slot qris slot gacor terbaru slot gacor terbaik slot dana link slot gacor slot deposit qris slot pulsa slot gacor situs slot gacor slot deposit qris
| uswah-academy
WhatsApp Book A Free Trial
القائمة

🕋 تفسير سورة التوبة

(At-Tawbah) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN

بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیاگیا ہے وہ کسی حق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ محض آزمائش کے ليے ہے۔ خدا جب تک چاہتا ہے کسی کو اس زمین پر رکھتا ہے او ر جب اس کے علم کے مطابق اس کی مدت امتحان پوری ہوجاتی ہے تو اس پر موت وارد کرکے اس کو یہاں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ پیغمبر کے مخاطبین کے ساتھ دوسری صورت میں کیا جاتاہے۔ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان آتاہے ان پر وہ آخری حد تک حق کی گواہی دیتا ہے۔ پیغمبر کے دعوتی کام کی تکمیل کے بعد جو لوگ ایمان نہ لائیں وہ خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق کھودیتے ہیں ۔ وہ آزمائش کی غرض سے یہاں رکھے گئے تھے۔ اتمام حجت نے آزمائش کی تکمیل کردی۔ پھر اس کے بعد زندگی کا حق کس ليے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کے کام کی تکمیل کے بعد ان کے اوپر کوئی نہ کوئی ہلاکت خیز آفت آتی ہے اور ان کا استیصال کردیا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ مگر ان پر کوئی آسمانی آفت نہیں آئی۔ ان کے اوپر خدا کی مذکورہ سنت کا نفاذ اسباب کے نقشہ میں کیاگیا ہے۔ اولاً قرآن کے برتر اسلوب اور پیغمبر کے اعلیٰ کردار کے ذریعہ ان کو دعوت پہنچائی گئی۔ پھر اہلِ توحید کو مکہ کے اہلِ شرک پر غالب کرکے ان کے اوپر اتمام حجت کردیاگیا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور اس کے باوجود وہ انکار کی روش پر قائم رہے تو ان کو مسلسل خیانت اور عہد شکنی کا مجرم قرار دے کر ان کو الٹی میٹم دياگیا کہ چار ماہ کے اندر اپنی اصلاح کرلو، ورنہ مسلمانوں کی تلوار سے تمھارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ پھر یہ سارا معاملہ تقویٰ کے اصول پر کیاگیا، نہ کہ قومی سیاست کے اصول پر— مشرکین کو دلائل کے میدان میں لاجواب کردیاگیا، ان کو پیشگي انتباہ کے ذریعہ کئی مہینہ تک سوچنے کا موقع دیاگیا۔ آخر وقت تک ان کے ليے دروازہ کھلا رکھا گیا کہ جو لوگ توبہ کرلیں وہ خدا کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوجائیں ۔ جن بعض قبائل نے معاہدہ نہیں توڑا تھا ان کے معاملہ کو معاہدہ توڑنے والوں سے الگ رکھاگیا، وغیرہ۔

لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ

📘 مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرليے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ’’دشمن‘‘ سے یہ معاہدہ انھوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم ازکم انھیں بدنام کریں ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے ليے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔ یہ قریش کا حال تھا ،جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظرآتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنو کنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے مسلمانوں سے معاہدے كيے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیاگیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیوں کہ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی سے اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے ليے تیار ہوجائیں ۔ معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے— رشتہ داری یا قول وقرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور جن سے قول وقرار ہوچکا ہے ان سے قول وقرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول وقرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں ۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کریں اور سرکشی سے باز آئیں ۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برارہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 خدا کے دین کی دعوت جب بھی شروع کی جائے تودو میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے۔ یا تو ماحول اس کا دشمن ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول میں دین کے ليے پکارنے والے اجنبی بن جاتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ کے اندر بے جگہ کرديے جاتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو مہاجر (چھوڑنے والا) کہا جاتاہے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ ماحول خدا کے دین کی دعوت کے ليے سازگار ثابت ہو۔ ایسے ماحول میں جو لوگ دین کے داعی بنتے ہیں ان کے ساتھ یہ حادثہ پیش نہیں آتا کہ ان کا سب کچھ ان سے چھن جائے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگر ایسا کریں کہ وہ پہلے لوگوں کا سہارا بن کر کھڑے ہو جائیں تو یہی انصار (مدد کرنے والے) قرار پاتے ہیں ۔ دورِ اول میں مکہ کے حالات نے وہاں کے مسلمانوں کو مہاجر بنا دیا اور مدینہ کے حالات نے وہاں کے مسلمانوں کو انصارکی حیثیت دے دی۔ خدا کی رضامندی اور اس کی جنت کسی آدمی کو یا تو مہاجر بننے کی قیمت پر ملتی ہے یا انصار بننے کی قیمت پر۔ یا تو وہ خدا کے ليے اتنا یکسو ہوکہ دنیا کے سرے اس سے چھوٹ جائیں ۔ یا اگر وہ اپنے کو صاحب وسائل پاتا ہے تو اپنے وسائل کے ذریعہ وہ اول الذکر گروہ کی محرومی کا بدل بن جائے۔ دورِ اول کے مسلمان (صحابہ کرام) اس ہجرت ونصرت کاکامل نمونہ تھے۔ بعد کے مسلمانوں میں جو لوگ اس ہجرت ونصرت کے معاملہ میں اپنے پیش روؤں کی تقلید کریں گے وہ بالتبع اس مقدس خدائی گروہ میں شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ خدا کچھ لوگوں کومحروم کرتا ہے تاکہ ان کے اندر اِنابت کا جذبہ ابھرے اسی طرح خدا کچھ لوگوں کو محرومی سے بچاتاہے تاکہ وہ محروموں کی مدد کرکے خدا کے ليے خرچ کرنے والے بنیں ۔ یہ خدا کا منصوبہ ہے۔ جو لوگ اس کا ثبوت نہ دیں ، وہ ایسے لوگ ہیں ، جو خدا کے منصوبہ پر راضی نہ ہوئے۔ اس ليے خدا بھی آخرت کے دن ان سے راضی نہ ہوگا۔ ’’وہ اللہ سے راضی ہوگئے‘‘ یعنی جس کو اللہ نے ایسے حالات میں اٹھایا کہ اس کو سب کچھ چھوڑنے کی قیمت پر دین کو اختیار کرنا پڑا تو وہ اس میں ثابت قدم رہا۔ اسی طرح جس کے حالات کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ اپنے اثاثہ میں ایسے دینی بھائیوں کو شریک کرے جن سے اس کا تعلق صرف مقصد کا ہے، نہ کہ رشتہ داری کا تو وہ بھی اس پر راضی ہوگیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی خوشی حاصل کی اور یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں داخل كيے جائیں گے۔ منافق وہ ہے جو مسلمان ہونے کا دعوی کرے مگر جب ہجرت اور نصرت کی قیمت پر دین دار بننے کا سوال ہو تو اس کے ليے اپنے کو راضی نہ کرسکے۔

وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ

📘 خدا کے دین کی دعوت جب بھی شروع کی جائے تودو میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے۔ یا تو ماحول اس کا دشمن ہوجاتا ہے۔ ایسے ماحول میں دین کے ليے پکارنے والے اجنبی بن جاتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ کے اندر بے جگہ کرديے جاتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو مہاجر (چھوڑنے والا) کہا جاتاہے۔ دوسری صورت وہ ہے جب کہ ماحول خدا کے دین کی دعوت کے ليے سازگار ثابت ہو۔ ایسے ماحول میں جو لوگ دین کے داعی بنتے ہیں ان کے ساتھ یہ حادثہ پیش نہیں آتا کہ ان کا سب کچھ ان سے چھن جائے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگر ایسا کریں کہ وہ پہلے لوگوں کا سہارا بن کر کھڑے ہو جائیں تو یہی انصار (مدد کرنے والے) قرار پاتے ہیں ۔ دورِ اول میں مکہ کے حالات نے وہاں کے مسلمانوں کو مہاجر بنا دیا اور مدینہ کے حالات نے وہاں کے مسلمانوں کو انصارکی حیثیت دے دی۔ خدا کی رضامندی اور اس کی جنت کسی آدمی کو یا تو مہاجر بننے کی قیمت پر ملتی ہے یا انصار بننے کی قیمت پر۔ یا تو وہ خدا کے ليے اتنا یکسو ہوکہ دنیا کے سرے اس سے چھوٹ جائیں ۔ یا اگر وہ اپنے کو صاحب وسائل پاتا ہے تو اپنے وسائل کے ذریعہ وہ اول الذکر گروہ کی محرومی کا بدل بن جائے۔ دورِ اول کے مسلمان (صحابہ کرام) اس ہجرت ونصرت کاکامل نمونہ تھے۔ بعد کے مسلمانوں میں جو لوگ اس ہجرت ونصرت کے معاملہ میں اپنے پیش روؤں کی تقلید کریں گے وہ بالتبع اس مقدس خدائی گروہ میں شامل ہوتے چلے جائیں گے۔ خدا کچھ لوگوں کومحروم کرتا ہے تاکہ ان کے اندر اِنابت کا جذبہ ابھرے اسی طرح خدا کچھ لوگوں کو محرومی سے بچاتاہے تاکہ وہ محروموں کی مدد کرکے خدا کے ليے خرچ کرنے والے بنیں ۔ یہ خدا کا منصوبہ ہے۔ جو لوگ اس کا ثبوت نہ دیں ، وہ ایسے لوگ ہیں ، جو خدا کے منصوبہ پر راضی نہ ہوئے۔ اس ليے خدا بھی آخرت کے دن ان سے راضی نہ ہوگا۔ ’’وہ اللہ سے راضی ہوگئے‘‘ یعنی جس کو اللہ نے ایسے حالات میں اٹھایا کہ اس کو سب کچھ چھوڑنے کی قیمت پر دین کو اختیار کرنا پڑا تو وہ اس میں ثابت قدم رہا۔ اسی طرح جس کے حالات کا تقاضا یہ ہوا کہ وہ اپنے اثاثہ میں ایسے دینی بھائیوں کو شریک کرے جن سے اس کا تعلق صرف مقصد کا ہے، نہ کہ رشتہ داری کا تو وہ بھی اس پر راضی ہوگیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے اللہ کی خوشی حاصل کی اور یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے ابدی باغوں میں داخل كيے جائیں گے۔ منافق وہ ہے جو مسلمان ہونے کا دعوی کرے مگر جب ہجرت اور نصرت کی قیمت پر دین دار بننے کا سوال ہو تو اس کے ليے اپنے کو راضی نہ کرسکے۔

وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی طبیعتوں میں اگرچہ شر نہیں ہوتا۔ وہ معمول والے دینی اعمال بھی کرتے رہتے ہیں ۔ مگر جب دین کا کوئی ایسا تقاضا سامنے آتاہے جس میں اپنے بنے ہوئے نقشہ کو توڑ کر دین دار بننے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی زندگی اور مال کو اس طرح دین کے ليے نہیں دے پاتے جس طرح انھیں دینا چاہیے۔ قوتِ فیصلہ کی کمزوری یا دنیا میں ان کی مشغولیت ان کے ليے دین کی راہ میں اپنا حصہ ادا کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ایسے لوگ اگرچہ قصور وار ہوتے ہیں تاہم ان کا قصور اس وقت معاف کردیا جاتا ہے جب کہ یاد دہانی کے بعد وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دوبارہ دین کی طرف لوٹ آئیں ۔ اعتراف اور شرمندگی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اندر از سرنو دینی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اپنے احساسِ گناہ کو دھونے کے ليے اپنے محبوب مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں پیش کریں ۔ جب ان کی طرف سے ایسا رد عمل ظاہر ہو تو پیغمبر کو تلقین کی گئی کہ اب انھیں ملامت نہ کرو بلکہ ان کو نفسیاتی سہارا دینے کی کوشش کرو۔ ان کو دعائیں دو تاکہ ان کے دل کا بوجھ دوبارہ ایمانی عزم و اعتماد میں تبدیل ہوجائے۔ خدا کے نزدیک اصل برائی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ غلطی پر قائم رہنا ہے۔ جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کی تاویلیں ڈھونڈنے لگے وہ برباد ہوگیااور جو شخص غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرلے وہ خداکے نزدیک قابل معافی ٹھہرا۔ غلطی کرنے کے بعد آدمی ہمیشہ دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ دوسرا یہ کہ وہ ڈھٹائی کرنے لگے، جو شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرلے اس کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، جو شخص ڈھٹائی کا طریقہ اختیار کرے وہ گویا خدا کے غضب کے راستہ پر چل پڑا۔ وہ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے کے ليے جھوٹی تاویلیں کرے گا۔ ایک غلطی کو نبھانے کے ليے وہ دوسری بہت سی غلطیاں کرتا چلا جائے گا۔ پہلے شخص کے ليے خدا کی رحمت ہے اور دوسرے شخص کے ليے خدا کی سزا۔

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی طبیعتوں میں اگرچہ شر نہیں ہوتا۔ وہ معمول والے دینی اعمال بھی کرتے رہتے ہیں ۔ مگر جب دین کا کوئی ایسا تقاضا سامنے آتاہے جس میں اپنے بنے ہوئے نقشہ کو توڑ کر دین دار بننے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی زندگی اور مال کو اس طرح دین کے ليے نہیں دے پاتے جس طرح انھیں دینا چاہیے۔ قوتِ فیصلہ کی کمزوری یا دنیا میں ان کی مشغولیت ان کے ليے دین کی راہ میں اپنا حصہ ادا کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ایسے لوگ اگرچہ قصور وار ہوتے ہیں تاہم ان کا قصور اس وقت معاف کردیا جاتا ہے جب کہ یاد دہانی کے بعد وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دوبارہ دین کی طرف لوٹ آئیں ۔ اعتراف اور شرمندگی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اندر از سرنو دینی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اپنے احساسِ گناہ کو دھونے کے ليے اپنے محبوب مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں پیش کریں ۔ جب ان کی طرف سے ایسا رد عمل ظاہر ہو تو پیغمبر کو تلقین کی گئی کہ اب انھیں ملامت نہ کرو بلکہ ان کو نفسیاتی سہارا دینے کی کوشش کرو۔ ان کو دعائیں دو تاکہ ان کے دل کا بوجھ دوبارہ ایمانی عزم و اعتماد میں تبدیل ہوجائے۔ خدا کے نزدیک اصل برائی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ غلطی پر قائم رہنا ہے۔ جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کی تاویلیں ڈھونڈنے لگے وہ برباد ہوگیااور جو شخص غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرلے وہ خداکے نزدیک قابل معافی ٹھہرا۔ غلطی کرنے کے بعد آدمی ہمیشہ دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ دوسرا یہ کہ وہ ڈھٹائی کرنے لگے، جو شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرلے اس کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، جو شخص ڈھٹائی کا طریقہ اختیار کرے وہ گویا خدا کے غضب کے راستہ پر چل پڑا۔ وہ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے کے ليے جھوٹی تاویلیں کرے گا۔ ایک غلطی کو نبھانے کے ليے وہ دوسری بہت سی غلطیاں کرتا چلا جائے گا۔ پہلے شخص کے ليے خدا کی رحمت ہے اور دوسرے شخص کے ليے خدا کی سزا۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

