slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة آل عمران

(Aal-E-Imran) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم

📘 کائنات کا خالق ومالک کوئی مشینی خدا نہیں بلکہ ایک زندہ اور باشعور خدا ہے۔ اس نے ہر زمانہ میں انسان کے لیے رہنمائی بھیجی۔ انھیں میں سے وہ کتابیں تھیں جو تورات وانجیل کی صورت میں پچھلے انبیاء پر اتاری گئیں۔ مگر انسان ہمیشہ یہ کرتا رہا کہ اس نے اپنی تاویل وتشریح سے خدا کی تعلیمات کو طرح طرح کے معنی پہنائے اور خدا کے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔ آخر اللہ نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آخری کتاب (قرآن) اتاری جو انسانوں کے لیے صحیح ہدایت نامہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ کسوٹی بھی جس سے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ کا سچا دین کیا ہے اور وہ دین کون سا ہے جو لوگوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات کے ذریعے بنا رکھا ہے۔ اب جو لوگ خدا کی کتاب کو نہ مانیں یا اپنی رایوں اور تعبیروں کے تحت گھڑے ہوئے دین کو نہ چھوڑیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے آنکھ دی مگر روشنی آجانے کے باوجود انھوں نے نہ دیکھا۔ جن کو خدا نے عقل دی مگر دلیل آجانے کے بعد بھی انھوں نے نہ سمجھا اپنی چھوٹی بڑائی کی خاطر وہ حق کے آگے جھکنے كو تیار نہ ہوئے۔ اللہ اپنی ذات وصفات کے اعتبارسے کیسا ہے، اس کا حقیقی تعارف خود وہی کرسکتا ہے۔ اس کی ہستی کا دوسری موجودات سے کیا تعلق ہے، اس کو بھی وہ خود ہی صحیح طورپر بتاسکتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں اس کو اتنی واضح صورت میں بتا دیا ہے کہ جو شخص جاننا چاہے وہ ضرور جان لے گا۔ یہی معاملہ انسان کے لیے ہدایت نامہ مقرر کرنے کا ہے۔ انسان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کون سا رویہ ہے جو انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، اس کو بتانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ وہی ہوسکتا ہے جو بقیہ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے وسیع تر نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ انسان کے لیے صحیح راہ عمل کا تعین وہی کرسکتا ہے جو نہ صرف انسان کو پیدائش سے موت تک جانتا ہو بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پیدائش سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ایسی ہستی خداکے سوا کوئی دوسری نہیںہوسکتی۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ خدا پر بھروسہ کرے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو پورے یقین کے ساتھ پکڑ لے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ

📘 خدا کسی آدمی کو ذکر و فکر کی سطح پر ملتاہے۔ یعنی آدمی سوچ کے ذریعہ سے خدا کو پاتا ہے۔ خدا نے موجودہ دنیا میں اپنے دلائل بکھیر دئے ہیں، آدمی کی اپنی ذات میں، باہر کی کائنات میں اور پھر پیغمبر کی تعلیمات میں۔ جو لوگ ان خدائی نشانیوں میں غور کریں گے وہی خدا کو پائیں گے۔ دلیل اس دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے۔ ایک شخص کے سامنے سچی دلیل آئے اور وہ اس کو نظر انداز کردے تو گویا کہ اس نے خدا کو نظر انداز کیا۔ ایسے لوگوں کےلیے خدا کے یہاں ابدی محرومی کے سوا اور کچھ نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا فَرِيقًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ كَافِرِينَ

📘 حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگ غالباً کسی تیوہار میں شرکت کےلیے شہر سے باہر جارہے تھے۔ آپ کے گھر والوں نے آپ سے بھی چلنے کےلیے کہا۔ آپ نے توریہ کے انداز میں ان سے معذرت کرلی۔ جب تمام لوگ چلے گئے تو رات کے وقت آپ بت خانہ میں داخل ہوئے اور اس کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ یہ آپ نے اس وقت کیا جب کہ مسلسل دعوت کے ذریعہ آپ ان پر اتمام حجت کرچکے تھے۔ جب انھوں نے دلائل سے بتوں کا بے حقیقت ہونا تسلیم نہیں کیا تو بتوں کو توڑ کر آپ نے عمل کی زبان میں بتایا کہ ان بتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر حقیقت ہوتی تو وہ اپنے آپ کو توڑے جانے سے بچا لیتے۔ آپ کی اس آخری کارروائی کے بعد قوم نے بھی اپنی آخری کارروا ئی کی۔ انھوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا مگر اللہ نے آپ کو آگ سے بچا لیا۔ اس کے بعد آپ اپنے وطن (عراق) کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اس وقت آپ نے دعا کی کہ خدایا تو میرے یہاں صالح اولاد پیدا کر تاکہ میں اس کو تعلیم وتربیت کے ذریعہ مومن ومسلم بناؤں اور وہ میرے بعد دعوت توحید کا تسلسل جاری رکھے۔

وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنْتُمْ تُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللَّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ ۗ وَمَنْ يَعْتَصِمْ بِاللَّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 حضرت ابراہیم کی قوم کے لوگ غالباً کسی تیوہار میں شرکت کےلیے شہر سے باہر جارہے تھے۔ آپ کے گھر والوں نے آپ سے بھی چلنے کےلیے کہا۔ آپ نے توریہ کے انداز میں ان سے معذرت کرلی۔ جب تمام لوگ چلے گئے تو رات کے وقت آپ بت خانہ میں داخل ہوئے اور اس کے بتوں کو توڑ ڈالا۔ یہ آپ نے اس وقت کیا جب کہ مسلسل دعوت کے ذریعہ آپ ان پر اتمام حجت کرچکے تھے۔ جب انھوں نے دلائل سے بتوں کا بے حقیقت ہونا تسلیم نہیں کیا تو بتوں کو توڑ کر آپ نے عمل کی زبان میں بتایا کہ ان بتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ اگر حقیقت ہوتی تو وہ اپنے آپ کو توڑے جانے سے بچا لیتے۔ آپ کی اس آخری کارروائی کے بعد قوم نے بھی اپنی آخری کارروا ئی کی۔ انھوں نے آپ کو آگ میں ڈال دیا مگر اللہ نے آپ کو آگ سے بچا لیا۔ اس کے بعد آپ اپنے وطن (عراق) کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اس وقت آپ نے دعا کی کہ خدایا تو میرے یہاں صالح اولاد پیدا کر تاکہ میں اس کو تعلیم وتربیت کے ذریعہ مومن ومسلم بناؤں اور وہ میرے بعد دعوت توحید کا تسلسل جاری رکھے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

📘 دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ یہاں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ شیطان آدمی کے ایمان کو اچک لے جائے اور فرشتے اس کی روح اس حال میں قبض کریں کہ وہ ایمان سے خالی ہو۔اس ليے ضروری ہے کہ آدمی ہر وقت باہوش رہے، وہ اپنے آپ پر نگراں بن جائے۔ ایمان سے دور ہونے کی ایک صورت وہ ہے جب کہ دین کے اجزاء میں تبدیلی کرکے اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنا دیا جائے۔ دین کی اصل رسّی تقویٰ ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرنا اور مرتے دم تک اپنے ہر معاملہ میں وہی رویہ اختیار کرنا جو اللہ کے سامنے جواب دہی کے تصور سے بنتا ہو۔ یہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس سے انحراف یہ ہے کہ ’’تقویٰ‘‘ کے بجائے، کسی اور چیز کو مدارِ دین سمجھ لیا جائے اور اس پراس طرح زور دیا جائے جس طرح خوف خدا اور فکر آخرت پر دیا جاتا ہے۔ جب بھی دین میں اس قسم کی تبدیلی کی جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملّت کے درمیان اختلاف پيدا هو جاتا ہے۔ کوئی ایک ضمنی چیز پر زور دیتا ہے تو کوئی دوسری ضمنی چیز پر، اور اس طرح ملت فرقے فرقے میں بٹ کر رہ جاتی ہے۔ اول الذکر سے ایک اللہ توجہ کا مرکز بنتا ہے اور ثانی الذکر سے متفرق مسائل توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ جب دین میں سارا زور وتاکید تقویٰ (اللہ سے ڈرنے) پر دیا جائے تو اس سے باہمی اتفاق وجود میںآتا ہے اور جب اس کے سوا دوسری چیزوں پر زور دیا جانے لگے تو اس سے باہمی اختلاف کی وہ برائی پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کو جہنم کے کنارے پہنچا دیتی ہے۔ کسی گروہ کے اندر اختلاف دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت میںبھی عذاب۔ اسلام سے پہلے مدینہ میں دو قبیلے تھے— اوس اور خزرج۔ یہ دونوں عرب قبیلے تھے مگر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ ان باہمی لڑائیوں نے ان کو کمزور کردیا تھا۔ جب وہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے تو ان کی لڑائیاں ختم ہوگئیں، وہ بھائی بھائی کی طرح مل کر رہنے لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر اسلام میں ہر آدمی اپنا وفادار رہتا ہے اور اسلام میں صرف ایک اللہ کا۔ جس سماج میں لوگ اپنے یا اپنے گروہ کے وفادار ہوں وہاں قدرتی طورپر کئی وفاداریاں وجود میں آتی ہیں۔ اور کئی وفاداریوں کے عملی نتیجہ ہی کا نام اختلاف اور ٹکراؤ ہے۔ اس کے برعکس، جس معاشرہ میں تمام لوگ ایک خدا کے وفادار بن جائیں وہاں سب کا رخ ایک مرکز کی طرف ہوجاتا ہے، سب ایک رسّی سے بندھ جاتے ہیں۔ اِس طرح باہمی اختلاف اور ٹکراؤ کے اسباب اپنے آپ ختم ہوجاتے ہیں۔

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ

📘 دنیا آزمائش کی جگہ ہے۔ یہاں ہر وقت یہ خطرہ ہے کہ شیطان آدمی کے ایمان کو اچک لے جائے اور فرشتے اس کی روح اس حال میں قبض کریں کہ وہ ایمان سے خالی ہو۔اس ليے ضروری ہے کہ آدمی ہر وقت باہوش رہے، وہ اپنے آپ پر نگراں بن جائے۔ ایمان سے دور ہونے کی ایک صورت وہ ہے جب کہ دین کے اجزاء میں تبدیلی کرکے اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنا دیا جائے۔ دین کی اصل رسّی تقویٰ ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرنا اور مرتے دم تک اپنے ہر معاملہ میں وہی رویہ اختیار کرنا جو اللہ کے سامنے جواب دہی کے تصور سے بنتا ہو۔ یہی صراطِ مستقیم ہے۔ اس سے انحراف یہ ہے کہ ’’تقویٰ‘‘ کے بجائے، کسی اور چیز کو مدارِ دین سمجھ لیا جائے اور اس پراس طرح زور دیا جائے جس طرح خوف خدا اور فکر آخرت پر دیا جاتا ہے۔ جب بھی دین میں اس قسم کی تبدیلی کی جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ملّت کے درمیان اختلاف پيدا هو جاتا ہے۔ کوئی ایک ضمنی چیز پر زور دیتا ہے تو کوئی دوسری ضمنی چیز پر، اور اس طرح ملت فرقے فرقے میں بٹ کر رہ جاتی ہے۔ اول الذکر سے ایک اللہ توجہ کا مرکز بنتا ہے اور ثانی الذکر سے متفرق مسائل توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ جب دین میں سارا زور وتاکید تقویٰ (اللہ سے ڈرنے) پر دیا جائے تو اس سے باہمی اتفاق وجود میںآتا ہے اور جب اس کے سوا دوسری چیزوں پر زور دیا جانے لگے تو اس سے باہمی اختلاف کی وہ برائی پیدا ہوتی ہے جو لوگوں کو جہنم کے کنارے پہنچا دیتی ہے۔ کسی گروہ کے اندر اختلاف دنیا میں بھی عذاب ہے اور آخرت میںبھی عذاب۔ اسلام سے پہلے مدینہ میں دو قبیلے تھے— اوس اور خزرج۔ یہ دونوں عرب قبیلے تھے مگر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔ ان باہمی لڑائیوں نے ان کو کمزور کردیا تھا۔ جب وہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوئے تو ان کی لڑائیاں ختم ہوگئیں، وہ بھائی بھائی کی طرح مل کر رہنے لگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غیر اسلام میں ہر آدمی اپنا وفادار رہتا ہے اور اسلام میں صرف ایک اللہ کا۔ جس سماج میں لوگ اپنے یا اپنے گروہ کے وفادار ہوں وہاں قدرتی طورپر کئی وفاداریاں وجود میں آتی ہیں۔ اور کئی وفاداریوں کے عملی نتیجہ ہی کا نام اختلاف اور ٹکراؤ ہے۔ اس کے برعکس، جس معاشرہ میں تمام لوگ ایک خدا کے وفادار بن جائیں وہاں سب کا رخ ایک مرکز کی طرف ہوجاتا ہے، سب ایک رسّی سے بندھ جاتے ہیں۔ اِس طرح باہمی اختلاف اور ٹکراؤ کے اسباب اپنے آپ ختم ہوجاتے ہیں۔

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

📘 ’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔

وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 ’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔

يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ

📘 ’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔

وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 ’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔

تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۗ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ

📘 ’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ

📘 ’’تم میں ایک گروہ ہو جو دعوت الی الخیر کا کام کرے اور نیکیوں کا حکم دے اور برائیوں سے روکے‘‘ یہ ارشاد بیک وقت دو باتوں کو بتارہا ہے۔ ایک کا تعلق خواص سے ہے اوردوسرے کا تعلق عوام سے۔ امت کے خواص کے اندر یہ روح ہونی چاہيے کہ وہ امت کے اندر برائی کو برداشت نہ کریں، وہ نیکی اور بھلائی کے لیے تڑپنے والے ہوں۔ ان کا یہ جذبۂ اصلاح انھیں مجبور کرے گا کہ وہ لوگوں کہ احوال سے غیر متعلق نہ رہیں، وہ اپنے بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلنے کے لیے اکسائیں اور انھیں برائی سے دور رہنے کی تلقین کریں۔ تاہم اس عمل کی کامیابی کے لیے امت کے عوام کے اندر اطاعت کا جذبہ ہونا بھی لازماً ضروری ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنے خواص کا احترام کریں۔ وہ ان کے کہنے سے چلیں اور جہاں وہ روکیں وہاں وہ رک جائیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے دینی ذمہ داروں کے حوالے کردیں۔ جس مسلم گروہ میں خواص اور عوام کا یہ حال ہو وہی فلاح پانے والا گروہ ہے۔ سمع وطاعت کی اس فضا ہی میں کسی معاشرہ کے اندر وہ اوصاف جنم لیتے ہیں جو اس کو دنیا میںطاقت ور اور آخرت میںنجات یافتہ بناتے ہیں۔ خواص کے اندر اس روح کے زندہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ ان کی ساری توجہ خیر، بالفاظ دیگر اساسات دین پر مرتکز رہتی ہے۔ فرعی اور جزئی مسائل میں موشگافیاں کرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ جو لوگ خدا کی عظمتوں کے نقیب بنیں اور آخرت کے منذراور مبشربن کر اٹھیں ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ ظاہری مسائل کی جزئیات میں اپنی مہارت دکھائیں۔ اس کے ساتھ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انھیں حقیقی مسائل کی اصلاح میں لگا دیتا ہے۔ فرضی اور قیاسی مسائل میں ذہنی ورزش کرنا انھیں اسی طرح بے معنی اور بے فائدہ معلوم ہونے لگتا ہے جس طرح ایک کسان کو شطرنج کا کھیل۔ عوام کو اس نظام اطاعت پر اپنے کو راضی کرنے کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بٹنے سے بچ جاتے ہیں۔ ایک حکم کے تحت چلنے کے نتیجے میں سب مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اتحاد واتفاق ان کی عام صفت بن جاتی ہے اور بلا شبہ اتحاد و اتفاق سے زیادہ بڑی طاقت اس دنیا میں کوئی نہیں۔

كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 غزوۂ احزاب (5 ھ) عرب قبائل اور یہود کی طرف سے مدینہ پر مشترک حملہ تھا۔ اس میں حملہ آوروں کی تعداد تقریباً 12 ہزارتھی۔ مسلمان اس عظیم فوج سے لڑنے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خصوصی تدبیروں کے ذریعے دشمنوں کو اس قدر خوف زدہ کیا کہ تقریباً ایک مہینہ کے محاصرہ کے بعد وہ خود مدینہ کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اس طرح کے سخت حالات اسلامی دعوت کے ساتھ اس ليے پیش آتے ہیں کہ مسلمانوں کے گروہ سے مخلصین اور غیر مخلصین کو الگ کردیں۔ اور دوسرے یہ کہ دشمن طاقتوں کو دکھا دیں کہ خدا اپنے دین کا خود حامی ہے۔ وہ کسی حال میں اس کو مغلوب ہونے نہیں دے گا۔

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ

📘 یہود دین خداوندی کے حامل بنائے گئے تھے۔ مگر وہ اس کو لے کر کھڑے نہ ہوسکے اور اس کو محفوظ رکھنے میں بھی ناکام رہے۔ اس کے بعد اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنا دین اس کی صحیح صورت میں بھیجا۔ اب امت مسلمہ لوگوں کے درمیان خدا کی رہنمائی کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ اس منصب کا تقاضا ہے کہ یہ امت اللہ کی سچی مومن بنے۔ وہ دنیا کو بھلائی کی تلقین کرے اور ان چیزوں سے باخبر کرے جو اللہ کے نزدیک برائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کام چونکہ خدائی کام ہے اس لیے خدا نے اس کے ساتھ اپنا تحفظاتی نظام بھی شامل کردیا ہے۔ جو لوگ اس کارِ خداوندی کے لیے اٹھیں گے ان کے لیے خدا کی ضمانت ہے کہ ان کے مخالفین ان کو معمولی اذیتوں کے سوا کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاہم یہود کے انجام کی صورت میں اس کی بھی دائمی مثال قائم کردی گئی کہ اس منصب حق پر سرفراز کيے جانے کے بعد جو لوگ بد عہدی کریں ان کی سزا اسی دنیا میں اس طرح شروع ہوجاتی ہے کہ ان کو ذاتی عزت وسرفرازی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ خدا کی رحمتوں سے محرومی کی وجہ سے ان کی بے حسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جو ان کی کوتاہیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اٹھیں۔ ’’یہود پر ذلّت مسلط کردی گئی إلاّ یہ کہ انھیں اللہ کی یا بندوں کی امان حاصل ہو‘‘۔ یہ اللہ کی ایک خصوصی سنت ہے جس کا تعلق اس قوم سے ہے جس کو خدا نے اپنے دین کا نمائندہ بنایا ہو۔ دین کی سچی نمائندگی ایسی قوم کے لیے غلبہ کی ضمانت ہوتی ہے۔ اور دین کی سچی نمائندگی سے ہٹنا اس کو موجودہ دنیا میں مغلوب کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی قوم اگر دین خدا کی نمائندگی سے ہٹ جائے تو موجودہ دنیا میں کبھی وہ ذاتی غلبہ حاصل نہیں کرسکتی۔ کسی درجہ میںاگر کبھی اس کو اختیار مل جائے تو وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کے بل پر ہوگا۔ یا تو اس ليے کہ اس کو کسی خدائی حکومت کی طرف سے امان دیاگیا ہے یا اس لیے کہ کسی غیر قوم کی حکومت نے اس کو اپنی حمایت وسرپرستی میںلے لیا ہے۔ کوئی قوم ذلّت کی اس سزا کی مستحق اس وقت بنتی ہے جب کہ اس کا یہ حال ہوجائے کہ وہ خدائی نشانيوں کا انکار کرنے لگے۔ نشانیوں کا انکار سچے دلائل کا انکار ہے۔ حق ہمیشہ دلائل کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص سچی دلیل کا انکار کرتا ہے، وہ خود خدا کا انکار کررہا ہے۔

لَنْ يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ۖ وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُّوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ

📘 یہود دین خداوندی کے حامل بنائے گئے تھے۔ مگر وہ اس کو لے کر کھڑے نہ ہوسکے اور اس کو محفوظ رکھنے میں بھی ناکام رہے۔ اس کے بعد اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنا دین اس کی صحیح صورت میں بھیجا۔ اب امت مسلمہ لوگوں کے درمیان خدا کی رہنمائی کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ اس منصب کا تقاضا ہے کہ یہ امت اللہ کی سچی مومن بنے۔ وہ دنیا کو بھلائی کی تلقین کرے اور ان چیزوں سے باخبر کرے جو اللہ کے نزدیک برائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کام چونکہ خدائی کام ہے اس لیے خدا نے اس کے ساتھ اپنا تحفظاتی نظام بھی شامل کردیا ہے۔ جو لوگ اس کارِ خداوندی کے لیے اٹھیں گے ان کے لیے خدا کی ضمانت ہے کہ ان کے مخالفین ان کو معمولی اذیتوں کے سوا کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاہم یہود کے انجام کی صورت میں اس کی بھی دائمی مثال قائم کردی گئی کہ اس منصب حق پر سرفراز کيے جانے کے بعد جو لوگ بد عہدی کریں ان کی سزا اسی دنیا میں اس طرح شروع ہوجاتی ہے کہ ان کو ذاتی عزت وسرفرازی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ خدا کی رحمتوں سے محرومی کی وجہ سے ان کی بے حسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جو ان کی کوتاہیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اٹھیں۔ ’’یہود پر ذلّت مسلط کردی گئی إلاّ یہ کہ انھیں اللہ کی یا بندوں کی امان حاصل ہو‘‘۔ یہ اللہ کی ایک خصوصی سنت ہے جس کا تعلق اس قوم سے ہے جس کو خدا نے اپنے دین کا نمائندہ بنایا ہو۔ دین کی سچی نمائندگی ایسی قوم کے لیے غلبہ کی ضمانت ہوتی ہے۔ اور دین کی سچی نمائندگی سے ہٹنا اس کو موجودہ دنیا میں مغلوب کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی قوم اگر دین خدا کی نمائندگی سے ہٹ جائے تو موجودہ دنیا میں کبھی وہ ذاتی غلبہ حاصل نہیں کرسکتی۔ کسی درجہ میںاگر کبھی اس کو اختیار مل جائے تو وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کے بل پر ہوگا۔ یا تو اس ليے کہ اس کو کسی خدائی حکومت کی طرف سے امان دیاگیا ہے یا اس لیے کہ کسی غیر قوم کی حکومت نے اس کو اپنی حمایت وسرپرستی میںلے لیا ہے۔ کوئی قوم ذلّت کی اس سزا کی مستحق اس وقت بنتی ہے جب کہ اس کا یہ حال ہوجائے کہ وہ خدائی نشانيوں کا انکار کرنے لگے۔ نشانیوں کا انکار سچے دلائل کا انکار ہے۔ حق ہمیشہ دلائل کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص سچی دلیل کا انکار کرتا ہے، وہ خود خدا کا انکار کررہا ہے۔

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُوا إِلَّا بِحَبْلٍ مِنَ اللَّهِ وَحَبْلٍ مِنَ النَّاسِ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ

📘 یہود دین خداوندی کے حامل بنائے گئے تھے۔ مگر وہ اس کو لے کر کھڑے نہ ہوسکے اور اس کو محفوظ رکھنے میں بھی ناکام رہے۔ اس کے بعد اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنا دین اس کی صحیح صورت میں بھیجا۔ اب امت مسلمہ لوگوں کے درمیان خدا کی رہنمائی کے لیے کھڑی ہوئی ہے۔ اس منصب کا تقاضا ہے کہ یہ امت اللہ کی سچی مومن بنے۔ وہ دنیا کو بھلائی کی تلقین کرے اور ان چیزوں سے باخبر کرے جو اللہ کے نزدیک برائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ کام چونکہ خدائی کام ہے اس لیے خدا نے اس کے ساتھ اپنا تحفظاتی نظام بھی شامل کردیا ہے۔ جو لوگ اس کارِ خداوندی کے لیے اٹھیں گے ان کے لیے خدا کی ضمانت ہے کہ ان کے مخالفین ان کو معمولی اذیتوں کے سوا کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔ تاہم یہود کے انجام کی صورت میں اس کی بھی دائمی مثال قائم کردی گئی کہ اس منصب حق پر سرفراز کيے جانے کے بعد جو لوگ بد عہدی کریں ان کی سزا اسی دنیا میں اس طرح شروع ہوجاتی ہے کہ ان کو ذاتی عزت وسرفرازی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ خدا کی رحمتوں سے محرومی کی وجہ سے ان کی بے حسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں جو ان کی کوتاہیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اٹھیں۔ ’’یہود پر ذلّت مسلط کردی گئی إلاّ یہ کہ انھیں اللہ کی یا بندوں کی امان حاصل ہو‘‘۔ یہ اللہ کی ایک خصوصی سنت ہے جس کا تعلق اس قوم سے ہے جس کو خدا نے اپنے دین کا نمائندہ بنایا ہو۔ دین کی سچی نمائندگی ایسی قوم کے لیے غلبہ کی ضمانت ہوتی ہے۔ اور دین کی سچی نمائندگی سے ہٹنا اس کو موجودہ دنیا میں مغلوب کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ ایسی قوم اگر دین خدا کی نمائندگی سے ہٹ جائے تو موجودہ دنیا میں کبھی وہ ذاتی غلبہ حاصل نہیں کرسکتی۔ کسی درجہ میںاگر کبھی اس کو اختیار مل جائے تو وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کے بل پر ہوگا۔ یا تو اس ليے کہ اس کو کسی خدائی حکومت کی طرف سے امان دیاگیا ہے یا اس لیے کہ کسی غیر قوم کی حکومت نے اس کو اپنی حمایت وسرپرستی میںلے لیا ہے۔ کوئی قوم ذلّت کی اس سزا کی مستحق اس وقت بنتی ہے جب کہ اس کا یہ حال ہوجائے کہ وہ خدائی نشانيوں کا انکار کرنے لگے۔ نشانیوں کا انکار سچے دلائل کا انکار ہے۔ حق ہمیشہ دلائل کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لیے جو شخص سچی دلیل کا انکار کرتا ہے، وہ خود خدا کا انکار کررہا ہے۔

۞ لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ

📘 نیکیوں میں سبقت (مسارعة فی الخیرات) سے مراد اس آیت میں مومنین اہلِ کتاب کا یہ عمل ہے کہ نبی آخر الزماں کی زبان سے جب خدائی سچائی کا اعلان ہوا تو انھوں نے فوراً اس کو پہچان لیا اور اس کی طرف عاجزانہ دوڑ پڑے۔ اس وقت ایک طرف دین موسیٰ تھا جو تاریخی عظمت اور روایتی تقدس کے زور پر قائم تھا۔ دوسری طرف دین محمد تھا جس کی پشت پر ابھی تک صرف دلیل کی طاقت تھی، تاریخی عظمت اور روایاتی تقدس کا وزن ابھی تک اس کے ساتھ شامل نہیں ہوا تھا۔ اپنے دین اور وقت کے نبی کے دین میں یہ فرق وقت کے نبی کے دین کو ماننے میں زبردست رکاوٹ تھا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بڑھ کر وقت کے نبی کے دین کو مان لیا۔ مال واولاد کی محبت آدمی کو قربانی والے دین پر آنے نہیں دیتی۔ البتہ نمائشی قسم کے اعمال کا مظاہرہ کرکے وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہے۔ مگر جس طرح سخت ٹھنڈی ہوا اچانک پوری کھیتی کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح قیامت کا طوفان ان کے نمائشی اعمال کو بے قیمت کرکے رکھ دے گا — یہود میں صرف چند لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ’’امت قائمہ‘‘ کی حیثیت سے ان کا مستقل ذکر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ چند آدمی اگر اللہ سے ڈرنے والے ہوں تو وہ بھیڑ کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ نجات کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کسی پیغمبر کے نام پر جو نسلی امت بن گئی ہے، آدمی اس امت میں شامل رہے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ عہد کا پابند بنے۔ عہد سے مراد ایمان ہے۔ ایمان بندے اور خدا کے درمیان ایک عہد ہے۔ ایمان لاکر بندہ اپنے آپ کو اس کا پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کا وفادار اور اطاعت گزار بنائے گا۔ بالفاظ دیگر، گروہی نسبت نہیں بلکہ ذاتی عمل وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو خدا کی رحمت اور بخشش کا مستحق بناتی ہے۔ اس عہد میں تمام ایمانی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تنہائیوں میں اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت گزاری، آخرت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنا، اپنے آس پاس جو افراد ہوں ان کو بھلائی پر لانے کی کوشش کرنا، جو افراد برائی کا ارتکاب کریں ان کو برائی سے ہٹانے میں پورا زور لگا دینا، خدا کی پسند کے کاموں میں دوڑ کر حصہ لینا۔ جو لوگ ایسا کریں وہی عہد ربانی پر پورے اترے۔ وہ خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ان کا عمل خدا کے علم میں ہے، وہ ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے گا اور فیصلہ کے دن ان کی پوری قدردانی فرمائے گا۔

يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 نیکیوں میں سبقت (مسارعة فی الخیرات) سے مراد اس آیت میں مومنین اہلِ کتاب کا یہ عمل ہے کہ نبی آخر الزماں کی زبان سے جب خدائی سچائی کا اعلان ہوا تو انھوں نے فوراً اس کو پہچان لیا اور اس کی طرف عاجزانہ دوڑ پڑے۔ اس وقت ایک طرف دین موسیٰ تھا جو تاریخی عظمت اور روایتی تقدس کے زور پر قائم تھا۔ دوسری طرف دین محمد تھا جس کی پشت پر ابھی تک صرف دلیل کی طاقت تھی، تاریخی عظمت اور روایاتی تقدس کا وزن ابھی تک اس کے ساتھ شامل نہیں ہوا تھا۔ اپنے دین اور وقت کے نبی کے دین میں یہ فرق وقت کے نبی کے دین کو ماننے میں زبردست رکاوٹ تھا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بڑھ کر وقت کے نبی کے دین کو مان لیا۔ مال واولاد کی محبت آدمی کو قربانی والے دین پر آنے نہیں دیتی۔ البتہ نمائشی قسم کے اعمال کا مظاہرہ کرکے وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہے۔ مگر جس طرح سخت ٹھنڈی ہوا اچانک پوری کھیتی کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح قیامت کا طوفان ان کے نمائشی اعمال کو بے قیمت کرکے رکھ دے گا — یہود میں صرف چند لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ’’امت قائمہ‘‘ کی حیثیت سے ان کا مستقل ذکر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ چند آدمی اگر اللہ سے ڈرنے والے ہوں تو وہ بھیڑ کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ نجات کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کسی پیغمبر کے نام پر جو نسلی امت بن گئی ہے، آدمی اس امت میں شامل رہے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ عہد کا پابند بنے۔ عہد سے مراد ایمان ہے۔ ایمان بندے اور خدا کے درمیان ایک عہد ہے۔ ایمان لاکر بندہ اپنے آپ کو اس کا پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کا وفادار اور اطاعت گزار بنائے گا۔ بالفاظ دیگر، گروہی نسبت نہیں بلکہ ذاتی عمل وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو خدا کی رحمت اور بخشش کا مستحق بناتی ہے۔ اس عہد میں تمام ایمانی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تنہائیوں میں اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت گزاری، آخرت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنا، اپنے آس پاس جو افراد ہوں ان کو بھلائی پر لانے کی کوشش کرنا، جو افراد برائی کا ارتکاب کریں ان کو برائی سے ہٹانے میں پورا زور لگا دینا، خدا کی پسند کے کاموں میں دوڑ کر حصہ لینا۔ جو لوگ ایسا کریں وہی عہد ربانی پر پورے اترے۔ وہ خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ان کا عمل خدا کے علم میں ہے، وہ ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے گا اور فیصلہ کے دن ان کی پوری قدردانی فرمائے گا۔

وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ

📘 نیکیوں میں سبقت (مسارعة فی الخیرات) سے مراد اس آیت میں مومنین اہلِ کتاب کا یہ عمل ہے کہ نبی آخر الزماں کی زبان سے جب خدائی سچائی کا اعلان ہوا تو انھوں نے فوراً اس کو پہچان لیا اور اس کی طرف عاجزانہ دوڑ پڑے۔ اس وقت ایک طرف دین موسیٰ تھا جو تاریخی عظمت اور روایتی تقدس کے زور پر قائم تھا۔ دوسری طرف دین محمد تھا جس کی پشت پر ابھی تک صرف دلیل کی طاقت تھی، تاریخی عظمت اور روایاتی تقدس کا وزن ابھی تک اس کے ساتھ شامل نہیں ہوا تھا۔ اپنے دین اور وقت کے نبی کے دین میں یہ فرق وقت کے نبی کے دین کو ماننے میں زبردست رکاوٹ تھا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بڑھ کر وقت کے نبی کے دین کو مان لیا۔ مال واولاد کی محبت آدمی کو قربانی والے دین پر آنے نہیں دیتی۔ البتہ نمائشی قسم کے اعمال کا مظاہرہ کرکے وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہے۔ مگر جس طرح سخت ٹھنڈی ہوا اچانک پوری کھیتی کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح قیامت کا طوفان ان کے نمائشی اعمال کو بے قیمت کرکے رکھ دے گا — یہود میں صرف چند لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ’’امت قائمہ‘‘ کی حیثیت سے ان کا مستقل ذکر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ چند آدمی اگر اللہ سے ڈرنے والے ہوں تو وہ بھیڑ کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ نجات کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کسی پیغمبر کے نام پر جو نسلی امت بن گئی ہے، آدمی اس امت میں شامل رہے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ عہد کا پابند بنے۔ عہد سے مراد ایمان ہے۔ ایمان بندے اور خدا کے درمیان ایک عہد ہے۔ ایمان لاکر بندہ اپنے آپ کو اس کا پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کا وفادار اور اطاعت گزار بنائے گا۔ بالفاظ دیگر، گروہی نسبت نہیں بلکہ ذاتی عمل وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو خدا کی رحمت اور بخشش کا مستحق بناتی ہے۔ اس عہد میں تمام ایمانی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تنہائیوں میں اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت گزاری، آخرت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنا، اپنے آس پاس جو افراد ہوں ان کو بھلائی پر لانے کی کوشش کرنا، جو افراد برائی کا ارتکاب کریں ان کو برائی سے ہٹانے میں پورا زور لگا دینا، خدا کی پسند کے کاموں میں دوڑ کر حصہ لینا۔ جو لوگ ایسا کریں وہی عہد ربانی پر پورے اترے۔ وہ خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ان کا عمل خدا کے علم میں ہے، وہ ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے گا اور فیصلہ کے دن ان کی پوری قدردانی فرمائے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۚ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 نیکیوں میں سبقت (مسارعة فی الخیرات) سے مراد اس آیت میں مومنین اہلِ کتاب کا یہ عمل ہے کہ نبی آخر الزماں کی زبان سے جب خدائی سچائی کا اعلان ہوا تو انھوں نے فوراً اس کو پہچان لیا اور اس کی طرف عاجزانہ دوڑ پڑے۔ اس وقت ایک طرف دین موسیٰ تھا جو تاریخی عظمت اور روایتی تقدس کے زور پر قائم تھا۔ دوسری طرف دین محمد تھا جس کی پشت پر ابھی تک صرف دلیل کی طاقت تھی، تاریخی عظمت اور روایاتی تقدس کا وزن ابھی تک اس کے ساتھ شامل نہیں ہوا تھا۔ اپنے دین اور وقت کے نبی کے دین میں یہ فرق وقت کے نبی کے دین کو ماننے میں زبردست رکاوٹ تھا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بڑھ کر وقت کے نبی کے دین کو مان لیا۔ مال واولاد کی محبت آدمی کو قربانی والے دین پر آنے نہیں دیتی۔ البتہ نمائشی قسم کے اعمال کا مظاہرہ کرکے وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہے۔ مگر جس طرح سخت ٹھنڈی ہوا اچانک پوری کھیتی کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح قیامت کا طوفان ان کے نمائشی اعمال کو بے قیمت کرکے رکھ دے گا — یہود میں صرف چند لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ’’امت قائمہ‘‘ کی حیثیت سے ان کا مستقل ذکر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ چند آدمی اگر اللہ سے ڈرنے والے ہوں تو وہ بھیڑ کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ نجات کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کسی پیغمبر کے نام پر جو نسلی امت بن گئی ہے، آدمی اس امت میں شامل رہے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ عہد کا پابند بنے۔ عہد سے مراد ایمان ہے۔ ایمان بندے اور خدا کے درمیان ایک عہد ہے۔ ایمان لاکر بندہ اپنے آپ کو اس کا پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کا وفادار اور اطاعت گزار بنائے گا۔ بالفاظ دیگر، گروہی نسبت نہیں بلکہ ذاتی عمل وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو خدا کی رحمت اور بخشش کا مستحق بناتی ہے۔ اس عہد میں تمام ایمانی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تنہائیوں میں اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت گزاری، آخرت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنا، اپنے آس پاس جو افراد ہوں ان کو بھلائی پر لانے کی کوشش کرنا، جو افراد برائی کا ارتکاب کریں ان کو برائی سے ہٹانے میں پورا زور لگا دینا، خدا کی پسند کے کاموں میں دوڑ کر حصہ لینا۔ جو لوگ ایسا کریں وہی عہد ربانی پر پورے اترے۔ وہ خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ان کا عمل خدا کے علم میں ہے، وہ ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے گا اور فیصلہ کے دن ان کی پوری قدردانی فرمائے گا۔

مَثَلُ مَا يُنْفِقُونَ فِي هَٰذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَثَلِ رِيحٍ فِيهَا صِرٌّ أَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَأَهْلَكَتْهُ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 نیکیوں میں سبقت (مسارعة فی الخیرات) سے مراد اس آیت میں مومنین اہلِ کتاب کا یہ عمل ہے کہ نبی آخر الزماں کی زبان سے جب خدائی سچائی کا اعلان ہوا تو انھوں نے فوراً اس کو پہچان لیا اور اس کی طرف عاجزانہ دوڑ پڑے۔ اس وقت ایک طرف دین موسیٰ تھا جو تاریخی عظمت اور روایتی تقدس کے زور پر قائم تھا۔ دوسری طرف دین محمد تھا جس کی پشت پر ابھی تک صرف دلیل کی طاقت تھی، تاریخی عظمت اور روایاتی تقدس کا وزن ابھی تک اس کے ساتھ شامل نہیں ہوا تھا۔ اپنے دین اور وقت کے نبی کے دین میں یہ فرق وقت کے نبی کے دین کو ماننے میں زبردست رکاوٹ تھا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو عبور کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بڑھ کر وقت کے نبی کے دین کو مان لیا۔ مال واولاد کی محبت آدمی کو قربانی والے دین پر آنے نہیں دیتی۔ البتہ نمائشی قسم کے اعمال کا مظاہرہ کرکے وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے دین پر قائم ہے۔ مگر جس طرح سخت ٹھنڈی ہوا اچانک پوری کھیتی کو برباد کردیتی ہے، اسی طرح قیامت کا طوفان ان کے نمائشی اعمال کو بے قیمت کرکے رکھ دے گا — یہود میں صرف چند لوگ تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ ’’امت قائمہ‘‘ کی حیثیت سے ان کا مستقل ذکر کرنا ظاہر کرتا ہے کہ چند آدمی اگر اللہ سے ڈرنے والے ہوں تو وہ بھیڑ کے مقابلہ میں اللہ کی نظر میں زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ نجات کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ کسی پیغمبر کے نام پر جو نسلی امت بن گئی ہے، آدمی اس امت میں شامل رہے۔ بلکہ اصل ضرورت یہ ہے کہ وہ عہد کا پابند بنے۔ عہد سے مراد ایمان ہے۔ ایمان بندے اور خدا کے درمیان ایک عہد ہے۔ ایمان لاکر بندہ اپنے آپ کو اس کا پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کا وفادار اور اطاعت گزار بنائے گا۔ بالفاظ دیگر، گروہی نسبت نہیں بلکہ ذاتی عمل وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو خدا کی رحمت اور بخشش کا مستحق بناتی ہے۔ اس عہد میں تمام ایمانی ذمہ داریاں شامل ہیں۔ تنہائیوں میں اللہ کی یاد، اللہ کی عبادت گزاری، آخرت کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنا، اپنے آس پاس جو افراد ہوں ان کو بھلائی پر لانے کی کوشش کرنا، جو افراد برائی کا ارتکاب کریں ان کو برائی سے ہٹانے میں پورا زور لگا دینا، خدا کی پسند کے کاموں میں دوڑ کر حصہ لینا۔ جو لوگ ایسا کریں وہی عہد ربانی پر پورے اترے۔ وہ خدا کے مقبول بندے ہیں۔ ان کا عمل خدا کے علم میں ہے، وہ ان کو ان کے عمل کا بدلہ دے گا اور فیصلہ کے دن ان کی پوری قدردانی فرمائے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ ۚ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ

📘 مسلمان اسی خدائی دین پر ایمان لائے تھے جو سابق اہل کتاب (یہود) کو اپنے نبیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ دونوں کا دین اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک تھا۔ مگر یہود مسلمانوں کے اس قدر دشمن ہوگئے کہ مسلمان اپنی ساری خصوصیات کے باوجود ان کے نزدیک ایک کلمۂ خیر کے بھی حق دار نہ تھے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے۔ گویا وہ ان کو انسانی ہمدردی کا مستحق بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہود نے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف منسوب کرکے ایک خود ساختہ دین بنا رکھا تھا اور اس کے بل پر عوام میں قیادت کا مقام حاصل کيے ہوئے تھے۔ خدا کے دین میں ساری توجہ خدا کی طرف رہتی ہے۔ جب کہ خود ساختہ دین میں لوگوں کی توجہ ان افراد کی طرف لگ جاتی ہے جو اس خود ساختہ دین کے خالق اور شارح ہوں۔ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ وہ ان کو ان کے مقام عظمت سے ہٹا رہی ہے۔ جب ایسی صورت پیش آئے تو اللہ کے سچے بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ منفی رد عمل سے بچیں اور مکمل طورپر صبر وتقویٰ پر قائم رہیں۔ صبر کا مطلب ہے ہر حال میں اپنے آپ کو حق کا پابند رکھنا، اور تقویٰ یہ ہے کہ فیصلہ کن طاقت صرف اللہ کو سمجھا جائے، نہ کہ کسی اور کو۔ مسلمان اگر اس قسم کے مثبت رویہ کا ثبوت دیں تو کسی کی دشمنی ان کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچائے گی خواہ دشمن مقدار میں کتنے ہی زیادہ ہوں۔ تاہم اس کے ساتھ مسلمانوں کو حقیقت پسند بھی بننا چاہیے۔ ان کو اپنے دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا چاہیے تاکہ کوئی ان کی صاف دلی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔ مسلمانوں کے دل میں یہود کے لیے محبت ہونا اور یہود کے دل میں مسلمانوں کے لیے محبت نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں میں سے کون حق پر ہے، اور کون ناحق پر۔ اللہ سراپا رحم اور عدل ہے۔ وہ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے۔ اس لیے جو شخص حقیقی طورپر اللہ کو پالیتا ہے اس کا سینہ تمام خدا کے بندوں کے لیے کھل جاتا ہے۔ اس کے لیے تمام انسان یکساں طور پر اللہ کی عیال بن جاتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے وہی چاہنے لگتا ہے، جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ مگر جو لوگ اللہ کو حقیقی طورپر پائے ہوئے نہ ہوں جنھوں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں نہ ملایا ہو وہ صرف اپنی ذات کی سطح پر جیتے ہیں۔ ان کا سرمایۂ حیات اپنے فائدے اور اپنے گروہی تعصبات ہوتے ہیں۔ ان کا یہ مزاج ان کو ایسے لوگوں کا دشمن بنا دیتا ہے جو ان کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آئیں، جو ان کے اپنے گروہ میں شامل نہ ہوں۔ خدا کو مانتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ یہاں کسی کی کوئی تدبیر اللہ کی مشیّت کے بغیر مؤثر نہیں ہوسکتی۔

هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ وَتُؤْمِنُونَ بِالْكِتَابِ كُلِّهِ وَإِذَا لَقُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا عَضُّوا عَلَيْكُمُ الْأَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۚ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 مسلمان اسی خدائی دین پر ایمان لائے تھے جو سابق اہل کتاب (یہود) کو اپنے نبیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ دونوں کا دین اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک تھا۔ مگر یہود مسلمانوں کے اس قدر دشمن ہوگئے کہ مسلمان اپنی ساری خصوصیات کے باوجود ان کے نزدیک ایک کلمۂ خیر کے بھی حق دار نہ تھے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے۔ گویا وہ ان کو انسانی ہمدردی کا مستحق بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہود نے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف منسوب کرکے ایک خود ساختہ دین بنا رکھا تھا اور اس کے بل پر عوام میں قیادت کا مقام حاصل کيے ہوئے تھے۔ خدا کے دین میں ساری توجہ خدا کی طرف رہتی ہے۔ جب کہ خود ساختہ دین میں لوگوں کی توجہ ان افراد کی طرف لگ جاتی ہے جو اس خود ساختہ دین کے خالق اور شارح ہوں۔ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ وہ ان کو ان کے مقام عظمت سے ہٹا رہی ہے۔ جب ایسی صورت پیش آئے تو اللہ کے سچے بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ منفی رد عمل سے بچیں اور مکمل طورپر صبر وتقویٰ پر قائم رہیں۔ صبر کا مطلب ہے ہر حال میں اپنے آپ کو حق کا پابند رکھنا، اور تقویٰ یہ ہے کہ فیصلہ کن طاقت صرف اللہ کو سمجھا جائے، نہ کہ کسی اور کو۔ مسلمان اگر اس قسم کے مثبت رویہ کا ثبوت دیں تو کسی کی دشمنی ان کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچائے گی خواہ دشمن مقدار میں کتنے ہی زیادہ ہوں۔ تاہم اس کے ساتھ مسلمانوں کو حقیقت پسند بھی بننا چاہیے۔ ان کو اپنے دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا چاہیے تاکہ کوئی ان کی صاف دلی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔ مسلمانوں کے دل میں یہود کے لیے محبت ہونا اور یہود کے دل میں مسلمانوں کے لیے محبت نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں میں سے کون حق پر ہے، اور کون ناحق پر۔ اللہ سراپا رحم اور عدل ہے۔ وہ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے۔ اس لیے جو شخص حقیقی طورپر اللہ کو پالیتا ہے اس کا سینہ تمام خدا کے بندوں کے لیے کھل جاتا ہے۔ اس کے لیے تمام انسان یکساں طور پر اللہ کی عیال بن جاتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے وہی چاہنے لگتا ہے، جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ مگر جو لوگ اللہ کو حقیقی طورپر پائے ہوئے نہ ہوں جنھوں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں نہ ملایا ہو وہ صرف اپنی ذات کی سطح پر جیتے ہیں۔ ان کا سرمایۂ حیات اپنے فائدے اور اپنے گروہی تعصبات ہوتے ہیں۔ ان کا یہ مزاج ان کو ایسے لوگوں کا دشمن بنا دیتا ہے جو ان کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آئیں، جو ان کے اپنے گروہ میں شامل نہ ہوں۔ خدا کو مانتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ یہاں کسی کی کوئی تدبیر اللہ کی مشیّت کے بغیر مؤثر نہیں ہوسکتی۔

قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَىٰ جَهَنَّمَ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ

📘 حق کی دعوت جب بھی اٹھتی ہے تو وہ لوگوں کو ایک غیر اہم آواز معلوم ہوتی ہے۔ ایک طرف وقت کا ماحول ہوتا ہے جس کے قبضہ میں ہر قسم کے مادی وسائل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف حق کا قافلہ ہوتا ہے جس کو ابھی ماحول میں کوئی جماؤ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ مادی مفادات وابستہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں حق کی طرف بڑھنا ماحول سے کٹنے اور مفادات سے محروم ہونے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مفادات کو بچانے کی خاطر حق کو نہیں مانتا۔ اپنے ساتھیوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر ایک تنہا داعی کی صف میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مگر یہ چیزیں جو انسان کو آج اہم نظر آتی ہیں وہ فیصلہ کے دن کسی کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ ان چیزوں کي جو کچھ اہمیت ہے صرف اس وقت تک ہے جب کہ معاملہ انسان اور انسان کے درمیان ہے۔ جب قیامت کا پردہ پھٹے گا اور معاملہ انسان اور خدا کے درمیان ہوجائے گا تو یہ چیزیں اتنی بے قیمت ہوجائیں گی جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ داعی اس دنیا میں بظاہر بے زور دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں وہی زور والا ہے۔ کیوں کہ اس کے پیچھے خدا ہے۔ منکر بظاہر اس دنیا میں طاقت ور دکھائی دیتا ہے۔ مگر وہ بالکل بے طاقت ہے۔ کیوں کہ اس کی طاقت ایک وقتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نبوت کے چودھویں سال بدر کا معرکہ آخرت میں ہونے والے واقعہ کا ایک دنیوی نمونہ تھا۔ حق کا انکار کرنے والے تعداد اور طاقت میں بہت زیادہ تھے اور حق کو ماننے والے تعداد اور طاقت میں بہت کم تھے۔ اس کے باوجود منکرین کو غیر معمولی شکست ہوئی اور حق کے پیروؤں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ اللہ ہمیشہ حق کے پیروؤں کی جانب ہوتا ہے۔ اتنے غیر معمولی فرق کے باوجود اتنی غیر معمولی فتح اللہ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یہ خدا کی طرف سے اس بات کا ایک مظاہرہ ہے کہ حق اس عالم میں تنہا نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ منکرین کے لیے وہ ایک ظاہری دلیل بھی ہے جس میں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس دنیا میں وہ کتنے بے جگہ ہیں۔ داعیٔ حق کے کلام اور اس کی زندگی میں کھلی ہوئی علامتیں ہوتی ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ مگرجو سرکش لوگ ہیں وہ اس کو رد کرنے کے لیے الفاظ کی ایک پناہ گاہ بنا لیتے ہیں۔ وہ جھوٹی توجیہات میں جیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آخرت کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں، جهاں انھيں يه پتا چل جائے گا کہ وہ جن الفاظ کا سہارا ليے ہوئے تھے وہ حقیقت کے اعتبار سے کس قدر بے معنی تھے۔

إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ

📘 مسلمان اسی خدائی دین پر ایمان لائے تھے جو سابق اہل کتاب (یہود) کو اپنے نبیوں کے ذریعہ ملا تھا۔ دونوں کا دین اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے ایک تھا۔ مگر یہود مسلمانوں کے اس قدر دشمن ہوگئے کہ مسلمان اپنی ساری خصوصیات کے باوجود ان کے نزدیک ایک کلمۂ خیر کے بھی حق دار نہ تھے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو اگر کوئی تکلیف پہنچ جاتی تو وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے۔ گویا وہ ان کو انسانی ہمدردی کا مستحق بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہود نے انبیاء بنی اسرائیل کی طرف منسوب کرکے ایک خود ساختہ دین بنا رکھا تھا اور اس کے بل پر عوام میں قیادت کا مقام حاصل کيے ہوئے تھے۔ خدا کے دین میں ساری توجہ خدا کی طرف رہتی ہے۔ جب کہ خود ساختہ دین میں لوگوں کی توجہ ان افراد کی طرف لگ جاتی ہے جو اس خود ساختہ دین کے خالق اور شارح ہوں۔ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ وہ ان کو ان کے مقام عظمت سے ہٹا رہی ہے۔ جب ایسی صورت پیش آئے تو اللہ کے سچے بندوں کا کام یہ ہے کہ وہ منفی رد عمل سے بچیں اور مکمل طورپر صبر وتقویٰ پر قائم رہیں۔ صبر کا مطلب ہے ہر حال میں اپنے آپ کو حق کا پابند رکھنا، اور تقویٰ یہ ہے کہ فیصلہ کن طاقت صرف اللہ کو سمجھا جائے، نہ کہ کسی اور کو۔ مسلمان اگر اس قسم کے مثبت رویہ کا ثبوت دیں تو کسی کی دشمنی ان کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچائے گی خواہ دشمن مقدار میں کتنے ہی زیادہ ہوں۔ تاہم اس کے ساتھ مسلمانوں کو حقیقت پسند بھی بننا چاہیے۔ ان کو اپنے دوست اور دشمن کے درمیان تمیز کرنا چاہیے تاکہ کوئی ان کی صاف دلی کا ناجائز فائدہ نہ اٹھاسکے۔ مسلمانوں کے دل میں یہود کے لیے محبت ہونا اور یہود کے دل میں مسلمانوں کے لیے محبت نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دونوں میں سے کون حق پر ہے، اور کون ناحق پر۔ اللہ سراپا رحم اور عدل ہے۔ وہ تمام انسانوں کا خالق ومالک ہے۔ اس لیے جو شخص حقیقی طورپر اللہ کو پالیتا ہے اس کا سینہ تمام خدا کے بندوں کے لیے کھل جاتا ہے۔ اس کے لیے تمام انسان یکساں طور پر اللہ کی عیال بن جاتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے وہی چاہنے لگتا ہے، جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ مگر جو لوگ اللہ کو حقیقی طورپر پائے ہوئے نہ ہوں جنھوں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں نہ ملایا ہو وہ صرف اپنی ذات کی سطح پر جیتے ہیں۔ ان کا سرمایۂ حیات اپنے فائدے اور اپنے گروہی تعصبات ہوتے ہیں۔ ان کا یہ مزاج ان کو ایسے لوگوں کا دشمن بنا دیتا ہے جو ان کو اپنے مفاد کے خلاف نظر آئیں، جو ان کے اپنے گروہ میں شامل نہ ہوں۔ خدا کو مانتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ یہاں کسی کی کوئی تدبیر اللہ کی مشیّت کے بغیر مؤثر نہیں ہوسکتی۔

وَإِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

إِذْ هَمَّتْ طَائِفَتَانِ مِنْكُمْ أَنْ تَفْشَلَا وَاللَّهُ وَلِيُّهُمَا ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُنْزَلِينَ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

بَلَىٰ ۚ إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هَٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلَافٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُسَوِّمِينَ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ لَكُمْ وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوبُكُمْ بِهِ ۗ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

لِيَقْطَعَ طَرَفًا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَوْ يَكْبِتَهُمْ فَيَنْقَلِبُوا خَائِبِينَ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 یہ آیتیں جنگ احد (۳ ھ) کے بعد نازل ہوئیں۔ احد کی جنگ میں دشمنوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ مسلمانوں کی طرف سے ایک ہزار آدمی مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔ مگر راستہ میں عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ اس واقعہ سے کچھ انصاری مسلمانوںمیں پست ہمتی پیدا ہوئی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ ہم اپنے بھروسہ پر نہیں بلکہ اللہ کے بھروسہ پر نکلے ہیں تو اللہ نے اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان مسلمانوں کے سینے کھول ديے۔ مومن کے اندر اگر حالات کی شدت سے وقتی کمزوری پیدا ہوجائے تو ایسے وقت میں اللہ اس کو تنہا چھوڑنہیں دیتا بلکہ اس کا مدد گار بن کر دوبارہ اس کو ایمان کی حالت پر جما دیتا ہے۔ اللہ کی یہی مدد اجتماعی سطح پر اس طرح ہوئی کہ احد کی لڑائی میں مسلمانوں کی ایک کمزوری سے فائدہ اٹھا کر دشمن ان کے اوپر غالب آگئے اب دشمن فوج کے لیے پورا موقع تھا کہ وہ شکست کے بعد مسلمانوں کی طاقت کو پوری طرح کچل ڈالے۔ مگر فوجی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ دشمن فوج فتح کے باوجود میدان جنگ کو چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ اللہ کی خصوصی مدد تھی کہ اس نے دشمن کے رخ کو ’’مدینہ‘‘ کے بجائے ’’مکہ‘‘ کی طرف موڑ دیا۔ حتی کہ جو مغلوب تھے انھوں نے غالب آنے والوں کا پیچھا کیا۔ مومن کا مزاج یہ ہونا چاہیے کہ وہ تعداد یا اسباب کی کمی سے نہ گھبرائے۔ تعداد کم ہو تو یقین کرے کہ اللہ اپنے فرشتوں کو بھیج کر بھی تعداد کی کمی پوری کردے گا۔ سامان کم ہو تو وہ بھروسہ رکھے کہ اللہ اپنی طرف سے ایسی صورتیں پیدا کرے گا جو اس کے لیے سامان کی کمی کی تلافی بن جائے۔ کامیابی کا دارومدار مادی اسباب پر نہیں بلکہ صبر اور تقویٰ پر ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور اللہ پر بھروسہ رکھیں ان کے حق میں اللہ کی مدد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، ان کے مخالفین کے ایک حصہ کو کاٹ لینا۔ دوسرے، مخالفین کو شکست دے کر انھیں مغلوب کرنا۔ پہلی کامیابی دعوت کی راہ سے آتی ہے۔ فریقِ مخالف کے جن افراد میں اللہ کچھ زندگی پاتا ہے ان کے اوپر دین کی حقانیت کو روشن کردیتاہے۔ وہ باطل کی صف کو چھوڑ کر حق کی صف میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس طرح وه فریقِ مخالف کی کمزوری اور اہلِ ایمان کی قوت کا باعث بنتے ہیں۔ دوسری صورت میں اللہ اہلِ ایمان کو قوت اور حوصلہ دیتا ہے اور ان کی خصوصی مدد کرکے ان کو فریقِ مخالف پر غالب کردیتا ہے۔

قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۖ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَىٰ كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ ۚ وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ

📘 حق کی دعوت جب بھی اٹھتی ہے تو وہ لوگوں کو ایک غیر اہم آواز معلوم ہوتی ہے۔ ایک طرف وقت کا ماحول ہوتا ہے جس کے قبضہ میں ہر قسم کے مادی وسائل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف حق کا قافلہ ہوتا ہے جس کو ابھی ماحول میں کوئی جماؤ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ مادی مفادات وابستہ نہیں ہوتے۔ ان حالات میں حق کی طرف بڑھنا ماحول سے کٹنے اور مفادات سے محروم ہونے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مفادات کو بچانے کی خاطر حق کو نہیں مانتا۔ اپنے ساتھیوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر ایک تنہا داعی کی صف میں آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ مگر یہ چیزیں جو انسان کو آج اہم نظر آتی ہیں وہ فیصلہ کے دن کسی کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ ان چیزوں کي جو کچھ اہمیت ہے صرف اس وقت تک ہے جب کہ معاملہ انسان اور انسان کے درمیان ہے۔ جب قیامت کا پردہ پھٹے گا اور معاملہ انسان اور خدا کے درمیان ہوجائے گا تو یہ چیزیں اتنی بے قیمت ہوجائیں گی جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔ داعی اس دنیا میں بظاہر بے زور دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت میں وہی زور والا ہے۔ کیوں کہ اس کے پیچھے خدا ہے۔ منکر بظاہر اس دنیا میں طاقت ور دکھائی دیتا ہے۔ مگر وہ بالکل بے طاقت ہے۔ کیوں کہ اس کی طاقت ایک وقتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ نبوت کے چودھویں سال بدر کا معرکہ آخرت میں ہونے والے واقعہ کا ایک دنیوی نمونہ تھا۔ حق کا انکار کرنے والے تعداد اور طاقت میں بہت زیادہ تھے اور حق کو ماننے والے تعداد اور طاقت میں بہت کم تھے۔ اس کے باوجود منکرین کو غیر معمولی شکست ہوئی اور حق کے پیروؤں کو فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی۔ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ اللہ ہمیشہ حق کے پیروؤں کی جانب ہوتا ہے۔ اتنے غیر معمولی فرق کے باوجود اتنی غیر معمولی فتح اللہ کی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ یہ خدا کی طرف سے اس بات کا ایک مظاہرہ ہے کہ حق اس عالم میں تنہا نہیں ہے۔ اسی کے ساتھ منکرین کے لیے وہ ایک ظاہری دلیل بھی ہے جس میں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ خدا کی اس دنیا میں وہ کتنے بے جگہ ہیں۔ داعیٔ حق کے کلام اور اس کی زندگی میں کھلی ہوئی علامتیں ہوتی ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ مگرجو سرکش لوگ ہیں وہ اس کو رد کرنے کے لیے الفاظ کی ایک پناہ گاہ بنا لیتے ہیں۔ وہ جھوٹی توجیہات میں جیتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ آخرت کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں، جهاں انھيں يه پتا چل جائے گا کہ وہ جن الفاظ کا سہارا ليے ہوئے تھے وہ حقیقت کے اعتبار سے کس قدر بے معنی تھے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

۞ وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِكُمْ سُنَنٌ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

هَٰذَا بَيَانٌ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ

📘 سودی کاروبار زرپرستی کی آخری بدترین شکل ہے۔ جو شخص زرپرستی میں مبتلا ہو وہ رات دن اس فکر میں رہتا ہے کہ کس طرح اس کا مال دونا اور چوگنا ہو۔ وہ دنیا کامال حاصل کرنے کی طرف دوڑ نے لگتا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کی جنت کی طرف دوڑے اور اللہ کی رحمت ونصرت کا زیادہ سے زیادہ حریص ہو۔ آدمی اپنا مال اس لیے بڑھانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کو عزت حاصل ہو، دنیامیں اس کے لیے شان دار زندگی کی ضمانت ہوجائے۔ مگر موجودہ دنیا کی عزت وکامیابی کی کوئی حقیقت نہیں۔ اصل اہمیت کی چیز جنت ہے جس کی خوشیاں اور لذّتیں بے حساب ہیں۔ عقلمند وہ ہے جو اس جنت کی طرف دوڑے۔ جنت کی طرف دوڑنا یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں دے۔ دنیوی کامیابی کا ذریعہ مال کو ’’بڑھانا‘‘ ہے اور اخروی کامیابی کو حاصل کرنے کا ذریعہ مال کو ’’گھٹانا‘‘ — پہلی قسم کے لوگوں کا سرمایہ اگر مال کی محبت ہے تو دوسرے لوگوں کا سرمایہ اللہ اور رسول کی محبت۔ پہلی قسم کے لوگوں کو اگر دنیا کے نفع کا شوق ہوتا ہے تو دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نفع كا۔ پہلی قسم کے لوگوں کو دنیا کے نقصان کا ڈر لگا رہتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو آخرت کے نقصان کا۔ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے اندر ’’احسان‘‘ کا مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ یعنی جو کام کریں اس طرح کریں کہ وہ اللہ کی نظر میں زیادہ سے زیادہ پسندیدہ قرار پائے۔ وہ آزاد زندگی کے بجائے پابند زندگی گزارتے ہیں۔ خدا کے دین کی ضرورت کو وہ اپنی ضرورت بنا لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، خواہ ان کے پاس کم ہو یا زیادہ۔ ان کو جب کسی پر غصہ آجائے تو وہ اس کو اندر ہی اندر برداشت کرلیتے ہیں۔ کسی سے شکایت ہو تو اس سے بدلہ لینے کے بجائے اس کو معاف کردیتے ہیں۔ غلطیاں ان سے بھی ہوتی ہیں مگر وہ وقتی ہوتی ہیں۔ غلطی کے بعد وہ فوراً چونک پڑتے ہیں اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ وہ بیتاب ہو کر اللہ کو پکارنے لگتے ہیں کہ وہ ان کو معاف کردے اور ان كي غلطيوں پر اپنی رحمتوں کا پردہ ڈال دے۔ قرآن میں جو بات لفظی طورپر بتائی گئی ہے وہ تاریخ میں عمل کی زبان میں موجود ہے۔ مگر نصیحت وہی پکڑتے ہیں جو نصیحت کی طلب رکھتے ہوں۔

وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میںان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے۔ مگر یہ مقام محض لفظی اقرار سے نہیں مل جاتا اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر اور جہاد کی سطح پر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دے۔ مومن خواہ اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم کرے یا وہ دوسروں کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہرحال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر ہے۔ جو لوگ اس جہاد اورصبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سر بلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور ’’صبر‘‘ اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میںایک بیج کا بار آور ہونا۔ ایک شخص اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیامیں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرارِ ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوائے ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کر کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلات آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان ومال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعدہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے، نہ کہ کوئی سرسری معاملہ۔

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الْمَآبِ

📘 خدا کی رحمت ہدایت اس طرح تقسیم نہیں ہوتی کہ جس شخص کو دنیوی عظمت ملی ہوئی ہو اسی کو خدا کی ہدایت بھی دے دی جائے۔ اگر دنیوی عظمت لوگوں کو خدا کے یہاں عظیم بنانے والی ہوتی تو ایسے لوگوں کےلیے ممکن ہوتاکہ وہ جس شخص کو چاہیں خدا کی رحمت پہنچائیں اور جس سے چاہیں اسے روک دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا اپنی رحمت کی تقسیم خود اپنے معیار پر کرتاہے، نہ کہ ظاہر پرست انسانوں کے بنائے ہوئے معیار پر۔ پیغمبر کا انکار کرنے والے کہتے کہ جس خدائی عذاب سے تم ہم کو ڈرارہے ہو اس خدائی عذاب کو لے آؤ۔ یہ جرأت ان کے اندر اس ليے پیدا ہوتی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر خدا کا عذاب آنے والا ہی نہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ جن بتوں کے بل پر تم اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہو، اسی قسم کے بتوں کے بل پر پچھلی قوموں نے بھی اپنے کو محفوظ سمجھا اور اپنے رسولوں کے ساتھ سرکشی کی۔ مگر وہ سب کی سب ہلاک کردی گئیں۔ پھر تم آخر کس طرح بچ جاؤ گے۔

إِنْ يَمْسَسْكُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِثْلُهُ ۚ وَتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاءَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

📘 ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میںان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے۔ مگر یہ مقام محض لفظی اقرار سے نہیں مل جاتا اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر اور جہاد کی سطح پر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دے۔ مومن خواہ اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم کرے یا وہ دوسروں کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہرحال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر ہے۔ جو لوگ اس جہاد اورصبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سر بلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور ’’صبر‘‘ اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میںایک بیج کا بار آور ہونا۔ ایک شخص اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیامیں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرارِ ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوائے ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کر کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلات آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان ومال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعدہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے، نہ کہ کوئی سرسری معاملہ۔

وَلِيُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ

📘 ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میںان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے۔ مگر یہ مقام محض لفظی اقرار سے نہیں مل جاتا اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر اور جہاد کی سطح پر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دے۔ مومن خواہ اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم کرے یا وہ دوسروں کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہرحال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر ہے۔ جو لوگ اس جہاد اورصبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سر بلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور ’’صبر‘‘ اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میںایک بیج کا بار آور ہونا۔ ایک شخص اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیامیں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرارِ ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوائے ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کر کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلات آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان ومال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعدہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے، نہ کہ کوئی سرسری معاملہ۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ

📘 ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میںان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے۔ مگر یہ مقام محض لفظی اقرار سے نہیں مل جاتا اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر اور جہاد کی سطح پر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دے۔ مومن خواہ اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم کرے یا وہ دوسروں کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہرحال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر ہے۔ جو لوگ اس جہاد اورصبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سر بلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور ’’صبر‘‘ اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میںایک بیج کا بار آور ہونا۔ ایک شخص اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیامیں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرارِ ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوائے ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کر کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلات آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان ومال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعدہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے، نہ کہ کوئی سرسری معاملہ۔

وَلَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ فَقَدْ رَأَيْتُمُوهُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ

📘 ایمان لانا گویا اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کا اقرار کرنا ہے۔ جو لوگ اس طرح مومن بنیں ان کے لیے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو دنیا میں غلبہ اور آخرت میں جنت دے گا اور ان کو یہ اہم ترین اعزاز عطا کرے گا کہ جن لوگوں نے دنیا میںان کو رد کردیا تھا ان کے اوپر ان کو اپنی عدالت میں گواہ بنائے اور ان کی گواہی کی بنیاد پر ان کے مستقل انجام کا فیصلہ کرے۔ مگر یہ مقام محض لفظی اقرار سے نہیں مل جاتا اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی صبر اور جہاد کی سطح پر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دے۔ مومن خواہ اپنی ذاتی زندگی کو ایمان واسلام پر قائم کرے یا وہ دوسروں کے سامنے خدا کے دین کا گواہ بن کر کھڑا ہو، ہرحال میں اس کو دوسروں کی طرف سے مشکلات اور رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ان مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کرنا جہاد ہے، اور ہر حال میں اپنے اقرار پر جمے رہنے کا نام صبر ہے۔ جو لوگ اس جہاد اورصبر کا ثبوت دیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کی آباد کاری کے قابل ٹھہرے۔ نیز اسی سے دنیا کی سر بلندی کا راستہ کھلتا ہے۔ ’’جہاد‘‘ ان کے مسلسل اور مکمل عمل کی ضمانت ہے اور ’’صبر‘‘ اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ کبھی کوئی جذباتی اقدام نہیں کریں گے۔ اور یہ دو باتیں جس گروہ میں پیدا ہوجائیں اس کے لیے خدا کی اس دنیا میں کامیابی اتنی ہی یقینی ہوجاتی ہے جتنی موافق زمین میںایک بیج کا بار آور ہونا۔ ایک شخص اللہ کے راستے پر چلنے کا ارادہ کرتا ہے تو دوسروں کی طرف سے طرح طرح کے مسائل پیش آتے ہیں۔ یہ مسائل کبھی اس کو بے یقینی کی کیفیت میںمبتلا کرتے ہیں۔ کبھی مصلحت پرستی کا سبق دیتے ہیں۔ کبھی اس کے اندر منفی نفسیات ابھارتے ہیں۔ کبھی خدا کے خالص دین کے مقابلہ میں ایسے عوامی دین کا نسخہ بتاتے ہیں جو لوگوں کے لیے قابل قبول ہو۔ یہی موجودہ دنیامیں آدمی کا امتحان ہے۔ ان مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اقرارِ ایمان میں سچا تھا یا جھوٹا۔ اگر اس کا عمل اس کے دعوائے ایمان کے مطابق ہو تو وہ سچا ہے اور اگر اس کے خلاف ہو تو جھوٹا۔ شہید (اللہ کا گواہ) بننا اس سفر کی آخری انتہا ہے۔ اللہ کا ایک بندہ لوگوں کے درمیان حق کا داعی بن کر کھڑا ہوا۔ اس کا حال یہ تھا کہ وہ جس چیز کی طرف بلا رہا تھا، خود اس پر پوری طرح قائم تھا۔ لوگوں نے اس کو حقیر سمجھا مگر اس نے کسی کی پروا نہ کی۔ اس پر مشکلات آئیں مگر وہ اس کو اپنے مقام سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ نہ کمزور پڑا اور نہ منفی نفسیات کا شکار ہوا۔ حتی کہ اس کے جان ومال کی بازی لگ گئی پھر بھی وہ اپنے دعوتی موقف سے نہ ہٹا۔ یہ امتحان حد درجہ طوفانی امتحان ہے۔ مگر اس سے گزرنے کے بعدہی وہ انسان بنتا ہے جس کو اللہ اپنے بندوں کے اوپر اپنا گواہ قرار دے۔ آدمی جب ہر قسم کے حالات کے باوجود اپنے دعوتی عمل پر قائم رہتا ہے تو وہ اپنے پیغام کے حق میں اپنے یقین کا ثبوت دیتا ہے۔ نیز یہ کہ وہ جس بات کی خبر دے رہا ہے وہ ایک حد درجہ سنجیدہ معاملہ ہے، نہ کہ کوئی سرسری معاملہ۔

وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ

📘 احد کی جنگ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس وقت کچھ مسلمانوں میں پست ہمتی پیداہوگئی۔ مگر اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں جن کی دینداری کسی شخصیت کے اوپر قائم نہ ہو۔ اللہ کو وہ دین داری مطلوب ہے جب کہ بندہ اپنی ساری روح اور ساری جان کے ساتھ صرف ایک اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ مومن وہ ہے جو اسلام کو اس کی اصولی صداقت کی بنا پر پکڑے، نہ کہ کسی شخصیت کے سہارے کی بنا پر۔ جو شخص اس طرح اسلام کو پاتا ہے اس کے لیے اسلام ایک ایسی نعمت بن جاتا ہے جس کے لیے اس کی روح کے اندر شکر کا دریا موجزن ہوجائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھنے لگتاہے۔ زندگی اس کے لیے ایک ایسی ناپائدار چیز بن جاتی ہے جو کسی بھی لمحہ موت سے دوچار ہونے والی ہو۔ وہ کائنات کو ایک ایسے خدائی کارخانہ کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے جہاں ہر واقعہ خدا کے اِذن کے تحت ہورہا ہے۔ جہاں دینے والا بھی وہی ہے اور چھيننے والا بھی وہی۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی راہ کے سچے مسافر ہیں۔ اللہ اگر چاہتا ہے تو دنیا کا عزت واقتدار بھی ان کو دے دیتا ہے اور آخرت کی عظیم اور ابدی انعامات تو صرف انھیں کے لیے ہیں۔ تاہم یہ درجه کسی کو صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں پورا اترے۔ اس کے ظاہری سہارے کھوئے جائیں تب بھی وہ اللہ پر اپنی نظر یںجمائے رہے۔ جان کا خطرہ بھی اس کو پست ہمت نہ کرسکے۔ دنیا برباد ہو رہی ہو تب بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ اس کے سامنے کوئی نقصان آئے تو اس کو وہ اپنی کوتاہی کا نتیجہ سمجھ کر اللہ سے معافی مانگے۔ کوئی فائدہ ملے تو اس کو خدا کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرے۔ مومن کا یہ امتحان جو ہر روز لیا جارہا ہے کبھی اُن ہلادینے والے مقامات تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں زندگی کی بازی لگی ہوئی ہو۔ ایسے مواقع پر بھی جب آدمی بزدلی نہ دکھائے، نہ وہ بے یقینی میں مبتلا ہو اور نہ وہ کسی حال میں دین کے دشمنوں کے سامنے ہار ماننے کے لیے تیار ہو تو گویا وہ امتحان کی آخری جانچ میں بھی پورا اترا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہر قسم کی سرفرازیاں ہیں۔ تاریخ میںوہی لوگ سب سے زیادہ قیمتی ہیں جنھوں نے اس طرح اللہ کو پایا ہو اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ کے منصوبہ میں شامل کردیا ہو — نازک مواقع پر اہل ایمان کا باہم متحد رہنا اور صبر کے ساتھ حق پر جمے رہنا وہ چیزیں ہیں جو اہلِ ایمان کو اللہ کی نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ كِتَابًا مُؤَجَّلًا ۗ وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَنْ يُرِدْ ثَوَابَ الْآخِرَةِ نُؤْتِهِ مِنْهَا ۚ وَسَنَجْزِي الشَّاكِرِينَ

📘 احد کی جنگ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس وقت کچھ مسلمانوں میں پست ہمتی پیداہوگئی۔ مگر اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں جن کی دینداری کسی شخصیت کے اوپر قائم نہ ہو۔ اللہ کو وہ دین داری مطلوب ہے جب کہ بندہ اپنی ساری روح اور ساری جان کے ساتھ صرف ایک اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ مومن وہ ہے جو اسلام کو اس کی اصولی صداقت کی بنا پر پکڑے، نہ کہ کسی شخصیت کے سہارے کی بنا پر۔ جو شخص اس طرح اسلام کو پاتا ہے اس کے لیے اسلام ایک ایسی نعمت بن جاتا ہے جس کے لیے اس کی روح کے اندر شکر کا دریا موجزن ہوجائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھنے لگتاہے۔ زندگی اس کے لیے ایک ایسی ناپائدار چیز بن جاتی ہے جو کسی بھی لمحہ موت سے دوچار ہونے والی ہو۔ وہ کائنات کو ایک ایسے خدائی کارخانہ کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے جہاں ہر واقعہ خدا کے اِذن کے تحت ہورہا ہے۔ جہاں دینے والا بھی وہی ہے اور چھيننے والا بھی وہی۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی راہ کے سچے مسافر ہیں۔ اللہ اگر چاہتا ہے تو دنیا کا عزت واقتدار بھی ان کو دے دیتا ہے اور آخرت کی عظیم اور ابدی انعامات تو صرف انھیں کے لیے ہیں۔ تاہم یہ درجه کسی کو صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں پورا اترے۔ اس کے ظاہری سہارے کھوئے جائیں تب بھی وہ اللہ پر اپنی نظر یںجمائے رہے۔ جان کا خطرہ بھی اس کو پست ہمت نہ کرسکے۔ دنیا برباد ہو رہی ہو تب بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ اس کے سامنے کوئی نقصان آئے تو اس کو وہ اپنی کوتاہی کا نتیجہ سمجھ کر اللہ سے معافی مانگے۔ کوئی فائدہ ملے تو اس کو خدا کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرے۔ مومن کا یہ امتحان جو ہر روز لیا جارہا ہے کبھی اُن ہلادینے والے مقامات تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں زندگی کی بازی لگی ہوئی ہو۔ ایسے مواقع پر بھی جب آدمی بزدلی نہ دکھائے، نہ وہ بے یقینی میں مبتلا ہو اور نہ وہ کسی حال میں دین کے دشمنوں کے سامنے ہار ماننے کے لیے تیار ہو تو گویا وہ امتحان کی آخری جانچ میں بھی پورا اترا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہر قسم کی سرفرازیاں ہیں۔ تاریخ میںوہی لوگ سب سے زیادہ قیمتی ہیں جنھوں نے اس طرح اللہ کو پایا ہو اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ کے منصوبہ میں شامل کردیا ہو — نازک مواقع پر اہل ایمان کا باہم متحد رہنا اور صبر کے ساتھ حق پر جمے رہنا وہ چیزیں ہیں جو اہلِ ایمان کو اللہ کی نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔

وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ

📘 احد کی جنگ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس وقت کچھ مسلمانوں میں پست ہمتی پیداہوگئی۔ مگر اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں جن کی دینداری کسی شخصیت کے اوپر قائم نہ ہو۔ اللہ کو وہ دین داری مطلوب ہے جب کہ بندہ اپنی ساری روح اور ساری جان کے ساتھ صرف ایک اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ مومن وہ ہے جو اسلام کو اس کی اصولی صداقت کی بنا پر پکڑے، نہ کہ کسی شخصیت کے سہارے کی بنا پر۔ جو شخص اس طرح اسلام کو پاتا ہے اس کے لیے اسلام ایک ایسی نعمت بن جاتا ہے جس کے لیے اس کی روح کے اندر شکر کا دریا موجزن ہوجائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھنے لگتاہے۔ زندگی اس کے لیے ایک ایسی ناپائدار چیز بن جاتی ہے جو کسی بھی لمحہ موت سے دوچار ہونے والی ہو۔ وہ کائنات کو ایک ایسے خدائی کارخانہ کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے جہاں ہر واقعہ خدا کے اِذن کے تحت ہورہا ہے۔ جہاں دینے والا بھی وہی ہے اور چھيننے والا بھی وہی۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی راہ کے سچے مسافر ہیں۔ اللہ اگر چاہتا ہے تو دنیا کا عزت واقتدار بھی ان کو دے دیتا ہے اور آخرت کی عظیم اور ابدی انعامات تو صرف انھیں کے لیے ہیں۔ تاہم یہ درجه کسی کو صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں پورا اترے۔ اس کے ظاہری سہارے کھوئے جائیں تب بھی وہ اللہ پر اپنی نظر یںجمائے رہے۔ جان کا خطرہ بھی اس کو پست ہمت نہ کرسکے۔ دنیا برباد ہو رہی ہو تب بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ اس کے سامنے کوئی نقصان آئے تو اس کو وہ اپنی کوتاہی کا نتیجہ سمجھ کر اللہ سے معافی مانگے۔ کوئی فائدہ ملے تو اس کو خدا کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرے۔ مومن کا یہ امتحان جو ہر روز لیا جارہا ہے کبھی اُن ہلادینے والے مقامات تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں زندگی کی بازی لگی ہوئی ہو۔ ایسے مواقع پر بھی جب آدمی بزدلی نہ دکھائے، نہ وہ بے یقینی میں مبتلا ہو اور نہ وہ کسی حال میں دین کے دشمنوں کے سامنے ہار ماننے کے لیے تیار ہو تو گویا وہ امتحان کی آخری جانچ میں بھی پورا اترا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہر قسم کی سرفرازیاں ہیں۔ تاریخ میںوہی لوگ سب سے زیادہ قیمتی ہیں جنھوں نے اس طرح اللہ کو پایا ہو اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ کے منصوبہ میں شامل کردیا ہو — نازک مواقع پر اہل ایمان کا باہم متحد رہنا اور صبر کے ساتھ حق پر جمے رہنا وہ چیزیں ہیں جو اہلِ ایمان کو اللہ کی نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔

وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 احد کی جنگ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس وقت کچھ مسلمانوں میں پست ہمتی پیداہوگئی۔ مگر اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں جن کی دینداری کسی شخصیت کے اوپر قائم نہ ہو۔ اللہ کو وہ دین داری مطلوب ہے جب کہ بندہ اپنی ساری روح اور ساری جان کے ساتھ صرف ایک اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ مومن وہ ہے جو اسلام کو اس کی اصولی صداقت کی بنا پر پکڑے، نہ کہ کسی شخصیت کے سہارے کی بنا پر۔ جو شخص اس طرح اسلام کو پاتا ہے اس کے لیے اسلام ایک ایسی نعمت بن جاتا ہے جس کے لیے اس کی روح کے اندر شکر کا دریا موجزن ہوجائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھنے لگتاہے۔ زندگی اس کے لیے ایک ایسی ناپائدار چیز بن جاتی ہے جو کسی بھی لمحہ موت سے دوچار ہونے والی ہو۔ وہ کائنات کو ایک ایسے خدائی کارخانہ کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے جہاں ہر واقعہ خدا کے اِذن کے تحت ہورہا ہے۔ جہاں دینے والا بھی وہی ہے اور چھيننے والا بھی وہی۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی راہ کے سچے مسافر ہیں۔ اللہ اگر چاہتا ہے تو دنیا کا عزت واقتدار بھی ان کو دے دیتا ہے اور آخرت کی عظیم اور ابدی انعامات تو صرف انھیں کے لیے ہیں۔ تاہم یہ درجه کسی کو صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں پورا اترے۔ اس کے ظاہری سہارے کھوئے جائیں تب بھی وہ اللہ پر اپنی نظر یںجمائے رہے۔ جان کا خطرہ بھی اس کو پست ہمت نہ کرسکے۔ دنیا برباد ہو رہی ہو تب بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ اس کے سامنے کوئی نقصان آئے تو اس کو وہ اپنی کوتاہی کا نتیجہ سمجھ کر اللہ سے معافی مانگے۔ کوئی فائدہ ملے تو اس کو خدا کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرے۔ مومن کا یہ امتحان جو ہر روز لیا جارہا ہے کبھی اُن ہلادینے والے مقامات تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں زندگی کی بازی لگی ہوئی ہو۔ ایسے مواقع پر بھی جب آدمی بزدلی نہ دکھائے، نہ وہ بے یقینی میں مبتلا ہو اور نہ وہ کسی حال میں دین کے دشمنوں کے سامنے ہار ماننے کے لیے تیار ہو تو گویا وہ امتحان کی آخری جانچ میں بھی پورا اترا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہر قسم کی سرفرازیاں ہیں۔ تاریخ میںوہی لوگ سب سے زیادہ قیمتی ہیں جنھوں نے اس طرح اللہ کو پایا ہو اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ کے منصوبہ میں شامل کردیا ہو — نازک مواقع پر اہل ایمان کا باہم متحد رہنا اور صبر کے ساتھ حق پر جمے رہنا وہ چیزیں ہیں جو اہلِ ایمان کو اللہ کی نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔

فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 احد کی جنگ میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے۔ اس وقت کچھ مسلمانوں میں پست ہمتی پیداہوگئی۔ مگر اللہ کے حقیقی بندے وہ ہیں جن کی دینداری کسی شخصیت کے اوپر قائم نہ ہو۔ اللہ کو وہ دین داری مطلوب ہے جب کہ بندہ اپنی ساری روح اور ساری جان کے ساتھ صرف ایک اللہ کے ساتھ جڑ جائے۔ مومن وہ ہے جو اسلام کو اس کی اصولی صداقت کی بنا پر پکڑے، نہ کہ کسی شخصیت کے سہارے کی بنا پر۔ جو شخص اس طرح اسلام کو پاتا ہے اس کے لیے اسلام ایک ایسی نعمت بن جاتا ہے جس کے لیے اس کی روح کے اندر شکر کا دریا موجزن ہوجائے۔ وہ دنیا کے بجائے آخرت کو سب کچھ سمجھنے لگتاہے۔ زندگی اس کے لیے ایک ایسی ناپائدار چیز بن جاتی ہے جو کسی بھی لمحہ موت سے دوچار ہونے والی ہو۔ وہ کائنات کو ایک ایسے خدائی کارخانہ کی حیثیت سے دیکھ لیتا ہے جہاں ہر واقعہ خدا کے اِذن کے تحت ہورہا ہے۔ جہاں دینے والا بھی وہی ہے اور چھيننے والا بھی وہی۔ ایسے ہی لوگ اللہ کی راہ کے سچے مسافر ہیں۔ اللہ اگر چاہتا ہے تو دنیا کا عزت واقتدار بھی ان کو دے دیتا ہے اور آخرت کی عظیم اور ابدی انعامات تو صرف انھیں کے لیے ہیں۔ تاہم یہ درجه کسی کو صرف اس وقت ملتا ہے جب کہ وہ ہر قسم کے امتحان میں پورا اترے۔ اس کے ظاہری سہارے کھوئے جائیں تب بھی وہ اللہ پر اپنی نظر یںجمائے رہے۔ جان کا خطرہ بھی اس کو پست ہمت نہ کرسکے۔ دنیا برباد ہو رہی ہو تب بھی وہ پیچھے نہ ہٹے۔ اس کے سامنے کوئی نقصان آئے تو اس کو وہ اپنی کوتاہی کا نتیجہ سمجھ کر اللہ سے معافی مانگے۔ کوئی فائدہ ملے تو اس کو خدا کا انعام سمجھ کر شکر ادا کرے۔ مومن کا یہ امتحان جو ہر روز لیا جارہا ہے کبھی اُن ہلادینے والے مقامات تک بھی پہنچ جاتا ہے جہاں زندگی کی بازی لگی ہوئی ہو۔ ایسے مواقع پر بھی جب آدمی بزدلی نہ دکھائے، نہ وہ بے یقینی میں مبتلا ہو اور نہ وہ کسی حال میں دین کے دشمنوں کے سامنے ہار ماننے کے لیے تیار ہو تو گویا وہ امتحان کی آخری جانچ میں بھی پورا اترا۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے ہر قسم کی سرفرازیاں ہیں۔ تاریخ میںوہی لوگ سب سے زیادہ قیمتی ہیں جنھوں نے اس طرح اللہ کو پایا ہو اور اپنے آپ کو اس طرح اللہ کے منصوبہ میں شامل کردیا ہو — نازک مواقع پر اہل ایمان کا باہم متحد رہنا اور صبر کے ساتھ حق پر جمے رہنا وہ چیزیں ہیں جو اہلِ ایمان کو اللہ کی نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ

📘 جنگ احد میں وقتی شکست سے مخالفوں کو موقع ملا۔ انھوںنے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ کوئی خدائی معاملہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ محض طفلانہ جوش کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے جوش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ خدائی معاملہ ہوتا تو ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کیوں ہوتی۔ مگر اس طرح کے واقعات خواہ بظاہر مسلمانوں کی غلطی سے پیش آئیں، وہ ہر حال میں خدا کا امتحان ہوتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ’’احد‘‘ کا حادثہ پیش آنا ضروری ہے تاکہ یہ کھل جائے کہ کون اللہ پر اعتماد کرنے والا تھا اور کون پھسل جانے والا۔ اس قسم کے واقعات مومن کے لیے دو طرفہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کی مخالفانہ باتوں سے متاثر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ وقتی تکلیف سے گھبرا نہ جائے، اور ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ مشکل مواقع پر اہل ایمان اگر جمے رہ جائیں تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی نصرتِ رعب نازل ہوتی ہے، جو شخص یا گروہ اللہ کے سچے دین کے سوا کسی اور چیز کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ حقیقۃً بے بنیاد زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی اتاری ہوئی سچائی کے سوا اس دنیا میں کوئی اور حقیقی بنیاد نہیں۔ اس لیے جب کوئی دین خدا وندی کے اوپر کھڑا ہو اور جماؤ کا ثبوت دے تو جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اہل باطل کی صفوںمیں انتشار شروع ہوجاتا ہے۔ دلائل کے اعتبار سے ان کا بے بنیاد ہونا ان کے افراد میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ وہ اپنے کو کم اور اہل ایمان کو زیادہ دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی شکست بالآخر عملی شکست تک پہنچتی ہے۔ وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے شکست اور کمزوری کا سبب ہمیشہ ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے تنازع فی الامر۔ یعنی رایوں کے اختلاف کی بنا پر الگ ہوجانا۔ انسانوں کے درمیان اتفاق کبھی اس معنی میں نہیں ہوسکتا کہ سب کی رائیں بالکل ایک ہوجائیں۔ اس لیے کسی گروہ میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ رایوں میں اختلاف کے باوجود عمل میں اختلاف نہ کیا جائے۔ جب تک کسی گروہ میں یہ بلند نظری پائی جائے گی وہ متحد اور نتیجتاً طاقت ور رہے گا۔ اور جب رایوں کا اختلاف کرکے لوگ الگ الگ ہونے لگیں تو اس کے بعد لازماً کمزوری اور اس کے نتیجہ میں شکست واقع ہوگی۔

۞ قُلْ أَؤُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرٍ مِنْ ذَٰلِكُمْ ۚ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ

📘 خدا کی رحمت ہدایت اس طرح تقسیم نہیں ہوتی کہ جس شخص کو دنیوی عظمت ملی ہوئی ہو اسی کو خدا کی ہدایت بھی دے دی جائے۔ اگر دنیوی عظمت لوگوں کو خدا کے یہاں عظیم بنانے والی ہوتی تو ایسے لوگوں کےلیے ممکن ہوتاکہ وہ جس شخص کو چاہیں خدا کی رحمت پہنچائیں اور جس سے چاہیں اسے روک دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا اپنی رحمت کی تقسیم خود اپنے معیار پر کرتاہے، نہ کہ ظاہر پرست انسانوں کے بنائے ہوئے معیار پر۔ پیغمبر کا انکار کرنے والے کہتے کہ جس خدائی عذاب سے تم ہم کو ڈرارہے ہو اس خدائی عذاب کو لے آؤ۔ یہ جرأت ان کے اندر اس ليے پیدا ہوتی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر خدا کا عذاب آنے والا ہی نہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ جن بتوں کے بل پر تم اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہو، اسی قسم کے بتوں کے بل پر پچھلی قوموں نے بھی اپنے کو محفوظ سمجھا اور اپنے رسولوں کے ساتھ سرکشی کی۔ مگر وہ سب کی سب ہلاک کردی گئیں۔ پھر تم آخر کس طرح بچ جاؤ گے۔

بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ

📘 جنگ احد میں وقتی شکست سے مخالفوں کو موقع ملا۔ انھوںنے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ کوئی خدائی معاملہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ محض طفلانہ جوش کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے جوش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ خدائی معاملہ ہوتا تو ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کیوں ہوتی۔ مگر اس طرح کے واقعات خواہ بظاہر مسلمانوں کی غلطی سے پیش آئیں، وہ ہر حال میں خدا کا امتحان ہوتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ’’احد‘‘ کا حادثہ پیش آنا ضروری ہے تاکہ یہ کھل جائے کہ کون اللہ پر اعتماد کرنے والا تھا اور کون پھسل جانے والا۔ اس قسم کے واقعات مومن کے لیے دو طرفہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کی مخالفانہ باتوں سے متاثر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ وقتی تکلیف سے گھبرا نہ جائے، اور ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ مشکل مواقع پر اہل ایمان اگر جمے رہ جائیں تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی نصرتِ رعب نازل ہوتی ہے، جو شخص یا گروہ اللہ کے سچے دین کے سوا کسی اور چیز کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ حقیقۃً بے بنیاد زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی اتاری ہوئی سچائی کے سوا اس دنیا میں کوئی اور حقیقی بنیاد نہیں۔ اس لیے جب کوئی دین خدا وندی کے اوپر کھڑا ہو اور جماؤ کا ثبوت دے تو جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اہل باطل کی صفوںمیں انتشار شروع ہوجاتا ہے۔ دلائل کے اعتبار سے ان کا بے بنیاد ہونا ان کے افراد میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ وہ اپنے کو کم اور اہل ایمان کو زیادہ دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی شکست بالآخر عملی شکست تک پہنچتی ہے۔ وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے شکست اور کمزوری کا سبب ہمیشہ ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے تنازع فی الامر۔ یعنی رایوں کے اختلاف کی بنا پر الگ ہوجانا۔ انسانوں کے درمیان اتفاق کبھی اس معنی میں نہیں ہوسکتا کہ سب کی رائیں بالکل ایک ہوجائیں۔ اس لیے کسی گروہ میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ رایوں میں اختلاف کے باوجود عمل میں اختلاف نہ کیا جائے۔ جب تک کسی گروہ میں یہ بلند نظری پائی جائے گی وہ متحد اور نتیجتاً طاقت ور رہے گا۔ اور جب رایوں کا اختلاف کرکے لوگ الگ الگ ہونے لگیں تو اس کے بعد لازماً کمزوری اور اس کے نتیجہ میں شکست واقع ہوگی۔

سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ۖ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۚ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ

📘 جنگ احد میں وقتی شکست سے مخالفوں کو موقع ملا۔ انھوںنے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ کوئی خدائی معاملہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ محض طفلانہ جوش کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے جوش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ خدائی معاملہ ہوتا تو ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کیوں ہوتی۔ مگر اس طرح کے واقعات خواہ بظاہر مسلمانوں کی غلطی سے پیش آئیں، وہ ہر حال میں خدا کا امتحان ہوتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ’’احد‘‘ کا حادثہ پیش آنا ضروری ہے تاکہ یہ کھل جائے کہ کون اللہ پر اعتماد کرنے والا تھا اور کون پھسل جانے والا۔ اس قسم کے واقعات مومن کے لیے دو طرفہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کی مخالفانہ باتوں سے متاثر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ وقتی تکلیف سے گھبرا نہ جائے، اور ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ مشکل مواقع پر اہل ایمان اگر جمے رہ جائیں تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی نصرتِ رعب نازل ہوتی ہے، جو شخص یا گروہ اللہ کے سچے دین کے سوا کسی اور چیز کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ حقیقۃً بے بنیاد زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی اتاری ہوئی سچائی کے سوا اس دنیا میں کوئی اور حقیقی بنیاد نہیں۔ اس لیے جب کوئی دین خدا وندی کے اوپر کھڑا ہو اور جماؤ کا ثبوت دے تو جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اہل باطل کی صفوںمیں انتشار شروع ہوجاتا ہے۔ دلائل کے اعتبار سے ان کا بے بنیاد ہونا ان کے افراد میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ وہ اپنے کو کم اور اہل ایمان کو زیادہ دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی شکست بالآخر عملی شکست تک پہنچتی ہے۔ وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے شکست اور کمزوری کا سبب ہمیشہ ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے تنازع فی الامر۔ یعنی رایوں کے اختلاف کی بنا پر الگ ہوجانا۔ انسانوں کے درمیان اتفاق کبھی اس معنی میں نہیں ہوسکتا کہ سب کی رائیں بالکل ایک ہوجائیں۔ اس لیے کسی گروہ میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ رایوں میں اختلاف کے باوجود عمل میں اختلاف نہ کیا جائے۔ جب تک کسی گروہ میں یہ بلند نظری پائی جائے گی وہ متحد اور نتیجتاً طاقت ور رہے گا۔ اور جب رایوں کا اختلاف کرکے لوگ الگ الگ ہونے لگیں تو اس کے بعد لازماً کمزوری اور اس کے نتیجہ میں شکست واقع ہوگی۔

وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا أَرَاكُمْ مَا تُحِبُّونَ ۚ مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۚ ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ

📘 جنگ احد میں وقتی شکست سے مخالفوں کو موقع ملا۔ انھوںنے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ کوئی خدائی معاملہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ محض طفلانہ جوش کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے جوش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ خدائی معاملہ ہوتا تو ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کیوں ہوتی۔ مگر اس طرح کے واقعات خواہ بظاہر مسلمانوں کی غلطی سے پیش آئیں، وہ ہر حال میں خدا کا امتحان ہوتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ’’احد‘‘ کا حادثہ پیش آنا ضروری ہے تاکہ یہ کھل جائے کہ کون اللہ پر اعتماد کرنے والا تھا اور کون پھسل جانے والا۔ اس قسم کے واقعات مومن کے لیے دو طرفہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کی مخالفانہ باتوں سے متاثر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ وقتی تکلیف سے گھبرا نہ جائے، اور ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ مشکل مواقع پر اہل ایمان اگر جمے رہ جائیں تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی نصرتِ رعب نازل ہوتی ہے، جو شخص یا گروہ اللہ کے سچے دین کے سوا کسی اور چیز کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ حقیقۃً بے بنیاد زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی اتاری ہوئی سچائی کے سوا اس دنیا میں کوئی اور حقیقی بنیاد نہیں۔ اس لیے جب کوئی دین خدا وندی کے اوپر کھڑا ہو اور جماؤ کا ثبوت دے تو جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اہل باطل کی صفوںمیں انتشار شروع ہوجاتا ہے۔ دلائل کے اعتبار سے ان کا بے بنیاد ہونا ان کے افراد میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ وہ اپنے کو کم اور اہل ایمان کو زیادہ دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی شکست بالآخر عملی شکست تک پہنچتی ہے۔ وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے شکست اور کمزوری کا سبب ہمیشہ ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے تنازع فی الامر۔ یعنی رایوں کے اختلاف کی بنا پر الگ ہوجانا۔ انسانوں کے درمیان اتفاق کبھی اس معنی میں نہیں ہوسکتا کہ سب کی رائیں بالکل ایک ہوجائیں۔ اس لیے کسی گروہ میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ رایوں میں اختلاف کے باوجود عمل میں اختلاف نہ کیا جائے۔ جب تک کسی گروہ میں یہ بلند نظری پائی جائے گی وہ متحد اور نتیجتاً طاقت ور رہے گا۔ اور جب رایوں کا اختلاف کرکے لوگ الگ الگ ہونے لگیں تو اس کے بعد لازماً کمزوری اور اس کے نتیجہ میں شکست واقع ہوگی۔

۞ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

📘 جنگ احد میں وقتی شکست سے مخالفوں کو موقع ملا۔ انھوںنے کہنا شروع کیا کہ پیغمبر اور ان کے ساتھیوں کا معاملہ کوئی خدائی معاملہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ محض طفلانہ جوش کے تحت اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور اپنے جوش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ اگر یہ خدائی معاملہ ہوتا تو ان کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں شکست کیوں ہوتی۔ مگر اس طرح کے واقعات خواہ بظاہر مسلمانوں کی غلطی سے پیش آئیں، وہ ہر حال میں خدا کا امتحان ہوتے ہیں۔ دنیا کی زندگی میں ’’احد‘‘ کا حادثہ پیش آنا ضروری ہے تاکہ یہ کھل جائے کہ کون اللہ پر اعتماد کرنے والا تھا اور کون پھسل جانے والا۔ اس قسم کے واقعات مومن کے لیے دو طرفہ آزمائش ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگوں کی مخالفانہ باتوں سے متاثر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ وقتی تکلیف سے گھبرا نہ جائے، اور ہر حال میں ثابت قدم رہے۔ مشکل مواقع پر اہل ایمان اگر جمے رہ جائیں تو بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ خدا کی نصرتِ رعب نازل ہوتی ہے، جو شخص یا گروہ اللہ کے سچے دین کے سوا کسی اور چیز کے اوپر کھڑا ہوا ہے وہ حقیقۃً بے بنیاد زمین پر کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ اللہ کی اتاری ہوئی سچائی کے سوا اس دنیا میں کوئی اور حقیقی بنیاد نہیں۔ اس لیے جب کوئی دین خدا وندی کے اوپر کھڑا ہو اور جماؤ کا ثبوت دے تو جلد ہی ایسا ہوتا ہے کہ اہل باطل کی صفوںمیں انتشار شروع ہوجاتا ہے۔ دلائل کے اعتبار سے ان کا بے بنیاد ہونا ان کے افراد میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ وہ اپنے کو کم اور اہل ایمان کو زیادہ دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی ذہنی شکست بالآخر عملی شکست تک پہنچتی ہے۔ وہ اہلِ حق کے مقابلہ میں ناکام ونامراد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے شکست اور کمزوری کا سبب ہمیشہ ایک ہوتا ہے، اور وہ ہے تنازع فی الامر۔ یعنی رایوں کے اختلاف کی بنا پر الگ ہوجانا۔ انسانوں کے درمیان اتفاق کبھی اس معنی میں نہیں ہوسکتا کہ سب کی رائیں بالکل ایک ہوجائیں۔ اس لیے کسی گروہ میں اتحاد کی صورت صرف یہ ہے کہ رایوں میں اختلاف کے باوجود عمل میں اختلاف نہ کیا جائے۔ جب تک کسی گروہ میں یہ بلند نظری پائی جائے گی وہ متحد اور نتیجتاً طاقت ور رہے گا۔ اور جب رایوں کا اختلاف کرکے لوگ الگ الگ ہونے لگیں تو اس کے بعد لازماً کمزوری اور اس کے نتیجہ میں شکست واقع ہوگی۔

ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِنْكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ ۗ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لَا يُبْدُونَ لَكَ ۖ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا ۗ قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَىٰ مَضَاجِعِهِمْ ۖ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 زندگی کے معرکہ میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آدمی کا چین اس سے رخصت نہ ہو۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا منصوبہ بنانے کے قابل رہے۔ اللہ پر بھروسہ کی وجہ سے اہلِ ایمان کو یہ چیز کمال درجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ حتی کہ ہلادینے والے موقع پر جب کہ لوگوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں، اس وقت بھی وہ اس قابل رہتے ہیں کہ ایک نیند لے کر دوبارہ تازہ دم ہوسکیں۔ احد کے موقع پر اس کا ایک مظاہرہ اس طرح ہوا کہ شکست کے بعد سخت ترین حالات کے باوجود وہ سو سکے اور اگلے دن حمراء الاسد تک دشمن کا پیچھا کیا، جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے نتیجہ میں فاتح دشمن مرعوب ہو کر مکہ واپس چلا گیا۔ یہ سچے اہل ایمان کا حال ہے۔مگر جو لوگ پورے معنوں میں اللہ کو اپنا ولی وسرپرست بنائے ہوئے نہ ہوں، ان کو ہر طرف بس اپنی جان کا خطرہ نظر آتا ہے۔ دین کی فکر سے خالی لوگ اپنی ذات کی فکر میں پڑے رہتے ہیں وہ اللہ کی نصرتِ اطمینان میں سے اپنا حصہ نہیں پاتے۔ احد کے موقع پر عبد اللہ بن اُبي کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر جنگ کی جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلص مسلمانوں کے مشورہ پر باہر نکلے اور احد پہاڑ کے دامن میں مقابلہ کیا۔ درّہ پر متعین دستہ کی غلطی سے جب شکست ہوئی تو ان لوگوں کو موقع ملا۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر ہماری بات مانی گئی ہوتی اور مدینہ میں رہ کر لڑتے تو اس بربادی کی نوبت نہ آتی۔ مگر موت خدا کی طرف سے ہے اور وہیں آکر رہتی ہے جہاں وہ کسی کے لیے لکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدبیریں کسی کو موت سے بچا نہیں سکتیں۔ اس طرح کے واقعات، خواہ بظاہر ان کا جو سبب بھی نظر آئے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ کے سچے بندے اللہ کی طرف رجوع کرکے مزید رحمتوں کے مستحق بنیں۔ اور جو سچے نہیں ہیں ان کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے۔ احد کے درہ پر جو پچاس تیر انداز متعین تھے جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح ہوگئی ہے تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اصرار کیاکہ چل کر مال غنیمت لوٹیں ۔ مگر عبد اللہ بن جبیرؓ او ران کے کچھ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ ہم کو ہر حال میں یہیں رہنا ہے کیوں کہ یہی رسول اللہ کا حکم ہے۔ بالآخر گیارہ کو چھوڑ کر بقیہ لوگ چلے گئے۔ باہمی اختلاف کی اس کمزوری سے شیطان نے اندر داخل ہونے کا راستہ پالیا۔ تاہم انھوں نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو اللہ نے ان کو معاف کردیا اور ابتدائی نقصان کے بعد ان کی مدد اس طرح کی کہ دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر ان کو واپس کردیا۔ حالاں کہ اس وقت وہ مدینہ سے صرف چند میل کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔

إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُوا ۖ وَلَقَدْ عَفَا اللَّهُ عَنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ

📘 زندگی کے معرکہ میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ آدمی کا چین اس سے رخصت نہ ہو۔ وہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا منصوبہ بنانے کے قابل رہے۔ اللہ پر بھروسہ کی وجہ سے اہلِ ایمان کو یہ چیز کمال درجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ حتی کہ ہلادینے والے موقع پر جب کہ لوگوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں، اس وقت بھی وہ اس قابل رہتے ہیں کہ ایک نیند لے کر دوبارہ تازہ دم ہوسکیں۔ احد کے موقع پر اس کا ایک مظاہرہ اس طرح ہوا کہ شکست کے بعد سخت ترین حالات کے باوجود وہ سو سکے اور اگلے دن حمراء الاسد تک دشمن کا پیچھا کیا، جو مدینہ سے ۸ میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کے نتیجہ میں فاتح دشمن مرعوب ہو کر مکہ واپس چلا گیا۔ یہ سچے اہل ایمان کا حال ہے۔مگر جو لوگ پورے معنوں میں اللہ کو اپنا ولی وسرپرست بنائے ہوئے نہ ہوں، ان کو ہر طرف بس اپنی جان کا خطرہ نظر آتا ہے۔ دین کی فکر سے خالی لوگ اپنی ذات کی فکر میں پڑے رہتے ہیں وہ اللہ کی نصرتِ اطمینان میں سے اپنا حصہ نہیں پاتے۔ احد کے موقع پر عبد اللہ بن اُبي کی رائے تھی کہ مدینہ میں رہ کر جنگ کی جائے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مخلص مسلمانوں کے مشورہ پر باہر نکلے اور احد پہاڑ کے دامن میں مقابلہ کیا۔ درّہ پر متعین دستہ کی غلطی سے جب شکست ہوئی تو ان لوگوں کو موقع ملا۔ انھوں نے کہنا شروع کیا کہ اگر ہماری بات مانی گئی ہوتی اور مدینہ میں رہ کر لڑتے تو اس بربادی کی نوبت نہ آتی۔ مگر موت خدا کی طرف سے ہے اور وہیں آکر رہتی ہے جہاں وہ کسی کے لیے لکھی ہوئی ہے۔ احتیاطی تدبیریں کسی کو موت سے بچا نہیں سکتیں۔ اس طرح کے واقعات، خواہ بظاہر ان کا جو سبب بھی نظر آئے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ کے سچے بندے اللہ کی طرف رجوع کرکے مزید رحمتوں کے مستحق بنیں۔ اور جو سچے نہیں ہیں ان کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے۔ احد کے درہ پر جو پچاس تیر انداز متعین تھے جب انھوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کو فتح ہوگئی ہے تو ان میں سے کچھ لوگوں نے اصرار کیاکہ چل کر مال غنیمت لوٹیں ۔ مگر عبد اللہ بن جبیرؓ او ران کے کچھ ساتھیوں نے کہا نہیں۔ ہم کو ہر حال میں یہیں رہنا ہے کیوں کہ یہی رسول اللہ کا حکم ہے۔ بالآخر گیارہ کو چھوڑ کر بقیہ لوگ چلے گئے۔ باہمی اختلاف کی اس کمزوری سے شیطان نے اندر داخل ہونے کا راستہ پالیا۔ تاہم انھوں نے جب اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو اللہ نے ان کو معاف کردیا اور ابتدائی نقصان کے بعد ان کی مدد اس طرح کی کہ دشمنوں کے دل میں رعب ڈال کر ان کو واپس کردیا۔ حالاں کہ اس وقت وہ مدینہ سے صرف چند میل کے فاصلے پر رہ گئے تھے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ إِذَا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ أَوْ كَانُوا غُزًّى لَوْ كَانُوا عِنْدَنَا مَا مَاتُوا وَمَا قُتِلُوا لِيَجْعَلَ اللَّهُ ذَٰلِكَ حَسْرَةً فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

📘 اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہورہے هوتے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھو جائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پالے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہومگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعویٰ معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میںنے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں لگادیتے ہیں۔ ’’مرنے‘‘ سے زیادہ ’’جینا‘‘ ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت ومغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔ اہلِ ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وقت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراه کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندنظري نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شر پسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہيے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کيے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیںگے۔

وَلَئِنْ قُتِلْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَحْمَةٌ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ

📘 اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہورہے هوتے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھو جائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پالے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہومگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعویٰ معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میںنے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں لگادیتے ہیں۔ ’’مرنے‘‘ سے زیادہ ’’جینا‘‘ ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت ومغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔ اہلِ ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وقت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراه کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندنظري نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شر پسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہيے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کيے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیںگے۔

وَلَئِنْ مُتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لَإِلَى اللَّهِ تُحْشَرُونَ

📘 اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہورہے هوتے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھو جائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پالے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہومگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعویٰ معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میںنے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں لگادیتے ہیں۔ ’’مرنے‘‘ سے زیادہ ’’جینا‘‘ ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت ومغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔ اہلِ ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وقت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراه کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندنظري نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شر پسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہيے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کيے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیںگے۔

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ ۖ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ

📘 اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہورہے هوتے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھو جائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پالے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہومگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعویٰ معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میںنے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں لگادیتے ہیں۔ ’’مرنے‘‘ سے زیادہ ’’جینا‘‘ ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت ومغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔ اہلِ ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وقت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراه کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندنظري نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شر پسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہيے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کيے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیںگے۔

الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

📘 خدا کی رحمت ہدایت اس طرح تقسیم نہیں ہوتی کہ جس شخص کو دنیوی عظمت ملی ہوئی ہو اسی کو خدا کی ہدایت بھی دے دی جائے۔ اگر دنیوی عظمت لوگوں کو خدا کے یہاں عظیم بنانے والی ہوتی تو ایسے لوگوں کےلیے ممکن ہوتاکہ وہ جس شخص کو چاہیں خدا کی رحمت پہنچائیں اور جس سے چاہیں اسے روک دیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا اپنی رحمت کی تقسیم خود اپنے معیار پر کرتاہے، نہ کہ ظاہر پرست انسانوں کے بنائے ہوئے معیار پر۔ پیغمبر کا انکار کرنے والے کہتے کہ جس خدائی عذاب سے تم ہم کو ڈرارہے ہو اس خدائی عذاب کو لے آؤ۔ یہ جرأت ان کے اندر اس ليے پیدا ہوتی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان پر خدا کا عذاب آنے والا ہی نہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ جن بتوں کے بل پر تم اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہے ہو، اسی قسم کے بتوں کے بل پر پچھلی قوموں نے بھی اپنے کو محفوظ سمجھا اور اپنے رسولوں کے ساتھ سرکشی کی۔ مگر وہ سب کی سب ہلاک کردی گئیں۔ پھر تم آخر کس طرح بچ جاؤ گے۔

إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

📘 اس دنیا میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ تاہم یہاں ہر چیز پر اسباب کا پردہ ڈال دیاگیا ہے۔ واقعات بظاہر اسباب کے تحت ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر حقیقتاً وہ اللہ کے حکم کے تحت ہورہے هوتے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ ظاہری اسباب میں نہ اٹکے بلکہ ان کے پیچھے کام کرنے والی قدرتِ خداوندی کو دیکھ لے۔ غیر مومن وہ ہے جو اسباب میں کھو جائے اور مومن وہ ہے جو اسباب سے گزر کر اصل حقیقت کو پالے۔ ایک شخص مومن ہونے کا مدعی ہومگر اسی کے ساتھ اس کا حال یہ ہو کہ زندگی وموت اور کامیابی و ناکامی کو وہ تدبیروں کا نتیجہ سمجھتا ہو تو اس کا ایمانی دعویٰ معتبر نہیں۔ غیر مومن کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے تو وہ اس غم میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ میںنے فلاں تدبیر کی ہوتی تو میں حادثہ سے بچ جاتا۔ مگر مومن کے ساتھ جب کوئی حادثہ گزرتا ہے تو وہ یہ سوچ کر مطمئن رہتا ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ جو لوگ دنیوی اسباب کو اہمیت دیں وہ اپنی پوری زندگی دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنے میں لگادیتے ہیں۔ ’’مرنے‘‘ سے زیادہ ’’جینا‘‘ ان کو عزیز ہوجاتا ہے۔ مگر پانے کی اصل چیز وہ ہے جو آخرت میں ہے۔ یعنی اللہ کی جنت ومغفرت۔ اور جنت وہ چیز ہے جس کو صرف زندگی ہی کی قیمت پر حاصل کیا جاسکتا ہے۔ آدمی کا وجود ہی جنت کی واحد قیمت ہے۔ آدمی اگر اپنے وجود کو نہ دے تو وہ کسی اور چیز کے ذریعہ جنت حاصل نہیں کرسکتا۔ اہلِ ایمان کے ساتھ جس اجتماعی سلوک کا حکم پیغمبر کو دیا گیا ہے وہی عام مسلم سربراہ کے لیے بھی ہے۔ مسلم سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ نرم دل اور نرم گفتار ہو۔ یہ نرمی صرف روز مرہ کی عام زندگی ہی میں مطلوب نہیں ہے بلکہ ایسے غیر معمولی مواقع پر بھی مطلوب ہے جب کہ اسلام اور غیر اسلام کے تصادم کے وقت لوگوں سے ایک حکم کی نافرمانی ہو اور نتیجہ میں جیتی ہوئی جنگ ہار میں بدل جائے۔ سربراه کے اندر جب تک یہ وسعت اور بلندنظري نہ ہو طاقت ور اجتماعیت قائم نہیں ہوسکتی۔ غلطی خواہ کتنی ہی بڑی ہو، اگر وہ صرف ایک غلطی ہے، شر پسندی نہیں ہے تو وہ قابل معافی ہے۔ سربراہ کو چاہيے کہ ایسی ہر غلطی کو بھلا کر وہ لوگوں سے معاملہ کرے۔ حتی کہ وہ لوگوں کا اتنا خیر خواہ ہو کہ ان کے حق میں اس کے دل سے دعائیں نکلنے لگیں۔ اس کی نظر میں لوگوں کی اتنی قدر ہو کہ معاملات میں وہ ان سے مشورہ لے۔ جب آدمی کو یہ یقین ہو کہ جو کچھ ہوتا ہے خدا کے کيے سے ہوتا ہے تو اس کے بعد انسانی اسباب اس کی نظر میں ناقابل لحاظ ہوجائیںگے۔

وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَغُلَّ ۚ وَمَنْ يَغْلُلْ يَأْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 احدکے درہ پر متعین جن چالیس افراد نے نافرمانی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کردیا تھا۔ تاہم ان لوگوں کو یہ شبہ تھا کہ آپ نے شاید صرف اوپری طورپر ہم کو معاف کیا ہے۔ دل میں آپ اب بھی خفا ہیں اور کسی وقت ہمارے اوپر خفگی نکالیں گے۔ فرمایا کہ یہ پیغمبر کا طریقہ نہیں۔ پیغمبر اندر اور باہر ایک ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سربراہ کو کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم سربراہ کا دل ایسا ہونا چاہيے کہ اس کے اندر بغض، نفرت، کینہ اور حسد بالکل جگہ نہ پاسکے — حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ اس کے ساتھیوں سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہو۔ مسلم سربراہ کو چاہیے کہ بڑی سے بڑی غلطی کرنے والوں کے خلاف بھی وہ دل میں کوئی جذبہ چھپا کر نہ رکھے۔ آج کے دن ان کے ساتھ اس طرح رہے جیسے پچھلے دن ان سے كوئي غلطي نهيں هوئي تھي۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ جب ایک سربراہ پر اعتماد کرکے اپنے معاملات کو اس کے سپرد کردے تو سربراہ کو ایسا کبھی نہيں کرنا چاہیے کہ ان کے جان ومال کو وہ اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں کی تکمیل پر قربان کردے۔یہ اللہ کے غضب سے بے خوف ہونا ہے۔ جو شخص لوگوں کو یہ بتانے کے لیے اٹھا ہو کہ لوگ اللہ کی مرضی پر چلیں وہ خود کیوں کر اس حال میں اللہ سے ملنا پسند کرے گا کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف چلا ہو۔ پیغمبر نے اپنی زندگی سے جو مثالی نمونہ قائم کیا ہے، قیامت تک تمام مصلحین کو اسی کے مطابق بننا ہے۔ اصلاح کے کام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان کام کرنے كو اٹھے ان کو ہر اعتبار سے وہ ’’اپنا‘‘ نظر آئے، اس کی زبان، اس کا طرز کلام، اس کا رہن سہن ہرچیز اجنبیت سے پاک ہو۔ وہ اپنے اور اپنے مخاطبین کے درمیان ایسی فضا نہ بنائے جو کسی پہلو سے ایک دوسرے کو دور کرنے والی ہو یا ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں فریق بنا کر کھڑا کردے۔ لوگوں کے درمیان جو کام کرنا ہے وہ سب سے پہلے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھنے لگیں جو ان کی ذات میں اور باہر کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اللہ کی دلیلوں کو جان کر ان کو اپنے ذہن کاجزء بنائیں۔ دوسرا کام تزکیہ ہے۔ یہ مقصد زبانی گفتگو اور صحبت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ عمومی تحریر اور تقریر میں بات زیادہ تر اصولی انداز ميں ہوتی ہے جب کہ انفرادی گفتگوؤںمیں بات زیادہ متعین اور زیادہ مفصل صورت میں ہوتی ہے۔ نیز داعی کا اپنا وجود بھی پوری طرح اس کی تقویت كے ليےموجود رہتاہے۔ عمومی کلام اگر دعوت ہوتا ہے تو انفرادی ملاقاتیں مدعو کے لیے تزکیہ کے ہم معنی بن جاتی ہیں۔ تیسری چیز کتاب ہے۔ یعنی زندگی گزارنے کے بابت آسمانی ہدایات کو بتانا جس کا دوسرا نام شریعت ہے اور چوتھی چیز حکمت ہے۔ یعنی دین کے گہرے بھیدوں سے پردہ اٹھانا، بین السطور میں چھپے ہوئے حقائق کو نمایاں کرنا۔

أَفَمَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَ اللَّهِ كَمَنْ بَاءَ بِسَخَطٍ مِنَ اللَّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

📘 احدکے درہ پر متعین جن چالیس افراد نے نافرمانی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کردیا تھا۔ تاہم ان لوگوں کو یہ شبہ تھا کہ آپ نے شاید صرف اوپری طورپر ہم کو معاف کیا ہے۔ دل میں آپ اب بھی خفا ہیں اور کسی وقت ہمارے اوپر خفگی نکالیں گے۔ فرمایا کہ یہ پیغمبر کا طریقہ نہیں۔ پیغمبر اندر اور باہر ایک ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سربراہ کو کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم سربراہ کا دل ایسا ہونا چاہيے کہ اس کے اندر بغض، نفرت، کینہ اور حسد بالکل جگہ نہ پاسکے — حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ اس کے ساتھیوں سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہو۔ مسلم سربراہ کو چاہیے کہ بڑی سے بڑی غلطی کرنے والوں کے خلاف بھی وہ دل میں کوئی جذبہ چھپا کر نہ رکھے۔ آج کے دن ان کے ساتھ اس طرح رہے جیسے پچھلے دن ان سے كوئي غلطي نهيں هوئي تھي۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ جب ایک سربراہ پر اعتماد کرکے اپنے معاملات کو اس کے سپرد کردے تو سربراہ کو ایسا کبھی نہيں کرنا چاہیے کہ ان کے جان ومال کو وہ اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں کی تکمیل پر قربان کردے۔یہ اللہ کے غضب سے بے خوف ہونا ہے۔ جو شخص لوگوں کو یہ بتانے کے لیے اٹھا ہو کہ لوگ اللہ کی مرضی پر چلیں وہ خود کیوں کر اس حال میں اللہ سے ملنا پسند کرے گا کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف چلا ہو۔ پیغمبر نے اپنی زندگی سے جو مثالی نمونہ قائم کیا ہے، قیامت تک تمام مصلحین کو اسی کے مطابق بننا ہے۔ اصلاح کے کام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان کام کرنے كو اٹھے ان کو ہر اعتبار سے وہ ’’اپنا‘‘ نظر آئے، اس کی زبان، اس کا طرز کلام، اس کا رہن سہن ہرچیز اجنبیت سے پاک ہو۔ وہ اپنے اور اپنے مخاطبین کے درمیان ایسی فضا نہ بنائے جو کسی پہلو سے ایک دوسرے کو دور کرنے والی ہو یا ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں فریق بنا کر کھڑا کردے۔ لوگوں کے درمیان جو کام کرنا ہے وہ سب سے پہلے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھنے لگیں جو ان کی ذات میں اور باہر کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اللہ کی دلیلوں کو جان کر ان کو اپنے ذہن کاجزء بنائیں۔ دوسرا کام تزکیہ ہے۔ یہ مقصد زبانی گفتگو اور صحبت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ عمومی تحریر اور تقریر میں بات زیادہ تر اصولی انداز ميں ہوتی ہے جب کہ انفرادی گفتگوؤںمیں بات زیادہ متعین اور زیادہ مفصل صورت میں ہوتی ہے۔ نیز داعی کا اپنا وجود بھی پوری طرح اس کی تقویت كے ليےموجود رہتاہے۔ عمومی کلام اگر دعوت ہوتا ہے تو انفرادی ملاقاتیں مدعو کے لیے تزکیہ کے ہم معنی بن جاتی ہیں۔ تیسری چیز کتاب ہے۔ یعنی زندگی گزارنے کے بابت آسمانی ہدایات کو بتانا جس کا دوسرا نام شریعت ہے اور چوتھی چیز حکمت ہے۔ یعنی دین کے گہرے بھیدوں سے پردہ اٹھانا، بین السطور میں چھپے ہوئے حقائق کو نمایاں کرنا۔

هُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

📘 احدکے درہ پر متعین جن چالیس افراد نے نافرمانی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کردیا تھا۔ تاہم ان لوگوں کو یہ شبہ تھا کہ آپ نے شاید صرف اوپری طورپر ہم کو معاف کیا ہے۔ دل میں آپ اب بھی خفا ہیں اور کسی وقت ہمارے اوپر خفگی نکالیں گے۔ فرمایا کہ یہ پیغمبر کا طریقہ نہیں۔ پیغمبر اندر اور باہر ایک ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سربراہ کو کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم سربراہ کا دل ایسا ہونا چاہيے کہ اس کے اندر بغض، نفرت، کینہ اور حسد بالکل جگہ نہ پاسکے — حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ اس کے ساتھیوں سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہو۔ مسلم سربراہ کو چاہیے کہ بڑی سے بڑی غلطی کرنے والوں کے خلاف بھی وہ دل میں کوئی جذبہ چھپا کر نہ رکھے۔ آج کے دن ان کے ساتھ اس طرح رہے جیسے پچھلے دن ان سے كوئي غلطي نهيں هوئي تھي۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ جب ایک سربراہ پر اعتماد کرکے اپنے معاملات کو اس کے سپرد کردے تو سربراہ کو ایسا کبھی نہيں کرنا چاہیے کہ ان کے جان ومال کو وہ اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں کی تکمیل پر قربان کردے۔یہ اللہ کے غضب سے بے خوف ہونا ہے۔ جو شخص لوگوں کو یہ بتانے کے لیے اٹھا ہو کہ لوگ اللہ کی مرضی پر چلیں وہ خود کیوں کر اس حال میں اللہ سے ملنا پسند کرے گا کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف چلا ہو۔ پیغمبر نے اپنی زندگی سے جو مثالی نمونہ قائم کیا ہے، قیامت تک تمام مصلحین کو اسی کے مطابق بننا ہے۔ اصلاح کے کام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان کام کرنے كو اٹھے ان کو ہر اعتبار سے وہ ’’اپنا‘‘ نظر آئے، اس کی زبان، اس کا طرز کلام، اس کا رہن سہن ہرچیز اجنبیت سے پاک ہو۔ وہ اپنے اور اپنے مخاطبین کے درمیان ایسی فضا نہ بنائے جو کسی پہلو سے ایک دوسرے کو دور کرنے والی ہو یا ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں فریق بنا کر کھڑا کردے۔ لوگوں کے درمیان جو کام کرنا ہے وہ سب سے پہلے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھنے لگیں جو ان کی ذات میں اور باہر کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اللہ کی دلیلوں کو جان کر ان کو اپنے ذہن کاجزء بنائیں۔ دوسرا کام تزکیہ ہے۔ یہ مقصد زبانی گفتگو اور صحبت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ عمومی تحریر اور تقریر میں بات زیادہ تر اصولی انداز ميں ہوتی ہے جب کہ انفرادی گفتگوؤںمیں بات زیادہ متعین اور زیادہ مفصل صورت میں ہوتی ہے۔ نیز داعی کا اپنا وجود بھی پوری طرح اس کی تقویت كے ليےموجود رہتاہے۔ عمومی کلام اگر دعوت ہوتا ہے تو انفرادی ملاقاتیں مدعو کے لیے تزکیہ کے ہم معنی بن جاتی ہیں۔ تیسری چیز کتاب ہے۔ یعنی زندگی گزارنے کے بابت آسمانی ہدایات کو بتانا جس کا دوسرا نام شریعت ہے اور چوتھی چیز حکمت ہے۔ یعنی دین کے گہرے بھیدوں سے پردہ اٹھانا، بین السطور میں چھپے ہوئے حقائق کو نمایاں کرنا۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

📘 احدکے درہ پر متعین جن چالیس افراد نے نافرمانی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف کردیا تھا۔ تاہم ان لوگوں کو یہ شبہ تھا کہ آپ نے شاید صرف اوپری طورپر ہم کو معاف کیا ہے۔ دل میں آپ اب بھی خفا ہیں اور کسی وقت ہمارے اوپر خفگی نکالیں گے۔ فرمایا کہ یہ پیغمبر کا طریقہ نہیں۔ پیغمبر اندر اور باہر ایک ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے سربراہ کو کیسا ہونا چاہیے۔ مسلم سربراہ کا دل ایسا ہونا چاہيے کہ اس کے اندر بغض، نفرت، کینہ اور حسد بالکل جگہ نہ پاسکے — حتیٰ کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ اس کے ساتھیوں سے ایک بھیانک غلطی ہوگئی ہو۔ مسلم سربراہ کو چاہیے کہ بڑی سے بڑی غلطی کرنے والوں کے خلاف بھی وہ دل میں کوئی جذبہ چھپا کر نہ رکھے۔ آج کے دن ان کے ساتھ اس طرح رہے جیسے پچھلے دن ان سے كوئي غلطي نهيں هوئي تھي۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ جب ایک سربراہ پر اعتماد کرکے اپنے معاملات کو اس کے سپرد کردے تو سربراہ کو ایسا کبھی نہيں کرنا چاہیے کہ ان کے جان ومال کو وہ اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں کی تکمیل پر قربان کردے۔یہ اللہ کے غضب سے بے خوف ہونا ہے۔ جو شخص لوگوں کو یہ بتانے کے لیے اٹھا ہو کہ لوگ اللہ کی مرضی پر چلیں وہ خود کیوں کر اس حال میں اللہ سے ملنا پسند کرے گا کہ وہ اللہ کی مرضی کے خلاف چلا ہو۔ پیغمبر نے اپنی زندگی سے جو مثالی نمونہ قائم کیا ہے، قیامت تک تمام مصلحین کو اسی کے مطابق بننا ہے۔ اصلاح کے کام کے لیے ضروری ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان کام کرنے كو اٹھے ان کو ہر اعتبار سے وہ ’’اپنا‘‘ نظر آئے، اس کی زبان، اس کا طرز کلام، اس کا رہن سہن ہرچیز اجنبیت سے پاک ہو۔ وہ اپنے اور اپنے مخاطبین کے درمیان ایسی فضا نہ بنائے جو کسی پہلو سے ایک دوسرے کو دور کرنے والی ہو یا ایک کو دوسرے کے مقابلہ میں فریق بنا کر کھڑا کردے۔ لوگوں کے درمیان جو کام کرنا ہے وہ سب سے پہلے یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ صلاحیت پیدا کی جائے کہ وہ ان نشانیوں کو پڑھنے لگیں جو ان کی ذات میں اور باہر کی دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اللہ کی دلیلوں کو جان کر ان کو اپنے ذہن کاجزء بنائیں۔ دوسرا کام تزکیہ ہے۔ یہ مقصد زبانی گفتگو اور صحبت کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ عمومی تحریر اور تقریر میں بات زیادہ تر اصولی انداز ميں ہوتی ہے جب کہ انفرادی گفتگوؤںمیں بات زیادہ متعین اور زیادہ مفصل صورت میں ہوتی ہے۔ نیز داعی کا اپنا وجود بھی پوری طرح اس کی تقویت كے ليےموجود رہتاہے۔ عمومی کلام اگر دعوت ہوتا ہے تو انفرادی ملاقاتیں مدعو کے لیے تزکیہ کے ہم معنی بن جاتی ہیں۔ تیسری چیز کتاب ہے۔ یعنی زندگی گزارنے کے بابت آسمانی ہدایات کو بتانا جس کا دوسرا نام شریعت ہے اور چوتھی چیز حکمت ہے۔ یعنی دین کے گہرے بھیدوں سے پردہ اٹھانا، بین السطور میں چھپے ہوئے حقائق کو نمایاں کرنا۔

أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 حق وباطل کے مقابلہ میں آخری فتح حق کو ہوتی ہے۔ کیوںکہ اللہ ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں شرپسندوں کو بھی عمل کی پوری آزادی ہے۔ اس لیے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اہل حق کی کسی کمزوری، مثلاً باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر شرپسند ان کو وقتی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے واقعات کا ایک مفید پہلو بھی ہے۔ اس کے ذریعہ خود مسلمانوں کی جماعت کی جانچ ہوجاتی ہے۔ ناموافق حالات کو دیکھ کر غیر مخلص لوگ چھٹ جاتے ہیں اور جو سچے مسلمان ہیں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جمے رہتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ کون قابل اعتماد ہے اورکون ناقابل اعتماد۔ مزید یہ کہ اتفاقی غلطی سے نقصان اٹھانے کے بعد جب اہل ایمان دوبارہ صبر اور انابت اور توکل علی اللہ کا ثبوت دیتے ہیں تو خدا کی رحمت ان کی طرف پہلے سے بھی زیادہ متوجہ ہوجاتی ہے۔ حق وباطل کے معرکہ میں جو لوگ اس طرح شرکت کریں کہ اسی کی راہ میں اپنے کومٹا دیں، ان کے متعلق اہل دنیا اکثر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے خواہ مخواہ اپنے کو برباد کرلیا۔ مگر یہ صرف نادانی کی بات ہے۔ اللہ کی راہ میں کھونا ہی تو سب سے بڑا پانا ہے ۔ کیوں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں وہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ اللہ کے انعامات کے مستحق قرار ديے جائیںگے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر نادان لوگ اس طرح کرتے ہیں جیسے دوسری راہوں میں اپنی زندگیاں لگانے والوں پر موت نہیں آتی، جیسے کہ صرف مجاہدین فی سبیل اللہ مرتے ہیں اور دوسرے لوگ مرتے ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ موت خدا کا ایک عام قانون ہے۔ وہ بہر حال ہرایک کے لیے اپنے وقت پر آنے والی ہے۔ آدمی خواہ ایک راستہ میں چل رہا ہو یا دوسرے راستہ میں، وہ کسی حالت میں موت کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ کبھی اپنی بات میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کا دل تو اعتراف کررہا ہوتا ہے کہ حق کے لیے قربانی نہ دے کر انھوںنے سخت کوتاہی کی ہے۔ مگر زبان سے قربانی کرنے والوں کو مطعون کرکے اپنا ظاہری بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جن کے بارے میں خود ان کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے وہ جھوٹے الفاظ ہیں، ان کی کوئی واقعی حقیقت نہیں۔

وَمَا أَصَابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيَعْلَمَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 حق وباطل کے مقابلہ میں آخری فتح حق کو ہوتی ہے۔ کیوںکہ اللہ ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں شرپسندوں کو بھی عمل کی پوری آزادی ہے۔ اس لیے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اہل حق کی کسی کمزوری، مثلاً باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر شرپسند ان کو وقتی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے واقعات کا ایک مفید پہلو بھی ہے۔ اس کے ذریعہ خود مسلمانوں کی جماعت کی جانچ ہوجاتی ہے۔ ناموافق حالات کو دیکھ کر غیر مخلص لوگ چھٹ جاتے ہیں اور جو سچے مسلمان ہیں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جمے رہتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ کون قابل اعتماد ہے اورکون ناقابل اعتماد۔ مزید یہ کہ اتفاقی غلطی سے نقصان اٹھانے کے بعد جب اہل ایمان دوبارہ صبر اور انابت اور توکل علی اللہ کا ثبوت دیتے ہیں تو خدا کی رحمت ان کی طرف پہلے سے بھی زیادہ متوجہ ہوجاتی ہے۔ حق وباطل کے معرکہ میں جو لوگ اس طرح شرکت کریں کہ اسی کی راہ میں اپنے کومٹا دیں، ان کے متعلق اہل دنیا اکثر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے خواہ مخواہ اپنے کو برباد کرلیا۔ مگر یہ صرف نادانی کی بات ہے۔ اللہ کی راہ میں کھونا ہی تو سب سے بڑا پانا ہے ۔ کیوں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں وہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ اللہ کے انعامات کے مستحق قرار ديے جائیںگے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر نادان لوگ اس طرح کرتے ہیں جیسے دوسری راہوں میں اپنی زندگیاں لگانے والوں پر موت نہیں آتی، جیسے کہ صرف مجاہدین فی سبیل اللہ مرتے ہیں اور دوسرے لوگ مرتے ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ موت خدا کا ایک عام قانون ہے۔ وہ بہر حال ہرایک کے لیے اپنے وقت پر آنے والی ہے۔ آدمی خواہ ایک راستہ میں چل رہا ہو یا دوسرے راستہ میں، وہ کسی حالت میں موت کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ کبھی اپنی بات میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کا دل تو اعتراف کررہا ہوتا ہے کہ حق کے لیے قربانی نہ دے کر انھوںنے سخت کوتاہی کی ہے۔ مگر زبان سے قربانی کرنے والوں کو مطعون کرکے اپنا ظاہری بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جن کے بارے میں خود ان کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے وہ جھوٹے الفاظ ہیں، ان کی کوئی واقعی حقیقت نہیں۔

وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ

📘 حق وباطل کے مقابلہ میں آخری فتح حق کو ہوتی ہے۔ کیوںکہ اللہ ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں شرپسندوں کو بھی عمل کی پوری آزادی ہے۔ اس لیے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اہل حق کی کسی کمزوری، مثلاً باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر شرپسند ان کو وقتی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے واقعات کا ایک مفید پہلو بھی ہے۔ اس کے ذریعہ خود مسلمانوں کی جماعت کی جانچ ہوجاتی ہے۔ ناموافق حالات کو دیکھ کر غیر مخلص لوگ چھٹ جاتے ہیں اور جو سچے مسلمان ہیں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جمے رہتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ کون قابل اعتماد ہے اورکون ناقابل اعتماد۔ مزید یہ کہ اتفاقی غلطی سے نقصان اٹھانے کے بعد جب اہل ایمان دوبارہ صبر اور انابت اور توکل علی اللہ کا ثبوت دیتے ہیں تو خدا کی رحمت ان کی طرف پہلے سے بھی زیادہ متوجہ ہوجاتی ہے۔ حق وباطل کے معرکہ میں جو لوگ اس طرح شرکت کریں کہ اسی کی راہ میں اپنے کومٹا دیں، ان کے متعلق اہل دنیا اکثر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے خواہ مخواہ اپنے کو برباد کرلیا۔ مگر یہ صرف نادانی کی بات ہے۔ اللہ کی راہ میں کھونا ہی تو سب سے بڑا پانا ہے ۔ کیوں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں وہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ اللہ کے انعامات کے مستحق قرار ديے جائیںگے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر نادان لوگ اس طرح کرتے ہیں جیسے دوسری راہوں میں اپنی زندگیاں لگانے والوں پر موت نہیں آتی، جیسے کہ صرف مجاہدین فی سبیل اللہ مرتے ہیں اور دوسرے لوگ مرتے ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ موت خدا کا ایک عام قانون ہے۔ وہ بہر حال ہرایک کے لیے اپنے وقت پر آنے والی ہے۔ آدمی خواہ ایک راستہ میں چل رہا ہو یا دوسرے راستہ میں، وہ کسی حالت میں موت کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ کبھی اپنی بات میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کا دل تو اعتراف کررہا ہوتا ہے کہ حق کے لیے قربانی نہ دے کر انھوںنے سخت کوتاہی کی ہے۔ مگر زبان سے قربانی کرنے والوں کو مطعون کرکے اپنا ظاہری بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جن کے بارے میں خود ان کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے وہ جھوٹے الفاظ ہیں، ان کی کوئی واقعی حقیقت نہیں۔

الَّذِينَ قَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ وَقَعَدُوا لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا ۗ قُلْ فَادْرَءُوا عَنْ أَنْفُسِكُمُ الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 حق وباطل کے مقابلہ میں آخری فتح حق کو ہوتی ہے۔ کیوںکہ اللہ ہمیشہ حق کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں شرپسندوں کو بھی عمل کی پوری آزادی ہے۔ اس لیے کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اہل حق کی کسی کمزوری، مثلاً باہمی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر شرپسند ان کو وقتی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس طرح کے واقعات کا ایک مفید پہلو بھی ہے۔ اس کے ذریعہ خود مسلمانوں کی جماعت کی جانچ ہوجاتی ہے۔ ناموافق حالات کو دیکھ کر غیر مخلص لوگ چھٹ جاتے ہیں اور جو سچے مسلمان ہیں وہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جمے رہتے ہیں۔ اس طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ کون قابل اعتماد ہے اورکون ناقابل اعتماد۔ مزید یہ کہ اتفاقی غلطی سے نقصان اٹھانے کے بعد جب اہل ایمان دوبارہ صبر اور انابت اور توکل علی اللہ کا ثبوت دیتے ہیں تو خدا کی رحمت ان کی طرف پہلے سے بھی زیادہ متوجہ ہوجاتی ہے۔ حق وباطل کے معرکہ میں جو لوگ اس طرح شرکت کریں کہ اسی کی راہ میں اپنے کومٹا دیں، ان کے متعلق اہل دنیا اکثر افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ انھوں نے خواہ مخواہ اپنے کو برباد کرلیا۔ مگر یہ صرف نادانی کی بات ہے۔ اللہ کی راہ میں کھونا ہی تو سب سے بڑا پانا ہے ۔ کیوں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کردیں وہی وہ لوگ ہیں جو سب سے زیادہ اللہ کے انعامات کے مستحق قرار ديے جائیںگے۔ اللہ کی راہ میں جان دینے والوں کا ذکر نادان لوگ اس طرح کرتے ہیں جیسے دوسری راہوں میں اپنی زندگیاں لگانے والوں پر موت نہیں آتی، جیسے کہ صرف مجاہدین فی سبیل اللہ مرتے ہیں اور دوسرے لوگ مرتے ہی نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات سراسر بے معنی ہے۔ موت خدا کا ایک عام قانون ہے۔ وہ بہر حال ہرایک کے لیے اپنے وقت پر آنے والی ہے۔ آدمی خواہ ایک راستہ میں چل رہا ہو یا دوسرے راستہ میں، وہ کسی حالت میں موت کے انجام سے بچ نہیں سکتا۔ جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ کبھی اپنی بات میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ ان کا دل تو اعتراف کررہا ہوتا ہے کہ حق کے لیے قربانی نہ دے کر انھوںنے سخت کوتاہی کی ہے۔ مگر زبان سے قربانی کرنے والوں کو مطعون کرکے اپنا ظاہری بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی زبان سے ایسے الفاظ بولتے ہیں جن کے بارے میں خود ان کا دل گواہی دے رہا ہوتا ہے وہ جھوٹے الفاظ ہیں، ان کی کوئی واقعی حقیقت نہیں۔

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

الصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ

📘 دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ اس لیے یہاں کی چیزوں میں آدمی کے لیے ظاہری کشش رکھی گئی ہے۔ اب خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون ہے جو ظاہری کشش سے متاثر ہو کر دنیا کی چیزوں میں کھو جاتا ہے۔او ر کون ہے جو اس سے اوپر اٹھ کر آخرت کی اَن دیکھی چیزوں کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ آدمی کو دنیا کی چیزوں میں تسکین ملتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ماحول کے اندر ان کے ذریعہ سے وقار قائم ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ہوں تو اس کے سب کام بنتے چلے جاتے ہیں۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہی چیزیں اصل اہمیت کی چیزیں ہیں۔ اس کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں سمٹ کر بیوی بچوں اور مال وجائداد کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ یہی چیز آخرت کے تقاضوں کی طرف بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا کی چیزوں کی اہمیت کا احساس آدمی کو آخرت کی چیزوں کی طرف سے غافل کردیتا ہے۔ دنیا میں اپنے بچوں کے مستقبل کی تعمیر میں وہ اتنا مشغول ہوتا ہے کہ اس کو یاد نہیں رہتا کہ دنیا سے ماورا بھی کوئی ’’مستقبل‘‘ ہے جس کی تعمیر کی اس کو فکر کرنا چاہیے۔ دنیا میں اپنے گھر کو آباد کرنا اس کے لیے اتنا محبوب بن جاتا ہے کہ اس کو کبھی خیال نہیں آتا کہ اس کے سوا بھی کوئی ’’گھر‘‘ ہے جس کو آبادكرنے میں اس کو لگنا چاہیے۔ دنیا میں دولت سمیٹنا اور جائداد بنانا اس کو اتنا زیادہ قیمتی معلوم ہوتے ہیں کہ وہ سوچ نہیں پاتا کہ اس کے سوا بھی کوئی ’’دولت‘‘ ہے جس کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنے کو وقف کرے۔ مگر اس قسم کی تمام چیزیںصرف موجودہ عارضی زندگی کی رونق ہیں۔ اگلی طویل تر زندگی میں وہ کسی کے کچھ کام آنے والی نہیں۔ جو شخص آخرت کی مستقل زندگی کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے اس کی زندگی کیسی زندگی ہوگی۔ دنیا کی رونقیں اس کی نظر میں حقیر بن جائیں گی۔ وہ اس یقین سے بھر جائے گا کہ آخرت کا معاملہ تمام تر اللہ کے اختیار میں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سب سے زیاہ اللہ سے ڈرے گا اور سب سے زیادہ آخرت کا حریص بن جائے گا۔ معاملات میں وہ اپنی خواہش کے پیچھے نہیں چلے گا بلکہ اللہ کی عدالت کو سامنے رکھ کر اپنا رویہ متعین کرے گا۔ اس کے قول وعمل میں فرق نہیں ہوگا۔ اس کا مال اپنا مال نہ رہے گا بلکہ خدا کے لیے وقف ہوجائے گا۔ اللہ کی راہ میں چلنے میں خواہ کتنی ہی مشکلیں پیش آئیں وہ پوری استقامت کے ساتھ اس پر قائم رہے گا۔ کیوں کہ اس کو یقین ہوگا کہ اللہ کو چھوڑنے کے بعد کوئی نہیں ہے جو اس کا سہارا بنے۔ اس کا دل اللہ کی یاد سے اس طرح پگھل اٹھے گا کہ وہ بے تابانہ اس کو پکارنے لگے گا۔ اس کی تنہائیاں اپنے رب کی صحبت میں بسر ہونے لگیں گی۔ اللہ کی عظمت وکمال کے آگے اس کو اپنا وجود سر تاپا غلط نظر آئے گا۔ اس کے پاس کہنے کے لیے اس کے سوا اور کچھ نہ ہوگا — اے میرے رب مجھے معاف کردے۔

فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

۞ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 جو لوگ اسلام دشمنوں سے لڑے اور شہید ہوئے ان کو منافقین ’’موتِ ضیاع‘‘ کہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ مسلمان ایک شخص کے بہکاوے میں آکر اپنی جانیں ضائع کررہے ہیں۔ فرمایا کہ جس کو تم موت سمجھتے ہو وہی حقیقت میں زندگی ہے۔ تم صرف دنیا کا نفع نقصان جانتے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کی راہ میں جان دینا تمھیں اپنے آپ کو برباد کرنا معلوم ہوتا ہے مگر اللہ کی راہ میں مرنے والے تم سے زیادہ بہتر زندگی پائے ہوئے ہیں۔ وہ آخرت میں تم سے زیادہ عیش کی حالت میں ہیں۔ شیطان کا یہ طریقہ ہے کہ وہ جن انسانوں کو اپنے قریب پاتاہے انھیں اکسا کر کھڑا کردیتا ہے كہ وہ دین کی طرف بڑھنے کے خوفناک نتائج دکھا کر لوگوں كو دین کے راستے سے ہٹا دیں۔ یہ لوگ مخالفین کی قوت كو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں تاکہ اہل ایمان مرعوب ہوجائیں۔ مگر اس قسم کی باتیں اہل ایمان کے حق میں مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ان کا یہ یقین از سر نو زندہ ہوجاتا ہے کہ مشکل حالات میںان کا خداا نھیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ احد کی جنگ مدینہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہوئی۔ جنگ کے بعد کافروں کا لشکر ابو سفیان کی قیادت میں واپس روانہ ہوا۔ مدینہ سے آٹھ میل پر حمراء الاسد پہنچ کر انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ یہاں ان کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ احد سے واپس ہو کر انھوں نے غلطی کی ہے۔ یہ بہترین موقع تھا کہ مدینہ تک مسلمانوں کا پیچھا کیا جاتا اور ان کی طاقت کا آخری طورپر خاتمہ کردیا جاتا۔ اس درمیان میںان کو قبیلہ عبد القیس کا ایک تجارتی قافلہ مل گیا جو مدینہ جارہا تھا۔ کافروں نے اس قافلہ کو کچھ رقم دے کر آمادہ کیا کہ وہ مدینہ پہنچ کر ایسی خبریں پھیلائے جس سے مسلمان ڈر جائیں۔ چنانچہ قافلہ والوں نے مدینہ پہنچ کر کہنا شروع کیا کہ ہم دیکھ آئیں ہیں کہ مکہ والے بھاری لشکر جمع کررہے ہیںاور وه دوبارہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ مگر مسلمانوں کا اللہ پر بھروسہ اس بات کی ضمانت بن گیا کہ کافروں کی تدبیر الٹی پڑجائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان اپنے دشمنوں کے ارادہ سے باخبر ہوگئے۔ قبل اس کے کہ مکہ والوں کی فوج مدینہ کی طرف چلے وہ خود پیغمبر کی رہنمائی میںاپنی جمعیت بنا کر تیزی سے حمراء الاسد کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکہ والوں کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمانوں کی فوج اقدام کرکے ان کی طرف آرہی ہے تو وہ سمجھے کہ مسلمانوںکو نئی کمک مل گئی ہے۔ وہ گھبرا کر مکہ کی طرف واپس چلے گئے۔

وَلَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ۚ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۗ يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ لوگ دنیا کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اوراپنی ساری توجہ دنیا کی جنت کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ مگر زیادہ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کے جہنم سے اپنے کو بچائے اور وہاں کی جنت کی طرف دوڑے۔ دنیا میں پیسہ والا ہونا اور بے پیسہ والا ہونا، جائداد والا ہونا اور بے جائداد والا ہونا، عزت والا ہونا اور بے عزت والا ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہرآدمی کو آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اس لیے وہ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ اپنی ساری کوشش اس مقصد کے لیے لگا دیتا ہے کہ وہ یہاں محروم نہ رہے۔ مگر انسان کا اصل مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے جس کو اللہ نے امتحان کی مصلحت سے چھپا دیا ہے اور اس سے لوگوں کو خبر دار کرنے کے لیے یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ اپنے کچھ بندوں کو غیب کی پیغام بری کے لیے چنے۔ ان کو موت کے اس پار کی حقیقتوں سے خبردار کرے اور پھر ان کو مقرر کرے کہ وہ دوسروں کو اس سے باخبر کردیں۔ انسان کی اصل جانچ یہ ہے کہ وہ خدا کے داعی کی آواز میں سچائی کی جھلکیوںکو پالے، وہ ایک لفظی پکار میں حقیقت کی عملی تصویر دیکھ لے۔ وہ اپنے جیسے ایک انسان کی باتوں میں خدائی بات کی گونج سن لے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی خود پسندی نہ کرے۔ کیوںکہ خود پسندی خدا کے بجائے اپنے آپ کو بڑائی کا مقام دینا ہے۔ وہ دنیا میں غرق نہ ہو۔ کیوں کہ دنیا میں غرق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آدمی آخرت کو اصل اہمیت نہیں دیتا۔ وہ کبر، بخل، ناانصافی اور غیر اللہ کی عقیدت ومحبت سے اپنے کو بچائے اور اس کے بجائے خداپرستی، تواضع، فیاضی اور انصاف پسندی کو اپنا شیوہ بنائے۔ ایسا کرنا ثابت کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایمان میں سنجیدہ ہے۔ اس نے فی الواقع اپنے آپ کو خدا اور آخرت کی طرف لگادیا ہے۔ اور ایسا نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں سنجیدہ نہیں۔ اقرارِ ایمان کے باوجود عملاً وہ اسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں دوسرے لوگ جی رہے ہیں۔ آخرت میں خبیث روحوں اور طیب روحوں کی جو تقسیم ہوگی وہ حقیقت کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ محض ظاہری نمائش کے اعتبار سے — دنیا میں برے لوگوں کو جوڈھیل دی گئی ہے وہ صر ف اس لیے ہے کہ وہ اپنے اندر کی بُرائی کو پوری طرح ظاہر کردیں۔ مگر وہ خواہ کتنی ہی کوشش کریں وہ اہلِ حق کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ اپنی آزادی کو صرف اپنے خلاف استعمال کرسکتے ہیں، نہ کہ دوسروں کے خلاف۔

إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ لوگ دنیا کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اوراپنی ساری توجہ دنیا کی جنت کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ مگر زیادہ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کے جہنم سے اپنے کو بچائے اور وہاں کی جنت کی طرف دوڑے۔ دنیا میں پیسہ والا ہونا اور بے پیسہ والا ہونا، جائداد والا ہونا اور بے جائداد والا ہونا، عزت والا ہونا اور بے عزت والا ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہرآدمی کو آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اس لیے وہ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ اپنی ساری کوشش اس مقصد کے لیے لگا دیتا ہے کہ وہ یہاں محروم نہ رہے۔ مگر انسان کا اصل مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے جس کو اللہ نے امتحان کی مصلحت سے چھپا دیا ہے اور اس سے لوگوں کو خبر دار کرنے کے لیے یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ اپنے کچھ بندوں کو غیب کی پیغام بری کے لیے چنے۔ ان کو موت کے اس پار کی حقیقتوں سے خبردار کرے اور پھر ان کو مقرر کرے کہ وہ دوسروں کو اس سے باخبر کردیں۔ انسان کی اصل جانچ یہ ہے کہ وہ خدا کے داعی کی آواز میں سچائی کی جھلکیوںکو پالے، وہ ایک لفظی پکار میں حقیقت کی عملی تصویر دیکھ لے۔ وہ اپنے جیسے ایک انسان کی باتوں میں خدائی بات کی گونج سن لے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی خود پسندی نہ کرے۔ کیوںکہ خود پسندی خدا کے بجائے اپنے آپ کو بڑائی کا مقام دینا ہے۔ وہ دنیا میں غرق نہ ہو۔ کیوں کہ دنیا میں غرق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آدمی آخرت کو اصل اہمیت نہیں دیتا۔ وہ کبر، بخل، ناانصافی اور غیر اللہ کی عقیدت ومحبت سے اپنے کو بچائے اور اس کے بجائے خداپرستی، تواضع، فیاضی اور انصاف پسندی کو اپنا شیوہ بنائے۔ ایسا کرنا ثابت کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایمان میں سنجیدہ ہے۔ اس نے فی الواقع اپنے آپ کو خدا اور آخرت کی طرف لگادیا ہے۔ اور ایسا نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں سنجیدہ نہیں۔ اقرارِ ایمان کے باوجود عملاً وہ اسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں دوسرے لوگ جی رہے ہیں۔ آخرت میں خبیث روحوں اور طیب روحوں کی جو تقسیم ہوگی وہ حقیقت کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ محض ظاہری نمائش کے اعتبار سے — دنیا میں برے لوگوں کو جوڈھیل دی گئی ہے وہ صر ف اس لیے ہے کہ وہ اپنے اندر کی بُرائی کو پوری طرح ظاہر کردیں۔ مگر وہ خواہ کتنی ہی کوشش کریں وہ اہلِ حق کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ اپنی آزادی کو صرف اپنے خلاف استعمال کرسکتے ہیں، نہ کہ دوسروں کے خلاف۔

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ ۚ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ

📘 زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ لوگ دنیا کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اوراپنی ساری توجہ دنیا کی جنت کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ مگر زیادہ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کے جہنم سے اپنے کو بچائے اور وہاں کی جنت کی طرف دوڑے۔ دنیا میں پیسہ والا ہونا اور بے پیسہ والا ہونا، جائداد والا ہونا اور بے جائداد والا ہونا، عزت والا ہونا اور بے عزت والا ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہرآدمی کو آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اس لیے وہ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ اپنی ساری کوشش اس مقصد کے لیے لگا دیتا ہے کہ وہ یہاں محروم نہ رہے۔ مگر انسان کا اصل مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے جس کو اللہ نے امتحان کی مصلحت سے چھپا دیا ہے اور اس سے لوگوں کو خبر دار کرنے کے لیے یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ اپنے کچھ بندوں کو غیب کی پیغام بری کے لیے چنے۔ ان کو موت کے اس پار کی حقیقتوں سے خبردار کرے اور پھر ان کو مقرر کرے کہ وہ دوسروں کو اس سے باخبر کردیں۔ انسان کی اصل جانچ یہ ہے کہ وہ خدا کے داعی کی آواز میں سچائی کی جھلکیوںکو پالے، وہ ایک لفظی پکار میں حقیقت کی عملی تصویر دیکھ لے۔ وہ اپنے جیسے ایک انسان کی باتوں میں خدائی بات کی گونج سن لے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی خود پسندی نہ کرے۔ کیوںکہ خود پسندی خدا کے بجائے اپنے آپ کو بڑائی کا مقام دینا ہے۔ وہ دنیا میں غرق نہ ہو۔ کیوں کہ دنیا میں غرق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آدمی آخرت کو اصل اہمیت نہیں دیتا۔ وہ کبر، بخل، ناانصافی اور غیر اللہ کی عقیدت ومحبت سے اپنے کو بچائے اور اس کے بجائے خداپرستی، تواضع، فیاضی اور انصاف پسندی کو اپنا شیوہ بنائے۔ ایسا کرنا ثابت کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایمان میں سنجیدہ ہے۔ اس نے فی الواقع اپنے آپ کو خدا اور آخرت کی طرف لگادیا ہے۔ اور ایسا نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں سنجیدہ نہیں۔ اقرارِ ایمان کے باوجود عملاً وہ اسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں دوسرے لوگ جی رہے ہیں۔ آخرت میں خبیث روحوں اور طیب روحوں کی جو تقسیم ہوگی وہ حقیقت کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ محض ظاہری نمائش کے اعتبار سے — دنیا میں برے لوگوں کو جوڈھیل دی گئی ہے وہ صر ف اس لیے ہے کہ وہ اپنے اندر کی بُرائی کو پوری طرح ظاہر کردیں۔ مگر وہ خواہ کتنی ہی کوشش کریں وہ اہلِ حق کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ اپنی آزادی کو صرف اپنے خلاف استعمال کرسکتے ہیں، نہ کہ دوسروں کے خلاف۔

مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَىٰ مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّىٰ يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۚ وَإِنْ تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ

📘 زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں جو دکھائی دے رہا ہے۔ اصل مسئلہ وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ لوگ دنیا کے جہنم سے بچنے کی فکر کرتے ہیں اوراپنی ساری توجہ دنیا کی جنت کو حاصل کرنے میں لگا دیتے ہیں۔ مگر زیادہ عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی آخرت کے جہنم سے اپنے کو بچائے اور وہاں کی جنت کی طرف دوڑے۔ دنیا میں پیسہ والا ہونا اور بے پیسہ والا ہونا، جائداد والا ہونا اور بے جائداد والا ہونا، عزت والا ہونا اور بے عزت والا ہونا، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو ہرآدمی کو آنکھوں سے نظر آتی ہیں۔ اس لیے وہ ان پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ وہ اپنی ساری کوشش اس مقصد کے لیے لگا دیتا ہے کہ وہ یہاں محروم نہ رہے۔ مگر انسان کا اصل مسئلہ آخرت کا مسئلہ ہے جس کو اللہ نے امتحان کی مصلحت سے چھپا دیا ہے اور اس سے لوگوں کو خبر دار کرنے کے لیے یہ طریقہ مقرر فرمایا ہے کہ وہ اپنے کچھ بندوں کو غیب کی پیغام بری کے لیے چنے۔ ان کو موت کے اس پار کی حقیقتوں سے خبردار کرے اور پھر ان کو مقرر کرے کہ وہ دوسروں کو اس سے باخبر کردیں۔ انسان کی اصل جانچ یہ ہے کہ وہ خدا کے داعی کی آواز میں سچائی کی جھلکیوںکو پالے، وہ ایک لفظی پکار میں حقیقت کی عملی تصویر دیکھ لے۔ وہ اپنے جیسے ایک انسان کی باتوں میں خدائی بات کی گونج سن لے۔ ایمان یہ ہے کہ آدمی خود پسندی نہ کرے۔ کیوںکہ خود پسندی خدا کے بجائے اپنے آپ کو بڑائی کا مقام دینا ہے۔ وہ دنیا میں غرق نہ ہو۔ کیوں کہ دنیا میں غرق ہونا ظاہر کرتا ہے کہ آدمی آخرت کو اصل اہمیت نہیں دیتا۔ وہ کبر، بخل، ناانصافی اور غیر اللہ کی عقیدت ومحبت سے اپنے کو بچائے اور اس کے بجائے خداپرستی، تواضع، فیاضی اور انصاف پسندی کو اپنا شیوہ بنائے۔ ایسا کرنا ثابت کرتا ہے کہ آدمی اپنے ایمان میں سنجیدہ ہے۔ اس نے فی الواقع اپنے آپ کو خدا اور آخرت کی طرف لگادیا ہے۔ اور ایسا نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنے ایمان میں سنجیدہ نہیں۔ اقرارِ ایمان کے باوجود عملاً وہ اسی دنیا میں جی رہا ہے جہاں دوسرے لوگ جی رہے ہیں۔ آخرت میں خبیث روحوں اور طیب روحوں کی جو تقسیم ہوگی وہ حقیقت کے اعتبار سے ہوگی، نہ کہ محض ظاہری نمائش کے اعتبار سے — دنیا میں برے لوگوں کو جوڈھیل دی گئی ہے وہ صر ف اس لیے ہے کہ وہ اپنے اندر کی بُرائی کو پوری طرح ظاہر کردیں۔ مگر وہ خواہ کتنی ہی کوشش کریں وہ اہلِ حق کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ اپنی آزادی کو صرف اپنے خلاف استعمال کرسکتے ہیں، نہ کہ دوسروں کے خلاف۔

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 کائنات کا خدا ایک ہی خداہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کاخدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا۔ کائنات کا ہر جزء کامل طورپر ’’مسلم‘‘ ہے۔ یعنی اپنی سرگرمیوں کو اللہ کے مقررہ نقشہ کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مرکز توجہ بنانا یا یہ خیال کرنا کہ اللہ کا فیصلہ عدل کے سوا کسی اور بنیاد پر ہوسکتا ہے، ایسی بے اصل بات ہے جس کے لیے موجودہ کائنات میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کی دعوت اسی سچے اسلام کی دعوت ہے۔ جو لوگ اس سے اختلاف کررہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں هے کہ اس کا حق ہونا ان پر واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ ضد ہے۔ اس کو ماننا انھیں داعیٔ قرآن کی فکری برتری تسلیم کرنے کے ہم معنی نظر آتا ہے، اور ان کی حسد اور کبر کی نفسیات اس قسم کا اعتراف کرنے پر راضی نہیں۔ سیدھی طرح حق کو مان لینے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اس زبان ہی کو بند کردیں جو حق کا اعلان کررہی ہے۔ تاہم خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ داعیٔ حق کی زبان کو بند کرنے کے لیے ان کا ہر منصوبہ ناکام ہوگا اور جب خدا کے عد ل کا ترازو کھڑا ہوگا تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے وہ اعمال کس قدر بے قیمت تھے جن کے بل پر وہ اپنی نجات اور کامیابی کا یقین کيے ہوئے تھے — سچی دلیل خدا کی نشانی ہے۔ جو شخص دلیل کے سامنے نہیں جھکتا وہ گویا خدا کے سامنے نہیں جھکتا۔ ایسے لوگ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ سب سے زیادہ بے سہارا ہوں گے۔

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ

📘 ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔

لَقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنْبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ

📘 ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ

📘 ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔

فَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ

📘 ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ

📘 ظاہری طور پر آدمی ایک قول دے کر مومن بن جاتا ہے مگر اللہ کی نظر میں وہ اس وقت مومن بنتا ہے جب کہ وہ اپنی جان اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے دے۔ جان ومال کی قربانی کے بغیر کسی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔ آدمی اپنے مال کو اس لیے بچاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دنیوی مستقبل کا تحفظ کررہا ہے۔ مگر آدمی کا حقیقی مستقبل وہ ہے جو آخرت میں سامنے آنے والا ہے اور آخرت کی دنیا میں ایسا بچایا ہوا مال آدمی کے حق میں صرف وبال ثابت ہوگا۔ جو مال دنیا میں زینت اور فخر کا ذریعہ دکھائی دے رہاہے وہ آخرت میں خداکے حکم سے سانپ کی صورت اختیار کرلے گا جو ابدی طورپر اس کو ڈستارہے۔ جو لوگ قربانی والے دین کو نہیں اپناتے وہ اپنے کو صحیح ثابت کرنے کے لیے مختلف باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ یہ مال خدا نے ہماری ضرورت کے لیے پیدا کیا ہے۔ پھر کیوں نہ ہم اس کو اپنی ضرورتوں میں خرچ کریں، اور اس سے اپنے دنیوی آرام کا سامان کریں۔ کبھی ان کی بے حسی ان کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ خود داعیٔ حق کو مشتبہ کرنے کے لیے طرح طرح کے شوشے نکالتے ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ شخص سچا داعی ہی نہیں،جس کا ظہوریہ تقاضا کررہا ہے کہ اپنی زندگی اور اپنے مال کو قربان کرکے اس کا ساتھ دیا جائے۔ اس قسم کے لوگ جو باتیں کہتے ہیں وہ بظاہر دلیل کے روپ میں ہوتی ہیں مگر حقیقۃً وہ ایمانی تقاضوںسے فرار کے لیے ہیں۔ اس لیے خواہ کیسی ہی دلیل پیش کی جائے وہ ا س کو رد کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ الفاظ تلاش کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ان کا آخری انجام موت ہے، اور موت کا مرحلہ سامنے آتے ہی صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ موت تمام جھوٹے سہاروں کو باطل کردے گی۔ اس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ٹھیک اس مقام پر کھڑا ہوا پائے گا جہاں وہ حقیقۃً تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ اپنے آپ کو ظاہر کررہا تھا — موجودہ دنیا میں کسی کا ترقی کرنا یا موجودہ دنیا میں کسی کا ناکام ہوجانا، دونوں حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی سطح کی چیزیں ہیں۔ نہ یہاں کی نعمتیں کسی کے برسر حق ہونے کا ثبوت ہیں، اور نہ کسی کا یہاں مشکلات ومصائب میں مبتلا ہونا، اس کے برسرِ باطل ہونے کا ثبوت۔ کیوں کہ دونوں ہی امتحان کے نقشے ہیں، نہ کہ انجام کی علامتیں۔

۞ لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

📘 ایمان کا سفر آدمی کو ایسی دنیا میںطے کرنا ہوتا ہے جہاں اپنوں اور غیروں کی طرف سے طرح طرح کے زخم لگتے ہیں۔ مگر مومن کے لیے ضروری ہوتاہے کہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو، وہ ہر صورت حال کا مثبت جواب دیتے ہوئے آگے بڑھتا رہے۔ لوگوں کی طرف سے اشتعال دلانے والے مواقع پیش آتے ہیں مگر وہ پابند ہوتا ہے کہ ہر قسم کے جھٹکوں کو اپنے اوپر سہے اور جوابی ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کرے۔ بار بار ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جب کہ دل کہتا ہے کہ حدود خداوندی کو توڑ کر اپنا مدعا حاصل كيا جائے مگر اللہ کا ڈر اس کے قدموں کو روک دیتا ہے۔اسی طرح دین کی مختلف ضرورتیں سامنے آتی ہیں اور جان ومال کی قربانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسے مواقع پر آسان دین کو چھوڑ کر مشکل دین کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ایمان کے سفر کو ہمت اور عالی حوصلگی کا زبردست امتحان بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بننا اپنے آپ کو صبر اور تقویٰ کے امتحان میںکھڑا کرنا ہے۔ جواس امتحان میں پورا اترا وہی وہ مومن بنا جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ پر جب زوال آتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ خدا ورسول کا نام لینا چھوڑ دے یا خدا کی کتاب سے اپنی بےتعلقی کا اعلان کردے۔ دین ایسے گروہ کی نسلی روایات میں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ اس کا پُر فخر قومی اثاثہ بن جاتا ہے۔اور جس چیز سے اس طرح کا نسلی اور قومی تعلق قائم ہوجائے اس سے علیحدگی کسی گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا یہ تعلق محض رسمی تعلق ہوتا ہے، نہ کہ فی الواقع حقیقی تعلق۔ وہ اپنی دنیوی سرگرمیاں بھی دین کے نام پر جاری کرتے ہیں۔ وہ بے دین ہو کر بھی اپنےکو دین دار کہلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کو اس کام کا کریڈٹ دیا جائے جس کو انھوں نے کیا نہیں۔ وہ نجاتِ اُخروی سے بے فکر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور اسی کے ساتھ ایسے عقیدے بنا لیتے ہیں جس کے مطابق ان کو اپنی نجات بالکل محفوظ نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گھڑے ہوئے دین پر چلتے ہیں مگر اپنے کو دین خداوندی کا عَلَم بردار بتاتے ہیں۔ وہ دنیوی مقاصد کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو آخرت کا عنوان دیتے ہیں۔ وہ خود ساختہ سیاست چلاتے ہیں اور اس کو خدائی سیاست ثابت کرتے ہیں۔ وہ قومی مفادات کے لیے اٹھتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ خیر الامم کا کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی شخص بے دینی کو دین کہنے لگے تو اس بنا پر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ،آدمی دنیا کی طرف دوڑے اور آخرت سے بے پروا ہو جائے تو یہ صرف گمراہی ہے اور اگر وہ اپنے دنیوی کاروبار کو خدا وررسول کے نام پر کرنے لگے تو یہ گمراہی پر ڈھٹائی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے کام پر انعام چاہنا ہے جس کو آدمی نے انجام ہی نہیں دیا۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ

📘 ایمان کا سفر آدمی کو ایسی دنیا میںطے کرنا ہوتا ہے جہاں اپنوں اور غیروں کی طرف سے طرح طرح کے زخم لگتے ہیں۔ مگر مومن کے لیے ضروری ہوتاہے کہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو، وہ ہر صورت حال کا مثبت جواب دیتے ہوئے آگے بڑھتا رہے۔ لوگوں کی طرف سے اشتعال دلانے والے مواقع پیش آتے ہیں مگر وہ پابند ہوتا ہے کہ ہر قسم کے جھٹکوں کو اپنے اوپر سہے اور جوابی ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کرے۔ بار بار ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جب کہ دل کہتا ہے کہ حدود خداوندی کو توڑ کر اپنا مدعا حاصل كيا جائے مگر اللہ کا ڈر اس کے قدموں کو روک دیتا ہے۔اسی طرح دین کی مختلف ضرورتیں سامنے آتی ہیں اور جان ومال کی قربانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسے مواقع پر آسان دین کو چھوڑ کر مشکل دین کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ایمان کے سفر کو ہمت اور عالی حوصلگی کا زبردست امتحان بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بننا اپنے آپ کو صبر اور تقویٰ کے امتحان میںکھڑا کرنا ہے۔ جواس امتحان میں پورا اترا وہی وہ مومن بنا جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ پر جب زوال آتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ خدا ورسول کا نام لینا چھوڑ دے یا خدا کی کتاب سے اپنی بےتعلقی کا اعلان کردے۔ دین ایسے گروہ کی نسلی روایات میں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ اس کا پُر فخر قومی اثاثہ بن جاتا ہے۔اور جس چیز سے اس طرح کا نسلی اور قومی تعلق قائم ہوجائے اس سے علیحدگی کسی گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا یہ تعلق محض رسمی تعلق ہوتا ہے، نہ کہ فی الواقع حقیقی تعلق۔ وہ اپنی دنیوی سرگرمیاں بھی دین کے نام پر جاری کرتے ہیں۔ وہ بے دین ہو کر بھی اپنےکو دین دار کہلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کو اس کام کا کریڈٹ دیا جائے جس کو انھوں نے کیا نہیں۔ وہ نجاتِ اُخروی سے بے فکر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور اسی کے ساتھ ایسے عقیدے بنا لیتے ہیں جس کے مطابق ان کو اپنی نجات بالکل محفوظ نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گھڑے ہوئے دین پر چلتے ہیں مگر اپنے کو دین خداوندی کا عَلَم بردار بتاتے ہیں۔ وہ دنیوی مقاصد کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو آخرت کا عنوان دیتے ہیں۔ وہ خود ساختہ سیاست چلاتے ہیں اور اس کو خدائی سیاست ثابت کرتے ہیں۔ وہ قومی مفادات کے لیے اٹھتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ خیر الامم کا کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی شخص بے دینی کو دین کہنے لگے تو اس بنا پر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ،آدمی دنیا کی طرف دوڑے اور آخرت سے بے پروا ہو جائے تو یہ صرف گمراہی ہے اور اگر وہ اپنے دنیوی کاروبار کو خدا وررسول کے نام پر کرنے لگے تو یہ گمراہی پر ڈھٹائی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے کام پر انعام چاہنا ہے جس کو آدمی نے انجام ہی نہیں دیا۔

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 ایمان کا سفر آدمی کو ایسی دنیا میںطے کرنا ہوتا ہے جہاں اپنوں اور غیروں کی طرف سے طرح طرح کے زخم لگتے ہیں۔ مگر مومن کے لیے ضروری ہوتاہے کہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو، وہ ہر صورت حال کا مثبت جواب دیتے ہوئے آگے بڑھتا رہے۔ لوگوں کی طرف سے اشتعال دلانے والے مواقع پیش آتے ہیں مگر وہ پابند ہوتا ہے کہ ہر قسم کے جھٹکوں کو اپنے اوپر سہے اور جوابی ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کرے۔ بار بار ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جب کہ دل کہتا ہے کہ حدود خداوندی کو توڑ کر اپنا مدعا حاصل كيا جائے مگر اللہ کا ڈر اس کے قدموں کو روک دیتا ہے۔اسی طرح دین کی مختلف ضرورتیں سامنے آتی ہیں اور جان ومال کی قربانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسے مواقع پر آسان دین کو چھوڑ کر مشکل دین کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ایمان کے سفر کو ہمت اور عالی حوصلگی کا زبردست امتحان بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بننا اپنے آپ کو صبر اور تقویٰ کے امتحان میںکھڑا کرنا ہے۔ جواس امتحان میں پورا اترا وہی وہ مومن بنا جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ پر جب زوال آتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ خدا ورسول کا نام لینا چھوڑ دے یا خدا کی کتاب سے اپنی بےتعلقی کا اعلان کردے۔ دین ایسے گروہ کی نسلی روایات میں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ اس کا پُر فخر قومی اثاثہ بن جاتا ہے۔اور جس چیز سے اس طرح کا نسلی اور قومی تعلق قائم ہوجائے اس سے علیحدگی کسی گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا یہ تعلق محض رسمی تعلق ہوتا ہے، نہ کہ فی الواقع حقیقی تعلق۔ وہ اپنی دنیوی سرگرمیاں بھی دین کے نام پر جاری کرتے ہیں۔ وہ بے دین ہو کر بھی اپنےکو دین دار کہلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کو اس کام کا کریڈٹ دیا جائے جس کو انھوں نے کیا نہیں۔ وہ نجاتِ اُخروی سے بے فکر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور اسی کے ساتھ ایسے عقیدے بنا لیتے ہیں جس کے مطابق ان کو اپنی نجات بالکل محفوظ نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گھڑے ہوئے دین پر چلتے ہیں مگر اپنے کو دین خداوندی کا عَلَم بردار بتاتے ہیں۔ وہ دنیوی مقاصد کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو آخرت کا عنوان دیتے ہیں۔ وہ خود ساختہ سیاست چلاتے ہیں اور اس کو خدائی سیاست ثابت کرتے ہیں۔ وہ قومی مفادات کے لیے اٹھتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ خیر الامم کا کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی شخص بے دینی کو دین کہنے لگے تو اس بنا پر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ،آدمی دنیا کی طرف دوڑے اور آخرت سے بے پروا ہو جائے تو یہ صرف گمراہی ہے اور اگر وہ اپنے دنیوی کاروبار کو خدا وررسول کے نام پر کرنے لگے تو یہ گمراہی پر ڈھٹائی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے کام پر انعام چاہنا ہے جس کو آدمی نے انجام ہی نہیں دیا۔

وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 ایمان کا سفر آدمی کو ایسی دنیا میںطے کرنا ہوتا ہے جہاں اپنوں اور غیروں کی طرف سے طرح طرح کے زخم لگتے ہیں۔ مگر مومن کے لیے ضروری ہوتاہے کہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو، وہ ہر صورت حال کا مثبت جواب دیتے ہوئے آگے بڑھتا رہے۔ لوگوں کی طرف سے اشتعال دلانے والے مواقع پیش آتے ہیں مگر وہ پابند ہوتا ہے کہ ہر قسم کے جھٹکوں کو اپنے اوپر سہے اور جوابی ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کرے۔ بار بار ایسے معاملات سامنے آتے ہیں جب کہ دل کہتا ہے کہ حدود خداوندی کو توڑ کر اپنا مدعا حاصل كيا جائے مگر اللہ کا ڈر اس کے قدموں کو روک دیتا ہے۔اسی طرح دین کی مختلف ضرورتیں سامنے آتی ہیں اور جان ومال کی قربانی کا تقاضا کرتی ہیں۔ ایسے مواقع پر آسان دین کو چھوڑ کر مشکل دین کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ واقعہ ایمان کے سفر کو ہمت اور عالی حوصلگی کا زبردست امتحان بنا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مومن بننا اپنے آپ کو صبر اور تقویٰ کے امتحان میںکھڑا کرنا ہے۔ جواس امتحان میں پورا اترا وہی وہ مومن بنا جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔ آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ پر جب زوال آتا ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ وہ خدا ورسول کا نام لینا چھوڑ دے یا خدا کی کتاب سے اپنی بےتعلقی کا اعلان کردے۔ دین ایسے گروہ کی نسلی روایات میں شامل ہوجاتا ہے۔ وہ اس کا پُر فخر قومی اثاثہ بن جاتا ہے۔اور جس چیز سے اس طرح کا نسلی اور قومی تعلق قائم ہوجائے اس سے علیحدگی کسی گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ تاہم اس کا یہ تعلق محض رسمی تعلق ہوتا ہے، نہ کہ فی الواقع حقیقی تعلق۔ وہ اپنی دنیوی سرگرمیاں بھی دین کے نام پر جاری کرتے ہیں۔ وہ بے دین ہو کر بھی اپنےکو دین دار کہلانا چاہتے ہیں۔ وہ چاہنے لگتے ہیں کہ ان کو اس کام کا کریڈٹ دیا جائے جس کو انھوں نے کیا نہیں۔ وہ نجاتِ اُخروی سے بے فکر ہو کر زندگی گزارتے ہیں اور اسی کے ساتھ ایسے عقیدے بنا لیتے ہیں جس کے مطابق ان کو اپنی نجات بالکل محفوظ نظر آتی ہے۔ وہ اپنے گھڑے ہوئے دین پر چلتے ہیں مگر اپنے کو دین خداوندی کا عَلَم بردار بتاتے ہیں۔ وہ دنیوی مقاصد کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو آخرت کا عنوان دیتے ہیں۔ وہ خود ساختہ سیاست چلاتے ہیں اور اس کو خدائی سیاست ثابت کرتے ہیں۔ وہ قومی مفادات کے لیے اٹھتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ وہ خیر الامم کا کردار ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ مگر کوئی شخص بے دینی کو دین کہنے لگے تو اس بنا پر وہ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا ،آدمی دنیا کی طرف دوڑے اور آخرت سے بے پروا ہو جائے تو یہ صرف گمراہی ہے اور اگر وہ اپنے دنیوی کاروبار کو خدا وررسول کے نام پر کرنے لگے تو یہ گمراہی پر ڈھٹائی کا اضافہ ہے۔ کیوں کہ یہ ایسے کام پر انعام چاہنا ہے جس کو آدمی نے انجام ہی نہیں دیا۔

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 کائنات کا خدا ایک ہی خداہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کاخدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا۔ کائنات کا ہر جزء کامل طورپر ’’مسلم‘‘ ہے۔ یعنی اپنی سرگرمیوں کو اللہ کے مقررہ نقشہ کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مرکز توجہ بنانا یا یہ خیال کرنا کہ اللہ کا فیصلہ عدل کے سوا کسی اور بنیاد پر ہوسکتا ہے، ایسی بے اصل بات ہے جس کے لیے موجودہ کائنات میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کی دعوت اسی سچے اسلام کی دعوت ہے۔ جو لوگ اس سے اختلاف کررہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں هے کہ اس کا حق ہونا ان پر واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ ضد ہے۔ اس کو ماننا انھیں داعیٔ قرآن کی فکری برتری تسلیم کرنے کے ہم معنی نظر آتا ہے، اور ان کی حسد اور کبر کی نفسیات اس قسم کا اعتراف کرنے پر راضی نہیں۔ سیدھی طرح حق کو مان لینے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اس زبان ہی کو بند کردیں جو حق کا اعلان کررہی ہے۔ تاہم خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ داعیٔ حق کی زبان کو بند کرنے کے لیے ان کا ہر منصوبہ ناکام ہوگا اور جب خدا کے عد ل کا ترازو کھڑا ہوگا تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے وہ اعمال کس قدر بے قیمت تھے جن کے بل پر وہ اپنی نجات اور کامیابی کا یقین کيے ہوئے تھے — سچی دلیل خدا کی نشانی ہے۔ جو شخص دلیل کے سامنے نہیں جھکتا وہ گویا خدا کے سامنے نہیں جھکتا۔ ایسے لوگ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ سب سے زیادہ بے سہارا ہوں گے۔

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خاموش اعلان ہے۔ آدمی جب اپنے کان اور آنکھ سے مصنوعی پردوں کو ہٹاتا ہے تو وہ اس خاموش اعلان کو ہر طرف سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی کائنات جس کے ستارے اور سیارے کھربوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے وہاں انسان اپنی تمام خواہشوں اور تمناؤں کو لیے ہوئے صرف پچاس سال اور سو سال میں ختم ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں درختوں کا حسن اور پھولوں کی لطافت ہے۔ جہاں ہوا اور پانی اور سورج جیسی بے شمار بامعنی چیزوں کا اہتمام کیاگیا ہے وہاںانسان کے لیے حزن اور غم کے سوا کوئی انجام نہ ہو۔ پھر یہ بھی اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں یہ اتھاہ امکان رکھا گیا ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا بیج زمین میںڈالا جائے تو اس کے اندر سے ہرے بھرے درخت کی ایک پوری کائنات نکل آئے وہاں آدمی نیکی کی زندگی اختیار کرکے بھی اس کا کوئی پھل نہ پاتا ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر روز تاریک رات کے بعد روشن دن آتا ہے وہاں صدیاں گزر جائیں اور عدل وانصاف کا اجالا اپنی چمک نہ دکھائے۔ ایک ایسی دنیا جس کی گود میں زلزلے اور طوفان سورہے ہیں۔ وہاں انسان ظلم پر ظلم کر تا رہے مگر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا سامنے نہ آئے۔ جو لوگ حقیقتوں میں جیتے ہیں اور گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک بامعنی کائنات بے معنی انجام پر ختم ہوجائے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ حق کا داعی جو پیغام دے رہا ہے وہ نطق کی زبان میں اسی بات کا اعلان ہے، جو خاموش زبان میں ساری کائنات میں نشر ہورہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ جب سچائی کھلے اور جب انصاف کا سورج نکلے تو اس دن وہ ناکام و نامراد نہ ہوجائیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، وہ مفاد اور مصلحت کی تمام حدود کو توڑ کر داعی حق کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جب کائنات کا ’’اجالا‘‘ اور کائنات کا ’’اندھیرا‘‘ ایک دوسرے سے الگ کيے جائیں تو کائنات کا مالک ان کو اجالے میں جگہ دے، وہ ان کو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہ چھوڑے۔ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے۔ یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے، جو کائنات کے تخلیقی منصوبہ میںکام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے۔ اس کے برعکس، بے عقل وہ ہے جو اپنے دل ودماغ کو دوسری دوسری چیزوں میں اٹکائے، جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ ا س کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں۔

الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خاموش اعلان ہے۔ آدمی جب اپنے کان اور آنکھ سے مصنوعی پردوں کو ہٹاتا ہے تو وہ اس خاموش اعلان کو ہر طرف سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی کائنات جس کے ستارے اور سیارے کھربوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے وہاں انسان اپنی تمام خواہشوں اور تمناؤں کو لیے ہوئے صرف پچاس سال اور سو سال میں ختم ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں درختوں کا حسن اور پھولوں کی لطافت ہے۔ جہاں ہوا اور پانی اور سورج جیسی بے شمار بامعنی چیزوں کا اہتمام کیاگیا ہے وہاںانسان کے لیے حزن اور غم کے سوا کوئی انجام نہ ہو۔ پھر یہ بھی اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں یہ اتھاہ امکان رکھا گیا ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا بیج زمین میںڈالا جائے تو اس کے اندر سے ہرے بھرے درخت کی ایک پوری کائنات نکل آئے وہاں آدمی نیکی کی زندگی اختیار کرکے بھی اس کا کوئی پھل نہ پاتا ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر روز تاریک رات کے بعد روشن دن آتا ہے وہاں صدیاں گزر جائیں اور عدل وانصاف کا اجالا اپنی چمک نہ دکھائے۔ ایک ایسی دنیا جس کی گود میں زلزلے اور طوفان سورہے ہیں۔ وہاں انسان ظلم پر ظلم کر تا رہے مگر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا سامنے نہ آئے۔ جو لوگ حقیقتوں میں جیتے ہیں اور گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک بامعنی کائنات بے معنی انجام پر ختم ہوجائے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ حق کا داعی جو پیغام دے رہا ہے وہ نطق کی زبان میں اسی بات کا اعلان ہے، جو خاموش زبان میں ساری کائنات میں نشر ہورہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ جب سچائی کھلے اور جب انصاف کا سورج نکلے تو اس دن وہ ناکام و نامراد نہ ہوجائیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، وہ مفاد اور مصلحت کی تمام حدود کو توڑ کر داعی حق کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جب کائنات کا ’’اجالا‘‘ اور کائنات کا ’’اندھیرا‘‘ ایک دوسرے سے الگ کيے جائیں تو کائنات کا مالک ان کو اجالے میں جگہ دے، وہ ان کو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہ چھوڑے۔ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے۔ یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے، جو کائنات کے تخلیقی منصوبہ میںکام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے۔ اس کے برعکس، بے عقل وہ ہے جو اپنے دل ودماغ کو دوسری دوسری چیزوں میں اٹکائے، جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ ا س کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں۔

رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ

📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خاموش اعلان ہے۔ آدمی جب اپنے کان اور آنکھ سے مصنوعی پردوں کو ہٹاتا ہے تو وہ اس خاموش اعلان کو ہر طرف سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی کائنات جس کے ستارے اور سیارے کھربوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے وہاں انسان اپنی تمام خواہشوں اور تمناؤں کو لیے ہوئے صرف پچاس سال اور سو سال میں ختم ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں درختوں کا حسن اور پھولوں کی لطافت ہے۔ جہاں ہوا اور پانی اور سورج جیسی بے شمار بامعنی چیزوں کا اہتمام کیاگیا ہے وہاںانسان کے لیے حزن اور غم کے سوا کوئی انجام نہ ہو۔ پھر یہ بھی اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں یہ اتھاہ امکان رکھا گیا ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا بیج زمین میںڈالا جائے تو اس کے اندر سے ہرے بھرے درخت کی ایک پوری کائنات نکل آئے وہاں آدمی نیکی کی زندگی اختیار کرکے بھی اس کا کوئی پھل نہ پاتا ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر روز تاریک رات کے بعد روشن دن آتا ہے وہاں صدیاں گزر جائیں اور عدل وانصاف کا اجالا اپنی چمک نہ دکھائے۔ ایک ایسی دنیا جس کی گود میں زلزلے اور طوفان سورہے ہیں۔ وہاں انسان ظلم پر ظلم کر تا رہے مگر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا سامنے نہ آئے۔ جو لوگ حقیقتوں میں جیتے ہیں اور گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک بامعنی کائنات بے معنی انجام پر ختم ہوجائے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ حق کا داعی جو پیغام دے رہا ہے وہ نطق کی زبان میں اسی بات کا اعلان ہے، جو خاموش زبان میں ساری کائنات میں نشر ہورہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ جب سچائی کھلے اور جب انصاف کا سورج نکلے تو اس دن وہ ناکام و نامراد نہ ہوجائیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، وہ مفاد اور مصلحت کی تمام حدود کو توڑ کر داعی حق کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جب کائنات کا ’’اجالا‘‘ اور کائنات کا ’’اندھیرا‘‘ ایک دوسرے سے الگ کيے جائیں تو کائنات کا مالک ان کو اجالے میں جگہ دے، وہ ان کو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہ چھوڑے۔ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے۔ یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے، جو کائنات کے تخلیقی منصوبہ میںکام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے۔ اس کے برعکس، بے عقل وہ ہے جو اپنے دل ودماغ کو دوسری دوسری چیزوں میں اٹکائے، جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ ا س کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں۔

رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ

📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خاموش اعلان ہے۔ آدمی جب اپنے کان اور آنکھ سے مصنوعی پردوں کو ہٹاتا ہے تو وہ اس خاموش اعلان کو ہر طرف سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی کائنات جس کے ستارے اور سیارے کھربوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے وہاں انسان اپنی تمام خواہشوں اور تمناؤں کو لیے ہوئے صرف پچاس سال اور سو سال میں ختم ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں درختوں کا حسن اور پھولوں کی لطافت ہے۔ جہاں ہوا اور پانی اور سورج جیسی بے شمار بامعنی چیزوں کا اہتمام کیاگیا ہے وہاںانسان کے لیے حزن اور غم کے سوا کوئی انجام نہ ہو۔ پھر یہ بھی اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں یہ اتھاہ امکان رکھا گیا ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا بیج زمین میںڈالا جائے تو اس کے اندر سے ہرے بھرے درخت کی ایک پوری کائنات نکل آئے وہاں آدمی نیکی کی زندگی اختیار کرکے بھی اس کا کوئی پھل نہ پاتا ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر روز تاریک رات کے بعد روشن دن آتا ہے وہاں صدیاں گزر جائیں اور عدل وانصاف کا اجالا اپنی چمک نہ دکھائے۔ ایک ایسی دنیا جس کی گود میں زلزلے اور طوفان سورہے ہیں۔ وہاں انسان ظلم پر ظلم کر تا رہے مگر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا سامنے نہ آئے۔ جو لوگ حقیقتوں میں جیتے ہیں اور گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک بامعنی کائنات بے معنی انجام پر ختم ہوجائے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ حق کا داعی جو پیغام دے رہا ہے وہ نطق کی زبان میں اسی بات کا اعلان ہے، جو خاموش زبان میں ساری کائنات میں نشر ہورہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ جب سچائی کھلے اور جب انصاف کا سورج نکلے تو اس دن وہ ناکام و نامراد نہ ہوجائیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، وہ مفاد اور مصلحت کی تمام حدود کو توڑ کر داعی حق کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جب کائنات کا ’’اجالا‘‘ اور کائنات کا ’’اندھیرا‘‘ ایک دوسرے سے الگ کيے جائیں تو کائنات کا مالک ان کو اجالے میں جگہ دے، وہ ان کو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہ چھوڑے۔ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے۔ یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے، جو کائنات کے تخلیقی منصوبہ میںکام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے۔ اس کے برعکس، بے عقل وہ ہے جو اپنے دل ودماغ کو دوسری دوسری چیزوں میں اٹکائے، جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ ا س کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں۔

رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ

📘 کائنات اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خاموش اعلان ہے۔ آدمی جب اپنے کان اور آنکھ سے مصنوعی پردوں کو ہٹاتا ہے تو وہ اس خاموش اعلان کو ہر طرف سننے اور دیکھنے لگتا ہے۔ اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی کائنات جس کے ستارے اور سیارے کھربوں سال تک بھی ختم نہیں ہوتے وہاں انسان اپنی تمام خواہشوں اور تمناؤں کو لیے ہوئے صرف پچاس سال اور سو سال میں ختم ہوجائے۔ ایک ایسی دنیا جہاں درختوں کا حسن اور پھولوں کی لطافت ہے۔ جہاں ہوا اور پانی اور سورج جیسی بے شمار بامعنی چیزوں کا اہتمام کیاگیا ہے وہاںانسان کے لیے حزن اور غم کے سوا کوئی انجام نہ ہو۔ پھر یہ بھی اس کو ناممکن نظر آتا ہے کہ ایک ایسی دنیا جہاں یہ اتھاہ امکان رکھا گیا ہے کہ یہاں ایک چھوٹا سا بیج زمین میںڈالا جائے تو اس کے اندر سے ہرے بھرے درخت کی ایک پوری کائنات نکل آئے وہاں آدمی نیکی کی زندگی اختیار کرکے بھی اس کا کوئی پھل نہ پاتا ہو۔ ایک ایسی دنیا جہاں ہر روز تاریک رات کے بعد روشن دن آتا ہے وہاں صدیاں گزر جائیں اور عدل وانصاف کا اجالا اپنی چمک نہ دکھائے۔ ایک ایسی دنیا جس کی گود میں زلزلے اور طوفان سورہے ہیں۔ وہاں انسان ظلم پر ظلم کر تا رہے مگر کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا سامنے نہ آئے۔ جو لوگ حقیقتوں میں جیتے ہیں اور گہرائیوں میں اتر کر سوچتے ہیں ان کے لیے ناقابلِ یقین ہوجاتا ہے کہ ایک بامعنی کائنات بے معنی انجام پر ختم ہوجائے۔ وہ جان لیتے ہیں کہ حق کا داعی جو پیغام دے رہا ہے وہ نطق کی زبان میں اسی بات کا اعلان ہے، جو خاموش زبان میں ساری کائنات میں نشر ہورہا ہے۔ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ بن جاتا ہے کہ جب سچائی کھلے اور جب انصاف کا سورج نکلے تو اس دن وہ ناکام و نامراد نہ ہوجائیں، وہ اپنے رب کو پکارتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، وہ مفاد اور مصلحت کی تمام حدود کو توڑ کر داعی حق کے ساتھ ہوجاتے ہیں۔ تاکہ جب کائنات کا ’’اجالا‘‘ اور کائنات کا ’’اندھیرا‘‘ ایک دوسرے سے الگ کيے جائیں تو کائنات کا مالک ان کو اجالے میں جگہ دے، وہ ان کو اندھیرے میں ٹھوکریں کھانے کے لیے نہ چھوڑے۔ عقل اور بے عقلی کا حقیقی پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انسانوں نے بطور خود بنا رکھا ہے۔ یہاں عقل والا وہ ہے جو اللہ کی یاد میں جئے، جو کائنات کے تخلیقی منصوبہ میںکام کرنے والی خدائی معنویت کو پالے۔ اس کے برعکس، بے عقل وہ ہے جو اپنے دل ودماغ کو دوسری دوسری چیزوں میں اٹکائے، جو دنیا میں اس طرح زندگی گزارے جیسے کہ ا س کو مالک کائنات کے تخلیقی منصوبہ کی خبر ہی نہیں۔

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ ۖ بَعْضُكُمْ مِنْ بَعْضٍ ۖ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ

📘 اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔

لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلَادِ

📘 اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔

مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ

📘 اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔

لَٰكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا نُزُلًا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۗ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ لِلْأَبْرَارِ

📘 اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔

وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔

اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ

📘 کائنات کا خالق ومالک کوئی مشینی خدا نہیں بلکہ ایک زندہ اور باشعور خدا ہے۔ اس نے ہر زمانہ میں انسان کے لیے رہنمائی بھیجی۔ انھیں میں سے وہ کتابیں تھیں جو تورات وانجیل کی صورت میں پچھلے انبیاء پر اتاری گئیں۔ مگر انسان ہمیشہ یہ کرتا رہا کہ اس نے اپنی تاویل وتشریح سے خدا کی تعلیمات کو طرح طرح کے معنی پہنائے اور خدا کے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔ آخر اللہ نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آخری کتاب (قرآن) اتاری جو انسانوں کے لیے صحیح ہدایت نامہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ کسوٹی بھی جس سے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ کا سچا دین کیا ہے اور وہ دین کون سا ہے جو لوگوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات کے ذریعے بنا رکھا ہے۔ اب جو لوگ خدا کی کتاب کو نہ مانیں یا اپنی رایوں اور تعبیروں کے تحت گھڑے ہوئے دین کو نہ چھوڑیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے آنکھ دی مگر روشنی آجانے کے باوجود انھوں نے نہ دیکھا۔ جن کو خدا نے عقل دی مگر دلیل آجانے کے بعد بھی انھوں نے نہ سمجھا اپنی چھوٹی بڑائی کی خاطر وہ حق کے آگے جھکنے كو تیار نہ ہوئے۔ اللہ اپنی ذات وصفات کے اعتبارسے کیسا ہے، اس کا حقیقی تعارف خود وہی کرسکتا ہے۔ اس کی ہستی کا دوسری موجودات سے کیا تعلق ہے، اس کو بھی وہ خود ہی صحیح طورپر بتاسکتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں اس کو اتنی واضح صورت میں بتا دیا ہے کہ جو شخص جاننا چاہے وہ ضرور جان لے گا۔ یہی معاملہ انسان کے لیے ہدایت نامہ مقرر کرنے کا ہے۔ انسان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کون سا رویہ ہے جو انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، اس کو بتانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ وہی ہوسکتا ہے جو بقیہ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے وسیع تر نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ انسان کے لیے صحیح راہ عمل کا تعین وہی کرسکتا ہے جو نہ صرف انسان کو پیدائش سے موت تک جانتا ہو بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پیدائش سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ایسی ہستی خداکے سوا کوئی دوسری نہیںہوسکتی۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ خدا پر بھروسہ کرے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو پورے یقین کے ساتھ پکڑ لے۔

