آمادہ کرتی ہے۔ فَحَسْبُہٗ جَہَنَّمُ ط سو اس کے لیے جہنم کافی ہے۔ وَلَبِءْسَ الْمِہَادُ روایات میں آتا ہے کہ منافقین مدینہ میں ایک شخص اخنس بن شریق تھا ‘ یہ اس کا کردار بیان ہوا ہے۔ شان نزول کے اعتبار سے یہ بات ٹھیک ہے اور تاویل خاص میں اس کو بھی سامنے رکھا جائے گا ‘ لیکن درحقیقت یہ ایک کردار ہے جو آپ کو ہر جگہ ملے گا۔ اصل میں اس کردار کو پہچاننا چاہیے اور اس کے حوالے سے اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کرنی چاہیے کہ اس کردار سے اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حفظ وامان میں رکھے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

📘 آیت 207 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَات اللّٰہِ ط قرآن کا یہ عام اسلوب ہے کہ کرداروں کا فوری تقابل simultaneous contrast کرتا ہے۔ چناچہ ایک ناپسندیدہ کردار کے ذکر کے فوراً بعد پسندیدہ کردار کا ذکر کیا گیا کہ لوگوں میں سے وہ بھی ہیں جو اپنے آپ کو اللہ کی رضا جوئی کے لیے َ تج دیتے ہیں اور اپنا تن من دھن قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَاللّٰہُ رَءُ وْفٌم بالْعِبَادِ ۔ جس شخص نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے اپنا سب کچھ تج دینے کا ارادہ کرلیا ہو ‘ نیت کرلی ہو ‘ اس سے بھی کبھی کوئی کوتاہی ہوسکتی ہے ‘ کبھی جذبات میں آکر کوئی غلط قدم اٹھ سکتا ہے۔ اپنے ایسے بندوں کو اللہ تعالیٰ بڑی شفقت اور مہربانی کے ساتھ معاف فرمائے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ

📘 آیت 208 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص اہل ایمان سے اب وہ بات کہی جا رہی ہے جس کا معکوس converse ہم بنی اسرائیل سے خطاب کے ذیل میں آیت 85 میں پڑھ چکے ہیں : اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍج فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ الاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط کیا تم ہماری کتاب اور دین و شریعت کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو ردّ کردیتے ہو ؟ سو جو کوئی بھی تم میں سے یہ روش اختیار کریں ان کی کوئی سزا اس کے سوا نہیں ہے کہ دنیا میں ذلت ‘ و خواری ان پر مسلط کردی جائے اور قیامت کے دن ان کو شدید ترین عذاب میں جھونک دیاجائے۔ ّ اب مثبت پیرائے میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ کی اطاعت میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ تحفظات reservations اور استثناء ات exceptions کے ساتھ نہیں۔ یہ طرز عمل نہ ہو کہ اللہ کی بندگی تو کرنی ہے ‘ مگر فلاں معاملے میں نہیں۔ اللہ کا حکم تو ماننا ہے لیکن یہ حکم میں نہیں مان سکتا۔ اللہ کے احکام میں سے کسی ایک کی نفی سے کل کی نفی ہوجائے گی۔ اللہ تعالیٰ جزوی اطاعت قبول نہیں کرتا۔ وََلاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ

فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 209 فَاِنْ زَلَلْتُمْ مِّنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْکُمُ الْبَیِّنٰتُ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ اس میں تہدید اور دھمکی کا پہلو ہے کہ پھر اللہ کی پکڑ بھی بہت سخت ہوگی۔ اور پھر یہ کہ وہ حکیم بھی ہے ‘ اس کی پکڑ میں بھی حکمت ہے ‘ اگر اس کی طرف سے پکڑ کا معاملہ نہ ہو تو پھر دین کا پورا نظام بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اگر اللہ کی طرف سے کسی گناہ پر پکڑ ہی نہیں ہے تو پھر یہ آزمائش کیا ہوئی ؟ پھر جزا و سزا اور جنت و دوزخ کا معاملہ کیا ہوا ؟

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

📘 سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں قرآن کی دعوت کا خلاصہ آگیا ہے کہ قرآن اپنے مخاطب کو کیا ماننے کی دعوت دیتا ہے اور اس کی پکار کیا ہے۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں ‘ سورة البقرۃ کے نزول سے قبل دو تہائی قرآن نازل ہوچکا تھا۔ ترتیب مصحف کے اعتبار سے وہ قرآن بعد میں آئے گا ‘ لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے وہ پس منظر میں موجود ہے۔ لہٰذا سورة البقرۃ کے پہلے دو ‘ رکوعوں میں مکی قرآن کے مباحث کا خلاصہ بیان کردیا گیا ہے اور تیسرے رکوع میں قرآن مجید کی دعوت کا خلاصہ اور لب لبابّ آگیا ہے ‘ جبکہ قرآن مجید کا فلسفہ اور بعض نہایت اہم موضوعات و مسائل کا خلاصہ چوتھے رکوع میں بیان ہوا ہے۔ اب ہم تیسرے رکوع کا مطالعہ کر رہے ہیں : آیت 21 یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ یہ قرآن کی دعوت کا خلاصہ ہے اور یہی تمام انبیاء و رسل علیہ السلام کی دعوت تھی۔ سورة الاعراف اور سورة ہود میں ایک ایک رسول کا نام لے کر اس کی دعوت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے : یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ”اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو ‘ تمہارا کوئی اور الٰہ اس کے سوا نہیں ہے“۔ سورة الشعراء میں رسولوں کی دعوت کے ضمن میں باربار یہ الفاظ آئے ہیں : فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوْنِ ”پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو“۔ سورة نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت ان الفاظ میں بیان ہوئی : اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ وَاَطِیْعُوْنِ ”کہ اللہ کی بندگی کرو ‘ اس کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو !“پھر ازروئے قرآن یہی عبادتِ رب انسان کی غایت تخلیق ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ الاَّ لِیَعْبُدُوْنِ الذّٰریٰت ”اور ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی صرف اس لیے کیا ہے کہ ہماری بندگی کریں“۔ چناچہ تمام رسولوں کی دعوت یہی ”عبادتِ ربّ“ ہے اور محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت بھی یہی ہے ‘ لیکن یہاں ایک بہت بڑا فرق واقع ہوگیا ہے۔ وہ یہ کہ باقی تمام رسولوں کی دعوت کے ضمن میں صیغۂ خطاب ”یٰقَوْمِ“ ہے۔ یعنی ”اے میری قوم کے لوگو !“ جبکہ یہاں صیغۂ خطاب ہے : ”یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ“ یعنی ”اے بنی نوع انسان !“ معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے تمام رسول علیہ السلام صرف اپنی اپنی قوموں کی طرف آئے ‘ جبکہ پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری اور کامل رسول ہیں جن کی دعوت آفاقی ہے۔ عام طور پر لوگ جو غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں اس پر اس دلیل سے جمے رہتے ہیں کہ ہمارے آباء و اَجداد کا راستہ یہی تھا۔ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کے الفاظ میں اس دلیل کا ردّ بھی موجود ہے کہ جیسے تم مخلوق ہو ویسے ہی تمہارے آباء و اجداد بھی مخلوق تھے ‘ جیسے تم خطا کرسکتے ہو اسی طرح وہ بھی تو خطا کرسکتے تھے۔ لہٰذا یہ نہ دیکھو کہ آباء و اجداد کا راستہ کیا تھا ‘ بلکہ یہ دیکھو کہ حق کیا ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ”تاکہ تم بچ سکو“۔ یعنی دنیا میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکو اور آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچ سکو۔ ان دونوں سے اگر بچنا ہے تو اللہ کی بندگی کی روش اختیار کرو۔

هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

📘 آیت 210 ہَلْ یَنْظُرُوْنَ الاَّ اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلآءِکَۃُ وَقُضِیَ الْاَمْرُ ط یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح احکامات اور تنبیہات آجانے کے بعد بھی کج روی سے باز نہیں آتے تو کیا وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنا جلال دکھائے اور فرشتوں کی افواج قاہرہ کے ساتھ ظاہر ہو کر ان کا حساب چکا دے ؟انسان کا نفس اسے ایک تو یہ پٹی پڑھاتا ہے کہ دین کے اس حصے پر تو آرام سے عمل کرتے رہوجو آسان ہے ‘ باقی پھر دیکھا جائے گا۔ گویا میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو۔ دوسری پٹی یہ پڑھاتا ہے کہ ٹھیک ہے یہ بھی اللہ کا حکم ہے اور دین کا بھی تقاضا ہے ‘ لیکن ابھی ذرا ذمہ داریوں سے فارغ ہوجائیں ‘ ابھی ذرا بچوں کے معاملات ہیں ‘ بچے برسر روزگار ہوجائیں ‘ بچیوں کے ہاتھ پیلے ہوجائیں ‘ میں ریٹائرمنٹ لے لوں اور اپنا مکان بنا لوں ‘ پھر میں اپنے آپ کو دین کے لیے خالص کرلوں گا۔ یہ نفس کا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ اس طرح وقت گزرتے گزرتے انسان موت کی وادی میں چلا جاتا ہے۔ کیا معلوم موت کی گھڑی کب آجائے ! یہ مہلت عمر تو اچانک ختم ہوسکتی ہے۔ پوری دنیا کی قیامت بھی جب آئے گی اچانک آئے گی اور ہر شخص کی ذاتی قیامت تو اس کے سر پر تلوار کی طرح لٹکی ہوئی ہے۔ ازروئے حدیث نبوی ﷺ : مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ 25جو مرگیا تو اس کی قیامت تو آگئی !تو کیا تمہارے پاس کوئی گارنٹی ہے کہ یہ سارے کام کرلو گے اور یہ سارے کام کر چکنے کے بعد زندہ رہو گے اور تمہارے جسم میں توانائی کی کوئی رمق بھی باقی رہ جائے گی کہ دین کا کوئی کام کرسکو ؟ تو پھر تم کس چیز کا انتظار کر رہے ہو ؟ ہوسکتا ہے اچانک اللہ کی طرف سے مہلت ختم ہوجائے۔

سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 آیت 211 سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰہُمْ مِّنْ اٰیَۃٍم بَیِّنَۃٍ ط یعنی اے مسلمانو ! دیکھو کہیں تم بھی ان ہی کے راستے پر نہ چلنا۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے آگاہ فرمایا تھا : لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ ‘ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ : فَمَنْ ؟ 26تم لازماً اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے ‘ بالشت کے مقابلے میں بالشت اور ہاتھ کے مقابلے میں ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھس کر رہو گے۔ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہود و نصاریٰ کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تو اور کس کی ؟وَمَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ جو کوئی اللہ کی نعمت کو پانے کے بعد اس میں تبدیلی کرتا ہے ‘ یا اس میں تحریف کرتا ہے یا خود غلط روش اختیار کرتا ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس طرز عمل پر بہت سخت سزا دیتا ہے۔ بنی اسرائیل ہی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ قرآن حکیم میں ان سے دو مرتبہ فرمایا گیا : یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ البقرۃ اے بنی اسرائیل ! یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی تمام اہل عالم پر۔ لیکن پھر ان ہی کے بارے میں فرمایا گیا : وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط البقرۃ : 61 اور ان پرّ ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ اور یہ مضمون بھی سورة آل عمران میں دوبارہ آئے گا۔

زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

📘 آیت 212 زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا یہاں کی چمک دمک اور شان و شوکت ان کے لیے بڑی محبوب و دل پسند بنا دی گئی ہے۔ ویسے تو نئے ماڈل کی لمبی لمبی چمکیلی کاریں ‘ اونچی اونچی عمارتیں اور وسیع و عریض کو ٹھیاں کس کو اچھی نہیں لگتیں ‘ لیکن کفار کے دلوں میں مال و اسباب دنیوی کی محبت اتنی گھر کر جاتی ہے کہ پھر کوئی اچھی بات ان کی زندگی میں نہیں رہتی ‘ اور نہ ہی کوئی اچھی بات ان کے اوپر اثر کرتی ہے۔ اہل ایمان کو بھی اگر ایمان کے ساتھ یہ نعمتیں ملیں تو یہ مستحسن ہیں۔ ازروئے الفاظ قرآنی : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ ط الاعراف : 32 اے نبی ﷺ ! ان سے کہیے ‘ کس نے اللہ کی اس زینت کو حرام کردیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں ؟ اچھا کھانا ‘ اچھا پینا ‘ اچھا پہننا حرام نہیں ہے۔ اللہ نے اس کو لوگوں کے لیے ممنوع نہیں کیا۔ ایک مسلمان دین کے تقاضے ادا کر کے ‘ اللہ کا حق ادا کر کے اور حلال سے کما کر ان چیزوں کو حاصل کرے تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ وہ حدیث بھی ذہن میں لے آیئے : اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ 27 دنیا مؤمن کے لیے ایک قید خانہ اور کافر کے لیے باغ ہے۔وَیَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا 7 اور وہ مذاق اڑاتے ہیں اہل ایمان کا۔ ایسے لوگ ایمان کی راہ اختیار کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ ذرا ان پاگلوں کو ‘ ان بیوقوفوں کو ‘ ان fanatics کو دیکھو ‘ جنہیں اپنے نفع و نقصان کا کچھ ہوش نہیں ہے۔وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط وہ ان کافروں کے مقابلے میں عالی مرتبت اور عالی مقام ہوں گے ‘ بلکہ سورة المُطفّفین میں تو یہاں تک آیا ہے کہ جنت میں جانے کے بعد اہل ایمان کفارّ کا مذاق اڑائیں گے۔وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ ۔ یہ جنت کی طرف اشارہ ہے۔ اب پھر ایک طویل آیت آرہی ہے جس میں ایک اہم مضمون بیان ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ سورة البقرۃ میں جابجا علم و حکمت اور معرفتِ الٰہی کے بڑے حسین اور خوش نما پھول آئے ہیں جو اس بنتی میں بن دیے گئے ہیں۔ دو لڑیاں شریعت کی ہیں ‘ یعنی عبادات اور معاملات ‘ جبکہ دو لڑیاں جہاد کی ‘ یعنی جہاد بالمال انفاق اور جہاد بالنفس قتال ‘ اور ان کے درمیان یہ عظیم پھول آجاتے ہیں۔ اس آیت کو میں نے آیت الاختلاف کا عنوان دیا ہے۔ اس میں بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں کے درمیان اختلاف کیوں ہوتا رہا ہے ‘ اور یہ بہت اہم مضمون ہے۔ اس لیے کہ دنیا میں وحدت ادیان کا جو فلسفہ کچھ لوگوں کی طرف سے پیش ہوتا ہے اس کا ایک حصہ صحیح ہے اور ایک حصہّ غلط ہے۔ صحیح کون سا ہے اور غلط کون سا ہے ‘ وہ اس آیت سے معلوم ہوگا۔

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 آیت 213 کَان النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً قف اس میں کوئی شک نہیں کہ ابتدا میں سب کے سب انسان ایک ہی امت تھے۔ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم علیہ السلام نبی ہیں۔ چناچہ امت تو ایک ہی تھی۔ جب تک ان میں گمراہی پیدا نہیں ہوئی ‘ اختلافات پیدا نہیں ہوئے ‘ شیطان نے کچھ لوگوں کو نہیں ورغلایا ‘ اس وقت تک تو تمام انسان ایک ہی امت تھے۔ اب یہاں پر ایک لفظ محذوف ہے : ثُمَّ اخْتَلَفُوْا پھر ان میں اختلافات ہوئے۔ اختلاف کے نتیجے میں فساد پیدا ہوا اور کچھ لوگوں نے گمراہی کی روش اختیار کرلی۔ آدم علیہ السلام کا ایک بیٹا اگر ہابیل تھا تو دوسرا قابیل بھی تھا۔فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَص۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہ السلام کا سلسلہ جاری فرمایا جو نیکوکاروں کو بشارت دیتے تھے اور غلط کاروں کو خبردار کرتے تھے۔وَاَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ط وَمَا اخْتَلَفَ فِیْہِ الاَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْم بَعْدِ مَا جَآءَ ‘ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًام بَیْنَہُمْ ج بَغْیًا کا لفظ قبل ازیں آیت 90 میں آچکا ہے۔ وہاں میں نے وضاحت کی تھی کہ دین میں اختلاف کا اصل سبب یہی ضدمّ ضدا والا رویہّ ہوتا ہے۔ انسان میں غالب ہونے کی جو طلب اور امنگ The urge to dominate موجود ہے وہ حق کو قبول کرنے میں مزاحم ہوجاتی ہے۔ دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے۔ آدمی کہتا ہے میں اس کی بات کیوں مانوں ‘ یہ میری کیوں نہ مانے ؟ انسان کے اندر جہاں اچھے میلانات رکھے گئے ہیں وہاں بری امنگیں اور میلانات بھی رکھے گئے ہیں۔ چناچہ انسان کے باطن میں حق و باطل کی ایک کشاکش چلتی ہے۔ اسی طرح کی کشاکش خارج میں بھی چلتی ہے۔ تو فرمایا کہ جب انسانوں میں اختلافات رونما ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو بھیجا جو مبشر اور منذر بن کر آئے۔ ُ ّ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِہٖ ط وَاللّٰہُ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ سلسلۂ انبیاء و رسل کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان ﷺ پر قرآن حکیم نازل فرما کر ‘ اپنی توفیق سے ‘ اس نزاع و اختلاف میں حق کی راہ اہل ایمان پر کھولی ہے۔ اور اللہ ہی ہے جو اپنی مشیتّ اور حکمت کے تقاضوں کے مطابق جس کو چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے۔اب بڑی سخت آیت آرہی ہے ‘ جو بڑی لرزا دینے والی آیت ہے۔ صحابہ کرام رض میں سے ایک بڑی تعداد مہاجرین کی تھی جو مکہ کی سختیاں جھیل کر آئے تھے۔ ان کے لیے تو اب جو بھی مراحل آئندہ آنے والے تھے وہ بھی کوئی ایسے مشکل نہیں تھے۔ لیکن جو حضرات مدینہ منورہ میں ایمان لائے تھے ‘ یعنی انصار ‘ ان کے لیے تو یہ نئی نئی بات تھی۔ اس لیے کہ انہوں نے تو وہ سختیاں نہیں جھیلی تھیں جو مکہ میں مہاجرین نے جھیلی تھیں۔ تو اب روئے سخن خاص طور پر ان سے ہے ‘ اگرچہ خطاب عام ہے۔ قرآن مجید میں یہ اسلوب عام طور پر ملتا ہے کہ الفاظ عام ہیں ‘ لیکن روئے سخن کسی خاص طبقہ کی طرف ہے۔ تو درحقیقت یہاں انصار کو بتایا جا رہا ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانا پھولوں کی سیج نہیں ہے۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ

📘 اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ ط مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَالضَّرَّآءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ ط اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ یعنی اللہ تو اہل ایمان کو آزماتا ہے ‘ اسے کھوٹے اور کھرے کو الگ کرنا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو اس سے پہلے انیسویں رکوع کے بالکل آغاز میں آچکی ہے : وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط آیت 155 اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور ثمرات کے نقصان سے۔ یہ کوئی پھولوں بھرا راستہ نہیں ہے ‘ پھولوں کی سیج نہیں ہے ‘ حق کا راستہ کانٹوں بھرا راستہ ہے ‘ اس کے لیے ذہناً تیار ہوجاؤ۔ ؂در رہ منزل لیلیٰ کہ خطرہاست بسے شرطِ اوّل قدم این است کہ مجنوں باشی !اور : ؂یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا !اس راستے میں اللہ کی مدد ضرور آتی ہے ‘ لیکن آزمائشوں اور قربانیوں کے بعد۔ چناچہ صحابہ کرام رض کو پھر سورة الصف میں فتح و نصرت کی خوشخبری سنائی گئی ‘ جبکہ غزوۂ احزاب واقع ہوچکا تھا اورٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھی اہل ایمان شدید ترین امتحان سے کامیابی کے ساتھ گزر چکے تھے۔ تب انہیں بایں الفاظ خوشخبری دی گئی : وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَاط نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ ط آیت 13 اور جو دوسری چیز تمہیں پسند ہے وہ بھی تمہیں ملے گی ‘ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہوجانے والی فتح۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ اور اے نبی ﷺ ! اہل ایمان کو بشارت دے دیجیے ! اپنے اہل ایمان ساتھیوں کو بشارت دے دیجیے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اللہ کی نصرت کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

📘 آیت 215 یَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط یعنی انفاق کے لیے جو کہا جا رہا ہے تو ہم کیا خرچ کریں ؟ کتنا خرچ کریں ؟ انسان بھلائی کے لیے جو بھی خرچ کرے تو اس میں سب سے پہلا حق کن کا ہے ؟قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ ط سب سے پہلا حق والدین کا ہے ‘ اس کے بعد درجہ بدرجہ قرابت داروں ‘ یتیموں ‘ مسکینوں اور مسافروں کا حق ہے۔وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ تم جو بھی اچھا کام کرو گے تو جان لو کہ وہ اللہ کے علم میں ہے۔ ضرورت نہیں ہے کہ دنیا اس سے واقف ہو ‘ تمہیں اگر اللہ سے اجر لینا ہے تو وہ تورات کے اندھیرے میں بھی دیکھ رہا ہے۔ اگر تمہارے دائیں ہاتھ نے دیا ہے اور بائیں کو پتا نہیں چلا تو اللہ کو تو پھر بھی پتا چل گیا ہے۔ تو تم خاطر جمع رکھو ‘ تمہاری ہر نیکی اللہ کے علم میں ہے اور وہ اسے ضائع نہیں کرے گا۔ اب اگلی آیت میں قتال کے مضمون کا تسلسل ہے۔ میں نے سورة البقرۃ کے نصف آخر کے مضامین کو چار مختلف رنگوں کی لڑیوں سے تشبیہہ دی تھی ‘ جن کو باہم بٹ لیا جائے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آتے ہیں اور اگر انہیں کھول دیا جائے تو ہر رنگ مسلسل نظر آتا ہے۔

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 216 کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ج واضح رہے کہ سورة البقرۃ سے پہلے سورة محمد ﷺ نازل ہوچکی تھی اور اس میں قتال کی فرضیتّ آچکی تھی۔ چنانچہ اس کا ایک نام سورة القتال بھی ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے کچھ لوگ پریشان ہو رہے تھے۔ خاص طور پر منافقین یہ کہتے تھے کہ بھائی صلح جوئی سے کام لو ‘ بس دعوت و تبلیغ کے ذریعے سے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لاؤ ‘ یہ جنگ وجدال اور لڑائی بھڑائی تو کوئی اچھا کام نہیں ہے ‘ اس میں تو بہت خرابی ہے۔ ان کے علاوہ ایسے مسلمان جن کا ایمان قدرے کمزور تھا ‘ اگرچہ وہ منافق تو نہیں تھے ‘ لیکن ان کا ایمان ابھی پختہ نہیں تھا ‘ ابھی تازہ تازہ ایمان لائے تھے اور تربیت کے مراحل سے ابھی نہیں گزرے تھے ‘ ان میں سے بھی بعض لوگوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہو رہا تھا۔ یہاں قتال کی فرضیتّ کے لیے کُتِبَ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے پہلے یہ لفظ روزے ‘ قصاص اور وصیت کے ضمن میں آچکا ہے۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی۔۔ کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَنِ اج الْوَصِیَّۃُ۔۔ فرمایا کہ تم پر جنگ فرض کردی گئی ہے اور وہ تمہیں بری لگ رہی ہے۔ وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْءًا وَّہُوَخَیْرٌ لَّکُمْ ج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ ۔ تم اپنی عقل پر ایمان نہ رکھو ‘ اللہ کی وحی پر ایمان رکھو ‘ اللہ کے رسول ﷺ پر ایمان رکھو۔ جس وقت کے لیے جو حکم موزوں تھا وہی تمہیں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے دیا گیا۔ چودہ برس تک تمہیں قتال سے منع کیا گیا۔ اس وقت تمہارے لیے حکم تھا : کُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ اپنے ہاتھ روکے رکھو ! اب تم پر قتال فرض کیا جا رہا ہے ‘ لہٰذا اب اس حکم پر سر تسلیم خم کرنا تمہارے لیے لازم ہے۔

يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 217 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ ط قتال کا حکم آنے کے بعد اب وہ پوچھتے تھے کہ یہ جو حرمت والے مہینے ہیں ان میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟ اس لیے کہ سیرت میں یہ واقعہ آتا ہے کہ ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش رض کو چند افراد کے دستے کا کمانڈر بنا کر ہدایت فرمائی تھی کہ مکہ اور طائف کے درمیان جا کر وادئ نخلہ میں قیام کریں اور قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھیں۔ وادئ نخلہ میں قیام کے دوران وہاں قریش کے ایک مختصر سے قافلے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوگئی اور مسلمانوں کے ہاتھوں ایک مشرک عمرو بن عبداللہ الحضرمی مارا گیا۔ اس روز رجب کی آخری تاریخ تھی اور رجب کا مہینہ اشہر حرم میں سے ہے۔ یہ ہجرت کے بعد پہلا خون تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں ہوا۔ اس پر مشرکین نے بہت واویلا کیا کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے ‘ بنے پھرتے ہیں اللہ والے ‘ رسول ﷺ والے ‘ دین والے ‘ آخرت والے اور انہوں نے حرمت والے مہینے کو بٹہّ لگا دیا ‘ اس میں جنگ کی۔ تو یہ دراصل اللہ تعالیٰ اپنے ان مؤمن بندوں کی طرف سے گویا خود صفائی پیش کر رہے ہیں۔ فرمایا کہ یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینوں میں قتال کا کیا حکم ہے ؟قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ ط وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ق وَاِخْرَاجُ اَہْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ ج۔ یہ وہ سنگین جرائم ہیں جن کا ارتکاب مشرکین مکہ کی جانب سے ہو رہا تھا۔ یہاں فرمایا گیا کہ یہ سب کام اشہر حرم میں جنگ کرنے سے بھی بڑے جرائم ہیں۔ لہٰذا ان کے سدبابّ کے لیے اگر اشہر حرم میں جنگ کرنی پڑجائے تو کوئی حرج نہیں۔ ُ وَالْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ط۔ قبل ازیں آیت 191 میں الفاظ آ چکے ہیں : وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ج فتنہ ہر وہ کیفیت ہے جس میں صاحب ایمان کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اسلام پر عمل کرنا مشکل ہوجائے۔ آج کا پورا معاشرہ فتنہ ہے۔ اسلام پر عمل کرنا مشکل ہے ‘ بدمعاشی اور حرام خوری کے راستے کھلے ہوئے ہیں ‘ اکل حلال اس قدر مشکل بنا دیا گیا ہے کہ دانتوں پسینہ آئے تو شاید نصیب ہو۔ نکاح اور شادی کے جائز راستوں پر بڑی بڑی شرطیں اور قدغنیں عائد ہیں ‘ جبکہ ناجائز مراسم اور زنا کے راستے کھلے ہیں۔ جس معاشرے کے اندر باطل کا غلبہ ہوجائے اور حق پر چلنا ممکن نہ رہے وہ بڑے فتنے میں مبتلا ہے۔ باطل کا غلبہ سب سے بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ فتنہ قتل کے مقابلے میں بہت بڑی شے ہے۔وَلاَ یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا ط۔ وہ تو اس پر تلے ہوئے ہیں کہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ یہاں مشرکین مکہ کی طرف اشارہ ہو رہا ہے ‘ کیونکہ اب یہ غزوۂ بدر کی تمہید چل رہی ہے۔ اس کے بعد غزوۂ بدر ہونے والا ہے ‘ اس کے لیے اہل ایمان کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے اور انہیں آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مشرکین کی جنگ کا مقصد تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کرنا ہے ‘ وہ تو اپنی بھرپور کوشش کرتے رہیں گے کہ اگر ان کا بس چلے تو تمہیں تمہارے دین سے لوٹا کر واپس لے جائیں۔وَمَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ اور اسی حالت میں اس کی موت آگئی کہ وہ کافر ہی تھا فَاُولٰٓءِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ ج۔ پہلے خواہ کتنی ہی نیکیاں کی ہوئی تھیں ‘ کتنی ہی نمازیں پڑھی ہوئی تھیں ‘ کتنا ہی انفاق کیا ہوا تھا ‘ صدقات دیے تھے ‘ جو کچھ بھی کیا تھا سب کا سب صفر ہوجائے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 218 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لا اولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِط۔ یہاں ان لوگوں پر بڑا لطیف طنز ہے جو خود تو حرام کے راستے پر جا رہے ہیں ‘ لیکن یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اللہ ان پر رحم فرمائے گا۔ اللہ ایسی روش اختیار کرنے والوں پر رحمت نہیں فرماتا ‘ اللہ کی رحمت کا مستحق بننا پڑتا ہے۔ اور اللہ کی رحمت کا مستحق وہی ہے جو ایمان ‘ ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ایسے لوگ بجا طور پر اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے۔

۞ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

📘 آیت 219 یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط ان احکام سے شریعت کا ابتدائی خاکہ blue print تیار ہونا شروع ہوگیا ہے ‘ کچھ احکام پہلے آ چکے ہیں اور کچھ اب آ رہے ہیں۔ شراب اور جوئے کے بارے میں یہاں ابتدائی حکم بیان ہوا ہے اور اس پر محض اظہار ناراضگی فرمایا گیا ہے۔قُلْ فِیْہِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ للنَّاسِز وَاِثْمُہُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا ط۔ یعنی اشارہ کردیا گیا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اب معاملہ تمہاری عقل سلیم کے حوالے ہے ‘ حقیقت تم پر کھول دی گئی ہے۔ یہ ابتدائی حکم ہے ‘ لیکن حکم کے پیرائے میں نہیں۔ بس واضح کردیا گیا کہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے ‘ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ بقول غالب : ؂مے سے غرض نشاط ہے کس روسیاہ کو ؟اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !اور : ؂ میں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا ورنہ سفر حیات کا بیحد طویل تھا !یہ حکمت سمجھ لیجیے کہ شراب اور جوئے میں کیا چیز مشترک ہے کہ یہاں دونوں کو جمع کیا گیا ؟ شراب کے نشے میں بھی انسان اپنے آپ کو حقائق سے منقطع کرتا ہے اور محنت سے جی چراتا ہے۔ وہ زندگی کے تلخ حقائق کا مواجہہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ع اِک گونہ بےخودی مجھے دن رات چاہیے !۔۔ اور جوئے کی بنیاد بھی محنت کی نفی پر ہے۔ ایکّ رویہ تو یہ ہے کہ محنت سے ایک آدمی کما رہا ہے ‘ مشقت کر رہا ہے ‘ کوئی کھوکھا ‘ چھابڑی یا ریڑھی لگا کر کچھ کمائی کر رہا ہے ‘ جبکہ ایک ہے چانس اور داؤ کی بنیاد پر پیسے کمانا۔ یہ محنت کی نفی ہے۔ چناچہ شراب اور جوئے کے اندر اصل میں علت ایک ہی ہے۔ وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط آیت 195 میں انفاق کا حکم بایں الفاظ آچکا ہے : وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ج اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ جھونکو۔ تو سوال کیا گیا کہ کتنا خرچ کریں ؟ ہمیں کچھ مقدار بھی بتادی جائے۔ فرمایا :قُلِ الْعَفْوَ ط جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔ اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ تم اپنی ضرورتوں کو پیچھے ڈال دو ‘ بلکہ تم پہلے اپنی ضرورتیں پوری کرو ‘ پھر جو تمہارے پاس بچ جائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ کمیونزم کے فلسفہ میں ایک اصطلاح قدر زائد surplus value استعمال ہوتی ہے۔ یہ ہے اَلْعَفْوَ۔ جو بھی تمہاری ضروریات سے زائد ہے یہ surplus value ہے ‘ اسے اللہ کی راہ میں دے دو۔ اس کو بچا کر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اللہ پر بےاعتمادی کا اظہار کرر ہے ہیں کہ اللہ نے آج تو دے دیا ہے ‘ کل نہیں دے گا۔ لیکن یہ کہ انسان کی ضرورتیں کیا ہیں ‘ کتنی ہیں ‘ اس کا اللہ نے کوئی پیمانہ مقرر نہیں کیا۔ اس کا تعلق باطنی روح سے ہے۔ ایک مسلمان کے اندر اللہ کی محبت اور آخرت پر ایمان جوں جوں بڑھتا جائے گا اتنا ہی وہ اپنی ضرورتیں کم کرے گا ‘ اپنے معیارِزندگی کو پست کرے گا اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے گا۔ اصول یہ ہے کہ ہر شخص یہ دیکھے کہ جو میری ضرورت سے زائد ہے اسے میں بچا بچا کر نہ رکھوں ‘ بلکہ اللہ کی راہ میں دے دوں۔ انفاق فی سبیل اللہ پر اس سورة مبارکہ میں پورے دو رکوع آگے آنے والے ہیں۔

الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 22 الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَآءَ بِنَآءًص وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَکا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب تم بھی مانتے ہو کہ اس کائنات کا خالق اللہ کے سوا کوئی نہیں ‘ تو پھر اس کے شریک کیوں ٹھہراتے ہو ؟ اہل عرب یہ بات مانتے تھے کہ کائنات کا خالق صرف اور صرف اللہ ہے ‘ البتہ جو ان کے دیوی دیوتا تھے انہیں وہ سمجھتے تھے کہ یہ اللہ کے اوتار ہیں یا اللہ کے ہاں بہت پسندیدہ ہیں ‘ اس کے محبوب ہیں ‘ اس کے اولیاء ہیں ‘ اس کی بیٹیاں ہیں ‘ لہٰذا یہ شفاعت کریں گے تو ہمارا بیڑا پار ہوجائے گا۔ ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب تم یہ مانتے ہو کہ کائنات کا خالق ایک اللہ ہے ‘ وہی اس کا مدبر ہے تو اب کسی کو اس کا مدمقابل نہ بناؤ۔ ّ اَنْدَاد ”نِدّ“ کی جمع ہے ‘ اس کا معنی مدمقابل ہے۔ خطبۂ جمعہ میں آپ نے یہ الفاظ سنے ہوں گے : ”لَا ضِدَّ لَہٗ وَلَا نِدَّ لَہٗ“۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا : اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ 1 ”یہ کہ تو اس کا کوئی مدمقابل ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے“۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا کسی درجے میں کوئی شریک یا مدمقابل نہیں ہے۔ اس ضمن میں رسول اللہ ﷺ امت کو اس درجے توحید کی باریکیوں تک پہنچا کر گئے ہیں کہ ایسے تصوراتّ کی بالکل جڑ کٹ جاتی ہے۔ ایک صحابی رض نے آپ ﷺ کے سامنے ایسے ہی کہہ دیا : ”مَاشَاء اللّٰہُ وَمَا شِءْتَ“ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپ ﷺ چاہیں۔ آپ ﷺ نے انہیں فوراً ٹوک دیا اور فرمایا : اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا ؟ مَا شَاء اللّٰہُ وَحْدَہٗ ”کیا تو نے مجھے اللہ کا مدمقابل بنا دیا ہے ؟ بلکہ وہی ہوگا جو تنہا اللہ چاہے۔“ 2 اس کائنات میں مشیت صرف ایک ہستی کی چلتی ہے۔ کسی اور کی مشیت اس کی مشیت کے تابع پوری ہوجائے تو ہوجائے ‘ لیکن مشیت مطلقہ صرف اس کی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن حکیم میں رسول اللہ ﷺ سے فرمایا گیا : اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ القصص : 56”اے نبی ﷺ ! یقینا آپ جسے چاہیں اسے ہدایت نہیں دے سکتے ‘ بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔“ اگر ہدایت کا معاملہ رسول اللہ ﷺ کے اختیار میں ہوتا تو ابوطالب دنیا سے ایمان لائے بغیر رخصت نہ ہوتے۔ان دو آیتوں میں توحید کے دونوں پہلو بیان ہوگئے ‘ توحید نظری بھی اور توحید عملی بھی۔ توحید عملی یہ ہے کہ بندگی صرف اسی کی ہے۔ اب اگلی آیت میں ایمان بالرسالت کا بیان آرہا ہے۔

فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 220 فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط۔ تمہارا یہ غور و فکر دنیا کے بارے میں بھی ہونا چاہیے اور آخرت کے بارے میں بھی۔ دنیا میں بھی اسلام رہبانیت نہیں سکھاتا۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ نہ کھاؤ ‘ نہ پیو ‘ چلے کشی کرو ‘ جنگلوں میں نکل جاؤ ! نہیں ‘ اسلام تو متمدن زندگی کی تعلیم دیتا ہے ‘ گھر گھرہستی اور شادی بیاہ کی ترغیب دیتا ہے ‘ بیوی بچوں کے حقوق بتاتا ہے اور ان کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمہیں آخرت کی بھی فکر کرنی چاہیے ‘ اور دنیا و آخرت کے معاملات میں ایک نسبت و تناسب ratio proportion قائم رہنا چاہیے۔ دنیا کی کتنی قدر و قیمت ہے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی کتنی قدر و قیمت ہے ‘ اس کا صحیح طور پر اندازہ کرنا چاہیے۔ اگر یہ اندازہ غلط ہوگیا اور کوئی غلط تناسب قائم کرلیا گیا تو ہرچیز تلپٹ ہوجائے گی۔ مثال کے طور پر ایک دوا کے نسخے میں کوئی چیز کم تھی ‘ کوئی زیادہ تھی۔ اگر آپ نے جو چیز کم تھی اسے زیادہ کردیا اور جو زیادہ تھی اسے کم کردیا تو اب ہوسکتا ہے یہ نسخۂ شفا نہ رہے ‘ نسخہ ہلاکت بن جائے۔وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی ط قُلْ اِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْرٌ ط ان کی مصلحت کو پیش نظر رکھنا بہتر ہے ‘ نیکی ہے ‘ بھلائی ہے۔ اصل میں لوگوں کے سامنے سورة بنی اسرائیل کی یہ آیت تھی : وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ الاَّ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ آیت 34 اور مال یتیم کے قریب تک نہ پھٹکو ‘ مگر ایسے طریقے پر جو یتیم کے حق میں بہتر ہو۔ چناچہ وہ مال یتیم کے بارے میں انتہائی احتیاط کر رہے تھے اور انہوں نے یتامٰی کی ہنڈیاں بھی علیحدہ کردی تھیں کہ مبادا ان کے حصے کی کوئی بوٹی ہمارے پیٹ میں چلی جائے۔ لیکن اس طرح یتامٰیکی دیکھ بھال کرنے والے لوگ تکلیف اور حرج میں مبتلا ہوگئے تھے۔ کسی کے گھر میں یتیم پرورش پا رہا ہے تو اس کا خرچ الگ طور پر اس کے مال میں سے نکالا جا رہا ہے اور اس کے لیے الگ ہنڈیا پکائی جا رہی ہے۔ فرمایا کہ اس حکم سے یہ مقصد نہیں تھا ‘ مقصد یہ تھا کہ تم کہیں ان کے مال ہڑپ نہ کر جاؤ ‘ ان کے لیے اصلاح اور بھلائی کا معاملہ کرنا بہتر طرزعمل ہے۔وَاِنْ تُخَالِطُوْہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ط۔ وہ جانتا ہے کہ کون بدنیتی سے یتیم کا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے اور کون یتیم کی خیر خواہی چاہتا ہے۔ یہ ہنڈیا علیحدہ کر کے بھی گڑبڑ کرسکتا ہے اور یہ وہ شخص ہے جو ہنڈیا مشترک کر کے بھی حق پر رہ سکتا ہے۔وَلَوْ شَاء اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ ط۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں مشقت اور سختی سے بچایا اور تم پر آسانی فرمائی۔اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ وہ انتہائی مشقت پر مبنی سخت سے سخت حکم بھی دے سکتا ہے ‘ اس لیے کہ وہ زبردست ہے ‘ لیکن وہ انسانوں کو مشقت میں نہیں ڈالتا ‘ بلکہ اس کے ہر حکم کے اندر حکمت ہوتی ہے۔ اور جہاں حکمت نرمی کی متقاضی ہوتی ہے وہاں وہ رعایت دیتا ہے۔

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

📘 آیت 221 وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ج وَلاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ ط۔ خواہ وہ صاحب حیثیت اور مال دار ہو ‘ لیکن دولت ایمان سے محروم ہو تو تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی اس کے نکاح میں دے دو۔اُولٰٓءِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِج ۔ اگر ان سے رشتے ناتے جوڑو گے تو وہ تمہیں بھی جہنم میں لے جائیں گے اور تمہاری اولاد کو بھی۔

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ

📘 آیت 222 وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ ط قُلْ ہُوَ اَذًیلا فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْْمَحِیْضِلا وَلاَ تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ ج فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ط معلوم ہوا کہ بدیہیات فطرت اللہ تعالیٰ کے اوامر میں شامل ہیں۔ عورتوں کے ساتھ مجامعت کا طریقہ انسان کو فطری طور پر معلوم ہے ‘ یہ ایک امر طبعی ہے۔ ہر حیوان کو بھی جبلی طور پر معلوم ہے کہ اسے اپنی مادّہ کے ساتھ کیسا تعلق قائم کرنا ہے۔ لیکن اگر انسان فطری طریقہ چھوڑ کر غیر فطری طریقہ اختیار کرے اور عورتوں کے ساتھ بھی قوم لوط والا عمل کرنے لگے تو یہ حرام ہے۔ صحیح راستہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری فطرت میں ڈالا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ ۔ ان سے اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس سے توبہ کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں سے دور رہتے ہیں۔

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 223 نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ ۔ جیسے کھیت میں بیج بوتے ہو ‘ پھر فصل کاٹتے ہو ‘ اسی طرح بیویوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اولاد عطا کرتا ہے۔فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِءْتُمْ ز تم اپنی کھیتی میں جدھر سے چاہو آؤ ‘ تمہارے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے ‘ آگے سے یا دا ‘ ہنی طرف سے یا بائیں طرف سے ‘ جدھر سے بھی چاہو ‘ مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اسی خاص جگہ میں ہو جہاں سے پیداوار کی امید ہوسکتی ہے۔وَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ ط یعنی اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اپنی نسل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرو۔ اولاد انسان کا اثاثہ ہوتی ہے اور بڑھاپے میں اس کا سہارا بنتی ہے۔ آج تو الٹی گنگا بہائی جارہی ہے اور اولاد کم سے کم پیدا کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ‘ جبکہ ایک زمانے میں اولاد عصائے پیری شمار ہوتی تھی۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ ط نوٹ کیجیے کہ قرآن حکیم میں شریعت کے ہر حکم کے ساتھ تقویٰ کا ذکر بار بار آرہا ہے۔ اس لیے کہ کسی قانون کی لاکھ پیروی کی جا رہی ہو مگر تقویٰ نہ ہو تو وہ قانون مذاق بن جائے گا ‘ کھیل تماشا بن جائے گا۔ اس کی بعض مثالیں ابھی آئیں گی۔

وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 224 وَلاَ تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِاَّیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَتَتَّقُوْا وَتُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ ط یعنی اللہ تعالیٰ کے عظیم نام کو استعمال کرتے ہوئے ایسی قسمیں مت کھاؤ جو نیکی وتقویٰ اور مقصد اصلاح کے خلاف ہوں۔ کسی وقت غصے ّ میں آکر آدمی قسم کھا بیٹھتا ہے کہ میں فلاں شخص سے کبھی حسن سلوک اور بھلائی نہیں کروں گا ‘ اس سے روکا گیا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رض نے بھی اسی طرح کی قسم کھالی تھی۔ مِسطَح ایک غریب مسلمان تھے ‘ جو آپ رض کے قرابت ‘ دار بھی تھے۔ ان کی آپ رض مدد کیا کرتے تھے۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رض پر تہمت لگی تو مسطح بھی اس آگ کے بھڑکانے والوں میں شامل ہوگئے۔ حضرت ابوبکر رض ان کے طرز عمل سے بہت رنجیدہ خاطر ہوئے کہ میں تو اس کی سرپرستی کرتا رہا اور یہ میری بیٹی پر تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگیا۔ آپ رض نے قسم کھائی کہ اب میں کبھی اس کی مدد نہیں کروں گا۔ یہ واقعہ سورة النور میں آئے گا۔ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ تم ایسا نہ کرو ‘ تم اپنی نیکی کے دروازے کیوں بند کرتے ہو ؟ جس نے ایسی قسم کھالی ہے وہ اس قسم کو کھول دے اور قسم کا کفارہ دے دے۔ اسی طرح لوگوں کے مابین مصالحت کرانا بھی ضروری ہے۔ دو بھائیوں کے درمیان جھگڑا تھا ‘ آپ نے مصالحت کی کوشش کی لیکن آپ کی بات نہیں مانی گئی ‘ اس پر آپ نے غصے میں آکر کہہ دیا کہ اللہ کی قسم ‘ اب میں ان کے معاملے میں دخل نہیں دوں گا۔ اس طرح کی قسمیں کھانے سے روکا گیا ہے۔ اور اگر کسی نے ایسی کوئی قسم کھائی ہے تو وہ اسے توڑ دے اور اس کا کفارہّ دے دے۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

📘 آیت 225 لاَ یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ باللَّغْوِ فِیْ اَیْمَانِکُمْ عربوں کا انداز گفتگو اس طرح کا ہے کہ واللہ ‘ باللہَ کے بغیر ان کا کوئی جملہ شروع ہی نہیں ہوتا۔ اس سے درحقیقت ان کی نیت قسم کھانے کی نہیں ہوتی بلکہ یہ ان کا گفتگو کا ایک اسلوب ہے۔ اس طرح کی قسموں پر مؤاخذہ نہیں ہے۔وَلٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ ط۔ ایسی قسموں کو توڑو گے تو کفارہّ دینا ہوگا۔ کفارے ّ کا حکم سورة المائدۃ میں بیان ہوا ہے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ سورة البقرۃ میں شریعت اسلامی کا ابتدائی خاکہ دے دیا گیا ہے اور اس کے تکمیلی احکام کچھ سورة النساء میں اور کچھ سورة المائدۃ میں بیان ہوئے ہیں۔وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۔ وہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔ وہ فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ اصلاح کی مہلت دیتا ہے۔

لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 آیت 226 لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَآءِہِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْہُرٍ ج۔ اگر کوئی مرد کسی وقت ناراض ہو کر یا غصے میں آکر یہ قسم کھالے کہ اب میں اپنی بیوی کے قریب نہیں جاؤں گا ‘ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھوں گا ‘ تو یہ ایلاء کہلاتا ہے۔ خود آنحضور ﷺ نے بھی اپنی ازواج مطہرات سے ایلاء فرمایا تھا۔ ازواج مطہرات نے عرض کیا تھا کہ اب عام مسلمانوں کے ہاں بھی خوشحالی آگئی ہے تو ہمارے ہاں یہ تنگی اور سختی کیوں ہے ؟ اب ہمارے بھی نفقات بڑھائے جائیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے ان سے ایلاء کیا۔ اس کا ذکر بعد میں آئے گا۔ عام طور پر ہوتا یہ تھا کہ لوگ قسم تو کھا بیٹھتے تھے کہ بیوی کے پاس نہ جائیں گے ‘ مگر بعد میں اس پر پچھتاتے تھے کہ کیا کریں۔ اب وہ بیوی بےچاری معلقّ ہو کر رہ جاتی۔ اس آیت میں ایلاء کی مہلت مقرر کردی گئی کہ زیادہ سے زیادہ چار ماہ تک انتظار کیا جاسکتا ہے۔فَاِنْ فَآءُ وْ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ۔ ان چار ماہ کے دوران اگر وہ اپنی قسم کو ختم کریں اور رجوع کرلیں ‘ تعلق زن و شو قائم کرلیں تو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔

وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 227 وَاِنْ عَزَمُوا الطَّلاَقَ فَاِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔ یعنی چار ماہ کا عرصہ گزر جانے پر شوہر کو بہرحال فیصلہ کرنا ہے کہ وہ یا تو رجوع کرے یا طلاق دے۔ اب عورت کو مزید معلقّ نہیں رکھا جاسکتا۔ رجوع کی صورت میں چونکہ قسم توڑنا ہوگی لہٰذا اس کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ حضرت عمر فاروق رض نے اپنے دور خلافت میں یہ حکم جاری کیا تھا کہ جو لوگ جہاد کے لیے گھروں سے دور گئے ہوں انہیں چار ماہ بعد لازمی طور پر گھر بھیجا جائے۔ آپ رض نے یہ حکم غالباً اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے جاری فرمایا تھا۔ اس کے لیے آپ رض نے اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رض سے مشاورت بھی فرمائی تھی۔ اگرچہ آپ رض کا حضرت حفصہ رض سے باپ بیٹی کا رشتہ ہے ‘ مگر دین کے معاملات میں شرم و حیا آڑے نہیں آتی ‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ الاحزاب : 53 اور اللہ شرماتا نہیں حق بات بتلانے میں۔ آپ رض نے ان سے پوچھا کہ ایک عورت کتنا عرصہ اپنی عفت و عصمت کو سنبھال کر اپنے شوہر کا انتظار کرسکتی ہے ؟ حضرت حفصہ رض نے کہا چار ماہ۔ چناچہ حضرت عمر رض نے مجاہدین کے بارے میں یہ حکم جاری فرما دیا کہ انہیں چار ماہ سے زیادہ گھروں سے دور نہ رکھا جائے۔

وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 228 وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ ط۔ طلاق کے بعد عورت کے لیے تین ماہ کی عدت ہے۔ اس عدت میں شوہر چاہے تو رجوع کرسکتا ہے ‘ اگر اس نے ایک یا دو طلاقیں دی ہوں۔ البتہ تیسری طلاق کے بعد رجوع کا حق نہیں ہے۔ طلاق رجعی کے بعد ابھی اگر عدت ختم ہوجائے تو اب شوہر کا رجوع کا حق ختم ہوجائے گا اور عورت آزاد ہوگی۔ لیکن اس مدت کے اندر وہ دوسری شادی نہیں کرسکتی۔ وَلاَ یَحِلُّ لَہُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْ اَرْحَامِہِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط۔ تین حیض کی مدت اسی لیے مقرر کی گئی ہے کہ معلوم ہوجائے کہ عورت حاملہ ہے یا نہیں۔ اگر عورت حاملہ ہو لیکن وہ اپنا حمل چھپا رہی ہو تاکہ اس کے پیٹ میں پلنے والا اس کا بچہ اس کے پاس ہی رہے ‘ تو یہ اس کے لیے جائز نہیں ہے۔وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلاَحًا ط اسے رجعت کہتے ہیں۔ شوہروں کو حق حاصل ہے کہ وہ عدت کے اندر اندر رجوع کرسکتے ہیں ‘ لیکن یہ حق تیسری طلاق کے بعد حاصل نہیں رہتا۔ پہلی یا دوسری طلاق کے بعد عدت ختم ہونے سے پہلے شوہر کو اس کا اختیار حاصل ہے کہ وہ رجوع کرلے۔ اس پر بیوی کو انکار کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم تو مجھے طلاق دے چکے ہو ‘ اب میں تمہاری بات ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بالْمَعْرُوْفِص یعنی ان کے لیے جو حقوق ہیں وہ ان کی ذمہ داریوں کی مناسبت سے ہیں۔وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ط اور مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت کا ہے۔ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۔ اس زمانے میں اس آیت کی بہت غلط تعبیر بھی کی گئی ہے اور اس سے مساوات مردد و زن کا فلسفہ ثابت کیا گیا ہے۔ چناچہ بعض مترجمین نے وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بالْمَعْرُوْفِص کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ عورتوں کے حقوق بھی مردوں پر ویسے ہی ہیں جیسے َ مردوں کے ان پر حقوق ہیں۔ یہ ترجمہ درست نہیں ہے ‘ اس لیے کہ اسلامی شریعت میں مرد اور عورت کے درمیان یعنی شوہر اور بیوی کے درمیان مساوات نہیں ہے۔ اس آیت کا مفہوم سمجھنے کے لیے عربی میں ل اور عَلٰیکا استعمال معلوم ہونا چاہیے۔ لِ کسی کے حق کے لیے اور عَلٰی کسی کی ذمہ داری کے لیے آتا ہے۔ چناچہ اس ٹکڑے کا ترجمہ اس طرح ہوگا : لَھُنَّان کے لیے حقوق ہیں۔ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ جیسی کہ ان پر ذمہّ داریاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جیسی ذمہ داری مرد پر ڈالی ہے ویسے حقوق اس کو دیے ہیں اور جیسی ذمہّ داری عورت پر ڈالی ہے اس کی مناسبت سے اس کو بھی حقوق دے دیے ہیں۔ اور اس بات کو کھول دیا کہ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ ط یعنی مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت کا حاصل ہے۔ اب مساوات کیونکر ہوسکتی ہے ؟ آخر میں فرمایا :وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ اور اللہ تعالیٰ زبردست ہے ‘ حکمت والا ہے۔ خواہ تمہیں یہ بات پسند ہو خواہ ناپسند ہو ‘ یہ اس کا حکم ہے۔ وہ عزیز ہے ‘ زبردست ہے ‘ جو چاہے حکم دے۔ اور حکیم ہے ‘ حکمت والا ہے ‘ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔اس آیت میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس پر قدرے تفصیلی گفتگو کی ضرورت ہے۔ دیکھئے ‘ انسانیّ تمدن کا اہم ترین اور بنیادی ترین مسئلہ کیا ہے ؟ ایک ہے انسانی زندگی کا مسئلہ۔ انسانی زندگی کا سب سے پہلا مسئلہ تو وہی ہے جو حیوانی زندگی کا بھی ہے ‘ یعنی اپنی مادی ضروریات۔ ہر حیوان کی طرح انسان کے ساتھ بھی پیٹ لگا ہوا ہے جو کھانے کو مانگتا ہے۔ لیکن اس کے بعد جب دو انسان ملتے ہیں اور اس سے تمدن کا آغاز ہوتا ہے تو اس کا سب سے بڑا مسئلہ انسان کی شہوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت دو جنسیں بنا دی ہیں اور ان دونوں کے مابین تعلق سے نسل آگے چلتی ہے۔ اب اس معاملے کو کیسے منظم کیا جائے ‘ اس کی کیا حدود وقیود ہوں ؟ یہ جذبہ واقعۃً بہت زور آور potent ہے۔ اس کے بارے میں فرائیڈ نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل بےبنیاد نہیں ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ اس نے ذرا زیادہ مرچ مسالا لگا دیا ہے ‘ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کا جنسی جذبہ نہایت قوی اور زورآور جذبہ ہے۔ اور جو شے جتنی قوی ہو اسے حدود میں رکھنے کے لیے اس پر اسی قدر زیادہ قدغنیں عائد کرنی پڑتی ہیں۔ کوئی گھوڑا جتنا منہ زور ہو اتنا ہی اسے لگام دینا آسان نہیں ہوتا ‘ اس کے لیے پھر مشقت کرنی پڑتی ہے۔ چناچہ اگر اس جنسی جذبے کو بےلگام چھوڑ دیا جاتا تو تمدن میں فساد ہوجاتا۔ لہٰذا اس کے لیے شادی کا معاملہ رکھا گیا کہ ایک عورت کا ایک مرد کے ساتھ رشتہ قائم ہوجائے ‘ سب کو معلوم ہو کہ یہ اس کی بیوی ہے یہ اس کا شوہر ہے ‘ تاکہ اس طرح نسب کا معاملہ بھی چلے اور ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے۔ ورنہ آزاد شہوت رانی free sex سے تو خاندانی ادارہ وجود میں آہی نہیں سکتا۔ چناچہ نکاح کے ذریعے ازدواجی بندھن کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سکھایا اور اس طرح خاندانی ادارہ وجود میں آیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ادارے میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں ؟ اس نظریے سے بڑی حماقت اور کوئی نہیں ہے۔ اس لیے کہ سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی ادارے کے دو برابر کے سربراہ نہیں ہوسکتے۔ اگر آپ کسی محکمے کے دو ڈائریکٹر بنا دیں تو وہ ادارہ تباہ ہوجائے گا۔ اوپر مینیجنگ ڈائریکٹر ایک ہی ہوگا ‘ اس کے نیچے آپ دس ڈائریکٹر بھی بنا دیں تو کوئی حرج نہیں۔ کسی ادارے کا جنرل مینیجر ایک ہی ہوگا ‘ اس کے ماتحت آپ ہر شعبے کا ایک مینیجر بنا دیجیے۔ کسی بھی ادارے میں اگر نظم قائم کرنا ہے تو اس کا چوٹی top کا سربراہ ایک ہی ہونا چاہیے۔ لہٰذا جب ایک مرد اور ایک عورت سے ایک خاندانی ادارہ وجود میں آئے تو اس کا سربراہ کون ہوگا مرد یا عورت ؟ مرد اور عورت انسان ہونے کے ناطے بالکل برابر ہیں ‘ ایک ہی باپ کے نطفے سے بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی۔ ایک ہی ماں کے رحم میں بہن نے بھی پرورش پائی ہے اور بھائی نے بھی۔ لہٰذ اس اعتبار سے شرف انسانیت میں ‘ نوع انسانیت کے فرد کی حیثیت سے ‘ دونوں برابر ہیں۔ لیکن جب ایک مرد اور ایک عورت مل کر خاندان کی بنیاد رکھتے ہیں تو اب یہ برابر نہیں رہے۔ جیسے انسان سب برابر ہیں ‘ لیکن ایک دفتر میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں ‘ ان کے الگ الگ اختیارات اور فرائض ہیں۔ قرآن حکیم میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ جو احکام دیے گئے ہیں وہ خاندانی نظام اور عائلی معاملات ہی سے متعلق ہیں۔ اس لیے کہ انسانی تمدن کی جڑ بنیاد اور یہی ہے۔ یہاں سے خاندان بنتا ہے اور خاندانوں کے اجتماع کا نام معاشرہ ہے۔ پاکستانی معاشرے کی مثال لے لیجیے۔ اگر ہماری آبادی اس وقت چودہ کروڑ ہے اور آپ ایک خاندان کے سات افراد شمار کرلیں تو ہمارا معاشرہ دو کروڑ خاندانوں پر مشتمل ہے۔ خاندان کا ادارہ مستحکم ہوگا تو معاشرہ مستحکم ہوجائے گا۔ خاندان کے ادارے میں صلاح اور فلاح ہوگی تو معاشرے میں بھی صلاح و فلاح نظر آئے گی۔ اگر خاندان کے ادارے میں فساد ‘ بےچینی ‘ ظلم اور ناانصافی ہوگی ‘ میاں اور بیوی میں جھگڑے ہو رہے ہوں گے تو پھر وہاں اولاد کی تربیت صحیح نہیں ہوسکتی ‘ ان کی تربیت میں یہ منفی چیزیں شامل ہوجائیں گی اور اسی کا عکس پورے معاشرے پر پڑے گا۔ چناچہ خاندانی ادارے کی اصلاح اور اس کے استحکام کے لیے قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے احکام دیے گئے ہیں ‘ جنہیں عائلی قوانین کہا جاتا ہے۔اس ضمن میں طلاق ایک اہم معاملہ ہے۔ اس میں مرد اور عورت کو برابر کا اختیار نہیں دیا گیا۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے اس میں عورت کی رضامندی ضروری ہے ‘ اسے شادی سے انکار کرنے کا حق حاصل ہے ‘ اس پر جبر نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن ایک مرتبہ جب وہ نکاح میں آگئی ہے تو اب شوہر کا پلڑا بھاری ہے ‘ وہ اسے طلاق دے سکتا ہے۔ اگر ظلم کے ساتھ دے گا تو اللہ کے ہاں جواب دہی کرنی پڑے گی اور پکڑ ہوجائے گی۔ لیکن بہرحال اسے اختیار حاصل ہے۔ عورت خود طلاق نہیں دے سکتی ‘ البتہ طلاق حاصل کرسکتی ہے ‘ جسے ہم خلع کہتے ہیں۔ وہ عدالت کے ذریعے سے یا خاندان کے بڑوں کے ذریعے سے خلع حاصل کرسکتی ہے ‘ لیکن اسے مرد کی طرح طلاق دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح اگر مرد نے ایک یا دو طلاقیں دے دیں اور ابھی عدت پوری نہیں ہوئی تو اسے رجوع کا حق حاصل ہے۔ اس پر عورت انکار نہیں کرسکتی۔ یہ تمام چیزیں ایسی ہیں جو موجودہ زمانے میں خواتین کو اچھی نہیں لگتیں۔ اس لیے کہ آج کی دنیا میں مساوات مرد و زن کا فلسفہ شیطان کا سب سے بڑا فلسفہ اور معاشرے میں فتنہ و فساد اور گندگی پیدا کرنے کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اور اب ہمارے ایشیائی ممالک خاص طور پر مسلمان ممالک میں خاندانی نظام کی جو بچی کھچی شکل باقی رہ گئی ہے اور جو کچھ رہی سہی اقدار موجود ہیں انہیں تباہ و برباد کرنے کی سرتوڑ کوششیں ہو رہی ہیں۔ قاہرہ کانفرنس اور بیجنگ کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ ایشیا کا مشرق اور مغرب دونوں طرف سے گھیراؤ کیا جائے تاکہ یہاں کی عورت کو آزادی دلائی جائے۔ مرد و عورت کی مساوات اور عورتوں کی آزادی emancipation کے نام پر ہمارے خاندانی نظام کو اسی طرح برباد کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس طرح ان کے ہاں برباد ہوچکا ہے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے سال نو کے پیغام میں کہا تھا کہ جلد ہی ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں born without any wedlock پر مشتمل ہوگی۔ وہاں اب محض one parent family رہ گئی ہے۔ ماں کی حیثیت باپ کی بھی ہے اور ماں کی بھی۔ وہاں کے بچے اپنے باپ کو جانتے ہی نہیں۔ اب وہاں ایک مہم زور و شور سے اٹھ رہی ہے کہ ہر انسان کا حق ہے کہ اسے معلوم ہو کہ اس کا باپ کون ہے۔ یہ عظیم تباہی ہے جو مغربی معاشرے پر آچکی ہے اور ہمارے ہاں بھی لوگ اس معاشرے کی نقالی اختیار کر رہے ہیں اور یہ نظریۂ مساوات مرد و زن بہت ہی تابناک اور خوشنما الفاظ کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔البتہ اس معاملے کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ اسلام نے عورتوں کو جو حقوق دیے ہیں بدقسمتی سے ہم مسلمانوں نے وہ بھی ان کو نہیں دیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں پر ابھی تک ہمارا ہندوانہ پس منظرّ مسلط ہے اور ہندوؤں کے معاشرے میں عورت کی قطعاً کوئی حیثیت ہی نہیں۔ وراثت کا حق تو بہت دور کی بات ہے ‘ اسے تو اپنے شوہر کی موت کے بعد زندہ رہنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ اسے تو شوہر کی چتا کے ساتھ ہی جل کر ستی ہوجانا چاہیے۔ گویا اس کا تو کوئی قانونی وجود legal entity ہے ہی نہیں۔ ہمارے آباء و اَجداد مسلمان تو ہوگئے تھے ‘ لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت نہیں ہوسکی تھی ‘ لہٰذا ہمارے ذہنوں پر وہی ہندوانہ تصوراتّ مسلط ہیں کہ عورت تو مرد کے پاؤں کی جوتی کی طرح ہے۔ یہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں کہ ان کے جائز حقوق بھی ان کو نہیں دیتے ‘ اس کے نتیجے میں ہم اپنے اوپر ہونے والی مغربی یلغار کو مؤثرّ کرنے میں خود مدد دے رہے ہیں۔ اگر ہم اپنی خواتین کو وہ حقوق نہیں دیں گے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے ان کے لیے مقرر کیے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ آزادئ نسواں ‘ حقوق نسواں اور مساوات مرد و زن جیسے خوش نما عنوانات سے جو دعوت اٹھی ہے وہ لازماً انہیں کھینچ کرلے جائے گی۔ لہٰذا اس طرف بھی دھیان رکھیے۔ ہمارے ہاں دین دار گھرانوں میں خاص طور پر عورتوں کے حقوق نظر انداز ہوتے ہیں۔ اس کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام میں عورتوں کے کیا حقوق ہیں اور ان کی کس قدر دلجوئی کرنی چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ وَاَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ 28 تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھے ہوں۔ اور جان لو کہ میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک ہو ‘ ان کی دلجوئی ہو ‘ ان کے احساسات کا بھی پاس کیا جائے۔ البتہ جہاں دین اور شریعت کا معاملہ آجائے وہاں کسی لچک کی گنجائش نہ ہو ‘ وہاں آپ شمشیر برہنہ ہوجائیں اور صاف صاف کہہ دیں کہ یہ معاملہ دین کا ہے ‘ اس میں میں تمہاری کوئی رعایت نہیں کرسکتا ‘ ہاں اپنے معاملات کے اندر میں ضرور نرمی کروں گا۔اس ساری بحث کو ذہن میں رکھیے۔ ہمارے جدید دانشور اس آیت کے درمیانی الفاظ کو تولے لیتے ہیں : وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بالْمَعْرُوْفِص اور اس سے مساوات مرد و زن کا مفہوم نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ‘ لیکن ان سے پہلے والے الفاظ اور وَبُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ اور بعدوالے الفاظ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔ یہ طرز عمل بالکل غلط ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت سے جو خاندانی ادارہ وجود میں آتا ہے ‘ اسلام اس کا سربراہ مرد کو ٹھہراتا ہے۔ یہ فلسفہ زیادہ وضاحت سے سورة النساء میں بیان ہوگا جہاں الفاظ آئے ہیں : اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ۔۔ آیت 34۔ یہاں اس کی تمہید آگئی ہے تاکہ یہ کڑوی گولی خواتین کے حلق سے ذرا نیچے اترنی شروع ہوجائے۔ اس آیت کا ترجمہ ایک بار پھر دیکھ لیجیے : اور ان کے شوہر اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انہیں لوٹا لیں اس عدت کے دوران میں اگر وہ واقعۃً اصلاح چاہتے ہوں۔ اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق۔ اور مردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت کا ہے۔ اور اللہ زبردست ہے ‘ حکیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں عورت کے حوالے کی ہیں ‘ جس طرح کے اس پر فرائض عاید کیے ہیں ویسے ہی اس کو حقوق بھی عطا کیے ہیں۔ یہ دنیا کا مسلّمہ اصول ہے کہ حقوق و فرائض باہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ اگر آپ کی ذمہ داری زیادہ ہے تو حقوق اور اختیارات بھی زیادہ ہوں گے۔ اگر آپ پر ذمہّ داری بہت زیادہ ڈال دی جائے لیکن حقوق اور اختیارات اس کی مناسبت سے نہ ہوں تو آپ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتے۔ جہاں ذمہ داری کم ہوگی وہاں حقوق اور اختیارات بھی کم ہوں گے۔ یہ دونوں چیزیں متناسب proportionate چلتی ہیں۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 اب ہم اگلی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں :آیت 229 اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ ص ۔ یعنی ایک شوہر کو دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرلینے کا حق ہے۔ ایک دفعہ طلاق دی اور عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔ پھر طلاق دے دی اور عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو اب وہ رجوع نہیں کرسکتا۔ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ ط۔ یعنی دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد اب فیصلہ کرو۔ یا تو اپنی بیوی کو نیکی اور بھلائی کے ساتھ گھر میں روک لو ‘ تنگ کرنے اور پریشان کرنے کے لیے نہیں ‘ یا پھر بھلے طریقے سے ‘ بھلے مانسوں کی طرح اسے رخصت کر دو۔ وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْءًا جب تم طلاق دے رہے ہو تو تم نے انہیں جو مہر دیا تھا اس میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتے۔ ہاں اگر عورت خود طلاق مانگے تو اسے اپنے مہر میں سے کچھ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن جب مرد طلاق دے رہا ہو تو وہ اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا جو وہ اپنی بیوی کو دے چکا ہے۔ سورة النساء آیت 20 میں یہاں تک الفاظ آئے ہیں کہ اگرچہ تم نے سونے کا ڈھیر قِنطَار دے دیا ہو پھر بھی اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ط۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازدواجی زندگی کے ضمن میں جو اہداف و مقاصد معینّ فرمائے ہیں ‘ اس کے لیے جو احکام دیے ہیں اور جو آداب بتائے ہیں ‘ فریقین اگر یہ محسوس کریں کہ ہم انہیں ملحوظ نہیں رکھ سکتے تو یہ ایک استثنائی صورت ہے ‘ جس میں عورت کوئی مال یا رقم فدیہ کے طور پردے کر ایسے شوہر سے خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ لا فلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ط۔ یعنی ایسی صورت میں عورت اگر فدیہ کے طور پر کچھ دے دلا کر اپنے آپ کو چھڑا لے تو اس میں فریقین پر کوئی گناہ نہیں۔ مثلاً کسی عورت کا مہر دس لاکھ تھا ‘ وہ اس میں سے پانچ لاکھ شوہر کو واپس دے کر اس سے خلع لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ج۔ دیکھئے روزے وغیرہ کے ضمن میں حدود اللہ کے ساتھ فَلَا تَقْرَبُوْھَا فرمایا تھا۔ یہاں فرمایا : فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ج اس لیے کہ ان معاملات میں لوگ بڑے دھڑلے ّ سے اللہ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کر جاتے ہیں۔ اگرچہ قانون باقی رہ جاتا ہے مگر اس کی روح ختم ہوجاتی ہے۔

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 23 وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا ‘ ”تعارف قرآن“ میں یہ بات تفصیل سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن حکیم میں ایسے پانچ مقامات ہیں جہاں پر یہ چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ یہ کلام محمد ﷺ کی اختراع ہے تو تم بھی مقابلے میں ایسا ہی کلام پیش کرو۔ سورة الطور کی آیات 33 ‘ 34 میں ارشاد ہوا : ”کیا ان کا یہ کہنا ہے کہ اسے محمد ﷺ نے خود گھڑ لیا ہے ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ماننے کو تیار نہیں۔ پھر چاہیے کہ وہ اسی طرح کا کوئی کلام پیش کریں اگر وہ سچے ہیں“۔ سورة بنی اسراء یل آیت 88 میں فرمایا گیا کہ ”اگر تمام جن و انس جمع ہو کر بھی اس قرآن جیسی کتاب پیش کرنا چاہیں تو ہرگز نہیں کرسکیں گے ‘ چاہے وہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں“۔ پھر سورة ہود آیت 13 میں فرمایا گیا کہ ”اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیجیے اگر پورے قرآن کی نظیر نہیں لاسکتے تو ایسی دس سورتیں ہی گھڑ کرلے آؤ !“ اس کے بعد مزید نیچے اتر کر ‘ جسے برسبیل تنزل کہا جاتا ہے ‘ سورة یونس آیت 38 میں اس جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آنے کا چیلنج دیا گیا۔ مذکورہ بالا تمام مقامات مکی سورتوں میں ہیں۔ پہلی مدنی سورة ”البقرۃ“ کی آیت زیر مطالعہ میں یہی بات بڑے اہتمام کے ساتھ فرمائی گئی کہ اگر تم لوگوں کو اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے تو اس جیسی ایک سورت تم بھی موزوں کر کے لے آؤ ! یہ ایک سورت سورة العصر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی ‘ سورة الکوثر کے مساوی بھی ہوسکتی تھی۔وَادْعُوْا شُھَدَآءَ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ قریش کا خیال یہ تھا کہ شعراء کے پاس جن ہوتے ہیں ‘ جو انہیں شعر سکھاتے ہیں ‘ ورنہ عام آدمی تو شعر نہیں کہہ سکتا۔ چناچہ فرمایا کہ جو بھی تمہارے مددگار ہوں ‘ ایک اللہ کو چھوڑ کر جس کی بھی تم مدد حاصل کرسکتے ہو ‘ جنات ہوں یا انسان ہوں ‘ خطیب ہوں ‘ شعراء ہوں یا ادیب ہوں ‘ ان سب کو جمع کرلو اور اس قرآن جیسی ایک ہی سورت بنا کرلے آؤ ‘ اگر تم سچے ہو۔ ّ قرآن کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکنے کی دعوت دیتا ہے۔ چناچہ یہاں گویا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ کہا جا رہا ہے کہ حقیقت میں تمہیں اس قرآن کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں ہے ‘ یہ تو تم محض بات بنا رہے ہو۔ اگر تمہیں واقعتا شک ہے ‘ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو آؤ میدان میں اور اس جیسی ایک ہی سورت بنا لاؤ !

فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 آیت 230 فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ط۔تیسری طلاق دے چکنے کے بعد اگر کوئی شخص پھر اسی عورت سے نکاح کرنا چاہے تو جب تک وہ عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے اور وہ اسے طلاق نہ دے اس وقت تک یہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوسکتی۔ اسے حلالہ کہا جاتا ہے۔ لیکن حلالہ کے نام سے ہمارے ہاں جو مکروہ دھندا مروّج ہے کہ ایک معاہدے کے تحت عورت کا نکاح کسی مرد سے کیا جاتا ہے کہ تم پھر اسے طلاق دے دینا ‘ اس پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ فَاِنْ طَلَّقَہَا یعنی وہ عورت دوسری جگہ پر شادی کرلے ‘ لیکن دوسرے شوہر سے بھی اس کی نہ بنے اور وہ بھی اس کو طلاق دے دے۔فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَآ اَنْ یَّتَرَاجَعَآ اب وہ عورت اپنے سابقہ شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ دوسرے شوہر سے نکاح کے بعد عورت کو شاید عقل آجائے کہ زیادتی میری ہی تھی کہ پہلے شوہر کے ہاں بس نہیں سکی۔ اب دوسری مرتبہ تجربہ ہونے پر ممکن ہے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوجائے۔ اب اگر وہ دوبارہ اپنے سابقہ شوہر کی طرف رجوع کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے کہ وہ پھر سے نکاح کرلیں۔ اِنْ ظَنَّآ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ط۔ ازدواجی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں اور جو احکام دیے ہیں ان کو بہرحالّ مدنظر رکھنا ہے اور تمام معاملات پر فائق رکھنا ہے۔وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ یَعْلَمُوْنَکا ترجمہ ہے جو جانتے ہیں یعنی جنہیں علم حاصل ہے ‘ لیکن یہاں اس کا مفہوم ہے جو علم کے طالب ہیں۔ بعض اوقات فعل کو طلب فعل کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 آیت 231 وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْہُنَّ بِمَعْرُوْفٍص تو یا تو معروف طریقے سے انہیں روک لو یا اچھے انداز سے انہیں رخصت کر دو۔ وَلاَ تُمْسِکُوْہُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ج۔ دیکھو ایسا مت کرو کہ تم انہیں تنگ کرنے کے لیے روک لو کہ میں اس کی ذرا اور خبر لے لوں ‘ اگر طلاق ہوجائے گی تو یہ آزاد ہوجائے گی۔ غصہ اتنا چڑھا ہوا ہے کہ ابھی بھی ٹھنڈا نہیں ہو رہا اور وہ اس لیے رجوع کر رہا ہے تاکہ عورت کو مزید پریشان کرے ‘ اسے اور تکلیفیں پہنچائے۔ اس طرح تو اس نے قانون کا مذاق اڑایا اور اللہ کی دی ہوئی اس اجازت کا ناجائز استعمال کیا۔ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ ط وَلاَ تَتَّخِذُوْْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ہُزُوًاز۔ ضروری ہے کہ احکام شریعت پر ان کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں خاص طور پر ازدواجی زندگی کے ضمن میں بار بار اللہ کے خوف اور تقویٰ کی تاکید کی گئی ہے۔ اگر تمہارے دل اس سے خالی ہوں گے تو تم اللہ کی شریعت کو کھیل تماشا بنا دو گے ‘ ٹھٹھا اور مذاق بنا دو گے۔وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ ط۔ اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمتیں پانے کے بعد بھی اگر تم نے اس کی حدود کو توڑا اور اس کی شریعت کو مذاق بنایا تو پھر تمہیں اس کی گرفت سے ڈرنا چاہیے۔

وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 232 وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بالْمَعْرُوْفِ ط جو عورت طلاق پا کر اپنی عدت پوری کرچکی ہو وہ آزاد ہے کہ جہاں چاہے اپنی پسند سے نکاح کرلے۔ اس کے اس ارادے میں طلاق دینے والے شوہر یا اس کے خاندان والوں کو کوئی رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک یا دو طلاق دی اور عدت کے دوران رجوع نہیں کیا تو اب عدت کے بعد عورت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ چاہے تو اسی شوہر سے نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ آیت 228 کے ذیل میں یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان ہوچکی ہے کہ ایک یا دو طلاق کی صورت میں شوہر کو عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اگر عدت پوری ہوگئی تو اب یہ طلاق رجعی نہیں رہی ‘ طلاق بائن ہوگئی۔ اب شوہر اور بیوی کا جو رشتہ تھا وہ ٹوٹ گیا۔ اب اگر یہ رشتہ پھر سے جوڑنا ہے تو دوبارہ نکاح کرنا ہوگا اور اس میں عورت کی مرضی کو دخل ہے۔ عدت کے اندر اندر رجوع کی صورت میں عورت کی مرضی کو دخل نہیں ہے۔ لیکن عدت کے بعد اب عورت کو اختیار ہے ‘ وہ چاہے تو اسی سابق شوہر سے نکاح ثانی کرلے اور چاہے تو اپنی مرضی سے کسی اور شخص سے نکاح کرلے۔ البتہ طلاق مغلظّ تیسری طلاق کے بعد جب تک اس عورت کا نکاح کسی اور مرد سے نہ ہوجائے اور وہ بھی اسے طلاق نہ دے دے ‘ سابق شوہر کے ساتھ اس کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ اس آیت میں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ طلاق بائن کے بعد اگر وہی عورت اور وہی مرد پھر سے نکاح کرنا چاہیں تو اب کسی کو اس میں آڑے نہیں آنا چاہیے۔ عام طور پر عورت کے قریبی رشتے دار اس میں رکاوٹ بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے پہلے بھی تمہیں ستایا تھا ‘ اب تم پھر اسی سے نکاح کرنا چاہتی ہو ‘ ہم تمہیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط جن کے اندر ایمان ہی نہیں ہے ان کے لیے تو یہ ساری نصیحت گویا بھینس کے آگے بین بجانا ہے جس سے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَاَطْہَرُ ط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ لہٰذا تم اپنی عقل کو مقدم نہ رکھو ‘ بلکہ اللہ کے احکام کو مقدم رکھو۔ مرد اور عورت دونوں کا خالق وہی ہے ‘ اسے مرد بھی عزیز ہے اور عورت بھی عزیز ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اَلْخَلْقُ عَیَال اللّٰہِ 29 یعنی تمام مخلوق اللہ کے کنبے کی مانند ہے۔ لہٰذا اللہ کو تو ہر انسان محبوب ہے ‘ خواہ مرد ہو یا عورت ہو۔ انسان اس کی تخلیق کا شاہکار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا علم بھی کامل ہے ‘ وہ جانتا ہے کہ عورت کے کیا حقوق ہونے چاہئیں اور مرد کے کیا ہونے چاہئیں۔

۞ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 آیت 233 وَالْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ط اگر طلاق دینے والا شوہر یہ چاہتا ہے کہ مطلقہّ عورت اس کے بچے کو دودھ پلائے اور رضاعت کی مدت پوری کرے تو دو سال تک وہ عورت اس ذمہّ داری سے انکار نہیں کرسکتی۔ وَعَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بالْمَعْرُوْفِ ط اس مدت میں بچے کے باپ پر مطلقہّ کے کھانے اور کپڑے کی ذمہ داری ہے ‘ جسے ہم نان نفقہ کہتے ہیں ‘ اس لیے کہ قانوناً اولاد شوہر کی ہے۔ اس سلسلے میں دستور کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ یعنی مرد کی حیثیت اور عورت کی ضروریات کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ایسا نہ ہو کہ مرد کروڑ پتی ہو لیکن وہ مطلقہ بیوی کو اپنی خادماؤں کی طرح کا نان نفقہ دینا چاہے۔ لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ الاَّ وُسْعَہَا ج لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌم بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖق یعنی دونوں کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے ‘ جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ ہے : لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ 30 یعنی نہ تو نقصان پہنچانا ہے اور نہ ہی نقصان اٹھانا ہے۔ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ ج اگر بچے کا باپ فوت ہوجائے تو بچے کو دودھ پلانے والی مطلقہ عورت کا نان نفقہ مرحوم کے وارثوں کے ذمے ّ رہے گا۔ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالاً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا ط وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلاَدَکُمْ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اگر بچے کا باپ یا اس کے ورثاء بچے کی والدہ کی جگہ کسی اور عورت سے بچے کو دودھ پلوانا چاہتے ہوں تو بھی کوئی حرج نہیں ‘ انہیں اس کی اجازت ہے ‘ بشرطیکہ۔۔اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بالْمَعْرُوْفِ ط۔ یہ نہ ہو کہ نان نفقہ بچانے کے لیے اب تم مدت رضاعت کے درمیان بچے کی ماں کے بجائے کسی اور عورت سے اس لیے دودھ پلوانے لگو کہ اسے معاوضہ کم دینا پڑے گا۔ اگر تم کسی دایہ وغیرہ سے دودھ پلوانا چاہتے ہو تو پہلے بچے کی ماں کو بھلے طریقے پر وہ سب کچھ ادا کر دو جو تم نے طے کیا تھا۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

📘 آیت 234 وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِہِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْہُرٍ وَّعَشْرًاج قبل ازیں آیت 228 میں مطلقہ عورت کی عدت تین حیض بیان ہوئی ہے۔ یہاں بیوہ عورتوں کی ‘ عدت بیان کی جا رہی ہے کہ وہ شوہر کی وفات کے چار ماہ دس دن بعد تک اپنے آپ کو شادی سے روکے رکھیں۔فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ بالْمَعْرُوْفِ ط عدت گزار چکنے کے بعد وہ آزاد ہیں ‘ جہاں مناسب سمجھیں نکاح کرسکتی ہیں۔ اب تم انہیں روکنا چاہو کہ ہماری ناک کٹ جائے گی ‘ یہ بیوہ ہو کر صبر سے بیٹھ نہیں سکی ‘ اس سے رہا نہیں گیا ‘ اس طرح کی باتیں بالکل غلط ہیں ‘ اب تمہارا کوئی اختیار نہیں کہ تم انہیں روکو۔

وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَٰكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

📘 آیت 235 وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَآءِ اَوْ اَکْنَنْتُمْ فِیْ اَنْفُسِکُمْ ط کسی عورت کا عدت کے دوران نکاح تو نہیں ہوسکتا ‘ نہ ہی اسے واضح طور پر پیغام نکاح دیا جاسکتا ہے ‘ البتہ اشارے کنائے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مجھے اس میں دلچسپی ہے۔ یا پھر یہ بات اپنے دل ہی میں پوشیدہ رکھی جائے اور عدت ختم ہونے کا انتظار کیا جائے۔ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَہُنَّ آخر تمہیں ان کا خیال تو آئے گا کہ یہ عورت بیوہ ہوگئی ہے ‘ اب میں اس سے شادی کرسکتا ہوں۔ کوئی آدمی یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ جو میرے دل میں بیوہ کے بارے میں خیال آ رہا ہے اور اس سے نکاح کی رغبت پیدا ہو رہی ہے تو شاید میں گناہگار ہوگیا ہوں۔ یہاں اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ ایسے خیال کا آنا گناہ نہیں ہے ‘ یہ قانون فطرت ہے۔ وَلٰکِنْ لاَّ تُوَاعِدُوْہُنَّ سِرًّا ایسا نہ ہو کہ خفیہ ہی خفیہ نکاح کی بات پکیّ ہوجائے۔اِلَّا اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلاً مَّعْرُوْفًا ط۔ بس کوئی ایسی معروف بات کہہ سکتے ہو جس سے انہیں اشارہ مل جائے۔وَلاَ تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ ط۔ یعنی اللہ کی مقرر کردہ عدت جب تک پوری نہ ہوجائے۔ یہاں کتاب سے مراد قانون شریعت ہے۔ کتاب اللہ میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر کردی گئی ‘ اس کا پورا ہونا ضروری ہے ‘ اس سے پہلے نکاح نہیں ہوسکتا۔ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ ج ۔ اس کی پکڑ سے بچنے کی کوشش کرو۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ ۔ اللہ غفور ہے ‘ بخشنے والا ہے ‘ کوئی خطا ہوگئی ہے تو استغفار کرو ‘ تو بہ کرو ‘ اللہ معاف فرمائے گا۔ اور وہ حلیم ہے ‘ تحمل کرنے والا ہے ‘ فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ ڈھیل دیتا ہے ‘ مہلت دیتا ہے کہ اگر چاہو تو تم توبہ کرلو۔

لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 236 لاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنُّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً ج۔ اگر کوئی شخص اپنی منکوحہ کو اس حال میں طلاق دینا چاہے کہ نہ تو اس کے ساتھ خلوت صحیحہ کی نوبت آئی ہو اور نہ ہی اس کے لیے مہر مقرر کیا گیا ہو تو وہ دے سکتا ہے۔ وَّمَتِّعُوْہُنَّ ج۔ اس صورت میں اگرچہ مہر کی ادائیگی لازم نہیں ہے ‘ لیکن مرد کو چاہیے کہ وہ اسے کچھ نہ کچھ مال و متاع دنیوی کپڑے وغیرہ دے دلا کر فارغ کرے۔عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ج۔ جو وسعت والا ہے ‘ غنی ہے ‘ جس کو کشائش حاصل ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق ادا کرے اور جو تنگ دست ہے وہ اپنی حیثیت کے مطابق۔مَتَاعًام بالْمَعْرُوْفِ ج۔ یہ ساز و سامان دنیا جو ہے یہ بھی بھلے انداز میں دیا جائے ‘ ایسا نہ ہو کہ جیسے خیرات دی جارہی ہو۔ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ۔ نیکی کرنے والے ‘ بھلے لوگ یہ سمجھ لیں کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمہ داریّ ہے۔

وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 آیت 237 وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اس صورت میں مقرر شدہ مہر کا آدھا تو تمہیں دینا ہی دینا ہے۔اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ یعنی کوئی عورت خود کہے کہ مجھے آدھا بھی نہیں چاہیے یا کوئی کہے کہ مجھے چوتھائی دے دیجیے۔اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ ط۔ اور یہ گرہ مرد کے ہاتھ میں ہے ‘ وہ اسے کھول سکتا ہے۔ عورت از خود طلاق دے نہیں سکتی۔ لہٰذا مردوں کے لیے ترغیب ہے کہ وہ اس معاملے میں فراخ دلی سے کام لیں۔وَاَنْ تَعْفُوْآ اَقْرَبُ للتَّقْوٰی ط وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ ط اس کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے : اور تمہارے درمیان ایک کو دوسرے پر جو فضیلت ہے اس کو مت بھولو۔ یعنی اللہ نے جو فضیلت تم مردوں کو عورتوں پر دی ہے اس کو مت بھولو۔ چناچہ تمہارا طرز عمل بھی ایسا ہونا چاہیے کہ تم اپنے بڑے ہونے کے حساب سے ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کو زیادہ دو۔ تم نے ان کا جتنا بھی مہر مقرر کیا تھا وہ نصف کے بجائے پورا دے دو اور انہیں معروف طریقے سے عزت و تکریم کے ساتھ رخصت کرو۔

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ

📘 آیت 238 حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ق یہ جو بار بار آ رہا ہے کہ جان لو اللہ ہر شے کا جاننے والا ہے ‘ جان رکھو کہ اللہ تمہارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے ‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ کی نگاہ میں ہے ‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے ‘ تو اس سب کو قلب و ذہن میں مستحضر رکھنے کے لیے تمہیں پنج وقتہ نماز دی گئی ہے کہ اس کی نگہداشت کرو۔ دنیا کے کاروبار سے نکلو اور اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس سے کیا ہوا عہد تازہ کرو۔ حفیظ کا ایک شعر ہے : ؂سرکشی نے کردیے دھندلے نقوش بندگی آؤ سجدے میں گریں لوح جبیں تازہ کریں !صلوٰۃ وسطیٰ بیچ والی نماز کے بارے میں بہت سے اقوال ہیں ‘ لیکن عام طور پر اس سے مراد عصر کی نماز لی جاتی ہے۔ اس لیے کہ دن میں دو نمازیں فجر اور ظہر اس سے پہلے ہیں اور دو ہی نمازیں مغرب اور عشاء اس کے بعد میں ہیں۔وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ ۔ قیام ‘ رکوع اور سجدہ فرائضِ نماز میں سے ہیں۔ رکوع میں بندہ اپنے رب کے حضور عاجزی سے جھک جاتا ہے ‘ سجدہ اس جھکنے کی انتہا ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ قیام بھی قنوت ‘ عاجزی اور انکساری کے ساتھ ہو ‘ معلوم ہو کہ ایک بندہ اپنے آقا کے سامنے باادب کھڑا ہے۔

فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 239 فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالاً اَوْ رُکْبَانًا ج۔ دشمن اگر پیچھا کر رہا ہے اور آپ رک کر تمام شرائط و آداب کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردیں گے تو وہ آپ کے سر پر پہنچ جائے گا۔ یا آپ نے کہیں جا کر فوری طور پر حملہ کرنا ہے اور آپ نماز کے لیے رک جائیں گے تو مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کرسکیں گے۔ چناچہ دشمن سے خطرے کی حالت میں پیدل یا سوار جس حال میں بھی ہوں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ خطرہ دور ہوجائے اور امن کی حالت ہو۔فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ اُمت کو نماز کا طریقہ محمد رسول اللہ ﷺ نے سکھایا ہے اور حکم دیا ہے : صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ 31 نماز پڑھو جیسے کہ تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔ نماز کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کا سکھایا ہوا ہے۔ روایات سے ثابت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکرٌ محمد رسول اللہ ﷺ کو دو دن نماز پڑھائی ہے۔ ایک دن پانچوں نمازیں اوّل وقت میں اور دوسرے دن پانچوں نمازیں آخری وقت میں پڑھائیں اور بتادیا کہ ان نمازوں کا وقت ان اوقات کے درمیان ہے۔ چناچہ نماز کے معاملے میں آنحضور ﷺ کے معلم حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں اور آپ ﷺ پوری امت کے لیے معلم ہیں۔ اب بیوہ عورتوں کے بارے میں مزید ہدایات آرہی ہیں۔

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ

📘 آیت 24 فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا ذرا انداز دیکھئے ‘ کیسا تحدی اور چیلنج کا ہے ! اور یہ چیلنج اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔ یہ انداز دنیا کی کسی کتاب کا نہیں ہے ‘ یہ دعویٰ صرف قرآن کا ہے۔ کیسا دو ٹوک انداز ہے : ”پھر اگر تم نہ کر پاؤ ‘ اور تم ہرگز نہیں کر پاؤ گے۔“ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ج جہنم کے ایندھن کے طور پر پتھروں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے۔ اس کے دو امکانات ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ کو معلوم ہے پتھر کے کوئلے کی آگ عام لکڑی کے کوئلے کے مقابلے میں بڑی سخت ہوتی ہے۔ لہٰذا جہنم کی آگ بہت بڑے بڑے پتھروں سے دہکائی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ مشرکین نے جو معبود تراش رکھے تھے وہ پتھر کے ہوتے تھے۔ مشرکین کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ تمہارے ساتھ تمہارے ان معبودوں کو بھی جہنم میں جھونکا جائے گا تاکہ تمہاری حسرت کے اندر اضافہ ہو کہ یہ ہیں وہ معبودان باطل جن سے ہم دعائیں مانگا کرتے تھے ‘ جن کے سامنے ماتھے ٹیکتے تھے ‘ جن کے سامنے ڈنڈوت کرتے تھے ‘ جن کو چڑھاوے چڑھاتے تھے !اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ یہ جہنم منکرین حق کے لیے تیار کی گئی ہے۔ اب یہاں گویا ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت کے بعد ایمان بالآخرت کا ذکر آگیا۔

وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 240 وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا ج وَّصِیَّۃً لِاَّزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ ج۔ مثال کے طور پر ایک شخص فوت ہوا ہے اور اس کی چار بیویاں ہیں ‘ جن میں سے ایک کے ہاں اولاد ہے ‘ جبکہ باقی تین اس اولاد کی سوتیلی مائیں ہیں۔ اب یہ اولاد سگی ماں کو تو اپنی ماں سمجھ کر اس کی خدمت کرے گی اور باقی تین کو خواہ مخواہ کی ذمہّ داری liability سمجھے گی۔ تو فرمایا کہ ایسا نہ ہو کہ ان بیواؤں کو فوراً گھر سے نکال دو ‘ کہ جاؤ اپنا راستہ لو ‘ جس سے تمہاری شادی تھی وہ تو فوت ہوگیا ‘ بلکہ ایک سال کے لیے انہیں گھر سے نہ نکالا جائے اور ان کا نان نفقہ دیا جائے۔ ان آیات کے نزول تک قانون وراثت ابھی نہیں آیا تھا ‘ لہٰذا بیواؤں کے بارے میں وصیت کا عبوری حکم دیا گیا ‘ جیسا کہ قبل ازیں آیت 180 میں والدین اور قرابت داروں کے لیے وصیت کا عبوری حکم دیا گیا۔ سورة النساء میں قانون وراثت نازل ہوا تو اس میں والدین کا حق بھی معینّ کردیا گیا اور شوہر کی وفات کی صورت میں بیوی کے حق کا اور بیوی کی وفات کی صورت میں شوہر کے حق کا بھی تعینّ کردیا گیا اور اب والدین و عزیز و اقارب اور بیوگان کے حق میں وصیت کی ہدایات منسوخ ہوگئیں۔فَاِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْ مَا فَعَلْنَ فِیْ اَنْفُسِہِنَّ مِنْ مَّعْرُوْفٍ ط۔ اگر کوئی عورت عدت گزارنے کے بعد دوسری شادی کر کے کہیں بسنا چاہے تو تم اسے سال بھر کے لیے روک نہیں سکتے۔ وہ اپنے حق میں معروف طریقے پر جو بھی فیصلہ کریں وہ اس کی مجاز ہیں ‘ اس کا کوئی الزام تم پر نہیں آئے گا۔

وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ

📘 آیت 241 وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بالْمَعْرُوْفِ ط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ واضح رہے کہ یہ ہدایت عدت کے وقت تک کے لیے ہے ‘ اس کے بعد نہیں۔ اسی معاملے میں کلکتہ ہائی کو رٹ نے شاہ بانو کیس میں جو ایک فیصلہ دیا تھا اس پر ہندوستان میں شدید احتجاج ہوا تھا۔ اس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ کوئی مسلمان اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ بیوی اگر تو دوسری شادی کرلے تب تو بات دوسری ہے ‘ ورنہ جب تک وہ زندہ رہے گی اس کا نان نفقہ طلاق دینے والے کے ذمے ّ رہے گا۔ اس پر بھارت کے مسلمانوں نے کہا کہ یہ ہماری شریعت میں دخل اندازی ہے ‘ شریعت نے مطلقہ کے لیے صرف عدت تک نان نفقہ کا حق رکھا ہے۔ چناچہ مسلمانوں نے اس مسئلے پر احتجاجی تحریک چلائی ‘ جس میں بہت سے لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آخر کار راجیو گاندھی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پھر وہاں یہ قانون بنا دیا گیا کہ ہندوستان کی کوئی عدالت بشمول سپریم کو رٹ مسلمانوں کے عائلی قوانین میں دخل نہیں دے سکتی۔ اس پر میں مسلمانان بھارت کی عظمت کو سلام پیش کیا کرتا ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ایک فوجی آمر نے عائلی قوانین بنائے جن کے بارے میں سنی ‘ شیعہ ‘ اہل حدیث ‘ دیوبندی ‘ بریلوی تمام علماء اور جماعت اسلامی کی چوٹی کی قیادت سب نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ یہ قوانین خلاف اسلام ہیں ‘ مگر وہ آج تک چل رہے ہیں۔ ایک اور فوجی آمر گیارہ برس تک یہاں پر کو سِ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ بجاتا رہا اور اسلام اسلام کا راگ بھی الاپتارہا ‘ لیکن اس نے بھی ان قوانین کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ اسی بنیاد پر میں نے اس کی شوریٰ سے استعفا دیا تھا۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے وہاں پر یہ بات نہیں ہونے دی۔

كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

📘 آیت 241 وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بالْمَعْرُوْفِ ط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ ۔ واضح رہے کہ یہ ہدایت عدت کے وقت تک کے لیے ہے ‘ اس کے بعد نہیں۔ اسی معاملے میں کلکتہ ہائی کو رٹ نے شاہ بانو کیس میں جو ایک فیصلہ دیا تھا اس پر ہندوستان میں شدید احتجاج ہوا تھا۔ اس نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ کوئی مسلمان اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو وہ بیوی اگر تو دوسری شادی کرلے تب تو بات دوسری ہے ‘ ورنہ جب تک وہ زندہ رہے گی اس کا نان نفقہ طلاق دینے والے کے ذمے ّ رہے گا۔ اس پر بھارت کے مسلمانوں نے کہا کہ یہ ہماری شریعت میں دخل اندازی ہے ‘ شریعت نے مطلقہ کے لیے صرف عدت تک نان نفقہ کا حق رکھا ہے۔ چناچہ مسلمانوں نے اس مسئلے پر احتجاجی تحریک چلائی ‘ جس میں بہت سے لوگوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ آخر کار راجیو گاندھی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور پھر وہاں یہ قانون بنا دیا گیا کہ ہندوستان کی کوئی عدالت بشمول سپریم کو رٹ مسلمانوں کے عائلی قوانین میں دخل نہیں دے سکتی۔ اس پر میں مسلمانان بھارت کی عظمت کو سلام پیش کیا کرتا ہوں۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ ہوا کہ ایک فوجی آمر نے عائلی قوانین بنائے جن کے بارے میں سنی ‘ شیعہ ‘ اہل حدیث ‘ دیوبندی ‘ بریلوی تمام علماء اور جماعت اسلامی کی چوٹی کی قیادت سب نے متفقہ طور پر یہ کہا کہ یہ قوانین خلاف اسلام ہیں ‘ مگر وہ آج تک چل رہے ہیں۔ ایک اور فوجی آمر گیارہ برس تک یہاں پر کو سِ لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ بجاتا رہا اور اسلام اسلام کا راگ بھی الاپتارہا ‘ لیکن اس نے بھی ان قوانین کو جوں کا توں برقرار رکھا۔ اسی بنیاد پر میں نے اس کی شوریٰ سے استعفا دیا تھا۔ لیکن ہندوستان کے مسلمانوں نے وہاں پر یہ بات نہیں ہونے دی۔

۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ

📘 اب جو دو رکوع زیر مطالعہ آ رہے ہیں یہ اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں اس جنگ کا تذکرہ ہے جس کی حیثیت گویا تاریخ بنی اسرائیل کے غزوۂ بدر کی ہے۔ قبل ازیں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل نے یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد و قتال کیا تو فلسطین فتح ہوگیا۔ لیکن انہوں نے ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی بارہ حکومتیں بنا لیں اور آپس میں لڑتے بھی رہے۔ لیکن تین سو برس کے بعد پھر یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ جب ان کے اوپر دنیا تنگ ہوگئی اور آس پاس کی کافر اور مشرک قوموں نے انہیں دبا لیا اور بہت سوں کو ان کے گھروں اور ان کے ملکوں سے نکال دیا تو پھر تنگ آکر انہوں نے اس وقت کے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ ‘ یعنی سپہ سالار مقرر کردیجیے ‘ اب ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ چناچہ وہ جو جنگ ہوئی ہے طالوت اور جالوت کی ‘ اس کے بعد گویا بنی اسرائیل کا دور خلافت راشدہ شروع ہوا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کا یہ دور جسے میں خلافت راشدہ سے تعبیر کر رہا ہوں ‘ ان کے رسول علیہ السلام کے انتقال کے تین سو برس بعد شروع ہوا ‘ جبکہ اس امت مسلمہ کی خلافت راشدہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے ساتھّ متصل ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رض نے جانیں دیں ‘ خون دیا ‘ قربانیاں دیں اور اس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں دین غالب ہوگیا اور اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ نتیجتاً آپ ﷺ کے انتقال کے بعد خلافت کا دور شروع ہوگیا ‘ لیکن وہاں تین سو برس گزرنے کے بعد ان کا دور خلافت آیا ہے۔ اس میں بھی تین خلافتیں تو متفق علیہ ہیں۔ یعنی حضرت طالوت ‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت۔ لیکن چوتھی خلافت پر آکر تقسیم ہوگئی۔ جیسے حضرت علی رض خلیفۂ رابع کے زمانے میں عالم اسلام منقسم ہوگیا کہ مصر اور شام نے حضرت علی رض کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح فلسطین کی مملکت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی ‘ اور اسرائیل اور یہودیہ کے نام سے دو ریاستیں وجود میں آگئیں۔ قرآن حکیم میں اس مقام پر طالوت اور جالوت کی اس جنگ کا تذکرہ آ رہا ہے جس کے بعد تاریخ بنی اسرائیل میں اسلام کے غلبے اور خلافت راشدہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ درحقیقت صحابہ کرام رض کو ایک آئینہ دکھایا جا رہا ہے کہ اب یہی مرحلہ تمہیں درپیش ہے ‘ غزوۂ بدر پیش آیا چاہتا ہے۔ آیت 243 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ یعنی جب کفار اور مشرکین نے ان پر غلبہ کرلیا اور یہ دہشت زدہ ہو کر ‘ اپنے ملک چھوڑ کر ‘ اپنے گھروں سے نکل بھاگے۔فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْاقف ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ط یہاں موت سے مراد خوف اور بزدلی کی موت بھی ہوسکتی ہے جو ان پر بیس برس طاری رہی ‘ پھر سیموئیل نبی کی اصلاح و تجدید کی کوششوں سے ان کی نشأۃِ ثانیہ ہوئی اور اللہ نے ان کے اندر ایک جذبہ پیدا کردیا۔ گویا یہاں پر موت اور احیاء سے مراد معنوی اور روحانی و اخلاقی موت اور احیاء ہے۔ لیکن بالفعل جسدی موت اور احیاء بھی اللہ کے اختیار سے باہر نہیں ‘ اس کی قدرت میں ہے ‘ وہ سب کو مار کر بھی دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ اکثر لوگ شکر گزاری کی روش اختیار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ناقدری کرتے ہیں۔اب سابقہ امت مسلمہ کے غزوۂ بدر کا حال بیان کرنے سے پہلے مسلمانوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی ہدایت کے لیے بیان ہو رہا ہے ‘ تاریخ بیان کرنا قرآن کا مقصد نہیں ہے۔ یہ توٌ رسول اللہ ﷺ کی انقلابیّ جدوجہدُ کی تحریک جس مرحلے سے گزر رہی تھی اور انقلابی عمل جس سٹیج پر پہنچ چکا تھا اس کی مناسبت سے سابقہ امت مسلمہ کی تاریخ سے واقعات بھی لائے جا رہے ہیں اور اسی کی مناسبت سے احکام بھی دیے جا رہے ہیں۔

