slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة الحج

(Al-Hajj) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ

📘 ’’دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور حمل والی عورت اپنا حمل گرادے گی‘‘— یہ تمثیل کی زبان میں قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے۔ یعنی اس دن لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ اگر ماں کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو تو گھبراہٹ کی بنا پر وہ اپنے بچہ کو بھول جائے۔ اور اگر کوئی حاملہ عورت ہو تو شدت حول سے اس کا حمل ساقط ہوجائے۔ ہماری موجودہ دنیا میں جو بھونچال آتے ہیں وہ قیامت کے واقعہ کا ہلکا سا نمونہ ہیں۔ قیامت کا سب سے بڑا بھونچال جب آئے گا تو آدمی ہر وہ چیز بھول جائے گا جس کو اہمیت دینے کی وجہ سے وہ قیامت کے دن کو بھولا ہوا تھا۔حتیٰ کہ اپنی عزیز ترین چیز بھی اس دن اس کو یاد نہ رہے گی۔ پیغمبر کی بات علم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ دلائل سے اس کو ثابت شدہ بناتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے سے باہر کسی صداقت کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے وہ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے پیغمبر کی بات میں جھوٹی بحثیں نکالتے ہیں۔ اس قسم کی روش خدا کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کے ہم معنی ہے۔ جو لوگ اس طرح کی بحثوں کو حق کا پیغام نہ ماننے کے لیے عذر بنائیں وہ گویا شیطان کو اپنا مشیر بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ بے خوفی کی نفسیات آدمی کو اس سے محروم کردیتی ہے کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے۔ وہ نہایت آسانی سے شیطان کا معمول بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی صرف قیامت کی چنگھاڑ سے جاگے گا۔ مگر قیامت کا زلزلہ ایسے لوگوں کے ليے صرف جہنم کا دروازہ کھولنے کے ليے آتا ہے، نہ کہ ان کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے ليے۔

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

📘 ایک شخص وہ ہے جو دین کو کامل صداقت کے طورپر دریافت کرتاہے۔ دین اس کے دل ودماغ پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ وہ کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو دین کے حوالے کردیتاہے۔ اس کی نظر میں ہر دوسری چیز ثانوی بن جاتی ہے۔ یہی شخص خدا کی نظر میں سچا مومن ہے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بس اوپری جذبہ سے دین کو مانیں۔ ایسے لوگوں کی حقیقی دلچسپیاں اپنے مفادات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ البتہ سطحی تأثر کے تحت وہ اپنے آپ کو دین سے بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ ان کی یہ وابستگی صرف اس وقت تک کے ليے ہوتی ہے جب تک دین کو اختیار کرنے سے انھیں کوئی نقصان نہ ہورہا ہو۔ ان کے مفادات پر اس سے کوئی زد نہ پڑتی ہو۔ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ دین اوران کا مفاد دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے وہ فوراً ذاتی مفاد کو اختیارکر لیتے ہیں اور دین کوچھوڑ دیتے ہیں۔ یہی دوسري قسم کے لوگ ہیں، جن کو منافق کہاجاتا ہے۔ منافق انسان آخرت کو پانے میں بھی ناکام رہتا ہے اور دنیا کو پانے میں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں معاملہ میں کامیابی کے لیے ایک ہی لازمی شرط ہے، اور وہ یکسوئی ہے، اور یہی وہ قلبی صفت ہے جس سے منافق انسان ہمیشہ محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دو طرفہ رجحان کی وجہ سے نہ پوری طرح آخرت کی طرف یکسو ہوتااور نہ پوری طرح دنیا کی طرف۔اس طرح وہ دونوں میں سے کسی کی بھی لازمی قیمت نہیں دے پاتا۔ ایسے لوگ دو طرفہ محرومی کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَىٰ حَرْفٍ ۖ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ ۖ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَىٰ وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

📘 ایک شخص وہ ہے جو دین کو کامل صداقت کے طورپر دریافت کرتاہے۔ دین اس کے دل ودماغ پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ وہ کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو دین کے حوالے کردیتاہے۔ اس کی نظر میں ہر دوسری چیز ثانوی بن جاتی ہے۔ یہی شخص خدا کی نظر میں سچا مومن ہے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بس اوپری جذبہ سے دین کو مانیں۔ ایسے لوگوں کی حقیقی دلچسپیاں اپنے مفادات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ البتہ سطحی تأثر کے تحت وہ اپنے آپ کو دین سے بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ ان کی یہ وابستگی صرف اس وقت تک کے ليے ہوتی ہے جب تک دین کو اختیار کرنے سے انھیں کوئی نقصان نہ ہورہا ہو۔ ان کے مفادات پر اس سے کوئی زد نہ پڑتی ہو۔ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ دین اوران کا مفاد دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے وہ فوراً ذاتی مفاد کو اختیارکر لیتے ہیں اور دین کوچھوڑ دیتے ہیں۔ یہی دوسري قسم کے لوگ ہیں، جن کو منافق کہاجاتا ہے۔ منافق انسان آخرت کو پانے میں بھی ناکام رہتا ہے اور دنیا کو پانے میں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں معاملہ میں کامیابی کے لیے ایک ہی لازمی شرط ہے، اور وہ یکسوئی ہے، اور یہی وہ قلبی صفت ہے جس سے منافق انسان ہمیشہ محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دو طرفہ رجحان کی وجہ سے نہ پوری طرح آخرت کی طرف یکسو ہوتااور نہ پوری طرح دنیا کی طرف۔اس طرح وہ دونوں میں سے کسی کی بھی لازمی قیمت نہیں دے پاتا۔ ایسے لوگ دو طرفہ محرومی کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔

يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُ وَمَا لَا يَنْفَعُهُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الضَّلَالُ الْبَعِيدُ

📘 خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیرخدا پر بھروسہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی خدا کے سچے راستہ سے ہٹتا ہے یا اس کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی اور چیز پر بھروسہ کيے ہوئے ہوتاہے۔ یہ غیر خدا کبھی کوئی بت ہوتاہے اور کبھی بت کے سوا کوئی دوسری چیز۔ مگر اس دنیا میں ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ اس ليے آدمی جب خدا کے سوا دوسروں پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ طاقت ور کو چھوڑ کر ایسی موہوم چیز کا سہارا پکڑتا ہے جس کا بحیثیت طاقت کوئی وجودنہیں۔ اس سے زیادہ بھول کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اپنے آپ کو خدا کے ساتھ وابستہ کرنا صرف ضرورت کا تقاضا نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت کا تقاضا بھی ہے۔ وہ انسان کے اوپر خدا کا حق ہے۔ اس لیے جب آدمی خدا کو چھوڑ کر موہوم چیزوں کی طرف جاتا ہے تو اس کا نقصان فوراً اس کے لیے مقدر ہوجاتا ہے۔ اور جہاں تک اس کے نفع کا سوا ل ہے وہ تو کبھی ملنے والا نہیں۔ غیر خدا کو سہارا بنانے والے بظاہر اس کو اپنے سے اونچا سمجھتے ہیں۔ ورنہ وہ اس کو سہارا ہی نہ بنائیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ غیر خدا جس کو سہارا بنایا جائے اور وہ لوگ جو انھیں اپناسہارا بنائیں دونوں یکساں درجہ میں مجبور اور بے طاقت ہیں۔ ایسی دنیا میں جو لوگ اس کا ثبوت دیں کہ انھوں نے ماحول سے اوپر اٹھ کر سوچا۔ غیر خداؤں کے پرفریب ہجوم میں انھوں نے خداکو دریافت کیا۔ اورپھر صرف آخرت کی خاطر اپنی زندگی کو خدا کی پسند کے راستے پر ڈال دیا وہ اس دنیا کی سب سے قیمتی روحیں ہیں۔ خدا ان کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ ان کو جنت کی کامل دنیا میں بسائے گا۔ جہاں وہ ابدی طور پر عیش کرتے رہیں۔

يَدْعُو لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ ۚ لَبِئْسَ الْمَوْلَىٰ وَلَبِئْسَ الْعَشِيرُ

📘 خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیرخدا پر بھروسہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی خدا کے سچے راستہ سے ہٹتا ہے یا اس کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی اور چیز پر بھروسہ کيے ہوئے ہوتاہے۔ یہ غیر خدا کبھی کوئی بت ہوتاہے اور کبھی بت کے سوا کوئی دوسری چیز۔ مگر اس دنیا میں ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ اس ليے آدمی جب خدا کے سوا دوسروں پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ طاقت ور کو چھوڑ کر ایسی موہوم چیز کا سہارا پکڑتا ہے جس کا بحیثیت طاقت کوئی وجودنہیں۔ اس سے زیادہ بھول کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اپنے آپ کو خدا کے ساتھ وابستہ کرنا صرف ضرورت کا تقاضا نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت کا تقاضا بھی ہے۔ وہ انسان کے اوپر خدا کا حق ہے۔ اس لیے جب آدمی خدا کو چھوڑ کر موہوم چیزوں کی طرف جاتا ہے تو اس کا نقصان فوراً اس کے لیے مقدر ہوجاتا ہے۔ اور جہاں تک اس کے نفع کا سوا ل ہے وہ تو کبھی ملنے والا نہیں۔ غیر خدا کو سہارا بنانے والے بظاہر اس کو اپنے سے اونچا سمجھتے ہیں۔ ورنہ وہ اس کو سہارا ہی نہ بنائیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ غیر خدا جس کو سہارا بنایا جائے اور وہ لوگ جو انھیں اپناسہارا بنائیں دونوں یکساں درجہ میں مجبور اور بے طاقت ہیں۔ ایسی دنیا میں جو لوگ اس کا ثبوت دیں کہ انھوں نے ماحول سے اوپر اٹھ کر سوچا۔ غیر خداؤں کے پرفریب ہجوم میں انھوں نے خداکو دریافت کیا۔ اورپھر صرف آخرت کی خاطر اپنی زندگی کو خدا کی پسند کے راستے پر ڈال دیا وہ اس دنیا کی سب سے قیمتی روحیں ہیں۔ خدا ان کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ ان کو جنت کی کامل دنیا میں بسائے گا۔ جہاں وہ ابدی طور پر عیش کرتے رہیں۔

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ

📘 خدا کو چھوڑنا ہمیشہ غیرخدا پر بھروسہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جب بھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی خدا کے سچے راستہ سے ہٹتا ہے یا اس کو نظر انداز کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کے سوا کسی اور چیز پر بھروسہ کيے ہوئے ہوتاہے۔ یہ غیر خدا کبھی کوئی بت ہوتاہے اور کبھی بت کے سوا کوئی دوسری چیز۔ مگر اس دنیا میں ایک خدا کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں۔ اس ليے آدمی جب خدا کے سوا دوسروں پر بھروسہ کرتا ہے تو وہ طاقت ور کو چھوڑ کر ایسی موہوم چیز کا سہارا پکڑتا ہے جس کا بحیثیت طاقت کوئی وجودنہیں۔ اس سے زیادہ بھول کی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ مزید یہ کہ اپنے آپ کو خدا کے ساتھ وابستہ کرنا صرف ضرورت کا تقاضا نہیں ہے بلکہ وہ حقیقت کا تقاضا بھی ہے۔ وہ انسان کے اوپر خدا کا حق ہے۔ اس لیے جب آدمی خدا کو چھوڑ کر موہوم چیزوں کی طرف جاتا ہے تو اس کا نقصان فوراً اس کے لیے مقدر ہوجاتا ہے۔ اور جہاں تک اس کے نفع کا سوا ل ہے وہ تو کبھی ملنے والا نہیں۔ غیر خدا کو سہارا بنانے والے بظاہر اس کو اپنے سے اونچا سمجھتے ہیں۔ ورنہ وہ اس کو سہارا ہی نہ بنائیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ غیر خدا جس کو سہارا بنایا جائے اور وہ لوگ جو انھیں اپناسہارا بنائیں دونوں یکساں درجہ میں مجبور اور بے طاقت ہیں۔ ایسی دنیا میں جو لوگ اس کا ثبوت دیں کہ انھوں نے ماحول سے اوپر اٹھ کر سوچا۔ غیر خداؤں کے پرفریب ہجوم میں انھوں نے خداکو دریافت کیا۔ اورپھر صرف آخرت کی خاطر اپنی زندگی کو خدا کی پسند کے راستے پر ڈال دیا وہ اس دنیا کی سب سے قیمتی روحیں ہیں۔ خدا ان کی اس طرح قدر دانی کرے گا کہ ان کو جنت کی کامل دنیا میں بسائے گا۔ جہاں وہ ابدی طور پر عیش کرتے رہیں۔

مَنْ كَانَ يَظُنُّ أَنْ لَنْ يَنْصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حق کی طرف پکارا تو جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کيے ہوئے تھے وہ آپ کے دشمن ہوگئے۔ مخالفت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ ایسا معلوم ہوا گویا ناحق کے علم بردار حق کے علم برداروں کا خاتمہ کردیں گے۔ ایسے نازک حالات میں بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ اگر ہم حق پر ہیںتو خدا ہماری مدد کیوں نہیں کرتا۔ حق اور ناحق کی کش مکش میں وہ غیر جانب دار کیوں بنا ہوا ہے۔ فرمایا کہ خدا بلا شبہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے۔ مگر خدا کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ فوراً مداخلت کرے۔ وہ معاملات کے اس حد تک پہنچنے کا انتظار کرتاہے جہاں ایک فریق کا برسر حق ہونا اور دوسرے فریق کا برسر باطل ہونا پوری طرح ثابت شدہ بن جائے۔ جب یہ حد آجاتی ہے اس وقت خدا بلا تاخیر مداخلت کرکے فیصلہ کردیتاہے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس سنت پر راضی کرے۔ کیوں کہ اس کے سوا کوئی اور چیز اس زمین وآسمان کے اندر ممکن نہیں۔ اس کے سوا ہر راستہ موت کا راستہ ہے، نہ کہ زندگی کا راستہ۔

وَكَذَٰلِكَ أَنْزَلْنَاهُ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَأَنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يُرِيدُ

📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حق کی طرف پکارا تو جو لوگ ناحق کی بنیاد پر اپنی عمارت کھڑی کيے ہوئے تھے وہ آپ کے دشمن ہوگئے۔ مخالفت بڑھتی رہی۔ یہاں تک کہ ایسا معلوم ہوا گویا ناحق کے علم بردار حق کے علم برداروں کا خاتمہ کردیں گے۔ ایسے نازک حالات میں بعض مسلمانوں کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ اگر ہم حق پر ہیںتو خدا ہماری مدد کیوں نہیں کرتا۔ حق اور ناحق کی کش مکش میں وہ غیر جانب دار کیوں بنا ہوا ہے۔ فرمایا کہ خدا بلا شبہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہے۔ مگر خدا کا یہ طریقہ نہیں کہ وہ فوراً مداخلت کرے۔ وہ معاملات کے اس حد تک پہنچنے کا انتظار کرتاہے جہاں ایک فریق کا برسر حق ہونا اور دوسرے فریق کا برسر باطل ہونا پوری طرح ثابت شدہ بن جائے۔ جب یہ حد آجاتی ہے اس وقت خدا بلا تاخیر مداخلت کرکے فیصلہ کردیتاہے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی اس سنت پر راضی کرے۔ کیوں کہ اس کے سوا کوئی اور چیز اس زمین وآسمان کے اندر ممکن نہیں۔ اس کے سوا ہر راستہ موت کا راستہ ہے، نہ کہ زندگی کا راستہ۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصَارَىٰ وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

📘 اس آیت میں چھ مذہبی گروہوں کا ذکر ہے— مسلمان، یہودی، صابئی، نصاریٰ، مجوس اور مشرکین مکہ۔ یہودی حضرت موسیٰ کو ماننے والے لوگ ہیں۔ اسی طرح صابئی حضرت یحيىٰ کو ماننے والے تھے۔ نصاریٰ حضرت عیسیٰ کو، مجوس زرتشت کو اور مشرکین حضرت ابراہیم کو۔ یہ سارے لوگ ابتداء ً توحید پرست تھے۔مگر بعد کو انھوں نے اپنے دین میں بگاڑ پیدا کرلیا۔ اور اب وہ اسی بگڑے ہوئے دین پر قائم ہیں۔ مسلمانوں کاحال بھی عملاً ایسا ہوسکتا ہے۔ مسلمانوں کی کتاب اگر چہ محفوظ ہے۔ مگر امتحان کی اس دنیا میں ان کے ہاتھ اس سے بندھے ہوئے نہیں ہیں کہ وہ قرآن وسنت کی خود ساختہ تشریح کرکے اپنا ایک دین بنائیں اور اس خود ساختہ دین پر قائم ہو کر سمجھیں کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہیں۔ خدا کا اصل دین ایک ہے۔ مگر لوگوں کی اپنی تشریحات میں وہ ہمیشہ مختلف ہوجاتا ہے۔ اس لیے جب لوگ خدا کے اصل دین پر ہوں تو ان کے درمیان اتحاد فروغ پاتا ہے۔ مگر جب لوگ خود ساختہ دین پر چلنے لگیں تو ہمیشہ ان کے درمیان مذہبی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔ یہ اختلافات لامتناہی طورپر بڑھتے ہیں۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کو ہر شخص کا حال پوری طرح معلوم ہے۔ وہ قیامت میں بتادے گا کہ کون حق پر تھا اور کون ناحق پر۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ ۖ وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ۗ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ۩

📘 جس طرح انسان کے ليے خدا کا ایک قانون ہے اسی طرح بقیہ کائنات کے ليے بھی خدا کا ایک قانون ہے۔ بقیہ کائنات خدا کے قانون پر بلا اختلاف قائم ہے۔ وہ نہایت اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ خدا کے مقرر کردہ قانون کی پیروی کررہی ہے۔ یہ صرف انسان ہے جو اختلافات پیدا کرتا ہے وہ خود ساختہ تشریح نکال کرنئے نئے راستوں پر چلنے لگتا ہے۔ خدا کی نظر میں وہ لوگ بہت بڑے مجرم ہیں جو خدا کے دین میں اختلافات پیدا کرتے ہیں۔ وہ بے اختلاف کائنات میں اختلاف کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ جس دنیا میں چاروں طرف نہایت وسیع پیمانے پر ’’ایک دین‘‘ کا سبق دیا جارہا ہے وہاں وہ ’’کئی دین‘‘ وضع کرنے میں مشغول ہیں۔ خدا کی کائنات خدا کی مرضی کا عملی اعلان ہے۔جو لوگ خدا کے قائم کردہ اس عملی نمونہ کے خلاف چلتے ہیں وہ آج ہی اپنے آپ کو مستحقِ عذاب ثابت کررہے ہیں۔ قیامت اس نتیجہ کا صرف لفظی اعلان کرے گی جس کا عملی اعلان اسی آج کی دنیا میں ہر آن ہورہا ہے۔

۞ هَٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيَابٌ مِنْ نَارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُءُوسِهِمُ الْحَمِيمُ

📘 بڑی تقسیم میں تمام گروہ صرف دو ہیں۔ ایک اہل حق، اور دوسرے ان کا انکار کرنے والے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اہل حق سے جھگڑتے ہیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دلائل کا پہاڑ اپنے ساتھ ليے ہوئے ہیں۔ مگر یہ صرف ان کی غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے معنی بحثوں کو انھیں دلیل کے روپ میں دکھاتی ہے۔ وہ چوں کہ حق کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے، اس ليے وہ اس کے خلاف جھوٹے جھگڑے کھڑے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اپنے عدم اعتراف کی ایسی سخت سزا پائیں گے جس سے وہ کبھی نکل نہ سکیں۔

يَوْمَ تَرَوْنَهَا تَذْهَلُ كُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا وَتَرَى النَّاسَ سُكَارَىٰ وَمَا هُمْ بِسُكَارَىٰ وَلَٰكِنَّ عَذَابَ اللَّهِ شَدِيدٌ

📘 ’’دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور حمل والی عورت اپنا حمل گرادے گی‘‘— یہ تمثیل کی زبان میں قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے۔ یعنی اس دن لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ اگر ماں کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو تو گھبراہٹ کی بنا پر وہ اپنے بچہ کو بھول جائے۔ اور اگر کوئی حاملہ عورت ہو تو شدت حول سے اس کا حمل ساقط ہوجائے۔ ہماری موجودہ دنیا میں جو بھونچال آتے ہیں وہ قیامت کے واقعہ کا ہلکا سا نمونہ ہیں۔ قیامت کا سب سے بڑا بھونچال جب آئے گا تو آدمی ہر وہ چیز بھول جائے گا جس کو اہمیت دینے کی وجہ سے وہ قیامت کے دن کو بھولا ہوا تھا۔حتیٰ کہ اپنی عزیز ترین چیز بھی اس دن اس کو یاد نہ رہے گی۔ پیغمبر کی بات علم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ دلائل سے اس کو ثابت شدہ بناتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے سے باہر کسی صداقت کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے وہ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے پیغمبر کی بات میں جھوٹی بحثیں نکالتے ہیں۔ اس قسم کی روش خدا کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کے ہم معنی ہے۔ جو لوگ اس طرح کی بحثوں کو حق کا پیغام نہ ماننے کے لیے عذر بنائیں وہ گویا شیطان کو اپنا مشیر بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ بے خوفی کی نفسیات آدمی کو اس سے محروم کردیتی ہے کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے۔ وہ نہایت آسانی سے شیطان کا معمول بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی صرف قیامت کی چنگھاڑ سے جاگے گا۔ مگر قیامت کا زلزلہ ایسے لوگوں کے ليے صرف جہنم کا دروازہ کھولنے کے ليے آتا ہے، نہ کہ ان کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے ليے۔

يُصْهَرُ بِهِ مَا فِي بُطُونِهِمْ وَالْجُلُودُ

📘 بڑی تقسیم میں تمام گروہ صرف دو ہیں۔ ایک اہل حق، اور دوسرے ان کا انکار کرنے والے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اہل حق سے جھگڑتے ہیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دلائل کا پہاڑ اپنے ساتھ ليے ہوئے ہیں۔ مگر یہ صرف ان کی غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے معنی بحثوں کو انھیں دلیل کے روپ میں دکھاتی ہے۔ وہ چوں کہ حق کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے، اس ليے وہ اس کے خلاف جھوٹے جھگڑے کھڑے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اپنے عدم اعتراف کی ایسی سخت سزا پائیں گے جس سے وہ کبھی نکل نہ سکیں۔

وَلَهُمْ مَقَامِعُ مِنْ حَدِيدٍ

📘 بڑی تقسیم میں تمام گروہ صرف دو ہیں۔ ایک اہل حق، اور دوسرے ان کا انکار کرنے والے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اہل حق سے جھگڑتے ہیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دلائل کا پہاڑ اپنے ساتھ ليے ہوئے ہیں۔ مگر یہ صرف ان کی غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے معنی بحثوں کو انھیں دلیل کے روپ میں دکھاتی ہے۔ وہ چوں کہ حق کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے، اس ليے وہ اس کے خلاف جھوٹے جھگڑے کھڑے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اپنے عدم اعتراف کی ایسی سخت سزا پائیں گے جس سے وہ کبھی نکل نہ سکیں۔

كُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ

📘 بڑی تقسیم میں تمام گروہ صرف دو ہیں۔ ایک اہل حق، اور دوسرے ان کا انکار کرنے والے۔ جو لوگ موجودہ دنیا میں اہل حق سے جھگڑتے ہیں وہ بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دلائل کا پہاڑ اپنے ساتھ ليے ہوئے ہیں۔ مگر یہ صرف ان کی غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے معنی بحثوں کو انھیں دلیل کے روپ میں دکھاتی ہے۔ وہ چوں کہ حق کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے، اس ليے وہ اس کے خلاف جھوٹے جھگڑے کھڑے کرتے ہیں۔ ایسے لوگ آخرت میں اپنے عدم اعتراف کی ایسی سخت سزا پائیں گے جس سے وہ کبھی نکل نہ سکیں۔

إِنَّ اللَّهَ يُدْخِلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَلُؤْلُؤًا ۖ وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرٌ

📘 جس دنیا میں ہر طرف پرفریب الفاظ کا جال بچھا ہوا ہو۔ جہاں حق سے پھرے ہوئے لوگ غلبہ حاصل کيے ہوئے ہوں۔ ایسے ماحول میں ایمان کی صداقت کو پهچاننا بلا شبہ سخت مشکل کام ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ مشکل کام یہ ہے کہ ایمان کے اس راستہ پر عملاً اپنے آپ کو ڈال دیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اقوال کے پرشور ہنگاموں میں قولِ طیب کو پانے کی توفیق ملی۔ جنھوں نے راستوں کے ہجوم میں صراط حمید کو دیکھا اور اس کو پہچان لیا۔ جو لوگ دنیا میں اس عظیم لیاقت کا ثبوت دیں وہ انسانیت کے سب سے زیادہ قیمتی لوگ ہیں۔ وہ اس قابل ہیں کہ انھیں جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے۔

وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ

📘 جس دنیا میں ہر طرف پرفریب الفاظ کا جال بچھا ہوا ہو۔ جہاں حق سے پھرے ہوئے لوگ غلبہ حاصل کيے ہوئے ہوں۔ ایسے ماحول میں ایمان کی صداقت کو پهچاننا بلا شبہ سخت مشکل کام ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ مشکل کام یہ ہے کہ ایمان کے اس راستہ پر عملاً اپنے آپ کو ڈال دیا جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اقوال کے پرشور ہنگاموں میں قولِ طیب کو پانے کی توفیق ملی۔ جنھوں نے راستوں کے ہجوم میں صراط حمید کو دیکھا اور اس کو پہچان لیا۔ جو لوگ دنیا میں اس عظیم لیاقت کا ثبوت دیں وہ انسانیت کے سب سے زیادہ قیمتی لوگ ہیں۔ وہ اس قابل ہیں کہ انھیں جنت کے ابدی باغوں میں بسایا جائے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِي جَعَلْنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً الْعَاكِفُ فِيهِ وَالْبَادِ ۚ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 حق کا انکار کرنے کی ایک مثال وہ ہے جو قدیم مکہ میں پیش آئی۔ مکہ کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی پر امن تبلیغ کو بھی برداشت نہیں کیا۔ انھوںنے آپ کے اوپر پابندیاں لگائیں۔ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو یک طرفہ طورپر ظلم کا نشانہ بنایا حتی کہ انھوںنے یہ ظلم بھی کیا کہ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا۔ مکہ کے لوگوں کی یہ روش انکار پر سرکشی کا اضافہ تھی۔ جو لوگ ایسے ظالمانہ رویہ کا ثبوت دیں ان کے ليے خدا کے یہاں سخت ترین سزا ہے، خواہ وہ ماضی کے ظالم لوگ ہوں یا حال کے ظالم لوگ۔ اور خواہ ان کی سرکشی کا تعلق حضرت ابراہیم کی تعمیر کردہ مسجد سے ہو یا اس وسیع تر ’’مسجد‘‘ سے جس کو خدا نے زمین کی صورت میں اپنے تمام بندوں کے ليے بنایا ہے۔

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

📘 حضرت ابراہیم کا زمانہ چارہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ اس زمانہ میں ساری آباد نيا میں مشرکانہ مذہب چھایا ہوا تھا۔ حتی کہ شرک کے عمومی غلبہ کی وجہ سے تاریخ میں شرک کا تسلسل قائم ہوگیا۔ اب یہ نوبت آگئی کہ جو بچہ پیدا ہو وہ اپنے ماحول سے صرف شرک کا سبق لے۔ حضرت ابراہیم عراق میںپیدا ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ وہ عراق اور شام اور مصر جیسے آباد علاقوں کو چھوڑ کر حجاز کے غیر آباد علاقے میں چلے جائیں اور وہاں اپنی اولاد کو بسا دیں۔ غیر آباد علاقے میں بسانے کا مقصد یہ تھا کہ یہاں الگ تھلگ دنیا میں ایک ایسی نسل پیدا ہو جو شرک سے منقطع ہو کر پرورش پاسکے۔ حضرت ابراہیم نے اسی خدائی منصوبے کے تحت اپنی اولاد کو موجودہ مکہ میں لاکر بسا دیا جو اس وقت یکسر غیر آباد تھی۔ اسی کے ساتھ حضرت ابراہیم نے ایک مسجد (خانہ کعبہ) کی تعمیر کی تاکہ وہ اس نئی نسل کے ليے اور بالآخر ساری دنیا کے لیے ایک خدا کی عبادت کا مرکز بن سکے۔

وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ

📘 کعبہ کی تعمیر كا ابتدائی مقصد ان لوگوں کے ليے مرکز عبادت فراہم کرنا تھا، جو ’’پیدل‘‘ چل کر وہاں پہنچنے کی مسافت پر ہوں۔ مگر بالآخر اس کو سارے عالم کے ليے ایک خدا کی عبادت کا مرکز بننا تھا۔ اور یہ مقصد پوری طرح حاصل ہوا۔ یہاں پہنچ کر حاجی جو مناسک اور مراسم ادا کرتا ہے، قرآن میں اس کا مختصراً بیان ہے اور احادیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ’’تاکہ اپنے فائدوں کے لیے حاضر ہوں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دین کے فوائد جن کو وہ اعتقادی طورپر مانتے ہیں ان کو یہاں عملی طورپر دیکھیں۔ حج کے ليے آدمی جن مقامات پر حاضر ہوتا ہے ان سے دین خداوندی کی عظیم تاریخ وابستہ ہے۔ اس بنا پر وہاں جانا اور ان کو دیکھنا دلوں کو پگھلانے کا سبب بنتا ہے۔ وہاں ساری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح وہاں اسلام کی بین اقوامی وسعت کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ حج کا سالانہ اجتماع مسلمانوں کے اندر عالمی سطح پر اجتماعیت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ آدمی کو اس سفر سے بہت سے دینی اور دنیاوی تجربے حاصل ہوتے ہیں جو اس کے ليے زندگی کی تعمیرمیں مدد گار بنتے ہیں، وغیرہ۔

لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ

📘 کعبہ کی تعمیر كا ابتدائی مقصد ان لوگوں کے ليے مرکز عبادت فراہم کرنا تھا، جو ’’پیدل‘‘ چل کر وہاں پہنچنے کی مسافت پر ہوں۔ مگر بالآخر اس کو سارے عالم کے ليے ایک خدا کی عبادت کا مرکز بننا تھا۔ اور یہ مقصد پوری طرح حاصل ہوا۔ یہاں پہنچ کر حاجی جو مناسک اور مراسم ادا کرتا ہے، قرآن میں اس کا مختصراً بیان ہے اور احادیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ’’تاکہ اپنے فائدوں کے لیے حاضر ہوں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دین کے فوائد جن کو وہ اعتقادی طورپر مانتے ہیں ان کو یہاں عملی طورپر دیکھیں۔ حج کے ليے آدمی جن مقامات پر حاضر ہوتا ہے ان سے دین خداوندی کی عظیم تاریخ وابستہ ہے۔ اس بنا پر وہاں جانا اور ان کو دیکھنا دلوں کو پگھلانے کا سبب بنتا ہے۔ وہاں ساری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح وہاں اسلام کی بین اقوامی وسعت کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ حج کا سالانہ اجتماع مسلمانوں کے اندر عالمی سطح پر اجتماعیت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ آدمی کو اس سفر سے بہت سے دینی اور دنیاوی تجربے حاصل ہوتے ہیں جو اس کے ليے زندگی کی تعمیرمیں مدد گار بنتے ہیں، وغیرہ۔

ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ

📘 کعبہ کی تعمیر كا ابتدائی مقصد ان لوگوں کے ليے مرکز عبادت فراہم کرنا تھا، جو ’’پیدل‘‘ چل کر وہاں پہنچنے کی مسافت پر ہوں۔ مگر بالآخر اس کو سارے عالم کے ليے ایک خدا کی عبادت کا مرکز بننا تھا۔ اور یہ مقصد پوری طرح حاصل ہوا۔ یہاں پہنچ کر حاجی جو مناسک اور مراسم ادا کرتا ہے، قرآن میں اس کا مختصراً بیان ہے اور احادیث میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے۔ ’’تاکہ اپنے فائدوں کے لیے حاضر ہوں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ دین کے فوائد جن کو وہ اعتقادی طورپر مانتے ہیں ان کو یہاں عملی طورپر دیکھیں۔ حج کے ليے آدمی جن مقامات پر حاضر ہوتا ہے ان سے دین خداوندی کی عظیم تاریخ وابستہ ہے۔ اس بنا پر وہاں جانا اور ان کو دیکھنا دلوں کو پگھلانے کا سبب بنتا ہے۔ وہاں ساری دنیا کے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ اس طرح وہاں اسلام کی بین اقوامی وسعت کھلی آنکھوں سے نظر آتی ہے۔ حج کا سالانہ اجتماع مسلمانوں کے اندر عالمی سطح پر اجتماعیت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ آدمی کو اس سفر سے بہت سے دینی اور دنیاوی تجربے حاصل ہوتے ہیں جو اس کے ليے زندگی کی تعمیرمیں مدد گار بنتے ہیں، وغیرہ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَرِيدٍ

📘 ’’دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور حمل والی عورت اپنا حمل گرادے گی‘‘— یہ تمثیل کی زبان میں قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے۔ یعنی اس دن لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ اگر ماں کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو تو گھبراہٹ کی بنا پر وہ اپنے بچہ کو بھول جائے۔ اور اگر کوئی حاملہ عورت ہو تو شدت حول سے اس کا حمل ساقط ہوجائے۔ ہماری موجودہ دنیا میں جو بھونچال آتے ہیں وہ قیامت کے واقعہ کا ہلکا سا نمونہ ہیں۔ قیامت کا سب سے بڑا بھونچال جب آئے گا تو آدمی ہر وہ چیز بھول جائے گا جس کو اہمیت دینے کی وجہ سے وہ قیامت کے دن کو بھولا ہوا تھا۔حتیٰ کہ اپنی عزیز ترین چیز بھی اس دن اس کو یاد نہ رہے گی۔ پیغمبر کی بات علم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ دلائل سے اس کو ثابت شدہ بناتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے سے باہر کسی صداقت کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے وہ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے پیغمبر کی بات میں جھوٹی بحثیں نکالتے ہیں۔ اس قسم کی روش خدا کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کے ہم معنی ہے۔ جو لوگ اس طرح کی بحثوں کو حق کا پیغام نہ ماننے کے لیے عذر بنائیں وہ گویا شیطان کو اپنا مشیر بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ بے خوفی کی نفسیات آدمی کو اس سے محروم کردیتی ہے کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے۔ وہ نہایت آسانی سے شیطان کا معمول بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی صرف قیامت کی چنگھاڑ سے جاگے گا۔ مگر قیامت کا زلزلہ ایسے لوگوں کے ليے صرف جہنم کا دروازہ کھولنے کے ليے آتا ہے، نہ کہ ان کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے ليے۔

ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ ۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ ۖ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ

📘 حلال کیا ہے اور حرام کیا ہے، کیا چیز مقدس ہے اور کیا چیز غیر مقدس، عبادت کے کون سے طریقے درست ہیں اور کون سے طریقے درست نہیں۔ یہ سب باتیں خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے واضح طورپر بتادی ہیں۔ ان میں کسی قسم کا تغیر وتبدل جائز نہیں۔ ہر تبدیلی جو بطور خود ان چیزوں میں کی جائے وہ اللہ کے نزدیک جھوٹ ہے، بلکہ وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ انسان کے لیے لازم ہے کہ ان چیزوں میں بالکل لفظی طورپر پیغمبرانہ تعلیمات کی پیروی کرے۔ وہ کسی حال میںان میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ یہ امور وہ ہیں جن کی حقیقت صرف خدا کو معلوم ہے۔ آدمی جب ان میں اپنی طرف سے کوئی بات کہتا ہے تو وہ ایسی چیز کے بارے میں اپنی واقفیت کا دعویٰ کرتا ہے جس کی اسے کوئی واقفیت نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ جھوٹ ہے، بلکہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں۔

حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ

📘 اس کائنات میں مرکزی قوت صرف ایک ہے۔ اور وہ خدائے واحد کی ذات ہے۔ جو شخص اپنے آپ کوخدا سے جوڑے اس نے اپنے ليے حقیقی ٹھکانا پالیا۔ وہ مضبوط زمین پر کھڑا ہوگیا۔ اس کے برعکس، جو شخص اپنے آپ کو خدا سے نہ جوڑے یا ایسا ہو کہ وہ زبان سے خدا کا اقرار کرے مگر اپنا دلی تعلق کسی اور سے وابستہ رکھے۔ وہ گویا اس مرکز سے کٹا ہوا ہے جس کے سوا اس کائنات میں دوسرا کوئی مرکز نہیں۔ ایسے شخص کا حال اس انسان جیسا ہوگا جس کی ایک مثال اوپر کی آیت میں بتائی گئی ہے۔

ذَٰلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ

📘 شعیرہ (جمع شعائر) کے معنی علامت (symbol) کے ہیں۔اسلام کی جو عبادات ہیں، ان کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک اندرونی پہلو۔ اندرونی پہلو عبادت کا اصل ہے۔ اور جو ظاہری پہلو ہے وہ اسی اندرونی پہلو کی علامت، یا شعیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو شعائر مقرر کيے ہیں، ان کا حق اس طرح ادا نہیں ہوسکتا کہ ظاہری طورپر ان کی تعظیم کرلی جائے۔ ان کا حق ادا کرنے کے ليے دل کا تقویٰ مطلوب ہے۔ ہدی ونیاز کے جانور شعائر اللہ میں سے ہیں۔ وہ ایک حقیقت کی علامت ہیں، نہ کہ وہ بذات خود حقیقت ہے۔ ان جانور کو رنگنا یا اس کا اہتمام کرنا کہ ان پر سواری نہ کی جائے، ان سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھایا جائے، یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن سے اللہ خوش ہوتاہو۔ اللہ کی خوشنودی اس میں ہے کہ جو کچھ کیا جائے اللہ کے لیے کیا جائے۔ اللہ کے یہاں قلبی حالت کی قدر ہے، نہ کہ محض ظاہری حالت کی۔

لَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ

📘 شعیرہ (جمع شعائر) کے معنی علامت (symbol) کے ہیں۔اسلام کی جو عبادات ہیں، ان کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک اندرونی پہلو۔ اندرونی پہلو عبادت کا اصل ہے۔ اور جو ظاہری پہلو ہے وہ اسی اندرونی پہلو کی علامت، یا شعیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو شعائر مقرر کيے ہیں، ان کا حق اس طرح ادا نہیں ہوسکتا کہ ظاہری طورپر ان کی تعظیم کرلی جائے۔ ان کا حق ادا کرنے کے ليے دل کا تقویٰ مطلوب ہے۔ ہدی ونیاز کے جانور شعائر اللہ میں سے ہیں۔ وہ ایک حقیقت کی علامت ہیں، نہ کہ وہ بذات خود حقیقت ہے۔ ان جانور کو رنگنا یا اس کا اہتمام کرنا کہ ان پر سواری نہ کی جائے، ان سے کسی قسم کا فائدہ نہ اٹھایا جائے، یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جن سے اللہ خوش ہوتاہو۔ اللہ کی خوشنودی اس میں ہے کہ جو کچھ کیا جائے اللہ کے لیے کیا جائے۔ اللہ کے یہاں قلبی حالت کی قدر ہے، نہ کہ محض ظاہری حالت کی۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ۗ وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِينَ

📘 انسان اس دنیا میں جو بھی پیداوار حاصل کرتا ہے، خواہ وہ زرعی پیدا وار ہو یا حیوانی پیداوار یا صنعتی پیداوار، ان کے بارے میں اس کے اندر دو قسم کی ممکن نفسیات پیدا ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ یہ میری اپنی کمائی ہے یا یہ کہ وہ معبودوں کی برکت کا نتیجہ ہے۔ یہ نفسیات سراسر مشرکانہ نفسیات ہے۔ دوسری نفسیات یہ ہے کہ آدمی جو کچھ حاصل کرے اس کو وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھے۔ عُشر اور زکوٰۃ اور قربانی اسی دوسرے جذبے کے خارجی اظہار کے مقرره طریقے ہیں۔ آدمی اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کی راہ میں نذر کرتا ہے اور اس طرح وہ اس بات کا عملی اقرار کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کا عطیہ ہے، نہ کہ محض اس کا اپنا کسب۔ انسان کو اگر صحیح معنوں میں خدا کی معرفت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کے دل کا جو حال ہوگا وہ وہی ہوگا جس کو یہاں اِخبات کہاگیا ہے۔ ایسا آدمی ہمہ تن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اس پر عجز کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اللہ کے تصور سے اس کا دل دہل ا ٹھے گا۔ وہ اپنی ہر چیز کوخدا کی چیز سمجھنے لگے گا، نہ کہ اپنی ذاتی چیز۔

الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَالصَّابِرِينَ عَلَىٰ مَا أَصَابَهُمْ وَالْمُقِيمِي الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ

📘 انسان اس دنیا میں جو بھی پیداوار حاصل کرتا ہے، خواہ وہ زرعی پیدا وار ہو یا حیوانی پیداوار یا صنعتی پیداوار، ان کے بارے میں اس کے اندر دو قسم کی ممکن نفسیات پیدا ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ یہ میری اپنی کمائی ہے یا یہ کہ وہ معبودوں کی برکت کا نتیجہ ہے۔ یہ نفسیات سراسر مشرکانہ نفسیات ہے۔ دوسری نفسیات یہ ہے کہ آدمی جو کچھ حاصل کرے اس کو وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھے۔ عُشر اور زکوٰۃ اور قربانی اسی دوسرے جذبے کے خارجی اظہار کے مقرره طریقے ہیں۔ آدمی اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کی راہ میں نذر کرتا ہے اور اس طرح وہ اس بات کا عملی اقرار کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا کا عطیہ ہے، نہ کہ محض اس کا اپنا کسب۔ انسان کو اگر صحیح معنوں میں خدا کی معرفت حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کے دل کا جو حال ہوگا وہ وہی ہوگا جس کو یہاں اِخبات کہاگیا ہے۔ ایسا آدمی ہمہ تن خدا کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اس پر عجز کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اللہ کے تصور سے اس کا دل دہل ا ٹھے گا۔ وہ اپنی ہر چیز کوخدا کی چیز سمجھنے لگے گا، نہ کہ اپنی ذاتی چیز۔

وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 دنیا میںاگر اونٹ اور دوسرے مویشی نہ ہوتے، صرف شیر اور ریچھ اور بھیڑيے ہوتے تو ان سے خدمت لینا انسان کے ليے بہت مشکل ہوتا۔ اور ان کو عمومی پیمانہ پر قربان کرنا تو بالکل ناممکن ہوجاتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے صرف وحشی اور درندہ جانور نہیں پیدا كيے۔ بلکہ کچھ ایسے جانور بھی پیدا کيے جن میں فطری طورپریہ مزاج موجود ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان کے قابو میں دے دیتے ہیں۔ اور جب انسان ان کو غذا یا قربانی کے ليے ذبح کرتا ہے تو اس وقت ان کی تسخیری فطرت اپنی آخری حد پر پہنچ جاتی ہے۔ قربانی کا طریقہ اس ليے مقرر نہیں کیا گیا ہے کہ خدا کو گوشت اور خون کی ضرورت ہے۔ قربانی تو صرف ایک علامتی فعل ہے۔ جانور کی قربانی اس انسان کی ایک ظاہری تصویر ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے ليے ذبح کرچکا ہے۔ یہ دراصل خود اپنا ذبیحہ ہے جو جانور کے ذبیحہ کی صورت میں ممثل ہوتاہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لیے جانور کی قربانی خود اپنی قربانی کے ہم معنی بن جائے۔

لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنْكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ ۗ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِينَ

📘 دنیا میںاگر اونٹ اور دوسرے مویشی نہ ہوتے، صرف شیر اور ریچھ اور بھیڑيے ہوتے تو ان سے خدمت لینا انسان کے ليے بہت مشکل ہوتا۔ اور ان کو عمومی پیمانہ پر قربان کرنا تو بالکل ناممکن ہوجاتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے صرف وحشی اور درندہ جانور نہیں پیدا كيے۔ بلکہ کچھ ایسے جانور بھی پیدا کيے جن میں فطری طورپریہ مزاج موجود ہے کہ وہ اپنے آپ کو انسان کے قابو میں دے دیتے ہیں۔ اور جب انسان ان کو غذا یا قربانی کے ليے ذبح کرتا ہے تو اس وقت ان کی تسخیری فطرت اپنی آخری حد پر پہنچ جاتی ہے۔ قربانی کا طریقہ اس ليے مقرر نہیں کیا گیا ہے کہ خدا کو گوشت اور خون کی ضرورت ہے۔ قربانی تو صرف ایک علامتی فعل ہے۔ جانور کی قربانی اس انسان کی ایک ظاہری تصویر ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے ليے ذبح کرچکا ہے۔ یہ دراصل خود اپنا ذبیحہ ہے جو جانور کے ذبیحہ کی صورت میں ممثل ہوتاہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے لیے جانور کی قربانی خود اپنی قربانی کے ہم معنی بن جائے۔

۞ إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ

📘 اللہ کا کوئی بندہ یا کوئی گروہ اپنے آپ کو اللہ کے راستے پر ڈالے تو وہ اس دنیا میں تنہا نہیں ہوتا۔ غافل اور سرکش لوگ جب اس کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں تو خدا ظالموں کے مقابلہ میں ان کی جانب کھڑاہوجاتا ہے۔ خدا ابتداء ً اپنا نام لینے والوں کے اخلاص کا امتحان لیتاہے۔ مگر جو لوگ امتحان میں پڑ کر اپنا مخلص ہونا ثابت کردیں خدا ضرور ان کی مدد پر آجاتاہے۔ اور ان کے ليے ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے حق پر کار بند رہ سکیں۔ اہل ایمان کا اصل اقدام صرف دعوت ہے۔ وہ دعوت سے آغاز کرتے ہیں اور برابر دعوت ہی پر قائم رہتے ہیں۔ وہ بوقت ضرورت کبھی جنگ بھی کرتے ہیں مگر ان کی جنگ ہمیشہ دفاع کے ليے ہوتی ہے، نہ کہ جارحیت کے ليے۔ ایک گروہ اگر زیادہ مدت تک اقتدار پر رہے تو اس کے اندر سرکشی اور گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ليے خدا نے اس دنیا میں ’’دفع‘‘ کا قانون مقرر کیا ہے۔ وہ بار بار ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کواقتدار کے مقام سے ہٹاتا ہے۔ اس طرح تاریخ میں سیاسی توازن قائم رہتا ہے۔ اگر خدا ایسا نہ کرے تو لوگوں کی سرکشی یہاں تک بڑھ جائے کہ عبادت خانے جیسے مقدس ادارے بھی ان کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہیں۔ اس دفع کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی گروہ کے اقتدار کو سرے سے ختم کردیا جائے۔ اس کی ایک مثال موجودہ زمانہ میں برطانیہ عظمیٰ کی ہے جس کو وطنی آزادی کی تحریکوں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جس کی مثال روس اور امریکا کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یعنی ایک کے ذریعے دوسرے پر روک لگانا۔ اور اس طرح بین اقوامی سیاست میں توازن قائم رکھنا۔

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ

📘 اللہ کا کوئی بندہ یا کوئی گروہ اپنے آپ کو اللہ کے راستے پر ڈالے تو وہ اس دنیا میں تنہا نہیں ہوتا۔ غافل اور سرکش لوگ جب اس کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں تو خدا ظالموں کے مقابلہ میں ان کی جانب کھڑاہوجاتا ہے۔ خدا ابتداء ً اپنا نام لینے والوں کے اخلاص کا امتحان لیتاہے۔ مگر جو لوگ امتحان میں پڑ کر اپنا مخلص ہونا ثابت کردیں خدا ضرور ان کی مدد پر آجاتاہے۔ اور ان کے ليے ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے حق پر کار بند رہ سکیں۔ اہل ایمان کا اصل اقدام صرف دعوت ہے۔ وہ دعوت سے آغاز کرتے ہیں اور برابر دعوت ہی پر قائم رہتے ہیں۔ وہ بوقت ضرورت کبھی جنگ بھی کرتے ہیں مگر ان کی جنگ ہمیشہ دفاع کے ليے ہوتی ہے، نہ کہ جارحیت کے ليے۔ ایک گروہ اگر زیادہ مدت تک اقتدار پر رہے تو اس کے اندر سرکشی اور گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ليے خدا نے اس دنیا میں ’’دفع‘‘ کا قانون مقرر کیا ہے۔ وہ بار بار ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کواقتدار کے مقام سے ہٹاتا ہے۔ اس طرح تاریخ میں سیاسی توازن قائم رہتا ہے۔ اگر خدا ایسا نہ کرے تو لوگوں کی سرکشی یہاں تک بڑھ جائے کہ عبادت خانے جیسے مقدس ادارے بھی ان کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہیں۔ اس دفع کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی گروہ کے اقتدار کو سرے سے ختم کردیا جائے۔ اس کی ایک مثال موجودہ زمانہ میں برطانیہ عظمیٰ کی ہے جس کو وطنی آزادی کی تحریکوں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جس کی مثال روس اور امریکا کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یعنی ایک کے ذریعے دوسرے پر روک لگانا۔ اور اس طرح بین اقوامی سیاست میں توازن قائم رکھنا۔

كُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَىٰ عَذَابِ السَّعِيرِ

📘 ’’دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچہ کو بھول جائے گی اور حمل والی عورت اپنا حمل گرادے گی‘‘— یہ تمثیل کی زبان میں قیامت کی ہولناکی کا بیان ہے۔ یعنی اس دن لوگوں کا یہ حال ہوگا کہ اگر ماں کی گود میں دودھ پینے والا بچہ ہو تو گھبراہٹ کی بنا پر وہ اپنے بچہ کو بھول جائے۔ اور اگر کوئی حاملہ عورت ہو تو شدت حول سے اس کا حمل ساقط ہوجائے۔ ہماری موجودہ دنیا میں جو بھونچال آتے ہیں وہ قیامت کے واقعہ کا ہلکا سا نمونہ ہیں۔ قیامت کا سب سے بڑا بھونچال جب آئے گا تو آدمی ہر وہ چیز بھول جائے گا جس کو اہمیت دینے کی وجہ سے وہ قیامت کے دن کو بھولا ہوا تھا۔حتیٰ کہ اپنی عزیز ترین چیز بھی اس دن اس کو یاد نہ رہے گی۔ پیغمبر کی بات علم کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ وہ دلائل سے اس کو ثابت شدہ بناتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے سے باہر کسی صداقت کا اعتراف کرنا نہیں چاہتے وہ اپنے کو برسر حق ظاہر کرنے کے ليے پیغمبر کی بات میں جھوٹی بحثیں نکالتے ہیں۔ اس قسم کی روش خدا کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کے ہم معنی ہے۔ جو لوگ اس طرح کی بحثوں کو حق کا پیغام نہ ماننے کے لیے عذر بنائیں وہ گویا شیطان کو اپنا مشیر بنائے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ وہ خدا کے خوف سے خالی ہیں۔ بے خوفی کی نفسیات آدمی کو اس سے محروم کردیتی ہے کہ وہ حق کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے۔ وہ نہایت آسانی سے شیطان کا معمول بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی صرف قیامت کی چنگھاڑ سے جاگے گا۔ مگر قیامت کا زلزلہ ایسے لوگوں کے ليے صرف جہنم کا دروازہ کھولنے کے ليے آتا ہے، نہ کہ ان کو ہدایت کا راستہ دکھانے کے ليے۔

الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

📘 اللہ کا کوئی بندہ یا کوئی گروہ اپنے آپ کو اللہ کے راستے پر ڈالے تو وہ اس دنیا میں تنہا نہیں ہوتا۔ غافل اور سرکش لوگ جب اس کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں تو خدا ظالموں کے مقابلہ میں ان کی جانب کھڑاہوجاتا ہے۔ خدا ابتداء ً اپنا نام لینے والوں کے اخلاص کا امتحان لیتاہے۔ مگر جو لوگ امتحان میں پڑ کر اپنا مخلص ہونا ثابت کردیں خدا ضرور ان کی مدد پر آجاتاہے۔ اور ان کے ليے ایسے حالات پیدا کرتا ہے کہ وہ تمام رکاوٹوں پر قابو پاتے ہوئے حق پر کار بند رہ سکیں۔ اہل ایمان کا اصل اقدام صرف دعوت ہے۔ وہ دعوت سے آغاز کرتے ہیں اور برابر دعوت ہی پر قائم رہتے ہیں۔ وہ بوقت ضرورت کبھی جنگ بھی کرتے ہیں مگر ان کی جنگ ہمیشہ دفاع کے ليے ہوتی ہے، نہ کہ جارحیت کے ليے۔ ایک گروہ اگر زیادہ مدت تک اقتدار پر رہے تو اس کے اندر سرکشی اور گھمنڈ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس ليے خدا نے اس دنیا میں ’’دفع‘‘ کا قانون مقرر کیا ہے۔ وہ بار بار ایک گروہ کے ذریعے دوسرے گروہ کواقتدار کے مقام سے ہٹاتا ہے۔ اس طرح تاریخ میں سیاسی توازن قائم رہتا ہے۔ اگر خدا ایسا نہ کرے تو لوگوں کی سرکشی یہاں تک بڑھ جائے کہ عبادت خانے جیسے مقدس ادارے بھی ان کی دست بُرد سے محفوظ نہ رہیں۔ اس دفع کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی گروہ کے اقتدار کو سرے سے ختم کردیا جائے۔ اس کی ایک مثال موجودہ زمانہ میں برطانیہ عظمیٰ کی ہے جس کو وطنی آزادی کی تحریکوں کے ذریعے ختم کیا گیا۔ دوسرا طریقہ وہ ہے جس کی مثال روس اور امریکا کی شکل میں نظر آتا ہے۔ یعنی ایک کے ذریعے دوسرے پر روک لگانا۔ اور اس طرح بین اقوامی سیاست میں توازن قائم رکھنا۔

الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ

📘 خدا کی مدد کا مستحق بننے کی شرط خاص یہ ہے کہ آدمی ایسا ہو کہ اس کو اقتدار ملے پھر بھی وہ نہ بگڑے۔ اس کو بڑائی کا مقام ملنا اس کے عجز وتواضع کو بڑھانے والا بن جائے۔ جو لوگ اقتدار سے پہلے کے حالات میں اس طرح صالح ثابت ہوں وہی اقتدار کے بعد کے حالات میں صالح ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ جب انھیں کوئی اقتدار دیا جاتا ہے تو وہ خدا کے آگے جھک جاتے ہیں۔ وہ بندوں کا پورا پورا حق ادا کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے معاملات میں وہی کرتے ہیں جس کو خدا پسند کرتا ہے۔ اور اس سے دور رہتے ہیں جو خدا کو پسند نہیں۔

وَإِنْ يُكَذِّبُوكَ فَقَدْ كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَثَمُودُ

📘 ’’ابراہیم اور موسیٰ کو جھٹلانے والے لوگوں‘‘ سے مرادحضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ لوگ ہیں، نہ کہ وہ لوگ جو اس آیت کے اترنے کےوقت موجود تھے۔ کیوں کہ قرآن کے اترنے کے زمانہ میں توتمام لوگ ان پیغمبروں کو ماننے والے بنے ہوئے تھے۔ یہی معاملہ ہر پیغمبر کے ساتھ پیش آیا۔ ان کے زمانے کے لوگوں نے ان کو جھٹلایا۔ اور بعد کے لوگوںنے ان کو عظمت و تقدس کا مقام دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے زمانہ میں مجرد ایک داعی ہوتا ہے۔ مگر بعد کے زمانے میں اس کے نام کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوجاتی ہے۔ ہر دور کے انسانوں نے یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ پیغمبر کو مجرد داعی کے روپ میںپہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ پیغمبر کو صرف عظمتوں کے روپ میں پہچاننا جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ہی کا داعیانہ روپ تھے۔ مگر آپ کے زمانہ کے وہی لوگ جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ سے وابستگی پر فخر کرتے تھے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر کو ماننے والے حقیقۃً کون لوگ ہیں۔ پیغمبر کو ماننے والے دراصل وہ لوگ ہیں جو ’’دعوت‘‘ والے پیغمبر کو پہچانیں۔ جو لوگ صرف ’’عظمت‘‘ والے پیغمبر کو پہچانیں وہ تاریخ کے مومن ہیں،نہ کہ حقیقۃً پیغمبر کے مومن۔

