slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris slot qris bokep indo
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة المائدة

(Al-Maidah) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ ۗ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ

📘 مومن کی زندگی ایک پابند زندگی ہے۔ وہ دنیا میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے اس کے باوجود وہ اللہ کی آقائی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو پابند بنا لیتا ہے، وہ اپنے آپ کو از خود عہد کی رسّی میں باندھ لیتا ہے۔ اللہ کا معاملہ ہو یا بندوں کا معاملہ، دونوں قسم کے معاملات میں اس نے اپنے کو پابند کرلیا ہے کہ وہ آزادانہ عمل نہ کرے بلکہ خدا کے حکم کے مطابق عمل کرے۔ وہ انھیں چیزوں کو اپنی خوراک بنائے جو خدا نے اس کے لیے حلال کی ہیں اور جو چیزیں خدا نے حرام کی ہیں ان کو کھانا چھوڑ دے۔ کسی موقع پر اگر کسی جائز چیز سے بھی روک دیا جائے جیسا کہ احرام کی حالت میں یا حرام مہینوں کے بارے میں حکم سے واضح ہوتا ہے تو اس کو بھی بے چون وچرا مان لے۔ کوئی چیز کسی دینی حقیقت کی علامت بن جائے تو اس کا احترام کرے۔ کیوں کہ ایسی چیز کا احترام خود دین کا احترام ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے خوف سے کرے، نہ کہ کسی اور جذبے سے۔ آدمی عام حالات میں اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیدا ہوتی ہے تو وہ بدل کر دوسرا انسان بن جاتا ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا یکایک اللہ سے بے خوف انسان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ موقع وہ ہے جب کہ کسی کی کوئی مخالفانہ حرکت اس کو مشتعل کردیتی ہے۔ ایسے موقع پر آدمی انصاف کی حدوں کو بھول جاتا ہے اور یہ چاہنے لگتا ہے کہ جس طرح بھی ہو اپنے حریف کو ذلیل اور ناکام کرے۔ مگر اس قسم کی معاندانہ کارروائی خدا کے نزدیک جائز نہیں، حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ مسجد حرام کی زیارت جیسے پاک کام سے کسی نے دوسرے کو روکا ہو۔کوئی شخص اس قسم کی ظالمانہ کارروائی کرنے کے لیے اٹھے اور کچھ لوگ اس کا ساتھ دینے لگیں تو یہ گناہ کی راہ میں کسی کی مدد کرنا ہوگا۔ جب کہ اللہ سے ڈرنے والوں کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف نیکی کے کاموں میں دوسرے کی مدد کریں۔ جو شخص حق پر ہو اس کا ساتھ دینا اور جو ناحق پر ہو اس کا ساتھ نہ دینا، موجودہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر اسی مشکل کا م پر آدمی کے اُخروی انجام کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

📘 اسلام کی دعوت جب اٹھتی ہے تو وہ اپنے ابتدائی مرحلہ میں ’’آیات بینات‘‘ کے اوپر کھڑی ہوتی ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ اس کو ماحول میں ’’فتح‘‘ حاصل ہوجائے۔ پہلے دور میں صرف وہ لوگ اسلام کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ کرتے ہیں جو دلائل کی سطح پر کسی چیز کی عظمت کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مگر جب اسلام کو فتح و غلبہ حاصل ہوجائے تو ہر آدمی اس کی عظمت کو دیکھ لیتا ہے اور ہر آدمی آگے بڑھ کر اس کے لیے جان و مال پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ابتدائی دور میں اسلام کے لیے خرچ کرنے والے کو یک طرفہ طور پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ دوسرے دور میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ آدمی جتنا خرچ کرتا ہے اس سے زیادہ وه دو مختلف شکلوں میں اس کا انعام اسی دنیا میں پا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کا درجہ اللہ کے یہاں یکساں نہیں۔

قُلْ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 حالتِ احرام میں شکار حرام ہے مگر جو لوگ دریا یا سمندر سے بیت اللہ کا سفر کررہے ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ پاني میں شکار کریں اور اس کو کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شکار کی یہ ممانعت اس کے اندر کسی ذاتی حرمت کی بنا پر نہ تھی، بلکہ محض ’’آزمائش‘‘ کے لیے تھی۔ انسان کو آزمانے کے لیے اللہ نے علامتی طورپر کچھ چیزیں مقرر کردیں۔ اس لیے جہاں شارع نے محسوس کیا کہ جو چیز آزمائش کے لیے تھی وہ بندوں کے لیے غیرضروری مشقت کا سبب بن جائے گی وہاں قانون میں نرمی کردی گئی۔ کیوں کہ سمندر کے سفر میں اگر زادِ راہ نہ رہے تو آدمی کے لیے اپنی زندگی کو باقی رکھنے کی اس کے سوا اور صورت نہیں رہتی کہ وہ آبی جانوروں کو اپنی خوراک بنائے۔ کعبہ اسلام اور ملّت اسلام کا دائمی مرکز ہے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو نماز کی شر ط ٹھہرا کر اللہ نے دنیا کے ایک ایک مسلمان کو کعبہ کی مرکزیت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر حج کی صورت میں اس کو اسلام کا بین اقوامی اجتماع گاہ بنا دیا۔ زیارتِ کعبہ کے ذیل میں جو شعائر مقرر كيے گئے ہیں ان کے احترام کی وجہ ان کا کوئی ذاتی تقدس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے امتحان کی علامت ہیں۔ بندہ جب ان شعائر کے بارے میں اللہ کے حکم کو پورا کرتاہے تو وہ اپنے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتاہے کہ اللہ اگر چہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر وہ زندہ موجود ہے۔ وہ حکم دیتاہے ، وہ بندوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہے۔ یہ احساسات آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کا سچا بندہ بن کر رہ سکے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس طرف بھیڑ ہو، جدھر ظاہری سازوسامان کی کثرت ہو اسی کو اہم سمجھ لیتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک ساری اہمیت صرف کیفیت کی ہے۔ مقداركي اس کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ جو لوگ ’’کثرت‘‘ کی طرف دوڑیں اور ’’قلت‘‘ کو نظر انداز کردیں، وہ اپنے خیال سے بڑی ہوشیاری کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انتہائی نادان ہیں۔ کامیاب وہ ہے جو خدا کے ڈر کے تحت اپنا رویہ متعین کرے، نہ کہ مادی مصالح یا دنیوی اندیشوں کے تحت۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

📘 روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 ) غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

قَدْ سَأَلَهَا قَوْمٌ مِنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ أَصْبَحُوا بِهَا كَافِرِينَ

📘 روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 ) غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

مَا جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

📘 روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 ) غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ

📘 روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 ) غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 روایات میںآتا ہے کہ جب حج کا حکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا اے لوگو تم پر حج فرض کیاگیا ہے۔ یہ سن کر قبیلہ بنی اسد کا ایک شخص اٹھا اور کہا اے خدا کے رسول کیا ہر سال کے لیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر سخت غضب ناک ہوئے اور فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر میں کہہ دیتا ہاں تو ہر سال کے لیے فرض ہوجاتا اور جب فرض ہوجاتا تو تم لوگ ہر سال اس کو کر نہ پاتے اور پھر کفر کا ارتکاب کرتے۔ پس جو میں چھوڑوں اس کو تم بھی چھوڑدو۔ جب میں کسی چیز کا حکم دوں تو اس کو کرو اور جب میں کسی چیز سے روکوں تو اس سے رک جاؤ (سنن الترمذي،حديث نمبر 814 ) غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو نزول قرآن کے وقت تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیاگیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیاجائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود قیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ جو حکم مجمل صورت میں ہے اس کو مفصل بنانا، جو مطلق ہے اس کو مقید کرنا اور جو چیز غیر معین ہے اس کو معین کرنے کے درپے ہونا دین میں ایسا اضافہ ہے جس سے اللہ اور رسول نے منع فرمایا ہے۔ کسی قوم کے جو گزرے ہوئے بزرگ ہوتے ہیں، زمانہ گزرنے کے بعد وہ مقدس حیثیت حاصل کرلیتے ہیں۔ اکثر گمراہیاں انھیں گزرے ہوئے لوگوں کے نام پر ہوتی ہیں۔ حتی کہ اگر وہ بکری اور اونٹ کی تعظیم کا رواج قائم کر گئے ہوں تو اس کو بھی بعد کے لوگ سوچے سمجھے بغیر دہراتے رہتے ہیں۔ جس بگاڑ کی روایت ماضی کے تقدس پر قائم ہوں اس کی جڑیں اتني گہری جمی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس سے لوگوں کو ہٹانا سخت دشوار ہوتا ہے۔ اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے اوپر اٹھنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب کہ آدمی کے اندر واقعی معنوں میں یہ یقین پیدا ہوجائے کہ بالآخر اس کو خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ ایسا شخص آج ہی اس حقیقت کو مان لیتا ہے جس کو موت کے بعد ہر آدمی ماننے پر مجبور ہوگا مگر اس وقت کا ماننا کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِينَ

📘 ایک آدمی سفر کرتا ہے اور اس کے ساتھ مال ہے۔ راستہ میں اس کی موت کا وقت آجاتاہے۔ اب اگر وہ اپنے قریب دو مسلمان پائے تو ان کو اپنا مال دے دے اور اس کے بارے میں انھیں وصیت کر دے۔ اگر دو مسلمان بروقت نہ ملیں تو غیر مسلموں میں سے دو آدمی کے ساتھ یہی معاملہ کرے۔یہ دو صاحبان مال لاکر اس کو وارثوں کے حوالے کریں۔ اس وقت وارثوں کو اگر ان کے بیان کے بارے میں شبہ ہوجائے تو کسی نماز کے بعد مسجد میں ان گواہوں کو روک لیا جائے۔ یہ دونوں شخص عام مسلمانوں کے سامنے قسم کھائیں کہ انھوںنے مرنے والے کی طرف سے جو کچھ کہا صحیح کہا۔ اگر وارث اس کے حلفیہ بیان پر مطمئن نہ ہوں تو وارثوں میں سے دو آدمی اپنی بات کے حق میں قسم کھائیں اور پھر ان کی قسم کے مطابق فیصلہ کردیا جائے۔ وارثوں کو یہ حق دینا گویا ایک ایسا روک قائم کرنا ہے کہ کوئی خیانت کرنے والا خیانت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ شریعت میں ایک مصلحت یہ ملحوظ رکھی گئی ہے کہ روز مرہ کے معاملات میں ایسے احکام ديے جائیں جوآدمی کی وسیع تر زندگی کے لیے سبق ہوں۔ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے مال کا حق داروں تک پہنچنا ایک خاندانی اور معاشی معاملہ ہے۔ مگر اس کو دو اہم باتوں کی تربیت کا ذریعہ بنا دیاگیا۔ ایک یہ کہ لوگوں میں یہ مزاج بنے کہ معاملات میں وہ تعلق اور رشتہ داری کا لحاظ نہ کریں، بلکہ صرف حق کا لحاظ کریں۔ وہ یہ دیکھیں کہ حق کیا ہے، نہ یہ کہ بات کس کے موافق جارہی ہے اور کس کے خلاف۔ دوسرے یہ کہ ہر بات کو خدا کی گواہی سمجھنا۔ کوئی بات جو آدمی کے پاس ہے، وہ خدا کی امانت ہے۔ کیوں کہ آدمی نے اس کو خدا کی دی ہوئی آنکھ سے دیکھا اور خدا کے ديے ہوئے حافظہ میں اس کو محفوظ رکھا۔ اور اب خدا کی دی ہوئی زبان سے وہ اس کے متعلق اعلان کررہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ امانت میں خیانت ہوگی کہ آدمی بات کو اس طرح نہ بیان کرے جیسا کہ اس نے دیکھا اور جس طرح اس کے حافظہ نے اس کو محفوظ رکھا۔

فَإِنْ عُثِرَ عَلَىٰ أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ يَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنَ الَّذِينَ اسْتَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْأَوْلَيَانِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَيْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ

📘 ایک آدمی سفر کرتا ہے اور اس کے ساتھ مال ہے۔ راستہ میں اس کی موت کا وقت آجاتاہے۔ اب اگر وہ اپنے قریب دو مسلمان پائے تو ان کو اپنا مال دے دے اور اس کے بارے میں انھیں وصیت کر دے۔ اگر دو مسلمان بروقت نہ ملیں تو غیر مسلموں میں سے دو آدمی کے ساتھ یہی معاملہ کرے۔یہ دو صاحبان مال لاکر اس کو وارثوں کے حوالے کریں۔ اس وقت وارثوں کو اگر ان کے بیان کے بارے میں شبہ ہوجائے تو کسی نماز کے بعد مسجد میں ان گواہوں کو روک لیا جائے۔ یہ دونوں شخص عام مسلمانوں کے سامنے قسم کھائیں کہ انھوںنے مرنے والے کی طرف سے جو کچھ کہا صحیح کہا۔ اگر وارث اس کے حلفیہ بیان پر مطمئن نہ ہوں تو وارثوں میں سے دو آدمی اپنی بات کے حق میں قسم کھائیں اور پھر ان کی قسم کے مطابق فیصلہ کردیا جائے۔ وارثوں کو یہ حق دینا گویا ایک ایسا روک قائم کرنا ہے کہ کوئی خیانت کرنے والا خیانت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ شریعت میں ایک مصلحت یہ ملحوظ رکھی گئی ہے کہ روز مرہ کے معاملات میں ایسے احکام ديے جائیں جوآدمی کی وسیع تر زندگی کے لیے سبق ہوں۔ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے مال کا حق داروں تک پہنچنا ایک خاندانی اور معاشی معاملہ ہے۔ مگر اس کو دو اہم باتوں کی تربیت کا ذریعہ بنا دیاگیا۔ ایک یہ کہ لوگوں میں یہ مزاج بنے کہ معاملات میں وہ تعلق اور رشتہ داری کا لحاظ نہ کریں، بلکہ صرف حق کا لحاظ کریں۔ وہ یہ دیکھیں کہ حق کیا ہے، نہ یہ کہ بات کس کے موافق جارہی ہے اور کس کے خلاف۔ دوسرے یہ کہ ہر بات کو خدا کی گواہی سمجھنا۔ کوئی بات جو آدمی کے پاس ہے، وہ خدا کی امانت ہے۔ کیوں کہ آدمی نے اس کو خدا کی دی ہوئی آنکھ سے دیکھا اور خدا کے ديے ہوئے حافظہ میں اس کو محفوظ رکھا۔ اور اب خدا کی دی ہوئی زبان سے وہ اس کے متعلق اعلان کررہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ امانت میں خیانت ہوگی کہ آدمی بات کو اس طرح نہ بیان کرے جیسا کہ اس نے دیکھا اور جس طرح اس کے حافظہ نے اس کو محفوظ رکھا۔

ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

📘 ایک آدمی سفر کرتا ہے اور اس کے ساتھ مال ہے۔ راستہ میں اس کی موت کا وقت آجاتاہے۔ اب اگر وہ اپنے قریب دو مسلمان پائے تو ان کو اپنا مال دے دے اور اس کے بارے میں انھیں وصیت کر دے۔ اگر دو مسلمان بروقت نہ ملیں تو غیر مسلموں میں سے دو آدمی کے ساتھ یہی معاملہ کرے۔یہ دو صاحبان مال لاکر اس کو وارثوں کے حوالے کریں۔ اس وقت وارثوں کو اگر ان کے بیان کے بارے میں شبہ ہوجائے تو کسی نماز کے بعد مسجد میں ان گواہوں کو روک لیا جائے۔ یہ دونوں شخص عام مسلمانوں کے سامنے قسم کھائیں کہ انھوںنے مرنے والے کی طرف سے جو کچھ کہا صحیح کہا۔ اگر وارث اس کے حلفیہ بیان پر مطمئن نہ ہوں تو وارثوں میں سے دو آدمی اپنی بات کے حق میں قسم کھائیں اور پھر ان کی قسم کے مطابق فیصلہ کردیا جائے۔ وارثوں کو یہ حق دینا گویا ایک ایسا روک قائم کرنا ہے کہ کوئی خیانت کرنے والا خیانت کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ شریعت میں ایک مصلحت یہ ملحوظ رکھی گئی ہے کہ روز مرہ کے معاملات میں ایسے احکام ديے جائیں جوآدمی کی وسیع تر زندگی کے لیے سبق ہوں۔ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے مال کا حق داروں تک پہنچنا ایک خاندانی اور معاشی معاملہ ہے۔ مگر اس کو دو اہم باتوں کی تربیت کا ذریعہ بنا دیاگیا۔ ایک یہ کہ لوگوں میں یہ مزاج بنے کہ معاملات میں وہ تعلق اور رشتہ داری کا لحاظ نہ کریں، بلکہ صرف حق کا لحاظ کریں۔ وہ یہ دیکھیں کہ حق کیا ہے، نہ یہ کہ بات کس کے موافق جارہی ہے اور کس کے خلاف۔ دوسرے یہ کہ ہر بات کو خدا کی گواہی سمجھنا۔ کوئی بات جو آدمی کے پاس ہے، وہ خدا کی امانت ہے۔ کیوں کہ آدمی نے اس کو خدا کی دی ہوئی آنکھ سے دیکھا اور خدا کے ديے ہوئے حافظہ میں اس کو محفوظ رکھا۔ اور اب خدا کی دی ہوئی زبان سے وہ اس کے متعلق اعلان کررہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ امانت میں خیانت ہوگی کہ آدمی بات کو اس طرح نہ بیان کرے جیسا کہ اس نے دیکھا اور جس طرح اس کے حافظہ نے اس کو محفوظ رکھا۔

۞ يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

📘 پیغمبروں پر جو لوگ ایمان لائے، بعد کے زمانہ میں سب کے اندر بگاڑ پیدا ہوا۔ انھوں نے اپنے طور پر ایک دین بنایا اور اس کو اپنے پیغمبر کی طرف منسوب کردیا۔ اس کے باوجود ہر گروہ اپنے آپ کو اپنے پیغمبر کی امت شمار کرتا رہا ۔ حالانکہ پیغمبر کی اصل تعلیمات سے ہٹنے کے بعد اس کا پیغمبر سے کوئی تعلق باقی نہ رہا تھا۔ یہودی اپنے کو حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عیسائی اپنے کو حضرت عیسیٰ کی طرف۔ حالاں کہ ان کے مروجہ دین کا خدا کے ان پیغمبروں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حقیقت موجودہ امتحان کی دنیا میں چھپی ہوئی ہے۔ مگر قیامت کے دن وہ کھول دی جائے گی۔ اس دن خدا تمام پیغمبروں کو اور اسی کے ساتھ ان کی امتوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت امتوں کے سامنے ان کے پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی امتوں کو کیا تعلیم دی اور امتوں نے تمھاری تعلیمات کو کس طرح اپنایا۔ اس طرح ہر امت پر اس کے پیغمبر کی موجودگی میں واضح کیاجائے گا کہ اس نے خدا کے دین کے معاملہ میں اپنے پیغمبروں کی کیا کیا خلاف ورزی کی ہے اور کس طرح خود ساختہ دین کو ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ انھیں پیغمبروں میں سے ایک مثال حضرت عیسیٰ کی ہے جو خاتم النبیین محمد صلى الله عليه وسلم اور پہلے کے انبیاء کی درمیانی کڑی ہیں۔ حضرت عیسیٰ کو انتہائی خصوصی معجزے ديے گئے۔آپ پر ایمان لانے والے بہت کم تھے اور آپ کے مخالفین ( یہود) کو ہر طرح کا دنیوی زور حاصل تھا۔ اس کے باوجود وہ حضرت عیسیٰ کا کچھ نقصان نہ کرسکے اور نہ آپ کے ساتھیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان معجزات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ لوگ آپ کے لائے ہوئے دین کو مان لیتے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ آپ کے مخالفین نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ وہ جو معجزے دکھارہے ہیں وہ سب جادو کا کرشمہ ہے۔ اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے انھوںنے بعد کے زمانے میں آپ کو خدائی کا درجہ دے دیا۔ قیامت کے دن آپ کی پیروی کا دعویٰ کرنے والوں کے سامنے یہ حقیقت کھول دی جائے گی کہ حضرت عیسیٰ نے جو کمالات دکھائے وہ سب خدا کے حکم سے تھے۔ آپ کے دشمنوں نے آپ کو جن خطرات میں ڈالا ان سے بھی اللہ ہی نے آپ کو بچایا۔ جب صورت حال یہ تھی اور حضرت عیسیٰ خود سامنے کھڑے ہو کر اس کی تصدیق کررہے ہیں تو اب ان کے امتی بتائیں کہ انھوں نے آپ کی طرف جو دین منسوب کیا وہ کس نے انھیں دیا تھا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

📘 ایمان ایک عہد ہے جو بندے اور خدا کے درمیان قرار پاتا ہے۔ بندہ یہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ دنیا میں اللہ سے ڈر کر رہے گا اور اللہ اس کا ضامن ہوتا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں بندہ کا کفیل ہوجائے گا۔ بندے کو اپنے عہد میں پورا اترنے کے لیے دو باتوں کا ثبوت دینا ہے۔ ایک یہ کہ وہ قوّامٌ للہ بن جائے، یعنی وہ خدا کی باتوں پر خوب قائم رہنے والا ہو۔ اس کا وجود ہر موقع پر صحیح ترین جواب پیش کرے، جو بندے کو اپنے رب کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ وہ جب کائنات کو دیکھے تو اس کا ذہن خدا کی قدرتوں اور عظمتوں کے تصور سے سرشار ہوجائے۔ وہ جب اپنے آپ کو دیکھے تو اس کو اپنی زندگی سراپا فضل اور احسان نظر آئے۔ اس کے جذبات امنڈیں تو خدا کے امنڈیں۔ اس کی توجہات کسی چیز كو اپنا مركز بنائیں تو خدا کو بنائیں۔ اس کی محبت خدا کے لیے ہو۔ اس کے اندیشے خدا سے وابستہ ہوں۔ اس کی یادوں میں خدا سمایا ہوا ہو۔ وہ خدا کی عبادت واطاعت کرے۔ وہ خدا کے راستہ میں اپنے اثاثہ کو خرچ کرے۔ وہ اپنے آپ کو خدا کے دین کے راستہ میں لگا کر خوش ہوتا هو۔ عہد پر قائم رہنے کی دوسری شرط بندوں کے ساتھ انصاف ہے۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ کمی بیشی كيے بغیر وہ سلوک کرنا جس کا وہ باعتبار واقعہ مستحق ہے۔ معاملات میں حق کو اپنانا، نہ کہ اپنی خواہشات کو۔ اس معاملہ میں بندے کو اتنا زیادہ پابند بننا ہے کہ وہ ایسے مواقع پر بھی اپنے کو انصاف سے باندھے رہے جب کہ وہ دشمنوں اور باطل پرستوں سے معاملہ کررہا ہو، جب کہ شکایتیں اور تلخ یادیں اس کو انصاف کے راستہ سے پھیرنے لگیں۔ دنیا میں خدا نشانیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یعنی ایسے دلائل کی صورت میں جس کی کاٹ آدمی کے پاس موجود نہ ہو۔ جب آدمی کے سامنے خدا کی دلیل آئے اور وہ اس کو ماننے کے بجائے لفظی تکرار کرنے لگے تو اس نے خدا کی نشانی کو جھٹلایا۔ ایسے لوگ خدا کے یہاں سخت سزا پائیں گے۔ اور جن لوگوں نے اس کو مان لیا وہ خدا کے انعام کے مستحق ہوں گے۔

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ

📘 پیغمبروں پر جو لوگ ایمان لائے، بعد کے زمانہ میں سب کے اندر بگاڑ پیدا ہوا۔ انھوں نے اپنے طور پر ایک دین بنایا اور اس کو اپنے پیغمبر کی طرف منسوب کردیا۔ اس کے باوجود ہر گروہ اپنے آپ کو اپنے پیغمبر کی امت شمار کرتا رہا ۔ حالانکہ پیغمبر کی اصل تعلیمات سے ہٹنے کے بعد اس کا پیغمبر سے کوئی تعلق باقی نہ رہا تھا۔ یہودی اپنے کو حضرت موسیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عیسائی اپنے کو حضرت عیسیٰ کی طرف۔ حالاں کہ ان کے مروجہ دین کا خدا کے ان پیغمبروں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ حقیقت موجودہ امتحان کی دنیا میں چھپی ہوئی ہے۔ مگر قیامت کے دن وہ کھول دی جائے گی۔ اس دن خدا تمام پیغمبروں کو اور اسی کے ساتھ ان کی امتوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت امتوں کے سامنے ان کے پیغمبروں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی امتوں کو کیا تعلیم دی اور امتوں نے تمھاری تعلیمات کو کس طرح اپنایا۔ اس طرح ہر امت پر اس کے پیغمبر کی موجودگی میں واضح کیاجائے گا کہ اس نے خدا کے دین کے معاملہ میں اپنے پیغمبروں کی کیا کیا خلاف ورزی کی ہے اور کس طرح خود ساختہ دین کو ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ انھیں پیغمبروں میں سے ایک مثال حضرت عیسیٰ کی ہے جو خاتم النبیین محمد صلى الله عليه وسلم اور پہلے کے انبیاء کی درمیانی کڑی ہیں۔ حضرت عیسیٰ کو انتہائی خصوصی معجزے ديے گئے۔آپ پر ایمان لانے والے بہت کم تھے اور آپ کے مخالفین ( یہود) کو ہر طرح کا دنیوی زور حاصل تھا۔ اس کے باوجود وہ حضرت عیسیٰ کا کچھ نقصان نہ کرسکے اور نہ آپ کے ساتھیوں کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان معجزات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ لوگ آپ کے لائے ہوئے دین کو مان لیتے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ آپ کے مخالفین نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ وہ جو معجزے دکھارہے ہیں وہ سب جادو کا کرشمہ ہے۔ اور جو لوگ آپ پر ایمان لائے انھوںنے بعد کے زمانے میں آپ کو خدائی کا درجہ دے دیا۔ قیامت کے دن آپ کی پیروی کا دعویٰ کرنے والوں کے سامنے یہ حقیقت کھول دی جائے گی کہ حضرت عیسیٰ نے جو کمالات دکھائے وہ سب خدا کے حکم سے تھے۔ آپ کے دشمنوں نے آپ کو جن خطرات میں ڈالا ان سے بھی اللہ ہی نے آپ کو بچایا۔ جب صورت حال یہ تھی اور حضرت عیسیٰ خود سامنے کھڑے ہو کر اس کی تصدیق کررہے ہیں تو اب ان کے امتی بتائیں کہ انھوں نے آپ کی طرف جو دین منسوب کیا وہ کس نے انھیں دیا تھا۔

وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ

📘 لوگوں کو حق کی طرف پکارنے کا کام اگر چہ داعی انجام دیتاہے مگر پکار پر لبیک کہنا ہمیشہ خدا کی توفیق سے ہوتا ہے دعوت کی صداقت کو دلائل سے جان لینے کے بعد بھی بہت سی رکاوٹیں باقی رہتی ہیں جو آدمی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیتیں — داعی کا ایک عام انسان کی صورت میں دکھائی دینا، یہ اندیشہ کہ دعوت قبول کرنے کے بعد زندگی کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا، یہ سوال کہ اگر یہ سچائی ہے توفلاں فلاں بڑے لوگ کیا سچائی سے محروم تھے، وغیرہ۔ یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہوتا ہے جہاں آدمی فیصلہ کے کنارے پہنچ کر بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جس شخص کے اندر وہ کچھ خیر دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو شبہ کی سرحد پار کرادیتاہے اور اس کو یقین کے دائرہ میں داخل کردیتا ہے۔ خدا کی طرف سے ہر وقت انسان کو رزق فراہم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ پوری زمین انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنی ہوئی ہے۔ مگر مومنینِ مسیح نے آسمان سے طعام اتارنے کا مطالبہ کیا تو ان کو سخت تنبيه کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم کو جو رزق ملتا ہے وہ اسباب کے پردے میں مل رہا ہے۔ جب کہ مومنینِ مسیح کا مطالبہ یہ تھا کہ اسباب کا پردہ ہٹا کر ان کا رزق انھیں دیا جائے۔ یہ چیز سنت اللہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر اسباب کا ظاہری پردہ ہٹا دیا جائے تو امتحان کس بات کا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کھیت سے لہلہاتی ہوئی فصل کا پیدا ہونا یا مٹی کے اندر سے ایک شاداب درخت کا نکل کر کھڑا ہوجانا بھی اسی طرح معجزہ ہے جس طرح بادلوں میں ہو کر کسی خوان کا ہماری طرف آنا۔ مگر ان واقعات کا معجزہ ہونا ہم کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ پردہ میں ہو کر ظاہر ہورہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ پردہ کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ وہ ’’زمین‘‘ سے نکلنے والے رزق کو ’’آسمان‘‘ سے اترنے والے رزق کے روپ میں پالے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ میں دیکھ کر مانوں گا تو گویا وہ کہہ رہا ہے کہ امتحان سے گزرے بغیر میں خدا کی رحمت میں داخل ہوں گا۔ حالاں کہ خدا کی سنت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔

إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ ۖ قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 لوگوں کو حق کی طرف پکارنے کا کام اگر چہ داعی انجام دیتاہے مگر پکار پر لبیک کہنا ہمیشہ خدا کی توفیق سے ہوتا ہے دعوت کی صداقت کو دلائل سے جان لینے کے بعد بھی بہت سی رکاوٹیں باقی رہتی ہیں جو آدمی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیتیں — داعی کا ایک عام انسان کی صورت میں دکھائی دینا، یہ اندیشہ کہ دعوت قبول کرنے کے بعد زندگی کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا، یہ سوال کہ اگر یہ سچائی ہے توفلاں فلاں بڑے لوگ کیا سچائی سے محروم تھے، وغیرہ۔ یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہوتا ہے جہاں آدمی فیصلہ کے کنارے پہنچ کر بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جس شخص کے اندر وہ کچھ خیر دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو شبہ کی سرحد پار کرادیتاہے اور اس کو یقین کے دائرہ میں داخل کردیتا ہے۔ خدا کی طرف سے ہر وقت انسان کو رزق فراہم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ پوری زمین انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنی ہوئی ہے۔ مگر مومنینِ مسیح نے آسمان سے طعام اتارنے کا مطالبہ کیا تو ان کو سخت تنبيه کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم کو جو رزق ملتا ہے وہ اسباب کے پردے میں مل رہا ہے۔ جب کہ مومنینِ مسیح کا مطالبہ یہ تھا کہ اسباب کا پردہ ہٹا کر ان کا رزق انھیں دیا جائے۔ یہ چیز سنت اللہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر اسباب کا ظاہری پردہ ہٹا دیا جائے تو امتحان کس بات کا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کھیت سے لہلہاتی ہوئی فصل کا پیدا ہونا یا مٹی کے اندر سے ایک شاداب درخت کا نکل کر کھڑا ہوجانا بھی اسی طرح معجزہ ہے جس طرح بادلوں میں ہو کر کسی خوان کا ہماری طرف آنا۔ مگر ان واقعات کا معجزہ ہونا ہم کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ پردہ میں ہو کر ظاہر ہورہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ پردہ کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ وہ ’’زمین‘‘ سے نکلنے والے رزق کو ’’آسمان‘‘ سے اترنے والے رزق کے روپ میں پالے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ میں دیکھ کر مانوں گا تو گویا وہ کہہ رہا ہے کہ امتحان سے گزرے بغیر میں خدا کی رحمت میں داخل ہوں گا۔ حالاں کہ خدا کی سنت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔

قَالُوا نُرِيدُ أَنْ نَأْكُلَ مِنْهَا وَتَطْمَئِنَّ قُلُوبُنَا وَنَعْلَمَ أَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَنَكُونَ عَلَيْهَا مِنَ الشَّاهِدِينَ

📘 لوگوں کو حق کی طرف پکارنے کا کام اگر چہ داعی انجام دیتاہے مگر پکار پر لبیک کہنا ہمیشہ خدا کی توفیق سے ہوتا ہے دعوت کی صداقت کو دلائل سے جان لینے کے بعد بھی بہت سی رکاوٹیں باقی رہتی ہیں جو آدمی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیتیں — داعی کا ایک عام انسان کی صورت میں دکھائی دینا، یہ اندیشہ کہ دعوت قبول کرنے کے بعد زندگی کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا، یہ سوال کہ اگر یہ سچائی ہے توفلاں فلاں بڑے لوگ کیا سچائی سے محروم تھے، وغیرہ۔ یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہوتا ہے جہاں آدمی فیصلہ کے کنارے پہنچ کر بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جس شخص کے اندر وہ کچھ خیر دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو شبہ کی سرحد پار کرادیتاہے اور اس کو یقین کے دائرہ میں داخل کردیتا ہے۔ خدا کی طرف سے ہر وقت انسان کو رزق فراہم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ پوری زمین انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنی ہوئی ہے۔ مگر مومنینِ مسیح نے آسمان سے طعام اتارنے کا مطالبہ کیا تو ان کو سخت تنبيه کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم کو جو رزق ملتا ہے وہ اسباب کے پردے میں مل رہا ہے۔ جب کہ مومنینِ مسیح کا مطالبہ یہ تھا کہ اسباب کا پردہ ہٹا کر ان کا رزق انھیں دیا جائے۔ یہ چیز سنت اللہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر اسباب کا ظاہری پردہ ہٹا دیا جائے تو امتحان کس بات کا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کھیت سے لہلہاتی ہوئی فصل کا پیدا ہونا یا مٹی کے اندر سے ایک شاداب درخت کا نکل کر کھڑا ہوجانا بھی اسی طرح معجزہ ہے جس طرح بادلوں میں ہو کر کسی خوان کا ہماری طرف آنا۔ مگر ان واقعات کا معجزہ ہونا ہم کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ پردہ میں ہو کر ظاہر ہورہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ پردہ کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ وہ ’’زمین‘‘ سے نکلنے والے رزق کو ’’آسمان‘‘ سے اترنے والے رزق کے روپ میں پالے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ میں دیکھ کر مانوں گا تو گویا وہ کہہ رہا ہے کہ امتحان سے گزرے بغیر میں خدا کی رحمت میں داخل ہوں گا۔ حالاں کہ خدا کی سنت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔

قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِنْكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

📘 لوگوں کو حق کی طرف پکارنے کا کام اگر چہ داعی انجام دیتاہے مگر پکار پر لبیک کہنا ہمیشہ خدا کی توفیق سے ہوتا ہے دعوت کی صداقت کو دلائل سے جان لینے کے بعد بھی بہت سی رکاوٹیں باقی رہتی ہیں جو آدمی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیتیں — داعی کا ایک عام انسان کی صورت میں دکھائی دینا، یہ اندیشہ کہ دعوت قبول کرنے کے بعد زندگی کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا، یہ سوال کہ اگر یہ سچائی ہے توفلاں فلاں بڑے لوگ کیا سچائی سے محروم تھے، وغیرہ۔ یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہوتا ہے جہاں آدمی فیصلہ کے کنارے پہنچ کر بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جس شخص کے اندر وہ کچھ خیر دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو شبہ کی سرحد پار کرادیتاہے اور اس کو یقین کے دائرہ میں داخل کردیتا ہے۔ خدا کی طرف سے ہر وقت انسان کو رزق فراہم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ پوری زمین انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنی ہوئی ہے۔ مگر مومنینِ مسیح نے آسمان سے طعام اتارنے کا مطالبہ کیا تو ان کو سخت تنبيه کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم کو جو رزق ملتا ہے وہ اسباب کے پردے میں مل رہا ہے۔ جب کہ مومنینِ مسیح کا مطالبہ یہ تھا کہ اسباب کا پردہ ہٹا کر ان کا رزق انھیں دیا جائے۔ یہ چیز سنت اللہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر اسباب کا ظاہری پردہ ہٹا دیا جائے تو امتحان کس بات کا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کھیت سے لہلہاتی ہوئی فصل کا پیدا ہونا یا مٹی کے اندر سے ایک شاداب درخت کا نکل کر کھڑا ہوجانا بھی اسی طرح معجزہ ہے جس طرح بادلوں میں ہو کر کسی خوان کا ہماری طرف آنا۔ مگر ان واقعات کا معجزہ ہونا ہم کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ پردہ میں ہو کر ظاہر ہورہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ پردہ کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ وہ ’’زمین‘‘ سے نکلنے والے رزق کو ’’آسمان‘‘ سے اترنے والے رزق کے روپ میں پالے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ میں دیکھ کر مانوں گا تو گویا وہ کہہ رہا ہے کہ امتحان سے گزرے بغیر میں خدا کی رحمت میں داخل ہوں گا۔ حالاں کہ خدا کی سنت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔

قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَنْ يَكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ

📘 لوگوں کو حق کی طرف پکارنے کا کام اگر چہ داعی انجام دیتاہے مگر پکار پر لبیک کہنا ہمیشہ خدا کی توفیق سے ہوتا ہے دعوت کی صداقت کو دلائل سے جان لینے کے بعد بھی بہت سی رکاوٹیں باقی رہتی ہیں جو آدمی کو اس کی طرف بڑھنے نہیں دیتیں — داعی کا ایک عام انسان کی صورت میں دکھائی دینا، یہ اندیشہ کہ دعوت قبول کرنے کے بعد زندگی کا بنا بنایا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا، یہ سوال کہ اگر یہ سچائی ہے توفلاں فلاں بڑے لوگ کیا سچائی سے محروم تھے، وغیرہ۔ یہ ایک انتہائی نازک موڑ ہوتا ہے جہاں آدمی فیصلہ کے کنارے پہنچ کر بھی فیصلہ نہیں کر پاتا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ جس شخص کے اندر وہ کچھ خیر دیکھتا ہے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو شبہ کی سرحد پار کرادیتاہے اور اس کو یقین کے دائرہ میں داخل کردیتا ہے۔ خدا کی طرف سے ہر وقت انسان کو رزق فراہم کیا جارہا ہے۔ حتی کہ پوری زمین انسان کے لیے رزق کا دسترخوان بنی ہوئی ہے۔ مگر مومنینِ مسیح نے آسمان سے طعام اتارنے کا مطالبہ کیا تو ان کو سخت تنبيه کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام حالات میں ہم کو جو رزق ملتا ہے وہ اسباب کے پردے میں مل رہا ہے۔ جب کہ مومنینِ مسیح کا مطالبہ یہ تھا کہ اسباب کا پردہ ہٹا کر ان کا رزق انھیں دیا جائے۔ یہ چیز سنت اللہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اگر اسباب کا ظاہری پردہ ہٹا دیا جائے تو امتحان کس بات کا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ کھیت سے لہلہاتی ہوئی فصل کا پیدا ہونا یا مٹی کے اندر سے ایک شاداب درخت کا نکل کر کھڑا ہوجانا بھی اسی طرح معجزہ ہے جس طرح بادلوں میں ہو کر کسی خوان کا ہماری طرف آنا۔ مگر ان واقعات کا معجزہ ہونا ہم کو اس لیے نظر نہیں آتا کہ وہ پردہ میں ہو کر ظاہر ہورہے ہیں۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ پردہ کو پھاڑ کر حقیقت کو دیکھ سکے۔ وہ ’’زمین‘‘ سے نکلنے والے رزق کو ’’آسمان‘‘ سے اترنے والے رزق کے روپ میں پالے۔ اگر کوئی شخص یہ مطالبہ کرے کہ میں دیکھ کر مانوں گا تو گویا وہ کہہ رہا ہے کہ امتحان سے گزرے بغیر میں خدا کی رحمت میں داخل ہوں گا۔ حالاں کہ خدا کی سنت کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہیں۔

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

📘 قیامت جب آئے گی تو حقیقتیں اس طرح کھل جائیں گی کہ آدمی بغیر بتائے ہوئے یہ جان لے گا کہ سچ کیا ہے اور غلط کیا۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ ساری طاقتیں صرف ایک اللہ کو حاصل ہیں۔ خالق اور مالک، معبود اور مطلوب ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ اس کے سوا کسی کو نہ کوئی طاقت حاصل ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ ایسی حالت میں جب خدا اپنے پیغمبروں سے پوچھے گا کہ میںنے تم کو کیا پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا تو یہ ایک ایسی بات کا پوچھنا ہوگا جو پہلے ہی لوگوں کے لیے معلوم شدہ بن چکی ہو گی۔ اس سوال کا جواب اس وقت اتنا کھلا ہوا ہوگا کہ کسی کے بولے بغیر قیامت کا پورا ماحول اس کا جواب پکار رہا ہوگا۔ یہ سوال وجواب محض لوگوں کی رسوائی میںاضافہ کرنے کے لیے ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ پیغمبروں کے سامنے کھڑاکرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ پیغمبروں کے نام پر جو دین تم نے بنا رکھا تھا وہ ان کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں ہر ایک کو آزادی ہے۔ یہاں آدمی خدا اور رسول کی طرف ایسا دین منسوب کرکے بھی پھل پھول سکتا ہے جس کا خدا ورسول سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں فرضی امیدوں اور جھوٹی آرزوؤں پر بھی جنت کو اپنا حق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی قیادت کے ہنگامے کھڑے کرے اور یہ ثابت کرے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہی عین خدا کا دین ہے۔ مگر قیامت میں اس قسم کی کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ قیامت میں جو چیز کام آئے گی وہ صرف یہ کہ آدمی خدا کی نظر میں سچا ثابت ہو۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کا امتحان یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان کی دعوے دار بنتی ہیں یا نہیں۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرتی ہیں یا نہیں۔

مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنْتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

📘 قیامت جب آئے گی تو حقیقتیں اس طرح کھل جائیں گی کہ آدمی بغیر بتائے ہوئے یہ جان لے گا کہ سچ کیا ہے اور غلط کیا۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ ساری طاقتیں صرف ایک اللہ کو حاصل ہیں۔ خالق اور مالک، معبود اور مطلوب ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ اس کے سوا کسی کو نہ کوئی طاقت حاصل ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ ایسی حالت میں جب خدا اپنے پیغمبروں سے پوچھے گا کہ میںنے تم کو کیا پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا تو یہ ایک ایسی بات کا پوچھنا ہوگا جو پہلے ہی لوگوں کے لیے معلوم شدہ بن چکی ہو گی۔ اس سوال کا جواب اس وقت اتنا کھلا ہوا ہوگا کہ کسی کے بولے بغیر قیامت کا پورا ماحول اس کا جواب پکار رہا ہوگا۔ یہ سوال وجواب محض لوگوں کی رسوائی میںاضافہ کرنے کے لیے ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ پیغمبروں کے سامنے کھڑاکرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ پیغمبروں کے نام پر جو دین تم نے بنا رکھا تھا وہ ان کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں ہر ایک کو آزادی ہے۔ یہاں آدمی خدا اور رسول کی طرف ایسا دین منسوب کرکے بھی پھل پھول سکتا ہے جس کا خدا ورسول سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں فرضی امیدوں اور جھوٹی آرزوؤں پر بھی جنت کو اپنا حق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی قیادت کے ہنگامے کھڑے کرے اور یہ ثابت کرے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہی عین خدا کا دین ہے۔ مگر قیامت میں اس قسم کی کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ قیامت میں جو چیز کام آئے گی وہ صرف یہ کہ آدمی خدا کی نظر میں سچا ثابت ہو۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کا امتحان یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان کی دعوے دار بنتی ہیں یا نہیں۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرتی ہیں یا نہیں۔

إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

📘 قیامت جب آئے گی تو حقیقتیں اس طرح کھل جائیں گی کہ آدمی بغیر بتائے ہوئے یہ جان لے گا کہ سچ کیا ہے اور غلط کیا۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ ساری طاقتیں صرف ایک اللہ کو حاصل ہیں۔ خالق اور مالک، معبود اور مطلوب ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ اس کے سوا کسی کو نہ کوئی طاقت حاصل ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ ایسی حالت میں جب خدا اپنے پیغمبروں سے پوچھے گا کہ میںنے تم کو کیا پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا تو یہ ایک ایسی بات کا پوچھنا ہوگا جو پہلے ہی لوگوں کے لیے معلوم شدہ بن چکی ہو گی۔ اس سوال کا جواب اس وقت اتنا کھلا ہوا ہوگا کہ کسی کے بولے بغیر قیامت کا پورا ماحول اس کا جواب پکار رہا ہوگا۔ یہ سوال وجواب محض لوگوں کی رسوائی میںاضافہ کرنے کے لیے ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ پیغمبروں کے سامنے کھڑاکرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ پیغمبروں کے نام پر جو دین تم نے بنا رکھا تھا وہ ان کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں ہر ایک کو آزادی ہے۔ یہاں آدمی خدا اور رسول کی طرف ایسا دین منسوب کرکے بھی پھل پھول سکتا ہے جس کا خدا ورسول سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں فرضی امیدوں اور جھوٹی آرزوؤں پر بھی جنت کو اپنا حق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی قیادت کے ہنگامے کھڑے کرے اور یہ ثابت کرے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہی عین خدا کا دین ہے۔ مگر قیامت میں اس قسم کی کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ قیامت میں جو چیز کام آئے گی وہ صرف یہ کہ آدمی خدا کی نظر میں سچا ثابت ہو۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کا امتحان یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان کی دعوے دار بنتی ہیں یا نہیں۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرتی ہیں یا نہیں۔

قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 قیامت جب آئے گی تو حقیقتیں اس طرح کھل جائیں گی کہ آدمی بغیر بتائے ہوئے یہ جان لے گا کہ سچ کیا ہے اور غلط کیا۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ ساری طاقتیں صرف ایک اللہ کو حاصل ہیں۔ خالق اور مالک، معبود اور مطلوب ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ اس کے سوا کسی کو نہ کوئی طاقت حاصل ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ ایسی حالت میں جب خدا اپنے پیغمبروں سے پوچھے گا کہ میںنے تم کو کیا پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا تو یہ ایک ایسی بات کا پوچھنا ہوگا جو پہلے ہی لوگوں کے لیے معلوم شدہ بن چکی ہو گی۔ اس سوال کا جواب اس وقت اتنا کھلا ہوا ہوگا کہ کسی کے بولے بغیر قیامت کا پورا ماحول اس کا جواب پکار رہا ہوگا۔ یہ سوال وجواب محض لوگوں کی رسوائی میںاضافہ کرنے کے لیے ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ پیغمبروں کے سامنے کھڑاکرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ پیغمبروں کے نام پر جو دین تم نے بنا رکھا تھا وہ ان کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں ہر ایک کو آزادی ہے۔ یہاں آدمی خدا اور رسول کی طرف ایسا دین منسوب کرکے بھی پھل پھول سکتا ہے جس کا خدا ورسول سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں فرضی امیدوں اور جھوٹی آرزوؤں پر بھی جنت کو اپنا حق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی قیادت کے ہنگامے کھڑے کرے اور یہ ثابت کرے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہی عین خدا کا دین ہے۔ مگر قیامت میں اس قسم کی کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ قیامت میں جو چیز کام آئے گی وہ صرف یہ کہ آدمی خدا کی نظر میں سچا ثابت ہو۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کا امتحان یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان کی دعوے دار بنتی ہیں یا نہیں۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرتی ہیں یا نہیں۔

۞ وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنْتُمْ بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ

📘 بنی اسرائیل سے ان کے پیغمبرکی معرفت خدا پرستانہ زندگی گزرانے کا عہد لیاگیا اور ان کے بارہ قبائل سے بارہ سردار ان کی نگرانی کے لیے مقرر کیےگئے۔ بنی اسرائیل سے جو عہد لیاگیا وہ یہ تھا کہ وہ نماز کے ذریعے اپنے کو اللہ والا بنائیں۔ وہ زکوٰۃ کی صورت میں بندوں کے حقوق ادا کریں۔ پیغمبروں کا ساتھ دے کر وہ اپنے کو اللہ کی پکار کی جانب کھڑا کریں اور اللہ کے دین کی جدوجہد میں اپنا اثاثہ خرچ کریں۔ ان کاموں کی ادائیگی اور اپنے درمیان ان کی نگرانی کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے بعد ہی وہ خدا کی نظر میں اس کے مستحق تھے کہ خدا ان کا ساتھی ہو۔ وہ ان کو پاک صاف کرکے اس قابل بنائے کہ وہ جنت کی لطیف فضاؤں میں داخل ہوسکیں۔ جنت کسی کو عمل سے ملتی ہے، نہ کہ کسی قسم کے نسلی تعلق سے۔ اس عہد میں جن اعمال کا ذکر ہے یہی دین کے اساسی اعمال ہیں۔ یہی وہ شاہراہ ہے جو تمام انسانوں کو خدا اور اس کی جنت کی طرف لے جانے والی ہے۔ مگر جب آسمانی کتاب کی حامل قوموں میں بگاڑ آتا ہے تو وہ اس شاہراہ کے دائیں بائیں مڑ جاتی ہیں۔ اب یہ ہوتا ہے کہ خود ساختہ تشریحات کے ذریعہ دین کا تصور بدل دیا جاتا ہے۔ عبادت کے نام پر غیر متعلق بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔ نجات کے ایسے راستے تلاش کرليے جاتے ہیں جو بندوں کے حقوق ادا كيے بغیر آدمی کو منزل تک پہنچا دیں۔ دعوتِ حق کے نام پر ان کے یہاں بے معنیٰ قسم کے دنیوی ہنگامے جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیوی اخراجات کی بہت سی مدیں بناتے ہیں اور انھیں کو دین کے لیے خرچ کا نام دے دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے دنیوی مصالح کے مطابق ایک دین گھڑتے ہیں اور اسی کو خدا کا دین کہنے لگتے ہیں۔ جب کوئی گروہ بگاڑ کی اس نوبت تک پہنچتا ہے تو خدا اپنی توجہ اس سے ہٹا لیتاہے۔ خدا کی توفیق سے محروم ہو کر ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی زبان سمجھتے ہیں اور اسی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آجاتا ہے تاکہ ان کو پکڑ کر خدا کی عدالت میں پہنچا دے۔

لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيهِنَّ ۚ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 قیامت جب آئے گی تو حقیقتیں اس طرح کھل جائیں گی کہ آدمی بغیر بتائے ہوئے یہ جان لے گا کہ سچ کیا ہے اور غلط کیا۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں گے کہ ساری طاقتیں صرف ایک اللہ کو حاصل ہیں۔ خالق اور مالک، معبود اور مطلوب ہونے میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں۔ اس کے سوا کسی کو نہ کوئی طاقت حاصل ہے اور نہ اس کے سوا کوئی اس قابل ہے کہ اس کی عبادت واطاعت کی جائے۔ ایسی حالت میں جب خدا اپنے پیغمبروں سے پوچھے گا کہ میںنے تم کو کیا پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا تو یہ ایک ایسی بات کا پوچھنا ہوگا جو پہلے ہی لوگوں کے لیے معلوم شدہ بن چکی ہو گی۔ اس سوال کا جواب اس وقت اتنا کھلا ہوا ہوگا کہ کسی کے بولے بغیر قیامت کا پورا ماحول اس کا جواب پکار رہا ہوگا۔ یہ سوال وجواب محض لوگوں کی رسوائی میںاضافہ کرنے کے لیے ہوگا۔ وہ اس لیے ہوگا کہ پیغمبروں کے سامنے کھڑاکرکے لوگوں پر واضح کیا جائے کہ پیغمبروں کے نام پر جو دین تم نے بنا رکھا تھا وہ ان کی حقیقی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا تھا۔ یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں ہر ایک کو آزادی ہے۔ یہاں آدمی خدا اور رسول کی طرف ایسا دین منسوب کرکے بھی پھل پھول سکتا ہے جس کا خدا ورسول سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں فرضی امیدوں اور جھوٹی آرزوؤں پر بھی جنت کو اپنا حق ثابت کیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی قیادت کے ہنگامے کھڑے کرے اور یہ ثابت کرے کہ جو کچھ وہ کررہا ہے وہی عین خدا کا دین ہے۔ مگر قیامت میں اس قسم کی کوئی چیز کام آنے والی نہیں۔ قیامت میں جو چیز کام آئے گی وہ صرف یہ کہ آدمی خدا کی نظر میں سچا ثابت ہو۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کا امتحان یہ نہیں ہے کہ وہ ایمان کی دعوے دار بنتی ہیں یا نہیں۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے دعوائے ایمان کو سچا ثابت کرتی ہیں یا نہیں۔

فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِيثَاقَهُمْ لَعَنَّاهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوبَهُمْ قَاسِيَةً ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۙ وَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ ۚ وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِنْهُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۖ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 بنی اسرائیل سے ان کے پیغمبرکی معرفت خدا پرستانہ زندگی گزرانے کا عہد لیاگیا اور ان کے بارہ قبائل سے بارہ سردار ان کی نگرانی کے لیے مقرر کیےگئے۔ بنی اسرائیل سے جو عہد لیاگیا وہ یہ تھا کہ وہ نماز کے ذریعے اپنے کو اللہ والا بنائیں۔ وہ زکوٰۃ کی صورت میں بندوں کے حقوق ادا کریں۔ پیغمبروں کا ساتھ دے کر وہ اپنے کو اللہ کی پکار کی جانب کھڑا کریں اور اللہ کے دین کی جدوجہد میں اپنا اثاثہ خرچ کریں۔ ان کاموں کی ادائیگی اور اپنے درمیان ان کی نگرانی کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے بعد ہی وہ خدا کی نظر میں اس کے مستحق تھے کہ خدا ان کا ساتھی ہو۔ وہ ان کو پاک صاف کرکے اس قابل بنائے کہ وہ جنت کی لطیف فضاؤں میں داخل ہوسکیں۔ جنت کسی کو عمل سے ملتی ہے، نہ کہ کسی قسم کے نسلی تعلق سے۔ اس عہد میں جن اعمال کا ذکر ہے یہی دین کے اساسی اعمال ہیں۔ یہی وہ شاہراہ ہے جو تمام انسانوں کو خدا اور اس کی جنت کی طرف لے جانے والی ہے۔ مگر جب آسمانی کتاب کی حامل قوموں میں بگاڑ آتا ہے تو وہ اس شاہراہ کے دائیں بائیں مڑ جاتی ہیں۔ اب یہ ہوتا ہے کہ خود ساختہ تشریحات کے ذریعہ دین کا تصور بدل دیا جاتا ہے۔ عبادت کے نام پر غیر متعلق بحثیں شروع ہوجاتی ہیں۔ نجات کے ایسے راستے تلاش کرليے جاتے ہیں جو بندوں کے حقوق ادا كيے بغیر آدمی کو منزل تک پہنچا دیں۔ دعوتِ حق کے نام پر ان کے یہاں بے معنیٰ قسم کے دنیوی ہنگامے جاری ہوجاتے ہیں۔ وہ دنیوی اخراجات کی بہت سی مدیں بناتے ہیں اور انھیں کو دین کے لیے خرچ کا نام دے دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر وہ اپنے دنیوی مصالح کے مطابق ایک دین گھڑتے ہیں اور اسی کو خدا کا دین کہنے لگتے ہیں۔ جب کوئی گروہ بگاڑ کی اس نوبت تک پہنچتا ہے تو خدا اپنی توجہ اس سے ہٹا لیتاہے۔ خدا کی توفیق سے محروم ہو کر ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی زبان سمجھتے ہیں اور اسی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ موت کا فرشتہ آجاتا ہے تاکہ ان کو پکڑ کر خدا کی عدالت میں پہنچا دے۔

وَمِنَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ وَسَوْفَ يُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

📘 آسمانی کتاب کی حامل قوموں پر جب بگاڑ آتا ہے تو وہ دین کے محکم حصہ کو چھوڑ کر اس کے غیر محکم حصہ پر دوڑ پڑتی ہیں۔ اس کا نتیجہ دنیا میں اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور آخرت میںرسوائی کی صورت میں۔ مسیح علیہ السلام باپ کے بغیر ایک پاکباز خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے۔ پیدائش کے بعد انھوں نے اپنی زبان سے اپنا جو تعارف کرایا وہ یہ تھا ’’میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں‘‘۔ اب حضرت مسیح کے بارے میں رائے قائم کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آنجناب نے اپنے بارے میں جو واضح الفاظ فرمائے ہیں انھیں کی پابندی کی جائے اور آپ کو وہی سمجھا جائے جو ان الفاظ سے براہِ راست طورپر معلوم ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس معاملہ میں اپنے قیاس کو دخل دیا جائے اور کہا جائے کہ ’’انسان وہ ہے جو کسی باپ کا بیٹا ہو۔ مسیح کسی باپ کے بیٹے نہ تھے۔ اس لیے وہ خدا کے بیٹے تھے‘‘۔ پہلی رائے کی بنیادخود مسیح کا محکم اور مستند قول ہے۔ اس لیے اگر اس کو اختیار کیا جائے تو اس میں اختلاف پیدا نہ ہو گا۔ جب کہ دوسری رائے کی بنیاد محض انسانی قیاس پر ہے۔ اس لیے جب دوسری رائے کو اختیار کیا جائے گا تو رایوں کا اختلاف شروع ہوجائے گا، جیساکہ مسیح کو ماننے والوں کے ساتھ بعد کے زمانہ میں ہوا۔ آسمانی کتاب کی حامل کسی قوم میں جب بگاڑ آتا ہے تو اس کے اندر اسی قسم کی خرابیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ وہ محکم دین کو چھوڑ کر قیاسی دین پر چل پڑتی ہے۔ یہیں سے اختلاف اور فرقہ بندیوں کا دروزاہ کھل جاتا ہے۔ فقہ اور کلام، روحانیت اور سیاست میں خدا و رسول نے جو کھلے ہوئے احکام ديے ہیں لوگ ان کے سادہ مفہوم پر قانع نہیں رہتے بلکہ بطور خود نئي نئي بحثيں نكالتے هيں۔ كبھي زمانے كے خيالات سے متاثر هو كر، كبھي اپني دنيوي خواهشوں كو ديني جواز عطا كرنے كے ليے، كبھي بزعم خود خدا کے ناقص دین کو کامل بنانے کے لیے، اپنی طرف سے ایسی باتیں دین میں داخل کردی جاتی ہیں جو حقیقۃً دین کا حصہ نہیں ہوتیں۔ اس طرح نئے نئے دینی ایڈیشن تیار ہوجاتے ہیں۔ کوئی روحانی ایڈیشن، کوئی سیاسی ایڈیشن، کوئی اور ایڈیشن۔ ہر ایک کے گرد اس کے موافق ذوق رکھنے والے لوگ جمع ہوتے رہتے ہیں۔ بالآخر ان کا ایک فرقہ بن جاتا ہے۔ ان کی بعد کی نسلیں اس کو اسلام کا ورثہ سمجھ کر اس کی حفاظت شروع کردیتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجاتا ہے کہ وہ قیامت تک کبھی ختم نہ ہو۔ کیوں کہ انسان ماضی کو ہمیشہ مقدس سمجھ لیتا ہے اور جو چیز مقدس بن جائے وہ کبھی ختم نہیں ہوتی — مذہب کے نام پر فرقہ بندی ایک طرف مقدس ہو کر ابدی بن جاتی ہے۔ دوسری طرف خدا کا حکم بن کر دوسروں کے خلاف نفرت اور جارحیت کا اجازت نامہ بھی۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِمَّا كُنْتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ ۚ قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ

📘 اہلِ کتاب نے اپنے دین میں دو قسم کی غلطیاں کیں۔ ایک یہ کہ کچھ تعلیمات کو تاویل یا تحریف کے ذریعہ دین سے خارج کردیا۔ مثلاً انھوں نے اپنی کتاب میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ اب ان کو اپنی نجات کے لیے کسی اور پیغمبر کو ماننے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے آبائی مذہب سے وابستگی ان کی نجات کے لیے بالکل کافی تھی۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے دین کے نام پر ایسی پابندیاں اپنے اوپر ڈال لیں جو خدا نے ان کے اوپر نہ ڈالی تھیں۔ مثال کے طور پر قربانی کی ادائیگی کے وہ جزئی مسائل جن کا حکم ان کے نبیوں نے ان کو نہیں دیا تھا بلکہ ان کے علماء نے اپنی فقہی موشگافیوں سے بطور خود ان کو گھڑلیا۔ قرآن ان کے لیے ایک نعمت بن کرآیا۔ اس نے ان کے لیے دین خداوندی کی ’’تجدید‘‘ کی۔ قرآن نے ان کو اندھیرے سے نکالا، يعني وہ ایسے راستے پر چلتے رہیں جس کے متعلق وہ اس خوش فہمی میں ہوں کہ وہ جنت کی طرف جارہا ہے، حالاں کہ وہ ان کو خدا کے غضب کی طرف لے جارہا ہو۔قرآن نے ایک طرف ان کی کھوئی ہوئی تعلیمات کو ان کی اصلی صورت میں پیش کیا۔ دوسری طرف قرآن نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنے آپ کو جن غیرضروری دینی پابندیوں میں مبتلا کرلیا تھا اس سے انھیں آزاد کردیا۔ اب جو لوگ اپنی خواہشوں کی پیروی کریں وہ بدستور اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ او رجن کو اللہ کی رضا کی تلاش ہو وہ حق کی سیدھی راہ کو پالیں گے۔وہ اللہ کی توفیق سے اپنے آپ کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا اپنی کامل صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ دلیل کی زبان میں ہوتا ہے۔ اور دلیل انھیں لوگوں کے ذہن کا جزء بنتی ہے جو اس کے لیے اپنے ذہن کو کھلا رکھیں۔ خدا کو چھوڑ کر انسانوں نے جو خدا بنائے ہیں ان میں سے ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ نہ کوئی چیز بطور خود پیدا کرسکتے ہیں اور نہ کسی چیز کو بطور خود مٹا سکتے ہیں۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ جو ہستیاں پیدائش اور موت پر قادر نہ ہوں وہ خدا کس طرح ہوسکتی ہیں۔

يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 اہلِ کتاب نے اپنے دین میں دو قسم کی غلطیاں کیں۔ ایک یہ کہ کچھ تعلیمات کو تاویل یا تحریف کے ذریعہ دین سے خارج کردیا۔ مثلاً انھوں نے اپنی کتاب میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ اب ان کو اپنی نجات کے لیے کسی اور پیغمبر کو ماننے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے آبائی مذہب سے وابستگی ان کی نجات کے لیے بالکل کافی تھی۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے دین کے نام پر ایسی پابندیاں اپنے اوپر ڈال لیں جو خدا نے ان کے اوپر نہ ڈالی تھیں۔ مثال کے طور پر قربانی کی ادائیگی کے وہ جزئی مسائل جن کا حکم ان کے نبیوں نے ان کو نہیں دیا تھا بلکہ ان کے علماء نے اپنی فقہی موشگافیوں سے بطور خود ان کو گھڑلیا۔ قرآن ان کے لیے ایک نعمت بن کرآیا۔ اس نے ان کے لیے دین خداوندی کی ’’تجدید‘‘ کی۔ قرآن نے ان کو اندھیرے سے نکالا، يعني وہ ایسے راستے پر چلتے رہیں جس کے متعلق وہ اس خوش فہمی میں ہوں کہ وہ جنت کی طرف جارہا ہے، حالاں کہ وہ ان کو خدا کے غضب کی طرف لے جارہا ہو۔قرآن نے ایک طرف ان کی کھوئی ہوئی تعلیمات کو ان کی اصلی صورت میں پیش کیا۔ دوسری طرف قرآن نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنے آپ کو جن غیرضروری دینی پابندیوں میں مبتلا کرلیا تھا اس سے انھیں آزاد کردیا۔ اب جو لوگ اپنی خواہشوں کی پیروی کریں وہ بدستور اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ او رجن کو اللہ کی رضا کی تلاش ہو وہ حق کی سیدھی راہ کو پالیں گے۔وہ اللہ کی توفیق سے اپنے آپ کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا اپنی کامل صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ دلیل کی زبان میں ہوتا ہے۔ اور دلیل انھیں لوگوں کے ذہن کا جزء بنتی ہے جو اس کے لیے اپنے ذہن کو کھلا رکھیں۔ خدا کو چھوڑ کر انسانوں نے جو خدا بنائے ہیں ان میں سے ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ نہ کوئی چیز بطور خود پیدا کرسکتے ہیں اور نہ کسی چیز کو بطور خود مٹا سکتے ہیں۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ جو ہستیاں پیدائش اور موت پر قادر نہ ہوں وہ خدا کس طرح ہوسکتی ہیں۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 اہلِ کتاب نے اپنے دین میں دو قسم کی غلطیاں کیں۔ ایک یہ کہ کچھ تعلیمات کو تاویل یا تحریف کے ذریعہ دین سے خارج کردیا۔ مثلاً انھوں نے اپنی کتاب میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ اب ان کو اپنی نجات کے لیے کسی اور پیغمبر کو ماننے کی ضرورت نہ تھی۔ اپنے آبائی مذہب سے وابستگی ان کی نجات کے لیے بالکل کافی تھی۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے دین کے نام پر ایسی پابندیاں اپنے اوپر ڈال لیں جو خدا نے ان کے اوپر نہ ڈالی تھیں۔ مثال کے طور پر قربانی کی ادائیگی کے وہ جزئی مسائل جن کا حکم ان کے نبیوں نے ان کو نہیں دیا تھا بلکہ ان کے علماء نے اپنی فقہی موشگافیوں سے بطور خود ان کو گھڑلیا۔ قرآن ان کے لیے ایک نعمت بن کرآیا۔ اس نے ان کے لیے دین خداوندی کی ’’تجدید‘‘ کی۔ قرآن نے ان کو اندھیرے سے نکالا، يعني وہ ایسے راستے پر چلتے رہیں جس کے متعلق وہ اس خوش فہمی میں ہوں کہ وہ جنت کی طرف جارہا ہے، حالاں کہ وہ ان کو خدا کے غضب کی طرف لے جارہا ہو۔قرآن نے ایک طرف ان کی کھوئی ہوئی تعلیمات کو ان کی اصلی صورت میں پیش کیا۔ دوسری طرف قرآن نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنے آپ کو جن غیرضروری دینی پابندیوں میں مبتلا کرلیا تھا اس سے انھیں آزاد کردیا۔ اب جو لوگ اپنی خواہشوں کی پیروی کریں وہ بدستور اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے۔ او رجن کو اللہ کی رضا کی تلاش ہو وہ حق کی سیدھی راہ کو پالیں گے۔وہ اللہ کی توفیق سے اپنے آپ کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا اپنی کامل صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ دلیل کی زبان میں ہوتا ہے۔ اور دلیل انھیں لوگوں کے ذہن کا جزء بنتی ہے جو اس کے لیے اپنے ذہن کو کھلا رکھیں۔ خدا کو چھوڑ کر انسانوں نے جو خدا بنائے ہیں ان میں سے ہر ایک کا یہ حال ہے کہ وہ نہ کوئی چیز بطور خود پیدا کرسکتے ہیں اور نہ کسی چیز کو بطور خود مٹا سکتے ہیں۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں۔ جو ہستیاں پیدائش اور موت پر قادر نہ ہوں وہ خدا کس طرح ہوسکتی ہیں۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَىٰ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللَّهِ وَأَحِبَّاؤُهُ ۚ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوبِكُمْ ۖ بَلْ أَنْتُمْ بَشَرٌ مِمَّنْ خَلَقَ ۚ يَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ

📘 ستاروں کا غروب ایک علامتی لفظ ہے جس کے ذریعہ ستاروں کی گردش کے محکم نظام کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مادی دنیا میں ستاروں کا نظام ایک بے خطا نظام ہے، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ وحی و نبوت کی صورت میں خدا نے جو روحانی نظام قائم کیا ہے وہ بھی ایک بے خطا نظام ہو۔ فرشتہ اور وحی کی صورت میں رسول کا تجربہ حقیقی تجربہ ہے۔ ا س کے ثبوت کے لیے قرآن کا بیان کافی ہے۔ قرآن کا معجزانہ کلام قرآن کو خدا کی کتاب ثابت کرتا ہے۔ اور جس کتاب کا خدا کی کتاب ہونا ثابت ہوجائے اس کا ہر بیان خود قرآن کے زور پر مستند تسلیم کیا جائے گا۔

يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَىٰ فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ أَنْ تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ ۖ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَنَذِيرٌ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 جو قوم کتاب اور پیغمبر کی حامل بنائی جائے اور وہ اس کے ماننے کا ثبوت دے دے تو اس پر خدا کی بہت سی نعمتیں نازل ہوتی ہیں — مخالفین کے مقابلہ میں خصوصی نصرت، ترقي وبلندي، مغفرت اور جنت کا وعدہ، وغیرہ۔ قوم کے ابتدائی لوگوں کے لیے یہ ان کے عمل کا بدلہ ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے آپ کو خدا کے حوالے کیا اس لیے خدا نے ان پر اپنی نعمتیں برسائیں۔ مگر بعد کی نسلوں میں صورت حال بدل جاتی ہے۔ اب ان کے لیے سارا معاملہ قومی معاملہ بن جاتا ہے۔ اولین لوگوں کو جو چیز عمل کے سبب سے ملی تھی، بعد کے لوگ قومی اور نسلی تعلق کی بنا پر اپنے کو اس کا مستحق سمجھ لیتے ہیں۔ وہ یقین کرلیتے ہیں کہ وہ خدا کے خاص لوگ ہیں اور وہ خواہ کچھ بھی کریں خدا کی نعمتیں ان کو مل کر رہیں گی۔ حاملِ کتاب قوموں کو اس غلط فہمی سے نکالنے کي خاطر خدا نے ان کے لیے یہ خصوصی قاعدہ مقرر کیا ہے کہ ان کا خدا ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ اگر وہ دنیا میں اپنے دشمنوں پر غالب آرہے ہوں تو وہ خدا کے مقبول گروہ ہیں اور اگر ان کے دشمن ان پر غلبہ پالیں تو وہ خدا کے نا مقبول گروہ ہیں۔ کوئی حامل کتاب گروہ کثرت تعداد کے باوجود اگر دنیا میں مغلوب اور ذلیل ہو رہا ہو تو اس کو ہرگز یہ امید نہ رکھنا چاہیے کہ آخرت میں وہ سر بلند اور باعزت رہے گا۔ کسی قوم کوبحیثیت قوم کے خدا کا محبوب سمجھنا سراسر باطل خیال ہے۔ خدا کے یہاں فرد فرد کا حساب ہونا ہے، نہ کہ قوم قوم کا۔ ہر آدمی جو کچھ کرے گا اسی کے مطابق وہ خدا کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ہر آدمی اللہ کی نظر میں بس ایک انسان ہے، خواہ وہ اِس قوم سے تعلق رکھتا ہو یا اُس قوم سے۔ ہر آدمی کے مستقبل کا فیصلہ اِس بنیاد پر کیا جائے گا کہ امتحان کی دنیا میں اس نے کس قسم کی کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔ جنت کسی کا قومی وطن نہیں اور جہنم کسی کا قومی جیل خانہ نہیں۔ اللہ کے فیصلہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسے افراد اٹھاتا ہے جو لوگوں کو زندگی کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس کو جہنم سے ڈراتے ہیں اور جنت کی خوش خبری دیتے ہیں۔ خدا کے اسی بشیر ونذیر کا ساتھ دے کر آدمی خدا کو پاتا ہے، نہ کہ کسی اور طریقے سے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَائِدَ وَلَا آمِّينَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنْ رَبِّهِمْ وَرِضْوَانًا ۚ وَإِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوا ۚ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا ۘ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

📘 مومن کی زندگی ایک پابند زندگی ہے۔ وہ دنیا میں آزاد ہے کہ جو چاہے کرے اس کے باوجود وہ اللہ کی آقائی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو پابند بنا لیتا ہے، وہ اپنے آپ کو از خود عہد کی رسّی میں باندھ لیتا ہے۔ اللہ کا معاملہ ہو یا بندوں کا معاملہ، دونوں قسم کے معاملات میں اس نے اپنے کو پابند کرلیا ہے کہ وہ آزادانہ عمل نہ کرے بلکہ خدا کے حکم کے مطابق عمل کرے۔ وہ انھیں چیزوں کو اپنی خوراک بنائے جو خدا نے اس کے لیے حلال کی ہیں اور جو چیزیں خدا نے حرام کی ہیں ان کو کھانا چھوڑ دے۔ کسی موقع پر اگر کسی جائز چیز سے بھی روک دیا جائے جیسا کہ احرام کی حالت میں یا حرام مہینوں کے بارے میں حکم سے واضح ہوتا ہے تو اس کو بھی بے چون وچرا مان لے۔ کوئی چیز کسی دینی حقیقت کی علامت بن جائے تو اس کا احترام کرے۔ کیوں کہ ایسی چیز کا احترام خود دین کا احترام ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ کے خوف سے کرے، نہ کہ کسی اور جذبے سے۔ آدمی عام حالات میں اللہ کے حکموں پر عمل کرتا ہے۔ مگر جب کوئی غیر معمولی حالت پیدا ہوتی ہے تو وہ بدل کر دوسرا انسان بن جاتا ہے۔ اللہ سے ڈرنے والا یکایک اللہ سے بے خوف انسان بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ یہ موقع وہ ہے جب کہ کسی کی کوئی مخالفانہ حرکت اس کو مشتعل کردیتی ہے۔ ایسے موقع پر آدمی انصاف کی حدوں کو بھول جاتا ہے اور یہ چاہنے لگتا ہے کہ جس طرح بھی ہو اپنے حریف کو ذلیل اور ناکام کرے۔ مگر اس قسم کی معاندانہ کارروائی خدا کے نزدیک جائز نہیں، حتی کہ اس وقت بھی نہیں جب کہ مسجد حرام کی زیارت جیسے پاک کام سے کسی نے دوسرے کو روکا ہو۔کوئی شخص اس قسم کی ظالمانہ کارروائی کرنے کے لیے اٹھے اور کچھ لوگ اس کا ساتھ دینے لگیں تو یہ گناہ کی راہ میں کسی کی مدد کرنا ہوگا۔ جب کہ اللہ سے ڈرنے والوں کا شیوہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ صرف نیکی کے کاموں میں دوسرے کی مدد کریں۔ جو شخص حق پر ہو اس کا ساتھ دینا اور جو ناحق پر ہو اس کا ساتھ نہ دینا، موجودہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ مگر اسی مشکل کا م پر آدمی کے اُخروی انجام کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا وَآتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ

📘 اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی گروہ کو چن لیتا ہے۔ اس گروہ کے اندر وہ اپنے پیغمبر اور اپنی کتاب بھیجتا ہے اور ا س کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ جس طرح وحی ایک خاص شخص پر اترتی ہے اسی طرح وحی کا حامل بھی ایک خاص گروہ کو بنایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خاص حیثیت بنی اسرائیل کو حاصل تھی اور نبی آخر الزماں کے بعد امت محمدی اس خصوصی منصب پر مامور ہے۔ اللہ کو جس طرح یہ مطلوب ہے کہ کوئی قوم اس کے دین کی نمائندگی کرے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مطلوب هےکہ جو قوم اس کے دین کی نمائندہ ہو وہ دنیا میں باعزت اور سربلند ہو تاکہ لوگوں پر اس بات کا مظاہرہ ہوسکے کہ قیامت کے بعد جو نیا اور ابدی عالم بنے گا اس میں ہر قسم کی سرفرازیاں صرف اہل حق کو حاصل ہوں گی۔ باقی لوگ مغلوب کرکے خدا کی رحمتوں سے دور پھینک ديے جائیں گے۔ تاہم اس گروہ کو یہ دنیوی انعام یک طرفہ طورپر نہیں دیاجاتا۔ اس کے لیے اس کو استحقاق کے امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کو عملی طورپر یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد کرنے والا اور صبر کی حد تک اس کی مرضی پر قائم رہنے والا ہے۔ بنی اسرائیل جب تک اس معیار پر قائم رہے ان کو خدا نے ان کی حریف قوموں پر غالب کیا۔ حتی کہ ایک زمانہ تک وہ اپنے وقت کی مہذب دنیا میں سب سے زیادہ سربلند حیثیت رکھتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ تشریف لائے تو بنی اسرائیل پر زوال آچکا تھا۔ امتحان کے وقت ان کی اکثریت اعتماد علی اللہ اور صبر کا ثبوت دینے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ حتی کہ ان کا ایک طبقہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے گستاخی کرنے لگا۔ ان کے دل میں اللہ سے بھی زیادہ دنیا کی طاقت ور قوموں کا ڈر سمایا ہوا تھا — جب خدا کا کوئی نمائندہ گروہ خدا کے کام کے لیے قربانی نہ دے تو گویاکہ وہ چاہتا ہے کہ خدا خود زمین پر اترے اور اپنے دین کا کام خود انجام دے، خواہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی طرح اس بات کو زبان سے کہہ دے یا دوسرے لوگوں کی طرح زبان سے نہ کہے بلکہ صرف اپنے عمل سے اس کو ظاہر کرے۔

يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَىٰ أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ

📘 اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی گروہ کو چن لیتا ہے۔ اس گروہ کے اندر وہ اپنے پیغمبر اور اپنی کتاب بھیجتا ہے اور ا س کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ جس طرح وحی ایک خاص شخص پر اترتی ہے اسی طرح وحی کا حامل بھی ایک خاص گروہ کو بنایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خاص حیثیت بنی اسرائیل کو حاصل تھی اور نبی آخر الزماں کے بعد امت محمدی اس خصوصی منصب پر مامور ہے۔ اللہ کو جس طرح یہ مطلوب ہے کہ کوئی قوم اس کے دین کی نمائندگی کرے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مطلوب هےکہ جو قوم اس کے دین کی نمائندہ ہو وہ دنیا میں باعزت اور سربلند ہو تاکہ لوگوں پر اس بات کا مظاہرہ ہوسکے کہ قیامت کے بعد جو نیا اور ابدی عالم بنے گا اس میں ہر قسم کی سرفرازیاں صرف اہل حق کو حاصل ہوں گی۔ باقی لوگ مغلوب کرکے خدا کی رحمتوں سے دور پھینک ديے جائیں گے۔ تاہم اس گروہ کو یہ دنیوی انعام یک طرفہ طورپر نہیں دیاجاتا۔ اس کے لیے اس کو استحقاق کے امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کو عملی طورپر یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد کرنے والا اور صبر کی حد تک اس کی مرضی پر قائم رہنے والا ہے۔ بنی اسرائیل جب تک اس معیار پر قائم رہے ان کو خدا نے ان کی حریف قوموں پر غالب کیا۔ حتی کہ ایک زمانہ تک وہ اپنے وقت کی مہذب دنیا میں سب سے زیادہ سربلند حیثیت رکھتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ تشریف لائے تو بنی اسرائیل پر زوال آچکا تھا۔ امتحان کے وقت ان کی اکثریت اعتماد علی اللہ اور صبر کا ثبوت دینے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ حتی کہ ان کا ایک طبقہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے گستاخی کرنے لگا۔ ان کے دل میں اللہ سے بھی زیادہ دنیا کی طاقت ور قوموں کا ڈر سمایا ہوا تھا — جب خدا کا کوئی نمائندہ گروہ خدا کے کام کے لیے قربانی نہ دے تو گویاکہ وہ چاہتا ہے کہ خدا خود زمین پر اترے اور اپنے دین کا کام خود انجام دے، خواہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی طرح اس بات کو زبان سے کہہ دے یا دوسرے لوگوں کی طرح زبان سے نہ کہے بلکہ صرف اپنے عمل سے اس کو ظاہر کرے۔

قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ

📘 اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی گروہ کو چن لیتا ہے۔ اس گروہ کے اندر وہ اپنے پیغمبر اور اپنی کتاب بھیجتا ہے اور ا س کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ جس طرح وحی ایک خاص شخص پر اترتی ہے اسی طرح وحی کا حامل بھی ایک خاص گروہ کو بنایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خاص حیثیت بنی اسرائیل کو حاصل تھی اور نبی آخر الزماں کے بعد امت محمدی اس خصوصی منصب پر مامور ہے۔ اللہ کو جس طرح یہ مطلوب ہے کہ کوئی قوم اس کے دین کی نمائندگی کرے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مطلوب هےکہ جو قوم اس کے دین کی نمائندہ ہو وہ دنیا میں باعزت اور سربلند ہو تاکہ لوگوں پر اس بات کا مظاہرہ ہوسکے کہ قیامت کے بعد جو نیا اور ابدی عالم بنے گا اس میں ہر قسم کی سرفرازیاں صرف اہل حق کو حاصل ہوں گی۔ باقی لوگ مغلوب کرکے خدا کی رحمتوں سے دور پھینک ديے جائیں گے۔ تاہم اس گروہ کو یہ دنیوی انعام یک طرفہ طورپر نہیں دیاجاتا۔ اس کے لیے اس کو استحقاق کے امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کو عملی طورپر یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد کرنے والا اور صبر کی حد تک اس کی مرضی پر قائم رہنے والا ہے۔ بنی اسرائیل جب تک اس معیار پر قائم رہے ان کو خدا نے ان کی حریف قوموں پر غالب کیا۔ حتی کہ ایک زمانہ تک وہ اپنے وقت کی مہذب دنیا میں سب سے زیادہ سربلند حیثیت رکھتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ تشریف لائے تو بنی اسرائیل پر زوال آچکا تھا۔ امتحان کے وقت ان کی اکثریت اعتماد علی اللہ اور صبر کا ثبوت دینے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ حتی کہ ان کا ایک طبقہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے گستاخی کرنے لگا۔ ان کے دل میں اللہ سے بھی زیادہ دنیا کی طاقت ور قوموں کا ڈر سمایا ہوا تھا — جب خدا کا کوئی نمائندہ گروہ خدا کے کام کے لیے قربانی نہ دے تو گویاکہ وہ چاہتا ہے کہ خدا خود زمین پر اترے اور اپنے دین کا کام خود انجام دے، خواہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی طرح اس بات کو زبان سے کہہ دے یا دوسرے لوگوں کی طرح زبان سے نہ کہے بلکہ صرف اپنے عمل سے اس کو ظاہر کرے۔