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 اب جو دو رکوع زیر مطالعہ آ رہے ہیں یہ اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان میں اس جنگ کا تذکرہ ہے جس کی حیثیت گویا تاریخ بنی اسرائیل کے غزوۂ بدر کی ہے۔ قبل ازیں یہ بات ذکر کی جا چکی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل نے یوشع بن نون کی سرکردگی میں جہاد و قتال کیا تو فلسطین فتح ہوگیا۔ لیکن انہوں نے ایک مستحکم حکومت قائم کرنے کی بجائے چھوٹی چھوٹی بارہ حکومتیں بنا لیں اور آپس میں لڑتے بھی رہے۔ لیکن تین سو برس کے بعد پھر یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ جب ان کے اوپر دنیا تنگ ہوگئی اور آس پاس کی کافر اور مشرک قوموں نے انہیں دبا لیا اور بہت سوں کو ان کے گھروں اور ان کے ملکوں سے نکال دیا تو پھر تنگ آکر انہوں نے اس وقت کے نبی سے کہا کہ ہمارے لیے کوئی بادشاہ ‘ یعنی سپہ سالار مقرر کردیجیے ‘ اب ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے۔ چناچہ وہ جو جنگ ہوئی ہے طالوت اور جالوت کی ‘ اس کے بعد گویا بنی اسرائیل کا دور خلافت راشدہ شروع ہوا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ کا یہ دور جسے میں خلافت راشدہ سے تعبیر کر رہا ہوں ‘ ان کے رسول علیہ السلام کے انتقال کے تین سو برس بعد شروع ہوا ‘ جبکہ اس امت مسلمہ کی خلافت راشدہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے ساتھّ متصل ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رض نے جانیں دیں ‘ خون دیا ‘ قربانیاں دیں اور اس کے نتیجے میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں دین غالب ہوگیا اور اسلامی ریاست قائم ہوگئی۔ نتیجتاً آپ ﷺ کے انتقال کے بعد خلافت کا دور شروع ہوگیا ‘ لیکن وہاں تین سو برس گزرنے کے بعد ان کا دور خلافت آیا ہے۔ اس میں بھی تین خلافتیں تو متفق علیہ ہیں۔ یعنی حضرت طالوت ‘ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت۔ لیکن چوتھی خلافت پر آکر تقسیم ہوگئی۔ جیسے حضرت علی رض خلیفۂ رابع کے زمانے میں عالم اسلام منقسم ہوگیا کہ مصر اور شام نے حضرت علی رض کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی طرح فلسطین کی مملکت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوگئی ‘ اور اسرائیل اور یہودیہ کے نام سے دو ریاستیں وجود میں آگئیں۔ قرآن حکیم میں اس مقام پر طالوت اور جالوت کی اس جنگ کا تذکرہ آ رہا ہے جس کے بعد تاریخ بنی اسرائیل میں اسلام کے غلبے اور خلافت راشدہ کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ درحقیقت صحابہ کرام رض کو ایک آئینہ دکھایا جا رہا ہے کہ اب یہی مرحلہ تمہیں درپیش ہے ‘ غزوۂ بدر پیش آیا چاہتا ہے۔ آیت 243 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَہُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ یعنی جب کفار اور مشرکین نے ان پر غلبہ کرلیا اور یہ دہشت زدہ ہو کر ‘ اپنے ملک چھوڑ کر ‘ اپنے گھروں سے نکل بھاگے۔فَقَالَ لَہُمُ اللّٰہُ مُوْتُوْاقف ثُمَّ اَحْیَاہُمْ ط یہاں موت سے مراد خوف اور بزدلی کی موت بھی ہوسکتی ہے جو ان پر بیس برس طاری رہی ‘ پھر سیموئیل نبی کی اصلاح و تجدید کی کوششوں سے ان کی نشأۃِ ثانیہ ہوئی اور اللہ نے ان کے اندر ایک جذبہ پیدا کردیا۔ گویا یہاں پر موت اور احیاء سے مراد معنوی اور روحانی و اخلاقی موت اور احیاء ہے۔ لیکن بالفعل جسدی موت اور احیاء بھی اللہ کے اختیار سے باہر نہیں ‘ اس کی قدرت میں ہے ‘ وہ سب کو مار کر بھی دوبارہ زندہ کرسکتا ہے۔اِنَّ اللّٰہَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَ یَشْکُرُوْنَ اکثر لوگ شکر گزاری کی روش اختیار کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کی ناقدری کرتے ہیں۔اب سابقہ امت مسلمہ کے غزوۂ بدر کا حال بیان کرنے سے پہلے مسلمانوں سے گفتگو ہو رہی ہے۔ اس لیے کہ یہ سب کچھ ان کی ہدایت کے لیے بیان ہو رہا ہے ‘ تاریخ بیان کرنا قرآن کا مقصد نہیں ہے۔ یہ توٌ رسول اللہ ﷺ کی انقلابیّ جدوجہدُ کی تحریک جس مرحلے سے گزر رہی تھی اور انقلابی عمل جس سٹیج پر پہنچ چکا تھا اس کی مناسبت سے سابقہ امت مسلمہ کی تاریخ سے واقعات بھی لائے جا رہے ہیں اور اسی کی مناسبت سے احکام بھی دیے جا رہے ہیں۔

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 245 مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط جو انفاق خالص اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے کیا جاتا ہے اسے اللہ اپنے ذمے ّ قرض حسنہ سے تعبیر کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تم میرے دین کو غالب کرنا چاہتے ہو ‘ میری حکومت قائم کرنا چاہتے ہو ‘ تو جو کچھ اس پر خرچ کرو گے وہ مجھ پر قرض ہے ‘ جسے میں کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کروں گا۔ وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْصُطُ اور اللہ تنگ دستی بھی دیتا ہے اور کشادگی بھی دیتا ہے۔ اللہ ہی کے اختیار میں ہے کسی چیز کو سکیڑ دینا اور کھول دینا ‘ کسی کے رزق کو تنگ کردینا یا اس میں کشائش کردینا۔ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ یہاں دیکھئے جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں چیزوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ جہاد بالنفس کی آخری شکل قتال ہے اور جہاد بالمال کے لیے پہلے لفظ انفاق آ رہا تھا ‘ اب قرض حسنہ لایا جا رہا ہے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

📘 آیت 246 اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْم بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ مِنْم بَعْدِ مُوْسٰی 7 اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ط یہاں بادشاہ سے مراد امیر اور سپہ سالار ہے۔ ظاہر بات ہے کہ نبی کی موجودگی میں بلندترین مرتبہ تو نبی ہی کا رہے گا ‘ لیکن ایک ایسا امیر نامزد کردیجیے جو نبی کے تابع ہو کر جنگ کی سپہ سالاری کرسکے۔ میں حدیث بیان کرچکا ہوں کہ بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک کوئی نہ کوئی نبی ضرور موجود رہا ہے۔ اس وقت سیموئیل نبی تھے جن سے سرداران بنی اسرائیل نے یہ فرمائش کی تھی۔قَالَ ہَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلاَّ تُقَاتِلُوْا ط یعنی ابھی تو تمہارے بڑے دعوے ہیں ‘ بڑے جوش و خروش اور بہادری کا اظہار کر رہے ہو ‘ لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ میں اللہ تعالیٰ سے جنگ کی اجازت بھی لوں اور تمہارے لیے کوئی سپہ سالار یا بادشاہ بھی مقرر کر دوں اور پھر تم جنگ سے کنی کترا جاؤ ؟قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلاَّ نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاََبْنَآءِنَا ط دشمنوں نے ان کے بیٹوں کو غلام اور ان کی عورتوں کو باندیاں بنا لیا تھا اور یہ اپنے ملکوں سے خوف کے مارے بھاگے ہوئے تھے۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ اب ہم جنگ نہیں کریں گے تو کیا کریں گے ؟فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا الاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ط یہ گویا مسلمانوں کو تنبیہہ کی جا رہی ہے کہ تم بھی بہت کہتے رہے ہو کہ حضور ہمیں جنگ کی اجازت ملنی چاہیے ‘ لیکن ایسا نہ ہو کہ جب جنگ کا حکم آئے تو وہ تمہیں ناگوار گزرے۔ آیت 216 میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں : کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ ج تم پر جنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 247 وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اللّٰہَ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا ط۔ ان کا نام تورات میں ساؤل Saul آیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اصل نام ساؤل ہو ‘ لیکن چونکہ وہ بہت قد آور تھے اس لیے ان کا ایک صفاتی نام یا لقب طالوت ہو۔ طالوت کے معنی لمبے تڑنگے کے ہیں۔قَالُوْٓا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ ط۔ وہ تو مفلس ہے ‘ اسے تو اللہ تعالیٰ نے زیادہ دولت بھی نہیں دی ہے۔ کیونکہ ان کے معیارات یہی تھے کہ جو دولت مند ہے وہی صاحب عزت ہے۔قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٹہُ عَلَیْکُمْ ۔ یہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ‘ Divine Decision ہے ‘ جسے کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔ اللہ نے اسی کو تمہاری سرداری کے لیے چنا ہے۔وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِی الْْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ط۔ وہ نہ صرف قد آور اور طاقت ور ہے بلکہ اللہ نے اسے علم اور فہم بھی وافر عطا فرمایا ہے ‘ اسے امور جنگ سے بھی واقفیت ہے۔ تمہارے نزدیک عزت اور سرداری کا معیار دولت ہے ‘ مگر اللہ نے اسے ان دو چیزوں کی بنا پر چنا ہے۔ ایک تو وہ جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور ہے۔ اس دور میں ظاہر بات ہے اس کی بہت ضرورت تھی۔ اور دوسرے یہ کہ اسے علم ‘ فہم ‘ سمجھ اور دانش دی ہے۔ وَاللّٰہُ یُؤْتِیْ مُلْکَہٗ مَنْ یَّشَآءُ ط۔ اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جس کو چاہے دے ‘ وہ جسے چاہے اپنی طرف سے اقتداربخشے۔وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ اس کی وسعت اتھاہ ہے ‘ کوئی اس کا اندازہ نہیں کرسکتا ‘ اور وہ بڑا علم رکھنے والا ہے ‘ سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ جس کو جو کچھ دیتا ہے بربنائے علم دیتا ہے کہ کون اس کا مستحق ہے۔

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 248 وَقَالَ لَہُمْ نَبِیُّہُمْ اِنَّ اٰیَۃَ مُلْکِہٖٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّۃٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ہٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلآءِکَۃُ ط طالوت کی امارت اور بادشاہی کی علامت کے طور پر وہ صندوق تمہارے پاس واپس آجائے گا۔ اصل میں یہ تابوت سکینہ لکڑی کا ایک بہت بڑا صندوق تھا ‘ جس میں بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیہ السلام کے تبرکات محفوظ تھے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ صندوق اب بھی مسجد اقصیٰ کے نیچے سرنگ میں موجود ہے۔ انہوں نے بعض ذرائع سے فوٹو لے کر اس کی دستاویزی فلم بھی دکھا دی ہے۔ یہ تابوت سکینہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تعمیر کردہ ہیکل کے تہہ خانے میں رکھا ہوا تھا اور وہیں پر ربائیّ رَبَّانِیِّیْنَ بھی موجود تھے۔ جب اس ہیکل کو منہدم کیا گیا تو وہ اسی میں دب گئے۔ وہ تہہ خانہ چاروں طرف سے بند ہوگیا ہوگا اور ان کی لاشیں اور تابوت سکینہ اس کے اندر ہی ہوں گے۔ تابوت سکینہ میں بنی اسرائیل کے لیے بہت بڑی روحانی تسکین کا سامان تھا کہ ہمارے پاس حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات ہیں۔ اس میں عصائے موسیٰ بھی تھا اور وہ الواح بھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہ طور پر دی گئی تھیں اور جن پر تورات لکھی ہوئی تھی۔ اس تابوت کو دیکھ کر بنی اسرائیل کو اسی طرح تسکین ہوتی تھی جیسے ایک مسلمان کو خانۂ کعبہ کو دیکھ کر تسکین ہوتی ہے۔ اسرائیلیوں کو جب ان کے پڑوسی ملکوں نے شکست دی تو وہ تابوت سکینہ بھی چھین کرلے گئے۔ پوری قوم نے اس عظیم سانحے پر ماتم کیا اور اسے بنی اسرائیل سے ساری عزت و حشمت چھن جانے سے تعبیر کیا گیا۔ چناچہ اس سے ان کے حوصلے مزید پست ہوگئے۔ اب جبکہ اسرائیلیوں نے جنگ کا ارادہ کیا اور وقت کے نبی حضرت سیموئیل علیہ السلام نے طالوت کو ان کا امیر مقرر کیا تو انہیں یہ بھی بتایا کہ طالوت کو اللہ کی طرف سے نامزد کیے جانے کی ایک علامت یہ ہوگی کہ تمہاری تسکین کا سامان تابوت سکینہ جو تم سے چھن گیا تھا ‘ ان کے عہد امارت میں تمہیں واپس مل جائے گا اور اس وقت وہ فرشتوں کی تحویل میں ہے۔ ہوا یہ کہ ان کے دشمن جب تابوت چھین کرلے گئے تو وہ ان کے لیے ایک مصیبت بن گیا۔ وہ اسے جہاں رکھتے وہاں طاعون اور دوسری وبائیں پھوٹ پڑتیں۔ بالآخر انہوں نے اسے نحوست کا باعث سمجھتے ہوئے ایک چھکڑے پر رکھا اور بیلوں کو ہانک دیا کہ جدھر چاہیں لے جائیں۔ بیل سیدھے چلتے چلتے اسے بنی اسرائیل کے علاقے میں لے آئے۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ فرشتوں کی راہنمائی سے ہوا۔ اس طرح وہ تابوت سکینہ ان کے پاس واپس پہنچ گیا جو برسوں پہلے ان سے چھن چکا تھا۔

فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ

📘 آیت 249 فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بالْجُنُوْدِ لا قَالَ اِنَّ اللّٰہَ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَہَرٍج فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّیْ ج وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہٗ مِنِّیْ اِلاَّ مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَۃًم بِیَدِہٖج اصل میں ہر کمانڈر کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ کسی بھی بڑی جنگ سے پہلے اپنے ساتھیوں کے جوش و جذبہ اور عزم و حوصلہ ‘ morale کو پرکھے اور نظم ‘ discipline کی حالت کو دیکھے۔ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے بھی غزوۂ بدر سے قبل مشاورت کی تھی کہ مسلمانو ! ایک طرف جنوب سے کیل کانٹے سے لیس ایک لشکر آ رہا ہے اور دوسری طرف شمال سے مال و اسباب سے لدا پھندا ایک قافلہ آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک تمہیں ضرور ملے گا۔ بتاؤ کدھر چلیں ؟ کچھ لوگ جو کمزوری دکھا رہے تھے انہوں نے کہا کہ چلیں پہلے قافلہ لوٹ لیں ! اور جو لوگ باہمت تھے انہوں نے کہا حضور ! جو آپ ﷺ کا ارادہ ہو ‘ جو آپ ﷺ ‘ کی منشا ہو ‘ آپ ﷺ اس کے مطابق فیصلہ فرمایئے ‘ ہم حاضر ہیں ! تو یہاں بھی طالوت نے اپنے لشکریوں کا ٹیسٹ لیا کہ وہ میرے حکم کی پابندی کرتے ہیں یا نہیں کرتے۔فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلاَّ قَلِیْلاً مِّنْہُمْ ط فَلَمَّا جَاوَزَہٗ ہُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ لا واضح رہے کہ سب سے پہلی سکریننگ قبل ازیں ہوچکی تھی۔ ان میں سے جو قتال ہی کے منکر ہوگئے ‘ تھے وہ پہلے ہی الگ ہوچکے تھے۔ اب یہ دوسری چھلنی تھی۔ جو اس میں سے نہیں نکل سکے وہ پانی پی کر بےسدھ ہوگئے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے غزوۂ احد میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہزار آدمی مدینہ منورہ سے نکلے تھے اور پھر عین وقت پر تین سو افراد ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ تو جب طالوت اور ان کے ان ساتھیوں نے جو ایمان پر ثابت قدم رہے تھے ‘ دریا پار کرلیا۔۔قَالُوْا لاَ طَاقَۃَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ ط۔ جالوت ‘ Goliath بڑا قوی ہیکل اور گرانڈیل انسان تھا۔ زرہ بکتر میں اس کا پورا جسم اس طرح چھپا ہوا تھا کہ سوائے آنکھ کے سوراخ کے جسم کا کوئی حصہ کھلا نہیں تھا۔ اس کی مبارزت کے جواب میں کوئی بھی مقابلے پر نہیں آ رہا تھا۔قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوا اللّٰہِ لاکَمْ مِّنْ فِءَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِءَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط۔سو تم آگے بڑھو ‘ ہمت کرو ‘ اپنی کم ہمتی کا ثبوت نہ دو۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد سے تمہیں فتح حاصل ہوجائے گی۔

وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 25 وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ط یہ لفظی ترجمہ ہے۔ مراد اس سے یہ ہے کہ جن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی۔ اس لیے کہ فطری باغ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جس میں ذرا اونچائی پر درخت لگے ہوئے ہیں اور دامن میں ندی بہہ رہی ہے ‘ جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور درختوں کی جڑوں تک پانی پہنچ رہا ہے۔ کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَۃٍ رِّزْقًا لا قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُلا وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ط اس کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ جنت میں اہل جنت کی جو ابتدائی دعوت یا ابتدائی ضیافت نُزُل ہوگی اس میں انہیں وہی پھل پیش کیے جائیں گے جو دنیا میں معروف ہیں ‘ مثلاً انار ‘ انگور ‘ سیب ‘ کھجور وغیرہ۔ اہل جنت انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہم دنیا میں کھاتے آئے ہیں ‘ لیکن جب انہیں چکھیں گے تو ظاہری مشابہت کے باوجود ذائقے میں زمین و آسمان کا فرق پائیں گے۔ اور ایک مفہوم یہ بھی لیا گیا ہے کہ اہل جنت کو جنت میں بھی وہی پھل ملتے رہیں گے ‘ لیکن ہر بار ان کا ذائقہ بدلتا رہے گا۔ ان کی شکل و صورت وہی رہے گی ‘ لیکن ذائقہ وہ نہیں رہے گا۔ لہٰذا یہ دنیا والا معاملہ نہیں ہوگا کہ ایک ہی شے کو کھاتے کھاتے انسان کی طبیعت بھر جاتی ہے۔ وَلَھُمْ فِیْھَآ اَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌق وَّھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ان پانچ آیات 21 تا 25 میں ایمانیات ثلاثہ یعنی ایمان باللہ ‘ ایمان بالرسول اور ایمان بالآخرۃ کی دعوت آگئی۔ اب آگے کچھ ضمنی مسائل زیربحث آئیں گے۔

وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 250 وَلَمَّا بَرَزُوْا لِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہٖ بَرَزَ کے معنی ہیں ظاہر ہوجانا ‘ آمنے سامنے آجانا۔ اب دونوں لشکر میدان جنگ میں آمنے سامنے آئے۔ ادھر طالوت کا لشکر ہے اور ادھر جالوت کا۔قَالُوْا رَبَّنَآ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا اَفْرَغَ کا مفہوم ہے کسی برتن سے کسی کے اوپر پانی اس طرح گرا دینا کہ وہ برتن خالی ہوجائے۔ طالوت اور ان کے ساتھی اہل ایمان نے دشمن کے ّ مدمقابل آنے پر دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار ! ہم پر صبر کا فیضان فرما ‘ صبر کی بارش فرما دے۔ وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ۔ یہ دعا گویا اہل ایمان کو تلقین کی جا رہی ہے کہ جب بدر کے موقع پر تمہارا کفارّ سے مقابلہ ہوگا تو تمہیں یہ دعا کرنی چاہیے۔

فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ

📘 آیت 251 فَہَزَمُوْہُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ قف۔ اہل ایمان نے اللہ کے اذن سے اور اللہ کی مشیتّ سے دشمنوں کو شکست دی۔وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ یہ داؤد وہی حضرت داؤد علیہ السلام ہیں جو جلیل القدر نبی اور بادشاہ ہوئے۔ ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام تھے۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ داؤد ایک گڈریے تھے اور جنگل میں اپنی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ ان کے پاس ایک گوپیا ہوتا تھا ‘ جس کے اندر پتھر رکھ کر وہ اس کو گھما کر مارتے تھے۔ نشانہ اتنا صحیح تھا کہ اس سے وہ اپنی بکریوں پر حملہ کرنے والے جنگلی جانوروں کے جبڑے توڑ دیا کرتے تھے۔ جب طالوت اور جالوت کے لشکر آمنے سامنے تھے تو داؤد اتفاقاً وہاں آ نکلے۔ انہوں نے دیکھا کہ جالوت للکار رہا ہے کہ ہے کوئی جو میرے مقابلہ میں آئے ؟ لیکن ادھر سب کے سب سہمے کھڑے ہیں ‘ کوئی آگے نہیں بڑھ رہا۔ یہ دیکھ کر ان کی غیرت کو جوش آگیا۔ انہوں نے طالوت سے اس کے مقابلے کی اجازت مانگی اور کہنے لگے کہ میں تو اپنے گوپیے سے شیروں کے جبڑے توڑ دیا کرتا ہوں ‘ بھلا اس نامختون کی کیا حیثیت ہے ‘ میں ابھی اس کو کیفر کردار تک پہنچاتا ہوں۔ واضح رہے کہ ختنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور یہّ ملت ابراہیمی میں ہمیشہ رائج رہا ہے۔ لیکن کفار اور مشرکین کے ہاں ختنہ کا رواج نہیں تھا۔ چناچہ نامختون بنی اسرائیل کے ہاں سب سے بڑی گالی تھی۔ داؤد علیہ السلام نے سپہ سالار کی اجازت سے اپنا گوپیا اور چند پتھر اٹھائے اور دیوہیکل جالوت کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ جالوت نے ان کا مذاق اڑایا ‘ لیکن انہوں نے اپنے گوپیے میں ایک پتھر رکھ کر ایسے گھما کر چھوڑا کہ وہ سیدھا آنکھ کے سوراخ سے پار ہو کر اس کے بھیجے کے اندر اتر گیا اور جالوت وہیں ڈھیر ہوگیا۔وَاٰتٰٹہ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ط۔ طالوت نے داؤد علیہ السلام سے اپنی بیٹی کا نکاح کردیا ‘ اس طرح وہ طالوت کے داماد ہوگئے۔ پھر طالوت نے انہی کو اپنا وارث بنایا اور یہ بادشاہ ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حکومت و سلطنت بھی عطا فرمائی اور حکمت و نبوت سے بھی نوازا۔ ان دونوں اعتبارات سے اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو سرفراز فرمایا۔ یہ سب انعامات اس واقعے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام پر ہوئے۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ اللہ نے انہیں سکھایا جو کچھ کہ اللہ نے چاہا۔وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ زمین میں جب بھی فساد ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کوئی شکل ایسی پیدا کرتا ہے کہ کسی اور گروہ کو سامنے لا کر مفسدوں کا خاتمہ کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو زمین میں فساد ہی فساد پھیل گیا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جنگوں کے ذریعہ سے فسادی گروہوں کا خاتمہ فرمایا ہے۔ ہر بڑا فرعون جو آتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے مقابل کسی موسیٰ کو کھڑا کردیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر سرکش اور فسادی کے لیے کوئی نہ کوئی علاج تجویز کیا ہوا ہے۔

تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ

📘 آیت 252 تِلْکَ اٰیٰتُ اللّٰہِ نَتْلُوْہَا عَلَیْکَ بالْحَقِّ ط۔ یہ قول گویا حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف منسوب ہوگا۔ یہ رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں سے خطاب ہے کہ یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم آپ ﷺ کو سنا رہے ہیں حق کے ساتھ۔ یہ ایک بامقصد سلسلہ ہے۔

۞ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

📘 آیت 253 تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ 7 یہ ایک بہت اہم اصول بیان ہو رہا ہے۔ یہ بات قبل ازیں بیان کی جا چکی ہے کہ تفریق بین الرسل کفر ہے ‘ جبکہ تفضیل قرآن سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں میں سے ہر ایک کو کسی نہ کسی پہلو سے فضیلت بخشی ہے اور اس اعتبار سے وہ دوسروں پر ممتاز ہے۔ چناچہ جزوی فضیلتیں مختلف رسولوں کی ہوسکتی ہیں ‘ البتہ کلیّ فضیلت تمام انبیاء و رسل علیہ السلام پر محمد رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا خاص پہلو ہے۔وَرَفَعَ بَعْضَہُمْ دَرَجٰتٍ ط وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْم بَعْدِہِمْ یعنی نہ تو یہودیوں کی آپس میں جنگیں ہوتیں ‘ نہ یہودیوں اور نصرانیوں کی لڑائیاں ہوتیں ‘ اور نہ ہی نصرانیوں کے فرقے ایک دوسرے سے لڑتے۔مِّنْم بَعْدِ مَا جَآءَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَلٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَمِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ ط وَلَوْ شَآء اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْاقف یعنی اگر اللہ تعالیٰ جبراً تکوینی طور پر ان پر لازم کردیتا تو وہ اختلاف نہ کرتے اور آپس میں جنگ وجدال سے باز رہتے۔وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اس حکمت پر بنایا ہے کہ دنیا کی یہ زندگی آزمائش ہے۔ چناچہ آزمائش کے لیے اس نے انسان کو آزادی دی ہے۔ تو جو شخص غلط راستے پر جانا چاہتا ہے اسے بھی آزادی ہے اور جو صحیح راستے پر آنا چاہے اسے بھی آزادی ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 تقریباً دو رکوعوں پر مشتمل طالوت اور جالوت کی جنگ کے واقعات ہم پڑھ چکے ہیں اور اب گویا غزوۂ بدر کے لیے ذہنی اور نفسیاتی تیاری ہو رہی ہے۔ غزوات کے لیے جہاں سرفروشی کی ضرورت ہے وہاں انفاق مال بھی ناگزیر ہے۔ چناچہ اب یہاں بڑے زور دار انداز میں انفاق مال کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ سورة البقرۃ کے نصف آخر میں چار مضامین تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ یعنی انفاق مال ‘ قتال ‘ عبادات اور معاملات۔ یہ گویا چار ڈوریاں ہیں جو ان بائیس رکوعوں کے اندر تانے بانے کی طرح گتھی ہوئی ہیں۔آیت 254 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خُلَّۃٌ وَّلاَ شَفَاعَۃٌ ط وَالْکٰفِرُوْنَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ یہاں کافر سے مراد اصطلاحی کافر نہیں ‘ بلکہ معنوی کافر ہیں ‘ یعنی اللہ کے حکم کا انکار کرنے والے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اس حکم انفاق کی تعمیل نہیں کرتا ‘ دیکھتا ہے کہ دین مغلوب ہے اور اس کو غالب کرنے کیّ جدوجہدُ ہو رہی ہے ‘ اس کے کچھ تقاضے ہیں ‘ اس کی مالی ضرورتیں ہیں اور اللہ نے اسے مقدرت دی ہے کہ اس میں خرچ کرسکتا ہے لیکن نہیں کرتا ‘ وہ ہے اصل کافر۔اس کے بعد اب وہ آیت آرہی ہے جو ازروئے فرمان نبوی ﷺ قرآن حکیم کی عظیم ترین آیت ہے ‘ یعنی آیۃ الکرسی۔ اس کا نام بھی معروف ہے۔ میں نے آپ کو سورة البقرۃ میں آنے والے حکمت کے بڑے بڑے موتی اور بڑے بڑے پھول گنوائے ہیں ‘ مثلاً آیۃ الآیات ‘ آیۃ البر ‘ آیۃ الاختلاف ‘ اور اب یہ آیۃ الکرسی ہے جو توحید کے عظیم ترین خزانوں میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے تمام آیات قرآنی کی سردار قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لِکُلِّ شَیْءٍ سَنَامٌ وَاِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ ‘ وَفِیْھَا آیَۃٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ آیِ الْقُرْآنِ ‘ ھِیَ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ 32ہر شے کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور یقیناً قرآن حکیم کی چوٹی سورة البقرۃ ہے ‘ اس میں ایک آیت ہے جو آیات قرآنی کی سردار ہے ‘ یہ آیۃ الکرسی ہے۔جس طرح آیۃ البر اور سورة العصر میں ایک نسبت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور نجات کی ساری کی ساری شرائط ایک چھوٹی سی سورة میں جمع کردیں : وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بالْحَقِّ 5 وَتَوَاصَوْا بالصَّبْرِ لیکن اس کی تفصیل ایک آیت میں بیان ہوئی ہے اور وہ آیۃ البر ہے۔ چناچہ ہم نے مطالعۂ قرآن حکیم کا جو منتخب نصاب مرتبّ کیا ہے اس میں پہلا درس سورة العصر کا ہے اور دوسرا آیۃ البر کا ہے۔ یہی نسبت آیۃ الکرسی اور سورة الاخلاص میں ہے۔ سورة العصر ایک مختصر سی سورت ہے جبکہ آیۃ البر ایک طویل آیت ہے۔ اسی طرح سورة الاخلاص چار آیات پر مشتمل ایک چھوٹی سی سورت ہے اور یہ آیۃ الکرسی ایک طویل آیت ہے۔ سورة الاخلاص توحید کا عظیم ترین خزانہ ہے اور توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے ‘ چناچہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ُ ثلث قرآن قرار دیا ہے ‘ جبکہ توحید اور خاص طور پر توحید فی الصفات کے موضوع پر قرآن کریم کی عظیم ترین آیت یہ آیۃ الکرسی ہے۔

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ

📘 آیت 255 اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ ج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج ۔ وہ از خود اور باخود زندہ ہے۔ اس کی زندگی مستعار نہیں ہے۔ اس کی زندگی ہماری زندگی کی مانند نہیں ہے ‘ جس کے بارے میں بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ؂عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں !اللہ تعالیٰ کی زندگی حیات مستعار نہیں ہے ‘ وہ کسی کی دی ہوئی نہیں ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی ضعف ‘ کوئی کمزوری اور کوئی احتیاج نہیں ہے۔ وہ خود اپنی جگہ زندہ وجاوید ہستی ہے اور باقی ہر شے کا وجود اس کے حکم سے قائم ہے۔ وہ اَلْقَیُّوْمُ ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی شے قائم نہیں ہے۔ سورة الاخلاص میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو الفاظ اَلْاَحَدُ اور الصَّمَدُ آئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ اَلْاَحَدُ ہے لیکن باقی پوری کائنات کے لیے الصَّمَدُ ہے۔ اسی طرح وہ از خود اَلْحَیُّ ہے اور باقی پوری کائنات کے لیے اَلْقَیُّوْمُ ہے۔لاَ تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ ط نہ اس پر اونگھ غالب آتی ہے نہ نیند۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط ہر شے کی ملکیت تامہّ اور ملکیت حقیقی اسی کی ہے۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ الاَّ بِاِذْنِہٖ ط سورۃ البقرۃ میں قبل ازیں تین مرتبہ قیامت کے روز کسی شفاعت کا دو ٹوک انداز میں انکار ‘ categorical denial کیا گیا ہے کہ کوئی شفاعت نہیں ! یہاں بھی بہت ہی جلالی انداز اختیار کیا گیا ہے : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ یعنی کس کی یہ حیثیت ہے ‘ کس کا یہ مقام ہے ‘ کس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی حیثیت کی بنیاد پر اللہ کے حضور کسی کی شفاعت کرسکے ؟ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ ط ہاں ‘ جس کے لیے اللہ اجازت دے دے ! یہاں پہلی مرتبہ استثناء کے ساتھ شفاعت کا ذکر آیا ہے ‘ ورنہ سورة البقرۃ کے چھٹے رکوع کی دوسری آیت میں ہم الفاظ پڑھ چکے ہیں : وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اس روز کسی کی طرف سے کوئی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اسی طرح پندرہویں رکوع کی دوسری آیت میں الفاظ آئے ہیں : وَّلاَ تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اس کو کسی کی شفاعت ہی فائدہ دے گی۔ اور اب اس رکوع کی پہلی آیت میں آچکا ہے : وََلاَ شَفَاعَۃٌ اور نہ کوئی شفاعت مفید ہوگی۔ لیکن یہاں ایک استثناء بیان کیا جا رہا ہے کہ جس کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت حاصل ہوگا وہ اس کے حق میں شفاعت کرسکے گا جس کے لیے اذن ہوگا۔ یہ ذرا باریک مسئلہ ہے کہ شفاعت حقہ کیا ہے اور شفاعت باطلہ کیا ہے۔ دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران اس پر تفصیل کے ساتھ بحث نہیں کی جاسکتی۔ اس پر میں اپنے تفصیلی درس ریکارڈ کرا چکا ہوں۔ ّ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ج۔ عام طور پر دنیا میں ہم کسی کی سفارش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بھئی میں اس شخص کو بہتر جانتا ہوں ‘ اصل میں یہ جیسا کچھ نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے ‘ اس کے بارے میں جو معلومات آپ تک پہنچی ہیں وہ مبنی بر حقیقت نہیں ہیں ‘ اصل حقائق کچھ اور ہیں ‘ وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یہ بات اللہ کے سامنے کون کہہ سکتا ہے ؟ جبکہ اللہ تو جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ الاَّ بِمَاشَآءَ ج۔ باقی ہر ایک کے پاس جو علم ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ‘ عطائی علم ہے۔ بڑے سے بڑے ولی ‘ بڑے سے بڑے رسول اور بڑے سے بڑے فرشتے کا علم بھی محدود ہے۔ فرشتوں کا قول لَا عِلْمَ لَنَا الاَّ مَا عَلَّمْتَنَا ہم چوتھے رکوع میں پڑھ آئے ہیں۔ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج یہاں کرسی کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا اقتدار ‘ اس کی قدرت اور اس کا اختیار Authority پوری کائنات کے اوپر حاوی ہے۔ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار کی علامت کے طور پر واقعتا کوئی مجسمّ شے بھی ہو جس کو ہم کرسی کہہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے عرش اور کرسی کے بارے میں یہ دونوں باتیں ذہن میں رکھیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی کوئی مجسمّ حقیقت ہو جو ہمارے ذہن اور تخیل سے ماورا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے استعارہ مراد ہو کہ اس کا اختیار اور اقتدار آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔وَلاَ یئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا ج۔ آسمانوں اور زمین کی حفاظت اور ان کا تھامنا اس پر ذرا بھی گراں نہیں اور اس سے اس پر کوئی تکان طاری نہیں ہوتی۔وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۔ یہ آیۃ الکرسی ہے جو تمام آیات قرآنی کی سردار اور توحید الٰہی کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ اس کے بعد آنے والی دو آیات بھی حکمت اور فلسفۂ دین کے اعتبار سے بڑی عظیم آیات ہیں۔

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 256 لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قف اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اسلام میں کسی فرد کو جبراً مسلمان بنانا حرام ہے۔ لیکن اس آیت کا یہ مطلب نکال لینا کہ نظام باطل کو ختم کرنے کے لیے بھی کوئی طاقت استعمال نہیں ہوسکتی ‘ پرلے َ درجے کی حماقت ہے۔ نظام باطل ظلم پر مبنی ہے اور یہ لوگوں کا استحاصل کر رہا ہے۔ یہ اللہ اور بندوں کے درمیان حجاب اور آڑ بن گیا ہے۔ لہٰذا نظام باطل کو طاقت کے ساتھ ختم کرنا مسلمان کا فرض ہے۔ اگر طاقت موجود نہیں ہے تو طاقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ‘ لیکن جس مسلمان کا دل نظام باطل کو ختم کرنے کی آرزو اور ارادے سے خالی ہے اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔ طاقت اور جبر نظام باطل کو ختم کرنے پر صرف کیا جائے گا ‘ کسی فرد کو مجبوراً مسلمان نہیں بنایا جائے گا۔ یہ ہے اصل میں اس آیت کا مفہوم۔قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج ۔ جتنی بھی کجیاں ہیں ‘ غلط راستے ہیں ‘ شیطانی پگڈنڈیاں ہیں صراط مستقیم کو ان سے بالکل مبرہن کردیا گیا ہے۔فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْتِ دیکھئے ‘ اللہ پر ایمان لانے سے پہلے طاغوت کا انکار ضروری ہے۔ جیسے کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ میں پہلے ہر اِلٰہ کی نفی ہے اور پھر اللہ کا اثبات ہے۔ طاغوت طَغٰی سے ہے ‘ یعنی سرکش۔ تو جس نے اپنی حاکمیت کا اعلان کیا وہ طاغوت ہے ‘ جس نے غیر اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کیا وہ بھی طاغوت ہے اور غیر اللہ کی حاکمیت کے تحت بننے والے سارے ادارے طاغوت ہیں ‘ خواہ وہ کتنے ہی خوشنما ادارے ہوں۔ عدلیہ کے نام سے ایک ادارہ اگر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کر رہا ‘ کچھ اور لوگوں کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے کر رہا ہے تو وہ طاغوت ہے۔ مقننہ کا ادارہ اگر اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق قانون سازی نہیں کر رہا تو وہ بھی طاغوت ہے۔ جو کوئی بھی اللہ کے حدود بندگی سے تجاوز کرتا ہے وہ طاغوت ہے۔ دریا جب اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے تو یہ طغیانی ہے : ؂دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے !طغٰی اور بغٰی دونوں بڑے قریب کے الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم طغیانی اور بغاوت ہے۔ فرمایا کہ جو کوئی کفر کرے طاغوت کے ساتھ۔وَیُؤْمِنْم باللّٰہِ طاغوت سے دوستی اور اللہ پر ایمان دونوں چیزیں یکجا نہیں ہوسکتیں۔ اللہ کے دشمنوں سے بھی یارا نہ ہو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا دعویٰ بھی ہو یہی تو منافقت ہے۔ جبکہ اسلام تو حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے مصداق کامل یکسوئی کے ساتھ اطاعت شعاری کا مطالبہ کرتا ہے۔فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ج۔ جس شخص نے یہ کام کرلیا کہ طاغوت کی نفی کی اور اللہ پر ایمان لایا اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا۔ یوں سمجھئے اگر کوئی شخص سمندری جہاز کے عرشے سے سمندر میں گرجائے ‘ اسے تیرنا بھی نہ آتا ہو اور کسی طرح ہاتھ پیر مار کر وہ جہاز کے کسی کنڈے کو تھام لے تو اب وہ سمجھتا ہے کہ میری زندگی اسی سے وابستہ ہے ‘ اب میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ وہ کنڈا اگر کمزور ہے تو اس کا سہارا نہیں بن سکے گا اور اس کے وزن سے ہی اکھڑ جائے گا یا ٹوٹ جائے گا ‘ لیکن اگر وہ کنڈا مضبوط ہے تو وہ اس کی زندگی کا ضامن بن جائے گا۔ یہاں فرمایا کہ طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لانے والے شخص نے بہت مضبوط کنڈے پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔لاَ انْفِصَامَ لَہَا ط۔ کبھی علیحدہ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ بہت مضبوط سہارا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ایک خطبہ میں یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں : وَاَوْثَقُ الْعُرٰی کَلِمَۃُ التَّقْوٰی 33 یعنی تمام کنڈوں میں سب سے مضبوط کنڈا تقویٰ کا کنڈا ہے۔ لہٰذا اس کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ضرورت ہے۔

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 257 اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا ایمان درحقیقت اللہ اور بندے کے درمیان ایک دوستی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ یہ ولایت باہمی یعنی دو طرفہ دوستی ہے۔ ایک طرف مطلوب یہ ہے کہ بندہ اللہ کا ولی بن جائے : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ یونس یاد رکھو ‘ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ دوسری طرف اللہ بھی اہل ایمان کا ولی ہے ‘ یعنی دوست ہے ‘ پشت پناہ ہے ‘ مددگار ہے ‘ کارساز ہے۔یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی ‘ طرف۔ آپ نوٹ کریں گے کہ قرآن میں نور ہمیشہ واحد آتا ہے۔ اَنوار کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ‘ اس لیے کہ نور ایک حقیقت واحدہ ہے۔ لیکن ظُلُمٰت ہمیشہ جمع میں آتا ہے ‘ اس لیے کہ تاریکی کے ‘ shades مختلف ہیں۔ ایک بہت گہری تاریکی ہے ‘ ایک ذرا اس سے کم ہے ‘ پھر اس سے کمتر ہے۔ کفر ‘ شرک ‘ الحاد ‘ مادہ پرستی ‘ لا ادریت ‘ Agnosticism وغیرہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں۔ تو جتنے بھی غلط فلسفے ہیں ‘ جتنے بھی غلط نظریات ہیں ‘ جتنی بھی عمل کی غلط راہیں ہیں ‘ ان سب کے اندھیاروں سے نکال کر اللہ اہل ایمان کو ایمان کی روشنی کے اندر لاتا رہتا ہے۔وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اگر کہیں نو رکی تھوڑی بہت رمق انہیں ملی بھی تھی تو اس سے انہیں محروم کر کے انہیں تاریکیوں کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ آمین یا رب العالمین !اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر علیہ السلام کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 258 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰٹہ اللّٰہُ الْمُلْکَ 7 یہ بابل عراق کا بادشاہ نمرود تھا۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ نمرود اصل میں لقب تھا ‘ کسی کا نام نہیں تھا۔ جیسے فرعون ج فراعنہ مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اسی طرح نمرود ج نماردہ بابل عراق کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ار میں ہوئی تھی جو بابل ‘ Babylonia کا ایک شہر تھا اور وہاں نمرود کی بادشاہت تھی۔ جیسے فرعون نے مصر میں اپنی بادشاہت اور اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا اسی طرح کا دعویٰ نمرود کا بھی تھا۔ فرعون اور نمرود کا خدائی کا دعویٰ درحقیقت سیاسی بادشاہت اور اقتدار کا دعویٰ تھا کہ اختیار مطلق ہمارے ہاتھ میں ہے ‘ ہم جس چیز کو چاہیں غلط قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں صحیح قرار دے دیں۔ یہی اصل میں خدائی اختیار ہے جو انہوں نے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا حق ہے ‘ کسی شے کو حلال کرنے یا کسی شے کو حرام کرنے کا اختیار واحد اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جس شخص نے بھی قانون سازی کا یہ اختیار اللہ کے قانون سے آزاد ہو کر اپنے ہاتھ میں لے لیا وہی طاغوت ہے ‘ وہی شیطان ہے ‘ وہی نمرود ہے ‘ وہی فرعون ہے۔ ورنہ فرعون اور نمرود نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ یہ دنیا ہم نے پیدا کی ہے۔ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ لا قال اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ط نمرود نے جیل سے سزائے موت کے دو قیدی منگوائے ‘ ان میں سے ایک کی گردن وہیں اڑا دی اور دوسرے کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے اسے رہا کردیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگا کہ دیکھو ‘ میں نے جس کو چاہا زندہ رکھا اور جس کو چاہا مار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ کٹ حجتی پر اترا ہوا ہے ‘ اسے ایسا جواب دیا جانا چاہیے جو اس کو چپ کرا دے۔ قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ یہ بات سن کر بھونچکا اور ششدر ہو کر رہ گیا۔وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ اللہ نے اسے راہ یاب نہیں کیا ‘ لیکن وہ چپ ہوگیا ‘ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کا کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ اس کے بعد اس نے بت کدے کے پجاریوں کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جھونک دیا جائے۔

أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانْظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ ۖ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آیت 259 اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا ج تفاسیر میں اگرچہ اس واقعے کی مختلف تعبیرات ملتی ہیں ‘ لیکن یہ دراصل حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ ہے جن کا گزر یروشلم شہر پر ہوا تھا جو تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ بابل عراق کے بادشاہ بخت نصر Nebuchadnezzar نے 586 ق م میں فلسطین پر حملہ کیا تھا اور یروشلم کو تاخت و تاراج کردیا تھا۔ اس وقت بھی عراق اور اسرائیل کی آپس میں بدترین دشمنی ہے۔ یہ دشمنی درحقیقت ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ بخت نصر کے حملے کے وقت یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا۔ بخت نصر نے چھ لاکھ نفوس کو قتل کردیا اور باقی چھ لاکھ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا ہوا قیدی بنا کرلے گیا۔ یہ لوگ ڈیڑھ سو برس تک اسیری captivity میں رہے ہیں اور یروشلم اجڑا رہا ہے۔ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں بچا تھا۔ بخت نصر نے یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا تھا کہ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں چھوڑیں۔ اس نے ہیکل سلیمانی کو بھی مکمل طور پر شہید کردیا تھا۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کے ایک تہہ خانے میں تابوت سکینہ بھی تھا اور وہاں ان کے ربائی بھی موجود تھے۔ ہیکل مسمار ہونے پر وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور تابوت سکینہ بھی وہیں دفن ہوگیا۔ تو جس زمانے میں یہ بستی اجڑی ہوئی تھی ‘ حضرت عزیر علیہ السلام کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں اور کوئی عمارت سلامت نہیں۔ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج ان کا یہ سوال اظہار حیرت کی نوعیت کا تھا کہ اس طرح اجڑی ہوئی بستی میں دوبارہ کیسے احیا ہوسکتا ہے ؟ دوبارہ کیسے اس میں لوگ آکر آباد ہوسکتے ہیں ؟ اتنی بڑی تباہی و بربادی کہ کوئی متنفس باقی نہیں ‘ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں !فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ ماءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط۔ ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے تھوڑی دیر کے لیے سویا تھا ‘ شاید ایک دن یا دن کا کچھ حصہ میں یہاں رہا ہوں۔قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ ماءَۃَ عَامٍ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم پورے سو سال اس حال میں رہے ہو فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج۔ ان میں سے کوئی شے گلی سڑی نہیں ‘ ان کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ حضرت عزیر علیہ السلام کی سواری کا گدھا اس عرصے میں بالکل ختم ہوچکا تھا ‘ اس کی بوسیدہ ہڈیاں ہی باقی رہ گئی تھیں ‘ گوشت گل سڑ چکا تھا۔ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ یعنی اے عزیر علیہ السلام ! ہم نے تو خود تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا ہے ‘ اس لیے ہم تمہیں اپنی یہ نشانی دکھا رہے ہیں تاکہ تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین کامل حاصل ہو۔وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا ط چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گدھے کی ہڈیاں جمع ہو کر اس کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا اور پھر اس پر گوشت بھی چڑھ گیا۔فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا حضرت عزیر علیہ السلام نے بچشم سر ایک مردہ جسم کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرلیا۔قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو بھی دوبارہ آباد کرسکتا ہے ‘ اس کی آبادی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔حضرت عزیر علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی نشاۃأثانیہ Renaissance کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔ بابل کی اسارت کے دوران یہود اخلاقی زوال کا شکار تھے۔ جب حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے متذکرہ بالا مشاہدات کرا دیے تو آپ علیہ السلام نے وہاں جا کر یہود کو دین کی تعلیم دی اور ان کے اندر روح دین کو بیدار کیا۔ اس کے بعد ایران کے بادشاہ کیخورس Cyrus نے جب بابل عراق پر حملہ کیا تو یہودیوں کو اسارت captivity سے نجات دی اور انہیں دوبارہ فلسطین میں جا کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ اس طرح یروشلم کی تعمیر نو ہوئی اور یہ بستی 136 سال بعد دوبارہ آباد ہوئی۔ پھر یہودیوں نے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا جس کو وہ معبد ثانی Second Templeکہتے ہیں۔ پھر یہ ہیکل 70 عیسوی میں رومن جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں تباہ ہوگیا اور اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکا۔ دو ہزار برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کا کعبہ زمین بوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے یہودیوں کے دلوں میں آگ سی لگی ہوئی ہے اور وہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے وہاں ہیکل سلیمانی معبد ثالث تعمیر کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔ اس کے نقشے بھی تیار ہوچکے ہیں۔ بس کسی دن کوئی ایک دھماکہ ہوگا اور خبر آجائے گی کہ کسی جنونی fanatic نے وہاں جا کر بم رکھ دیا تھا ‘ جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ شہید ہوگئی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ایک جنونی یہودی ڈاکٹر نے مسجد الخلیل میں 70 مسلمانوں کو شہید کر کے خود بھی خود کشی کرلی تھی۔ اسی طرح کوئی جنونی یہودی مسجد اقصیٰ میں بم نصب کر کے اس کو گرا دے گا اور پھر یہودی کہیں گے کہ جب مسجد مسمار ہو ہی گئی ہے تو اب ہمیں یہاں ہیکل تعمیر کرنے دیں۔ جیسے ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوؤں کا موقف تھا کہ جب مسجد گر ہی گئی ہے تو اب یہاں پر ہمیں رام مندر بنانے دو ! بہرحال یہ حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ تھا۔ اب اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشاہدہ ہے۔