وَقَوْمُ إِبْرَاهِيمَ وَقَوْمُ لُوطٍ

📘 ’’ابراہیم اور موسیٰ کو جھٹلانے والے لوگوں‘‘ سے مرادحضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ لوگ ہیں، نہ کہ وہ لوگ جو اس آیت کے اترنے کےوقت موجود تھے۔ کیوں کہ قرآن کے اترنے کے زمانہ میں توتمام لوگ ان پیغمبروں کو ماننے والے بنے ہوئے تھے۔ یہی معاملہ ہر پیغمبر کے ساتھ پیش آیا۔ ان کے زمانے کے لوگوں نے ان کو جھٹلایا۔ اور بعد کے لوگوںنے ان کو عظمت و تقدس کا مقام دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے زمانہ میں مجرد ایک داعی ہوتا ہے۔ مگر بعد کے زمانے میں اس کے نام کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوجاتی ہے۔ ہر دور کے انسانوں نے یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ پیغمبر کو مجرد داعی کے روپ میںپہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ پیغمبر کو صرف عظمتوں کے روپ میں پہچاننا جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ہی کا داعیانہ روپ تھے۔ مگر آپ کے زمانہ کے وہی لوگ جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ سے وابستگی پر فخر کرتے تھے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر کو ماننے والے حقیقۃً کون لوگ ہیں۔ پیغمبر کو ماننے والے دراصل وہ لوگ ہیں جو ’’دعوت‘‘ والے پیغمبر کو پہچانیں۔ جو لوگ صرف ’’عظمت‘‘ والے پیغمبر کو پہچانیں وہ تاریخ کے مومن ہیں،نہ کہ حقیقۃً پیغمبر کے مومن۔

وَأَصْحَابُ مَدْيَنَ ۖ وَكُذِّبَ مُوسَىٰ فَأَمْلَيْتُ لِلْكَافِرِينَ ثُمَّ أَخَذْتُهُمْ ۖ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ

📘 ’’ابراہیم اور موسیٰ کو جھٹلانے والے لوگوں‘‘ سے مرادحضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ لوگ ہیں، نہ کہ وہ لوگ جو اس آیت کے اترنے کےوقت موجود تھے۔ کیوں کہ قرآن کے اترنے کے زمانہ میں توتمام لوگ ان پیغمبروں کو ماننے والے بنے ہوئے تھے۔ یہی معاملہ ہر پیغمبر کے ساتھ پیش آیا۔ ان کے زمانے کے لوگوں نے ان کو جھٹلایا۔ اور بعد کے لوگوںنے ان کو عظمت و تقدس کا مقام دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر اپنے زمانہ میں مجرد ایک داعی ہوتا ہے۔ مگر بعد کے زمانے میں اس کے نام کے ساتھ عظمتوں کی تاریخ وابستہ ہوجاتی ہے۔ ہر دور کے انسانوں نے یہ ثبوت دیا ہے کہ وہ پیغمبر کو مجرد داعی کے روپ میںپہچاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ پیغمبر کو صرف عظمتوں کے روپ میں پہچاننا جانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ ہی کا داعیانہ روپ تھے۔ مگر آپ کے زمانہ کے وہی لوگ جو حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ سے وابستگی پر فخر کرتے تھے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کردیا۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر کو ماننے والے حقیقۃً کون لوگ ہیں۔ پیغمبر کو ماننے والے دراصل وہ لوگ ہیں جو ’’دعوت‘‘ والے پیغمبر کو پہچانیں۔ جو لوگ صرف ’’عظمت‘‘ والے پیغمبر کو پہچانیں وہ تاریخ کے مومن ہیں،نہ کہ حقیقۃً پیغمبر کے مومن۔

فَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَاهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا وَبِئْرٍ مُعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ

📘 خدا کے نزدیک دیکھنے والے وہ لو گ ہیں جو عبرت اور نصیحت کی نظر سے چیزوں کو دیکھیں۔ جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ واقعات کو دیکھیں مگر اس سے نصیحت نہ لے سکیں وہ خدا کی نظر میں اندھے ہیں۔ ان کا دیکھنا جانور کا دیکھنا ہے، نہ کہ انسان کا دیکھنا۔ خدا نے زمین پر نصیحت کے بے شمار سامان پھیلا دئے ہیں۔ انھیں میں سے ایک وہ قدیم یادگاریں ہیں جو پچھلی قوموں نے دنیا میں چھوڑی ہیں۔ یہ قومیں کبھی عظمت واقتدار کا مقام حاصل کيے ہوئے تھیں۔ مگر آج ان کا نشان ٹوٹے ہوئے کھنڈروں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ واقعہ ہر انسان کو اس کا انجام یاد دلا رہا ہے مگر جب لوگ دل والی آنکھ کھودیں تو سر کی آنکھ انھیں کوئی بھی بامعنی چیز نہیں دکھاتی۔

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا ۖ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

📘 خدا کے نزدیک دیکھنے والے وہ لو گ ہیں جو عبرت اور نصیحت کی نظر سے چیزوں کو دیکھیں۔ جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ وہ واقعات کو دیکھیں مگر اس سے نصیحت نہ لے سکیں وہ خدا کی نظر میں اندھے ہیں۔ ان کا دیکھنا جانور کا دیکھنا ہے، نہ کہ انسان کا دیکھنا۔ خدا نے زمین پر نصیحت کے بے شمار سامان پھیلا دئے ہیں۔ انھیں میں سے ایک وہ قدیم یادگاریں ہیں جو پچھلی قوموں نے دنیا میں چھوڑی ہیں۔ یہ قومیں کبھی عظمت واقتدار کا مقام حاصل کيے ہوئے تھیں۔ مگر آج ان کا نشان ٹوٹے ہوئے کھنڈروں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ واقعہ ہر انسان کو اس کا انجام یاد دلا رہا ہے مگر جب لوگ دل والی آنکھ کھودیں تو سر کی آنکھ انھیں کوئی بھی بامعنی چیز نہیں دکھاتی۔

وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ

📘 اس دنیا میں کوئی شخص یا قوم اگر سرکشی کرے تو خدا ضرور اس کو پکڑتا ہے۔ مگر خدا کبھی پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔ انسان ایک دن میں بے برداشت ہوسکتا ہے مگر خدا ایک ہزار سال تک بھی بے برداشت نہیں ہوتا۔ خدا نافرمانیوں کو دیکھتاہے پھر بھی لمبی مدت تک لوگوں کو موقع دیتا ہے تاکہ اگر وہ اصلاح کرنے والے ہوں تو اپنی اصلاح کرلیں۔ خدا کسی فرد یا قوم کو صرف اس وقت پکڑتاہے جب کہ وہ آخری طورپر اپنا مجرم ہونا ثابت کرچکے ہوں۔ پچھلے لوگوں کے ساتھ خدا نے یہی معاملہ کیا۔ آئندہ کے لوگوں کے ساتھ بھی خداا پنی اسی سنّت کے تحت معاملہ فرمائے گا۔

وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ

📘 اس دنیا میں کوئی شخص یا قوم اگر سرکشی کرے تو خدا ضرور اس کو پکڑتا ہے۔ مگر خدا کبھی پکڑنے میں جلدی نہیں کرتا۔ انسان ایک دن میں بے برداشت ہوسکتا ہے مگر خدا ایک ہزار سال تک بھی بے برداشت نہیں ہوتا۔ خدا نافرمانیوں کو دیکھتاہے پھر بھی لمبی مدت تک لوگوں کو موقع دیتا ہے تاکہ اگر وہ اصلاح کرنے والے ہوں تو اپنی اصلاح کرلیں۔ خدا کسی فرد یا قوم کو صرف اس وقت پکڑتاہے جب کہ وہ آخری طورپر اپنا مجرم ہونا ثابت کرچکے ہوں۔ پچھلے لوگوں کے ساتھ خدا نے یہی معاملہ کیا۔ آئندہ کے لوگوں کے ساتھ بھی خداا پنی اسی سنّت کے تحت معاملہ فرمائے گا۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا أَنَا لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ

📘 انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بالآخر ایک ایسی دنیا میں پہنچنے والا ہے جہاں مومنین اور صالحین کے ليے ابدی راحت ہے اور جو لوگ حق کو نظر انداز کریں اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ دکھائیں ان کے ليے ابدی آگ کا عذاب۔ اسلامی دعوت کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس آنے والے دن سے باخبر کردیا جائے۔ کام کی یہ نوعیت خود متعین کررہی ہے کہ داعی کا اصل کام خبردار کرنا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہے وہ صرف خدا سے متعلق ہے اور وہی اس کو انجام دے سکتا ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ مِنْ مُضْغَةٍ مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ لِنُبَيِّنَ لَكُمْ ۚ وَنُقِرُّ فِي الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ثُمَّ نُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا أَشُدَّكُمْ ۖ وَمِنْكُمْ مَنْ يُتَوَفَّىٰ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِنْ بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ وَتَرَى الْأَرْضَ هَامِدَةً فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنْبَتَتْ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ

📘 آخرت کی زندگی کے بارے میں آدمی کو اس ليے شبہ ہوتا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسان مرچکا ہوگا تو وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا ہو جائے گا۔ مردہ کائنات دوبارہ زندہ کائنات کیسے بن جائے گی۔ اس شبہ کا جواب خود ہماری موجودہ دنیا کی ساخت میں موجودہے۔ موجوده دنیا کیا ہے۔ یہ ایک حالت کا دوسری حالت میں تبدیل ہوجانا ہے۔ وہ چیز جس کو ہم زندہ وجود کہتے ہیں وہ حقیقۃً غیرزندہ وجود کا تغیر ہے۔ انسانی جسم کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ لوہا، کاربن، کیلشیم، نمکیات، پانی اور گیسوں وغیرہ سے مل کر بنا ہے۔ انسانی وجود کے یہ مرکبات سب کے سب بے جان ہیں۔ مگر یہی غیر ذی روح مادے تبدیل ہو کر ذی روح اشیاء کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اور انسان کی صورت میں چلنے لگتے ہیں۔ پھر جو انسان ایک بار غیر زندہ سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ہے وہ اگر دوبارہ غیر زندہ سے زندہ ہیئت میں تبدیل ہوجائے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اسی طرح زمین کے سبزہ کو دیکھيے۔ مٹی یا دوسری جن چیزوں سے ترکیب پاکرسبزہ بنتا ہے وہ سب کی سب ابتداء ً ان خصوصیات سے خالی ہوتی ہیں جن کے مجموعہ کا نام سبزہ ہے۔ مگر یہی غیر سبزہ تبدیل ہو کر سبزہ بن جاتا ہے۔ تبدیلی کا یہ واقعہ روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہاہے۔ پھر اسی ہونے والے واقعے کا دوسری بار ہونا مستبعد کیوں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کا وجود میں آنا خود ہی دوسری دنیا کے وجود میں آنے کا ثبوت ہے۔ ایک دنیا کا تجربہ کرنے کے بعد دوسری دنیا کو سمجھنا عقلی اور منطقی طورپر کچھ بھی مشکل نہیں۔

فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

📘 انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بالآخر ایک ایسی دنیا میں پہنچنے والا ہے جہاں مومنین اور صالحین کے ليے ابدی راحت ہے اور جو لوگ حق کو نظر انداز کریں اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ دکھائیں ان کے ليے ابدی آگ کا عذاب۔ اسلامی دعوت کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس آنے والے دن سے باخبر کردیا جائے۔ کام کی یہ نوعیت خود متعین کررہی ہے کہ داعی کا اصل کام خبردار کرنا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہے وہ صرف خدا سے متعلق ہے اور وہی اس کو انجام دے سکتا ہے۔

وَالَّذِينَ سَعَوْا فِي آيَاتِنَا مُعَاجِزِينَ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

📘 انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ بالآخر ایک ایسی دنیا میں پہنچنے والا ہے جہاں مومنین اور صالحین کے ليے ابدی راحت ہے اور جو لوگ حق کو نظر انداز کریں اور اس کے مقابلہ میں سرکشی کا رویہ دکھائیں ان کے ليے ابدی آگ کا عذاب۔ اسلامی دعوت کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو اس آنے والے دن سے باخبر کردیا جائے۔ کام کی یہ نوعیت خود متعین کررہی ہے کہ داعی کا اصل کام خبردار کرنا ہے۔ اس کے بعد جو کچھ ہے وہ صرف خدا سے متعلق ہے اور وہی اس کو انجام دے سکتا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّهُ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 حق کا داعی خواہ وہ پیغمبر ہو یا غیر پیغمبر، اس کے ساتھ ہمیشہ یہ پیش آتا ہے کہ جب وہ خدا کی سچی بات کا اعلان کرتا ہے تو معاندین اس کی بات میں طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کی صداقت کی بارے میں مشتبہ کردیں۔ اس طرح کے شوشے ہمیشہ بے بنیاد ہوتے ہیں۔ جب وہ پیش کيے جاتے ہیں تو داعی کو موقع ملتا ہے کہ وہ ان کی وضاحت کرکے اپنی بات کو اور زیادہ ثابت شدہ بنادے۔ اس سے مخلص لوگوں کے یقین میں اضافہ ہوتاہے۔ اس کے بعد خدا کے ساتھ ان کا تعلق اور زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ مگر جو لوگ مخلصانہ شعور سے خالی ہوتے ہیں، یہ شوشے ان کے ليے فتنہ بن جاتے ہیں۔ وہ ان کے فریب میں مبتلا ہو کر حق سے دور چلے جاتے ہیں۔ ’’اللہ ایمان والوں کوضرور صراط مستقیم دکھاتاہے‘‘— اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ جو لوگ فی الواقع ایمان کے معاملے میں سنجیدہ ہوں وہ کبھی جھوٹے پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ الفاظ کے طلسم سے کبھی دھوکا نہیںکھاتے۔ ان کا ایمان ان کے ليے ایسا علم بن جاتا ہے جو باتوں کو ان کی گہرائی کے ساتھ جان لے، نہ کہ محض باتوں کے ظواہر میں اٹک کر رہ جائے۔

لِيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ

📘 حق کا داعی خواہ وہ پیغمبر ہو یا غیر پیغمبر، اس کے ساتھ ہمیشہ یہ پیش آتا ہے کہ جب وہ خدا کی سچی بات کا اعلان کرتا ہے تو معاندین اس کی بات میں طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کی صداقت کی بارے میں مشتبہ کردیں۔ اس طرح کے شوشے ہمیشہ بے بنیاد ہوتے ہیں۔ جب وہ پیش کيے جاتے ہیں تو داعی کو موقع ملتا ہے کہ وہ ان کی وضاحت کرکے اپنی بات کو اور زیادہ ثابت شدہ بنادے۔ اس سے مخلص لوگوں کے یقین میں اضافہ ہوتاہے۔ اس کے بعد خدا کے ساتھ ان کا تعلق اور زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ مگر جو لوگ مخلصانہ شعور سے خالی ہوتے ہیں، یہ شوشے ان کے ليے فتنہ بن جاتے ہیں۔ وہ ان کے فریب میں مبتلا ہو کر حق سے دور چلے جاتے ہیں۔ ’’اللہ ایمان والوں کوضرور صراط مستقیم دکھاتاہے‘‘— اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ جو لوگ فی الواقع ایمان کے معاملے میں سنجیدہ ہوں وہ کبھی جھوٹے پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ الفاظ کے طلسم سے کبھی دھوکا نہیںکھاتے۔ ان کا ایمان ان کے ليے ایسا علم بن جاتا ہے جو باتوں کو ان کی گہرائی کے ساتھ جان لے، نہ کہ محض باتوں کے ظواہر میں اٹک کر رہ جائے۔

