slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة يونس

(Yunus) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ

📘 پیغمبر کا کلام انتہائی محکم دلائل پر مبنی ہوتاہے۔ وہ اپنے غیر معمولی انداز کی بنا پر خود اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے بول رہا ہے۔ اس کے باوجود ہر زمانہ میں لوگوں نے پیغمبر کا انکار کیا۔ اس کی وجہ انسان کی ظاہر پرستی ہے۔ پیغمبر اپنے معاصرین کی نظر میں عام انسانوں کی طرح بس ایک انسان ہوتاہے۔ اس کے گرد ابھی عظمت کی وہ تاریخ جمع نہیں ہوتی جو بعد کے زمانہ میں اس کے نام کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے پیغمبر کے زمانہ کے لوگ پیغمبر کو محض ایک انسان سمجھ کر نظر اندازکردیتے ہیں۔ وہ پیغمبر کو نہ خدا کے بھیجے ہوئے کی حیثیت میں دیکھ پاتے اور نہ مستقبل میں بننے والی تاریخ کے اعتبار سے اس کا اندازہ کرپاتے جب کہ ہر آدمی اس کی پیغمبرانہ عظمت کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ پیغمبر کا کلام سراپا اعجاز ہوتاہے جو سننے والوں کو بے دلیل کردیتاہے۔ مگر منکرین اس کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ادبی ساحری ہے۔ وہ دلیل کے میدان میں اپنے آپ کو عاجز پاکر اس کے اوپر عیب لگانے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ پیغمبر کے کلام کی صداقت کو مشتبہ کرتے ہیں۔ پیغمبر کا کلام جن لوگوں کو مفتوح کررہا تھا ان کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ محض سادگی میں پڑے ہوئے ہیں، ورنہ یہ سارا معاملہ الفاظ کے فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ زبان کی جادوگری ہے، نہ کہ کوئی واقعی اہمیت کی چیز۔ پیغمبر کا اصل مشن انذار وتبشیر ہے۔ یعنی خدا کی پکڑ سے ڈرانا اور جو لوگ خدا سے ڈر کر دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہوں، ان کو جنت کی خوش خبری دینا۔ پیغمبر اس ليے آتاہے کہ لوگوں کو اس حقیقتِ واقعہ سے آگاہ کردے کہ آدمی اس دنیا میں آزاد اور خود مختار نہیں ہے اور نہ زندگی کا قصہ آدمی کی موت کے ساتھ ختم ہوجانے والا ہے۔ بلکہ موت کے بعد ابدی زندگی ہے اور آدمی کو سب سے زیادہ اسی کی فکرکرني چاہیے۔ جو شخص غفلت برتے گا یا سرکشی کرے گا وہ موت کے بعد کی دنیا میں اس حال میں پہنچے گا کہ وہاں اس کے لیے دکھ کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ ظاہر پرست انسان ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہے کہ عزت اور ترقی اس شخص کے لیے ہے، جس کے پاس دنیا کا اقتدار ہے، جو دنیا کی دولت کا مالک ہے۔ پیغمبر بتاتا ہے کہ یہ سراسر دھوکا ہے۔ یہ عزت وترقی تو وہ ہے جو موجودہ عارضی زندگی میں انسانوں کے درمیان ملتی ہے۔ مگر عزت اور ترقی دراصل وہ ہے جو مستقل زندگی میں خدا کے یہاں حاصل ہو۔ وہی عزت وترقی حقیقی ہے اور اسی کے ساتھ دائمی بھی۔

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 جہنم کس کے لیے ہے — ان لوگوں کے لیے جو اس دن کو بھولے ہوئے ہوں جب کہ خدا سے ان کا سامنا ہوگا۔ جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی عارضی چیزوں پر راضی ہوگئے ہوں۔ جن کا یہ حال ہو کہ دنیا میںانھیں جو کچھ امتحان کے طورپر ملا ہے اسی پر وہ مطمئن ہوجائیں۔ جو غیر خدائی چیزوں میںاتنا دل لگالیں کہ خدا کی طرف سے ظاہر کی جانے والی حقیقتوں سے غافل ہوجائیں۔ یہ سب خدا کے نزدیک جہنمی راستوں میں چلنا ہے، اور جو لوگ جہنمی راستوں میں چل رہے ہوں وہ آخر کار جہنم کے سوا اور کہاں پہنچیں گے۔ ’’اللہ انھیں ان کے ایمان کی وجہ سے جنت کی منزل تک پہنچائے گا‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان آدمی کے لیے رہنمائی ہے۔ وہ آدمی کو غلط راہوں سے بچا کر صحیح راستہ پر چلاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو حقیقی منزل تک پہنچا دیتاہے۔ ایمان خدا کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو ایمان حاصل ہوجائے اس کو علم کا سرا ہاتھ آجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر معاملہ میں صحیح مقام سے اپنی سوچ کاآغاز کرسکے۔ وہ فکری بے راہ روی سے بچ کر فکری صحت کا مالک بن جائے۔ مزید یہ کہ خدا کو ماننا کسی کتابی فلسفہ کو ماننا نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ خدا کو ماننا ہے جو بالآخر تمام انسانوں کو اپنے یہاں جمع کرکے ان کا حساب لینے والا ہے۔ اس طرح ایمان آدمی کے اندر اپنے انجام کے بارے میں اندیشہ کی کیفیت پید کرکے اس کو انتہائی سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے کو مجبور پاتا ہے کہ اپنی تمام کارروائیوں کو صحیح اور غلط کی روشنی میں دیکھے اور صرف صحیح رخ پر چلے اور غلط رخ پر چلنے سے ہمیشہ پرہیز کرے۔ اس طرح ایمان آدمی کو صحیح فکر بھی دیتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ قوت تمیز بھی جو اس کے لیے مستقل عملی رہنما بن جائے۔ آخرت کی جنت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا ہو۔ آخرت خدا کے براہِ راست جلوؤں میں سرشار ہونے کا مقام ہے، وہاں بسنے کا موقع صرف ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں خداکے بالواسطہ جلوؤں سے سرشار ہوئے تھے۔ آخرت میں لوگوں کے دل ایک دوسرے کے لیے سلامتی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھرے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہاں کی آبادی میںوہی لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میں اس بات کا ثبوت دیا تھا کہ دوسروں کے لیے ان کے دل میں سلامتی اور خیر خواہی کے سوا کوئی دوسرا جذبہ نہیں۔

وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ

📘 ’’تیرا رب چاہتا تو سارے لوگ مومن بن جاتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے لیے یہ ممکن تھا کہ انسانی دنیا کا نظام بھی اسی طرح بنائے جس طرح بقیہ دنیا کا نظام ہے۔ جہاں ہر چیز مکمل طورپر خدا کے حکم کی پابندبنی ہوئی ہے۔ مگر انسان کے سلسلہ میں خدا کی یہ اسکیم ہی نہیں۔ انسان کے سلسلہ میں خدا کی اسکیم یہ ہے کہ آزادانہ ماحول میں رکھ کر انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ خود اپنے ذاتی فیصلہ سے خدا کا فرماں بردار بنے۔ وہ اپنے اختیار سے وہ کام کرے جو بقیہ دنیا بے اختیاری کے ساتھ کررہی ہے۔ جنت کی ابدی نعمتیں اسی اختیارانہ اطاعت کی قیمت ہیں۔ ’’کوئی شخص خدا کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کو ایمان کی نعمت ملے گی تو اس طریقہ کی پیروی کرکے ملے گی جو خدا نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے۔ موجودہ دنیا میں ایمان کو پانے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی ایمان کی دعوت کو اپنی عقل کے استعمال سے سمجھے ۔ جس شخص کی عقل کے اوپر اس کی دنیوی مصلحتیں غالب آجائیں اس کی عقل گویا گندگی کی کیچڑ میں لت پت ہوگئی ہے۔ ایسے شخص کے لیے اس دنیا میں ایمان کی نعمت پانے کا کوئی سوال نہیں۔

قُلِ انْظُرُوا مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا تُغْنِي الْآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 ہمارے چاروں طرف جو کائنات ہے اس میں بے شمار نشانیاں موجود ہیں جو خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس کائنات کے بارے میں خدا کا منصوبہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا میں ڈراوے (آندھی اور بھونچال) جیسے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں جو انسان کو خدااور آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ بنائیں۔ مگر یہ سب کچھ عالم امتحان میں ہوتاہے، یعنی ایسی دنیا میں جہاں آدمی کو اختیار ہے کہ مانے یہ نہ مانے۔ چنانچہ آدمی یہ کرتا ہے کہ جب نشانیاں اور ڈراوے سامنے آتے ہیں تو وہ ان کی کوئی نہ کوئی خود ساختہ توجیہہ کرکے بات کو دوسرے رخ کی طرف پھیر دیتاہے اور نصیحت سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب آدمی دلیل کی زبان میں بات کو نہ مانے تو گویا وہ صرف اس دن کا انتظار کررہا ہے جب کہ امتحان کا پردہ ہٹا دیا جائے اور خدا اپنا آخری فیصلہ سنانے کے لیے سامنے آجائے۔ مگر وہ دن جب آئے گا تو وہ آج کے دن سے بالکل مختلف ہوگا۔ آج تو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں بظاہر یکساں حالت میں نظر آتے ہیں۔ مگر جب فیصلہ کا دن آئے گا تو اس کے بعد وہی لوگ امن میں رہیں گے جو حق پرست ثابت ہوئے تھے۔ بقیہ تمام لوگ اس طرح عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے کہ اس کے بعد ان کے لیے کوئی راہ نہ ہوگی جس سے بھاگ کر وہ نجات حاصل کریں۔

فَهَلْ يَنْتَظِرُونَ إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ

📘 ہمارے چاروں طرف جو کائنات ہے اس میں بے شمار نشانیاں موجود ہیں جو خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس کائنات کے بارے میں خدا کا منصوبہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا میں ڈراوے (آندھی اور بھونچال) جیسے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں جو انسان کو خدااور آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ بنائیں۔ مگر یہ سب کچھ عالم امتحان میں ہوتاہے، یعنی ایسی دنیا میں جہاں آدمی کو اختیار ہے کہ مانے یہ نہ مانے۔ چنانچہ آدمی یہ کرتا ہے کہ جب نشانیاں اور ڈراوے سامنے آتے ہیں تو وہ ان کی کوئی نہ کوئی خود ساختہ توجیہہ کرکے بات کو دوسرے رخ کی طرف پھیر دیتاہے اور نصیحت سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب آدمی دلیل کی زبان میں بات کو نہ مانے تو گویا وہ صرف اس دن کا انتظار کررہا ہے جب کہ امتحان کا پردہ ہٹا دیا جائے اور خدا اپنا آخری فیصلہ سنانے کے لیے سامنے آجائے۔ مگر وہ دن جب آئے گا تو وہ آج کے دن سے بالکل مختلف ہوگا۔ آج تو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں بظاہر یکساں حالت میں نظر آتے ہیں۔ مگر جب فیصلہ کا دن آئے گا تو اس کے بعد وہی لوگ امن میں رہیں گے جو حق پرست ثابت ہوئے تھے۔ بقیہ تمام لوگ اس طرح عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے کہ اس کے بعد ان کے لیے کوئی راہ نہ ہوگی جس سے بھاگ کر وہ نجات حاصل کریں۔

ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ كَذَٰلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 ہمارے چاروں طرف جو کائنات ہے اس میں بے شمار نشانیاں موجود ہیں جو خدا کے وجود کو ثابت کرتی ہیں۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی بتاتی ہیں کہ اس کائنات کے بارے میں خدا کا منصوبہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا میں ڈراوے (آندھی اور بھونچال) جیسے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں جو انسان کو خدااور آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ بنائیں۔ مگر یہ سب کچھ عالم امتحان میں ہوتاہے، یعنی ایسی دنیا میں جہاں آدمی کو اختیار ہے کہ مانے یہ نہ مانے۔ چنانچہ آدمی یہ کرتا ہے کہ جب نشانیاں اور ڈراوے سامنے آتے ہیں تو وہ ان کی کوئی نہ کوئی خود ساختہ توجیہہ کرکے بات کو دوسرے رخ کی طرف پھیر دیتاہے اور نصیحت سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب آدمی دلیل کی زبان میں بات کو نہ مانے تو گویا وہ صرف اس دن کا انتظار کررہا ہے جب کہ امتحان کا پردہ ہٹا دیا جائے اور خدا اپنا آخری فیصلہ سنانے کے لیے سامنے آجائے۔ مگر وہ دن جب آئے گا تو وہ آج کے دن سے بالکل مختلف ہوگا۔ آج تو ماننے والے اور نہ ماننے والے دونوں بظاہر یکساں حالت میں نظر آتے ہیں۔ مگر جب فیصلہ کا دن آئے گا تو اس کے بعد وہی لوگ امن میں رہیں گے جو حق پرست ثابت ہوئے تھے۔ بقیہ تمام لوگ اس طرح عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے کہ اس کے بعد ان کے لیے کوئی راہ نہ ہوگی جس سے بھاگ کر وہ نجات حاصل کریں۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي شَكٍّ مِنْ دِينِي فَلَا أَعْبُدُ الَّذِينَ تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ أَعْبُدُ اللَّهَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ

📘 داعی اولاً دلیل کی زبان میں اپنی بات کہتاہے۔ مگر جب لوگ دلیل سننے کے باوجود شک وشبہ میں پڑے رہتے ہیں تو اس کے پاس آخری چیز یہ رہ جاتی ہے کہ عزم کی زبان میں اپنے پیغام کی صداقت کا اظہار کردے۔ توحید کے داعی کا شرک کے پرستاروں سے یہ کہنا کہ ’’میں اس کی عبادت نہیںکرتا جس کی عبادت تم لوگ کرتے ہو‘‘ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک دلیل بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ— میں بھی تمھارے جیسا ایک انسان ہوں۔ میرے پاس بھی وہی عقل ہے جو تمھارے پاس ہے۔ پھر جس بات کی صداقت میری سمجھ میں آرہی ہے اس کی صداقت تمھاری سمجھ میں آخر کیوں نہیں آتی۔ سچائی اگر ایک انسان کی سطح پر قابل فہم ہوجائے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی قابلِ فہم تھی۔ اس کے باوجود اگر دوسرے لوگ انکار کریں تو یقیناً اس کی وجہ خود ان کا اپنا کوئی نقص ہوگا، نہ کہ دعوت حق کا نقص۔ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ رہا ہو اور دوسرا آنکھ والا شخص اسے نہ دیکھے تو وہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آنکھ والا حقیقۃً آنکھ والا نہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ لے اس کو دوسرا شخص آنکھ رکھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ موت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی اس دنیا میں کامل طورپر بے اختیار ہے۔ موت ان تمام چیزوں کو باطل ثابت کردیتی ہے جن کے سہارے آدمی انکار اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتاہے۔ موت ایک طرف آدمی کو اپنے عجز اور دوسری طرف خدا کی قدرت کا تعارف کراتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ا س دنیا میں کوئی نہیں جس کو نفع دینے یا نقصان پہنچانے کا اختیار حاصل ہو۔ اس طرح موت آدمی کو ہر دوسری چیز سے کاٹ کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ مکمل طور پر انسان کو خدا کا پرستار بناتی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سبق لینے کا ذہن ہو تو صرف موت کا واقعہ اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ ہر انسان پر ایک وقت آتاہے جب کہ وہ بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیتاہے۔ اسی طرح کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ فائدہ اور نقصان کے معاملہ میں وہی ہونے دے جو وہ چاہتاہے۔ وہ مطلوب فائدہ کو ہر حال میں پالے اور غیر مطلوب نقصان سے ہر حال میں محفوظ رہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان ایک بے اختیار مخلوق ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں کوئی اور بھی ہے جو اس کے اوپر حکمرانی کررہا ہے۔

وَأَنْ أَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 داعی اولاً دلیل کی زبان میں اپنی بات کہتاہے۔ مگر جب لوگ دلیل سننے کے باوجود شک وشبہ میں پڑے رہتے ہیں تو اس کے پاس آخری چیز یہ رہ جاتی ہے کہ عزم کی زبان میں اپنے پیغام کی صداقت کا اظہار کردے۔ توحید کے داعی کا شرک کے پرستاروں سے یہ کہنا کہ ’’میں اس کی عبادت نہیںکرتا جس کی عبادت تم لوگ کرتے ہو‘‘ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک دلیل بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ— میں بھی تمھارے جیسا ایک انسان ہوں۔ میرے پاس بھی وہی عقل ہے جو تمھارے پاس ہے۔ پھر جس بات کی صداقت میری سمجھ میں آرہی ہے اس کی صداقت تمھاری سمجھ میں آخر کیوں نہیں آتی۔ سچائی اگر ایک انسان کی سطح پر قابل فہم ہوجائے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی قابلِ فہم تھی۔ اس کے باوجود اگر دوسرے لوگ انکار کریں تو یقیناً اس کی وجہ خود ان کا اپنا کوئی نقص ہوگا، نہ کہ دعوت حق کا نقص۔ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ رہا ہو اور دوسرا آنکھ والا شخص اسے نہ دیکھے تو وہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آنکھ والا حقیقۃً آنکھ والا نہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ لے اس کو دوسرا شخص آنکھ رکھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ موت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی اس دنیا میں کامل طورپر بے اختیار ہے۔ موت ان تمام چیزوں کو باطل ثابت کردیتی ہے جن کے سہارے آدمی انکار اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتاہے۔ موت ایک طرف آدمی کو اپنے عجز اور دوسری طرف خدا کی قدرت کا تعارف کراتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ا س دنیا میں کوئی نہیں جس کو نفع دینے یا نقصان پہنچانے کا اختیار حاصل ہو۔ اس طرح موت آدمی کو ہر دوسری چیز سے کاٹ کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ مکمل طور پر انسان کو خدا کا پرستار بناتی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سبق لینے کا ذہن ہو تو صرف موت کا واقعہ اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ ہر انسان پر ایک وقت آتاہے جب کہ وہ بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیتاہے۔ اسی طرح کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ فائدہ اور نقصان کے معاملہ میں وہی ہونے دے جو وہ چاہتاہے۔ وہ مطلوب فائدہ کو ہر حال میں پالے اور غیر مطلوب نقصان سے ہر حال میں محفوظ رہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان ایک بے اختیار مخلوق ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں کوئی اور بھی ہے جو اس کے اوپر حکمرانی کررہا ہے۔

وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ ۖ فَإِنْ فَعَلْتَ فَإِنَّكَ إِذًا مِنَ الظَّالِمِينَ

📘 داعی اولاً دلیل کی زبان میں اپنی بات کہتاہے۔ مگر جب لوگ دلیل سننے کے باوجود شک وشبہ میں پڑے رہتے ہیں تو اس کے پاس آخری چیز یہ رہ جاتی ہے کہ عزم کی زبان میں اپنے پیغام کی صداقت کا اظہار کردے۔ توحید کے داعی کا شرک کے پرستاروں سے یہ کہنا کہ ’’میں اس کی عبادت نہیںکرتا جس کی عبادت تم لوگ کرتے ہو‘‘ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک دلیل بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ— میں بھی تمھارے جیسا ایک انسان ہوں۔ میرے پاس بھی وہی عقل ہے جو تمھارے پاس ہے۔ پھر جس بات کی صداقت میری سمجھ میں آرہی ہے اس کی صداقت تمھاری سمجھ میں آخر کیوں نہیں آتی۔ سچائی اگر ایک انسان کی سطح پر قابل فہم ہوجائے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی قابلِ فہم تھی۔ اس کے باوجود اگر دوسرے لوگ انکار کریں تو یقیناً اس کی وجہ خود ان کا اپنا کوئی نقص ہوگا، نہ کہ دعوت حق کا نقص۔ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ رہا ہو اور دوسرا آنکھ والا شخص اسے نہ دیکھے تو وہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آنکھ والا حقیقۃً آنکھ والا نہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ لے اس کو دوسرا شخص آنکھ رکھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ موت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی اس دنیا میں کامل طورپر بے اختیار ہے۔ موت ان تمام چیزوں کو باطل ثابت کردیتی ہے جن کے سہارے آدمی انکار اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتاہے۔ موت ایک طرف آدمی کو اپنے عجز اور دوسری طرف خدا کی قدرت کا تعارف کراتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ا س دنیا میں کوئی نہیں جس کو نفع دینے یا نقصان پہنچانے کا اختیار حاصل ہو۔ اس طرح موت آدمی کو ہر دوسری چیز سے کاٹ کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ مکمل طور پر انسان کو خدا کا پرستار بناتی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سبق لینے کا ذہن ہو تو صرف موت کا واقعہ اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ ہر انسان پر ایک وقت آتاہے جب کہ وہ بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیتاہے۔ اسی طرح کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ فائدہ اور نقصان کے معاملہ میں وہی ہونے دے جو وہ چاہتاہے۔ وہ مطلوب فائدہ کو ہر حال میں پالے اور غیر مطلوب نقصان سے ہر حال میں محفوظ رہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان ایک بے اختیار مخلوق ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں کوئی اور بھی ہے جو اس کے اوپر حکمرانی کررہا ہے۔

وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِنْ يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ يُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

📘 داعی اولاً دلیل کی زبان میں اپنی بات کہتاہے۔ مگر جب لوگ دلیل سننے کے باوجود شک وشبہ میں پڑے رہتے ہیں تو اس کے پاس آخری چیز یہ رہ جاتی ہے کہ عزم کی زبان میں اپنے پیغام کی صداقت کا اظہار کردے۔ توحید کے داعی کا شرک کے پرستاروں سے یہ کہنا کہ ’’میں اس کی عبادت نہیںکرتا جس کی عبادت تم لوگ کرتے ہو‘‘ محض ایک دعویٰ نہیں بلکہ وہ اپنی ذات میں ایک دلیل بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ— میں بھی تمھارے جیسا ایک انسان ہوں۔ میرے پاس بھی وہی عقل ہے جو تمھارے پاس ہے۔ پھر جس بات کی صداقت میری سمجھ میں آرہی ہے اس کی صداقت تمھاری سمجھ میں آخر کیوں نہیں آتی۔ سچائی اگر ایک انسان کی سطح پر قابل فہم ہوجائے تو اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لیے بھی قابلِ فہم تھی۔ اس کے باوجود اگر دوسرے لوگ انکار کریں تو یقیناً اس کی وجہ خود ان کا اپنا کوئی نقص ہوگا، نہ کہ دعوت حق کا نقص۔ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ رہا ہو اور دوسرا آنکھ والا شخص اسے نہ دیکھے تو وہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آنکھ والا حقیقۃً آنکھ والا نہیں۔ کیوں کہ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ جس چیز کو ایک آنکھ والا دیکھ لے اس کو دوسرا شخص آنکھ رکھتے ہوئے نہ دیکھ سکے۔ موت اس بات کا اعلان ہے کہ آدمی اس دنیا میں کامل طورپر بے اختیار ہے۔ موت ان تمام چیزوں کو باطل ثابت کردیتی ہے جن کے سہارے آدمی انکار اور سرکشی کا طریقہ اختیار کرتاہے۔ موت ایک طرف آدمی کو اپنے عجز اور دوسری طرف خدا کی قدرت کا تعارف کراتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ ا س دنیا میں کوئی نہیں جس کو نفع دینے یا نقصان پہنچانے کا اختیار حاصل ہو۔ اس طرح موت آدمی کو ہر دوسری چیز سے کاٹ کر خدا کی طرف لے جاتی ہے۔ وہ مکمل طور پر انسان کو خدا کا پرستار بناتی ہے۔ اگر آدمی کے اندر سبق لینے کا ذہن ہو تو صرف موت کا واقعہ اس کی اصلاح کے لیے کافی ہوجائے۔ ہر انسان پر ایک وقت آتاہے جب کہ وہ بے بسی کے ساتھ اپنے آپ کو موت کے حوالے کردیتاہے۔ اسی طرح کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ فائدہ اور نقصان کے معاملہ میں وہی ہونے دے جو وہ چاہتاہے۔ وہ مطلوب فائدہ کو ہر حال میں پالے اور غیر مطلوب نقصان سے ہر حال میں محفوظ رہے۔ یہ صورت حال بتاتی ہے کہ انسان ایک بے اختیار مخلوق ہے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں کوئی اور بھی ہے جو اس کے اوپر حکمرانی کررہا ہے۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُمُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنَا عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ

📘 دعوت کا کام اصلاً اعلانِ حق کا کام ہے۔ کسی گروہ کے اوپر اس وقت پیغام رسانی کا حق ادا ہوجاتاہے جب کہ داعی امر حق کو دلیل کے ذریعہ پوری طرح واضح کردے اور اسی کے ساتھ اس بات کا ثبوت دے دے کہ وہ اس معاملہ میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔داعی اگر وقت کے معیار کے مطابق امر حق کو مدلّل کردے۔ وہ نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر حق کی مکمل گواہی دے دے۔ وہ ہر تکلیف اور ناخوش گواری کو برداشت کرتا ہوا اپنے دعوتی کام کو جاری رکھے تو اس کے بعد مخاطب کے اوپر وہ اتمام حجت ہوجاتا ہے جس کے بعد خدا کے یہاں کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ داعی کا کام اصلاً اتباعِ وحی ہے۔ یعنی اپنی ذات کی حد تک عملاً مرضیٔ رب پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو مرضیٔ رب کی طرف پکارتے رہنا۔ اس کام کو ہر حال میں حکمت اور صبر اور خیر خواہی کے ساتھ مسلسل جاری رکھنا ہے۔ اس کے بعد جتنے بقیہ مراحل ہیں وہ سب براہِ راست طورپر خدا سے متعلق ہیں۔ داعی کی طرف سے کوئی دوسرا عملی اقدام صرف اس وقت درست ہے جب کہ خود خدا کی طرف سے اس کا فیصلہ کیا جاچکا ہو اور اس کے آثار ظاہر ہوجائیں۔ خدا کا فیصلہ ہمیشہ حالات کے روپ میں ظاہر ہوتاہے، جب خدا کے علم میں داعی کا دعوتی کام مطلوب حدکو پہنچ چکا ہوتا ہے تو خدا حالات میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جس کو استعمال کرکے داعی اپنے عمل کے اگلے مرحلہ میں داخل ہوجائے۔

وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ

📘 دعوت کا کام اصلاً اعلانِ حق کا کام ہے۔ کسی گروہ کے اوپر اس وقت پیغام رسانی کا حق ادا ہوجاتاہے جب کہ داعی امر حق کو دلیل کے ذریعہ پوری طرح واضح کردے اور اسی کے ساتھ اس بات کا ثبوت دے دے کہ وہ اس معاملہ میں پوری طرح سنجیدہ ہے۔داعی اگر وقت کے معیار کے مطابق امر حق کو مدلّل کردے۔ وہ نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر حق کی مکمل گواہی دے دے۔ وہ ہر تکلیف اور ناخوش گواری کو برداشت کرتا ہوا اپنے دعوتی کام کو جاری رکھے تو اس کے بعد مخاطب کے اوپر وہ اتمام حجت ہوجاتا ہے جس کے بعد خدا کے یہاں کسی کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ داعی کا کام اصلاً اتباعِ وحی ہے۔ یعنی اپنی ذات کی حد تک عملاً مرضیٔ رب پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کو مرضیٔ رب کی طرف پکارتے رہنا۔ اس کام کو ہر حال میں حکمت اور صبر اور خیر خواہی کے ساتھ مسلسل جاری رکھنا ہے۔ اس کے بعد جتنے بقیہ مراحل ہیں وہ سب براہِ راست طورپر خدا سے متعلق ہیں۔ داعی کی طرف سے کوئی دوسرا عملی اقدام صرف اس وقت درست ہے جب کہ خود خدا کی طرف سے اس کا فیصلہ کیا جاچکا ہو اور اس کے آثار ظاہر ہوجائیں۔ خدا کا فیصلہ ہمیشہ حالات کے روپ میں ظاہر ہوتاہے، جب خدا کے علم میں داعی کا دعوتی کام مطلوب حدکو پہنچ چکا ہوتا ہے تو خدا حالات میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے جس کو استعمال کرکے داعی اپنے عمل کے اگلے مرحلہ میں داخل ہوجائے۔

۞ وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

📘 گھوڑا ایک نہایت وفادار جانور ہے۔ وہ اپنے مالک کے لیے اپنے آپ کو آخری حد تک قربان کردیتا ہے، حتی کہ جنگ کے میدان میں بھی وہ اپنے مالک کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ یہ گویا ایک علامتی مثال ہے جو انسان کو بتاتی ہے کہ اسے کیسا بننا چاہيے۔ انسان کو بھی اپنے رب کا اسی طرح وفادار بننا چاہيے جیسا کہ گھوڑا انسان کا وفادار ہوتا ہے۔ مگر عملاً ایسا نہیں۔ اس دنیا میں جانور اپنے مالک کا شکر گزار ہے مگر انسان اپنے رب کا شکر گزار نہیں یہاں جانور اپنے مالک کا حق پہچانتا ہے مگر انسان اپنے رب کا حق نہیں پہچانتا۔ یہاں جانور اپنے مالک کی اطاعت میں سرگرم ہے۔ مگر انسان اپنے رب کی اطاعت میں سرگرم نہیں۔ انسان اسی جانور کی قدر کرتا ہے جو اس کا وفادار ہو۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ وہ اس راز کو نہ جانے کہ خدا کے یہاں وہی انسان قابلِ قدر ٹھہرے گا جو خدا کی نظر میں اس کا وفادار ثابت ہو۔ مگر مال کی محبت اس کو اندھا بنا دیتی ہے۔ وہ ایک ایسی حقیقت کو جاننے سے محروم رہتا ہے جس کا وہ خود اپنے قریبی حالات میں تجربہ کرچکا تھا۔

وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 خدا کا قانون یہ ہے کہ کوئی شخص قابل انعام عمل کرے تو اس کا عمل فوراً اس کے اعمال نامہ میں شامل کردیا جاتا ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص قابل سزا فعل کا ارتکاب کرتاہے تو خدا اس کو ڈھیل دیتا ہے تاکہ وہ کسی نہ کسی موڑ پر متنبہ ہو کر اپنی اصلاح کرلے۔ خدا کا یہ قانون انسان کے لیے بہت بڑی رحمت ہے، ورنہ انسان اتنا ظالم ہے کہ وہ ہر وقت برائی کرنے پر آمادہ رہتاہے، اور اگر لوگوں کو ان کی برائیوں پر فوراً پکڑا جانے لگے تو ان کی مہلتِ عمر بہت جلد ختم ہوجائے اور زمین کی پشت چلنے والے انسانوں سے خالی ہوجائے۔ دنیا کی زندگی میں سرکش وہ لوگ بنتے ہیں جو دنیا میں یہ سمجھ کر رہیں کہ مرنے کے بعد انھیں خدا کا سامنا نہیں کرنا ہوگا۔ جو پکڑ کے اندیشہ سے خالی ہو کر زندگی گزارتے ہیں،جو سمجھتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں کہ جو دھاندلی چاہیں کریں اور جو فساد چاہیں پھیلائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان سچائی اور انصاف کے ساتھ معاملہ کرنے کا ایک ہی حقیقی محرک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی یہ سمجھے کہ سب طاقت وروں کے اوپر ایک طاقت ور ہے۔ ہر آدمی اس کے آگے بے بس ہے۔ وہ ایک دن تمام انسانوں کو پکڑ ے گا اور ہر ایک مجبور ہوگا کہ اپنے بارے میں اس کے فیصلہ کو تسلیم کرے۔ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ آدمی بار بار کسی نہ کسی تکلیف یا حادثہ کی زد میں آجاتا ہے ، آدمی محسوس کرنے لگتاہے کہ خارجی طاقتوں کے مقابلہ میں وہ بالکل بے بس ہے۔اُس وقت آدمی بے اختیار ہو کر خدا کو پکارنے لگتا ہے۔ وہ خدا کی قدرت کے مقابلہ میں اپنے عجز کا اعتراف کرلیتا ہے۔ مگر یہ حالت صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک وہ مصیبتوں کی گرفت میں ہو، مصیبت سے نجات پاتے ہی وہ دوبارہ ویسا ہی غافل اور سرکش بن جاتا ہے جیسا وہ پہلے تھا۔ ایسے لوگوں کے اظہار بندگی کو خدا تسلیم نہیں کرتا۔ کیوں کہ اظہار بندگی وہ مطلوب ہے جو آزادانہ حالات میں کی جائے، مجبورانہ حالات میں ظاہر کی ہوئی بندگی کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔ آدمی ایک توجیہہ پسند مخلوق ہے۔ وہ ہر عمل کا ایک جواز تلاش کرتا ہے۔ اگر آدمی سرکشی کو اپنے لیے پسند کرلے تو اس کا ذہن بھی اسی طرف مڑ جائے گا۔ وہ عملاً سرکشی کرے گا اور اس کا ذہن اس کی سرکشی کو درست ثابت کرنے کے لیے اس کو خوب صورت الفاظ فراہم کرتارہے گا۔ اسی کا نام تزئین اعمال ہے۔ آدمی اپنی غلطیوں کو خوش نما الفاظ میں بیان کرکے اپنے کو مطمئن کرلیتاہے کہ وہ حق پر ہے۔ مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص آگ کا انگارہ اپنے ہاتھ میں لے لے اور سمجھے کہ وہ اس کو نہیں جلائے گا، کیوں کہ اس کا نام اس نے سرخ پھول رکھ دیا ہے۔

وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوا ۙ وَجَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ وَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا ۚ كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِينَ

📘 ’’پیغمبر اپنی قوموں کے پاس بینات کے ساتھ آئے مگر انھوں نے نہ مانا‘‘۔ بینہ جمع بینات کے معنی دلیل کے ہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کا داعی ہمیشہ بینات کی بنیاد پر اٹھتا ہے۔لوگوں کو اسے دلائل کی سطح پر پہچاننا پڑتاہے۔ جو لوگ ظاہری عظمتوں اور عوامی استقبالیوں میں خداکے داعی کو پانا چاہیں وہ کبھی اس کو نہیں پائیں گے، کیونکہ خدا کا داعی وہاں موجود نہیں ہوتا۔ نبی معجزہ دکھاتاہے۔ مگر معجزہ آخری مرحلہ میں اتمام حجت کے ليے آتاہے، دعوتی مرحلہ میں سارا کام دلائل کی بنیاد پر ہوتاہے۔ کسی شخص یا گروہ کا ظالم ہونا یہ ہے کہ وہ دلیل کے روپ میں ظاہر ہونے والی دعوت خداوندی کو نہ پہچانے اور اپنے خود ساختہ معیار پر نہ پانے کی وجہ سے اس کا انکار کردے۔ ایسے لوگ اپنی اس روش کی وجہ سے خدائی قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ ماضی کی جن قوموں پر انکار نبوت کے جرم میں خدا کا عذاب نازل ہوا وہ سرے سے نبوت کی منکر نہ تھیں۔یہ تمام قومیں کسی نہ کسی سابق پیغمبر کو مانتی تھیں۔ البتہ انھوں نے وقت کے پیغمبر کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ پچھلے پیغمبر کا معاملہ یہ تھا کہ اس کی پشت پر تاریخ کی تصدیقات قائم ہوگئی تھیں اور قومی عصبیتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوچکی تھیں۔ جب کہ معاصر پیغمبر ابھی اس قسم کی اضافی خصوصیات سے خالی تھا۔ انھوں نے اس گزرے ہوئے پیغمبر کا اقرار کیا جو نسلوں کی روایات کے نتیجہ میں ان کا قومی پیغمبر بن چکا تھا، جس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا تاریخی عظمت کے مینار سے اپنے کو منسوب کرنے کے ہم معنی تھا۔ انھوںنے اپنے قومی پیغمبر کو پیغمبر مانا مگر اس پیغمبر کا انکار کردیا جس کو صرف دلیل اور برہان کے ذریعہ جانا جاسکتا تھا۔ یہ جرم خدا کی نظر میں اتنا شدید تھا کہ وہ لوگ نبی کے منکر قرار دے کر ہلاک کرديے گئے۔ ’’پھر ہم نے اس کے بعد تم کو ملک میں خلیفہ بنایا‘‘۔ خلیفہ کے اصل معنی ہیں بعد کو آنے والا۔ یہ لفظ جانشین، خاص طورپر، اقتدار میں جانشین کے لیے بولا جاتاہے۔ یہ جانشینی انسان کی ہوتی ہے، نہ کہ خدا کی۔ کوئی انسان اقتدار میں خدا کا جانشین نہیں ہوسکتا۔انسان ہمیشہ کسی مخلوق کا جانشین ہوتاہے۔ قرآن میں جہاں بھی خلافت کا لفظ آیا ہے وہ مخلوق کی جانشینی کے لیے ہے، نہ کہ خدا کی جانشینی کے لیے۔ کسی کو خلیفہ (جانشین) بنانا اعزاز کے لیے نہیں بلکہ صرف امتحان کے لیے ہوتاہے۔ جانشین بنانے کا مطلب ایک کے بعد دوسرے کو کام کا موقع دینا ہے، ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو امتحان کے میدان میں کھڑا کرنا ہے۔ جیسے ہندستان میں دیسی راجاؤں کی جگہ مغلوں کو اختیا ردیا گیا۔ پھر ان کو ہٹا کر انگریز ان کے جانشین بنائے گئے۔ اس کے بعد انھیں ملک سے نکال کر اکثریتی فرقہ کے لیے جگہ خالی کی گئی۔ ان میں سے ہر بعد کو آنے والا اپنے پہلے کا خلیفہ تھا۔

ثُمَّ جَعَلْنَاكُمْ خَلَائِفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ

📘 ’’پیغمبر اپنی قوموں کے پاس بینات کے ساتھ آئے مگر انھوں نے نہ مانا‘‘۔ بینہ جمع بینات کے معنی دلیل کے ہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ خدا کا داعی ہمیشہ بینات کی بنیاد پر اٹھتا ہے۔لوگوں کو اسے دلائل کی سطح پر پہچاننا پڑتاہے۔ جو لوگ ظاہری عظمتوں اور عوامی استقبالیوں میں خداکے داعی کو پانا چاہیں وہ کبھی اس کو نہیں پائیں گے، کیونکہ خدا کا داعی وہاں موجود نہیں ہوتا۔ نبی معجزہ دکھاتاہے۔ مگر معجزہ آخری مرحلہ میں اتمام حجت کے ليے آتاہے، دعوتی مرحلہ میں سارا کام دلائل کی بنیاد پر ہوتاہے۔ کسی شخص یا گروہ کا ظالم ہونا یہ ہے کہ وہ دلیل کے روپ میں ظاہر ہونے والی دعوت خداوندی کو نہ پہچانے اور اپنے خود ساختہ معیار پر نہ پانے کی وجہ سے اس کا انکار کردے۔ ایسے لوگ اپنی اس روش کی وجہ سے خدائی قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔ ماضی کی جن قوموں پر انکار نبوت کے جرم میں خدا کا عذاب نازل ہوا وہ سرے سے نبوت کی منکر نہ تھیں۔یہ تمام قومیں کسی نہ کسی سابق پیغمبر کو مانتی تھیں۔ البتہ انھوں نے وقت کے پیغمبر کو ماننے سے انکار کردیا تھا۔ پچھلے پیغمبر کا معاملہ یہ تھا کہ اس کی پشت پر تاریخ کی تصدیقات قائم ہوگئی تھیں اور قومی عصبیتیں اس کے ساتھ وابستہ ہوچکی تھیں۔ جب کہ معاصر پیغمبر ابھی اس قسم کی اضافی خصوصیات سے خالی تھا۔ انھوں نے اس گزرے ہوئے پیغمبر کا اقرار کیا جو نسلوں کی روایات کے نتیجہ میں ان کا قومی پیغمبر بن چکا تھا، جس کے ساتھ اپنے کو منسوب کرنا تاریخی عظمت کے مینار سے اپنے کو منسوب کرنے کے ہم معنی تھا۔ انھوںنے اپنے قومی پیغمبر کو پیغمبر مانا مگر اس پیغمبر کا انکار کردیا جس کو صرف دلیل اور برہان کے ذریعہ جانا جاسکتا تھا۔ یہ جرم خدا کی نظر میں اتنا شدید تھا کہ وہ لوگ نبی کے منکر قرار دے کر ہلاک کرديے گئے۔ ’’پھر ہم نے اس کے بعد تم کو ملک میں خلیفہ بنایا‘‘۔ خلیفہ کے اصل معنی ہیں بعد کو آنے والا۔ یہ لفظ جانشین، خاص طورپر، اقتدار میں جانشین کے لیے بولا جاتاہے۔ یہ جانشینی انسان کی ہوتی ہے، نہ کہ خدا کی۔ کوئی انسان اقتدار میں خدا کا جانشین نہیں ہوسکتا۔انسان ہمیشہ کسی مخلوق کا جانشین ہوتاہے۔ قرآن میں جہاں بھی خلافت کا لفظ آیا ہے وہ مخلوق کی جانشینی کے لیے ہے، نہ کہ خدا کی جانشینی کے لیے۔ کسی کو خلیفہ (جانشین) بنانا اعزاز کے لیے نہیں بلکہ صرف امتحان کے لیے ہوتاہے۔ جانشین بنانے کا مطلب ایک کے بعد دوسرے کو کام کا موقع دینا ہے، ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو امتحان کے میدان میں کھڑا کرنا ہے۔ جیسے ہندستان میں دیسی راجاؤں کی جگہ مغلوں کو اختیا ردیا گیا۔ پھر ان کو ہٹا کر انگریز ان کے جانشین بنائے گئے۔ اس کے بعد انھیں ملک سے نکال کر اکثریتی فرقہ کے لیے جگہ خالی کی گئی۔ ان میں سے ہر بعد کو آنے والا اپنے پہلے کا خلیفہ تھا۔

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

📘 مکہ کے قریش خدااور رسول کو مانتے تھے۔ وہ اپنے کو ملّت ابراہیمی کا پیرو کہتے تھے۔ حتی کہ اسلام کی بہت سی دینی اصطلاحیں مثلاً صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج وغیرہ وہی ہیں جو پہلے سے ان کے یہاں رائج تھیں۔ اس کے باوجود کیوں انھوں نے کہا کہ دوسرا قرآن لاؤ یا اس قرآن میں کچھ ترمیم کردو تب ہم اس کو مانیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں خدا کے خالص دین کا اعلان تھا۔ جب کہ قریش خدا کے دین کے نام پر ایک ملاوٹی دین کو اختیار كيے ہوئے تھے۔ قرآن کی توحید سے ان کے مشرکانہ عقیدۂ خدا پر زد پڑتی تھی۔ قرآن کے تصور عبادت کی روشنی میں ان کی عبادتیں محض کھیل تماشا معلوم ہوتی تھیں۔ وہ پیغمبر کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے اور قرآن اُن سے ایک ایسے پیغمبر کو ماننے کا مطالبہ کررہا تھا جو ان کی عملی زندگی میں رہنما کا درجہ حاصل کرلے۔ انھوں نے کعبہ کی خدمت کو اپنی دین داری کا سب سے بڑا ثبوت سمجھ رکھا تھا جب کہ قرآن نے بتایا کہ دین داری یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرے اور جو کچھ کرے آخرت کو سامنے رکھ کر کرے۔ آدمی چند الفاظ بول کر حق کو نظر انداز کردیتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں ’’کھٹکا‘‘ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی کے دل میں یہ کھٹکا لگاہوا ہو کہ وہ اپنے قول وفعل کے لیے خدا کے یہاں جواب دہ ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے گا۔ اور جو شخص سنجیدہ ہو وہ معاملہ کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھے گا، وہ سرسری طورپر اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔

قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَاكُمْ بِهِ ۖ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ

📘 مکہ کے قریش خدااور رسول کو مانتے تھے۔ وہ اپنے کو ملّت ابراہیمی کا پیرو کہتے تھے۔ حتی کہ اسلام کی بہت سی دینی اصطلاحیں مثلاً صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج وغیرہ وہی ہیں جو پہلے سے ان کے یہاں رائج تھیں۔ اس کے باوجود کیوں انھوں نے کہا کہ دوسرا قرآن لاؤ یا اس قرآن میں کچھ ترمیم کردو تب ہم اس کو مانیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں خدا کے خالص دین کا اعلان تھا۔ جب کہ قریش خدا کے دین کے نام پر ایک ملاوٹی دین کو اختیار كيے ہوئے تھے۔ قرآن کی توحید سے ان کے مشرکانہ عقیدۂ خدا پر زد پڑتی تھی۔ قرآن کے تصور عبادت کی روشنی میں ان کی عبادتیں محض کھیل تماشا معلوم ہوتی تھیں۔ وہ پیغمبر کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے اور قرآن اُن سے ایک ایسے پیغمبر کو ماننے کا مطالبہ کررہا تھا جو ان کی عملی زندگی میں رہنما کا درجہ حاصل کرلے۔ انھوں نے کعبہ کی خدمت کو اپنی دین داری کا سب سے بڑا ثبوت سمجھ رکھا تھا جب کہ قرآن نے بتایا کہ دین داری یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرے اور جو کچھ کرے آخرت کو سامنے رکھ کر کرے۔ آدمی چند الفاظ بول کر حق کو نظر انداز کردیتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں ’’کھٹکا‘‘ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی کے دل میں یہ کھٹکا لگاہوا ہو کہ وہ اپنے قول وفعل کے لیے خدا کے یہاں جواب دہ ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے گا۔ اور جو شخص سنجیدہ ہو وہ معاملہ کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھے گا، وہ سرسری طورپر اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔

فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ

📘 مکہ کے قریش خدااور رسول کو مانتے تھے۔ وہ اپنے کو ملّت ابراہیمی کا پیرو کہتے تھے۔ حتی کہ اسلام کی بہت سی دینی اصطلاحیں مثلاً صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج وغیرہ وہی ہیں جو پہلے سے ان کے یہاں رائج تھیں۔ اس کے باوجود کیوں انھوں نے کہا کہ دوسرا قرآن لاؤ یا اس قرآن میں کچھ ترمیم کردو تب ہم اس کو مانیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن میں خدا کے خالص دین کا اعلان تھا۔ جب کہ قریش خدا کے دین کے نام پر ایک ملاوٹی دین کو اختیار كيے ہوئے تھے۔ قرآن کی توحید سے ان کے مشرکانہ عقیدۂ خدا پر زد پڑتی تھی۔ قرآن کے تصور عبادت کی روشنی میں ان کی عبادتیں محض کھیل تماشا معلوم ہوتی تھیں۔ وہ پیغمبر کو اپنے قومی فخر کا نشان بنائے ہوئے تھے اور قرآن اُن سے ایک ایسے پیغمبر کو ماننے کا مطالبہ کررہا تھا جو ان کی عملی زندگی میں رہنما کا درجہ حاصل کرلے۔ انھوں نے کعبہ کی خدمت کو اپنی دین داری کا سب سے بڑا ثبوت سمجھ رکھا تھا جب کہ قرآن نے بتایا کہ دین داری یہ ہے کہ آدمی خدا سے ڈرے اور جو کچھ کرے آخرت کو سامنے رکھ کر کرے۔ آدمی چند الفاظ بول کر حق کو نظر انداز کردیتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں ’’کھٹکا‘‘ نہیں ہوتا۔ اگر آدمی کے دل میں یہ کھٹکا لگاہوا ہو کہ وہ اپنے قول وفعل کے لیے خدا کے یہاں جواب دہ ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے گا۔ اور جو شخص سنجیدہ ہو وہ معاملہ کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھے گا، وہ سرسری طورپر اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔

وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 ہماری دنیا میں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ بظاہر مادی اسباب کے تحت ہورہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام واقعات کے پیچھے خدا کا تصرف کام کررہا ہے۔ اس دنیا میں کسی کوکو ئی ذاتی اختیار حاصل ہی نہیں۔ توحید یہ ہے کہ آدمی ظاہری چیزوں سے گزر کر غیب میں چھپے ہوئے خدا کو پالے۔ اس کے مقابلے میں شرک یہ ہے کہ آدمی ظاہری چیزوں میں اٹک کر رہ جائے۔ وہ چیزوں ہی کو چیزوں کے خالق کا مقام دے دے۔ اس دنیا میں خدا کے سوا کسی کے پاس نفع دینے یا نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں۔ جو آدمی اس حقیقت کو پالیتا ہے اس کی تمام توجہ خدا کی طرف لگ جاتی ہے۔ وہ خدا ہی کی پرستش کرتا ہے۔ وہ اسی سے ڈرتا ہے اور اسی سے امیدیں قائم کرتا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ ایک خدا کو بنالیتا ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ چیزوں میں اٹکے ہوئے ہوں وہ اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کسی غیر خدا کو اپنا خدا بنالیتے ہیں اور ان غیر خداؤں سے وہی امیدیں اور اندیشے وابستہ کرلیتے ہیں جو درحقیقت خدائے واحد کے ساتھ وابستہ کرنا چاہیے۔ اسی کی ایک صورت شفاعت کا عقیدہ ہے۔ لوگ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ انسانوں یا غیر انسانوں میں کچھ ایسی برتر ہستیاں ہیں جو خدا کی نظر میں مقدس ہیں۔ خدا ان کی سنتاہے اور ان کی سفارش پر دنیوی رزق یا اخروی نجات کے فیصلے کرتاہے۔ مگر اس قسم کا عقیدہ باطل ہے۔ وہ خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ ہے۔ خدا اس قسم کے ہر شرک سے پاک ہے۔ خداپنی صفات کا جو تعارف اپنی عظیم کائنات میں کرارہا ہے اس کے لحاظ سے اس قسم کے تمام عقائد بالکل بے جوڑ ہیں۔ ایسے کسی عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا وہ نہیں ہے، جو بظاہر اپنی تخلیقی صفات کے آئینہ میں نظر آرہاہے یا پھر خدا کی صفتوں میں تضاد ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی چیزممکن نہیں۔ خدا نے انسانیت کا آغاز دین فطرت سے کیا تھا۔ اس وقت تمام انسانوں کا ایک ہی دین تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے فرق کرکے دین کے مختلف روپ بناليے۔ اس کی وجہ اس آزادی کا غلط استعمال ہے جو لوگوں کو امتحان کی غرض سے دی گئی ہے۔ اگر خدا ظاہر ہوجائے تو اس کی طاقتوں کو دیکھ کر لوگوں کی سرکشی ختم ہوجائے اور اچانک اختلاف کی جگہ اتحاد پیدا ہوجائے۔ کیوں کہ شدت خوف رایوں کے تعدد کو ختم کردیتاہے۔مگر خدا قیامت سے پہلے اس صورت حال میں مداخلت نہیں کرے گا۔ موجودہ دنیا کو خدا نے امتحان کے لیے بنایا ہے اور امتحان کی فضا باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت چھپی رہے اور لوگوں کو موقع ہو کہ وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر بھی استعمال کرسکیں اور غلط رخ پر بھی۔

وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 ہماری دنیا میں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ بظاہر مادی اسباب کے تحت ہورہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام واقعات کے پیچھے خدا کا تصرف کام کررہا ہے۔ اس دنیا میں کسی کوکو ئی ذاتی اختیار حاصل ہی نہیں۔ توحید یہ ہے کہ آدمی ظاہری چیزوں سے گزر کر غیب میں چھپے ہوئے خدا کو پالے۔ اس کے مقابلے میں شرک یہ ہے کہ آدمی ظاہری چیزوں میں اٹک کر رہ جائے۔ وہ چیزوں ہی کو چیزوں کے خالق کا مقام دے دے۔ اس دنیا میں خدا کے سوا کسی کے پاس نفع دینے یا نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں۔ جو آدمی اس حقیقت کو پالیتا ہے اس کی تمام توجہ خدا کی طرف لگ جاتی ہے۔ وہ خدا ہی کی پرستش کرتا ہے۔ وہ اسی سے ڈرتا ہے اور اسی سے امیدیں قائم کرتا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ ایک خدا کو بنالیتا ہے۔ اس کے برعکس، جو لوگ چیزوں میں اٹکے ہوئے ہوں وہ اپنے اپنے ذوق کے لحاظ سے کسی غیر خدا کو اپنا خدا بنالیتے ہیں اور ان غیر خداؤں سے وہی امیدیں اور اندیشے وابستہ کرلیتے ہیں جو درحقیقت خدائے واحد کے ساتھ وابستہ کرنا چاہیے۔ اسی کی ایک صورت شفاعت کا عقیدہ ہے۔ لوگ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ انسانوں یا غیر انسانوں میں کچھ ایسی برتر ہستیاں ہیں جو خدا کی نظر میں مقدس ہیں۔ خدا ان کی سنتاہے اور ان کی سفارش پر دنیوی رزق یا اخروی نجات کے فیصلے کرتاہے۔ مگر اس قسم کا عقیدہ باطل ہے۔ وہ خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ ہے۔ خدا اس قسم کے ہر شرک سے پاک ہے۔ خداپنی صفات کا جو تعارف اپنی عظیم کائنات میں کرارہا ہے اس کے لحاظ سے اس قسم کے تمام عقائد بالکل بے جوڑ ہیں۔ ایسے کسی عقیدہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا وہ نہیں ہے، جو بظاہر اپنی تخلیقی صفات کے آئینہ میں نظر آرہاہے یا پھر خدا کی صفتوں میں تضاد ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی چیزممکن نہیں۔ خدا نے انسانیت کا آغاز دین فطرت سے کیا تھا۔ اس وقت تمام انسانوں کا ایک ہی دین تھا۔ اس کے بعد لوگوں نے فرق کرکے دین کے مختلف روپ بناليے۔ اس کی وجہ اس آزادی کا غلط استعمال ہے جو لوگوں کو امتحان کی غرض سے دی گئی ہے۔ اگر خدا ظاہر ہوجائے تو اس کی طاقتوں کو دیکھ کر لوگوں کی سرکشی ختم ہوجائے اور اچانک اختلاف کی جگہ اتحاد پیدا ہوجائے۔ کیوں کہ شدت خوف رایوں کے تعدد کو ختم کردیتاہے۔مگر خدا قیامت سے پہلے اس صورت حال میں مداخلت نہیں کرے گا۔ موجودہ دنیا کو خدا نے امتحان کے لیے بنایا ہے اور امتحان کی فضا باقی رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت چھپی رہے اور لوگوں کو موقع ہو کہ وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر بھی استعمال کرسکیں اور غلط رخ پر بھی۔

أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَىٰ رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۗ قَالَ الْكَافِرُونَ إِنَّ هَٰذَا لَسَاحِرٌ مُبِينٌ

📘 پیغمبر کا کلام انتہائی محکم دلائل پر مبنی ہوتاہے۔ وہ اپنے غیر معمولی انداز کی بنا پر خود اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے بول رہا ہے۔ اس کے باوجود ہر زمانہ میں لوگوں نے پیغمبر کا انکار کیا۔ اس کی وجہ انسان کی ظاہر پرستی ہے۔ پیغمبر اپنے معاصرین کی نظر میں عام انسانوں کی طرح بس ایک انسان ہوتاہے۔ اس کے گرد ابھی عظمت کی وہ تاریخ جمع نہیں ہوتی جو بعد کے زمانہ میں اس کے نام کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔ اس لیے پیغمبر کے زمانہ کے لوگ پیغمبر کو محض ایک انسان سمجھ کر نظر اندازکردیتے ہیں۔ وہ پیغمبر کو نہ خدا کے بھیجے ہوئے کی حیثیت میں دیکھ پاتے اور نہ مستقبل میں بننے والی تاریخ کے اعتبار سے اس کا اندازہ کرپاتے جب کہ ہر آدمی اس کی پیغمبرانہ عظمت کو ماننے پر مجبور ہوگا۔ پیغمبر کا کلام سراپا اعجاز ہوتاہے جو سننے والوں کو بے دلیل کردیتاہے۔ مگر منکرین اس کی اہمیت کو گھٹانے کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ادبی ساحری ہے۔ وہ دلیل کے میدان میں اپنے آپ کو عاجز پاکر اس کے اوپر عیب لگانے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ پیغمبر کے کلام کی صداقت کو مشتبہ کرتے ہیں۔ پیغمبر کا کلام جن لوگوں کو مفتوح کررہا تھا ان کے بارے میں یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ محض سادگی میں پڑے ہوئے ہیں، ورنہ یہ سارا معاملہ الفاظ کے فریب کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ زبان کی جادوگری ہے، نہ کہ کوئی واقعی اہمیت کی چیز۔ پیغمبر کا اصل مشن انذار وتبشیر ہے۔ یعنی خدا کی پکڑ سے ڈرانا اور جو لوگ خدا سے ڈر کر دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہوں، ان کو جنت کی خوش خبری دینا۔ پیغمبر اس ليے آتاہے کہ لوگوں کو اس حقیقتِ واقعہ سے آگاہ کردے کہ آدمی اس دنیا میں آزاد اور خود مختار نہیں ہے اور نہ زندگی کا قصہ آدمی کی موت کے ساتھ ختم ہوجانے والا ہے۔ بلکہ موت کے بعد ابدی زندگی ہے اور آدمی کو سب سے زیادہ اسی کی فکرکرني چاہیے۔ جو شخص غفلت برتے گا یا سرکشی کرے گا وہ موت کے بعد کی دنیا میں اس حال میں پہنچے گا کہ وہاں اس کے لیے دکھ کے سوا اور کچھ نہ ہوگا۔ ظاہر پرست انسان ہمیشہ یہ سمجھتا رہا ہے کہ عزت اور ترقی اس شخص کے لیے ہے، جس کے پاس دنیا کا اقتدار ہے، جو دنیا کی دولت کا مالک ہے۔ پیغمبر بتاتا ہے کہ یہ سراسر دھوکا ہے۔ یہ عزت وترقی تو وہ ہے جو موجودہ عارضی زندگی میں انسانوں کے درمیان ملتی ہے۔ مگر عزت اور ترقی دراصل وہ ہے جو مستقل زندگی میں خدا کے یہاں حاصل ہو۔ وہی عزت وترقی حقیقی ہے اور اسی کے ساتھ دائمی بھی۔

وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ

📘 مکہ کے لوگ جب مسلسل انکار کی روش پر قائم رہے تو خدا نے ان پر قحط بھیجا جو سات سال مسلسل رہا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد ختم ہوا۔ یہ ایک نشانی تھی جس سے انھیں یہ سبق لینا چاہیے تھا کہ رسول کا انکار کرنے کے بعد وہ خدائی پکڑ کی زد میں آجائیں گے۔ مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب تک قحط رہا الحاح وزاری کرتے رہے اور جب قحط رخصت ہوا تو کہنے لگے کہ یہ تو زمانہ کی گردشیں ہیں جو ہرایک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اس کارسول کو ماننے یا نہ ماننے سے کوئی تعلق نہیں۔ پیغمبر سے لوگ نشانی مانگتے ہیں ۔ مگر اصل سوال نشانی کے ظہور کا نہیں بلکہ اس سے سبق لینے کا ہے۔ کیوں کہ نشانی صرف دیکھنے کے لیے ہوتی ہے وہ مجبور کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ آدمی کے اپنے اختیار میں ہوتاہے کہ وہ اس کو مانے یا کوئی جھوٹی توجیہہ نکال کر اسے رد کردے۔ تاہم جب خدا کی آخری نشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ آخری نشانی اتمام حجت کے بعد خدا کی عدالت بن کر آتی ہے اور وہ مختلف پیغمبر وںکے لیے مختلف صورتوں میں آتی ہے۔ پیغمبر آخرالزماں کے لیے مختلف مصلحتوں کی بنا پر یہ نشانی اس صورت میں ظاہر ہوئی کہ منکرین کو مغلوب کرکے مومنین کو ان کے اوپر غالب کردیاگیا۔ شاہ عبد القادر صاحب اس سلسلہ میں موضح القرآن میں لکھتے ہیں ’’یعنی اگر کہیں کہ ہم کیسے جانیں کہ تمھاری بات سچ ہے۔ فرمایا کہ آگے حق تعالی اس دین کو روشن کرے گا اور مخالف ذلیل اور برباد ہوجائیں گے۔ سو ویسا ہی ہوا۔ سچ کی نشانی ایک بار کافی ہے۔ اور ہر بار مخالف ذلیل ہوںتو فیصلہ ہوجائے۔ حالاں کہ فیصلہ کا دن دنیا میں نہیں‘‘۔ آدمی جب سرکشی کرتاہے اور اس کی وجہ سے اس کا کچھ بگڑتاہوا نظر نہیں آتا تو وہ اور بھی زیادہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کی پکڑ سے باہر ہے۔ حالانکہ یہ عین خدا کی تدبیر ہوتی ہے۔ خدا سرکش آدمی کو ڈھیل دیتاہے تاکہ وہ بے فکر ہو کر خوب سرکشی کرے۔ اور اس سرکشی کے دوران خدا کے کارندے پردہ میں رہ کر خاموشی کے ساتھ اس کے تمام اقوال وافعال کو لکھتے رهتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو اچانک موت کا فرشتہ ظاہر ہو کر اس کو پکڑ لیتاہے تاکہ اس کو اس کے اعمال کا حساب دینے کے ليے خدا کے سامنے حاضر کردے۔

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُمْ مَكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ

📘 مکہ کے لوگ جب مسلسل انکار کی روش پر قائم رہے تو خدا نے ان پر قحط بھیجا جو سات سال مسلسل رہا اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد ختم ہوا۔ یہ ایک نشانی تھی جس سے انھیں یہ سبق لینا چاہیے تھا کہ رسول کا انکار کرنے کے بعد وہ خدائی پکڑ کی زد میں آجائیں گے۔ مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب تک قحط رہا الحاح وزاری کرتے رہے اور جب قحط رخصت ہوا تو کہنے لگے کہ یہ تو زمانہ کی گردشیں ہیں جو ہرایک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ اس کارسول کو ماننے یا نہ ماننے سے کوئی تعلق نہیں۔ پیغمبر سے لوگ نشانی مانگتے ہیں ۔ مگر اصل سوال نشانی کے ظہور کا نہیں بلکہ اس سے سبق لینے کا ہے۔ کیوں کہ نشانی صرف دیکھنے کے لیے ہوتی ہے وہ مجبور کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ نشانی ظاہر ہونے کے بعد بھی یہ آدمی کے اپنے اختیار میں ہوتاہے کہ وہ اس کو مانے یا کوئی جھوٹی توجیہہ نکال کر اسے رد کردے۔ تاہم جب خدا کی آخری نشانی ظاہر ہوتی ہے تو اس کے مقابلہ میں انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ آخری نشانی اتمام حجت کے بعد خدا کی عدالت بن کر آتی ہے اور وہ مختلف پیغمبر وںکے لیے مختلف صورتوں میں آتی ہے۔ پیغمبر آخرالزماں کے لیے مختلف مصلحتوں کی بنا پر یہ نشانی اس صورت میں ظاہر ہوئی کہ منکرین کو مغلوب کرکے مومنین کو ان کے اوپر غالب کردیاگیا۔ شاہ عبد القادر صاحب اس سلسلہ میں موضح القرآن میں لکھتے ہیں ’’یعنی اگر کہیں کہ ہم کیسے جانیں کہ تمھاری بات سچ ہے۔ فرمایا کہ آگے حق تعالی اس دین کو روشن کرے گا اور مخالف ذلیل اور برباد ہوجائیں گے۔ سو ویسا ہی ہوا۔ سچ کی نشانی ایک بار کافی ہے۔ اور ہر بار مخالف ذلیل ہوںتو فیصلہ ہوجائے۔ حالاں کہ فیصلہ کا دن دنیا میں نہیں‘‘۔ آدمی جب سرکشی کرتاہے اور اس کی وجہ سے اس کا کچھ بگڑتاہوا نظر نہیں آتا تو وہ اور بھی زیادہ ڈھیٹ ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کی پکڑ سے باہر ہے۔ حالانکہ یہ عین خدا کی تدبیر ہوتی ہے۔ خدا سرکش آدمی کو ڈھیل دیتاہے تاکہ وہ بے فکر ہو کر خوب سرکشی کرے۔ اور اس سرکشی کے دوران خدا کے کارندے پردہ میں رہ کر خاموشی کے ساتھ اس کے تمام اقوال وافعال کو لکھتے رهتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب اس کا وقت پورا ہوجاتا ہے تو اچانک موت کا فرشتہ ظاہر ہو کر اس کو پکڑ لیتاہے تاکہ اس کو اس کے اعمال کا حساب دینے کے ليے خدا کے سامنے حاضر کردے۔

هُوَ الَّذِي يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا جَاءَتْهَا رِيحٌ عَاصِفٌ وَجَاءَهُمُ الْمَوْجُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أُحِيطَ بِهِمْ ۙ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ لَئِنْ أَنْجَيْتَنَا مِنْ هَٰذِهِ لَنَكُونَنَّ مِنَ الشَّاكِرِينَ

📘 انسان ایک بے حد حساس وجود ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پر جب تکلیف کا کوئی لمحہ آتا ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ فکر کے لمحات میں آدمی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتاہے جس کا اعتراف کرنے کے لیے وہ بے فکری کے لمحات میں تیار نہ ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال سمندر کا سفر ہے۔ سمندر میں سکون ہو اور کشتی منزل کی طرف رواں ہو تو اس کے مسافروں کے لیے یہ بڑا خوش گوار لمحہ ہوتاہے۔ اس وقت ان کے اندر ایک جھوٹا اعتماد پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا معاملہ درست ہے، اب اس کو کوئی بگاڑنے والا نہیں۔ اس کے بعد سمندری ہوائیں ا ٹھتی ہیں۔ پہاڑ جیسی موجیں مسافروں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ ان کے درمیان بڑے سے بڑا جہاز بھی معمولی تنکے کی طرح ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اب ہلاکت کے سوا دوسرا کوئی انجام نہیں۔ اس وقت خدا کے منکرخدا کا اقرار کرلیتے ہیں۔ دیوتاؤں کو پوجنے والے خدائے واحد کو پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ اپنی قوت اور اپنی تدبیر پر بھروسہ کرنے والے ہر دوسری چیز کو چھوڑ کر صرف خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک تجرباتی ثبوت ہے کہ توحید ایک فطری عقیدہ ہے۔ توحید کے سوا دوسرے تمام عقیدے بالکل بے بنیاد ہیں۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ خدا کو نہ ماننے کے لیے آدمی خواہ کتنا ہی فلسفہ پیش کرے، حقیقۃً اس قسم کی تمام باتیں بے فکری کی نظریہ سازی ہیں۔ انسان اگر جانے کہ دنیا کے مواقع محض وقتی طورپر اس کو امتحان کے لیے ديے گئےہیں تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے۔ اس کے ذہن سے تمام مصنوعی دیواریں گر جائیں اور ایک خدا کو ماننے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ رہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب انسان خدا کے جلال کو دیکھ کر کانپ اٹھے اور تمام خدائی باتوں کا اقرار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مگر عقل مند وہ ہے جو موجودہ زندگی کے تجربات میںآنے والی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھ لے اور آج ہی اس بات کو مان لے جس کو وہ کل ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر کل کا ماننا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔

فَلَمَّا أَنْجَاهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِكُمْ ۖ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 انسان ایک بے حد حساس وجود ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان پر جب تکلیف کا کوئی لمحہ آتا ہے تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت اس کے ذہن سے تمام مصنوعی پردے ہٹ جاتے ہیں۔ فکر کے لمحات میں آدمی اس حقیقت کا اعتراف کرلیتاہے جس کا اعتراف کرنے کے لیے وہ بے فکری کے لمحات میں تیار نہ ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال سمندر کا سفر ہے۔ سمندر میں سکون ہو اور کشتی منزل کی طرف رواں ہو تو اس کے مسافروں کے لیے یہ بڑا خوش گوار لمحہ ہوتاہے۔ اس وقت ان کے اندر ایک جھوٹا اعتماد پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا معاملہ درست ہے، اب اس کو کوئی بگاڑنے والا نہیں۔ اس کے بعد سمندری ہوائیں ا ٹھتی ہیں۔ پہاڑ جیسی موجیں مسافروں کو چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں۔ ان کے درمیان بڑے سے بڑا جہاز بھی معمولی تنکے کی طرح ہچکولے کھانے لگتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتاہے کہ اب ہلاکت کے سوا دوسرا کوئی انجام نہیں۔ اس وقت خدا کے منکرخدا کا اقرار کرلیتے ہیں۔ دیوتاؤں کو پوجنے والے خدائے واحد کو پکارنا شروع کردیتے ہیں۔ اپنی قوت اور اپنی تدبیر پر بھروسہ کرنے والے ہر دوسری چیز کو چھوڑ کر صرف خدا کو یاد کرنے لگتے ہیں۔ یہ ایک تجرباتی ثبوت ہے کہ توحید ایک فطری عقیدہ ہے۔ توحید کے سوا دوسرے تمام عقیدے بالکل بے بنیاد ہیں۔ یہ تجربہ بتاتا ہے کہ خدا کو نہ ماننے کے لیے آدمی خواہ کتنا ہی فلسفہ پیش کرے، حقیقۃً اس قسم کی تمام باتیں بے فکری کی نظریہ سازی ہیں۔ انسان اگر جانے کہ دنیا کے مواقع محض وقتی طورپر اس کو امتحان کے لیے ديے گئےہیں تو وہ فوراً سنجیدہ ہوجائے۔ اس کے ذہن سے تمام مصنوعی دیواریں گر جائیں اور ایک خدا کو ماننے کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہ رہے۔ وہ وقت آنے والا ہے جب انسان خدا کے جلال کو دیکھ کر کانپ اٹھے اور تمام خدائی باتوں کا اقرار کرنے پر مجبور ہوجائے۔ مگر عقل مند وہ ہے جو موجودہ زندگی کے تجربات میںآنے والی زندگی کی حقیقتوں کو دیکھ لے اور آج ہی اس بات کو مان لے جس کو وہ کل ماننے پر مجبور ہوگا۔ مگر کل کا ماننا اس کے کچھ کام نہ آئے گا۔

إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا كَمَاءٍ أَنْزَلْنَاهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ حَتَّىٰ إِذَا أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَّيَّنَتْ وَظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَادِرُونَ عَلَيْهَا أَتَاهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَاهَا حَصِيدًا كَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ ۚ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ

📘 دنیا کی زندگی امتحان کے لیے ہے۔ اس لیے انسان کو یہاں مکمل آزادی اور ہر قسم کے کھلے مواقع ديے گئے ہیں۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان آزاد ہے کہ جو چاہے کرے اور جس قسم کا مستقبل چاہے اپنے ليے بنائے۔ مگر انھیں حالات کے درمیان ایسے واقعات بھی رکھ ديے گئے ہیں جو سوچنے والوں کے ليے نصیحت کا کام کرتے ہیں، جو اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ یہ سب کچھ محض وقتی ہے اور بہت جلد اس سے چھن جانے والا ہے۔ انھیں میں سے ایک زمین کی سرسبزی کا واقعہ ہے۔ جب بارش ہوتی ہے تو زمین ہر قسم کی نباتات سے لہلہا اٹھتی ہے۔ آدمی ان کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ معاملہ پوری طرح اس کے قابو میں ہے اور بہت جلد وہ تیار فصل کا مالک بننے والا ہے۔ عین اس وقت اچانک کوئی آفت آجاتی ہے۔ مثلاً بگولا آگیا، اولے پڑ گئے، ٹڈی دل پہنچ گیا اور ایک لمحہ میں ساری فصل کا خاتمہ کردیا۔ یہی حال انسانی زندگی کا ہے۔ آدمی ایک عمدہ جسم لے کر پیدا ہوتا ہے۔ دنیا کے اسباب اس کا ساتھ دیتے ہیں اور وہ اپنے لیے ایک کامیاب اور شان دار زندگی بنا لیتاہے۔ اب اس کے اندر ایک اعتماد پیدا ہوجاتاہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا معاملہ اس کے اپنے اختیا رمیں ہے۔ اس کے بعد کسی دن یا کسی رات میں اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ اپنے آپ کو بااختیار سمجھنے والا یکایک اپنے کو اس حال میں پاتا ہے کہ مجبوری اور بے اختیاری کے سوا اس کے پاس اور کوئی سرمایا نہیں — آدمی اگر اس حقیقت کو سامنے رکھے تو وہ دنیا میں کبھی سرکش نہ بنے، وہ کبھی کسی کے ساتھ ظلم اور بے انصافی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔

وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَىٰ دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

📘 دنیا کے ظاہری حالات سے آدمی دھوکا کھاجاتاہے۔ وہ وقتی چیز کو مستقل چیز سمجھ لیتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہوجاتا ہے کہ خوشیوں اور راحتوں کی زندگی جو وہ چاہتا ہے وہ اس کو اسی موجودہ دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے۔ مگر انسانی آرزوؤں کی دنیا دراصل آخرت میں بننے والی ہے اوراس کو وہی شخص پائے گا جو خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دنیا میں آدمی بالفرض سب کچھ حاصل کرلے تب بھی وہ اس پر قادر نہیں کہ اپنی زندگی کو دکھ اور غم سے پاک کرسکے۔ یہاں ہر خوشی کے ساتھ کوئی اندیشہ لگا ہوا ہے۔ یہاں کی ہر کامیابی بہت جلد کسی دکھ کی نذر ہوجاتی ہے۔ دکھ اور رنج سے خالی زندگی ایک ایسی انوکھی زندگی ہے جو صرف جنت کے ماحول میں آدمی کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ اس راز کو پالیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کا راستہ اختیار کریں گے اور بالآخر خدا کی ابدی جنتوں میں پہنچیں گے۔ راحت اور خوشی کی زندگی جو انسان کو بے حد مرغوب ہے وہ خدا کے وفادار بندوں کو کامل طورپر جنت میں ملے گی۔ مگر راحت اور خوشی کا ایک اور درجہ ہے جو معروف راحتوں اور خوشیوں سے بہت بلند ہے۔ یہ مالک کائنات کا دیدار ہے جو اہلِ جنت کو خصوصی طورپر حاصل ہوگا۔ جو خدا راحتوں اور لذتوں کا خالق ہے وہ یقینی طورپر تمام راحتوں اور لذتوں کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوچکے ہوں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا۔ اے جنت والو، تمھارے ليے خدا کا ایک وعدہ باقی ہے جس کو اب وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنت والے یہ سن کر کہیں گے کہ وہ کیا ہے۔ کیا ہمارے پلڑے بھاری نہیں کرديے گئے۔ کیا ہمارے چہروں کو روشن نہیں کردیاگیا۔ کیا خدا نے ہمیں جنت میں نہیں داخل کردیا اور ہم کو آگ سے نہیں بچالیا۔ اس کے بعد ان کے اوپر سے حجاب اٹھالیا جائے گا اور وہ اپنے رب کو دیکھنے لگیں گے۔ پس خدا کی قسم کوئی نعمت جو خدا نے انھیں دی ہے وہ ان کے ليے خدا کو دیکھنے سے زیادہ محبوب نہ ہوگی اور نہ اس سے زیادہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈی کرنے والی ہوگی (فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ، وَلَا أَقَرَّ لِأَعْيُنِهِمْ) مسند احمد، حدیث نمبر 18941 آدمی کے لیے اس سے زیادہ سخت حالت اورکوئی نہیں کہ وہ ایک ایسی بے بسی سے دوچار ہوجو ابدی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی ناکامی میں پڑا ہوا پائے جو دوبارہ کامیابی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ آخرت میں جہنم کے باشندے قرار ديے جائیں گے وہ اسی حالت سے دوچار ہوں گے۔ ان کے چہرے شدید مایوسی کی وجہ سے ایسی کالے ہوجائیںگےگویا کہ وہ تہ بتہ اندھیروں میں ڈوب گئے ہیں۔ آدمی کو اگرچہ اس کی برائی کا بدلہ اتنا ہی دیا جائے گا جتنا اس نے برائی کی ہے۔ مگر ابدی محرومی کا احساس اس کے لیے اتنا سخت ہوگا کہ اس کا چہرہ تک اس کی وجہ سے سیاہ پڑ جائے گا ۔