۞ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ

📘 آیت 26 اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا ط کفارّ کی طرف سے قرآن کے بارے میں کئی اعتراضات اٹھائے جاتے تھے۔ وہ کبھی بھی اس چیلنج کا مقابلہ تو نہ کرسکے جو قرآن نے انہیں فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ کے الفاظ میں دیا تھا ‘ لیکن خواہ مخواہ کے اعتراضات اٹھاتے رہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کسی مصورّ کی تصویر پر اعتراض کرنے والے تو بہت تھے لیکن جب کہا گیا کہ یہ برش لیجیے اور ذرا اس کو ٹھیک کردیجیے تو سب پیچھے ہٹ گئے۔ قرآن کے مقابلے میں کوئی سورت لانا تو ان کے لیے ممکن نہیں تھا لیکن ادھر ادھر سے اعتراضات کرنے کے لیے ان کی زبانیں کھلتی تھیں۔ ان میں سے ان کا ایک اعتراض یہاں نقل کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید میں مکھی کی تشبیہہ آئی ہے ‘ یہ تو بہت حقیر سی شے ہے۔ کوئی اعلیٰ متکلمّ اپنے اعلیٰ کلام میں ایسی حقیر چیزوں کا تذکرہ نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں مکڑی جیسی حقیر شے کا بھی ذکر ہے ‘ چناچہ یہ کوئی اعلیٰ کلام نہیں ہے۔ یہاں اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ دراصل تشبیہہ اور تمثیل کے اندر ممثل لہٗ اور ممثل بہٖ میں مناسبت اور مطابقت ہونی چاہیے۔ یعنی کوئی تمثیل یا تشبیہہ بیان کرنی ہو تو جس شے کے لیے تشبیہہ دی جا رہی ہے اس سے مطابقت اور مناسبت رکھنے والی شے سے تشبیہہ دی جانی چاہیے۔ کوئی شے اگر بہت حقیر ہے تو اسے کسی عظمت والی شے سے آخر کیسے تشبیہہ دی جائے گی ؟ اسے تو کسی حقیر شے ہی سے تشبیہہ دی جائے گی تو تشبیہہ کا اصل مقصد پورا ہوگا۔ چناچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی شرم یا عار کی بات نہیں ہے کہ وہ مچھر کی مثال بیان کرے یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے۔ لفظ ”فَوْقَھَا“ اس سے اوپر میں دونوں معنی موجود ہیں۔ یعنی کمتر اور حقیر ہونے میں اس سے بھی بڑھ کر یا یہ کہ اس سے اوپر کی کوئی شے۔ اس لیے کہ مکھی یا مکڑی بہرحال مچھر سے ذرا بڑی شے ہے۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ ج وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَاد اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَلًا 7 حق کے منکر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں اور اعتراض کر رہے ہیں کہ اس مثال سے اللہ نے کیا مراد لی ہے ؟ اس ضمن میں اگلا جملہ بہت اہم ہے۔یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا لا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط اِن مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہت سوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایت اور گمراہی کا دار و مدار انسان کی اپنی داخلی کیفیت subjective condition پر ہے۔ آپ کے دل میں خیر ہے ‘ بھلائی ہے ‘ آپ کی نیت طلب ہدایت اور طلب علم کی ہے تو آپ کو اس قرآن سے ہدایت مل جائے گی ‘ اور اگر دل میں زیغ ہے ‘ کجی ہے ‘ نیت میں ٹیڑھ اور فساد ہے تو اسی کے ذریعے سے اللہ آپ کی گمراہی میں اضافہ کر دے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا کسی کو ہدایت دینا اور کسی کو گمراہی میں مبتلا کردینا الل ٹپ نہیں ہے ‘ کسی قاعدے اور قانون کے بغیر نہیں ہے۔وَمَا یُضِلُّ بِہٖ الاَّ الْفٰسِقِیْنَ اس سے گمراہی میں وہ صرف انہی کو مبتلا کرتا ہے جن میں سرکشی ہے ‘ تعدیّ ہے ‘ تکبر ہے۔ اگلی آیت میں ان کے اوصاف بیان کردیے گئے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 آیت 260 وَاِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَءِنَّ قَلْبِیْ ط یہ تمام انبیاء کرام علیہ السلام کا معاملہ ہے کہ انہیں عین الیقین اور حق الیقین کے درجے کا ایمان عطا کیا جاتا ہے۔ انہیں چونکہ ایمان اور یقین کی ایک ایسی بھٹیّ furnace بنانا ہوتا ہے کہ جس سے ایمان اور یقین دوسروں میں سرایت کرے ‘ تو ان کے ایمان و یقین کے لیے ان کو ایسے مشاہدات کروا دیے جاتے ہیں کہ ایمان ان کے لیے صرف ایمان بالغیب نہیں رہتا بلکہ وہ ایمان بالشہادۃ بھی ہوجاتا ہے۔ سورة الانعام میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمانوں اور زمین کے نظام حکومت کا مشاہدہ کرایا تاکہ وہ کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائے۔ٌمحمد رسول اللہ ﷺ کو شب معراج میں آسمانوں پر لے جایا گیا کہ وہ ہر شے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ ان مشاہدات سے انبیاء کو ان ایمانی حقائق پر یقین کامل ہوجاتا ہے جن کی وہ لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ گویا وہ خود ایمان اور یقین کی ایک بھٹیّ بن جاتے ہیں۔ قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْہُنَّ اِلَیْکَ انہیں اپنے ساتھ اس طرح مانوس کرلو کہ وہ تمہاری آواز سن کر تمہارے پاس آجایاکریں۔ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْہُنَّ جُزْءً ‘ ا ثُمَّ ادْعُہُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط۔ اس کی تفصیل میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چاروں پرندوں کے سر ‘ دھڑ ‘ ٹانگیں اور ان کے َ پر علیحدہ علیحدہ کیے۔ پھر ایک پہاڑ پر چاروں کے سر ‘ دوسرے پہاڑ پر چاروں کے دھڑ ‘ تیسرے پہاڑ پر چاروں کی ٹانگیں اور چوتھے پہاڑ پر چاروں کے َ پر رکھ دیے۔ اس طرح انہیں مختلف اجزاء میں تقسیم کردیا۔ پھر انہیں پکارا تو ان کے اجزاء مجتمع ہو کر چاروں پرندے اپنی سابقہ ہیئت میں زندہ ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس دوڑتے ہوئے آگئے۔

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 اب جو دو رکوع آ رہے ہیں ‘ ان کا موضوع انفاق فی سبیل اللہ ہے ‘ اور اس موضوع پر یہ قرآن مجید کا ذروۃ السنام climax ہے۔ ان کے مطالعہ سے پہلے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کے لیے دین میں کئی اصطلاحات ہیں۔ سب سے پہلی اطعام الطّعام کھانا کھلانا ہے : وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا الدھر دوسری اصطلاح ایتائے مال ہے : وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ۔۔ الخ البقرۃ : 177 پھر اس سے آگے صدقہ ‘ زکوٰۃ ‘ انفاق اور قرض حسنہ جیسی اصطلاحات آتی ہیں۔ یہ پانچ چھ اصطلاحات terms ہیں ‘ لیکن ان کے اندر ایک تقسیم ذہن میں رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے مال خرچ کرنے کی دو بڑی بڑی مدیں ہیں۔ ایک مد ابنائے نوع پر خرچ کرنے کی ہے۔ یعنی قرابت دار ‘ غرباء ‘ یتامیٰ ‘ مساکین محتاج اور بیواؤں پر خرچ کرنا۔ یہ آپ کے معاشرے کے اجزاء ہیں ‘ آپ کے بھائی بند ہیں ‘ آپ کے عزیز و اقرباء ہیں۔ ان کے لیے خرچ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے اور اس کا اجر ملے گا۔ یہ بھی گویا آپ نے اللہ تعالیٰ ہی کے لیے خرچ کیا۔ جبکہ دوسری مد ہے عین اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا۔ قرآن حکیم میں انفاق اور قرض حسنہ کی اصطلاحیں اس دوسری مد کے لیے آتی ہیں اور پہلی مد کے لیے اطعام الطعام ‘ ایتائے مال ‘ صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کی اصطلاحات ہیں۔ چناچہ انفاق مال یا انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ‘ اللہ کے دین کی دعوت کو عام کرنے اور اللہ کی کتاب کے پیغام کو عام کرنے کے لیے خرچ کرنا۔ اللہ کے دین کی دعوت کو اس طرح ابھارنا کہ باطل کے ساتھ زور آزمائی کرنے والی ایک طاقت پیدا ہوجائے ‘ ایک جماعت وجود میں آئے۔ اس جماعت کے لیے ساز و سامان فراہم کرنا تاکہ غلبۂ دین کے ہر مرحلے کے جو تقاضے اور ضرورتیں ہیں وہ پوری ہو سکیں ‘ اس کام میں جو مال صرف ہوگا وہ ہے انفاق فی سبیل اللہ یا اللہ کے ذمہّ قرض حسنہ۔ تو یہاں اصل میں اس انفاق کی بات ہو رہی ہے۔ عام طور پر فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام سمجھ لیا جاتا ہے اور پانی کی کوئی سبیل بنا کر اسے بھی فی سبیل اللہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ بھی سبیل تو ہے ‘ نیکی کا وہ بھی راستہ ہے ‘ سبیل اللہ ہے ‘ لیکن انفاق فی سبیل اللہ کا مفہوم بالکل اور ہے۔ فقراء و مساکین اور اہل حاجت کے لیے صدقات و خیرات ہیں۔ زکوٰۃ بھی اصلاً غریبوں کا حق ہے ‘ لیکن اس میں بھی ایک مد فی سبیل اللہ کی رکھی گئی ہے۔ اگر آپ کے عزیز و اقارب اور قرب و جوار میں اہل حاجت ہیں ‘ غرباء ہیں تو صدقہ و زکوٰۃ میں ان کا حق فائق ہے ‘ پہلے ان کو دیجیے۔ اس کے بعد اس میں سے جو بھی ہے وہ دین کے کام کے لیے لگایئے۔ جب دین یتیمی کی حالت کو آگیا ہو تو سب سے بڑایتیم دین ہے۔ اور آج واقعتا دین کی یہی حالت ہے۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ کرتے ہیں : آیت 261 مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّاءَۃُ حَبَّۃٍ ط اس طرح ایک دانے سے سات سو دانے وجود میں آگئے۔ یہ اس اضافے کی مثال ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کیے ہوئے مال کے اجر وثواب میں ہوگا۔ جو کوئی بھی اللہ کے دین کے لیے اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے مال میں اضافہ کرے گا ‘ اس کو جزا دے گا اور اپنے یہاں اس اجر وثواب کو بڑھاتا رہے گا۔وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ط۔ یہ سات سو گنا اضافہ تو تمہیں تمثیلاً بتایا ہے ‘ اللہ اس سے بھی زیادہ اضافہ کرے گا جس کے لیے چاہے گا۔ صرف سات سو گنا نہیں ‘ اور بھی جتنا چاہے گا بڑھاتا چلا جائے گا۔وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ ۔ اس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں اور اس کا علم ہر شے کو محیط ہے۔

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 262 اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لا ان کا طرز عمل یہ نہیں ہوتا کہ دیکھئے جی ‘ میں نے اس وقت اتنا چندہ دیا تھا ‘ معلوم ہوا کہ میرا حق زیادہ ہے ‘ ہم چندے زیادہ دیتے ہیں تو پھر بات بھی تو ہماری مانی جانی چاہیے ! یا اگر کوئی شخص اللہ کے دین کے کام میں لگا ہوا ہے اور آپ اس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر اپنا پورا وقت دین کی خدمت میں لگائے ‘ لیکن اگر کہیں آپ نے اس کو جتا بھی دیا ‘ اس پر احسان بھی رکھ دیا ‘ کوئی تکلیف دہ کلمہ کہہ دیا ‘ کوئی دلآزاری کی بات کہہ دی تو آپ کا جو اجر وثواب تھا وہ صفر ہوجائے گا۔

۞ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ

📘 آیت 263 قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُہَآ اَذًی ط اگر آپ کے پاس کوئی ضرورت مند آگیا ہے ‘ کسی نے ہاتھ پھیلا دیا ہے تو اگر آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے تو دلداری کا ایک کلمہ کہہ دیجیے ‘ نرمی کے ساتھ جواب دے دیجیے ‘ معذرت کر لیجیے۔ یا اگر کسی سائل نے آپ کے ساتھ درشت رویہ اختیار کیا ہے تو پھر بھی اسے ڈانٹئے نہیں : وَاَمَّا السَّآءِلَ فَلَا تَنْھَرْ الضحٰی بلکہ درگزر سے کام لیجیے۔ یہ طرز عمل اس سے کہیں بہتر ہے کہ ضرورت مند کو کچھ دے تو دیا لیکن اس کے بعد اسے دوچار جملے بھی سنا دیے ‘ اس کی دلآزاری بھی کردی۔ تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ وہ بےنیاز بھی ہے اور بردبار بھی۔ اگر تم کسی کو کچھ دے رہے ہو تو اصل میں اللہ کو دے رہے ہو۔ اس ضمن میں ایک حدیث قدسی میں بڑی وضاحت آئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رض روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :قیامت کے دن اللہ عزوجل فرمائے گا : اے آدم کے بیٹے ! میں بیمار ہوا تو نے میری تیمار داری نہیں کی۔ وہ کہے گا : اے پروردگار ! میں تیری تیمارداری کیسے کرتا جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اس کی تیمار داری نہیں کی ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی تیمارداری کرتا تو مجھے اس کے پاس موجود پاتا ! اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا۔ وہ کہے گا : اے میرے ربّ ! میں تجھ کو کھانا کیسے کھلاتا جبکہ تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تو نہیں جانتا کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تھا ‘ تو نے اس کو کھانا نہیں کھلایا ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے پاس موجود پاتا ! اے آدم کے بیٹے ! میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا ‘ تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ وہ کہے گا : پروردگار ! میں تجھ کو کیسے پانی پلاتا جبکہ تو تو رب العالمین ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا ‘ تو نے اس کو پانی نہیں پلایا تھا ‘ کیا ایسا نہیں ہے کہ اگر تو اس کو پانی پلا دیتا تو اپنے اس عمل کو میرے پاس موجود پاتا ! 34چنانچہ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کسی ضرورت مند کو دے رہے ہو وہ درحقیقت اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ جس نے تمہیں سب کچھ عطا کیا ہے۔ اور تمہارے طرز عمل کے باوجود بھی اگر وہ تم سے درگزر کررہا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حلیم ہے ‘ بردبار ہے۔ اگر تم اپنے دل سے اتری ہوئی شے اللہ کے نام پر دیتے ہو ‘ کوئی بےکار اور ردّی چیز اللہ کے نام پردے دیتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی غیرت اگر اسی وقت جوش میں آجائے تو تمہیں ہر نعمت سے محروم کر دے۔ وہ چاہے تو ایسا کرسکتا ہے ‘ لیکن نہیں کرتا ‘ اس لیے کہ وہ حلیم ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 264 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بالْمَنِّ وَالْاَذٰیلا کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِءَآء النَّاسِ اگرچہ اپنا مال خرچ کر رہا ہے ‘ لوگوں کو صدقات دے رہا ہے ‘ بڑے بڑے خیراتی ادارے قائم کردیے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ ریاکاری کے لیے ‘ سرکار دربار میں رسائی کے لیے ‘ کچھ اپنے ٹیکس بچانے کے لیے اور کچھ اپنی ناموری کے لیے ہے۔ یہ سارے کام جو ہوتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ ان میں کس کی کیا نیت ہے۔وَلاَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط جو کوئی ریاکاری کر رہا ہے وہ حقیقت میں اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ ریا اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں ‘ جیسا کہ یہ حدیث ہم متعدد بار پڑھ چکے ہیں : مَنْ صَلّٰی یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ 35جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا ‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے لوگوں کو صدقہ و خیرات دیا اس نے شرک کیا۔فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ اگر کسی چٹان پر مٹی کی تھوڑی سی تہہ جم گئی ہو اور وہاں آپ نے کچھ بیج ڈال دیے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی فصل بھی اگ آئے ‘ لیکن وہ انتہائی ناپائیدار ہوگی۔فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ط بارش کے ایک ہی زوردار چھینٹے میں چٹان کے اوپر جمی ہوئی مٹی کی تہہ بھی بہہ گئی ‘ آپ کی محنت بھی ضائع ہوگئی ‘ آپ کا بیج بھی اکارت گیا اور آپ کی فصل بھی گئی۔ بارش سے دھل کر وہ چٹان اندر سے بالکل صاف اور چٹیل نکل آئی۔ یعنی سب کچھ گیا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاکاری کا یہی انجام ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مال بھی دیا اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ اللہ کے ہاں کسی اجر وثواب کا سوال ہی نہیں۔لاَ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ط ایسے لوگ اپنے تئیں صدقہ و خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ وہ ناشکروں اور منکرین نعمت کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور انہیں بامراد نہیں کرتا۔اگلی آیت میں فوری تقابل simultaneous contrast کے طور پر ان لوگوں کے لیے بھی مثال بیان کی جا رہی ہے جو واقعتا اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے خلوص و اخلاص سے خرچ کرتے ہیں۔

وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 آیت 265 وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَات اللّٰہِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍم بِرَبْوَۃٍ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کہ قدرتی باغ کا یہی تصور ہوتا تھا کہ ذرا اونچائی پر واقع ہے ‘ اس کے دامن میں کوئی ندی بہہ رہی ہے جس سے خود بخود آب پاشی ہو رہی ہے اور وہ سیراب ہو رہا ہے۔[ قادیانیوں نے اسی لفظ ربوہ کے نام پر پاکستان میں اپنا شہر بنایا۔ ]اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُکُلَہَا ضِعْفَیْنِ ج فَاِنْ لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ لہٰذا تم دروں بینی intro spection کرتے رہا کرو کہ تم جو یہ مال خرچ کر رہے ہو واقعتا خلوص دل اور اخلاص نیت کے ساتھ اللہ ہی کے لیے کر رہے ہو۔ کہیں غیر شعوری طور پر تمہارا کوئی اور جذبہ اس میں شامل نہ ہوجائے۔ چناچہ اپنے گریبانوں میں جھانکتے رہو۔

أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

📘 آیت 266 اَیَوَدُّ اَحَدُکُمْ اَنْ تَکُوْنَ لَہٗ جَنَّۃٌ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ لا اہل عرب کے نزدیک یہ ایک آئیڈیل باغ کا نقشہ ہے ‘ جس میں کھجور کے درخت بھی ہوں اور انگور کی بیلیں بھی ہوں ‘ پھر اس میں آب پاشی کا قدرتی انتظام ہو۔لَہٗ فِیْہَا مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ لا وَاَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہٗ ذُرِّیَّۃٌ ضُعَفَآءُص فَاَصَابَہَآ اِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ط یعنی ایک انسان ساری عمر یہ سمجھتا رہا کہ میں نے تو نیکیوں کے انبار لگائے ہیں ‘ میں نے خیراتی ادارے قائم کیے ‘ میں نے فاؤنڈیشن بنائی ‘ میں نے مدرسہ قائم کیا ‘ میں نے یتیم خانہ بنادیا ‘ لیکن جب اس کا نامہ اعمال پیش ہوگا تو اچانک اسے معلوم ہوگا کہ یہ تو کچھ بھی نہ تھا۔ ع جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم تھا خزاں کا ! بس باد سموم کا ایک بگولا آیا اور سب کچھ جلا گیا۔ اس لیے کہ اس میں اخلاص تھا ہی نہیں ‘ نیت میں کھوٹ تھا ‘ اس میں ریاکاری تھی ‘ لوگوں کو دکھانا مقصود تھا۔ پھر اس کا حال وہی ہوگا جس طرح کہ وہ بوڑھا اب کف افسوس مل رہا ہے جس کا باغ جل کر خاک ہوگیا اور اس کے کمسن بچے ابھی کسی لائق نہیں۔ وہ خود بوڑھا ہوچکا ہے اور اب دوبارہ باغ نہیں لگا سکتا۔ اس شخص کی مہلت عمر بھی ختم ہوچکی ہوگی اور سوائے کف افسوس ملنے کے اس کے پاس کوئی چارہ نہ ہوگا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ

📘 آیت 267 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے ‘ اللہ کے نام پر دینا ہے تو جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھی چیز ‘ پاکیزہ چیز ‘ بہتر چیز نکالو۔ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ظاہر بات ہے کہ زمین سے جو بھی نباتات باہر آرہی ہیں ان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ چاہے کوئی چراگاہ ہے تو اس کے اندر جو ہریاول ہے وہ اللہ ہی نے پیدا کی ہے۔ کھیت کے اندر آپ نے محنت کی ہے ‘ ہل چلایا ہے ‘ بیج ڈالے ہیں ‘ لیکن فصل کا اگانا تو آپ کے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ع پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟ چناچہ فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو !وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ایسا نہ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ردّی اور ناکارہ مال چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا گلہ ہے ‘ اس میں سے تمہیں زکوٰۃ کے لیے بھیڑیں اور بکریاں نکالنی ہیں تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ جو کمزور ہیں ‘ ذرا لاغر ہیں ‘ بیمار ہیں ‘ نقص والی ہیں انہیں نکال کر گنتی پوری کر دو۔ اسی طرح عشر نکالنا ہے تو ایسا نہ کرو کہ گندم کے جس حصے پر بارش پڑگئی تھی وہ نکال دو۔ تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں۔وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ط ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم محتاج ہوجاؤ اور تمہیں ضرورت پڑجائے ‘ پھر اگر تمہیں کوئی ایسی چیز دے گا تو تم قبول نہیں کرو گے ‘ اِلاّ یہ کہ چشم پوشی کرنے پر مجبور ہوجاؤ۔ احتیاج اس درجے کی ہو کہ نفیس یا خبیث جو شے بھی مل جائے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے قبول کرلو۔ ورنہ آدمی اپنے طیب خاطر کے ساتھ ردّی شے قبول نہیں کرسکتا۔وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ یہاں غنی کا لفظ دوبارہ آیا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تم کسی محتاج اور ضرورت مند کو دے رہے ہو ‘ بلکہ یوں سمجھو کہ اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور حمید ہے ‘ یعنی اپنی ذات میں خود محمود ہے۔ ایک تو کسی شے کی اچھائی یا حسن یا کمال ایسا ہوتا ہے کہ جسے ظاہر کیا جائے کہ بھئی دیکھو اس میں یہ خوبصورتی ہے۔ اور ایک وہ خوبصورتی ہوتی ہے جو ازخود ظاہر ہو۔ ع حاجت مشاطہّ نیست روئے دل آرام را ! تو اللہ تعالیٰ اتنا ستودہ صفات ہے کہ وہ اپنی ذات میں از خود محمود ہے ‘ اسے کسی حمد کی حاجت نہیں ہے۔

الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 آیت 268 اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بالْفَحْشَآءِ ج وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلاً ط اب دیکھ لو ‘ تمہیں کون سا طرز عمل اختیار کرنا ہے : ؂رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے !شیطان تمہیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکتا ہے کہ اس طرح تمہارا مال کم ہوجائے گا اور تم فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اب اگر واقعی تم یہ خوف رکھتے ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر فقر آجائے ‘ لہٰذا مجھے اپنا مال سنبھال سنبھال کر ‘ سینت سینت کر رکھنا چاہیے تو تم شیطان کے جال میں پھنس چکے ہو ‘ تم اس کی پیروی کر رہے ہو۔ اور اگر تم نے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے کہ وہ میری ساری حاجتیں آج بھی پوری کر رہا ہے ‘ کل بھی پوری کرے گا اِن شاء اللہ تو اللہ کی طرف سے مغفرت اور فضل کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ تم اس کے خزانوں کی محدودیتّ کا کوئی تصور اپنے ذہن میں نہ رکھو۔

يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

📘 آیت 269 یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ ج۔ یہ حکمت کی باتیں ہیں ‘ جن کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک چیزوں کا ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ‘ جو حکمت سے نظر آتا ہے۔ ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے ‘ لیکن کسی شے کی حقیقت کیا ہے ‘ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے : ؂اے اہل نظر ! ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ؟جس کسی پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے وہ حکیم ہے۔ اور حکمت اصل میں انسان کی عقل اور شعور کی پختگی کا نام ہے۔ استحکام اسی حکمت سے ہی بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل و فہم اور شعور کی یہ پختگی اور حقائق تک پہنچ جانے کی صلاحیت جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط۔ اس سے بڑا خیر کا خزانہ تو اور کوئی ہے ہی نہیں وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو اولو الالباب ہیں ‘ عقل مند ہیں۔ لیکن جو دنیا پر ریجھ گئے ہیں ‘ جن کا سارا دلی اطمینان اپنے مال و زر ‘ جائیداد ‘ اثاثہ جات اور بینک بیلنس پر ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ اولو الالباب عقل مند نہیں ہیں۔

الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 آیت 27 الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖص اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان سب سے بڑا عہد ”عہد الست“ ہے ‘ جس کا ذکر سورة الاعراف میں آئے گا۔ یہ عہد عالم ارواح میں تمام ارواح انسانیہ نے کیا تھا ‘ ان میں میں بھی تھا ‘ آپ بھی تھے ‘ سب تھے۔ الغرض تمام کے تمام انسان جتنے آج تک دنیا میں آ چکے ہیں اور جو قیامت تک ابھی آنے والے ہیں ‘ اس عہد کے وقت موجود تھے ‘ لیکن صرف ارواح کی شکل میں تھے ‘ جسم موجود نہیں تھے۔ اور یہ بات یاد رکھیے کہ انسان کا روحانی وجود مکمل وجود ہے اور اوّلاً تخلیق اسی کی ہوئی تھی۔ ”عہدالست“ میں تمام بنی آدم سے اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا : اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے ایک ہی جواب دیا : بَلٰی کیوں نہیں ! تو یہ جو فاسق ہیں ‘ نافرمان ہیں ‘ سرکش ہیں ‘ انہوں نے اس عہد کو توڑا اور اللہ کو اپنا مالک ‘ اپنا خالق اور اپنا حاکم ماننے کی بجائے خود حاکم بن کر بیٹھ گئے اور اس طرح کے دعوے کیے : اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ ”کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے ؟“ غیر اللہ کی حاکمیتّ sovereignty کو تسلیم کرنا سب سے بڑی بغاوت ‘ سرکشی ‘ فسق اور نافرمانی ہے ‘ خواہ وہ ملوکیتّ کی صورت میں ہو یا عوامی حاکمیت popular sovereignty کی صورت میں۔وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ اللہ نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے ‘ یہ قطع رحمی کرتے ہیں۔ مال کی طلب میں ‘ اس کے مال کو ہتھیانے کے لیے بھائی بھائی کو ختم کردیتا ہے۔ انسان اپنی ذاتی اغراض کے لیے ‘ اپنے تکبرّ اور تعلّی کی خاطر تمام اخلاقی حدود کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ ہماری شریعت کا فلسفہ یہ ہے کہ ہمیں دو طرح کے تعلقات جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک تعلق ہے بندے کا اللہ کے ساتھ۔ اس کا تعلق ”حقوق اللہ“ سے ہے۔ جبکہ ایک تعلق ہے بندوں کا بندوں کے ساتھ۔ یہ ”حقوق العباد“ سے متعلق ہے۔ اللہ کا حق یہ ہے کہ اسے حاکم اور مالک سمجھو اور خود اس کے بندے بنو۔ جبکہ انسانوں کا حق یہ ہے کہ : کُوْنُوْا عِبَاد اللّٰہِ اِخْوَانًا 3 ”سب آپس میں بھائی بھائی ہو کر اللہ کے بندے بن جاؤ۔“ اس ضمن میں اہم ترین رحمی رشتہ ہے ‘ یعنی سگے بہن بھائی۔ پھر دادا دادی کی اولاد میں تمام چچا زاد وغیرہ cousins آجائیں گے۔ اس کے اوپر پردادا پردادی کی اولاد کا دائرہ مزید وسیع ہوجائے گا۔ اسی طرح اوپر چلتے جائیں یہاں تک کہ آدم و حوا پر تمام انسان جمع ہوجائیں گے۔ تو رحمی رشتہ کی بڑی اہمیت ہے۔ یہاں فاسقین کی دو صفات بیان کردی گئیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ کے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے یہ انہیں قطع کرتے ہیں۔ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط ”اور زمین میں فساد برپا کرتے ہیں۔“ متذکرہ بالا دونوں چیزوں کے نتیجے میں زمین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ انسان اللہ کی اطاعت سے باغی ہوجائیں یا آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگیں تو اس کا نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں نکلتا ہے۔اُولٰٓءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ یہی لوگ ہیں جو بالآخر آخری اور دائمی خسارے میں رہنے والے ہیں۔

وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ

📘 آیت 269 یُّؤْتِی الْحِکْمَۃَ مَنْ یَّشَآءُ ج۔ یہ حکمت کی باتیں ہیں ‘ جن کا سمجھنا ہر کس و ناکس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک چیزوں کا ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ‘ جو حکمت سے نظر آتا ہے۔ ظاہر تو سب کو نظر آ رہا ہے ‘ لیکن کسی شے کی حقیقت کیا ہے ‘ یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے : ؂اے اہل نظر ! ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا ؟جس کسی پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے وہ حکیم ہے۔ اور حکمت اصل میں انسان کی عقل اور شعور کی پختگی کا نام ہے۔ استحکام اسی حکمت سے ہی بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ عقل و فہم اور شعور کی یہ پختگی اور حقائق تک پہنچ جانے کی صلاحیت جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا ط۔ اس سے بڑا خیر کا خزانہ تو اور کوئی ہے ہی نہیں وَمَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں جو اولو الالباب ہیں ‘ عقل مند ہیں۔ لیکن جو دنیا پر ریجھ گئے ہیں ‘ جن کا سارا دلی اطمینان اپنے مال و زر ‘ جائیداد ‘ اثاثہ جات اور بینک بیلنس پر ہے تو ظاہر بات ہے کہ وہ اولو الالباب عقل مند نہیں ہیں۔

إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

📘 آیت 271 اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّاہِیَ ج۔خاص طور پر زکوٰۃ کا معاملہ تو علانیہ ہی ہے۔ تو اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ٹھیک ہے۔ اس لیے کہ کم سے کم فقراء کا حق تو ادا ہوگیا ‘ کسی کی ضرورت تو پوری ہوگئی۔ وَاِنْ تُخْفُوْہَا وَتُؤْتُوْہَا الْفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ ط۔ یاد رہے کہ یہ بات صدقات نافلہ کے لیے ہے۔ لیکن جو صدقات واجبہ ہیں ‘ جو لازماً دینے ہیں ‘ مثلاً زکوٰۃ اور عشر ‘ ان کے لیے اخفاء نہیں ہے۔ یہ دین کی حکمت ہے ‘ اس کو ذہن میں رکھیے کہ فرض عبادات علانیہ ادا کی جائیں گی۔ یہ وسوسہ بھی شیطان بہت سوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے کہ کیا پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھنے سے لوگوں پر اپنے تقویٰ کا رعب ڈالنا چاہتے ہو ؟ گھر میں پڑھ لیا کرو ! یا داڑھی اس لیے رکھو گے کہ لوگ تمہیں سمجھیں کہ بڑا متقی ہے ؟ ایسے وساوس شیطانی کو کوئی اہمیت نہیں دینی چاہیے اور جو چیز فرض و واجب ہے ‘ وہ علی الاعلان کرنی چاہیے ‘ اس کے اظہار میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ ہاں جو نفلی عبادات ہیں ‘ صدقات نافلہ ہیں یا نفل نماز ہے اسے چھپا کر کرنا چاہیے۔ نفل عبادت کا اظہار بہت بڑا فتنہ ہے۔ لہٰذا فرمایا کہ اگر تم اپنے صدقات چھپا کر چپکے سے ضرورت مندوں کو دے دو تو وہ تمہارے لیے بہت بہتر ہے۔

۞ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ

📘 آیت 272 لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدٰٹہُمْ ان کو ہدایت دینے کی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے ‘ آپ ﷺ پر ذمہّ داری تبلیغ کی ہے۔ ہم نے آپ کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاََنْفُسِکُمْ ط اس کا اجر وثواب بڑھا چڑھا کر تم ہی کو دیا جائے گا ‘ سات سو گنا ‘ چودہ سو گنا یا اس سے بھی زیادہ۔وَمَا تُنْفِقُوْنَ الاَّ ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللّٰہِ ط تبھی تمہیں اس قدر اجر ملے گا۔ اگر ریاکارانہ خرچ کیا تھا تو اجر کا کیا سوال ؟ وہ تو شرک بن جائے گا۔وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تُظْلَمُوْنَ تمہاری ذرا بھی حق تلفی نہیں کی جائے گی۔اب واضح کیا جا رہا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ کا سب سے بڑھ کر حق دار کون ہے۔

لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

📘 آیت 273 لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ جیسے رسول اللہ ﷺ کے دور میں اصحاب صفہ تھے کہ مسجد نبوی ﷺ میں آکر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنا وقت تلاش معاش میں صرف نہیں کر رہے ‘ آنحضور ﷺ سے علم سیکھ رہے ہیں اور جہاں جہاں سے مطالبہ آرہا ہے کہ معلمین اور مبلغینّ کی ضرورت ہے وہاں ان کو بھیجا جا رہا ہے۔ اگر وہ معاش کیّ جدوجہد کرتے تو یہ تعلیم کیسے حاصل کرتے ؟ اسی طرح دین کی کسی خدمت کے لیے کچھ لوگ اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں تو وہ اس کا مصداق ہوں گے۔ آپ نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے کوئی تحریک اٹھائی ہے تو اس میں کچھ نہ کچھ ہمہ وقتی کارکن درکار ہوں گے۔ ان کارکنوں کی معاش کا مسئلہ ہوگا۔ وہ آٹھ آٹھ گھنٹے دفتروں میں جا کر کام کریں اور وہاں افسروں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سنیں ‘ آنے جانے میں بھی دو دو گھنٹے لگائیں تو اب وہ دین کے کام کے لیے کون سا وقت نکالیں گے اور کیا کام کریں گے ؟ لہٰذا کچھ لوگ تو ہونے چاہئیں جو اس کام میں ہمہ وقت لگ جائیں۔ لیکن پیٹ تو ان کے ساتھ بھی ہیں ‘ اولاد تو ان کی بھی ہوگی۔ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ز۔ زمین کے اندر گھوم پھر کر تجارت کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج ۔ یہ اس طرح کے فقیر تو ہیں نہیں جو لپٹ کر مانگتے ہوں۔ ان کی خود داری کی وجہ سے عام طور پر جو ناواقف شخص ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ غنی ہیں ‘ خوشحال ہیں ‘ انہیں کوئی ضرورت ہی نہیں ‘ انہوں نے کبھی مانگا ہی نہیں۔ لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے سوالی نہیں ہیں ‘ وہ فقیر نہیں ہیں ‘ انہوں نے تو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے اپنے آپ کو لگا دیا ہے۔ یہ تمہارا کام ہے کہ انہیں تلاش کرو اور ان کی ضروریات پوری کرو۔ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمٰہُمْ ج ۔ ظاہربات ہے کہ فقر و احتیاج کا اثر چہرے پر تو آجاتا ہے۔ اگر کسی کو صحیح غذا نہیں مل رہی ہے تو چہرے پر اس کا اثر ظاہر ہوگا۔ لاَ یَسْءَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط۔ وہ ان سائلوں کی طرح نہیں ہیں جو اصل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرتے ہیں کہ آپ کے سر ہو کر آپ سے زبردستی کچھ نہ کچھ نکلوا لیتے ہیں۔ یہ بڑا اہم مسئلہ ہے کہ اقامت دین کیّ جدوجہد میں جو لوگ ہمہ وقت لگ جائیں ‘ آخر ان کے لیے ذریعۂ معاش کیا ہو ؟ اس وقت اس پر تفصیل سے گفتگو ممکن نہیں۔ بہرحال یہ سمجھ لیجیے کہ یہ دو رکوع انفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کا نقطۂ عروج ہیں اور یہ آخری آیت ان میں اہم ترین ہے۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ۔ یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا انفاق اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ تم خاموشی کے ساتھ ‘ اخفا کے ساتھ لوگوں کے ساتھ تعاون کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کا بھرپور بدلہ دے گا۔

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 اب ہم اس سورة مبارکہ کا جو رکوع پڑھ رہے ہیں یہ آج کے حالات میں اہم ترین ہے۔ یہ رکوع سود کی حرمت اور شناعت پر قرآن حکیم کا انتہائی اہم مقام ہے۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ کے خلاف بغاوت کی سب سے بڑی صورت تو غیر اللہ کی حاکمیت کا تصور ہے ‘ جو سب سے بڑا شرک ہے۔ اگرچہ نفسیاتی اور داخلی اعتبار سے سب سے بڑا شرک مادّے پر توکلّ ہے ‘ لیکن خارجی اور واقعاتی دنیا میں اس وقت سب سے بڑا شرک غیر اللہ کی حاکمیت ہے ‘ جو اب عوامی حاکمیت کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس کے بعد اس وقت کے گناہوں اور بدعملی میں سب سے بڑا فتنہ اور فساد سود کی بنیاد پر ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے بڑی شیطنت جو یہودیوں کے ذریعے سے پورے کرۂ ارضی کو اپنی گرفت میں لینے کے لیے بےتاب ہے ‘ وہ یہی سود کا ہتھکنڈا ہے۔ یہاں اس کی حرمت دو ٹوک انداز میں بیان کردی گئی۔ اس مقام پر میرے ذہن میں کبھی کبھی ایک سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس رکوع کی پہلی آیت کا تعلق تو انفاق فی سبیل اللہ سے ہے ‘ لہٰذا اسے پچھلے رکوع کے ساتھ شامل ہونا چاہیے تھا ‘ لیکن بعد میں یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہوئی کہ اس آیت کو بڑی حکمت کے ساتھ اس رکوع کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ وہ حکمت میں بعد میں بیان کروں گا آیت 274 اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ بالَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً صدقات واجبہ علانیہ اور صدقات نافلہ خفیہ طور پر دیتے ہیں۔فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ اس کے برعکس معاملہ ان کا ہے جو سود کھاتے ہیں۔ وجہ کیا ہے ؟ اصل مسئلہ ہے قدر زائد surplus value کا ! آپ کا کوئی شغل ہے ‘ کوئی کاروبار ہے یا ملازمت ہے ‘ آپ کما رہے ہیں ‘ اس سے آپ کا خرچ پورا ہو رہا ہے ‘ کچھ بچت بھی ہو رہی ہے۔ اب اس بچت کا اصل مصرف کیا ہے ؟ آیت 219 میں ہم پڑھ آئے ہیں : وَیَسْءَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ ط قُلِ الْعَفْوَ ط لوگ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کتنا خرچ کریں ؟ کہہ دیجیے جو بھی زائد از ضرورت ہو ! چناچہ اصل راستہ تو یہ ہے کہ اپنی بچت کو اللہ کی راہ میں خرچ کر دو۔ یا محتاجوں کو دے دو یا اللہ کے دین کی نشرو اشاعت اور سربلندی میں لگا دو۔ لیکن سود خورانہ ذہنیت یہ ہے کہ اس بچت کو بھی مزید کمائی کا ذریعہ بناؤ۔ لہٰذا اصل میں سود خوری انفاق فی سبیل اللہ کی ضد ہے۔ یہ عقدہ مجھ پر اس وقت کھلا جب میں نے اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا کے اصول کے تحت سورة الروم کی آیت 39 کا مطالعہ کیا۔ وہاں بھی ان دونوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایا گیا ہے ‘ اللہ کی رضا جوئی کے لیے انفاق اور اس کے مقابلے میں ربا ‘ یعنی سود پر رقم دینا۔ فرمایا : وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَال النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِ ج اور جو مال تم دیتے ہو سود پر تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے ہاں نہیں بڑھتا۔ محنت کوئی کر رہا ہے اور آپ اس کی کمائی میں سے اپنے سرمائے کی وجہ سے وصول کر رہے ہیں تو آپ کا مال اس کے مال میں شامل ہو کر اس کی محنت سے بڑھ رہا ہے۔ لیکن اللہ کے ہاں اس کی بڑھوتری نہیں ہوتی۔ وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُوْنَ اور وہ جو تم زکوٰۃ اور صدقات میں دے دیتے ہو محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے تو یہی لوگ اپنے مال اللہ کے ہاں بڑھا رہے ہیں۔ ان کا مال مسلسل بڑھ رہا ہے ‘ اس کی بڑھوتری ہو رہی ہے۔ چناچہ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و زکوٰۃ وغیرہ کا معاملہ سود کے بالمقابل اور اس کے برعکس ہے۔ اپنے اس بچت کے مال کو یا تو کوئی اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا یا پھر سودی منافع حاصل کرنے کا ذریعہ بنائے گا۔ اور آپ کو معلوم ہے کہ آج کے بینکنگ کے نظام میں سب سے زیادہ زور بچت saving پر دیا جاتا ہے اور اس کے لیے سیونگ اکاؤنٹ اور بہت سی پرکشش منافع بخش سکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں۔ ان کی طرف سے یہی ترغیب دی جاتی ہے کہ بچت کرو مزید کمانے کے لیے ! بچت اس لیے نہیں کہ اپنا پیٹ کاٹو اور غرباء کی ضروریات پوری کرو ‘ اپنا معیار زندگی کم کرو اور اللہ کے دین کے لیے خرچ کرو۔ نہیں ‘ بلکہ اس لیے کہ جو کچھ تم بچاؤ وہ ہمیں دو ‘ تاکہ وہ ہم زیادہ شرح سود پر دوسروں کو دیں اور تھوڑی شرح سود تمہیں دے دیں۔ چناچہ انفاق اور سود ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 فرمایا :آیت 275 اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لاَ یَقُوْمُوْنَ الاَّ کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ط یہاں عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ یہ قیامت کے دن کا نقشہ ہے۔ قیامت کے دن کا یہ نقشہ تو ہوگا ہی ‘ اس دنیا میں بھی سود خوروں کا حال یہی ہوتا ہے ‘ اور ان کا یہ نقشہ کسی سٹاک ایکسچینج میں جا کر بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ معلوم ہوگا گویا دیوانے ہیں ‘ پاگل ہیں ‘ جو چیخ رہے ہیں ‘ دوڑ رہے ہیں ‘ بھاگ رہے ہیں۔ وہ نارمل انسان نظر نہیں آتے ‘ مخبوط الحواس لوگ نظر آتے ہیں جن پر گویا آسیب کا سایہ ہو۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا 7 کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ میں نے سو روپے کا مال خریدا ‘ 110 روپے میں بیچ دیا ‘ دس روپے بچ گئے ‘ یہ ربح منافع ہے ‘ جو جائز ہے ‘ لیکن اگر سو روپے کسی کو دیے اور 110 واپس لیے تو یہ ربا سود ہے ‘ یہ حرام کیوں ہوگیا ؟ ایک شخص نے دس لاکھ کا مکان بنایا ‘ چار ہزار روپے ماہانہ کرایے پردے دیا تو جائز ہوگیا ‘ اور دس لاکھ روپے کسی کو قرض دیے اور اس سے چار ہزار روپے مہینہ لینا شروع کیے تو یہ سود ہوگیا ‘ حرام ہوگیا ‘ ایسا کیوں ہے ؟ عقلی طور پر اس طرح کی باتیں سود کے حامیوں کی طرف سے کہی جاتی ہیں۔ ربح اور ربا کا فرق سورة البقرۃ کی آیت 26 کے ضمن میں بیان ہوچکا ہے۔ اس ظاہری مناسبت کی وجہ سے یہ مخبوط الحواس سود خور لوگ ان دونوں کے اندر کوئی فرق محسوس نہیں کرتے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے قول کا عقلی جواب نہیں دیا ‘ بلکہ فرمایا : وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ط اب تم یہ بات کرو کہ اللہ کو مانتے ہو یا نہیں ؟ رسول اللہ ﷺ کو مانتے ہو یا نہیں ؟ قرآن کو مانتے ہو یا نہیں ؟ یا محض اپنی عقل کو مانتے ہو ؟ اگر تم مسلمان ہو ‘ مؤمن ہو تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر سر تسلیم خم کرو : وَمَا اٰتٰٹکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُق وَمَا نَھٰٹکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْاق الحشر : 7 جو کچھ رسول ﷺ تمہیں دیں اسے لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ۔ یہ تو شریعت کا معاملہ ہے۔ ویسے معاشیات کے اعتبار سے اس میں یہ فرق واقع ہوتا ہے کہ ایک ہے fluid capital اور ایک ہے fixed capital۔ جہاں تک مکان کا معاملہ ہے تو وہ fixed capital ہے۔ دس لاکھ روپے کے مکان میں جو شخص رہ رہا ہے وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گا ؟ وہ اس میں رہائش اختیار کرے گا اور اس کے عوض ماہانہ کرایہ ادا کرے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ نے دس لاکھ روپے کسی کو نقد دے دیے تو وہ انہیں کسی کام میں لگائے گا۔ اس میں یہ بھی امکان ہے کہ دس لاکھ کے بارہ لاکھ یا پندرہ لاکھ بن جائیں اور یہ بھی کہ آٹھ لاکھ رہ جائیں۔ چناچہ اس صورت میں اگر آپ نے پہلے سے طے شدہ fix منافع وصول کیا تو یہ حرام ہوجائے گا۔ تو ان دونوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عقلی جواب نہیں دیا۔ جواب دیا کہ اللہ نے بیع کو حلال ٹھہرایا ہے اور ربا کو حرام۔فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ط۔ وہ اس سے واپس نہیں لیا جائے گا۔ حساب کتاب نہیں کیا جائے گا کہ تم اتنا سود کھاچکے ہو ‘ واپس کرو۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس پر اس کا کوئی گناہ نہیں ہوگا۔وَاَمْرُہٗ اِلَی اللّٰہِ ط۔ اللہ تعالیٰ چاہے گا تو معاف کر دے گا اور چاہے گا تو پچھلے سود پر بھی سرزنش ہوگی۔

يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

📘 آیت 276 یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط ہمارے زمانے میں شیخ محمود احمد مرحوم نے اپنی کتاب Man Money میں ثابت کیا ہے کہ تین چیزیں سود کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ جتنا سود بڑھے گا اسی قدر بےروزگاری بڑھے گی ‘ افراطِ زر inflation میں اضافہ ہوگا اور اس کے نتیجے میں شرح سود interest rate بڑھے گا۔ شرح سود کے بڑھنے سے بےروزگاری مزید بڑھے گی اور افراطِ زر میں اور زیادہ اضافہ ہوگا۔ یہ ایک دائرۂ خبیثہ vicious circleہے اور اس کے نتیجے میں کسی ملک کی معیشت بالکل تباہ ہوجاتی ہے۔ یہ تباہی ایک وقت تک پوشیدہ رہتی ہے ‘ لیکن پھر یک دم اس کا ظہور بڑے بڑے بینکوں کے دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ ابھی جو کو ریا کا حشر ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس سے پہلے روس کا جو حشر ہوچکا ہے وہ پوری دنیا کے لیے باعث عبرت ہے۔ سودی معیشت کا معاملہ تو گویا شیش محل کی طرح ہے ‘ اس میں تو ایک پتھر آکر لگے گا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے۔ اس کے برعکس معاملہ صدقات کا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ پالتا ہے ‘ بڑھاتا ہے ‘ جیسا کہ سورة الروم کی آیت 39 میں ارشاد ہوا۔ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ اللہ تعالیٰ کو وہ سب لوگ ہرگز پسند نہیں ہیں جو ناشکرے اور گناہگار ہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 277 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج نیک عمل میں ظاہر بات ہے جو شے حرام ہے اس کا چھوڑ دینا بھی لازم ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 278 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبآوا آج فیصلہ کرلو کہ جو کچھ بھی تم نے کسی کو قرض دیا تھا اب اس کا سود چھوڑ دینا ہے۔

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ

📘 آیت 279 فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ج سود خوری سے با زنہ آنے پر یہ الٹی میٹم ہے۔ قرآن و حدیث میں کسی اور گناہ پر یہ بات نہیں آئی ہے۔ یہ واحد گناہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ ج۔ تمہارے جو اصل رأس المال ہیں وہ تمہیں لوٹا دیے جائیں گے۔ چناچہ سود چھوڑ دو اور اپنے رأس المال واپس لے لو۔ لاَ تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ ۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو کہ اس سے سود وصول کرو اور نہ ہی تم پر ظلم کیا جائے کہ تمہارا رأس المال بھی دبا دیا جائے۔

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 آیت 28 کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ باللّٰہِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاکُمْ ج ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ اس مقام پر ایک بڑی گہری حکمت اور فلسفے کی بات بیان کی گئی ہے جو آج نگاہوں سے بالکل اوجھل ہوچکی ہے۔ وہ یہ کہ ہم دنیا میں آنے سے پہلے مردہ تھے کُنْتُمْ اَمْوَاتًا۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟یہ مضمون سورة غافر؍سورۃ المؤمن میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے ‘ جو سورة البقرۃ سے پہلے نازل ہوچکی تھی۔ لہٰذا یہاں اجمالی تذکرہ ہے۔ وہاں اہل جہنم کا قول بایں الفاظ نقل ہوا ہے : رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا فَھَلْ اِلٰی خُرُوْجٍ مِّنْ سَبِیْلٍ ”اے ہمارے ربّ ! تو نے دو مرتبہ ہم پر موت وارد کی اور دو مرتبہ ہمیں زندہ کیا ‘ اب ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کرلیا ہے ‘ تو اب یہاں سے نکلنے کا بھی کوئی راستہ ہے ؟“ اس سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ انسان کی تخلیقِ اوّل عالم ارواح میں صرف ارواح کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ احادیث میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : اَلْاَرْوَاحُ جُنُوْدٌ مُجَنَّدَۃٌ [ متفق علیہ ] یعنی ارواح جمع شدہ لشکروں کی صورت میں تھیں۔ ان ارواح سے وہ عہد لیا گیا جو ”عہد الست“ کہلاتا ہے۔ پھر انہیں سلا دیا گیا۔ یہ گویا پہلی موت تھی جو ہم گزار آئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ مردہ معدوم نہیں ہوتا ‘ بےجان ہوتا ہے ‘ ایک طرح سے سویا ہوا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم میں موت اور نیند کو باہم تشبیہہ دی گئی ہے۔ پھر دنیا میں عالم خلق کا مرحلہ آیا ‘ جس میں تناسل کے ذریعے سے اجساد انسانیہ کی تخلیق ہوتی ہے اور ان میں ارواح پھونکی جاتی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رض سے مروی متفق علیہ حدیث کے مطابق رحم مادر میں جنین جب چار ماہ کا ہوجاتا ہے تو اس میں وہ روح لا کر پھونک دی جاتی ہے۔ یہ گویا پہلی مرتبہ کا زندہ کیا جانا ہوگیا۔ ہم اس دنیا میں اپنے جسد کے ساتھ زندہ ہوگئے ‘ ہمیں پہلی موت کی نیند سے جگادیا گیا۔ اب ہمیں جو موت آئے گی وہ ہماری دوسری موت ہوگی اور اس کے نتیجے میں ہمارا جسد وہیں چلا جائے گا جہاں سے آیا تھا یعنی مٹی میں اور ہماری روح بھی جہاں سے آئی تھی وہیں واپس چلی جائے گی۔ یہ فلسفہ و حکمت قرآنی کا بہت گہرا نکتہ ہے۔

وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 280 وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ ط اسے مہلت دو کہ اس کے ہاں کشادگی پیدا ہوجائے تاکہ وہ آسانی سے آپ کا قرض آپ کو واپس کرسکے۔ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ تمہارا بھائی غریب تھا ‘ اس کو تم نے قرض دیا تھا ‘ اس پر کچھ سود لے کر کھا بھی چکے ہو ‘ باقی سود کو تو چھوڑا ہی ہے ‘ اگر اپنا رأس المال بھی اس کو بخش دو تو یہ انفاق ہوجائے گا ‘ یہ اللہ کو قرض حسنہ ہوجائے گا اور تمہارے لیے ذخیرۂ آخرت بن جائے گا۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ آپ کی جو بچت ہے ‘ جسے میں نے قدر زائد surplus valueکہا تھا ‘ اسلامی معیشت کے اندر اس کا سب سے اونچا مصرف انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو ‘ صدقہ کر دو۔ اس سے کم تر قرض حسنہ ہے۔ آپ کے کسی بھائی کا کاروبار رک گیا ہے ‘ اس کو قرض دے دو ‘ اس کا کاروبار چل پڑے گا اور پھر وہ تمہیں تمہاری اصل رقم واپس کر دے گا۔ یہ قرض حسنہ ہے ‘ اس کا درجہ انفاق سے کم تر ہے۔ تیسرا درجہ مضاربت کا ہے ‘ جو جائز تو ہے مگر پسندیدہ نہیں ہے۔ اگر تم زیادہ ہی خسیس ہو تو چلو اپنا سرمایہ اپنے کسی بھائی کو مضاربت پردے دو۔ اور مضاربت یہ ہے کہ رقم تمہاری ہوگی اور کام وہ کرے گا۔ اگر بچت ہوجائے تو اس میں تمہارا بھی حصہ ہوگا ‘ لیکن اگر نقصان ہوجائے تو وہ کلُ کا کل تمہارا ہوگا ‘ تم اس سے کوئی تاوان نہیں لے سکتے۔ اس کے بعد ان تین درجوں سے بھی نیچے اتر کر اگر تم کہو کہ میں یہ رقم تمہیں دے رہا ہوں ‘ اس پر اتنے فیصد منافع تو تم نے بہرحال دینا ہی دینا ہے ‘ تو اس سے بڑھ کر حرام شے کوئی نہیں ہے۔ اس آیت میں ہدایت کی جا رہی ہے کہ اگر تمہارا مقروض تنگی میں ہے تو پھر انتظار کرو ‘ اسے اس کی کشائش اور فراخی تک مہلت دے دو۔ اور اگر تم صدقہ ہی کر دو ‘ خیرات کر دو ‘ بخش دو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ اگر تمہیں اللہ نے حکمت عطا کردی ہے ‘ اگر تم اولو الالباب ہو ‘ اگر تم سمجھ دار ہو تو تم اس بچت کے امیدوار بنو جو اللہ کے ہاں اجر وثواب کی صورت میں تمہیں ملے گی۔ اس کے مقابلے میں اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں جو تمہیں مقروض سے واپس ملنی ہے۔اگلی آیت نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی آخری آیت ہے

وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آیت 281 وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ قف یہاں وہ آیت یاد کیجیے جو سورة البقرۃ میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ دو بار آچکی ہے : وَاتَّقُوْا یَوْمًا لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ وصول کیا جائے گا اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔ اور وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلاَ تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ اور ڈرو اس دن سے کہ جس دن کام نہ آسکے گی کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی اور نہ کسی سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ کسی کو کوئی سفارش فائدہ پہنچا سکے گی اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ۖ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 آیت 282 ‘ جو زیر مطالعہ ہے ‘ قرآن حکیم کی طویل ترین آیت ہے اور اسے آیت دین یا آیت مُدَایَنَۃ کا نام دیا گیا ہے۔ اس آیت میں ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی قرض کا باہم لین دین ہو یا آپس میں کاروباری معاملہ ہو تو اسے باقاعدہ طور پر لکھ لیا جائے اور اس پر دو گواہ مقرر کیے جائیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر اس قرآنی ہدایت کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور کسی بھائی ‘ دوست یا عزیز کو قرض دیتے ہوئے یا کوئی کاروباری معاملہ کرتے ہوئے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے کیا لکھوانا ہے ‘ وہ کہے گا کہ انہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے۔ چناچہ تمام معاملات زبانی طے کرلیے جاتے ہیں ‘ اور بعد میں جب معاملات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو پھر لوگ شکوہ و شکایت اور چیخ و پکار کرتے ہیں۔ اگر شروع ہی میں قرآنی ہدایات کے مطابق مالی معاملات کو تحریر کرلیا جائے تو نوبت یہاں تک نہ پہنچے گی۔ حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ جو شخص قرض دیتے ہوئے یا کوئی مالی معاملہ کرتے ہوئے لکھواتا نہیں ہے ‘ اگر اس کا مال ضائع ہوجاتا ہے تو اسے اس پر کوئی اجر نہیں ملتا ‘ اور اگر وہ مقروض کے حق میں بددعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی فریاد نہیں سنتا ‘ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔آیت 282 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ ط آیت کے اس ٹکڑے سے دو حکم معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ قرض کا وقت معینّ ہونا چاہیے کہ یہ کب واپس ہوگا اور دوسرے یہ کہ اسے لکھ لیا جائے۔ فَاکْتُبُوْہُ فعل امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌم بالْعَدْلِ ۔ لکھنے والا کوئی ڈنڈی نہ مار جائے ‘ اسے چاہیے کہ وہ صحیح صحیح لکھے۔وَلاَ یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ ج یہ ہدایت تاکید کے ساتھ کی گئی ‘ اس لیے کہ اس معاشرے میں پڑھے لکھے لوگ بہت کم ہوتے تھے۔ اب بھی مالی معاملات اور معاہدات بالعموم وثیقہ نویس تحریر کرتے ہیں۔وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ یعنی جس نے قرض لیا ہے وہ دستاویز لکھوائے کہ میں کیا ذمہّ داری لے رہا ہوں ‘ جس کا مال ہے وہ نہ لکھوائے۔ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ اور وہ اللہ سے ڈرتا رہے اپنے رب سے وَلاَ یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْءًا ط۔ فَاِنْ کَانَ الَّذِیْْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْہًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْلاَ یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ہُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بالْعَدْلِ ط۔ اگر قرض لینے والا ناسمجھ ہو ‘ ضعیف ہو یا دستاویز نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا کوئی ولی ‘ کوئی وکیل یا مختار attorneyاس کی طرف سے انصاف کے ساتھ دستاویز تحریر کرائے۔ یہاں املال املا کے معنی میں آیا ہے۔وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ ج فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ جن کی گواہی ہر دو فریق کے نزدیک مقبول ہو اور ان پر دونوں کو اعتماد ہو۔ اگر مذکورہ صفات کے دو مرد دستیاب نہ ہو سکیں تو گواہی کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کرلیا جائے۔ یعنی گواہوں میں ایک مرد کا ہونا لازم ہے ‘ محض عورت کی گواہی نہیں چلے گی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہر قسم کے معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے یا یہ معاملہ صرف قرض اور مالی معاملات میں دستاویز تحریر کرتے وقت کا ہے ‘ اس کی تفصیل فقہاء کے ہاں ملتی ہے۔اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰٹہُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰٹہُمَا الْاُخْرٰی ط۔ یہاں عقلی سوال پیدا ہوگیا کہ کیا مرد نہیں بھول سکتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واقعتا اللہ تعالیٰ نے عورت کے اندر نسیان کا مادّہ زیادہ رکھا ہے۔ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَط وَھُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ الملک کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے ؟ وہ بڑا باریک بین اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔ جس نے پیدا کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ کس میں کون سا مادّہ زیادہ ہے۔ عورت میں نسیان کا مادّہ کیوں زیادہ رکھا گیا ہے ‘ یہ بھی سمجھ لیجیے۔ یہ بڑی عقلی اور منطقی بات ہے۔ دراصل عورت کو مرد کے تابع رہنا ہوتا ہے ‘ لہٰذا اس کے احساسات کو کبھی ٹھیس پہنچ سکتی ہے ‘ اس کے جذبات کے اوپر کبھی کوئی کدورت آتی ہے۔ اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر بھول جانے کا مادہ سیفٹی والو کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ورنہ تو ان کا معاملہ اس شعر کے مصداق ہوجائے ؂یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے اب مجھ سے حافظہ میرا !چنانچہ یہ نسیان بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے ‘ ورنہ تو کوئی صدمہ دل سے اترنے ہی نہ پائے ‘ کوئی غصہ کبھی ختم ہی نہ ہو۔ بہرحال خواہ کسی حکم کی علتّ یا حکمت سمجھ میں آئے یا نہ آئے ‘ اللہ کا حکم تو بہرصورت ماننا ہے۔وَلاَ یَاْبَ الشُّہَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا ط۔ گواہوں کو جب گواہی کے لیے بلایا جائے تو آکر گواہی دیں ‘ اس سے انکار نہ کریں۔ اسی سورة مبارکہ کی آیت 140 میں ہم پڑھ آئے ہیں : وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ ط اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس کے پاس اللہ کی طرف سے ایک شہادت موجود ہو اور وہ اسے چھپائے ؟وَلَا تَسْءَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا الآی اَجَلِہٖ ط۔ قرض خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ‘ اس کی دستاویز تحریر ہونی چاہیے کہ میں اتنی رقم لے رہا ہوں اور اتنے وقت میں اسے لوٹا دوں گا۔ اس کے بعد قرض خواہ اس مدت کو بڑھا بھی سکتا ہے ‘ مزیدمہلت دے سکتا ہے ‘ بلکہ معاف بھی کرسکتا ہے۔ لیکن قرض دیتے وقت اس کی مدت معینّ ہونی چاہیے۔ ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاَقْوَمُ للشَّہَادَۃِ معاملہ ضبط تحریر میں آجائے گا تو بہت واضح رہے گا ‘ ورنہ زبانی یادداشت کے اندر تو کہیں تعبیر ہی میں فرق ہوجاتا ہے۔وَاَدْنآی الاَّ تَرْتَابُوْا اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَہَا بَیْنَکُمْ مثلاً آپ کسی دکاندار سے کوئی شے خریدتے ہیں اور نقد پیسے ادا کرتے ہیں تو ضروری نہیں کہ آپ اس کا کیش میمو بھی لیں۔ اگر آپ چاہیں تو دکاندار سے کیش میمو طلب کرسکتے ہیں۔فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلاَّ تَکْتُبُوْہَا ط وَاَشْہِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ بیع سلم جو ہوتی ہے یہ مستقبل کا سودا ہے ‘ اور یہ بھی ایک طرح کا قرض ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی زمیندار سے طے کرتے ہیں کہ آئندہ فصل کے موقع پر آپ اس سے اتنے روپے فی من کے حساب سے پانچ سو من گندم خریدیں گے۔ یہ بیع سلم کہلاتی ہے اور اس میں لازم ہے کہ آپ پوری قیمت ابھی ادا کردیں اور آپ کو گندم فصل کے موقع پر ملے گی۔ اس طرح کا لین دین بھی باقاعدہ تحریر میں آجانا چاہیے اور اس پر دو گواہ مقرر ہونے چاہئیں۔وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلاَ شَہِیْدٌ ط یُضَآرَّمیں یہ دونوں مفہوم موجود ہیں۔ اس لیے کہ یہ معروف بھی ہے اور مجہول بھی۔ وَاِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌم بِکُمْ ط وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ یہ ایک آیت مکمل ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آخری پارے کی چار پانچ چھوٹی سورتیں جمع کرلیں تو ان کا حجم اس ایک آیت کے برابر ہوگا۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ آیات کی تعیین توقیفی ہے۔ اس کا ہمارے حساب کتاب سے ‘ گرامر سے ‘ منطق سے اور علم بیان سے کوئی تعلق نہیں۔

۞ وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ

📘 آیت 283 وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا اگر دوران سفر کوئی لین دین کا یا قرض کا معاملہ ہوجائے اور کوئی کاتب نہ مل سکے۔فَرِہٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ ط قرض لینے والا اپنی کوئی شے قرض دینے والے کے حوالے کر دے کہ میری یہ شے آپ کے قبضے میں رہے گی ‘ آپ اتنے پیسے مجھے دے دیجیے ‘ میں جب یہ واپس کر دوں گا آپ میری چیز مجھے لوٹا دیجیے گا۔ یہ رہن بالقبضہ ہے۔ لیکن رہن گروی رکھی ہوئی چیز سے کوئی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے ‘ وہ سود ہوجائے گا۔ مثلاً اگر مکان رہن رکھا گیا ہے تو اس پر قبضہ تو قرض دینے والا کا ہوگا ‘ لیکن وہ اس سے استفادہ نہیں کرسکتا ‘ اس کا کرایہ نہیں لے سکتا ‘ کرایہ مالک کو جائے گا۔ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا یعنی ایک شخص دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر رہن کے اسے قرض دے دیتا ہے۔ فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ ایک شخص کے پاس رہن دینے کو کچھ نہیں تھا یا یہ کہ دوسرے بھائی نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے کوئی شے رہن نہیں لی اور اس کو قرض دے دیا تو یہ مال جو اس نے قرض لیا ہے یہ اس کے پاس قرض دینے والے کی امانت ہے ‘ جس کا واپس لوٹانا اس کے ذمے فرض ہے۔ ّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ط وَلاَ تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَاِنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط بعض گناہوں کا اثر انسان کے ظاہری اعضاء تک محدود ہوتا ہے ‘ جبکہ بعض کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ شہادت کا چھپانا بھی اسی نوعیت کا گناہ ہے۔ اور اگر کسی کا دل داغ دار ہوگیا تو باقی کیا رہ گیا ؟

لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سورة البقرۃ کے آخری رکوع پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ عظیم الشان رکوع تین آیات پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ہم اسی طرح کا ایک عظیم رکوع پڑھ آئے ہیں جس کی چار آیات ہیں اور اس میں آیت الکرسی بھی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں رکوع اپنی عظمت اور اپنے مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہّ ہیں۔ آیت الکرسی توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین آیت ہے ‘ اور اس رکوع کی آخری آیت جامع ترین دعا پر مشتمل ہے۔آیت 284 لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے الفاظ سورتوں کے اختتام پر آتے ہیں۔وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط۔ تمہاری نیتیں اس کے علم میں ہیں۔ ایک حدیث میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ 36 یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھتا ‘ بلکہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تو تمہارے دل میں جو کچھ ہے خواہ اسے کتنا ہی چھپالو اللہ کے محاسبے سے نہیں بچ سکو گے۔فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط۔ اختیار مطلق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاں اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں ہے کہ نیکوکار کو اس کی جزا ضرور دے اور بدکار کو اس کی سزا ضرور دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ ایسا کرے گا ‘ لیکن اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ اس پر کسی شے کو لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ البروج کی شان کا حامل ہے۔ سورة الحج میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اہل تشیع کا موقف یہ ہے کہ اللہ پر عدل واجب ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ عدل کرے گا ‘ جزاء و سزا میں عدل ہوگا ‘ لیکن عدل کرنا اس پر واجب نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ نے جو شے اپنے اوپر واجب کی ہے وہ رحمت ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط الانعام : 12 اور : کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَلا الانعام : 54 تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ

📘 آیت 285 اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط یہ ایک غور طلب بات اور بڑا باریک نکتہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر جب وحی آئی تو آپ ﷺ نے کیسے پہچان لیا کہ یہ بدروح نہیں ہے ‘ یہ جبرائیل امین علیہ السلام ہیں ؟ آخر کوئی اشتباہ بھی تو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ پہلا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے نہ تو آپ ﷺ نے کہانت سیکھی اور نہ آپ نے کوئی نفسیاتی ریاضتیں کیں۔ آپ ﷺ تو ایک کاروباری آدمی تھے اور اہل و عیال کے ساتھ بہت ہی بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ آپ ﷺ کا بلند ترین سطح کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔ یہ درحقیقت آپ ﷺ کی فطرت سلیمہ تھی جس نے وحی لانے والے فرشتے کو پہچان لیا اور آپ ﷺ اس وحی پر ایمان لے آئے۔ نبی کی فطرت اتنی پاک اور صاف ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کسی بدروح وغیرہ کا کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا۔ بہرحال ہمارے لیے بڑی تسکین کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ایمان کے تذکرے کے ساتھ ہمارے ایمان کا تذکرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اصحاب ایمان میں شامل فرمائے۔ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف سورۃ البقرۃ میں یہ دوسرا مقام ہے جہاں ایمان کے اجزاء کو گنا گیا ہے۔ قبل ازیں آیۃ البر آیت 177 میں اجزائے ایمان کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف۔ یہ بات تیسری مرتبہ آگئی ہے کہ اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ سولہویں رکوع میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں : لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ صلے وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ہم ان میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں۔ اور سب سے پہلے آیت 4 میں یہ الفاظ آ چکے ہیں : وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ البتہ رسولوں کے درمیان تفضیل ثابت ہے اور ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں : تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ 7 مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ط آیت 253 یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے وہ بھی تھے جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے کسی اور اعتبار سے بلند کردیے۔وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاق غُفْرَانَکَ رَبَّنَا غُفْرَانَکَ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی نَسْءَلُکَ غُفْرَانَکَ اے اللہ ! ہم تجھ سے تیری مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں۔ وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ یہاں پر ایمان بالآخرۃ کا ذکر بھی آگیا جو اوپر ان الفاظ میں نہیں آیا تھا : کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف۔ اب آخری آیت آرہی ہے۔

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 286 لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط یہ آیت اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے۔ میں نے آیت 186 کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور Magna Carta ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے : اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی اور جہاں بھی وہ مجھے پکارے۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ پس انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ گویا دو طرفہ بات چلے گی ‘ یک طرفہ نہیں۔ میری مانو ‘ اپنی منواؤ ! تم دعائیں کرو گے ‘ ہم قبول کریں گے ! لیکن اگر تم ہماری بات نہیں مانتے تو پھر تمہاری دعا تمہارے منہ پردے ماری جائے گی ‘ خواہ قنوت نازلہ چالیس دن تو کیا اسّی دن تک پڑھتے رہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری دعاؤں کے باوجود تمہیں سقوط ڈھا کہ کا سانحہ دیکھنا پڑا ‘ تمہیں یہودیوں کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ ان مواقع پر حرمین شریفین میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ لیکن تمہاری دعائیں کیونکر قبول ہوتیں ! تمہارا جرم یہ ہے کہ تم نے اللہ کو پیٹھ دکھائی ہوئی ہے ‘ اس کے دین کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے ‘ اللہ کے باغیوں سے دوستی رکھی ہوئی ہے۔ کسی نے ماسکو کو اپنا قبلہ بنا رکھا تھا تو کسی نے واشنگٹن کو۔ لہٰذا تمہاری دعائیں تمہارے منہ پردے ماری گئیں۔لیکن آیت زیر مطالعہ اس اعتبار سے بہت بڑی رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھے کی لاٹھی والا معاملہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں سے محاسبہ ایک ہی سطح پر ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ کس کی کتنی وسعت ہے اور اسی کے مطابق کسی کو ذمہّ دارٹھہراتا ہے۔ اور یہ وسعت موروثی اور ماحولیاتی عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر شخص کو جو genes ملتے ہیں وہ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان genes کی اپنی اپنی خصوصیات properties اور تحدیدات ‘ limitations ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ماحول میسرّ آتا ہے۔ تو ان موروثی عوامل hereditary factors اور ماحولیاتی عوامل environmental factors کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ بنتا ہے ‘ جس کو مستری لوگ پاٹن کہتے ہیں۔ جب لوہے کی کوئی شے ڈھالنی مقصود ہو تو اس کے لیے پہلے مٹی یا لکڑی کا ایک سانچہ pattern بنایا جاتا ہے۔ اس کو ہمارے ہاں کاریگر اپنی بولی میں پاٹن کہتے ہیں۔ اب آپ لوہے کو پگھلا کر اس میں ڈالیں گے تو وہ اسی صورت میں ڈھل جائے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ شاکلہ ہے جو ہر انسان کا بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً بنی اسرائیل کہہ دیجیے کہ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ پس آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔ اس شاکلہ کے اندر اندر آپ کو محنت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا شاکلہ وسیع تھا اور کس کا تنگ تھا ‘ کس کے genes اعلیٰ تھے اور کس کے ادنیٰ تھے ‘ کس کے ہاں ذہانت زیادہ تھی اور کس کے ہاں جسمانی قوت زیادہ تھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کس کو کیسی صلاحیتیں ودیعت کی گئیں اور کیسا ماحول عطا کیا گیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ماحولیاتی عوامل اور موروثی عوامل کو ملحوظ رکھ کر اس کی استعدادات کے مطابق حساب لے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص کے اندر استعداد ہی 20 درجے کی ہے اور اس نے 18 درجے کام کر دکھایا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ لیکن اگر کسی میں استعداد سو درجے کی تھی اور اس نے 50 درجے کام کیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حالانکہ کمیت کے اعتبار سے 50 درجے 18 درجے سے زیادہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ جو ہے وہ انفرادی سطح پر ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا مریم اور سب لوگ قیامت کے دن اس کے حضور فرداً فرداً حاضر ہوں گے۔ وہاں ہر ایک کا حساب اکیلے اکیلے ہوگا اور وہ اس کی وسعت کے مطابق ہوگا۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط کے الفاظ میں جو ایک اہم اصول بیان کردیا گیا ہے ‘ بعض لوگ دنیا کی زندگی میں اس کا غلط نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں۔ وہ دنیا کے معاملات میں تو خوب بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔ یہ محض خود فریبی ہے۔ استعداد و استطاعت اور ذہانت و صلاحیت کے بغیر تو دنیا میں بھی آپ محنت نہیں کرسکتے ‘ کوئی نتائج حاصل نہیں کرسکتے ‘ کچھ کما نہیں سکتے۔ لہٰذا اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دیجیے اور جو کچھ کرسکتے ہوں ‘ وہ ضرور کیجیے۔ اپنی شخصیت کو کھود کھود کر اس میں سے جو کچھ نکال سکتے ہوں وہ نکالیے ! ہاں آپ نکال سکیں گے اتنا ہی جتنا آپ کے اندر ودیعت ہے۔ زیادہ کہاں سے لے آئیں گے ؟ اور اللہ نے کس میں کیا ودیعت کیا ہے ‘ وہ وہی جانتا ہے۔ تمہارا محاسبہ اسی کی بنیاد پر ہوگا جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ یہ قرآن مجید میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط۔ اس مقام پر بھی ل اور عَلٰی کے استعمال پر غور کیجیے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ سے مراد ہے جو بھی نیکی اس نے کمائی ہوگی وہ اس کے لیے ہے ‘ اس کے حق میں ہے ‘ اس کا اجر وثواب اسے ملے گا۔ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط سے مراد ہے کہ جو بدی اس نے کمائی ہوگی اس کا وبال اسی پر آئے گا ‘ اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ اب وہ دعا آگئی ہے جو قرآن مجید کی جامع ترین اور عظیم ترین دعا ہے : رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ج ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی شخصیت کے کونوں کھدروں میں سے امکان بھر اپنی باقی ماندہ توانائیوں residual energies کو بھی نکال نکال کر اللہ کی راہ میں لگا لیں ‘ لیکن اس کے بعد بھی اپنی محنت پر ‘ اپنی نیکی ‘ اپنی کمائی اور اپنے کارناموں پر کوئی غرّہ نہ ہو ‘ کوئی غرور نہ ہو ‘ کہیں انسان دھوکہ نہ کھاجائے۔ بلکہ اس کی کیفیت تواضع ‘ عجز اور انکساری کی رہنی چاہیے۔ اور اسے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے پروردگار ! ہماری بھول چوک پر ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا۔ انسان کے اندر خطا اور نسیان دونوں چیزیں گندھی ہوئی ہیں : اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَاأ وَالنِّسْیَانِ خطا یہ ہے کہ آپ نے اپنی امکانی حد تک تو نشانہ ٹھیک لگایا تھا ‘ لیکن نشانہ خطا ہوگیا۔ اس پر آپ کی گرفت نہیں ہوگی ‘ اس لیے کہ آپ کی نیت صحیح تھی۔ ایک اجتہاد کرنے والا اجتہاد کر رہا ہے ‘ اس نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ صحیح رائے تک پہنچے ‘ لیکن خطا ہوگئی۔ اللہ معاف کرے گا۔ مجتہد مخطی بھی ہو تو اس کو ثواب ملے گا اور مجتہد مصیب ہو ‘ صحیح رائے پر پہنچ جائے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ اور نسیان یہ ہے کہ بھولے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ 37 اللہ تعالیٰ نے میری امتّ سے خطا اور نسیان معاف فرما دیا ہے۔رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج۔ ایک حمل بوجھ وہ ہوتا ہے جس کو لے کر انسان چلتا ہے۔ اسی سے حمال بنا ہے جو ایک بوری کو یا بوجھ کو اٹھا کر چل رہا ہے۔ جو بوجھ آپ کی طاقت میں ہے اور جسے لے کر آپ چل سکیں وہ حمل ہے ‘ اور جس بوجھ کو آپ اٹھا نہ سکیں اور وہ آپ کو بٹھا دے اس کو اصر کہتے ہیں۔ یہ لفظ سورة الاعراف آیت 157 میں پھر آئے گا : وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط ان الفاظ میں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے وہ بوجھ جو ان کی طاقت سے بڑھ کر تھے ‘ ان کے کندھوں سے اتار دیے۔ ہم سے پہلے لوگوں پر بڑے بھاری بوجھ ڈالے گئے تھے۔ شریعت موسوی ہماری شریعت کی نسبت بہت بھاری تھی۔ جیسے ان کے ہاں روزہ رات ہی سے شروع ہوجاتا تھا ‘ لیکن ہمارے لیے یہ کتنا آسان کردیا گیا کہ روزے سے رات کو نکال دیا گیا اور سحری کرنے کی تاکید فرمائی گئی : تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً 38 سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحریوں میں برکت رکھی گئی ہے۔ پھر رات میں تعلق زن و شو کی اجازت دی گئی۔ ان کے روزے میں خاموشی بھی شامل تھی۔ یعنی نہ کھانا ‘ نہ پینا ‘ نہ تعلق زن و شو اور نہ گفتگو۔ ہمارے لیے کتنی آسانی کردی گئی ہے ! ان کے ہاں یوم سبت کا حکم اتنا سخت تھا کہ پورا دن کوئی کام نہیں کرو گے۔ ہمارے ہاں جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے ادا ہوجانے تک ہر کاروبار دنیوی حرام ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کاروبار کرسکتے ہیں۔ رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّاوقفۃ ہماری لغزشوں کو معاف کرتا رہ !وَاغْفِرْ لَنَاوقفۃ ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما دے !مغفرت کے لفظ کو سمجھ لیجیے۔ اس میں ڈھانپ لینے کا مفہوم ہے۔ مِغْفَرْ ’ خود ‘ ہیلمٹ کو کہتے ہیں ‘ جو جنگ میں سر پر پہنا جاتا ہے۔ یہ سر کو چھپا لیتا ہے اور اسے گولی یا تلوار کے وار سے بچاتا ہے۔ تو مغفرت یہ ہے کہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے ‘ ان کی پردہ پوشی فرما دے۔وَارْحَمْنَآوقفۃ اَنْتَ مَوْلٰٹنَا تو ہمارا پشت پناہ ہے ‘ ہمارا والی ہے ‘ ہمارا حامی و مددگار ہے۔ ہم یہ آیت پڑھ آئے ہیں : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط آیت 257۔فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ انہی الفاظ پر وہ دعا ختم ہوئی تھی جو طالوت کے ساتھیوں نے کی تھی۔ اب اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی جا رہی ہے ‘ اس لیے کہ مرحلہ سخت آ رہا ہے۔ گویا : ؂تاب لاتے ہی بنے گی غالب مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز !اب کفار کے ساتھ مقابلے کا مرحلہ آ رہا ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ درحقیقت غزوۂ بدر کی تمہید ہے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 آیت 29 ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ق اس آیت میں خلافت کا مضمون شروع ہوگیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے : اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ 4 ”یہ دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے بنائے گئے ہو۔“ اگلی آیت میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت ارضی کا ذکر ہے۔ گویا زمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا گیا ہے وہ انسان کی خلافت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰٹھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ط یہ آیت تاحال آیات متشابہات میں سے ہے۔ سات آسمانوں کی کیا حقیقت ہے ‘ ہم ابھی تک پورے طور پر اس سے واقف نہیں ہیں۔ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ اسے ہر شے کا علم حقیقی حاصل ہے۔

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

📘 آیت 3 الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بالْغَیْبِ ”یہ متقین کے اوصاف میں سے پہلا وصف ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ بس جو کچھ ہماری آنکھوں سے نظر آ رہا ہے ‘ حواس خمسہ کی زد میں ہے بس وہی کل حقیقت ہے۔ نہیں ! اصل حقیقت تو ہمارے حواس کی سرحدوں سے بہت پرے واقع ہوئی ہے۔ہدایت قرآنی کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ جو اصل حقیقت ہے وہ اس کی نگاہوں سے مستور ہے۔ انگلستان کے بہت بڑے فلسفی بریڈلے Bradley کی کتاب کا عنوان ہے : ”Appearance and Reality“۔ اس نے لکھا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے یہ حقیقت نہیں ہے ‘ حقیقت اس کے پیچھے ہے ‘ کنفیوشس 551 تا 479 ق م چین کا بہت بڑا حکیم اور فلسفی تھا ‘ اس کی تعلیمات میں اخلاقی رنگ بہت نمایاں ہے۔ اس کا ایک جملہ ہے :There is nothing more real than what can not be seen ; and there is nothing more certain than what can not be heard.یعنی وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے اور کانوں سے سنے نہیں جاسکتے ان سے زیادہ یقینی اور واقعی حقائق کوئی اور نہیں ہیں۔ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ”اللہ کے ساتھ اپنا ایک ذہنی و قلبی اور روحانی رشتہ استوار کرنے کے لیے نماز قائم کرتے ہیں۔ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ’ یعنی خیر میں ‘ بھلائی میں ‘ نیکی میں ‘ لوگوں کی تکالیف دور کرنے میں اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ‘ اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 30 وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط خلیفہ درحقیقت نائب کو کہتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کو مغالطہ لاحق ہوتا ہے کہ خلیفہ اور جانشین کسی کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے ‘ زندگی میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے وائسرائے کا تصور ذہن میں رکھیے۔ 1947 ء سے پہلے ہم انگریز کے غلام تھے۔ ہمارا اصل حاکم بادشاہ یا ملکہ انگلستان میں تھا ‘ جبکہ دہلی میں وائسرائے ہوتا تھا۔ وائسرائے کا کام یہ تھا کہ His Majesty یا Her Majesty کی حکومت کا جو بھی حکم موصول ہو اسے بلا چون و چرا بغیر کسی تغیر اور تبدلّ کے نافذ کرے۔ البتہ وائسرائے کو اختیار حاصل تھا کہ اگر کسی معاملے میں انگلستان سے حکم نہ آئے تو وہ یہاں کے حالات کے مطابق اپنی بہترین رائے قائم کرے۔ وہ غور و فکر کرے کہ یہاں کی مصلحتیں کیا ہیں اور جو چیز بھی سلطنت کی مصلحت میں ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ بعینہٖ یہی رشتہ کائنات کے اصل حاکم اور زمین پر اس کے خلیفہ کے مابین ہے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک اللہ تعالیٰ ہے ‘ لیکن اس نے اپنے آپ کو غیب کے پردے میں چھپالیا ہے۔ زمین پر انسان اس کا خلیفہ ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے آرہی ہے اس پر تو بےچون و چرا عمل کرے اور جس معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے وہاں غور و فکر اور سوچ بچار کرے اور استنباط و اجتہاد سے کام لیتے ہوئے جو بات روح دین سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والی ہو اسے اختیار کرے۔ یہی درحقیقت رشتۂخلافت ہے جو اللہ اور انسان کے مابین ہے۔ یہ حیثیت تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور بالقوۃ potentially ہر انسان اللہ کا خلیفہ ہے ‘ لیکن جو اللہ کا باغی ہوجائے ‘ جو خود حاکمیت کا مدعی ہوجائے تو وہ اس خلافت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی بادشاہ کا ولی عہد اپنے باپ کی زندگی ہی میں بغاوت کر دے اور حکومت حاصل کرنا چاہے تو اب وہ واجب القتل ہے۔ اسی طرح جو لوگ بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے منکر ہو کر خود حاکمیت کے مدعی ہوگئے اگرچہ وہ واجب القتل ہیں ‘ لیکن دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں فوراً ختم نہیں کرتا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ ط الشوریٰ : 14 ”اور اگر ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی ایک وقت معینّ تک تمہارے رب کی طرف سے تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا“۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک وقت معینّ تک کے لیے مہلت دی ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر ختم نہیں کیا جاتا ‘ لیکن کم از کم اتنی سزا ضرور ملتی ہے کہ اب وہ خلافت کے حق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ گویا کہ اب دنیا میں خلافت صرف خلافت المسلمین ہوگی۔ صرف وہ شخص جو اللہ کو اپنا حاکم مطلق مانے ‘ وہی خلافت کا اہل ہے۔ تو یہ چند باتیں خلافت کی اصل حقیقت کے ضمن میں یہیں پر سمجھ لیجیے۔ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط ”اور یاد کرو جب تمہارے رب نے کہا تھا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔“ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو انسان کے بارے میں یہ گمان یا یہ خیال کیسے ہوا ؟ اس کے ضمن میں دو آراء ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان کی تخلیق سے پہلے اس زمین پرّ جنات موجود تھے اور انہیں بھی اللہ نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا اور انہوں نے یہاں فساد برپا کر رکھا تھا۔ ان ہی پر قیاس کرتے ہوئے فرشتوں نے سمجھا کہ انسان بھی زمین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ ایک دوسری اصولی بات یہ کہی گئی ہے کہ جب خلافت کا لفظ استعمال ہوا تو فرشتے سمجھ گئے کہ انسان کو زمین میں کوئی نہ کوئی اختیار بھی ملے گا۔ جناتّ کے بارے میں خلافت کا لفظ کہیں نہیں آیا ‘ یہ صرف انسان کے بارے میں آ رہا ہے۔ اور خلیفہ بالکل بےاختیار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا جہاں واضح حکم ہے اس کا کام اس کی تنفیذ ہے اور جہاں نہیں ہے وہاں اپنے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسے بہتر سے بہتر رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے جہاں اختیار ہوگا وہاں اس کے صحیح استعمال کا بھی امکان ہے اور غلط کا بھی۔ پولٹیکل سائنس کا تو یہ مسلمہ اصول axiom ہے : " Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely."چنانچہ اختیار کے اندر بدعنوانی کا رجحان موجود ہے۔ اس بنا پر انہوں نے قیاس کیا کہ انسان کو زمین میں اختیار ملے گا تو یہاں فساد ہوگا ‘ خون ریزی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی حکمتوں سے میں خود واقف ہوں۔ میں انسان کو خلیفہ کیوں بنا رہا ہوں ‘ یہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 31 وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا مفسرّین کا تقریباً اجماع ہے کہ اس سے مراد تمام اشیاء کے نام ہیں اور تمام اشیاء کے ناموں سے مراد ان کی حقیقت کا علم ہے۔ آپ انسانی علم Human Knowledge کا تجزیہ کریں تو وہ یہی ہے کہ انسان ایک چیز کو پہچانتا ہے ‘ پھر اس کا ایک نام رکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اصطلاح term قائم کرتا ہے۔ وہ اس نام اور اس اصطلاح کے حوالے سے اس چیز کے بارے میں بہت سے حقائق کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام نام سکھا دیے۔ گویا کل مادّی کائنات کے اندر جو کچھ وجود میں آنے والا تھا ‘ ان سب کی حقیقت سے حضرت آدم علیہ السلام کو امکانی طور پر potentially آگاہ کردیا۔ یہ انسان کا اکتسابی علم Acquired Knowledge ہے جو اسے سمع و بصر اور عقل و دماغ سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو حاصل ہونے والے علم کے دو حصے ہیں۔ ایک الہامی علم Revealed Knowledge ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے بھیجتا ہے ‘ جبکہ ایک علم بالحواس یا اکتسابی علم Acquired Knowledge ہے جو انسان خود حاصل کرتا ہے۔ اس نے آنکھوں سے دیکھا ‘ کانوں سے سنا ‘ نتیجہ نکالا اور دماغ کے کمپیوٹر نے اس کو پراسیس کر کے اس نتیجے کو کہیں حافظے memory کے اندر محفوظ کرلیا۔ پھر کچھ اور دیکھا ‘ کچھ اور سنا ‘ کچھ چھو کر ‘ کچھ چکھ کر ‘ کچھ سونگھ کر معلوم ہوا اور کچھ اور نتیجہ نکلا تو اسے سابقہ یادداشت کے ساتھ tally کر کے نتیجہ نکالا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً بنی اسرائیل انسان کو یہ اکتسابی علم Acquired Knowledge تین چیزوں سے حاصل ہورہا ہے : سماعت ‘ بصارت اور عقل۔ عقل اس تمام sense data کو جو اسے مہیا ہوتا ہے ‘ حواس sense organs کے ذریعے سے پراسیس کرتی ہے اور فائدہ اخذ کرتی ہے۔ یہ علم ہے جو بالقوۃ potentially حضرت آدم علیہ السلام کو دے دیا گیا۔ اب اس کی exfoliation ہو رہی ہے اور درجہ بدرجہ وہ علم پھیل رہا ہے ‘ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ کہاں تک پہنچے گا ‘ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ! اس نصف صدی میں علم انسانی میں جو explosion ہوا ہے میں اور آپ اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ اکثر بڑے بڑے سائنس دانوں کو بھی اس کا ادراک و شعور نہیں ہے کہ انسانی علم نے کتنی بڑی زقند لگائی ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی لائن کے بارے میں تو جانتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہوگیا۔ مثلاً ایک سائنس دان صرف فزکس یا اس کی بھی کسی شاخ کے بارے میں جانتا ہے ‘ باقی دوسری شاخوں کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ یہ دور سپیشلائزیشن کا دور ہے ‘ لہٰذا علم کے میدان میں جو بڑا دھماکہ explosion ہوا ہے اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ایک چیز جو آج ایجاد ہوتی ہے چند دنوں کے اندر اندر اس کا نیا version آجاتا ہے اور یہ چیز متروک outdated ہوجاتی ہے۔ ابلاغ اور مواصلات communications کے اندر انقلاب عظیم برپا ہوا ہے۔ آپ یہ سمجھئے کہ اقبال نے جو یہ شعر کبھی کہا تھا ‘ اس کی تعبیر قریب سے قریب تر آرہی ہے ؂ َ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے !اور یہ ”مہ کامل“ اس وقت بنے گا جب دجّال کی شکل اختیار کرے گا۔ دجّال وہ شخص ہوگا جو ان تمام قواعد طبیعیہ Physical Laws کے اوپر قابو پالے گا۔ جب چاہے گا ‘ جہاں چاہے گا بارش برسائے گا۔ وہ رزق کے تمام خزانے اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور اعلان کر دے گا کہ جو اس پر ایمان لائے گا اسی کو رزق ملے گا ‘ کسی اور کو نہیں ملے گا۔ اس کی آواز پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ وہ چند دنوں کے اندر پوری دنیا کا چکر لگا لے گا۔ یہ ساری باتیں حدیث میں دجال کے بارے میں آئی ہیں۔ وہ آدم کے اس اکتسابی علم Acquired Knowledge کی اس حد کو پہنچ جائے گا کہ فطرت کے تمام اسرار mysteries اس پر منکشف ہوجائیں اور اسے قواعد طبیعیہ پر تصرفّ حاصل ہوجائے ‘ وہ انہیں harness کرلے ‘ قابو میں لے آئے اور انہیں استعمال کرے۔ انسان نے جو سب سے پہلا ذریعہ توانائی source of energy دریافت کیا وہ آگ تھا۔ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمارے کسی جدّ امجد نے دیکھا کہ کوئی چٹان اوپر سے گری ‘ پتھر سے پتھر ٹکرایا تو اس میں سے آگ کا شعلہ نکلا۔ اس کا یہ مشاہدہ آگ پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگیا کہ پتھروں کو آپس میں ٹکراؤ اور آگ پیدا کرلو۔ چناچہ آگ اس دور کی سب سے بڑی ایجاد اور اوّلین ذریعۂ توانائی تھی۔ اب وہ توانائی energy کہاں سے کہاں پہنچی ! پہلے اس آگ نے بھاپ کی شکل اختیار کی ‘ پھر ہم نے بجلی ایجاد کی اور اب ایٹمی توانائی Atomic Energy حاصل کرلی ہے اور ابھی نمعلوم اور کیا کیا حاصل ہونا ہے۔ واللہ اعلم ! ان تمام چیزوں کا تعلق خلافت ارضی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا فرشتوں کو بتایا گیا کہ آدم کو صرف اختیار ہی نہیں ‘ علم بھی دیا جا رہا ہے۔ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلآءِکَۃِ لا فَقَالَ اَنْبِءُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰوؤلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ اگر تمہارا یہ خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے زمین کا انتظام بگڑ جائے گا۔

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

📘 آیت 32 قَالُوْا سُبْحٰنَکَ آپ ہر نقص سے ‘ ہر عیب سے ‘ ہر ضعف سے ‘ ہر احتیاج سے مبرا اور منزہ ہیں ‘ اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ ّ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط اس کی یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائناتی حکومت میں ملائکہ کی حیثیت درحقیقت اس کے کارندوں یا civil servants کی ہے۔ چناچہ ہر ایک کو صرف اس کے شعبے کے مطابق علم دیا گیا ہے ‘ ان کا علم جامع نہیں ہے اور ان کے پاس تمام چیزوں کا مجموعی علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں ہے۔ مثلاً کوئی فرشتہ بارش کے انتظام پر ماموؤ ہے ‘ کوئی پہاڑوں پر مامور ہے ‘ جس کا ذکر سیرت میں آتا ہے کہ جب طائف میں رسول اللہ ﷺ پر پتھراؤ ہوا تو اس کے بعد ایک فرشتہ حاضر ہوا کہ میں ملک الجبال ہوں ‘ اللہ نے مجھے پہاڑوں پر مامور کیا ہوا ہے ‘ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں ان دو پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں جن کے درمیان طائف کی یہ وادی واقع ہے اور اس طرح اہل طائف پس کر سرمہ بن جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف خدمات پر مامور ہیں اور ان کو جو علم دیا گیا ہے وہ صرف ان کے اپنے فرائضِ منصبی اور ان کے اپنے اپنے شعبے سے متعلق دیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی جامعیتّ بالقوۃ potentially دے دی گئی ‘ جو بڑھتے بڑھتے اب ایک بہت تناور درخت بن چکا ہے۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ آپ ہی کی ذات ہے جو کلُ کے کل علم کی مالک ہے اور جس کی حکمت بھی کامل ہے۔ باقی تو مخلوق میں سے ہر ایک کا علم ناقص ہے۔

قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ

📘 آیت 33 قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِءْھُمْ بِاَسْمَآءِھِمْ ج فَلَمَّآ اَنْبَاَھُمْ بِاَسْمَآءِھِمْ لا قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِلا جو تمہاری نگاہوں سے اوجھل اور مخفی ہیں۔وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ ان الفاظ سے محسوس ہوتا ہے کہ فرشتوں کی خواہش یہ تھی کہ خلافت ہمیں ملے ‘ ہم خدام ادب ہیں ‘ ہر وقت تسبیح وتحمید اور تقدیس میں مصروف ہیں ‘ جو حکم ملتا ہے بجا لاتے ہیں ‘ تو یہ خلافت کسی اور مخلوق کو کیوں دی جا رہی ہے۔اب آگے چونکہ تیسری مخلوق کا ذکر بھی آئے گا لہٰذا یہاں نوٹ کر لیجیے کہ اللہ تعالیٰ کی تین مخلوقات ایسی ہیں جو صاحب تشخص اور صاحب شعور ہیں اور جن میں ”اَنَا“ میں کا شعور ہے۔ ایک ملائکہ ہیں ‘ ان کی تخلیق نور سے ہوئی ہے۔ دوسرے انسان ہیں ‘ جن کی تخلیق گارے سے ہوئی ہے اور تیسرے جنات ہیں ‘ جن کی تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔ باقی حیوانات ہیں ‘ ان میں شعور consciousness تو ہے ‘ خود شعوری self consciousnessنہیں ہے۔ انسان جب دیکھتا ہے تو اس کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ میں دیکھ رہا ہوں ‘ جبکہ کتا یا بلاّ دیکھتا ہے تو اسے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ میں دیکھ رہا ہوں۔ حیوانات میں ”میں“ کا شعور نہیں ہے۔ یہ اَنَا ‘ Self یا Ego صرف فرشتوں میں ‘ انسان میں اور جنات میں ہے۔ ان میں سے ایک نوری مخلوق ہے ‘ ایک ناری مخلوق ہے اور ایک خاکی ہے ‘ جو زمین کے اس قشر crust میں مٹی اور پانی کے ملغوبے یعنی گارے سے وجود میں آئی ہے۔

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ

📘 آیت 34 وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَط یہاں ایک بات تو یہ سمجھئے کہ آدم علیہ السلام ‘ کو تمام ملائکہ کے سجدے کی ضرورت کیا تھی ؟ کیا یہ صرف تعظیماً تھا ؟ اور اگر تعظیماً تھا تو کیا آدم خاکی کی تعظیم مقصود تھی یا کسی اور شے کی تعظیم تھی ؟ مکی سورتوں میں یہ بات دو جگہ بایں الفاظ واضح کی گئی ہے : فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ الحجر : 29 و صٓ: 72 ”پھر جب میں اس آدم کی تخلیق مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گرپڑنا اس کے سامنے سجدے میں“۔ چناچہ تعظیم اگر ہے تو آدم خاکی کی نہیں ہے ‘ اس کے اندر موجود ”روحِ رّبانی“ کی ہے ‘ جو ایک Divine Element یا Divine Spark ہے ‘ جسے خود خالق نے ”مِنْ رُّوْحِیْ“ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سجدے کی حکمت کیا ہے ؟ اس کی علت اور غرض وغایت کیا ہے ؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ اس کائنات یعنی اس آفاقی حکومت کے کارندے تو فرشتے ہیں اور خلیفہ بنایا جا رہا ہے انسان کو۔ لہٰذا جب تک یہ ساری سول سروس اس کے تابع نہ ہو وہ خلافت کیسے کرے گا ! جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور کوئی فعل کرنا چاہتے ہیں تو اس فعل کے پورا ہونے میں ‘ اس کے ظہور پذیر ہونے میں نمعلوم کون کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور فطرت کی کون کون سی قوتیں forces ہمارے ساتھ موافقت کرتی ہیں تو ہم وہ کام کرسکتے ہیں ‘ اور ان سب پر فرشتے مأمور ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اقلیم domain ہے۔ اگر وہ انسان کے تابع نہ ہوں تو خلافت کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ اسے خلافت دی گئی ہے ‘ یہ جدھر جانا چاہتا ہے جانے دو ‘ یہ نماز کے لیے مسجد میں جانا چاہتا ہے جانے دو ‘ یہ چوری کے لیے نکلا ہے نکلنے دو۔ انسان کو جو اختیار دیا گیا ہے اس کے استعمال میں یہ تمام قوتیں اس کے ساتھ موافقت کرتی ہیں تب ہی اس کا کوئی ارادہ ‘ خواہ اچھا ہو یا برا ‘ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ اس موافقت کی علامت کے طور پر تمام فرشتوں کو انسان کے آگے جھکا دیا گیا۔اس آیت میں ”اِلَّآ اِبْلِیْسَ“ سوائے ابلیس کے سے یہ مغالطہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید ابلیس بھی فرشتہ تھا۔ اس لیے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا۔ اس مغالطے کا ازالہ سورة الکہف میں کردیا گیا جو سورة البقرۃ سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ط آیت 50 ”وہ جنوں میں سے تھا ‘ پس اس نے سرکشی کی اپنے رب کے حکم سے“۔ فرشتوں میں سے ہوتا تو نافرمانی کر ہی نہ سکتا۔ فرشتوں کی شان تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ التحریم ”وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں“۔ جناتّ بھی انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے ایمان و کفر اور طاعت و معصیت دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ چناچہ جنات میں نیک بھی ہیں بد بھی ہیں ‘ اعلیٰ بھی ہیں ادنیٰ بھی ہیں ‘ جیسے انسانوں میں ہیں۔ لیکن یہ ”عزازیل“ جو جن تھا ‘ علم اور عبادت دونوں کے اعتبار سے بہت بلند ہوگیا تھا اور فرشتوں کا ہم نشین تھا۔ یہ فرشتوں کے ساتھ اس طور پر شامل تھا جیسے بہت سے انسان بھی اگر اپنی بندگی میں ‘ زُہد میں ‘ نیکی میں ترقی کریں تو ان کا عالم ارواح کے ساتھ ‘ عالم ملائکہ کے ساتھ اور ملأ اعلیٰ کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح عزازیل بھی جن ہونے کے باوجود اپنی نیکی ‘ عبادت ‘ پارسائی اور اپنے علم میں فرشتوں سے بہت آگے تھا ‘ اس لیے ”مُعَلِّمُ الْمَلَکوت“ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا اور اسے اپنی اس حیثیت کا بڑازعم تھا۔جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ قرآن حکیم میں قصۂ آدم و ابلیس کے ضمن میں یہ بات سات مرتبہ آئی ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو ‘ سب جھک گئے مگر ابلیس نے سجدے سے انکار کردیا۔ آیات زیر مطالعہ میں قصہ آدم و ابلیس ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ اگرچہ مصحف میں یہ پہلی مرتبہ آرہا ہے لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہاں ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ آدم و ابلیس کا یہ قصہ سورة البقرۃ کے بعد سورة الاعراف میں ‘ پھر سورة الحجر میں ‘ پھر سورة بنی اسرائیل میں ‘ پھر سورة الکہف میں ‘ پھر سورة طٰہٰ میں اور پھر سورة صٓ میں آئے گا۔ یعنی یہ قصہ قرآن حکیم میں چھ مرتبہ مکی سورتوں میں آیا ہے اور ایک مرتبہ مدنی سورت سورة البقرۃ میں۔ ابلیس کا اصل نام ”عزازیل“ تھا ‘ ابلیس اب اس کا صفاتی نام ہے۔ اس لیے کہ اَبْلَسَ ‘ یُبْلِسُ کے معنی ہوتے ہیں مایوس ہوجانا۔ یہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہے اور جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے وہ شیطان ہوجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اب میرا تو چھٹکارا نہیں ہے ‘ میری تو عاقبت خراب ہو ہی چکی ہے ‘ لہٰذا میں اپنے ساتھ اور جتنوں کو برباد کرسکتا ہوں کرلوں۔ ع ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے !“ اب وہ شیطان اس معنی میں ہے کہ انسان کی عداوت اس کی گھٹی میں پڑگئی۔ اس نے اللہ سے اجازت بھی لے لی کہ مجھے مہلت دے دے قیامت کے دن تک کے لیے اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ تو میں ثابت کر دوں گا کہ یہ آدم اس رتبے کا حق دار نہ تھا جو اسے دیا گیا۔ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَز قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ الاعراف : 12 و صٓ: 76 ”میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے گارے سے بنایا“۔ درحقیقت یہی وہ تکبرّ ہے جس نے اسے راندۂ درگاہِ حق کردیا ؂تکبر عزازیل را خوار کرد کہ در طوق لعنت گرفتار کرد وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ یا ”اور تھا وہ کافروں میں سے۔“ کَانَعربی زبان میں دو طرح کا ہوتا ہے : ”تامہ“ اور ”ناقصہ“۔ کَانَناقصہ کے اعتبار سے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اپنے اس استکبار اور انکار کی وجہ سے وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ جبکہ کان تامہّ کے اعتبار سے یہ معنی ہوں گے کہ وہ تھا ہی کافروں میں سے۔ یعنی اس کے اندر سرکشی چھپی ہوئی تھی ‘ اب ظاہر ہوگئی۔ ایسا معاملہ کبھی ہمارے مشاہدے میں بھی آتا ہے کہ کسی شخص کی بدنیتی پر نیکی اور زہد کے پردے پڑے رہتے ہیں اور کسی خاص وقت میں آکر وہ ننگا ہوجاتا ہے اور اس کی باطنی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ

📘 آیت 35 وَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جنت کون سی ہے ؟ اکثر حضرات کے نزدیک یہ جنت کہیں آسمان ہی میں تھی اور آسمان ہی میں حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی۔ البتہ یہ سب مانتے ہیں کہ یہ وہ جنت الفردوس نہیں تھی جس میں جانے کے بعد نکلنے کا کوئی سوال نہیں۔ اس جنت میں تو آخرت میں لوگوں کو جا کر داخل ہونا ہے اور اس میں داخلے کے بعد پھر وہاں سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے ‘ اور میرا رجحان اسی رائے کی طرف ہے ‘ کہ تخلیق آدم علیہ السلام اسی زمین پر ہوئی ہے۔ وہ تخلیق جن مراحل سے گزری وہ اس وقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔ بائیولوجی اور وحی دونوں اس پر متفق ہیں کہ قشر ارض Crust of the Earth یعنی مٹی سے انسان کی تخلیق ہوئی ہے۔ اس کے بعد کسی اونچے مقام پر کسی سرسبز و شاداب علاقے میں حضرت آدم علیہ السلام کو رکھا گیا ‘ جہاں ہر قسم کے میوے تھے ‘ ہر شے بافراغتّ میسر تھی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی وَاَنَّکَ لَا تَظْمَاُ فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی۔ طٰہٰ ”یہاں تمہارے لیے یہ آسائشیں موجود ہیں کہ نہ تمہیں اس میں بھوک لگے گی نہ عریانی لاحق ہوگی۔ اور یہ کہ نہ تمہیں اس میں پیاس تنگ کرے گی نہ دھوپ ستائے گی“۔ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو وہاں ہر طرح کی آسائشیں حاصل تھیں۔ البتہ یہ جنت صرف ایک demonstration کے لیے تھی کہ انہیں نظر آجائے کہ شیطان ان کا اور ان کی اولاد کا ازلی دشمن ہے ‘ وہ انہیں ورغلائے گا اور طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ کسی شخص کا انتخاب تو ہوگیا اور وہ CSP cadre میں آگیا ‘ لیکن اس کی تعیناتی posting سے پہلے اسے سول سروس اکیڈمی میں زیرتربیت رکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں جو لفظ ہبوط اُترنا آ رہا ہے وہ صرف اسی ایک معنی میں نہیں آتا ‘ اس کے دوسرے معانی بھی ہیں۔ یہ چیزیں پھر متشابہات میں سے رہیں گی۔ اس لیے ان کے بارے میں غور و فکر سے کوئی ایک یا دوسری رائے اختیار کی جاسکتی ہے۔ واللہ اعلم !وَکُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِءْتُمَاص یہاں ہر طرح کے پھل موجود ہیں ‘ جو چاہو بلاروک ٹوک کھاؤ۔ وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ یہاں پر اس درخت کا نام نہیں لیا گیا ‘ اشارہ کردیا گیا کہ اس درخت کے قریب بھی مت ‘ جانا۔فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ تم حد سے گزرنے والوں میں شمار ہو گے۔ اب اس کی بھی حکمت سمجھئے کہ یہ اس demonstration کا حصہّ ہے کہ دنیا میں کھانے پینے کی ہزاروں چیزیں مباح ہیں ‘ صرف چند چیزیں حرام ہیں۔ اب اگر تم ہزاروں مباح چیزوں کو چھوڑ کر حرام میں منہ مارتے ہو تو یہ نافرمانی شمار ہوگی۔ اللہ نے مباحات کا دائرہ بہت وسیع رکھا ہے۔ چند رشتے ہیں جو بیان کردیے گئے کہ یہ حرام ہیں ‘ محرمات ابدیہ ہیں ‘ ان سے تو شادی نہیں ہوسکتی ‘ باقی ایک مسلمان مرد کسی مسلمان عورت سے دنیا کے کسی بھی کونے میں شادی کرسکتا ہے ‘ اس کے لیے کروڑوں options کھلے ہیں۔ پھر ایک نہیں ‘ دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار تک عورتوں سے شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے باوجود انسان شادی نہ کرے اور زنا کرے ‘ تو یہ گویا اس کی اپنی خباثت نفس ہے۔ چناچہ آدم و حوا علیہ السلام کو بتادیا گیا کہ یہ پورا باغ تمہارے لیے مباح ہے ‘ بس یہ ایک درخت ہے ‘ اس کے پاس نہ جانا۔ درخت کا نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ تو صرف ایک آزمائش اور اس کی demonstration تھی۔

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ

📘 آیت 36 فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا اس کی تفصیل سورة طٰہٰ میں آئی ہے کہ شیطان نے انہیں کس کس طریقے سے پھسلایا اور انہیں اس درخت کا پھل چکھنے پر آمادہ کیا۔فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِص وہ کیا کیفیت تھی کہ نہ کوئی مشقتّ ہے ‘ نہ کوئی محنت ہے اور انسان کو ہر طرح کا اچھے سے اچھا پھل مل رہا ہے ‘ تمام ضروریات فراہم ہیں اور خاص خلعت فاخرہ سے بھی نوازا گیا ہے ‘ جنت کا خاص لباس عطا کیا گیا ہے۔ لیکن ان کیفیات سے نکال کر انہیں کہا گیا کہ اچھا اب جاؤ اور زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرو۔ یاد رکھنا کہ شیطان تمہارا اور تمہاری نسل کا دشمن ہے اور وہ تمہیں پھسلائے گا جیسے آج پھسلایا ہے ‘ تم اس کی شرارتوں سے ہوشیار رہنا : اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ط فاطر : 6 ”یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن ہی سمجھو“۔ لیکن اگر کچھ لوگ اسے اپنا دوست بنا لیں اور اس کے ایجنٹ اور کارندے بن جائیں تو یہ ان کا اختیار ہے جس کی سزا انہیں ملے گی۔ وَقُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّج نوٹ کیجیے یہاں جمع کا صیغہ آیا ہے کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے۔ تو ایک دشمنی تو شیطان اور آدم اور ذریت آدم کی ہے ‘ جبکہ ایک اور دشمنی انسانوں میں مرد اور عورت کے مابین ہے۔ عورت مرد کو پھسلاتی ہے اور غلط راستے پر ڈالتی ہے اور مرد عورتوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے : یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ ج التغابن : 14 ”اے اہل ایمان ! یقیناً تمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں تمہارے دشمن ہیں ‘ ان سے ہوشیار رہو۔“ کہیں ان کی محبت تمہیں راہ حق سے منحرف نہ کر دے۔ شوہر ایک اچھا کام کرنا چاہتا ہے لیکن بیوی رکاوٹ بن گئی یا بیوی کوئی اچھا کام کرنا چاہتی ہے اور شوہر رکاوٹ بن گیا تو یہ محبت نہیں عداوت ہے۔وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ اب زمین تمہاری جائے قیام ہے اور یہاں ضرورت کی تمام چیزیں ہم نے فراہم کردی ہیں ‘ لیکن یہ ایک وقت معین تک کے لیے ہے ‘ یہ ابدی نہیں ہے ‘ ایک وقت آئے گا کہ ہم یہ بساط لپیٹ دیں گے۔ یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ط الانبیاء : 104 ”جس دن کہ ہم تمام آسمانوں کو اس طرح لپیٹ لیں گے جیسے اوراق کا طومار لپیٹ لیا جاتا ہے۔“ یہ تخلیق ابدی نہیں ہے ”اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی“ ہے ”اِلٰی حِیْنٍ“ ہے۔

فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 37 فَتَلَقّٰی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط اس کی وضاحت سورة الاعراف میں ہے۔ جب حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا حکم عتاب آمیز سنا اور جنت سے باہر آگئے تو سخت پشیمانی اور ندامت پیدا ہوئی کہ یہ میں نے کیا کیا ‘ مجھ سے کیسی خطا سرزد ہوگئی کہ میں نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ لیکن ان کے پاس توبہ و استغفار کے لیے الفاظ نہیں تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کن الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے معافی چاہیں۔ اللہ کی رحمت یہ ہوئی کہ اس نے الفاظ انہیں خود تلقین فرما دیے۔ یہ اللہ کی شان رحیمی ہے۔ توبہ کی اصل حقیقت انسان کے اندر گناہ پر ندامت کا پیدا ہوجانا ہے۔ اقبال نے عنفوان شباب میں جو اشعار کہے تھے ان میں سے ایک شعر کو سن کر اس وقت کے اساتذہ بھی پھڑک اٹھے تھے ؂موتی سمجھ کے شان کریمی نے چن لیے قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے یعنی شرمندگی کے باعث میری پیشانی پر پسینے کے جو قطرے نمودار ہوگئے میرے پروردگار کو وہ اتنے عزیز ہوئے کہ اس نے انہیں موتیوں کی طرح چن لیا۔ حضرات آدم و حوا علیہ السلام کو جب اپنی غلطی پر ندامت ہوئی تو وہ گریہ وزاری میں مشغول ہوگئے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے انہیں چند کلمات القا فرمائے جن سے ان کی توبہ قبول ہوئی۔ وہ کلمات سورة الاعراف میں بیان ہوئے ہیں : رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ”اے ہمارے ربّ ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے ‘ اور اگر تو نے ہمیں بخش نہ دیا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں ہوجائیں گے۔“ تباہ و برباد ہوجائیں گے۔اس مقام پر شیطنت اور آدمیت کا فوری تقابل موجود ہے۔ غلطی ابلیس سے بھی ہوئی ‘ اللہ کے حکم سے سرتابی ہوئی ‘ لیکن اسے اس پر ندامت نہیں ہوئی بلکہ وہ تکبر کی بنا پر مزید اکڑ گیا کہ ”اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ“ اور سرکشی کا راستہ اختیار کیا۔ دوسری طرف غلطی آدم سے بھی ہوئی ‘ نافرمانی ہوئی ‘ لیکن وہ اس پر پشیمان ہوئے اور توبہ کی۔ وہ طرزعمل شیطنت ہے اور یہ آدمیت ہے۔ ورنہ کوئی انسان گناہ سے اور معصیت سے مبراّ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہے : کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّاءِیْنَ التَّوَّابُوْنَ 5”آدم علیہ السلام کی تمام اولاد خطاکار ہے ‘ اور ان خطاکاروں میں بہتر وہ ہیں جو توبہ کرلیں۔“حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی۔ انہیں اس پر ندامت ہوئی ‘ انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔اِنَّہٗ ھُوَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ توبہ کا لفظ دونوں طرف سے آتا ہے۔ بندہ بھی توّاب ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ البقرۃ جبکہ توّاب اللہ تعالیٰ بھی ہے۔ اس کی اصل حقیقت سمجھ لیجیے۔ بندے نے خطا کی اور اللہ سے دور ہوگیا تو اللہ نے اپنی رحمت کی نگاہ اس سے پھیرلی۔ بندے نے توبہ کی تو اللہ پھر اپنی رحمت کے ساتھ اس کی طرف متوجہّ ہوگیا۔ توبہ کے معنی ہیں پلٹنا۔ بندہ معصیت سے توبہ کر کے اپنی اصلاح کی طرف ‘ بندگی کی طرف ‘ اطاعت کی طرف پلٹ آیا ‘ اور اللہ نے جو اپنی نظر رحمت بندے سے پھیرلی تھی ‘ پھر اپنی شان غفاری اور رحیمی کے ساتھ بندے کی طرف توجہ فرمالی۔ اس کے لیے حدیث میں الفاظ آتے ہیں :۔۔ وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ بَاعًا ‘ وَاِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً 6”۔۔ اور اگر وہ میرا بندہ بالشت بھر میری طرف آتا ہے تو میں ہاتھ بھر اس کی طرف آتا ہوں ‘ اور اگر وہ ہاتھ بھر میری طرف آتا ہے تو میں دو ہاتھ اس کی طرف آتا ہوں ‘ اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں۔“ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے راہ رَوِ منزل ہی نہیں !وہ تو توّاب ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ ”تَابَ“ بندے کے لیے آئے گا تو ”اِلٰی“ کے صلہ کے ساتھ آئے گا۔ جیسے اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ اور جب اللہ کے لیے آئے گا تو ’ عَلٰی“ کے صلہ کے ساتھ ”تَابَ عَلٰی“ آئے گا ‘ جیسے آیت زیر مطالعہ میں آیا : فَتَابَ عَلَیْہِ ۔ اللہ کی شان بہت بلند ہے۔ انسان توبہ کرتا ہے تو اس کی طرف توبہ کرتا ہے ‘ جبکہ اللہ کی شان یہ ہے کہ وہ بندے پر توبہ کرتا ہے۔

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 آیت 38 قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا ج اب یہاں لفظ ”اِھْبِطُوْا“ آیا ہے جو اس سے پہلے بھی آیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ تخلیق آدم علیہ السلام آسمانوں پر ہوئی ہے اور وہ جنت بھی آسمانوں پر ہی تھی جہاں حضرت آدم علیہ السلام آزمائش یا تربیت کے لیے رکھے گئے تھے وہ ”اِھْبِطُوْا“ کا ترجمہ کریں گے کہ انہیں آسمان سے زمین پر اترنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر ہی کسی بلند مقام پر رکھا گیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ”اِھْبِطُوْا“ سے مراد بلند جگہ سے نیچے اترنا ہے نہ کہ آسمان سے زمین پر اترنا۔ وہ آزمائشی جنت کسی اونچی سطح مرتفع پر تھی۔ وہاں پر حکم دیا گیا کہ نیچے اترو اور جاؤ ‘ اب تمہیں زمین میں ہل چلانا پڑے گا اور روٹی حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑے گی۔ یہ نعمتوں کے دستر خوان جو یہاں بچھے ہوئے تھے اب تمہارے لیے نہیں ہیں۔ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال اسی سورة البقرۃ کے ساتویں رکوع میں ہوا ہے : اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ آیت 61فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ “ یہ ہے علم انسانی کا دوسرا گوشہ ‘ یعنی علم بالوحی Revealed Knowledge۔ اس چوتھے رکوع کا حسن ملاحظہ کیجیے کہ اس کے شروع میں علم بالحواس یا اکتسابی علم Acquired Knowledge کا ذکر ہے جو بالقوّ ۃ potentially حضرت آدم علیہ السلام میں رکھ دیا گیا اور جسے انسان نے پھر اپنی محنت سے ‘ اپنے حواس اور عقل کے ذریعے سے آگے بڑھایا۔ یہ علم مسلسل ترقی پذیر ہے اور آج مغربی اقوام اس میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ کبھی ایک زمانے میں مسلمان بہت آگے نکل گئے تھے ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس دنیا میں عروج تو انہی کو ہوگا جنہیں سب سے زیادہ اس کی آگہی حاصل ہوگی۔ البتہ وہ علم جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ عطائی given ہے ‘ جو وحی پر مبنی ہے۔ اور انسان کے مقام خلافت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام اس کے پاس آئیں ‘ وہ جو ہدایات بھی بھیجے ان کی پورے پورے طور پر پیروی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 39 وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہماری اس ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کریں گے ‘ ناشکری کریں گے۔وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ”اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے“ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ’ یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوع انسانی کو ابدی منشور charter عطا کردیا گیا جب زمین پر خلیفہ کی حیثیت سے انسان کا تقرر کیا گیا۔ ّ جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے ‘ سورة البقرۃ کے یہ ابتدائی چار رکوع قرآن کی دعوت اور قرآن کے بنیادی فلسفہ پر مشتمل ہیں ‘ اور ان میں مکی سورتوں کے مضامین کا خلاصہ آگیا ہے۔

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ

📘 آیت 4 وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج ”اور اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے نازل کیا گیا۔“یہ بہت اہم الفاظ ہیں۔ عام طور پر آج کل ہمارے ہاں یہ خیال پھیلا ہوا ہے کہ سابقہ آسمانی کتب تورات اور انجیل وغیرہ کے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ‘ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ”کوئی ضرورت نہیں“ کی حد تک تو شاید بات صحیح ہو ‘ لیکن ”کوئی فائدہ نہیں“ والی بات بالکل غلط ہے۔ دیکھئے قرآن کے آغاز ہی میں کس قدر اہتمام کے ساتھ کہا جا رہا ہے کہ ایمان صرف قرآن پر ہی نہیں ‘ اس پر بھی ضروری ہے جو اس سے پہلے نازل کیا گیا۔ سورة النساء کوئی چھ ہجری میں جا کر نازل ہوئی ہے ‘ اور اس کی آیت 136 کے الفاظ ملاحظہ کیجیے :یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا باللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ ط ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اللہ نے اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کی ہے اور ہر اس کتاب پر جو اس سے پہلے وہ نازل کرچکا ہے۔“چنانچہ تورات ‘ انجیل ‘ زبور اور صحفِ ابراہیم علیہ السلام پر اجمالی ایمان کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ البتہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ان کتابوں میں تحریف ہوگئی ہے لہٰذا ان کتابوں کی کوئی شے قرآن پر حجت نہیں ہوگی۔ جو چیز قرآن سے ٹکرائے گی ہم اس کو ردّ کردیں گے اور ان کتابوں کی کسی شے کو دلیل کے طور پر نہیں لائیں گے۔ لیکن جہاں قرآن مجید کی کسی بات کی نفی نہ ہو رہی ہو وہاں ان سے استفادہ میں کوئی حرج نہیں۔ بہت سے حقائق ایسے ہیں جو ہمیں ان کتابوں ہی سے ملتے ہیں۔ مثلاً انبیاء علیہ السلام کے درمیان زمانی ترتیب Chronological Order ہمیں تورات سے ملتی ہے ‘ جو قرآن میں نہیں ہے۔ قرآن میں کبھی حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر بعد میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پہلے آجاتا ہے۔ یہاں تو کسی اور پہلو سے ترتیب آتی ہے ‘ لیکن تورات میں ہمیں حضرات ابراہیم ‘ اسحاق ‘ یعقوب ‘ انبیاء بنی اسرائیل موسیٰ اور عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی تاریخ ملتی ہے۔ اس اعتبار سے سابقہ کتب سماویہ کی اہمیت پیش نظر رہنی چاہیے۔ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ یہاں نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ باقی سب چیزوں کے لیے تو لفظ ایمان آیا ہے جبکہ آخرت کے لیے ”ایقان“ آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے زیادہ مؤثرّ شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ اگر انسان کو یہ یقین ہے کہ آخرت کی زندگی میں مجھے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے تو اس کا عمل صحیح ہوگا۔ لیکن اگر اس یقین میں کمی واقع ہوگئی تو توحید بھی محض ایک عقیدہ Dogma بن کر رہ جائے گی اور ایمان بالرسالت بھی بدعات کو جنم دے گا۔ پھر ایمان بالرسالت کے مظاہر یہ رہ جائیں گے کہ بس عید میلاد النبی ﷺ منا لیجیے اور نعتیہ اشعار کہہ دیجیے ‘ اللہ اللہ خیر صلا۔ انسان کا عمل تو آخرت کے یقین کے ساتھ درست ہوتا ہے۔ّ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے الفاظ میں یہ مفہوم بھی ہے کہ ”آخرت پر انہی کا یقین ہے“۔ یہاں گویا حصر بھی ہے۔ اس اعتبار سے کہ یہودی بھیّ مدعی تھے کہ ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہاں تضاد contrast دکھایا جا رہا ہے کہ آخرت پر یقین رکھنے والے تو یہ لوگ ہیں ! تاویل خاص کے اعتبار سے یہ کہا جائے گا کہ یہ لوگ تمہاری نگاہوں کے سامنے موجود ہیں جو محمد رسول اللہ ﷺ کی تیرہ برس کی کمائی ہیں۔ جو انقلاب نبوی ﷺ کے اساسی منہاج یعنی تلاوت آیات ‘ تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت کا نتیجہ ہیں۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ

📘 اب یہاں سے بنی اسرائیل سے خطاب شروع ہو رہا ہے۔ یہ خطاب پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ مسلسل دس رکوعات پر محیط ہے۔ البتہ ان میں ایک تقسیم ہے۔ پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ اور جب کسی گروہ کو دعوت دی جاتی ہے تو تشویق و ترغیب ‘ دلجوئی اور نرمی کا انداز اختیار کیا جاتا ہے ‘ جو دعوت کے اجزاء لاینفک ہیں۔ اس انداز کے بغیر دعوت مؤثرّ نہیں ہوتی۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ سات آیات پانچواں رکوع ان دس رکوعوں کے لیے بمنزلۂ فاتحہ ہیں۔ بنی اسرائیل کی حیثیت سابقہ امت مسلمہ کی تھی ‘ جن کو یہاں دعوت دی جا رہی ہے۔ وہ بھی مسلمان ہی تھے ‘ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کر کے کافر ہوگئے۔ ورنہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے تھے ‘ شریعت ان کے پاس تھی ‘ بڑے بڑے علماء ان میں تھے ‘ علم کا چرچا ان میں تھا۔ غرضیکہ سب کچھ تھا۔ یہاں ان کو دعوت دی جا رہی ہے۔ اس سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آج مسلمانوں میں ‘ جو اپنی حقیقت کو بھول گئے ہیں ‘ اپنے فرض منصبی سے غافل ہوگئے ہیں اور دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں ‘ اگر کوئی ایک داعی گروہ کھڑا ہو تو ظاہر بات ہے سب سے پہلے اسے اسی امت کو دعوت دینی ہوگی۔ اس لیے کہ دنیا تو اسلام کو اسی امت کے حوالے سے پہچانے گی Physician heals thyself۔ پہلے یہ خود ٹھیک ہو اور صحیح اسلام کا نمونہ پیش کرے تو دنیا کو دعوت دے سکے گی کہ آؤ دیکھو یہ ہے اسلام ! چناچہ ان کو دعوت دینے کا جو اسلوب ہونا چاہیے وہ اس اسلوب کا عکس ہوگا جو ان سات آیات میں ہمارے سامنے آئے گا۔آیت 40 یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ ”بنی اسرائیل“ کی ترکیب کو سمجھ لیجیے کہ یہ مرکب اضافی ہے۔ ”اسر“ کا معنی ہے بندہ یا غلام۔ اسی سے ”اسیر“ بنا ہے جو کسی کا قیدی ہوتا ہے۔ اور لفظ ”ئیل“ عبرانی میں اللہ کے لیے آتا ہے۔ چناچہ اسرائیل کا ترجمہ ہوگا ”عبداللہ“ یعنی اللہ کا غلام ‘ اللہ کی اطاعت کے قلادے کے اندر بندھا ہوا۔ ”اسرائیل“ لقب ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کا۔ ان کے بارہ بیٹے تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل ہے۔ ان ہی میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی اور انہیں تورات دی گئی۔ پھر یہ ایک بہت بڑی امت بنے۔ قرآن مجید کے نزول کے وقت تک ان پر عروج وزوال کے چار ادوار آ چکے تھے۔ دو مرتبہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارشیں ہوئیں اور انہیں عروج نصیب ہوا ‘ جبکہ دو مرتبہ دنیا پرستی ‘ شہوت پرستی اور اللہ کے احکام کو پس پشت ڈال دینے کی سزا میں ان پر اللہ کے عذاب کے کوڑے برسے۔ اس کا ذکر سورة بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں آئے گا۔ اس وقت جبکہ قرآن نازل ہو رہا تھا وہ اپنے اس زوال کے دور میں تھے۔ حال یہ تھا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے ہی ان کا ”معبد ثانی“ Second Temple بھی منہدم کیا جا چکا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو ہیکل سلیمانی بنایا تھا ‘ جس کو یہ ”معبدِ اوّل“ First Temple کہتے ہیں ‘ اسے بخت نصر Nebukadnezar نے حضرت مسیح علیہ السلام سے بھی چھ سو سال پہلے گرا دیا تھا۔ اسے انہوں نے دوبارہ تعمیر کیا تھا جو ”معبد ثانی“ کہلاتا تھا۔ لیکن 70 عیسوی میں محمد عربی ﷺ کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے رومیوں نے حملہ کر کے یروشلم کو تباہ و برباد کردیا ‘ یہودیوں کا قتل عام کیا اور جو ”معبد ثانی“ انہوں نے تعمیر کیا تھا اسے بھی مسمار کردیا ‘ جو اب تک گرا پڑا ہے ‘ صرف ایک دیوار گریہ Veiling Wall باقی ہے جس کے پاس جا کر یہودی ماتم اور گریہ وزاری کرلیتے ہیں ‘ اور اب وہ اسے سہ بارہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ چناچہ ان کے ”معبد ثالث“ Third Temple کے نقشے بن چکے ہیں ‘ اس کا ابتدائی خاکہ تیار ہوچکا ہے۔ بہرحال جس وقت قرآن نازل ہو رہا تھا اس وقت یہ بہت ہی پستی میں تھے۔ اس وقت ان سے فرمایا گیا : ”اے بنی اسرائیل ! ذرا یاد کرو میرے اس انعام کو جو میں نے تم پر کیا تھا“۔ وہ انعام کیا ہے ؟ میں نے تم کو اپنی کتاب دی ‘ نبوت سے سرفراز فرمایا ‘ اپنی شریعت تمہیں عطا فرمائی۔ تمہارے اندر داؤد اور سلیمان علیہ السلام جیسے بادشاہ اٹھائے ‘ جو بادشاہ بھی تھے ‘ نبی بھی تھے۔ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ج بنی اسرائیل سے نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانے کا عہد لیا گیا تھا۔ تورات میں کتاب استثناء یا سفر استثناء Deuteronomy کے اٹھارہویں باب کی آیات 18۔ 19 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے خطاب کر کے یہ الفاظ فرمائے : ”میں ان کے لیے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہی وہ ان سے کہے گا۔ اور جو کوئی میری ان باتوں کو جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا ‘ نہ سنے تو میں ان کا حساب اس سے لوں گا۔“یہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کو بتایا جا رہا تھا کہ نبی آخر الزماں ﷺ آئیں گے اور تمہیں ان کی نبوت کو تسلیم کرنا ہے۔ قرآن مجید میں اس کا تفصیلی ذکر سورة الاعراف میں آئے گا۔ یہاں فرمایا کہ تم میرا عہد پورا کرو ‘ میرے اس نبی ﷺ ‘ کو تسلیم کرو ‘ اس ﷺ پر ایمان لاؤ ‘ اس ﷺ کی صدا پر لبیک کہو تو میرے انعام و اکرام مزید بڑھتے چلے جائیں گے۔وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ

وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ

📘 آیت 41 وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُمْ ”ان الفاظ کے دو معنی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایمان لاؤ اس قرآن پر جو تصدیق کرتا ہے تورات کی اور انجیل کی۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرٰٹۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّنُوْرٌ ج المائدۃ : 44 ”ہم نے نازل کی تورات جس میں ہدایت اور روشنی تھی“۔ وَاٰتَیْنٰہُ الْاِنْجِیْلَ فِیْہِ ھُدًی وَّنُوْرٌ المائدۃ : 46 ”اور ہم نے اس عیسیٰ علیہ السلام کو دی انجیل جس میں ہدایت اور روشنی تھی“۔ اور دوسرے یہ کہ قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ ان پیشین گوئیوں کے مصداق بن کر آئے ہیں جو تورات میں تھیں۔ ورنہ وہ پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتیں۔ وَلاَ تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍم بِہٖص یعنی قرآن کی دیدہ و دانستہ تکذیب کرنے والوں میں اوّل مت ہو۔ تمہیں تو سب کچھ معلوم ہے۔ تم جانتے ہو کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور یہ کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔ تم تو آخری نبی ﷺ کے انتظار میں تھے اور ان کے حوالے سے دعائیں کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اس نبی آخر الزماں ﷺ کے واسطے سے ہماری مدد فرما اور کافروں کے مقابلے میں ہمیں فتح عطا فرما۔ یہ مضمون آگے چل کر اسی سورة البقرۃ ہی میں آئے گا۔ لیکن اب تم ہی اس کے اوّلین منکر ہوگئے ہو اور تم ہی اس کے سب سے بڑھ کر دشمن ہوگئے ہو۔وَلاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَناً قَلِیْلاً ز یہ آیات الٰہیہ ہیں اور تم ان کو صرف اس لیے ردّ کر رہے ہو کہ کہیں تمہاری حیثیت ‘ تمہاری مسندوں اور تمہاری چودھراہٹوں پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ یہ تو حقیر سی چیزیں ہیں۔ یہ صرف اس دنیا کا سامان ہیں ‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ وَّاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ”

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 آیت 42 وَلاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ یہ بات اچھی طرح نوٹ کر لیجیے کہ مغالطے میں غلط راہ پر پڑجانا ضلالت اور گمراہی ہے ‘ لیکن جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اسے ردّ کرنا اور باطل کی روش اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ اسی سورة البقرۃ میں آگے چل کر آئے گا کہ علماء یہود محمد رسول اللہ ﷺ کو اور قرآن کو اس طرح پہچانتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے تھے : یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَ ھُمْ ط آیت 146 لیکن اس کے باوجود انہوں نے محض اپنی دنیوی مصلحتوں کے پیش نظر آپ ﷺ اور قرآن کی تکذیب کی۔

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ

📘 آیت 43 وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ ”یعنی باجماعت نماز ادا کیا کرو۔اوّل تو یہود نے رکوع کو اپنے ہاں سے خارج کردیا تھا ‘ ثانیاً باجماعت نماز ان کے ہاں ختم ہوگئی تھی۔ چناچہ انہیں رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ گویا صراحت کی جا رہی ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ پر صرف ایمان لانا ہی نجات کے لیے کافی نہیں ‘ بلکہ تمام اصول میں آپ ﷺ ‘ کی پیروی ضروری ہے۔ نماز بھی آپ ﷺ کے طریقے پر پڑھو جس میں رکوع بھی ہو اور جو باجماعت ہو۔

۞ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 آیت 44 اَتَاْمُرُوْنَ النَّاس بالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ ان آیات کے اصل مخاطب علماء یہود ہیں ‘ جو لوگوں کو تقویٰ اور پارسائی کی تعلیم دیتے تھے لیکن ان کا اپنا کردار اس کے برعکس تھا۔ ہمارے ہاں بھی علماء اور واعظین کا حال اکثر و بیشتر یہی ہے کہ اونچے سے اونچا وعظ کہیں گے ‘ اعلیٰ سے اعلیٰ بات کہیں گے ‘ لیکن ان کے اپنے کردار کو اس بات سے کوئی مناسبت ہی نہیں ہوتی جس کی وہ لوگوں کو دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ یہی درحقیقت علماء یہود کا کردار بن چکا تھا۔ چناچہ ان سے کہا گیا کہ ”کیا تم لوگوں کو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو مگر خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ؟“وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ ط ”تم یہ کچھ کر رہے ہو اس حال میں کہ تم اللہ کی کتاب بھی پڑھتے ہو۔ یعنی تورات پڑھتے ہو ‘ تم صاحب تورات ہو۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے علماء کا ‘ جنہیں ہم علماء سوء کہتے ہیں ‘ یہی حال ہوچکا ہے۔ بقول اقبال : ؂خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق !قرآن حکیم کے ترجمے میں ‘ اس کے مفہوم میں ‘ اس کی تفسیر میں بڑی بڑی تحریفیں موجود ہیں۔ الحمد للہ کہ اس کا متن بچا ہوا ہے۔ اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھا ہے۔اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ”

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ

📘 آیت 45 وَاسْتَعِیْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ ط“ یہاں پر صبر کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ علماء سوء کیوں وجود میں آتے ہیں ؟ جب وہ صبر اور قناعت کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں تو حب مال ان کے دل میں گھر کرلیتی ہے اور وہ دنیا کے کتے بن جاتے ہیں۔ پھر وہ دین کو بدنام کرنے والے ہوتے ہیں۔ بظاہر دینی مراسم کے پابند نظر آتے ہیں لیکن دراصل ان کے پردے میں دنیاداری کا معاملہ ہوتا ہے۔ چناچہ انہیں صبر کی تاکید کی جا رہی ہے۔ سورة المائدۃ میں یہود کے علماء و مشائخ پر بایں الفاظ تنقید کی گئی ہے : لَوْلاَ یَنْہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ عَنْ قَوْلِہِمُ الْاِثْمَ وَاَکْلِہِمُ السُّحْتَ ط المائدۃ : 63 ”کیوں نہیں روکتے انہیں ان کے علماء اور صوفیاء جھوٹ بولنے سے اور حرام کھانے سے ؟“ اگر کوئی عالم یا پیر اپنے ارادت مندوں کو ان چیزوں سے روکے گا تو پھر اس کو نذرانے تو نہیں ملیں گے ‘ اس کی خدمتیں تو نہیں ہوں گی۔ چناچہ اگر تو دنیا میں صبر اختیار کرنا ہے ‘ تب تو آپ حق بات کہہ سکتے ہیں ‘ اور اگر دنیوی خواہشات ambitions مقدم ہیں تو پھر آپ کو کہیں نہ کہیں سمجھوتا compromise کرنا پڑے گا۔ صبر کے ساتھ جس دوسری شے کی تاکید کی گئی وہ نماز ہے۔ علماء یہود وضوح حق کے باوجود جو محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لاتے تھے اس کی بڑی وجہ حب مال اور حب جاہ تھی۔ یہاں دونوں کا علاج بتادیا گیا کہ حب مال کا مداوا صبر سے ہوگا ‘ جبکہ نماز سے عبودیت و تذلل پیدا ہوگا اور حب جاہ کا خاتمہ ہوگا۔ّ َ وَاِنَّہَا لَکَبِیْرَۃٌ ”عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ اِنَّہَا کی ضمیر صرف صلوٰۃ کے لیے ہے۔ یعنی نماز بہت بھاری اور مشکل کام ہے۔ لیکن ایک رائے یہ ہے کہ یہ درحقیقت اس پورے طرز عمل کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا کے شدائد اور ابتلاء ات کا مقابلہ صبر اور نماز کی مدد سے کیا جائے۔ مطلوب طرز عمل یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے متعلقات میں کم سے کم پر قانع ہوجاؤ اور حق کا بول بالا کرنے کے لیے میدان میں آجاؤ۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کو اپنے معمولات حیات کا محور بناؤ ‘ جو کہ عماد الدّین ہے۔ فرمایا کہ یہ روش یقیناً بہت بھاری ہے ‘ اور نماز بھی بہت بھاری ہے۔ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ”“ ان خشوع رکھنے والوں پر ‘ ان ڈرنے والوں پر یہ روش بھاری نہیں ہے جن کے دل اللہ کے آگے جھک گئے ہیں۔

الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

📘 آیت 46 الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّہُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّہِمْ میں نے شروع میں وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ کے ذیل میں توجہّ دلائی تھی کہ یہ ایمان بالآخرت ہی ہے جو انسان کو عمل کے میدان میں سیدھا رکھتا ہے۔ وَاَنَّہُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ انہیں اس کے روبروحاضر ہونا ہے۔

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ

📘 جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے ‘ سورة البقرۃ کے پانچویں رکوع سے چودہویں رکوع تک ‘ بلکہ پندرہویں رکوع کی پہلی دو آیات بھی شامل کر لیجیے ‘ یہ دس رکوعوں سے دو آیات زائد ہیں کہ جن میں خطاب کل کا کل بنی اسرائیل سے ہے۔ البتہ ان میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے ‘ جس میں انہیں نبی کریم ﷺ پر ایمان لانے کی پرزور دعوت دی گئی ہے ‘ جبکہ بقیہ نو رکوع اس فرد قرارداد جرم پر مشتمل ہیں جو بنی اسرائیل پر عائد کی جا رہی ہے کہ ہم نے تمہارے ساتھ یہ احسان و اکرام کیا ‘ تم پر یہ فضل کیا ‘ تم پر یہ کرم کیا ‘ تمہیں یہ حیثیت دی ‘ تمہیں یہ مقام دیا اور تم نے اس اس طور سے اپنے اس مشن کی خلاف ورزی کی جو تمہارے سپرد کیا گیا تھا اور اپنے مقام و مرتبہ کو چھوڑ کر دنیا پرستی کی روش اختیار کی۔ ان نو رکوعوں میں بنی اسرائیل کی تاریخ کا تو ایک بہت بڑا حصہّ اس کے خدوخال features سمیت آگیا ہے ‘ لیکن اصل میں یہ امت مسلمہ کے لیے بھی ایک پیشگی تنبیہہ ہے کہ کوئی مسلمان امت جب بگڑتی ہے تو اس میں یہ اور یہ خرابیاں آجاتی ہیں۔ چناچہ اس بارے میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث بھی موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رض سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلَ بالنَّعْلِ 7”میری امت پر بھی وہ سب حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے ‘ بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔“ ایک دوسری حدیث میں جو حضرت ابوسعید خدری رض سے مروی ہے ‘ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل ہوا ہے : لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتّٰی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ قُلْنَا : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی ؟ قَالَ : فَمَنْ ؟ 8”تم لازماً اپنے سے پہلوں کے طور طریقوں کی پیروی کرو گے ‘ بالشت کے مقابلے میں بالشت اور ہاتھ کے مقابلے میں ہاتھ۔ یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی گھس کر رہو گے“۔ ہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! یہود و نصاریٰ کی ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”تو اور کس کی ؟“ترمذی کی مذکورہ بالا حدیث میں تو یہاں تک الفاظ آتے ہیں کہ : حَتّٰی اِنْ کَانَ مِنْھُمْ مَّنْ اَتٰی اُمَّہٗ عَلَانِیَۃً لَکَانَ فِیْ اُمَّتِیْ مَنْ یَصْنَعُ ذٰلِکَ یعنی اگر ان میں کوئی بدبخت ایسا اٹھا ہوگا جس نے اپنی ماں سے علی الاعلان زنا کیا تھا تو تم میں سے بھی کوئی شقی ایسا ضرور اٹھے گا جو یہ حرکت کرے گا۔ اس اعتبار سے ان رکوعوں کو پڑھتے ہوئے یہ نہ سمجھئے کہ یہ محض اگلوں کی داستان ہے ‘ بلکہ : ؂ ّ َ ”خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں“کے مصداق یہ ہمارے لیے ایک آئینہ ہے اور ہمیں ہر مرحلے پر سوچنا ہوگا ‘ دروں بینی کرنی ہوگی کہ کہیں اسی گمراہی میں ہم بھی تو مبتلا نہیں ؟دوسرا اہم نکتہ پہلے سے ہی یہ سمجھ لیجیے کہ سورة البقرۃ کی آیات 47۔ 48 جن سے اس چھٹے رکوع کا آغاز ہو رہا ہے ‘ یہ دو آیتیں بعینہٖ پندرہویں رکوع کے آغاز میں پھر آئیں گی۔ ان میں سے پہلی آیت میں تو شوشے بھر کا فرق بھی نہیں ہے ‘ جبکہ دوسری آیت میں صرف الفاظ کی ترتیب بدلی ہے ‘ مضمون وہی ہے۔ یوں سمجھئے کہ یہ گویا دو بریکٹ ہیں اور نو 9 رکوعوں کے مضامین ان دو بریکٹوں کے درمیان ہیں۔ اور سورة البقرۃ کا پانچواں رکوع جو ان بریکٹوں سے باہر ہے ‘ اس کے مضامین بریکٹوں کے اندر کے سارے مضامین سے ضرب کھا رہے ہیں۔ یہ حساب کا بہت ہی عام فہم سا قاعدہ ہے کہ بریکٹ کے باہر لکھی ہوئی رقم ‘ جس کے بعد جمع یا تفریق وغیرہ کی کوئی علامت نہ ہو ‘ وہ بریکٹ کے اندر موجود تمام اقدار values کے ساتھ ضرب کھائے گی۔ تو گویا اس پورے معاملے میں ہر ہر قدم پر رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی دعوت موجود ہے۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ اس حصے میں بعض آیات ایسی آگئی ہیں جن سے کچھ لوگوں کو مغالطہ پیدا ہوا یا جن سے کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر فتنہ پیدا کیا کہ نجات اخروی کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان ضروری نہیں ہے۔ اس فتنے نے ایک بار اکبر کے زمانے میں ”دینِ الٰہی“ کی شکل میں جنم لیا تھا کہ آخرت میں نجات کے لیے صرف خدا کو مان لینا ‘ آخرت کو مان لینا اور نیک اعمال کرنا کافی ہے ‘ کسی رسول پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ فتنہ صوفیاء میں بھی بہت بڑے پیمانے پر پھیلا اور ”مسجد مندر ہکڑو نور“ کے فلسفے کی تشہیر کی گئی۔ یعنی مسجد میں اور مندر میں ایک ہی نور ہے ‘ سب مذاہب اصل میں ایک ہی ہیں ‘ سارا فرق شریعتوں کا اور عبادات کی ظاہری شکل کا ہے۔ اور وہ رسولوں سے متعلق ہے۔ چناچہ رسولوں کو بیچ میں سے نکال دیجیے تو یہ ”دینِ الٰہی“ اللہ کا دین رہ جائے گا۔ یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جو ہندوستان میں اس وقت اٹھا جب سیاسی اعتبار سے مسلمانوں کا اقتدار چوٹی climax پر تھا۔ یہ فتنہ جس مسلمان حکمران کا اٹھایا ہوا تھا وہ ”اکبر اعظم“ اور ”مغل اعظم“ کہلاتا تھا۔ اس کے پیش کردہ ”دین“ کا فلسفہ یہ تھا کہ دین محمدی ﷺ کا دور ختم ہوگیا نعوذ باللہ ‘ وہ ایک ہزار سال کے لیے تھا ‘ اب دوسرا ہزار سال الف ثانی ہے اور اس کے لیے نیا دین ہے۔ اسے ”دین اکبری“ بھی کہا گیا اور ”دینِ الٰہی“ بھی۔ سورة البقرۃ کے اس حصے میں ایک آیت آئے گی جس سے کچھ لوگوں نے اس ”دینِ الٰہی“ کے لیے استدلال کیا تھا۔ہندوستان میں بیسویں صدی میں یہ فتنہ پھر اٹھا جب گاندھی جی نے ”متحدہ وطنی قومیت“ کا نظریہ پیش کیا۔ اس موقع پر مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑا نابغہ genius انسان ابوالکلام آزاد بھی اس فتنے کا شکارہو گیا۔ گاندھی جی اپنی پراتھنا میں کچھ قرآن کی تلاوت بھی کرواتے ‘ کچھ گیتا بھی پڑھواتے ‘ کچھ اپنشدوں سے ‘ کچھ بائبل سے اور کچھ گروگرنتھ سے بھی استفادہ کیا جاتا۔ متحدہ وطنی قومیت کا تصور یہ تھا کہ ایک وطن کے رہنے والے لوگ ایک قوم ہیں ‘ لہٰذا ان سب کو ایک ہونا چاہیے ‘ مذہب تو انفرادی معاملہ ہے ‘ کوئی مسجد میں چلا جائے ‘ کوئی مندر میں چلا جائے ‘ کوئی گُردوارے میں چلا جائے ‘ کوئی کلیسا ‘ سنیگاگ یا چرچ میں چلا جائے تو اس سے کیا فرق واقع ہوتا ہے ؟ اس طرح کے نظریات اور تصورات کا توڑ یہی ہے کہ یوں سمجھ لیجیے کہ پانچویں رکوع کی سات آیات بریکٹ کے باہر ہیں اور یہ بریکٹوں کے اندر کے مضمون سے مسلسل ضرب کھا رہی ہیں۔ چناچہ ان بریکٹوں کے درمیان جتنا بھی مضمون آ رہا ہے وہ ان کے تابع ہوگا۔ گویا جہاں تک محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کا معاملہ ہے وہ ہر مرحلے پر مقدر understood سمجھا جائے گا۔ اب ہم ان آیات کا مطالعہ شروع کرتے ہیں۔آیت 47 یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ ‘ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ اس کی وضاحت گزشتہ رکوع میں ہوچکی ہے ‘ لیکن یہاں آگے جو الفاظ آ رہے ہیں بہت زوردار ہیں :وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ “عربی نحو کا یہ قاعدہ ہے کہ کہیں ظرف کا تذکرہ ہوتا ہے یعنی جس میں کوئی شے ہے لیکن اس سے مراد مظروف ہوتا ہے یعنی ظرف کے اندر جو شے ہے۔ یہاں بھی ظرف کی جمع لائی گئی ہے لیکن اس سے مظروف کی جمع مراد ہے۔ ”تمام جہانوں پر فضیلت“ سے مراد ”جہان والوں پر فضیلت“ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے تمہیں تمام اقوام عالم پر فضیلت عطا کی۔ عالم انسانیت کے اندر جتنے بھی مختلف گروہ ‘ نسلیں اور طبقات ہیں ان میں فضیلت عطاکی۔

وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ

📘 آیت 48 وَاتَّقُوْا یَوْماً لاَّ تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْءًا قبل ازیں یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ انسان کے عمل کے اعتبار سے سب سے مؤثرّ شے ایمان بالآخرۃ ہے۔ محاسبۂ آخرت اگر مستحضر رہے گا تو انسان سیدھا رہے گا ‘ اور اگر اس میں ضعف آجائے تو ایمان باللہ اور ایمان بالرسالت بھی نمعلوم کیا کیا شکلیں اختیار کرلیں۔ اس آیت کے اندر چار اعتبارات سے محاسبۂاُخروی پر زور دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے فرمایا کہ ڈرو اس دن سے جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی۔وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ“ وَّلاَ یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ“ وَّلاَ ہُمْ یُنْصَرُوْنَ ”“ ایمان بالآخرۃ کے ضمن میں لوگوں نے طرح طرح کے عقیدے گھڑ رکھے ہیں ‘ جن میں شفاعت باطلہ کا تصور بھی ہے۔ اہل عرب سمجھتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے لات ‘ منات اور عزیٰ وغیرہ کے نام سے ان کے بت بنا رکھے تھے ‘ جنہیں وہ پوجتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کی یہ لاڈلی بیٹیاں ہمیں اپنے ”اباجان“ سے چھڑا لیں گی۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک ! ہمارے ہاں بھی شفاعت باطلہ کا تصور موجود ہے کہ اولیاء اللہ ہمیں چھڑالیں گے۔ خود رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کے بارے میں غلط تصورات موجود ہیں۔ ایک شفاعت حقہ ہے ‘ جو برحق ہے ‘ اس کی وضاحت کا یہ موقع نہیں ہے۔ اسی سورة مبارکہ میں جب ہم آیت الکرسی کا مطالعہ کریں گے تو ان شاء اللہ اس کی وضاحت بھی ہوگی۔ یہ سارے تصورات اور خیالات جو ہم نے گھڑ رکھے ہیں ‘ ان کی نفی اس آیت کے اندر دوٹوک انداز میں کردی گئی ہے۔ ّ َ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل پر جو احسانات و انعامات ہوئے اور ان کی طرف سے جو ناشکریاں ہوئیں ان کا تذکرہ بڑی تیزی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ واقعات کئی سو برس پر محیط ہیں اور ان کی تفصیل مکی سورتوں میں آگئی ہے۔ ان واقعات کی سب سے زیادہ تفصیل سورة الاعراف میں موجود ہے۔ یہاں پر تو واقعات کا پے بہ پے تذکرہ کیا جا رہا ہے ‘ جیسے کسی ملزم پر فرد قرارداد جرم عائد کی جاتی ہے تو اس میں سب کچھ گنوایا جاتا ہے کہ تم نے یہ کیا ‘ یہ کیا اور یہ کیا۔

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ

📘 آیت 49 وَاِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْءَ الْعَذَابِ ”“ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَ ‘ کُمْ وَیَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَ کُمْ ط فرعون نے حکم دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہو اس کو قتل کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ ان سے خدمت لی جاسکے اور انہیں لونڈیاں بنایا جاسکے۔ بنی اسرائیل کے ساتھ یہ معاملہ دو مواقع پر ہوا ہے۔ اس کی تفصیل ان شاء اللہ بعد میں آئے گی۔وَفِیْ ذٰلِکُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ “

أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

📘 آیت 5 اُولٰٓءِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْقوہ ابتدائی ہدایت بھی ان کے پاس تھی اور اس تکمیلی ہدایت یعنی قرآن پر بھی ان کا پورا یقین ہے ‘ اور محمد ﷺ کا اتباع بھی وہ کر رہے ہیں۔ّ وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ”فلاح“ کا لفظ بھی قرآن مجید کی بہت اہم اصطلاح ہے۔ اس کا معنی ہے منزل مراد کو پہنچ جانا ‘ کسی باطنی حقیقت کا عیاں ہوجانا۔ اس پر ان شاء اللہ سورة المؤمنون کے شروع میں گفتگو ہوگی۔ یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ فلاح پانے والے ‘ کامیاب ہونے والے ‘ منزل مراد کو پہنچنے والے اصل میں یہی لوگ ہیں۔ تاویل خاص کے اعتبار سے یہ صحابہ کرام رض کی طرف اشارہ ہوگیا ‘ جبکہ تاویل عام کے اعتبار سے ہر شخص کو بتادیا گیا کہ اگر قرآن کی ہدایت سے مستفید ہونا ہے تو یہ اوصاف اپنے اندرپیدا کرو۔

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ

📘 آیت 50 وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ یہ ایک مختلف فیہ بات ہے کہ بنی اسرائیل نے مصر سے جزیرہ نمائے سینا آنے کے لیے کس سمندر یا دریا کو عبور کیا تھا۔ ایک رائے یہ ہے کہ دریائے نیل کو عبور کر کے گئے تھے ‘ لیکن یہ بات اس اعتبار سے غلط ہے کہ دریائے نیل تو مصر کے اندر بہتا ہے ‘ وہ کبھی بھی مصر کی حد نہیں بنا۔ دوسری رائے یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو عبور کیا تھا۔ بحیرۂ قلزم Red Sea اوپر جا کر دو کھاڑیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے ‘ مشرق کی طرف خلیج عقبہ اور مغرب کی طرف خلیج سویز ہے اور ان کے درمیان جزیرہ نمائے سینا Sinai Peninsula ہے۔ یہ اسی طرح کی تکون ہے جیسے جزیرہ نمائے ہند Indian Peninsula ہے۔ خلیج سویز اور بحیرۂ روم کے درمیان کئی بڑی بڑی جھیلیں تھیں ‘ جن کو باہم جوڑ جوڑ کر ‘ درمیان میں حائل خشکی کو کاٹ کر نہر سویز بنائی گئی ہے ‘ جو اب ایک مسلسل رابطہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو عبور کیا تھا۔ مجھے خود بھی اسی رائے سے اتفاق ہے۔ اس لیے کہ کوہ طور اس جزیرہ نمائے سینا کی نوک tip پر واقع ہے ‘ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو چالیس دن رات کے لیے بلایا گیا اور پھر انہیں تورات دی گئی۔ بنی اسرائیل نے خلیج سویز کو اس طرح عبور کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی ایک ضرب سے سمندر پھٹ گیا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ الشُّعراء ”پس سمندر پھٹ گیا اور ہوگیا ہر حصہ جیسے بڑا پہاڑ“۔ سمندر کا پانی دونوں طرف پہاڑ کی طرح کھڑا ہوگیا اور بنی اسرائیل اس کے درمیان میں سے نکل گئے۔ ان کے پیچھے پیچھے جب فرعون اپنا لشکر لے کر آیا تو اس نے سوچا کہ ہم بھی ایسے ہی نکل جائیں گے ‘ لیکن وہ غرق ہوگئے۔ اس لیے کہ دونوں طرف کا پانی آپس میں مل گیا۔ یہ ایک معجزانہ کیفیت تھی اور یہ بات فطرت nature کے قوانین کے مطابق نہیں تھی۔فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَاَغْرَقْنَا اٰلَ فِرْعَوْنَ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ”“ تمہاری نگاہوں کے سامنے فرعون کے لاؤ لشکر کو غرق کردیا۔ بنی اسرائیل خلیج سویز سے گزر چکے تھے اور دوسری جانب کھڑے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ ادھر سے فرعون اور اس کا لاؤ لشکر سمندر میں داخل ہوا تو پانی دونوں طرف سے آکر مل گیا اور یہ سب غرق ہوگئے۔

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ

📘 آیت 51 وَاِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا فرمانے کے لیے چالیس دن رات کے لیے کوہ طور پر بلایا۔ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ ”“ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں بچھڑے کی پرستش شروع کردی اور اسے معبودبنا لیا۔ وَاَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ”۔“ بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا تھا۔ الفاظ قرآنی : اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ کے مصداق عظیم ترین ظلم جو ہے وہ شرک ہے ‘ اور بنی اسرائیل نے شرک جلی کی یہ مکروہ ترین شکل اختیار کی کہ بچھڑے کی پرستش شروع کردی !