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَيُؤْمِنُوا بِهِ فَتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهَادِ الَّذِينَ آمَنُوا إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 حق کا داعی خواہ وہ پیغمبر ہو یا غیر پیغمبر، اس کے ساتھ ہمیشہ یہ پیش آتا ہے کہ جب وہ خدا کی سچی بات کا اعلان کرتا ہے تو معاندین اس کی بات میں طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس کی صداقت کی بارے میں مشتبہ کردیں۔ اس طرح کے شوشے ہمیشہ بے بنیاد ہوتے ہیں۔ جب وہ پیش کيے جاتے ہیں تو داعی کو موقع ملتا ہے کہ وہ ان کی وضاحت کرکے اپنی بات کو اور زیادہ ثابت شدہ بنادے۔ اس سے مخلص لوگوں کے یقین میں اضافہ ہوتاہے۔ اس کے بعد خدا کے ساتھ ان کا تعلق اور زیادہ مضبوط ہوجاتا ہے۔ مگر جو لوگ مخلصانہ شعور سے خالی ہوتے ہیں، یہ شوشے ان کے ليے فتنہ بن جاتے ہیں۔ وہ ان کے فریب میں مبتلا ہو کر حق سے دور چلے جاتے ہیں۔ ’’اللہ ایمان والوں کوضرور صراط مستقیم دکھاتاہے‘‘— اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ جو لوگ فی الواقع ایمان کے معاملے میں سنجیدہ ہوں وہ کبھی جھوٹے پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ الفاظ کے طلسم سے کبھی دھوکا نہیںکھاتے۔ ان کا ایمان ان کے ليے ایسا علم بن جاتا ہے جو باتوں کو ان کی گہرائی کے ساتھ جان لے، نہ کہ محض باتوں کے ظواہر میں اٹک کر رہ جائے۔

وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً أَوْ يَأْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيمٍ

📘 پیغمبر کی دعوت میں دلیل کی عظمت پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ مگر وہ لوگ جو صرف ظاہری عظمتوں کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھ نہیں پاتے اور اس کا انکار کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ شک و شبہ میں پڑے رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ حق کو ظاہری عظمتوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ حق کو مجرد روپ میں لوگوں کے سامنے لائے تاکہ جو لوگ حقیقت شناس ہیں وہ اس کو پہچان کر اس سے وابستہ ہوجائیں۔ اور جو ظاہر پرست ہیں وہ اس کو نظر انداز کرکے اپنا مجرم ہونا ثابت کریں۔ ’’آیتوں کو جھٹلانا‘‘ یہ ہے کہ آدمی دلیل کی سطح پر ظاہرہونے والے حق کو نظر انداز کردے۔ وہ اس صداقت کو ماننے کے ليے تیار نہ ہو جو مجرد روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔

الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

📘 پیغمبر کی دعوت میں دلیل کی عظمت پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ مگر وہ لوگ جو صرف ظاہری عظمتوں کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھ نہیں پاتے اور اس کا انکار کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ شک و شبہ میں پڑے رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ حق کو ظاہری عظمتوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ حق کو مجرد روپ میں لوگوں کے سامنے لائے تاکہ جو لوگ حقیقت شناس ہیں وہ اس کو پہچان کر اس سے وابستہ ہوجائیں۔ اور جو ظاہر پرست ہیں وہ اس کو نظر انداز کرکے اپنا مجرم ہونا ثابت کریں۔ ’’آیتوں کو جھٹلانا‘‘ یہ ہے کہ آدمی دلیل کی سطح پر ظاہرہونے والے حق کو نظر انداز کردے۔ وہ اس صداقت کو ماننے کے ليے تیار نہ ہو جو مجرد روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ

📘 پیغمبر کی دعوت میں دلیل کی عظمت پوری طرح موجود ہوتی ہے۔ مگر وہ لوگ جو صرف ظاہری عظمتوں کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کی معنوی عظمت کو دیکھ نہیں پاتے اور اس کا انکار کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ شک و شبہ میں پڑے رہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ حق کو ظاہری عظمتوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ حق کو مجرد روپ میں لوگوں کے سامنے لائے تاکہ جو لوگ حقیقت شناس ہیں وہ اس کو پہچان کر اس سے وابستہ ہوجائیں۔ اور جو ظاہر پرست ہیں وہ اس کو نظر انداز کرکے اپنا مجرم ہونا ثابت کریں۔ ’’آیتوں کو جھٹلانا‘‘ یہ ہے کہ آدمی دلیل کی سطح پر ظاہرہونے والے حق کو نظر انداز کردے۔ وہ اس صداقت کو ماننے کے ليے تیار نہ ہو جو مجرد روپ میں اس کے سامنے ظاہر ہوئی ہے۔

وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

📘 جو شخص ایمان کے معاملہ میں مخلص ہو اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ ہر دوسری چیز کی قربانی گوارا کرلیتا ہے۔ مگر ایمان کی قربانی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ اس راہ میں اگر وطن چھوڑنا پڑے تو وہ وطن چھوڑ دیتاہے۔ اس راہ میں قتل ہونا پڑے تو وہ قتل ہوجاتا ہے۔ وہ ایمان کے ساتھ بندھا رہتاہے۔ یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجاتاہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میں اس بات کا ثبوت دیں کہ وہ ایمان کو سب سے قیمتی چیز سمجھتے ہیں، اللہ ان کی اس طرح قدر دانی فرمائے گا کہ انھیں آخرت کی سب سے قیمتی چیز دے دے گا۔ وہ وہاں ابدی طور پر خوشیوں اور راحتوں کی زندگی گزارتے رہیں گے۔

لَيُدْخِلَنَّهُمْ مُدْخَلًا يَرْضَوْنَهُ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَعَلِيمٌ حَلِيمٌ

📘 جو شخص ایمان کے معاملہ میں مخلص ہو اس کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ ہر دوسری چیز کی قربانی گوارا کرلیتا ہے۔ مگر ایمان کی قربانی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ اس راہ میں اگر وطن چھوڑنا پڑے تو وہ وطن چھوڑ دیتاہے۔ اس راہ میں قتل ہونا پڑے تو وہ قتل ہوجاتا ہے۔ وہ ایمان کے ساتھ بندھا رہتاہے۔ یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجاتاہے۔ جو لوگ دنیا کی زندگی میں اس بات کا ثبوت دیں کہ وہ ایمان کو سب سے قیمتی چیز سمجھتے ہیں، اللہ ان کی اس طرح قدر دانی فرمائے گا کہ انھیں آخرت کی سب سے قیمتی چیز دے دے گا۔ وہ وہاں ابدی طور پر خوشیوں اور راحتوں کی زندگی گزارتے رہیں گے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّهُ يُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَأَنَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 آخرت کی زندگی کے بارے میں آدمی کو اس ليے شبہ ہوتا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسان مرچکا ہوگا تو وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا ہو جائے گا۔ مردہ کائنات دوبارہ زندہ کائنات کیسے بن جائے گی۔ اس شبہ کا جواب خود ہماری موجودہ دنیا کی ساخت میں موجودہے۔ موجوده دنیا کیا ہے۔ یہ ایک حالت کا دوسری حالت میں تبدیل ہوجانا ہے۔ وہ چیز جس کو ہم زندہ وجود کہتے ہیں وہ حقیقۃً غیرزندہ وجود کا تغیر ہے۔ انسانی جسم کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ لوہا، کاربن، کیلشیم، نمکیات، پانی اور گیسوں وغیرہ سے مل کر بنا ہے۔ انسانی وجود کے یہ مرکبات سب کے سب بے جان ہیں۔ مگر یہی غیر ذی روح مادے تبدیل ہو کر ذی روح اشیاء کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اور انسان کی صورت میں چلنے لگتے ہیں۔ پھر جو انسان ایک بار غیر زندہ سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ہے وہ اگر دوبارہ غیر زندہ سے زندہ ہیئت میں تبدیل ہوجائے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اسی طرح زمین کے سبزہ کو دیکھيے۔ مٹی یا دوسری جن چیزوں سے ترکیب پاکرسبزہ بنتا ہے وہ سب کی سب ابتداء ً ان خصوصیات سے خالی ہوتی ہیں جن کے مجموعہ کا نام سبزہ ہے۔ مگر یہی غیر سبزہ تبدیل ہو کر سبزہ بن جاتا ہے۔ تبدیلی کا یہ واقعہ روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہاہے۔ پھر اسی ہونے والے واقعے کا دوسری بار ہونا مستبعد کیوں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کا وجود میں آنا خود ہی دوسری دنیا کے وجود میں آنے کا ثبوت ہے۔ ایک دنیا کا تجربہ کرنے کے بعد دوسری دنیا کو سمجھنا عقلی اور منطقی طورپر کچھ بھی مشکل نہیں۔

۞ ذَٰلِكَ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ

📘 اہل ایمان کو یہ تلقین کی گئی تھی کہ وہ اس خدا کے طریقہ کو اپنا طریقہ بنائیں جو غفور ورحیم ہے۔ وہ لوگوں کی زیادتیوں سے مسلسل در گزر کرتاہے۔ اور ان کو معاف فرماتا ہے۔ چنانچہ صحابہ کرام کا گروہ عام طورپر اسی اخلاقِ خداوندی پر قائم تھا۔ ان پر ظلم کیا جاتا تھا مگر وہ اس کو برداشت کرتے تھے۔ ان کے ساتھ اشتعال انگیز باتیں کی جاتی تھیں مگر وہ در گز رکرتے تھے۔ تاہم بعض مسلمانوں سے ایسا ہوا کہ ان کے ساتھ زیادتی کی گئی تو فوری جذبہ کے تحت انھوں نے جوابی کارروائی کی۔ ان کو نقصان پہنچایا گیا تو انھوںنے بھی کچھ نقصان پہنچایا۔ دشمنوں نے ا س کو بہانہ بنا کر مسلمانوںکے خلاف زبردست پروپیگنڈا کیا۔ وہ خود اپنی ظالمانہ کارروائیوں کو بھول گئے۔ البتہ مسلمانوں کے معمولی واقعہ کو ظلم قرار دے کر ان کو بدنام کرنا شروع کردیا۔ ایسا کرنا بدترین کمینہ پن ہے۔ جولوگ اس قسم کی کمینہ پن کا ثبوت دیں، وہ خدا کی غیرت کو چیلنج کرتے ہیں۔ بظاہر وہ ایک مسلمان کو ظالم ثابت کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کی نظر میں وہ خود سب سے بڑے ظالم ہیں۔ وہ اپنے ظلم کی سخت ترین سزا پاکر رہیں گے۔ اس قسم کے جھوٹے پروپیگنڈوں سے وہ اہل حق کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

📘 دنیا کا نظام خاموش زبان میں انسان کو زبردست سبق دے رہاہے۔ یہاں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی آتی ہے اوروہ دن کو ڈھانک لیتی ہے۔ یہاں ہر روز دن آتا ہے اور رات کی تاریکی کو ختم کردیتا ہے۔ یہ تمثیل کی زبان میں اس حقیقت کا کائناتی اعلان ہے کہ ایک گروہ اگر شان وشوکت حاصل کيے ہوئے ہو تو اس کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہيے کہ اس کی شان شوکت ختم ہونے والی نہیں۔ اسی طرح دوسرا گروہ مظلوم ہے تو اس کو بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہيے کہ اس کی مظلومیت ہمیشہ باقی رہے گی۔ جو خدا آسمانی دنیا میں روشنی کو تاریکی کے خانہ میںڈال دیتا ہے اور تاریکی کو روشنی کا روپ عطا کرتا ہے وہی خدا انسانی دنیا میں بھی اسی قسم کے واقعات رونما کرسکتا ہے۔ یہاں کوئی بھی طاقت نہیں جو خدا کو ایسا کرنے سے روک دے۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ

📘 دنیا کا نظام خاموش زبان میں انسان کو زبردست سبق دے رہاہے۔ یہاں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی آتی ہے اوروہ دن کو ڈھانک لیتی ہے۔ یہاں ہر روز دن آتا ہے اور رات کی تاریکی کو ختم کردیتا ہے۔ یہ تمثیل کی زبان میں اس حقیقت کا کائناتی اعلان ہے کہ ایک گروہ اگر شان وشوکت حاصل کيے ہوئے ہو تو اس کو اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہيے کہ اس کی شان شوکت ختم ہونے والی نہیں۔ اسی طرح دوسرا گروہ مظلوم ہے تو اس کو بھی یہ خیال نہیں کرنا چاہيے کہ اس کی مظلومیت ہمیشہ باقی رہے گی۔ جو خدا آسمانی دنیا میں روشنی کو تاریکی کے خانہ میںڈال دیتا ہے اور تاریکی کو روشنی کا روپ عطا کرتا ہے وہی خدا انسانی دنیا میں بھی اسی قسم کے واقعات رونما کرسکتا ہے۔ یہاں کوئی بھی طاقت نہیں جو خدا کو ایسا کرنے سے روک دے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً ۗ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ

📘 دنیا میں جب ایک آدمی حق کے اوپر اپنی زندگی کھڑی کرتاہے تو اس کو طرح طرح کی مشکلیں پیش آتی ہیں۔ شیطان لوگوں کو ورغلاتا ہے اور وہ اس کوستانے کے ليے جری ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بڑی سخت ہوتی ہے۔ اس کو دیکھ کر حق پرست آدمی مایوسی میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔ مگر کائنات زبان حال سے کہتی ہے کہ یہاں کسی بندۂ خدا کے ليے مایوسی کا کوئی سوال نہیں۔ خدا ہر سال یہ منظر دکھاتاہے کہ زمین کا سبزہ گرمی کی شدت سے جھلس جاتا ہے۔ مٹی خشک ویران نظرآنے لگتی ہے۔ بظاہر اس میں زندگی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اس کے بعد بارش برستی ہے۔ اور خشک مٹی میں سبزہ لہلہا اٹھتاہے۔ یہ خدا کی قدرت کا ایک نمونہ ہے جو ہر سال مادی سطح پر دکھایا جاتاہے۔ پھر خدا کے ليے کیا مشکل ہے کہ وہ انسانی سطح پر بھی اپنا یہی کرشمہ دکھا دے۔

لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ

📘 دنیا میں جب ایک آدمی حق کے اوپر اپنی زندگی کھڑی کرتاہے تو اس کو طرح طرح کی مشکلیں پیش آتی ہیں۔ شیطان لوگوں کو ورغلاتا ہے اور وہ اس کوستانے کے ليے جری ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال بڑی سخت ہوتی ہے۔ اس کو دیکھ کر حق پرست آدمی مایوسی میں مبتلا ہونے لگتا ہے۔ مگر کائنات زبان حال سے کہتی ہے کہ یہاں کسی بندۂ خدا کے ليے مایوسی کا کوئی سوال نہیں۔ خدا ہر سال یہ منظر دکھاتاہے کہ زمین کا سبزہ گرمی کی شدت سے جھلس جاتا ہے۔ مٹی خشک ویران نظرآنے لگتی ہے۔ بظاہر اس میں زندگی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ اس کے بعد بارش برستی ہے۔ اور خشک مٹی میں سبزہ لہلہا اٹھتاہے۔ یہ خدا کی قدرت کا ایک نمونہ ہے جو ہر سال مادی سطح پر دکھایا جاتاہے۔ پھر خدا کے ليے کیا مشکل ہے کہ وہ انسانی سطح پر بھی اپنا یہی کرشمہ دکھا دے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ وَالْفُلْكَ تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 زمین کی تمام چیزیں ایک خاص توازن کو مسلسل اپنے اندر قائم رکھتی ہیں۔ اگر ان کا توازن بگڑ جائے تو چیزیں مفید بننے کے بجائے ہمارے ليے سخت مضر بن جائیں۔ پانی میں دھات کا ایک ٹکڑا ڈالیں تو وہ فوراً ڈوب جائے گا مگر پانی کو خدا نے ایک خاص قانون کا پابند بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتاہے کہ لوہے یا لکڑی کو کشتی کی صورت دے دی جائے تو وہ پانی میں نہیں ڈوبتی۔ خلا میں بے شمار کُرے ہیں۔ ان کو بظاہر گر پڑنا چاہيے۔ مگر وہ خاص قانون کے تحت نہایت صحت کے ساتھ اپنے مدار پر تھمے ہوئے ہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو خود نہیں بنایا۔ اس کو خدا نے پیدا کیا ہے۔ پھر اس کو ایک ایسی دنیا میں رکھا جو اس کے ليے سراپا رحمت ہے۔ مگر آزادی پاکر انسان ایسا سرکش ہوگیا کہ وہ اپنے سب سے بڑے محسن کے احسان کا اعتراف نہیں کرتا۔

وَهُوَ الَّذِي أَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ۗ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ

📘 زمین کی تمام چیزیں ایک خاص توازن کو مسلسل اپنے اندر قائم رکھتی ہیں۔ اگر ان کا توازن بگڑ جائے تو چیزیں مفید بننے کے بجائے ہمارے ليے سخت مضر بن جائیں۔ پانی میں دھات کا ایک ٹکڑا ڈالیں تو وہ فوراً ڈوب جائے گا مگر پانی کو خدا نے ایک خاص قانون کا پابند بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوتاہے کہ لوہے یا لکڑی کو کشتی کی صورت دے دی جائے تو وہ پانی میں نہیں ڈوبتی۔ خلا میں بے شمار کُرے ہیں۔ ان کو بظاہر گر پڑنا چاہيے۔ مگر وہ خاص قانون کے تحت نہایت صحت کے ساتھ اپنے مدار پر تھمے ہوئے ہیں۔ انسان نے اپنے آپ کو خود نہیں بنایا۔ اس کو خدا نے پیدا کیا ہے۔ پھر اس کو ایک ایسی دنیا میں رکھا جو اس کے ليے سراپا رحمت ہے۔ مگر آزادی پاکر انسان ایسا سرکش ہوگیا کہ وہ اپنے سب سے بڑے محسن کے احسان کا اعتراف نہیں کرتا۔

لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ ۖ فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ ۚ وَادْعُ إِلَىٰ رَبِّكَ ۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُسْتَقِيمٍ

📘 عبادت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اندرونی حقیقت اور دوسرے اس کا ظاہری طریقہ۔ اندرونی حقیقت عبادت کا اصل جزء ہے اور ظاہری طریقہ اس کا اضافی جزء۔ مگر کوئی گروہ جب لمبی مدت تک اس پر کاربند رہتاہے تو وہ اس فرق کو بھول جاتاہے۔ وہ عبادت کی ظاہری تعمیل ہی کو اصل عبادت سمجھ لیتا ہے۔ اسی کا نام جمود (stagnation)ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب وہ اگلا پیغمبر بھیجتا ہے تو وہ اس کی شریعت (ظاہری طریقہ) میں کچھ فرق کردیتاہے۔ اس فرق کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے جمود کو توڑا جائے۔ لوگوں کو ظاہرپرستی کی حالت سے نکال کر زندہ عبادت کرنے والا بنایا جائے۔ اب جولوگ ظاہری آداب وقواعد ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہوں وہ پیغمبر کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ عبادت کی حقیقت کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کے کہنے پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی ان کی عبادت میں نئی روح پیدا کردیتی ہے۔ وہ ان کو جامد ایمان کی حالت سے نکال کرزندہ ایمان کی حالت تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وہ خاص حکمت ہے جس کی بناپر ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے منسک (طریقِ عبادت) میں بعض فرق رکھا گیا۔ جب کوئی پیغمبر نیا منسک لایا تو جمود میں پڑے ہوئے لوگوں نے اس کے خلاف سخت اعتراضات نکالنے شروع کئے۔ مگر پیغمبروں کو یہ حکم تھا کہ وہ ان امور کو موضوع بحث نہ بننے دیں۔ وہ اصلی اور بنیادی تعلیمات پر اپنی ساری توجہ صرف کریں اور اس كي طرف لوگوں كو دعوت ديں۔

وَإِنْ جَادَلُوكَ فَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُونَ

📘 عبادت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اندرونی حقیقت اور دوسرے اس کا ظاہری طریقہ۔ اندرونی حقیقت عبادت کا اصل جزء ہے اور ظاہری طریقہ اس کا اضافی جزء۔ مگر کوئی گروہ جب لمبی مدت تک اس پر کاربند رہتاہے تو وہ اس فرق کو بھول جاتاہے۔ وہ عبادت کی ظاہری تعمیل ہی کو اصل عبادت سمجھ لیتا ہے۔ اسی کا نام جمود (stagnation)ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب وہ اگلا پیغمبر بھیجتا ہے تو وہ اس کی شریعت (ظاہری طریقہ) میں کچھ فرق کردیتاہے۔ اس فرق کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے جمود کو توڑا جائے۔ لوگوں کو ظاہرپرستی کی حالت سے نکال کر زندہ عبادت کرنے والا بنایا جائے۔ اب جولوگ ظاہری آداب وقواعد ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہوں وہ پیغمبر کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ عبادت کی حقیقت کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کے کہنے پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی ان کی عبادت میں نئی روح پیدا کردیتی ہے۔ وہ ان کو جامد ایمان کی حالت سے نکال کرزندہ ایمان کی حالت تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وہ خاص حکمت ہے جس کی بناپر ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے منسک (طریقِ عبادت) میں بعض فرق رکھا گیا۔ جب کوئی پیغمبر نیا منسک لایا تو جمود میں پڑے ہوئے لوگوں نے اس کے خلاف سخت اعتراضات نکالنے شروع کئے۔ مگر پیغمبروں کو یہ حکم تھا کہ وہ ان امور کو موضوع بحث نہ بننے دیں۔ وہ اصلی اور بنیادی تعلیمات پر اپنی ساری توجہ صرف کریں اور اس كي طرف لوگوں كو دعوت ديں۔

اللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

📘 عبادت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اندرونی حقیقت اور دوسرے اس کا ظاہری طریقہ۔ اندرونی حقیقت عبادت کا اصل جزء ہے اور ظاہری طریقہ اس کا اضافی جزء۔ مگر کوئی گروہ جب لمبی مدت تک اس پر کاربند رہتاہے تو وہ اس فرق کو بھول جاتاہے۔ وہ عبادت کی ظاہری تعمیل ہی کو اصل عبادت سمجھ لیتا ہے۔ اسی کا نام جمود (stagnation)ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب وہ اگلا پیغمبر بھیجتا ہے تو وہ اس کی شریعت (ظاہری طریقہ) میں کچھ فرق کردیتاہے۔ اس فرق کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے جمود کو توڑا جائے۔ لوگوں کو ظاہرپرستی کی حالت سے نکال کر زندہ عبادت کرنے والا بنایا جائے۔ اب جولوگ ظاہری آداب وقواعد ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہوں وہ پیغمبر کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ عبادت کی حقیقت کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کے کہنے پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی ان کی عبادت میں نئی روح پیدا کردیتی ہے۔ وہ ان کو جامد ایمان کی حالت سے نکال کرزندہ ایمان کی حالت تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وہ خاص حکمت ہے جس کی بناپر ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے منسک (طریقِ عبادت) میں بعض فرق رکھا گیا۔ جب کوئی پیغمبر نیا منسک لایا تو جمود میں پڑے ہوئے لوگوں نے اس کے خلاف سخت اعتراضات نکالنے شروع کئے۔ مگر پیغمبروں کو یہ حکم تھا کہ وہ ان امور کو موضوع بحث نہ بننے دیں۔ وہ اصلی اور بنیادی تعلیمات پر اپنی ساری توجہ صرف کریں اور اس كي طرف لوگوں كو دعوت ديں۔

وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيهَا وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُورِ

📘 آخرت کی زندگی کے بارے میں آدمی کو اس ليے شبہ ہوتا ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ جب انسان مرچکا ہوگا تو وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہو کر کھڑا ہو جائے گا۔ مردہ کائنات دوبارہ زندہ کائنات کیسے بن جائے گی۔ اس شبہ کا جواب خود ہماری موجودہ دنیا کی ساخت میں موجودہے۔ موجوده دنیا کیا ہے۔ یہ ایک حالت کا دوسری حالت میں تبدیل ہوجانا ہے۔ وہ چیز جس کو ہم زندہ وجود کہتے ہیں وہ حقیقۃً غیرزندہ وجود کا تغیر ہے۔ انسانی جسم کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ لوہا، کاربن، کیلشیم، نمکیات، پانی اور گیسوں وغیرہ سے مل کر بنا ہے۔ انسانی وجود کے یہ مرکبات سب کے سب بے جان ہیں۔ مگر یہی غیر ذی روح مادے تبدیل ہو کر ذی روح اشیاء کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ اور انسان کی صورت میں چلنے لگتے ہیں۔ پھر جو انسان ایک بار غیر زندہ سے زندہ صورت اختیار کرلیتا ہے وہ اگر دوبارہ غیر زندہ سے زندہ ہیئت میں تبدیل ہوجائے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ اسی طرح زمین کے سبزہ کو دیکھيے۔ مٹی یا دوسری جن چیزوں سے ترکیب پاکرسبزہ بنتا ہے وہ سب کی سب ابتداء ً ان خصوصیات سے خالی ہوتی ہیں جن کے مجموعہ کا نام سبزہ ہے۔ مگر یہی غیر سبزہ تبدیل ہو کر سبزہ بن جاتا ہے۔ تبدیلی کا یہ واقعہ روزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہاہے۔ پھر اسی ہونے والے واقعے کا دوسری بار ہونا مستبعد کیوں ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ پہلی دنیا کا وجود میں آنا خود ہی دوسری دنیا کے وجود میں آنے کا ثبوت ہے۔ ایک دنیا کا تجربہ کرنے کے بعد دوسری دنیا کو سمجھنا عقلی اور منطقی طورپر کچھ بھی مشکل نہیں۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۗ إِنَّ ذَٰلِكَ فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ

📘 عبادت کے دو پہلو ہیں۔ ایک اس کی اندرونی حقیقت اور دوسرے اس کا ظاہری طریقہ۔ اندرونی حقیقت عبادت کا اصل جزء ہے اور ظاہری طریقہ اس کا اضافی جزء۔ مگر کوئی گروہ جب لمبی مدت تک اس پر کاربند رہتاہے تو وہ اس فرق کو بھول جاتاہے۔ وہ عبادت کی ظاہری تعمیل ہی کو اصل عبادت سمجھ لیتا ہے۔ اسی کا نام جمود (stagnation)ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ جب وہ اگلا پیغمبر بھیجتا ہے تو وہ اس کی شریعت (ظاہری طریقہ) میں کچھ فرق کردیتاہے۔ اس فرق کا مقصد یہ ہوتاہے کہ لوگوں کے جمود کو توڑا جائے۔ لوگوں کو ظاہرپرستی کی حالت سے نکال کر زندہ عبادت کرنے والا بنایا جائے۔ اب جولوگ ظاہری آداب وقواعد ہی کو سب کچھ سمجھے ہوئے ہوں وہ پیغمبر کی اطاعت سے انکار کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ عبادت کی حقیقت کو جانتے ہیں وہ پیغمبر کے کہنے پر عمل کرنے لگتے ہیں۔ یہ تبدیلی ان کی عبادت میں نئی روح پیدا کردیتی ہے۔ وہ ان کو جامد ایمان کی حالت سے نکال کرزندہ ایمان کی حالت تک پہنچا دیتی ہے۔ یہی وہ خاص حکمت ہے جس کی بناپر ایک پیغمبر اور دوسرے پیغمبر کے منسک (طریقِ عبادت) میں بعض فرق رکھا گیا۔ جب کوئی پیغمبر نیا منسک لایا تو جمود میں پڑے ہوئے لوگوں نے اس کے خلاف سخت اعتراضات نکالنے شروع کئے۔ مگر پیغمبروں کو یہ حکم تھا کہ وہ ان امور کو موضوع بحث نہ بننے دیں۔ وہ اصلی اور بنیادی تعلیمات پر اپنی ساری توجہ صرف کریں اور اس كي طرف لوگوں كو دعوت ديں۔

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَا لَيْسَ لَهُمْ بِهِ عِلْمٌ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ نَصِيرٍ