قَالَ رَجُلَانِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی گروہ کو چن لیتا ہے۔ اس گروہ کے اندر وہ اپنے پیغمبر اور اپنی کتاب بھیجتا ہے اور ا س کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ جس طرح وحی ایک خاص شخص پر اترتی ہے اسی طرح وحی کا حامل بھی ایک خاص گروہ کو بنایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خاص حیثیت بنی اسرائیل کو حاصل تھی اور نبی آخر الزماں کے بعد امت محمدی اس خصوصی منصب پر مامور ہے۔ اللہ کو جس طرح یہ مطلوب ہے کہ کوئی قوم اس کے دین کی نمائندگی کرے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مطلوب هےکہ جو قوم اس کے دین کی نمائندہ ہو وہ دنیا میں باعزت اور سربلند ہو تاکہ لوگوں پر اس بات کا مظاہرہ ہوسکے کہ قیامت کے بعد جو نیا اور ابدی عالم بنے گا اس میں ہر قسم کی سرفرازیاں صرف اہل حق کو حاصل ہوں گی۔ باقی لوگ مغلوب کرکے خدا کی رحمتوں سے دور پھینک ديے جائیں گے۔ تاہم اس گروہ کو یہ دنیوی انعام یک طرفہ طورپر نہیں دیاجاتا۔ اس کے لیے اس کو استحقاق کے امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کو عملی طورپر یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد کرنے والا اور صبر کی حد تک اس کی مرضی پر قائم رہنے والا ہے۔ بنی اسرائیل جب تک اس معیار پر قائم رہے ان کو خدا نے ان کی حریف قوموں پر غالب کیا۔ حتی کہ ایک زمانہ تک وہ اپنے وقت کی مہذب دنیا میں سب سے زیادہ سربلند حیثیت رکھتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ تشریف لائے تو بنی اسرائیل پر زوال آچکا تھا۔ امتحان کے وقت ان کی اکثریت اعتماد علی اللہ اور صبر کا ثبوت دینے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ حتی کہ ان کا ایک طبقہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے گستاخی کرنے لگا۔ ان کے دل میں اللہ سے بھی زیادہ دنیا کی طاقت ور قوموں کا ڈر سمایا ہوا تھا — جب خدا کا کوئی نمائندہ گروہ خدا کے کام کے لیے قربانی نہ دے تو گویاکہ وہ چاہتا ہے کہ خدا خود زمین پر اترے اور اپنے دین کا کام خود انجام دے، خواہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی طرح اس بات کو زبان سے کہہ دے یا دوسرے لوگوں کی طرح زبان سے نہ کہے بلکہ صرف اپنے عمل سے اس کو ظاہر کرے۔

قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا ۖ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ

📘 اللہ کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی گروہ کو چن لیتا ہے۔ اس گروہ کے اندر وہ اپنے پیغمبر اور اپنی کتاب بھیجتا ہے اور ا س کو مامور کرتا ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچائے۔ جس طرح وحی ایک خاص شخص پر اترتی ہے اسی طرح وحی کا حامل بھی ایک خاص گروہ کو بنایا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ خاص حیثیت بنی اسرائیل کو حاصل تھی اور نبی آخر الزماں کے بعد امت محمدی اس خصوصی منصب پر مامور ہے۔ اللہ کو جس طرح یہ مطلوب ہے کہ کوئی قوم اس کے دین کی نمائندگی کرے۔ اسی طرح اس کو یہ بھی مطلوب هےکہ جو قوم اس کے دین کی نمائندہ ہو وہ دنیا میں باعزت اور سربلند ہو تاکہ لوگوں پر اس بات کا مظاہرہ ہوسکے کہ قیامت کے بعد جو نیا اور ابدی عالم بنے گا اس میں ہر قسم کی سرفرازیاں صرف اہل حق کو حاصل ہوں گی۔ باقی لوگ مغلوب کرکے خدا کی رحمتوں سے دور پھینک ديے جائیں گے۔ تاہم اس گروہ کو یہ دنیوی انعام یک طرفہ طورپر نہیں دیاجاتا۔ اس کے لیے اس کو استحقاق کے امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ اس کو عملی طورپر یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر اعتماد کرنے والا اور صبر کی حد تک اس کی مرضی پر قائم رہنے والا ہے۔ بنی اسرائیل جب تک اس معیار پر قائم رہے ان کو خدا نے ان کی حریف قوموں پر غالب کیا۔ حتی کہ ایک زمانہ تک وہ اپنے وقت کی مہذب دنیا میں سب سے زیادہ سربلند حیثیت رکھتے تھے۔ مگر حضرت موسیٰ تشریف لائے تو بنی اسرائیل پر زوال آچکا تھا۔ امتحان کے وقت ان کی اکثریت اعتماد علی اللہ اور صبر کا ثبوت دینے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ حتی کہ ان کا ایک طبقہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے گستاخی کرنے لگا۔ ان کے دل میں اللہ سے بھی زیادہ دنیا کی طاقت ور قوموں کا ڈر سمایا ہوا تھا — جب خدا کا کوئی نمائندہ گروہ خدا کے کام کے لیے قربانی نہ دے تو گویاکہ وہ چاہتا ہے کہ خدا خود زمین پر اترے اور اپنے دین کا کام خود انجام دے، خواہ وہ بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کی طرح اس بات کو زبان سے کہہ دے یا دوسرے لوگوں کی طرح زبان سے نہ کہے بلکہ صرف اپنے عمل سے اس کو ظاہر کرے۔

قَالَ رَبِّ إِنِّي لَا أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِي وَأَخِي ۖ فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ

📘 بنی اسرائیل جب حضرت موسیٰ کی قیادت میں مصرسے نکل کر صحرائے سینا میں پہنچے تو اس زمانہ میں شام و فلسطین کے علاقہ میں ایک ظالم قوم (عمالقہ) کی حکومت تھی۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ یہ ظالم لوگ اپنی عمر پوری کر چکے ہیں۔ تم ان کے ملک میں داخل ہوجاؤ، تم کو خدا کی مدد حاصل ہوگی اور تم معمولی مقابلہ کے بعد ان کے اوپر قبضہ پالو گے۔ مگر بنی اسرائیل پر اس قوم کی ایسی ہیبت طاری تھی کہ وہ ان کے ملک میں داخل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ سے زیادہ انسانوں سے ڈرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کی نظر میں ان کی کوئی قیمت نہ رہی۔ اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا کہ وہ چالیس سال (1440-1400 ق م) تک فاران اور شرق اردن کے درمیان صحرا میں بھٹکتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ 20 سال سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران ان كي ايك نئی نسل نئے حالات میں پرورش پاکر اٹھے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 40 سال کی صحرائی زندگی میں ان کے تمام بڑی عمر والے مرکر ختم ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی نئی نسل نے یوشع بن نون کی قیادت میں شام وفلسطین کو فتح کیا۔ یہ یوشع بن نون ان دو صالح اسرائیلیوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے عمالقہ کے ملک میں داخل ہوجاؤ۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ اگر ہم اس ملک پر حملہ کریں تو ہم کو شکست ہوگی اور اس کے بعد ’’ہمارے بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے‘‘۔ مگر یہی بچے بڑے ہو کر عمالقہ کے ملک میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کیا۔بچوںمیں یہ طاقت اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے لمبی مدت تک صحرائی زندگی کی مشقتوں کو برداشت کیا تھا۔ بچوں کے باپ جن پُر خطر حالات کو اپنے بچوں کے حق میں موت سمجھتے تھے انھیں پُر خطر حالات کے اندر داخل ہونے میں ان کے بچوں کی زندگی کا راز چھپا ہوا تھا۔ موافق حالات میں جینا بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اندر تمام بہترین اوصاف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کہ اس کو حالات کا مقابلہ کرکے زندہ رہنا پڑے۔ مصر میں بنی اسرائیل صدیوں تک عافیت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک مُردہ قوم بن گئے۔ مگر خروج کے بعد ان کو جو صحرائی زندگی حاصل ہوئی اس میں زندگی ان کے لیے سراپا چیلنج تھی۔ ان حالات میں جو لوگ بچپن سے جوانی کی عمر کو پہنچے وہ قدرتی طورپر بالکل دوسری قسم کے لوگ تھے۔ صحرائی حالات نے ان کے اندر سادگی، ہمت، جفاکشی اور حقیقت پسندی پیدا کردی تھی۔ اور یہی وہ اوصاف ہیں، جو کسی قوم کو زندہ قوم بناتے ہیں — کوئی قوم اگر حالات کے نتیجہ میں مردہ قوم بن جائے تو اس کو دوبارہ زندہ قوم بنانے کے لیے غیر معمولی حالات میں ڈال دیا جاتا ہے۔

قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةً ۛ يَتِيهُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ

📘 بنی اسرائیل جب حضرت موسیٰ کی قیادت میں مصرسے نکل کر صحرائے سینا میں پہنچے تو اس زمانہ میں شام و فلسطین کے علاقہ میں ایک ظالم قوم (عمالقہ) کی حکومت تھی۔ اللہ نے بنی اسرائیل سے کہا کہ یہ ظالم لوگ اپنی عمر پوری کر چکے ہیں۔ تم ان کے ملک میں داخل ہوجاؤ، تم کو خدا کی مدد حاصل ہوگی اور تم معمولی مقابلہ کے بعد ان کے اوپر قبضہ پالو گے۔ مگر بنی اسرائیل پر اس قوم کی ایسی ہیبت طاری تھی کہ وہ ان کے ملک میں داخل ہونے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اللہ سے زیادہ انسانوں سے ڈرتے ہیں۔ اس کے بعد اللہ کی نظر میں ان کی کوئی قیمت نہ رہی۔ اللہ نے ان کے بارے میں فیصلہ کردیا کہ وہ چالیس سال (1440-1400 ق م) تک فاران اور شرق اردن کے درمیان صحرا میں بھٹکتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ 20 سال سے لے کر اوپر کی عمر تک کے سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ اس دوران ان كي ايك نئی نسل نئے حالات میں پرورش پاکر اٹھے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 40 سال کی صحرائی زندگی میں ان کے تمام بڑی عمر والے مرکر ختم ہوگئے۔ اس کے بعد ان کی نئی نسل نے یوشع بن نون کی قیادت میں شام وفلسطین کو فتح کیا۔ یہ یوشع بن نون ان دو صالح اسرائیلیوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے عمالقہ کے ملک میں داخل ہوجاؤ۔ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا تھا کہ اگر ہم اس ملک پر حملہ کریں تو ہم کو شکست ہوگی اور اس کے بعد ’’ہمارے بچے لوٹ کا مال ٹھہریں گے‘‘۔ مگر یہی بچے بڑے ہو کر عمالقہ کے ملک میں داخل ہوئے اور اس پر قبضہ کیا۔بچوںمیں یہ طاقت اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے لمبی مدت تک صحرائی زندگی کی مشقتوں کو برداشت کیا تھا۔ بچوں کے باپ جن پُر خطر حالات کو اپنے بچوں کے حق میں موت سمجھتے تھے انھیں پُر خطر حالات کے اندر داخل ہونے میں ان کے بچوں کی زندگی کا راز چھپا ہوا تھا۔ موافق حالات میں جینا بظاہر بہت اچھا معلوم ہوتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے اندر تمام بہترین اوصاف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کہ اس کو حالات کا مقابلہ کرکے زندہ رہنا پڑے۔ مصر میں بنی اسرائیل صدیوں تک عافیت کی زندگی گزارتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک مُردہ قوم بن گئے۔ مگر خروج کے بعد ان کو جو صحرائی زندگی حاصل ہوئی اس میں زندگی ان کے لیے سراپا چیلنج تھی۔ ان حالات میں جو لوگ بچپن سے جوانی کی عمر کو پہنچے وہ قدرتی طورپر بالکل دوسری قسم کے لوگ تھے۔ صحرائی حالات نے ان کے اندر سادگی، ہمت، جفاکشی اور حقیقت پسندی پیدا کردی تھی۔ اور یہی وہ اوصاف ہیں، جو کسی قوم کو زندہ قوم بناتے ہیں — کوئی قوم اگر حالات کے نتیجہ میں مردہ قوم بن جائے تو اس کو دوبارہ زندہ قوم بنانے کے لیے غیر معمولی حالات میں ڈال دیا جاتا ہے۔

۞ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ ۖ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

📘 اللہ کے لیے جو عمل کیا جائے اس کا اصل بدلہ تو آخرت میں ملتا ہے، تاہم بعض اوقات دنیا میں بھی ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ آدمی کا عمل خدا کے یہاں مقبول ہوا یا نہیں۔ آدم کے بیٹوں میں سے قابیل اور ہابیل کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت پیش آئی۔ قابیل کسان تھا اور ہابیل بھیڑ بکریوں کا کام کرتا تھا، ہابیل نے اپنی محنت کی کمائی اللہ کے لیے دی۔ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوئی اور اس کی برکت اس کی زندگی اور اس کے کام میں ظاہر ہوئی۔ قابیل نے بھی اپنی زراعت میں سے کچھ اللہ کے ليے پیش کیا مگر وہ قبول نہ ہوا ا ور وہ خدا کی برکت پانے سے محروم رہا۔ یہ دیکھ کر قابیل کے دل میں اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کے لیے حسد پیدا ہوگیا۔ یہ حسد اتنا بڑھا کہ اس نے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو جان سے مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ تمھاری قربانی قبول نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ تمھارے دل میں خدا کا خوف نہیں۔ تم کو میرے پیچھے پڑنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ مگر حسد اور بغض کی آگ جب کسی کے اندر بھڑکتی ہے تو وہ اس کو اس قابل نہیں رکھتی کہ وہ اپنی غلطیوں کا جائزہ لے۔ وہ بس ایک ہی بات جانتا ہے— جس طرح بھی ہو اپنے مفروضہ حریف کا خاتمہ کردے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا کہ تم خواہ میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھاؤ، میں تمھارے قتل کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اور مسلمان کی باہمی لڑائی کو اللہ نے سراسر حرام قرار دیا ہے۔ حتی کہ اگر ایک مسلمان اپنے دوسرے بھائی کے قتل کے درپے ہوجائے تو اس وقت بھی عزیمت یہ ہے کہ دوسرا بھائی اپنے بھائی کے خون کو اپنے لیے حلال نہ کرے۔ وہ اپنی طرف سے جارحانہ اقدام نہ کركے باہمی ٹکراؤ کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ اس کے برعکس، اگر وہ بھی جواب میں جارحیت کرنے لگے تو مسلم معاشرہ کے اندر عمل اور رد عمل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن حملہ آور اگر غیر مسلم ہو تو اس وقت ایسا کرنا درست نہیں۔ اسی طرح جب دینی دشمنوں کی طرف سے جارحیت کی جائے تو مسلم اور غیر مسلم کا فرق كيے بغیر ایسے لوگوں سے بھر پور مقابلہ کیا جائے گا۔ دو مسلمان جب ایک دوسرے کی بربادی کے درپے ہوں تو گناہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی بربادی کی کارروائیاں کرے اور دوسرا مسلمان صبر اور دعا میں مشغول ہو تو پہلا شخص نہ صرف اپنے گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے بلکہ دوسرے شخص کے اس ممکن گناہ کا بوجھ بھی اس کے اوپر ڈال دیاجاتا ہے، جو صبر اور دعا کے طریقہ پر نہ چلنے کی صورت میں وہ کرتا۔

لَئِنْ بَسَطْتَ إِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِي مَا أَنَا بِبَاسِطٍ يَدِيَ إِلَيْكَ لِأَقْتُلَكَ ۖ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ

📘 اللہ کے لیے جو عمل کیا جائے اس کا اصل بدلہ تو آخرت میں ملتا ہے، تاہم بعض اوقات دنیا میں بھی ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ آدمی کا عمل خدا کے یہاں مقبول ہوا یا نہیں۔ آدم کے بیٹوں میں سے قابیل اور ہابیل کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت پیش آئی۔ قابیل کسان تھا اور ہابیل بھیڑ بکریوں کا کام کرتا تھا، ہابیل نے اپنی محنت کی کمائی اللہ کے لیے دی۔ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوئی اور اس کی برکت اس کی زندگی اور اس کے کام میں ظاہر ہوئی۔ قابیل نے بھی اپنی زراعت میں سے کچھ اللہ کے ليے پیش کیا مگر وہ قبول نہ ہوا ا ور وہ خدا کی برکت پانے سے محروم رہا۔ یہ دیکھ کر قابیل کے دل میں اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کے لیے حسد پیدا ہوگیا۔ یہ حسد اتنا بڑھا کہ اس نے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو جان سے مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ تمھاری قربانی قبول نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ تمھارے دل میں خدا کا خوف نہیں۔ تم کو میرے پیچھے پڑنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ مگر حسد اور بغض کی آگ جب کسی کے اندر بھڑکتی ہے تو وہ اس کو اس قابل نہیں رکھتی کہ وہ اپنی غلطیوں کا جائزہ لے۔ وہ بس ایک ہی بات جانتا ہے— جس طرح بھی ہو اپنے مفروضہ حریف کا خاتمہ کردے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا کہ تم خواہ میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھاؤ، میں تمھارے قتل کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اور مسلمان کی باہمی لڑائی کو اللہ نے سراسر حرام قرار دیا ہے۔ حتی کہ اگر ایک مسلمان اپنے دوسرے بھائی کے قتل کے درپے ہوجائے تو اس وقت بھی عزیمت یہ ہے کہ دوسرا بھائی اپنے بھائی کے خون کو اپنے لیے حلال نہ کرے۔ وہ اپنی طرف سے جارحانہ اقدام نہ کركے باہمی ٹکراؤ کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ اس کے برعکس، اگر وہ بھی جواب میں جارحیت کرنے لگے تو مسلم معاشرہ کے اندر عمل اور رد عمل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن حملہ آور اگر غیر مسلم ہو تو اس وقت ایسا کرنا درست نہیں۔ اسی طرح جب دینی دشمنوں کی طرف سے جارحیت کی جائے تو مسلم اور غیر مسلم کا فرق كيے بغیر ایسے لوگوں سے بھر پور مقابلہ کیا جائے گا۔ دو مسلمان جب ایک دوسرے کی بربادی کے درپے ہوں تو گناہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی بربادی کی کارروائیاں کرے اور دوسرا مسلمان صبر اور دعا میں مشغول ہو تو پہلا شخص نہ صرف اپنے گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے بلکہ دوسرے شخص کے اس ممکن گناہ کا بوجھ بھی اس کے اوپر ڈال دیاجاتا ہے، جو صبر اور دعا کے طریقہ پر نہ چلنے کی صورت میں وہ کرتا۔

إِنِّي أُرِيدُ أَنْ تَبُوءَ بِإِثْمِي وَإِثْمِكَ فَتَكُونَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ

📘 اللہ کے لیے جو عمل کیا جائے اس کا اصل بدلہ تو آخرت میں ملتا ہے، تاہم بعض اوقات دنیا میں بھی ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ آدمی کا عمل خدا کے یہاں مقبول ہوا یا نہیں۔ آدم کے بیٹوں میں سے قابیل اور ہابیل کے ساتھ بھی ایسی ہی صورت پیش آئی۔ قابیل کسان تھا اور ہابیل بھیڑ بکریوں کا کام کرتا تھا، ہابیل نے اپنی محنت کی کمائی اللہ کے لیے دی۔ وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوئی اور اس کی برکت اس کی زندگی اور اس کے کام میں ظاہر ہوئی۔ قابیل نے بھی اپنی زراعت میں سے کچھ اللہ کے ليے پیش کیا مگر وہ قبول نہ ہوا ا ور وہ خدا کی برکت پانے سے محروم رہا۔ یہ دیکھ کر قابیل کے دل میں اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کے لیے حسد پیدا ہوگیا۔ یہ حسد اتنا بڑھا کہ اس نے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو جان سے مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ تمھاری قربانی قبول نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ تمھارے دل میں خدا کا خوف نہیں۔ تم کو میرے پیچھے پڑنے کے بجائے اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ مگر حسد اور بغض کی آگ جب کسی کے اندر بھڑکتی ہے تو وہ اس کو اس قابل نہیں رکھتی کہ وہ اپنی غلطیوں کا جائزہ لے۔ وہ بس ایک ہی بات جانتا ہے— جس طرح بھی ہو اپنے مفروضہ حریف کا خاتمہ کردے۔ ہابیل نے قابیل سے کہا کہ تم خواہ میرے قتل کے لیے ہاتھ بڑھاؤ، میں تمھارے قتل کے لیے ہاتھ نہیں بڑھاؤں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اور مسلمان کی باہمی لڑائی کو اللہ نے سراسر حرام قرار دیا ہے۔ حتی کہ اگر ایک مسلمان اپنے دوسرے بھائی کے قتل کے درپے ہوجائے تو اس وقت بھی عزیمت یہ ہے کہ دوسرا بھائی اپنے بھائی کے خون کو اپنے لیے حلال نہ کرے۔ وہ اپنی طرف سے جارحانہ اقدام نہ کركے باہمی ٹکراؤ کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کردے۔ اس کے برعکس، اگر وہ بھی جواب میں جارحیت کرنے لگے تو مسلم معاشرہ کے اندر عمل اور رد عمل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن حملہ آور اگر غیر مسلم ہو تو اس وقت ایسا کرنا درست نہیں۔ اسی طرح جب دینی دشمنوں کی طرف سے جارحیت کی جائے تو مسلم اور غیر مسلم کا فرق كيے بغیر ایسے لوگوں سے بھر پور مقابلہ کیا جائے گا۔ دو مسلمان جب ایک دوسرے کی بربادی کے درپے ہوں تو گناہ دونوں کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی بربادی کی کارروائیاں کرے اور دوسرا مسلمان صبر اور دعا میں مشغول ہو تو پہلا شخص نہ صرف اپنے گناہ کا بوجھ اٹھاتا ہے بلکہ دوسرے شخص کے اس ممکن گناہ کا بوجھ بھی اس کے اوپر ڈال دیاجاتا ہے، جو صبر اور دعا کے طریقہ پر نہ چلنے کی صورت میں وہ کرتا۔

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 بعض جانور اپنے طبی اور اخلاقی نقصانات کی وجہ اس قابل نہیں کہ انسان ان کو اپنی خوراک بنائے۔ خنزیر کو اللہ تعالیٰ نے اسی سبب سے حرام قرار دیا ۔ اسی طرح جانور کے جسم میں گوشت کے علاوہ کئی دوسری چیزیں ہوتی ہیں جو انسانی خوراک بننے کے قابل نہیں۔ انھیں میں سے خون بھی ہے۔ چنانچہ اسلام میں جانور کو ذبح كرنے كي ايك خاص صورت مقرر كي گئي هے تاكه جانور كے جسم كا خون پوري طرح بهه كر نكل جائے۔ ذبح كے سوا جانور كو مارنے کے جو طریقے ہیں ان میں خون جانور کے گوشت میں جذب ہو کر رہ جاتا ہے، وہ پوری طرح اس سے الگ نہیں ہوتا۔ اسی سبب سے شریعت میں مردار کی تمام قسموں کو بھی حرام کردیاگیا۔ کیوں کہ مردار جانور کا خون فوراً ہی اس کے گوشت میں جذب ہوجاتا ہے۔ اسی طرح ایسا گوشت بھی حرام کردیا گیا جس میں کسی طرح مشرکانہ عقیدہ کی آمیزش ہوجائے۔ مثلاً غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا یا غیر اللہ کے تقرب کی خاطر جانور کو قربان کرنا۔ تاہم اللہ نے اپنی رحمت خاص سے یہ گنجائش دے دی کہ کسی کو بھوک کی ایسی مجبوری پیش آجائے کہ اس کو موت یا حرام خوراک میں سے ایک کو لینا ہو تو وہ موت کے مقابلہ میں حرام خوراک کو اختیار کرے۔ ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے کامل کردیا‘‘، یعنی تم کو جو احکام ديے جانے تھے وہ سب دے ديے گئے۔ تمھارے لیے جو کچھ بھیجنا مقدر کیا گیا وہ سب بھیجا جاچکا۔ یہاں علی الاطلاق دین کے کامل كيے جانے کاذکر نهيں ہے بلکہ امت محمد ی پر جو قرآن نازل ہونا شروع ہوا تھا اس کے پورے ہونے کا اعلان ہے۔ یہ نزول کی تکمیل کا ذکر ہے، نہ کہ دین کی تکميل کا۔ اسی لیے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ ’’آج میں نے دین کو کامل کردیا‘‘ بلکہ یہ فرمایا کہ ’’آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے کامل کردیا‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کا دین ہر زمانہ میں اپنی کامل صورت میں انسان کو دیاگیا ہے۔ خدا نے کبھی ناقص دین انسان کے پاس نہیں بھیجا۔ قرآن کو ماننے والی امت کو خدا نے اتنی مضبوط بنیادوں پر قائم کردیا ہے کہ وہ اپنی امکانی قوت کے اعتبار سے ہر بیرونی خطرہ کی زد سے باہر جاچکی ہے۔ اب اگر اس کو کوئی نقصان پہنچے گا تو اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے، نہ کہ خارجی حملوں کی وجہ سے۔ اور اندرونی کمزوریوں سے پاک رہنے کی سب سے بڑی ضمانت یہ ہے کہ اس کے افراد اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔

فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر جلنا اور اس کے نقصان کے درپے ہونا گویا خدا کے منصوبہ کو باطل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ایسا آدمی اگٰرچه موجودہ امتحان کی دنیا میں ایک حد تک عمل کرنے کا موقع پاتا ہے۔ مگر خدا کی نظر میں وہ بدترین مجرم ہے۔ ہابیل نے اپنے بڑے بھائی کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے بعد اس کے دل میں جھجھک پیدا ہوئی۔ اس کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی بلا سبب اپنے بھائی کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔ مگر اس کا حسد کا جذبہ ٹھنڈا نہ ہوسکا۔ اس نے اپنے ذہن میں ایسے عذرات گھڑ لیے جو اس کے لیے اپنے بھائی کے قتل کو جائز ثابت کرسکیں۔ اس کی اندرونی کش مکش نے بالآخر خود ساختہ توجیہات میں اپنے لیے تسکین تلاش کرلی اور اس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا — ضمیر کی آواز خدا کی آواز ہے۔ ضمیر کے اندر کسی عمل کے بارے میں سوال پیدا ہونا آدمی کا امتحان کے میدان میں کھڑا ہونا ہے۔ اگر آدمی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے تو وہ کامیاب ہوا۔ اور اگر اس نے جھوٹے الفاظ کا سہارا لے کر ضمیر کی آواز کو دبا دیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حدیث میں ہے کہ زیادتی اور قطع رحم ایسے گناہ ہیں کہ ان کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے (مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ مَعَ مَا يُؤَخَّرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنْ بَغْيٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ )مسند احمد، حديث نمبر 20374۔ قابیل نے اپنے بھائی کے ساتھ جو ناحق ظلم کیا تھا اس کی سزا نہ صرف اس كو آخرت میں ملے گي بلکہ اسی دنیا سے اس کا انجام شروع ہوگیا۔ مجاہد اور جبیر تابعی سے منقول ہے کہ قتل کے بعد قابیل کا یہ حال ہوا کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے چپک گئی۔ وہ بے یارو مددگار زمین پر پڑا رہتا، یہاں تک کہ اسی حال میں ذلّت اور تکلیف کے ساتھ مرگیا (ابن کثیر) قابیل کو کوّے کے ذریعہ یہ تعلیم دی گئی کہ وہ لاش کو زمین کے نیچے دفن کردے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسان فطرت کے راستے کو جاننے کے معاملہ میں جانور سے بھی زیادہ کم عقل ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے جذبات کے پیچھے چلتا ہے تو اس سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں۔ نیز اس میں اس حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ ہے کہ جرم سے پہلے اگر آدمی جرم کے ارادہ کو اپنے سینے میں دفن کردے تو اس کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دل کے احساس کو دل کے اندر دبائے، اس کو دل سے باہر آکر واقعہ نہ بننے دے۔ برے احساس کو دل کے باہر نکالنے سے پہلے تو صرف احساس کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس نے ا س کو باہر نکالا تو پھر ایک زندہ انسان کی ’’لاش‘‘ کو دفن کرنے کا مسئلہ اس کے لیے پیدا ہوجائے گا جو دفن ہو کر بھی خدا کے یہاں دفن نہیں ہوتا۔

فَبَعَثَ اللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءَةَ أَخِيهِ ۚ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَٰذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءَةَ أَخِي ۖ فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ

📘 دنیا میں جو کچھ کسی کو ملتا ہے خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ اس لیے کسی کو اچھے حال میں دیکھ کر جلنا اور اس کے نقصان کے درپے ہونا گویا خدا کے منصوبہ کو باطل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ایسا آدمی اگٰرچه موجودہ امتحان کی دنیا میں ایک حد تک عمل کرنے کا موقع پاتا ہے۔ مگر خدا کی نظر میں وہ بدترین مجرم ہے۔ ہابیل نے اپنے بڑے بھائی کو اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے بعد اس کے دل میں جھجھک پیدا ہوئی۔ اس کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی بلا سبب اپنے بھائی کو مار ڈالنا چاہتا ہے۔ مگر اس کا حسد کا جذبہ ٹھنڈا نہ ہوسکا۔ اس نے اپنے ذہن میں ایسے عذرات گھڑ لیے جو اس کے لیے اپنے بھائی کے قتل کو جائز ثابت کرسکیں۔ اس کی اندرونی کش مکش نے بالآخر خود ساختہ توجیہات میں اپنے لیے تسکین تلاش کرلی اور اس نے اپنے بھائی کو مار ڈالا — ضمیر کی آواز خدا کی آواز ہے۔ ضمیر کے اندر کسی عمل کے بارے میں سوال پیدا ہونا آدمی کا امتحان کے میدان میں کھڑا ہونا ہے۔ اگر آدمی اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے تو وہ کامیاب ہوا۔ اور اگر اس نے جھوٹے الفاظ کا سہارا لے کر ضمیر کی آواز کو دبا دیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حدیث میں ہے کہ زیادتی اور قطع رحم ایسے گناہ ہیں کہ ان کی سزا اسی موجودہ دنیا سے شروع ہوجاتی ہے (مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ مَعَ مَا يُؤَخَّرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنْ بَغْيٍ، أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ )مسند احمد، حديث نمبر 20374۔ قابیل نے اپنے بھائی کے ساتھ جو ناحق ظلم کیا تھا اس کی سزا نہ صرف اس كو آخرت میں ملے گي بلکہ اسی دنیا سے اس کا انجام شروع ہوگیا۔ مجاہد اور جبیر تابعی سے منقول ہے کہ قتل کے بعد قابیل کا یہ حال ہوا کہ اس کی پنڈلی اس کی ران سے چپک گئی۔ وہ بے یارو مددگار زمین پر پڑا رہتا، یہاں تک کہ اسی حال میں ذلّت اور تکلیف کے ساتھ مرگیا (ابن کثیر) قابیل کو کوّے کے ذریعہ یہ تعلیم دی گئی کہ وہ لاش کو زمین کے نیچے دفن کردے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسان فطرت کے راستے کو جاننے کے معاملہ میں جانور سے بھی زیادہ کم عقل ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ اپنے جذبات کے پیچھے چلتا ہے تو اس سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں۔ نیز اس میں اس حقیقت کی طرف بھی لطیف اشارہ ہے کہ جرم سے پہلے اگر آدمی جرم کے ارادہ کو اپنے سینے میں دفن کردے تو اس کو شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ دل کے احساس کو دل کے اندر دبائے، اس کو دل سے باہر آکر واقعہ نہ بننے دے۔ برے احساس کو دل کے باہر نکالنے سے پہلے تو صرف احساس کو دفن کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اس نے ا س کو باہر نکالا تو پھر ایک زندہ انسان کی ’’لاش‘‘ کو دفن کرنے کا مسئلہ اس کے لیے پیدا ہوجائے گا جو دفن ہو کر بھی خدا کے یہاں دفن نہیں ہوتا۔

مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ

📘 کوئی شخص جب کسی شخص کو قتل کرتاہے تو وہ صرف ایک انسان کا قاتل نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانوں کا قاتل ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ حرمت کے اس قانون کو توڑتا ہے جس میں تمام انسانوں کی زندگیاں بندھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی کو ظالم کے ظلم سے نجات دیتا ہے تو وہ صرف ایک شخص کا نجات دہندہ نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانوں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔کیوں کہ اس نے اس اصول کی حفاظت کی کہ تمام انسانوں کی جان محترم ہے۔ کسی کو کسی کے اوپر ہاتھ اٹھانے کا حق نہیں۔ جب کوئی شخص کسی کی عزت یا اس کے مال یا اس کی جان پر حملہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کے اندر ہنگامی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وه ایسے کسی ایک واقعہ کو بھی اس نظر سے دیکھیں گویا سارے لوگوں کی جان اور مال اور آبرو خطرے میں ہے۔ کسی معاشرہ میں ایک دوسرے کے احترام کی روایات لمبی تاریخ کے نتیجہ میں بنتی ہیں۔ اور اگر ایک بار یہ روایات ٹوٹ جائیں تو دوبارہ لمبی تاریخ کے بعد ہی ان کو معاشرہ کے اندر قائم کیاجاسکتا ہے۔ جو لوگ معاشرہ کے اندر فساد کی روایت قائم کریں وہ معاشرہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ خدا نے اپنی دنیا کا نظام جس اصول پر قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے حصہ کا فرض انجام دے۔ کوئی شخص دوسرے کے دائرہ میں بے جا مداخلت نہ کرے۔ تمام جمادات اور حیوانات اسی فطرت پر عمل کررہے ہیں۔ انسان کو بھی پیغمبروں کے ذریعہ یہ ہدایات واضح طور پر بتا دی گئی ہیں۔ مگر انسان جو کہ دیگر مخلوقات کے برعکس وقتي طورپر آزاد رکھا گیا ہے، سرکشی کرتا ہے اور اس طرح فطرت کے نظام میں فساد پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں سخت مجرم ہیں۔ اور وہ لوگ اور بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں جو خدا و رسول سے جنگ کریں۔ یعنی خدا اپنے بندوں کے درمیان ایسی دعوت اٹھائے جو لوگوں کومفسدانہ طریقوں سے بچنے اور فطرت خداوندی پر زندگی گزارنے کی طرف بلاتی ہو تو وہ اس کا راستہ روکیں اور اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کریں۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں عبرت ناک سزا ہے اور آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ۔

إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 کوئی شخص جب کسی شخص کو قتل کرتاہے تو وہ صرف ایک انسان کا قاتل نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانوں کا قاتل ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ حرمت کے اس قانون کو توڑتا ہے جس میں تمام انسانوں کی زندگیاں بندھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی کو ظالم کے ظلم سے نجات دیتا ہے تو وہ صرف ایک شخص کا نجات دہندہ نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانوں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔کیوں کہ اس نے اس اصول کی حفاظت کی کہ تمام انسانوں کی جان محترم ہے۔ کسی کو کسی کے اوپر ہاتھ اٹھانے کا حق نہیں۔ جب کوئی شخص کسی کی عزت یا اس کے مال یا اس کی جان پر حملہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کے اندر ہنگامی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وه ایسے کسی ایک واقعہ کو بھی اس نظر سے دیکھیں گویا سارے لوگوں کی جان اور مال اور آبرو خطرے میں ہے۔ کسی معاشرہ میں ایک دوسرے کے احترام کی روایات لمبی تاریخ کے نتیجہ میں بنتی ہیں۔ اور اگر ایک بار یہ روایات ٹوٹ جائیں تو دوبارہ لمبی تاریخ کے بعد ہی ان کو معاشرہ کے اندر قائم کیاجاسکتا ہے۔ جو لوگ معاشرہ کے اندر فساد کی روایت قائم کریں وہ معاشرہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ خدا نے اپنی دنیا کا نظام جس اصول پر قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے حصہ کا فرض انجام دے۔ کوئی شخص دوسرے کے دائرہ میں بے جا مداخلت نہ کرے۔ تمام جمادات اور حیوانات اسی فطرت پر عمل کررہے ہیں۔ انسان کو بھی پیغمبروں کے ذریعہ یہ ہدایات واضح طور پر بتا دی گئی ہیں۔ مگر انسان جو کہ دیگر مخلوقات کے برعکس وقتي طورپر آزاد رکھا گیا ہے، سرکشی کرتا ہے اور اس طرح فطرت کے نظام میں فساد پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں سخت مجرم ہیں۔ اور وہ لوگ اور بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں جو خدا و رسول سے جنگ کریں۔ یعنی خدا اپنے بندوں کے درمیان ایسی دعوت اٹھائے جو لوگوں کومفسدانہ طریقوں سے بچنے اور فطرت خداوندی پر زندگی گزارنے کی طرف بلاتی ہو تو وہ اس کا راستہ روکیں اور اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کریں۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں عبرت ناک سزا ہے اور آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ۔

إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ ۖ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 کوئی شخص جب کسی شخص کو قتل کرتاہے تو وہ صرف ایک انسان کا قاتل نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانوں کا قاتل ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ حرمت کے اس قانون کو توڑتا ہے جس میں تمام انسانوں کی زندگیاں بندھی ہوئی ہیں۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی کو ظالم کے ظلم سے نجات دیتا ہے تو وہ صرف ایک شخص کا نجات دہندہ نہیں ہوتا بلکہ تمام انسانوں کا نجات دہندہ ہوتا ہے۔کیوں کہ اس نے اس اصول کی حفاظت کی کہ تمام انسانوں کی جان محترم ہے۔ کسی کو کسی کے اوپر ہاتھ اٹھانے کا حق نہیں۔ جب کوئی شخص کسی کی عزت یا اس کے مال یا اس کی جان پر حملہ کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ کے اندر ہنگامی حالت پیدا ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وه ایسے کسی ایک واقعہ کو بھی اس نظر سے دیکھیں گویا سارے لوگوں کی جان اور مال اور آبرو خطرے میں ہے۔ کسی معاشرہ میں ایک دوسرے کے احترام کی روایات لمبی تاریخ کے نتیجہ میں بنتی ہیں۔ اور اگر ایک بار یہ روایات ٹوٹ جائیں تو دوبارہ لمبی تاریخ کے بعد ہی ان کو معاشرہ کے اندر قائم کیاجاسکتا ہے۔ جو لوگ معاشرہ کے اندر فساد کی روایت قائم کریں وہ معاشرہ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ خدا نے اپنی دنیا کا نظام جس اصول پر قائم کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر ایک اپنے حصہ کا فرض انجام دے۔ کوئی شخص دوسرے کے دائرہ میں بے جا مداخلت نہ کرے۔ تمام جمادات اور حیوانات اسی فطرت پر عمل کررہے ہیں۔ انسان کو بھی پیغمبروں کے ذریعہ یہ ہدایات واضح طور پر بتا دی گئی ہیں۔ مگر انسان جو کہ دیگر مخلوقات کے برعکس وقتي طورپر آزاد رکھا گیا ہے، سرکشی کرتا ہے اور اس طرح فطرت کے نظام میں فساد پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں سخت مجرم ہیں۔ اور وہ لوگ اور بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں جو خدا و رسول سے جنگ کریں۔ یعنی خدا اپنے بندوں کے درمیان ایسی دعوت اٹھائے جو لوگوں کومفسدانہ طریقوں سے بچنے اور فطرت خداوندی پر زندگی گزارنے کی طرف بلاتی ہو تو وہ اس کا راستہ روکیں اور اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کریں۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں عبرت ناک سزا ہے اور آخرت میں بھڑکتی ہوئی آگ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 بندے کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کی قربت ہے۔ یہ قربت اپنی محسوس اور کامل صورت میں تو آخرت میں حاصل ہوگی۔ تاہم کسی بندے کا عمل جب اس کو اللہ سے قریب کرتاہے تو ایک لطیف احساس کی صورت میں اس کا تجربہ اس کو اسی دنیا میں ہونے لگتا ہے۔ اس قربت تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ اور جہاد ہے۔ یعنی ڈرنے اور جدوجہد کرنے کی سطح پر اللہ کا پرستار بننا۔ آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے کو حق اور ناحق کے درمیان کھڑا ہوا پاتا ہے۔ حق کی طرف بڑھنے میں اس کی اَنا ٹوٹتی ہے۔ اس کی دنیوی مصلحتوں کا ڈھانچہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کہ ناحق کا طریقہ اختیار کرنے میں اس کی اَنا قائم رہتی ہے۔ اس کی مصلحتیں پوری طرح محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جو شخص خدا سے ڈرے اور تمام دوسری باتوں کو نظر انداز کرکے خداکو پکڑلے۔ اور ہر مشکل اور ہر ناخوش گواری کو جھیل کر خدا کی طرف بڑھے تو یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ اور اِس قربت کا نقد تجربہ آدمی کو حسّيات کی سطح پر ایک لطیف ادراک کی صورت میں اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص تقویٰ اور جہاد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ ہو اس نے خدا کا انکار کیا۔ وہ خدا سے دور ہو کر ایسے عذاب میں پڑ جاتا ہے، جس سے وہ کسی طرح چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ جزا کا معاملہ تمام تر خدا کے اختیار میں ہے۔ نہ تو ایسا ہے کہ کوئی بعد کی زندگی میں اصلاح کر لے تب بھی اس کے پچھلے اعمال اس سے نہ دھلیں اور نہ یہ بات ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سفارش یا مداخلت کے زورپر کسی کے انجام کو بدل سکے۔ سارا معاملہ ایک خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی کمال درجہ حکمت اور قدرت کے ساتھ سب کا فیصلہ کرے گا۔ سماجی جرائم کے لیے اسلام کی سزائیں دو خاص پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مقرر کی گئی ہیں۔ ایک، آدمی کے جرم کی سزا۔ دوسرے یہ کہ سزا ایسی عبرت ناک ہو کہ اس کو دیکھ کر دوسرے مجرمین کی حوصلہ شکنی ہو۔ تاہم مجرم اگر جرم کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کو بالکل چھوڑ دے تو امید ہے کہ آخرت میں اللہ اسے معاف کردے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 بندے کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کی قربت ہے۔ یہ قربت اپنی محسوس اور کامل صورت میں تو آخرت میں حاصل ہوگی۔ تاہم کسی بندے کا عمل جب اس کو اللہ سے قریب کرتاہے تو ایک لطیف احساس کی صورت میں اس کا تجربہ اس کو اسی دنیا میں ہونے لگتا ہے۔ اس قربت تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ اور جہاد ہے۔ یعنی ڈرنے اور جدوجہد کرنے کی سطح پر اللہ کا پرستار بننا۔ آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے کو حق اور ناحق کے درمیان کھڑا ہوا پاتا ہے۔ حق کی طرف بڑھنے میں اس کی اَنا ٹوٹتی ہے۔ اس کی دنیوی مصلحتوں کا ڈھانچہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کہ ناحق کا طریقہ اختیار کرنے میں اس کی اَنا قائم رہتی ہے۔ اس کی مصلحتیں پوری طرح محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جو شخص خدا سے ڈرے اور تمام دوسری باتوں کو نظر انداز کرکے خداکو پکڑلے۔ اور ہر مشکل اور ہر ناخوش گواری کو جھیل کر خدا کی طرف بڑھے تو یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ اور اِس قربت کا نقد تجربہ آدمی کو حسّيات کی سطح پر ایک لطیف ادراک کی صورت میں اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص تقویٰ اور جہاد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ ہو اس نے خدا کا انکار کیا۔ وہ خدا سے دور ہو کر ایسے عذاب میں پڑ جاتا ہے، جس سے وہ کسی طرح چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ جزا کا معاملہ تمام تر خدا کے اختیار میں ہے۔ نہ تو ایسا ہے کہ کوئی بعد کی زندگی میں اصلاح کر لے تب بھی اس کے پچھلے اعمال اس سے نہ دھلیں اور نہ یہ بات ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سفارش یا مداخلت کے زورپر کسی کے انجام کو بدل سکے۔ سارا معاملہ ایک خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی کمال درجہ حکمت اور قدرت کے ساتھ سب کا فیصلہ کرے گا۔ سماجی جرائم کے لیے اسلام کی سزائیں دو خاص پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مقرر کی گئی ہیں۔ ایک، آدمی کے جرم کی سزا۔ دوسرے یہ کہ سزا ایسی عبرت ناک ہو کہ اس کو دیکھ کر دوسرے مجرمین کی حوصلہ شکنی ہو۔ تاہم مجرم اگر جرم کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کو بالکل چھوڑ دے تو امید ہے کہ آخرت میں اللہ اسے معاف کردے گا۔

يُرِيدُونَ أَنْ يَخْرُجُوا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنْهَا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ

📘 بندے کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کی قربت ہے۔ یہ قربت اپنی محسوس اور کامل صورت میں تو آخرت میں حاصل ہوگی۔ تاہم کسی بندے کا عمل جب اس کو اللہ سے قریب کرتاہے تو ایک لطیف احساس کی صورت میں اس کا تجربہ اس کو اسی دنیا میں ہونے لگتا ہے۔ اس قربت تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ اور جہاد ہے۔ یعنی ڈرنے اور جدوجہد کرنے کی سطح پر اللہ کا پرستار بننا۔ آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے کو حق اور ناحق کے درمیان کھڑا ہوا پاتا ہے۔ حق کی طرف بڑھنے میں اس کی اَنا ٹوٹتی ہے۔ اس کی دنیوی مصلحتوں کا ڈھانچہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کہ ناحق کا طریقہ اختیار کرنے میں اس کی اَنا قائم رہتی ہے۔ اس کی مصلحتیں پوری طرح محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جو شخص خدا سے ڈرے اور تمام دوسری باتوں کو نظر انداز کرکے خداکو پکڑلے۔ اور ہر مشکل اور ہر ناخوش گواری کو جھیل کر خدا کی طرف بڑھے تو یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ اور اِس قربت کا نقد تجربہ آدمی کو حسّيات کی سطح پر ایک لطیف ادراک کی صورت میں اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص تقویٰ اور جہاد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ ہو اس نے خدا کا انکار کیا۔ وہ خدا سے دور ہو کر ایسے عذاب میں پڑ جاتا ہے، جس سے وہ کسی طرح چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ جزا کا معاملہ تمام تر خدا کے اختیار میں ہے۔ نہ تو ایسا ہے کہ کوئی بعد کی زندگی میں اصلاح کر لے تب بھی اس کے پچھلے اعمال اس سے نہ دھلیں اور نہ یہ بات ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سفارش یا مداخلت کے زورپر کسی کے انجام کو بدل سکے۔ سارا معاملہ ایک خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی کمال درجہ حکمت اور قدرت کے ساتھ سب کا فیصلہ کرے گا۔ سماجی جرائم کے لیے اسلام کی سزائیں دو خاص پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مقرر کی گئی ہیں۔ ایک، آدمی کے جرم کی سزا۔ دوسرے یہ کہ سزا ایسی عبرت ناک ہو کہ اس کو دیکھ کر دوسرے مجرمین کی حوصلہ شکنی ہو۔ تاہم مجرم اگر جرم کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کو بالکل چھوڑ دے تو امید ہے کہ آخرت میں اللہ اسے معاف کردے گا۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 بندے کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کی قربت ہے۔ یہ قربت اپنی محسوس اور کامل صورت میں تو آخرت میں حاصل ہوگی۔ تاہم کسی بندے کا عمل جب اس کو اللہ سے قریب کرتاہے تو ایک لطیف احساس کی صورت میں اس کا تجربہ اس کو اسی دنیا میں ہونے لگتا ہے۔ اس قربت تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ اور جہاد ہے۔ یعنی ڈرنے اور جدوجہد کرنے کی سطح پر اللہ کا پرستار بننا۔ آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے کو حق اور ناحق کے درمیان کھڑا ہوا پاتا ہے۔ حق کی طرف بڑھنے میں اس کی اَنا ٹوٹتی ہے۔ اس کی دنیوی مصلحتوں کا ڈھانچہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کہ ناحق کا طریقہ اختیار کرنے میں اس کی اَنا قائم رہتی ہے۔ اس کی مصلحتیں پوری طرح محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جو شخص خدا سے ڈرے اور تمام دوسری باتوں کو نظر انداز کرکے خداکو پکڑلے۔ اور ہر مشکل اور ہر ناخوش گواری کو جھیل کر خدا کی طرف بڑھے تو یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ اور اِس قربت کا نقد تجربہ آدمی کو حسّيات کی سطح پر ایک لطیف ادراک کی صورت میں اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص تقویٰ اور جہاد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ ہو اس نے خدا کا انکار کیا۔ وہ خدا سے دور ہو کر ایسے عذاب میں پڑ جاتا ہے، جس سے وہ کسی طرح چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ جزا کا معاملہ تمام تر خدا کے اختیار میں ہے۔ نہ تو ایسا ہے کہ کوئی بعد کی زندگی میں اصلاح کر لے تب بھی اس کے پچھلے اعمال اس سے نہ دھلیں اور نہ یہ بات ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سفارش یا مداخلت کے زورپر کسی کے انجام کو بدل سکے۔ سارا معاملہ ایک خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی کمال درجہ حکمت اور قدرت کے ساتھ سب کا فیصلہ کرے گا۔ سماجی جرائم کے لیے اسلام کی سزائیں دو خاص پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مقرر کی گئی ہیں۔ ایک، آدمی کے جرم کی سزا۔ دوسرے یہ کہ سزا ایسی عبرت ناک ہو کہ اس کو دیکھ کر دوسرے مجرمین کی حوصلہ شکنی ہو۔ تاہم مجرم اگر جرم کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کو بالکل چھوڑ دے تو امید ہے کہ آخرت میں اللہ اسے معاف کردے گا۔

فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 بندے کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کی قربت ہے۔ یہ قربت اپنی محسوس اور کامل صورت میں تو آخرت میں حاصل ہوگی۔ تاہم کسی بندے کا عمل جب اس کو اللہ سے قریب کرتاہے تو ایک لطیف احساس کی صورت میں اس کا تجربہ اس کو اسی دنیا میں ہونے لگتا ہے۔ اس قربت تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ اور جہاد ہے۔ یعنی ڈرنے اور جدوجہد کرنے کی سطح پر اللہ کا پرستار بننا۔ آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے کو حق اور ناحق کے درمیان کھڑا ہوا پاتا ہے۔ حق کی طرف بڑھنے میں اس کی اَنا ٹوٹتی ہے۔ اس کی دنیوی مصلحتوں کا ڈھانچہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کہ ناحق کا طریقہ اختیار کرنے میں اس کی اَنا قائم رہتی ہے۔ اس کی مصلحتیں پوری طرح محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جو شخص خدا سے ڈرے اور تمام دوسری باتوں کو نظر انداز کرکے خداکو پکڑلے۔ اور ہر مشکل اور ہر ناخوش گواری کو جھیل کر خدا کی طرف بڑھے تو یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ اور اِس قربت کا نقد تجربہ آدمی کو حسّيات کی سطح پر ایک لطیف ادراک کی صورت میں اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص تقویٰ اور جہاد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ ہو اس نے خدا کا انکار کیا۔ وہ خدا سے دور ہو کر ایسے عذاب میں پڑ جاتا ہے، جس سے وہ کسی طرح چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ جزا کا معاملہ تمام تر خدا کے اختیار میں ہے۔ نہ تو ایسا ہے کہ کوئی بعد کی زندگی میں اصلاح کر لے تب بھی اس کے پچھلے اعمال اس سے نہ دھلیں اور نہ یہ بات ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سفارش یا مداخلت کے زورپر کسی کے انجام کو بدل سکے۔ سارا معاملہ ایک خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی کمال درجہ حکمت اور قدرت کے ساتھ سب کا فیصلہ کرے گا۔ سماجی جرائم کے لیے اسلام کی سزائیں دو خاص پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مقرر کی گئی ہیں۔ ایک، آدمی کے جرم کی سزا۔ دوسرے یہ کہ سزا ایسی عبرت ناک ہو کہ اس کو دیکھ کر دوسرے مجرمین کی حوصلہ شکنی ہو۔ تاہم مجرم اگر جرم کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کو بالکل چھوڑ دے تو امید ہے کہ آخرت میں اللہ اسے معاف کردے گا۔

يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللَّهُ ۖ فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ

📘 وہ تمام چیزیں جن کو فطرت کی نگاہ پاک اور ستھرا محسوس کرتی ہے۔ اور وہ تمام جانور جو اپنی سرشت کے لحاظ سے انسان کی سرشت سے مناسبت رکھتے ہیں انسان کے لیے حلال ہیں۔ البتہ یہ شرط ہے کہ خارجی سبب سے ان کے اندر کوئی شرعی یا طبی خرابي نہ پیدا ہوگئي ہو۔ تاہم اس اصول کو انسان محض اپنی عقل سے پوری طرح متعین نہیں کرسکتا۔ اس لیے ا س کو تعین کے ساتھ بھی بیان کردیا گیا۔ سدھائے ہوئے جانور کا شکار بھی اسی لیے حلال ہے کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے پکڑ کر رکھتا ہے۔ گویا اس نے آدمی کی خو سیکھ لی۔ ایسا جانور گویا شکار کے معاملے میں خود آدمی کا قائم مقام بن گیا۔ حلال وحرام کا قانون خواہ کتنی هي تفصیل کے ساتھ بتا دیا جائے بالآخر آدمی کا اپنا ارادہ ہی ہے جو اس کو کسی چیز سے روکتا ہے اور کسی چیز کی طرف لے جاتا ہے۔ آدمی کے اوپر اصل نگراں قانون کی دفعات نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ اگر آدمی خود نہ چاہے تو قانون کو مانتے ہوئے وہ اس سے فرار کی راہیں تلاش کرلے گا۔ یہ صرف اللہ کا خوف ہے جو آدمی کو پابند کرتا ہے کہ وہ قانون کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ ملحوظ رکھے۔ اسی لیے حرام وحلال کا قانون بتاتے ہوئے کہاگیا اللہ سے ڈرو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ مسلمان عورت کے لیے کسی حال میں جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم مرد سے نکاح کرلے۔ مگر مسلمان مردوں کو مخصوص شرائط کے تحت اجازت دی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کی حکمت یہ ہے کہ عورت فطرۃً تاثر پذیر مزاج رکھتی ہے۔ اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنے مسلم شوہر اور مسلم معاشرہ کا اثر قبول کرلے اور اس طرح نکاح اس کے لیے اسلام میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے۔ ’’جو شخص ایمان سے انکار کرے تو اس کا عمل ضائع ہوگیا‘‘، یعنی ایمان کے بغیر عمل کی کوئی حقیقت نہیں۔ عمل وہی ہے جو خالص اللہ کے لیے کیا جائے۔ جو عمل اللہ کے لیے نہ ہو وہ خود اپنے لیے ہوتا ہے۔ پھر اپنی خاطر كيے ہوئے عمل کی قیمت اللہ کیوں دے گا۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 بندے کے لیے سب سے بڑی چیز اللہ کی قربت ہے۔ یہ قربت اپنی محسوس اور کامل صورت میں تو آخرت میں حاصل ہوگی۔ تاہم کسی بندے کا عمل جب اس کو اللہ سے قریب کرتاہے تو ایک لطیف احساس کی صورت میں اس کا تجربہ اس کو اسی دنیا میں ہونے لگتا ہے۔ اس قربت تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ اور جہاد ہے۔ یعنی ڈرنے اور جدوجہد کرنے کی سطح پر اللہ کا پرستار بننا۔ آدمی کی زندگی میں ایسے لمحات آتے ہیں جب کہ وہ اپنے کو حق اور ناحق کے درمیان کھڑا ہوا پاتا ہے۔ حق کی طرف بڑھنے میں اس کی اَنا ٹوٹتی ہے۔ اس کی دنیوی مصلحتوں کا ڈھانچہ بکھرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جب کہ ناحق کا طریقہ اختیار کرنے میں اس کی اَنا قائم رہتی ہے۔ اس کی مصلحتیں پوری طرح محفوظ دکھائی دیتی ہیں۔ ایسے وقت میں جو شخص خدا سے ڈرے اور تمام دوسری باتوں کو نظر انداز کرکے خداکو پکڑلے۔ اور ہر مشکل اور ہر ناخوش گواری کو جھیل کر خدا کی طرف بڑھے تو یہی وہ چیز ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتی ہے۔ اور اِس قربت کا نقد تجربہ آدمی کو حسّيات کی سطح پر ایک لطیف ادراک کی صورت میں اسی وقت ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص تقویٰ اور جہاد کے راستے پر چلنے کے لیے تیار نہ ہو اس نے خدا کا انکار کیا۔ وہ خدا سے دور ہو کر ایسے عذاب میں پڑ جاتا ہے، جس سے وہ کسی طرح چھٹکارا نہ پاسکے گا۔ جزا کا معاملہ تمام تر خدا کے اختیار میں ہے۔ نہ تو ایسا ہے کہ کوئی بعد کی زندگی میں اصلاح کر لے تب بھی اس کے پچھلے اعمال اس سے نہ دھلیں اور نہ یہ بات ہے کہ یہاں کوئی اور طاقت ہے جو سفارش یا مداخلت کے زورپر کسی کے انجام کو بدل سکے۔ سارا معاملہ ایک خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہی کمال درجہ حکمت اور قدرت کے ساتھ سب کا فیصلہ کرے گا۔ سماجی جرائم کے لیے اسلام کی سزائیں دو خاص پہلوؤں کو سامنے رکھ کر مقرر کی گئی ہیں۔ ایک، آدمی کے جرم کی سزا۔ دوسرے یہ کہ سزا ایسی عبرت ناک ہو کہ اس کو دیکھ کر دوسرے مجرمین کی حوصلہ شکنی ہو۔ تاہم مجرم اگر جرم کے بعد اپنے فعل پر شرمندہ ہو۔ وہ اللہ سے معافی مانگے اور آئندہ اس قسم کی چیزوں کو بالکل چھوڑ دے تو امید ہے کہ آخرت میں اللہ اسے معاف کردے گا۔

۞ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنْكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوبُهُمْ ۛ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا ۛ سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ ۖ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِهِ ۖ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَٰذَا فَخُذُوهُ وَإِنْ لَمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا ۚ وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

📘 مدینہ میں اندرونی طورپر دو قسم کے لوگ اسلامی دعوت کے مخالفت کررہے تھے۔ ایک منافقین، دوسرے یہود۔ منافقین وہ لوگ تھے جو ظاہری اور نمائشی اسلام کو لیے ہوئے تھے۔ سچے اسلام کی دعوت میں ان کو اپنے اغراض ومفادات پر زد پڑتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یہود وہ لوگ تھے جو مذہب کی نمائندگی کی گدیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو محسوس ہوتا تھا کہ اسلامی دعوت ان کو ان کے برتری کے مقام سے نیچے اتار رہی ہے۔ یہ دونوں قسم کے لوگ سچے اسلام کی دعوت کو اپنا مشترک دشمن سمجھتے تھے۔ اس لیے اسلام کے خلاف مہم چلانے میں دونوں ایک ہوگئے۔ ان کے ’’بڑے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ خود نہ آتے۔ البتہ ان کے ’’چھوٹے‘‘ اس پر لگے ہوئے تھے کہ وہ آپ کی باتوں کوسنیں اور ا ن کو اپنے بڑوں تک پہنچائیں۔ پھر یہ لوگ اس کو الٹے معنی پہناتے اور آپ کو اور آپ کی تحریک کو بدنام کرتے۔ ان کی سرکشی نے ان کو ایسا ڈھیٹ بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کے کلام کو اس کے موقع ومحل سے ہٹا کر اس سے اپنا مفیدِ مطلب مفہوم نکالنے سے بھی نہ ڈرتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے کو خدا اور رسول کے تابع نہیں کرتے۔ بلکہ ان کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ جو بات اپنے ذوق کے مطابق ہو اس کو لے لو اور جو بات ذوق کے مطابق نہ ہو اس کو چھوڑ دو۔ یہ مزاج کسی آدمی کے لیے سخت فتنہ ہے۔ جن لوگوںکا یہ حال ہو کہ وہ حق کے مقابلہ میں مفاد اور مصلحت کو ترجیح دیں، جو ہر حال میں اپنے کو بڑائی کے مقام پر دیکھنا چاہیں، جو حق کو زیر کرنے کے لیے اس کے خلاف تخریبی سازشیں کریں، حتی کہ اپنے عمل کو جائز ثابت کرنے کے لیے خدا کے کلام کو بدل ڈالیں، ایسے لوگوں کی نفسیات بالآخر یہ ہوجاتی ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ انھوںنے خدا کا ساتھ چھوڑا، اس لیے خدا نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ ایسے لوگ خدا کی توفیق سے محروم ہو کر باطل مشغلوں میں لگے رہتے ہیں، یہاں تک کہ آگ کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اللہ کا جو بندہ اللہ کے سچے دین کا پیغام لے کر اٹھا ہو اس کو مخالفتوں کی وجہ سے بے ہمت نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی سرگرمیاں حقیقۃً داعی کے خلاف نہیں بلکہ خدا کے خلاف ہیں۔ اس لیے وہ کبھی کامیاب نہیںہوسکتیں۔ دعوتی عمل سے اللہ کو جو چیز مطلوب ہے وہ صرف یہ کہ اصل بات سے بخوبی طورپر لوگوں کو آگاہ کردیا جائے۔ اور یہ کام اللہ کی مدد سے لازماً اپنی تکمیل تک پہنچ کر رہتا ہے۔

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِنْ تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَنْ يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

📘 حرام (سُحت) سے مراد رشوت ہے۔ رشوت کی ایک عام شکل وہ ہے جو براہِ راست اسی نام پر لی جاتی ہے۔ چنانچہ یہودی علماء میں ایسے لوگ تھے جو رشوت لے کر غلط مسائل بتایا کرتے تھے۔ تاہم رشوت کی ایک اور صورت وہ ہے جس میں براہِ راست لین دین نہیں ہوتا مگر وہ تمام رشوتوں میں زیادہ بڑی اور زیادہ قبیح رشوت ہوتی ہے۔ یہ ہے دین کو عوامی پسند کے مطابق بنا کر پیش کرنا تاکہ عوام کے درمیان مقبولیت ہو، لوگوں کا اعزاز واکرام ملے، لوگوں کے چندے اور نذرانے وصول ہوتے رہیں۔ دین کو اس کی بے آمیز صورت میں پیش کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی عوام کے اندر نامقبول ہوجائے۔ اس کے برعکس دین کو اگر ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی بھی نہ کرنا پڑے اور آدمی کو دین بھی حاصل رہے تو ایسے دین کے گرد بہت جلد بھیڑ کی بھیڑ اكٹھا ہوجاتی ہے — وہ دین جس میں اپنی دنیا پرستانہ زندگی کو بدلے بغیر کچھ سستے اعمال کے ذریعہ جنت مل رہی ہو۔ وہ دین جو قومی اور مادی ہنگامہ آرائیوں کو دینی جواز عطا کرتا ہو۔ وہ دین جس میں یہ موقع ہو کہ آدمی اپنی جاہ پسندی کے لیے سرگرم ہو، پھر بھی وہ جو کچھ کرے سب دین کے خانہ میں لکھا جاتا رہے۔ جو لوگ اس قسم کا دین پیش کریں وہ بہت جلد عوام کے اندر محبوبیت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ یہود کے قائدین اسی قسم کا دین چلا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ وہ عوام کو ان کا پسندیدہ دین پیش کررہے تھے اور عوام اس کے معاوضہ میں ان کو مالی تعاون سے لے کر اعزاز واکرام تک ہر چیز نثار کررہے تھے۔ ایسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچے دین کی آواز بلند کرنا ان کو ناقابلِ برداشت معلوم ہوا۔ کیوں کہ یہ ان کے مفادات کے ڈھانچہ کو توڑنے کے ہم معنی تھا، آپ سے ان کو اتنی ضد ہوگئی کہ آپ کے متعلق کسی اچھی خبر سے ان کو کوئی دل چسپی نہ رہی۔ البتہ اگر وہ آپ کے بارے میں کوئی بری خبر سنتے تو اس میں خوب دل چسپی لیتے اور اس میں اضافہ کرکے اس کو پھیلاتے۔ جن لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ آجائے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ دینی فیصلہ لینے کی طرف رجوع بھی ہوتے ہیں تو اس امید میں کہ فیصلہ اپنی خواہش کے مطابق ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ جانتے ہوئے کہ یہ خدا ورسول کا فیصلہ ہے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنا محض ایک فیصلہ کو نہ ماننا نہیں ہے بلکہ خود ایمان واسلام کا انکار کرنا ہے۔

وَكَيْفَ يُحَكِّمُونَكَ وَعِنْدَهُمُ التَّوْرَاةُ فِيهَا حُكْمُ اللَّهِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۚ وَمَا أُولَٰئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ

📘 حرام (سُحت) سے مراد رشوت ہے۔ رشوت کی ایک عام شکل وہ ہے جو براہِ راست اسی نام پر لی جاتی ہے۔ چنانچہ یہودی علماء میں ایسے لوگ تھے جو رشوت لے کر غلط مسائل بتایا کرتے تھے۔ تاہم رشوت کی ایک اور صورت وہ ہے جس میں براہِ راست لین دین نہیں ہوتا مگر وہ تمام رشوتوں میں زیادہ بڑی اور زیادہ قبیح رشوت ہوتی ہے۔ یہ ہے دین کو عوامی پسند کے مطابق بنا کر پیش کرنا تاکہ عوام کے درمیان مقبولیت ہو، لوگوں کا اعزاز واکرام ملے، لوگوں کے چندے اور نذرانے وصول ہوتے رہیں۔ دین کو اس کی بے آمیز صورت میں پیش کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی عوام کے اندر نامقبول ہوجائے۔ اس کے برعکس دین کو اگر ایسی صورت میں پیش کیا جائے کہ زندگی میں کوئی حقیقی تبدیلی بھی نہ کرنا پڑے اور آدمی کو دین بھی حاصل رہے تو ایسے دین کے گرد بہت جلد بھیڑ کی بھیڑ اكٹھا ہوجاتی ہے — وہ دین جس میں اپنی دنیا پرستانہ زندگی کو بدلے بغیر کچھ سستے اعمال کے ذریعہ جنت مل رہی ہو۔ وہ دین جو قومی اور مادی ہنگامہ آرائیوں کو دینی جواز عطا کرتا ہو۔ وہ دین جس میں یہ موقع ہو کہ آدمی اپنی جاہ پسندی کے لیے سرگرم ہو، پھر بھی وہ جو کچھ کرے سب دین کے خانہ میں لکھا جاتا رہے۔ جو لوگ اس قسم کا دین پیش کریں وہ بہت جلد عوام کے اندر محبوبیت کا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ یہود کے قائدین اسی قسم کا دین چلا کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ وہ عوام کو ان کا پسندیدہ دین پیش کررہے تھے اور عوام اس کے معاوضہ میں ان کو مالی تعاون سے لے کر اعزاز واکرام تک ہر چیز نثار کررہے تھے۔ ایسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچے دین کی آواز بلند کرنا ان کو ناقابلِ برداشت معلوم ہوا۔ کیوں کہ یہ ان کے مفادات کے ڈھانچہ کو توڑنے کے ہم معنی تھا، آپ سے ان کو اتنی ضد ہوگئی کہ آپ کے متعلق کسی اچھی خبر سے ان کو کوئی دل چسپی نہ رہی۔ البتہ اگر وہ آپ کے بارے میں کوئی بری خبر سنتے تو اس میں خوب دل چسپی لیتے اور اس میں اضافہ کرکے اس کو پھیلاتے۔ جن لوگوں میں اس قسم کا بگاڑ آجائے ان کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اگر وہ دینی فیصلہ لینے کی طرف رجوع بھی ہوتے ہیں تو اس امید میں کہ فیصلہ اپنی خواہش کے مطابق ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ جانتے ہوئے کہ یہ خدا ورسول کا فیصلہ ہے اس کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنا محض ایک فیصلہ کو نہ ماننا نہیں ہے بلکہ خود ایمان واسلام کا انکار کرنا ہے۔

إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

📘 خدا کی کتاب اس لیے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی ابدی فلاح کی راہ دکھائے۔ خواہش پرستی کے اندھیرے سے نکال کر ان کو حق پرستی کی روشنی میں لائے۔ جو خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ خدا کی کتاب کو خدا اور بندے کے درمیان مقدس عہد سمجھتے ہیں جس میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی جائز نہ ہو۔ وہ اس کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ ٹھیک ٹھیک اس کی ادائیگی کرے۔ اللہ کی کتاب بندوں کے حق میں اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے معاملات میں اسی کی ہدایت پر چلا جائے اور باہمی نزاعات میں اسی کے احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ خدا کی کتاب کو اگریہ حاکمانہ حیثیت نہ دی جائے بلکہ اپنے معاملات ونزاعات کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے تابع رکھا جائے تو یہ خدا کی کتاب سے انکار کے ہم معنی ہوگا، خواہ تبرک کے طور پر اس کا کتنا ہی زیادہ ظاہری احترام کیا جاتا ہو۔ جو لوگ اپنے كومسلم کہیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ اختیار اور آزادی رکھتے ہوئے بھی اپنے معاملات کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق نہ کریں بلکہ خواہشوں کی شریعت پر چلیں، وہ اللہ کی نظر میں کافر اور ظالم اور فاسق ہیں۔ وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرنے والے ہیں، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ہیں۔ حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی۔ قصاص کے سلسلے میں شریعت کا تقاضا ہے کہ کسی کی حیثیت کی پروا کیے بغیر اس کا نفاذ کیاجائے۔ تاہم بعض اوقات آدمی کی جارحیت اس کی شرپسندی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وقتی جذبہ کے تحت صادر ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مجروح جارح کو معاف کردے تو یہ اس کی طرف سے جارح کے لیے ایک صدقہ ہوگا اور سماج میں وسعت ظرف کی فضا پیدا کرنے کا ذریعہ۔

وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 خدا کی کتاب اس لیے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی ابدی فلاح کی راہ دکھائے۔ خواہش پرستی کے اندھیرے سے نکال کر ان کو حق پرستی کی روشنی میں لائے۔ جو خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ خدا کی کتاب کو خدا اور بندے کے درمیان مقدس عہد سمجھتے ہیں جس میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی جائز نہ ہو۔ وہ اس کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ ٹھیک ٹھیک اس کی ادائیگی کرے۔ اللہ کی کتاب بندوں کے حق میں اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے معاملات میں اسی کی ہدایت پر چلا جائے اور باہمی نزاعات میں اسی کے احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ خدا کی کتاب کو اگریہ حاکمانہ حیثیت نہ دی جائے بلکہ اپنے معاملات ونزاعات کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے تابع رکھا جائے تو یہ خدا کی کتاب سے انکار کے ہم معنی ہوگا، خواہ تبرک کے طور پر اس کا کتنا ہی زیادہ ظاہری احترام کیا جاتا ہو۔ جو لوگ اپنے كومسلم کہیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ اختیار اور آزادی رکھتے ہوئے بھی اپنے معاملات کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق نہ کریں بلکہ خواہشوں کی شریعت پر چلیں، وہ اللہ کی نظر میں کافر اور ظالم اور فاسق ہیں۔ وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرنے والے ہیں، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ہیں۔ حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی۔ قصاص کے سلسلے میں شریعت کا تقاضا ہے کہ کسی کی حیثیت کی پروا کیے بغیر اس کا نفاذ کیاجائے۔ تاہم بعض اوقات آدمی کی جارحیت اس کی شرپسندی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وقتی جذبہ کے تحت صادر ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مجروح جارح کو معاف کردے تو یہ اس کی طرف سے جارح کے لیے ایک صدقہ ہوگا اور سماج میں وسعت ظرف کی فضا پیدا کرنے کا ذریعہ۔

وَقَفَّيْنَا عَلَىٰ آثَارِهِمْ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ ۖ وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَاةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ

📘 خدا کی کتاب اس لیے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی ابدی فلاح کی راہ دکھائے۔ خواہش پرستی کے اندھیرے سے نکال کر ان کو حق پرستی کی روشنی میں لائے۔ جو خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ خدا کی کتاب کو خدا اور بندے کے درمیان مقدس عہد سمجھتے ہیں جس میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی جائز نہ ہو۔ وہ اس کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ ٹھیک ٹھیک اس کی ادائیگی کرے۔ اللہ کی کتاب بندوں کے حق میں اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے معاملات میں اسی کی ہدایت پر چلا جائے اور باہمی نزاعات میں اسی کے احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ خدا کی کتاب کو اگریہ حاکمانہ حیثیت نہ دی جائے بلکہ اپنے معاملات ونزاعات کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے تابع رکھا جائے تو یہ خدا کی کتاب سے انکار کے ہم معنی ہوگا، خواہ تبرک کے طور پر اس کا کتنا ہی زیادہ ظاہری احترام کیا جاتا ہو۔ جو لوگ اپنے كومسلم کہیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ اختیار اور آزادی رکھتے ہوئے بھی اپنے معاملات کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق نہ کریں بلکہ خواہشوں کی شریعت پر چلیں، وہ اللہ کی نظر میں کافر اور ظالم اور فاسق ہیں۔ وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرنے والے ہیں، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ہیں۔ حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی۔ قصاص کے سلسلے میں شریعت کا تقاضا ہے کہ کسی کی حیثیت کی پروا کیے بغیر اس کا نفاذ کیاجائے۔ تاہم بعض اوقات آدمی کی جارحیت اس کی شرپسندی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وقتی جذبہ کے تحت صادر ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مجروح جارح کو معاف کردے تو یہ اس کی طرف سے جارح کے لیے ایک صدقہ ہوگا اور سماج میں وسعت ظرف کی فضا پیدا کرنے کا ذریعہ۔

وَلْيَحْكُمْ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

📘 خدا کی کتاب اس لیے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی ابدی فلاح کی راہ دکھائے۔ خواہش پرستی کے اندھیرے سے نکال کر ان کو حق پرستی کی روشنی میں لائے۔ جو خدا سے ڈرنے والے ہیں وہ خدا کی کتاب کو خدا اور بندے کے درمیان مقدس عہد سمجھتے ہیں جس میں اپنی طرف سے کمی یا زیادتی جائز نہ ہو۔ وہ اس کی تعمیل اس طرح کرتے ہیں جس طرح کسی کے پاس کوئی امانت ہو اور وہ ٹھیک ٹھیک اس کی ادائیگی کرے۔ اللہ کی کتاب بندوں کے حق میں اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ضرورت ہوتی ہے کہ زندگی کے معاملات میں اسی کی ہدایت پر چلا جائے اور باہمی نزاعات میں اسی کے احکام کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ خدا کی کتاب کو اگریہ حاکمانہ حیثیت نہ دی جائے بلکہ اپنے معاملات ونزاعات کو اپنی دنیوی مصلحتوں کے تابع رکھا جائے تو یہ خدا کی کتاب سے انکار کے ہم معنی ہوگا، خواہ تبرک کے طور پر اس کا کتنا ہی زیادہ ظاہری احترام کیا جاتا ہو۔ جو لوگ اپنے كومسلم کہیں مگر ان کا حال یہ ہو کہ وہ اختیار اور آزادی رکھتے ہوئے بھی اپنے معاملات کا فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق نہ کریں بلکہ خواہشوں کی شریعت پر چلیں، وہ اللہ کی نظر میں کافر اور ظالم اور فاسق ہیں۔ وہ خدا کی حاکمانہ حیثیت کا انکار کرنے والے ہیں، وہ حق کے تلف کرنے والے ہیں، وہ اطاعت خداوندی کے عہد سے نکل جانے والے ہیں۔ حکم شریعت کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے بعد آدمی کی کوئی حیثیت خدا کے یہاں باقی نہیں رہتی۔ قصاص کے سلسلے میں شریعت کا تقاضا ہے کہ کسی کی حیثیت کی پروا کیے بغیر اس کا نفاذ کیاجائے۔ تاہم بعض اوقات آدمی کی جارحیت اس کی شرپسندی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ وقتی جذبہ کے تحت صادر ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں اگر مجروح جارح کو معاف کردے تو یہ اس کی طرف سے جارح کے لیے ایک صدقہ ہوگا اور سماج میں وسعت ظرف کی فضا پیدا کرنے کا ذریعہ۔

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ

📘 یہاں ’’کتاب‘‘ سے مراد دین کی اصلی اور اساسی تعلیمات ہیں۔ اللہ کی یہ کتاب ایک ہی کتاب ہے اور وہی ایک کتاب، زبان اور ترتیب کے فرق کے ساتھ، تمام نبیوں کی طرف اتاری گئی ہے۔ تاہم دین کی حقیقت جس ظاہری ڈھانچہ میں متشکل ہوتی ہے اس میں مختلف انبیاء کے درمیان فرق پایا جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ نہیں کہ دین کے اتارنے میںکوئی ارتقائی ترتیب ہے۔ یعنی پہلے کم ترقی یافتہ اور غیر کامل دین اتارا گیا اور اس کے بعد زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ کامل دین اترا۔ اس فرق کی وجہ خدا کی حکمت ابتلا ہے، نہ کہ حکمت ارتقاء۔ قرآن کے مطابق ایسا صرف اس لیے ہوا کہ لوگوں کو آزمایا جائے۔ زمانہ گزرنے کے بعد ایساہوتا ہے کہ دین کی اندرونی حقیقت گم ہوجاتی ہے، اور ظواہر ورسوم مقدس ہو کر اصل بن جاتے ہیں۔ لوگ عبادت اس کو سمجھ لیتے ہیں کہ ایک خاص ڈھانچہ کو ظاہری شرائط کے ساتھ دہرالیا جائے۔ اس لیے ظاہری ڈھانچہ میں بار بار تبدیلیاں کی گئیں تاکہ ڈھانچہ کی مقصودیت کا ذہن ختم ہو اور خدا کے سوا کوئی اور چیز توجہ کا مرکز نہ بننے پائے۔ اس کی ایک مثال قبلہ کی تبدیلی ہے۔ بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کریں۔ یہ حکم صرف رخ بندی کے لیے تھا۔ مگر دھیرے دھیرے ان کا ذہن یہ بن گیا کہ بیت المقدس کی طرف رخ کرنے ہی کا نام عبادت ہے۔ اس وقت سابقہ حکم کو بدل کر کعبہ کو قبلہ بنا دیا گیا۔ اب کچھ لوگ سابقہ روایت سے لپٹے رہے اور کچھ لوگوں نے خدا کی ہدایت کو پالیا۔ اس طرح تبدیلیٔ قبلہ سے یہ کھل گیا کہ کون درو دیوار کو پوجنے والا تھا اور کون خدا کو پوجنے والا (بقرہ ، 2:143 )۔ اب اس قسم کی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ کیوں کہ ڈھانچہ کو نبی بدلتا ہے اور نبی اب آنے والا نہیں۔ تاہم جہاں تک اصل مقصود کا تعلق ہے وہ بدستور باقی ہے۔ اب بھی خدا کے یہاں اس کا سچا پرستار وہی شمار ہوگا جو ظاہری ڈھانچہ کی پابندی کے باوجود ظاہری ڈھانچہ کو مقصودیت کا درجہ نہ دے، جو ظواہر سے ذہن کو آزاد کرکے خدا کی عبادت کرے۔ پہلے یہ مقصد ظاہری ڈھانچہ کو توڑ کر حاصل ہوتا تھا اب اس کو ذہنی شکست و ریخت (deconditioning)کے ذریعہ حاصل کرناہوگا۔ ظواہر کے نام پر دین میں جوجھگڑے ہیں وہ صرف اس لیے ہیں کہ لوگوں کی غفلت نے ان کو اصل حقیقت سے بے خبر کردیا ہے۔ اگر حقیقت کو وہ اس طرح پالیں جس طرح وہ آخرت میں دکھائی دے گی تو تمام جھگڑے ابھی ختم ہوجائیں۔