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 52 ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ”“ یہ ہمارا کرم رہا ہے ‘ ہماری رحمت رہی ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ “

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

📘 آیت 53 وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ ”فرقان“ سے مراد حق اور باطل کے درمیان فرق کردینے والی چیز ہے اور کتاب کا لفظ عام طور پر شریعت کے لیے آتا ہے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

📘 آیت 54 وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ باتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْآ اِلٰی بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط یہ واقعہ تورات میں تفصیل سے آیا ہے ‘ قرآن میں اس کی تفصیل مذکور نہیں ہے۔ بہت سے واقعات جن کا قرآن میں اجمالاً ذکر ہے ان کی تفصیل کے لیے ہمیں تورات سے رجوع کرنا پڑتا ہے ‘ ورنہ بعض آیات کا صحیح صحیح مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ یہاں الفاظ آئے ہیں : فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ط ”مار ڈالو اپنی جانیں“ یا ”قتل کرو اپنے آپ کو“۔ اس کے کیا معنی ہیں ؟ یہ دراصل قتل مرتد کی سزا ہے۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ ہر قبیلے میں سے کچھ لوگوں نے یہ کفر اور شرک کیا کہ بچھڑے کو معبود بنا لیا ‘ باقی لوگوں نے ایسا نہیں کیا۔ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا کہ ہر قبیلے کے وہ لوگ جو اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے اپنے اپنے قبیلے کے ان لوگوں کو قتل کریں جو اس کفر و شرک کے مرتکب ہوئے۔ ”فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ“ سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے قبیلے کے لوگوں کو قتل کرو۔ اس لیے کہ قبائلی زندگی بڑی حساسّ ہوتی ہے اور کسی دوسرے قبیلے کی مداخلت سے قبائلی عصبیتّ بھڑک اٹھنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس حکم پر عمل درآمد کے نتیجے میں ستر ہزار یہودی قتل ہوئے۔ اس سے بڑی توبہ اور اس سے بڑی تطہیر purge ممکن نہیں ہے۔ کسی بھی نظریاتی جماعت کے اندر تزکیہ اور تطہیر کا عمل بہت ضروری ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایک نظریے کو قبول کرکے جماعت سے وابستہ ہوجاتے ہیں ‘ لیکن رفتہ رفتہ نظریہ اوجھل ہوجاتا ہے اور اپنے مفادات اور چودھراہٹیں مقدمّ ہوجاتی ہیں۔ اسی سے جماعتیں خراب ہوتی ہیں اور غلط راستے پر پڑجاتی ہیں۔ چناچہ نظریاتی جماعتوں میں یہ عمل بہت ضروری ہوتا ہے کہ جو افراد نظریے سے منحرف ہوجائیں ان کو جماعت سے کاٹ کر علیحدہ کردیاجائے۔ قرآن حکیم کے اس مقام سے قتل مرتد کی سزا ثابت ہوتی ہے ‘ جبکہ قتل مرتد کا واضح حکم حدیث نبوی ﷺ میں موجود ہے۔ ہمارے بعض جدید دانشور اسلام میں قتل مرتد کی حد کو تسلیم نہیں کرتے ‘ لیکن میرے نزدیک یہ شریعت موسوی علیہ السلام کا تسلسل ہے۔ شریعت موسوی علیہ السلام کے جن احکام کے بارے میں صراحتاً یہ معلوم نہیں کہ انہیں تبدیل کردیا گیا ہے وہ شریعت محمدی ﷺ کا جزو بن گئے ہیں۔ شادی شدہ زانی پر حد رجم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ قرآن مجید میں حد رجم کی کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ‘ لیکن احادیث میں یہ سزا موجود ہے۔ اسی طرح قرآن مجید میں مرتد کے قتل کی کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے ‘ لیکن یہ حدیث اور سنت سے ثابت ہے۔ البتہ ان دونوں سزاؤں کا منبع اور ماخذ دراصل تورات ہے۔ اس اعتبار سے قرآن حکیم کا یہ مقام بہت اہم ہے ‘ لیکن اکثر لوگ یہاں سے بہت سرسری طور پر گزر جاتے ہیں۔ ّ َ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو ان کی تعداد چھ لاکھ تھی۔ جزیرہ نمائے سینا پہنچنے کے بعد ان کی تعداد مزید بڑھ گئی ہوگی۔ ان میں سے سترّ ہزار افراد کو شرک کی پاداش میں قتل کیا گیا ‘ اور ہر قبیلے نے جو اپنے مرتد تھے ان کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِءِکُمْ ط“ فَتَابَ عَلَیْکُمْ ط ”“ بنی اسرائیل کی توبہ اس طرح قبول ہوئی کہ امت کا تزکیہ ہوا اور ان میں سے جن لوگوں نے اتنی بڑی غلط حرکت کی تھی ان کو ذبح کر کے ‘ قتل کرکے امت سے کاٹ کر پھینک دیا گیا۔اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّاب الرَّحِیْمُ ”“

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ

📘 آیت 55 وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہْرَۃً اٰمَنَ یُؤْمِنُ کے بعد ”بِ“ کا صلہ ہو تو اس کے معنی ایمان لانے کے ہوتے ہیں ‘ جبکہ ”لِ“ کے صلہ کے ساتھ اس کے معنی صرف تصدیق کے ہوتے ہیں۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم آپ کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے جب تک ہم اپنی آنکھوں سے اللہ کو آپ سے کلام کرتے نہ دیکھ لیں۔ ہم کیسے یقین کرلیں کہ اللہ نے یہ کتاب آپ کو دی ہے ؟ آپ علیہ السلام تو ہمارے سامنے پتھر کی کچھ تختیاں لے کر آگئے ہیں جن پر کچھ لکھا ہوا ہے۔ ہمیں کیا پتا کہ یہ کس نے لکھا ہے ؟ دیکھئے ‘ ایک خواہش حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بھی تھی کہ رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ ط الاعراف : 143 ”اے میرے ربّ ! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھ کو دیکھوں“۔ وہ کچھ اور شے تھی ‘ وہ ع ”تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ !“ کی کیفیت تھی ‘ لیکن یہ تخریبی ذہن کی سوچ ہے کہ ہم بھی چاہتے ہیں کہ اللہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور ہمیں معلوم ہو کہ واقعی اس نے آپ کو یہ کتاب دی ہے۔فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ”“۔تمہارے دیکھتے دیکھتے ایک بہت بڑی کڑک نے تمہیں آلیا اور تم سب کے سب مردہ ہوگئے۔

ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 آیت 56 ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ بعض لوگ اس کی ایک تاویل کرتے ہیں کہ یہ موت نہیں تھی ‘ بلکہ زبردست کڑک کی وجہ سے سب کے سب بےہوش ہو کر گرپڑے تھے ‘ لیکن میرے نزدیک یہاں تاویل کی ضرورت نہیں ہے ‘ بعث بعد الموت اللہ کے لیے کچھ مشکل نہیں ہے۔ مِنْ بَعْدِ مَوْتِکُمْ کے الفاظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بالکل صریح ہیں ‘ انہیں خواہ مخواہ کوئی اور معنی پہنانا درست نہیں ہے۔ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 آیت 57 وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ جزیرہ نمائے سینا کے لق و دق صحرا میں چھ لاکھ کا قافلہ چل رہا ہے ‘ کوئی اوٹ نہیں ‘ کوئی سایہ نہیں ‘ دھوپ کی تپش سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں۔ ان حالات میں ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ فضل ہوا کہ تمام دن ایک بادل ان پر سایہ کیے رہتا اور جہاں جہاں وہ جاتے وہ بادل ان کے ساتھ ساتھ ہوتا۔ وَاَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی ط“ صحرائے سینا میں بنی اسرائیل کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا تو ان کے لیے مَنّ وسلویٰ نازل کیے گئے۔ ”مَنّ“ رات کے وقت شبنم کے قطروں کی مانند اترتا تھا ‘ جس میں شیرینی بھی ہوتی تھی ‘ اور اس کے قطرے زمین پر آکر جم جاتے تھے اور دانوں کی صورت اختیار کرلیتے تھے۔ یہ گویا ان کا اناج ہوگیا ‘ جس سے کاربوہائیڈریٹس کی ضرورت پوری ہوگئی۔ ”سلویٰ“ ایک خاص قسم کا بٹیر کی شکل کا پرندہ تھا۔ شام کے وقت ان پرندوں کے بڑے بڑے جھنڈ آتے اور جہاں بنی اسرائیل ڈیرہ ڈالے ہوتے اس کے گرد اتر آتے تھے۔ رات کی تاریکی میں یہ ان پرندوں کو آسانی سے پکڑ لیتے تھے اور بھون کر کھاتے تھے۔ چناچہ ان کی پروٹین کی ضرورت بھی پوری ہو رہی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مکمل غذا فراہم کردی تھی۔ کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ط ”ہم نے کہا کھاؤ ان پاکیزہ چیزوں کو جو ہم نے تم کو عطا کی ہیں۔“ وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ “ ہر قدم پر نافرمانی اور ناشکری بنی اسرائیل کا وطیرہ تھی۔ چناچہ انہوں نے ”مَنّ وسلویٰ“ جیسی نعمت کی قدر بھی نہ کی اور ناشکری کی روش اپنائے رکھی۔ اس کا ذکر اگلی آیات میں آجائے گا۔

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

📘 آیت 58 وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِءْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ط وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ بنی اسرائیل کے صحرائے سینا میں آنے اور تورات عطا کیے جانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کے زمانے میں انہیں جہاد اور قتال کا حکم ہوا ‘ لیکن اس سے پوری قوم نے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سزاّ مسلط کردی کہ یہ چالیس برس تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ابھی جہاد اور قتال کرتے تو ہم پورا فلسطین ان کے ہاتھ سے ابھی فتح کرا دیتے ‘ لیکن چونکہ انہوں نے بزدلی دکھائی ہے لہٰذا اب ان کی سزا یہ ہے : فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط المائدۃ : 26 یعنی ارض فلسطین جو ان کے لیے ارض موعود تھی وہ ان پر چالیس سال کے لیے حرام کردی گئی ہے ‘ اب یہ چالیس سال تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ صحرا نوردی کے اس عرصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی انتقال ہوگیا اور حضرت ہارون علیہ السلام کا بھی۔ اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور وہ نسل جو مصر سے غلامی کا داغ اٹھائے ہوئے آئی تھی وہ پوری کی پوری ختم ہوگئی۔ غلامی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ غلام قوم کے اندر اخلاق و کردار کی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ صحرا نوردی کے زمانے میں جو نسل پیدا ہوئی اور صحرا ہی میں پروان چڑھی وہ ایک آزاد نسل تھی جو ان کمزوریوں سے پاک تھی اور ان میں ایک جذبہ تھا۔ بنی اسرائیل کی اس نئی نسل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ یوشع بن نون [ تورات میں ان کا نام یشوع Joshua آیا ہے ] کی قیادت میں قتال کیا اور پہلا شہر جو فتح ہوا وہ ”اریحا“ تھا۔ یہ شہر آج بھی جریکو Jericho کے نام سے موجود ہے۔ یہاں پر اس فتح کے بعد کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوجاؤ اور پھر جو کچھ نعمتیں یہاں ہیں ان سے متمتعّ ہو ‘ خوب کھاؤ پیو ‘ لیکن شہر کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا۔ مراد یہ ہے کہ جھک کر ‘ سجدۂ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہونا۔ ایسا نہ ہو کہ تکبر کی وجہ سے تمہاری گردنیں اکڑ جائیں۔ اللہ کا احسان مانتے ہوئے گردنیں جھکا کر داخل ہونا۔ یہ نہ سمجھنا کہ یہ فتح تم نے بزور بازو حاصل کی ہے۔ اس کا نقشہ ہمیں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں نظر آتا ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو جس سواری پر آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ کی پیشانی مبارک اس کی گردن کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ یہ وقت ہوتا ہے جبکہ ایک فاتح تکبرّ اور تعلّی کا مظاہرہ کرتا ہے ‘ لیکن بندۂ مؤمن کے لیے یہی وقت تواضع کا اور جھکنے کا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہیں حکم دیا گیا : وََقُوْلُوْا حِطَّۃٌ ”اور کہتے جاؤ مغفرت مغفرت“۔ حِطَّۃٌ کا وزن فِعْلَۃٌ اور مادہ ”ح ط ط“ ہے۔ حَطَّ یَحُطُّ حَطًّا کے متعدد معنی ہیں ‘ جن میں سے ایک ”پتے جھاڑنا“ ہے۔ مثلاً کہیں گے حَطَّ وَرَقَ الشَّجَرِ اس نے درخت کے ّ پتے جھاڑ دیے۔ حِطَّۃٌ کے معنی ”استغفار ‘ طلب مغفرت اور توبہ“ کے کیے جاتے ہیں۔ گویا اس میں گناہوں کو جھاڑ دینے اور خطاؤں کو معاف کردینے کا مفہوم ہے۔ چناچہ ”وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کا مفہوم یہ ہوگا کہ مفتوح بستی میں داخل ہوتے وقت جہاں تمہاری گردنیں عاجزی کے ساتھ جھکی ہونی چاہئیں وہیں تمہاری زبان پر بھی استغفار ہونا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے ‘ ہماری مغفرت فرما دے ‘ ہماری خطاؤں کو بخش دے ! اگر تم ہمارے اس حکم پر عمل کرو گے تو ہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے ‘ اور تم میں جو محسن اور نیکوکار ہوں گے انہیں مزید فضل و کرم اور انعام و اکرام سے نوازیں گے۔

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

📘 آیت 59 فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ “ان میں سے جو ظالم تھے ‘ بدکردار تھے انہوں نے ایک اور قول اختیار کرلیا اس قول کی جگہ جو ان سے کہا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ ”حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ“ کہتے ہوئے داخل ہونا ‘ لیکن انہوں نے اس کی بجائے ”حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کہنا شروع کردیا ‘ یعنی ہمیں تو گیہوں چاہیے ‘ گیہوں چاہیے ! اگلے رکوع میں یہ بات آجائے گی کہ مَنّ وسلویٰ کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کی طبیعتیں بھر گئی تھیں ‘ ایک ہی چیز کھا کھا کر وہ اکتا گئے تھے اور اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں زمین کی روئیدگی اور پیداوار میں سے کوئی چیز کھانے کو ملنی چاہیے۔ اس خواہش کا اظہار ان کی زبانوں پر ”حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کی صورت میں آگیا۔ اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا استہزاء و تمسخر کیا جو انہیں ”وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کے الفاظ میں دیا گیا تھا۔ اسی طرح شہر میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے انہوں نے اپنے سرینوں پر پھسلنا شروع کیا۔فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ “ جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا استہزاء و تمسخر کیا تھا ان پر آسمان سے ایک بہت بڑا عذاب نازل ہوا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اریحا شہر میں پہنچنے کے بعد انہیں طاعون کی وبا نے آلیا اور جنہوں نے یہ حرکت کی تھی وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ”“ یہ ان نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کی سزا تھی جو وہ کر رہے تھے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 6 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ”اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا“ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے کفر پر اڑ گئے۔ اس کو ہم تاویل عام میں نہیں لے سکتے۔ اس لیے کہ اس صورت میں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے کسی بھی وقت کفر کیا اب وہ ہدایت پر آہی نہیں سکتا ! یہاں یہ بات مراد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بنا پر یا عدم توجہی کی بنا پر کفر میں ہے ‘ حق اس پر واضح نہیں ہوا ہے تو انذار وتبشیر سے اسے فائدہ ہوجائے گا۔ آپ اسے وعظ و نصیحت کریں تو وہ اس کا اثر قبول کرے گا۔ لیکن جو لوگ حق کو حق سمجھنے اور پہچاننے کے باوجود محض ضد ‘ ہٹ دھرمی اور تعصبّ کی وجہ سے یا تکبرّ اور حسد کی وجہ سے کفر پر اڑے رہے تو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ ﷺ انہیں سمجھائیں یا نہ سمجھائیں ‘ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ‘ انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں ‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے ‘ جاگتے کو آپ کیسے جگائیں گے ؟ یہ گویا مکہ کے سرداروں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ان کے دل اور دماغ گواہی دے چکے ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن ان پر اتمام حجت کرچکا ہے اور وہ مان چکے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے ‘ یہ محمد ﷺ کا مکمل معجزہ ہے ‘ اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔

۞ وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ

📘 اب یہاں پھر صحراء سینا کے واقعات بیان ہو رہے ہیں۔ ان واقعات میں ترتیب زمانی نہیں ہے۔ اریحا کی فتح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئی ‘ جس کا ذکر گزشتہ آیات میں ہوا ‘ لیکن ‘ اب یہاں پھر اس دور کے واقعات آ رہے ہیں جب بنی اسرائیل صحرائے تیہہ میں بھٹک رہے تھے۔ آیت 60 وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ط“ صحرائے سینا میں چھ لاکھ سے زائد بنی اسرائیل پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور وہاں پانی نہیں تھا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی طلب کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے عصا سے چٹان پر ضرب لگاؤ۔فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا ط ’“ ”فَجَرَ“ کہتے ہیں کوئی چیز پھٹ کر اس سے کسی چیز کا برآمد ہونا۔ فجر کے وقت کو فجراسی لیے کہتے ہیں کہ اس وقت رات کی تاریکی کا پردہ چاک ہوتا ہے اور سپیدۂ سحر نمودار ہوتا ہے۔ قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ ط“ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ اگر ان کے لیے علیحدہ علیحدہ گھاٹ نہ ہوتا تو ان میں باہم لڑائی جھگڑے کا معاملہ ہوتا۔ انہیں بارہ چشمے اسی لیے دیے گئے تھے کہ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ پانی تو بہت بڑی چیز ہے اور قبائلی زندگی میں اس کی بنیاد پر جنگ و جدل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ؂کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا تو اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ سہولت مہیا کی کہ بارہ چشمے پھوٹ بہے اور ہر قبیلے نے اپنا گھاٹ معین کرلیا۔ ّ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ “ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ “ صحرا میں ان کے لیے پینے کو پانی بھی مہیا کردیا گیا اور کھانے کے لیے مَن وسلویٰ اتار دیا گیا ‘ لیکن انہوں نے ناشکری کا معاملہ کیا ‘ جس کا ذکر ملاحظہ ہو۔

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَنْ نَصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ

📘 آیت 61 وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ “ من وسلویٰ کھا کھا کر اب ہم اکتا گئے ہیں۔ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ “ یعنی زمین کی پیداوار میں سے ‘ نباتات ارضی میں سے ہمیں رزق دیا جائے۔مِنْم بَقْلِہَا وَقِثَّآءِھَا“ یہ لفظ کھیرے اور ککڑی وغیرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔وَفُوْمِہَا فُوم کا ایک ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح ترجمہ لہسن ہے۔ عربی میں اس کے لیے بالعموم لفظ ”ثُوم“ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہسن کو فارسی میں توم اور پنجابی ‘ سرائیکی اور سندھی میں ”تھوم“ کہتے ہیں اور یہ فوم اور ثوم ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے ‘ اس لیے کہ عربوں کی آمد کے باعث ان کی زبان کے بہت سے الفاظ سندھی اور سرائیکی زبان میں شامل ہوگئے ‘ جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کافی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا ط“ اب جو سالن کے چٹخارے ان چیزوں سے بنتے ہیں ان کی زبانیں وہ چٹخارے مانگ رہی تھیں۔ بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ایک ہی طرح کی غذا ”مَنّ وسلویٰ“ کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے ‘ لہٰذا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمیں زمین سے اگنے والی چٹخارے دار چیزیں چاہئیں۔قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ ط ”“ مَن وسلویٰ نباتات ارضی سے کہیں بہتر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں دیا گیا ہے۔ تو اس سے تمہارا جی بھر گیا ہے اور اس کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہو کہ یہ ادنیٰ چیزیں تمہیں ملیں ؟اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ط ”“ لفظ ”اِہْبِطُوْا“ پر آیت 38 کے ذیل میں بات ہوچکی ہے کہ اس کا معنی بلندی سے اترنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے یہاں یہ لفظ آسمان سے زمین پر اترنے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بستی میں جا کر آباد ہوجاؤ ! settle down somewhere اگر تمہیں زمین کی پیداوار میں سے یہ چیزیں چاہئیں تو کہیں آباد settle ہوجاؤ اور کاشت کاری کرو ‘ یہ ساری چیزیں تمہیں مل جائیں گی۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق“ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط“ وہ اللہ کے غضب میں گھرگئے۔بنی اسرائیل وہ امت تھی جس کے بارے میں فرمایا گیا : وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ البقرۃ اسی امت کا پھر یہ حشر ہوا تو کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ! انہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کی پیروی کریں اور اسے قائم کریں۔ سورة المائدۃ میں فرمایا گیا :وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط آیت 66”اگر یہ اہل کتاب تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے اتاری گئیں تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے۔“یعنی ان کے سروں کے اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی اور زمین بھی ان کے لیے نعمتیں اگلتی۔ لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ کر اپنی خواہشات ‘ اپنے نظریات ‘ اپنے خیالات ‘ اپنی عقل اور اپنی مصلحتوں کو مقدمّ کیا ‘ اور اپنے تمرد ‘ اپنی سرکشی اور اپنی حاکمیت کو بالاتر کیا۔ جو قوم دنیا میں اللہ کے قانون ‘ اللہ کی ہدایت اور اللہ کی کتاب کی امین ہوتی ہے وہ اللہ کی نمائندہ representative ہوتی ہے ‘ اور اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی misrepresent کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کافروں سے بڑھ کر مغضوب اور مبغوض ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ کافروں کو دین پہنچانا تو اس مسلمان امت کے ذمہّ تھا۔ اگر یہ خود ہی دین سے منحرف ہوگئے تو کسی اور کو کیا دین پہنچائیں گے ؟ آج اس مقام پر موجودہ امت مسلمہ کھڑی ہے کہ تعداد میں سوا ارب یا ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ان کے حصے میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دنیا کے سارے معاملات G- 7 اور G- 15 ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے ‘ لیکن کوئی مسلمان ملک نہ تو سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ ہی G- 7 ‘ G- 9 یا G- 15 میں شامل ہے۔ گویا ع ”کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی !“ ہماری اپنی پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں ‘ ہمارے اپنے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں ‘ ہماری صلح اور جنگ کسی اور کے اشارے سے ریموٹ کنٹرول انداز میں ہوتی ہیں۔ یہ ذلت اور مسکنت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘ لیکن اس کے لیے جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے ؟ یہ مسکنت نہیں ہے تو کیا ہے ؟ اگر اللہ پر یقین ہے اور اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو اپنی شہ رگ دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمت کرو۔ لیکن نہیں ‘ ہم میں یہ ہمت موجود نہیں ہے۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آتی رہیں گی کہ قابض بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اتنے کشمیریوں کو شہید کردیا ‘ اتنی مسلمان عورتوں کی بےحرمتی کردی ‘ لیکن ہم یہاں اپنے اپنے دھندوں میں ‘ اپنے اپنے کاروبار میں ‘ اپنی اپنی ملازمتوں میں اور اپنے اپنے کیریئرز میں مگن ہیں۔ بہرحال متذکرہ بالا الفاظ اگرچہ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں کہ ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی مسلطّ کردی گئی ‘ لیکن اس میں آج کی امت مسلمہ کا نقشہ بھی موجود ہے ؂ ّ َ خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں !ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط“ ّ ہمارے ہاں بھی مجددین امت کو ‘ قتل بھی کیا گیا اور ان میں سے کتنے ہیں جو جیلوں میں ڈالے گئے۔ متعدد صحابہ کرام رض اور سینکڑوں تابعین مستبد حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ائمۂ دین کو ایسی ایسی مار پڑی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو بھی ایسی مار پڑے تو وہ برداشت نہ کرسکے۔ امام احمد بن حنبل رح کے ساتھ کیا کچھ ہوا ! امام ابوحنیفہ رح نے جیل میں انتقال کیا اور وہاں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ امام دار الہجرت امام مالک رح کے کندھے کھینچ دیے گئے اور منہ کالا کر کے انہیں اونٹ پر بٹھا کر پھرایا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رح ‘ کو پس دیوار زنداں ڈالا گیا۔ سید احمد بریلوی رح اور ان کے ساتھیوں کو خود مسلمانوں نے شہید کروا دیا۔ ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا۔ ان کے ہاں نبی تھے ‘ ہمارے ہاں مجددین ہیں ‘ علماء حق ہیں۔ انہوں نے جو کچھ انبیاء علیہ السلام کے ساتھ کیا وہی ہم نے مجددین کے ساتھ کیا۔ ّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ”“ ان کو یہ سزا ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے نعوذ باللہ ‘ اللہ تعالیٰ نے تو انہیں اونچا مقام دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ”خیر امت“ قراردیا۔ ہم نے بھی جب اپنا مشن چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت ہمارا مقدر بن گئی۔ اللہ کا قانون اور اللہ کا عدل بےلاگ ہے۔ یہ سب کے لیے ایک ہے ‘ ہر امت کے لیے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بدلتی نہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کے سبب ان کا جو حشر ہوا آج وہ ہمارا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب ”سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل“ کے نام سے موجود ہے ‘ اس کا مطالعہ کیجیے !

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 اب وہ آیت آرہی ہے کہ جس سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ نجات اخروی کے لیے ایمان بالرسالت ضروری نہیں ہے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا“ اور اس سے مراد ہے جو ایمان لائےٌ محمد رسول اللہ ﷺ پر۔وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی“ وَالصّٰبِءِیْنَ صابی وہ لوگ تھے جو عراق کے علاقے میں رہتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں۔ لیکن ان کے ہاں بھی بہت کچھ بگڑ گیا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل بگاڑکا شکار ہوگئی تھی اسی طرح وہ بھی بگڑ گئے تھے اور ان کے ہاں زیادہ تر ستارہ پرستی رواج پاگئی تھی۔ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ”وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج“ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ان لوگوں کو نہ تو کوئی خوف دامن گیر ہوگا اور نہ ہی وہ کسی حزن سے دوچار ہوں گے۔ ظاہر الفاظ کے اعتبار سے دیکھیں تو یہاں ایمان بالرسالت کا ذکر نہیں ہے۔ اگر کوئی اس سے غلط استدلال کرتا ہے تو اس کا پہلا اصولی جواب تو یہ ہے کہ بعض احادیث میں ایسے الفاظ بھی موجود ہیں : مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ تو کیا اس کے یہ معانی ہیں کہ صرف لا الٰہ الاّ اللہ کہنے سے جنت میں داخل ہوجائیں گے ‘ کسی عمل کی ضرورت نہیں ؟ بلکہ کسی حدیث کا مفہوم اخذ کرنے کے لیے پورے قرآن کو اور پورے ذخیرۂ احادیث کو سامنے رکھنا ہوگا۔ کسی ایک جگہ سے کوئی نتیجہ نکال لینا صحیح نہیں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ چھٹے رکوع کے آغاز میں یہ اصولی بات بھی بیان کی جا چکی ہے کہ سورة البقرۃ کا پانچواں رکوع چھٹے رکوع سے شروع ہونے والے سارے مضامین سے ضرب کھا رہا ہے ‘ جس میں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن پر ایمان لانے کی پرزور دعوت بایں الفاظ موجود ہے :وَاٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَلَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖص”اور ایمان لاؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے ‘ جو تصدیق کرتے ہوئے آئی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے ‘ اور تم ہی سب سے پہلے اس کا کفر کرنے والے نہ بن جاؤ۔“اب فصاحت اور بلاغت کا یہ تقاضا ہے کہ ایک بات بار بار نہ دہرائی جائے۔ البتہ یہ بات ہر جگہ مقدر understood سمجھی جائے گی۔ اس لیے کہ ساری گفتگو اسی کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے اب یوں سمجھئے کہ آیت زیر مطالعہ میں ”فِیْ اَیَّامِھِمْ“ یا ”فِیْ اَزْمِنَتِھِمْ“ اپنے اپنے دور میں کے الفاظ محذوف مانے جائیں گے۔ گویا : ّ اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَادُوْا وَالنَّصٰرٰی وَالصّٰبِءِیْنَ مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً [ فِیْ اَ یَّامِھِمْ ] فَلَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ یعنی نجات اخروی کے لیے اللہ تعالیٰ اور روز قیامت پر ایمان کے ساتھ ساتھ اپنے دور کے نبی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ چناچہ جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں آئے تھے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے جو بھی یہودی موجود تھے ‘ جو اللہ پر ایمان رکھتے تھے ‘ آخرت کو مانتے تھے اور نیک عمل کرتے تھے ان کی نجات ہوجائے گی۔ لیکن جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد ان علیہ السلام کو نہیں مانا تو اب وہ کافر قرار پائے۔ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام رسولوں پر ایمان نجات اخروی کے لیے کافی تھا ‘ لیکنٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بعد آپ ﷺ پر ایمان نہ لانے والے کافر قرار پائیں گے۔آیت زیر مطالعہ میں اصل زور اس بات پر ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ کسی گروہ میں شامل ہونے سے نجات پا جاؤ گے ‘ نجات کسی گروہ میں شامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے ‘ بلکہ نجات کی بنیاد ایمان اور عمل صالح ہے۔ اپنے دور کے رسول پر ایمان لانا تو لازم ہے ‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل صالح نہیں ہے تو نجات نہیں ہوگی۔ قرآن مجید کے ایک مقام پر آیا ہے : وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ج الاعراف : 34 ”اور ہر امت کے لیے ایک خاص معینّ مدت ہے“۔ ہر امت اس معینہّ مدت ہی کی مکلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جو لوگٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے فوت ہوگئے ان پر تو آپ ﷺ پر ایمان لانے کی کوئی ذمہ داری نہیں تھی۔ بعثت نبوی ﷺ سے قبل ایسے موحدین مکہ مکرمہ میں موجود تھے جو کعبہ کے پردے پکڑ پکڑ کر یہ کہتے تھے کہ اے اللہ ! ہم صرف تیری بندگی کرنا چاہتے ہیں ‘ لیکن جانتے نہیں کہ کیسے کریں۔ حضرت عمر رض کے بہنوئی اور فاطمہ رض بنت خطاب کے شوہر حضرت سعید بن زید رض جو عشرہ مبشرہّ میں سے ہیں کے والد زید کا یہی معاملہ تھا۔ وہ یہ کہتے ہوئے دنیا سے چلے گئے کہ : ”اے اللہ ! میں صرف تیری بندگی کرنا چاہتا ہوں ‘ مگر نہیں جانتا کہ کیسے کروں۔“ سورۃ الفاتحہ کے مطالعہ کے دوران میں نے کہا تھا کہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان توحید تک پہنچ جاتا ہے ‘ آخرت کو پہچان لیتا ہے ‘ لیکن آگے وہ نہیں جانتا کہ اب کیا کرے۔ احکام شریعت کی تفصیل کے لیے وہ ”ربّ العَالَمِین“ اور ”مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ“ کے حضور دست سوال دراز کرنے پر مجبور ہے کہ : اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ اسی صراط ‘ مستقیم کی دعا کا جواب یہ قرآن حکیم ہے ‘ اور اس میں سورة البقرۃ ہی سے احکام شریعت کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے کہ یہ کرو ‘ یہ نہ کرو ‘ یہ فرض ہے ‘ یہ تم پر لازم کیا گیا ہے اور یہ چیزیں حرام کی گئی ہیں۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

📘 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ط“ بنی اسرائیل کو جب تورات دی گئی تو اس وقت ان کے دلوں میں اللہ اور اس کی کتاب کی ہیبت ڈالنے اور خشیت پیدا کرنے کے لیے معجزانہ طور پر ایک ایسی کیفیت پیدا کی گئی کہ ان کے اوپر کوہ طور اٹھا کر معلق کردیا گیا۔ اس وقت ان سے کہا گیا : ّ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ “ اس کتاب تورات کو اور اس میں بیان کردہ احکام شریعت کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ

ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ ج ”“ یعنی جو میثاق شریعت تم سے لیا گیا تھا اس کو توڑ ڈالا۔فَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ “ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل تمہارے شامل حال نہ ہوتا اور اس کی رحمت تمہاری دستگیری نہ کرتی رہتی ‘ تمہیں بار بار معاف نہ کیا جاتا اور تمہیں بار بار مہلت نہ دی جاتی تو تم اسی وقت تباہ ہوجاتے۔

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ

📘 وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ تمہیں خوب معلوم ہے کہ تم میں سے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سبت کے قانون کو توڑا تھا اور حد سے تجاوز کیا تھا۔ یہود کی شریعت میں ہفتہ کا روز عبادت کے لیے معینّ کردیا گیا تھا اور اس روز دنیاوی کام کاج کی اجازت نہیں تھی۔ آج بھی جو مذہبی یہودی Practicing Jews ہیں وہ اس کی پابندی بڑی شدت سے کرتے ہیں۔ لیکن ایک زمانے میں ان کے ایک خاص قبیلے نے ایک شرعی حیلہ ایجاد کر کے اس قانون کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة الاعراف میں آئے گی۔فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ “ ان کی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندروں کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔ تین دن کے بعد یہ سب مرگئے۔

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ

📘 وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ تمہیں خوب معلوم ہے کہ تم میں سے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے سبت کے قانون کو توڑا تھا اور حد سے تجاوز کیا تھا۔ یہود کی شریعت میں ہفتہ کا روز عبادت کے لیے معینّ کردیا گیا تھا اور اس روز دنیاوی کام کاج کی اجازت نہیں تھی۔ آج بھی جو مذہبی یہودی Practicing Jews ہیں وہ اس کی پابندی بڑی شدت سے کرتے ہیں۔ لیکن ایک زمانے میں ان کے ایک خاص قبیلے نے ایک شرعی حیلہ ایجاد کر کے اس قانون کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ اس واقعہ کی تفصیل سورة الاعراف میں آئے گی۔فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِءِیْنَ “ ان کی شکلیں مسخ کر کے انہیں بندروں کی صورت میں تبدیل کردیا گیا۔ تین دن کے بعد یہ سب مرگئے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ

📘 ان آیات کے مطالعے سے قبل ان کا پس منظر جان لیجیے۔ بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک شخص قتل ہوگیا تھا اور قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مردہ شخص کے جسم پر مارو تو وہ جی اٹھے گا اور بتادے گا کہ میرا قاتل کون ہے۔بنی اسرائیل کی تاریخ میں ہمیں معجزات کا عمل دخل بہت زیادہ ملتا ہے۔ یہ بھی انہی معجزات میں سے ایک معجزہ تھا۔ گائے کو ذبح کرانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے قلوب و اذہان میں گائے کا جو تقدس راسخ ہوچکا تھا اس پر تلوار چلائی جائے۔ اور پھر انہیں یہ بھی دکھا دیا گیا کہ ایک مردہ آدمی زندہ بھی ہوسکتا ہے ‘ اس طرح بعث بعد الموت کا ایک نقشہ انہیں اس دنیا میں دکھا دیا گیا۔ بنی اسرائیل کو جب گائے ذبح کرنے کا حکم ملا تو ان کے دلوں میں جو بچھڑے کی محبت اور گائے کی تقدیس جڑ پکڑ چکی تھی اس کے باعث انہوں نے اس حکم سے کسی طرح سے بچ نکلنے کے لیے میں میخ نکالنی شروع کی اور طرح طرح کے سوال کرنے لگے کہ وہ کیسی گائے ہو ؟ اس کا کیا رنگ ہو ؟ کس طرح کی ہو ؟ کس عمر کی ہو ؟ بالآخر جب ہر طرف سے ان کا گھیراؤ ہوگیا اور سب چیزیں ان کے سامنے واضح کردی گئیں تب انہوں نے چار و ناچار بادل نخواستہ اس حکم پر عمل کیا۔ اب ہم ان آیات کا ایک رواں ترجمہ کرلیتے ہیں۔وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً ط قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ط کیا آپ علیہ السلام یہ بات ہنسی مذاق میں کہہ رہے ہیں ؟قَالَ اَعُوْذُ باللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ ہنسی مذاق اور تمسخر و استہزا تو جاہلوں کا کام ہے اور اللہ کے نبی سے یہ بعید ہے کہ وہ دین کے معاملات کے اندر ان چیزوں کو شامل کرلے۔

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ

📘 ان آیات کے مطالعے سے قبل ان کا پس منظر جان لیجیے۔ بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک شخص قتل ہوگیا تھا اور قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے سے حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا مردہ شخص کے جسم پر مارو تو وہ جی اٹھے گا اور بتادے گا کہ میرا قاتل کون ہے۔بنی اسرائیل کی تاریخ میں ہمیں معجزات کا عمل دخل بہت زیادہ ملتا ہے۔ یہ بھی انہی معجزات میں سے ایک معجزہ تھا۔ گائے کو ذبح کرانے کا ایک مقصدیہ بھی تھا کہ بنی اسرائیل کے قلوب و اذہان میں گائے کا جو تقدس راسخ ہوچکا تھا اس پر تلوار چلائی جائے۔ اور پھر انہیں یہ بھی دکھا دیا گیا کہ ایک مردہ آدمی زندہ بھی ہوسکتا ہے ‘ اس طرح بعث بعد الموت کا ایک نقشہ انہیں اس دنیا میں دکھا دیا گیا۔ بنی اسرائیل کو جب گائے ذبح کرنے کا حکم ملا تو ان کے دلوں میں جو بچھڑے کی محبت اور گائے کی تقدیس جڑ پکڑ چکی تھی اس کے باعث انہوں نے اس حکم سے کسی طرح سے بچ نکلنے کے لیے میں میخ نکالنی شروع کی اور طرح طرح کے سوال کرنے لگے کہ وہ کیسی گائے ہو ؟ اس کا کیا رنگ ہو ؟ کس طرح کی ہو ؟ کس عمر کی ہو ؟ بالآخر جب ہر طرف سے ان کا گھیراؤ ہوگیا اور سب چیزیں ان کے سامنے واضح کردی گئیں تب انہوں نے چار و ناچار بادل نخواستہ اس حکم پر عمل کیا۔ اب ہم ان آیات کا ایک رواں ترجمہ کرلیتے ہیں۔وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً ط قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ہُزُوًا ط کیا آپ علیہ السلام یہ بات ہنسی مذاق میں کہہ رہے ہیں ؟قَالَ اَعُوْذُ باللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰہِلِیْنَ ہنسی مذاق اور تمسخر و استہزا تو جاہلوں کا کام ہے اور اللہ کے نبی سے یہ بعید ہے کہ وہ دین کے معاملات کے اندر ان چیزوں کو شامل کرلے۔

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ

📘 قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُہَا ط قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآءُلا فاقِعٌ لَّوْنُہَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ ”یہ خوبیاں اس گائے کی تھیں جو ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ مقدس سمجھی جاتی تھی۔ اگر پہلے ہی حکم پر وہ عمل پیرا ہوجاتے تو کسی بھی گائے کو ذبح کرسکتے تھے۔ لیکن یکے بعد دیگرے سوالات کے باعث رفتہ رفتہ ان کا گھیراؤ ہوتا گیا کہ جس گائے کے تقدس کا تأثر ان کے ذہن میں زیادہ سے زیادہ تھا اسی کو focus کردیا گیا۔

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 آیت 7 خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ط ایسا کیوں ہوا ؟ ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر ابتدا ہی میں نہیں لگا دی گئی ‘ بلکہ جب انہوں نے حق کو پہچاننے کے بعدردّکر دیا تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اور ان کی سماعت پر بھی۔ وَعَلٰی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌز یہ مضمون سورة یٰسٓ کے شروع میں بہت شرح و بسط کے ساتھ دوبارہ آئے گا۔ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ‘ یہ دوسرے گروہ کا تذکرہ ہوگیا۔ ایک رکوع کل سات آیات میں دو گروہوں کا ذکر سمیٹ لیا گیا۔ ایک وہ گروہ جس نے قرآن کریم کی دعوت سے صحیح صحیح استفادہ کیا ‘ ان میں طلب ہدایت کا مادہ موجود تھا ‘ ان کی فطرتیں سلیم تھیں ‘ ان کے سامنے دعوت آئی تو انہوں نے قبول کی اور قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ وہ گلستان محمدی ﷺ کے گل سرسبد ہیں۔ وہ شجرۂ قرآنی کے نہایت مبارک اور مقدس پھل ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے حق کو پہچان بھی لیا ‘ لیکن اپنے تعصبّ یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کو ردّ کردیا۔ ان کا ذکر بھی بہت اختصار کے ساتھ آگیا۔ ان کا تفصیلی ذکر آپ کو مکی سورتوں میں ملے گا۔ اب آگے تیسرے گروہ کا ذکر آ رہا ہے۔

قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ

📘 قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ہِیَلا اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا ط“ ہمیں گائے کی تعیین میں اشتباہ ہوگیا ہے۔

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ

📘 قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّہَا بَقَرَۃٌ لاَّ ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَلاَ تَسْقِی الْحَرْثَ ج مُسَلَّمَۃٌ لاَّ شِیَۃَ فِیْہَا ط اس میں کسی دوسرے رنگ کا کوئی داغ تک نہ ہو۔“ قَالُوا الْءٰنَ جِءْتَ بالْحَقِّ ط۔“ اب تو آپ علیہ السلام نے بات پوری طرح واضح کردی ہے۔فَذَبَحُوْہَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ “ اب وہ کیا کرتے ‘ پے بہ پے سوالات کرتے کرتے وہ گھیراؤ میں آ چکے تھے ‘ لہٰذا بادل نخواستہ وہ اپنی مقدس سنہری گائے کو ذبح کرنے پر مجبور ہوگئے۔یہاں واقعہ کی ترتیب تورات سے مختلف ہے اور ذبح بقرہ کا جو سبب تھا وہ بعد میں بیان ہو رہا ہے ‘ جبکہ تورات میں ترتیب دوسری ہے۔

وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ

📘 آیت 72 وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْ تُمْ فِیْہَا ط چنانچہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ قاتل کون ہے۔وَاللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ اللہ تعالیٰ فیصلہ کرچکا تھا کہ جو کچھ تم چھپا رہے ہو اسے نکال کر رہے گا اور واضح کردے گا۔

فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ

📘 آیت 73 فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِہَا ط اس طرح وہ مردہ شخص بحکم الٰہی تھوڑی دیر کے لیے زندہ ہوگیا اور اس نے اپنے قاتل کا نام بتادیا۔کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی لا وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ “اب جو الفاظ آگے آ رہے ہیں بہت سخت ہیں۔ لیکن ان کو پڑھتے ہوئے دروں بینی ضرور کیجیے گا ‘ اپنے اندر ضرور جھانکئے گا۔

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

📘 آیت 74 ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ جب دین میں حیلے بہانے نکالے جانے لگیں اور حیلوں بہانوں سے شریعت کے احکام سے بچنے اور اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے تو اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ دل کی سختی ہے۔فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط ”“یہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی قرآن حکیم کا ایک بڑا عمدہ مقام ہے۔وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ ط ”“ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ ط ”“ وَاِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ط وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ”“ قساوت قلبی کی یہ کیفیت اس امت کے افراد کی بیان کی جا رہی ہے جسے کبھی اہل عالم پر فضیلت عطا کی گئی تھی۔ اس امت پر چودہ سو برس ایسے گزرے کہ کوئی لمحہ ایسا نہ تھا کہ ان کے ہاں کوئی نبی موجود نہ ہو۔ انہیں تین کتابیں دی گئیں۔ لیکن یہ اپنی بدعملی کے باعث قعر مذلتّ میں جا گری۔ عقائد میں ملاوٹ ‘ اللہ اور اس کے رسول کے احکام میں میں میخ نکال کر اپنے آپ کو بچانے کے راستے نکالنے اور اعمال میں بھی ”کتاب الحِیَل“ کے ذریعے سے اپنے آپ کو ذمہ داریوں سے مبرا کرلینے کی روش کا نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس انجام بد سے بچائے۔ آمین !

۞ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 اب تک ہم نے سورة البقرۃ کے آٹھ رکوع اور ان پر مستزاد تین آیات کا مطالعہ مکمل کیا ہے۔َ سابقہ امت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ خطاب کا سلسلہ سورة البقرۃ کے دس رکوعوں پر محیط ہے۔ یہ سلسلہ پانچویں رکوع سے شروع ہوا تھا اور پندرہویں رکوع کے آغاز تک چلے گا۔ اس سلسلۂ خطاب کے بارے میں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اس میں سے پہلا رکوع دعوت پر مشتمل ہے اور وہ بہت فیصلہ کن ہے ‘ جبکہ اگلے رکوع سے اسلوب کلام تبدیل ہوگیا ہے اور تہدید اور دھمکی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا کہ پانچواں رکوع اس پورے سلسلۂ خطاب میں بمنزلۂ فاتحہ بہت اہم ہے اور جو بقیہ نو 9 رکوع ہیں ان کے آغاز و اختتام پر بریکٹ کا انداز ہے کہ دو آیتوں سے بریکٹ شروع ہوتی ہے اور انہی دو آیتوں پر بریکٹ ختم ہوتی ہے ‘ جبکہ پانچویں رکوع کے مضامین اس پورے سلسلۂ خطاب سے ضرب کھا رہے ہیں۔ ان رکوعوں میں بنی اسرائیل کے خلاف ایک مفصل فرد قرارداد جرم عائد کی گئی ہے ‘ جس کے نتیجے میں وہ اس منصب جلیلہ سے معزول کردیے گئے جس پر دو ہزار برس سے فائز تھے اور ان کی جگہ پر اب نئی امت مسلمہ یعنی امت محمد ﷺ کا اس منصب پر تقرر عمل میں آیا اور اس مسند نشینی کی تقریب Installation Ceremony کے طور پر تحویل قبلہ کا معاملہ ہوا۔ یہ ربط کلام اگر سامنے نہ رہے تو انسان قرآن مجید کی طویل سورتوں کو پڑھتے ہوئے کھو جاتا ہے کہ بات کہاں سے چلی تھی اور اب کدھر جا رہی ہے۔ ان نو رکوعوں کے مضامین میں کچھ تو تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات بیان ہوئے ہیں کہ تم نے یہ کیا ‘ تم نے یہ کیا ! لیکن ان واقعات کو بیان کرتے ہوئے بعض ایسے عظیم ابدی حقائق اور Universal Truths بیان ہوئے ہیں کہ ان کا تعلق کسی وقت سے ‘ کسی قوم سے یا کسی خاص گروہ سے نہیں ہے۔ وہ تو ایسے اصول ہیں جنہیں ہمّ سنت اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کائنات میں ایک تو قوانین طبیعیہ Physical Laws ہیں ‘ جبکہ ایک Moral Laws ہیں جو اللہ کی طرف سے اس دنیا میں کارفرما ہیں۔ سورة البقرۃ کے زیر مطالعہ نو رکوعوں میں تاریخ بنی اسرائیل کے واقعات کے بیان کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ایسی آیات آتی ہیں جو اس سلسلۂ کلام کے اندر انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان میں درحقیقت موجودہ امت مسلمہ کے لیے راہنمائی پوشیدہ ہے۔ مثال کے طور پر اس سلسلۂ خطاب کے دوران آیت 61 میں وارد شدہ یہ الفاظ یاد کیجیے : وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق وَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط ”اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے“۔ معلوم ہوا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک مسلمان امت جس پر اللہ کے بڑے فضل ہوئے ہوں ‘ اسے بڑے انعام و اکرام سے نوازا گیا ہو ‘ اور پھر وہ اپنی بےعملی یا بدعملی کے باعث اللہ تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہوجائے اور ذلتّ و مسکنت اس پر تھوپ دی جائے۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے جو ان الفاظ میں بیان ہوگئی۔ امت مسلمہ کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا آج ہم تو اس مقام پر نہیں پہنچ گئے ؟دوسرا اسی طرح کا مقام گزشتہ آیت 74 میں گزرا ہے ‘ جہاں ایک عظیم ابدی حقیقت بیان ہوئی ہے :ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً ط ”پھر تمہارے دل سخت ہوگئے اس سب کے بعد ‘ پس اب تو وہ پتھروں کی مانند ہیں ‘ بلکہ سختی میں ان سے بھی شدید تر ہیں گویا اسی امت مسلمہ کا یہ حال بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے دل اتنے سخت ہوجائیں کہ سختی میں پتھروں اور چٹانوں کو مات دے جائیں۔ حالانکہ یہ وہی امت ہے جس کے بارے میں فرمایا : وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ع ”ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا !“ البتہ یہاں ایک بات واضح رہے کہ اس قساوت قلبی میں پوری امت مبتلا نہیں ہوا کرتی ‘ بلکہ اس کیفیت میں امت کے قائدین مبتلا ہوجاتے ہیں اور امت مسلمہ کے قائدین اس کے علماء ہوتے ہیں۔ چناچہ سب سے زیادہ شدت کے ساتھ یہ خرابی ان میں درآتی ہے۔ اس لیے کہ باقی لوگ تو پیروکار ہیں ‘ ان کے پیچھے چلتے ہیں ‘ ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب کے پڑھنے والے اور اس کے جاننے والے ہیں۔ لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اللہ کی کتاب میں تحریف کر رہے ہوں اور جانتے بوجھتے حق کو پہچان کر اس کا انکار کر رہے ہوں انہیں تو پتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ! درحقیقت یہ سزا ان پر آتی ہے۔ یہ بات ان آیات میں جو آج ہم پڑھنے چلے ہیں ‘ بہت زیادہ واضح ہوجائے گی اِن شاء اللہ۔ فرمایا :آیت 75 اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ عام مسلمانوں کو یہ توقع تھی کہ یہود دین اسلام کی مخالفت نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ مشرکین مکہ تو دین توحید سے بہت دور تھے ‘ رسالت کا ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہیں تھا ‘ کوئی کتاب ان کے پاس تھی ہی نہیں۔ جبکہ یہود تو اہل کتاب تھے ‘ حاملین تورات تھے ‘ موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے تھے ‘ توحید کے علمبردار تھے اور آخرت کا بھی اقرار کرتے تھے۔ چناچہ عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ انہیں توٌ محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ ‘ کی دعوت کو جھٹ پٹ مان لینا چاہیے۔ تو مسلمانوں کے دلوں میں یہود کے بارے میں جو حسن ظن تھا ‘ یہاں اس کا پردہ چاک کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو اس کی حقیقت سے آگاہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمانو ! تمہیں بڑی طمع ہے ‘ تمہاری یہ خواہش ہے ‘ آرزو ہے ‘ تمناّ ہے ‘ تمہیں توقع ہے کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے۔وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ “ ظاہر بات ہے وہ گروہ ان کے علماء ہی کا تھا۔ عام آدمی تو اللہ کی کتاب میں تحریف نہیں کرسکتا۔اب اگلی آیت میں بڑی عجیب بات سامنے آرہی ہے۔ جس طرح مسلمانوں کے درمیان منافقین موجود تھے اسی طرح یہود میں بھی منافقین تھے۔ یہود میں سے کچھ لوگ ایسے تھے کہ جب ان پر حق منکشف ہوگیا تو اب وہ اسلام کی طرف آنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کے لیے اپنے خاندان کو ‘ گھر بار کو ‘ اپنے کاروبار کو اور اپنے قبیلے کو چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھا ‘ جبکہ قبیلوں کی سرداری ان کے علماء کے پاس تھی۔ ایسے لوگوں کے دل کچھ کچھ اہل ایمان کے قریب آ چکے تھے۔ ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے تھے تو کبھی کبھی وہ باتیں بھی بتا جاتے تھے جو انہوں نے علماء یہود سے نبی آخرالزمان ﷺ اور ان کی تعلیمات کے بارے میں سن رکھی تھیں کہ تورات ان کی گواہی دیتی ہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنے ”شیاطین“ یعنی علماء کے پاس جاتے تھے تو وہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرتے تھے کہ بیوقوفو ! یہ کیا کر رہے ہو ؟ تم انہیں یہ باتیں بتا رہے ہو تاکہ اللہ کے ہاں جا کر وہ تم پر حجت قائم کریں کہ انہیں پتا تھا اور پھر بھی انہوں نے نہیں مانا !