📘 خالص توحید کی دعوت ہمیشہ ان لوگوں کے ليے ناقابل برداشت ہوتی ہے جو ایک اللہ کے سوا دوسروں سے اپنی عقیدتیں وابستہ کيے ہوئے ہوں۔وہ اپنے معبودوں اور اپنی محبوب شخصیتوں پر تنقید کو سن کر بپھر اٹھتے ہیں۔ دعوتِ حق کی تردید سے اپنے آپ کو بے بس پاکر وہ داعیان حق پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا سرےسے خاتمہ کردیں۔ ایسے لوگوں سے کہاگیا کہ تمھارا رویہ سراسر بے عقلی کا رویہ ہے۔ آج تم لفظی تنقید برداشت کرنے کے ليے تیار نہیںہو۔ کل تمھارا کیاحال ہوگا جب کہ تمھیں اپنی اس روش کی بنا پر آگ کا عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ تَعْرِفُ فِي وُجُوهِ الَّذِينَ كَفَرُوا الْمُنْكَرَ ۖ يَكَادُونَ يَسْطُونَ بِالَّذِينَ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِنَا ۗ قُلْ أَفَأُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكُمُ ۗ النَّارُ وَعَدَهَا اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

📘 خالص توحید کی دعوت ہمیشہ ان لوگوں کے ليے ناقابل برداشت ہوتی ہے جو ایک اللہ کے سوا دوسروں سے اپنی عقیدتیں وابستہ کيے ہوئے ہوں۔وہ اپنے معبودوں اور اپنی محبوب شخصیتوں پر تنقید کو سن کر بپھر اٹھتے ہیں۔ دعوتِ حق کی تردید سے اپنے آپ کو بے بس پاکر وہ داعیان حق پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا سرےسے خاتمہ کردیں۔ ایسے لوگوں سے کہاگیا کہ تمھارا رویہ سراسر بے عقلی کا رویہ ہے۔ آج تم لفظی تنقید برداشت کرنے کے ليے تیار نہیںہو۔ کل تمھارا کیاحال ہوگا جب کہ تمھیں اپنی اس روش کی بنا پر آگ کا عذاب برداشت کرنا پڑے گا۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ ۚ إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ ۖ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ۚ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ

📘 اللہ کے سوا کسی اور کو تقدس کا مقام دینا سراسر بے عقلی کی بات ہے۔ اس ليے مقدس مقام اس کو دیا جاتاہے جس کے اندر کوئی طاقت ہو۔ اور اس دنیا کا حال یہ ہے کہ یہاں کسی بھی انسان یا غیر انسان کو کوئی حقیقی طاقت حاصل نہیں۔ مکھی ایک انتہائی معمولی چیز ہے۔ مگر زمین و آسمان کی تمام چیزیں مل کر بھی ایک مکھی کو وجود میں نہیں لاسکتیں۔ پھر کسی غیر خدا کو مقدس سمجھنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے تمام عقیدے دراصل خدا کی خدائی کے کمتر اندازہ (underestimation)پر مبنی ہیں۔ لوگ خداکو مانتے ہیں مگر وہ اس کی عظمت وقدرت سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ خدا کو ویسا مانیں جیساکہ اس کو ماننا چاہيے تو انھیں اپنے یہ تمام عقیدے مضحکہ خیر حد تک بے معنی معلوم ہوں۔ وہ خود ہی ایسے تمام عقیدوں سے دست بردار ہوجائیں۔

مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ

📘 اللہ کے سوا کسی اور کو تقدس کا مقام دینا سراسر بے عقلی کی بات ہے۔ اس ليے مقدس مقام اس کو دیا جاتاہے جس کے اندر کوئی طاقت ہو۔ اور اس دنیا کا حال یہ ہے کہ یہاں کسی بھی انسان یا غیر انسان کو کوئی حقیقی طاقت حاصل نہیں۔ مکھی ایک انتہائی معمولی چیز ہے۔ مگر زمین و آسمان کی تمام چیزیں مل کر بھی ایک مکھی کو وجود میں نہیں لاسکتیں۔ پھر کسی غیر خدا کو مقدس سمجھنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے۔ اس قسم کے تمام عقیدے دراصل خدا کی خدائی کے کمتر اندازہ (underestimation)پر مبنی ہیں۔ لوگ خداکو مانتے ہیں مگر وہ اس کی عظمت وقدرت سے بے خبر ہیں۔ اگر وہ خدا کو ویسا مانیں جیساکہ اس کو ماننا چاہيے تو انھیں اپنے یہ تمام عقیدے مضحکہ خیر حد تک بے معنی معلوم ہوں۔ وہ خود ہی ایسے تمام عقیدوں سے دست بردار ہوجائیں۔

اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ

📘 اللہ نے جس اسکیم کے تحت انسان کو بنایا اور اس کو زمین پر رکھا، اس کا یہ تقاضا تھاکہ وہ انسانوں کی ہدایت کا انتظام کرے۔ وہ ان کو بتائے کہ جنت کا راستہ کون سا ہے اور جہنم کا راستہ کون سا۔ چنانچہ اس نے یہ انتظام کیا کہ وہ انسانوں میں سے کسی کو پیغمبری کے ليے چنتا ہے۔ اور اس کے پاس فرشتہ کے ذریعہ اپنا کلام بھیجتاہے۔ اس انتظام کے تحت انسان کو اصل حقیقت سے باخبر کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کی نگرانی بھی فرمارہا ہے۔ اس کے بعد جب امتحان کی مدت ختم ہوگی تو تمام لوگ خداکی طرف لوٹائے جائیں گے تاکہ اپنی اپنی کارکردگی کے مطابق اپنے انجام کو پائیں۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

📘 اللہ نے جس اسکیم کے تحت انسان کو بنایا اور اس کو زمین پر رکھا، اس کا یہ تقاضا تھاکہ وہ انسانوں کی ہدایت کا انتظام کرے۔ وہ ان کو بتائے کہ جنت کا راستہ کون سا ہے اور جہنم کا راستہ کون سا۔ چنانچہ اس نے یہ انتظام کیا کہ وہ انسانوں میں سے کسی کو پیغمبری کے ليے چنتا ہے۔ اور اس کے پاس فرشتہ کے ذریعہ اپنا کلام بھیجتاہے۔ اس انتظام کے تحت انسان کو اصل حقیقت سے باخبر کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ لوگوں کے اعمال کی نگرانی بھی فرمارہا ہے۔ اس کے بعد جب امتحان کی مدت ختم ہوگی تو تمام لوگ خداکی طرف لوٹائے جائیں گے تاکہ اپنی اپنی کارکردگی کے مطابق اپنے انجام کو پائیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩

📘 اس آیت کا خطاب اصلاً اصحابِ رسول سے اور تبعاً تمام مومنین قرآن سے ہے۔اس گروہ کو خدا نے اس خاص کام کے ليے منتخب کیا ہے کہ وہ قیامت تک تمام قوموں کو خدا کے سچے اور حقیقی دین سے باخبر کرتا رہے۔ رسول نے یہی عملِ شہادت اپنے زمانے کے لوگوں پر کیا۔ اور آپ کے پیروؤں کو یہی عمل بعد کو اپنے ہم زمانہ لوگوں پر انجام دینا ہے۔ یہ کام ایک بے حد نازک کام ہے۔ اس کے ليے مجاہدانہ عمل درکار ہے۔ اس کو صرف وہی لوگ حقیقی طورپر انجام دے سکتے ہیں، جو صحیح معنوں میں خداکے آگے جھکنے والے بن گئے ہوں۔ جو دوسروں کے اتنے زیادہ خیر خواہ ہوں کہ اپنا وقت اور اپنا پیسہ ان کے ليے خرچ کرنے میں خوشی محسوس کریں۔ جو ہر د وسری چیز سے اوپر اٹھ کر صرف ایک خدا پر بھروسہ کرنے والے بن گئے ہوں۔ جو حقیقی معنوںمیں لفظ ’’مسلم‘‘ کا مصداق ہوں جو ان کے ليے خصوصی طورپر وضع کیاگیا ہے۔ تاہم اس کارِ شہادت کے ساتھ خدا نے ایک خاص معاملہ یہ کیا ہے کہ اس کی راہ کی خارجی رکاوٹوں کو ہمیشہ کے ليے دور کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں ایسا انقلاب لایا گیا ہے جس نے ان رکا وٹوں کو ہمیشہ کے ليے ختم کردیا، جن کا سابقہ پچھلے نبیوں اور ان کی امتوں کو پیش آتا تھا۔ اب اس کام کے ليے حقیقی رکاوٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن کے حاملین خود ہی اپنی نادانی سے اپنی راہ میں خود ساختہ مشکلیں پیدا کرلیں اور ایک آسان کام کو مصنوعی طورپر مشکل کام بنا ڈالیں۔

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ ۚ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ۚ مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ ۖ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ

📘 اس آیت کا خطاب اصلاً اصحابِ رسول سے اور تبعاً تمام مومنین قرآن سے ہے۔اس گروہ کو خدا نے اس خاص کام کے ليے منتخب کیا ہے کہ وہ قیامت تک تمام قوموں کو خدا کے سچے اور حقیقی دین سے باخبر کرتا رہے۔ رسول نے یہی عملِ شہادت اپنے زمانے کے لوگوں پر کیا۔ اور آپ کے پیروؤں کو یہی عمل بعد کو اپنے ہم زمانہ لوگوں پر انجام دینا ہے۔ یہ کام ایک بے حد نازک کام ہے۔ اس کے ليے مجاہدانہ عمل درکار ہے۔ اس کو صرف وہی لوگ حقیقی طورپر انجام دے سکتے ہیں، جو صحیح معنوں میں خداکے آگے جھکنے والے بن گئے ہوں۔ جو دوسروں کے اتنے زیادہ خیر خواہ ہوں کہ اپنا وقت اور اپنا پیسہ ان کے ليے خرچ کرنے میں خوشی محسوس کریں۔ جو ہر د وسری چیز سے اوپر اٹھ کر صرف ایک خدا پر بھروسہ کرنے والے بن گئے ہوں۔ جو حقیقی معنوںمیں لفظ ’’مسلم‘‘ کا مصداق ہوں جو ان کے ليے خصوصی طورپر وضع کیاگیا ہے۔ تاہم اس کارِ شہادت کے ساتھ خدا نے ایک خاص معاملہ یہ کیا ہے کہ اس کی راہ کی خارجی رکاوٹوں کو ہمیشہ کے ليے دور کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں ایسا انقلاب لایا گیا ہے جس نے ان رکا وٹوں کو ہمیشہ کے ليے ختم کردیا، جن کا سابقہ پچھلے نبیوں اور ان کی امتوں کو پیش آتا تھا۔ اب اس کام کے ليے حقیقی رکاوٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قرآن کے حاملین خود ہی اپنی نادانی سے اپنی راہ میں خود ساختہ مشکلیں پیدا کرلیں اور ایک آسان کام کو مصنوعی طورپر مشکل کام بنا ڈالیں۔

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ

📘 ایک شخص وہ ہے جو دین کو کامل صداقت کے طورپر دریافت کرتاہے۔ دین اس کے دل ودماغ پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ وہ کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو دین کے حوالے کردیتاہے۔ اس کی نظر میں ہر دوسری چیز ثانوی بن جاتی ہے۔ یہی شخص خدا کی نظر میں سچا مومن ہے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بس اوپری جذبہ سے دین کو مانیں۔ ایسے لوگوں کی حقیقی دلچسپیاں اپنے مفادات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ البتہ سطحی تأثر کے تحت وہ اپنے آپ کو دین سے بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ ان کی یہ وابستگی صرف اس وقت تک کے ليے ہوتی ہے جب تک دین کو اختیار کرنے سے انھیں کوئی نقصان نہ ہورہا ہو۔ ان کے مفادات پر اس سے کوئی زد نہ پڑتی ہو۔ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ دین اوران کا مفاد دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے وہ فوراً ذاتی مفاد کو اختیارکر لیتے ہیں اور دین کوچھوڑ دیتے ہیں۔ یہی دوسري قسم کے لوگ ہیں، جن کو منافق کہاجاتا ہے۔ منافق انسان آخرت کو پانے میں بھی ناکام رہتا ہے اور دنیا کو پانے میں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں معاملہ میں کامیابی کے لیے ایک ہی لازمی شرط ہے، اور وہ یکسوئی ہے، اور یہی وہ قلبی صفت ہے جس سے منافق انسان ہمیشہ محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دو طرفہ رجحان کی وجہ سے نہ پوری طرح آخرت کی طرف یکسو ہوتااور نہ پوری طرح دنیا کی طرف۔اس طرح وہ دونوں میں سے کسی کی بھی لازمی قیمت نہیں دے پاتا۔ ایسے لوگ دو طرفہ محرومی کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔

ثَانِيَ عِطْفِهِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۖ لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ

📘 ایک شخص وہ ہے جو دین کو کامل صداقت کے طورپر دریافت کرتاہے۔ دین اس کے دل ودماغ پر پوری طرح چھا جاتا ہے۔ وہ کسی تحفظ کے بغیر اپنے آپ کو دین کے حوالے کردیتاہے۔ اس کی نظر میں ہر دوسری چیز ثانوی بن جاتی ہے۔ یہی شخص خدا کی نظر میں سچا مومن ہے۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بس اوپری جذبہ سے دین کو مانیں۔ ایسے لوگوں کی حقیقی دلچسپیاں اپنے مفادات سے وابستہ ہوتی ہیں۔ البتہ سطحی تأثر کے تحت وہ اپنے آپ کو دین سے بھی وابستہ کرلیتے ہیں۔ ان کی یہ وابستگی صرف اس وقت تک کے ليے ہوتی ہے جب تک دین کو اختیار کرنے سے انھیں کوئی نقصان نہ ہورہا ہو۔ ان کے مفادات پر اس سے کوئی زد نہ پڑتی ہو۔ جیسے ہی انھوں نے دیکھا کہ دین اوران کا مفاد دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے وہ فوراً ذاتی مفاد کو اختیارکر لیتے ہیں اور دین کوچھوڑ دیتے ہیں۔ یہی دوسري قسم کے لوگ ہیں، جن کو منافق کہاجاتا ہے۔ منافق انسان آخرت کو پانے میں بھی ناکام رہتا ہے اور دنیا کو پانے میں بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں معاملہ میں کامیابی کے لیے ایک ہی لازمی شرط ہے، اور وہ یکسوئی ہے، اور یہی وہ قلبی صفت ہے جس سے منافق انسان ہمیشہ محروم ہوتا ہے۔ وہ اپنے دو طرفہ رجحان کی وجہ سے نہ پوری طرح آخرت کی طرف یکسو ہوتااور نہ پوری طرح دنیا کی طرف۔اس طرح وہ دونوں میں سے کسی کی بھی لازمی قیمت نہیں دے پاتا۔ ایسے لوگ دو طرفہ محرومی کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