وَأَنِ احْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ وَاحْذَرْهُمْ أَنْ يَفْتِنُوكَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكَ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُصِيبَهُمْ بِبَعْضِ ذُنُوبِهِمْ ۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونَ

📘 قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفے الگ الگ کتابیں نہیں ہیں۔ یہ سب ایک ہی کتابِ الٰہی کے مختلف ایڈیشن ہیں جس کو یہاں ’’الکتاب‘‘ کہاگیا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنی کتابیں آئیں، خواہ وہ جس دور میں اور جس زبان میں آئی ہوں، سب کا مشترک مضمون ایک ہی تھا۔ تاہم پچھلی کتابوں کے حاملین بعد کے زمانہ میں ان کو ان کی اصلی صورت میں محفوظ نه رکھ سکے۔ اس لیے خدا نے ایک کتاب مُہَیْمِنْ (قرآن) اتارا۔ یہ خدا کی طرف سے اس کی کتاب کا مستند ایڈیشن ہے اور اس بنا پر وہ ایک کسوٹی ہے جس پر جانچ کر معلوم کیا جائے کہ بقیہ کتابوں کا کون سا حصہ اصلی حالت میں ہے اور کون سا وہ ہے جو بدلا جاچکا ہے۔ یہود خدا کے سچے دین کے ساتھ اپنی باتوں کو ملا کر ایک خود ساختہ دین بنائے ہوئے تھے۔ اس خود ساختہ دین سے ان کی عقیدتیں بھی وابستہ تھیں اور ان کے مفادات بھی۔ اس لیے وہ کسی طرح تیار نہ تھے کہ اس کو چھوڑ کر پیغمبر کے لائے ہوئے بے آمیز دین کو مان لیں۔ انھوںنے حق کے آگے جھکنے کے بجائے اپنے لیے يه طریقہ پسند کیا کہ وہ حق کے علم بردار کو اتنا زیادہ پریشان کریں کہ وہ خود ان کے آگے جھک جائے، وہ خدا کے سچے دین کو چھوڑ کر ان کے اپنے بنائے ہوئے دین کو اختیار کرلے۔ خدا اگر چاہتا تو پہلے ہی مرحلہ میں ان ظالموں کا ہاتھ روک دیتا اور وہ حق کے داعی کو ستانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ مگر اللہ نے انھیں چھوٹ دی کہ وہ اپنے ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لاسکیں۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ یہ بات پوری طرح کھل جائے کہ دین داری کے یہ دعوے دار سب سے زیادہ بے دین لوگ ہیں۔ وہ خدا کے پرستار نہیں ہیں بلکہ خود اپنی ذات کے پرستار ہیں۔ اللہ کی یہ سنت اگر چہ حق کے داعیوں کے لیے بڑا سخت امتحان ہے۔ مگر یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعہ یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کون جنت کا مستحق ہے اور کون جہنم کا۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنا چاہتا ہے، اللہ کے حکم کا پابند بن کر رہنا اس کو گوارا نہیں ہوتا۔ حتی کہ دین خداوندی کی خود ساختہ تشریح کرکے وہ اس کو بھی اپنی خواہشوں کے سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔ ایسی حالت میں بے آمیز دین کو وہی لوگ قبول کریں گے جو چیزوں کو خواہش کی سطح پر نہ دیکھتے ہوں بلکہ اس سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے قائم کرتے ہوں۔ اللہ کی بات بلا شبہ صحیح ترین بات ہے۔ مگر موجودہ آزمائشی دنیا میں ہر سچائی پر ایک شبہہ کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس پردہ کو پھاڑ کر اس پر یقین کرے، وہ غیب کو شہود میں دیکھ لے۔ جو شخص ظاہری شبہات میں اٹک جائے وہ ناکام ہوگیا اور جو شخص ظاہری شبہات کے غبار کو پار کرکے سچائی کو پالے وہ کامیاب رہا۔

الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 وہ تمام چیزیں جن کو فطرت کی نگاہ پاک اور ستھرا محسوس کرتی ہے۔ اور وہ تمام جانور جو اپنی سرشت کے لحاظ سے انسان کی سرشت سے مناسبت رکھتے ہیں انسان کے لیے حلال ہیں۔ البتہ یہ شرط ہے کہ خارجی سبب سے ان کے اندر کوئی شرعی یا طبی خرابي نہ پیدا ہوگئي ہو۔ تاہم اس اصول کو انسان محض اپنی عقل سے پوری طرح متعین نہیں کرسکتا۔ اس لیے ا س کو تعین کے ساتھ بھی بیان کردیا گیا۔ سدھائے ہوئے جانور کا شکار بھی اسی لیے حلال ہے کہ وہ شکار کو اپنے مالک کے لیے پکڑ کر رکھتا ہے۔ گویا اس نے آدمی کی خو سیکھ لی۔ ایسا جانور گویا شکار کے معاملے میں خود آدمی کا قائم مقام بن گیا۔ حلال وحرام کا قانون خواہ کتنی هي تفصیل کے ساتھ بتا دیا جائے بالآخر آدمی کا اپنا ارادہ ہی ہے جو اس کو کسی چیز سے روکتا ہے اور کسی چیز کی طرف لے جاتا ہے۔ آدمی کے اوپر اصل نگراں قانون کی دفعات نہیں بلکہ وہ خود ہے۔ اگر آدمی خود نہ چاہے تو قانون کو مانتے ہوئے وہ اس سے فرار کی راہیں تلاش کرلے گا۔ یہ صرف اللہ کا خوف ہے جو آدمی کو پابند کرتا ہے کہ وہ قانون کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ ملحوظ رکھے۔ اسی لیے حرام وحلال کا قانون بتاتے ہوئے کہاگیا اللہ سے ڈرو، اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔ مسلمان عورت کے لیے کسی حال میں جائز نہیں کہ وہ غیر مسلم مرد سے نکاح کرلے۔ مگر مسلمان مردوں کو مخصوص شرائط کے تحت اجازت دی گئی ہے کہ وہ اہل کتاب عورتوں کے ساتھ نکاح کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کی حکمت یہ ہے کہ عورت فطرۃً تاثر پذیر مزاج رکھتی ہے۔ اس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ عملی زندگی میں آنے کے بعد اپنے مسلم شوہر اور مسلم معاشرہ کا اثر قبول کرلے اور اس طرح نکاح اس کے لیے اسلام میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے۔ ’’جو شخص ایمان سے انکار کرے تو اس کا عمل ضائع ہوگیا‘‘، یعنی ایمان کے بغیر عمل کی کوئی حقیقت نہیں۔ عمل وہی ہے جو خالص اللہ کے لیے کیا جائے۔ جو عمل اللہ کے لیے نہ ہو وہ خود اپنے لیے ہوتا ہے۔ پھر اپنی خاطر كيے ہوئے عمل کی قیمت اللہ کیوں دے گا۔

أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ حُكْمًا لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

📘 قرآن اور دوسرے آسمانی صحیفے الگ الگ کتابیں نہیں ہیں۔ یہ سب ایک ہی کتابِ الٰہی کے مختلف ایڈیشن ہیں جس کو یہاں ’’الکتاب‘‘ کہاگیا ہے۔ خدا کی طرف سے جتنی کتابیں آئیں، خواہ وہ جس دور میں اور جس زبان میں آئی ہوں، سب کا مشترک مضمون ایک ہی تھا۔ تاہم پچھلی کتابوں کے حاملین بعد کے زمانہ میں ان کو ان کی اصلی صورت میں محفوظ نه رکھ سکے۔ اس لیے خدا نے ایک کتاب مُہَیْمِنْ (قرآن) اتارا۔ یہ خدا کی طرف سے اس کی کتاب کا مستند ایڈیشن ہے اور اس بنا پر وہ ایک کسوٹی ہے جس پر جانچ کر معلوم کیا جائے کہ بقیہ کتابوں کا کون سا حصہ اصلی حالت میں ہے اور کون سا وہ ہے جو بدلا جاچکا ہے۔ یہود خدا کے سچے دین کے ساتھ اپنی باتوں کو ملا کر ایک خود ساختہ دین بنائے ہوئے تھے۔ اس خود ساختہ دین سے ان کی عقیدتیں بھی وابستہ تھیں اور ان کے مفادات بھی۔ اس لیے وہ کسی طرح تیار نہ تھے کہ اس کو چھوڑ کر پیغمبر کے لائے ہوئے بے آمیز دین کو مان لیں۔ انھوںنے حق کے آگے جھکنے کے بجائے اپنے لیے يه طریقہ پسند کیا کہ وہ حق کے علم بردار کو اتنا زیادہ پریشان کریں کہ وہ خود ان کے آگے جھک جائے، وہ خدا کے سچے دین کو چھوڑ کر ان کے اپنے بنائے ہوئے دین کو اختیار کرلے۔ خدا اگر چاہتا تو پہلے ہی مرحلہ میں ان ظالموں کا ہاتھ روک دیتا اور وہ حق کے داعی کو ستانے میں کامیاب نہ ہوتے۔ مگر اللہ نے انھیں چھوٹ دی کہ وہ اپنے ناپاک منصوبوں کو بروئے کار لاسکیں۔ ایسا اس لیے ہوا تاکہ یہ بات پوری طرح کھل جائے کہ دین داری کے یہ دعوے دار سب سے زیادہ بے دین لوگ ہیں۔ وہ خدا کے پرستار نہیں ہیں بلکہ خود اپنی ذات کے پرستار ہیں۔ اللہ کی یہ سنت اگر چہ حق کے داعیوں کے لیے بڑا سخت امتحان ہے۔ مگر یہی وہ عمل ہے جس کے ذریعہ یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ کون جنت کا مستحق ہے اور کون جہنم کا۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنا چاہتا ہے، اللہ کے حکم کا پابند بن کر رہنا اس کو گوارا نہیں ہوتا۔ حتی کہ دین خداوندی کی خود ساختہ تشریح کرکے وہ اس کو بھی اپنی خواہشوں کے سانچہ میں ڈھال لیتا ہے۔ ایسی حالت میں بے آمیز دین کو وہی لوگ قبول کریں گے جو چیزوں کو خواہش کی سطح پر نہ دیکھتے ہوں بلکہ اس سے اوپر اٹھ کر اپنی رائے قائم کرتے ہوں۔ اللہ کی بات بلا شبہ صحیح ترین بات ہے۔ مگر موجودہ آزمائشی دنیا میں ہر سچائی پر ایک شبہہ کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس پردہ کو پھاڑ کر اس پر یقین کرے، وہ غیب کو شہود میں دیکھ لے۔ جو شخص ظاہری شبہات میں اٹک جائے وہ ناکام ہوگیا اور جو شخص ظاہری شبہات کے غبار کو پار کرکے سچائی کو پالے وہ کامیاب رہا۔

۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 عرب میں مسلمان ابھی ایک نئی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مزید یہ کہ ان کے مخالفین ان کو اکھاڑنے کی کوشش میں رات دن لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف عرب کے یہودی اور عیسائی قبائل کا یہ حال تھا کہ وهاں کے بیشتر اقتصادی وسائل پر ان کا قبضہ تھا۔ صدیوں کی تاریخ نے ان کی عظمت لوگوں کے دلوںپر بٹھا رکھی تھی۔ لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ ایسی طاقت کو ملک سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی جماعت میں جو کمزور لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ اسلام کی جدوجہد میں اس طرح شریک نہ ہوں کہ یہود ونصاریٰ کو اپنا دشمن بنالیں۔ تاکہ یہ کش مکش اگر مسلمانوں کی شکست پر ختم ہوتو یہود ونصاریٰ کی طرف سے انھیں کسی انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ لوگ مستقبل کے موہوم خطرہ سے بچنے کے لیے اپنے کو وقت کے یقینی خطرہ میں مبتلا کررہے تھے، اور وہ ان کی دہری وفاداری تھی۔ جو شخص بے ضرر معاملات میں حق پرست بنے اور ضرر کا اندیشہ ہوتو باطل پرستوں کا ساتھ دینے لگے، اس کا انجام خدا کے یہاں انھیں لوگوں میں ہوگا جن کا اس نے خطرہ کے مواقع پر ساتھ دیا۔ کسی کی زندگی میں وہ وقت بڑا نازک ہوتا ہے جب کہ اسلام پر قائم رہنے کے لیے اس کو کسی قسم کی قربانی دینی پڑے۔ ایسے مواقع آدمی کے اسلام کی تصدیق یا تردید کرنے کے لیے آتے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ آدمی جس اسلام کا ثبوت بے خطر حالات میں دے رہا تھا اسی اسلام کا ثبوت وہ اس وقت بھی دے جب کہ جذبات کو دبا کر یا جان ومال کا خطرہ مول لے کر آدمی اپنے اسلام کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس امتحان میں پورا اترنے کے بعد ہی آدمی اس قابل بنتا ہے کہ اس کا خدا اس کو اپنے وفادار بندوں میں لکھ لے۔ ان مواقع پر استقامت کا ثبوت دینا ہی کسی آدمی کے پچھلے اعمال کو باقیمت بناتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے مواقع پر استقامت کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے پچھلے تمام اعمال کو بے قیمت کرلیا۔ دنیا کا ہر امتحان ارادہ کا امتحان ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خطرات کو نظر انداز کرکے ارادہ کا ثبوت دے دے، وہ اللہ کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا دے۔ اس کے بعد فوراً خدا کی مدد اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مگر جو شخص ارادہ کا ثبوت نہ دے، جو خدا کی طرف اپنا پہلا قدم نہ اٹھائے وہ اللہ کی نظر میں ظالم ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا یک طرفہ طورپر اپنی مدد کا سہارا نہیں بھیجتا۔

فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَنْ تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِنْ عِنْدِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنْفُسِهِمْ نَادِمِينَ

📘 عرب میں مسلمان ابھی ایک نئی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مزید یہ کہ ان کے مخالفین ان کو اکھاڑنے کی کوشش میں رات دن لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف عرب کے یہودی اور عیسائی قبائل کا یہ حال تھا کہ وهاں کے بیشتر اقتصادی وسائل پر ان کا قبضہ تھا۔ صدیوں کی تاریخ نے ان کی عظمت لوگوں کے دلوںپر بٹھا رکھی تھی۔ لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ ایسی طاقت کو ملک سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی جماعت میں جو کمزور لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ اسلام کی جدوجہد میں اس طرح شریک نہ ہوں کہ یہود ونصاریٰ کو اپنا دشمن بنالیں۔ تاکہ یہ کش مکش اگر مسلمانوں کی شکست پر ختم ہوتو یہود ونصاریٰ کی طرف سے انھیں کسی انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ لوگ مستقبل کے موہوم خطرہ سے بچنے کے لیے اپنے کو وقت کے یقینی خطرہ میں مبتلا کررہے تھے، اور وہ ان کی دہری وفاداری تھی۔ جو شخص بے ضرر معاملات میں حق پرست بنے اور ضرر کا اندیشہ ہوتو باطل پرستوں کا ساتھ دینے لگے، اس کا انجام خدا کے یہاں انھیں لوگوں میں ہوگا جن کا اس نے خطرہ کے مواقع پر ساتھ دیا۔ کسی کی زندگی میں وہ وقت بڑا نازک ہوتا ہے جب کہ اسلام پر قائم رہنے کے لیے اس کو کسی قسم کی قربانی دینی پڑے۔ ایسے مواقع آدمی کے اسلام کی تصدیق یا تردید کرنے کے لیے آتے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ آدمی جس اسلام کا ثبوت بے خطر حالات میں دے رہا تھا اسی اسلام کا ثبوت وہ اس وقت بھی دے جب کہ جذبات کو دبا کر یا جان ومال کا خطرہ مول لے کر آدمی اپنے اسلام کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس امتحان میں پورا اترنے کے بعد ہی آدمی اس قابل بنتا ہے کہ اس کا خدا اس کو اپنے وفادار بندوں میں لکھ لے۔ ان مواقع پر استقامت کا ثبوت دینا ہی کسی آدمی کے پچھلے اعمال کو باقیمت بناتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے مواقع پر استقامت کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے پچھلے تمام اعمال کو بے قیمت کرلیا۔ دنیا کا ہر امتحان ارادہ کا امتحان ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خطرات کو نظر انداز کرکے ارادہ کا ثبوت دے دے، وہ اللہ کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا دے۔ اس کے بعد فوراً خدا کی مدد اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مگر جو شخص ارادہ کا ثبوت نہ دے، جو خدا کی طرف اپنا پہلا قدم نہ اٹھائے وہ اللہ کی نظر میں ظالم ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا یک طرفہ طورپر اپنی مدد کا سہارا نہیں بھیجتا۔

وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ

📘 عرب میں مسلمان ابھی ایک نئی طاقت کی حیثیت رکھتے تھے۔ مزید یہ کہ ان کے مخالفین ان کو اکھاڑنے کی کوشش میں رات دن لگے ہوئے تھے۔ دوسری طرف عرب کے یہودی اور عیسائی قبائل کا یہ حال تھا کہ وهاں کے بیشتر اقتصادی وسائل پر ان کا قبضہ تھا۔ صدیوں کی تاریخ نے ان کی عظمت لوگوں کے دلوںپر بٹھا رکھی تھی۔ لوگوں کو یقین نہیں تھا کہ ایسی طاقت کو ملک سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کی جماعت میں جو کمزور لوگ تھے وہ چاہتے تھے کہ اسلام کی جدوجہد میں اس طرح شریک نہ ہوں کہ یہود ونصاریٰ کو اپنا دشمن بنالیں۔ تاکہ یہ کش مکش اگر مسلمانوں کی شکست پر ختم ہوتو یہود ونصاریٰ کی طرف سے انھیں کسی انتقامی کارروائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ لوگ مستقبل کے موہوم خطرہ سے بچنے کے لیے اپنے کو وقت کے یقینی خطرہ میں مبتلا کررہے تھے، اور وہ ان کی دہری وفاداری تھی۔ جو شخص بے ضرر معاملات میں حق پرست بنے اور ضرر کا اندیشہ ہوتو باطل پرستوں کا ساتھ دینے لگے، اس کا انجام خدا کے یہاں انھیں لوگوں میں ہوگا جن کا اس نے خطرہ کے مواقع پر ساتھ دیا۔ کسی کی زندگی میں وہ وقت بڑا نازک ہوتا ہے جب کہ اسلام پر قائم رہنے کے لیے اس کو کسی قسم کی قربانی دینی پڑے۔ ایسے مواقع آدمی کے اسلام کی تصدیق یا تردید کرنے کے لیے آتے ہیں۔ خدا چاہتا ہے کہ آدمی جس اسلام کا ثبوت بے خطر حالات میں دے رہا تھا اسی اسلام کا ثبوت وہ اس وقت بھی دے جب کہ جذبات کو دبا کر یا جان ومال کا خطرہ مول لے کر آدمی اپنے اسلام کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اس امتحان میں پورا اترنے کے بعد ہی آدمی اس قابل بنتا ہے کہ اس کا خدا اس کو اپنے وفادار بندوں میں لکھ لے۔ ان مواقع پر استقامت کا ثبوت دینا ہی کسی آدمی کے پچھلے اعمال کو باقیمت بناتا ہے۔ اور اگر وہ ایسے مواقع پر استقامت کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے پچھلے تمام اعمال کو بے قیمت کرلیا۔ دنیا کا ہر امتحان ارادہ کا امتحان ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خطرات کو نظر انداز کرکے ارادہ کا ثبوت دے دے، وہ اللہ کی طرف اپنا پہلا قدم اٹھا دے۔ اس کے بعد فوراً خدا کی مدد اس کا سہارا بن جاتی ہے۔ مگر جو شخص ارادہ کا ثبوت نہ دے، جو خدا کی طرف اپنا پہلا قدم نہ اٹھائے وہ اللہ کی نظر میں ظالم ہے۔ ایسے لوگوں کو خدا یک طرفہ طورپر اپنی مدد کا سہارا نہیں بھیجتا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ

📘 ایمان لانے کے بعد جو شخص ایمان کے تقاضے پورے نہ کرے وہ اللہ کی نظر میں دین کو قبول کرنے کے بعد دین سے پھر گیا۔ اللہ کی نظر میں سچے ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اندر ایمان اس طرح داخل ہو کہ ان کو محبت کی سطح پر اللہ سے تعلق پیدا ہوجائے، ان کو اسلامی مقاصد کی تکمیل اتنی عزیز ہو کہ جو لوگ اسلام کی راہ میں ان کے بھائی بنیں ان کے لیے ان کے دل میں نرمی اور ہمدردی کے سوا کوئی اور چیز باقی نہ رہے۔ وہ مسلمانوں کے لیے اس درجہ شفیق بن جائیں کہ ان کی طاقت اور ان کی صلاحیت کبھی مسلمانوں کے مقابلہ میں استعمال نہ ہو۔ وہ دین کے معاملہ میں اتنے پختہ ہوں کہ غیر اسلامی لوگوں کے افکار واعمال سے کوئی اثر قبول نہ کریں۔ ان کے جذبات اس درجہ اصول کے تابع ہوجائیں کہ حق كو قبول كرنےکے معاملے ميں وہ پھول سے زیادہ نازک ثابت ہوں مگر ناحق کے معامله ميں وہ پتھر سے زیادہ سخت بن جائیں۔ تاكه کوئی بھي ان کو اپنے بے جا مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ اسلامی زندگی ایک بامقصد زندگی ہے اور اسی لیے وہ جدوجہد کی زندگی ہے۔ مسلمان کامشن یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچائے۔جہنم کی طرف جاتی ہوئی دنیا کو جنت کے راستہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کام ميںفطری طورپر آدمی كو طرح طرح کی مشكلات اور طرح طرح کي ملامت ومخالفت كاسامناهوتا هے۔ يهاں تك کہ دو الگ الگ گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک دنیا پرستوں کا اور دوسرا آخرت کے مسافروں کا۔ ان کے درمیان ایک مستقل کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ ان سارے مواقع پر وہ اس انسان کا ثبوت دے جو اللہ کے بھروسہ پر چل رہا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی پروا کیے بغیر اپنا اسلامی سفر جاری رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کے دروازہ میں داخل ہو کر خدا کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ کسی مقام پر جب قابل لحاظ تعداد میں پیدا ہوجائیں تو زمین کا غلبہ بھی انھیں کے لیے مقدر کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں۔ یعنی ان کا مرکز توجہ تمام تر اللہ بن جاتا ہے۔ وہ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ یعنی ان کے باہمی تعلقات ایک دوسرے کی خیر خواہی پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے آگے جھکنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی معاملات دنیا میں کوئی بھی چیز ان کو انانیت پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ وہ ہر موقع پر وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہے۔ وہ تواضع اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ سرکشی کرنے والے۔

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ

📘 ایمان لانے کے بعد جو شخص ایمان کے تقاضے پورے نہ کرے وہ اللہ کی نظر میں دین کو قبول کرنے کے بعد دین سے پھر گیا۔ اللہ کی نظر میں سچے ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اندر ایمان اس طرح داخل ہو کہ ان کو محبت کی سطح پر اللہ سے تعلق پیدا ہوجائے، ان کو اسلامی مقاصد کی تکمیل اتنی عزیز ہو کہ جو لوگ اسلام کی راہ میں ان کے بھائی بنیں ان کے لیے ان کے دل میں نرمی اور ہمدردی کے سوا کوئی اور چیز باقی نہ رہے۔ وہ مسلمانوں کے لیے اس درجہ شفیق بن جائیں کہ ان کی طاقت اور ان کی صلاحیت کبھی مسلمانوں کے مقابلہ میں استعمال نہ ہو۔ وہ دین کے معاملہ میں اتنے پختہ ہوں کہ غیر اسلامی لوگوں کے افکار واعمال سے کوئی اثر قبول نہ کریں۔ ان کے جذبات اس درجہ اصول کے تابع ہوجائیں کہ حق كو قبول كرنےکے معاملے ميں وہ پھول سے زیادہ نازک ثابت ہوں مگر ناحق کے معامله ميں وہ پتھر سے زیادہ سخت بن جائیں۔ تاكه کوئی بھي ان کو اپنے بے جا مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ اسلامی زندگی ایک بامقصد زندگی ہے اور اسی لیے وہ جدوجہد کی زندگی ہے۔ مسلمان کامشن یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچائے۔جہنم کی طرف جاتی ہوئی دنیا کو جنت کے راستہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کام ميںفطری طورپر آدمی كو طرح طرح کی مشكلات اور طرح طرح کي ملامت ومخالفت كاسامناهوتا هے۔ يهاں تك کہ دو الگ الگ گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک دنیا پرستوں کا اور دوسرا آخرت کے مسافروں کا۔ ان کے درمیان ایک مستقل کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ ان سارے مواقع پر وہ اس انسان کا ثبوت دے جو اللہ کے بھروسہ پر چل رہا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی پروا کیے بغیر اپنا اسلامی سفر جاری رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کے دروازہ میں داخل ہو کر خدا کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ کسی مقام پر جب قابل لحاظ تعداد میں پیدا ہوجائیں تو زمین کا غلبہ بھی انھیں کے لیے مقدر کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں۔ یعنی ان کا مرکز توجہ تمام تر اللہ بن جاتا ہے۔ وہ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ یعنی ان کے باہمی تعلقات ایک دوسرے کی خیر خواہی پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے آگے جھکنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی معاملات دنیا میں کوئی بھی چیز ان کو انانیت پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ وہ ہر موقع پر وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہے۔ وہ تواضع اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ سرکشی کرنے والے۔

وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ

📘 ایمان لانے کے بعد جو شخص ایمان کے تقاضے پورے نہ کرے وہ اللہ کی نظر میں دین کو قبول کرنے کے بعد دین سے پھر گیا۔ اللہ کی نظر میں سچے ایمان والے لوگ وہ ہیں جن کے اندر ایمان اس طرح داخل ہو کہ ان کو محبت کی سطح پر اللہ سے تعلق پیدا ہوجائے، ان کو اسلامی مقاصد کی تکمیل اتنی عزیز ہو کہ جو لوگ اسلام کی راہ میں ان کے بھائی بنیں ان کے لیے ان کے دل میں نرمی اور ہمدردی کے سوا کوئی اور چیز باقی نہ رہے۔ وہ مسلمانوں کے لیے اس درجہ شفیق بن جائیں کہ ان کی طاقت اور ان کی صلاحیت کبھی مسلمانوں کے مقابلہ میں استعمال نہ ہو۔ وہ دین کے معاملہ میں اتنے پختہ ہوں کہ غیر اسلامی لوگوں کے افکار واعمال سے کوئی اثر قبول نہ کریں۔ ان کے جذبات اس درجہ اصول کے تابع ہوجائیں کہ حق كو قبول كرنےکے معاملے ميں وہ پھول سے زیادہ نازک ثابت ہوں مگر ناحق کے معامله ميں وہ پتھر سے زیادہ سخت بن جائیں۔ تاكه کوئی بھي ان کو اپنے بے جا مقاصد کے لیے استعمال نہ کرسکے۔ اسلامی زندگی ایک بامقصد زندگی ہے اور اسی لیے وہ جدوجہد کی زندگی ہے۔ مسلمان کامشن یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کو اللہ کے تمام بندوں تک پہنچائے۔جہنم کی طرف جاتی ہوئی دنیا کو جنت کے راستہ پر لانے کی کوشش کرے۔ اس کام ميںفطری طورپر آدمی كو طرح طرح کی مشكلات اور طرح طرح کي ملامت ومخالفت كاسامناهوتا هے۔ يهاں تك کہ دو الگ الگ گروہ بن جاتے ہیں۔ ایک دنیا پرستوں کا اور دوسرا آخرت کے مسافروں کا۔ ان کے درمیان ایک مستقل کش مکش شروع ہوجاتی ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ ان سارے مواقع پر وہ اس انسان کا ثبوت دے جو اللہ کے بھروسہ پر چل رہا ہے اور اللہ کے سوا کسی کی پروا کیے بغیر اپنا اسلامی سفر جاری رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کے دروازہ میں داخل ہو کر خدا کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس طرح کے لوگ کسی مقام پر جب قابل لحاظ تعداد میں پیدا ہوجائیں تو زمین کا غلبہ بھی انھیں کے لیے مقدر کردیا جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں۔ یعنی ان کا مرکز توجہ تمام تر اللہ بن جاتا ہے۔ وہ زکوۃ ادا کرتے ہیں۔ یعنی ان کے باہمی تعلقات ایک دوسرے کی خیر خواہی پر قائم ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے آگے جھکنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی معاملات دنیا میں کوئی بھی چیز ان کو انانیت پر آمادہ نہیں کرتی بلکہ وہ ہر موقع پر وہی کرتے ہیں جو اللہ چاہے۔ وہ تواضع اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ سرکشی کرنے والے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 وہ لوگ جو خود ساختہ دین کی بنیاد پر خدا پرستی کے اجارہ دار بنے ہوئے ہوں ان کے درمیان جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف وہ اتنی شدید نفرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اپنی معقولیت تک کھوبیٹھتے ہیں۔ حتی کہ ایسی چیزیں جو بلا اختلاف قابل احترام ہیں ان کا بھی مذاق اڑانے لگتے ہیں۔یہی مدینہ کے یہود کاحال تھا۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی اذان کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں رکتے تھے۔ جو لوگ اتنے بے حس اور اتنے غیر سنجیدہ ہوجائیں ان سے ایک مسلمان کا تعلق دعوت کا تو ہوسکتا ہے مگر دوستی کا نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کی خدا سے بے خوفی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سچے مسلمانوں کو مجرم سمجھتے ہیں اور اپنے تمام جرائم کے باوجود اپنے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدا کے یہاں بالکل درست ہے۔ جب وہ اپنی اس کیفیت کی اصلاح نہیں کرتے تو بالآخر ان کی بے حسی ان کو اس نوبت تک پہنچاتی ہے کہ ان کی عقل حق وباطل کے معاملہ میں کند ہوجاتی ہے۔ وہ شکل کے اعتبار سے انسان مگر باطن کے اعتبار سے بدترین جانور بن جاتے ہیں۔ وہ لطیف احساسات جو آدمی کے اندر خدا کے چوکی دار کی طرح کام کرتے ہیں، جو اس کو برائیوں سے روکتے ہیں وہ ان کے اندر ختم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حیاء، شرافت، وسعت ظرف، پاکیزہ طریقوں کو پسند کرنا، وغیرہ۔ اس گراوٹ کا آخري درجہ یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی شیطانی راستوں پر چل پڑے۔ جب کوئی گروہ اس نوبت کو پہنچتا ہے تو وہ لعنت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ خدا کی رحمت سے آخری حد تک د ور ہوجاتا ہے۔ اس کی انسانیت مسخ ہوجاتی ہے وہ فطرت کے سیدھے راستہ سے بھٹک کر جانوروں کی طرح جینے لگتا ہے۔ انسان کو اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ عقل ہے۔ مگر جب آدمی پر ضد اور عداوت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کی عقل اس کی خواہش کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ اب وہ ظاہر میں انسان مگر باطن میں حیوان ہوتا ہے۔ حتی کہ صاحب بصیرت آدمی اس کو دیکھ کر جان لیتا ہے کہ اس کے ظاہری انسانی ڈھانچہ کے اندر کون سا حیوان چھپا ہوا ہے۔

وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْقِلُونَ

📘 وہ لوگ جو خود ساختہ دین کی بنیاد پر خدا پرستی کے اجارہ دار بنے ہوئے ہوں ان کے درمیان جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف وہ اتنی شدید نفرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اپنی معقولیت تک کھوبیٹھتے ہیں۔ حتی کہ ایسی چیزیں جو بلا اختلاف قابل احترام ہیں ان کا بھی مذاق اڑانے لگتے ہیں۔یہی مدینہ کے یہود کاحال تھا۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی اذان کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں رکتے تھے۔ جو لوگ اتنے بے حس اور اتنے غیر سنجیدہ ہوجائیں ان سے ایک مسلمان کا تعلق دعوت کا تو ہوسکتا ہے مگر دوستی کا نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کی خدا سے بے خوفی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سچے مسلمانوں کو مجرم سمجھتے ہیں اور اپنے تمام جرائم کے باوجود اپنے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدا کے یہاں بالکل درست ہے۔ جب وہ اپنی اس کیفیت کی اصلاح نہیں کرتے تو بالآخر ان کی بے حسی ان کو اس نوبت تک پہنچاتی ہے کہ ان کی عقل حق وباطل کے معاملہ میں کند ہوجاتی ہے۔ وہ شکل کے اعتبار سے انسان مگر باطن کے اعتبار سے بدترین جانور بن جاتے ہیں۔ وہ لطیف احساسات جو آدمی کے اندر خدا کے چوکی دار کی طرح کام کرتے ہیں، جو اس کو برائیوں سے روکتے ہیں وہ ان کے اندر ختم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حیاء، شرافت، وسعت ظرف، پاکیزہ طریقوں کو پسند کرنا، وغیرہ۔ اس گراوٹ کا آخري درجہ یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی شیطانی راستوں پر چل پڑے۔ جب کوئی گروہ اس نوبت کو پہنچتا ہے تو وہ لعنت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ خدا کی رحمت سے آخری حد تک د ور ہوجاتا ہے۔ اس کی انسانیت مسخ ہوجاتی ہے وہ فطرت کے سیدھے راستہ سے بھٹک کر جانوروں کی طرح جینے لگتا ہے۔ انسان کو اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ عقل ہے۔ مگر جب آدمی پر ضد اور عداوت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کی عقل اس کی خواہش کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ اب وہ ظاہر میں انسان مگر باطن میں حیوان ہوتا ہے۔ حتی کہ صاحب بصیرت آدمی اس کو دیکھ کر جان لیتا ہے کہ اس کے ظاہری انسانی ڈھانچہ کے اندر کون سا حیوان چھپا ہوا ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ

📘 وہ لوگ جو خود ساختہ دین کی بنیاد پر خدا پرستی کے اجارہ دار بنے ہوئے ہوں ان کے درمیان جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف وہ اتنی شدید نفرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اپنی معقولیت تک کھوبیٹھتے ہیں۔ حتی کہ ایسی چیزیں جو بلا اختلاف قابل احترام ہیں ان کا بھی مذاق اڑانے لگتے ہیں۔یہی مدینہ کے یہود کاحال تھا۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی اذان کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں رکتے تھے۔ جو لوگ اتنے بے حس اور اتنے غیر سنجیدہ ہوجائیں ان سے ایک مسلمان کا تعلق دعوت کا تو ہوسکتا ہے مگر دوستی کا نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کی خدا سے بے خوفی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سچے مسلمانوں کو مجرم سمجھتے ہیں اور اپنے تمام جرائم کے باوجود اپنے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدا کے یہاں بالکل درست ہے۔ جب وہ اپنی اس کیفیت کی اصلاح نہیں کرتے تو بالآخر ان کی بے حسی ان کو اس نوبت تک پہنچاتی ہے کہ ان کی عقل حق وباطل کے معاملہ میں کند ہوجاتی ہے۔ وہ شکل کے اعتبار سے انسان مگر باطن کے اعتبار سے بدترین جانور بن جاتے ہیں۔ وہ لطیف احساسات جو آدمی کے اندر خدا کے چوکی دار کی طرح کام کرتے ہیں، جو اس کو برائیوں سے روکتے ہیں وہ ان کے اندر ختم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حیاء، شرافت، وسعت ظرف، پاکیزہ طریقوں کو پسند کرنا، وغیرہ۔ اس گراوٹ کا آخري درجہ یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی شیطانی راستوں پر چل پڑے۔ جب کوئی گروہ اس نوبت کو پہنچتا ہے تو وہ لعنت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ خدا کی رحمت سے آخری حد تک د ور ہوجاتا ہے۔ اس کی انسانیت مسخ ہوجاتی ہے وہ فطرت کے سیدھے راستہ سے بھٹک کر جانوروں کی طرح جینے لگتا ہے۔ انسان کو اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ عقل ہے۔ مگر جب آدمی پر ضد اور عداوت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کی عقل اس کی خواہش کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ اب وہ ظاہر میں انسان مگر باطن میں حیوان ہوتا ہے۔ حتی کہ صاحب بصیرت آدمی اس کو دیکھ کر جان لیتا ہے کہ اس کے ظاہری انسانی ڈھانچہ کے اندر کون سا حیوان چھپا ہوا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا ۚ وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ ۚ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَٰكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 نماز کا مقصدآدمی کو برائیوں سے پاک کرنا ہے۔ وضو اسی کی ایک خارجی تیاری ہے۔ آدمی جب نماز کا ارادہ کرتا ہے تو پہلے وہ پانی کے پاس جاتا ہے۔ پانی بہت بڑی نعمت ہے جو آدمی کے لیے ہر قسم کی گندگی کو دھونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی طرح نماز بھی ایک ربانی چشمہ ہے جس میں نہا کر آدمی اپنے آپ کو برے جذبات اور گندے خیالات سے پاک کرتا ہے۔ آدمی وضو کو شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالتا ہے تو گویا عمل کی زبان میں یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا میرے ان ہاتھوں کو برائی سے بچا اور ان کے ذریعہ جو برائیاں مجھ سے ہوئی ہیں ان کو دھو کر صاف کردے۔ پھر وہ اپنے منھ میں پانی ڈالتا ہے اور اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کی روح زبان حال سے کہہ اٹھتی ہے کہ خدایا میں نے اپنے منھ میں جو غلط خوراک ڈالی ہو، میںنے اپنی زبان سے جو برا کلمہ نکالا ہو، میری آنکھوں نے جو بری چیز دیکھی ہو ان سب کو تو مجھ سے دور کردے۔ پھر وہ پانی لے کر اپنے ہاتھوں کو سر کے اوپر پھیرتا ہے تو اس کا وجو د سراپا اس دعا میں ڈھل جاتا ہے کہ خدایا میرے ذہن نے جو بری باتیں سوچی ہوں اور جو غلط منصوبے بنائے ہوں ان کے اثرات کو مجھ سے دھو دے اور میرے ذہن کو پاک صاف ذہن بنادے۔ پھر جب وہ اپنے پیروں کو دھوتا ہے تو اس کا عمل اس کے لیے اپنے رب کے سامنے یہ درخواست بن جاتا ہے کہ وہ اس کے پیروں سے برائی کی گرد کو دھودے اور اس کو ایسا بنا دے کہ سچائی اور انصاف کے راستے کے سوا کسی اور راستہ پر وہ کبھی نہ چلے۔ اس طرح پورا وضو آدمی کے لیے گویا اس دعا کی عملی صورت بن جاتا ہے— خدایا مجھے غلطی سے پلٹنے والا بنا اور مجھ کو برائیوں سے پاک رہنے والا بنا۔ عام حالات میں پاکی کا احساس پیدا کرنے کے لیے وضو کافی ہے۔ مگر جنابت کی حالت ایک غیرمعمولی حالت ہے۔ اس لیے اس میں پورے جسم کا دھونا (غسل) ضروری قرار دیاگیا۔ وضو اگر چھوٹا غسل ہے تو غسل بڑا وضو ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ وہ بندوں کو غیر ضروری مشقت میں ڈالے۔ اس لیے معذوری کی حالتوں میں پاکی کے احساس کو تازہ کرنے کے لیے تیمم کو کافی قرار دیا گیا۔ وضو اور غسل کے سادہ طریقے اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ اس طرح طہارت شرعی کو طہارت طبعی کے ساتھ جوڑدیاگیا ہے۔ معذوری کی حالت میں تیمم کی اجازت مزید نعمت ہے کیوں کہ یہ غلو سے بچانے والی ہے جس میں اکثر مذاہب كے لوگ مبتلا ہوئے۔

قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ

📘 وہ لوگ جو خود ساختہ دین کی بنیاد پر خدا پرستی کے اجارہ دار بنے ہوئے ہوں ان کے درمیان جب سچے اور بے آمیز دین کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کے خلاف وہ اتنی شدید نفرت میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اپنی معقولیت تک کھوبیٹھتے ہیں۔ حتی کہ ایسی چیزیں جو بلا اختلاف قابل احترام ہیں ان کا بھی مذاق اڑانے لگتے ہیں۔یہی مدینہ کے یہود کاحال تھا۔ چنانچہ وہ مسلمانوں کی اذان کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں رکتے تھے۔ جو لوگ اتنے بے حس اور اتنے غیر سنجیدہ ہوجائیں ان سے ایک مسلمان کا تعلق دعوت کا تو ہوسکتا ہے مگر دوستی کا نہیں ہوسکتا۔ ان لوگوں کی خدا سے بے خوفی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سچے مسلمانوں کو مجرم سمجھتے ہیں اور اپنے تمام جرائم کے باوجود اپنے متعلق یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کا معاملہ خدا کے یہاں بالکل درست ہے۔ جب وہ اپنی اس کیفیت کی اصلاح نہیں کرتے تو بالآخر ان کی بے حسی ان کو اس نوبت تک پہنچاتی ہے کہ ان کی عقل حق وباطل کے معاملہ میں کند ہوجاتی ہے۔ وہ شکل کے اعتبار سے انسان مگر باطن کے اعتبار سے بدترین جانور بن جاتے ہیں۔ وہ لطیف احساسات جو آدمی کے اندر خدا کے چوکی دار کی طرح کام کرتے ہیں، جو اس کو برائیوں سے روکتے ہیں وہ ان کے اندر ختم ہوجاتے ہیں۔ مثلاً حیاء، شرافت، وسعت ظرف، پاکیزہ طریقوں کو پسند کرنا، وغیرہ۔ اس گراوٹ کا آخري درجہ یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی شیطانی راستوں پر چل پڑے۔ جب کوئی گروہ اس نوبت کو پہنچتا ہے تو وہ لعنت کا مستحق بن جاتا ہے، وہ خدا کی رحمت سے آخری حد تک د ور ہوجاتا ہے۔ اس کی انسانیت مسخ ہوجاتی ہے وہ فطرت کے سیدھے راستہ سے بھٹک کر جانوروں کی طرح جینے لگتا ہے۔ انسان کو اپنی خواہشوں کے پیچھے چلنے سے جو چیز روکتی ہے، وہ عقل ہے۔ مگر جب آدمی پر ضد اور عداوت کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کی عقل اس کی خواہش کے نیچے دب کر رہ جاتی ہے۔ اب وہ ظاہر میں انسان مگر باطن میں حیوان ہوتا ہے۔ حتی کہ صاحب بصیرت آدمی اس کو دیکھ کر جان لیتا ہے کہ اس کے ظاہری انسانی ڈھانچہ کے اندر کون سا حیوان چھپا ہوا ہے۔

وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ

📘 مدینہ کے یہودیوں میں کچھ لوگ تھے جو اسلام سے ذہنی طور پر مرعوب تھے۔ نیز اسلام کا بڑھتا ہوا غلبہ دیکھ کر کھلم کھلا اس کا حریف بننا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یہ لوگ اگر چہ اندر سے اپنے آبائی دین پر جمے ہوئے تھے مگر الفاظ بول کر ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مومن ہیں۔ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ کسی انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور خدا وہ ہے جو دلوں تک کا حال جانتا ہے۔ وہ کسی سے جو معاملہ کرے گا حقیقت کے اعتبار سے کرے گا، نہ کہ ان الفاظ کی بنا پر جو اس نے مصلحت کے طورپر اپنے منھ سے نکالا تھا۔ یہود کے خواص میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک ربّی جن کو مشائخ کہاجاسکتا ہے۔ دوسرے احبار جو اُن کے علماء اور فقہا کی مانند تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اگر چہ دین ہی کو اپنا صبح وشام کا مشغلہ بنائے ہوئے تھے۔ دین کے نام پر ان کی قیادت قائم تھی۔ اور دین ہی کے نام پر ان کو بڑی بڑی رقمیں ملتی تھی۔ مگر ان کی قیادت ومقبولیت کا راز عوام پسند دین کی نمائندگی تھی، نہ کہ خدا پسند دین کی نمائندگی۔ ان کا بولنا اور ان کاچلنا بظاہر دین کے لیے تھا۔ مگر حقیقۃً وہ ایک قسم کی دنیاداری تھی جو دین کے نام پر جاری تھی۔ وہ دین کے نام پر لوگوں کو وہی چیز دے رہے تھے جس کو وہ دین کے بغیر اپنے لیے پسند كيے ہوئے تھے۔ خدا کا پسندیدہ دین تقویٰ کا دین ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ اس کی زبان گناہ کے کلمات نہ بولے، وہ اپنی سرگرمیوں میں حرام طریقوں سے پوری طرح بچتا ہو۔ جن لوگوں سے اس کا معاملہ پیش آئے ان کے ساتھ وہ انصاف کرنے والا ہو، نہ کہ ظلم کرنے والا۔ مگر آدمی کا نفس ہمیشہ اس کو دنیا پرستی کے راستہ پر ڈال دیتاہے۔ وہ ایسی زندگی گزارنا چاہتا ہے جس میں اس کو صحیح اور غلط نہ دیکھنا ہو بلکہ صرف اپنے فائدوں اور مصلحتوں کو دیکھنا ہو۔ یہود کے عوام اسی حالت پر تھے۔ اب ان کے خواص کا کام یہ تھا کہ وہ ان کو اس سے روکتے۔ مگر انھوںنے عوام سے ایک خاموش مفاہمت کرلی۔وہ عوام کے درمیان ایسا دین تقسیم کرنے لگے جس میں اپنی حقیقی زندگی کو بدلے بغیر نجات کی ضمانت ہو اور بڑے بڑے درجات طے ہوتے ہوں۔ یہ خواص اپنے عوام کی حقیقی زندگیوں کو نہ چھیڑتے البتہ ان کو ملت یہود کی فضیلت کے جھوٹے قصے سناتے۔ ان کے قومی ہنگاموں کو دین کے رنگ میں بیان کرتے۔ رسمی قسم کے اعمال دہرا دینے پر یہ بشارت دیتے کہ ان کے ذریعہ سے ان کے لیے جنت کے محل تعمیر ہورہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت برا کام ہے کہ لوگوں کے درمیان ایسا دین تقسیم کیا جائے جس میں حقیقی عملی زندگی کو بدلنا نہ ہو، البتہ کچھ نمائشی چیزوں کا اہتمام کرکے جنت کی ضمانت مل جائے۔

وَتَرَىٰ كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 مدینہ کے یہودیوں میں کچھ لوگ تھے جو اسلام سے ذہنی طور پر مرعوب تھے۔ نیز اسلام کا بڑھتا ہوا غلبہ دیکھ کر کھلم کھلا اس کا حریف بننا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یہ لوگ اگر چہ اندر سے اپنے آبائی دین پر جمے ہوئے تھے مگر الفاظ بول کر ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مومن ہیں۔ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ کسی انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور خدا وہ ہے جو دلوں تک کا حال جانتا ہے۔ وہ کسی سے جو معاملہ کرے گا حقیقت کے اعتبار سے کرے گا، نہ کہ ان الفاظ کی بنا پر جو اس نے مصلحت کے طورپر اپنے منھ سے نکالا تھا۔ یہود کے خواص میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک ربّی جن کو مشائخ کہاجاسکتا ہے۔ دوسرے احبار جو اُن کے علماء اور فقہا کی مانند تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اگر چہ دین ہی کو اپنا صبح وشام کا مشغلہ بنائے ہوئے تھے۔ دین کے نام پر ان کی قیادت قائم تھی۔ اور دین ہی کے نام پر ان کو بڑی بڑی رقمیں ملتی تھی۔ مگر ان کی قیادت ومقبولیت کا راز عوام پسند دین کی نمائندگی تھی، نہ کہ خدا پسند دین کی نمائندگی۔ ان کا بولنا اور ان کاچلنا بظاہر دین کے لیے تھا۔ مگر حقیقۃً وہ ایک قسم کی دنیاداری تھی جو دین کے نام پر جاری تھی۔ وہ دین کے نام پر لوگوں کو وہی چیز دے رہے تھے جس کو وہ دین کے بغیر اپنے لیے پسند كيے ہوئے تھے۔ خدا کا پسندیدہ دین تقویٰ کا دین ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ اس کی زبان گناہ کے کلمات نہ بولے، وہ اپنی سرگرمیوں میں حرام طریقوں سے پوری طرح بچتا ہو۔ جن لوگوں سے اس کا معاملہ پیش آئے ان کے ساتھ وہ انصاف کرنے والا ہو، نہ کہ ظلم کرنے والا۔ مگر آدمی کا نفس ہمیشہ اس کو دنیا پرستی کے راستہ پر ڈال دیتاہے۔ وہ ایسی زندگی گزارنا چاہتا ہے جس میں اس کو صحیح اور غلط نہ دیکھنا ہو بلکہ صرف اپنے فائدوں اور مصلحتوں کو دیکھنا ہو۔ یہود کے عوام اسی حالت پر تھے۔ اب ان کے خواص کا کام یہ تھا کہ وہ ان کو اس سے روکتے۔ مگر انھوںنے عوام سے ایک خاموش مفاہمت کرلی۔وہ عوام کے درمیان ایسا دین تقسیم کرنے لگے جس میں اپنی حقیقی زندگی کو بدلے بغیر نجات کی ضمانت ہو اور بڑے بڑے درجات طے ہوتے ہوں۔ یہ خواص اپنے عوام کی حقیقی زندگیوں کو نہ چھیڑتے البتہ ان کو ملت یہود کی فضیلت کے جھوٹے قصے سناتے۔ ان کے قومی ہنگاموں کو دین کے رنگ میں بیان کرتے۔ رسمی قسم کے اعمال دہرا دینے پر یہ بشارت دیتے کہ ان کے ذریعہ سے ان کے لیے جنت کے محل تعمیر ہورہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت برا کام ہے کہ لوگوں کے درمیان ایسا دین تقسیم کیا جائے جس میں حقیقی عملی زندگی کو بدلنا نہ ہو، البتہ کچھ نمائشی چیزوں کا اہتمام کرکے جنت کی ضمانت مل جائے۔

لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ

📘 مدینہ کے یہودیوں میں کچھ لوگ تھے جو اسلام سے ذہنی طور پر مرعوب تھے۔ نیز اسلام کا بڑھتا ہوا غلبہ دیکھ کر کھلم کھلا اس کا حریف بننا بھی نہیں چاہتے تھے۔ یہ لوگ اگر چہ اندر سے اپنے آبائی دین پر جمے ہوئے تھے مگر الفاظ بول کر ظاہر کرتے تھے کہ وہ بھی مومن ہیں۔ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ کسی انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور خدا وہ ہے جو دلوں تک کا حال جانتا ہے۔ وہ کسی سے جو معاملہ کرے گا حقیقت کے اعتبار سے کرے گا، نہ کہ ان الفاظ کی بنا پر جو اس نے مصلحت کے طورپر اپنے منھ سے نکالا تھا۔ یہود کے خواص میں دو قسم کے لوگ تھے۔ ایک ربّی جن کو مشائخ کہاجاسکتا ہے۔ دوسرے احبار جو اُن کے علماء اور فقہا کی مانند تھے۔ دونوں قسم کے لوگ اگر چہ دین ہی کو اپنا صبح وشام کا مشغلہ بنائے ہوئے تھے۔ دین کے نام پر ان کی قیادت قائم تھی۔ اور دین ہی کے نام پر ان کو بڑی بڑی رقمیں ملتی تھی۔ مگر ان کی قیادت ومقبولیت کا راز عوام پسند دین کی نمائندگی تھی، نہ کہ خدا پسند دین کی نمائندگی۔ ان کا بولنا اور ان کاچلنا بظاہر دین کے لیے تھا۔ مگر حقیقۃً وہ ایک قسم کی دنیاداری تھی جو دین کے نام پر جاری تھی۔ وہ دین کے نام پر لوگوں کو وہی چیز دے رہے تھے جس کو وہ دین کے بغیر اپنے لیے پسند كيے ہوئے تھے۔ خدا کا پسندیدہ دین تقویٰ کا دین ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان اس طرح رہے کہ اس کی زبان گناہ کے کلمات نہ بولے، وہ اپنی سرگرمیوں میں حرام طریقوں سے پوری طرح بچتا ہو۔ جن لوگوں سے اس کا معاملہ پیش آئے ان کے ساتھ وہ انصاف کرنے والا ہو، نہ کہ ظلم کرنے والا۔ مگر آدمی کا نفس ہمیشہ اس کو دنیا پرستی کے راستہ پر ڈال دیتاہے۔ وہ ایسی زندگی گزارنا چاہتا ہے جس میں اس کو صحیح اور غلط نہ دیکھنا ہو بلکہ صرف اپنے فائدوں اور مصلحتوں کو دیکھنا ہو۔ یہود کے عوام اسی حالت پر تھے۔ اب ان کے خواص کا کام یہ تھا کہ وہ ان کو اس سے روکتے۔ مگر انھوںنے عوام سے ایک خاموش مفاہمت کرلی۔وہ عوام کے درمیان ایسا دین تقسیم کرنے لگے جس میں اپنی حقیقی زندگی کو بدلے بغیر نجات کی ضمانت ہو اور بڑے بڑے درجات طے ہوتے ہوں۔ یہ خواص اپنے عوام کی حقیقی زندگیوں کو نہ چھیڑتے البتہ ان کو ملت یہود کی فضیلت کے جھوٹے قصے سناتے۔ ان کے قومی ہنگاموں کو دین کے رنگ میں بیان کرتے۔ رسمی قسم کے اعمال دہرا دینے پر یہ بشارت دیتے کہ ان کے ذریعہ سے ان کے لیے جنت کے محل تعمیر ہورہے ہیں۔ اللہ کے نزدیک یہ بہت برا کام ہے کہ لوگوں کے درمیان ایسا دین تقسیم کیا جائے جس میں حقیقی عملی زندگی کو بدلنا نہ ہو، البتہ کچھ نمائشی چیزوں کا اہتمام کرکے جنت کی ضمانت مل جائے۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ ۚ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ ۚ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۚ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۚ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ ۚ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا ۚ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ

📘 قرآن میں جب اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر زور دیاگیا اور کہاگیا کہ اللہ کو قرض حسن دو تو یہود نے اس کومذاق کا موضوع بنالیا۔ وہ کہتے کہ اللہ فقیر ہے اور اس کے بندے امیر ہیں۔ اللہ کے ہاتھ آج کل تنگ ہورہے ہیں۔ ان کی اس قسم کی باتوں کا رخ خدا کی طرف نہیں بلکہ رسول اور قرآن کی طرف ہوتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ خدا اس سے برتر ہے کہ اس کے یہاں کسی چیز کی کمی ہو۔ اس طرح کی باتیں وہ دراصل یہ ظاہر کرنے کے لیے کہتے تھے کہ يه رسول سچا رسول نہیں۔ اور قرآن خدا کی کتاب نہیں۔ اگر یہ قرآن خدا کی طرف سے ہوتا تو (نعوذ باللہ) ایسی مضحکہ خیز باتیں اس میں نہ ہوتیں۔ مگر جو لوگ اس قسم کی باتیں کریں وہ صرف یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ حقیقی دینی جذبہ سے خالی ہیں، وہ بے حسی کی سطح پر جی رہے ہیں۔ موجودہ امتحانی دنیا میں انسان کو عمل کی آزادی ہے۔ یہاں ایک شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ’’قرآن خدا کی کتاب ہے‘‘۔ اور اگر کوئی شخص یہ کہنا چاہے کہ ’’قرآن ایک بناوٹی کتاب ہے‘‘ تو اس کو بھی اپنی بات کہنے کے لیے الفاظ مل جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں آدمی ایک واقعہ سے ہدایت پکڑ سکتا ہے اور اسی واقعہ سے دوسرا آدمی سرکشی کی غذا بھي لے سکتا ہے۔ یہود نے جب قرآن کی ہدایت کو ماننے سے انکار کیا تو وہ سادہ معنوں میں محض انکار نہ تھا بلکہ اس کے پیچھے ان کا یہ زعم شامل تھا کہ ہم تو نجات یافتہ لوگ ہیں، ہمیں کسی او ر ہدایت کو ماننے کی کیا ضرورت۔ جو لوگ اس قسم کی پُرفخر نفسیات میں مبتلا ہوں ان کے اندر شدید ترین قسم کی اَنانیت جنم لیتی ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں جب ان کا معاملہ دوسروں سے پڑتا ہے تو وہاں بھی وہ اپنی ’’میں‘‘ کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ آپس کے اختلاف اور عناد کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ انسان بھی اسی اطاعت خداوندی کے دین کو اپنا لے جس کو کائنات کی تمام چیزیں اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی زمین کی اصلاح ہے۔ اب جو لوگ پیغمبرانہ دعوت کی راہ میں رکاوٹ ڈالیں وہ خدا کی زمین میں فساد پیدا کرنے کا کام کررہے ہیں۔ تاہم انسان کو بس اتنی ہی آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے اندر کے فساد کو باہر لائے، دوسروں کی قسمت کا مالک بننے کی آزادی کسی کو نہیں۔

وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ

📘 تمام گمراہیوں کا اصل سبب آدمی کا ڈھیٹ ہوجانا ہے۔ اگر آدمی اللہ سے ڈرے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگ سکتی کہ کون سی بات خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے اندر سے دوسرے تمام محرکات کو حذف کردے گی اور آدمی خدا کی بات کو فوراً پہچان کر اس کو مان لے گا۔ جب آدمی اس حد تک اپنے آپ کو خدا کی طرف متوجہ کردے تو اس کے بعد وہ بھی خدا کی توجہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔ خدا اس کی بشری کمزوریوں کو اس سے دھودیتا ہے اور مرنے کے بعد اس کو جنت کے نعمت بھرے باغوں میں جگہ دیتا ہے۔ آدمی کی برائیاں، بالفاظ دیگر اس کی نفسیاتی کمزوریاں، وہ چیزيں ہیں جو اس کو جنت کے راستہ پر بڑھنے نہیں دیتیں۔ خدا کی توفیق سے جو شخص اپنی نفسیاتی کمزوریوں پر قابو پالیتاہے وہی جنت کی منزل تک پہنچتا ہے۔ جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس سے متوحش ہوجاتے ہیں جو سابقه نظام كے تحت سرداري كا مقام حاصل كيے هوئے هوں۔ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کو قبول کرتے ہی ان کے معاشی مفادات اور ان کی قائدانہ عظمتیں ختم ہوجائیں گی۔ مگر یہ صرف تنگ نظری ہے۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جس چیز کو وہ توحش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں وہ صرف ان کی اہلیت کو جانچنے کے لیے ظاہر ہوئی ہے۔ آئندہ وہ خدا کے انعامات کے مستحق ہوں یا نہ ہوں اس کا فیصلہ ان کی اپنی تحفظاتی تدبیروں پر نہیں ہوگا بلکہ اس پر ہوگا کہ دعوت حق کے ساتھ وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ گویا دعوت حق کے انکار کے ذریعہ وہ اپنی جس بڑائی کو بچانا چاہتے ہیں وہی انکار وہ چیز ہے جو خدا کے نزدیک ان کے استحقاق کو ختم کررہا ہے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اصل خدائی تعلیمات میں افراط یا تفریط (بڑھا کر یا گھٹا کر)کرکے وہ ایک خود ساختہ دین بنا لیتے ہیں اور لمبی مدت گزرنے کے بعد اس کے افراد اس سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ اسی کو اصل خدائی مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میں جب خدا کا سیدھا اور سچا دین ان کے سامنے آتاہے تو وہ اس کو اپنے لیے غیر مانوس پاکر متوحش ہوتے ہیں۔ یہود ونصاریٰ کا یہی حال تھا۔ چنانچہ ان کی بہت بڑی اکثریت اسلام کی صداقت کو پانے سے قاصر رہی۔ صرف چند لوگ (مثلاً نجاشی شاہ حبش، عبد اللہ بن سلام، وغیرہ) جو اعتدال کی راہ پر باقی تھے، انھیں اسلام کی صداقت کو سمجھنے میں دیر نہیںلگی۔ انھوں نے بڑھ کر اسلام کو اس طرح اپنا لیا جیسے وہ پہلے سے اسی راستہ پر چل رہے ہوں اور اپنے سفر کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگئے ہوں۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ ۚ مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ

📘 تمام گمراہیوں کا اصل سبب آدمی کا ڈھیٹ ہوجانا ہے۔ اگر آدمی اللہ سے ڈرے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگ سکتی کہ کون سی بات خدا کی طرف سے آئی ہوئی بات ہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے اندر سے دوسرے تمام محرکات کو حذف کردے گی اور آدمی خدا کی بات کو فوراً پہچان کر اس کو مان لے گا۔ جب آدمی اس حد تک اپنے آپ کو خدا کی طرف متوجہ کردے تو اس کے بعد وہ بھی خدا کی توجہ کا مستحق ہوجاتا ہے۔ خدا اس کی بشری کمزوریوں کو اس سے دھودیتا ہے اور مرنے کے بعد اس کو جنت کے نعمت بھرے باغوں میں جگہ دیتا ہے۔ آدمی کی برائیاں، بالفاظ دیگر اس کی نفسیاتی کمزوریاں، وہ چیزيں ہیں جو اس کو جنت کے راستہ پر بڑھنے نہیں دیتیں۔ خدا کی توفیق سے جو شخص اپنی نفسیاتی کمزوریوں پر قابو پالیتاہے وہی جنت کی منزل تک پہنچتا ہے۔ جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ لوگ اس سے متوحش ہوجاتے ہیں جو سابقه نظام كے تحت سرداري كا مقام حاصل كيے هوئے هوں۔ان کو اندیشہ ہوتا ہے کہ اس کو قبول کرتے ہی ان کے معاشی مفادات اور ان کی قائدانہ عظمتیں ختم ہوجائیں گی۔ مگر یہ صرف تنگ نظری ہے۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ جس چیز کو وہ توحش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں وہ صرف ان کی اہلیت کو جانچنے کے لیے ظاہر ہوئی ہے۔ آئندہ وہ خدا کے انعامات کے مستحق ہوں یا نہ ہوں اس کا فیصلہ ان کی اپنی تحفظاتی تدبیروں پر نہیں ہوگا بلکہ اس پر ہوگا کہ دعوت حق کے ساتھ وہ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ گویا دعوت حق کے انکار کے ذریعہ وہ اپنی جس بڑائی کو بچانا چاہتے ہیں وہی انکار وہ چیز ہے جو خدا کے نزدیک ان کے استحقاق کو ختم کررہا ہے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ اصل خدائی تعلیمات میں افراط یا تفریط (بڑھا کر یا گھٹا کر)کرکے وہ ایک خود ساختہ دین بنا لیتے ہیں اور لمبی مدت گزرنے کے بعد اس کے افراد اس سے اس قدر مانوس ہو جاتے ہیں کہ اسی کو اصل خدائی مذہب سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسی حالت میں جب خدا کا سیدھا اور سچا دین ان کے سامنے آتاہے تو وہ اس کو اپنے لیے غیر مانوس پاکر متوحش ہوتے ہیں۔ یہود ونصاریٰ کا یہی حال تھا۔ چنانچہ ان کی بہت بڑی اکثریت اسلام کی صداقت کو پانے سے قاصر رہی۔ صرف چند لوگ (مثلاً نجاشی شاہ حبش، عبد اللہ بن سلام، وغیرہ) جو اعتدال کی راہ پر باقی تھے، انھیں اسلام کی صداقت کو سمجھنے میں دیر نہیںلگی۔ انھوں نے بڑھ کر اسلام کو اس طرح اپنا لیا جیسے وہ پہلے سے اسی راستہ پر چل رہے ہوں اور اپنے سفر کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوگئے ہوں۔

۞ يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ ۖ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ ۚ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

📘 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب عرب میں آئے تو ایسا نہ تھا کہ وہاں دین کا نام لینے والا کوئی نہ ہو۔ بلکہ ان کا سارا معاشرہ دین ہی کے نام پر قائم تھا۔ دین کے نام پر بہت سے لوگ پیشوائی اور قیادت کا مقام حاصل کیے ہوئے تھے۔ دین کے نام پر لوگوں کو بڑی بڑی رقمیں ملتی تھیں۔ دینی مناصب کا حامل ہونا معاشرہ میں عزت اور فخر کی علامت بنا ہوا تھا۔ اس کے باوجود آپ کو عرب کے لوگوں کی طرف سے سخت ترین مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دین خداوندی کے نام پر ان کے یہاں ایک خود ساختہ دین رائج ہوگیا تھا۔ صدیوں کی روایات کے نتیجہ میں اس دین کے نام پر گدّیاں بن گئی تھیں اور مفادات کی بہت سی صورتیں قائم ہوگئی تھیں۔ ایسے ماحول میں جب پیغمبر اسلام نے بے آمیز دین کی دعوت پیش کی تو لوگوںکو نظر آیا کہ وہ ان کی دینی حیثیت کو بے اعتبار ثابت کررہی ہے۔ ان کو اندیشہ ہوا کہ اگر یہ دین پھیلا تو ان کا وہ مذہبی ڈھانچہ ڈھ جائے گا جس میں ان کو بڑائی کا مقام ملا ہوا ہے۔ یہ صورت حال داعی کے لیے بہت سخت ہوتی ہے۔ اپنے دعوتی کام کو کھلے طورپر انجام دینا وقت کی مذہبی طاقتوں سے لڑنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ اس کو دکھائی دیتا ہے کہ اگر میں کسی مصالحت کے بغیر سچے دین کی تبلیغ کروں تو مجھ کو سخت ترین رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا مذاق اڑایا جائے گا۔ مجھ کو بے عزت کیا جائے گا۔ میری معاشیات تباہ کی جائیں گی۔ میرے خلاف جارحانہ کارروائیاں ہوں گی۔ میں اعوان وانصار سے محروم ہوجاؤں گا۔ اب اس کے سامنے دور راستے ہوتے ہیں۔ دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں دنیوی مصلحتوں کے سِرے ہاتھ سے چھوٹتے ہیں۔ اور اگر دنیوی مصلحتوں کا لحاظ کیا جائے تو دعوتی عمل کی پوری انجام دہی ناممکن نظر آتی ہے۔ یہاں خدا کا وعدہ داعی کو یکسو کرتاہے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ داعی اگر اپنے آپ کو خدا کے پیغام کی پیغام رسانی میں لگا دے تو لوگوں کی طرف سے ڈالی جانے والی مشکلات میں خدا اس کے لیے کافی ہوجائے گا۔ داعی کو چاہیے کہ وہ صرف دعوت کے تقاضوں کی تکمیل میں لگ جائے اور مدعو قوم کی طرف سے ڈالے جانے والے مصائب میں وہ خدا پر بھروسہ کرے۔ مخاطبین کا رد عمل ایک فطری چیز ہے اور داعی کو بہر حال اس سے سابقہ پیش آتا ہے۔ مگر اس کا اثر اسی دائرہ تک محدود رہتا ہے جتنا خدا کے قانونِ آزمائش کا تقاضا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ مخالفین اس حد تک قابو یافتہ ہوجائیں کہ وہ دعوتی مہم کو روک دیں یا اس کو تکمیل تک پہنچنے نہ دیں۔ ایک سچی دعوت کا اپنے دعوتی نشانہ تک پہنچنا ایک خدائی منصوبہ ہوتا ہے اس لیے وہ لازماً پورا ہو کر رہتاہے۔ اس کے بعد مدعو گروہ کا ماننا اس کی اپنی ذمہ داری ہے جو اسی کے بقدر نتیجہ خیز ہوتی ہے جتنا مدعو خود چاہتاہو۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَسْتُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ حَتَّىٰ تُقِيمُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا ۖ فَلَا تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 یہود کا یہ حال تھاکہ ان کے افراد عملاً خدا کے دین پر قائم نہ تھے۔ انھوںنے اپنے نفس کو اور اپنی زندگی کے معاملات کو خدا کے تابع نہیں کیا تھا۔ البتہ خوش گمانیوں کے تحت انھوں نے یہ عقیدہ بنا لیا تھا کہ خداکے یہاں ان کی نجات یقینی ہے۔ وہ اپنی قومی فضیلت کے افسانوں اور اپنے بزرگوں کے تقدس کی داستانوں میں جی رہے تھے مگر اللہ کے یہاں اس قسم کی خوش خیالیوں کی کوئی قیمت نہیں۔ اللہ کے یہاں جو کچھ قیمت ہے وہ صرف اس بات کی ہے کہ آدمی اللہ کے احکام کا پابند بنے اور اپنی حقیقی زندگی کو خدا کے دین پر قائم کرے۔ جو لوگ جھوٹی آرزوؤں میں جی رہے ہوں ان کے سامنے جب یہ دعوت آتی ہے کہ اللہ کے یہاں عمل کی قیمت ہے، نہ کہ آرزوؤں اور تمناؤں کی تو ایسی دعوت کے خلاف وہ شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی دعوت میں ان کو اپنی خوش خیالیوں کا محل گرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ وہ ایسی دعوت کے سخت مخالف ہوجاتے ہیں۔ نمائشی خدا پرستی کے اندر چھپی ہوئی ان کی خود پرستی بے پرده ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ جس دعوت سے ان کو ربانی غذا لینا چا ہیے تھا اس سے وہ صرف انکار اور سرکشی کی غذا لینے لگتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں جو پیغمبر آئے ان کے ماننے والوں کی نسلیں دھیرے دھیرے مستقل قوم کی صورت اختیار کرلیتی ہیں اب پیغمبروں کے نمونہ پر عمل تو باقی نہیں رہتا۔ البتہ اپنی عظمت وفضیلت کے قصیدے قصے کہانیوں کی صورت میں خوب پھیل جاتے ہیں۔ ہر گروہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہم سب سے افضل ہیں۔ ہماری نجات یقینی ہے۔ اللہ کے یہاں ہمارا درجہ سب سے بڑا ہوا ہے۔ مگر اس قسم کے گروہی مذاہب کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ اللہ کے یہاں ہر شخص کا مقدمہ انفرادی حیثیت میں پیش ہوگا اور اس کے مستقبل کی بابت جو کچھ فیصلہ ہوگا وہ تمام تر اس کے اپنے عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ خدا کی کتاب کو قائم کرنا نام ہے — اللہ پر یقین کرنے کا، آخرت کی پکڑ کے اندیشہ کو اپنے اوپر طاری کرنے کا اور انسانوں کے درمیان صالح کردار کے ساتھ زندگی گزارنے کا۔ یہی اصل دین ہے اور فرد کو یہی اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوم کی قیمت دنیا میںاسی وقت ہے جب کہ اس کے افراد اِس دینِ خداوندی پر قائم ہوں۔ اس سے ہٹنے کے بعد وہ خدا کی نظر میں بالکل بے قیمت ہوجاتے ہیں، حتی کہ کھلے ہوئے کافروں اور مشرکوں سے بھی زیادہ بے قیمت۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِئُونَ وَالنَّصَارَىٰ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 یہود کا یہ حال تھاکہ ان کے افراد عملاً خدا کے دین پر قائم نہ تھے۔ انھوںنے اپنے نفس کو اور اپنی زندگی کے معاملات کو خدا کے تابع نہیں کیا تھا۔ البتہ خوش گمانیوں کے تحت انھوں نے یہ عقیدہ بنا لیا تھا کہ خداکے یہاں ان کی نجات یقینی ہے۔ وہ اپنی قومی فضیلت کے افسانوں اور اپنے بزرگوں کے تقدس کی داستانوں میں جی رہے تھے مگر اللہ کے یہاں اس قسم کی خوش خیالیوں کی کوئی قیمت نہیں۔ اللہ کے یہاں جو کچھ قیمت ہے وہ صرف اس بات کی ہے کہ آدمی اللہ کے احکام کا پابند بنے اور اپنی حقیقی زندگی کو خدا کے دین پر قائم کرے۔ جو لوگ جھوٹی آرزوؤں میں جی رہے ہوں ان کے سامنے جب یہ دعوت آتی ہے کہ اللہ کے یہاں عمل کی قیمت ہے، نہ کہ آرزوؤں اور تمناؤں کی تو ایسی دعوت کے خلاف وہ شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی دعوت میں ان کو اپنی خوش خیالیوں کا محل گرتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ وہ ایسی دعوت کے سخت مخالف ہوجاتے ہیں۔ نمائشی خدا پرستی کے اندر چھپی ہوئی ان کی خود پرستی بے پرده ہو کر سامنے آجاتی ہے۔ جس دعوت سے ان کو ربانی غذا لینا چا ہیے تھا اس سے وہ صرف انکار اور سرکشی کی غذا لینے لگتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں جو پیغمبر آئے ان کے ماننے والوں کی نسلیں دھیرے دھیرے مستقل قوم کی صورت اختیار کرلیتی ہیں اب پیغمبروں کے نمونہ پر عمل تو باقی نہیں رہتا۔ البتہ اپنی عظمت وفضیلت کے قصیدے قصے کہانیوں کی صورت میں خوب پھیل جاتے ہیں۔ ہر گروہ سمجھنے لگتا ہے کہ ہم سب سے افضل ہیں۔ ہماری نجات یقینی ہے۔ اللہ کے یہاں ہمارا درجہ سب سے بڑا ہوا ہے۔ مگر اس قسم کے گروہی مذاہب کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ اللہ کے یہاں ہر شخص کا مقدمہ انفرادی حیثیت میں پیش ہوگا اور اس کے مستقبل کی بابت جو کچھ فیصلہ ہوگا وہ تمام تر اس کے اپنے عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی اور بنیاد پر۔ خدا کی کتاب کو قائم کرنا نام ہے — اللہ پر یقین کرنے کا، آخرت کی پکڑ کے اندیشہ کو اپنے اوپر طاری کرنے کا اور انسانوں کے درمیان صالح کردار کے ساتھ زندگی گزارنے کا۔ یہی اصل دین ہے اور فرد کو یہی اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوم کی قیمت دنیا میںاسی وقت ہے جب کہ اس کے افراد اِس دینِ خداوندی پر قائم ہوں۔ اس سے ہٹنے کے بعد وہ خدا کی نظر میں بالکل بے قیمت ہوجاتے ہیں، حتی کہ کھلے ہوئے کافروں اور مشرکوں سے بھی زیادہ بے قیمت۔

وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمِيثَاقَهُ الَّذِي وَاثَقَكُمْ بِهِ إِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ

📘 اسلام کی دعوت جب اٹھتی ہے تو وہ اپنے ابتدائی مرحلہ میں ’’آیات بینات‘‘ کے اوپر کھڑی ہوتی ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ اس کو ماحول میں ’’فتح‘‘ حاصل ہوجائے۔ پہلے دور میں صرف وہ لوگ اسلام کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ کرتے ہیں جو دلائل کی سطح پر کسی چیز کی عظمت کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مگر جب اسلام کو فتح و غلبہ حاصل ہوجائے تو ہر آدمی اس کی عظمت کو دیکھ لیتا ہے اور ہر آدمی آگے بڑھ کر اس کے لیے جان و مال پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ابتدائی دور میں اسلام کے لیے خرچ کرنے والے کو یک طرفہ طور پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ دوسرے دور میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ آدمی جتنا خرچ کرتا ہے اس سے زیادہ وه دو مختلف شکلوں میں اس کا انعام اسی دنیا میں پا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کا درجہ اللہ کے یہاں یکساں نہیں۔

لَقَدْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِمْ رُسُلًا ۖ كُلَّمَا جَاءَهُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنْفُسُهُمْ فَرِيقًا كَذَّبُوا وَفَرِيقًا يَقْتُلُونَ

📘 یہود سے اللہ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ ایمان واطاعت کا عہد لیا تھا۔وہ کچھ دن اس پر قائم رہے۔ اس کے بعد ان میں بگاڑ شروع ہوگیا۔ اب اللہ نے ان کے درمیان اپنے مصلحین اٹھائے جو ان کو اپنے عہد کی یاد دہانی کریں۔ مگر یہود کی بے راہی اور سرکشی بڑھتی ہی چلی گئی۔ انھوں نے خود نصیحت کرنے والوں کی زبان بند کرنے کی کوشش کی۔ حتی کہ کتنے لوگوں کو قتل کردیا۔ جب ان کی سرکشی حد کو پہنچ گئی تو اللہ نے بابل ونینویٰ (عراق) کے بادشاہ بنو خذ نصر کو ان کے اوپر مسلط کردیا جس نے 586 ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے یہود کے مقدس شہر کو ڈھا دیا۔ اور یہودیوںکو گرفتار کرکے اپنے ملک لے گیا تاکہ ان سے بیگار لے۔ اس واقعہ کے بعد یہود کے دل نرم ہوئے۔ انھوںنے اللہ سے معافی مانگی۔ اب اللہ نے سائرس (شاہ ایران) کے ذریعہ ان کی مدد کی۔ سائرس نے 539 ق م میں کلدانیوں کے اوپر حملہ کیا اور ان کو شکست دے کر ان کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے یہود کو جلاوطنی سے نجات دلا کر ان کو ان کے وطن جانے اور وہاں دوبارہ بسنے کی اجازت دے دی۔ اب یہود کو نئی زندگی ملی اور ان کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ مگر کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ غفلت اور سرکشی میںمبتلا ہوئے۔ اب پھر نبیوں اور مصلحین کے ذریعہ اللہ نے ان کو متنبہ کیا۔ مگر وہ ہوش میں نہ آئے، یہاں تک کہ انھوںنے حضرت یحییٰ کو قتل کردیا اور (اپنی حد تک) حضرت مسیح کو بھی۔ اب اللہ کا غضب ان پر بھڑکا اور 70 عیسوی میں رومی شہنشاہ ٹائٹس کو ان پر مسلط کردیاگیا۔ جس نے ان کے ملک پر حملہ کرکے ان کو ویران کردیا۔ اس کے بعد یہود کبھی اپنی ذاتی بنیادوں پر کھڑے نہ ہوسکے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کی نفسیات بعدکے زمانہ میں یہ بن جاتی ہے کہ وہ خدا کے خاص لوگ ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کریں اس پر ان کی پکڑ نہیں ہوگی۔ خدا کی تعلیمات میں اس عقیدہ کے خلاف کھلے کھلے بیانات ہوتے ہیں۔ مگر وہ ان کے بارے میں اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد خود ساختہ عقیدوں اور فرضي قصے کہانیوں کا ایسا ہالہ بنا لیتے ہیں کہ خدا کی تنبیہات ان کو دکھائی اور سنائی نہیں دیتیں۔ یہود کی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی ایک حاملِ کتاب قوم کو اس کے ’’دشمنوں کے قبضہ‘‘ میں دے دیا جائے تو یہ اس کے لیے خدا کی طرف سے آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہلکی سزا دے کر قوم کو جگایا جائے۔ اگر اس کے نتیجہ میں قوم کے افراد میںخدا پرست جذبات جاگ اٹھیں تو اس کے اوپر سزا اٹھالی جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو خدا اس کو رد کرکے پھینک دیتا ہے اور پھر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔

وَحَسِبُوا أَلَّا تَكُونَ فِتْنَةٌ فَعَمُوا وَصَمُّوا ثُمَّ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ ثُمَّ عَمُوا وَصَمُّوا كَثِيرٌ مِنْهُمْ ۚ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

📘 یہود سے اللہ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ ایمان واطاعت کا عہد لیا تھا۔وہ کچھ دن اس پر قائم رہے۔ اس کے بعد ان میں بگاڑ شروع ہوگیا۔ اب اللہ نے ان کے درمیان اپنے مصلحین اٹھائے جو ان کو اپنے عہد کی یاد دہانی کریں۔ مگر یہود کی بے راہی اور سرکشی بڑھتی ہی چلی گئی۔ انھوں نے خود نصیحت کرنے والوں کی زبان بند کرنے کی کوشش کی۔ حتی کہ کتنے لوگوں کو قتل کردیا۔ جب ان کی سرکشی حد کو پہنچ گئی تو اللہ نے بابل ونینویٰ (عراق) کے بادشاہ بنو خذ نصر کو ان کے اوپر مسلط کردیا جس نے 586 ق م میں یروشلم پر حملہ کرکے یہود کے مقدس شہر کو ڈھا دیا۔ اور یہودیوںکو گرفتار کرکے اپنے ملک لے گیا تاکہ ان سے بیگار لے۔ اس واقعہ کے بعد یہود کے دل نرم ہوئے۔ انھوںنے اللہ سے معافی مانگی۔ اب اللہ نے سائرس (شاہ ایران) کے ذریعہ ان کی مدد کی۔ سائرس نے 539 ق م میں کلدانیوں کے اوپر حملہ کیا اور ان کو شکست دے کر ان کے ملک پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس نے یہود کو جلاوطنی سے نجات دلا کر ان کو ان کے وطن جانے اور وہاں دوبارہ بسنے کی اجازت دے دی۔ اب یہود کو نئی زندگی ملی اور ان کو کافی فروغ حاصل ہوا۔ مگر کچھ دنوں کے بعد وہ دوبارہ غفلت اور سرکشی میںمبتلا ہوئے۔ اب پھر نبیوں اور مصلحین کے ذریعہ اللہ نے ان کو متنبہ کیا۔ مگر وہ ہوش میں نہ آئے، یہاں تک کہ انھوںنے حضرت یحییٰ کو قتل کردیا اور (اپنی حد تک) حضرت مسیح کو بھی۔ اب اللہ کا غضب ان پر بھڑکا اور 70 عیسوی میں رومی شہنشاہ ٹائٹس کو ان پر مسلط کردیاگیا۔ جس نے ان کے ملک پر حملہ کرکے ان کو ویران کردیا۔ اس کے بعد یہود کبھی اپنی ذاتی بنیادوں پر کھڑے نہ ہوسکے۔ آسمانی کتاب کی حامل قوموں کی نفسیات بعدکے زمانہ میں یہ بن جاتی ہے کہ وہ خدا کے خاص لوگ ہیں۔ وہ جو کچھ بھی کریں اس پر ان کی پکڑ نہیں ہوگی۔ خدا کی تعلیمات میں اس عقیدہ کے خلاف کھلے کھلے بیانات ہوتے ہیں۔ مگر وہ ان کے بارے میں اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ وہ اپنے گرد خود ساختہ عقیدوں اور فرضي قصے کہانیوں کا ایسا ہالہ بنا لیتے ہیں کہ خدا کی تنبیہات ان کو دکھائی اور سنائی نہیں دیتیں۔ یہود کی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی ایک حاملِ کتاب قوم کو اس کے ’’دشمنوں کے قبضہ‘‘ میں دے دیا جائے تو یہ اس کے لیے خدا کی طرف سے آزمائش کا وقت ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہلکی سزا دے کر قوم کو جگایا جائے۔ اگر اس کے نتیجہ میں قوم کے افراد میںخدا پرست جذبات جاگ اٹھیں تو اس کے اوپر سزا اٹھالی جاتی ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو خدا اس کو رد کرکے پھینک دیتا ہے اور پھر کبھی اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ

📘 حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی معجزے ديے۔ یہ معجزے اس لیے تھے کہ لوگ آپ کے پیغمبر ہونے کو پہچانیں اور آپ پر ایمان لائیں۔ مگر معاملہ برعکس ہوا۔ عیسائیوں نے آپ کے معجزات کو دیکھ کر یہ عقیدہ قائم کیا کہ آپ خدا ہیں۔ آپ کے اندر خدا حلول كيے ہوئے ہے۔ یہود نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ یہ ایک شعبدہ باز اور جادو گر ہیں۔ حضرت مسیح اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔ مگر ایک گروہ نے آپ سے شرک کی غذا لی اور دوسرے گروہ نے انکار کی۔ معبود وہی ہوسکتا ہے جو خود بے احتیاج ہو اور دوسرے کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھے۔ کھانا آدمی کے محتاج ہونے کی آخری علامت ہے۔ جو کھانے کا محتاج ہے وہ ہر چیز کا محتاج ہے۔ جو شخص کھانا کھاتا ہو وہ مکمل طورپر ایک محتاج ہستی ہے۔ ایسی ہستی خدا کس طرح ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ نفع نقصان کا ہے۔ کسی کو نفع ملنا یا کسی کو نقصان پہنچنا ایسے واقعات ہیں جن کے ظہور میںآنے کے لیے پوری کائنات کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قسم کے کائناتی اسباب فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ اس لیے انسانوں میں سے کسی انسان کا یہ درجہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کو معبود فرض کرلیا جائے۔ جب بھی آدمی خدا کے سوا کسی اور کو اپنی عقیدت ومحبت کا مرکز بناتا ہے تو اس کے پیچھے یہ چھپا ہوا جذبہ ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی دنیا میں کوئی بڑا درجہ حاصل ہے۔ وہ خدا کے یہاں اس کا مددگار بن سکتا ہے۔ مگر اس قسم کی تمام امیدیں محض جھوٹی امیدیں ہیں۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں خدا کے سوا دوسری چیزوں کا بے بس ہونا کھلا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے یہاں آدمی غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے۔ مگر آخرت میں جب تمام حقائق کھول ديے جائیں گے تو آدمی دیکھے گا کہ خدا کے سوا جن سہاروں پر وہ بھروسہ كيے ہوئے تھا وہ کس قدر بے قیمت تھے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ ۘ وَمَا مِنْ إِلَٰهٍ إِلَّا إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ وَإِنْ لَمْ يَنْتَهُوا عَمَّا يَقُولُونَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی معجزے ديے۔ یہ معجزے اس لیے تھے کہ لوگ آپ کے پیغمبر ہونے کو پہچانیں اور آپ پر ایمان لائیں۔ مگر معاملہ برعکس ہوا۔ عیسائیوں نے آپ کے معجزات کو دیکھ کر یہ عقیدہ قائم کیا کہ آپ خدا ہیں۔ آپ کے اندر خدا حلول كيے ہوئے ہے۔ یہود نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ یہ ایک شعبدہ باز اور جادو گر ہیں۔ حضرت مسیح اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔ مگر ایک گروہ نے آپ سے شرک کی غذا لی اور دوسرے گروہ نے انکار کی۔ معبود وہی ہوسکتا ہے جو خود بے احتیاج ہو اور دوسرے کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھے۔ کھانا آدمی کے محتاج ہونے کی آخری علامت ہے۔ جو کھانے کا محتاج ہے وہ ہر چیز کا محتاج ہے۔ جو شخص کھانا کھاتا ہو وہ مکمل طورپر ایک محتاج ہستی ہے۔ ایسی ہستی خدا کس طرح ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ نفع نقصان کا ہے۔ کسی کو نفع ملنا یا کسی کو نقصان پہنچنا ایسے واقعات ہیں جن کے ظہور میںآنے کے لیے پوری کائنات کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قسم کے کائناتی اسباب فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ اس لیے انسانوں میں سے کسی انسان کا یہ درجہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کو معبود فرض کرلیا جائے۔ جب بھی آدمی خدا کے سوا کسی اور کو اپنی عقیدت ومحبت کا مرکز بناتا ہے تو اس کے پیچھے یہ چھپا ہوا جذبہ ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی دنیا میں کوئی بڑا درجہ حاصل ہے۔ وہ خدا کے یہاں اس کا مددگار بن سکتا ہے۔ مگر اس قسم کی تمام امیدیں محض جھوٹی امیدیں ہیں۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں خدا کے سوا دوسری چیزوں کا بے بس ہونا کھلا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے یہاں آدمی غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے۔ مگر آخرت میں جب تمام حقائق کھول ديے جائیں گے تو آدمی دیکھے گا کہ خدا کے سوا جن سہاروں پر وہ بھروسہ كيے ہوئے تھا وہ کس قدر بے قیمت تھے۔

أَفَلَا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی معجزے ديے۔ یہ معجزے اس لیے تھے کہ لوگ آپ کے پیغمبر ہونے کو پہچانیں اور آپ پر ایمان لائیں۔ مگر معاملہ برعکس ہوا۔ عیسائیوں نے آپ کے معجزات کو دیکھ کر یہ عقیدہ قائم کیا کہ آپ خدا ہیں۔ آپ کے اندر خدا حلول كيے ہوئے ہے۔ یہود نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ یہ ایک شعبدہ باز اور جادو گر ہیں۔ حضرت مسیح اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔ مگر ایک گروہ نے آپ سے شرک کی غذا لی اور دوسرے گروہ نے انکار کی۔ معبود وہی ہوسکتا ہے جو خود بے احتیاج ہو اور دوسرے کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھے۔ کھانا آدمی کے محتاج ہونے کی آخری علامت ہے۔ جو کھانے کا محتاج ہے وہ ہر چیز کا محتاج ہے۔ جو شخص کھانا کھاتا ہو وہ مکمل طورپر ایک محتاج ہستی ہے۔ ایسی ہستی خدا کس طرح ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ نفع نقصان کا ہے۔ کسی کو نفع ملنا یا کسی کو نقصان پہنچنا ایسے واقعات ہیں جن کے ظہور میںآنے کے لیے پوری کائنات کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قسم کے کائناتی اسباب فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ اس لیے انسانوں میں سے کسی انسان کا یہ درجہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کو معبود فرض کرلیا جائے۔ جب بھی آدمی خدا کے سوا کسی اور کو اپنی عقیدت ومحبت کا مرکز بناتا ہے تو اس کے پیچھے یہ چھپا ہوا جذبہ ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی دنیا میں کوئی بڑا درجہ حاصل ہے۔ وہ خدا کے یہاں اس کا مددگار بن سکتا ہے۔ مگر اس قسم کی تمام امیدیں محض جھوٹی امیدیں ہیں۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں خدا کے سوا دوسری چیزوں کا بے بس ہونا کھلا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے یہاں آدمی غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے۔ مگر آخرت میں جب تمام حقائق کھول ديے جائیں گے تو آدمی دیکھے گا کہ خدا کے سوا جن سہاروں پر وہ بھروسہ كيے ہوئے تھا وہ کس قدر بے قیمت تھے۔

مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

📘 حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی معجزے ديے۔ یہ معجزے اس لیے تھے کہ لوگ آپ کے پیغمبر ہونے کو پہچانیں اور آپ پر ایمان لائیں۔ مگر معاملہ برعکس ہوا۔ عیسائیوں نے آپ کے معجزات کو دیکھ کر یہ عقیدہ قائم کیا کہ آپ خدا ہیں۔ آپ کے اندر خدا حلول كيے ہوئے ہے۔ یہود نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ یہ ایک شعبدہ باز اور جادو گر ہیں۔ حضرت مسیح اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔ مگر ایک گروہ نے آپ سے شرک کی غذا لی اور دوسرے گروہ نے انکار کی۔ معبود وہی ہوسکتا ہے جو خود بے احتیاج ہو اور دوسرے کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھے۔ کھانا آدمی کے محتاج ہونے کی آخری علامت ہے۔ جو کھانے کا محتاج ہے وہ ہر چیز کا محتاج ہے۔ جو شخص کھانا کھاتا ہو وہ مکمل طورپر ایک محتاج ہستی ہے۔ ایسی ہستی خدا کس طرح ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ نفع نقصان کا ہے۔ کسی کو نفع ملنا یا کسی کو نقصان پہنچنا ایسے واقعات ہیں جن کے ظہور میںآنے کے لیے پوری کائنات کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قسم کے کائناتی اسباب فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ اس لیے انسانوں میں سے کسی انسان کا یہ درجہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کو معبود فرض کرلیا جائے۔ جب بھی آدمی خدا کے سوا کسی اور کو اپنی عقیدت ومحبت کا مرکز بناتا ہے تو اس کے پیچھے یہ چھپا ہوا جذبہ ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی دنیا میں کوئی بڑا درجہ حاصل ہے۔ وہ خدا کے یہاں اس کا مددگار بن سکتا ہے۔ مگر اس قسم کی تمام امیدیں محض جھوٹی امیدیں ہیں۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں خدا کے سوا دوسری چیزوں کا بے بس ہونا کھلا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے یہاں آدمی غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے۔ مگر آخرت میں جب تمام حقائق کھول ديے جائیں گے تو آدمی دیکھے گا کہ خدا کے سوا جن سہاروں پر وہ بھروسہ كيے ہوئے تھا وہ کس قدر بے قیمت تھے۔

قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ وَاللَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 حضرت مسیح کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی معجزے ديے۔ یہ معجزے اس لیے تھے کہ لوگ آپ کے پیغمبر ہونے کو پہچانیں اور آپ پر ایمان لائیں۔ مگر معاملہ برعکس ہوا۔ عیسائیوں نے آپ کے معجزات کو دیکھ کر یہ عقیدہ قائم کیا کہ آپ خدا ہیں۔ آپ کے اندر خدا حلول كيے ہوئے ہے۔ یہود نے یہ کہہ کر آپ کو نظر انداز کردیا کہ یہ ایک شعبدہ باز اور جادو گر ہیں۔ حضرت مسیح اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لیے آئے تھے۔ مگر ایک گروہ نے آپ سے شرک کی غذا لی اور دوسرے گروہ نے انکار کی۔ معبود وہی ہوسکتا ہے جو خود بے احتیاج ہو اور دوسرے کو نفع نقصان پہنچانے کی قدرت رکھے۔ کھانا آدمی کے محتاج ہونے کی آخری علامت ہے۔ جو کھانے کا محتاج ہے وہ ہر چیز کا محتاج ہے۔ جو شخص کھانا کھاتا ہو وہ مکمل طورپر ایک محتاج ہستی ہے۔ ایسی ہستی خدا کس طرح ہو سکتی ہے۔ یہی معاملہ نفع نقصان کا ہے۔ کسی کو نفع ملنا یا کسی کو نقصان پہنچنا ایسے واقعات ہیں جن کے ظہور میںآنے کے لیے پوری کائنات کی مساعدت درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قسم کے کائناتی اسباب فراہم کرنے پر قادر نہیں۔ اس لیے انسانوں میں سے کسی انسان کا یہ درجہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس کو معبود فرض کرلیا جائے۔ جب بھی آدمی خدا کے سوا کسی اور کو اپنی عقیدت ومحبت کا مرکز بناتا ہے تو اس کے پیچھے یہ چھپا ہوا جذبہ ہوتا ہے کہ اس کو خدا کی دنیا میں کوئی بڑا درجہ حاصل ہے۔ وہ خدا کے یہاں اس کا مددگار بن سکتا ہے۔ مگر اس قسم کی تمام امیدیں محض جھوٹی امیدیں ہیں۔ موجودہ امتحان کی دنیا میں خدا کے سوا دوسری چیزوں کا بے بس ہونا کھلا ہوا نہیں ہے۔ اس لیے یہاں آدمی غلط فہمی میں پڑا ہوا ہے۔ مگر آخرت میں جب تمام حقائق کھول ديے جائیں گے تو آدمی دیکھے گا کہ خدا کے سوا جن سہاروں پر وہ بھروسہ كيے ہوئے تھا وہ کس قدر بے قیمت تھے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ

📘 حضرت مسیح کے ابتدائی شاگردوں کے نزدیک مسیح ’’ایک انسان تھا جو خدا کی طرف سے تھا‘‘۔وہ آپ کو انسان اور اللہ کا رسول سمجھتے تھے۔ مگر آپ کا دین جب شام کے علاقہ سے باہر نکلا تو اس کو مصر ویونان کے فلسفہ سے سابقہ پیش آیا۔ مسیحیت قبول کرکے ایسے لوگ مسیحیت میں داخل ہوئے جو وقت کے فلسفیانہ افکار سے متاثر تھے۔ اس طرح اندرونی اسباب اور بیرونی محرکات کے تحت مسیحیت میں ایک نیا دور شروع ہوا جب کہ مسیحیت کو وقت کے غالب فلسفیانہ اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ اس زمانہ کی مہذب دنیا میں مصر ویونان کے فلسفیوں کا زور تھا۔ وقت کے ذہین لوگ عام طورپر انھیں کے افکار کی روشنی میں سوچتے تھے۔ یونانی فلاسفہ نے اپنے قیاسات کے ذریعہ عالم کی ایک خیالی تصویر بنا رکھی تھی۔ وہ حقیقت کی تعبیر تین اقنوموں (Hypostases) کی صورت میں کرتے تھے — وجود، حیات اور علم۔ مسیحی علماء جو خود بھی ان افکار سے مرعوب تھے، نیز وقت کے ذہين طبقہ کو مسیحیت کی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، انھوں نے اپنے مذہب کو وقت کے غالب فکر پر ڈھالنے کی کوشش کی۔انھوں نے مسیحیت کی ایسی تعبیر کی جس میں خدا کا دین بھی اسی ’’تین‘‘ کے جامہ میں ڈھل جائے اور لوگ اس کو اپنے ذہن کے مطابق پاکر اس کو قبول کرلیں۔ انھوں نے کہا کہ مذہبی حقیقت بھی ایک تثلیث کی صورت گری ہے۔ اقنومِ وجود باپ ہے۔ اقنومِ حیات بیٹا ہے اور اقنومِ علم روح القدس ہے۔ اس کلامی مذہب کو مکمل کرنے کے لیے اور بہت سے خیالات اس میں داخل کیے گئے۔ مثلاً یہ کہ حضرت مسیح ’’کلام‘‘ کا جسدی ظہور ہیں۔ ہبوط آدم کے بعد ہر انسان گنہ گار ہوچکا ہے۔ اور انسان کی نجات کے لیے خدا کے بیٹے کو مصلوب ہو کر اس کا کفارہ دینا پڑا، وغیرہ۔ اس طرح چوتھی صدی عیسوی میں مصری، یونانی اور رومی تخیلات میں ڈھل کر وہ چیز تیار ہوئی جس کو موجودہ مسیحیت کہاجاتاہے۔ خدا کی سواء السبیل سے بھٹکنے کی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ لوگ گم راہ قوموں کے خیالات سے مرعوب ہو کر دین کو ان کے خیالات کے سانچہ میں ڈھالنے لگتے ہیں۔ خدا کے دین کو مانتے ہوئے اس کی تعبیر اس ڈھنگ سے کرتے ہیں کہ وہ غالب افکار کے مطابق نظر آنے لگے۔ وہ خدا کے دین کے نام پر غیر خدا کے دین کو اپنا لیتے ہیں۔ نصاریٰ نے اپنے دین کو اپنے زمانہ کی مشرک قوموں کے افکار میں ڈھال لیا اور اسی کو خدا کا مقبول دین کہنے لگے۔ یہی چیز کبھی اس طرح پیش آتی ہے کہ دین کو خود اپنے قومی عزائم کے سانچہ میں ڈھال لیا جاتاہے۔ اس دوسری تحریف کی مثال یہود ہیں۔ انھوں نے خدا کے دین کی ایسی تعبیر کی کہ وہ ان کی دنیوی زندگی کی تصدیق کرنے والا بن جائے۔ مسلمانوں کے لیے کتاب الٰہی کے متن میں اس قسم کی تعبیرات داخل کرنے کا موقع نہیں ہے۔ تاہم متن کے باہر انھیں وہ سب کچھ کرنے کی آزادی ہے جو پچھلی قوموں نے کیا۔

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۚ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ

📘 ایمان آدمی کو ظلم اور برائی کے بارے میں حسّاس بنا دیتاہے۔ وہ کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اسے روک دے۔ برے لوگوں سے اس کا تعلق جدائی کا ہوتا ہے، نہ کہ دوستی کا۔ مگر جب ایمانی جذبہ کمزور پڑجائے تو آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں حساس ہو کر رہ جاتاہے۔ اب اس کو صرف وہ بر ائی برائی معلوم ہوتی ہے جس کی زد اس کے اپنے اوپر پڑے۔ جس برائی کا رخ دوسروں کی طرف ہو اس کے بارے میں وہ غیر جانب دار ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل جو اس زوال کا شکار ہوئے اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ انھوں نے اپنی زبان سے اچھی بات بولنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے خواص اب بھی خوبصورت تقریریں کرتے تھے مگر اس معاملہ میں وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے کہ جب کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھیں تو وہاں کود پڑیں اور اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ حضرت داؤد اپنے زمانے کے یہود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں كوئي نیکو کار نہیں، ایک بھی نہیں (زبور، 14:3 ) ۔ مگر اسی کے ساتھ آپ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود اپنے ہمسایوں سے صلح کی باتیں کرتے تھے جب کہ ان کے دلوں میں بدی ہوتی تھی (زبور، 28:3 )وہ خدا کے آئین کو بیان کرتے اور خدا کے عہد کو زبان پر لاتے جب كه وه خدا كي باتوں كو پيٹھ پيچھے پھينك ديتے هيں(زبور 50:16-17 )حضرت مسیح اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے میں فرماتے ہیں اے ریاکار فقیہو تم پر افسوس، تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تم پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تودسواں حصه دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ اے اندھے راہ بتانے والو، مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔ اے ریا کار فقیہو تم ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو (متّی 23:23-26 )۔ یہود خدا کا آئین بیان کرتے تھے۔ وہ لمبی نمازیں پڑھتے اور فصلوں میں دسواں حصہ نکالتے۔ مگر ان کی باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی تھیں۔ وہ بے ضرر احکام پر نمائشی اہتمام کے ساتھ عمل کرتے تھے مگر جب صاحب معاملہ سےانصاف كرنے كا سوال هوتا، جب ايك كم زور پر رحم كا تقاضا هوتا، جب اپنے نفس كو كچل كر الله كے حكم كو ماننے كي ضرورت ہوتی تو وہ پھسل جاتے۔ حتی کہ اگر کوئی خدا کا بندہ ان کی غلطیوں کو بتاتا تو وہ اس کے دشمن ہوجاتے۔ یہی چیز هے جس نے ان کو لعنت اور غضب کا مستحق بنادیا۔

كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ

📘 ایمان آدمی کو ظلم اور برائی کے بارے میں حسّاس بنا دیتاہے۔ وہ کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اسے روک دے۔ برے لوگوں سے اس کا تعلق جدائی کا ہوتا ہے، نہ کہ دوستی کا۔ مگر جب ایمانی جذبہ کمزور پڑجائے تو آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں حساس ہو کر رہ جاتاہے۔ اب اس کو صرف وہ بر ائی برائی معلوم ہوتی ہے جس کی زد اس کے اپنے اوپر پڑے۔ جس برائی کا رخ دوسروں کی طرف ہو اس کے بارے میں وہ غیر جانب دار ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل جو اس زوال کا شکار ہوئے اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ انھوں نے اپنی زبان سے اچھی بات بولنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے خواص اب بھی خوبصورت تقریریں کرتے تھے مگر اس معاملہ میں وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے کہ جب کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھیں تو وہاں کود پڑیں اور اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ حضرت داؤد اپنے زمانے کے یہود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں كوئي نیکو کار نہیں، ایک بھی نہیں (زبور، 14:3 ) ۔ مگر اسی کے ساتھ آپ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود اپنے ہمسایوں سے صلح کی باتیں کرتے تھے جب کہ ان کے دلوں میں بدی ہوتی تھی (زبور، 28:3 )وہ خدا کے آئین کو بیان کرتے اور خدا کے عہد کو زبان پر لاتے جب كه وه خدا كي باتوں كو پيٹھ پيچھے پھينك ديتے هيں(زبور 50:16-17 )حضرت مسیح اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے میں فرماتے ہیں اے ریاکار فقیہو تم پر افسوس، تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تم پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تودسواں حصه دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ اے اندھے راہ بتانے والو، مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔ اے ریا کار فقیہو تم ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو (متّی 23:23-26 )۔ یہود خدا کا آئین بیان کرتے تھے۔ وہ لمبی نمازیں پڑھتے اور فصلوں میں دسواں حصہ نکالتے۔ مگر ان کی باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی تھیں۔ وہ بے ضرر احکام پر نمائشی اہتمام کے ساتھ عمل کرتے تھے مگر جب صاحب معاملہ سےانصاف كرنے كا سوال هوتا، جب ايك كم زور پر رحم كا تقاضا هوتا، جب اپنے نفس كو كچل كر الله كے حكم كو ماننے كي ضرورت ہوتی تو وہ پھسل جاتے۔ حتی کہ اگر کوئی خدا کا بندہ ان کی غلطیوں کو بتاتا تو وہ اس کے دشمن ہوجاتے۔ یہی چیز هے جس نے ان کو لعنت اور غضب کا مستحق بنادیا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

📘 اسلام کی دعوت جب اٹھتی ہے تو وہ اپنے ابتدائی مرحلہ میں ’’آیات بینات‘‘ کے اوپر کھڑی ہوتی ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ اس کو ماحول میں ’’فتح‘‘ حاصل ہوجائے۔ پہلے دور میں صرف وہ لوگ اسلام کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ کرتے ہیں جو دلائل کی سطح پر کسی چیز کی عظمت کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مگر جب اسلام کو فتح و غلبہ حاصل ہوجائے تو ہر آدمی اس کی عظمت کو دیکھ لیتا ہے اور ہر آدمی آگے بڑھ کر اس کے لیے جان و مال پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ابتدائی دور میں اسلام کے لیے خرچ کرنے والے کو یک طرفہ طور پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ دوسرے دور میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ آدمی جتنا خرچ کرتا ہے اس سے زیادہ وه دو مختلف شکلوں میں اس کا انعام اسی دنیا میں پا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کا درجہ اللہ کے یہاں یکساں نہیں۔

تَرَىٰ كَثِيرًا مِنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنْفُسُهُمْ أَنْ سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ

📘 ایمان آدمی کو ظلم اور برائی کے بارے میں حسّاس بنا دیتاہے۔ وہ کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اسے روک دے۔ برے لوگوں سے اس کا تعلق جدائی کا ہوتا ہے، نہ کہ دوستی کا۔ مگر جب ایمانی جذبہ کمزور پڑجائے تو آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں حساس ہو کر رہ جاتاہے۔ اب اس کو صرف وہ بر ائی برائی معلوم ہوتی ہے جس کی زد اس کے اپنے اوپر پڑے۔ جس برائی کا رخ دوسروں کی طرف ہو اس کے بارے میں وہ غیر جانب دار ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل جو اس زوال کا شکار ہوئے اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ انھوں نے اپنی زبان سے اچھی بات بولنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے خواص اب بھی خوبصورت تقریریں کرتے تھے مگر اس معاملہ میں وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے کہ جب کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھیں تو وہاں کود پڑیں اور اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ حضرت داؤد اپنے زمانے کے یہود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں كوئي نیکو کار نہیں، ایک بھی نہیں (زبور، 14:3 ) ۔ مگر اسی کے ساتھ آپ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود اپنے ہمسایوں سے صلح کی باتیں کرتے تھے جب کہ ان کے دلوں میں بدی ہوتی تھی (زبور، 28:3 )وہ خدا کے آئین کو بیان کرتے اور خدا کے عہد کو زبان پر لاتے جب كه وه خدا كي باتوں كو پيٹھ پيچھے پھينك ديتے هيں(زبور 50:16-17 )حضرت مسیح اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے میں فرماتے ہیں اے ریاکار فقیہو تم پر افسوس، تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تم پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تودسواں حصه دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ اے اندھے راہ بتانے والو، مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔ اے ریا کار فقیہو تم ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو (متّی 23:23-26 )۔ یہود خدا کا آئین بیان کرتے تھے۔ وہ لمبی نمازیں پڑھتے اور فصلوں میں دسواں حصہ نکالتے۔ مگر ان کی باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی تھیں۔ وہ بے ضرر احکام پر نمائشی اہتمام کے ساتھ عمل کرتے تھے مگر جب صاحب معاملہ سےانصاف كرنے كا سوال هوتا، جب ايك كم زور پر رحم كا تقاضا هوتا، جب اپنے نفس كو كچل كر الله كے حكم كو ماننے كي ضرورت ہوتی تو وہ پھسل جاتے۔ حتی کہ اگر کوئی خدا کا بندہ ان کی غلطیوں کو بتاتا تو وہ اس کے دشمن ہوجاتے۔ یہی چیز هے جس نے ان کو لعنت اور غضب کا مستحق بنادیا۔

وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ فَاسِقُونَ

📘 ایمان آدمی کو ظلم اور برائی کے بارے میں حسّاس بنا دیتاہے۔ وہ کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھتا ہے تو تڑپ اٹھتا ہے اور چاہتا ہے کہ فوراً اسے روک دے۔ برے لوگوں سے اس کا تعلق جدائی کا ہوتا ہے، نہ کہ دوستی کا۔ مگر جب ایمانی جذبہ کمزور پڑجائے تو آدمی صرف اپنی ذات کے بارے میں حساس ہو کر رہ جاتاہے۔ اب اس کو صرف وہ بر ائی برائی معلوم ہوتی ہے جس کی زد اس کے اپنے اوپر پڑے۔ جس برائی کا رخ دوسروں کی طرف ہو اس کے بارے میں وہ غیر جانب دار ہوجاتا ہے۔ بنی اسرائیل جو اس زوال کا شکار ہوئے اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ انھوں نے اپنی زبان سے اچھی بات بولنا چھوڑ دیا تھا۔ ان کے خواص اب بھی خوبصورت تقریریں کرتے تھے مگر اس معاملہ میں وہ اتنے سنجیدہ نہ تھے کہ جب کسی کو ظلم اور برائی کرتے دیکھیں تو وہاں کود پڑیں اور اس کو روکنے کی کوشش کریں۔ حضرت داؤد اپنے زمانے کے یہود کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں كوئي نیکو کار نہیں، ایک بھی نہیں (زبور، 14:3 ) ۔ مگر اسی کے ساتھ آپ کے کلام سے اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہود اپنے ہمسایوں سے صلح کی باتیں کرتے تھے جب کہ ان کے دلوں میں بدی ہوتی تھی (زبور، 28:3 )وہ خدا کے آئین کو بیان کرتے اور خدا کے عہد کو زبان پر لاتے جب كه وه خدا كي باتوں كو پيٹھ پيچھے پھينك ديتے هيں(زبور 50:16-17 )حضرت مسیح اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے میں فرماتے ہیں اے ریاکار فقیہو تم پر افسوس، تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔ تم پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تودسواں حصه دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف، رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ اے اندھے راہ بتانے والو، مچھر کو چھانتے ہو اور اونٹ نگل جاتے ہو۔ اے ریا کار فقیہو تم ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہوئے ہو (متّی 23:23-26 )۔ یہود خدا کا آئین بیان کرتے تھے۔ وہ لمبی نمازیں پڑھتے اور فصلوں میں دسواں حصہ نکالتے۔ مگر ان کی باتیں صرف کہنے کے لیے ہوتی تھیں۔ وہ بے ضرر احکام پر نمائشی اہتمام کے ساتھ عمل کرتے تھے مگر جب صاحب معاملہ سےانصاف كرنے كا سوال هوتا، جب ايك كم زور پر رحم كا تقاضا هوتا، جب اپنے نفس كو كچل كر الله كے حكم كو ماننے كي ضرورت ہوتی تو وہ پھسل جاتے۔ حتی کہ اگر کوئی خدا کا بندہ ان کی غلطیوں کو بتاتا تو وہ اس کے دشمن ہوجاتے۔ یہی چیز هے جس نے ان کو لعنت اور غضب کا مستحق بنادیا۔

۞ لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ

📘 اس آیت میں جنت کو ’’قول‘‘ کا بدلہ قرار دیاگیا۔ مگر وہ قول کیا تھا جس نے اس کے قائلین کو ابدی جنت کا مستحق بنایا۔ وہ قول ان كي پوری ہستی کا نمائندہ تھا۔ وہ ان کی شخصیت کی پھٹن کی آواز تھا۔ انھوں نے اللہ کے کلام کو اس طرح سنا کہ اس کے اندر جو حق تھا اس کو وہ پوری طرح پاگئے۔ وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس نے ان کے اندر ایسا انقلاب برپا کیا کہ ان کے حوصلوں اور تمناؤں کا مرکز بدل گیا۔ تعصب اور مصلحت کی تمام دیواریں ڈھ پڑیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح شامل کیا کہ اس سے الگ ان كي کو ئی ہستی باقی نہ رہی۔ وہ اس کے گواہ بن گئے، اور گواہ بننا ایک حقیقت کا انسان کی صورت میں مجسم ہونا ہے۔ قرآن اب ان کے لیے محض ایک کتاب نہ رہا بلکہ مالک کائنات کی زنده نشانی بن گیا۔ یہ ربانی تجربہ جو ان پر گزرا بظاہر اس کا اظہار اگر چہ لفظوں کی صورت میں ہوا تھا مگر ان کے یہ الفاظ نہ تھے بلکہ وہ ایک زلزلہ تھا جس نے ان کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ حتی کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں۔ قول اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی قسم کے لسانی تلفظ کا نام نہیں۔ وہ آدمی کے عمل کو معنویت کا روپ دینے کی اعلیٰ ترین صورت ہے جس کا اختیار معلوم کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ ایک حقیقی قول سب سے زیادہ لطیف اور سب سے زیادہ با معنی واقعه ہے۔ قول آدمی کی ہستی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ قول ناطقِ عمل ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص قول کی سطح پر اپنی عبدیت کا ثبوت دے دے تو وہ جنت کا یقینی استحقاق حاصل کرلیتا ہے۔ حق کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ کبر ہوتاہے۔ جن کے دلوں میں کبر چھپا ہوا ہو وہ حق کی دعوت کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر کبر نہ ہو، خواہ وہ دوسری کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، وہ حق کی مخالفت میں کبھی اتنا آگے نہیں جاسکتے کہ اس کے جانی دشمن بن جائیں۔ اور کسی حال میں اس کو قبول نہ کریں۔

وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ

📘 اس آیت میں جنت کو ’’قول‘‘ کا بدلہ قرار دیاگیا۔ مگر وہ قول کیا تھا جس نے اس کے قائلین کو ابدی جنت کا مستحق بنایا۔ وہ قول ان كي پوری ہستی کا نمائندہ تھا۔ وہ ان کی شخصیت کی پھٹن کی آواز تھا۔ انھوں نے اللہ کے کلام کو اس طرح سنا کہ اس کے اندر جو حق تھا اس کو وہ پوری طرح پاگئے۔ وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس نے ان کے اندر ایسا انقلاب برپا کیا کہ ان کے حوصلوں اور تمناؤں کا مرکز بدل گیا۔ تعصب اور مصلحت کی تمام دیواریں ڈھ پڑیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح شامل کیا کہ اس سے الگ ان كي کو ئی ہستی باقی نہ رہی۔ وہ اس کے گواہ بن گئے، اور گواہ بننا ایک حقیقت کا انسان کی صورت میں مجسم ہونا ہے۔ قرآن اب ان کے لیے محض ایک کتاب نہ رہا بلکہ مالک کائنات کی زنده نشانی بن گیا۔ یہ ربانی تجربہ جو ان پر گزرا بظاہر اس کا اظہار اگر چہ لفظوں کی صورت میں ہوا تھا مگر ان کے یہ الفاظ نہ تھے بلکہ وہ ایک زلزلہ تھا جس نے ان کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ حتی کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں۔ قول اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی قسم کے لسانی تلفظ کا نام نہیں۔ وہ آدمی کے عمل کو معنویت کا روپ دینے کی اعلیٰ ترین صورت ہے جس کا اختیار معلوم کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ ایک حقیقی قول سب سے زیادہ لطیف اور سب سے زیادہ با معنی واقعه ہے۔ قول آدمی کی ہستی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ قول ناطقِ عمل ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص قول کی سطح پر اپنی عبدیت کا ثبوت دے دے تو وہ جنت کا یقینی استحقاق حاصل کرلیتا ہے۔ حق کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ کبر ہوتاہے۔ جن کے دلوں میں کبر چھپا ہوا ہو وہ حق کی دعوت کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر کبر نہ ہو، خواہ وہ دوسری کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، وہ حق کی مخالفت میں کبھی اتنا آگے نہیں جاسکتے کہ اس کے جانی دشمن بن جائیں۔ اور کسی حال میں اس کو قبول نہ کریں۔

وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ

📘 اس آیت میں جنت کو ’’قول‘‘ کا بدلہ قرار دیاگیا۔ مگر وہ قول کیا تھا جس نے اس کے قائلین کو ابدی جنت کا مستحق بنایا۔ وہ قول ان كي پوری ہستی کا نمائندہ تھا۔ وہ ان کی شخصیت کی پھٹن کی آواز تھا۔ انھوں نے اللہ کے کلام کو اس طرح سنا کہ اس کے اندر جو حق تھا اس کو وہ پوری طرح پاگئے۔ وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس نے ان کے اندر ایسا انقلاب برپا کیا کہ ان کے حوصلوں اور تمناؤں کا مرکز بدل گیا۔ تعصب اور مصلحت کی تمام دیواریں ڈھ پڑیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح شامل کیا کہ اس سے الگ ان كي کو ئی ہستی باقی نہ رہی۔ وہ اس کے گواہ بن گئے، اور گواہ بننا ایک حقیقت کا انسان کی صورت میں مجسم ہونا ہے۔ قرآن اب ان کے لیے محض ایک کتاب نہ رہا بلکہ مالک کائنات کی زنده نشانی بن گیا۔ یہ ربانی تجربہ جو ان پر گزرا بظاہر اس کا اظہار اگر چہ لفظوں کی صورت میں ہوا تھا مگر ان کے یہ الفاظ نہ تھے بلکہ وہ ایک زلزلہ تھا جس نے ان کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ حتی کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں۔ قول اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی قسم کے لسانی تلفظ کا نام نہیں۔ وہ آدمی کے عمل کو معنویت کا روپ دینے کی اعلیٰ ترین صورت ہے جس کا اختیار معلوم کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ ایک حقیقی قول سب سے زیادہ لطیف اور سب سے زیادہ با معنی واقعه ہے۔ قول آدمی کی ہستی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ قول ناطقِ عمل ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص قول کی سطح پر اپنی عبدیت کا ثبوت دے دے تو وہ جنت کا یقینی استحقاق حاصل کرلیتا ہے۔ حق کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ کبر ہوتاہے۔ جن کے دلوں میں کبر چھپا ہوا ہو وہ حق کی دعوت کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر کبر نہ ہو، خواہ وہ دوسری کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، وہ حق کی مخالفت میں کبھی اتنا آگے نہیں جاسکتے کہ اس کے جانی دشمن بن جائیں۔ اور کسی حال میں اس کو قبول نہ کریں۔

فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ

📘 اس آیت میں جنت کو ’’قول‘‘ کا بدلہ قرار دیاگیا۔ مگر وہ قول کیا تھا جس نے اس کے قائلین کو ابدی جنت کا مستحق بنایا۔ وہ قول ان كي پوری ہستی کا نمائندہ تھا۔ وہ ان کی شخصیت کی پھٹن کی آواز تھا۔ انھوں نے اللہ کے کلام کو اس طرح سنا کہ اس کے اندر جو حق تھا اس کو وہ پوری طرح پاگئے۔ وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس نے ان کے اندر ایسا انقلاب برپا کیا کہ ان کے حوصلوں اور تمناؤں کا مرکز بدل گیا۔ تعصب اور مصلحت کی تمام دیواریں ڈھ پڑیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح شامل کیا کہ اس سے الگ ان كي کو ئی ہستی باقی نہ رہی۔ وہ اس کے گواہ بن گئے، اور گواہ بننا ایک حقیقت کا انسان کی صورت میں مجسم ہونا ہے۔ قرآن اب ان کے لیے محض ایک کتاب نہ رہا بلکہ مالک کائنات کی زنده نشانی بن گیا۔ یہ ربانی تجربہ جو ان پر گزرا بظاہر اس کا اظہار اگر چہ لفظوں کی صورت میں ہوا تھا مگر ان کے یہ الفاظ نہ تھے بلکہ وہ ایک زلزلہ تھا جس نے ان کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ حتی کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں۔ قول اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی قسم کے لسانی تلفظ کا نام نہیں۔ وہ آدمی کے عمل کو معنویت کا روپ دینے کی اعلیٰ ترین صورت ہے جس کا اختیار معلوم کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ ایک حقیقی قول سب سے زیادہ لطیف اور سب سے زیادہ با معنی واقعه ہے۔ قول آدمی کی ہستی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ قول ناطقِ عمل ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص قول کی سطح پر اپنی عبدیت کا ثبوت دے دے تو وہ جنت کا یقینی استحقاق حاصل کرلیتا ہے۔ حق کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ کبر ہوتاہے۔ جن کے دلوں میں کبر چھپا ہوا ہو وہ حق کی دعوت کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر کبر نہ ہو، خواہ وہ دوسری کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، وہ حق کی مخالفت میں کبھی اتنا آگے نہیں جاسکتے کہ اس کے جانی دشمن بن جائیں۔ اور کسی حال میں اس کو قبول نہ کریں۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