فَإِنْ حَاجُّوكَ فَقُلْ أَسْلَمْتُ وَجْهِيَ لِلَّهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ ۚ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ

📘 کائنات کا خدا ایک ہی خداہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کاخدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا۔ کائنات کا ہر جزء کامل طورپر ’’مسلم‘‘ ہے۔ یعنی اپنی سرگرمیوں کو اللہ کے مقررہ نقشہ کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مرکز توجہ بنانا یا یہ خیال کرنا کہ اللہ کا فیصلہ عدل کے سوا کسی اور بنیاد پر ہوسکتا ہے، ایسی بے اصل بات ہے جس کے لیے موجودہ کائنات میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کی دعوت اسی سچے اسلام کی دعوت ہے۔ جو لوگ اس سے اختلاف کررہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں هے کہ اس کا حق ہونا ان پر واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ ضد ہے۔ اس کو ماننا انھیں داعیٔ قرآن کی فکری برتری تسلیم کرنے کے ہم معنی نظر آتا ہے، اور ان کی حسد اور کبر کی نفسیات اس قسم کا اعتراف کرنے پر راضی نہیں۔ سیدھی طرح حق کو مان لینے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اس زبان ہی کو بند کردیں جو حق کا اعلان کررہی ہے۔ تاہم خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ داعیٔ حق کی زبان کو بند کرنے کے لیے ان کا ہر منصوبہ ناکام ہوگا اور جب خدا کے عد ل کا ترازو کھڑا ہوگا تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے وہ اعمال کس قدر بے قیمت تھے جن کے بل پر وہ اپنی نجات اور کامیابی کا یقین کيے ہوئے تھے — سچی دلیل خدا کی نشانی ہے۔ جو شخص دلیل کے سامنے نہیں جھکتا وہ گویا خدا کے سامنے نہیں جھکتا۔ ایسے لوگ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ سب سے زیادہ بے سہارا ہوں گے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 اہلِ ایمان کی ذمہ دارانہ زندگی ان کو نفس کی آزادیوں سے محروم کردیتی ہے۔ ان کے اعلانِ حق میں بہت سے لوگوں کو اپنے وجود کی تردید دکھائی دینے لگتی ہے اور وہ ان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ یہ صورت حال کبھی اتنی شدید ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے وطن میں بے وطن کرديے جاتے ہیں۔ ان کو مخالفین کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلہ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔اللہ کے دین کو انھیں جان ومال کی قربانی کی قیمت پر اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان امتحانات میں پورا اترنے کے لیے اہل ایمان کو جو کچھ کرنا ہے وہ یہ کہ وہ دنیا کی مصلحتوں کی خاطر آخرت کی مصلحتوں کو بھول نہ جائیں۔ وہ مشکلات اور ناخوش گواریوں پر صبر کریں، وہ اپنے اندر ابھرنے والے منفی جذبات کو دبائیں اور متاثر ذہن کے تحت کوئی کارروائی نہ کریں۔ پھر ان کو باہر کے حریفوں کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا ہے۔ یہ ثابت قدمی ہی وہ چیز ہے جو اللہ کی نصرت کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ تمام اہلِ ایمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے رہیں، وہ دینی جدوجہد کے لیے باہم جڑ جائیں اور ایک جان ہو کر اجتماعی قوت سے مخالف طاقتوں کا مقابلہ کریں۔ ایمان دراصل صبر کا امتحان ہے اور اس امتحان میںوہی شخص پورا اترتا ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خدا سے بے خوف اور آخرت سے بے پروا لوگوں کو زور اور غلبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہر قسم کی عزتیں اور رونقیں ان کے گرد جمع ہوجاتی ہیں۔ دوسری طرف اہل ایمان اکثر حالات میں بے زور بنے رہتے ہیں۔ شان وشوکت کا کوئی حصہ ان کو نہیں ملتا۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ قیامت آتے ہی حالات بالکل بدل جائیں گے۔ بے خوفی کے راستہ سے دنیا کی عزتیں سمیٹنے والے رسوائی کے گڑھے میں پڑے ہوں گے اور خوفِ خدا کی وجہ سے بے حیثیت ہوجانے والے ہر قسم کی ابدی عزتوں اور کامیابیوں کے مالک ہوں گے۔ وہ اللہ کے مہمان ہوں گے اور اللہ کی مہمانی سے زیادہ بڑی کوئی چیز اس زمین وآسمان کے اندر نہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَيَقْتُلُونَ الَّذِينَ يَأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 کائنات کا خدا ایک ہی خداہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کاخدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا۔ کائنات کا ہر جزء کامل طورپر ’’مسلم‘‘ ہے۔ یعنی اپنی سرگرمیوں کو اللہ کے مقررہ نقشہ کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مرکز توجہ بنانا یا یہ خیال کرنا کہ اللہ کا فیصلہ عدل کے سوا کسی اور بنیاد پر ہوسکتا ہے، ایسی بے اصل بات ہے جس کے لیے موجودہ کائنات میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کی دعوت اسی سچے اسلام کی دعوت ہے۔ جو لوگ اس سے اختلاف کررہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں هے کہ اس کا حق ہونا ان پر واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ ضد ہے۔ اس کو ماننا انھیں داعیٔ قرآن کی فکری برتری تسلیم کرنے کے ہم معنی نظر آتا ہے، اور ان کی حسد اور کبر کی نفسیات اس قسم کا اعتراف کرنے پر راضی نہیں۔ سیدھی طرح حق کو مان لینے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اس زبان ہی کو بند کردیں جو حق کا اعلان کررہی ہے۔ تاہم خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ داعیٔ حق کی زبان کو بند کرنے کے لیے ان کا ہر منصوبہ ناکام ہوگا اور جب خدا کے عد ل کا ترازو کھڑا ہوگا تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے وہ اعمال کس قدر بے قیمت تھے جن کے بل پر وہ اپنی نجات اور کامیابی کا یقین کيے ہوئے تھے — سچی دلیل خدا کی نشانی ہے۔ جو شخص دلیل کے سامنے نہیں جھکتا وہ گویا خدا کے سامنے نہیں جھکتا۔ ایسے لوگ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ سب سے زیادہ بے سہارا ہوں گے۔

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ

📘 کائنات کا خدا ایک ہی خداہے اور وہ عدل وقسط کو پسند کرتا ہے۔ تمام آسمانی کتابیں اپنی صحیح صورت میں اسی کا اعلان کررہی ہیں۔ پھیلی ہوئی کائنات جس كو اس کا مالک اپنے غیر مرئی کارندوں (فرشتوں) کے ذریعہ چلا رہا ہے وہ کامل طور پر ویسی ہی ہے جیسا کہ اس کو ہونا چاہیے۔ ثابت شدہ علم انسانی کے مطابق کائنات ایک حد درجہ وحدانی نظام ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کا مدبر صرف ایک ہے۔ اسی طرح کائنات کی ہر چیز کا اپنے محل مناسب میں ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کاخدا عد ل کو پسند کرنے والا خدا ہے، نہ کہ بے انصافی کو پسند کرنے والا۔ پھر جو خدا وسیع تر کائنات میں مسلسل عدل کو قائم کيے ہوئے ہو وہ انسان کے معاملے میں خلافِ عدل باتوں پرکیسے راضی ہوجائے گا۔ کائنات کا ہر جزء کامل طورپر ’’مسلم‘‘ ہے۔ یعنی اپنی سرگرمیوں کو اللہ کے مقررہ نقشہ کے مطابق انجام دیتا ہے۔ ٹھیک یہی رویہ انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کو پہچانے اور اس کے مطلوبہ نقشہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا مرکز توجہ بنانا یا یہ خیال کرنا کہ اللہ کا فیصلہ عدل کے سوا کسی اور بنیاد پر ہوسکتا ہے، ایسی بے اصل بات ہے جس کے لیے موجودہ کائنات میں کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن کی دعوت اسی سچے اسلام کی دعوت ہے۔ جو لوگ اس سے اختلاف کررہے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں هے کہ اس کا حق ہونا ان پر واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ ضد ہے۔ اس کو ماننا انھیں داعیٔ قرآن کی فکری برتری تسلیم کرنے کے ہم معنی نظر آتا ہے، اور ان کی حسد اور کبر کی نفسیات اس قسم کا اعتراف کرنے پر راضی نہیں۔ سیدھی طرح حق کو مان لینے کے بجائے وہ چاہتے ہیں کہ اس زبان ہی کو بند کردیں جو حق کا اعلان کررہی ہے۔ تاہم خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ داعیٔ حق کی زبان کو بند کرنے کے لیے ان کا ہر منصوبہ ناکام ہوگا اور جب خدا کے عد ل کا ترازو کھڑا ہوگا تو وہ دیکھ لیں گے کہ ان کے وہ اعمال کس قدر بے قیمت تھے جن کے بل پر وہ اپنی نجات اور کامیابی کا یقین کيے ہوئے تھے — سچی دلیل خدا کی نشانی ہے۔ جو شخص دلیل کے سامنے نہیں جھکتا وہ گویا خدا کے سامنے نہیں جھکتا۔ ایسے لوگ قیامت میں اس طرح اٹھیں گے کہ وہ سب سے زیادہ بے سہارا ہوں گے۔

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَىٰ كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّىٰ فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ

📘 اللہ کی ہدایت ایک ہی ہدایت ہے جو مختلف قوموں کی زبان میں ان کے پیغمبروں پر اتاری جاتی رہی ہے۔ وہی قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر اتاری گئی ہے۔ اس یکسانیت کی وجہ سے آسمانی کتابوں کو جاننے اور ماننے والوں کے لیے قرآن کی دعوت کو پہچاننا مشکل نہیں۔ قرآن کی دعوت میں اور پچھلی آسمانی تعلیمات میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ قرآن کی دعوت ان کی اپنی ملاوٹوںسے دین خداوندی کو پاک کررہی ہے۔ اس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کی دعوت کا انکار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی دعوت کو وہ اپنے لیے کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھتے۔ اپنے خود ساختہ عقائد کی بنا پر انھوںنے اپنے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرض کرلیا ہے۔ اپنی اس نفسیات کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس حق کا اعتراف نہ کریں تو اس سے ان کی نجات خطرہ میں پڑنے والی نہیں۔ مگر جب خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ وہ محض خوش خیالیوں کے اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے۔ ہر قسم کی عزت وطاقت اللہ کے اختیار میں ہے۔ وقت کے بڑے جس کو بے حقیقت سمجھ لیں، خدا چاہے تو اسی کے حق میں عزت وسر بلندی کا فیصلہ کردے۔ علم کی گدیوں پر بیٹھنے والے جس کے جہل کا فتویٰ دیں، خدا چاہے تو اسی کے ذریعہ علم کا چشمہ جاری کردے۔ خدا کی نظر میں اگر کوئی عزت وطاقت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ جو اس کو خالص خدا کی چیز سمجھے ا ور خدا کی نظر میں اس کا سب سے زیادہ غیر مستحق اگر کوئی ہے تو وہ جو اس کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لے۔ خدا وسیع تر کائنات میں روزانہ بہت بڑے پیمانہ پر یہ کرشمہ دکھا رہا ہے کہ وہ تاریکی کو روشنی کے اوپر اوڑھا دیتا ہے اور روشنی کو تاریکی کے اوپر ڈال دیتا ہے۔ وہ مردہ عناصر سے زندگی وجود میں لاتا ہے اور زندہ چیزوں کو مردہ عناصر میں تبدیل کرتا ہے۔ خدا کی یہی قدرت اگر انسانی تاریخ میں ظاہر ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں وہ ہمیشہ سچی دعوتِ حق کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ ایسے داعی کو بے گھر کیا جاتا ہے۔ اس کے معاشی ذرائع برباد کيے جاتے ہیں۔ مگر ایسا شخص براہِ راست اللہ کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے خصوصی رزق کا انتظام کرتا ہے۔ دوسروں کو ان کی معاشی محنت کے حساب سے رزق دیا جاتا ہے، اور ایسے شخص کو بلا حساب۔

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۖ وَغَرَّهُمْ فِي دِينِهِمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 اللہ کی ہدایت ایک ہی ہدایت ہے جو مختلف قوموں کی زبان میں ان کے پیغمبروں پر اتاری جاتی رہی ہے۔ وہی قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر اتاری گئی ہے۔ اس یکسانیت کی وجہ سے آسمانی کتابوں کو جاننے اور ماننے والوں کے لیے قرآن کی دعوت کو پہچاننا مشکل نہیں۔ قرآن کی دعوت میں اور پچھلی آسمانی تعلیمات میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ قرآن کی دعوت ان کی اپنی ملاوٹوںسے دین خداوندی کو پاک کررہی ہے۔ اس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کی دعوت کا انکار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی دعوت کو وہ اپنے لیے کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھتے۔ اپنے خود ساختہ عقائد کی بنا پر انھوںنے اپنے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرض کرلیا ہے۔ اپنی اس نفسیات کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس حق کا اعتراف نہ کریں تو اس سے ان کی نجات خطرہ میں پڑنے والی نہیں۔ مگر جب خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ وہ محض خوش خیالیوں کے اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے۔ ہر قسم کی عزت وطاقت اللہ کے اختیار میں ہے۔ وقت کے بڑے جس کو بے حقیقت سمجھ لیں، خدا چاہے تو اسی کے حق میں عزت وسر بلندی کا فیصلہ کردے۔ علم کی گدیوں پر بیٹھنے والے جس کے جہل کا فتویٰ دیں، خدا چاہے تو اسی کے ذریعہ علم کا چشمہ جاری کردے۔ خدا کی نظر میں اگر کوئی عزت وطاقت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ جو اس کو خالص خدا کی چیز سمجھے ا ور خدا کی نظر میں اس کا سب سے زیادہ غیر مستحق اگر کوئی ہے تو وہ جو اس کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لے۔ خدا وسیع تر کائنات میں روزانہ بہت بڑے پیمانہ پر یہ کرشمہ دکھا رہا ہے کہ وہ تاریکی کو روشنی کے اوپر اوڑھا دیتا ہے اور روشنی کو تاریکی کے اوپر ڈال دیتا ہے۔ وہ مردہ عناصر سے زندگی وجود میں لاتا ہے اور زندہ چیزوں کو مردہ عناصر میں تبدیل کرتا ہے۔ خدا کی یہی قدرت اگر انسانی تاریخ میں ظاہر ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں وہ ہمیشہ سچی دعوتِ حق کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ ایسے داعی کو بے گھر کیا جاتا ہے۔ اس کے معاشی ذرائع برباد کيے جاتے ہیں۔ مگر ایسا شخص براہِ راست اللہ کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے خصوصی رزق کا انتظام کرتا ہے۔ دوسروں کو ان کی معاشی محنت کے حساب سے رزق دیا جاتا ہے، اور ایسے شخص کو بلا حساب۔

فَكَيْفَ إِذَا جَمَعْنَاهُمْ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ وَوُفِّيَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 اللہ کی ہدایت ایک ہی ہدایت ہے جو مختلف قوموں کی زبان میں ان کے پیغمبروں پر اتاری جاتی رہی ہے۔ وہی قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر اتاری گئی ہے۔ اس یکسانیت کی وجہ سے آسمانی کتابوں کو جاننے اور ماننے والوں کے لیے قرآن کی دعوت کو پہچاننا مشکل نہیں۔ قرآن کی دعوت میں اور پچھلی آسمانی تعلیمات میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ قرآن کی دعوت ان کی اپنی ملاوٹوںسے دین خداوندی کو پاک کررہی ہے۔ اس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کی دعوت کا انکار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی دعوت کو وہ اپنے لیے کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھتے۔ اپنے خود ساختہ عقائد کی بنا پر انھوںنے اپنے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرض کرلیا ہے۔ اپنی اس نفسیات کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس حق کا اعتراف نہ کریں تو اس سے ان کی نجات خطرہ میں پڑنے والی نہیں۔ مگر جب خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ وہ محض خوش خیالیوں کے اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے۔ ہر قسم کی عزت وطاقت اللہ کے اختیار میں ہے۔ وقت کے بڑے جس کو بے حقیقت سمجھ لیں، خدا چاہے تو اسی کے حق میں عزت وسر بلندی کا فیصلہ کردے۔ علم کی گدیوں پر بیٹھنے والے جس کے جہل کا فتویٰ دیں، خدا چاہے تو اسی کے ذریعہ علم کا چشمہ جاری کردے۔ خدا کی نظر میں اگر کوئی عزت وطاقت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ جو اس کو خالص خدا کی چیز سمجھے ا ور خدا کی نظر میں اس کا سب سے زیادہ غیر مستحق اگر کوئی ہے تو وہ جو اس کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لے۔ خدا وسیع تر کائنات میں روزانہ بہت بڑے پیمانہ پر یہ کرشمہ دکھا رہا ہے کہ وہ تاریکی کو روشنی کے اوپر اوڑھا دیتا ہے اور روشنی کو تاریکی کے اوپر ڈال دیتا ہے۔ وہ مردہ عناصر سے زندگی وجود میں لاتا ہے اور زندہ چیزوں کو مردہ عناصر میں تبدیل کرتا ہے۔ خدا کی یہی قدرت اگر انسانی تاریخ میں ظاہر ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں وہ ہمیشہ سچی دعوتِ حق کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ ایسے داعی کو بے گھر کیا جاتا ہے۔ اس کے معاشی ذرائع برباد کيے جاتے ہیں۔ مگر ایسا شخص براہِ راست اللہ کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے خصوصی رزق کا انتظام کرتا ہے۔ دوسروں کو ان کی معاشی محنت کے حساب سے رزق دیا جاتا ہے، اور ایسے شخص کو بلا حساب۔

قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 اللہ کی ہدایت ایک ہی ہدایت ہے جو مختلف قوموں کی زبان میں ان کے پیغمبروں پر اتاری جاتی رہی ہے۔ وہی قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر اتاری گئی ہے۔ اس یکسانیت کی وجہ سے آسمانی کتابوں کو جاننے اور ماننے والوں کے لیے قرآن کی دعوت کو پہچاننا مشکل نہیں۔ قرآن کی دعوت میں اور پچھلی آسمانی تعلیمات میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ قرآن کی دعوت ان کی اپنی ملاوٹوںسے دین خداوندی کو پاک کررہی ہے۔ اس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کی دعوت کا انکار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی دعوت کو وہ اپنے لیے کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھتے۔ اپنے خود ساختہ عقائد کی بنا پر انھوںنے اپنے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرض کرلیا ہے۔ اپنی اس نفسیات کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس حق کا اعتراف نہ کریں تو اس سے ان کی نجات خطرہ میں پڑنے والی نہیں۔ مگر جب خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ وہ محض خوش خیالیوں کے اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے۔ ہر قسم کی عزت وطاقت اللہ کے اختیار میں ہے۔ وقت کے بڑے جس کو بے حقیقت سمجھ لیں، خدا چاہے تو اسی کے حق میں عزت وسر بلندی کا فیصلہ کردے۔ علم کی گدیوں پر بیٹھنے والے جس کے جہل کا فتویٰ دیں، خدا چاہے تو اسی کے ذریعہ علم کا چشمہ جاری کردے۔ خدا کی نظر میں اگر کوئی عزت وطاقت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ جو اس کو خالص خدا کی چیز سمجھے ا ور خدا کی نظر میں اس کا سب سے زیادہ غیر مستحق اگر کوئی ہے تو وہ جو اس کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لے۔ خدا وسیع تر کائنات میں روزانہ بہت بڑے پیمانہ پر یہ کرشمہ دکھا رہا ہے کہ وہ تاریکی کو روشنی کے اوپر اوڑھا دیتا ہے اور روشنی کو تاریکی کے اوپر ڈال دیتا ہے۔ وہ مردہ عناصر سے زندگی وجود میں لاتا ہے اور زندہ چیزوں کو مردہ عناصر میں تبدیل کرتا ہے۔ خدا کی یہی قدرت اگر انسانی تاریخ میں ظاہر ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں وہ ہمیشہ سچی دعوتِ حق کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ ایسے داعی کو بے گھر کیا جاتا ہے۔ اس کے معاشی ذرائع برباد کيے جاتے ہیں۔ مگر ایسا شخص براہِ راست اللہ کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے خصوصی رزق کا انتظام کرتا ہے۔ دوسروں کو ان کی معاشی محنت کے حساب سے رزق دیا جاتا ہے، اور ایسے شخص کو بلا حساب۔

تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ ۖ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ ۖ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

📘 اللہ کی ہدایت ایک ہی ہدایت ہے جو مختلف قوموں کی زبان میں ان کے پیغمبروں پر اتاری جاتی رہی ہے۔ وہی قرآن کی صورت میں پیغمبر آخر الزماں پر اتاری گئی ہے۔ اس یکسانیت کی وجہ سے آسمانی کتابوں کو جاننے اور ماننے والوں کے لیے قرآن کی دعوت کو پہچاننا مشکل نہیں۔ قرآن کی دعوت میں اور پچھلی آسمانی تعلیمات میں اگر کچھ فرق ہے تو صرف یہ کہ قرآن کی دعوت ان کی اپنی ملاوٹوںسے دین خداوندی کو پاک کررہی ہے۔ اس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ بہت سے لوگ قرآن کی دعوت کا انکار کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی دعوت کو وہ اپنے لیے کوئی سنجیدہ معاملہ نہیں سمجھتے۔ اپنے خود ساختہ عقائد کی بنا پر انھوںنے اپنے کو جہنم کی آگ سے محفوظ فرض کرلیا ہے۔ اپنی اس نفسیات کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس حق کا اعتراف نہ کریں تو اس سے ان کی نجات خطرہ میں پڑنے والی نہیں۔ مگر جب خدا کے انصاف کا ترازو کھڑا ہوگا اس وقت ان کو معلوم ہوگا کہ وہ محض خوش خیالیوں کے اندھیرے میں پڑے ہوئے تھے۔ ہر قسم کی عزت وطاقت اللہ کے اختیار میں ہے۔ وقت کے بڑے جس کو بے حقیقت سمجھ لیں، خدا چاہے تو اسی کے حق میں عزت وسر بلندی کا فیصلہ کردے۔ علم کی گدیوں پر بیٹھنے والے جس کے جہل کا فتویٰ دیں، خدا چاہے تو اسی کے ذریعہ علم کا چشمہ جاری کردے۔ خدا کی نظر میں اگر کوئی عزت وطاقت کا مستحق ہوسکتا ہے تو وہ جو اس کو خالص خدا کی چیز سمجھے ا ور خدا کی نظر میں اس کا سب سے زیادہ غیر مستحق اگر کوئی ہے تو وہ جو اس کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لے۔ خدا وسیع تر کائنات میں روزانہ بہت بڑے پیمانہ پر یہ کرشمہ دکھا رہا ہے کہ وہ تاریکی کو روشنی کے اوپر اوڑھا دیتا ہے اور روشنی کو تاریکی کے اوپر ڈال دیتا ہے۔ وہ مردہ عناصر سے زندگی وجود میں لاتا ہے اور زندہ چیزوں کو مردہ عناصر میں تبدیل کرتا ہے۔ خدا کی یہی قدرت اگر انسانی تاریخ میں ظاہر ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر ناحق کا کاروبار کررہے ہوں وہ ہمیشہ سچی دعوتِ حق کے مخالف ہوجاتے ہیں۔ ایسے داعی کو بے گھر کیا جاتا ہے۔ اس کے معاشی ذرائع برباد کيے جاتے ہیں۔ مگر ایسا شخص براہِ راست اللہ کی سرپرستی میں ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے خصوصی رزق کا انتظام کرتا ہے۔ دوسروں کو ان کی معاشی محنت کے حساب سے رزق دیا جاتا ہے، اور ایسے شخص کو بلا حساب۔

لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ

📘 مومن تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور عدل کا سلوک کرنے والا ہوتا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب غیر مسلموں کے ساتھ دوستی مسلمانوں کے مفاد کی قیمت پر ہو تو ایسی دوستی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ تاہم بچاؤ کی تدبیر کے طورپراگر کسی وقت ایک مسلمان یا کسی مسلم گروہ کو غیر مسلموں سے وقتی تعلق قائم کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور جب نیت درست ہو تو وہ کسی کو اس کے عمل پر نہیں پکڑتا۔ تمام معاملات میں اصل قابل لحاظ چیز اللہ کا خوف ہے۔ آدمی کسی معاملہ میں جو رویہ اختیار کرے، اس کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اللہ اس کا حساب لے گا۔ اور اس کے انصاف کے ترازو میں جو غلط ٹھہرے گا وہ اس کی سزا پاکر رہے گا۔ اللہ سے کسی انسان کی کوئی بات اوجھل نہیں، خواہ وہ اس نے چھپ کر کی ہو یا علانیہ کی ہو۔ جب امتحان کا پردہ ہٹے گا او آخرت کا عالم سامنے آئے گا تو آدمی کے اعمال کی پوری کھیتی اس کے سامنے ہوگی۔ یہ منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ چیزیں جو دنیا میں اس کے نفس کی لذت بنی ہوئی تھیں، وہ چاہے گا کہ وہ اس سے بہت دور چلی جائیں۔ اللہ کسی کے اسلام کو جہاں دیکھتا ہے وہ اس کا قلب ہے۔ مومن وہی ہے جس کا اللہ سے تعلق قلبی محبت کی حد تک قائم ہوجائے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی محبت و توجہ کا مستحق بنتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اس طرح تعلق قائم کرے، اس سے اگر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں تو اللہ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ اللہ سرکشوں کے لیے بہت سخت ہے۔ مگر جو لوگ عاجزی کا رویہ اختیار کریں، وہ ان کے لیے نرم پڑجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس سینہ میں کسی کی محبت موجودہو اسی سینہ میں محبوب کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبوب اگر ایسی ہستی ہو جو آدمی کے لیے آقا ومالک کادرجہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ محبت صرف محبت کی حد تک نہ رہے گی بلکہ لازماً وہ اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ پیدا کرے گی۔ خدا کی جس محبت کے بعد خدا کے دشمنوں سے قلبی تعلق ختم نہ ہو یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ جھوٹی محبت ہے۔ایسے شخص کا شمار اللہ کے یہاں انکار کرنے والوں میں ہوگا، نہ کہ ماننے والوں میں— رسو ل وہ شخص ہے جس کے کامل خدا پرست ہونے کی گواہی خود خدا نے دی ہے، اس لیے خدا پرستانہ زندگی کے لیے رسول کا نمونہ ہی موجودہ دنیا میں واحد مستند نمونہ ہے۔

قُلْ إِنْ تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 مومن تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور عدل کا سلوک کرنے والا ہوتا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب غیر مسلموں کے ساتھ دوستی مسلمانوں کے مفاد کی قیمت پر ہو تو ایسی دوستی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ تاہم بچاؤ کی تدبیر کے طورپراگر کسی وقت ایک مسلمان یا کسی مسلم گروہ کو غیر مسلموں سے وقتی تعلق قائم کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور جب نیت درست ہو تو وہ کسی کو اس کے عمل پر نہیں پکڑتا۔ تمام معاملات میں اصل قابل لحاظ چیز اللہ کا خوف ہے۔ آدمی کسی معاملہ میں جو رویہ اختیار کرے، اس کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اللہ اس کا حساب لے گا۔ اور اس کے انصاف کے ترازو میں جو غلط ٹھہرے گا وہ اس کی سزا پاکر رہے گا۔ اللہ سے کسی انسان کی کوئی بات اوجھل نہیں، خواہ وہ اس نے چھپ کر کی ہو یا علانیہ کی ہو۔ جب امتحان کا پردہ ہٹے گا او آخرت کا عالم سامنے آئے گا تو آدمی کے اعمال کی پوری کھیتی اس کے سامنے ہوگی۔ یہ منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ چیزیں جو دنیا میں اس کے نفس کی لذت بنی ہوئی تھیں، وہ چاہے گا کہ وہ اس سے بہت دور چلی جائیں۔ اللہ کسی کے اسلام کو جہاں دیکھتا ہے وہ اس کا قلب ہے۔ مومن وہی ہے جس کا اللہ سے تعلق قلبی محبت کی حد تک قائم ہوجائے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی محبت و توجہ کا مستحق بنتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اس طرح تعلق قائم کرے، اس سے اگر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں تو اللہ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ اللہ سرکشوں کے لیے بہت سخت ہے۔ مگر جو لوگ عاجزی کا رویہ اختیار کریں، وہ ان کے لیے نرم پڑجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس سینہ میں کسی کی محبت موجودہو اسی سینہ میں محبوب کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبوب اگر ایسی ہستی ہو جو آدمی کے لیے آقا ومالک کادرجہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ محبت صرف محبت کی حد تک نہ رہے گی بلکہ لازماً وہ اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ پیدا کرے گی۔ خدا کی جس محبت کے بعد خدا کے دشمنوں سے قلبی تعلق ختم نہ ہو یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ جھوٹی محبت ہے۔ایسے شخص کا شمار اللہ کے یہاں انکار کرنے والوں میں ہوگا، نہ کہ ماننے والوں میں— رسو ل وہ شخص ہے جس کے کامل خدا پرست ہونے کی گواہی خود خدا نے دی ہے، اس لیے خدا پرستانہ زندگی کے لیے رسول کا نمونہ ہی موجودہ دنیا میں واحد مستند نمونہ ہے۔

نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ

📘 کائنات کا خالق ومالک کوئی مشینی خدا نہیں بلکہ ایک زندہ اور باشعور خدا ہے۔ اس نے ہر زمانہ میں انسان کے لیے رہنمائی بھیجی۔ انھیں میں سے وہ کتابیں تھیں جو تورات وانجیل کی صورت میں پچھلے انبیاء پر اتاری گئیں۔ مگر انسان ہمیشہ یہ کرتا رہا کہ اس نے اپنی تاویل وتشریح سے خدا کی تعلیمات کو طرح طرح کے معنی پہنائے اور خدا کے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔ آخر اللہ نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آخری کتاب (قرآن) اتاری جو انسانوں کے لیے صحیح ہدایت نامہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ کسوٹی بھی جس سے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ کا سچا دین کیا ہے اور وہ دین کون سا ہے جو لوگوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات کے ذریعے بنا رکھا ہے۔ اب جو لوگ خدا کی کتاب کو نہ مانیں یا اپنی رایوں اور تعبیروں کے تحت گھڑے ہوئے دین کو نہ چھوڑیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے آنکھ دی مگر روشنی آجانے کے باوجود انھوں نے نہ دیکھا۔ جن کو خدا نے عقل دی مگر دلیل آجانے کے بعد بھی انھوں نے نہ سمجھا اپنی چھوٹی بڑائی کی خاطر وہ حق کے آگے جھکنے كو تیار نہ ہوئے۔ اللہ اپنی ذات وصفات کے اعتبارسے کیسا ہے، اس کا حقیقی تعارف خود وہی کرسکتا ہے۔ اس کی ہستی کا دوسری موجودات سے کیا تعلق ہے، اس کو بھی وہ خود ہی صحیح طورپر بتاسکتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں اس کو اتنی واضح صورت میں بتا دیا ہے کہ جو شخص جاننا چاہے وہ ضرور جان لے گا۔ یہی معاملہ انسان کے لیے ہدایت نامہ مقرر کرنے کا ہے۔ انسان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کون سا رویہ ہے جو انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، اس کو بتانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ وہی ہوسکتا ہے جو بقیہ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے وسیع تر نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ انسان کے لیے صحیح راہ عمل کا تعین وہی کرسکتا ہے جو نہ صرف انسان کو پیدائش سے موت تک جانتا ہو بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پیدائش سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ایسی ہستی خداکے سوا کوئی دوسری نہیںہوسکتی۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ خدا پر بھروسہ کرے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو پورے یقین کے ساتھ پکڑ لے۔

يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ

📘 مومن تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور عدل کا سلوک کرنے والا ہوتا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب غیر مسلموں کے ساتھ دوستی مسلمانوں کے مفاد کی قیمت پر ہو تو ایسی دوستی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ تاہم بچاؤ کی تدبیر کے طورپراگر کسی وقت ایک مسلمان یا کسی مسلم گروہ کو غیر مسلموں سے وقتی تعلق قائم کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور جب نیت درست ہو تو وہ کسی کو اس کے عمل پر نہیں پکڑتا۔ تمام معاملات میں اصل قابل لحاظ چیز اللہ کا خوف ہے۔ آدمی کسی معاملہ میں جو رویہ اختیار کرے، اس کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اللہ اس کا حساب لے گا۔ اور اس کے انصاف کے ترازو میں جو غلط ٹھہرے گا وہ اس کی سزا پاکر رہے گا۔ اللہ سے کسی انسان کی کوئی بات اوجھل نہیں، خواہ وہ اس نے چھپ کر کی ہو یا علانیہ کی ہو۔ جب امتحان کا پردہ ہٹے گا او آخرت کا عالم سامنے آئے گا تو آدمی کے اعمال کی پوری کھیتی اس کے سامنے ہوگی۔ یہ منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ چیزیں جو دنیا میں اس کے نفس کی لذت بنی ہوئی تھیں، وہ چاہے گا کہ وہ اس سے بہت دور چلی جائیں۔ اللہ کسی کے اسلام کو جہاں دیکھتا ہے وہ اس کا قلب ہے۔ مومن وہی ہے جس کا اللہ سے تعلق قلبی محبت کی حد تک قائم ہوجائے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی محبت و توجہ کا مستحق بنتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اس طرح تعلق قائم کرے، اس سے اگر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں تو اللہ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ اللہ سرکشوں کے لیے بہت سخت ہے۔ مگر جو لوگ عاجزی کا رویہ اختیار کریں، وہ ان کے لیے نرم پڑجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس سینہ میں کسی کی محبت موجودہو اسی سینہ میں محبوب کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبوب اگر ایسی ہستی ہو جو آدمی کے لیے آقا ومالک کادرجہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ محبت صرف محبت کی حد تک نہ رہے گی بلکہ لازماً وہ اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ پیدا کرے گی۔ خدا کی جس محبت کے بعد خدا کے دشمنوں سے قلبی تعلق ختم نہ ہو یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ جھوٹی محبت ہے۔ایسے شخص کا شمار اللہ کے یہاں انکار کرنے والوں میں ہوگا، نہ کہ ماننے والوں میں— رسو ل وہ شخص ہے جس کے کامل خدا پرست ہونے کی گواہی خود خدا نے دی ہے، اس لیے خدا پرستانہ زندگی کے لیے رسول کا نمونہ ہی موجودہ دنیا میں واحد مستند نمونہ ہے۔

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 مومن تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور عدل کا سلوک کرنے والا ہوتا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب غیر مسلموں کے ساتھ دوستی مسلمانوں کے مفاد کی قیمت پر ہو تو ایسی دوستی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ تاہم بچاؤ کی تدبیر کے طورپراگر کسی وقت ایک مسلمان یا کسی مسلم گروہ کو غیر مسلموں سے وقتی تعلق قائم کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور جب نیت درست ہو تو وہ کسی کو اس کے عمل پر نہیں پکڑتا۔ تمام معاملات میں اصل قابل لحاظ چیز اللہ کا خوف ہے۔ آدمی کسی معاملہ میں جو رویہ اختیار کرے، اس کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اللہ اس کا حساب لے گا۔ اور اس کے انصاف کے ترازو میں جو غلط ٹھہرے گا وہ اس کی سزا پاکر رہے گا۔ اللہ سے کسی انسان کی کوئی بات اوجھل نہیں، خواہ وہ اس نے چھپ کر کی ہو یا علانیہ کی ہو۔ جب امتحان کا پردہ ہٹے گا او آخرت کا عالم سامنے آئے گا تو آدمی کے اعمال کی پوری کھیتی اس کے سامنے ہوگی۔ یہ منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ چیزیں جو دنیا میں اس کے نفس کی لذت بنی ہوئی تھیں، وہ چاہے گا کہ وہ اس سے بہت دور چلی جائیں۔ اللہ کسی کے اسلام کو جہاں دیکھتا ہے وہ اس کا قلب ہے۔ مومن وہی ہے جس کا اللہ سے تعلق قلبی محبت کی حد تک قائم ہوجائے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی محبت و توجہ کا مستحق بنتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اس طرح تعلق قائم کرے، اس سے اگر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں تو اللہ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ اللہ سرکشوں کے لیے بہت سخت ہے۔ مگر جو لوگ عاجزی کا رویہ اختیار کریں، وہ ان کے لیے نرم پڑجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس سینہ میں کسی کی محبت موجودہو اسی سینہ میں محبوب کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبوب اگر ایسی ہستی ہو جو آدمی کے لیے آقا ومالک کادرجہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ محبت صرف محبت کی حد تک نہ رہے گی بلکہ لازماً وہ اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ پیدا کرے گی۔ خدا کی جس محبت کے بعد خدا کے دشمنوں سے قلبی تعلق ختم نہ ہو یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ جھوٹی محبت ہے۔ایسے شخص کا شمار اللہ کے یہاں انکار کرنے والوں میں ہوگا، نہ کہ ماننے والوں میں— رسو ل وہ شخص ہے جس کے کامل خدا پرست ہونے کی گواہی خود خدا نے دی ہے، اس لیے خدا پرستانہ زندگی کے لیے رسول کا نمونہ ہی موجودہ دنیا میں واحد مستند نمونہ ہے۔