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 آیت 76 وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا ج وَاِذَا خَلاَ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ قَالُوْٓا اَتُحَدِّثُوْنَہُمْ بِمَا فَتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ لِیُحَآجُّوْکُمْ بِہٖ عِنْدَ رَبِّکُمْ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ ”“ تم ذرا عقل سے کام لو اور یہ حقیقتیں جو تورات کے ذریعے سے ہمیں معلوم ہیں ‘ مسلمانوں کو مت بتاؤ۔ کیا تمہیں عقل نہیں ہے کہ ایسا بیوقوفی کا کام کر رہے ہو ؟ان کے اس مکالمے پر اللہ تعالیٰ کا تبصرہ یہ ہے :

أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ

📘 آیت 77 اَوَلاَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ “ تم چاہے یہ باتیں مسلمانوں کو بتاؤ یا نہ بتاؤ ‘ اللہ کی طرف سے تو تمہارا محاسبہ ہو کر رہنا ہے۔ لہٰذا یہ بھی ان کی ناسمجھی کی دلیل ہے۔

وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ

📘 آیت 78 وَمِنْہُمْ اُمِّیُّوْنَ “ rّ ”اُمی“ کا لفظ قرآن مجید میں اصلاً تو مشرکین عرب کے لیے آتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے اندر پڑھنے لکھنے کا رواج ہی نہیں تھا۔ کوئی آسمانی کتاب بھی ان کے پاس نہیں تھی۔ لیکن یہاں یہود کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے بھی ایک طبقہ ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ جیسے آج مسلمانوں کا حال ہے کہ اکثر و بیشتر جاہل ہیں ‘ ان میں سے بعض اگرچہ پی ایچ ڈی ہوں گے ‘ لیکن انہیں قرآن کی ”ا ‘ ب ‘ ت“ نہیں آتی ‘ دین کے ”مبادی“ تک سے ناواقف ہیں۔ چناچہ آج پڑھے لکھے مسلمانوں کی بھی عظیم اکثریت ”پڑھے لکھے جاہلوں“ پر مشتمل ہے۔ جبکہ ہماری اکثریت ویسے ہی بغیر پڑھی لکھی ہے۔ تو اب انہیں دین کا کیا پتا ؟ وہ تو سارا اعتماد کریں گے علماء پر ! کوئی بریلوی ہے تو بریلوی علماء پر اعتماد کرے گا ‘ کوئی دیوبندی ہے تو دیوبندی علماء پر اعتماد کرے گا ‘ کوئی اہل حدیث ہے تو اہل حدیث علماء پر اعتماد کرے گا۔ اب امیوں کا سہارا کیا ہوتا ہے ؟ّلاَ یَعْلَمُوْنَ الْکِتٰبَ الاَّ اَمَانِیَّ “ ایسے لوگ کتاب سے تو واقف نہیں ہوتے ‘ بس اپنی کچھ خواہشات اور آرزوؤں پر تکیہ کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان خواہشات کا ذکر آگے آجائے گا۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اسرائیلی ہیں ‘ ہم اللہ کے محبوب ہیں اور اس کے بیٹوں کی مانند چہیتے ہیں ‘ ہماری تو شفاعت ہو ہی جائے گی۔ ہمیں تو جہنم میں داخل کیا بھی گیا تو تھوڑے سے عرصے کے لیے کیا جائے گا ‘ پھر ہمیں نکال لیا جائے گا۔ یہ ان کی ”اَمَانِیّ“ ہیں۔ ”اُمْنِیَّۃٌ“ کہتے ہیں بےبنیاد خواہش کو ‘ اَمَانِیّاس کی جمع ہے۔ اس کی صحیح تعبیر کے لیے انگریزی کا لفظ wishful thinkings ہے۔ یہ اپنی ان بےبنیاد خواہشات اور جھوٹی آرزوؤں کے سہارے جی رہے ہیں ‘ کتاب کا علم ان کے پاس ہے ہی نہیں۔وَاِنْ ہُمْ الاَّ یَظُنُّوْنَ “ ان کے پاس محض وہم و گمان اور ان کے اپنے من گھڑت خیالات ہیں۔

فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ

📘 آیت 79 فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْہِمْ ق۔“ ”وَیْل“ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ جہنم کا وہ طبقہ ہے جس سے خود جہنم پناہ مانگتی ‘ ہے۔ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ہٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ لِیَشْتَرُوْا بِہٖ ثَمَناً قَلِیلاً ط یعنی لوگ علماء یہود سے شرعی مسائل دریافت کرتے تو وہ اپنے پاس سے مسئلے گھڑ کر فتویٰ لکھ دیتے اور لوگوں کو باور کراتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘ یہی دین کا تقاضا ہے۔ اب اس فتویٰ نویسی میں کتنی کچھ واقعتا انہوں نے صحیح بات کہی ‘ کتنی ہٹ دھرمی سے کام لیا اور کس قدر کسی رشوت پر مبنی کوئی رائے دی ‘ اللہ ‘ کے حضور سب دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے گا۔ علامہ اقبال نے علماء سوء کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے : ؂ خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بےتوفیق !علماء یہود کا کردار اسی طرح کا تھا۔ فَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْہِمْ وَوَیْلٌ لَّہُمْ مِّمَّا یَکْسِبُوْنَ ۔“ یہ فتویٰ فروشی اور دین فروشی کا جو سارا دھندا ہے اس سے وہ اپنے لیے تباہی اور بربادی مول لے رہے ہیں ‘ اس سے ان کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ اب آگے ان کی بعض ”اَمَانِیّ“ کا تذکرہ ہے۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ

📘 آیت 8 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ یہاں ایک بات سمجھ لیجیے ! اکثر و بیشتر مفسرین نے اس تیسری قسم category کے بارے میں یہی رائے قائم کی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے ‘ اگرچہ یہاں لفظ منافق یا لفظ نفاق نہیں آیا۔ لیکن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اس کے بارے میں ایک رائے ظاہر کی ہے جو بڑی قیمتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ‘ غور کرنے والے غور کرلیں ‘ دیکھ لیں کہ وہ کس پر چسپاں ہو رہا ہے۔ اور جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو ان میں شخصیات کی کردار نگاری کا یہ جو نقشہ کھینچا جا رہا ہے یہ بالفعل دو طبقات کے اوپر راست آ رہا تھا۔ ایک طبقہ علماء یہود کا تھا۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہم بھی اللہ کو مانتے ہیں ‘ آخرت کو بھی مانتے ہیں۔ اسی لیے یہاں رسالت کا ذکر نہیں ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر سوا لاکھ نبی آئے ہیں تو ان سوا لاکھ کو تو ہم مانتے ہیں ‘ بس ایک محمد ﷺ کو ہم نے نہیں مانا اور ایک عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانا ‘ تو ہمیں بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہاں جس انداز میں تذکرہ ہو رہا ہے اس سے ان کا کردار بھی جھلک رہا ہے اور روئے سخن بھی ان کی طرف جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے دسویں جماعت کے زمانے میں دہلی میں میں نے جوتوں کی ایک دکان پر دیکھا تھا کہ ایک بہت بڑا جوتا لٹکایا ہوا تھا اور ساتھ لکھا تھا : Free to Whom it Fits. یعنی جس کے پاؤں میں یہ ٹھیک ٹھیک آجائے وہ اسے مفت لے جائے ! تو یہاں بھی ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اب یہ کردار جس کے اوپر بھی فٹ بیٹھ جائے وہ اس کا مصداق شمار ہوگا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ زیادہ تر مفسرینّ کی رائے تو یہی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہ کردار بعینہٖ یہود کے علماء پر بھی منطبق ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ مدینہ منورہ میں نفاق کا پودا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ جو پروان چڑھا ہے وہ یہودی علماء کے زیراثر پروان چڑھا ہے۔ جیسے جنگل کے اندر بڑے بڑے درخت بھی ہوتے ہیں اور ان کے نیچے جھاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ تو یہ نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ دراصل یہودی علماء کا جو بہت بڑا پودا تھا اس کے سائے میں پروان چڑھا ہے اور ان دونوں میں معنوی ربط بھی موجود ہے۔

وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 آیت 80 وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّار الاَّ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃ ً ط ”۔“ گویاصرف دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہمیں چند دن کی سزا دے دی جائے گی کہ کوئی اعتراض نہ کردے کہ ”اے اللہ ! ہمیں آگ میں پھینکا جا رہا ہے اور انہیں نہیں پھینکا جا رہا ‘ جبکہ یہ کردار میں ہم سے بھی بدتر تھے“۔ چناچہ ان کا منہ بند کرنے کے لیے شاید ہمیں چند دن کے لیے آگ میں ڈال دیا جائے ‘ پھر فوراً نکال لیا جائے گا۔ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدًا ‘ کیا تمہارا اللہ سے کوئی قول وقرار ہوگیا ہے ؟فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَہْدَہٗ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ “ حقیقت یہی ہے کہ تم اللہ کی طرف اس بات کی نسبت کر رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں ہے۔بنی اسرائیل کی فرد قرارداد جرم کے دوران گاہ بگاہ جو اہم ترین ابدی حقائق بیان ہو رہے ہیں ‘ ان میں سے ایک عظیم حقیقت اگلی آیت میں آرہی ہے۔ فرمایا :

بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 81 بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً ‘ لیکن اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے ‘ صغیرہ نہیں۔ سَیِّءَۃً کی تنکیر ”تفخیم“ کا فائدہ بھی دے رہی ہے۔ وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِٓیْءَتُہٗ “ مثلاً ایک شخص سود خوری سے باز نہیں آرہا ‘ باقی وہ نماز کا بھی پابند ہے اورّ تہجد کا بھی التزام کر رہا ہے تو اس ایک گناہ کی برائی اس کے گرد اس طرح چھا جائے گی کہ پھر اس کی یہ ساری نیکیاں ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ ہمارے مفسرین نے لکھا ہے کہ گناہ کے احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کرلیں کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو ‘ حتیٰ کہ دل سے ایمان و تصدیق رخصت ہوجائے۔ علماء کے ہاں یہ اصول مانا جاتا ہے کہ ”اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْکُفْرِ“ یعنی گناہ تو کفر کی ڈاک ہوتے ہیں۔ گناہ پر مداومت کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ دل سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ‘ لیکن اندر سے ایمان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ جس طرح کسی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اوپر لکڑی کا ایک باریک پرت veneer چھوڑ جاتی ہے۔ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 آیت 82 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اب نیک عمل کے بارے میں ہر شخص نے اپنا ایک تصور اور نظریہ بنا رکھا ہے۔ جبکہ نیک عمل سے قرآن مجید کی مراد دین کے سارے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ محض کوئی خیراتی ادارہ یا کوئی یتیم خانہ کھول دینا یا بیواؤں کی فلاح و بہبود کا انتظام کردینا اور خود سودی لین دین اور دھوکہ فریب پر مبنی کاروبار ترک نہ کرنا نیکی کا مسخ شدہ تصور ہے۔ جبکہ نیکی کا جامع تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ تمام فرائض کی بجاآوری ہو ‘ دین کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں ‘ اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد اور مجاہدہ کیا جائے اور اس کے دین کو قائم اور سربلند کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ ّ ُ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ

📘 آیت 83 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ لاَ تَعْبُدُوْنَ الاَّ اللّٰہَقف۔“ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا“ اللہ کے حق کے فوراً بعد والدین کے حق کا ذکر قرآن مجید میں چار مقامات پر آیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام یہ ہے۔وَّذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی ”وَالْمَسٰکِیْنِ “ وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْنًا“ امر بالمعروف کرتے رہو۔ نیکی کی دعوت دیتے رہو۔وَّاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ ط یہ بنی اسرائیل سے معاہدہ ہو رہا ہے۔ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ الاَّ قَلِیْلاً مِّنْکُمْ “ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔“ تمہاری یہ عادت گویا طبیعت ثانیہ ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کے علاوہ ایک اور عہد بھی لیا تھا ‘ جس کا ذکر بایں الفاظ کیا جارہا ہے :

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ

📘 آیت 84 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ “ لاَ تَسْفِکُوْنَ دِمَآءَ کُمْ “ یعنی آپس میں جنگ نہیں کرو گے ‘ باہم خون ریزی نہیں کروگے۔ تم بنی اسرائیل ایک وحدت بن کر رہو گے ‘ تم سب بھائی بھائی بن کر رہو گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے : اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ الحُجُرٰت : 10 وَلاَ تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَاَنْتُمْ تَشْہَدُوْنَ ۔“ یعنی تم نے اس قول وقرار کو پورے شعور کے ساتھ مانا تھا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کی وفات کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کو فتح کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلا شہر اریحا Jericko فتح کیا گیا۔ اس کے بعد جب سارا فلسطین فتح کرلیا تو انہوں نے ایک مرکزی حکومت قائم نہیں کی ‘ بلکہ بارہ قبیلوں نے اپنی اپنی بارہ حکومتیں بنا لیں۔ ان حکومتوں کی باہمی آویزش کے نتیجے میں ان کی آپس میں جنگیں ہوتی تھیں اور یہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے وہاں کے لوگوں کو نکال باہر کرتے تھے ‘ انہیں بھاگنے پر مجبور کردیتے تھے۔ لیکن اگر ان میں سے کچھ لوگ فرار ہو کر کسی کافر ملک میں چلے جاتے اور کفارّ انہیں غلام یا قیدی بنا لیتے اور یہ اس حالت میں ان کے سامنے لائے جاتے تو فدیہ دے کر انہیں چھڑا لیتے کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا اسرائیلی بھائی اگر کبھی اسیر ہوجائے تو اس کو فدیہ دے کر چھڑا لو۔ یہ ان کا جزوی اطاعت کا طرز عمل تھا کہ ایک حکم کو تو مانا نہیں اور دوسرے پر عمل ہو رہا ہے۔ اصل حکم تو یہ تھا کہ آپس میں خونریزی مت کرو اور اپنے بھائی بندوں کو ان کے گھروں سے مت نکالو۔ اس حکم کی تو پروا نہیں کی اور اسے توڑ دیا ‘ لیکن اس وجہ سے جو اسرائیلی غلام بن گئے یا اسیر ہوگئے اب ان کو بڑے متقیانہّ انداز میں چھڑا رہے ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے ‘ شریعت کا حکم ہے۔ یہ ہے وہ تضاد جو مسلمان امتوں کے اندر پیدا ہوجاتا ہے۔

ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

📘 آیت 85 ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِہِمْ ز تَظٰہَرُوْنَ عَلَیْہِمْ بالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ط وَاِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُہُمْ ط اب دیکھئے اس واقعہ سے جو اخلاقی سبق moral lesson دیا جا رہا ہے وہ ابدی ہے۔ اور جہاں بھی یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تاویل عام کے اعتبار سے یہ آیت اس پر منطبق ہوگی۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج ’ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِط ’ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ یہ ایک بہت بڑی آفاقی سچائی universal truth بیان کردی گئی ہے ‘ جو آج امت مسلمہ پر صد فی صد منطبق ہو رہی ہے۔ آج ہمارا طرز عمل بھی یہی ہے کہ ہم پورے دین پر چلنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم میں سے ہر گروہ نے کوئی ایک شے اپنے لیے حلال کرلی ہے۔ ملازمت پیشہ طبقہ رشوت کو اس بنیاد پر حلال سمجھے بیٹھا ہے کہ کیا کریں ‘ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ کاروباری طبقہ کے نزدیک سود حلال ہے کہ اس کے بغیر کاروبار نہیں چلتا۔ یہاں تک کہ یہ جو طوائفیں ”بازار حسن سجا کر بیٹھی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ کیا کریں ‘ ہمارا یہ دھندا ہے ‘ ہم بھی محنت کرتی ہیں ‘ مشقت کرتی ہیں۔ ان کے ہاں بھی نیکی کا ایک تصور موجود ہے۔ چناچہ محرم کے دنوں میں یہ اپنا دھندا بند کردیتی ہیں ‘ سیاہ کپڑے پہنتی ہیں اور ماتمی جلوسوں کے ساتھ بھی نکلتی ہیں۔ ان میں سے بعض مزاروں پر دھمال بھی ڈالتی ہیں۔ ان کے ہاں اس طرح کے کام نیکی شمار ہوتے ہیں اور جسم فروشی کو یہ اپنی کاروباری مجبوری سمجھتی ہیں۔ چناچہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں نیکی اور بدی کا ایک امتزاج ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ کلیّ اطاعت کا ہے ‘ جزوی اطاعت اس کے ہاں قبول نہیں کی جاتی ‘ بلکہ الٹا منہ پردے ماری جاتی ہے۔ آج امت مسلمہ عالمی سطح پر جس ذلتّ و رسوائی کا شکار ہے اس کی وجہ یہی جزوی اطاعت ہے کہ دین کے ایک حصے کو مانا جاتا ہے اور ایک حصے کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کی پاداش میں آج ہم ”ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کا مصداق بن گئے ہیں اور ذلت و مسکنت ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ باقی رہ گیا قیامت کا معاملہ تو وہاں شدید ترین عذاب کی وعید ہے۔ اپنے طرز عمل سے تو ہم اس کے مستحق ہوگئے ہیں ‘ تاہم اللہ تعالیٰ کی رحمت دست گیری فرما لے تو اس کا اختیار ہے۔آیت کے آخر میں فرمایا :وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ”اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو۔ سیٹھ صاحب ہر سال عمرہ فرما کر آ رہے ہیں ‘ لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ یہ عمرے حلال کمائی سے کیے جا رہے ہیں یا حرام سے ! وہ تو سمجھتے ہیں کہ ہم نہا دھو کر آگئے ہیں اور سال بھر جو بھی حرام کمائی کی تھی سب پاک ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوتوں سے ناواقف نہیں ہے۔ وہ تمہاری داڑھیوں سے ‘ تمہارے عماموں سے اور تمہاری عبا اور قبا سے دھوکہ نہیں کھائے گا۔ وہ تمہارے اعمال کا احتساب کر کے رہے گا۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ

📘 آیت 85 ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِہِمْ ز تَظٰہَرُوْنَ عَلَیْہِمْ بالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ط وَاِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُہُمْ ط اب دیکھئے اس واقعہ سے جو اخلاقی سبق moral lesson دیا جا رہا ہے وہ ابدی ہے۔ اور جہاں بھی یہ طرز عمل اختیار کیا جائے گا تاویل عام کے اعتبار سے یہ آیت اس پر منطبق ہوگی۔اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج ’ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلاَّ خِزْیٌ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ الآی اَشَدِّ الْعَذَابِط ’ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ یہ ایک بہت بڑی آفاقی سچائی universal truth بیان کردی گئی ہے ‘ جو آج امت مسلمہ پر صد فی صد منطبق ہو رہی ہے۔ آج ہمارا طرز عمل بھی یہی ہے کہ ہم پورے دین پر چلنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم میں سے ہر گروہ نے کوئی ایک شے اپنے لیے حلال کرلی ہے۔ ملازمت پیشہ طبقہ رشوت کو اس بنیاد پر حلال سمجھے بیٹھا ہے کہ کیا کریں ‘ اس کے بغیر گزارا نہیں ہوتا۔ کاروباری طبقہ کے نزدیک سود حلال ہے کہ اس کے بغیر کاروبار نہیں چلتا۔ یہاں تک کہ یہ جو طوائفیں ”بازار حسن سجا کر بیٹھی ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ کیا کریں ‘ ہمارا یہ دھندا ہے ‘ ہم بھی محنت کرتی ہیں ‘ مشقت کرتی ہیں۔ ان کے ہاں بھی نیکی کا ایک تصور موجود ہے۔ چناچہ محرم کے دنوں میں یہ اپنا دھندا بند کردیتی ہیں ‘ سیاہ کپڑے پہنتی ہیں اور ماتمی جلوسوں کے ساتھ بھی نکلتی ہیں۔ ان میں سے بعض مزاروں پر دھمال بھی ڈالتی ہیں۔ ان کے ہاں اس طرح کے کام نیکی شمار ہوتے ہیں اور جسم فروشی کو یہ اپنی کاروباری مجبوری سمجھتی ہیں۔ چناچہ ہمارے ہاں ہر طبقے میں نیکی اور بدی کا ایک امتزاج ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا مطالبہ کلیّ اطاعت کا ہے ‘ جزوی اطاعت اس کے ہاں قبول نہیں کی جاتی ‘ بلکہ الٹا منہ پردے ماری جاتی ہے۔ آج امت مسلمہ عالمی سطح پر جس ذلتّ و رسوائی کا شکار ہے اس کی وجہ یہی جزوی اطاعت ہے کہ دین کے ایک حصے کو مانا جاتا ہے اور ایک حصے کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کی پاداش میں آج ہم ”ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کا مصداق بن گئے ہیں اور ذلت و مسکنت ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ باقی رہ گیا قیامت کا معاملہ تو وہاں شدید ترین عذاب کی وعید ہے۔ اپنے طرز عمل سے تو ہم اس کے مستحق ہوگئے ہیں ‘ تاہم اللہ تعالیٰ کی رحمت دست گیری فرما لے تو اس کا اختیار ہے۔آیت کے آخر میں فرمایا :وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ ”اور اللہ غافل نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو۔ سیٹھ صاحب ہر سال عمرہ فرما کر آ رہے ہیں ‘ لیکن اللہ کو معلوم ہے کہ یہ عمرے حلال کمائی سے کیے جا رہے ہیں یا حرام سے ! وہ تو سمجھتے ہیں کہ ہم نہا دھو کر آگئے ہیں اور سال بھر جو بھی حرام کمائی کی تھی سب پاک ہوگئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوتوں سے ناواقف نہیں ہے۔ وہ تمہاری داڑھیوں سے ‘ تمہارے عماموں سے اور تمہاری عبا اور قبا سے دھوکہ نہیں کھائے گا۔ وہ تمہارے اعمال کا احتساب کر کے رہے گا۔

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ

📘 آیت 87 وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ یہاں لفظ الرُّسُل انبیاء کے معنی میں آیا ہے۔ نبی اور رسول میں کچھ فرق ہے ‘ اسے اختصار کے ساتھ سمجھ لیجیے۔ قرآن مجید کی اصطلاحات کے تین جوڑے ایسے ہیں کہ وہ تینوں مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوجاتے ہیں اور اپنا علیحدہ علیحدہ مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ضمن میں علماء کرام نے یہ اصول وضع کیا ہے کہ اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَاِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا یعنی جب ایک جوڑے کے دونوں لفظ اکٹھے استعمال ہوں گے تو دونوں کا مفہوم مختلف ہوگا ‘ اور جب یہ دونوں الگ الگ استعمال ہوں گے تو ایک معنی میں استعمال ہوجائیں گے۔ ان میں سے ایک جوڑا اسلام اور ایمان یا مسلم اور مؤمن کا ہے۔ عام طور پر مسلم کی جگہ مؤمن اور مؤمن کی جگہ مسلم استعمال ہوجاتا ہے ‘ لیکن سورة الحجرات میں یہ دونوں الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں تو ان کا فرق واضح ہوگیا ہے۔ فرمایا : قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا۔۔ آیت 14 بدو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ ان سے کہیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ البتہ یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کرلیا ہے۔۔ اسی طرح جہاد اور قتال کا معاملہ ہے۔ یہ دو مختلف الفاظ ہیں ‘ جن کا مفہوم جدا بھی ہے لیکن ایک دوسرے کی جگہ بھی آجاتے ہیں۔اس ضمن میں تیسرا جوڑا نبی اور رسول کا ہے۔ یہ دونوں لفظ بھی اکثر ایک دوسرے کی جگہ آجاتے ہیں ‘ لیکن ان میں فرق بھی ہے۔ ہر نبی رسول نہیں ہوتا ‘ البتہ ہر رسول لازماً نبی ہوتا ہے۔ یعنی نبی عام ہے رسول خاص ہے۔ نبی کو جب کسی خاص قوم کی طرف معینّ طور پر بھیج دیا جاتا ہے تب اس کی حیثیت رسول کی ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت انتہائی اعلیٰ مرتبہ پر فائز ایک ولی اللہ کی ہے ‘ جس پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ عام ولی اللہ میں اور نبی میں فرق یہی ہے کہ نبی پر وحی آتی ہے ‘ ولی پر وحی نہیں آتی۔ لیکن کسی نبی کو جب کسی معین قوم کی طرف مبعوث کردیا جاتا تھا تو پھر وہ رسول ہوتا تھا۔ جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام کو حکم دیا گیا : اِذْھَبَا اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی طٰہٰ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ ‘ یقیناً وہ سرکشی پر اتر آیا ہے۔ اسی طرح دوسرے رسولوں کے بارے میں آیا ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث فرمائے گئے تھے۔ مثلاً وَاِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا الاعراف : 85 اور مدین کی طرف بھیجا ہم نے ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو۔ یہ فرق ہے نبی اور رسول کا۔ محض سمجھانے کے لیے بطور مثال عرض کر رہا ہوں کہ جیسے آپ کے یہاں خصوصی تربیت یافتہ افراد پر مشتمل CSP cadre ہے ‘ ان میں سے کوئی ڈپٹی کمشنر لگا دیا جاتا ہے ‘ کسی کو جائنٹ سکریٹری کیّ ذمہ داری تفویض کی جاتی ہے ‘ تو کوئی بطور O.S.D خدمات انجام دیتا ہے ‘ لیکن اس کا کا ڈر CSP برقرار رہتا ہے۔ اسی اعتبار سے ہر نبی ہر حال میں نبی ہوتا تھا ‘ لیکن اسے رسول کی حیثیت سے ایک اضافی ذمہ داری اور اضافی مرتبہ عطا کیا جاتا تھا۔نبی اور رسول کے فرق کے ضمن میں ایک بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ نبیوں کو قتل بھی کیا گیا ہے ‘ جبکہ رسول قتل نہیں ہوسکتے۔ اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ ط المُجادلۃ : 21 لازماً غالب رہیں گے َ میں اور میرے رسول۔ چناچہ جب بھی کسی قوم نے کسی رسول علیہ السلام کی جان لینے کی کوشش کی تو اس قوم کو ہلاک کردیا گیا اور رسول علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں کو بچالیا گیا۔ لیکن یہ معاملہ نبیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نبی تھے ‘ قتل کردیے گئے ‘ جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام رسول تھے ‘ لہٰذا قتل نہیں کیے جاسکتے تھے ‘ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا ‘ جو قیامت سے قبل دوبارہ زمین پر نزول فرمائیں گے۔ محمد رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے راستے میں شہید ہونے کی شدید تمنا تھی۔ آپ ﷺ نے اپنی اس تمنا اور آرزو کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا ہے : وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوَدِدْتُ اَنْ اُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلَ 9 قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! میری بڑی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں جنگ کروں تو اس میں قتل کردیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ‘ پھر میں زندہ کیا جاؤں ‘ پھر اللہ کی راہ میں قتل کیا جاؤں ! لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی یہ خواہش پوری نہیں کی۔ اس لیے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول تھے۔ آیت زیر مطالعہ میں نوٹ کیجیے کہ اگرچہ یہاں لفظ رسول آگیا ہے لیکن یہ نبی کے معنی میں آیا ہے : وَقَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلِز اور ہم نے موسیٰ علیہ السلام کے بعد لگاتار پیغمبر بھیجے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں ‘ درمیان میں جو پیغمبر prophets ہیں یہ سب انبیاء ہیں۔ وَاٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ حسِّی معجزات جس قدر حضرت مسیح علیہ السلام کو دیے گئے ویسے اور کسی نبی کو نہیں دیے گئے۔ ان کا تذکرہ آگے چل کر سورة آل عمران میں آئے گا۔ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ ط۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی خاص تائید و نصرت حاصل تھی۔ معجزات کا ظہور کسی نبی یا رسول کی اپنی طاقت سے نہیں ہوتا ‘ اسی طرح کرامت کسی ولی اللہ کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتی ‘ یہ معاملہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کا ظہور فرشتوں کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اَفَکُلَّمَا جَآءَ ‘ کُمْ رَسُوْلٌم بِمَا لاَ تَہْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ط۔ انبیاء و رسل کے ساتھ یہود نے جو طرز عمل روا رکھا ‘ خاص طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو کچھ کیا ‘ یہاں اس پر تبصرہ ہو رہا ہے کہ جب بھی کبھی تمہارے پاس کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر آیا تو تمہاری روش یہی رہی کہ تم نے استکبار کیا اور سرکشی کی ‘ وہی استکبار اور سرکشی جس کے باعث عزازیل ابلیس بن گیا تھا۔ فَفَرِیْقًا کَذَّبْتُمْز وَفَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ۔ اللہ کے رسول چونکہ قتل نہیں ہوسکتے لہٰذا یہاں نبیوں کا قتل مراد ہے۔ مزید برآں ایک رائے یہ بھی دی گئی ہے کہ یہاں ماضی کا صیغہ قَتَلْتُمْ نہیں آیا ‘ بلکہ فعل مضارع تَقْتُلُوْنَ آیا ہے اور مضارع کے اندر فعل جاری رہنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ گویا تم ان کو قتل کرنے کی کوشش کرتے رہے ‘ بعض رسولوں کی تو جان کے درپے ہوگئے۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ

📘 آیت 88 وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط ان کے اس جواب کو آیت 75 کے ساتھ ملایئے جو ہم پڑھ آئے ہیں۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ تو اے مسلمانو ! کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے ؟ بعض مسلمانوں کی اس خواہش کے جواب میں یہود کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ہمارے دل تو غلافوں میں محفوظ ہیں ‘ تمہاری بات ہم پر اثر نہیں کرسکتی۔ اس طرح کے الفاظ آپ کو آج بھی سننے کو مل جائیں گے کہ ہمارے دل بڑے محفوظ ہیں ‘ بڑے مضبوط اور مستحکم ہیں ‘ تمہاری بات ان میں گھر کر ہی نہیں سکتی۔بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِہِمْ یہ ان کے اس قول پر تبصرہ ہے کہ ہمارے دل محفوظ ہیں اور غلافوں میں بند ہیں۔فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ

وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ

📘 آیت 89 وَلَمَّا جَآءَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ لا جو اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجود ہے یہ وضاحت قبل ازیں کی جا چکی ہے کہ قرآن کریم ایک طرف تورات اور انجیل کی تصدیق کرتا ہے اور دوسری طرف وہ تورات اور انجیل کی پیشین گوئیوں کا مصداق بن کر آیا ہے۔وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ج ان کا حال یہ تھا کہ وہ اس کی آمد سے پہلے اللہ کی آخری کتاب اور آخری نبی ﷺ کے حوالے اور واسطے سے اللہ تعالیٰ سے کافروں کے خلاف فتح و نصرت کی دعائیں کیا کرتے تھے۔ یہود کے تین قبائل بنو قینقاع ‘ بنو نضیر اور بنو قریظہ مدینہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ وہاں اوس اور خزرج کے قبائل بھی آباد تھے جو یمن سے آئے تھے اور اصل عرب قبائل تھے۔ پھر آس پاس کے قبائل بھی تھے۔ وہ سب امیینّ میں سے تھے ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب تھی ‘ نہ کوئی شریعت اور نہ وہ کسی نبوت سے آگاہ تھے۔ ان کی جب آپس میں لڑائیاں ہوتی تھیں تو یہودی چونکہ سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے بزدل تھے لہٰذا ہمیشہ مار کھاتے تھے۔ اس پر وہ کہا کرتے تھے کہ ابھی تو تم ہمیں مار لیتے ہو ‘ دبا لیتے ہو ‘ نبی آخر الزمان ﷺ کے آنے کا وقت آچکا ہے جو نئی کتاب لے کر آئیں گے۔ جب وہ آئیں گے اور ہم ان کے ساتھ ہو کر جب تم سے جنگ کریں گے تو تم ہمیں شکست نہیں دے سکو گے ‘ ہمیں فتح پر فتح حاصل ہوگی۔ وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! اس نبی آخر الزمان کا ظہور جلدی ہو تاکہ اس کے واسطے سے اور اس کے صدقے ہمیں فتح مل سکے۔ خزرج اور اوس کے قبائل نے یہود کی یہ دعائیں اور ان کی زبان سے نبی آخر الزمان ﷺ کی آمد کی پیشین گوئیاں سن رکھی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 11 نبوی کے حج کے موقع پر جب مدینہ سے جانے والے خزرج کے چھ افراد کو رسول اللہ ﷺ نے اپنی دعوت پیش کی تو انہوں نے کن انکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا کہ معلوم ہوتا ہے یہ وہی نبی ﷺ ہیں جن کا یہودی ذکر کرتے ہیں ‘ تو اس سے پہلے کہ یہود ان پر ایمان لائیں ‘ تم ایمان لے آؤ ! اس طرح وہ علم جو بالواسطہ طور پر ان تک پہنچا تھا ان کے لیے ایک عظیم سرمایہ اور ذریعۂ ‘ نجات بن گیا۔ مگر وہی یہودی جو آنے والے نبی کے انتظار میں گھڑیاں گن رہے تھے ‘ آپ ﷺ کی آمد پر اپنے تعصبّ اور تکبرّ کی وجہ سے آپ ﷺ کے سب سے بڑھ کر مخالف بن گئے۔فَلَمَّا جَآءَ ‘ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖز فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ

يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

📘 آیت 9 یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج یُخٰدِعُوْنَباب مفاعلہ ہے۔ اس باب کا خاصہ ہے کہ اس میں ایک کشمکش اور کشاکش موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے اس کا ترجمہ کیا : ”وہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔“وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ یہ بات یقینی ہے کہ اپنے آپ کو تو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ لیکن یہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ کو اور اہل ایمان کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ سورة النساء کی آیت 142 میں منافقین کے بارے میں یہی بات بڑے واضح انداز میں بایں الفاظ آئی ہے : اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ج ”یقیناً منافقین اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ حالانکہ اللہ ہی انہیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔“ وَمَا یَشْعُرُوْنَ یہ بات بہت اچھی طرح نوٹ کر لیجیے کہ منافقین کی بھی اکثریت وہ تھی جنہیں اپنے نفاق کا شعور نہیں تھا۔ وہ اپنے تئیں خود کو مسلمان سمجھتے تھے۔ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ انہوں نے خواہ مخواہ اہل مکہ کے ساتھ لڑائی مول لے لی ہے ‘ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ہمیں امن کے ساتھ رہنا چاہیے اور امن و آشتی کے ماحول میں ان سے بات کرنی چاہیے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خیر خواہ ہیں ‘ ہم بھلی بات کہہ رہے ہیں ‘ جبکہ یہ بیوقوف لوگ ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ کس سے ٹکرا رہے ہیں ! ہاتھ میں اسلحہ نہیں ہے اور لڑائی کے لیے جا رہے ہیں۔ چناچہ یہ تو بیوقوف ہیں۔ اپنے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو بڑے مخلص ہیں۔ جان لیجیے کہ منافقین میں یقیناً بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جو اسلام میں داخل ہی دھوکہ دینے کی خاطر ہوتے تھے اور ان پر پہلے دن سے یہ واضح ہوتا تھا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں ‘ ہم نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اسلام کا محض لبادہ اوڑھا ہے۔ ایسے منافقین کا ذکر سورة آل عمران کی آیت 72 میں آئے گا۔ لیکن اکثر و بیشتر منافقین دوسری طرح کے تھے ‘ جنہیں اپنے نفاق کا شعور حاصل نہیں تھا۔

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ

📘 آیت 90 بِءْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ یعنی دنیا کا حقیر سا فائدہ ‘ یہاں کی حقیر سی منفعتیں ‘ یہاں کی مسندیں اور چودھراہٹیں ان کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہیں اور وہ اپنی فلاح وسعادت اور نجات کی خاطر ان حقیر سی چیزوں کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بَغْیًا اَنْ یُّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ج یہود اس امید میں تھے کہ آخری نبی بھی اسرائیلی ہی ہوگا ‘ اس لیے کہ چودہ سو برس تک نبوت ہمارے پاس رہی ہے ‘ یہ فترۃ کا زمانہ ہے ‘ جسے چھ سو برس گزر گئے ‘ اب آخری نبی آنے والے ہیں۔ ان کو یہ گمان تھا کہ وہ بنی اسرائیل ہی میں سے ہوں گے۔ لیکن ہوا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اور یہ فضل بنی اسماعیل پر ہوگیا۔ اس ضدم ضدا کی وجہ سے یہود عناد اور سرکشی پر اتر آئے۔ اس بَغْیًا کے لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ دین میں جو اختلاف ہوتا ہے اس کا اصل سبب یہی ضدم ضدا والا رویہ ہوتا ہے ‘ جسے قرآن مجید میں بَغْیًا کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن میں کئی بار آیا ہے۔ ّ عہد حاضر میں علم نفسیات Psychology میں ایڈلر کے مکتبۂ فکر کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اس کا نقطۂ فظر یہ ہے کہ انسان کے جبلی افعال instincts اور محرکاتّ motives میں ایک نہایت طاقتور محرک غالب ہونے کی طلب Urge to dominate ہے۔ چناچہ کسی دوسرے کی بات ماننا نفس انسانی پر بہت گراں گزرتا ہے ‘ وہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے ! بَغْیًا کے معنی بھی حد سے بڑھنے اور تجاوز کرنے کے ہیں۔ دوسروں پر غالب ہونے کی خواہش میں انسان اپنی حد سے تجاوز کرجاتا ہے۔ یہی معاملہ یہود کا تھا کہ انہوں نے دوسروں پر رعب گانٹھنے کے لیے ضدام ضدا کی روش اختیار کی ‘ محض اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل کے ایک شخص محمد عربی ﷺ کو اپنے فضل سے نواز دیا۔ ّ َ فَبَآءُ ‘ وْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍط۔ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے۔وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ ۔ مُھِیْنٌ اہانت سے بنا ہے۔ ان کی اس روش کی وجہ سے ان کے لیے اہانت آمیز عذاب مقرر ہے۔ّ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 91 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَ ہٗ ق۔ چنانچہ انہوں نے پہلے انجیل کا کفر کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کو نہیں مانا ‘ اور اب انہوں نے محمد ﷺ کا کفر کیا ہے اور قرآن کو نہیں مانا۔وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ ط قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآء اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ ؟ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ اگر تم ایسے ہی حق پرست ہو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان رکھنے والے ہو تو تم ان پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ؟ تم نے زکریا علیہ السلام کو کیوں قتل کیا ؟ یحییٰ علیہ السلام کو کیوں قتل کیا ؟ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی پلاننگ کیوں کی ؟ تمہارے تو ہاتھ نبیوں کے خون سے آلودہ ہیں اور تم دعوے دار ہو ایمان کے !

۞ وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ

📘 آیت 91 وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ قَالُوْا نُؤْمِنُ بِمَآ اُنْزِلَ عَلَیْنَا وَیَکْفُرُوْنَ بِمَا وَرَآءَ ہٗ ق۔ چنانچہ انہوں نے پہلے انجیل کا کفر کیا اور حضرت مسیح علیہ السلام کو نہیں مانا ‘ اور اب انہوں نے محمد ﷺ کا کفر کیا ہے اور قرآن کو نہیں مانا۔وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَہُمْ ط قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ اَنْبِیَآء اللّٰہِ مِنْ قَبْلُ ؟ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ اگر تم ایسے ہی حق پرست ہو اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اس پر ایمان رکھنے والے ہو تو تم ان پیغمبروں کو کیوں قتل کرتے رہے ہو جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے ؟ تم نے زکریا علیہ السلام کو کیوں قتل کیا ؟ یحییٰ علیہ السلام کو کیوں قتل کیا ؟ عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کی پلاننگ کیوں کی ؟ تمہارے تو ہاتھ نبیوں کے خون سے آلودہ ہیں اور تم دعوے دار ہو ایمان کے !

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 آیت 93 وَاِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ ط خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاسْمَعُوْا ط ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کرسنو۔قَالُوْا سَمِعْنَا وَعَصَیْنَاق۔ یعنی ہم نے سن تو لیا ہے ‘ مگر مانیں گے نہیں ! قوم یہود کی یہ بھی ایک دیرینہ بیماری تھی کہ زبان کو ذرا سا مروڑ کر الفاظ کو اس طرح بدل دیتے تھے کہ بات کا مفہوم ہی یکسر بدل جائے۔ چناچہ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کے بجائے سَمِعْنَا وَعَصَیْنَا کہتے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو منافقین تھے ان کا بھی یہی وطیرہ تھا۔ ان کی جب سرزنش کی جاتی تو کہتے تھے کہ ہم نے تو کہا تھا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا آپ کی اپنی سماعت میں کوئی خلل ہوگا۔وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِہِمْ ط قُلْ بِءْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ! یہ عجیب ایمان ہے جو تمہیں ایسی بری حرکات کا حکم دیتا ہے۔ کیا ایمان کے ساتھ ایسی حرکتیں ممکن ہوتی ہیں ؟آگے پھر ایک بہت اہم آفاقی سچائی universal truth کا بیان ہو رہا ہے ‘ جس کو پڑھتے ہوئے خود ‘ دروں بینی introspection کی ضرورت ہے۔ یہود کو یہ زعم تھا کہ ہم تو اللہ کے بڑے چہیتے ہیں ‘ لاڈلے ہیں ‘ اس کے بیٹوں کی مانند ہیں ‘ ہم اولیاء اللہ ہیں ‘ ہم اس کے پسندیدہ اور چنیدہ لوگ ہیں ‘ لہٰذا آخرت کا گھر ہمارے ہی لیے ہے۔ چناچہ ان کے سامنے ایک لٹمس ٹیسٹ litmus test رکھا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ یہ ٹیسٹ میرے اور آپ کے لیے بھی ہے۔

قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 آیت 94 قُلْ اِنْ کَانَتْ لَکُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ یعنی تمہارے لیے جنت مخصوص reserve ہوچکی ہے اور تم مرتے ہی جنت میں پہنچا دیے جاؤگے۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ اگر تمہیں جنت میں داخل ہونے کا اتنا ہی یقین ہے پھر تو دنیا میں رہنا تم پر گراں ہونا چاہیے۔ یہاں تو بہت سی کلفتیں ہیں ‘ یہاں تو انسان کو بڑی مشقتّ اور شدید کو فت اٹھانی پڑجاتی ہے۔ جس شخص کو یہ یقین ہو کہ اس دنیا کے بعد آخرت کی زندگی ہے اور وہاں میرا مقام جنت میں ہے تو اسے یہ زندگی اثاثہ asset نہیں ‘ ذمہّ داری liability معلوم ہونی چاہیے۔ اسے تو دنیا قید خانہ نظر آنی چاہیے ‘ جیسے حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِرِ 10 دنیا مؤمن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔ اگر کسی شخص کا آخرت پر ایمان ہے اور اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ خلوص پر مبنی ہے نہ کہ دھوکہ بازی پر تو اس کا کم سے کم تقاضا یہ ہے کہ اسے دنیا میں زیادہ دیر تک زندہ رہنے کی آرزو تو نہ ہو۔ اس کا جائزہ ہر شخص خود لگا سکتا ہے ‘ ازروئے الفاظ قرآنی : بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ القیٰمۃ بلکہ آدمی اپنے لیے آپ دلیل ہے۔ ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ میں کہاں کھڑا ہوں۔ آپ کا دل آپ کو بتادے گا کہ آپ اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں یا آپ کا معاملہ خلوص و اخلاص پر مبنی ہے۔ اگر واقعتا خلوص اور اخلاص والا معاملہ ہے تو پھر تو یہ کیفیت ہونی چاہیے جس کا نقشہ اس حدیث نبوی ﷺ میں کھینچا گیا ہے : کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ 11 دنیا میں اس طرح رہو گویا تم اجنبی ہو یا مسافر ہو۔ پھر تو یہ دنیا باغ نہیں قید خانہ نظر آنی چاہیے ‘ جس میں انسان مجبوراً رہتا ہے۔ پھر زاویۂ نگاہ یہ ہونا چاہیے کہ اللہ نے مجھے یہاں بھیجا ہے ‘ لہٰذا ایک معینّ مدت کے لیے یہاں رہنا ہے اور جو جو ذمہ داریاں اس کی طرف عائد کی گئی ہیں وہ ادا کرنی ہیں۔ لیکن اگر یہاں رہنے کی خواہش دل میں موجود ہے تو پھر یا تو آخرت پر ایمان نہیں یا اپنا معاملہ اللہ کے ساتھ خلوص و اخلاص پر مبنی نہیں۔ یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔

وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

📘 آیت 95 وَلَنْ یَّتَمَنَّوْہُ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ ط ہر شخص کو خود معلوم ہے کہ میں نے کیا کمائی کی ہے ‘ کیا آگے بھیجی ہے۔وَاللّٰہُ عَلِیْمٌم بالظّٰلِمِیْنَ ۔

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

📘 آیت 96 وَلَتَجِدَنَّہُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰی حَیٰوۃٍ ج وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا ج۔ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ مشرکین نے اہل ایمان کے ساتھ مقابلہ کیا تو کھل کر کیا ‘ میدان میں آکر ڈٹ کر کیا ‘ اپنی جانیں اپنے باطل معبودوں کے لیے قربان کیں ‘ جبکہ یہودیوں میں یہ ہمت و جرأت قطعاً نہیں تھی کہ وہ جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں آسکیں۔ ان کے بارے میں سورة الحشر میں الفاظ وارد ہوئے ہیں : لَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعًا الاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرَآءِ جُدُرٍ ط آیت 14 یہ سب مل کر بھی تم سے جنگ نہ کرسکیں گے مگر قلعہ بند بستیوں میں یا دیواروں کی اوٹ سے۔ چناچہ یہودک بھی بھی سامنے آکر مسلمانوں کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ اس لیے کہ انہیں اپنی جانیں بہت عزیزتھیں۔یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ ج۔ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَ ط۔ اگر ان کو ان کی خواہش کے مطابق طویل زندگی دے بھی دی جائے تو یہ انہیں عذاب سے تو چھٹکارا نہیں دلا سکے گی۔ آخرت تو بالآخر آنی ہے اور انہیں ان کے کرتوتوں کی سزا مل کر رہنی ہے۔وَاللّٰہُ بَصِیْرٌم بِمَا یَعْمَلُوْنَ

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے ‘ ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت یہود کے لیے بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ آخری نبوت کا وقت قریب ہے اور یہ نبی بھی حسب سابق بنی اسرائیل میں سے مبعوث ہوگا۔ لیکن نبی آخر الزمان ﷺ کی بعثت بنی اسماعیل میں سے ہوگئی۔ یہود جس احساس برتری کا شکار تھے اس کی رو سے وہ بنی اسماعیل کو حقیر سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اُمّی لوگ ہیں ‘ اَن پڑھ ہیں ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب ہے نہ شریعت ہے اور نہ کوئی قانون اور ضابطہ ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک شخص کو کیسے چن لیا ؟ ان کا خیال تھا کہ یہ سب جبرائیل کی شرارت ہے کہ وہ وحی لے کر محمد عربی ﷺ کے پاس چلا گیا۔ لہٰذا وہ حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ یہ بات شاید آپ کو بڑی عجیب لگے کہ اہل تشیع میں سے فرقہ غرابیہ کا عقیدہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ حضرتّ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رح نے اپنے مکاتیب میں اس فرقے کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت علی رض دونوں کی ارواح ایک دوسرے کے بالکل ایسے مشابہ تھیں جیسے ایک غرابّ کو ا دوسرے غراب کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام دھوکہ کھا گئے۔ اللہ نے تو وحی بھیجی تھی حضرت علی رض کے پاس ‘ لیکن وہ لے گئے حضرت محمد ﷺ کے پاس۔ یہود کے ہاں یہ عقیدہ موجود تھا کہ اللہ نے تو جبرائیل علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس بھیجا تھا ‘ لیکن وہ محمد ﷺ کے پاس چلے گئے ‘ اور یہی مفروضہ ان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دشمنی کی بنیاد تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ 12 میری امت پر بھی وہ تمام احوال لازماً وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئے تھے ‘ جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ امت مسلمہ میں سے کسی فرقے کا اس طرح کے عقائد اپنا لینا کچھ بعید نہیں ہے۔ اس سے اس حدیث کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔آیت 97 قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ اس معاملے میں جبرائیل علیہ السلام کو تو کچھ اختیار حاصل نہیں۔ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں ‘ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے۔مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ اور اس کے ملائکہ سب ایک حیاتیاتی وحدت organic whole کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ یہ ایک جماعت ہیں ‘ ان میں کوئی اختلاف یا افتراق نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی جبرائیل علیہ السلام کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا دشمن ہے ‘ اور اگر کوئی اللہ کے سچے رسول ﷺ کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا بھی دشمن ہے اور جبرائیل علیہ السلام کا بھی دشمن ہے

مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ

📘 جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا جا چکا ہے ‘ ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت یہود کے لیے بہت بڑی آزمائش ثابت ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ آخری نبوت کا وقت قریب ہے اور یہ نبی بھی حسب سابق بنی اسرائیل میں سے مبعوث ہوگا۔ لیکن نبی آخر الزمان ﷺ کی بعثت بنی اسماعیل میں سے ہوگئی۔ یہود جس احساس برتری کا شکار تھے اس کی رو سے وہ بنی اسماعیل کو حقیر سمجھتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اُمّی لوگ ہیں ‘ اَن پڑھ ہیں ‘ ان کے پاس نہ کوئی کتاب ہے نہ شریعت ہے اور نہ کوئی قانون اور ضابطہ ہے ‘ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک شخص کو کیسے چن لیا ؟ ان کا خیال تھا کہ یہ سب جبرائیل کی شرارت ہے کہ وہ وحی لے کر محمد عربی ﷺ کے پاس چلا گیا۔ لہٰذا وہ حضرت جبرائیل کو اپنا دشمن تصور کرتے تھے اور انہیں گالیاں دیتے تھے۔ یہ بات شاید آپ کو بڑی عجیب لگے کہ اہل تشیع میں سے فرقہ غرابیہ کا عقیدہ بھی کچھ اسی طرح کا تھا۔ حضرتّ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رح نے اپنے مکاتیب میں اس فرقے کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت محمد ﷺ اور حضرت علی رض دونوں کی ارواح ایک دوسرے کے بالکل ایسے مشابہ تھیں جیسے ایک غرابّ کو ا دوسرے غراب کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام دھوکہ کھا گئے۔ اللہ نے تو وحی بھیجی تھی حضرت علی رض کے پاس ‘ لیکن وہ لے گئے حضرت محمد ﷺ کے پاس۔ یہود کے ہاں یہ عقیدہ موجود تھا کہ اللہ نے تو جبرائیل علیہ السلام کو بنی اسرائیل میں سے کسی کے پاس بھیجا تھا ‘ لیکن وہ محمد ﷺ کے پاس چلے گئے ‘ اور یہی مفروضہ ان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دشمنی کی بنیاد تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا : لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَاءِ یْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بالنَّعْلِ 12 میری امت پر بھی وہ تمام احوال لازماً وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر وارد ہوئے تھے ‘ جیسے ایک جوتا دوسرے جوتے کے مشابہ ہوتا ہے۔ چناچہ امت مسلمہ میں سے کسی فرقے کا اس طرح کے عقائد اپنا لینا کچھ بعید نہیں ہے۔ اس سے اس حدیث کی حقیقت منکشف ہوتی ہے۔آیت 97 قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ اس معاملے میں جبرائیل علیہ السلام کو تو کچھ اختیار حاصل نہیں۔ فرشتے جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے حکم سے کرتے ہیں ‘ اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرتے۔مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ اور اس کے ملائکہ سب ایک حیاتیاتی وحدت organic whole کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ یہ ایک جماعت ہیں ‘ ان میں کوئی اختلاف یا افتراق نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی جبرائیل علیہ السلام کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا دشمن ہے ‘ اور اگر کوئی اللہ کے سچے رسول ﷺ کا دشمن ہے تو وہ اللہ کا بھی دشمن ہے اور جبرائیل علیہ السلام کا بھی دشمن ہے

وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ

📘 آیت 99 وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍم بَیِّنٰتٍ ج وَمَا یَکْفُرُ بِہَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ ۔ یاد کیجیے سورة البقرۃ کے تیسرے رکوع میں یہ الفاظ آئے تھے : وَمَا یُضِلُّ بِہٖ الاَّ الْفٰسِقِیْنَ اور وہ گمراہ نہیں کرتا اس کے ذریعے سے مگر فاسقوں کو۔