۞ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 دنیا کے ظاہری حالات سے آدمی دھوکا کھاجاتاہے۔ وہ وقتی چیز کو مستقل چیز سمجھ لیتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہوجاتا ہے کہ خوشیوں اور راحتوں کی زندگی جو وہ چاہتا ہے وہ اس کو اسی موجودہ دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے۔ مگر انسانی آرزوؤں کی دنیا دراصل آخرت میں بننے والی ہے اوراس کو وہی شخص پائے گا جو خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دنیا میں آدمی بالفرض سب کچھ حاصل کرلے تب بھی وہ اس پر قادر نہیں کہ اپنی زندگی کو دکھ اور غم سے پاک کرسکے۔ یہاں ہر خوشی کے ساتھ کوئی اندیشہ لگا ہوا ہے۔ یہاں کی ہر کامیابی بہت جلد کسی دکھ کی نذر ہوجاتی ہے۔ دکھ اور رنج سے خالی زندگی ایک ایسی انوکھی زندگی ہے جو صرف جنت کے ماحول میں آدمی کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ اس راز کو پالیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کا راستہ اختیار کریں گے اور بالآخر خدا کی ابدی جنتوں میں پہنچیں گے۔ راحت اور خوشی کی زندگی جو انسان کو بے حد مرغوب ہے وہ خدا کے وفادار بندوں کو کامل طورپر جنت میں ملے گی۔ مگر راحت اور خوشی کا ایک اور درجہ ہے جو معروف راحتوں اور خوشیوں سے بہت بلند ہے۔ یہ مالک کائنات کا دیدار ہے جو اہلِ جنت کو خصوصی طورپر حاصل ہوگا۔ جو خدا راحتوں اور لذتوں کا خالق ہے وہ یقینی طورپر تمام راحتوں اور لذتوں کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوچکے ہوں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا۔ اے جنت والو، تمھارے ليے خدا کا ایک وعدہ باقی ہے جس کو اب وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنت والے یہ سن کر کہیں گے کہ وہ کیا ہے۔ کیا ہمارے پلڑے بھاری نہیں کرديے گئے۔ کیا ہمارے چہروں کو روشن نہیں کردیاگیا۔ کیا خدا نے ہمیں جنت میں نہیں داخل کردیا اور ہم کو آگ سے نہیں بچالیا۔ اس کے بعد ان کے اوپر سے حجاب اٹھالیا جائے گا اور وہ اپنے رب کو دیکھنے لگیں گے۔ پس خدا کی قسم کوئی نعمت جو خدا نے انھیں دی ہے وہ ان کے ليے خدا کو دیکھنے سے زیادہ محبوب نہ ہوگی اور نہ اس سے زیادہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈی کرنے والی ہوگی (فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ، وَلَا أَقَرَّ لِأَعْيُنِهِمْ) مسند احمد، حدیث نمبر 18941 آدمی کے لیے اس سے زیادہ سخت حالت اورکوئی نہیں کہ وہ ایک ایسی بے بسی سے دوچار ہوجو ابدی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی ناکامی میں پڑا ہوا پائے جو دوبارہ کامیابی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ آخرت میں جہنم کے باشندے قرار ديے جائیں گے وہ اسی حالت سے دوچار ہوں گے۔ ان کے چہرے شدید مایوسی کی وجہ سے ایسی کالے ہوجائیںگےگویا کہ وہ تہ بتہ اندھیروں میں ڈوب گئے ہیں۔ آدمی کو اگرچہ اس کی برائی کا بدلہ اتنا ہی دیا جائے گا جتنا اس نے برائی کی ہے۔ مگر ابدی محرومی کا احساس اس کے لیے اتنا سخت ہوگا کہ اس کا چہرہ تک اس کی وجہ سے سیاہ پڑ جائے گا ۔

وَالَّذِينَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَاءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ مَا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ مِنْ عَاصِمٍ ۖ كَأَنَّمَا أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ

📘 دنیا کے ظاہری حالات سے آدمی دھوکا کھاجاتاہے۔ وہ وقتی چیز کو مستقل چیز سمجھ لیتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہوجاتا ہے کہ خوشیوں اور راحتوں کی زندگی جو وہ چاہتا ہے وہ اس کو اسی موجودہ دنیا میں حاصل ہوسکتی ہے۔ مگر انسانی آرزوؤں کی دنیا دراصل آخرت میں بننے والی ہے اوراس کو وہی شخص پائے گا جو خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ دنیا میں آدمی بالفرض سب کچھ حاصل کرلے تب بھی وہ اس پر قادر نہیں کہ اپنی زندگی کو دکھ اور غم سے پاک کرسکے۔ یہاں ہر خوشی کے ساتھ کوئی اندیشہ لگا ہوا ہے۔ یہاں کی ہر کامیابی بہت جلد کسی دکھ کی نذر ہوجاتی ہے۔ دکھ اور رنج سے خالی زندگی ایک ایسی انوکھی زندگی ہے جو صرف جنت کے ماحول میں آدمی کو حاصل ہوگی۔ جو لوگ اس راز کو پالیں وہی وہ لوگ ہیں جو جنت کا راستہ اختیار کریں گے اور بالآخر خدا کی ابدی جنتوں میں پہنچیں گے۔ راحت اور خوشی کی زندگی جو انسان کو بے حد مرغوب ہے وہ خدا کے وفادار بندوں کو کامل طورپر جنت میں ملے گی۔ مگر راحت اور خوشی کا ایک اور درجہ ہے جو معروف راحتوں اور خوشیوں سے بہت بلند ہے۔ یہ مالک کائنات کا دیدار ہے جو اہلِ جنت کو خصوصی طورپر حاصل ہوگا۔ جو خدا راحتوں اور لذتوں کا خالق ہے وہ یقینی طورپر تمام راحتوں اور لذتوں کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ حدیث میںآیا ہے کہ جب جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوچکے ہوں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا۔ اے جنت والو، تمھارے ليے خدا کا ایک وعدہ باقی ہے جس کو اب وہ پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنت والے یہ سن کر کہیں گے کہ وہ کیا ہے۔ کیا ہمارے پلڑے بھاری نہیں کرديے گئے۔ کیا ہمارے چہروں کو روشن نہیں کردیاگیا۔ کیا خدا نے ہمیں جنت میں نہیں داخل کردیا اور ہم کو آگ سے نہیں بچالیا۔ اس کے بعد ان کے اوپر سے حجاب اٹھالیا جائے گا اور وہ اپنے رب کو دیکھنے لگیں گے۔ پس خدا کی قسم کوئی نعمت جو خدا نے انھیں دی ہے وہ ان کے ليے خدا کو دیکھنے سے زیادہ محبوب نہ ہوگی اور نہ اس سے زیادہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈی کرنے والی ہوگی (فَوَاللَّهِ مَا أَعْطَاهُمْ شَيْئًا أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنَ النَّظَرِ إِلَيْهِ، وَلَا أَقَرَّ لِأَعْيُنِهِمْ) مسند احمد، حدیث نمبر 18941 آدمی کے لیے اس سے زیادہ سخت حالت اورکوئی نہیں کہ وہ ایک ایسی بے بسی سے دوچار ہوجو ابدی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ایک ایسی ناکامی میں پڑا ہوا پائے جو دوبارہ کامیابی میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔ جو لوگ آخرت میں جہنم کے باشندے قرار ديے جائیں گے وہ اسی حالت سے دوچار ہوں گے۔ ان کے چہرے شدید مایوسی کی وجہ سے ایسی کالے ہوجائیںگےگویا کہ وہ تہ بتہ اندھیروں میں ڈوب گئے ہیں۔ آدمی کو اگرچہ اس کی برائی کا بدلہ اتنا ہی دیا جائے گا جتنا اس نے برائی کی ہے۔ مگر ابدی محرومی کا احساس اس کے لیے اتنا سخت ہوگا کہ اس کا چہرہ تک اس کی وجہ سے سیاہ پڑ جائے گا ۔

وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنْتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُمْ مَا كُنْتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ

📘 شرک کا پورا کاروبار جھوٹی امیدوں پر قائم ہوتاہے، وہ واقعات جو خداکے كيے سے ہورہے ہیں ان کو آدمی جھوٹے معبودوں کی طرف منسوب کردیتاہے اور اس طرح خود ساختہ تصور کے تحت ان کو اپنی عقیدت وپرستش کا مرکز بنا لیتاہے۔ اپنے ان معبودوں پر اس کا اعتماد اتنا بڑھتا ہے کہ وہ سمجھ لیتاہے کہ آخرت میں بھی وہ ضرور خدا کے مقابلہ میں اس کے مدد گار بن جائیں گے، اور اس کو خدا کی پکڑ سے بچالیں گے۔ یہ سراسر جھوٹی امیدیں ہیں۔ مگر دنیا کی زندگی میں ان کا جھوٹ ہونا ظاہر نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں امتحان کی وجہ سے ہر چیز پر غیب کا پردہ پڑا ہواہے۔ یہاں آدمی کو موقع ہے کہ وہ واقعات کو اپنے فرضی معبودوں کی طرف منسوب کرے اور اس طرح ان کی معبودیت پر مطمئن ہوجائے۔ مگر آخرت میں ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ وہاں معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سواکسی کو کوئی زور حاصل نہ تھا۔ موجودہ دنیا میں آدمی اس خوش فہمی میں جی رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں یا اپنے معبودوں کی مدد سے آخرت کے مرحلے میں کامیاب ہوجائے گا۔ مگر آخرت میں اچانک اس پر کھلے گا کہ اس کا اعتماد سراسر جھوٹا تھا۔ یہاں کسی کو صرف وہی ملے گا جو اس نے خود کیا تھا۔ فرضی سہارے وہاں اس طرح غائب ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

فَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ إِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغَافِلِينَ

📘 شرک کا پورا کاروبار جھوٹی امیدوں پر قائم ہوتاہے، وہ واقعات جو خداکے كيے سے ہورہے ہیں ان کو آدمی جھوٹے معبودوں کی طرف منسوب کردیتاہے اور اس طرح خود ساختہ تصور کے تحت ان کو اپنی عقیدت وپرستش کا مرکز بنا لیتاہے۔ اپنے ان معبودوں پر اس کا اعتماد اتنا بڑھتا ہے کہ وہ سمجھ لیتاہے کہ آخرت میں بھی وہ ضرور خدا کے مقابلہ میں اس کے مدد گار بن جائیں گے، اور اس کو خدا کی پکڑ سے بچالیں گے۔ یہ سراسر جھوٹی امیدیں ہیں۔ مگر دنیا کی زندگی میں ان کا جھوٹ ہونا ظاہر نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں امتحان کی وجہ سے ہر چیز پر غیب کا پردہ پڑا ہواہے۔ یہاں آدمی کو موقع ہے کہ وہ واقعات کو اپنے فرضی معبودوں کی طرف منسوب کرے اور اس طرح ان کی معبودیت پر مطمئن ہوجائے۔ مگر آخرت میں ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ وہاں معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سواکسی کو کوئی زور حاصل نہ تھا۔ موجودہ دنیا میں آدمی اس خوش فہمی میں جی رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں یا اپنے معبودوں کی مدد سے آخرت کے مرحلے میں کامیاب ہوجائے گا۔ مگر آخرت میں اچانک اس پر کھلے گا کہ اس کا اعتماد سراسر جھوٹا تھا۔ یہاں کسی کو صرف وہی ملے گا جو اس نے خود کیا تھا۔ فرضی سہارے وہاں اس طرح غائب ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَىٰ عَلَى الْعَرْشِ ۖ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۖ مَا مِنْ شَفِيعٍ إِلَّا مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ

📘 کائنات میں مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ علمی مطالعہ بتاتا ہے کہ ان چیزوں کا ظہور بیک وقت نہیں ہوا بلکہ تدریج کے ساتھ ایک کے بعد ایک ہوا ہے۔ قرآن اس تدریجی تخلیق کو چھ ادوار (periods) میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ دَوری تخلیق ثابت کرتی ہے کہ کائنات کی پیدائش شعوری منصوبہ کے تحت ہوئی ہے۔ پھر کائنات کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کا نظام حد درجہ محکم قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ ہر چیز ٹھیک اسی طرح عمل کرتی ہے جس طرح مجموعی تقاضے کے تحت اسے عمل کرنا چاہيے۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کارخانہ کائنات کا ایک زندہ مدبر ہے جو ہر لمحہ اس کا انتظام کررہا ہے۔ کائنات کا یہ حیران کن نظام خود ہی پکار رہاہے کہ اس کا مالک اتنا کامل اور اتنا عظیم ہے جس کے یہاں کسی سفارشی کی سفارش چلنے کا کوئی سوال نہیں۔ کائنات اپنی خصوصیات کے آئینہ میں اپنے خالق کی خصوصیات کو بتارہی ہے۔ ساری کائنات میں ’’قسط‘‘ کا نظام قائم ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ جو کچھ وہ کرتاہے اسی کے مطابق نتیجہ اس کے سامنے آتاہے۔ ہر ایک کو وہی ملتاہے جو اس نے کیا تھا اور ہر ایک سے وہ چھن جاتا ہے جس کے لیے اس نے نہیں کیا تھا۔ زمین کا جو حصہ رات کے اسباب جمع کرے وہاں تاریکی پھیل کر رہتی ہے اور زمین کا جو حصہ روشنی کے اسباب پیدا کرے اس کے اوپر روشن سورج چمک کر رہتاہے۔ یہ مادی نتائج کا حال ہے۔ مگر اخلاقی نتائج کے معاملہ میں دنیا کی تصویر بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ انسان نیکی کرتا ہے اور اس کو نیکی کا پھل نہیں ملتا۔ انسان سرکشی کرتا ہے مگر اس کی سرکشی اپنا نتیجہ دکھائے بغیر جاری رہتی ہے۔ خالق کی جو مرضی اس کی دوسری مخلوقات میں چل رہی ہے اس کی وہی مرضی انسان کے معاملات میں کیوں ظاہر نہیں ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں خدائی انصاف کے ظہور کو خدا نے بعد کو آنے والی دنیا کے ليے موخر کردیا ہے۔ پہلی زندگی انسان کو عمل کے لیے دی گئی ہے، دوسری زندگی اس کو اپنے عمل کا نتیجہ پانے کے لیے دی جائے گی۔ اور دوسری زندگی کا ظہور یقیناً اتنا ہی ممکن ہے جتنا پہلی زندگی کا ظہور۔

هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَا أَسْلَفَتْ ۚ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ

📘 شرک کا پورا کاروبار جھوٹی امیدوں پر قائم ہوتاہے، وہ واقعات جو خداکے كيے سے ہورہے ہیں ان کو آدمی جھوٹے معبودوں کی طرف منسوب کردیتاہے اور اس طرح خود ساختہ تصور کے تحت ان کو اپنی عقیدت وپرستش کا مرکز بنا لیتاہے۔ اپنے ان معبودوں پر اس کا اعتماد اتنا بڑھتا ہے کہ وہ سمجھ لیتاہے کہ آخرت میں بھی وہ ضرور خدا کے مقابلہ میں اس کے مدد گار بن جائیں گے، اور اس کو خدا کی پکڑ سے بچالیں گے۔ یہ سراسر جھوٹی امیدیں ہیں۔ مگر دنیا کی زندگی میں ان کا جھوٹ ہونا ظاہر نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں امتحان کی وجہ سے ہر چیز پر غیب کا پردہ پڑا ہواہے۔ یہاں آدمی کو موقع ہے کہ وہ واقعات کو اپنے فرضی معبودوں کی طرف منسوب کرے اور اس طرح ان کی معبودیت پر مطمئن ہوجائے۔ مگر آخرت میں ساری حقیقتیں کھل جائیں گی۔ وہاں معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں ایک خدا کے سواکسی کو کوئی زور حاصل نہ تھا۔ موجودہ دنیا میں آدمی اس خوش فہمی میں جی رہا ہے کہ وہ اپنے بڑوں یا اپنے معبودوں کی مدد سے آخرت کے مرحلے میں کامیاب ہوجائے گا۔ مگر آخرت میں اچانک اس پر کھلے گا کہ اس کا اعتماد سراسر جھوٹا تھا۔ یہاں کسی کو صرف وہی ملے گا جو اس نے خود کیا تھا۔ فرضی سہارے وہاں اس طرح غائب ہوجائیں گے جیسے کہ ان کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَمَنْ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ۚ فَسَيَقُولُونَ اللَّهُ ۚ فَقُلْ أَفَلَا تَتَّقُونَ

📘 انسان کو رزق کی ضرورت ہے۔ یہ رزق انسان کو کیسے ملتاہے۔ کائنات کے مجموعی عمل سے۔ ساری کائنات حد درجہ ہم آہنگی کے ساتھ ایک خاص رخ پر عمل کرتی ہے۔ تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان کے لیے وہ رزق فراہم ہو جس کے بغیر اس کا وجود اس سرزمین پر ممکن نہیں۔ خدائی کے مفروضہ شرکاء یا دیوی دیوتا خود مشرکین کے عقیدہ کے مطابق، انسان کے لیے رزق فراہم نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ ہر مفروضہ شریک کسی جزء کا معبود ہے، اور جزء کا معبود کبھی ایسے واقعہ کو ظہور میں نہیں لا سکتا جو کل اجزا کی موافقت سے ظہور میں آتاہو۔ اسی طرح مثلاً انسان کے اندر کان اور آنکھ جیسی حیرت انگیز صلاحیتیں ہیں۔ وہ بھی کسی دیوتا کی دی ہوئی نہیں ہوسکتی۔ دیوی دیوتا یا تو خود ان صلاحیتوں سے محروم ہیں یا اگر کسی مفروضہ معبود کے اندر یہ صلاحیتیں ہوں تو وہ ان کا خالق نہیں۔ حتی کہ خود اس سے یہ صلاحیتیں ویسے ہی چھن جاتی ہیں جیسے عام انسانوں سے چھن جاتی ہیں۔ اسی طرح بے جان چیزوں میں جان ڈالنا اور جان دار کو بے جان کردینا بھی مفروضہ معبودوں کے لیے ممکن نہیں۔ نہ اس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی پوجنے والا ان کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ رکھتاہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ چیزیں ان معبودوں سے انسان کو ملیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان ایک بڑے خدا کو مانتا ہے۔ اس کے باوجود وہ خدا کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتاہے جو اس کی تمام اعلیٰ صفات کی نفی کردیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو خدا کا ڈر نہیں۔ جھوٹے خیالات کے ذریعہ اس نے اپنے آپ کو یہ تسلی دے لی ہے کہ خدا اس سے باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور اگر باز پرس کی نوبت آئی تو اس کی مدد پر ایسی ہستیاں ہیں جو خدا کے یہاں سفارش کرکے اس کو بچالیں — ڈر آدمی کو سنجیدہ بناتاہے۔ جب کسی کے دل سے ڈر نکل جائے تو اس کو غیر منصفانہ رویہ اختیار کرنے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ ایسا آدمی سرکش ہوجاتا ہے، اور سرکش آدمی کبھی سچائی کا اعتراف نہیں کرتا۔

فَذَٰلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ

📘 انسان کو رزق کی ضرورت ہے۔ یہ رزق انسان کو کیسے ملتاہے۔ کائنات کے مجموعی عمل سے۔ ساری کائنات حد درجہ ہم آہنگی کے ساتھ ایک خاص رخ پر عمل کرتی ہے۔ تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان کے لیے وہ رزق فراہم ہو جس کے بغیر اس کا وجود اس سرزمین پر ممکن نہیں۔ خدائی کے مفروضہ شرکاء یا دیوی دیوتا خود مشرکین کے عقیدہ کے مطابق، انسان کے لیے رزق فراہم نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ ہر مفروضہ شریک کسی جزء کا معبود ہے، اور جزء کا معبود کبھی ایسے واقعہ کو ظہور میں نہیں لا سکتا جو کل اجزا کی موافقت سے ظہور میں آتاہو۔ اسی طرح مثلاً انسان کے اندر کان اور آنکھ جیسی حیرت انگیز صلاحیتیں ہیں۔ وہ بھی کسی دیوتا کی دی ہوئی نہیں ہوسکتی۔ دیوی دیوتا یا تو خود ان صلاحیتوں سے محروم ہیں یا اگر کسی مفروضہ معبود کے اندر یہ صلاحیتیں ہوں تو وہ ان کا خالق نہیں۔ حتی کہ خود اس سے یہ صلاحیتیں ویسے ہی چھن جاتی ہیں جیسے عام انسانوں سے چھن جاتی ہیں۔ اسی طرح بے جان چیزوں میں جان ڈالنا اور جان دار کو بے جان کردینا بھی مفروضہ معبودوں کے لیے ممکن نہیں۔ نہ اس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی پوجنے والا ان کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ رکھتاہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ چیزیں ان معبودوں سے انسان کو ملیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان ایک بڑے خدا کو مانتا ہے۔ اس کے باوجود وہ خدا کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتاہے جو اس کی تمام اعلیٰ صفات کی نفی کردیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو خدا کا ڈر نہیں۔ جھوٹے خیالات کے ذریعہ اس نے اپنے آپ کو یہ تسلی دے لی ہے کہ خدا اس سے باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور اگر باز پرس کی نوبت آئی تو اس کی مدد پر ایسی ہستیاں ہیں جو خدا کے یہاں سفارش کرکے اس کو بچالیں — ڈر آدمی کو سنجیدہ بناتاہے۔ جب کسی کے دل سے ڈر نکل جائے تو اس کو غیر منصفانہ رویہ اختیار کرنے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ ایسا آدمی سرکش ہوجاتا ہے، اور سرکش آدمی کبھی سچائی کا اعتراف نہیں کرتا۔

كَذَٰلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ فَسَقُوا أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 انسان کو رزق کی ضرورت ہے۔ یہ رزق انسان کو کیسے ملتاہے۔ کائنات کے مجموعی عمل سے۔ ساری کائنات حد درجہ ہم آہنگی کے ساتھ ایک خاص رخ پر عمل کرتی ہے۔ تب یہ ممکن ہوتا ہے کہ انسان کے لیے وہ رزق فراہم ہو جس کے بغیر اس کا وجود اس سرزمین پر ممکن نہیں۔ خدائی کے مفروضہ شرکاء یا دیوی دیوتا خود مشرکین کے عقیدہ کے مطابق، انسان کے لیے رزق فراہم نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ ہر مفروضہ شریک کسی جزء کا معبود ہے، اور جزء کا معبود کبھی ایسے واقعہ کو ظہور میں نہیں لا سکتا جو کل اجزا کی موافقت سے ظہور میں آتاہو۔ اسی طرح مثلاً انسان کے اندر کان اور آنکھ جیسی حیرت انگیز صلاحیتیں ہیں۔ وہ بھی کسی دیوتا کی دی ہوئی نہیں ہوسکتی۔ دیوی دیوتا یا تو خود ان صلاحیتوں سے محروم ہیں یا اگر کسی مفروضہ معبود کے اندر یہ صلاحیتیں ہوں تو وہ ان کا خالق نہیں۔ حتی کہ خود اس سے یہ صلاحیتیں ویسے ہی چھن جاتی ہیں جیسے عام انسانوں سے چھن جاتی ہیں۔ اسی طرح بے جان چیزوں میں جان ڈالنا اور جان دار کو بے جان کردینا بھی مفروضہ معبودوں کے لیے ممکن نہیں۔ نہ اس کا کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی پوجنے والا ان کے بارے میں اس قسم کا عقیدہ رکھتاہے۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ یہ چیزیں ان معبودوں سے انسان کو ملیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ انسان ایک بڑے خدا کو مانتا ہے۔ اس کے باوجود وہ خدا کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتاہے جو اس کی تمام اعلیٰ صفات کی نفی کردیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو خدا کا ڈر نہیں۔ جھوٹے خیالات کے ذریعہ اس نے اپنے آپ کو یہ تسلی دے لی ہے کہ خدا اس سے باز پرس کرنے والا نہیں۔ اور اگر باز پرس کی نوبت آئی تو اس کی مدد پر ایسی ہستیاں ہیں جو خدا کے یہاں سفارش کرکے اس کو بچالیں — ڈر آدمی کو سنجیدہ بناتاہے۔ جب کسی کے دل سے ڈر نکل جائے تو اس کو غیر منصفانہ رویہ اختیار کرنے سے کوئی چیز روک نہیں سکتی۔ ایسا آدمی سرکش ہوجاتا ہے، اور سرکش آدمی کبھی سچائی کا اعتراف نہیں کرتا۔

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۚ قُلِ اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ

📘 اللہ کے سوا جن کو خدائی کا مقام دیا جاتاہے، خواہ وہ انسان ہوں یا غیر انسان، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی غیر موجود کو موجود کردے۔ یہ صرف اللہ ہے جس کے لیے تخلیق کا عمل ثابت ہے۔ اور جب تخلیق کا عمل ایک بار اللہ کے لیے ثابت ہے تو اسی سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ وہ اس کا اعادہ کرسکتاہے اور کرے گا۔ پھر جب وجود اول اور وجود ثانی دونوں کا اختیار صرف ایک اللہ کو ہے تو دوسرے شریکوں کی طرف توجہ لگانا بالکل عبث ہے۔ ان سے آدمی نہ اپنی پہلی زندگی میں کچھ پانے والا ہے اور نہ دوسری زندگی میں۔ یہی معاملہ رہنمائی کا ہے۔ ’’اللہ رہنمائی کرتا ہے‘‘ یہ چیز پیغمبروں کی ہدایت سے ثابت ہے۔ پیغمبروں نے جس ہدایت کو خدائی ہدایت کہہ کر انسان کے سامنے پیش کیا وہ مسلّم طورپر ایک ہدایت ہے۔ اس کے برعکس، شریکوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو سرے سے اس قابل نہیں کہ وہ انسان کو حق اور ناحق کے بارے میں کوئی علم دیں (مثلاً بت) یا وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی وجہ سے خود رہنمائی کے محتاج ہیں، کجا کہ وہ دوسروں کو کوئی واقعی رہنمائی فراہم کریں (مثلاً انسانی معبود)، جب صورت حال یہ ہے تو انسان کو صرف ایک خداکی طرف رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ فرضی شریکوں کی طرف۔ شرک کا کاروبار کسی واقعی علم پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ مفروضات اور قیاسات پر قائم ہے۔ کچھ ہستیوں کے بارے میں بے بنیاد طورپر یہ رائے قائم کر لی گئی ہے کہ وہ خدائی صفات کے حامل ہیں۔ حالاں کہ اتنی بڑی رائے کسی حقیقی علم کی بنیاد پر قائم کی جاسکتی ہے ،نہ کہ محض اٹکل اور قیاس کی بنیاد پر۔

قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَائِكُمْ مَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ ۚ قُلِ اللَّهُ يَهْدِي لِلْحَقِّ ۗ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَىٰ ۖ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ

📘 اللہ کے سوا جن کو خدائی کا مقام دیا جاتاہے، خواہ وہ انسان ہوں یا غیر انسان، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی غیر موجود کو موجود کردے۔ یہ صرف اللہ ہے جس کے لیے تخلیق کا عمل ثابت ہے۔ اور جب تخلیق کا عمل ایک بار اللہ کے لیے ثابت ہے تو اسی سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ وہ اس کا اعادہ کرسکتاہے اور کرے گا۔ پھر جب وجود اول اور وجود ثانی دونوں کا اختیار صرف ایک اللہ کو ہے تو دوسرے شریکوں کی طرف توجہ لگانا بالکل عبث ہے۔ ان سے آدمی نہ اپنی پہلی زندگی میں کچھ پانے والا ہے اور نہ دوسری زندگی میں۔ یہی معاملہ رہنمائی کا ہے۔ ’’اللہ رہنمائی کرتا ہے‘‘ یہ چیز پیغمبروں کی ہدایت سے ثابت ہے۔ پیغمبروں نے جس ہدایت کو خدائی ہدایت کہہ کر انسان کے سامنے پیش کیا وہ مسلّم طورپر ایک ہدایت ہے۔ اس کے برعکس، شریکوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو سرے سے اس قابل نہیں کہ وہ انسان کو حق اور ناحق کے بارے میں کوئی علم دیں (مثلاً بت) یا وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی وجہ سے خود رہنمائی کے محتاج ہیں، کجا کہ وہ دوسروں کو کوئی واقعی رہنمائی فراہم کریں (مثلاً انسانی معبود)، جب صورت حال یہ ہے تو انسان کو صرف ایک خداکی طرف رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ فرضی شریکوں کی طرف۔ شرک کا کاروبار کسی واقعی علم پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ مفروضات اور قیاسات پر قائم ہے۔ کچھ ہستیوں کے بارے میں بے بنیاد طورپر یہ رائے قائم کر لی گئی ہے کہ وہ خدائی صفات کے حامل ہیں۔ حالاں کہ اتنی بڑی رائے کسی حقیقی علم کی بنیاد پر قائم کی جاسکتی ہے ،نہ کہ محض اٹکل اور قیاس کی بنیاد پر۔

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ

📘 اللہ کے سوا جن کو خدائی کا مقام دیا جاتاہے، خواہ وہ انسان ہوں یا غیر انسان، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ کسی غیر موجود کو موجود کردے۔ یہ صرف اللہ ہے جس کے لیے تخلیق کا عمل ثابت ہے۔ اور جب تخلیق کا عمل ایک بار اللہ کے لیے ثابت ہے تو اسی سے یہ بھی ثابت ہوجاتاہے کہ وہ اس کا اعادہ کرسکتاہے اور کرے گا۔ پھر جب وجود اول اور وجود ثانی دونوں کا اختیار صرف ایک اللہ کو ہے تو دوسرے شریکوں کی طرف توجہ لگانا بالکل عبث ہے۔ ان سے آدمی نہ اپنی پہلی زندگی میں کچھ پانے والا ہے اور نہ دوسری زندگی میں۔ یہی معاملہ رہنمائی کا ہے۔ ’’اللہ رہنمائی کرتا ہے‘‘ یہ چیز پیغمبروں کی ہدایت سے ثابت ہے۔ پیغمبروں نے جس ہدایت کو خدائی ہدایت کہہ کر انسان کے سامنے پیش کیا وہ مسلّم طورپر ایک ہدایت ہے۔ اس کے برعکس، شریکوں کا حال یہ ہے کہ وہ یا تو سرے سے اس قابل نہیں کہ وہ انسان کو حق اور ناحق کے بارے میں کوئی علم دیں (مثلاً بت) یا وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی وجہ سے خود رہنمائی کے محتاج ہیں، کجا کہ وہ دوسروں کو کوئی واقعی رہنمائی فراہم کریں (مثلاً انسانی معبود)، جب صورت حال یہ ہے تو انسان کو صرف ایک خداکی طرف رجوع کرنا چاہیے، نہ کہ فرضی شریکوں کی طرف۔ شرک کا کاروبار کسی واقعی علم پر قائم نہیں ہے بلکہ وہ مفروضات اور قیاسات پر قائم ہے۔ کچھ ہستیوں کے بارے میں بے بنیاد طورپر یہ رائے قائم کر لی گئی ہے کہ وہ خدائی صفات کے حامل ہیں۔ حالاں کہ اتنی بڑی رائے کسی حقیقی علم کی بنیاد پر قائم کی جاسکتی ہے ،نہ کہ محض اٹکل اور قیاس کی بنیاد پر۔

وَمَا كَانَ هَٰذَا الْقُرْآنُ أَنْ يُفْتَرَىٰ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِنْ تَصْدِيقَ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ الْكِتَابِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ

📘 قرآن اپنی دلیل آپ ہے، قرآن کا مافوق انداز کلام انتہائی طورپر ناقابل تقلید ہے، اور یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن ایک غیر انسانی کلام ہے۔ اگر وہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو یقیناً دوسرے انسانوں کے لیے بھی یہ ممکن ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی کوشش سے ویسا ہی ایک کلام بنا لیں۔ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ وہ ان پیشین گوئیوں کی تصدیق ہے جو اس کے بارے میں پہلے سے آسمانی صحیفوں میں موجود ہیں۔ آسمانی تعلیمات کی حامل قومیں پہلے سے ایک آخری ہدایت نامہ کی منتظر تھیں۔ قرآن اسی انتظار کا جواب بن کر آیا ہے، پھر اس میں شک کرنے کی کیا ضرورت ۔ مزید یہ کہ وہ ’’کتاب‘‘ کی تفصیل ہے۔ یعنی وہ الٰہی تعلیمات جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہیں انھیں کو وہ صحیح اور بے آمیز روپ میں پیش کرتاہے۔ یہ ایک واضح قرینہ ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ قرآن اسی خدا کی طرف سے آیا ہے جس کی طرف سے پچھلی آسمانی کتابیں آئی تھیں۔ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ قرآن ایک انسانی تصنیف ہے تو وہ اپنی دعوے کو ایک ایسے میدان میں لاتا ہے جہاں اس کو جانچنا آسان ہو۔ کیوں کہ وہ اپنی یاد دوسروں کی انسانی صلاحیتوں کو کام میں لاکر قرآن جیسی ایک کتاب یا اس کے جیسی ایک سورہ تیار کرسکتاہے۔ اور اس طرح عملی طورپر اس دعوے کو رد کرسکتا ہے کہ قرآن خدائی ذہن سے نکلی ہوئی کتاب ہے۔ مگر قرآنی چیلنج کے باوجود کسی کا ایسانہ کرسکنا آخری طورپر ثابت کررہا ہے کہ قرآن کو انسانی کتاب کہنے والوں کا دعویٰ درست نہیں۔قرآن کی صداقت کے یہ دلائل ایسے نہیں ہیں کہ آدمی ان کو سمجھ نہ سکے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن کو جھٹلانے کے نتائج سے وہ بے خوف ہیں۔ ان کو یہ ڈر نہیں کہ قرآن کا انکار کرکے وہ کسی عذاب کی پکڑ میں آجائیں گے ان کی مخالفانہ روش کی وجہ وہ غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے خوفی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، نہ کہ کسی قسم کا عقلی اور استدلالی اطمینان۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 قرآن اپنی دلیل آپ ہے، قرآن کا مافوق انداز کلام انتہائی طورپر ناقابل تقلید ہے، اور یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن ایک غیر انسانی کلام ہے۔ اگر وہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو یقیناً دوسرے انسانوں کے لیے بھی یہ ممکن ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی کوشش سے ویسا ہی ایک کلام بنا لیں۔ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ وہ ان پیشین گوئیوں کی تصدیق ہے جو اس کے بارے میں پہلے سے آسمانی صحیفوں میں موجود ہیں۔ آسمانی تعلیمات کی حامل قومیں پہلے سے ایک آخری ہدایت نامہ کی منتظر تھیں۔ قرآن اسی انتظار کا جواب بن کر آیا ہے، پھر اس میں شک کرنے کی کیا ضرورت ۔ مزید یہ کہ وہ ’’کتاب‘‘ کی تفصیل ہے۔ یعنی وہ الٰہی تعلیمات جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہیں انھیں کو وہ صحیح اور بے آمیز روپ میں پیش کرتاہے۔ یہ ایک واضح قرینہ ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ قرآن اسی خدا کی طرف سے آیا ہے جس کی طرف سے پچھلی آسمانی کتابیں آئی تھیں۔ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ قرآن ایک انسانی تصنیف ہے تو وہ اپنی دعوے کو ایک ایسے میدان میں لاتا ہے جہاں اس کو جانچنا آسان ہو۔ کیوں کہ وہ اپنی یاد دوسروں کی انسانی صلاحیتوں کو کام میں لاکر قرآن جیسی ایک کتاب یا اس کے جیسی ایک سورہ تیار کرسکتاہے۔ اور اس طرح عملی طورپر اس دعوے کو رد کرسکتا ہے کہ قرآن خدائی ذہن سے نکلی ہوئی کتاب ہے۔ مگر قرآنی چیلنج کے باوجود کسی کا ایسانہ کرسکنا آخری طورپر ثابت کررہا ہے کہ قرآن کو انسانی کتاب کہنے والوں کا دعویٰ درست نہیں۔قرآن کی صداقت کے یہ دلائل ایسے نہیں ہیں کہ آدمی ان کو سمجھ نہ سکے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن کو جھٹلانے کے نتائج سے وہ بے خوف ہیں۔ ان کو یہ ڈر نہیں کہ قرآن کا انکار کرکے وہ کسی عذاب کی پکڑ میں آجائیں گے ان کی مخالفانہ روش کی وجہ وہ غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے خوفی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، نہ کہ کسی قسم کا عقلی اور استدلالی اطمینان۔

بَلْ كَذَّبُوا بِمَا لَمْ يُحِيطُوا بِعِلْمِهِ وَلَمَّا يَأْتِهِمْ تَأْوِيلُهُ ۚ كَذَٰلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ

📘 قرآن اپنی دلیل آپ ہے، قرآن کا مافوق انداز کلام انتہائی طورپر ناقابل تقلید ہے، اور یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ قرآن ایک غیر انسانی کلام ہے۔ اگر وہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو یقیناً دوسرے انسانوں کے لیے بھی یہ ممکن ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی کوشش سے ویسا ہی ایک کلام بنا لیں۔ قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ وہ ان پیشین گوئیوں کی تصدیق ہے جو اس کے بارے میں پہلے سے آسمانی صحیفوں میں موجود ہیں۔ آسمانی تعلیمات کی حامل قومیں پہلے سے ایک آخری ہدایت نامہ کی منتظر تھیں۔ قرآن اسی انتظار کا جواب بن کر آیا ہے، پھر اس میں شک کرنے کی کیا ضرورت ۔ مزید یہ کہ وہ ’’کتاب‘‘ کی تفصیل ہے۔ یعنی وہ الٰہی تعلیمات جو تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ ہیں انھیں کو وہ صحیح اور بے آمیز روپ میں پیش کرتاہے۔ یہ ایک واضح قرینہ ہے جس سے ظاہر ہوتاہے کہ قرآن اسی خدا کی طرف سے آیا ہے جس کی طرف سے پچھلی آسمانی کتابیں آئی تھیں۔ جب کوئی شخص کہتا ہے کہ قرآن ایک انسانی تصنیف ہے تو وہ اپنی دعوے کو ایک ایسے میدان میں لاتا ہے جہاں اس کو جانچنا آسان ہو۔ کیوں کہ وہ اپنی یاد دوسروں کی انسانی صلاحیتوں کو کام میں لاکر قرآن جیسی ایک کتاب یا اس کے جیسی ایک سورہ تیار کرسکتاہے۔ اور اس طرح عملی طورپر اس دعوے کو رد کرسکتا ہے کہ قرآن خدائی ذہن سے نکلی ہوئی کتاب ہے۔ مگر قرآنی چیلنج کے باوجود کسی کا ایسانہ کرسکنا آخری طورپر ثابت کررہا ہے کہ قرآن کو انسانی کتاب کہنے والوں کا دعویٰ درست نہیں۔قرآن کی صداقت کے یہ دلائل ایسے نہیں ہیں کہ آدمی ان کو سمجھ نہ سکے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن کو جھٹلانے کے نتائج سے وہ بے خوف ہیں۔ ان کو یہ ڈر نہیں کہ قرآن کا انکار کرکے وہ کسی عذاب کی پکڑ میں آجائیں گے ان کی مخالفانہ روش کی وجہ وہ غیر سنجیدگی ہے جو ان کی بے خوفی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، نہ کہ کسی قسم کا عقلی اور استدلالی اطمینان۔

إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا ۖ وَعْدَ اللَّهِ حَقًّا ۚ إِنَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ لِيَجْزِيَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ ۚ وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ شَرَابٌ مِنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

📘 کائنات میں مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ علمی مطالعہ بتاتا ہے کہ ان چیزوں کا ظہور بیک وقت نہیں ہوا بلکہ تدریج کے ساتھ ایک کے بعد ایک ہوا ہے۔ قرآن اس تدریجی تخلیق کو چھ ادوار (periods) میں تقسیم کرتا ہے۔ یہ دَوری تخلیق ثابت کرتی ہے کہ کائنات کی پیدائش شعوری منصوبہ کے تحت ہوئی ہے۔ پھر کائنات کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کا نظام حد درجہ محکم قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ ہر چیز ٹھیک اسی طرح عمل کرتی ہے جس طرح مجموعی تقاضے کے تحت اسے عمل کرنا چاہيے۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس کارخانہ کائنات کا ایک زندہ مدبر ہے جو ہر لمحہ اس کا انتظام کررہا ہے۔ کائنات کا یہ حیران کن نظام خود ہی پکار رہاہے کہ اس کا مالک اتنا کامل اور اتنا عظیم ہے جس کے یہاں کسی سفارشی کی سفارش چلنے کا کوئی سوال نہیں۔ کائنات اپنی خصوصیات کے آئینہ میں اپنے خالق کی خصوصیات کو بتارہی ہے۔ ساری کائنات میں ’’قسط‘‘ کا نظام قائم ہے۔ یہاں ہر ایک کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ جو کچھ وہ کرتاہے اسی کے مطابق نتیجہ اس کے سامنے آتاہے۔ ہر ایک کو وہی ملتاہے جو اس نے کیا تھا اور ہر ایک سے وہ چھن جاتا ہے جس کے لیے اس نے نہیں کیا تھا۔ زمین کا جو حصہ رات کے اسباب جمع کرے وہاں تاریکی پھیل کر رہتی ہے اور زمین کا جو حصہ روشنی کے اسباب پیدا کرے اس کے اوپر روشن سورج چمک کر رہتاہے۔ یہ مادی نتائج کا حال ہے۔ مگر اخلاقی نتائج کے معاملہ میں دنیا کی تصویر بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ انسان نیکی کرتا ہے اور اس کو نیکی کا پھل نہیں ملتا۔ انسان سرکشی کرتا ہے مگر اس کی سرکشی اپنا نتیجہ دکھائے بغیر جاری رہتی ہے۔ خالق کی جو مرضی اس کی دوسری مخلوقات میں چل رہی ہے اس کی وہی مرضی انسان کے معاملات میں کیوں ظاہر نہیں ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں خدائی انصاف کے ظہور کو خدا نے بعد کو آنے والی دنیا کے ليے موخر کردیا ہے۔ پہلی زندگی انسان کو عمل کے لیے دی گئی ہے، دوسری زندگی اس کو اپنے عمل کا نتیجہ پانے کے لیے دی جائے گی۔ اور دوسری زندگی کا ظہور یقیناً اتنا ہی ممکن ہے جتنا پہلی زندگی کا ظہور۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ ۚ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ

📘 ایمان نہ لانے والے خدا کی نظر میں مفسد ہیں ۔ کیوں کہ اپنی فطرت کو بگاڑ کر ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے سے باز رہے۔ ایسا آدمی اپنے ضمیر کی آواز کو دباتا ہے، وہ اپنے سوچنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتا، وہ کھلے کھلے دلائل کو جھوٹے الفاظ بول کر نظر انداز کردیتاہے، وہ سن کر نہیں سنتا اور سمجھنے کے باوجود سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ حق کے مقابلے میں اپنے تعصبات اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ بحث ومناظرہ کرنے والے لوگ آخر وقت تک اپنی بحث جاری رکھتے ہیں۔ ’’میرا معاملہ میرے ساتھ ہے اور تمھارا معاملہ تمھارے ساتھ‘‘۔ اس قسم کا جملہ کہنا ان کو اپنی شکست نظر آتاہے، مگر داعی فتح وشکست کی نفسیات سے بلند ہو کر کام کرتاہے۔ اس ليے جب وہ دیکھتا ہے کہ مخاطب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے اور مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ اصل فیصلہ اللہ کے یہاںہونا ہے۔ خدا کی میزان میں جو شخص جیسا نکلے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔ حق کو نہ ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو شروع سے اپنا منکر ہونا ظاہر کردیتا ہے۔ مگر زیادہ ہوشیار قسم کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ بظاہر وہ باتوں کو اس طرح سنتے ہیں گویا کہ وہ سچ مچ سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دل میں یہ ہوتاہے کہ اس کو سمجھنا نہیں ہے۔ وہ داعی کی صداقت کی نشانیوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کھلے دل سے اس کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا ذہن پہلے سے یہ طے كيے ہوئے ہوتاہے کہ اس کو دیکھنا اور ماننا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی ظاہری سادگی سے داعی اس خوش گمانی میں پڑ جاتا ہے کہ وہ قبولیت حق کے قریب ہیں۔ مگر خدا کی نظر میں وہ ایسے لوگ ہیں جوکان رکھتے ہوئے بہرے اور آنکھ رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی خدا کی طرف سے قبول حق کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا نے انسان کو بہترین صلاحیتیں دی ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرے تو وہ کبھی گمراہ نہ ہو۔ مگر انسان اپنے کو آزاد پاکر غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ بے جا سرکشی کرنے لگتاہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے کہ اس نے خدا کی اسکیم کو نہیں سمجھا، جو چیز اس کوآزمائش کے طورپر دی گئی تھی اس کو اس نے اپنا حق سمجھ لیا۔

وَإِنْ كَذَّبُوكَ فَقُلْ لِي عَمَلِي وَلَكُمْ عَمَلُكُمْ ۖ أَنْتُمْ بَرِيئُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَأَنَا بَرِيءٌ مِمَّا تَعْمَلُونَ

📘 ایمان نہ لانے والے خدا کی نظر میں مفسد ہیں ۔ کیوں کہ اپنی فطرت کو بگاڑ کر ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے سے باز رہے۔ ایسا آدمی اپنے ضمیر کی آواز کو دباتا ہے، وہ اپنے سوچنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتا، وہ کھلے کھلے دلائل کو جھوٹے الفاظ بول کر نظر انداز کردیتاہے، وہ سن کر نہیں سنتا اور سمجھنے کے باوجود سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ حق کے مقابلے میں اپنے تعصبات اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ بحث ومناظرہ کرنے والے لوگ آخر وقت تک اپنی بحث جاری رکھتے ہیں۔ ’’میرا معاملہ میرے ساتھ ہے اور تمھارا معاملہ تمھارے ساتھ‘‘۔ اس قسم کا جملہ کہنا ان کو اپنی شکست نظر آتاہے، مگر داعی فتح وشکست کی نفسیات سے بلند ہو کر کام کرتاہے۔ اس ليے جب وہ دیکھتا ہے کہ مخاطب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے اور مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ اصل فیصلہ اللہ کے یہاںہونا ہے۔ خدا کی میزان میں جو شخص جیسا نکلے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔ حق کو نہ ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو شروع سے اپنا منکر ہونا ظاہر کردیتا ہے۔ مگر زیادہ ہوشیار قسم کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ بظاہر وہ باتوں کو اس طرح سنتے ہیں گویا کہ وہ سچ مچ سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دل میں یہ ہوتاہے کہ اس کو سمجھنا نہیں ہے۔ وہ داعی کی صداقت کی نشانیوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کھلے دل سے اس کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا ذہن پہلے سے یہ طے كيے ہوئے ہوتاہے کہ اس کو دیکھنا اور ماننا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی ظاہری سادگی سے داعی اس خوش گمانی میں پڑ جاتا ہے کہ وہ قبولیت حق کے قریب ہیں۔ مگر خدا کی نظر میں وہ ایسے لوگ ہیں جوکان رکھتے ہوئے بہرے اور آنکھ رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی خدا کی طرف سے قبول حق کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا نے انسان کو بہترین صلاحیتیں دی ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرے تو وہ کبھی گمراہ نہ ہو۔ مگر انسان اپنے کو آزاد پاکر غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ بے جا سرکشی کرنے لگتاہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے کہ اس نے خدا کی اسکیم کو نہیں سمجھا، جو چیز اس کوآزمائش کے طورپر دی گئی تھی اس کو اس نے اپنا حق سمجھ لیا۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنْتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ وَلَوْ كَانُوا لَا يَعْقِلُونَ

📘 ایمان نہ لانے والے خدا کی نظر میں مفسد ہیں ۔ کیوں کہ اپنی فطرت کو بگاڑ کر ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے سے باز رہے۔ ایسا آدمی اپنے ضمیر کی آواز کو دباتا ہے، وہ اپنے سوچنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتا، وہ کھلے کھلے دلائل کو جھوٹے الفاظ بول کر نظر انداز کردیتاہے، وہ سن کر نہیں سنتا اور سمجھنے کے باوجود سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ حق کے مقابلے میں اپنے تعصبات اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ بحث ومناظرہ کرنے والے لوگ آخر وقت تک اپنی بحث جاری رکھتے ہیں۔ ’’میرا معاملہ میرے ساتھ ہے اور تمھارا معاملہ تمھارے ساتھ‘‘۔ اس قسم کا جملہ کہنا ان کو اپنی شکست نظر آتاہے، مگر داعی فتح وشکست کی نفسیات سے بلند ہو کر کام کرتاہے۔ اس ليے جب وہ دیکھتا ہے کہ مخاطب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے اور مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ اصل فیصلہ اللہ کے یہاںہونا ہے۔ خدا کی میزان میں جو شخص جیسا نکلے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔ حق کو نہ ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو شروع سے اپنا منکر ہونا ظاہر کردیتا ہے۔ مگر زیادہ ہوشیار قسم کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ بظاہر وہ باتوں کو اس طرح سنتے ہیں گویا کہ وہ سچ مچ سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دل میں یہ ہوتاہے کہ اس کو سمجھنا نہیں ہے۔ وہ داعی کی صداقت کی نشانیوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کھلے دل سے اس کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا ذہن پہلے سے یہ طے كيے ہوئے ہوتاہے کہ اس کو دیکھنا اور ماننا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی ظاہری سادگی سے داعی اس خوش گمانی میں پڑ جاتا ہے کہ وہ قبولیت حق کے قریب ہیں۔ مگر خدا کی نظر میں وہ ایسے لوگ ہیں جوکان رکھتے ہوئے بہرے اور آنکھ رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی خدا کی طرف سے قبول حق کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا نے انسان کو بہترین صلاحیتیں دی ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرے تو وہ کبھی گمراہ نہ ہو۔ مگر انسان اپنے کو آزاد پاکر غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ بے جا سرکشی کرنے لگتاہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے کہ اس نے خدا کی اسکیم کو نہیں سمجھا، جو چیز اس کوآزمائش کے طورپر دی گئی تھی اس کو اس نے اپنا حق سمجھ لیا۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْظُرُ إِلَيْكَ ۚ أَفَأَنْتَ تَهْدِي الْعُمْيَ وَلَوْ كَانُوا لَا يُبْصِرُونَ

📘 ایمان نہ لانے والے خدا کی نظر میں مفسد ہیں ۔ کیوں کہ اپنی فطرت کو بگاڑ کر ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے سے باز رہے۔ ایسا آدمی اپنے ضمیر کی آواز کو دباتا ہے، وہ اپنے سوچنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتا، وہ کھلے کھلے دلائل کو جھوٹے الفاظ بول کر نظر انداز کردیتاہے، وہ سن کر نہیں سنتا اور سمجھنے کے باوجود سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ حق کے مقابلے میں اپنے تعصبات اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ بحث ومناظرہ کرنے والے لوگ آخر وقت تک اپنی بحث جاری رکھتے ہیں۔ ’’میرا معاملہ میرے ساتھ ہے اور تمھارا معاملہ تمھارے ساتھ‘‘۔ اس قسم کا جملہ کہنا ان کو اپنی شکست نظر آتاہے، مگر داعی فتح وشکست کی نفسیات سے بلند ہو کر کام کرتاہے۔ اس ليے جب وہ دیکھتا ہے کہ مخاطب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے اور مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ اصل فیصلہ اللہ کے یہاںہونا ہے۔ خدا کی میزان میں جو شخص جیسا نکلے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔ حق کو نہ ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو شروع سے اپنا منکر ہونا ظاہر کردیتا ہے۔ مگر زیادہ ہوشیار قسم کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ بظاہر وہ باتوں کو اس طرح سنتے ہیں گویا کہ وہ سچ مچ سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دل میں یہ ہوتاہے کہ اس کو سمجھنا نہیں ہے۔ وہ داعی کی صداقت کی نشانیوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کھلے دل سے اس کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا ذہن پہلے سے یہ طے كيے ہوئے ہوتاہے کہ اس کو دیکھنا اور ماننا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی ظاہری سادگی سے داعی اس خوش گمانی میں پڑ جاتا ہے کہ وہ قبولیت حق کے قریب ہیں۔ مگر خدا کی نظر میں وہ ایسے لوگ ہیں جوکان رکھتے ہوئے بہرے اور آنکھ رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی خدا کی طرف سے قبول حق کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا نے انسان کو بہترین صلاحیتیں دی ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرے تو وہ کبھی گمراہ نہ ہو۔ مگر انسان اپنے کو آزاد پاکر غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ بے جا سرکشی کرنے لگتاہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے کہ اس نے خدا کی اسکیم کو نہیں سمجھا، جو چیز اس کوآزمائش کے طورپر دی گئی تھی اس کو اس نے اپنا حق سمجھ لیا۔

إِنَّ اللَّهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْئًا وَلَٰكِنَّ النَّاسَ أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 ایمان نہ لانے والے خدا کی نظر میں مفسد ہیں ۔ کیوں کہ اپنی فطرت کو بگاڑ کر ہی کسی کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ حق کو قبول کرنے سے باز رہے۔ ایسا آدمی اپنے ضمیر کی آواز کو دباتا ہے، وہ اپنے سوچنے کی صلاحیت کو استعمال نہیں کرتا، وہ کھلے کھلے دلائل کو جھوٹے الفاظ بول کر نظر انداز کردیتاہے، وہ سن کر نہیں سنتا اور سمجھنے کے باوجود سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا، وہ حق کے مقابلے میں اپنے تعصبات اور اپنے مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔ بحث ومناظرہ کرنے والے لوگ آخر وقت تک اپنی بحث جاری رکھتے ہیں۔ ’’میرا معاملہ میرے ساتھ ہے اور تمھارا معاملہ تمھارے ساتھ‘‘۔ اس قسم کا جملہ کہنا ان کو اپنی شکست نظر آتاہے، مگر داعی فتح وشکست کی نفسیات سے بلند ہو کر کام کرتاہے۔ اس ليے جب وہ دیکھتا ہے کہ مخاطب ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آیا ہے اور مزید بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ یہ کہہ کر الگ ہوجاتا ہے کہ اصل فیصلہ اللہ کے یہاںہونا ہے۔ خدا کی میزان میں جو شخص جیسا نکلے گا ویسا ہی اس کا انجام ہوگا۔ حق کو نہ ماننے والوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو شروع سے اپنا منکر ہونا ظاہر کردیتا ہے۔ مگر زیادہ ہوشیار قسم کے لوگ یہ کرتے ہیں کہ بظاہر وہ باتوں کو اس طرح سنتے ہیں گویا کہ وہ سچ مچ سمجھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کے دل میں یہ ہوتاہے کہ اس کو سمجھنا نہیں ہے۔ وہ داعی کی صداقت کی نشانیوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کھلے دل سے اس کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ ان کا ذہن پہلے سے یہ طے كيے ہوئے ہوتاہے کہ اس کو دیکھنا اور ماننا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی ظاہری سادگی سے داعی اس خوش گمانی میں پڑ جاتا ہے کہ وہ قبولیت حق کے قریب ہیں۔ مگر خدا کی نظر میں وہ ایسے لوگ ہیں جوکان رکھتے ہوئے بہرے اور آنکھ رکھتے ہوئے اندھے بن جائیں۔ ایسے لوگوں کو کبھی خدا کی طرف سے قبول حق کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا نے انسان کو بہترین صلاحیتیں دی ہیں۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کو استعمال کرے تو وہ کبھی گمراہ نہ ہو۔ مگر انسان اپنے کو آزاد پاکر غلط فہمی میں پڑجاتاہے۔ وہ بے جا سرکشی کرنے لگتاہے۔ ایسا اس ليے ہوتاہے کہ اس نے خدا کی اسکیم کو نہیں سمجھا، جو چیز اس کوآزمائش کے طورپر دی گئی تھی اس کو اس نے اپنا حق سمجھ لیا۔

وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ كَأَنْ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ يَتَعَارَفُونَ بَيْنَهُمْ ۚ قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ

📘 آج آخرت انسان کے سامنے نہیں ہے۔ آج ایک دیکھنے والے کو اسے تصور کی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس ليے جو شخص آخرت کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو اس کو آخرت بہت دور کی چیز معلوم ہوگی۔ مگر جب آخرت سب سے بڑی حقیقت کی حیثیت سے انسان کے اوپر ٹوٹ پڑے گی اور وہ اس کو اس کی تمام سنگینیوں کے ساتھ اپنی آنکھ سے دیکھنے لگے گا، اس وقت وہ اپنی موجودہ سرکشی کو بھول جائے گا، اس وقت اس کو دنیا کے وہ لمحات بہت حقیر معلوم ہوں گے جن کی وجہ سے وہ غفلت میں پڑ گیا تھا اور آخرت کے بارے میں سوچنے پر تیار نہ ہوتاتھا۔ آخرت کسی اجنبی دنیا میں واقع نہیں ہوگی بلکہ ہماری جانی پہچانی دنیا میں واقع ہوگی۔ وہاں آدمی اپنے آپ کو اسی ماحول میں پائے گا جس ماحول میں اس نے اسے پہلے حق کا انکار کیا تھا، وہ اپنے آپ کو انھیں لوگوں کے درمیان دیکھے گا جن کے بل پر وہ سرکشی کرتا تھا مگر اس دن وہ لوگ اس کے کچھ کام نہ آئیں گے۔ اس وقت ہر بات اس کے ذہن میں اس طرح تازہ ہوگی گویا اس پر کوئی مدت گزری ہی نہیں۔ داعی اور مدعو کا معاملہ آسمان کے نیچے پیش آنے والے تمام معاملات میں سب سے زیادہ نازک معاملہ ہے۔ داعی اگر فی الواقع حق کو لے کر اٹھا ہے تو وہ اس دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ اس کا اقرار خدا کا اقرار ہے اور اس کا انکار خدا کا انکار۔ ایسا ایک واقعہ انجام سے خالی نہیں ہوسکتا۔ داعیٔ حق کے ظہور کے بعد لازماً ایسا ہوتا ہے کہ اس کی زبان سے جاری ہونے والے ربانی کلام کے سامنے تمام لوگ بے دلیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ باطل کے اوپر حق کی پہلی فتح ہے۔ دوسری فتح آخرت میں ہوگی جب کہ اس کے مخالفین خدا کے اذن سے اس کے مقابلہ میں بے زور ہو کر رہ جائیں گے۔ پہلا واقعہ لازمی طورپر اسی دنیا میں پیش آتاہے اور دوسرا واقعہ بھی جزئی طور پر موجودہ دنیامیں ظاہر ہوتا ہے اگر خدا اس کو موجودہ دنیا میں ظاہر کرنا چاہے۔ یہ معاملہ ہر گروہ کے ساتھ پیش آنا لازمی ہے جب کہ وہ براہِ راست خدا کے سامنے کھڑا ہونے سے پہلے موجودہ دنیا میں بالواسطہ طور پر نمائندۂ خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس طرح خدا دیکھتا ہے کہ کون ہے جو اس وقت اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردیتاہے جب کہ خدا ابھی غیب میں ہے اور کون ہے جو ایسا نہیں کرتا۔ پہلی قسم کے لوگوں کہ لیے جنت ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے دوزخ۔

وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ

📘 آج آخرت انسان کے سامنے نہیں ہے۔ آج ایک دیکھنے والے کو اسے تصور کی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس ليے جو شخص آخرت کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو اس کو آخرت بہت دور کی چیز معلوم ہوگی۔ مگر جب آخرت سب سے بڑی حقیقت کی حیثیت سے انسان کے اوپر ٹوٹ پڑے گی اور وہ اس کو اس کی تمام سنگینیوں کے ساتھ اپنی آنکھ سے دیکھنے لگے گا، اس وقت وہ اپنی موجودہ سرکشی کو بھول جائے گا، اس وقت اس کو دنیا کے وہ لمحات بہت حقیر معلوم ہوں گے جن کی وجہ سے وہ غفلت میں پڑ گیا تھا اور آخرت کے بارے میں سوچنے پر تیار نہ ہوتاتھا۔ آخرت کسی اجنبی دنیا میں واقع نہیں ہوگی بلکہ ہماری جانی پہچانی دنیا میں واقع ہوگی۔ وہاں آدمی اپنے آپ کو اسی ماحول میں پائے گا جس ماحول میں اس نے اسے پہلے حق کا انکار کیا تھا، وہ اپنے آپ کو انھیں لوگوں کے درمیان دیکھے گا جن کے بل پر وہ سرکشی کرتا تھا مگر اس دن وہ لوگ اس کے کچھ کام نہ آئیں گے۔ اس وقت ہر بات اس کے ذہن میں اس طرح تازہ ہوگی گویا اس پر کوئی مدت گزری ہی نہیں۔ داعی اور مدعو کا معاملہ آسمان کے نیچے پیش آنے والے تمام معاملات میں سب سے زیادہ نازک معاملہ ہے۔ داعی اگر فی الواقع حق کو لے کر اٹھا ہے تو وہ اس دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ اس کا اقرار خدا کا اقرار ہے اور اس کا انکار خدا کا انکار۔ ایسا ایک واقعہ انجام سے خالی نہیں ہوسکتا۔ داعیٔ حق کے ظہور کے بعد لازماً ایسا ہوتا ہے کہ اس کی زبان سے جاری ہونے والے ربانی کلام کے سامنے تمام لوگ بے دلیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ باطل کے اوپر حق کی پہلی فتح ہے۔ دوسری فتح آخرت میں ہوگی جب کہ اس کے مخالفین خدا کے اذن سے اس کے مقابلہ میں بے زور ہو کر رہ جائیں گے۔ پہلا واقعہ لازمی طورپر اسی دنیا میں پیش آتاہے اور دوسرا واقعہ بھی جزئی طور پر موجودہ دنیامیں ظاہر ہوتا ہے اگر خدا اس کو موجودہ دنیا میں ظاہر کرنا چاہے۔ یہ معاملہ ہر گروہ کے ساتھ پیش آنا لازمی ہے جب کہ وہ براہِ راست خدا کے سامنے کھڑا ہونے سے پہلے موجودہ دنیا میں بالواسطہ طور پر نمائندۂ خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس طرح خدا دیکھتا ہے کہ کون ہے جو اس وقت اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردیتاہے جب کہ خدا ابھی غیب میں ہے اور کون ہے جو ایسا نہیں کرتا۔ پہلی قسم کے لوگوں کہ لیے جنت ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے دوزخ۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 آج آخرت انسان کے سامنے نہیں ہے۔ آج ایک دیکھنے والے کو اسے تصور کی نگاہ سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اس ليے جو شخص آخرت کے معاملے میں سنجیدہ نہ ہو اس کو آخرت بہت دور کی چیز معلوم ہوگی۔ مگر جب آخرت سب سے بڑی حقیقت کی حیثیت سے انسان کے اوپر ٹوٹ پڑے گی اور وہ اس کو اس کی تمام سنگینیوں کے ساتھ اپنی آنکھ سے دیکھنے لگے گا، اس وقت وہ اپنی موجودہ سرکشی کو بھول جائے گا، اس وقت اس کو دنیا کے وہ لمحات بہت حقیر معلوم ہوں گے جن کی وجہ سے وہ غفلت میں پڑ گیا تھا اور آخرت کے بارے میں سوچنے پر تیار نہ ہوتاتھا۔ آخرت کسی اجنبی دنیا میں واقع نہیں ہوگی بلکہ ہماری جانی پہچانی دنیا میں واقع ہوگی۔ وہاں آدمی اپنے آپ کو اسی ماحول میں پائے گا جس ماحول میں اس نے اسے پہلے حق کا انکار کیا تھا، وہ اپنے آپ کو انھیں لوگوں کے درمیان دیکھے گا جن کے بل پر وہ سرکشی کرتا تھا مگر اس دن وہ لوگ اس کے کچھ کام نہ آئیں گے۔ اس وقت ہر بات اس کے ذہن میں اس طرح تازہ ہوگی گویا اس پر کوئی مدت گزری ہی نہیں۔ داعی اور مدعو کا معاملہ آسمان کے نیچے پیش آنے والے تمام معاملات میں سب سے زیادہ نازک معاملہ ہے۔ داعی اگر فی الواقع حق کو لے کر اٹھا ہے تو وہ اس دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ اس کا اقرار خدا کا اقرار ہے اور اس کا انکار خدا کا انکار۔ ایسا ایک واقعہ انجام سے خالی نہیں ہوسکتا۔ داعیٔ حق کے ظہور کے بعد لازماً ایسا ہوتا ہے کہ اس کی زبان سے جاری ہونے والے ربانی کلام کے سامنے تمام لوگ بے دلیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ یہ باطل کے اوپر حق کی پہلی فتح ہے۔ دوسری فتح آخرت میں ہوگی جب کہ اس کے مخالفین خدا کے اذن سے اس کے مقابلہ میں بے زور ہو کر رہ جائیں گے۔ پہلا واقعہ لازمی طورپر اسی دنیا میں پیش آتاہے اور دوسرا واقعہ بھی جزئی طور پر موجودہ دنیامیں ظاہر ہوتا ہے اگر خدا اس کو موجودہ دنیا میں ظاہر کرنا چاہے۔ یہ معاملہ ہر گروہ کے ساتھ پیش آنا لازمی ہے جب کہ وہ براہِ راست خدا کے سامنے کھڑا ہونے سے پہلے موجودہ دنیا میں بالواسطہ طور پر نمائندۂ خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس طرح خدا دیکھتا ہے کہ کون ہے جو اس وقت اپنے آپ کو خدا کے حوالے کردیتاہے جب کہ خدا ابھی غیب میں ہے اور کون ہے جو ایسا نہیں کرتا۔ پہلی قسم کے لوگوں کہ لیے جنت ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کے لیے دوزخ۔

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ

📘 انسان موجودہ دنیامیں اپنے کو آزاد پاتاہے۔ وہ بظاہر دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں، کوئی اس کو سزا دینے والا نہیں۔ یہ صورت حال اس کو بھلاوے میں ڈال دیتی ہے۔ حتی کہ خدا کا داعی جب اس کو اس کے عمل کے انجام سے ڈراتاہے تو وہ خدا کے داعی کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے — ہماری سرکشی پر تم جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ کب پوری ہوگی۔ اس قسم کی باتوں کا سبب نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔کیوں کہ یہ پکڑ خود داعیٔ حق کی طرف سے نہیں آنے والی ہے بلکہ خدا کی طرف سے آنے والی ہے۔ اور خدا ہر آن اپنی دنیا میں بتارہا ہے کہ اس کا طریقہ جلدی کا طریقہ نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو اور کوئی ملاح اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کشتی کو دریا میں ڈال دے تو خدا کا لازمی قانون ہے کہ ایسی کشتی پانی میں ڈوب جائے۔ مگر ایسی کشتی فوراً پانی میں نہیں ڈوبتی بلکہ خدا کی سنت کے مطابق اپنے مقرر وقت پر ڈوبتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جو انسان کو خدائی سنت کا تعارف کرارہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اگر ان اعمال پر خدا کا عذاب ہے تو وہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ زلزلہ اور طوفان خدائی واقعات ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جب معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہو تو فیصلہ کا اختیار تمام تر صرف فریقِ اول کو ہوتا ہے۔ مگرانسان اس پہلو پر غور نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا کا قانون فوراً حرکت میں نہیں آرہا ہے اور چونکہ وہ فوراً حرکت میں نہیں آتا اس لیے وہ غفلت میں پڑا رہتاہے۔ مگر جب خدا کا فیصلہ آئے گا تو اس وقت انسان اپنے کو بے بس پاکر سب کچھ مان لے گا۔ حالاں کہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ عمل کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔

قُلْ لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِي ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ لِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۚ إِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَلَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ

📘 انسان موجودہ دنیامیں اپنے کو آزاد پاتاہے۔ وہ بظاہر دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں، کوئی اس کو سزا دینے والا نہیں۔ یہ صورت حال اس کو بھلاوے میں ڈال دیتی ہے۔ حتی کہ خدا کا داعی جب اس کو اس کے عمل کے انجام سے ڈراتاہے تو وہ خدا کے داعی کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے — ہماری سرکشی پر تم جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ کب پوری ہوگی۔ اس قسم کی باتوں کا سبب نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔کیوں کہ یہ پکڑ خود داعیٔ حق کی طرف سے نہیں آنے والی ہے بلکہ خدا کی طرف سے آنے والی ہے۔ اور خدا ہر آن اپنی دنیا میں بتارہا ہے کہ اس کا طریقہ جلدی کا طریقہ نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو اور کوئی ملاح اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کشتی کو دریا میں ڈال دے تو خدا کا لازمی قانون ہے کہ ایسی کشتی پانی میں ڈوب جائے۔ مگر ایسی کشتی فوراً پانی میں نہیں ڈوبتی بلکہ خدا کی سنت کے مطابق اپنے مقرر وقت پر ڈوبتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جو انسان کو خدائی سنت کا تعارف کرارہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اگر ان اعمال پر خدا کا عذاب ہے تو وہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ زلزلہ اور طوفان خدائی واقعات ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جب معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہو تو فیصلہ کا اختیار تمام تر صرف فریقِ اول کو ہوتا ہے۔ مگرانسان اس پہلو پر غور نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا کا قانون فوراً حرکت میں نہیں آرہا ہے اور چونکہ وہ فوراً حرکت میں نہیں آتا اس لیے وہ غفلت میں پڑا رہتاہے۔ مگر جب خدا کا فیصلہ آئے گا تو اس وقت انسان اپنے کو بے بس پاکر سب کچھ مان لے گا۔ حالاں کہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ عمل کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ ۚ مَا خَلَقَ اللَّهُ ذَٰلِكَ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 سورج ہماری زمین سے نہایت درست فاصلہ پر قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے لیے روشنی اور حرارت جیسی نعمتوں کا خزانہ بناہوا ہے۔ اگر اس انداز ہ میں فرق ہوجائے تو سورج ہمارے لیے سورج نہ رہے بلکہ آگ کي جہنم بن جائے، وہ زندگی کے بجائے موت کا پیغام ثابت ہو۔ چاند ایک حد درجہ ریاضیاتی حساب کے مطابق اپنے مدار پر ٹھیک ٹھیک گردش کرتاہے۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوتاہے کہ چاند بذات خود بے نور ہونے کے باوجود ہمارے لیے نہ صرف ٹھنڈی روشنی دے بلکہ مہینہ اور سال کی قدرتی تقویم بھی فراہم کرے۔ یہ فلکیاتی نشانیاں ثابت کرتی ہیں کہ اس کائنات میں گہری مقصدیت ہے، اور مقصدیت والی کائنات کا آخری انجام بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ پھر ہماری دنیا میں رات کے بعد دن کا آنا مادی تمثیل کی زبان میں اس اخلاقی حقیقت کو بتا رہا ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ قانون نافذ ہے کہ تاریکی کے بعد روشنی پھیلے، اندھیرے کے بعد اجالے کا ظہور ہو۔ یہاں حقوق کی پامالی کے بعد حقوق کی ادائیگی کا نظام آنے والا ہے۔ انسان کی سرکشی کی جگہ خدائی انصاف کو غلبہ ملنے والا ہے۔ یہاں اس وقت کا آنا مقدر ہے جب کہ دھاندلی ختم ہواور حق کے اعتراف کا ماحول چاروں طرف قائم ہو جائے۔ آخرت کی حقیقتوں کو خدا نے نشانیوں کے انداز میں ظاہر کیا ہے۔بالفاظ دیگر، خدا موجودہ دنیا میں دلیل کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے، نہ کہ محسوس مشاہدہ کے روپ میں۔ پھر خدا جس روپ میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے اسی روپ میں ہم اس کو پاسکتے ہیں ،نہ کہ کسی اور روپ میں۔ خدا نے اس دنیا میں ہدایت کے راستے کھول رکھے ہیں مگر یہ ہدایت انھیں کا مقدر ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق اس کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں وہی لوگ صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق پائیں گے جو دلیل کی زبان میں بات کو سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار ہوں۔ جو لوگ سچی دلیل کے آگے نہ جھکیں وہ گویا خدا کے آگے نہیں جھکے۔ انھوں نے خدا کو نہیں مانا۔ ایسے لوگوں کو اپنے لیے جہنم کے سوا کسی اور چیز کا انتظار نہ کرنا چاہیے۔ زمین و آسمان میں اگر چہ بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں مگر وہ انھیں لوگوں کے لیے سبق بنتی ہیں جو ڈر رکھنے والے ہیں۔ ڈریا اندیشہ وہ چیز ہے جو آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے۔ جب تک آدمی کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہو وہ اس معاملہ پر پورا دھیان نہیں دے گا اور نہ اس کے پہلوؤں کو سمجھے گا— پوری کائنات ایک زبردست تخلیقی توازن میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا اشارہ ہے کہ کائنات کا مالک ایسا مالک ہے جو انسان کو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی طرح پہلی زندگی جس کا ہم تجربہ کر رہے ہیں وہ اس کا یقینی ثبوت ہے کہ دوسری زندگی بھی ممکن ہے۔ موجودہ دنیا میں مادی نتائج کا نکلنا مگر اخلاقی نتائج کا نہ نکلنا تقاضا کرتاہے کہ ایک اور دنیا بنے جہاں اخلاقی نتائج اپنی پوری صورت میں ظاہر ہوں۔ یہ سب انتہائی محکم باتیں ہیں مگر ان کا محکم ہونا وہی شخص جانے گا جو اندیشہ کی نفسیات کے تحت زندگی کے معاملہ کو دیکھتا ہو۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُهُ بَيَاتًا أَوْ نَهَارًا مَاذَا يَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ

📘 انسان موجودہ دنیامیں اپنے کو آزاد پاتاہے۔ وہ بظاہر دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں، کوئی اس کو سزا دینے والا نہیں۔ یہ صورت حال اس کو بھلاوے میں ڈال دیتی ہے۔ حتی کہ خدا کا داعی جب اس کو اس کے عمل کے انجام سے ڈراتاہے تو وہ خدا کے داعی کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے — ہماری سرکشی پر تم جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ کب پوری ہوگی۔ اس قسم کی باتوں کا سبب نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔کیوں کہ یہ پکڑ خود داعیٔ حق کی طرف سے نہیں آنے والی ہے بلکہ خدا کی طرف سے آنے والی ہے۔ اور خدا ہر آن اپنی دنیا میں بتارہا ہے کہ اس کا طریقہ جلدی کا طریقہ نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو اور کوئی ملاح اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کشتی کو دریا میں ڈال دے تو خدا کا لازمی قانون ہے کہ ایسی کشتی پانی میں ڈوب جائے۔ مگر ایسی کشتی فوراً پانی میں نہیں ڈوبتی بلکہ خدا کی سنت کے مطابق اپنے مقرر وقت پر ڈوبتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جو انسان کو خدائی سنت کا تعارف کرارہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اگر ان اعمال پر خدا کا عذاب ہے تو وہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ زلزلہ اور طوفان خدائی واقعات ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جب معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہو تو فیصلہ کا اختیار تمام تر صرف فریقِ اول کو ہوتا ہے۔ مگرانسان اس پہلو پر غور نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا کا قانون فوراً حرکت میں نہیں آرہا ہے اور چونکہ وہ فوراً حرکت میں نہیں آتا اس لیے وہ غفلت میں پڑا رہتاہے۔ مگر جب خدا کا فیصلہ آئے گا تو اس وقت انسان اپنے کو بے بس پاکر سب کچھ مان لے گا۔ حالاں کہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ عمل کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔

أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ ۚ آلْآنَ وَقَدْ كُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ

📘 انسان موجودہ دنیامیں اپنے کو آزاد پاتاہے۔ وہ بظاہر دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں، کوئی اس کو سزا دینے والا نہیں۔ یہ صورت حال اس کو بھلاوے میں ڈال دیتی ہے۔ حتی کہ خدا کا داعی جب اس کو اس کے عمل کے انجام سے ڈراتاہے تو وہ خدا کے داعی کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے — ہماری سرکشی پر تم جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ کب پوری ہوگی۔ اس قسم کی باتوں کا سبب نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔کیوں کہ یہ پکڑ خود داعیٔ حق کی طرف سے نہیں آنے والی ہے بلکہ خدا کی طرف سے آنے والی ہے۔ اور خدا ہر آن اپنی دنیا میں بتارہا ہے کہ اس کا طریقہ جلدی کا طریقہ نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو اور کوئی ملاح اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کشتی کو دریا میں ڈال دے تو خدا کا لازمی قانون ہے کہ ایسی کشتی پانی میں ڈوب جائے۔ مگر ایسی کشتی فوراً پانی میں نہیں ڈوبتی بلکہ خدا کی سنت کے مطابق اپنے مقرر وقت پر ڈوبتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جو انسان کو خدائی سنت کا تعارف کرارہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اگر ان اعمال پر خدا کا عذاب ہے تو وہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ زلزلہ اور طوفان خدائی واقعات ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جب معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہو تو فیصلہ کا اختیار تمام تر صرف فریقِ اول کو ہوتا ہے۔ مگرانسان اس پہلو پر غور نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا کا قانون فوراً حرکت میں نہیں آرہا ہے اور چونکہ وہ فوراً حرکت میں نہیں آتا اس لیے وہ غفلت میں پڑا رہتاہے۔ مگر جب خدا کا فیصلہ آئے گا تو اس وقت انسان اپنے کو بے بس پاکر سب کچھ مان لے گا۔ حالاں کہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ عمل کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔

ثُمَّ قِيلَ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ

📘 انسان موجودہ دنیامیں اپنے کو آزاد پاتاہے۔ وہ بظاہر دیکھتا ہے کہ وہ جو چاہے کرے، کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں، کوئی اس کو سزا دینے والا نہیں۔ یہ صورت حال اس کو بھلاوے میں ڈال دیتی ہے۔ حتی کہ خدا کا داعی جب اس کو اس کے عمل کے انجام سے ڈراتاہے تو وہ خدا کے داعی کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ وہ کہتا ہے — ہماری سرکشی پر تم جس عذاب کی دھمکی دے رہے ہو وہ کب پوری ہوگی۔ اس قسم کی باتوں کا سبب نادانی کے سوا اور کچھ نہیں۔کیوں کہ یہ پکڑ خود داعیٔ حق کی طرف سے نہیں آنے والی ہے بلکہ خدا کی طرف سے آنے والی ہے۔ اور خدا ہر آن اپنی دنیا میں بتارہا ہے کہ اس کا طریقہ جلدی کا طریقہ نہیں۔ کشتی میں سوراخ ہو اور کوئی ملاح اس کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنی کشتی کو دریا میں ڈال دے تو خدا کا لازمی قانون ہے کہ ایسی کشتی پانی میں ڈوب جائے۔ مگر ایسی کشتی فوراً پانی میں نہیں ڈوبتی بلکہ خدا کی سنت کے مطابق اپنے مقرر وقت پر ڈوبتی ہے۔ اس قسم کی مثالیں دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں جو انسان کو خدائی سنت کا تعارف کرارہی ہیں مگر ان کو دیکھنے کے باوجود وہ کہتا ہے کہ اگر ان اعمال پر خدا کا عذاب ہے تو وہ عذاب جلد کیوں نہیں آجاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدا کی پکڑ کے بارے میں سنجیدہ نہیں۔ زلزلہ اور طوفان خدائی واقعات ہیں۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ جب معاملہ خدا اور انسان کے درمیان ہو تو فیصلہ کا اختیار تمام تر صرف فریقِ اول کو ہوتا ہے۔ مگرانسان اس پہلو پر غور نہیں کرتا۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ خدا کا قانون فوراً حرکت میں نہیں آرہا ہے اور چونکہ وہ فوراً حرکت میں نہیں آتا اس لیے وہ غفلت میں پڑا رہتاہے۔ مگر جب خدا کا فیصلہ آئے گا تو اس وقت انسان اپنے کو بے بس پاکر سب کچھ مان لے گا۔ حالاں کہ اس وقت کا ماننا کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ عمل کا انجام پانے کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔

۞ وَيَسْتَنْبِئُونَكَ أَحَقٌّ هُوَ ۖ قُلْ إِي وَرَبِّي إِنَّهُ لَحَقٌّ ۖ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ

📘 عرب کے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو تم کو آخرت کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس کے جواب میںوہ آپ کی بات کا مذاق اڑانے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ آخرت کے منکر تھے۔ وہ دراصل پیغمبر اسلام کی تنبیہ کو بے وزن سمجھ رہے تھے، نہ کہ نفس آخرت کو۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اس وقت تک مسلّم نہ ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کے مخاطبین آپ کو ایک معمولی انسان کے روپ میں دیکھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسے معمولی انسان کی بات نہ ماننے سے ان کے اوپر خدا کا عذاب کیسے آجائے گا۔ انھیں آپ کے نمائندۂ خدا ہونے پر شک تھا، نہ کہ خود خدا اور آخرت پر۔ یہ تقابل حقیقۃً اقرار آخرت اور انکار آخرت کے درمیان نہ تھا۔ بلکہ بڑی شخصیت کے دین اور چھوٹی شخصیت کے دین کے درمیان تھا۔ وہ ماضی کے مشہور بزرگوں کے ساتھ اپنے کو منسوب کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلّمہ شخصیتوں کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں جب وہ سامنے کے پیغمبر کو دیکھتے تو وہ ان کو ایک معمولی انسان کے روپ میں نظر آتا۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ تاریخ کی جن بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ وہ اپنے کو وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان سے وابستگی ان کے لیے باعث نجات نہ ہو۔ بلکہ نجات کے لیے یہ ضروری ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس شخص کے ساتھ وابستہ کریں جس کو بظاہر کوئی تقدس اور عظمت حاصل نہیں۔ یہی وہ نفسیات تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں۔ آدمی ایک حساس مخلوق ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیںکرسکتا۔ دنیا میں جب تک اس کو عذاب کا سامنا نہیں ہے وہ حق کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ اس کو بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتاہے۔ مگر جب آخرت کا عذاب سامنے ہوگا تو اس پر اتنی گھبراہٹ طاری ہوگی کہ سب کچھ اس کو حقیر معلوم ہونے لگے گا۔ ساری دنیا کی دولت اور تمام دنیا کی نعمت بھی اگر اس کے پاس ہو تو عذاب کے مقابلہ میں وہ اتنی بے قیمت نظر آئے گی کہ وہ چاہے گا کہ سب کچھ دے کر صرف اتنا ہوجائے کہ وہ اس تکلیف سے نجات پاجائے۔ مگر آخرت کا مسئلہ کوئی سودے بازی کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اپنے كيے کا انجام بھگتنے کا مسئلہ ہے۔ زندگی اورموت کے بارے میں خدا کا جو منصوبہ ہے اس کا یہ لازمی جزء ہے۔ خدائی انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ ہو۔ اور خدائی قدرت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ بہر حال ہو کر رہے گا۔ اس کے پیش آنے میں جو کچھ دیر ہے، وہ صرف اس مقررہ وقت کے آنے کی ہے جب کہ موجودہ امتحان کی مدت ختم ہو اور سارے انسان خدا کے یہاں اپنے آخری انجام کا فیصلہ سننے کے لیے حاضر کرديے جائیں۔

وَلَوْ أَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِي الْأَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ۗ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ ۖ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

📘 عرب کے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو تم کو آخرت کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس کے جواب میںوہ آپ کی بات کا مذاق اڑانے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ آخرت کے منکر تھے۔ وہ دراصل پیغمبر اسلام کی تنبیہ کو بے وزن سمجھ رہے تھے، نہ کہ نفس آخرت کو۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اس وقت تک مسلّم نہ ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کے مخاطبین آپ کو ایک معمولی انسان کے روپ میں دیکھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسے معمولی انسان کی بات نہ ماننے سے ان کے اوپر خدا کا عذاب کیسے آجائے گا۔ انھیں آپ کے نمائندۂ خدا ہونے پر شک تھا، نہ کہ خود خدا اور آخرت پر۔ یہ تقابل حقیقۃً اقرار آخرت اور انکار آخرت کے درمیان نہ تھا۔ بلکہ بڑی شخصیت کے دین اور چھوٹی شخصیت کے دین کے درمیان تھا۔ وہ ماضی کے مشہور بزرگوں کے ساتھ اپنے کو منسوب کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلّمہ شخصیتوں کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں جب وہ سامنے کے پیغمبر کو دیکھتے تو وہ ان کو ایک معمولی انسان کے روپ میں نظر آتا۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ تاریخ کی جن بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ وہ اپنے کو وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان سے وابستگی ان کے لیے باعث نجات نہ ہو۔ بلکہ نجات کے لیے یہ ضروری ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس شخص کے ساتھ وابستہ کریں جس کو بظاہر کوئی تقدس اور عظمت حاصل نہیں۔ یہی وہ نفسیات تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں۔ آدمی ایک حساس مخلوق ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیںکرسکتا۔ دنیا میں جب تک اس کو عذاب کا سامنا نہیں ہے وہ حق کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ اس کو بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتاہے۔ مگر جب آخرت کا عذاب سامنے ہوگا تو اس پر اتنی گھبراہٹ طاری ہوگی کہ سب کچھ اس کو حقیر معلوم ہونے لگے گا۔ ساری دنیا کی دولت اور تمام دنیا کی نعمت بھی اگر اس کے پاس ہو تو عذاب کے مقابلہ میں وہ اتنی بے قیمت نظر آئے گی کہ وہ چاہے گا کہ سب کچھ دے کر صرف اتنا ہوجائے کہ وہ اس تکلیف سے نجات پاجائے۔ مگر آخرت کا مسئلہ کوئی سودے بازی کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اپنے كيے کا انجام بھگتنے کا مسئلہ ہے۔ زندگی اورموت کے بارے میں خدا کا جو منصوبہ ہے اس کا یہ لازمی جزء ہے۔ خدائی انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ ہو۔ اور خدائی قدرت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ بہر حال ہو کر رہے گا۔ اس کے پیش آنے میں جو کچھ دیر ہے، وہ صرف اس مقررہ وقت کے آنے کی ہے جب کہ موجودہ امتحان کی مدت ختم ہو اور سارے انسان خدا کے یہاں اپنے آخری انجام کا فیصلہ سننے کے لیے حاضر کرديے جائیں۔

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 عرب کے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو تم کو آخرت کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس کے جواب میںوہ آپ کی بات کا مذاق اڑانے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ آخرت کے منکر تھے۔ وہ دراصل پیغمبر اسلام کی تنبیہ کو بے وزن سمجھ رہے تھے، نہ کہ نفس آخرت کو۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اس وقت تک مسلّم نہ ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کے مخاطبین آپ کو ایک معمولی انسان کے روپ میں دیکھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسے معمولی انسان کی بات نہ ماننے سے ان کے اوپر خدا کا عذاب کیسے آجائے گا۔ انھیں آپ کے نمائندۂ خدا ہونے پر شک تھا، نہ کہ خود خدا اور آخرت پر۔ یہ تقابل حقیقۃً اقرار آخرت اور انکار آخرت کے درمیان نہ تھا۔ بلکہ بڑی شخصیت کے دین اور چھوٹی شخصیت کے دین کے درمیان تھا۔ وہ ماضی کے مشہور بزرگوں کے ساتھ اپنے کو منسوب کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلّمہ شخصیتوں کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں جب وہ سامنے کے پیغمبر کو دیکھتے تو وہ ان کو ایک معمولی انسان کے روپ میں نظر آتا۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ تاریخ کی جن بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ وہ اپنے کو وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان سے وابستگی ان کے لیے باعث نجات نہ ہو۔ بلکہ نجات کے لیے یہ ضروری ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس شخص کے ساتھ وابستہ کریں جس کو بظاہر کوئی تقدس اور عظمت حاصل نہیں۔ یہی وہ نفسیات تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں۔ آدمی ایک حساس مخلوق ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیںکرسکتا۔ دنیا میں جب تک اس کو عذاب کا سامنا نہیں ہے وہ حق کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ اس کو بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتاہے۔ مگر جب آخرت کا عذاب سامنے ہوگا تو اس پر اتنی گھبراہٹ طاری ہوگی کہ سب کچھ اس کو حقیر معلوم ہونے لگے گا۔ ساری دنیا کی دولت اور تمام دنیا کی نعمت بھی اگر اس کے پاس ہو تو عذاب کے مقابلہ میں وہ اتنی بے قیمت نظر آئے گی کہ وہ چاہے گا کہ سب کچھ دے کر صرف اتنا ہوجائے کہ وہ اس تکلیف سے نجات پاجائے۔ مگر آخرت کا مسئلہ کوئی سودے بازی کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اپنے كيے کا انجام بھگتنے کا مسئلہ ہے۔ زندگی اورموت کے بارے میں خدا کا جو منصوبہ ہے اس کا یہ لازمی جزء ہے۔ خدائی انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ ہو۔ اور خدائی قدرت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ بہر حال ہو کر رہے گا۔ اس کے پیش آنے میں جو کچھ دیر ہے، وہ صرف اس مقررہ وقت کے آنے کی ہے جب کہ موجودہ امتحان کی مدت ختم ہو اور سارے انسان خدا کے یہاں اپنے آخری انجام کا فیصلہ سننے کے لیے حاضر کرديے جائیں۔

هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

📘 عرب کے لوگوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو تم کو آخرت کا عذاب پکڑ لے گا۔ اس کے جواب میںوہ آپ کی بات کا مذاق اڑانے لگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ لوگ آخرت کے منکر تھے۔ وہ دراصل پیغمبر اسلام کی تنبیہ کو بے وزن سمجھ رہے تھے، نہ کہ نفس آخرت کو۔ پیغمبر اسلام کی عظمت اس وقت تک مسلّم نہ ہوئی تھی۔ اس وقت آپ کے مخاطبین آپ کو ایک معمولی انسان کے روپ میں دیکھتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسے معمولی انسان کی بات نہ ماننے سے ان کے اوپر خدا کا عذاب کیسے آجائے گا۔ انھیں آپ کے نمائندۂ خدا ہونے پر شک تھا، نہ کہ خود خدا اور آخرت پر۔ یہ تقابل حقیقۃً اقرار آخرت اور انکار آخرت کے درمیان نہ تھا۔ بلکہ بڑی شخصیت کے دین اور چھوٹی شخصیت کے دین کے درمیان تھا۔ وہ ماضی کے مشہور بزرگوں کے ساتھ اپنے کو منسوب کرتے تھے۔ وہ اپنے آپ کو مسلّمہ شخصیتوں کے دین پر سمجھتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں جب وہ سامنے کے پیغمبر کو دیکھتے تو وہ ان کو ایک معمولی انسان کے روپ میں نظر آتا۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ تاریخ کی جن بڑی بڑی شخصیتوں کے ساتھ وہ اپنے کو وابستہ کیے ہوئے ہیں، ان سے وابستگی ان کے لیے باعث نجات نہ ہو۔ بلکہ نجات کے لیے یہ ضروری ہو کہ وہ اپنے آپ کو اس شخص کے ساتھ وابستہ کریں جس کو بظاہر کوئی تقدس اور عظمت حاصل نہیں۔ یہی وہ نفسیات تھی جس کی وجہ سے ان کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ آپ کا مذاق اڑائیں۔ آدمی ایک حساس مخلوق ہے۔ وہ تکلیف کو برداشت نہیںکرسکتا۔ دنیا میں جب تک اس کو عذاب کا سامنا نہیں ہے وہ حق کا مذاق اڑاتا ہے۔ وہ اس کو بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیتاہے۔ مگر جب آخرت کا عذاب سامنے ہوگا تو اس پر اتنی گھبراہٹ طاری ہوگی کہ سب کچھ اس کو حقیر معلوم ہونے لگے گا۔ ساری دنیا کی دولت اور تمام دنیا کی نعمت بھی اگر اس کے پاس ہو تو عذاب کے مقابلہ میں وہ اتنی بے قیمت نظر آئے گی کہ وہ چاہے گا کہ سب کچھ دے کر صرف اتنا ہوجائے کہ وہ اس تکلیف سے نجات پاجائے۔ مگر آخرت کا مسئلہ کوئی سودے بازی کا مسئلہ نہیں۔ وہ تو اپنے كيے کا انجام بھگتنے کا مسئلہ ہے۔ زندگی اورموت کے بارے میں خدا کا جو منصوبہ ہے اس کا یہ لازمی جزء ہے۔ خدائی انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ ہو۔ اور خدائی قدرت اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ بہر حال ہو کر رہے گا۔ اس کے پیش آنے میں جو کچھ دیر ہے، وہ صرف اس مقررہ وقت کے آنے کی ہے جب کہ موجودہ امتحان کی مدت ختم ہو اور سارے انسان خدا کے یہاں اپنے آخری انجام کا فیصلہ سننے کے لیے حاضر کرديے جائیں۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

📘 انسان ایک نفسیاتی مخلوق ہے۔ نفسیات کے بننے سے وہ بنتا ہے اور نفسیات کے بگڑنے سے وہ بگڑ جاتا ہے۔ خدا کی کتاب کی صورت میں جو ہدایت اتری ہے وہ انسان کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اس میں انسان کے لیے بہترین نصیحت موجود ہے۔ مگر اس نصیحت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے اپنی راست فکری نہ کھو ئی ہو۔ جو شخص اپنی راست فکری کی صلاحیت کو بگاڑ لے، اس کے لیے خدا کا نصیحت نامہ بے اثر رہے گا۔ موجودہ دنیا کی چیزیں اور اس کی رونقیں آدمی کے سامنے ’’نقد‘‘ ہوتی ہیں۔ آدمی ہر آن ان کی لذت اور خوبی کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتیں صرف ’’وعدہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی صرف ان کے بارے میں سنتا ہے، وہ ان کا تجربہ نہیں کرتا۔ اس بنا پر اکثر لوگ دنیا کی نقد چیزوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مگر جو شخص گہرائی کے ساتھ سوچے گا وہ اس بات پر خوش ہوگا کہ خدا نے اپنی ہدایت اتار کر ا س کے لیے ابدی نعمتوں کے حصول کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے، خواہ وہ زرعی پیداوار کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں، سب کا سب رزق ہے۔ آدمی اگر ان چیزوں کو خدا کا دیا ہوا سمجھے اور خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان میں تصرف کرے تو اس کے اندر خدا کے شکر کا جذبہ ابھرے گا۔ مگر شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہتاہے کہ وہ اس نسبت کو بدل دے، تاکہ اس ’’رزق‘‘ کے استعمال کے وقت آدمی کو خدائی یاد نہ آئے بلکہ دوسری چیزوں کی یاد آئے — قدیم زمانہ میں شیطان نے پیداوار میں مفروضہ دیوی دیوتاؤں کے مراسم مقرر كيے تاکہ آدمی ان کو لیتے ہوئے خدا کو یاد نہ کرے بلکہ دیوی دیوتاؤں کو یاد کرلے۔ موجودہ زمانہ میں یہی مقصد شیطان مادی توجیہات کے ذریعے حاصل کررہا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ملنے والی چیز کو مادی عوامل کے تحت ملنے والی چیز بنا کر لوگوں کو دکھا رہا ہے تا کہ لوگ جب ان نعمتوں کو پائیں تو وہ اس کو خدا کا رزق نہ سمجھیں بلکہ صرف مادہ کا کرشمہ سمجھیں۔

قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ

📘 انسان ایک نفسیاتی مخلوق ہے۔ نفسیات کے بننے سے وہ بنتا ہے اور نفسیات کے بگڑنے سے وہ بگڑ جاتا ہے۔ خدا کی کتاب کی صورت میں جو ہدایت اتری ہے وہ انسان کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اس میں انسان کے لیے بہترین نصیحت موجود ہے۔ مگر اس نصیحت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے اپنی راست فکری نہ کھو ئی ہو۔ جو شخص اپنی راست فکری کی صلاحیت کو بگاڑ لے، اس کے لیے خدا کا نصیحت نامہ بے اثر رہے گا۔ موجودہ دنیا کی چیزیں اور اس کی رونقیں آدمی کے سامنے ’’نقد‘‘ ہوتی ہیں۔ آدمی ہر آن ان کی لذت اور خوبی کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتیں صرف ’’وعدہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی صرف ان کے بارے میں سنتا ہے، وہ ان کا تجربہ نہیں کرتا۔ اس بنا پر اکثر لوگ دنیا کی نقد چیزوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مگر جو شخص گہرائی کے ساتھ سوچے گا وہ اس بات پر خوش ہوگا کہ خدا نے اپنی ہدایت اتار کر ا س کے لیے ابدی نعمتوں کے حصول کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے، خواہ وہ زرعی پیداوار کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں، سب کا سب رزق ہے۔ آدمی اگر ان چیزوں کو خدا کا دیا ہوا سمجھے اور خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان میں تصرف کرے تو اس کے اندر خدا کے شکر کا جذبہ ابھرے گا۔ مگر شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہتاہے کہ وہ اس نسبت کو بدل دے، تاکہ اس ’’رزق‘‘ کے استعمال کے وقت آدمی کو خدائی یاد نہ آئے بلکہ دوسری چیزوں کی یاد آئے — قدیم زمانہ میں شیطان نے پیداوار میں مفروضہ دیوی دیوتاؤں کے مراسم مقرر كيے تاکہ آدمی ان کو لیتے ہوئے خدا کو یاد نہ کرے بلکہ دیوی دیوتاؤں کو یاد کرلے۔ موجودہ زمانہ میں یہی مقصد شیطان مادی توجیہات کے ذریعے حاصل کررہا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ملنے والی چیز کو مادی عوامل کے تحت ملنے والی چیز بنا کر لوگوں کو دکھا رہا ہے تا کہ لوگ جب ان نعمتوں کو پائیں تو وہ اس کو خدا کا رزق نہ سمجھیں بلکہ صرف مادہ کا کرشمہ سمجھیں۔

قُلْ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ آللَّهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّهِ تَفْتَرُونَ

📘 انسان ایک نفسیاتی مخلوق ہے۔ نفسیات کے بننے سے وہ بنتا ہے اور نفسیات کے بگڑنے سے وہ بگڑ جاتا ہے۔ خدا کی کتاب کی صورت میں جو ہدایت اتری ہے وہ انسان کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اس میں انسان کے لیے بہترین نصیحت موجود ہے۔ مگر اس نصیحت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے اپنی راست فکری نہ کھو ئی ہو۔ جو شخص اپنی راست فکری کی صلاحیت کو بگاڑ لے، اس کے لیے خدا کا نصیحت نامہ بے اثر رہے گا۔ موجودہ دنیا کی چیزیں اور اس کی رونقیں آدمی کے سامنے ’’نقد‘‘ ہوتی ہیں۔ آدمی ہر آن ان کی لذت اور خوبی کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتیں صرف ’’وعدہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی صرف ان کے بارے میں سنتا ہے، وہ ان کا تجربہ نہیں کرتا۔ اس بنا پر اکثر لوگ دنیا کی نقد چیزوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مگر جو شخص گہرائی کے ساتھ سوچے گا وہ اس بات پر خوش ہوگا کہ خدا نے اپنی ہدایت اتار کر ا س کے لیے ابدی نعمتوں کے حصول کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے، خواہ وہ زرعی پیداوار کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں، سب کا سب رزق ہے۔ آدمی اگر ان چیزوں کو خدا کا دیا ہوا سمجھے اور خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان میں تصرف کرے تو اس کے اندر خدا کے شکر کا جذبہ ابھرے گا۔ مگر شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہتاہے کہ وہ اس نسبت کو بدل دے، تاکہ اس ’’رزق‘‘ کے استعمال کے وقت آدمی کو خدائی یاد نہ آئے بلکہ دوسری چیزوں کی یاد آئے — قدیم زمانہ میں شیطان نے پیداوار میں مفروضہ دیوی دیوتاؤں کے مراسم مقرر كيے تاکہ آدمی ان کو لیتے ہوئے خدا کو یاد نہ کرے بلکہ دیوی دیوتاؤں کو یاد کرلے۔ موجودہ زمانہ میں یہی مقصد شیطان مادی توجیہات کے ذریعے حاصل کررہا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ملنے والی چیز کو مادی عوامل کے تحت ملنے والی چیز بنا کر لوگوں کو دکھا رہا ہے تا کہ لوگ جب ان نعمتوں کو پائیں تو وہ اس کو خدا کا رزق نہ سمجھیں بلکہ صرف مادہ کا کرشمہ سمجھیں۔

إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ

📘 سورج ہماری زمین سے نہایت درست فاصلہ پر قائم ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے لیے روشنی اور حرارت جیسی نعمتوں کا خزانہ بناہوا ہے۔ اگر اس انداز ہ میں فرق ہوجائے تو سورج ہمارے لیے سورج نہ رہے بلکہ آگ کي جہنم بن جائے، وہ زندگی کے بجائے موت کا پیغام ثابت ہو۔ چاند ایک حد درجہ ریاضیاتی حساب کے مطابق اپنے مدار پر ٹھیک ٹھیک گردش کرتاہے۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوتاہے کہ چاند بذات خود بے نور ہونے کے باوجود ہمارے لیے نہ صرف ٹھنڈی روشنی دے بلکہ مہینہ اور سال کی قدرتی تقویم بھی فراہم کرے۔ یہ فلکیاتی نشانیاں ثابت کرتی ہیں کہ اس کائنات میں گہری مقصدیت ہے، اور مقصدیت والی کائنات کا آخری انجام بے مقصد نہیں ہوسکتا۔ پھر ہماری دنیا میں رات کے بعد دن کا آنا مادی تمثیل کی زبان میں اس اخلاقی حقیقت کو بتا رہا ہے کہ موجودہ دنیا میں یہ قانون نافذ ہے کہ تاریکی کے بعد روشنی پھیلے، اندھیرے کے بعد اجالے کا ظہور ہو۔ یہاں حقوق کی پامالی کے بعد حقوق کی ادائیگی کا نظام آنے والا ہے۔ انسان کی سرکشی کی جگہ خدائی انصاف کو غلبہ ملنے والا ہے۔ یہاں اس وقت کا آنا مقدر ہے جب کہ دھاندلی ختم ہواور حق کے اعتراف کا ماحول چاروں طرف قائم ہو جائے۔ آخرت کی حقیقتوں کو خدا نے نشانیوں کے انداز میں ظاہر کیا ہے۔بالفاظ دیگر، خدا موجودہ دنیا میں دلیل کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے، نہ کہ محسوس مشاہدہ کے روپ میں۔ پھر خدا جس روپ میں اپنا جلوہ دکھاتا ہے اسی روپ میں ہم اس کو پاسکتے ہیں ،نہ کہ کسی اور روپ میں۔ خدا نے اس دنیا میں ہدایت کے راستے کھول رکھے ہیں مگر یہ ہدایت انھیں کا مقدر ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق اس کی پیروی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں وہی لوگ صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق پائیں گے جو دلیل کی زبان میں بات کو سمجھنے اور ماننے کے لیے تیار ہوں۔ جو لوگ سچی دلیل کے آگے نہ جھکیں وہ گویا خدا کے آگے نہیں جھکے۔ انھوں نے خدا کو نہیں مانا۔ ایسے لوگوں کو اپنے لیے جہنم کے سوا کسی اور چیز کا انتظار نہ کرنا چاہیے۔ زمین و آسمان میں اگر چہ بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں مگر وہ انھیں لوگوں کے لیے سبق بنتی ہیں جو ڈر رکھنے والے ہیں۔ ڈریا اندیشہ وہ چیز ہے جو آدمی کو سنجیدہ بناتا ہے۔ جب تک آدمی کسی معاملہ میں سنجیدہ نہ ہو وہ اس معاملہ پر پورا دھیان نہیں دے گا اور نہ اس کے پہلوؤں کو سمجھے گا— پوری کائنات ایک زبردست تخلیقی توازن میں جکڑی ہوئی ہے۔ یہ اس بات کا کھلا ہوا اشارہ ہے کہ کائنات کا مالک ایسا مالک ہے جو انسان کو پکڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی طرح پہلی زندگی جس کا ہم تجربہ کر رہے ہیں وہ اس کا یقینی ثبوت ہے کہ دوسری زندگی بھی ممکن ہے۔ موجودہ دنیا میں مادی نتائج کا نکلنا مگر اخلاقی نتائج کا نہ نکلنا تقاضا کرتاہے کہ ایک اور دنیا بنے جہاں اخلاقی نتائج اپنی پوری صورت میں ظاہر ہوں۔ یہ سب انتہائی محکم باتیں ہیں مگر ان کا محکم ہونا وہی شخص جانے گا جو اندیشہ کی نفسیات کے تحت زندگی کے معاملہ کو دیکھتا ہو۔

وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ

📘 انسان ایک نفسیاتی مخلوق ہے۔ نفسیات کے بننے سے وہ بنتا ہے اور نفسیات کے بگڑنے سے وہ بگڑ جاتا ہے۔ خدا کی کتاب کی صورت میں جو ہدایت اتری ہے وہ انسان کے لیے سراسر رحمت ہے۔ اس میں انسان کے لیے بہترین نصیحت موجود ہے۔ مگر اس نصیحت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی نے اپنی راست فکری نہ کھو ئی ہو۔ جو شخص اپنی راست فکری کی صلاحیت کو بگاڑ لے، اس کے لیے خدا کا نصیحت نامہ بے اثر رہے گا۔ موجودہ دنیا کی چیزیں اور اس کی رونقیں آدمی کے سامنے ’’نقد‘‘ ہوتی ہیں۔ آدمی ہر آن ان کی لذت اور خوبی کا تجربہ کرتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں آخرت کی نعمتیں صرف ’’وعدہ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آدمی صرف ان کے بارے میں سنتا ہے، وہ ان کا تجربہ نہیں کرتا۔ اس بنا پر اکثر لوگ دنیا کی نقد چیزوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ مگر جو شخص گہرائی کے ساتھ سوچے گا وہ اس بات پر خوش ہوگا کہ خدا نے اپنی ہدایت اتار کر ا س کے لیے ابدی نعمتوں کے حصول کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اللہ نے جو کچھ انسان کو دیا ہے، خواہ وہ زرعی پیداوار کی صورت میں ہو یا دوسری صورت میں، سب کا سب رزق ہے۔ آدمی اگر ان چیزوں کو خدا کا دیا ہوا سمجھے اور خداکے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق ان میں تصرف کرے تو اس کے اندر خدا کے شکر کا جذبہ ابھرے گا۔ مگر شیطان ہمیشہ اس کوشش میں رہتاہے کہ وہ اس نسبت کو بدل دے، تاکہ اس ’’رزق‘‘ کے استعمال کے وقت آدمی کو خدائی یاد نہ آئے بلکہ دوسری چیزوں کی یاد آئے — قدیم زمانہ میں شیطان نے پیداوار میں مفروضہ دیوی دیوتاؤں کے مراسم مقرر كيے تاکہ آدمی ان کو لیتے ہوئے خدا کو یاد نہ کرے بلکہ دیوی دیوتاؤں کو یاد کرلے۔ موجودہ زمانہ میں یہی مقصد شیطان مادی توجیہات کے ذریعے حاصل کررہا ہے۔ وہ خدا کی طرف سے ملنے والی چیز کو مادی عوامل کے تحت ملنے والی چیز بنا کر لوگوں کو دکھا رہا ہے تا کہ لوگ جب ان نعمتوں کو پائیں تو وہ اس کو خدا کا رزق نہ سمجھیں بلکہ صرف مادہ کا کرشمہ سمجھیں۔

وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُو مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ ۚ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَٰلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُبِينٍ

📘 دعوت اس دنیا کے تمام کاموںمیں مشکل ترین کام ہے۔ داعی اپنے پورے وجود کو دعوتی عمل میں شامل کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی پیغام کا داعی بن سکے۔ اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ وہ ہے جو مخاطبین کی طرف سے پیش آتاہے۔ داعی جب خدا کے دین کو بے آمیز صورت میں پیش کرتاہے اور اس کو کھلے دلائل کی زبان میں مبرہن کردیتاہے تو وہ تمام لوگ بپھر اٹھتے ہیں جو خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتا کر دین دار بنے ہوئے ہوں یا دینی پیشوائی کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد پروپیگنڈا، سازشیں، حتی کہ جارحانہ کارروائیاں، ہر چیز کو وہ اپنے لیے جائز کرلیتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں ملی ہوئی آزادی انھیں موقع دیتی ہے اور وہ داعی کے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال یہاں تک پہنچتی ہے کہ دلیل کی طاقت تمام تر ایک طرف ہوجاتی ہے اور مادیات کی طاقت تمام تردوسری طرف۔ یہ صورت حال بلا شبہ بے حد سخت ہے۔ اس کے بعد ایک طرف یہ ہوتاہے کہ مخالفین حق کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کو کامیاب سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف داعی پر بھی یہ خیال گزرتا ہے کہ کیا خدا اس معاملے میں غیر جانب دار ہے۔ کیا وہ مجھے حق وباطل کے اس معرکہ میں ڈال کر خود علیحدہ ہوگیا ہے۔ مگرایسا نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا حق کا ساتھ نہ دے۔ مخالفین کا بے دلیل ہوجانا اور دلیل کی قوت کا تمام تر داعی کی طر ف ہونا یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا داعی کے ساتھ ہے نہ کہ دوسرے گروہ کے ساتھ۔ کیوں کہ دلیل موجودہ دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے جس کے ساتھ دلیل ہے اس کے ساتھ گویا خدا ہے۔ مخالفینِ حق کو جارحیت کا موقع صرف اس آزادی کی وجہ سے مل رہا ہے جو امتحان کی خاطر انھیں دی گئی ہے۔ امتحانی دنیا کے ختم ہوتے ہی یہ صورت حال بدل جائے گی۔ اس وقت عزت وبرتری اس کے لیے ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہوا تھا۔ جو لوگ دلیل سے خالی تھے وہ وہاں کی دنیا میں رسوا اور ناکام ہو کر رہ جائيں گے۔ اللہ کے سچے داعیوں کا گروہ خداکے دوستوں کا گروہ ہے۔ اللہ ان کو آخرت میں ایک ایسی اعلیٰ زندگی کی خوش خبری دیتا ہے جہاں نہ انھیں پچھلی زندگی کے لیے کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ اگلی زندگی کے لیے کوئی اندیشہ۔

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

📘 دعوت اس دنیا کے تمام کاموںمیں مشکل ترین کام ہے۔ داعی اپنے پورے وجود کو دعوتی عمل میں شامل کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی پیغام کا داعی بن سکے۔ اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ وہ ہے جو مخاطبین کی طرف سے پیش آتاہے۔ داعی جب خدا کے دین کو بے آمیز صورت میں پیش کرتاہے اور اس کو کھلے دلائل کی زبان میں مبرہن کردیتاہے تو وہ تمام لوگ بپھر اٹھتے ہیں جو خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتا کر دین دار بنے ہوئے ہوں یا دینی پیشوائی کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد پروپیگنڈا، سازشیں، حتی کہ جارحانہ کارروائیاں، ہر چیز کو وہ اپنے لیے جائز کرلیتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں ملی ہوئی آزادی انھیں موقع دیتی ہے اور وہ داعی کے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال یہاں تک پہنچتی ہے کہ دلیل کی طاقت تمام تر ایک طرف ہوجاتی ہے اور مادیات کی طاقت تمام تردوسری طرف۔ یہ صورت حال بلا شبہ بے حد سخت ہے۔ اس کے بعد ایک طرف یہ ہوتاہے کہ مخالفین حق کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کو کامیاب سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف داعی پر بھی یہ خیال گزرتا ہے کہ کیا خدا اس معاملے میں غیر جانب دار ہے۔ کیا وہ مجھے حق وباطل کے اس معرکہ میں ڈال کر خود علیحدہ ہوگیا ہے۔ مگرایسا نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا حق کا ساتھ نہ دے۔ مخالفین کا بے دلیل ہوجانا اور دلیل کی قوت کا تمام تر داعی کی طر ف ہونا یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا داعی کے ساتھ ہے نہ کہ دوسرے گروہ کے ساتھ۔ کیوں کہ دلیل موجودہ دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے جس کے ساتھ دلیل ہے اس کے ساتھ گویا خدا ہے۔ مخالفینِ حق کو جارحیت کا موقع صرف اس آزادی کی وجہ سے مل رہا ہے جو امتحان کی خاطر انھیں دی گئی ہے۔ امتحانی دنیا کے ختم ہوتے ہی یہ صورت حال بدل جائے گی۔ اس وقت عزت وبرتری اس کے لیے ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہوا تھا۔ جو لوگ دلیل سے خالی تھے وہ وہاں کی دنیا میں رسوا اور ناکام ہو کر رہ جائيں گے۔ اللہ کے سچے داعیوں کا گروہ خداکے دوستوں کا گروہ ہے۔ اللہ ان کو آخرت میں ایک ایسی اعلیٰ زندگی کی خوش خبری دیتا ہے جہاں نہ انھیں پچھلی زندگی کے لیے کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ اگلی زندگی کے لیے کوئی اندیشہ۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ

📘 دعوت اس دنیا کے تمام کاموںمیں مشکل ترین کام ہے۔ داعی اپنے پورے وجود کو دعوتی عمل میں شامل کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی پیغام کا داعی بن سکے۔ اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ وہ ہے جو مخاطبین کی طرف سے پیش آتاہے۔ داعی جب خدا کے دین کو بے آمیز صورت میں پیش کرتاہے اور اس کو کھلے دلائل کی زبان میں مبرہن کردیتاہے تو وہ تمام لوگ بپھر اٹھتے ہیں جو خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتا کر دین دار بنے ہوئے ہوں یا دینی پیشوائی کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد پروپیگنڈا، سازشیں، حتی کہ جارحانہ کارروائیاں، ہر چیز کو وہ اپنے لیے جائز کرلیتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں ملی ہوئی آزادی انھیں موقع دیتی ہے اور وہ داعی کے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال یہاں تک پہنچتی ہے کہ دلیل کی طاقت تمام تر ایک طرف ہوجاتی ہے اور مادیات کی طاقت تمام تردوسری طرف۔ یہ صورت حال بلا شبہ بے حد سخت ہے۔ اس کے بعد ایک طرف یہ ہوتاہے کہ مخالفین حق کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کو کامیاب سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف داعی پر بھی یہ خیال گزرتا ہے کہ کیا خدا اس معاملے میں غیر جانب دار ہے۔ کیا وہ مجھے حق وباطل کے اس معرکہ میں ڈال کر خود علیحدہ ہوگیا ہے۔ مگرایسا نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا حق کا ساتھ نہ دے۔ مخالفین کا بے دلیل ہوجانا اور دلیل کی قوت کا تمام تر داعی کی طر ف ہونا یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا داعی کے ساتھ ہے نہ کہ دوسرے گروہ کے ساتھ۔ کیوں کہ دلیل موجودہ دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے جس کے ساتھ دلیل ہے اس کے ساتھ گویا خدا ہے۔ مخالفینِ حق کو جارحیت کا موقع صرف اس آزادی کی وجہ سے مل رہا ہے جو امتحان کی خاطر انھیں دی گئی ہے۔ امتحانی دنیا کے ختم ہوتے ہی یہ صورت حال بدل جائے گی۔ اس وقت عزت وبرتری اس کے لیے ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہوا تھا۔ جو لوگ دلیل سے خالی تھے وہ وہاں کی دنیا میں رسوا اور ناکام ہو کر رہ جائيں گے۔ اللہ کے سچے داعیوں کا گروہ خداکے دوستوں کا گروہ ہے۔ اللہ ان کو آخرت میں ایک ایسی اعلیٰ زندگی کی خوش خبری دیتا ہے جہاں نہ انھیں پچھلی زندگی کے لیے کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ اگلی زندگی کے لیے کوئی اندیشہ۔

لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 دعوت اس دنیا کے تمام کاموںمیں مشکل ترین کام ہے۔ داعی اپنے پورے وجود کو دعوتی عمل میں شامل کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی پیغام کا داعی بن سکے۔ اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ وہ ہے جو مخاطبین کی طرف سے پیش آتاہے۔ داعی جب خدا کے دین کو بے آمیز صورت میں پیش کرتاہے اور اس کو کھلے دلائل کی زبان میں مبرہن کردیتاہے تو وہ تمام لوگ بپھر اٹھتے ہیں جو خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتا کر دین دار بنے ہوئے ہوں یا دینی پیشوائی کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد پروپیگنڈا، سازشیں، حتی کہ جارحانہ کارروائیاں، ہر چیز کو وہ اپنے لیے جائز کرلیتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں ملی ہوئی آزادی انھیں موقع دیتی ہے اور وہ داعی کے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال یہاں تک پہنچتی ہے کہ دلیل کی طاقت تمام تر ایک طرف ہوجاتی ہے اور مادیات کی طاقت تمام تردوسری طرف۔ یہ صورت حال بلا شبہ بے حد سخت ہے۔ اس کے بعد ایک طرف یہ ہوتاہے کہ مخالفین حق کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کو کامیاب سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف داعی پر بھی یہ خیال گزرتا ہے کہ کیا خدا اس معاملے میں غیر جانب دار ہے۔ کیا وہ مجھے حق وباطل کے اس معرکہ میں ڈال کر خود علیحدہ ہوگیا ہے۔ مگرایسا نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا حق کا ساتھ نہ دے۔ مخالفین کا بے دلیل ہوجانا اور دلیل کی قوت کا تمام تر داعی کی طر ف ہونا یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا داعی کے ساتھ ہے نہ کہ دوسرے گروہ کے ساتھ۔ کیوں کہ دلیل موجودہ دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے جس کے ساتھ دلیل ہے اس کے ساتھ گویا خدا ہے۔ مخالفینِ حق کو جارحیت کا موقع صرف اس آزادی کی وجہ سے مل رہا ہے جو امتحان کی خاطر انھیں دی گئی ہے۔ امتحانی دنیا کے ختم ہوتے ہی یہ صورت حال بدل جائے گی۔ اس وقت عزت وبرتری اس کے لیے ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہوا تھا۔ جو لوگ دلیل سے خالی تھے وہ وہاں کی دنیا میں رسوا اور ناکام ہو کر رہ جائيں گے۔ اللہ کے سچے داعیوں کا گروہ خداکے دوستوں کا گروہ ہے۔ اللہ ان کو آخرت میں ایک ایسی اعلیٰ زندگی کی خوش خبری دیتا ہے جہاں نہ انھیں پچھلی زندگی کے لیے کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ اگلی زندگی کے لیے کوئی اندیشہ۔

وَلَا يَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ ۘ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا ۚ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ

📘 دعوت اس دنیا کے تمام کاموںمیں مشکل ترین کام ہے۔ داعی اپنے پورے وجود کو دعوتی عمل میں شامل کرتاہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ کسی پیغام کا داعی بن سکے۔ اس سے بھی زیادہ سخت مرحلہ وہ ہے جو مخاطبین کی طرف سے پیش آتاہے۔ داعی جب خدا کے دین کو بے آمیز صورت میں پیش کرتاہے اور اس کو کھلے دلائل کی زبان میں مبرہن کردیتاہے تو وہ تمام لوگ بپھر اٹھتے ہیں جو خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتا کر دین دار بنے ہوئے ہوں یا دینی پیشوائی کا مقام حاصل كيے ہوئے ہوں۔ وہ داعی کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے بنیاد پروپیگنڈا، سازشیں، حتی کہ جارحانہ کارروائیاں، ہر چیز کو وہ اپنے لیے جائز کرلیتے ہیں۔ موجودہ دنیا میں ملی ہوئی آزادی انھیں موقع دیتی ہے اور وہ داعی کے خلاف جو کچھ کرنا چاہتے ہیں کرتے چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال یہاں تک پہنچتی ہے کہ دلیل کی طاقت تمام تر ایک طرف ہوجاتی ہے اور مادیات کی طاقت تمام تردوسری طرف۔ یہ صورت حال بلا شبہ بے حد سخت ہے۔ اس کے بعد ایک طرف یہ ہوتاہے کہ مخالفین حق کے حوصلے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے کو کامیاب سمجھنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف داعی پر بھی یہ خیال گزرتا ہے کہ کیا خدا اس معاملے میں غیر جانب دار ہے۔ کیا وہ مجھے حق وباطل کے اس معرکہ میں ڈال کر خود علیحدہ ہوگیا ہے۔ مگرایسا نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا حق کا ساتھ نہ دے۔ مخالفین کا بے دلیل ہوجانا اور دلیل کی قوت کا تمام تر داعی کی طر ف ہونا یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا داعی کے ساتھ ہے نہ کہ دوسرے گروہ کے ساتھ۔ کیوں کہ دلیل موجودہ دنیا میں خدا کی نمائندہ ہے جس کے ساتھ دلیل ہے اس کے ساتھ گویا خدا ہے۔ مخالفینِ حق کو جارحیت کا موقع صرف اس آزادی کی وجہ سے مل رہا ہے جو امتحان کی خاطر انھیں دی گئی ہے۔ امتحانی دنیا کے ختم ہوتے ہی یہ صورت حال بدل جائے گی۔ اس وقت عزت وبرتری اس کے لیے ہوگی جو دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہوا تھا۔ جو لوگ دلیل سے خالی تھے وہ وہاں کی دنیا میں رسوا اور ناکام ہو کر رہ جائيں گے۔ اللہ کے سچے داعیوں کا گروہ خداکے دوستوں کا گروہ ہے۔ اللہ ان کو آخرت میں ایک ایسی اعلیٰ زندگی کی خوش خبری دیتا ہے جہاں نہ انھیں پچھلی زندگی کے لیے کوئی پچھتاوا ہوگا اور نہ اگلی زندگی کے لیے کوئی اندیشہ۔

أَلَا إِنَّ لِلَّهِ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ ۗ وَمَا يَتَّبِعُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ شُرَكَاءَ ۚ إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ

📘 زمین وآسمان کے پیچھے کون ہے جو اس کو سنبھالے ہوئے ہے ا ور اس کو چلا رہا ہے۔ یہ سوال ہر زمانہ میں انسان کی تلاش کا مرکزی نکتہ رہاہے۔ مگر اس سوال کا صحیح جواب پانا اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی ماوراء طبیعیات دنیا تک دیکھ سکے اور ماوراء طبیعیات تک دیکھنے والی آنکھ کسی کو حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ جواب جو وہ بطور خود قائم کرتاہے وہ محض قیاس وگمان کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ حقیقی علم کی بنیاد پر۔ اس دنیا میں حقیقی علم کی بنیاد پر بولنے والے صرف وہ لوگ ہیں جن کو پیغمبر کہا جاتاہے۔یہ وہ مخصوص لوگ ہیں جن کا ربط عالم بالا سے براہِ راست قائم ہوتاہے۔ خدا خود انھیں اپنی طرف سے حقیقت کی خبر دیتاہے۔ اس لیے اس دنیا میں پیغمبر کا علم ہی واحد علم ہے جس پر یقینی طور پر بھروسہ کیا جاسکے۔ پیغمبروں کے دعوے کی صداقت کو چانچنے کے لیے اگرچہ ہمارے پاس کوئی براہِ راست ذریعہ نہیں ہے۔ تاہم ایک بالواسطہ ذریعہ یقینی طورپر موجود ہے۔ اور وہ کائنات کی آیات (نشانیاں) ہیں۔ یہ نشانیاں پیغمبروں کے بیان کردہ معنوی حقائق کی عملی تصدیق کررہی ہیں۔ مثال کے طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زمین پر رات کے بعد دن آتا ہے اور دن کے بعدرات آتی ہے۔ یہ گردش ایک انتہائی محکم نظام کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ جو ریاضیاتی صحت کی حد تک منظم ہے۔ مزید یہ کہ یہ گردش حیرت ناک حد تک ہماری زندگی کے موافق ہے۔ اس کے پیچھے واضح طور پر ایک بامقصد منصوبہ کام کرتا ہوا نظر آتاہے۔ یہ صورت حال یقینی طور پر ایک ایسے قادر مطلق اور رحمان ورحیم کے وجود کا ثبوت ہے جس کی خبر پیغمبر دیتے ہیں۔ جو لوگ اپنے خیال کے مطابق ’’شریکوں‘‘ کی پیروی کررہے ہیں، وہ شرکاء خواہ قدیم الٰہیاتی شرکاء ہوں یا جدید مادی شرکاء، وہ کسی واقعی حقیقت کی پیروی نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے قیاس و گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر ہونے والی حقیقت کی تصدیق ساری کائنات کررہی ہے مگر ’’مشرکین‘‘ جس چیز کے مدعی ہیں اس کی تصدیق کرنے والا کوئی نہیں۔

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ

📘 زمین وآسمان کے پیچھے کون ہے جو اس کو سنبھالے ہوئے ہے ا ور اس کو چلا رہا ہے۔ یہ سوال ہر زمانہ میں انسان کی تلاش کا مرکزی نکتہ رہاہے۔ مگر اس سوال کا صحیح جواب پانا اسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی ماوراء طبیعیات دنیا تک دیکھ سکے اور ماوراء طبیعیات تک دیکھنے والی آنکھ کسی کو حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ جواب جو وہ بطور خود قائم کرتاہے وہ محض قیاس وگمان کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ حقیقی علم کی بنیاد پر۔ اس دنیا میں حقیقی علم کی بنیاد پر بولنے والے صرف وہ لوگ ہیں جن کو پیغمبر کہا جاتاہے۔یہ وہ مخصوص لوگ ہیں جن کا ربط عالم بالا سے براہِ راست قائم ہوتاہے۔ خدا خود انھیں اپنی طرف سے حقیقت کی خبر دیتاہے۔ اس لیے اس دنیا میں پیغمبر کا علم ہی واحد علم ہے جس پر یقینی طور پر بھروسہ کیا جاسکے۔ پیغمبروں کے دعوے کی صداقت کو چانچنے کے لیے اگرچہ ہمارے پاس کوئی براہِ راست ذریعہ نہیں ہے۔ تاہم ایک بالواسطہ ذریعہ یقینی طورپر موجود ہے۔ اور وہ کائنات کی آیات (نشانیاں) ہیں۔ یہ نشانیاں پیغمبروں کے بیان کردہ معنوی حقائق کی عملی تصدیق کررہی ہیں۔ مثال کے طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری زمین پر رات کے بعد دن آتا ہے اور دن کے بعدرات آتی ہے۔ یہ گردش ایک انتہائی محکم نظام کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ جو ریاضیاتی صحت کی حد تک منظم ہے۔ مزید یہ کہ یہ گردش حیرت ناک حد تک ہماری زندگی کے موافق ہے۔ اس کے پیچھے واضح طور پر ایک بامقصد منصوبہ کام کرتا ہوا نظر آتاہے۔ یہ صورت حال یقینی طور پر ایک ایسے قادر مطلق اور رحمان ورحیم کے وجود کا ثبوت ہے جس کی خبر پیغمبر دیتے ہیں۔ جو لوگ اپنے خیال کے مطابق ’’شریکوں‘‘ کی پیروی کررہے ہیں، وہ شرکاء خواہ قدیم الٰہیاتی شرکاء ہوں یا جدید مادی شرکاء، وہ کسی واقعی حقیقت کی پیروی نہیں کررہے ہیں۔ بلکہ صرف اپنے قیاس و گمان کی پیروی کررہے ہیں۔ پیغمبروں کے ذریعہ ظاہر ہونے والی حقیقت کی تصدیق ساری کائنات کررہی ہے مگر ’’مشرکین‘‘ جس چیز کے مدعی ہیں اس کی تصدیق کرنے والا کوئی نہیں۔

قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ هُوَ الْغَنِيُّ ۖ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنْ عِنْدَكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ بِهَٰذَا ۚ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

📘 خدا کے لیے بیٹے بیٹیاں ماننا خدا کو انسان کے اوپر قیاس کرنا ہے۔ انسان کمیوںاور محدودیتوں کا شکار ہے، اس لیے اس کو اولاد کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی تلافی کرے مگر خدا کے معاملہ میں یہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے۔ مخلوقات کانظام خود ہی اس قسم کے خالق کی تردید ہے۔ مخلوقات کا عالمی نظام جس خدا کی شہادت دے رہا ہے وہ یقینی طورپر ایک ایسا خدا ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ وہ ہر قسم کے عیبوں اور کمیوں سے پاک ہے۔ خدا اگر اپنی ذات میں کامل نہ ہوتا، اگر وہ عیبوں اور کمیوں والا خدا ہوتا تو کبھی وہ موجودہ کائنات جیسی کائنات کو نہیں بنا سکتا تھا اور نہ اس کو اس طرح چلا سکتا تھا جس طرح وہ انتہائی معیاری صورت میں چل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر جس خدائے واحد کا تصور پیش کررہا ہے اس کا وجود تو زمین وآسمان کی تمام نشانیوں سے ثابت ہے۔ مگر مشرکین نے خدا کا جو تصور بنا رکھا ہے، اس کا کوئی ثبوت موجودہ کائنات میں موجود نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ بے ثبوت خدا کو ماننا خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ جو خدا سرے سے موجود نہ ہو وہ کیسے کسی کی مدد پر آئے گا اور کیسے کسی کو بامراد کرے گا۔جو خدا حقیقی طورپر موجود ہے، مشرکین اس کو مانتے نہیں، اور جس خدا کو مانتے ہیں اس کا کہیں وجود نہیں۔ ایسی حالت میں مشرکین موجودہ کائنات میں کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے جو واحد انجام مقدر ہے وہ صرف یہ کہ بالآخر وہ بے بس اور بے سہارا ہو کر رہ جائیں اور ہمیشہ کے ليے ذلت وناکامی میں پڑے رہیں۔ موجودہ دنیا میں انکار یا شرک کا رویہ اختیار کرنے سے کسی کا کچھ بگڑتا نہیں۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑ جاتاہے۔ مگر یہ صورت حال صرف امتحان کی مہلت کی بنا پر ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو امتحان کی وجہ سے عمل کی آزادی دی گئی ہے۔ جیسے ہی امتحان کی مدت ختم ہوگی موجودہ صورت حال بھی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت آدمی دیکھے گا کہ اس کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے جس کا وہ اپنے آپ کو مالک سمجھ کر سرکش بنا ہوا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ اللہ نے عقل سے کہا ’’اے عقل، اس کائنات میں میں نے تجھ سے افضل ، تجھ سے حسین اور تجھ سے بہتر مخلوق پیدا نہیں کی‘‘۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1845) انسان کو ایسی عظیم نعمت دینے کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی عظیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک سچائی کا انکار سب سے بڑا جرم ہے۔ سچائی کو جب دلیل سے ثابت کردیا جائے تو آدمی کے اوپر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو مانے۔ عقلی طور پر ثابت شدہ ہوجانے کے بعد اگر وہ سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ خدانے جب انسان کو ایسی عقل دی جس سے وہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا جان سکے تو اس کے بعد کیا چیز ہوگی جو خداکے یہاں اس کے ليے عذر بن سکے۔

قُلْ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ

📘 خدا کے لیے بیٹے بیٹیاں ماننا خدا کو انسان کے اوپر قیاس کرنا ہے۔ انسان کمیوںاور محدودیتوں کا شکار ہے، اس لیے اس کو اولاد کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی تلافی کرے مگر خدا کے معاملہ میں یہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے۔ مخلوقات کانظام خود ہی اس قسم کے خالق کی تردید ہے۔ مخلوقات کا عالمی نظام جس خدا کی شہادت دے رہا ہے وہ یقینی طورپر ایک ایسا خدا ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ وہ ہر قسم کے عیبوں اور کمیوں سے پاک ہے۔ خدا اگر اپنی ذات میں کامل نہ ہوتا، اگر وہ عیبوں اور کمیوں والا خدا ہوتا تو کبھی وہ موجودہ کائنات جیسی کائنات کو نہیں بنا سکتا تھا اور نہ اس کو اس طرح چلا سکتا تھا جس طرح وہ انتہائی معیاری صورت میں چل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر جس خدائے واحد کا تصور پیش کررہا ہے اس کا وجود تو زمین وآسمان کی تمام نشانیوں سے ثابت ہے۔ مگر مشرکین نے خدا کا جو تصور بنا رکھا ہے، اس کا کوئی ثبوت موجودہ کائنات میں موجود نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ بے ثبوت خدا کو ماننا خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ جو خدا سرے سے موجود نہ ہو وہ کیسے کسی کی مدد پر آئے گا اور کیسے کسی کو بامراد کرے گا۔جو خدا حقیقی طورپر موجود ہے، مشرکین اس کو مانتے نہیں، اور جس خدا کو مانتے ہیں اس کا کہیں وجود نہیں۔ ایسی حالت میں مشرکین موجودہ کائنات میں کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے جو واحد انجام مقدر ہے وہ صرف یہ کہ بالآخر وہ بے بس اور بے سہارا ہو کر رہ جائیں اور ہمیشہ کے ليے ذلت وناکامی میں پڑے رہیں۔ موجودہ دنیا میں انکار یا شرک کا رویہ اختیار کرنے سے کسی کا کچھ بگڑتا نہیں۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑ جاتاہے۔ مگر یہ صورت حال صرف امتحان کی مہلت کی بنا پر ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو امتحان کی وجہ سے عمل کی آزادی دی گئی ہے۔ جیسے ہی امتحان کی مدت ختم ہوگی موجودہ صورت حال بھی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت آدمی دیکھے گا کہ اس کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے جس کا وہ اپنے آپ کو مالک سمجھ کر سرکش بنا ہوا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ اللہ نے عقل سے کہا ’’اے عقل، اس کائنات میں میں نے تجھ سے افضل ، تجھ سے حسین اور تجھ سے بہتر مخلوق پیدا نہیں کی‘‘۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1845) انسان کو ایسی عظیم نعمت دینے کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی عظیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک سچائی کا انکار سب سے بڑا جرم ہے۔ سچائی کو جب دلیل سے ثابت کردیا جائے تو آدمی کے اوپر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو مانے۔ عقلی طور پر ثابت شدہ ہوجانے کے بعد اگر وہ سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ خدانے جب انسان کو ایسی عقل دی جس سے وہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا جان سکے تو اس کے بعد کیا چیز ہوگی جو خداکے یہاں اس کے ليے عذر بن سکے۔

إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَنُّوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ آيَاتِنَا غَافِلُونَ

📘 جہنم کس کے لیے ہے — ان لوگوں کے لیے جو اس دن کو بھولے ہوئے ہوں جب کہ خدا سے ان کا سامنا ہوگا۔ جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی عارضی چیزوں پر راضی ہوگئے ہوں۔ جن کا یہ حال ہو کہ دنیا میںانھیں جو کچھ امتحان کے طورپر ملا ہے اسی پر وہ مطمئن ہوجائیں۔ جو غیر خدائی چیزوں میںاتنا دل لگالیں کہ خدا کی طرف سے ظاہر کی جانے والی حقیقتوں سے غافل ہوجائیں۔ یہ سب خدا کے نزدیک جہنمی راستوں میں چلنا ہے، اور جو لوگ جہنمی راستوں میں چل رہے ہوں وہ آخر کار جہنم کے سوا اور کہاں پہنچیں گے۔ ’’اللہ انھیں ان کے ایمان کی وجہ سے جنت کی منزل تک پہنچائے گا‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان آدمی کے لیے رہنمائی ہے۔ وہ آدمی کو غلط راہوں سے بچا کر صحیح راستہ پر چلاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو حقیقی منزل تک پہنچا دیتاہے۔ ایمان خدا کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو ایمان حاصل ہوجائے اس کو علم کا سرا ہاتھ آجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر معاملہ میں صحیح مقام سے اپنی سوچ کاآغاز کرسکے۔ وہ فکری بے راہ روی سے بچ کر فکری صحت کا مالک بن جائے۔ مزید یہ کہ خدا کو ماننا کسی کتابی فلسفہ کو ماننا نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ خدا کو ماننا ہے جو بالآخر تمام انسانوں کو اپنے یہاں جمع کرکے ان کا حساب لینے والا ہے۔ اس طرح ایمان آدمی کے اندر اپنے انجام کے بارے میں اندیشہ کی کیفیت پید کرکے اس کو انتہائی سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے کو مجبور پاتا ہے کہ اپنی تمام کارروائیوں کو صحیح اور غلط کی روشنی میں دیکھے اور صرف صحیح رخ پر چلے اور غلط رخ پر چلنے سے ہمیشہ پرہیز کرے۔ اس طرح ایمان آدمی کو صحیح فکر بھی دیتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ قوت تمیز بھی جو اس کے لیے مستقل عملی رہنما بن جائے۔ آخرت کی جنت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا ہو۔ آخرت خدا کے براہِ راست جلوؤں میں سرشار ہونے کا مقام ہے، وہاں بسنے کا موقع صرف ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں خداکے بالواسطہ جلوؤں سے سرشار ہوئے تھے۔ آخرت میں لوگوں کے دل ایک دوسرے کے لیے سلامتی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھرے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہاں کی آبادی میںوہی لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میں اس بات کا ثبوت دیا تھا کہ دوسروں کے لیے ان کے دل میں سلامتی اور خیر خواہی کے سوا کوئی دوسرا جذبہ نہیں۔

مَتَاعٌ فِي الدُّنْيَا ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ نُذِيقُهُمُ الْعَذَابَ الشَّدِيدَ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ

📘 خدا کے لیے بیٹے بیٹیاں ماننا خدا کو انسان کے اوپر قیاس کرنا ہے۔ انسان کمیوںاور محدودیتوں کا شکار ہے، اس لیے اس کو اولاد کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ذریعے وہ اپنی کمیوں اور محدودیتوں کی تلافی کرے مگر خدا کے معاملہ میں یہ قیاس بالکل بے بنیاد ہے۔ مخلوقات کانظام خود ہی اس قسم کے خالق کی تردید ہے۔ مخلوقات کا عالمی نظام جس خدا کی شہادت دے رہا ہے وہ یقینی طورپر ایک ایسا خدا ہے جو اپنی ذات میں آخری حد تک کامل ہے۔ وہ ہر قسم کے عیبوں اور کمیوں سے پاک ہے۔ خدا اگر اپنی ذات میں کامل نہ ہوتا، اگر وہ عیبوں اور کمیوں والا خدا ہوتا تو کبھی وہ موجودہ کائنات جیسی کائنات کو نہیں بنا سکتا تھا اور نہ اس کو اس طرح چلا سکتا تھا جس طرح وہ انتہائی معیاری صورت میں چل رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر جس خدائے واحد کا تصور پیش کررہا ہے اس کا وجود تو زمین وآسمان کی تمام نشانیوں سے ثابت ہے۔ مگر مشرکین نے خدا کا جو تصور بنا رکھا ہے، اس کا کوئی ثبوت موجودہ کائنات میں موجود نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ بے ثبوت خدا کو ماننا خود ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ جو خدا سرے سے موجود نہ ہو وہ کیسے کسی کی مدد پر آئے گا اور کیسے کسی کو بامراد کرے گا۔جو خدا حقیقی طورپر موجود ہے، مشرکین اس کو مانتے نہیں، اور جس خدا کو مانتے ہیں اس کا کہیں وجود نہیں۔ ایسی حالت میں مشرکین موجودہ کائنات میں کیوں کر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے جو واحد انجام مقدر ہے وہ صرف یہ کہ بالآخر وہ بے بس اور بے سہارا ہو کر رہ جائیں اور ہمیشہ کے ليے ذلت وناکامی میں پڑے رہیں۔ موجودہ دنیا میں انکار یا شرک کا رویہ اختیار کرنے سے کسی کا کچھ بگڑتا نہیں۔ اس سے آدمی غلط فہمی میں پڑ جاتاہے۔ مگر یہ صورت حال صرف امتحان کی مہلت کی بنا پر ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو امتحان کی وجہ سے عمل کی آزادی دی گئی ہے۔ جیسے ہی امتحان کی مدت ختم ہوگی موجودہ صورت حال بھی ختم ہوجائے گی۔ اس وقت آدمی دیکھے گا کہ اس کے پاس ان چیزوں میں سے کوئی چیز نہیں ہے جس کا وہ اپنے آپ کو مالک سمجھ کر سرکش بنا ہوا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ اللہ نے عقل سے کہا ’’اے عقل، اس کائنات میں میں نے تجھ سے افضل ، تجھ سے حسین اور تجھ سے بہتر مخلوق پیدا نہیں کی‘‘۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 1845) انسان کو ایسی عظیم نعمت دینے کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی ذمہ داری بھی عظیم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خدا کے نزدیک سچائی کا انکار سب سے بڑا جرم ہے۔ سچائی کو جب دلیل سے ثابت کردیا جائے تو آدمی کے اوپر لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو مانے۔ عقلی طور پر ثابت شدہ ہوجانے کے بعد اگر وہ سچائی کا انکار کرتاہے تو وہ ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کررہا ہے۔ خدانے جب انسان کو ایسی عقل دی جس سے وہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا جان سکے تو اس کے بعد کیا چیز ہوگی جو خداکے یہاں اس کے ليے عذر بن سکے۔

۞ وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقَامِي وَتَذْكِيرِي بِآيَاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أَمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَيَّ وَلَا تُنْظِرُونِ

📘 حضرت نوح قدیم ترین زمانہ کے رسول ہیں۔ وہ جب تک خاموش تھے، قوم ان کی عزت کرتی رہی۔ مگر جب آپ حق کے داعی بن کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بتانے لگے کہ ایسا کرو اور ویسا نہ کروتو وہ قوم کی نظر میں ایک ناپسندیدہ شخص بن گئے۔ یہاں تک کہ قوم نے اعلان کردیا کہ تم اپنی تبلیغ ونصیحت سے باز آؤ ورنہ ہم تم کو اپنی زمین میں نہیں رہنے دیں گے۔ حضرت نوح نے کہا کہ تم لوگ میرے معاملہ کو ایک انسان کا معاملہ سمجھتے ہو، اس لیے ایسا کہہ رہے ہو۔ مگر یہ معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مجھ سے لڑنے کے لیے تم کو خدا سے لڑنا پڑے گا۔ تم کو اگر یقین نہ ہو تو تم اس طرح تجربہ کرسکتے ہو کہ اپنے ساتھیوں اور شریکوں کو ملا کر میرے خلاف کوئی متفقہ منصوبہ بناؤ اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ اس کی تعمیل کر گزرو۔ تم دیکھو گے کہ میرے مقابلہ میں تمھارا ہر منصوبہ ناکام ہے۔ موجودہ دنیا میں داعی حق کی صداقت کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا کام پورا کرکے رہتاہے۔ کوئی بھی اس کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص خدا کی طرف سے حق کی دعوت لے کر اٹھے وہ ہمیشہ نشانی (دلیل) کے زور پر اٹھتا ہے۔ دلیل چونکہ ایک ذہنی چیز ہے اس لیے ظاہر پسند انسان اس کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ ذہنی طورپر لاجواب ہونے کے باوجود اس کے آگے جھکنے سے انکار کردیتا ہے۔ حق کے داعی کو جن آدابِ دعوت کا لازمی طورپر لحاظ کرنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو سے کسی بھی قسم کا معاشی اور مادی مطالبہ نہ کرے۔ خواہ اس یک طرفہ دست برداری کی وجہ سے اس کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان آخر وقت تک داعی اور مدعو کا تعلق باقی رہے، وہ کسی بھی حال میں قومی حریف اور مادی رقیب کا تعلق نہ بننے پائے۔ حضرت نوح نے جب اتمام حجت کی حد تک حق کا پیغام پہنچا دیا، پھر بھی ان کی قوم سرکشی پر قائم رہی تو سرکشوں کو سیلاب میں غرق کرکے زمین ان سے خالی کرا لی گئی اور مومنینِ نوح کو موقع دیاگیا کہ وہ زمین کے وارث بن کر اس پر آباد ہوں۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ’’خلافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیلاب سے پہلے قومِ نوح زمین کی خلیفہ بنی ہوئی تھی، سیلاب کے بعد مومنین نوح زمین کے خلیفہ قرار پائے۔

فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 حضرت نوح قدیم ترین زمانہ کے رسول ہیں۔ وہ جب تک خاموش تھے، قوم ان کی عزت کرتی رہی۔ مگر جب آپ حق کے داعی بن کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بتانے لگے کہ ایسا کرو اور ویسا نہ کروتو وہ قوم کی نظر میں ایک ناپسندیدہ شخص بن گئے۔ یہاں تک کہ قوم نے اعلان کردیا کہ تم اپنی تبلیغ ونصیحت سے باز آؤ ورنہ ہم تم کو اپنی زمین میں نہیں رہنے دیں گے۔ حضرت نوح نے کہا کہ تم لوگ میرے معاملہ کو ایک انسان کا معاملہ سمجھتے ہو، اس لیے ایسا کہہ رہے ہو۔ مگر یہ معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مجھ سے لڑنے کے لیے تم کو خدا سے لڑنا پڑے گا۔ تم کو اگر یقین نہ ہو تو تم اس طرح تجربہ کرسکتے ہو کہ اپنے ساتھیوں اور شریکوں کو ملا کر میرے خلاف کوئی متفقہ منصوبہ بناؤ اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ اس کی تعمیل کر گزرو۔ تم دیکھو گے کہ میرے مقابلہ میں تمھارا ہر منصوبہ ناکام ہے۔ موجودہ دنیا میں داعی حق کی صداقت کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا کام پورا کرکے رہتاہے۔ کوئی بھی اس کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص خدا کی طرف سے حق کی دعوت لے کر اٹھے وہ ہمیشہ نشانی (دلیل) کے زور پر اٹھتا ہے۔ دلیل چونکہ ایک ذہنی چیز ہے اس لیے ظاہر پسند انسان اس کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ ذہنی طورپر لاجواب ہونے کے باوجود اس کے آگے جھکنے سے انکار کردیتا ہے۔ حق کے داعی کو جن آدابِ دعوت کا لازمی طورپر لحاظ کرنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو سے کسی بھی قسم کا معاشی اور مادی مطالبہ نہ کرے۔ خواہ اس یک طرفہ دست برداری کی وجہ سے اس کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان آخر وقت تک داعی اور مدعو کا تعلق باقی رہے، وہ کسی بھی حال میں قومی حریف اور مادی رقیب کا تعلق نہ بننے پائے۔ حضرت نوح نے جب اتمام حجت کی حد تک حق کا پیغام پہنچا دیا، پھر بھی ان کی قوم سرکشی پر قائم رہی تو سرکشوں کو سیلاب میں غرق کرکے زمین ان سے خالی کرا لی گئی اور مومنینِ نوح کو موقع دیاگیا کہ وہ زمین کے وارث بن کر اس پر آباد ہوں۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ’’خلافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیلاب سے پہلے قومِ نوح زمین کی خلیفہ بنی ہوئی تھی، سیلاب کے بعد مومنین نوح زمین کے خلیفہ قرار پائے۔

فَكَذَّبُوهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَأَغْرَقْنَا الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۖ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِينَ

📘 حضرت نوح قدیم ترین زمانہ کے رسول ہیں۔ وہ جب تک خاموش تھے، قوم ان کی عزت کرتی رہی۔ مگر جب آپ حق کے داعی بن کر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو بتانے لگے کہ ایسا کرو اور ویسا نہ کروتو وہ قوم کی نظر میں ایک ناپسندیدہ شخص بن گئے۔ یہاں تک کہ قوم نے اعلان کردیا کہ تم اپنی تبلیغ ونصیحت سے باز آؤ ورنہ ہم تم کو اپنی زمین میں نہیں رہنے دیں گے۔ حضرت نوح نے کہا کہ تم لوگ میرے معاملہ کو ایک انسان کا معاملہ سمجھتے ہو، اس لیے ایسا کہہ رہے ہو۔ مگر یہ معاملہ خدا کا معاملہ ہے۔ مجھ سے لڑنے کے لیے تم کو خدا سے لڑنا پڑے گا۔ تم کو اگر یقین نہ ہو تو تم اس طرح تجربہ کرسکتے ہو کہ اپنے ساتھیوں اور شریکوں کو ملا کر میرے خلاف کوئی متفقہ منصوبہ بناؤ اور اپنی تمام طاقت کے ساتھ اس کی تعمیل کر گزرو۔ تم دیکھو گے کہ میرے مقابلہ میں تمھارا ہر منصوبہ ناکام ہے۔ موجودہ دنیا میں داعی حق کی صداقت کو جانچنے کا معیار یہ ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا کام پورا کرکے رہتاہے۔ کوئی بھی اس کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ جو شخص خدا کی طرف سے حق کی دعوت لے کر اٹھے وہ ہمیشہ نشانی (دلیل) کے زور پر اٹھتا ہے۔ دلیل چونکہ ایک ذہنی چیز ہے اس لیے ظاہر پسند انسان اس کی عظمت کو سمجھ نہیں پاتا۔ وہ ذہنی طورپر لاجواب ہونے کے باوجود اس کے آگے جھکنے سے انکار کردیتا ہے۔ حق کے داعی کو جن آدابِ دعوت کا لازمی طورپر لحاظ کرنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو سے کسی بھی قسم کا معاشی اور مادی مطالبہ نہ کرے۔ خواہ اس یک طرفہ دست برداری کی وجہ سے اس کو کتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان آخر وقت تک داعی اور مدعو کا تعلق باقی رہے، وہ کسی بھی حال میں قومی حریف اور مادی رقیب کا تعلق نہ بننے پائے۔ حضرت نوح نے جب اتمام حجت کی حد تک حق کا پیغام پہنچا دیا، پھر بھی ان کی قوم سرکشی پر قائم رہی تو سرکشوں کو سیلاب میں غرق کرکے زمین ان سے خالی کرا لی گئی اور مومنینِ نوح کو موقع دیاگیا کہ وہ زمین کے وارث بن کر اس پر آباد ہوں۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں ’’خلافت‘‘ کہا جاتا ہے۔ سیلاب سے پہلے قومِ نوح زمین کی خلیفہ بنی ہوئی تھی، سیلاب کے بعد مومنین نوح زمین کے خلیفہ قرار پائے۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَاءُوهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ نَطْبَعُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْمُعْتَدِينَ

📘 اِس آیت میں ’’حد سے گزر جانے والا‘‘ان لوگوں کو کہاگیا ہے جن کا حال یہ ہوتا ہے کہ ایک بار اگر وہ حق کا انکار کردیں تو اس کے بعد وہ اس کو اپنی ساکھ کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پھر اس کو مسلسل نظر انداز کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں ان کا علم دین اور ان کا برسر حق ہونا مشتبہ نہ ہونے پائے۔ جو لوگ اس قسم کا رویہ اختیار کریں ان کو دنیا میں یہ سزا ملتی ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے۔ یعنی خدا کے قانون کے تحت ان کی نفسیات دھیرے دھیرے ایسی بن جاتی ہے کہ بالآخر حق کے معاملہ میں ان کا شدتِ احساس باقی نہیں رہتا۔ ابتداء ً ان کے اندر جو تھوڑی سی حساسیت زندہ تھی وہ بھی بالآخر مردہ ہوکر رہ جاتی ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتے کہ حق اور ناحق کے معاملے میں تڑپیں اور ناحق کو چھوڑ کر حق کو قبول کرلیں۔ حضرت نوح اور ان کے بعد آنے والے بیشتر رسولوں کی تاریخ اس کی تصدیق کرتی ہے۔ اللہ کی طرف سے جب بھی کوئی داعیٔ حق آتاہے تو وہ اس حال میں آتاہے کہ اس کے گرد کسی قسم کی ظاہری عظمت نہیں ہوتی۔ اس کے پاس جو واحد چیز ہوتی ہے وہ صرف دلیل ہے۔ جو لوگ دلیل کی زبان میں حق کو مانیں وہی داعیٔ حق کو مانتے ہیں۔ جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ دلیل کی زبان انھیں متاثر نہ کرسکے وہ داعیٔ حق کو پہچاننے سے بھی محروم رہتے ہیں اور اس کا ساتھ دینے سے بھی۔

ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَىٰ وَهَارُونَ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآيَاتِنَا فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ

📘 فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت کی بناپر موسیٰ اور ہارون کی بات نہیں مانی۔ وہ چیزوں کو دلیل کے معیار سے دیکھنے کے بجائے جاہ واقتدار کے معیار سے دیکھتے تھے۔اس خود ساختہ معیار کے نام پر انھوں نے اپنے کو اونچا اور موسیٰ و ہارون کو نیچا سمجھ لیا۔ ان کی یہ نفسیات ان کے لیے اس حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن گئی، جو ان کے نزدیک ایک چھوٹا آدمی ان کے سامنے پیش کررہا تھا۔ حضرت موسیٰ کے استدلال کی زبان جب فرعون کی سمجھ میں نہیں آئی تو آپ نے عصا اور ید ِ بیضا کے معجزات دکھائے ان معجزات کا توڑ فرعون کے پاس نہ تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں اپنی شکست کو ایک جھوٹی توجیہہ میں چھپانے کی کوشش کی۔ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ موسیٰ کامعاملہ حق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جادو کا معاملہ ہے، یہ صحیح ہے کہ جادو اور معجزہ میں کچھ ظاہری مشابہت ہوتی ہے۔ مگر بہت جلد معلوم ہوجاتاہے کہ جادو محض شعبدہ اور کرشمہ تھا۔ اس کے مقابلہ میں معجزہ کو مستقل کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جادو بالآخر جادو ثابت ہوتاہے اور معجزہ بالآخر معجزہ۔ اس موقع پر فرعون نے لوگوں کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے پھیرنے کے لیے دو اور باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ موسیٰ ہم کو ہمارے آبا ئی دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ فرعون کو چاہیے تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے پیغام کو حق اور ناحق کی اصطلاح میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ مگر اس نے اس کو آبائی اور غیر آبائی معیار سے جانچا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حق اور ناحق کے معیار سے دیکھنے میں اپنے آپ کو غلط ماننا پڑتا۔ جب کہ آبائی اور غیر آبائی کی تقسیم میں اپنی روش پر بدستور موجود رہنے کا جواز مل رہا تھا۔ فرعون نے دوسری بات یہ کہی کہ ’’موسیٰ اورہارون اس ملک میں اپنی کبریائی قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘ یہ بھی عوام کو بھڑکانے کے ليے محض ایک سیاسی شوشہ تھا، کیوں کہ حضرت موسیٰ نے تو اول مرحلہ میں فرعون کے سامنے یہ بات رکھ دی تھی کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ فرعون کو خدا کا پیغام پہنچائیں اور اس کے بعد بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں چلے جائیں۔ ایسی حالت میں یہ الزام سراسر خلاف واقعہ تھا کہ وہ مصر کي حکومت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

فَلَمَّا جَاءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا إِنَّ هَٰذَا لَسِحْرٌ مُبِينٌ

📘 فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت کی بناپر موسیٰ اور ہارون کی بات نہیں مانی۔ وہ چیزوں کو دلیل کے معیار سے دیکھنے کے بجائے جاہ واقتدار کے معیار سے دیکھتے تھے۔اس خود ساختہ معیار کے نام پر انھوں نے اپنے کو اونچا اور موسیٰ و ہارون کو نیچا سمجھ لیا۔ ان کی یہ نفسیات ان کے لیے اس حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن گئی، جو ان کے نزدیک ایک چھوٹا آدمی ان کے سامنے پیش کررہا تھا۔ حضرت موسیٰ کے استدلال کی زبان جب فرعون کی سمجھ میں نہیں آئی تو آپ نے عصا اور ید ِ بیضا کے معجزات دکھائے ان معجزات کا توڑ فرعون کے پاس نہ تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں اپنی شکست کو ایک جھوٹی توجیہہ میں چھپانے کی کوشش کی۔ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ موسیٰ کامعاملہ حق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جادو کا معاملہ ہے، یہ صحیح ہے کہ جادو اور معجزہ میں کچھ ظاہری مشابہت ہوتی ہے۔ مگر بہت جلد معلوم ہوجاتاہے کہ جادو محض شعبدہ اور کرشمہ تھا۔ اس کے مقابلہ میں معجزہ کو مستقل کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جادو بالآخر جادو ثابت ہوتاہے اور معجزہ بالآخر معجزہ۔ اس موقع پر فرعون نے لوگوں کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے پھیرنے کے لیے دو اور باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ موسیٰ ہم کو ہمارے آبا ئی دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ فرعون کو چاہیے تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے پیغام کو حق اور ناحق کی اصطلاح میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ مگر اس نے اس کو آبائی اور غیر آبائی معیار سے جانچا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حق اور ناحق کے معیار سے دیکھنے میں اپنے آپ کو غلط ماننا پڑتا۔ جب کہ آبائی اور غیر آبائی کی تقسیم میں اپنی روش پر بدستور موجود رہنے کا جواز مل رہا تھا۔ فرعون نے دوسری بات یہ کہی کہ ’’موسیٰ اورہارون اس ملک میں اپنی کبریائی قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘ یہ بھی عوام کو بھڑکانے کے ليے محض ایک سیاسی شوشہ تھا، کیوں کہ حضرت موسیٰ نے تو اول مرحلہ میں فرعون کے سامنے یہ بات رکھ دی تھی کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ فرعون کو خدا کا پیغام پہنچائیں اور اس کے بعد بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں چلے جائیں۔ ایسی حالت میں یہ الزام سراسر خلاف واقعہ تھا کہ وہ مصر کي حکومت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

قَالَ مُوسَىٰ أَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَاءَكُمْ ۖ أَسِحْرٌ هَٰذَا وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُونَ

📘 فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت کی بناپر موسیٰ اور ہارون کی بات نہیں مانی۔ وہ چیزوں کو دلیل کے معیار سے دیکھنے کے بجائے جاہ واقتدار کے معیار سے دیکھتے تھے۔اس خود ساختہ معیار کے نام پر انھوں نے اپنے کو اونچا اور موسیٰ و ہارون کو نیچا سمجھ لیا۔ ان کی یہ نفسیات ان کے لیے اس حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن گئی، جو ان کے نزدیک ایک چھوٹا آدمی ان کے سامنے پیش کررہا تھا۔ حضرت موسیٰ کے استدلال کی زبان جب فرعون کی سمجھ میں نہیں آئی تو آپ نے عصا اور ید ِ بیضا کے معجزات دکھائے ان معجزات کا توڑ فرعون کے پاس نہ تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں اپنی شکست کو ایک جھوٹی توجیہہ میں چھپانے کی کوشش کی۔ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ موسیٰ کامعاملہ حق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جادو کا معاملہ ہے، یہ صحیح ہے کہ جادو اور معجزہ میں کچھ ظاہری مشابہت ہوتی ہے۔ مگر بہت جلد معلوم ہوجاتاہے کہ جادو محض شعبدہ اور کرشمہ تھا۔ اس کے مقابلہ میں معجزہ کو مستقل کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جادو بالآخر جادو ثابت ہوتاہے اور معجزہ بالآخر معجزہ۔ اس موقع پر فرعون نے لوگوں کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے پھیرنے کے لیے دو اور باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ موسیٰ ہم کو ہمارے آبا ئی دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ فرعون کو چاہیے تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے پیغام کو حق اور ناحق کی اصطلاح میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ مگر اس نے اس کو آبائی اور غیر آبائی معیار سے جانچا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حق اور ناحق کے معیار سے دیکھنے میں اپنے آپ کو غلط ماننا پڑتا۔ جب کہ آبائی اور غیر آبائی کی تقسیم میں اپنی روش پر بدستور موجود رہنے کا جواز مل رہا تھا۔ فرعون نے دوسری بات یہ کہی کہ ’’موسیٰ اورہارون اس ملک میں اپنی کبریائی قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘ یہ بھی عوام کو بھڑکانے کے ليے محض ایک سیاسی شوشہ تھا، کیوں کہ حضرت موسیٰ نے تو اول مرحلہ میں فرعون کے سامنے یہ بات رکھ دی تھی کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ فرعون کو خدا کا پیغام پہنچائیں اور اس کے بعد بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں چلے جائیں۔ ایسی حالت میں یہ الزام سراسر خلاف واقعہ تھا کہ وہ مصر کي حکومت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاءُ فِي الْأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِينَ

📘 فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں نے اپنی مجرمانہ ذہنیت کی بناپر موسیٰ اور ہارون کی بات نہیں مانی۔ وہ چیزوں کو دلیل کے معیار سے دیکھنے کے بجائے جاہ واقتدار کے معیار سے دیکھتے تھے۔اس خود ساختہ معیار کے نام پر انھوں نے اپنے کو اونچا اور موسیٰ و ہارون کو نیچا سمجھ لیا۔ ان کی یہ نفسیات ان کے لیے اس حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بن گئی، جو ان کے نزدیک ایک چھوٹا آدمی ان کے سامنے پیش کررہا تھا۔ حضرت موسیٰ کے استدلال کی زبان جب فرعون کی سمجھ میں نہیں آئی تو آپ نے عصا اور ید ِ بیضا کے معجزات دکھائے ان معجزات کا توڑ فرعون کے پاس نہ تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ یہ جادو ہے۔ اس طرح فرعون نے حضرت موسیٰ کے مقابلہ میں اپنی شکست کو ایک جھوٹی توجیہہ میں چھپانے کی کوشش کی۔ اس نے لوگوں کو یہ تاثر دیا کہ موسیٰ کامعاملہ حق کا معاملہ نہیں ہے بلکہ جادو کا معاملہ ہے، یہ صحیح ہے کہ جادو اور معجزہ میں کچھ ظاہری مشابہت ہوتی ہے۔ مگر بہت جلد معلوم ہوجاتاہے کہ جادو محض شعبدہ اور کرشمہ تھا۔ اس کے مقابلہ میں معجزہ کو مستقل کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ جادو بالآخر جادو ثابت ہوتاہے اور معجزہ بالآخر معجزہ۔ اس موقع پر فرعون نے لوگوں کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے پھیرنے کے لیے دو اور باتیں کہیں۔ ایک یہ کہ موسیٰ ہم کو ہمارے آبا ئی دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں۔ فرعون کو چاہیے تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے پیغام کو حق اور ناحق کی اصطلاح میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ مگر اس نے اس کو آبائی اور غیر آبائی معیار سے جانچا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حق اور ناحق کے معیار سے دیکھنے میں اپنے آپ کو غلط ماننا پڑتا۔ جب کہ آبائی اور غیر آبائی کی تقسیم میں اپنی روش پر بدستور موجود رہنے کا جواز مل رہا تھا۔ فرعون نے دوسری بات یہ کہی کہ ’’موسیٰ اورہارون اس ملک میں اپنی کبریائی قائم کرنا چاہتے ہیں‘‘ یہ بھی عوام کو بھڑکانے کے ليے محض ایک سیاسی شوشہ تھا، کیوں کہ حضرت موسیٰ نے تو اول مرحلہ میں فرعون کے سامنے یہ بات رکھ دی تھی کہ ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ فرعون کو خدا کا پیغام پہنچائیں اور اس کے بعد بنی اسرائیل کے ساتھ مصر سے نکل کر صحرائے سینا میں چلے جائیں۔ ایسی حالت میں یہ الزام سراسر خلاف واقعہ تھا کہ وہ مصر کي حکومت پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِي بِكُلِّ سَاحِرٍ عَلِيمٍ

📘 فرعون کا ماہر جادو گروں کو بلانا اس لیے نہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جادو گروںکے ذریعہ وہ حضرت موسیٰ کو زیرکرلے گا۔ یہ کسی عقلی فیصلہ سے زیادہ فرعون کی اس بڑھی ہوئی خواہش کا نتیجہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کو نہ مانے۔ خدا کے پیغمبر کو جادوگروں کے ذریعہ غلط ثابت کرنے کا منصوبہ ایک ایسامنصوبہ تھا جس کا ناکام ہونا پہلے سے معلوم تھا۔ مگر آدمی جب کسی حقیقت کو نہ ماننا چاہے تو اس کی یہ خواہش اس کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ احمقانہ تدبیروں سے اس کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کرتاہے ۔ وہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کا بند باندھتا ہے حالاں کہ وہ خود جان رہا ہوتا ہے کہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جادو گروں نے میدان میں رسّیاں اور لکڑیاں پھینکیں جو دیکھنے والوں کو رینگتے ہوئے سانپ کی صورت میں دکھائی دیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ کا یہ ’’سانپ‘‘ محض سانپ نہ تھا، وہ دراصل خدا کی ایک طاقت تھی جو اس ليے ظاہر ہوئی تھی کہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردے۔ چنانچہ اس کے سامنے آتے ہی جادو گروں کی رسّی، رسّی رہ گئی اور ان کی لکڑی لکڑی۔ یہ خود اپنے منتخب كيے ہوئے میدان میں فرعون کی شکست تھی۔ مگر اب بھی فرعون نے شکست نہ مانی۔ اب اس نے حضرت موسیٰ کی تردید کے ليے کچھ اور الفاظ تلاش کرليے جس طرح اس کو پہلے مرحلہ میں آپ کی تردید کے لیے کچھ الفاظ مل گئے تھے۔

أُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 جہنم کس کے لیے ہے — ان لوگوں کے لیے جو اس دن کو بھولے ہوئے ہوں جب کہ خدا سے ان کا سامنا ہوگا۔ جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی عارضی چیزوں پر راضی ہوگئے ہوں۔ جن کا یہ حال ہو کہ دنیا میںانھیں جو کچھ امتحان کے طورپر ملا ہے اسی پر وہ مطمئن ہوجائیں۔ جو غیر خدائی چیزوں میںاتنا دل لگالیں کہ خدا کی طرف سے ظاہر کی جانے والی حقیقتوں سے غافل ہوجائیں۔ یہ سب خدا کے نزدیک جہنمی راستوں میں چلنا ہے، اور جو لوگ جہنمی راستوں میں چل رہے ہوں وہ آخر کار جہنم کے سوا اور کہاں پہنچیں گے۔ ’’اللہ انھیں ان کے ایمان کی وجہ سے جنت کی منزل تک پہنچائے گا‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان آدمی کے لیے رہنمائی ہے۔ وہ آدمی کو غلط راہوں سے بچا کر صحیح راستہ پر چلاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو حقیقی منزل تک پہنچا دیتاہے۔ ایمان خدا کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو ایمان حاصل ہوجائے اس کو علم کا سرا ہاتھ آجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر معاملہ میں صحیح مقام سے اپنی سوچ کاآغاز کرسکے۔ وہ فکری بے راہ روی سے بچ کر فکری صحت کا مالک بن جائے۔ مزید یہ کہ خدا کو ماننا کسی کتابی فلسفہ کو ماننا نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ خدا کو ماننا ہے جو بالآخر تمام انسانوں کو اپنے یہاں جمع کرکے ان کا حساب لینے والا ہے۔ اس طرح ایمان آدمی کے اندر اپنے انجام کے بارے میں اندیشہ کی کیفیت پید کرکے اس کو انتہائی سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے کو مجبور پاتا ہے کہ اپنی تمام کارروائیوں کو صحیح اور غلط کی روشنی میں دیکھے اور صرف صحیح رخ پر چلے اور غلط رخ پر چلنے سے ہمیشہ پرہیز کرے۔ اس طرح ایمان آدمی کو صحیح فکر بھی دیتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ قوت تمیز بھی جو اس کے لیے مستقل عملی رہنما بن جائے۔ آخرت کی جنت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا ہو۔ آخرت خدا کے براہِ راست جلوؤں میں سرشار ہونے کا مقام ہے، وہاں بسنے کا موقع صرف ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں خداکے بالواسطہ جلوؤں سے سرشار ہوئے تھے۔ آخرت میں لوگوں کے دل ایک دوسرے کے لیے سلامتی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھرے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہاں کی آبادی میںوہی لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میں اس بات کا ثبوت دیا تھا کہ دوسروں کے لیے ان کے دل میں سلامتی اور خیر خواہی کے سوا کوئی دوسرا جذبہ نہیں۔

فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُوسَىٰ أَلْقُوا مَا أَنْتُمْ مُلْقُونَ

📘 فرعون کا ماہر جادو گروں کو بلانا اس لیے نہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جادو گروںکے ذریعہ وہ حضرت موسیٰ کو زیرکرلے گا۔ یہ کسی عقلی فیصلہ سے زیادہ فرعون کی اس بڑھی ہوئی خواہش کا نتیجہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کو نہ مانے۔ خدا کے پیغمبر کو جادوگروں کے ذریعہ غلط ثابت کرنے کا منصوبہ ایک ایسامنصوبہ تھا جس کا ناکام ہونا پہلے سے معلوم تھا۔ مگر آدمی جب کسی حقیقت کو نہ ماننا چاہے تو اس کی یہ خواہش اس کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ احمقانہ تدبیروں سے اس کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کرتاہے ۔ وہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کا بند باندھتا ہے حالاں کہ وہ خود جان رہا ہوتا ہے کہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جادو گروں نے میدان میں رسّیاں اور لکڑیاں پھینکیں جو دیکھنے والوں کو رینگتے ہوئے سانپ کی صورت میں دکھائی دیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ کا یہ ’’سانپ‘‘ محض سانپ نہ تھا، وہ دراصل خدا کی ایک طاقت تھی جو اس ليے ظاہر ہوئی تھی کہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردے۔ چنانچہ اس کے سامنے آتے ہی جادو گروں کی رسّی، رسّی رہ گئی اور ان کی لکڑی لکڑی۔ یہ خود اپنے منتخب كيے ہوئے میدان میں فرعون کی شکست تھی۔ مگر اب بھی فرعون نے شکست نہ مانی۔ اب اس نے حضرت موسیٰ کی تردید کے ليے کچھ اور الفاظ تلاش کرليے جس طرح اس کو پہلے مرحلہ میں آپ کی تردید کے لیے کچھ الفاظ مل گئے تھے۔

فَلَمَّا أَلْقَوْا قَالَ مُوسَىٰ مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ ۖ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ

📘 فرعون کا ماہر جادو گروں کو بلانا اس لیے نہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جادو گروںکے ذریعہ وہ حضرت موسیٰ کو زیرکرلے گا۔ یہ کسی عقلی فیصلہ سے زیادہ فرعون کی اس بڑھی ہوئی خواہش کا نتیجہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کو نہ مانے۔ خدا کے پیغمبر کو جادوگروں کے ذریعہ غلط ثابت کرنے کا منصوبہ ایک ایسامنصوبہ تھا جس کا ناکام ہونا پہلے سے معلوم تھا۔ مگر آدمی جب کسی حقیقت کو نہ ماننا چاہے تو اس کی یہ خواہش اس کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ احمقانہ تدبیروں سے اس کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کرتاہے ۔ وہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کا بند باندھتا ہے حالاں کہ وہ خود جان رہا ہوتا ہے کہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جادو گروں نے میدان میں رسّیاں اور لکڑیاں پھینکیں جو دیکھنے والوں کو رینگتے ہوئے سانپ کی صورت میں دکھائی دیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ کا یہ ’’سانپ‘‘ محض سانپ نہ تھا، وہ دراصل خدا کی ایک طاقت تھی جو اس ليے ظاہر ہوئی تھی کہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردے۔ چنانچہ اس کے سامنے آتے ہی جادو گروں کی رسّی، رسّی رہ گئی اور ان کی لکڑی لکڑی۔ یہ خود اپنے منتخب كيے ہوئے میدان میں فرعون کی شکست تھی۔ مگر اب بھی فرعون نے شکست نہ مانی۔ اب اس نے حضرت موسیٰ کی تردید کے ليے کچھ اور الفاظ تلاش کرليے جس طرح اس کو پہلے مرحلہ میں آپ کی تردید کے لیے کچھ الفاظ مل گئے تھے۔

وَيُحِقُّ اللَّهُ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ

📘 فرعون کا ماہر جادو گروں کو بلانا اس لیے نہ تھا کہ وہ سمجھتا تھا کہ جادو گروںکے ذریعہ وہ حضرت موسیٰ کو زیرکرلے گا۔ یہ کسی عقلی فیصلہ سے زیادہ فرعون کی اس بڑھی ہوئی خواہش کا نتیجہ تھا کہ وہ حضرت موسیٰ کو نہ مانے۔ خدا کے پیغمبر کو جادوگروں کے ذریعہ غلط ثابت کرنے کا منصوبہ ایک ایسامنصوبہ تھا جس کا ناکام ہونا پہلے سے معلوم تھا۔ مگر آدمی جب کسی حقیقت کو نہ ماننا چاہے تو اس کی یہ خواہش اس کو یہاں تک لے جاتی ہے کہ وہ احمقانہ تدبیروں سے اس کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کرتاہے ۔ وہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کا بند باندھتا ہے حالاں کہ وہ خود جان رہا ہوتا ہے کہ سیلاب کے مقابلہ میں تنکوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ چنانچہ وہی ہوا جو ہونا تھا۔ جادو گروں نے میدان میں رسّیاں اور لکڑیاں پھینکیں جو دیکھنے والوں کو رینگتے ہوئے سانپ کی صورت میں دکھائی دیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنا عصا ڈالا تو وہ بہت بڑا سانپ بن کر میدان میں دوڑنے لگا۔ حضرت موسیٰ کا یہ ’’سانپ‘‘ محض سانپ نہ تھا، وہ دراصل خدا کی ایک طاقت تھی جو اس ليے ظاہر ہوئی تھی کہ حق کو حق اور باطل کو باطل ثابت کردے۔ چنانچہ اس کے سامنے آتے ہی جادو گروں کی رسّی، رسّی رہ گئی اور ان کی لکڑی لکڑی۔ یہ خود اپنے منتخب كيے ہوئے میدان میں فرعون کی شکست تھی۔ مگر اب بھی فرعون نے شکست نہ مانی۔ اب اس نے حضرت موسیٰ کی تردید کے ليے کچھ اور الفاظ تلاش کرليے جس طرح اس کو پہلے مرحلہ میں آپ کی تردید کے لیے کچھ الفاظ مل گئے تھے۔

فَمَا آمَنَ لِمُوسَىٰ إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ عَلَىٰ خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِمْ أَنْ يَفْتِنَهُمْ ۚ وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ

📘 نئے فکر کو قبول کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے معاشرہ میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ اکثر کسی نئے فکر کو قبول کرنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ مختلف وجوہ سے زیادہ عمر کے لوگوں پر مصلحت کا غلبہ ہوجاتاہے۔ وہ نئے فکر کی صحت کو ماننے کے باوجود آگے بڑھ کر اس کا ساتھ نہیںدے پاتے۔ مگر نوجوان طبقہ عام طورپر اس قسم کی مصلحتوں سے خالی ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیشہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ کسی نئی اور انقلابی دعوت کو قبول کرنے میں وہی لوگ زیادہ آگے بڑھے جو ابھی زیادہ عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی صورتِ حال حضرت موسیٰ کے ساتھ پیش آئی۔ حضرت موسیٰ کا ساتھ دینے والے نوجوان کو ایک طرف فرعون کا خطرہ تھا۔ دوسری طرف خود اپنی قوم کے بڑوں کی طرف سے ان کو حوصلہ افزائی نہیں ملی۔ یہ بڑے اگر چہ حضرت موسیٰ کی نبوت کو مانتے تھے مگر اپنی مصلحت اندیشی کی بناپروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں پُرجوش طورپر حضرت موسی کا ساتھ دیں اور اس کے نتیجہ میں وہ فرعون کے ظلم کا شکار بنیں۔ مگر اس قسم کی صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ آدمی مخالفین حق کے ڈر سے خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ انسانی مخالفتوں کے مقابلہ میں خدائی نصرتوں پر نظر رکھے، وہ خدا کے بھروسہ پر اس حق کا ساتھ دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو جس کا ساتھ دینے کے لیے ذاتی طور پر وہ اپنے آپ کو عاجز پارہا تھا۔

وَقَالَ مُوسَىٰ يَا قَوْمِ إِنْ كُنْتُمْ آمَنْتُمْ بِاللَّهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُسْلِمِينَ

📘 نئے فکر کو قبول کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے معاشرہ میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ اکثر کسی نئے فکر کو قبول کرنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ مختلف وجوہ سے زیادہ عمر کے لوگوں پر مصلحت کا غلبہ ہوجاتاہے۔ وہ نئے فکر کی صحت کو ماننے کے باوجود آگے بڑھ کر اس کا ساتھ نہیںدے پاتے۔ مگر نوجوان طبقہ عام طورپر اس قسم کی مصلحتوں سے خالی ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیشہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ کسی نئی اور انقلابی دعوت کو قبول کرنے میں وہی لوگ زیادہ آگے بڑھے جو ابھی زیادہ عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی صورتِ حال حضرت موسیٰ کے ساتھ پیش آئی۔ حضرت موسیٰ کا ساتھ دینے والے نوجوان کو ایک طرف فرعون کا خطرہ تھا۔ دوسری طرف خود اپنی قوم کے بڑوں کی طرف سے ان کو حوصلہ افزائی نہیں ملی۔ یہ بڑے اگر چہ حضرت موسیٰ کی نبوت کو مانتے تھے مگر اپنی مصلحت اندیشی کی بناپروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں پُرجوش طورپر حضرت موسی کا ساتھ دیں اور اس کے نتیجہ میں وہ فرعون کے ظلم کا شکار بنیں۔ مگر اس قسم کی صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ آدمی مخالفین حق کے ڈر سے خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ انسانی مخالفتوں کے مقابلہ میں خدائی نصرتوں پر نظر رکھے، وہ خدا کے بھروسہ پر اس حق کا ساتھ دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو جس کا ساتھ دینے کے لیے ذاتی طور پر وہ اپنے آپ کو عاجز پارہا تھا۔

فَقَالُوا عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

📘 نئے فکر کو قبول کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے معاشرہ میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ اکثر کسی نئے فکر کو قبول کرنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ مختلف وجوہ سے زیادہ عمر کے لوگوں پر مصلحت کا غلبہ ہوجاتاہے۔ وہ نئے فکر کی صحت کو ماننے کے باوجود آگے بڑھ کر اس کا ساتھ نہیںدے پاتے۔ مگر نوجوان طبقہ عام طورپر اس قسم کی مصلحتوں سے خالی ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیشہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ کسی نئی اور انقلابی دعوت کو قبول کرنے میں وہی لوگ زیادہ آگے بڑھے جو ابھی زیادہ عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی صورتِ حال حضرت موسیٰ کے ساتھ پیش آئی۔ حضرت موسیٰ کا ساتھ دینے والے نوجوان کو ایک طرف فرعون کا خطرہ تھا۔ دوسری طرف خود اپنی قوم کے بڑوں کی طرف سے ان کو حوصلہ افزائی نہیں ملی۔ یہ بڑے اگر چہ حضرت موسیٰ کی نبوت کو مانتے تھے مگر اپنی مصلحت اندیشی کی بناپروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں پُرجوش طورپر حضرت موسی کا ساتھ دیں اور اس کے نتیجہ میں وہ فرعون کے ظلم کا شکار بنیں۔ مگر اس قسم کی صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ آدمی مخالفین حق کے ڈر سے خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ انسانی مخالفتوں کے مقابلہ میں خدائی نصرتوں پر نظر رکھے، وہ خدا کے بھروسہ پر اس حق کا ساتھ دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو جس کا ساتھ دینے کے لیے ذاتی طور پر وہ اپنے آپ کو عاجز پارہا تھا۔

وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ

📘 نئے فکر کو قبول کرنا ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنے معاشرہ میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ عمر کے لوگ اکثر کسی نئے فکر کو قبول کرنے میں محتاط ہوتے ہیں۔ مختلف وجوہ سے زیادہ عمر کے لوگوں پر مصلحت کا غلبہ ہوجاتاہے۔ وہ نئے فکر کی صحت کو ماننے کے باوجود آگے بڑھ کر اس کا ساتھ نہیںدے پاتے۔ مگر نوجوان طبقہ عام طورپر اس قسم کی مصلحتوں سے خالی ہوتاہے۔ چنانچہ ہمیشہ تاریخ میں ایسا ہوا کہ کسی نئی اور انقلابی دعوت کو قبول کرنے میں وہی لوگ زیادہ آگے بڑھے جو ابھی زیادہ عمر کو نہیں پہنچے تھے۔ یہی صورتِ حال حضرت موسیٰ کے ساتھ پیش آئی۔ حضرت موسیٰ کا ساتھ دینے والے نوجوان کو ایک طرف فرعون کا خطرہ تھا۔ دوسری طرف خود اپنی قوم کے بڑوں کی طرف سے ان کو حوصلہ افزائی نہیں ملی۔ یہ بڑے اگر چہ حضرت موسیٰ کی نبوت کو مانتے تھے مگر اپنی مصلحت اندیشی کی بناپروہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں پُرجوش طورپر حضرت موسی کا ساتھ دیں اور اس کے نتیجہ میں وہ فرعون کے ظلم کا شکار بنیں۔ مگر اس قسم کی صورتِ حال کا تقاضا یہ نہیں ہوتا کہ آدمی مخالفین حق کے ڈر سے خاموش ہو کر بیٹھ جائے۔ اس کو چاہیے کہ وہ انسانی مخالفتوں کے مقابلہ میں خدائی نصرتوں پر نظر رکھے، وہ خدا کے بھروسہ پر اس حق کا ساتھ دینے کے لیے اٹھ کھڑا ہو جس کا ساتھ دینے کے لیے ذاتی طور پر وہ اپنے آپ کو عاجز پارہا تھا۔

وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُيُوتًا وَاجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ قِبْلَةً وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 قبلہ کے معنی عربی میں مرجع یا مرکز توجہ کے ہیں۔ یہاں گھروں کو قبلہ بنانے سے مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی بستیوں میں کچھ گھروں یا ان گھروں کے بعض مناسب حصوں کو اس مقصد کے لیے مخصوص کردیا جائے کہ وہ حضرت موسیٰ کی دینی جدوجہد کے لیے بطور مرکز کے کام دیں۔ یہاں تنظیمی اجتماعات ہوں، باہمی مشورے ہوں اور دعوتی عمل کی خاموش منصوبہ بندی کی جائے۔ حضرت موسیٰ کی توحید و آخرت کی باتیں مصر کے بادشاہ فرعون کو سخت ناگوار تھیں۔ اس نے ان کے اوپر نہایت سخت قسم کی پابندیاں عائد کردیں۔ یہاں تک کہ کھلے طور پر دینی سرگرمیاں جاری رکھنا ان کے لیے سخت دشوار ہوگیا۔ اس وقت حکم ہواکہ فرعون سے ٹکرانے کے بجائے یہ کرو کہ اپنے کام کو قریبی دائرہ میں سمیٹ لو۔ اپنی بستیوں میں چھوٹے دعوتی اور تنظیمی مراکز بنا کر محدود دائرہ میں خاموشی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھو۔ ان حالات میں ان کو جو دوسرا حکم دیاگیا وہ نماز کی اقامت تھا۔ یعنی اللہ سے تعلق جوڑنے اور اس سے مدد مانگنے کے لیے نمازوں کا اہتمام، انفرادی طورپر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ نماز دراصل خدا سے قریب ہو کر خدا سے مدد مانگنے کی ایک صورت ہے۔ نماز میں مشغول ہو کر بندہ اپنے آپ کو عجز اور تواضع کے مقام پر لاتا ہے اور عجز اور تواضع ہی وہ مقام ہے جہاں بندہ اور خدا کی ملاقات ہوتی ہے۔ بندہ کے لیے اپنے رب سے ملنے کا دوسرا کوئی مقام نہیں۔ یہ جو پروگرام بتایاگیا اسی کی تکمیل میںان کے لیے فلاح اور نجات کا راز چھپا ہوا تھا۔ یہ حکم گویا اس بات کی خوش خبری تھی کہ خدا ان کو اس حالت سے نکالنے والا ہے جس میں ان کے دشمنوںنے ان کو مبتلا کردیا ہے۔

وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ

📘 جو لوگ آخرت کی فکر کرتے ہیں وہ عام طور پر دنیوی ساز وسامان جمع کرنے میں ان لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو آخرت سے بے فکر ہو کر دنیا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہوں۔دنیوی کمی آخرت کی طرف دھیان لگانے کی قیمت ہے، اور دنیوی زیادتی آخرت سے غافل ہونے کی قیمت۔ مزید یہ کہ جس کے پاس دنیا کی رونق اور سامان زیادہ جمع ہوجائیں وہ بڑائی کے احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایسے لوگ اپنے اندر یہ صلاحیت کھودیتے ہیں کہ کسی دوسرے کی زبان سے جاری ہونے والے حق کو پہچانیں اور اس کے آگے جھک جائیں۔ اپنے وسائل کو اگر وہ خدا کا عطیہ سمجھتے تو اس کو حق کی تائید میں استعمال کرتے، مگر وہ اس کو اپنا ذاتی کمال سمجھتے ہیں اس ليے وہ اس کو صرف اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ حق کو دبائیں اور اس طرح ماحول کے اندر اپنی برتری قائم رکھیں۔ ’’تاکہ وہ تیری راہ سے بھٹکائیں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے ديے ہوئے مال واسباب کو صرف اس لیے استعمال کیا کہ اس کے ذریعے سے خدا کے بندوں کو خدا سے دور کریں، انھوں نے اس کو حق کی خدمت میں لگانے کے بجائے باطل کی خدمت میں لگایا، یہاں شدت بیان کی خاطر کلام کا اسلوب بدل گیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سچے دین کی دعوت پیش کی اور اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور خدا کی نصرتوں کے ذریعہ اس کو اتمام حجت کی حد تک واضح کردیا، اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آنجناب کے پیغام کو نہیں مانا۔ اس وقت حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ خدایا ان کے اوپر وہ سزا نازل فرما جو تیرے قانون کے تحت ایسے سرکشوں کے لیے مقدر ہے۔ ایسے موقع پر پیغمبر کی بد دعا خود خدا کے فیصلہ کا اعلان ہوتاہے جو نمائندہ خدا کی زبان سے جاری کیا جاتاہے۔ حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوگئی۔ تاہم جیسا کہ بعض روایات میں آتاہے، حضرت موسیٰ کی دعا اور فرعون کی تباہی کے درمیان 40 سال کا فاصلہ ہے(تفسير النسفی، جلد2، صفحہ 38 ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی لمبی مدت تک یہ صورت حال باقی رہی کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھی اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے۔ اور دوسری طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کی شان وشوکت بدستور ملک میں قائم تھی۔ ایسی حالت میں آدمی اگر خدا کی اس سنت سے بے خبر ہو کہ وہ سرکشوں کو مہلت دیتاہے تو وہ جلد بازی میں اصل کام چھوڑ دے گااور مایوسی اور بددلی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔

قَالَ قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ

📘 جو لوگ آخرت کی فکر کرتے ہیں وہ عام طور پر دنیوی ساز وسامان جمع کرنے میں ان لوگوں سے پیچھے رہ جاتے ہیں جو آخرت سے بے فکر ہو کر دنیا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہوں۔دنیوی کمی آخرت کی طرف دھیان لگانے کی قیمت ہے، اور دنیوی زیادتی آخرت سے غافل ہونے کی قیمت۔ مزید یہ کہ جس کے پاس دنیا کی رونق اور سامان زیادہ جمع ہوجائیں وہ بڑائی کے احساس میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایسے لوگ اپنے اندر یہ صلاحیت کھودیتے ہیں کہ کسی دوسرے کی زبان سے جاری ہونے والے حق کو پہچانیں اور اس کے آگے جھک جائیں۔ اپنے وسائل کو اگر وہ خدا کا عطیہ سمجھتے تو اس کو حق کی تائید میں استعمال کرتے، مگر وہ اس کو اپنا ذاتی کمال سمجھتے ہیں اس ليے وہ اس کو صرف اس مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ حق کو دبائیں اور اس طرح ماحول کے اندر اپنی برتری قائم رکھیں۔ ’’تاکہ وہ تیری راہ سے بھٹکائیں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اللہ کے ديے ہوئے مال واسباب کو صرف اس لیے استعمال کیا کہ اس کے ذریعے سے خدا کے بندوں کو خدا سے دور کریں، انھوں نے اس کو حق کی خدمت میں لگانے کے بجائے باطل کی خدمت میں لگایا، یہاں شدت بیان کی خاطر کلام کا اسلوب بدل گیا ہے۔ حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سچے دین کی دعوت پیش کی اور اپنی اعلیٰ صلاحیتوں اور خدا کی نصرتوں کے ذریعہ اس کو اتمام حجت کی حد تک واضح کردیا، اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھیوں نے آنجناب کے پیغام کو نہیں مانا۔ اس وقت حضرت موسیٰ نے دعا کی کہ خدایا ان کے اوپر وہ سزا نازل فرما جو تیرے قانون کے تحت ایسے سرکشوں کے لیے مقدر ہے۔ ایسے موقع پر پیغمبر کی بد دعا خود خدا کے فیصلہ کا اعلان ہوتاہے جو نمائندہ خدا کی زبان سے جاری کیا جاتاہے۔ حضرت موسیٰ کی دعا قبول ہوگئی۔ تاہم جیسا کہ بعض روایات میں آتاہے، حضرت موسیٰ کی دعا اور فرعون کی تباہی کے درمیان 40 سال کا فاصلہ ہے(تفسير النسفی، جلد2، صفحہ 38 ) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد بھی لمبی مدت تک یہ صورت حال باقی رہی کہ حضرت موسیٰ اور آپ کے ساتھی اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے۔ اور دوسری طرف فرعون اور اس کے ساتھیوں کی شان وشوکت بدستور ملک میں قائم تھی۔ ایسی حالت میں آدمی اگر خدا کی اس سنت سے بے خبر ہو کہ وہ سرکشوں کو مہلت دیتاہے تو وہ جلد بازی میں اصل کام چھوڑ دے گااور مایوسی اور بددلی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيمَانِهِمْ ۖ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ

📘 جہنم کس کے لیے ہے — ان لوگوں کے لیے جو اس دن کو بھولے ہوئے ہوں جب کہ خدا سے ان کا سامنا ہوگا۔ جو آخرت کی ابدی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی عارضی چیزوں پر راضی ہوگئے ہوں۔ جن کا یہ حال ہو کہ دنیا میںانھیں جو کچھ امتحان کے طورپر ملا ہے اسی پر وہ مطمئن ہوجائیں۔ جو غیر خدائی چیزوں میںاتنا دل لگالیں کہ خدا کی طرف سے ظاہر کی جانے والی حقیقتوں سے غافل ہوجائیں۔ یہ سب خدا کے نزدیک جہنمی راستوں میں چلنا ہے، اور جو لوگ جہنمی راستوں میں چل رہے ہوں وہ آخر کار جہنم کے سوا اور کہاں پہنچیں گے۔ ’’اللہ انھیں ان کے ایمان کی وجہ سے جنت کی منزل تک پہنچائے گا‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان آدمی کے لیے رہنمائی ہے۔ وہ آدمی کو غلط راہوں سے بچا کر صحیح راستہ پر چلاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو حقیقی منزل تک پہنچا دیتاہے۔ ایمان خدا کی دریافت ہے۔ جس آدمی کو ایمان حاصل ہوجائے اس کو علم کا سرا ہاتھ آجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر معاملہ میں صحیح مقام سے اپنی سوچ کاآغاز کرسکے۔ وہ فکری بے راہ روی سے بچ کر فکری صحت کا مالک بن جائے۔ مزید یہ کہ خدا کو ماننا کسی کتابی فلسفہ کو ماننا نہیں ہے۔ یہ ایک زندہ خدا کو ماننا ہے جو بالآخر تمام انسانوں کو اپنے یہاں جمع کرکے ان کا حساب لینے والا ہے۔ اس طرح ایمان آدمی کے اندر اپنے انجام کے بارے میں اندیشہ کی کیفیت پید کرکے اس کو انتہائی سنجیدہ انسان بنا دیتا ہے۔ وہ اپنے کو مجبور پاتا ہے کہ اپنی تمام کارروائیوں کو صحیح اور غلط کی روشنی میں دیکھے اور صرف صحیح رخ پر چلے اور غلط رخ پر چلنے سے ہمیشہ پرہیز کرے۔ اس طرح ایمان آدمی کو صحیح فکر بھی دیتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ قوت تمیز بھی جو اس کے لیے مستقل عملی رہنما بن جائے۔ آخرت کی جنت ان لوگوں کے لیے ہے جنھوں نے دنیا میں اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کیا ہو۔ آخرت خدا کے براہِ راست جلوؤں میں سرشار ہونے کا مقام ہے، وہاں بسنے کا موقع صرف ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں خداکے بالواسطہ جلوؤں سے سرشار ہوئے تھے۔ آخرت میں لوگوں کے دل ایک دوسرے کے لیے سلامتی اور خیر خواہی کے جذبات سے بھرے ہوئے ہوں گے، اس لیے وہاں کی آبادی میںوہی لوگ جگہ پائیں گے جنھوں نے دنیا میں اس بات کا ثبوت دیا تھا کہ دوسروں کے لیے ان کے دل میں سلامتی اور خیر خواہی کے سوا کوئی دوسرا جذبہ نہیں۔

۞ وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

📘 مصر میں حضرت موسیٰ کا مشن دو طرفہ تھا۔ ایک، فرعون کو توحید اور آخرت کی طرف بلانا۔ دوسرے، بنی اسرائیل کو مصر سے باہر صحرائی ماحول میں لے جانا اور وہاں ان کی تربیت کرنا۔ جب فرعون پر دعوتِ حق کی تکمیل ہوچکی تو اللہ کے حکم سے وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے ۔ صحرائے سینا پہنچنے کے لیے انھیں دریا کو پار کرنا تھا۔ جب بنی اسرائیل حضرت موسی کی رہنمائی میں دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصامارا۔ پانی بیچ سے پھٹ کر دائیں بائیں کھڑا ہوگیا، اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل اس راستہ سے بآسانی پار ہوگئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ وہ دریا کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل پانی کے درمیان ایک خشک راستہ سے گزررہے ہیں۔ دریا کے وسیع پاٹ نے پھٹ کر حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو راستہ دے دیاتھا۔ یہ واقعہ دراصل خدا کی ایک نشانی تھا۔ فرعون کو اس سے یہ سبق لینا چاہیے تھاکہ موسیٰ حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔ مگر اس نے دریا کے پھٹنے کو خدائی واقعہ سمجھنے کے بجائے عام واقعہ سمجھا۔ اپنے اور موسیٰ کے درمیان فرعون کو صرف دریا نظر آیا، حالاں کہ وہاں خود خدا کھڑا ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس واقعہ میں فرعون کے لیے اطاعت اور انابت کا پیغام تھا وہ اس کے لیے صرف سرکشی میں اضافہ کا سبب بن گیا۔ اس نے ’’دریا‘‘ کو دیکھا مگر ’’خدا ‘‘ کو نہیں دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح موسیٰ اور ان کے ساتھیوں نے دریا کو پار کیا ہے اسی طرح وہ بھی دریا کو پار کرسکتاہے۔ اپنے اس ذہن کے ساتھ فرعون اور اس کا لشکر دریا میں داخل ہوگئے۔ دریا کا پانی جو دو ٹکڑے ہوا تھا وہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے لیے ہوا تھا، وہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لیے نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ فرعون اور اس کا لشکر جب بیچ دریا میں پہنچے تو خداکے حکم سے دونوں طرف کا پانی مل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت اس میں غرق ہوگیا۔ غرق ہوتے ہوئے فرعون نے ایمان کا اقرار کیا مگر وہ بے سود تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اختیاری ایمان معتبر ہے، نہ کہ وہ ایمان جب کہ آدمی ایمان لانے پر مجبور ہوگیا ہو۔ خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے، اس کا نمونہ دور رِسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدانے مستقل طورپر محفوظ کرديے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانے میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جب کہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہو۔ انھیں میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعونِ موسیٰ (رعمیس ثانی) کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس (Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہرہ کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔

آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ

📘 مصر میں حضرت موسیٰ کا مشن دو طرفہ تھا۔ ایک، فرعون کو توحید اور آخرت کی طرف بلانا۔ دوسرے، بنی اسرائیل کو مصر سے باہر صحرائی ماحول میں لے جانا اور وہاں ان کی تربیت کرنا۔ جب فرعون پر دعوتِ حق کی تکمیل ہوچکی تو اللہ کے حکم سے وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے ۔ صحرائے سینا پہنچنے کے لیے انھیں دریا کو پار کرنا تھا۔ جب بنی اسرائیل حضرت موسی کی رہنمائی میں دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصامارا۔ پانی بیچ سے پھٹ کر دائیں بائیں کھڑا ہوگیا، اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل اس راستہ سے بآسانی پار ہوگئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ وہ دریا کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل پانی کے درمیان ایک خشک راستہ سے گزررہے ہیں۔ دریا کے وسیع پاٹ نے پھٹ کر حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو راستہ دے دیاتھا۔ یہ واقعہ دراصل خدا کی ایک نشانی تھا۔ فرعون کو اس سے یہ سبق لینا چاہیے تھاکہ موسیٰ حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔ مگر اس نے دریا کے پھٹنے کو خدائی واقعہ سمجھنے کے بجائے عام واقعہ سمجھا۔ اپنے اور موسیٰ کے درمیان فرعون کو صرف دریا نظر آیا، حالاں کہ وہاں خود خدا کھڑا ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس واقعہ میں فرعون کے لیے اطاعت اور انابت کا پیغام تھا وہ اس کے لیے صرف سرکشی میں اضافہ کا سبب بن گیا۔ اس نے ’’دریا‘‘ کو دیکھا مگر ’’خدا ‘‘ کو نہیں دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح موسیٰ اور ان کے ساتھیوں نے دریا کو پار کیا ہے اسی طرح وہ بھی دریا کو پار کرسکتاہے۔ اپنے اس ذہن کے ساتھ فرعون اور اس کا لشکر دریا میں داخل ہوگئے۔ دریا کا پانی جو دو ٹکڑے ہوا تھا وہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے لیے ہوا تھا، وہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لیے نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ فرعون اور اس کا لشکر جب بیچ دریا میں پہنچے تو خداکے حکم سے دونوں طرف کا پانی مل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت اس میں غرق ہوگیا۔ غرق ہوتے ہوئے فرعون نے ایمان کا اقرار کیا مگر وہ بے سود تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اختیاری ایمان معتبر ہے، نہ کہ وہ ایمان جب کہ آدمی ایمان لانے پر مجبور ہوگیا ہو۔ خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے، اس کا نمونہ دور رِسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدانے مستقل طورپر محفوظ کرديے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانے میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جب کہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہو۔ انھیں میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعونِ موسیٰ (رعمیس ثانی) کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس (Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہرہ کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً ۚ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

📘 مصر میں حضرت موسیٰ کا مشن دو طرفہ تھا۔ ایک، فرعون کو توحید اور آخرت کی طرف بلانا۔ دوسرے، بنی اسرائیل کو مصر سے باہر صحرائی ماحول میں لے جانا اور وہاں ان کی تربیت کرنا۔ جب فرعون پر دعوتِ حق کی تکمیل ہوچکی تو اللہ کے حکم سے وہ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے روانہ ہوئے ۔ صحرائے سینا پہنچنے کے لیے انھیں دریا کو پار کرنا تھا۔ جب بنی اسرائیل حضرت موسی کی رہنمائی میں دریا کے کنارے پہنچے تو اللہ کے حکم سے حضرت موسیٰ نے پانی پر اپنا عصامارا۔ پانی بیچ سے پھٹ کر دائیں بائیں کھڑا ہوگیا، اور درمیان میں خشک راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل اس راستہ سے بآسانی پار ہوگئے۔ فرعون اپنے لشکر کے ساتھ بنی اسرائیل کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ وہ دریا کے کنارے پہنچا تو دیکھا کہ موسیٰ اور بنی اسرائیل پانی کے درمیان ایک خشک راستہ سے گزررہے ہیں۔ دریا کے وسیع پاٹ نے پھٹ کر حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو راستہ دے دیاتھا۔ یہ واقعہ دراصل خدا کی ایک نشانی تھا۔ فرعون کو اس سے یہ سبق لینا چاہیے تھاکہ موسیٰ حق پر ہیں اور خدا ان کے ساتھ ہے۔ مگر اس نے دریا کے پھٹنے کو خدائی واقعہ سمجھنے کے بجائے عام واقعہ سمجھا۔ اپنے اور موسیٰ کے درمیان فرعون کو صرف دریا نظر آیا، حالاں کہ وہاں خود خدا کھڑا ہوا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس واقعہ میں فرعون کے لیے اطاعت اور انابت کا پیغام تھا وہ اس کے لیے صرف سرکشی میں اضافہ کا سبب بن گیا۔ اس نے ’’دریا‘‘ کو دیکھا مگر ’’خدا ‘‘ کو نہیں دیکھا۔ اس نے سمجھا کہ جس طرح موسیٰ اور ان کے ساتھیوں نے دریا کو پار کیا ہے اسی طرح وہ بھی دریا کو پار کرسکتاہے۔ اپنے اس ذہن کے ساتھ فرعون اور اس کا لشکر دریا میں داخل ہوگئے۔ دریا کا پانی جو دو ٹکڑے ہوا تھا وہ موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کے لیے ہوا تھا، وہ فرعون اور اس کے ساتھیوں کے لیے نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ فرعون اور اس کا لشکر جب بیچ دریا میں پہنچے تو خداکے حکم سے دونوں طرف کا پانی مل گیا اور فرعون اپنے لشکر سمیت اس میں غرق ہوگیا۔ غرق ہوتے ہوئے فرعون نے ایمان کا اقرار کیا مگر وہ بے سود تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اختیاری ایمان معتبر ہے، نہ کہ وہ ایمان جب کہ آدمی ایمان لانے پر مجبور ہوگیا ہو۔ خدا سے نافرمانی اور سرکشی کا انجام ہلاکت ہے، اس کا نمونہ دور رِسالت میں بار بار انسان کے سامنے آتا تھا۔ تاہم اس قسم کے کچھ نمونے خدانے مستقل طورپر محفوظ کرديے ہیں تاکہ وہ بعد کے زمانے میں بھی انسان کو سبق دیتے رہیں جب کہ نبیوں کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہو۔ انھیں میں سے ایک تاریخی نمونہ فرعونِ موسیٰ (رعمیس ثانی) کا ہے جس کی ممی کی ہوئی لاش ماہرین اثریات کو قدیم مصری شہر تھیبس (Thebes) میں ملی تھی اور اب وہ قاہرہ کے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھی ہوئی ہے۔

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِي إِسْرَائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ فَمَا اخْتَلَفُوا حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْعِلْمُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ

📘 بنی اسرائیل قدیم زمانہ میں خداکے دین کے حامل تھے۔ ان کے ساتھ خدا نے یہ احسان کیا کہ ان کے دشمن (فرعون) سے ان کو نجات دی۔ اس کے بعد وہ ان کو سینا کی کھلی فضا میں لے گیا۔ وہاں ان کے لیے خصوصی انتظام کے تحت پانی اور رزق مہیا کیا۔ صحرائی تربیت کے ذریعہ ان کے اندر ایک نئی طاقت ور نسل تیار کی۔ اس نسل نے حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد ایک عظیم ملک فتح کیا اور شام اور اردن اور فلسطین جیسے سرسبز علاقہ میں بنی اسرائیل کی سلطنت قائم کی جو کئی سوسال تک باقی رہی۔ اس احسان کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ بنی اسرائیل خدا کے فرماں بردار اور شکر گزا ر رہتے اور خدا کے دین کی خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے۔ مگر واضح رہنمائی کے ہوتے ہوئے وہ راہ سے بے راہ ہوگئے۔ ان کا راہ سے بے راہ ہونا کیا تھا۔ یہ آپس کا اختلاف تھا۔ ان کے پاس خدا کا اتارا ہوا علم موجود تھا جو واحد سچائی تھا۔ مگر انھوں نے اس علم کی تشریح وتاویل میں اختلاف کیا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے(تفسير النسفی، جلد2، صفحہ40)۔ کوئی امت جب تک خدا کے اتارے ہوئے دین (العلم) پر رہتی ہے، اس میں اتفاق واتحاد رہتاہے۔ مگر بعد کو ان کے درمیان اس العلم کی تشریح میں اختلافات شروع ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک اختلافی رائے لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ دوسری اختلافی رائے لے کر۔ ہر ایک اپنے اپنے مسلک کو برحق ثابت کرنے کے لیے بحث مباحثہ اور تقریر اور مناظرہ کا طوفان کھڑا کرتاہے۔ نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ اصل العلم کتابوں میں بند پڑا رہتاہے اور سارا زور ان کی تاویلات وتشریحات میں صرف ہونے لگتاہے۔ اس طرح بنیادی دینی تعلیمات (العلم) میں متحد الرائے ہونے کے باوجود لوگ ذیلی تعلیمات میں مشغول ہوکر مختلف الرائے ہوجاتے ہیں۔ ’’اللہ قیامت کے دن فیصلہ کردے گا‘‘ بظاہر متعدی ہے مگر حقیقۃً وہ لازم کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت میں جب خدا ظاہر ہوگا تو ہر آدمی اپنے اختلاف کو بھول کر اسی بات کو مان لے گا جو واحد سچائی ہے۔ اگر وہ خدا سے ڈرتے تو آج ہی سب کے سب ایک رائے پر پہنچ جاتے۔ مگر خدا سے بے خوف ہو کر وہ الگ الگ راہوں میں بٹ گئے ہیں۔ بے خوفی سے رایوں کا تعدد پیدا ہوتا ہے اور خوف سے رایوں کا اتحاد۔

فَإِنْ كُنْتَ فِي شَكٍّ مِمَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ فَاسْأَلِ الَّذِينَ يَقْرَءُونَ الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَقَدْ جَاءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

📘 پیغمبر بے آمیز حق کو لے کر اٹھتا ہے، اور بے آمیز حق کی دعوت کو قبول کرنا انسان کے لیے ہمیشہ سخت دشوار کام رہاہے۔ لوگ عام طورپر ملاوٹی حق کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا پرستانہ زندگی پر حق کا لیبل لگا لیتے ہیں۔ ایسی حالت میں بے آمیز حق کی دعوت کو ماننا اپنی ذات کی نفی کی قیمت پر ہوتاہے۔ داعیٔ حق کو ماننے کے لیے اس کے مقابلہ میں اپنے آپ کو چھوٹا کرنا پڑتاہے۔ اور اپنے آپ کو چھوٹا کرنا بلا شبہ انسان کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ حق کی دعوت اٹھے اور لوگ جوق درجوق اس کی طرف دوڑنا شروع کردیں۔ حق کا استقبال اس دنیا میں ہمیشہ اعراض اور مخالفت کی صورت میں کیا گیا ہے۔ داعی جب اپنے ماحول میں حق کی یہ بے وقعتی دیکھتا ہے تو کبھی کبھی اس پر یہ شبہ گزرتا ہے کہ میں غلطی پر تو نہیں ہوں۔ اس آیت میں داعی کو اسی نفسیات سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس شبہ کے غلط ہونے کا ایک نہایت واضح ثبوت یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں اور داعیوں کو بھی ہمیشہ اسی طرح کی صورت حال سے سابقہ پیش آیا۔ جو لوگ سابق انبیاء کی تاریخ سے واقف ہیں ان کو بخوبی معلوم ہے کہ اس دنیا میں کبھی ایسا نہیںہوا کہ ایک پیغمبر اٹھے اور فوراً اس کو عوامی مقبولیت حاصل ہوجائے۔ پھر یہی بات اگر بعد کے زمانہ کے داعیوں کے ساتھ پیش آئے تو اس پر حیران وپریشان ہونے کی کیا ضرورت۔ آدمی کی عقل اگر کسی چیز کی سچائی پر گواہی دے اور وہ صرف لوگوں کی بے توجہی یا مخالفت کی وجہ سے اس چیز کو چھوڑ دے تو یہ گویا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلانا ہے۔ اللہ نشانیوں (دلائل) کے روپ میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتاہے۔ اس لیے جس چیز کی صداقت پر دلیل قائم ہوجائے اس کو ماننا آدمی کے اوپر خدا کا حق ہوجاتا ہے۔ پھر جو شخص خدا کا حق ادا نہ کرے اس کے حصہ میں نقصان اور ہلاکت کے سوا کیا آئے گا۔

وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

📘 پیغمبر بے آمیز حق کو لے کر اٹھتا ہے، اور بے آمیز حق کی دعوت کو قبول کرنا انسان کے لیے ہمیشہ سخت دشوار کام رہاہے۔ لوگ عام طورپر ملاوٹی حق کی بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا پرستانہ زندگی پر حق کا لیبل لگا لیتے ہیں۔ ایسی حالت میں بے آمیز حق کی دعوت کو ماننا اپنی ذات کی نفی کی قیمت پر ہوتاہے۔ داعیٔ حق کو ماننے کے لیے اس کے مقابلہ میں اپنے آپ کو چھوٹا کرنا پڑتاہے۔ اور اپنے آپ کو چھوٹا کرنا بلا شبہ انسان کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ حق کی دعوت اٹھے اور لوگ جوق درجوق اس کی طرف دوڑنا شروع کردیں۔ حق کا استقبال اس دنیا میں ہمیشہ اعراض اور مخالفت کی صورت میں کیا گیا ہے۔ داعی جب اپنے ماحول میں حق کی یہ بے وقعتی دیکھتا ہے تو کبھی کبھی اس پر یہ شبہ گزرتا ہے کہ میں غلطی پر تو نہیں ہوں۔ اس آیت میں داعی کو اسی نفسیات سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس شبہ کے غلط ہونے کا ایک نہایت واضح ثبوت یہ ہے کہ پچھلے پیغمبروں اور داعیوں کو بھی ہمیشہ اسی طرح کی صورت حال سے سابقہ پیش آیا۔ جو لوگ سابق انبیاء کی تاریخ سے واقف ہیں ان کو بخوبی معلوم ہے کہ اس دنیا میں کبھی ایسا نہیںہوا کہ ایک پیغمبر اٹھے اور فوراً اس کو عوامی مقبولیت حاصل ہوجائے۔ پھر یہی بات اگر بعد کے زمانہ کے داعیوں کے ساتھ پیش آئے تو اس پر حیران وپریشان ہونے کی کیا ضرورت۔ آدمی کی عقل اگر کسی چیز کی سچائی پر گواہی دے اور وہ صرف لوگوں کی بے توجہی یا مخالفت کی وجہ سے اس چیز کو چھوڑ دے تو یہ گویا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلانا ہے۔ اللہ نشانیوں (دلائل) کے روپ میں انسان کے سامنے ظاہر ہوتاہے۔ اس لیے جس چیز کی صداقت پر دلیل قائم ہوجائے اس کو ماننا آدمی کے اوپر خدا کا حق ہوجاتا ہے۔ پھر جو شخص خدا کا حق ادا نہ کرے اس کے حصہ میں نقصان اور ہلاکت کے سوا کیا آئے گا۔

إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ

📘 انسان کے سامنے جب ایک حق بات آتی ہے تو اس کی عقل گواہی دیتی ہے کہ یہ صحیح ہے۔ مگر کسی حق کو لینے کے لیے آدمی کو کچھ دینا پڑتاہے اور اسی دینے کے لیے آدمی تیار نہیں ہوتا۔ اس کی خاطر آدمی کو دوسرے کے مقابلہ میں اپنے کو چھوٹا کرنا پڑتاہے۔ اپنے مفاد کو خطرہ میں ڈالنا ہوتا ہے۔ اپنی رائے اور اپنے وقار کو کھونا پڑتا ہے۔ یہ اندیشے آدمی کے لیے قبولِ حق میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جس چیز کا جواب اس کو قبولیت اوراعتراف سے دینا چاہیے تھا اس کا جواب وہ انکار اور مخالفت سے دینے لگتا ہے۔ آدمی کی نفسیات کچھ اس طرح بنی ہیں کہ وہ ایک بار جس رخ پر چل پڑے اسی رخ پر اس کا پورا ذہن چلنے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار حق سے انحراف کرنے کے بعد بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دوبارہ حق کی طرف لوٹے۔ کیوں کہ ہر آنے والے دن وہ اپنے فکر میں پختہ تر ہوتا چلا جاتاہے۔ یہاںتک وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ حق کی طرف واپس آجائے۔ اس طرح کے لوگ اپنے موقف کو بتانے کے لیے ایسے الفاظ بولتے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ ان کا کیس نظریاتی کیس ہے۔ مگر حقیقۃً وہ صرف ضد اور تعصب اور ہٹ دھرمی کا کیس ہوتا ہے جو اپنی دنیوی مصلحتوں کی خاطر اختیا رکیا جاتا ہے۔ تاہم عذاب خداوندی کے ظہور کے وقت آدمی کا یہ بھرم کھل جائے گا۔ خوف کی حالت اس کو اس چیز کے آگے جھکنے پر مجبور کردے گی جس کے آگے وہ بے خوفی کی حالت میں جھکنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ پچھلے زمانہ میں جتنے رسول آئے سب کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا کہ ان کی مخاطب قوم آخر وقت تک ایمان نہیں لائی۔ البتہ جب وہ عذاب کی پکڑ میں آگئے تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں۔ جب تک خدا انھیں دلیل کی زبان میں پکار رہا تھا، انھوں نے نہیں مانا اور جب خدا نے انھیں اپنی طاقتوں کی زد میں لے لیا تو کہنے لگے کہ اب ہم مانتے ہیں۔ مگر ایسا ماننا خدا کے یہاں معتبر نہیں۔ خدا کو وہ ماننا مطلوب ہے جب کہ آدمی دلیل کے زور پر جھک جائے، نہ کہ وہ طاقت کے زور پر جھکے۔ حضرت یونس علیہ السلام عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ میں بھیجے گئے۔ انھوں نے وہاں تبلیغ کی مگر وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ آخر حضرت یونس نے پیغمبروں کی سنت کے مطابق ہجرت کی۔ وہ یہ کہہ کر نینویٰ سے چلے گئے کہ اب تمھارے اوپر خدا کا عذاب آئے گا۔ حضرت یونس کے جانے کے بعد عذاب کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ مگر اس وقت انھوں نے وہ نہ کیا جو قوم ہود نے کیا تھا کہ انھوں نے عذاب کا بادل آتے دیکھ کر کہا کہ یہ ہمارے لیے بارش برسانے آرہا ہے۔ قوم یونس کے اندر فوراً چونک پیدا ہوگئی۔ سارے لوگ اپنے مویشیوں اور عورتوں اور بچوں کو لے کر میدان میں جمع ہوگئے اور خداکے آگے عاجزی کرنے لگے۔ اس کے بعدعذاب ان سے اٹھا لیا گیا۔ جس طرح ظہور عذاب سے پہلے کا ایمان قابلِ اعتبار ہے اسی طرح وقوع عذاب کے قریب کا ایمان بھی قابل اعتبار ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اتنا کامل ہو جتنا کامل قوم یونس کا ایمان تھا۔

وَلَوْ جَاءَتْهُمْ كُلُّ آيَةٍ حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ

📘 انسان کے سامنے جب ایک حق بات آتی ہے تو اس کی عقل گواہی دیتی ہے کہ یہ صحیح ہے۔ مگر کسی حق کو لینے کے لیے آدمی کو کچھ دینا پڑتاہے اور اسی دینے کے لیے آدمی تیار نہیں ہوتا۔ اس کی خاطر آدمی کو دوسرے کے مقابلہ میں اپنے کو چھوٹا کرنا پڑتاہے۔ اپنے مفاد کو خطرہ میں ڈالنا ہوتا ہے۔ اپنی رائے اور اپنے وقار کو کھونا پڑتا ہے۔ یہ اندیشے آدمی کے لیے قبولِ حق میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جس چیز کا جواب اس کو قبولیت اوراعتراف سے دینا چاہیے تھا اس کا جواب وہ انکار اور مخالفت سے دینے لگتا ہے۔ آدمی کی نفسیات کچھ اس طرح بنی ہیں کہ وہ ایک بار جس رخ پر چل پڑے اسی رخ پر اس کا پورا ذہن چلنے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار حق سے انحراف کرنے کے بعد بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دوبارہ حق کی طرف لوٹے۔ کیوں کہ ہر آنے والے دن وہ اپنے فکر میں پختہ تر ہوتا چلا جاتاہے۔ یہاںتک وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ حق کی طرف واپس آجائے۔ اس طرح کے لوگ اپنے موقف کو بتانے کے لیے ایسے الفاظ بولتے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ ان کا کیس نظریاتی کیس ہے۔ مگر حقیقۃً وہ صرف ضد اور تعصب اور ہٹ دھرمی کا کیس ہوتا ہے جو اپنی دنیوی مصلحتوں کی خاطر اختیا رکیا جاتا ہے۔ تاہم عذاب خداوندی کے ظہور کے وقت آدمی کا یہ بھرم کھل جائے گا۔ خوف کی حالت اس کو اس چیز کے آگے جھکنے پر مجبور کردے گی جس کے آگے وہ بے خوفی کی حالت میں جھکنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ پچھلے زمانہ میں جتنے رسول آئے سب کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا کہ ان کی مخاطب قوم آخر وقت تک ایمان نہیں لائی۔ البتہ جب وہ عذاب کی پکڑ میں آگئے تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں۔ جب تک خدا انھیں دلیل کی زبان میں پکار رہا تھا، انھوں نے نہیں مانا اور جب خدا نے انھیں اپنی طاقتوں کی زد میں لے لیا تو کہنے لگے کہ اب ہم مانتے ہیں۔ مگر ایسا ماننا خدا کے یہاں معتبر نہیں۔ خدا کو وہ ماننا مطلوب ہے جب کہ آدمی دلیل کے زور پر جھک جائے، نہ کہ وہ طاقت کے زور پر جھکے۔ حضرت یونس علیہ السلام عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ میں بھیجے گئے۔ انھوں نے وہاں تبلیغ کی مگر وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ آخر حضرت یونس نے پیغمبروں کی سنت کے مطابق ہجرت کی۔ وہ یہ کہہ کر نینویٰ سے چلے گئے کہ اب تمھارے اوپر خدا کا عذاب آئے گا۔ حضرت یونس کے جانے کے بعد عذاب کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ مگر اس وقت انھوں نے وہ نہ کیا جو قوم ہود نے کیا تھا کہ انھوں نے عذاب کا بادل آتے دیکھ کر کہا کہ یہ ہمارے لیے بارش برسانے آرہا ہے۔ قوم یونس کے اندر فوراً چونک پیدا ہوگئی۔ سارے لوگ اپنے مویشیوں اور عورتوں اور بچوں کو لے کر میدان میں جمع ہوگئے اور خداکے آگے عاجزی کرنے لگے۔ اس کے بعدعذاب ان سے اٹھا لیا گیا۔ جس طرح ظہور عذاب سے پہلے کا ایمان قابلِ اعتبار ہے اسی طرح وقوع عذاب کے قریب کا ایمان بھی قابل اعتبار ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اتنا کامل ہو جتنا کامل قوم یونس کا ایمان تھا۔

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ

📘 انسان کے سامنے جب ایک حق بات آتی ہے تو اس کی عقل گواہی دیتی ہے کہ یہ صحیح ہے۔ مگر کسی حق کو لینے کے لیے آدمی کو کچھ دینا پڑتاہے اور اسی دینے کے لیے آدمی تیار نہیں ہوتا۔ اس کی خاطر آدمی کو دوسرے کے مقابلہ میں اپنے کو چھوٹا کرنا پڑتاہے۔ اپنے مفاد کو خطرہ میں ڈالنا ہوتا ہے۔ اپنی رائے اور اپنے وقار کو کھونا پڑتا ہے۔ یہ اندیشے آدمی کے لیے قبولِ حق میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ جس چیز کا جواب اس کو قبولیت اوراعتراف سے دینا چاہیے تھا اس کا جواب وہ انکار اور مخالفت سے دینے لگتا ہے۔ آدمی کی نفسیات کچھ اس طرح بنی ہیں کہ وہ ایک بار جس رخ پر چل پڑے اسی رخ پر اس کا پورا ذہن چلنے لگتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بار حق سے انحراف کرنے کے بعد بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دوبارہ حق کی طرف لوٹے۔ کیوں کہ ہر آنے والے دن وہ اپنے فکر میں پختہ تر ہوتا چلا جاتاہے۔ یہاںتک وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ حق کی طرف واپس آجائے۔ اس طرح کے لوگ اپنے موقف کو بتانے کے لیے ایسے الفاظ بولتے ہیں جس سے ظاہر ہو کہ ان کا کیس نظریاتی کیس ہے۔ مگر حقیقۃً وہ صرف ضد اور تعصب اور ہٹ دھرمی کا کیس ہوتا ہے جو اپنی دنیوی مصلحتوں کی خاطر اختیا رکیا جاتا ہے۔ تاہم عذاب خداوندی کے ظہور کے وقت آدمی کا یہ بھرم کھل جائے گا۔ خوف کی حالت اس کو اس چیز کے آگے جھکنے پر مجبور کردے گی جس کے آگے وہ بے خوفی کی حالت میں جھکنے پر تیار نہ ہوتا تھا۔ پچھلے زمانہ میں جتنے رسول آئے سب کے ساتھ یہ قصہ پیش آیا کہ ان کی مخاطب قوم آخر وقت تک ایمان نہیں لائی۔ البتہ جب وہ عذاب کی پکڑ میں آگئے تو انھوں نے کہا کہ ہم ایمان قبول کرتے ہیں۔ جب تک خدا انھیں دلیل کی زبان میں پکار رہا تھا، انھوں نے نہیں مانا اور جب خدا نے انھیں اپنی طاقتوں کی زد میں لے لیا تو کہنے لگے کہ اب ہم مانتے ہیں۔ مگر ایسا ماننا خدا کے یہاں معتبر نہیں۔ خدا کو وہ ماننا مطلوب ہے جب کہ آدمی دلیل کے زور پر جھک جائے، نہ کہ وہ طاقت کے زور پر جھکے۔ حضرت یونس علیہ السلام عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ میں بھیجے گئے۔ انھوں نے وہاں تبلیغ کی مگر وہ لوگ ایمان نہ لائے۔ آخر حضرت یونس نے پیغمبروں کی سنت کے مطابق ہجرت کی۔ وہ یہ کہہ کر نینویٰ سے چلے گئے کہ اب تمھارے اوپر خدا کا عذاب آئے گا۔ حضرت یونس کے جانے کے بعد عذاب کی ابتدائی علامتیں ظاہر ہوئیں۔ مگر اس وقت انھوں نے وہ نہ کیا جو قوم ہود نے کیا تھا کہ انھوں نے عذاب کا بادل آتے دیکھ کر کہا کہ یہ ہمارے لیے بارش برسانے آرہا ہے۔ قوم یونس کے اندر فوراً چونک پیدا ہوگئی۔ سارے لوگ اپنے مویشیوں اور عورتوں اور بچوں کو لے کر میدان میں جمع ہوگئے اور خداکے آگے عاجزی کرنے لگے۔ اس کے بعدعذاب ان سے اٹھا لیا گیا۔ جس طرح ظہور عذاب سے پہلے کا ایمان قابلِ اعتبار ہے اسی طرح وقوع عذاب کے قریب کا ایمان بھی قابل اعتبار ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ اتنا کامل ہو جتنا کامل قوم یونس کا ایمان تھا۔

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ

📘 ’’تیرا رب چاہتا تو سارے لوگ مومن بن جاتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے لیے یہ ممکن تھا کہ انسانی دنیا کا نظام بھی اسی طرح بنائے جس طرح بقیہ دنیا کا نظام ہے۔ جہاں ہر چیز مکمل طورپر خدا کے حکم کی پابندبنی ہوئی ہے۔ مگر انسان کے سلسلہ میں خدا کی یہ اسکیم ہی نہیں۔ انسان کے سلسلہ میں خدا کی اسکیم یہ ہے کہ آزادانہ ماحول میں رکھ کر انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ خود اپنے ذاتی فیصلہ سے خدا کا فرماں بردار بنے۔ وہ اپنے اختیار سے وہ کام کرے جو بقیہ دنیا بے اختیاری کے ساتھ کررہی ہے۔ جنت کی ابدی نعمتیں اسی اختیارانہ اطاعت کی قیمت ہیں۔ ’’کوئی شخص خدا کے اذن کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کو ایمان کی نعمت ملے گی تو اس طریقہ کی پیروی کرکے ملے گی جو خدا نے اس کے لیے مقرر کردیا ہے۔ موجودہ دنیا میں ایمان کو پانے کا راستہ یہ ہے کہ آدمی ایمان کی دعوت کو اپنی عقل کے استعمال سے سمجھے ۔ جس شخص کی عقل کے اوپر اس کی دنیوی مصلحتیں غالب آجائیں اس کی عقل گویا گندگی کی کیچڑ میں لت پت ہوگئی ہے۔ ایسے شخص کے لیے اس دنیا میں ایمان کی نعمت پانے کا کوئی سوال نہیں۔