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ

📘 مومن تمام انسانوں کے ساتھ نیکی اور عدل کا سلوک کرنے والا ہوتا ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں۔ مگر جب غیر مسلموں کے ساتھ دوستی مسلمانوں کے مفاد کی قیمت پر ہو تو ایسی دوستی مسلمان کے لیے جائز نہیں۔ تاہم بچاؤ کی تدبیر کے طورپراگر کسی وقت ایک مسلمان یا کسی مسلم گروہ کو غیر مسلموں سے وقتی تعلق قائم کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اللہ نیت کو دیکھتا ہے اور جب نیت درست ہو تو وہ کسی کو اس کے عمل پر نہیں پکڑتا۔ تمام معاملات میں اصل قابل لحاظ چیز اللہ کا خوف ہے۔ آدمی کسی معاملہ میں جو رویہ اختیار کرے، اس کو اچھی طرح سوچ لینا چاہیے کہ اللہ اس کا حساب لے گا۔ اور اس کے انصاف کے ترازو میں جو غلط ٹھہرے گا وہ اس کی سزا پاکر رہے گا۔ اللہ سے کسی انسان کی کوئی بات اوجھل نہیں، خواہ وہ اس نے چھپ کر کی ہو یا علانیہ کی ہو۔ جب امتحان کا پردہ ہٹے گا او آخرت کا عالم سامنے آئے گا تو آدمی کے اعمال کی پوری کھیتی اس کے سامنے ہوگی۔ یہ منظر اتنا ہولناک ہوگا کہ وہ چیزیں جو دنیا میں اس کے نفس کی لذت بنی ہوئی تھیں، وہ چاہے گا کہ وہ اس سے بہت دور چلی جائیں۔ اللہ کسی کے اسلام کو جہاں دیکھتا ہے وہ اس کا قلب ہے۔ مومن وہی ہے جس کا اللہ سے تعلق قلبی محبت کی حد تک قائم ہوجائے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو اللہ کی محبت و توجہ کا مستحق بنتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ سے اس طرح تعلق قائم کرے، اس سے اگر کوتاہیاں بھی ہوتی ہیں تو اللہ اس سے درگزر فرماتا ہے۔ اللہ سرکشوں کے لیے بہت سخت ہے۔ مگر جو لوگ عاجزی کا رویہ اختیار کریں، وہ ان کے لیے نرم پڑجاتا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جس سینہ میں کسی کی محبت موجودہو اسی سینہ میں محبوب کے دشمن کی محبت جمع نہیں ہوسکتی ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ محبوب اگر ایسی ہستی ہو جو آدمی کے لیے آقا ومالک کادرجہ رکھتی ہو تو اس کے ساتھ محبت صرف محبت کی حد تک نہ رہے گی بلکہ لازماً وہ اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ پیدا کرے گی۔ خدا کی جس محبت کے بعد خدا کے دشمنوں سے قلبی تعلق ختم نہ ہو یا اس کی اطاعت و فرماں برداری کا جذبہ پیدا نہ ہو تو وہ جھوٹی محبت ہے۔ایسے شخص کا شمار اللہ کے یہاں انکار کرنے والوں میں ہوگا، نہ کہ ماننے والوں میں— رسو ل وہ شخص ہے جس کے کامل خدا پرست ہونے کی گواہی خود خدا نے دی ہے، اس لیے خدا پرستانہ زندگی کے لیے رسول کا نمونہ ہی موجودہ دنیا میں واحد مستند نمونہ ہے۔

۞ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ آدَمَ وَنُوحًا وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنْثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ ۖ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

مِنْ قَبْلُ هُدًى لِلنَّاسِ وَأَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ۗ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ

📘 کائنات کا خالق ومالک کوئی مشینی خدا نہیں بلکہ ایک زندہ اور باشعور خدا ہے۔ اس نے ہر زمانہ میں انسان کے لیے رہنمائی بھیجی۔ انھیں میں سے وہ کتابیں تھیں جو تورات وانجیل کی صورت میں پچھلے انبیاء پر اتاری گئیں۔ مگر انسان ہمیشہ یہ کرتا رہا کہ اس نے اپنی تاویل وتشریح سے خدا کی تعلیمات کو طرح طرح کے معنی پہنائے اور خدا کے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔ آخر اللہ نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آخری کتاب (قرآن) اتاری جو انسانوں کے لیے صحیح ہدایت نامہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ کسوٹی بھی جس سے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ کا سچا دین کیا ہے اور وہ دین کون سا ہے جو لوگوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات کے ذریعے بنا رکھا ہے۔ اب جو لوگ خدا کی کتاب کو نہ مانیں یا اپنی رایوں اور تعبیروں کے تحت گھڑے ہوئے دین کو نہ چھوڑیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے آنکھ دی مگر روشنی آجانے کے باوجود انھوں نے نہ دیکھا۔ جن کو خدا نے عقل دی مگر دلیل آجانے کے بعد بھی انھوں نے نہ سمجھا اپنی چھوٹی بڑائی کی خاطر وہ حق کے آگے جھکنے كو تیار نہ ہوئے۔ اللہ اپنی ذات وصفات کے اعتبارسے کیسا ہے، اس کا حقیقی تعارف خود وہی کرسکتا ہے۔ اس کی ہستی کا دوسری موجودات سے کیا تعلق ہے، اس کو بھی وہ خود ہی صحیح طورپر بتاسکتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں اس کو اتنی واضح صورت میں بتا دیا ہے کہ جو شخص جاننا چاہے وہ ضرور جان لے گا۔ یہی معاملہ انسان کے لیے ہدایت نامہ مقرر کرنے کا ہے۔ انسان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کون سا رویہ ہے جو انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، اس کو بتانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ وہی ہوسکتا ہے جو بقیہ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے وسیع تر نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ انسان کے لیے صحیح راہ عمل کا تعین وہی کرسکتا ہے جو نہ صرف انسان کو پیدائش سے موت تک جانتا ہو بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پیدائش سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ایسی ہستی خداکے سوا کوئی دوسری نہیںہوسکتی۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ خدا پر بھروسہ کرے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو پورے یقین کے ساتھ پکڑ لے۔

قَالَ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَقَدْ بَلَغَنِيَ الْكِبَرُ وَامْرَأَتِي عَاقِرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكَ اللَّهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِي آيَةً ۖ قَالَ آيَتُكَ أَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا رَمْزًا ۗ وَاذْكُرْ رَبَّكَ كَثِيرًا وَسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

ذَٰلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ

📘 اللہ نے حضرت زکریا کو بڑھاپے میں اولاد دی، حضرت مریم کو حجرہ میں رزق پہنچایا، حضرت مسیح کو بغیر باپ کے پیدا کیا، آلِ ابراہیم میں ایسے صلحا پیدا کيے جن کو خدا کی پیغام بری کے لیے چنا جائے۔ اللہ نے اپنے ان بندوں کو یہ انعامات یوں ہی نہیں ديے بلکہ ان کو اس کا مستحق پاکر ایسا کیا۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنی اولاد سے معاشی توقعات قائم نہیں کیں،ان کی خوشی ا س میں تھی کہ ان کی اولاد اللہ کی راہ میں سرگرم ہو۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے اندر اس تمنا کی پرورش کی کہ ان کی اولاد شیطان سے بچی رہے، وہ نیک بندوں کی جماعت میں شامل ہوجائے۔ کسی کے اندر بھلائی دیکھ کر وہ حسد اور جلن میں مبتلا نہیں ہوئے۔ ان کے نیک جذبات کے اثر سے ان کی اولاد بھی ایسی ہوئی جو دنیا کی زندگی میں اپنے نفس پر قابو رکھنے والی ہو، وہ اللہ کو یاد کرے۔ بدی اور نیکی کے درمیان وہ نیکی کے راستہ کو اختیار کرے ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کواللہ اپنے رزقِ خاص سے کھلاتا پلاتا ہے اور ان کو اپنی خصوصی رحمت کے لیے قبول کرلیتا ہے۔

إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

قَالَتْ رَبِّ أَنَّىٰ يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ۖ قَالَ كَذَٰلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ إِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

وَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَخْفَىٰ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ

📘 کائنات کا خالق ومالک کوئی مشینی خدا نہیں بلکہ ایک زندہ اور باشعور خدا ہے۔ اس نے ہر زمانہ میں انسان کے لیے رہنمائی بھیجی۔ انھیں میں سے وہ کتابیں تھیں جو تورات وانجیل کی صورت میں پچھلے انبیاء پر اتاری گئیں۔ مگر انسان ہمیشہ یہ کرتا رہا کہ اس نے اپنی تاویل وتشریح سے خدا کی تعلیمات کو طرح طرح کے معنی پہنائے اور خدا کے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔ آخر اللہ نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آخری کتاب (قرآن) اتاری جو انسانوں کے لیے صحیح ہدایت نامہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ کسوٹی بھی جس سے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ کا سچا دین کیا ہے اور وہ دین کون سا ہے جو لوگوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات کے ذریعے بنا رکھا ہے۔ اب جو لوگ خدا کی کتاب کو نہ مانیں یا اپنی رایوں اور تعبیروں کے تحت گھڑے ہوئے دین کو نہ چھوڑیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے آنکھ دی مگر روشنی آجانے کے باوجود انھوں نے نہ دیکھا۔ جن کو خدا نے عقل دی مگر دلیل آجانے کے بعد بھی انھوں نے نہ سمجھا اپنی چھوٹی بڑائی کی خاطر وہ حق کے آگے جھکنے كو تیار نہ ہوئے۔ اللہ اپنی ذات وصفات کے اعتبارسے کیسا ہے، اس کا حقیقی تعارف خود وہی کرسکتا ہے۔ اس کی ہستی کا دوسری موجودات سے کیا تعلق ہے، اس کو بھی وہ خود ہی صحیح طورپر بتاسکتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں اس کو اتنی واضح صورت میں بتا دیا ہے کہ جو شخص جاننا چاہے وہ ضرور جان لے گا۔ یہی معاملہ انسان کے لیے ہدایت نامہ مقرر کرنے کا ہے۔ انسان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کون سا رویہ ہے جو انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، اس کو بتانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ وہی ہوسکتا ہے جو بقیہ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے وسیع تر نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ انسان کے لیے صحیح راہ عمل کا تعین وہی کرسکتا ہے جو نہ صرف انسان کو پیدائش سے موت تک جانتا ہو بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پیدائش سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ایسی ہستی خداکے سوا کوئی دوسری نہیںہوسکتی۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ خدا پر بھروسہ کرے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو پورے یقین کے ساتھ پکڑ لے۔

وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَلِأُحِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ ۚ وَجِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُونِ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

إِنَّ اللَّهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۗ هَٰذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ

📘 یہود کی نسل کو اللہ نے اس خاص منصب کے لیے چن لیا تھا کہ ان پر اپنی ہدایت اتارے تاکہ وہ خود اللہ کے راستے پر چلیں اور دوسروں کو اس سے آگاہ کریں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ حتی کہ اللہ کی نظر میں وہ اس قابل نہ رہے کہ آسمانی ہدایت کے امین بن سکیں۔ اب اللہ کا فیصلہ یہ ہوا کہ یہ امانت ان سے چھین کر آل ابراہیم کی دوسری شاخ (بنی اسماعیل) کو دے دی جائے۔ اس فیصلہ کے نفاذ سے پہلے یہود پر اتمام حجت ضروری تھا۔ حضرت مسیح اسی اتمام حجت کے لیے بھیجے گئے۔ آنجناب کی فوق العادت پیدائش اور آپ کو غیر معمولی معجزات کا دیا جانا اسی لیے تھا کہ یہود کو اس بار ے میں کوئی شبہ نہ رہے کہ آپ خدا کے بھیجے ہوئے ہیں اور خدا کی طرف سے بول رہے ہیں۔ حضرت مسیح اپنے ساتھ نہ صرف فوق الفطری نشانیاں رکھتے تھے بلکہ وہ اتنے مؤثر اور مدلل انداز میں بولتے تھے کہ ان کے زمانہ میں کوئی اس طرح بولنے پر قادر نہ تھا۔ پہلی بار جب آپ نے یروشلم کے ہیکل میں تقریر کی تو یہودی علما آپ کی باتوں کو سن کر دنگ رہ گئے (لوقا ۲:۴۸) یہ ان کی معجز نما شخصیت اور ان کے مبہوت کردینے والے کلام ہی کا اثر تھا کہ اگر چہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے مگر آپ کے سامنے کسی کو جرأت نہ ہوسکی کہ اس پہلو سے آپ کو مطعون کرے۔ تاہم یہود اتنے بے حس اور اتنے سرکش ہوچکے تھے کہ انتہائی کھلے کھلے دلائل سامنے آجانے کے باوجود انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ ’’اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے‘‘ — یعنی جو دلیل پیش کی جارہی ہے وہ بذات خود اگر چہ مکمل ہے مگر وہ اسی شخص کے لیے دلیل بنے گی جو ماننے کا مزاج رکھتا ہو۔ جس کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ اپنے خیالات کے کہر سے باہر آکر دلیل پر غور کرے۔ جس کی فطرت اس حد تک زندہ ہو کہ ذاتی وقار کا سوال اس کے لیے حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ نہ بنے۔

۞ فَلَمَّا أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ آمَنَّا بِاللَّهِ وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

فَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَأُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

وَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَيُوَفِّيهِمْ أُجُورَهُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

ذَٰلِكَ نَتْلُوهُ عَلَيْكَ مِنَ الْآيَاتِ وَالذِّكْرِ الْحَكِيمِ

📘 بنی اسرائیل کے بڑوں نے حضرت مسیحؑکو ماننے سے انکار کردیا۔ بڑوں کے ہاتھ میں ہر قسم کے وسائل ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ مذہب کی گدیوں پر قابض ہونے کی وجہ سے عوام کی نظر میں وہی مذہب کے نمائندے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ جس کو رد کردیں، وہ نہ صرف وسائل حیات سے محروم ہوجاتا ہے بلکہ حق کی خاطر سب کچھ کھونے کے بعد بھی لوگوں کی نظر میں بددین ہی بنا رہتا ہے۔ ایسے وقت میں داعیٔ حق کا ساتھ دینا انتہائی مشکل کام ہے۔ یہ شبہات اور مخالفتوں کی عمومی فضا میں اس کی صداقت پر گواہ بننا ہے۔ یہ حق کی جانب اس وقت کھڑا ہونا ہے جب کہ حق تنہا رہ گیا ہو۔ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں اٹھتا ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرتے ہیں جو اپنی خلافِ حق زندگی پر حق کا لیبل لگا کر لوگوں کے درمیان عزت کا مقام حاصل کيے ہوئے هوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ طرح طرح کے شوشے نکا ل کر عوام کو اس کے خلاف بھڑکاتے ہیں۔ اور بالآخر طاقت کے ذریعہ اس کو مٹادینے کا منصوبہ بناتے ہیں۔ مگر اللہ کی نصرت ہمیشہ داعی کے ساتھ ہوتی ہے، اس لیے کوئی مخالفت اس کی آواز کو دبانے میںکامیاب نہیں ہوتی۔ مخالفتوں کے علی الرغم وہ اپنے مشن کو مکمل کرتا ہے — جو لوگ دعوت حق کے مخالف بنیں وہ اللہ کی نظر میںفساد كرنے والے ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کو جنت کی طرف جانے سے روکتے ہیں۔ اس سے بڑا کوئی فساد نہیں ہوسکتا کہ خدا کے بندوں کو خدائی جنت کی طرف جانےسے روکا جائے۔ حضرت مسیح یہودی قوم میں پیدا ہوئے مگر یہود نے آپ کی نبوت نہیں مانی۔ انھوںنے آنجناب کو ختم کرنے کے لیے آپ کے خلاف جھوٹا مقدمہ بنایا اور آپ کو فلسطین کی رومی عدالت میں لے گئے۔ عدالت سے آپ کو سولی پرچڑھانے کا فیصلہ ہوگیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا اور رومی سپاہیوں نے ایک اور آدمی کو آپ کا ہم شکل پاکر اسے سولی دے دی۔ یہود کے اس جرم پر خدا نے یہ فیصلہ کردیا کہ حضرت مسیح کو ماننے والی قوم قیامت تک یہودی قوم پر غالب رہے گی۔ یہود اور مسیحی دونوں کے ساتھ يه خدا کا دنیوی معاملہ ہے۔ آخرت کا معاملہ اس کے علاوہ ہے ،جو خدا کی عام سنت کے تحت ہوگا۔

إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ

📘 مسیحی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح عام انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی پیدائش توالد وتناسل کے عام قاعدہ کے خلاف باپ کے واسطہ کے بغیر ہوئی۔ پھر آپ کو عام انسانوں کی طرح ایک انسان کیسے کہاجائے۔ آپ کا طریقِ پیدائش خود بتاتا ہے کہ وہ بشر سے ماورا تھے۔ وہ انسان کے بیٹے نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے۔ کہا گیا کہ تمھارے سوال کا جواب انسان اول (آدم) کی تخلیق میں موجود ہے۔ تم خود یہ مانتے ہو کہ آدم سب سے پہلے بشر ہیں۔ وہ معروف طریقے کے مطابق مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں نہیں آئے۔بلکہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت وجود میں آئے۔ پھر باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر جب آدم خدا کے بیٹے نہیںہیں تو اسی طرح باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر مسیح کیسے خدا کے بیٹے ہوجائیں گے۔ نجران (یمن) نزول قرآن کے زمانہ میں مسیحی مذہب کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ان کے علما اور پیشواؤں کا ایک وفد ۹ھ میں مدینہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیحی عقائد کے بارے میں بحث کی۔ آپ نے مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کیے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ مسیح خدا کے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے، اس پر کبھی موت آنے والی نہیں۔ مگر عیسیٰ پر موت اور فنا آنے والی ہے (وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء) بهجۃ المحافل وبغيۃ الاماثل، يحيى بن ابو بكر العامری، جلد2، صفحہ 15 ۔آپ کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا مگر وہ برابر کج بحثی کرتے رہے۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ دلیل سے ماننے والے نہیں ہیں تو آپ ؐنے ان کو ایک آخری چیلنج دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے کو برسرِ حق سمجھتے ہو تو مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت کی بد دعا) کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اگلے دن صبح کو آپ باہر نکلے۔ آپ ؐکے ساتھ آپ کے دونوں نواسے حسن اور حسین تھے۔ ان کے پیچھے حضرت فاطمہ ؓاور ان کے پیچھے حضرت علیؓ۔ نجرانی عیسائی یہ دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور باہم مشورہ کی مہلت مانگی۔ علیحدہ مشورہ میںان کے ایک عالم نے کہا تم جانتے ہو کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں پیغمبر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہوں۔ پھر ایک پیغمبر سے مباہلہ اور ملاعنہ کرنے کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ تمھارے چھوٹے اور بڑے سب ہلاک ہوجائیں اور نسلوں تک اس کا اثر باقی رہے۔ خدا کی قسم میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستيوں کی طرف روانہ ہوجائیں۔

هُوَ الَّذِي يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحَامِ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 کائنات کا خالق ومالک کوئی مشینی خدا نہیں بلکہ ایک زندہ اور باشعور خدا ہے۔ اس نے ہر زمانہ میں انسان کے لیے رہنمائی بھیجی۔ انھیں میں سے وہ کتابیں تھیں جو تورات وانجیل کی صورت میں پچھلے انبیاء پر اتاری گئیں۔ مگر انسان ہمیشہ یہ کرتا رہا کہ اس نے اپنی تاویل وتشریح سے خدا کی تعلیمات کو طرح طرح کے معنی پہنائے اور خدا کے ایک دین کو کئی دین بنا ڈالا۔ آخر اللہ نے اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق آخری کتاب (قرآن) اتاری جو انسانوں کے لیے صحیح ہدایت نامہ بھی ہے اور اسی کے ساتھ وہ کسوٹی بھی جس سے حق وباطل کے درمیان فیصلہ کیا جاسکے۔ قرآن بتاتا ہے کہ اللہ کا سچا دین کیا ہے اور وہ دین کون سا ہے جو لوگوں نے اپنی خود ساختہ تشریحات کے ذریعے بنا رکھا ہے۔ اب جو لوگ خدا کی کتاب کو نہ مانیں یا اپنی رایوں اور تعبیروں کے تحت گھڑے ہوئے دین کو نہ چھوڑیں وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے آنکھ دی مگر روشنی آجانے کے باوجود انھوں نے نہ دیکھا۔ جن کو خدا نے عقل دی مگر دلیل آجانے کے بعد بھی انھوں نے نہ سمجھا اپنی چھوٹی بڑائی کی خاطر وہ حق کے آگے جھکنے كو تیار نہ ہوئے۔ اللہ اپنی ذات وصفات کے اعتبارسے کیسا ہے، اس کا حقیقی تعارف خود وہی کرسکتا ہے۔ اس کی ہستی کا دوسری موجودات سے کیا تعلق ہے، اس کو بھی وہ خود ہی صحیح طورپر بتاسکتا ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں اس کو اتنی واضح صورت میں بتا دیا ہے کہ جو شخص جاننا چاہے وہ ضرور جان لے گا۔ یہی معاملہ انسان کے لیے ہدایت نامہ مقرر کرنے کا ہے۔ انسان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کون سا رویہ ہے جو انسان کی کامیابی کا ضامن ہے، اس کو بتانے کے لیے پوری کائنات کا علم درکار ہے۔ انسان کے لیے صحیح رویہ وہی ہوسکتا ہے جو بقیہ کائنات سے ہم آہنگ ہو اور دنیا کے وسیع تر نظام سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہو۔ انسان کے لیے صحیح راہ عمل کا تعین وہی کرسکتا ہے جو نہ صرف انسان کو پیدائش سے موت تک جانتا ہو بلکہ اس کو یہ بھی معلوم ہو کہ پیدائش سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ ایسی ہستی خداکے سوا کوئی دوسری نہیںہوسکتی۔ انسان کے لیے حقیقت پسندی یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ خدا پر بھروسہ کرے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت کو پورے یقین کے ساتھ پکڑ لے۔

الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

📘 مسیحی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح عام انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی پیدائش توالد وتناسل کے عام قاعدہ کے خلاف باپ کے واسطہ کے بغیر ہوئی۔ پھر آپ کو عام انسانوں کی طرح ایک انسان کیسے کہاجائے۔ آپ کا طریقِ پیدائش خود بتاتا ہے کہ وہ بشر سے ماورا تھے۔ وہ انسان کے بیٹے نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے۔ کہا گیا کہ تمھارے سوال کا جواب انسان اول (آدم) کی تخلیق میں موجود ہے۔ تم خود یہ مانتے ہو کہ آدم سب سے پہلے بشر ہیں۔ وہ معروف طریقے کے مطابق مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں نہیں آئے۔بلکہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت وجود میں آئے۔ پھر باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر جب آدم خدا کے بیٹے نہیںہیں تو اسی طرح باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر مسیح کیسے خدا کے بیٹے ہوجائیں گے۔ نجران (یمن) نزول قرآن کے زمانہ میں مسیحی مذہب کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ان کے علما اور پیشواؤں کا ایک وفد ۹ھ میں مدینہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیحی عقائد کے بارے میں بحث کی۔ آپ نے مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کیے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ مسیح خدا کے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے، اس پر کبھی موت آنے والی نہیں۔ مگر عیسیٰ پر موت اور فنا آنے والی ہے (وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء) بهجۃ المحافل وبغيۃ الاماثل، يحيى بن ابو بكر العامری، جلد2، صفحہ 15 ۔آپ کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا مگر وہ برابر کج بحثی کرتے رہے۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ دلیل سے ماننے والے نہیں ہیں تو آپ ؐنے ان کو ایک آخری چیلنج دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے کو برسرِ حق سمجھتے ہو تو مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت کی بد دعا) کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اگلے دن صبح کو آپ باہر نکلے۔ آپ ؐکے ساتھ آپ کے دونوں نواسے حسن اور حسین تھے۔ ان کے پیچھے حضرت فاطمہ ؓاور ان کے پیچھے حضرت علیؓ۔ نجرانی عیسائی یہ دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور باہم مشورہ کی مہلت مانگی۔ علیحدہ مشورہ میںان کے ایک عالم نے کہا تم جانتے ہو کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں پیغمبر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہوں۔ پھر ایک پیغمبر سے مباہلہ اور ملاعنہ کرنے کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ تمھارے چھوٹے اور بڑے سب ہلاک ہوجائیں اور نسلوں تک اس کا اثر باقی رہے۔ خدا کی قسم میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستيوں کی طرف روانہ ہوجائیں۔

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ

📘 مسیحی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح عام انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی پیدائش توالد وتناسل کے عام قاعدہ کے خلاف باپ کے واسطہ کے بغیر ہوئی۔ پھر آپ کو عام انسانوں کی طرح ایک انسان کیسے کہاجائے۔ آپ کا طریقِ پیدائش خود بتاتا ہے کہ وہ بشر سے ماورا تھے۔ وہ انسان کے بیٹے نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے۔ کہا گیا کہ تمھارے سوال کا جواب انسان اول (آدم) کی تخلیق میں موجود ہے۔ تم خود یہ مانتے ہو کہ آدم سب سے پہلے بشر ہیں۔ وہ معروف طریقے کے مطابق مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں نہیں آئے۔بلکہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت وجود میں آئے۔ پھر باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر جب آدم خدا کے بیٹے نہیںہیں تو اسی طرح باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر مسیح کیسے خدا کے بیٹے ہوجائیں گے۔ نجران (یمن) نزول قرآن کے زمانہ میں مسیحی مذہب کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ان کے علما اور پیشواؤں کا ایک وفد ۹ھ میں مدینہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیحی عقائد کے بارے میں بحث کی۔ آپ نے مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کیے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ مسیح خدا کے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے، اس پر کبھی موت آنے والی نہیں۔ مگر عیسیٰ پر موت اور فنا آنے والی ہے (وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء) بهجۃ المحافل وبغيۃ الاماثل، يحيى بن ابو بكر العامری، جلد2، صفحہ 15 ۔آپ کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا مگر وہ برابر کج بحثی کرتے رہے۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ دلیل سے ماننے والے نہیں ہیں تو آپ ؐنے ان کو ایک آخری چیلنج دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے کو برسرِ حق سمجھتے ہو تو مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت کی بد دعا) کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اگلے دن صبح کو آپ باہر نکلے۔ آپ ؐکے ساتھ آپ کے دونوں نواسے حسن اور حسین تھے۔ ان کے پیچھے حضرت فاطمہ ؓاور ان کے پیچھے حضرت علیؓ۔ نجرانی عیسائی یہ دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور باہم مشورہ کی مہلت مانگی۔ علیحدہ مشورہ میںان کے ایک عالم نے کہا تم جانتے ہو کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں پیغمبر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہوں۔ پھر ایک پیغمبر سے مباہلہ اور ملاعنہ کرنے کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ تمھارے چھوٹے اور بڑے سب ہلاک ہوجائیں اور نسلوں تک اس کا اثر باقی رہے۔ خدا کی قسم میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستيوں کی طرف روانہ ہوجائیں۔

إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ ۚ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 مسیحی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح عام انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی پیدائش توالد وتناسل کے عام قاعدہ کے خلاف باپ کے واسطہ کے بغیر ہوئی۔ پھر آپ کو عام انسانوں کی طرح ایک انسان کیسے کہاجائے۔ آپ کا طریقِ پیدائش خود بتاتا ہے کہ وہ بشر سے ماورا تھے۔ وہ انسان کے بیٹے نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے۔ کہا گیا کہ تمھارے سوال کا جواب انسان اول (آدم) کی تخلیق میں موجود ہے۔ تم خود یہ مانتے ہو کہ آدم سب سے پہلے بشر ہیں۔ وہ معروف طریقے کے مطابق مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں نہیں آئے۔بلکہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت وجود میں آئے۔ پھر باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر جب آدم خدا کے بیٹے نہیںہیں تو اسی طرح باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر مسیح کیسے خدا کے بیٹے ہوجائیں گے۔ نجران (یمن) نزول قرآن کے زمانہ میں مسیحی مذہب کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ان کے علما اور پیشواؤں کا ایک وفد ۹ھ میں مدینہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیحی عقائد کے بارے میں بحث کی۔ آپ نے مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کیے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ مسیح خدا کے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے، اس پر کبھی موت آنے والی نہیں۔ مگر عیسیٰ پر موت اور فنا آنے والی ہے (وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء) بهجۃ المحافل وبغيۃ الاماثل، يحيى بن ابو بكر العامری، جلد2، صفحہ 15 ۔آپ کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا مگر وہ برابر کج بحثی کرتے رہے۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ دلیل سے ماننے والے نہیں ہیں تو آپ ؐنے ان کو ایک آخری چیلنج دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے کو برسرِ حق سمجھتے ہو تو مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت کی بد دعا) کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اگلے دن صبح کو آپ باہر نکلے۔ آپ ؐکے ساتھ آپ کے دونوں نواسے حسن اور حسین تھے۔ ان کے پیچھے حضرت فاطمہ ؓاور ان کے پیچھے حضرت علیؓ۔ نجرانی عیسائی یہ دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور باہم مشورہ کی مہلت مانگی۔ علیحدہ مشورہ میںان کے ایک عالم نے کہا تم جانتے ہو کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں پیغمبر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہوں۔ پھر ایک پیغمبر سے مباہلہ اور ملاعنہ کرنے کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ تمھارے چھوٹے اور بڑے سب ہلاک ہوجائیں اور نسلوں تک اس کا اثر باقی رہے۔ خدا کی قسم میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستيوں کی طرف روانہ ہوجائیں۔

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ

📘 مسیحی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت مسیح عام انسانوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان کی پیدائش توالد وتناسل کے عام قاعدہ کے خلاف باپ کے واسطہ کے بغیر ہوئی۔ پھر آپ کو عام انسانوں کی طرح ایک انسان کیسے کہاجائے۔ آپ کا طریقِ پیدائش خود بتاتا ہے کہ وہ بشر سے ماورا تھے۔ وہ انسان کے بیٹے نہیں بلکہ خدا کے بیٹے تھے۔ کہا گیا کہ تمھارے سوال کا جواب انسان اول (آدم) کی تخلیق میں موجود ہے۔ تم خود یہ مانتے ہو کہ آدم سب سے پہلے بشر ہیں۔ وہ معروف طریقے کے مطابق مرد اور عورت کے تعلق سے وجود میں نہیں آئے۔بلکہ براہِ راست خدا کے حکم کے تحت وجود میں آئے۔ پھر باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر جب آدم خدا کے بیٹے نہیںہیں تو اسی طرح باپ کے بغیر پیدا ہونے کی بنا پر مسیح کیسے خدا کے بیٹے ہوجائیں گے۔ نجران (یمن) نزول قرآن کے زمانہ میں مسیحی مذہب کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ان کے علما اور پیشواؤں کا ایک وفد ۹ھ میں مدینہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسیحی عقائد کے بارے میں بحث کی۔ آپ نے مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کیے۔ مثلاً آپ نے فرمایا کہ مسیح خدا کے بیٹے کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ خدا ایک زندہ ہستی ہے، اس پر کبھی موت آنے والی نہیں۔ مگر عیسیٰ پر موت اور فنا آنے والی ہے (وان عیسیٰ یأتی علیہ الفناء) بهجۃ المحافل وبغيۃ الاماثل، يحيى بن ابو بكر العامری، جلد2، صفحہ 15 ۔آپ کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا مگر وہ برابر کج بحثی کرتے رہے۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ دلیل سے ماننے والے نہیں ہیں تو آپ ؐنے ان کو ایک آخری چیلنج دیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم اپنے کو برسرِ حق سمجھتے ہو تو مباہلہ (ایک دوسرے پر لعنت کی بد دعا) کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اگلے دن صبح کو آپ باہر نکلے۔ آپ ؐکے ساتھ آپ کے دونوں نواسے حسن اور حسین تھے۔ ان کے پیچھے حضرت فاطمہ ؓاور ان کے پیچھے حضرت علیؓ۔ نجرانی عیسائی یہ دیکھ کر مرعوب ہوگئے اور باہم مشورہ کی مہلت مانگی۔ علیحدہ مشورہ میںان کے ایک عالم نے کہا تم جانتے ہو کہ اللہ نے بنی اسماعیل میں پیغمبر بھیجنے کا وعدہ کیا ہے۔ بعید نہیں کہ یہ وہی پیغمبر ہوں۔ پھر ایک پیغمبر سے مباہلہ اور ملاعنہ کرنے کا نتیجہ یہی نکل سکتا ہے کہ تمھارے چھوٹے اور بڑے سب ہلاک ہوجائیں اور نسلوں تک اس کا اثر باقی رہے۔ خدا کی قسم میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ دعا کریں تو پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ٹل جائیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم ان سے صلح کرکے اپنی بستيوں کی طرف روانہ ہوجائیں۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ إِلَّا مِنْ بَعْدِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

هَا أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ حَاجَجْتُمْ فِيمَا لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَاجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِنْ كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَٰذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۗ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

وَدَّتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يُضِلُّونَكُمْ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ

📘 قرآن میں دو طرح کے مضامین ہیں۔ ایک وہ جو انسان کی معلوم دنیا سے متعلق ہیں۔ مثلاً تاریخی واقعات، کائناتی نشانیاں، دنیوی زندگی کے احکام وغیرہ۔دوسرے وہ جن کا تعلق ان غیبی امور سے ہے جو آج کے انسان کے لیے ناقابل ادراک ہیں۔ مثلاً خدا کی صفات، جنت دوزخ کے احوال، وغیرہ۔ پہلی قسم کی باتوں کو قرآن میں محکم انداز، بالفاظ دیگر براہِ راست اسلو ب میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسری قسم کی باتیں انسان کی نامعلوم دنیا سے متعلق ہیں، وہ انسانی زبان کی گرفت میں نہیںآتیں۔ اس لیے ان کو متشابہ انداز یعنی تمثیل وتشبیہہ کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’انسان کا ہاتھ‘‘ کہا جائے تو یہ براہِ راست زبان کی مثال ہے اور ’’اللہ کا ہاتھ‘‘ تمثیلی زبان کی مثال ۔جو لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے وہ متشابہ آیتوں کا مفہوم بھی اسی طرح متعین کرنے لگتے ہیں جس طرح محکم آیتوں کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے فطری دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش ہے۔ اس قسم کی کوشش کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ آدمی ہمیشہ بھٹکتا رہے اور کبھی منزل پر نہ پہنچے۔ کیوں کہ ’’انسان کے ہاتھ‘‘ کو متعین طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر ’’خدا کے ہاتھ‘‘ کو موجودہ عقل کے ساتھ متعین طورپر سمجھنا ممکن نہیں۔ متشابہات کے سلسلے میں صحیح علمی وعقلی موقف یہ ہے کہ آدمی اپنی محدودیت کا اعتراف کرے۔ جن باتوں کو وہ متعین صورت میں اپنے حواس کی گرفت میں نہیں لاسکتا ان کے مجمل تصور پر قناعت کرے۔ جب حواس کی محدودیت کی وجہ سے انسان کے لیے ان حقائق کا کلّی احاطہ ممکن نہیں تو حقیقت پسندی یہ ہے کہ ان امور میں تعیّنات کی بحث نہ چھیڑی جائے۔ اس کے بجائے اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ وہ آدمی کو اس قسم کی بے نتیجہ بحثوں میں الجھنے سے بچائے۔ وہ آدمی کو ایسی عقل سلیم دے جو اپنے مقام کو پہچانے اور ان حقائق کے مجمل یقین پر راضی ہوجائے۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب کہ یہ حقیقتیں اپنی تفصیلی صورت میں کھل کر سامنے آجائیں گي مگر آدمی جب تک امتحان کی دنیا میں ہے ایسا ہونا ممکن نہیں۔ جس طرح راستہ کی پھسلن ہوتی ہے اسی طرح عقل کے سفر کی بھی پھسلن ہے۔ اور عقل کی پھسلن یہ ہے کہ کسی معاملہ کو آدمی اس کے صحیح رخ سے نہ دیکھے۔ کسی چیز کی حقیقت آدمی اسی وقت سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کو اس رخ سے دیکھے جس رخ سے اس کو دیکھنا چاہيے۔ اگر وہ کسی اور رُخ سے دیکھنے لگے تو عین ممکن ہے کہ وہ صحیح رائے قائم نہ کرسکے اور غلط فہمیوں میں پڑ کر رہ جائے۔ سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ آدمی اس راز کو جان لے کہ کسی چیز کو دیکھنے کا صحیح ترین رخ کیا ہے۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَلْبِسُونَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 توحید نہ صرف پیغمبروں کی اصل تعلیم ہے بلکہ تورات اور انجیل کے موجودہ غیر مستند نسخوں میں بھی وہ ایک مسلّم حقیقت کے طورپر موجود ہے۔ اس مسلّمہ معیار پر جانچا جائے تو اسلام ہی کامل طورپر صحیح دین ثابت ہوتا ہے، نہ کہ یہودیت اور نصرانیت۔ توحید کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو ایک ماناجائے۔ صرف اسی کی عبادت کی جائے۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔ کسی انسان کو وہ مقام نہ دیا جائے جو مالک کائنات کے لیے خاص ہے۔ یہ توحید اپنی خالص صورت میں صرف قرآن اور اسلام میں محفوظ ہے۔ دوسرے مذاہب نے نظری طورپر توحید کا اقرار کرتے ہوئے عملی طورپر وہ سب کچھ اختیار کرلیا جو توحید کے سراسر خلاف تھا۔ زبان سے خدا کو رب کہتے ہوئے انھوںنے اپنے نبیوں او ر بزرگوں کو عملاً رب کا درجہ دے دیا۔ مکہ کے مشرکین اپنے مذہب کو ابراہیمی مذہب کہتے تھے۔ یہود ونصاریٰ بھی اپنی مذہبی تاریخ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ہر زمانہ کے لوگ اسی طرح اپنے نبیوں اور بزرگوں کے نام کو اپنی بدعات اور تحریفات کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ زمانہ گزرنے کے بعد ان کا بنایاہوا مذہب عوام کے ذہنوں پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ اسی کو اصل مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ان حالات میں جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے مخالفین اس کو بے اعتبار ثابت کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ سمجھتے ہیں کہ عوام میں یہ مشہور کردیں کہ وہ اسلاف کے دین کے خلاف ہے۔ وہ شخص جو ’’اسلاف‘‘ کے دین کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے اس کو خود اسلاف ہی کے نام پر رد کردیا جاتا ہے۔ یہ گویا حق کے اوپر باطل کا پردہ ڈالنا ہے۔ یعنی ایسی باتیں کہنا جو فی نفسہٖ بے حقیقت ہوں مگر عوام تجزیہ نہ کرسکنے کی وجہ سے اس کو درست سمجھ لیں اور حق سے دور ہوجائیں۔ ’’مسلم حنیف‘‘ وہ ہے جو توحید کے راستہ پر یکسو ہو کر چلے اور غیرحنیف وہ ہے جو دائیں بائیں کی پگڈنڈیوں پر مڑجائے۔ کوئی ایک ذیلی پہلو کو لے کر اتنا بڑھائے کہ اسی کو سب کچھ بنا دے۔ کوئی دوسرے ذیلی پہلو کو لے کر اس پر اتنے تشریحی اضافے کرے کہ وہی ساری حقیقت نظر آنے لگے۔ لوگ دین کے ذیلی پہلوؤں کو کُل دین سمجھ لیں اور توحید کی سیدھی شاہراہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر کے راستوں میں دوڑنے لگیں۔

وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ آمِنُوا بِالَّذِي أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا آخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