📘 کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی طبیعتوں میں اگرچہ شر نہیں ہوتا۔ وہ معمول والے دینی اعمال بھی کرتے رہتے ہیں ۔ مگر جب دین کا کوئی ایسا تقاضا سامنے آتاہے جس میں اپنے بنے ہوئے نقشہ کو توڑ کر دین دار بننے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی زندگی اور مال کو اس طرح دین کے ليے نہیں دے پاتے جس طرح انھیں دینا چاہیے۔ قوتِ فیصلہ کی کمزوری یا دنیا میں ان کی مشغولیت ان کے ليے دین کی راہ میں اپنا حصہ ادا کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ایسے لوگ اگرچہ قصور وار ہوتے ہیں تاہم ان کا قصور اس وقت معاف کردیا جاتا ہے جب کہ یاد دہانی کے بعد وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دوبارہ دین کی طرف لوٹ آئیں ۔ اعتراف اور شرمندگی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اندر از سرنو دینی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اپنے احساسِ گناہ کو دھونے کے ليے اپنے محبوب مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں پیش کریں ۔ جب ان کی طرف سے ایسا رد عمل ظاہر ہو تو پیغمبر کو تلقین کی گئی کہ اب انھیں ملامت نہ کرو بلکہ ان کو نفسیاتی سہارا دینے کی کوشش کرو۔ ان کو دعائیں دو تاکہ ان کے دل کا بوجھ دوبارہ ایمانی عزم و اعتماد میں تبدیل ہوجائے۔ خدا کے نزدیک اصل برائی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ غلطی پر قائم رہنا ہے۔ جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کی تاویلیں ڈھونڈنے لگے وہ برباد ہوگیااور جو شخص غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرلے وہ خداکے نزدیک قابل معافی ٹھہرا۔ غلطی کرنے کے بعد آدمی ہمیشہ دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ دوسرا یہ کہ وہ ڈھٹائی کرنے لگے، جو شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرلے اس کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، جو شخص ڈھٹائی کا طریقہ اختیار کرے وہ گویا خدا کے غضب کے راستہ پر چل پڑا۔ وہ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے کے ليے جھوٹی تاویلیں کرے گا۔ ایک غلطی کو نبھانے کے ليے وہ دوسری بہت سی غلطیاں کرتا چلا جائے گا۔ پہلے شخص کے ليے خدا کی رحمت ہے اور دوسرے شخص کے ليے خدا کی سزا۔

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی طبیعتوں میں اگرچہ شر نہیں ہوتا۔ وہ معمول والے دینی اعمال بھی کرتے رہتے ہیں ۔ مگر جب دین کا کوئی ایسا تقاضا سامنے آتاہے جس میں اپنے بنے ہوئے نقشہ کو توڑ کر دین دار بننے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی زندگی اور مال کو اس طرح دین کے ليے نہیں دے پاتے جس طرح انھیں دینا چاہیے۔ قوتِ فیصلہ کی کمزوری یا دنیا میں ان کی مشغولیت ان کے ليے دین کی راہ میں اپنا حصہ ادا کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ایسے لوگ اگرچہ قصور وار ہوتے ہیں تاہم ان کا قصور اس وقت معاف کردیا جاتا ہے جب کہ یاد دہانی کے بعد وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دوبارہ دین کی طرف لوٹ آئیں ۔ اعتراف اور شرمندگی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اندر از سرنو دینی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اپنے احساسِ گناہ کو دھونے کے ليے اپنے محبوب مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں پیش کریں ۔ جب ان کی طرف سے ایسا رد عمل ظاہر ہو تو پیغمبر کو تلقین کی گئی کہ اب انھیں ملامت نہ کرو بلکہ ان کو نفسیاتی سہارا دینے کی کوشش کرو۔ ان کو دعائیں دو تاکہ ان کے دل کا بوجھ دوبارہ ایمانی عزم و اعتماد میں تبدیل ہوجائے۔ خدا کے نزدیک اصل برائی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ غلطی پر قائم رہنا ہے۔ جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کی تاویلیں ڈھونڈنے لگے وہ برباد ہوگیااور جو شخص غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرلے وہ خداکے نزدیک قابل معافی ٹھہرا۔ غلطی کرنے کے بعد آدمی ہمیشہ دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ دوسرا یہ کہ وہ ڈھٹائی کرنے لگے، جو شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرلے اس کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، جو شخص ڈھٹائی کا طریقہ اختیار کرے وہ گویا خدا کے غضب کے راستہ پر چل پڑا۔ وہ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے کے ليے جھوٹی تاویلیں کرے گا۔ ایک غلطی کو نبھانے کے ليے وہ دوسری بہت سی غلطیاں کرتا چلا جائے گا۔ پہلے شخص کے ليے خدا کی رحمت ہے اور دوسرے شخص کے ليے خدا کی سزا۔

وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 کچھ ایسے لوگ ہیں جن کی طبیعتوں میں اگرچہ شر نہیں ہوتا۔ وہ معمول والے دینی اعمال بھی کرتے رہتے ہیں ۔ مگر جب دین کا کوئی ایسا تقاضا سامنے آتاہے جس میں اپنے بنے ہوئے نقشہ کو توڑ کر دین دار بننے کی ضرورت ہو تو وہ اپنی زندگی اور مال کو اس طرح دین کے ليے نہیں دے پاتے جس طرح انھیں دینا چاہیے۔ قوتِ فیصلہ کی کمزوری یا دنیا میں ان کی مشغولیت ان کے ليے دین کی راہ میں اپنا حصہ ادا کرنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ایسے لوگ اگرچہ قصور وار ہوتے ہیں تاہم ان کا قصور اس وقت معاف کردیا جاتا ہے جب کہ یاد دہانی کے بعد وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلیں اور شرمندگی کے احساس کے ساتھ دوبارہ دین کی طرف لوٹ آئیں ۔ اعتراف اور شرمندگی کا ثبوت یہ ہے کہ ان کے اندر از سرنو دینی خدمت کا جذبہ پیدا ہو۔ وہ اپنے احساسِ گناہ کو دھونے کے ليے اپنے محبوب مال کا ایک حصہ خدا کی راہ میں پیش کریں ۔ جب ان کی طرف سے ایسا رد عمل ظاہر ہو تو پیغمبر کو تلقین کی گئی کہ اب انھیں ملامت نہ کرو بلکہ ان کو نفسیاتی سہارا دینے کی کوشش کرو۔ ان کو دعائیں دو تاکہ ان کے دل کا بوجھ دوبارہ ایمانی عزم و اعتماد میں تبدیل ہوجائے۔ خدا کے نزدیک اصل برائی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ غلطی پر قائم رہنا ہے۔ جو آدمی غلطی کرنے کے بعد اس کی تاویلیں ڈھونڈنے لگے وہ برباد ہوگیااور جو شخص غلطی کا اعتراف کرکے اپنی اصلاح کرلے وہ خداکے نزدیک قابل معافی ٹھہرا۔ غلطی کرنے کے بعد آدمی ہمیشہ دو امکانات کے درمیان ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ دوسرا یہ کہ وہ ڈھٹائی کرنے لگے، جو شخص اپنی غلطی کا اعتراف کرلے اس کے اندر تواضع پیدا ہوتی ہے۔ وہ دوبارہ خدا کی رحمتوں کا مستحق بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، جو شخص ڈھٹائی کا طریقہ اختیار کرے وہ گویا خدا کے غضب کے راستہ پر چل پڑا۔ وہ اپنے کو بے خطا ثابت کرنے کے ليے جھوٹی تاویلیں کرے گا۔ ایک غلطی کو نبھانے کے ليے وہ دوسری بہت سی غلطیاں کرتا چلا جائے گا۔ پہلے شخص کے ليے خدا کی رحمت ہے اور دوسرے شخص کے ليے خدا کی سزا۔

وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 زندگی کی تعمیر کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک تقویٰ، دوسرے ظلم۔ پہلی صورت یہ ہے کہ خدا کے ڈر کی بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے۔ آدمی کی تمام سرگرمیاں جس فکر کےما تحت چل رہی ہوں وہ فکر یہ ہو کہ اس کو اپنے تمام قول وفعل کا حساب ایک ایسی ہستی کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے سے باخبر ہے ا ور ہر ایک کو اس کے حقیقی کارناموں کے مطابق جزا یا سزا دینے والا ہے۔ ایسا شخص گویا مضبوط چٹان پر اپنی عمارت کھڑی کررہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس قسم کے اندیشہ سے خالی ہو۔ وہ دنیا میں بالکل بے قید زندگی گزارے۔ وہ کسی پابندی کو قبول كيے بغیر جو چاہے بولے اور جو چاہے کرے۔ ایسے شخص کی زندگی کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ایسی کھائی کے کنارے اٹھا دی گئی ہو جو بس گرنے ہی والی ہو اور اچانک ایک روز اس کا مکان اپنے مکینوں سمیت گہرے کھڈ میں گر پڑے۔ جو لوگ ظلم کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ان کے جرائم میں سب سے زیادہ سخت جرم وہ ہے جس کی مثال مدینہ میں مسجد ضرار کی صورت میں سامنے آئی۔ اس وقت مدینہ میں دو مسجدیں تھیں ۔ ایک آبادی کے اندرمسجد نبوی۔ دوسری مضافات میں مسجد قبا۔ منافق مسلمانوں نے اس کے توڑ پر ایک تیسری مسجد تعمیر کرلی۔ اس قسم کی کارروائی بظاہراگر چہ دین کے نام پر ہوتی ہے مگر حقیقۃً اس کا مقصد ہوتا ہے اپنی قیادت اور پیشوائی کو قائم رکھنے کی خاطر دعوتِ حق کا مخالف بن جانا۔ جو لوگ اپنی خود پرستی کی وجہ سے دعوت حق کو قبول نہیں کرپاتے وہ اس کے خلاف محاذ بنا تے ہیں ، اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں ۔ ان کی منفی سرگرمیاں مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیتی ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے تخریبی عمل کو دین کے نام پر کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مسلّمہ دینی شخصیتوں کو اپنے اسٹیج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں انھیں اعتماد حاصل ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اندھی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ حق کی مخالفت دراصل خدا کی مخالفت ہے جو خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایسے لوگوں کے ليے جو چیز مقدر ہے وہ صرف یہ کہ وہ حسرت وافسوس کے ساتھ مریں اور اللہ کی رحمتوں سے ہمیشہ کے ليے محروم ہوجائیں ۔

لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا ۚ لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَىٰ مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ ۚ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ

📘 زندگی کی تعمیر کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک تقویٰ، دوسرے ظلم۔ پہلی صورت یہ ہے کہ خدا کے ڈر کی بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے۔ آدمی کی تمام سرگرمیاں جس فکر کےما تحت چل رہی ہوں وہ فکر یہ ہو کہ اس کو اپنے تمام قول وفعل کا حساب ایک ایسی ہستی کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے سے باخبر ہے ا ور ہر ایک کو اس کے حقیقی کارناموں کے مطابق جزا یا سزا دینے والا ہے۔ ایسا شخص گویا مضبوط چٹان پر اپنی عمارت کھڑی کررہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس قسم کے اندیشہ سے خالی ہو۔ وہ دنیا میں بالکل بے قید زندگی گزارے۔ وہ کسی پابندی کو قبول كيے بغیر جو چاہے بولے اور جو چاہے کرے۔ ایسے شخص کی زندگی کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ایسی کھائی کے کنارے اٹھا دی گئی ہو جو بس گرنے ہی والی ہو اور اچانک ایک روز اس کا مکان اپنے مکینوں سمیت گہرے کھڈ میں گر پڑے۔ جو لوگ ظلم کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ان کے جرائم میں سب سے زیادہ سخت جرم وہ ہے جس کی مثال مدینہ میں مسجد ضرار کی صورت میں سامنے آئی۔ اس وقت مدینہ میں دو مسجدیں تھیں ۔ ایک آبادی کے اندرمسجد نبوی۔ دوسری مضافات میں مسجد قبا۔ منافق مسلمانوں نے اس کے توڑ پر ایک تیسری مسجد تعمیر کرلی۔ اس قسم کی کارروائی بظاہراگر چہ دین کے نام پر ہوتی ہے مگر حقیقۃً اس کا مقصد ہوتا ہے اپنی قیادت اور پیشوائی کو قائم رکھنے کی خاطر دعوتِ حق کا مخالف بن جانا۔ جو لوگ اپنی خود پرستی کی وجہ سے دعوت حق کو قبول نہیں کرپاتے وہ اس کے خلاف محاذ بنا تے ہیں ، اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں ۔ ان کی منفی سرگرمیاں مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیتی ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے تخریبی عمل کو دین کے نام پر کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مسلّمہ دینی شخصیتوں کو اپنے اسٹیج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں انھیں اعتماد حاصل ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اندھی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ حق کی مخالفت دراصل خدا کی مخالفت ہے جو خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایسے لوگوں کے ليے جو چیز مقدر ہے وہ صرف یہ کہ وہ حسرت وافسوس کے ساتھ مریں اور اللہ کی رحمتوں سے ہمیشہ کے ليے محروم ہوجائیں ۔

أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ تَقْوَىٰ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَىٰ شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 زندگی کی تعمیر کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک تقویٰ، دوسرے ظلم۔ پہلی صورت یہ ہے کہ خدا کے ڈر کی بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے۔ آدمی کی تمام سرگرمیاں جس فکر کےما تحت چل رہی ہوں وہ فکر یہ ہو کہ اس کو اپنے تمام قول وفعل کا حساب ایک ایسی ہستی کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے سے باخبر ہے ا ور ہر ایک کو اس کے حقیقی کارناموں کے مطابق جزا یا سزا دینے والا ہے۔ ایسا شخص گویا مضبوط چٹان پر اپنی عمارت کھڑی کررہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس قسم کے اندیشہ سے خالی ہو۔ وہ دنیا میں بالکل بے قید زندگی گزارے۔ وہ کسی پابندی کو قبول كيے بغیر جو چاہے بولے اور جو چاہے کرے۔ ایسے شخص کی زندگی کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ایسی کھائی کے کنارے اٹھا دی گئی ہو جو بس گرنے ہی والی ہو اور اچانک ایک روز اس کا مکان اپنے مکینوں سمیت گہرے کھڈ میں گر پڑے۔ جو لوگ ظلم کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ان کے جرائم میں سب سے زیادہ سخت جرم وہ ہے جس کی مثال مدینہ میں مسجد ضرار کی صورت میں سامنے آئی۔ اس وقت مدینہ میں دو مسجدیں تھیں ۔ ایک آبادی کے اندرمسجد نبوی۔ دوسری مضافات میں مسجد قبا۔ منافق مسلمانوں نے اس کے توڑ پر ایک تیسری مسجد تعمیر کرلی۔ اس قسم کی کارروائی بظاہراگر چہ دین کے نام پر ہوتی ہے مگر حقیقۃً اس کا مقصد ہوتا ہے اپنی قیادت اور پیشوائی کو قائم رکھنے کی خاطر دعوتِ حق کا مخالف بن جانا۔ جو لوگ اپنی خود پرستی کی وجہ سے دعوت حق کو قبول نہیں کرپاتے وہ اس کے خلاف محاذ بنا تے ہیں ، اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں ۔ ان کی منفی سرگرمیاں مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیتی ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے تخریبی عمل کو دین کے نام پر کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مسلّمہ دینی شخصیتوں کو اپنے اسٹیج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں انھیں اعتماد حاصل ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اندھی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ حق کی مخالفت دراصل خدا کی مخالفت ہے جو خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایسے لوگوں کے ليے جو چیز مقدر ہے وہ صرف یہ کہ وہ حسرت وافسوس کے ساتھ مریں اور اللہ کی رحمتوں سے ہمیشہ کے ليے محروم ہوجائیں ۔

فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

📘 مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرليے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ’’دشمن‘‘ سے یہ معاہدہ انھوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم ازکم انھیں بدنام کریں ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے ليے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔ یہ قریش کا حال تھا ،جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظرآتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنو کنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے مسلمانوں سے معاہدے كيے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیاگیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیوں کہ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی سے اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے ليے تیار ہوجائیں ۔ معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے— رشتہ داری یا قول وقرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور جن سے قول وقرار ہوچکا ہے ان سے قول وقرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول وقرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں ۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کریں اور سرکشی سے باز آئیں ۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برارہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 زندگی کی تعمیر کی دو بنیادیں ہیں ۔ ایک تقویٰ، دوسرے ظلم۔ پہلی صورت یہ ہے کہ خدا کے ڈر کی بنیاد پر زندگی کی عمارت اٹھائی جائے۔ آدمی کی تمام سرگرمیاں جس فکر کےما تحت چل رہی ہوں وہ فکر یہ ہو کہ اس کو اپنے تمام قول وفعل کا حساب ایک ایسی ہستی کو دینا ہے جو کھلے اور چھپے سے باخبر ہے ا ور ہر ایک کو اس کے حقیقی کارناموں کے مطابق جزا یا سزا دینے والا ہے۔ ایسا شخص گویا مضبوط چٹان پر اپنی عمارت کھڑی کررہا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اس قسم کے اندیشہ سے خالی ہو۔ وہ دنیا میں بالکل بے قید زندگی گزارے۔ وہ کسی پابندی کو قبول كيے بغیر جو چاہے بولے اور جو چاہے کرے۔ ایسے شخص کی زندگی کی مثال اس عمارت کی سی ہے جو ایسی کھائی کے کنارے اٹھا دی گئی ہو جو بس گرنے ہی والی ہو اور اچانک ایک روز اس کا مکان اپنے مکینوں سمیت گہرے کھڈ میں گر پڑے۔ جو لوگ ظلم کی بنیاد پر اپنی زندگی کی عمارت اٹھاتے ہیں ان کے جرائم میں سب سے زیادہ سخت جرم وہ ہے جس کی مثال مدینہ میں مسجد ضرار کی صورت میں سامنے آئی۔ اس وقت مدینہ میں دو مسجدیں تھیں ۔ ایک آبادی کے اندرمسجد نبوی۔ دوسری مضافات میں مسجد قبا۔ منافق مسلمانوں نے اس کے توڑ پر ایک تیسری مسجد تعمیر کرلی۔ اس قسم کی کارروائی بظاہراگر چہ دین کے نام پر ہوتی ہے مگر حقیقۃً اس کا مقصد ہوتا ہے اپنی قیادت اور پیشوائی کو قائم رکھنے کی خاطر دعوتِ حق کا مخالف بن جانا۔ جو لوگ اپنی خود پرستی کی وجہ سے دعوت حق کو قبول نہیں کرپاتے وہ اس کے خلاف محاذ بنا تے ہیں ، اس کے خلاف تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں ۔ ان کی منفی سرگرمیاں مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹ دیتی ہیں ۔ ایسے لوگ اپنے تخریبی عمل کو دین کے نام پر کرتے ہیں ۔ حتی کہ وہ مسلّمہ دینی شخصیتوں کو اپنے اسٹیج پر لانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی نظر میں انھیں اعتماد حاصل ہوجائے۔ یہ لوگ اپنی اندھی دشمنی میں بھول جاتے ہیں کہ حق کی مخالفت دراصل خدا کی مخالفت ہے جو خدا کی دنیا میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ایسے لوگوں کے ليے جو چیز مقدر ہے وہ صرف یہ کہ وہ حسرت وافسوس کے ساتھ مریں اور اللہ کی رحمتوں سے ہمیشہ کے ليے محروم ہوجائیں ۔

۞ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 اللہ کا مومن بننا اللہ کے ہاتھ اپنے آپ کو بیچ دینا ہے۔ بندہ اپنا مال اور اپنی زندگی اللہ کو دیتا ہے تاکہ اللہ اس کے بدلے میں اپنی جنت اسے دے دے۔ یہ دراصل حوالگی اور سپردگی کی تعبیر ہے۔ کسی بھی چیز سے حقیقی تعلق ہمیشہ حوالگی اور سپردگی کی سطح پر ہوتا ہے۔ تعلق کا یہی درجہ اللہ کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ جنت کی ابدی نعمتیں کسی کو کامل حوالگی کے بغیر نہیں مل سکتیں ۔ جب آدمی خدا کے دین کو اس طرح اختیار کرتاہے تو دین کا معاملہ اس کے لیے کوئی علیٰحدہ معاملہ نہیں رہتا۔ بلکہ وہ اس کا ذاتی معاملہ بن جاتاہے۔ اب وہی اس کی دلچسپیوں اور اس کے اندیشوں کا مرکز ہوتا ہے۔ دین اگر مال کا تقاضا کرے تو وہ اپنا مال اس کے ليے حاضر کردیتاہے۔ دین کے ليے اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو وقف کرنا پڑے تو وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو اس کے ليے پیش کردیتا ہے۔ حتی کہ اگر وہ مرحلہ آجائے جب کہ اپنے وجود کو مٹا کر یا مال سے بے مال ہونے کا خطرہ مول لے کر دین میں اپنا حصہ ادا کرنا ہو تو اس سے بھی وہ دریغ نہیں کرتا۔ جو لوگ اس طرح اپنے کو اللہ کے حوالے کریں ان کے اندر کس قسم کے انفرادی اوصاف پیداہوتے ہیں ۔ ان کی حساسیت اتنی بيدار ہوجاتی ہے کہ غلطی ہوتے ہی وہ اس کو جان لیتے ہیں اور فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتے ہیں ۔ وہ اللہ کے لیے بچھ جانے والے ہوتے ہیں ۔ وہ خدا کی عظمتوں کو اس طرح پالیتے ہیں کہ ان کے قلب اور زبان سے بے اختیار اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ وہ سائح ہوجاتے ہیں ، یعنی انسانی دنیا سے نکل کر خدائی دنیا میں جانا ان کے لیے زیادہ سکون کا باعث ہوتاہے۔ خدا کے آگے جھکنا ان کے ليے محبوب چیز بن جاتا ہے۔ جو بھی ان کے ربط میں آتا ہے اس کو بھلائی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنے سامنے کسی کو برائی کرتے دیکھتے ہیں تو اس کو روکنے کے ليے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وہ خدا کی حد بندیوں کے معاملہ میں حد درجہ چوکنا ہوجاتے ہیں ، وہ حدود اللہ کے اس طرح نگہبان بن جاتے ہیں جس طرح باغباں اپنے باغ کا— یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدائی انعامات کی خوش خبری ہے۔ خدا کی جنت تمام قیمتی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر خدا کی جنت ایک موعود انعام ہے، وہ نقد انعام نہیں ۔ جنت کی اسی موجل نوعیت کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ جنت کو چھوڑ کر حقیر فائدوں کی طرف بھاگے جارہے ہیں ۔

التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ

📘 اللہ کا مومن بننا اللہ کے ہاتھ اپنے آپ کو بیچ دینا ہے۔ بندہ اپنا مال اور اپنی زندگی اللہ کو دیتا ہے تاکہ اللہ اس کے بدلے میں اپنی جنت اسے دے دے۔ یہ دراصل حوالگی اور سپردگی کی تعبیر ہے۔ کسی بھی چیز سے حقیقی تعلق ہمیشہ حوالگی اور سپردگی کی سطح پر ہوتا ہے۔ تعلق کا یہی درجہ اللہ کے معاملہ میں بھی مطلوب ہے۔ جنت کی ابدی نعمتیں کسی کو کامل حوالگی کے بغیر نہیں مل سکتیں ۔ جب آدمی خدا کے دین کو اس طرح اختیار کرتاہے تو دین کا معاملہ اس کے لیے کوئی علیٰحدہ معاملہ نہیں رہتا۔ بلکہ وہ اس کا ذاتی معاملہ بن جاتاہے۔ اب وہی اس کی دلچسپیوں اور اس کے اندیشوں کا مرکز ہوتا ہے۔ دین اگر مال کا تقاضا کرے تو وہ اپنا مال اس کے ليے حاضر کردیتاہے۔ دین کے ليے اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو وقف کرنا پڑے تو وہ اپنے وقت اور اپنی صلاحیت کو اس کے ليے پیش کردیتا ہے۔ حتی کہ اگر وہ مرحلہ آجائے جب کہ اپنے وجود کو مٹا کر یا مال سے بے مال ہونے کا خطرہ مول لے کر دین میں اپنا حصہ ادا کرنا ہو تو اس سے بھی وہ دریغ نہیں کرتا۔ جو لوگ اس طرح اپنے کو اللہ کے حوالے کریں ان کے اندر کس قسم کے انفرادی اوصاف پیداہوتے ہیں ۔ ان کی حساسیت اتنی بيدار ہوجاتی ہے کہ غلطی ہوتے ہی وہ اس کو جان لیتے ہیں اور فوراً اپنی غلطی کا اعتراف کرلیتے ہیں ۔ وہ اللہ کے لیے بچھ جانے والے ہوتے ہیں ۔ وہ خدا کی عظمتوں کو اس طرح پالیتے ہیں کہ ان کے قلب اور زبان سے بے اختیار اس کا اظہار ہونے لگتا ہے۔ وہ سائح ہوجاتے ہیں ، یعنی انسانی دنیا سے نکل کر خدائی دنیا میں جانا ان کے لیے زیادہ سکون کا باعث ہوتاہے۔ خدا کے آگے جھکنا ان کے ليے محبوب چیز بن جاتا ہے۔ جو بھی ان کے ربط میں آتا ہے اس کو بھلائی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اپنے سامنے کسی کو برائی کرتے دیکھتے ہیں تو اس کو روکنے کے ليے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ وہ خدا کی حد بندیوں کے معاملہ میں حد درجہ چوکنا ہوجاتے ہیں ، وہ حدود اللہ کے اس طرح نگہبان بن جاتے ہیں جس طرح باغباں اپنے باغ کا— یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدائی انعامات کی خوش خبری ہے۔ خدا کی جنت تمام قیمتی چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ مگر خدا کی جنت ایک موعود انعام ہے، وہ نقد انعام نہیں ۔ جنت کی اسی موجل نوعیت کا یہ نتیجہ ہے کہ لوگ جنت کو چھوڑ کر حقیر فائدوں کی طرف بھاگے جارہے ہیں ۔

مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ

📘 ایک شخص کافر ومشرک ہو اور اس کے سامنے اتمام حجت کی حد تک دین کی دعوت آجائے، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو خداکے قانون کے مطابق وہ جہنمی ہوجاتاہے۔ ایسے شخص کے ليے اس کے بعد نجات کی دعا کرنا گویا ایمان کو بے وقعت بنانا اور خدائی انصاف کی تردید کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی دعا سے منع کردیاگیا۔ تاہم آیت میں مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَکا لفظ بتاتا ہے کہ اس حکم کا تعلق زمانہ رسالت کے مشرکین سے ہے جن کے بارے میں وحی کے ذریعہ بتا دیاگیا تھا کہ وہ جہنمی ہیں ۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا نہ کریں (التوبہ، 9:84 ) یہ بات مدینہ کے منافقوں کو بہت ناگوار ہوئی۔ انھوں نے اس کو لے کر آپ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ وہ کہتے کہ یہ نبی تو نبی رحمت ہیں اور اپنے کو ابراہیم کا پیرو بتاتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور اپنے رشتہ داروں کے ليے استغفار سے روکتے ہیں ۔ حالاں کہ ابراہیم کا حال یہ تھا کہ اپنے مشرک باپ کے لیے بھی انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ جوا ب دیا گیا کہ ابراہیم بڑے درد مند اور انسانیت کے غم میں گھلنے والے تھے۔ اپنے اس جذبہ کے تحت انھوں نے عہد کرلیاکہ وہ اپنے مشرک باپ کے حق میں خدا سے دعا کریں گے۔ مگر جب وحی نے تنبیہ کی تو اس کے بعد وہ فوراً اس سے باز آگئے۔ اللہ نے ہر آدمی کی اند ربرائی کی فطری تمیز رکھی ہے۔ جب آدمی کے سامنے ایک ایسا پیغام آتاہے جو اس کو برائی سے روکتا ہے تو اس کا وجود اندر سے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے دل کے اندر ایک خاموش کھٹک پیداہوتی ہے۔ آدمی اگر اس کھٹک کو نظر انداز کردے، وہ فطرت کی گواہی کے باوجود بچنے والی چیز سے نہ بچے تو اس کی فطری حساسیت کمزور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو گم راہ کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ’’ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرنا‘‘ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس کا خطرہ مسلمانوں کے ليے بھی اسی طرح ہے جس طرح غیر مسلموں کے ليے۔