📘 اس آیت میں جنت کو ’’قول‘‘ کا بدلہ قرار دیاگیا۔ مگر وہ قول کیا تھا جس نے اس کے قائلین کو ابدی جنت کا مستحق بنایا۔ وہ قول ان كي پوری ہستی کا نمائندہ تھا۔ وہ ان کی شخصیت کی پھٹن کی آواز تھا۔ انھوں نے اللہ کے کلام کو اس طرح سنا کہ اس کے اندر جو حق تھا اس کو وہ پوری طرح پاگئے۔ وہ ان کے دل و دماغ میں اتر گیا۔ اس نے ان کے اندر ایسا انقلاب برپا کیا کہ ان کے حوصلوں اور تمناؤں کا مرکز بدل گیا۔ تعصب اور مصلحت کی تمام دیواریں ڈھ پڑیں۔ انھوں نے حق کے ساتھ اپنے آپ کو اس طرح شامل کیا کہ اس سے الگ ان كي کو ئی ہستی باقی نہ رہی۔ وہ اس کے گواہ بن گئے، اور گواہ بننا ایک حقیقت کا انسان کی صورت میں مجسم ہونا ہے۔ قرآن اب ان کے لیے محض ایک کتاب نہ رہا بلکہ مالک کائنات کی زنده نشانی بن گیا۔ یہ ربانی تجربہ جو ان پر گزرا بظاہر اس کا اظہار اگر چہ لفظوں کی صورت میں ہوا تھا مگر ان کے یہ الفاظ نہ تھے بلکہ وہ ایک زلزلہ تھا جس نے ان کے پورے وجود کو ہلا دیا۔ حتی کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بہ پڑیں۔ قول اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی قسم کے لسانی تلفظ کا نام نہیں۔ وہ آدمی کے عمل کو معنویت کا روپ دینے کی اعلیٰ ترین صورت ہے جس کا اختیار معلوم کائنات میں صرف انسان کو حاصل ہے۔ ایک حقیقی قول سب سے زیادہ لطیف اور سب سے زیادہ با معنی واقعه ہے۔ قول آدمی کی ہستی کا سب سے بڑا اظہار ہے۔ قول ناطقِ عمل ہے۔ اس لیے جب کوئی شخص قول کی سطح پر اپنی عبدیت کا ثبوت دے دے تو وہ جنت کا یقینی استحقاق حاصل کرلیتا ہے۔ حق کو نہ ماننے کی سب سے بڑی وجہ ہمیشہ کبر ہوتاہے۔ جن کے دلوں میں کبر چھپا ہوا ہو وہ حق کی دعوت کے مقابلہ میں سب سے زیادہ سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اور جن لوگوں کے اندر کبر نہ ہو، خواہ وہ دوسری کسی گمراہی میں مبتلا ہوں، وہ حق کی مخالفت میں کبھی اتنا آگے نہیں جاسکتے کہ اس کے جانی دشمن بن جائیں۔ اور کسی حال میں اس کو قبول نہ کریں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ

📘 بندہ اور خدا کا تعلق ایک زندہ تعلق ہے جو نفسیات کی سطح پر قائم ہوتاہے۔ یہ تمام تر ایک اندرونی واقعہ ہے۔ مگر مذہب کے زوال کے زمانہ میں جب یہ اندرونی تعلق کمزور پڑتا ہے تو لوگوں میں یہ ذہن ابھرتا ہے کہ اس کو خارجی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھیں میں سے دنیوی لذتوں کو چھوڑنا بھی ہے جس کو رہبانیت کہاجاتاہے۔ یہ خیال کرلیا جاتا ہے کہ مادی چیزوں سے دوری آدمی کو خدا سے قریب کرنے کا باعث بنے گی۔ صحابہ میں سے بعض افراد اس قسم کے رہبانی خیالات سے متاثر ہوئے۔ انھوںنے ارادہ کیا کہ وہ گوشت نہ کھائیں۔ راتوں کونہ سوئیں۔ اپنے آپ کو خصی کرالیں اور گھروں کو چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار کرلیں۔ حتی کہ بعض نے اس کی قسمیں بھی کھالیں۔ اس پر انھیں منع کیاگیا اور کہاگیا کہ حلال کو حرام کرنے سے کوئی شخص خدا کی قربت حاصل نہیں کرسکتا۔ آدمی جو کچھ حاصل کرتا ہے فطرت کے حدود میں رہ کر حاصل کرتاہے، نہ کہ اس سے آزاد ہو کر۔ اسلام کے مطابق اصل ’’رہبانیت‘‘ تقویٰ اور شکر ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ اس کے اندر یہ خواہش ابھرتی ہے کہ ایک حرام چیز سے لذت حاصل کرے مگر وہ خدا کے ڈر سے رُک جاتاہے۔ کسی کے اوپر غصہ آجاتا ہے اور وہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کو تہس نہس کردے مگر خدا کا ڈر اسے اپنے بھائی کے خلاف تخریبی کارروائی سے روک دیتا ہے۔ اس کا دل کہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے مگر خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کو مجبور کرتاہے کہ وہ اپنے کو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنالے۔ یہی معاملہ شکر کا ہے۔ آدمی کو کوئی دنیوی چیز حاصل ہوتی ہے۔ صحت، دولت، عہدہ، سازوسامان، مقبولیت کا کوئی حصہ اس کو ملتاہے۔ مگر وہ خود پسندی اور گھمنڈ میں مبتلا نہیںہوتا بلکہ ہر چیز کو خدا کا عطیہ سمجھ کر اس کے احسان کا اعتراف کرتاہے۔ وہ تواضع اور ممنونیت کے جذبات میں ڈھل جاتاہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو خدا سے جوڑتی ہیں۔ خدا سے ڈرنے اور اس کا شکر ادا کرنے سے آدمی اس کی قربت حاصل کرتاہے۔ مادی چیزوں سے دوری یقیناً مطلوب ہے۔ مگر وہ ذہنی وقلبی دوري ہے، نہ کہ جسمانی دوری۔

وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ

📘 بندہ اور خدا کا تعلق ایک زندہ تعلق ہے جو نفسیات کی سطح پر قائم ہوتاہے۔ یہ تمام تر ایک اندرونی واقعہ ہے۔ مگر مذہب کے زوال کے زمانہ میں جب یہ اندرونی تعلق کمزور پڑتا ہے تو لوگوں میں یہ ذہن ابھرتا ہے کہ اس کو خارجی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھیں میں سے دنیوی لذتوں کو چھوڑنا بھی ہے جس کو رہبانیت کہاجاتاہے۔ یہ خیال کرلیا جاتا ہے کہ مادی چیزوں سے دوری آدمی کو خدا سے قریب کرنے کا باعث بنے گی۔ صحابہ میں سے بعض افراد اس قسم کے رہبانی خیالات سے متاثر ہوئے۔ انھوںنے ارادہ کیا کہ وہ گوشت نہ کھائیں۔ راتوں کونہ سوئیں۔ اپنے آپ کو خصی کرالیں اور گھروں کو چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار کرلیں۔ حتی کہ بعض نے اس کی قسمیں بھی کھالیں۔ اس پر انھیں منع کیاگیا اور کہاگیا کہ حلال کو حرام کرنے سے کوئی شخص خدا کی قربت حاصل نہیں کرسکتا۔ آدمی جو کچھ حاصل کرتا ہے فطرت کے حدود میں رہ کر حاصل کرتاہے، نہ کہ اس سے آزاد ہو کر۔ اسلام کے مطابق اصل ’’رہبانیت‘‘ تقویٰ اور شکر ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ اس کے اندر یہ خواہش ابھرتی ہے کہ ایک حرام چیز سے لذت حاصل کرے مگر وہ خدا کے ڈر سے رُک جاتاہے۔ کسی کے اوپر غصہ آجاتا ہے اور وہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کو تہس نہس کردے مگر خدا کا ڈر اسے اپنے بھائی کے خلاف تخریبی کارروائی سے روک دیتا ہے۔ اس کا دل کہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے مگر خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کو مجبور کرتاہے کہ وہ اپنے کو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنالے۔ یہی معاملہ شکر کا ہے۔ آدمی کو کوئی دنیوی چیز حاصل ہوتی ہے۔ صحت، دولت، عہدہ، سازوسامان، مقبولیت کا کوئی حصہ اس کو ملتاہے۔ مگر وہ خود پسندی اور گھمنڈ میں مبتلا نہیںہوتا بلکہ ہر چیز کو خدا کا عطیہ سمجھ کر اس کے احسان کا اعتراف کرتاہے۔ وہ تواضع اور ممنونیت کے جذبات میں ڈھل جاتاہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو خدا سے جوڑتی ہیں۔ خدا سے ڈرنے اور اس کا شکر ادا کرنے سے آدمی اس کی قربت حاصل کرتاہے۔ مادی چیزوں سے دوری یقیناً مطلوب ہے۔ مگر وہ ذہنی وقلبی دوري ہے، نہ کہ جسمانی دوری۔

لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ ۖ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ ۚ ذَٰلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ ۚ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

📘 بندہ اور خدا کا تعلق ایک زندہ تعلق ہے جو نفسیات کی سطح پر قائم ہوتاہے۔ یہ تمام تر ایک اندرونی واقعہ ہے۔ مگر مذہب کے زوال کے زمانہ میں جب یہ اندرونی تعلق کمزور پڑتا ہے تو لوگوں میں یہ ذہن ابھرتا ہے کہ اس کو خارجی ذرائع سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھیں میں سے دنیوی لذتوں کو چھوڑنا بھی ہے جس کو رہبانیت کہاجاتاہے۔ یہ خیال کرلیا جاتا ہے کہ مادی چیزوں سے دوری آدمی کو خدا سے قریب کرنے کا باعث بنے گی۔ صحابہ میں سے بعض افراد اس قسم کے رہبانی خیالات سے متاثر ہوئے۔ انھوںنے ارادہ کیا کہ وہ گوشت نہ کھائیں۔ راتوں کونہ سوئیں۔ اپنے آپ کو خصی کرالیں اور گھروں کو چھوڑ کر درویشی کی زندگی اختیار کرلیں۔ حتی کہ بعض نے اس کی قسمیں بھی کھالیں۔ اس پر انھیں منع کیاگیا اور کہاگیا کہ حلال کو حرام کرنے سے کوئی شخص خدا کی قربت حاصل نہیں کرسکتا۔ آدمی جو کچھ حاصل کرتا ہے فطرت کے حدود میں رہ کر حاصل کرتاہے، نہ کہ اس سے آزاد ہو کر۔ اسلام کے مطابق اصل ’’رہبانیت‘‘ تقویٰ اور شکر ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ اس کے اندر یہ خواہش ابھرتی ہے کہ ایک حرام چیز سے لذت حاصل کرے مگر وہ خدا کے ڈر سے رُک جاتاہے۔ کسی کے اوپر غصہ آجاتا ہے اور وہ چاہنے لگتا ہے کہ اس کو تہس نہس کردے مگر خدا کا ڈر اسے اپنے بھائی کے خلاف تخریبی کارروائی سے روک دیتا ہے۔ اس کا دل کہتا ہے کہ بے قید زندگی گزارے مگر خدا کی پکڑ کا اندیشہ اس کو مجبور کرتاہے کہ وہ اپنے کو خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنالے۔ یہی معاملہ شکر کا ہے۔ آدمی کو کوئی دنیوی چیز حاصل ہوتی ہے۔ صحت، دولت، عہدہ، سازوسامان، مقبولیت کا کوئی حصہ اس کو ملتاہے۔ مگر وہ خود پسندی اور گھمنڈ میں مبتلا نہیںہوتا بلکہ ہر چیز کو خدا کا عطیہ سمجھ کر اس کے احسان کا اعتراف کرتاہے۔ وہ تواضع اور ممنونیت کے جذبات میں ڈھل جاتاہے۔ یہی وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو خدا سے جوڑتی ہیں۔ خدا سے ڈرنے اور اس کا شکر ادا کرنے سے آدمی اس کی قربت حاصل کرتاہے۔ مادی چیزوں سے دوری یقیناً مطلوب ہے۔ مگر وہ ذہنی وقلبی دوري ہے، نہ کہ جسمانی دوری۔

وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ۙ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ

📘 اسلام کی دعوت جب اٹھتی ہے تو وہ اپنے ابتدائی مرحلہ میں ’’آیات بینات‘‘ کے اوپر کھڑی ہوتی ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ اس کو ماحول میں ’’فتح‘‘ حاصل ہوجائے۔ پہلے دور میں صرف وہ لوگ اسلام کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ کرتے ہیں جو دلائل کی سطح پر کسی چیز کی عظمت کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مگر جب اسلام کو فتح و غلبہ حاصل ہوجائے تو ہر آدمی اس کی عظمت کو دیکھ لیتا ہے اور ہر آدمی آگے بڑھ کر اس کے لیے جان و مال پیش کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ ابتدائی دور میں اسلام کے لیے خرچ کرنے والے کو یک طرفہ طور پر خرچ کرنا پڑتا ہے۔ جب کہ دوسرے دور میں یہ حال ہوجاتا ہے کہ آدمی جتنا خرچ کرتا ہے اس سے زیادہ وه دو مختلف شکلوں میں اس کا انعام اسی دنیا میں پا لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کا درجہ اللہ کے یہاں یکساں نہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

📘 شراب اور جوا اور وہ آستانے جو خدا کے سوا کسی دوسرے کو پوجنے یا کسی اور کے نام پر نذر اور قربانی چڑھانے کے لیے ہوں اور پانسہ یعنی فال گيري اور قرعہ اندازی کے وہ طریقے جن میں غیر اللہ سے استعانت کا عقیدہ شامل ہو، سب گندے شیطانی کام ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کو ذہنی وعملی پستی کی طرف لے جاتی ہیں۔ شراب آدمی کے اندر لطیف انسانی احساسات کو ختم کردیتی ہے اور جوا بے غرضی کی نفسیات کے لیے قاتل ہے۔ اسی طرح تھان اور پانسے وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد یا تو سطحی جذبات پر قائم ہوتی ہے یا توہماتی خیالات پر۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کو یاد کرنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا بن جائے۔ وہ خدا کی اور اس کے پیغمبر کی اطاعت میں اپنے کو ڈال دے۔ ان افعال کے لیے آدمی کا سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ مگر مذکورہ چیزیں آدمی کے اندر سے سب سے زیادہ جو چیز ختم کرتی ہیں، وہ سنجیدگی ہی ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو حقیقتوں کا ادراک کرے، جب کہ شراب آدمی کو حقیقتوں سے غافل کردینے والی چیز ہے۔ اسلام کا مطلوب انسان وہ ہے جو مادیت سے بلند ہو کر جئے، جب کہ جوا آدمی کو مجرمانہ حد تک مادیت کی طرف مائل کردیتا ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو واقعات کی بنیاد پر اپنے کو کھڑا کرے، جب کہ آستانے اور پانسے انسان کو توہمات کی وادیوں میں گم کردیتے ہیں۔ شراب بڑھی ہوئی بے حسی پیدا کرتا ہے اور جوا بڑھی ہوئی خود غرضی۔ اور یہ دونوں چیزیں باہمی فساد کی جڑ ہیں۔ جو لوگ بے حس ہوجائیں وہ دوسرے کی عزت کو عزت اور دوسرے کی چیز کو چیز نہیں سمجھتے، ایسے لوگ ظلم، بے انصافی، دوسروں کو ناحق ستانے میں آخری حد تک جری ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جوا استحصال اور خود غرضی کی بدترین صورت ہے، جب کہ ایک آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کو لوٹ کر اپنے لیے ایک بڑی کامیابی حاصل کرے۔ شرابی آدمی دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے عاری ہوتا ہے اور جوئے باز کے لیے دوسرا آدمی صرف استحصال کا موضوع ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے لوگ جس معاشرہ میں جمع ہوجائیں وہاں آپس کی بے اعتمادی، ایک دوسرے سے شکايات، باہمی ٹکراؤ اور دشمنی کے سوا اور کیا چیز پرورش پائے گی۔

إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ

📘 شراب اور جوا اور وہ آستانے جو خدا کے سوا کسی دوسرے کو پوجنے یا کسی اور کے نام پر نذر اور قربانی چڑھانے کے لیے ہوں اور پانسہ یعنی فال گيري اور قرعہ اندازی کے وہ طریقے جن میں غیر اللہ سے استعانت کا عقیدہ شامل ہو، سب گندے شیطانی کام ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کو ذہنی وعملی پستی کی طرف لے جاتی ہیں۔ شراب آدمی کے اندر لطیف انسانی احساسات کو ختم کردیتی ہے اور جوا بے غرضی کی نفسیات کے لیے قاتل ہے۔ اسی طرح تھان اور پانسے وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد یا تو سطحی جذبات پر قائم ہوتی ہے یا توہماتی خیالات پر۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کو یاد کرنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا بن جائے۔ وہ خدا کی اور اس کے پیغمبر کی اطاعت میں اپنے کو ڈال دے۔ ان افعال کے لیے آدمی کا سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ مگر مذکورہ چیزیں آدمی کے اندر سے سب سے زیادہ جو چیز ختم کرتی ہیں، وہ سنجیدگی ہی ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو حقیقتوں کا ادراک کرے، جب کہ شراب آدمی کو حقیقتوں سے غافل کردینے والی چیز ہے۔ اسلام کا مطلوب انسان وہ ہے جو مادیت سے بلند ہو کر جئے، جب کہ جوا آدمی کو مجرمانہ حد تک مادیت کی طرف مائل کردیتا ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو واقعات کی بنیاد پر اپنے کو کھڑا کرے، جب کہ آستانے اور پانسے انسان کو توہمات کی وادیوں میں گم کردیتے ہیں۔ شراب بڑھی ہوئی بے حسی پیدا کرتا ہے اور جوا بڑھی ہوئی خود غرضی۔ اور یہ دونوں چیزیں باہمی فساد کی جڑ ہیں۔ جو لوگ بے حس ہوجائیں وہ دوسرے کی عزت کو عزت اور دوسرے کی چیز کو چیز نہیں سمجھتے، ایسے لوگ ظلم، بے انصافی، دوسروں کو ناحق ستانے میں آخری حد تک جری ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جوا استحصال اور خود غرضی کی بدترین صورت ہے، جب کہ ایک آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کو لوٹ کر اپنے لیے ایک بڑی کامیابی حاصل کرے۔ شرابی آدمی دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے عاری ہوتا ہے اور جوئے باز کے لیے دوسرا آدمی صرف استحصال کا موضوع ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے لوگ جس معاشرہ میں جمع ہوجائیں وہاں آپس کی بے اعتمادی، ایک دوسرے سے شکايات، باہمی ٹکراؤ اور دشمنی کے سوا اور کیا چیز پرورش پائے گی۔

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ

📘 شراب اور جوا اور وہ آستانے جو خدا کے سوا کسی دوسرے کو پوجنے یا کسی اور کے نام پر نذر اور قربانی چڑھانے کے لیے ہوں اور پانسہ یعنی فال گيري اور قرعہ اندازی کے وہ طریقے جن میں غیر اللہ سے استعانت کا عقیدہ شامل ہو، سب گندے شیطانی کام ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کو ذہنی وعملی پستی کی طرف لے جاتی ہیں۔ شراب آدمی کے اندر لطیف انسانی احساسات کو ختم کردیتی ہے اور جوا بے غرضی کی نفسیات کے لیے قاتل ہے۔ اسی طرح تھان اور پانسے وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد یا تو سطحی جذبات پر قائم ہوتی ہے یا توہماتی خیالات پر۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کو یاد کرنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا بن جائے۔ وہ خدا کی اور اس کے پیغمبر کی اطاعت میں اپنے کو ڈال دے۔ ان افعال کے لیے آدمی کا سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ مگر مذکورہ چیزیں آدمی کے اندر سے سب سے زیادہ جو چیز ختم کرتی ہیں، وہ سنجیدگی ہی ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو حقیقتوں کا ادراک کرے، جب کہ شراب آدمی کو حقیقتوں سے غافل کردینے والی چیز ہے۔ اسلام کا مطلوب انسان وہ ہے جو مادیت سے بلند ہو کر جئے، جب کہ جوا آدمی کو مجرمانہ حد تک مادیت کی طرف مائل کردیتا ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو واقعات کی بنیاد پر اپنے کو کھڑا کرے، جب کہ آستانے اور پانسے انسان کو توہمات کی وادیوں میں گم کردیتے ہیں۔ شراب بڑھی ہوئی بے حسی پیدا کرتا ہے اور جوا بڑھی ہوئی خود غرضی۔ اور یہ دونوں چیزیں باہمی فساد کی جڑ ہیں۔ جو لوگ بے حس ہوجائیں وہ دوسرے کی عزت کو عزت اور دوسرے کی چیز کو چیز نہیں سمجھتے، ایسے لوگ ظلم، بے انصافی، دوسروں کو ناحق ستانے میں آخری حد تک جری ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جوا استحصال اور خود غرضی کی بدترین صورت ہے، جب کہ ایک آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کو لوٹ کر اپنے لیے ایک بڑی کامیابی حاصل کرے۔ شرابی آدمی دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے عاری ہوتا ہے اور جوئے باز کے لیے دوسرا آدمی صرف استحصال کا موضوع ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے لوگ جس معاشرہ میں جمع ہوجائیں وہاں آپس کی بے اعتمادی، ایک دوسرے سے شکايات، باہمی ٹکراؤ اور دشمنی کے سوا اور کیا چیز پرورش پائے گی۔

لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَأَحْسَنُوا ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

📘 شراب اور جوا اور وہ آستانے جو خدا کے سوا کسی دوسرے کو پوجنے یا کسی اور کے نام پر نذر اور قربانی چڑھانے کے لیے ہوں اور پانسہ یعنی فال گيري اور قرعہ اندازی کے وہ طریقے جن میں غیر اللہ سے استعانت کا عقیدہ شامل ہو، سب گندے شیطانی کام ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں انسان کو ذہنی وعملی پستی کی طرف لے جاتی ہیں۔ شراب آدمی کے اندر لطیف انسانی احساسات کو ختم کردیتی ہے اور جوا بے غرضی کی نفسیات کے لیے قاتل ہے۔ اسی طرح تھان اور پانسے وہ چیزیں ہیں جن کی بنیاد یا تو سطحی جذبات پر قائم ہوتی ہے یا توہماتی خیالات پر۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان اللہ کو یاد کرنے والا اور اس کی عبادت کرنے والا بن جائے۔ وہ خدا کی اور اس کے پیغمبر کی اطاعت میں اپنے کو ڈال دے۔ ان افعال کے لیے آدمی کا سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ مگر مذکورہ چیزیں آدمی کے اندر سے سب سے زیادہ جو چیز ختم کرتی ہیں، وہ سنجیدگی ہی ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو حقیقتوں کا ادراک کرے، جب کہ شراب آدمی کو حقیقتوں سے غافل کردینے والی چیز ہے۔ اسلام کا مطلوب انسان وہ ہے جو مادیت سے بلند ہو کر جئے، جب کہ جوا آدمی کو مجرمانہ حد تک مادیت کی طرف مائل کردیتا ہے۔ اسلام وہ انسان بنانا چاہتا ہے جو واقعات کی بنیاد پر اپنے کو کھڑا کرے، جب کہ آستانے اور پانسے انسان کو توہمات کی وادیوں میں گم کردیتے ہیں۔ شراب بڑھی ہوئی بے حسی پیدا کرتا ہے اور جوا بڑھی ہوئی خود غرضی۔ اور یہ دونوں چیزیں باہمی فساد کی جڑ ہیں۔ جو لوگ بے حس ہوجائیں وہ دوسرے کی عزت کو عزت اور دوسرے کی چیز کو چیز نہیں سمجھتے، ایسے لوگ ظلم، بے انصافی، دوسروں کو ناحق ستانے میں آخری حد تک جری ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جوا استحصال اور خود غرضی کی بدترین صورت ہے، جب کہ ایک آدمی یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ بہت سے لوگوں کو لوٹ کر اپنے لیے ایک بڑی کامیابی حاصل کرے۔ شرابی آدمی دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے سے عاری ہوتا ہے اور جوئے باز کے لیے دوسرا آدمی صرف استحصال کا موضوع ہوتا ہے۔ ان خصوصیات کے لوگ جس معاشرہ میں جمع ہوجائیں وہاں آپس کی بے اعتمادی، ایک دوسرے سے شکايات، باہمی ٹکراؤ اور دشمنی کے سوا اور کیا چیز پرورش پائے گی۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَيَبْلُوَنَّكُمُ اللَّهُ بِشَيْءٍ مِنَ الصَّيْدِ تَنَالُهُ أَيْدِيكُمْ وَرِمَاحُكُمْ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَخَافُهُ بِالْغَيْبِ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 حج یا عمرہ کے لیے یہ قاعدہ ہے کہ کعبہ پہنچنے سے پہلے مقررہ مقامات سے احرام باندھ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کعبہ تک کے سفر میں جانور یا چڑیاں سامنے آتی ہیں جن کو بآسانی شکار کیا جاسکتا ہو۔ مگر ایسے شکار کو حرام قرار دیاگیا ہے۔ آدمی خواہ خود شکار کرے یا کسی دوسرے کو شكار کرنے میں مدد دے، دونوں چیزیں احرام کی حالت میں ناجائز ہیں۔ روایات کے مطابق یہ آیت حدیبیہ کے سفر میں اتری جب کہ مسلمانوں نے عمرہ کے ارادہ سے احرام باندھ رکھا تھا۔ اس وقت چڑیاں اور جانور کثیر تعداد میں اتنے قریب پھر رہے تھے کہ بآسانی انھیں تیر یا نیزے سے مارا جاسکتا تھا۔ مسلمان اس وقت اپنی عادت اور ضرورت کے تحت چاہتے بھی تھے کہ ان کا شکار کریں۔ مگر حکم اترتے ہی ہر ایک نے اپنا ہاتھ روک لیا — یہ حکم جو احرام کی حالت میںجانوروں کے بارے میں دیاگیا ہے وہی روز مرہ کی زندگی میں عام انسانوں کے ساتھ مطلوب ہے۔ اس حکم کا اصل مقصد یہ ہے کہ ’’اللہ جان لے کہ کون ہے جو اللہ کو دیکھے بغیر اللہ سے ڈرتا ہے‘‘۔ دنیا میں انسان کو رکھ کر خدا اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اب وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ لوگوں میں کون اتنا حقیقت شناس ہے کہ بظاہر خدا کو نہ دیکھتے ہوئے بھی اس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ اس کو اس کی تمام طاقتوں کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کون اتنا غافل ہے کہ خدا کو اپنے سامنے نہ پاکر بے خوف ہوجاتا ہے اور مَن مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے۔ اس کا تجربہ حج کے سفر میں چند دن اور انسانی تعلقات میں روزانہ ہوتا ہے۔ ایک آدمی کسی کی زد میں اس طرح آتا ہے کہ اس کے لیے بالکل ممكن ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی جان پر حملہ کرے۔ وہ اس کو مالی نقصان پہنچائے۔ وہ اس کے بارے میں ایسی بات کہے جس سے اس کی رسوائی ہوتی ہو۔ اب ایک شخص وہ ہے جو اس طرح قابو پانے کے باوجود خدا کے ڈر سے اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کواس کے معاملہ میں روک لیتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو کسی پر قابو پاتے ہی اس کو ذلیل کرتاہے اور اس کو اپنی طاقت کا نشانہ بناتا ہے۔ ان میں سے پہلے شخص نے یہ ثابت کیا کہ وہ دیکھے بغیر اللہ سے ڈرتا ہے اور دوسرے نے اپنے بارے میں برعکس حالت کا ثبوت دیا۔ پہلے کے لیے خدا کے یہاں بے حساب انعامات ہیں اور دوسرے کے لیے دردناک عذاب۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْكُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنْتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ

📘 حج یا عمرہ کے لیے یہ قاعدہ ہے کہ کعبہ پہنچنے سے پہلے مقررہ مقامات سے احرام باندھ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کعبہ تک کے سفر میں جانور یا چڑیاں سامنے آتی ہیں جن کو بآسانی شکار کیا جاسکتا ہو۔ مگر ایسے شکار کو حرام قرار دیاگیا ہے۔ آدمی خواہ خود شکار کرے یا کسی دوسرے کو شكار کرنے میں مدد دے، دونوں چیزیں احرام کی حالت میں ناجائز ہیں۔ روایات کے مطابق یہ آیت حدیبیہ کے سفر میں اتری جب کہ مسلمانوں نے عمرہ کے ارادہ سے احرام باندھ رکھا تھا۔ اس وقت چڑیاں اور جانور کثیر تعداد میں اتنے قریب پھر رہے تھے کہ بآسانی انھیں تیر یا نیزے سے مارا جاسکتا تھا۔ مسلمان اس وقت اپنی عادت اور ضرورت کے تحت چاہتے بھی تھے کہ ان کا شکار کریں۔ مگر حکم اترتے ہی ہر ایک نے اپنا ہاتھ روک لیا — یہ حکم جو احرام کی حالت میںجانوروں کے بارے میں دیاگیا ہے وہی روز مرہ کی زندگی میں عام انسانوں کے ساتھ مطلوب ہے۔ اس حکم کا اصل مقصد یہ ہے کہ ’’اللہ جان لے کہ کون ہے جو اللہ کو دیکھے بغیر اللہ سے ڈرتا ہے‘‘۔ دنیا میں انسان کو رکھ کر خدا اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ہے۔ اب وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ لوگوں میں کون اتنا حقیقت شناس ہے کہ بظاہر خدا کو نہ دیکھتے ہوئے بھی اس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ اس کو اس کی تمام طاقتوں کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور کون اتنا غافل ہے کہ خدا کو اپنے سامنے نہ پاکر بے خوف ہوجاتا ہے اور مَن مانی کارروائیاں کرنے لگتا ہے۔ اس کا تجربہ حج کے سفر میں چند دن اور انسانی تعلقات میں روزانہ ہوتا ہے۔ ایک آدمی کسی کی زد میں اس طرح آتا ہے کہ اس کے لیے بالکل ممكن ہوجاتا ہے کہ وہ اس کی جان پر حملہ کرے۔ وہ اس کو مالی نقصان پہنچائے۔ وہ اس کے بارے میں ایسی بات کہے جس سے اس کی رسوائی ہوتی ہو۔ اب ایک شخص وہ ہے جو اس طرح قابو پانے کے باوجود خدا کے ڈر سے اپنی زبان اور اپنے ہاتھ کواس کے معاملہ میں روک لیتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو کسی پر قابو پاتے ہی اس کو ذلیل کرتاہے اور اس کو اپنی طاقت کا نشانہ بناتا ہے۔ ان میں سے پہلے شخص نے یہ ثابت کیا کہ وہ دیکھے بغیر اللہ سے ڈرتا ہے اور دوسرے نے اپنے بارے میں برعکس حالت کا ثبوت دیا۔ پہلے کے لیے خدا کے یہاں بے حساب انعامات ہیں اور دوسرے کے لیے دردناک عذاب۔

أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ ۖ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

📘 حالتِ احرام میں شکار حرام ہے مگر جو لوگ دریا یا سمندر سے بیت اللہ کا سفر کررہے ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ پاني میں شکار کریں اور اس کو کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شکار کی یہ ممانعت اس کے اندر کسی ذاتی حرمت کی بنا پر نہ تھی، بلکہ محض ’’آزمائش‘‘ کے لیے تھی۔ انسان کو آزمانے کے لیے اللہ نے علامتی طورپر کچھ چیزیں مقرر کردیں۔ اس لیے جہاں شارع نے محسوس کیا کہ جو چیز آزمائش کے لیے تھی وہ بندوں کے لیے غیرضروری مشقت کا سبب بن جائے گی وہاں قانون میں نرمی کردی گئی۔ کیوں کہ سمندر کے سفر میں اگر زادِ راہ نہ رہے تو آدمی کے لیے اپنی زندگی کو باقی رکھنے کی اس کے سوا اور صورت نہیں رہتی کہ وہ آبی جانوروں کو اپنی خوراک بنائے۔ کعبہ اسلام اور ملّت اسلام کا دائمی مرکز ہے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو نماز کی شر ط ٹھہرا کر اللہ نے دنیا کے ایک ایک مسلمان کو کعبہ کی مرکزیت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر حج کی صورت میں اس کو اسلام کا بین اقوامی اجتماع گاہ بنا دیا۔ زیارتِ کعبہ کے ذیل میں جو شعائر مقرر كيے گئے ہیں ان کے احترام کی وجہ ان کا کوئی ذاتی تقدس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے امتحان کی علامت ہیں۔ بندہ جب ان شعائر کے بارے میں اللہ کے حکم کو پورا کرتاہے تو وہ اپنے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتاہے کہ اللہ اگر چہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر وہ زندہ موجود ہے۔ وہ حکم دیتاہے ، وہ بندوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہے۔ یہ احساسات آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کا سچا بندہ بن کر رہ سکے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس طرف بھیڑ ہو، جدھر ظاہری سازوسامان کی کثرت ہو اسی کو اہم سمجھ لیتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک ساری اہمیت صرف کیفیت کی ہے۔ مقداركي اس کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ جو لوگ ’’کثرت‘‘ کی طرف دوڑیں اور ’’قلت‘‘ کو نظر انداز کردیں، وہ اپنے خیال سے بڑی ہوشیاری کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انتہائی نادان ہیں۔ کامیاب وہ ہے جو خدا کے ڈر کے تحت اپنا رویہ متعین کرے، نہ کہ مادی مصالح یا دنیوی اندیشوں کے تحت۔

۞ جَعَلَ اللَّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّهْرَ الْحَرَامَ وَالْهَدْيَ وَالْقَلَائِدَ ۚ ذَٰلِكَ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَأَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 حالتِ احرام میں شکار حرام ہے مگر جو لوگ دریا یا سمندر سے بیت اللہ کا سفر کررہے ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ پاني میں شکار کریں اور اس کو کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شکار کی یہ ممانعت اس کے اندر کسی ذاتی حرمت کی بنا پر نہ تھی، بلکہ محض ’’آزمائش‘‘ کے لیے تھی۔ انسان کو آزمانے کے لیے اللہ نے علامتی طورپر کچھ چیزیں مقرر کردیں۔ اس لیے جہاں شارع نے محسوس کیا کہ جو چیز آزمائش کے لیے تھی وہ بندوں کے لیے غیرضروری مشقت کا سبب بن جائے گی وہاں قانون میں نرمی کردی گئی۔ کیوں کہ سمندر کے سفر میں اگر زادِ راہ نہ رہے تو آدمی کے لیے اپنی زندگی کو باقی رکھنے کی اس کے سوا اور صورت نہیں رہتی کہ وہ آبی جانوروں کو اپنی خوراک بنائے۔ کعبہ اسلام اور ملّت اسلام کا دائمی مرکز ہے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو نماز کی شر ط ٹھہرا کر اللہ نے دنیا کے ایک ایک مسلمان کو کعبہ کی مرکزیت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر حج کی صورت میں اس کو اسلام کا بین اقوامی اجتماع گاہ بنا دیا۔ زیارتِ کعبہ کے ذیل میں جو شعائر مقرر كيے گئے ہیں ان کے احترام کی وجہ ان کا کوئی ذاتی تقدس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے امتحان کی علامت ہیں۔ بندہ جب ان شعائر کے بارے میں اللہ کے حکم کو پورا کرتاہے تو وہ اپنے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتاہے کہ اللہ اگر چہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر وہ زندہ موجود ہے۔ وہ حکم دیتاہے ، وہ بندوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہے۔ یہ احساسات آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کا سچا بندہ بن کر رہ سکے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس طرف بھیڑ ہو، جدھر ظاہری سازوسامان کی کثرت ہو اسی کو اہم سمجھ لیتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک ساری اہمیت صرف کیفیت کی ہے۔ مقداركي اس کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ جو لوگ ’’کثرت‘‘ کی طرف دوڑیں اور ’’قلت‘‘ کو نظر انداز کردیں، وہ اپنے خیال سے بڑی ہوشیاری کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انتہائی نادان ہیں۔ کامیاب وہ ہے جو خدا کے ڈر کے تحت اپنا رویہ متعین کرے، نہ کہ مادی مصالح یا دنیوی اندیشوں کے تحت۔

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 حالتِ احرام میں شکار حرام ہے مگر جو لوگ دریا یا سمندر سے بیت اللہ کا سفر کررہے ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ پاني میں شکار کریں اور اس کو کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شکار کی یہ ممانعت اس کے اندر کسی ذاتی حرمت کی بنا پر نہ تھی، بلکہ محض ’’آزمائش‘‘ کے لیے تھی۔ انسان کو آزمانے کے لیے اللہ نے علامتی طورپر کچھ چیزیں مقرر کردیں۔ اس لیے جہاں شارع نے محسوس کیا کہ جو چیز آزمائش کے لیے تھی وہ بندوں کے لیے غیرضروری مشقت کا سبب بن جائے گی وہاں قانون میں نرمی کردی گئی۔ کیوں کہ سمندر کے سفر میں اگر زادِ راہ نہ رہے تو آدمی کے لیے اپنی زندگی کو باقی رکھنے کی اس کے سوا اور صورت نہیں رہتی کہ وہ آبی جانوروں کو اپنی خوراک بنائے۔ کعبہ اسلام اور ملّت اسلام کا دائمی مرکز ہے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو نماز کی شر ط ٹھہرا کر اللہ نے دنیا کے ایک ایک مسلمان کو کعبہ کی مرکزیت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر حج کی صورت میں اس کو اسلام کا بین اقوامی اجتماع گاہ بنا دیا۔ زیارتِ کعبہ کے ذیل میں جو شعائر مقرر كيے گئے ہیں ان کے احترام کی وجہ ان کا کوئی ذاتی تقدس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے امتحان کی علامت ہیں۔ بندہ جب ان شعائر کے بارے میں اللہ کے حکم کو پورا کرتاہے تو وہ اپنے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتاہے کہ اللہ اگر چہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر وہ زندہ موجود ہے۔ وہ حکم دیتاہے ، وہ بندوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہے۔ یہ احساسات آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کا سچا بندہ بن کر رہ سکے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس طرف بھیڑ ہو، جدھر ظاہری سازوسامان کی کثرت ہو اسی کو اہم سمجھ لیتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک ساری اہمیت صرف کیفیت کی ہے۔ مقداركي اس کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ جو لوگ ’’کثرت‘‘ کی طرف دوڑیں اور ’’قلت‘‘ کو نظر انداز کردیں، وہ اپنے خیال سے بڑی ہوشیاری کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انتہائی نادان ہیں۔ کامیاب وہ ہے جو خدا کے ڈر کے تحت اپنا رویہ متعین کرے، نہ کہ مادی مصالح یا دنیوی اندیشوں کے تحت۔

مَا عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ

📘 حالتِ احرام میں شکار حرام ہے مگر جو لوگ دریا یا سمندر سے بیت اللہ کا سفر کررہے ہوں ان کے لیے جائز ہے کہ وہ پاني میں شکار کریں اور اس کو کھائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شکار کی یہ ممانعت اس کے اندر کسی ذاتی حرمت کی بنا پر نہ تھی، بلکہ محض ’’آزمائش‘‘ کے لیے تھی۔ انسان کو آزمانے کے لیے اللہ نے علامتی طورپر کچھ چیزیں مقرر کردیں۔ اس لیے جہاں شارع نے محسوس کیا کہ جو چیز آزمائش کے لیے تھی وہ بندوں کے لیے غیرضروری مشقت کا سبب بن جائے گی وہاں قانون میں نرمی کردی گئی۔ کیوں کہ سمندر کے سفر میں اگر زادِ راہ نہ رہے تو آدمی کے لیے اپنی زندگی کو باقی رکھنے کی اس کے سوا اور صورت نہیں رہتی کہ وہ آبی جانوروں کو اپنی خوراک بنائے۔ کعبہ اسلام اور ملّت اسلام کا دائمی مرکز ہے۔ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو نماز کی شر ط ٹھہرا کر اللہ نے دنیا کے ایک ایک مسلمان کو کعبہ کی مرکزیت کے ساتھ جوڑ دیا۔ پھر حج کی صورت میں اس کو اسلام کا بین اقوامی اجتماع گاہ بنا دیا۔ زیارتِ کعبہ کے ذیل میں جو شعائر مقرر كيے گئے ہیں ان کے احترام کی وجہ ان کا کوئی ذاتی تقدس نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آدمی کے امتحان کی علامت ہیں۔ بندہ جب ان شعائر کے بارے میں اللہ کے حکم کو پورا کرتاہے تو وہ اپنے ذہن میں اس حقیقت کو تازہ کرتاہے کہ اللہ اگر چہ بظاہر دکھائی نہیں دیتا مگر وہ زندہ موجود ہے۔ وہ حکم دیتاہے ، وہ بندوں کی نگرانی کرتا ہے، وہ ہماری تمام حرکتوں سے باخبر ہے۔ یہ احساسات آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا کرتے ہیں اور اس کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کا سچا بندہ بن کر رہ سکے۔ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جس طرف بھیڑ ہو، جدھر ظاہری سازوسامان کی کثرت ہو اسی کو اہم سمجھ لیتا ہے۔ مگر خدا کے نزدیک ساری اہمیت صرف کیفیت کی ہے۔ مقداركي اس کے یہاں کوئی قیمت نہیں۔ جو لوگ ’’کثرت‘‘ کی طرف دوڑیں اور ’’قلت‘‘ کو نظر انداز کردیں، وہ اپنے خیال سے بڑی ہوشیاری کررہے ہیں۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ انتہائی نادان ہیں۔ کامیاب وہ ہے جو خدا کے ڈر کے تحت اپنا رویہ متعین کرے، نہ کہ مادی مصالح یا دنیوی اندیشوں کے تحت۔