📘 ایک گروہ جس میں انبیا اور صلحا پیدا ہوئے ہوں، جس کے درمیان عرصہ تک دین کا چرچا رہے، اکثر وہ اس غلط فہمی میںپڑ جاتا ہے کہ وہ اور حق دونوں ایک ہیں۔ وہ ہدایت کوایک گروہی چیز سمجھ لیتا ہے، نہ کہ اصولی چیز۔ یہود کا معاملہ یہی تھا۔ ان کا ذہن، تاریخی روایات کے اثر سے یہ بن گیا تھا کہ جو ہمارے گروہ میں ہے وہ ہدایت پر ہے اور جو ہمارے گروہ سے باہر ہے وہ ہدایت سے خالی ہے۔ جو لوگ حق کو اس طرح گروہی چیز سمجھ لیں وہ ایسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ان کے گروہ کے باہر ظاہر ہوئی ہو۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ حق وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، نہ کہ وہ جو کسی شخص یا گروہ کی طرف سے ملے۔وہ اگر چہ دین خداوندی کا نام لیتے ہیں مگر ان کا دین حقیقۃ ً گروہ پرستی ہوتا ہے، نہ کہ خدا پرستی۔ ان کا یہ مزاج ان کی آنکھ پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ اپنے گروہ سے باہر کسی کا فضل وکمال انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ کھلے کھلے دلائل سامنے آنے کے بعد بھی وہ اس کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ سے باہر اٹھنے والی دعوتِ حق کے شدید مخالف بن جاتے ہیں —دو عملی کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد باتیں مشہور کرکے لوگوں کو اس کی صداقت کے بارے میں مشتبہ کرتے ہیں۔ شریعت خداوندی کے سراسر خلاف وہ اپنے لیے اس کو جائز کر لیتے ہیں کہ وہ اخلاق کے دو معیار بنائیں، ایک غیروںکے لیے، دوسرا اپنے گروہ کے لیے۔ کسی کو اپنے دین کی نمائندگی کے لیے قبول کرنا اللہ کی خصوصی رحمت ہے۔اس کا فیصلہ گروہی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یہ سعادت اس کو ملتی ہے جس کو اللہ اپنے علم کے مطابق پسند کرے۔ اور اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے ساتھ اپنے کو اس طرح وابستہ کرلے کہ وہ اس کا نگراں بن جائے جس سے وہ ڈرے، وہ اس کا آقا بن جائے جس کے ساتھ کيے ہوئے عہد اطاعت کو وہ کبھی نظر انداز نہ کرسکے — اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو امانت کو پورا کرنے والے ہوں اور عہد کے پابند ہوں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی رحمتیں اترتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ امانت کی ادائیگی کے معاملہ میں بے پروا ہوں اور عہد کو پورا کرنے میں حسّاس نہ رہیں وہ اللہ کے یہاں بے قیمت ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں سے دور کرديے جاتے ہیں۔

وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الْهُدَىٰ هُدَى اللَّهِ أَنْ يُؤْتَىٰ أَحَدٌ مِثْلَ مَا أُوتِيتُمْ أَوْ يُحَاجُّوكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۗ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 ایک گروہ جس میں انبیا اور صلحا پیدا ہوئے ہوں، جس کے درمیان عرصہ تک دین کا چرچا رہے، اکثر وہ اس غلط فہمی میںپڑ جاتا ہے کہ وہ اور حق دونوں ایک ہیں۔ وہ ہدایت کوایک گروہی چیز سمجھ لیتا ہے، نہ کہ اصولی چیز۔ یہود کا معاملہ یہی تھا۔ ان کا ذہن، تاریخی روایات کے اثر سے یہ بن گیا تھا کہ جو ہمارے گروہ میں ہے وہ ہدایت پر ہے اور جو ہمارے گروہ سے باہر ہے وہ ہدایت سے خالی ہے۔ جو لوگ حق کو اس طرح گروہی چیز سمجھ لیں وہ ایسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ان کے گروہ کے باہر ظاہر ہوئی ہو۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ حق وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، نہ کہ وہ جو کسی شخص یا گروہ کی طرف سے ملے۔وہ اگر چہ دین خداوندی کا نام لیتے ہیں مگر ان کا دین حقیقۃ ً گروہ پرستی ہوتا ہے، نہ کہ خدا پرستی۔ ان کا یہ مزاج ان کی آنکھ پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ اپنے گروہ سے باہر کسی کا فضل وکمال انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ کھلے کھلے دلائل سامنے آنے کے بعد بھی وہ اس کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ سے باہر اٹھنے والی دعوتِ حق کے شدید مخالف بن جاتے ہیں —دو عملی کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد باتیں مشہور کرکے لوگوں کو اس کی صداقت کے بارے میں مشتبہ کرتے ہیں۔ شریعت خداوندی کے سراسر خلاف وہ اپنے لیے اس کو جائز کر لیتے ہیں کہ وہ اخلاق کے دو معیار بنائیں، ایک غیروںکے لیے، دوسرا اپنے گروہ کے لیے۔ کسی کو اپنے دین کی نمائندگی کے لیے قبول کرنا اللہ کی خصوصی رحمت ہے۔اس کا فیصلہ گروہی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یہ سعادت اس کو ملتی ہے جس کو اللہ اپنے علم کے مطابق پسند کرے۔ اور اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے ساتھ اپنے کو اس طرح وابستہ کرلے کہ وہ اس کا نگراں بن جائے جس سے وہ ڈرے، وہ اس کا آقا بن جائے جس کے ساتھ کيے ہوئے عہد اطاعت کو وہ کبھی نظر انداز نہ کرسکے — اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو امانت کو پورا کرنے والے ہوں اور عہد کے پابند ہوں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی رحمتیں اترتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ امانت کی ادائیگی کے معاملہ میں بے پروا ہوں اور عہد کو پورا کرنے میں حسّاس نہ رہیں وہ اللہ کے یہاں بے قیمت ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں سے دور کرديے جاتے ہیں۔

يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ

📘 ایک گروہ جس میں انبیا اور صلحا پیدا ہوئے ہوں، جس کے درمیان عرصہ تک دین کا چرچا رہے، اکثر وہ اس غلط فہمی میںپڑ جاتا ہے کہ وہ اور حق دونوں ایک ہیں۔ وہ ہدایت کوایک گروہی چیز سمجھ لیتا ہے، نہ کہ اصولی چیز۔ یہود کا معاملہ یہی تھا۔ ان کا ذہن، تاریخی روایات کے اثر سے یہ بن گیا تھا کہ جو ہمارے گروہ میں ہے وہ ہدایت پر ہے اور جو ہمارے گروہ سے باہر ہے وہ ہدایت سے خالی ہے۔ جو لوگ حق کو اس طرح گروہی چیز سمجھ لیں وہ ایسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ان کے گروہ کے باہر ظاہر ہوئی ہو۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ حق وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، نہ کہ وہ جو کسی شخص یا گروہ کی طرف سے ملے۔وہ اگر چہ دین خداوندی کا نام لیتے ہیں مگر ان کا دین حقیقۃ ً گروہ پرستی ہوتا ہے، نہ کہ خدا پرستی۔ ان کا یہ مزاج ان کی آنکھ پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ اپنے گروہ سے باہر کسی کا فضل وکمال انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ کھلے کھلے دلائل سامنے آنے کے بعد بھی وہ اس کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ سے باہر اٹھنے والی دعوتِ حق کے شدید مخالف بن جاتے ہیں —دو عملی کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد باتیں مشہور کرکے لوگوں کو اس کی صداقت کے بارے میں مشتبہ کرتے ہیں۔ شریعت خداوندی کے سراسر خلاف وہ اپنے لیے اس کو جائز کر لیتے ہیں کہ وہ اخلاق کے دو معیار بنائیں، ایک غیروںکے لیے، دوسرا اپنے گروہ کے لیے۔ کسی کو اپنے دین کی نمائندگی کے لیے قبول کرنا اللہ کی خصوصی رحمت ہے۔اس کا فیصلہ گروہی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یہ سعادت اس کو ملتی ہے جس کو اللہ اپنے علم کے مطابق پسند کرے۔ اور اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے ساتھ اپنے کو اس طرح وابستہ کرلے کہ وہ اس کا نگراں بن جائے جس سے وہ ڈرے، وہ اس کا آقا بن جائے جس کے ساتھ کيے ہوئے عہد اطاعت کو وہ کبھی نظر انداز نہ کرسکے — اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو امانت کو پورا کرنے والے ہوں اور عہد کے پابند ہوں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی رحمتیں اترتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ امانت کی ادائیگی کے معاملہ میں بے پروا ہوں اور عہد کو پورا کرنے میں حسّاس نہ رہیں وہ اللہ کے یہاں بے قیمت ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں سے دور کرديے جاتے ہیں۔

۞ وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 ایک گروہ جس میں انبیا اور صلحا پیدا ہوئے ہوں، جس کے درمیان عرصہ تک دین کا چرچا رہے، اکثر وہ اس غلط فہمی میںپڑ جاتا ہے کہ وہ اور حق دونوں ایک ہیں۔ وہ ہدایت کوایک گروہی چیز سمجھ لیتا ہے، نہ کہ اصولی چیز۔ یہود کا معاملہ یہی تھا۔ ان کا ذہن، تاریخی روایات کے اثر سے یہ بن گیا تھا کہ جو ہمارے گروہ میں ہے وہ ہدایت پر ہے اور جو ہمارے گروہ سے باہر ہے وہ ہدایت سے خالی ہے۔ جو لوگ حق کو اس طرح گروہی چیز سمجھ لیں وہ ایسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ان کے گروہ کے باہر ظاہر ہوئی ہو۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ حق وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، نہ کہ وہ جو کسی شخص یا گروہ کی طرف سے ملے۔وہ اگر چہ دین خداوندی کا نام لیتے ہیں مگر ان کا دین حقیقۃ ً گروہ پرستی ہوتا ہے، نہ کہ خدا پرستی۔ ان کا یہ مزاج ان کی آنکھ پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ اپنے گروہ سے باہر کسی کا فضل وکمال انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ کھلے کھلے دلائل سامنے آنے کے بعد بھی وہ اس کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ سے باہر اٹھنے والی دعوتِ حق کے شدید مخالف بن جاتے ہیں —دو عملی کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد باتیں مشہور کرکے لوگوں کو اس کی صداقت کے بارے میں مشتبہ کرتے ہیں۔ شریعت خداوندی کے سراسر خلاف وہ اپنے لیے اس کو جائز کر لیتے ہیں کہ وہ اخلاق کے دو معیار بنائیں، ایک غیروںکے لیے، دوسرا اپنے گروہ کے لیے۔ کسی کو اپنے دین کی نمائندگی کے لیے قبول کرنا اللہ کی خصوصی رحمت ہے۔اس کا فیصلہ گروہی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یہ سعادت اس کو ملتی ہے جس کو اللہ اپنے علم کے مطابق پسند کرے۔ اور اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے ساتھ اپنے کو اس طرح وابستہ کرلے کہ وہ اس کا نگراں بن جائے جس سے وہ ڈرے، وہ اس کا آقا بن جائے جس کے ساتھ کيے ہوئے عہد اطاعت کو وہ کبھی نظر انداز نہ کرسکے — اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو امانت کو پورا کرنے والے ہوں اور عہد کے پابند ہوں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی رحمتیں اترتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ امانت کی ادائیگی کے معاملہ میں بے پروا ہوں اور عہد کو پورا کرنے میں حسّاس نہ رہیں وہ اللہ کے یہاں بے قیمت ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں سے دور کرديے جاتے ہیں۔

بَلَىٰ مَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ وَاتَّقَىٰ فَإِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

📘 ایک گروہ جس میں انبیا اور صلحا پیدا ہوئے ہوں، جس کے درمیان عرصہ تک دین کا چرچا رہے، اکثر وہ اس غلط فہمی میںپڑ جاتا ہے کہ وہ اور حق دونوں ایک ہیں۔ وہ ہدایت کوایک گروہی چیز سمجھ لیتا ہے، نہ کہ اصولی چیز۔ یہود کا معاملہ یہی تھا۔ ان کا ذہن، تاریخی روایات کے اثر سے یہ بن گیا تھا کہ جو ہمارے گروہ میں ہے وہ ہدایت پر ہے اور جو ہمارے گروہ سے باہر ہے وہ ہدایت سے خالی ہے۔ جو لوگ حق کو اس طرح گروہی چیز سمجھ لیں وہ ایسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے جو ان کے گروہ کے باہر ظاہر ہوئی ہو۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ حق وہ ہے جو اللہ کی طرف سے آئے، نہ کہ وہ جو کسی شخص یا گروہ کی طرف سے ملے۔وہ اگر چہ دین خداوندی کا نام لیتے ہیں مگر ان کا دین حقیقۃ ً گروہ پرستی ہوتا ہے، نہ کہ خدا پرستی۔ ان کا یہ مزاج ان کی آنکھ پر ایسا پردہ ڈال دیتا ہے کہ اپنے گروہ سے باہر کسی کا فضل وکمال انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ کھلے کھلے دلائل سامنے آنے کے بعد بھی وہ اس کو شبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے حلقہ سے باہر اٹھنے والی دعوتِ حق کے شدید مخالف بن جاتے ہیں —دو عملی کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد باتیں مشہور کرکے لوگوں کو اس کی صداقت کے بارے میں مشتبہ کرتے ہیں۔ شریعت خداوندی کے سراسر خلاف وہ اپنے لیے اس کو جائز کر لیتے ہیں کہ وہ اخلاق کے دو معیار بنائیں، ایک غیروںکے لیے، دوسرا اپنے گروہ کے لیے۔ کسی کو اپنے دین کی نمائندگی کے لیے قبول کرنا اللہ کی خصوصی رحمت ہے۔اس کا فیصلہ گروہی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ یہ سعادت اس کو ملتی ہے جس کو اللہ اپنے علم کے مطابق پسند کرے۔ اور اللہ اس شخص کو پسند کرتا ہے جو اللہ کے ساتھ اپنے کو اس طرح وابستہ کرلے کہ وہ اس کا نگراں بن جائے جس سے وہ ڈرے، وہ اس کا آقا بن جائے جس کے ساتھ کيے ہوئے عہد اطاعت کو وہ کبھی نظر انداز نہ کرسکے — اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو امانت کو پورا کرنے والے ہوں اور عہد کے پابند ہوں۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ کی رحمتیں اترتی ہیں۔ اس کے برعکس، جو لوگ امانت کی ادائیگی کے معاملہ میں بے پروا ہوں اور عہد کو پورا کرنے میں حسّاس نہ رہیں وہ اللہ کے یہاں بے قیمت ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں سے دور کرديے جاتے ہیں۔

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور بندوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے گا جو خدا کی شریعت کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک پابند زندگی ہے جس کو عہد کی زندگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس زندگی پر قائم ہونے کے لیے نفس کی آزادیوں کو ختم کرنا پڑتا ہے، بار بار اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس لیے اس عہد کی زندگی کو وہی شخص نباہ سکتا ہے جو نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر اس کو اختیار کرے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ نفس پر چوٹ پڑے یا دنیا کا مفاد خطرہ میں نظر آئے تو وہ عہد خداوندی کو نظر انداز کردے اور اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی طرف جھک جائے، اس نے گویا آخرت کو دے کر دنیا خریدی۔ جب آخرت کے پہلو اور دنیا کے پہلو میں سے کسی ایک کو لینے کا سوا ل آیا تو اس نے دنیا کے پہلو کو ترجیح دی۔ جو شخص آخرت کو اتنی بے قیمت چیز سمجھ لے وہ آخرت میںاللہ کی عنایتوں کا حق دار کس طرح ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آخر ت کو اپنی دنیا کا سودا بنائیں وہ دین یا آخرت کے منکر نہیں ہوجاتے۔ بلکہ دین اور آخرت کے پورے اقرار کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ پھر ان دو متضاد رویوں کو وہ کس طرح ایک دوسرے کے مطابق بناتے ہیں۔ اس کا ذریعہ تحریف ہے، یعنی آسمانی تعلیمات کو خود ساختہ معنی پہنانا۔ ایسے لوگ اپنی دنیا پرستانہ روش کو آخرت پسندی اور خدا پرستی ثابت کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ کبھی خدا کے الفاظ کو بدل کر اور کبھی خدا کے الفاظ کی اپنی مفید مطلب تشریح کرکے۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے کتاب الٰہی کو بدل دیتے ہیں تاکہ جو چیز کتاب الٰہی میں نہیں ہے اس کو عین کتاب الٰہی کی چیز بنا دیں، اپنی بے خدا زندگی کو باخدا زندگی ثابت کردکھائیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین جرم ہے کہ آدمی اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو اللہ نے نہ کہی ہو۔ کسی تعلیم کی صداقت کی سادہ اور یقینی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملائے، لوگوں کے خوف ومحبت کے جذبات کو بیدار کرکے اس کو اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے برعکس، جو تعلیم شخصیت پرستی یا اور کوئی پرسـتی پیدا کرے، جو انسان کے نازک جذبات کا مرکز توجہ کسی غیر خدا کو بناتی ہو، اس کے متعلق سمجھنا چاہیے کہ وہ سراسر باطل ہے خواہ بظاہر اپنے اوپر اس نے حق کا لیبل کیوں نہ لگا رکھا ہو۔

وَإِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيقًا يَلْوُونَ أَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتَابِ لِتَحْسَبُوهُ مِنَ الْكِتَابِ وَمَا هُوَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَقُولُونَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَمَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ

📘 ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور بندوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے گا جو خدا کی شریعت کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک پابند زندگی ہے جس کو عہد کی زندگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس زندگی پر قائم ہونے کے لیے نفس کی آزادیوں کو ختم کرنا پڑتا ہے، بار بار اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس لیے اس عہد کی زندگی کو وہی شخص نباہ سکتا ہے جو نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر اس کو اختیار کرے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ نفس پر چوٹ پڑے یا دنیا کا مفاد خطرہ میں نظر آئے تو وہ عہد خداوندی کو نظر انداز کردے اور اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی طرف جھک جائے، اس نے گویا آخرت کو دے کر دنیا خریدی۔ جب آخرت کے پہلو اور دنیا کے پہلو میں سے کسی ایک کو لینے کا سوا ل آیا تو اس نے دنیا کے پہلو کو ترجیح دی۔ جو شخص آخرت کو اتنی بے قیمت چیز سمجھ لے وہ آخرت میںاللہ کی عنایتوں کا حق دار کس طرح ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آخر ت کو اپنی دنیا کا سودا بنائیں وہ دین یا آخرت کے منکر نہیں ہوجاتے۔ بلکہ دین اور آخرت کے پورے اقرار کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ پھر ان دو متضاد رویوں کو وہ کس طرح ایک دوسرے کے مطابق بناتے ہیں۔ اس کا ذریعہ تحریف ہے، یعنی آسمانی تعلیمات کو خود ساختہ معنی پہنانا۔ ایسے لوگ اپنی دنیا پرستانہ روش کو آخرت پسندی اور خدا پرستی ثابت کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ کبھی خدا کے الفاظ کو بدل کر اور کبھی خدا کے الفاظ کی اپنی مفید مطلب تشریح کرکے۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے کتاب الٰہی کو بدل دیتے ہیں تاکہ جو چیز کتاب الٰہی میں نہیں ہے اس کو عین کتاب الٰہی کی چیز بنا دیں، اپنی بے خدا زندگی کو باخدا زندگی ثابت کردکھائیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین جرم ہے کہ آدمی اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو اللہ نے نہ کہی ہو۔ کسی تعلیم کی صداقت کی سادہ اور یقینی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملائے، لوگوں کے خوف ومحبت کے جذبات کو بیدار کرکے اس کو اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے برعکس، جو تعلیم شخصیت پرستی یا اور کوئی پرسـتی پیدا کرے، جو انسان کے نازک جذبات کا مرکز توجہ کسی غیر خدا کو بناتی ہو، اس کے متعلق سمجھنا چاہیے کہ وہ سراسر باطل ہے خواہ بظاہر اپنے اوپر اس نے حق کا لیبل کیوں نہ لگا رکھا ہو۔

مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِي مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنْتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنْتُمْ تَدْرُسُونَ

📘 ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور بندوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے گا جو خدا کی شریعت کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک پابند زندگی ہے جس کو عہد کی زندگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس زندگی پر قائم ہونے کے لیے نفس کی آزادیوں کو ختم کرنا پڑتا ہے، بار بار اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس لیے اس عہد کی زندگی کو وہی شخص نباہ سکتا ہے جو نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر اس کو اختیار کرے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ نفس پر چوٹ پڑے یا دنیا کا مفاد خطرہ میں نظر آئے تو وہ عہد خداوندی کو نظر انداز کردے اور اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی طرف جھک جائے، اس نے گویا آخرت کو دے کر دنیا خریدی۔ جب آخرت کے پہلو اور دنیا کے پہلو میں سے کسی ایک کو لینے کا سوا ل آیا تو اس نے دنیا کے پہلو کو ترجیح دی۔ جو شخص آخرت کو اتنی بے قیمت چیز سمجھ لے وہ آخرت میںاللہ کی عنایتوں کا حق دار کس طرح ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آخر ت کو اپنی دنیا کا سودا بنائیں وہ دین یا آخرت کے منکر نہیں ہوجاتے۔ بلکہ دین اور آخرت کے پورے اقرار کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ پھر ان دو متضاد رویوں کو وہ کس طرح ایک دوسرے کے مطابق بناتے ہیں۔ اس کا ذریعہ تحریف ہے، یعنی آسمانی تعلیمات کو خود ساختہ معنی پہنانا۔ ایسے لوگ اپنی دنیا پرستانہ روش کو آخرت پسندی اور خدا پرستی ثابت کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ کبھی خدا کے الفاظ کو بدل کر اور کبھی خدا کے الفاظ کی اپنی مفید مطلب تشریح کرکے۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے کتاب الٰہی کو بدل دیتے ہیں تاکہ جو چیز کتاب الٰہی میں نہیں ہے اس کو عین کتاب الٰہی کی چیز بنا دیں، اپنی بے خدا زندگی کو باخدا زندگی ثابت کردکھائیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین جرم ہے کہ آدمی اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو اللہ نے نہ کہی ہو۔ کسی تعلیم کی صداقت کی سادہ اور یقینی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملائے، لوگوں کے خوف ومحبت کے جذبات کو بیدار کرکے اس کو اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے برعکس، جو تعلیم شخصیت پرستی یا اور کوئی پرسـتی پیدا کرے، جو انسان کے نازک جذبات کا مرکز توجہ کسی غیر خدا کو بناتی ہو، اس کے متعلق سمجھنا چاہیے کہ وہ سراسر باطل ہے خواہ بظاہر اپنے اوپر اس نے حق کا لیبل کیوں نہ لگا رکھا ہو۔

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ

📘 قرآن میں دو طرح کے مضامین ہیں۔ ایک وہ جو انسان کی معلوم دنیا سے متعلق ہیں۔ مثلاً تاریخی واقعات، کائناتی نشانیاں، دنیوی زندگی کے احکام وغیرہ۔دوسرے وہ جن کا تعلق ان غیبی امور سے ہے جو آج کے انسان کے لیے ناقابل ادراک ہیں۔ مثلاً خدا کی صفات، جنت دوزخ کے احوال، وغیرہ۔ پہلی قسم کی باتوں کو قرآن میں محکم انداز، بالفاظ دیگر براہِ راست اسلو ب میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسری قسم کی باتیں انسان کی نامعلوم دنیا سے متعلق ہیں، وہ انسانی زبان کی گرفت میں نہیںآتیں۔ اس لیے ان کو متشابہ انداز یعنی تمثیل وتشبیہہ کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’انسان کا ہاتھ‘‘ کہا جائے تو یہ براہِ راست زبان کی مثال ہے اور ’’اللہ کا ہاتھ‘‘ تمثیلی زبان کی مثال ۔جو لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے وہ متشابہ آیتوں کا مفہوم بھی اسی طرح متعین کرنے لگتے ہیں جس طرح محکم آیتوں کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے فطری دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش ہے۔ اس قسم کی کوشش کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ آدمی ہمیشہ بھٹکتا رہے اور کبھی منزل پر نہ پہنچے۔ کیوں کہ ’’انسان کے ہاتھ‘‘ کو متعین طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر ’’خدا کے ہاتھ‘‘ کو موجودہ عقل کے ساتھ متعین طورپر سمجھنا ممکن نہیں۔ متشابہات کے سلسلے میں صحیح علمی وعقلی موقف یہ ہے کہ آدمی اپنی محدودیت کا اعتراف کرے۔ جن باتوں کو وہ متعین صورت میں اپنے حواس کی گرفت میں نہیں لاسکتا ان کے مجمل تصور پر قناعت کرے۔ جب حواس کی محدودیت کی وجہ سے انسان کے لیے ان حقائق کا کلّی احاطہ ممکن نہیں تو حقیقت پسندی یہ ہے کہ ان امور میں تعیّنات کی بحث نہ چھیڑی جائے۔ اس کے بجائے اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ وہ آدمی کو اس قسم کی بے نتیجہ بحثوں میں الجھنے سے بچائے۔ وہ آدمی کو ایسی عقل سلیم دے جو اپنے مقام کو پہچانے اور ان حقائق کے مجمل یقین پر راضی ہوجائے۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب کہ یہ حقیقتیں اپنی تفصیلی صورت میں کھل کر سامنے آجائیں گي مگر آدمی جب تک امتحان کی دنیا میں ہے ایسا ہونا ممکن نہیں۔ جس طرح راستہ کی پھسلن ہوتی ہے اسی طرح عقل کے سفر کی بھی پھسلن ہے۔ اور عقل کی پھسلن یہ ہے کہ کسی معاملہ کو آدمی اس کے صحیح رخ سے نہ دیکھے۔ کسی چیز کی حقیقت آدمی اسی وقت سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کو اس رخ سے دیکھے جس رخ سے اس کو دیکھنا چاہيے۔ اگر وہ کسی اور رُخ سے دیکھنے لگے تو عین ممکن ہے کہ وہ صحیح رائے قائم نہ کرسکے اور غلط فہمیوں میں پڑ کر رہ جائے۔ سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ آدمی اس راز کو جان لے کہ کسی چیز کو دیکھنے کا صحیح ترین رخ کیا ہے۔

وَلَا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلَائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْبَابًا ۗ أَيَأْمُرُكُمْ بِالْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

📘 ایک شخص جب ایمان لاتا ہے تو وہ اللہ سے اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ اس کی فرماں برداری کرے گا اور بندوں کے درمیان زندگی گزارتے ہوئے ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرے گا جو خدا کی شریعت کی طرف سے اس پر عائد ہوتی ہے۔ یہ ایک پابند زندگی ہے جس کو عہد کی زندگی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس زندگی پر قائم ہونے کے لیے نفس کی آزادیوں کو ختم کرنا پڑتا ہے، بار بار اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس لیے اس عہد کی زندگی کو وہی شخص نباہ سکتا ہے جو نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر اس کو اختیار کرے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ نفس پر چوٹ پڑے یا دنیا کا مفاد خطرہ میں نظر آئے تو وہ عہد خداوندی کو نظر انداز کردے اور اپنے فائدوں اور مصلحتوں کی طرف جھک جائے، اس نے گویا آخرت کو دے کر دنیا خریدی۔ جب آخرت کے پہلو اور دنیا کے پہلو میں سے کسی ایک کو لینے کا سوا ل آیا تو اس نے دنیا کے پہلو کو ترجیح دی۔ جو شخص آخرت کو اتنی بے قیمت چیز سمجھ لے وہ آخرت میںاللہ کی عنایتوں کا حق دار کس طرح ہوسکتا ہے۔ جو لوگ آخر ت کو اپنی دنیا کا سودا بنائیں وہ دین یا آخرت کے منکر نہیں ہوجاتے۔ بلکہ دین اور آخرت کے پورے اقرار کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔ پھر ان دو متضاد رویوں کو وہ کس طرح ایک دوسرے کے مطابق بناتے ہیں۔ اس کا ذریعہ تحریف ہے، یعنی آسمانی تعلیمات کو خود ساختہ معنی پہنانا۔ ایسے لوگ اپنی دنیا پرستانہ روش کو آخرت پسندی اور خدا پرستی ثابت کرنے کے لیے دینی تعلیمات کو اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ کبھی خدا کے الفاظ کو بدل کر اور کبھی خدا کے الفاظ کی اپنی مفید مطلب تشریح کرکے۔ وہ اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے کتاب الٰہی کو بدل دیتے ہیں تاکہ جو چیز کتاب الٰہی میں نہیں ہے اس کو عین کتاب الٰہی کی چیز بنا دیں، اپنی بے خدا زندگی کو باخدا زندگی ثابت کردکھائیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بد ترین جرم ہے کہ آدمی اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو اللہ نے نہ کہی ہو۔ کسی تعلیم کی صداقت کی سادہ اور یقینی پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملائے، لوگوں کے خوف ومحبت کے جذبات کو بیدار کرکے اس کو اللہ کی طرف موڑ دے۔ اس کے برعکس، جو تعلیم شخصیت پرستی یا اور کوئی پرسـتی پیدا کرے، جو انسان کے نازک جذبات کا مرکز توجہ کسی غیر خدا کو بناتی ہو، اس کے متعلق سمجھنا چاہیے کہ وہ سراسر باطل ہے خواہ بظاہر اپنے اوپر اس نے حق کا لیبل کیوں نہ لگا رکھا ہو۔

وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ ۚ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِي ۖ قَالُوا أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَاشْهَدُوا وَأَنَا مَعَكُمْ مِنَ الشَّاهِدِينَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

فَمَنْ تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

أَفَغَيْرَ دِينِ اللَّهِ يَبْغُونَ وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ طَوْعًا وَكَرْهًا وَإِلَيْهِ يُرْجَعُونَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

قُلْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ

📘 قرآن میں دو طرح کے مضامین ہیں۔ ایک وہ جو انسان کی معلوم دنیا سے متعلق ہیں۔ مثلاً تاریخی واقعات، کائناتی نشانیاں، دنیوی زندگی کے احکام وغیرہ۔دوسرے وہ جن کا تعلق ان غیبی امور سے ہے جو آج کے انسان کے لیے ناقابل ادراک ہیں۔ مثلاً خدا کی صفات، جنت دوزخ کے احوال، وغیرہ۔ پہلی قسم کی باتوں کو قرآن میں محکم انداز، بالفاظ دیگر براہِ راست اسلو ب میں بیان کیا گیا ہے۔ دوسری قسم کی باتیں انسان کی نامعلوم دنیا سے متعلق ہیں، وہ انسانی زبان کی گرفت میں نہیںآتیں۔ اس لیے ان کو متشابہ انداز یعنی تمثیل وتشبیہہ کے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’انسان کا ہاتھ‘‘ کہا جائے تو یہ براہِ راست زبان کی مثال ہے اور ’’اللہ کا ہاتھ‘‘ تمثیلی زبان کی مثال ۔جو لوگ اس فرق کو نہیں سمجھتے وہ متشابہ آیتوں کا مفہوم بھی اسی طرح متعین کرنے لگتے ہیں جس طرح محکم آیتوں کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے فطری دائرہ سے باہر نکلنے کی کوشش ہے۔ اس قسم کی کوشش کا انجام اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ آدمی ہمیشہ بھٹکتا رہے اور کبھی منزل پر نہ پہنچے۔ کیوں کہ ’’انسان کے ہاتھ‘‘ کو متعین طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ مگر ’’خدا کے ہاتھ‘‘ کو موجودہ عقل کے ساتھ متعین طورپر سمجھنا ممکن نہیں۔ متشابہات کے سلسلے میں صحیح علمی وعقلی موقف یہ ہے کہ آدمی اپنی محدودیت کا اعتراف کرے۔ جن باتوں کو وہ متعین صورت میں اپنے حواس کی گرفت میں نہیں لاسکتا ان کے مجمل تصور پر قناعت کرے۔ جب حواس کی محدودیت کی وجہ سے انسان کے لیے ان حقائق کا کلّی احاطہ ممکن نہیں تو حقیقت پسندی یہ ہے کہ ان امور میں تعیّنات کی بحث نہ چھیڑی جائے۔ اس کے بجائے اللہ سے دعا کرنا چاہیے کہ وہ آدمی کو اس قسم کی بے نتیجہ بحثوں میں الجھنے سے بچائے۔ وہ آدمی کو ایسی عقل سلیم دے جو اپنے مقام کو پہچانے اور ان حقائق کے مجمل یقین پر راضی ہوجائے۔ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب کہ یہ حقیقتیں اپنی تفصیلی صورت میں کھل کر سامنے آجائیں گي مگر آدمی جب تک امتحان کی دنیا میں ہے ایسا ہونا ممکن نہیں۔ جس طرح راستہ کی پھسلن ہوتی ہے اسی طرح عقل کے سفر کی بھی پھسلن ہے۔ اور عقل کی پھسلن یہ ہے کہ کسی معاملہ کو آدمی اس کے صحیح رخ سے نہ دیکھے۔ کسی چیز کی حقیقت آدمی اسی وقت سمجھتا ہے جب کہ وہ اس کو اس رخ سے دیکھے جس رخ سے اس کو دیکھنا چاہيے۔ اگر وہ کسی اور رُخ سے دیکھنے لگے تو عین ممکن ہے کہ وہ صحیح رائے قائم نہ کرسکے اور غلط فہمیوں میں پڑ کر رہ جائے۔ سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ آدمی اس راز کو جان لے کہ کسی چیز کو دیکھنے کا صحیح ترین رخ کیا ہے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَنْ تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الضَّالُّونَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِمْ مِلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَلَوِ افْتَدَىٰ بِهِ ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ

📘 اللہ کو پانا ایک ابدی حقیقت کو پانا ہے،یہ پوری کائنات کا ہم سفر بننا ہے۔ جو لوگ اس طرح اللہ کو پالیں وہ ہر قسم کے تعصبات سے اوپر اٹھ جاتے ہیں۔ وہ حق کو ہر حال میں پہچان لیتے ہیں، چاہے اس کا پیغام ’’اسرائیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے بلند ہو یا ’’اسماعیلی پیغمبر‘‘ کی زبان سے۔ مگر جو لوگ گروہ پرستی کی سطح پر جی رہے ہوں، حق ان کو حق کی صورت میں صرف اس وقت نظر آتا ہے جب کہ وہ ان کے اپنے گروہ کے کسی فرد کی طرف سے آئے۔ اللہ اگر ان کے گروہ سے باہر کسی شخص کو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے اٹھائے تو ایسا پیغام ان کے ذہن کا جزء نہیں بنتا۔ حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ ان کا دل اس کے حق وصداقت ہونے کی گواہی دے رہا ہو۔ ایسے لوگ خواہ اپنے کو ماننے والوں میں شمار کریں مگر اللہ کے یہاں ان کا نام نہ ماننے والوں میں لکھا جاتا ہے۔ کیوں کہ انھوں نے حق کو اپنے گروہ کی نسبت سے جانا، نہ کہ اللہ کی نسبت سے۔ ایسے حق کا اقرار نہ کرنا جس کے حق ہونے پر آدمی کے دل نے گواہی دی ہو، اللہ کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگ آخرت میں اتنے ذلیل ہوں گے کہ اللہ اور اس کی تمام مخلوقات ان پر لعنت کریں گی۔ اپنے سے باہر ظاہر ہونے والے حق کاا عتراف نہ کرنا بظاہر اپنے ایمان کو بچانا ہے۔ مگر حقیقۃً یہ اپنے ایمان کو برباد کرنا ہے۔ اللہ کا مومن بندہ اللہ کے مسلسل فیضان پر جیتا ہے۔ پھر جو شخص اپنے کو خود پرستی اور گروہ پرستی کے خول میں بند کرلے اس کے اندر اللہ کا فیضان کس راستہ سے داخل ہوگا۔ اور اللہ کے فیضان سے محرومی کے بعد وہ کیا چیز ہوگی جو اس کے ایمان کی پرورش کرے۔

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

۞ كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

فَمَنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

فِيهِ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ مَقَامُ إِبْرَاهِيمَ ۖ وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا ۗ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا تَعْمَلُونَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنْتُمْ شُهَدَاءُ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

📘 یہود کے علما نے بطورِ خود جو فقہ بنا رکھی تھی اس میں اونٹ اور خرگوش کا گوشت کھانا حرام تھا، جب کہ اسلام میں وہ جائز تھا۔ اب یہود یہ کہتے کہ اسلام اگر خدا کا اترا ہوا دین ہے تو اس میںبھی حرام وحلال کے مسائل وہی کیوں نہیں هيں جو پچھلے زمانہ میں اتارے ہوئے خدا کے دین میں تھے۔ اسی طرح وہ کہتے کہ بیت المقدس اب تک تمام انبیاء کا قبلۂ عبادت رہا ہے۔ پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا ایسا دین اتارے جس میں اس کو چھوڑ کر کعبہ کو قبلہ قرار دیا گیا ہو۔ حق کی دعوت جب اپنی خالص شکل میں اٹھتی ہے تو ان لوگوں پر اس کی زد پڑنے لگتی ہے جو خدا کے دین کے نام پر اپنا ایک دین عوام میں رائج کيے ہوئے ہوں۔ ایسے لوگ اس کے مخالف ہوجاتے ہیں اور لوگوں کو دعوتِ حق سے پھیرنے کے لیے طرح طرح کے اعتراضات نکالتے ہیں۔ ان کے خود ساختہ دین میں اساسات دین پر زور باقی نہیں رہتا۔ اس کے بجائے جزئیاتِ دین میں موشگافیوں سے دین دار ی کا ایک ظاہری ڈھانچہ بن جاتا ہے۔ آدمی کی حقیقی زندگی کیسی ہی ہو، نیکی اور تقویٰ کا کمال یہ سمجھا جانے لگتا ہے کہ وہ اس ظاہری ڈھانچہ کا خوب اہتمام کرے۔ وہ ’’خرگوش‘‘کو یہ کہہ کر نہ کھائے کہ ہمارے اکابر اس سے پرہیز کرتے تھے۔ دوسری طرف کتنی ہی حرام چیزوں کو اپنے لیے جائز کيے ہوئے ہو۔ وہ’’بیت المقدس‘‘ کی طرف رخ کرنے میں قطب نما کی سوئی کی طرح سیدھا ہوجانا ضروری سمجھتا ہو۔ مگر صبح وشام کی سرگرمیوں کو خدا رخی بنانے سے اس کو دل چسپی نہ ہو۔ مگر نیکی کادرجہ کسی کو قربانی سے ملتا ہے ،نہ کہ سَستی ظاہر داریوں سے۔ خدا کا نیک بندہ وہ ہے جو اپنی محبت کا ہدیہ اپنے رب کو پیش کرے، جس کے لیے اللہ کے مقابلے میں دنیا کی کوئی چیز عزیز تر نہ رہے۔ حق کو ماننے کے لیے جب وقار کی قیمت دینی ہو، اللہ کے راستہ میں بڑھنے کے لیے جب مال خرچ کرنا ہو اور بچوں کے مستقبل کو خطرہ میں ڈالنا پڑے، اس وقت وہ اللہ کی خاطر سب کچھ گوارا کرلے۔ ایسے نازک مواقع پر جو شخص اپنی محبوب چیزوں کو دے کر اللہ کو لے لے وہی نیک اور خدا پرست بنا۔