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ

📘 ایک شخص کافر ومشرک ہو اور اس کے سامنے اتمام حجت کی حد تک دین کی دعوت آجائے، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو خداکے قانون کے مطابق وہ جہنمی ہوجاتاہے۔ ایسے شخص کے ليے اس کے بعد نجات کی دعا کرنا گویا ایمان کو بے وقعت بنانا اور خدائی انصاف کی تردید کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی دعا سے منع کردیاگیا۔ تاہم آیت میں مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَکا لفظ بتاتا ہے کہ اس حکم کا تعلق زمانہ رسالت کے مشرکین سے ہے جن کے بارے میں وحی کے ذریعہ بتا دیاگیا تھا کہ وہ جہنمی ہیں ۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا نہ کریں (التوبہ، 9:84 ) یہ بات مدینہ کے منافقوں کو بہت ناگوار ہوئی۔ انھوں نے اس کو لے کر آپ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ وہ کہتے کہ یہ نبی تو نبی رحمت ہیں اور اپنے کو ابراہیم کا پیرو بتاتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور اپنے رشتہ داروں کے ليے استغفار سے روکتے ہیں ۔ حالاں کہ ابراہیم کا حال یہ تھا کہ اپنے مشرک باپ کے لیے بھی انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ جوا ب دیا گیا کہ ابراہیم بڑے درد مند اور انسانیت کے غم میں گھلنے والے تھے۔ اپنے اس جذبہ کے تحت انھوں نے عہد کرلیاکہ وہ اپنے مشرک باپ کے حق میں خدا سے دعا کریں گے۔ مگر جب وحی نے تنبیہ کی تو اس کے بعد وہ فوراً اس سے باز آگئے۔ اللہ نے ہر آدمی کی اند ربرائی کی فطری تمیز رکھی ہے۔ جب آدمی کے سامنے ایک ایسا پیغام آتاہے جو اس کو برائی سے روکتا ہے تو اس کا وجود اندر سے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے دل کے اندر ایک خاموش کھٹک پیداہوتی ہے۔ آدمی اگر اس کھٹک کو نظر انداز کردے، وہ فطرت کی گواہی کے باوجود بچنے والی چیز سے نہ بچے تو اس کی فطری حساسیت کمزور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو گم راہ کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ’’ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرنا‘‘ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس کا خطرہ مسلمانوں کے ليے بھی اسی طرح ہے جس طرح غیر مسلموں کے ليے۔

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّىٰ يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

📘 ایک شخص کافر ومشرک ہو اور اس کے سامنے اتمام حجت کی حد تک دین کی دعوت آجائے، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو خداکے قانون کے مطابق وہ جہنمی ہوجاتاہے۔ ایسے شخص کے ليے اس کے بعد نجات کی دعا کرنا گویا ایمان کو بے وقعت بنانا اور خدائی انصاف کی تردید کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی دعا سے منع کردیاگیا۔ تاہم آیت میں مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَکا لفظ بتاتا ہے کہ اس حکم کا تعلق زمانہ رسالت کے مشرکین سے ہے جن کے بارے میں وحی کے ذریعہ بتا دیاگیا تھا کہ وہ جہنمی ہیں ۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا نہ کریں (التوبہ، 9:84 ) یہ بات مدینہ کے منافقوں کو بہت ناگوار ہوئی۔ انھوں نے اس کو لے کر آپ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ وہ کہتے کہ یہ نبی تو نبی رحمت ہیں اور اپنے کو ابراہیم کا پیرو بتاتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور اپنے رشتہ داروں کے ليے استغفار سے روکتے ہیں ۔ حالاں کہ ابراہیم کا حال یہ تھا کہ اپنے مشرک باپ کے لیے بھی انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ جوا ب دیا گیا کہ ابراہیم بڑے درد مند اور انسانیت کے غم میں گھلنے والے تھے۔ اپنے اس جذبہ کے تحت انھوں نے عہد کرلیاکہ وہ اپنے مشرک باپ کے حق میں خدا سے دعا کریں گے۔ مگر جب وحی نے تنبیہ کی تو اس کے بعد وہ فوراً اس سے باز آگئے۔ اللہ نے ہر آدمی کی اند ربرائی کی فطری تمیز رکھی ہے۔ جب آدمی کے سامنے ایک ایسا پیغام آتاہے جو اس کو برائی سے روکتا ہے تو اس کا وجود اندر سے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے دل کے اندر ایک خاموش کھٹک پیداہوتی ہے۔ آدمی اگر اس کھٹک کو نظر انداز کردے، وہ فطرت کی گواہی کے باوجود بچنے والی چیز سے نہ بچے تو اس کی فطری حساسیت کمزور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو گم راہ کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ’’ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرنا‘‘ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس کا خطرہ مسلمانوں کے ليے بھی اسی طرح ہے جس طرح غیر مسلموں کے ليے۔

إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۚ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 ایک شخص کافر ومشرک ہو اور اس کے سامنے اتمام حجت کی حد تک دین کی دعوت آجائے، اس کے باوجود وہ ایمان نہ لائے تو خداکے قانون کے مطابق وہ جہنمی ہوجاتاہے۔ ایسے شخص کے ليے اس کے بعد نجات کی دعا کرنا گویا ایمان کو بے وقعت بنانا اور خدائی انصاف کی تردید کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایسی دعا سے منع کردیاگیا۔ تاہم آیت میں مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَکا لفظ بتاتا ہے کہ اس حکم کا تعلق زمانہ رسالت کے مشرکین سے ہے جن کے بارے میں وحی کے ذریعہ بتا دیاگیا تھا کہ وہ جہنمی ہیں ۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ منافقین کی نماز جنازہ نہ پڑھیں اور ان کے حق میں مغفرت کی دعا نہ کریں (التوبہ، 9:84 ) یہ بات مدینہ کے منافقوں کو بہت ناگوار ہوئی۔ انھوں نے اس کو لے کر آپ کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ وہ کہتے کہ یہ نبی تو نبی رحمت ہیں اور اپنے کو ابراہیم کا پیرو بتاتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور اپنے رشتہ داروں کے ليے استغفار سے روکتے ہیں ۔ حالاں کہ ابراہیم کا حال یہ تھا کہ اپنے مشرک باپ کے لیے بھی انھوں نے مغفرت کی دعا کی۔ جوا ب دیا گیا کہ ابراہیم بڑے درد مند اور انسانیت کے غم میں گھلنے والے تھے۔ اپنے اس جذبہ کے تحت انھوں نے عہد کرلیاکہ وہ اپنے مشرک باپ کے حق میں خدا سے دعا کریں گے۔ مگر جب وحی نے تنبیہ کی تو اس کے بعد وہ فوراً اس سے باز آگئے۔ اللہ نے ہر آدمی کی اند ربرائی کی فطری تمیز رکھی ہے۔ جب آدمی کے سامنے ایک ایسا پیغام آتاہے جو اس کو برائی سے روکتا ہے تو اس کا وجود اندر سے اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کے دل کے اندر ایک خاموش کھٹک پیداہوتی ہے۔ آدمی اگر اس کھٹک کو نظر انداز کردے، وہ فطرت کی گواہی کے باوجود بچنے والی چیز سے نہ بچے تو اس کی فطری حساسیت کمزور پڑ جاتی ہے، یہاں تک کہ دھیرے دھیرے بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو گم راہ کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔ ’’ہدایت دینے کے بعد گمراہ کرنا‘‘ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس کا خطرہ مسلمانوں کے ليے بھی اسی طرح ہے جس طرح غیر مسلموں کے ليے۔

لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک گروہ وہ نکلا جس نے اپنا بہترین اثاثہ اسلام کے حوالے کردیا۔ ان کی فصل کٹنے کے ليے تیار تھی مگر وہ اس کو چھوڑ کر ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگئے جس میں سخت گرمی کے تین سو میل طے کرکے وقت کی سب سے بڑی طاقت ورسلطنت کا مقابلہ کرنا تھا۔ سامان کی کمی کا یہ حال تھا کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمیوں کی باری لگی ہوئی تھی۔کھانے کے ليے بعض اوقات صرف ایک کھجور ایک آدمی کے حصہ میں آتی تھی۔ تاہم یہ انتہائی سخت مرحلہ صرف ارادوں کے امتحان کے ليے سامنے لایا گیا تھا۔ جب ارادہ کرنے والوں نے ارادہ کا ثبوت دے دیا تو خدا نے دشمن کے اوپر رعب طاری کردیا۔ وہ مقابلہ کے میدان سے ہٹ گئے اور مسلمان خون بہائے بغیر کامیاب وکامراں ہو کر واپس آگئے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2769) دوسرا طبقہ معترفین (التوبہ، 9:102 ) کا تھا۔ یہ لوگ اپنے دنیوی مشاغل کی وجہ سے سفر پر روانہ نہ ہوسکے۔ تاہم فوراً ہی بعد ان کو محسوس ہوگیا کہ انھوں نے غلطی کی ہے۔ ان کے اندر اعتراف اور شرمندگی کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کے آنسوؤں کی کثرت نے ان کے عمل کی کمی کی تلافی کردی۔ خدا نے ان کو بھی اپنی رحمتوں کے سایہ میں جگہ دے دی۔ کیوں کہ انھوں نے عاجزانہ طورپر اپنی غلطی کو مان لیا۔ تیسرا گروہ مخلّفین(التوبہ، 9:118 ) کا تھا۔ یہ تین نوجوان کعب بن مالک، مرارۃ بن رُبیع، ہلال بن اُمیۃ تھے۔ وہ اگرچہ سفر پر نہ نکلنے کو اپنی کوتاہی سمجھتے تھے مگر ان کے اندر توبہ و انابت کا اتنا شدید احساس پہلے مرحلہ میں نہیں ابھرا تھا جو مطلوبہ معیار کے مطابق ہو۔ چنانچہ ان کے ساتھ معاشرتی بائیکاٹ کا معاملہ کیاگیا۔ یہ لوگ اس مقاطعہ کے باوجود مطمئن رہ سکتے تھے۔ وہ اپنے گھر اور اپنے باغوں میں مشغول ہوجاتے۔ وہ برہمی اور ناوفاداری کے راستوں پر چلنا شروع کردیتے۔ وہ ناراض عناصر کے ساتھ مل کر اپنی علیحدہ جمعیت بنالیتے۔ وہ عام مسلمانوں سے الگ اپنا ایک جزیرہ بنا کر اس کے اندر اپنی خوشیوں کی دنیا بسا سکتے تھے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ خدا و رسول سے دوری کے احساس نے ان کو اس قدر پریشان کردیا کہ نہ باہر ان کے ليے سکون کی کوئی جگہ نظر آئی اور نہ اپنے دل کے اندر ان کے ليے سکون کا کوئی گوشہ باقی رہا۔ با الفاظ دیگر ان کی پریشانی اختیارانہ تھی، نہ کہ مجبورانہ۔ ان کی اس روش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا دل پگھل اٹھا۔ 50 دن میں وہ توبہ وانابت کے مطلوبہ معیار پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد انھیں بھی معاف کردیاگیا۔

وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّىٰ إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

📘 غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک گروہ وہ نکلا جس نے اپنا بہترین اثاثہ اسلام کے حوالے کردیا۔ ان کی فصل کٹنے کے ليے تیار تھی مگر وہ اس کو چھوڑ کر ایک ایسے سفر پر روانہ ہوگئے جس میں سخت گرمی کے تین سو میل طے کرکے وقت کی سب سے بڑی طاقت ورسلطنت کا مقابلہ کرنا تھا۔ سامان کی کمی کا یہ حال تھا کہ ایک ایک اونٹ پر کئی کئی آدمیوں کی باری لگی ہوئی تھی۔کھانے کے ليے بعض اوقات صرف ایک کھجور ایک آدمی کے حصہ میں آتی تھی۔ تاہم یہ انتہائی سخت مرحلہ صرف ارادوں کے امتحان کے ليے سامنے لایا گیا تھا۔ جب ارادہ کرنے والوں نے ارادہ کا ثبوت دے دیا تو خدا نے دشمن کے اوپر رعب طاری کردیا۔ وہ مقابلہ کے میدان سے ہٹ گئے اور مسلمان خون بہائے بغیر کامیاب وکامراں ہو کر واپس آگئے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2769) دوسرا طبقہ معترفین (التوبہ، 9:102 ) کا تھا۔ یہ لوگ اپنے دنیوی مشاغل کی وجہ سے سفر پر روانہ نہ ہوسکے۔ تاہم فوراً ہی بعد ان کو محسوس ہوگیا کہ انھوں نے غلطی کی ہے۔ ان کے اندر اعتراف اور شرمندگی کی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کے آنسوؤں کی کثرت نے ان کے عمل کی کمی کی تلافی کردی۔ خدا نے ان کو بھی اپنی رحمتوں کے سایہ میں جگہ دے دی۔ کیوں کہ انھوں نے عاجزانہ طورپر اپنی غلطی کو مان لیا۔ تیسرا گروہ مخلّفین(التوبہ، 9:118 ) کا تھا۔ یہ تین نوجوان کعب بن مالک، مرارۃ بن رُبیع، ہلال بن اُمیۃ تھے۔ وہ اگرچہ سفر پر نہ نکلنے کو اپنی کوتاہی سمجھتے تھے مگر ان کے اندر توبہ و انابت کا اتنا شدید احساس پہلے مرحلہ میں نہیں ابھرا تھا جو مطلوبہ معیار کے مطابق ہو۔ چنانچہ ان کے ساتھ معاشرتی بائیکاٹ کا معاملہ کیاگیا۔ یہ لوگ اس مقاطعہ کے باوجود مطمئن رہ سکتے تھے۔ وہ اپنے گھر اور اپنے باغوں میں مشغول ہوجاتے۔ وہ برہمی اور ناوفاداری کے راستوں پر چلنا شروع کردیتے۔ وہ ناراض عناصر کے ساتھ مل کر اپنی علیحدہ جمعیت بنالیتے۔ وہ عام مسلمانوں سے الگ اپنا ایک جزیرہ بنا کر اس کے اندر اپنی خوشیوں کی دنیا بسا سکتے تھے۔ مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ خدا و رسول سے دوری کے احساس نے ان کو اس قدر پریشان کردیا کہ نہ باہر ان کے ليے سکون کی کوئی جگہ نظر آئی اور نہ اپنے دل کے اندر ان کے ليے سکون کا کوئی گوشہ باقی رہا۔ با الفاظ دیگر ان کی پریشانی اختیارانہ تھی، نہ کہ مجبورانہ۔ ان کی اس روش کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا دل پگھل اٹھا۔ 50 دن میں وہ توبہ وانابت کے مطلوبہ معیار پر پہنچ گئے۔ اس کے بعد انھیں بھی معاف کردیاگیا۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

📘 انسانی زندگی اجتماعی زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی کا اپنے ذوق اور رجحان کے اعتبار سے ایک حلقہ بن جاتاہے جس میں وہ اپنے روز وشب گزارتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور ایمان کے راستہ پر چلنا چاہیں ان کے ليے لازم ہے کہ وہ اپنی صحبتوں اور ملاقاتوں کے لیے ان لوگوں کو چنیں جو سچے لوگ ہوں ۔ یعنی جن کے دل کا خوفِ خدا ان کی زندگی کی روش بن گیا ہو۔ جن کے قول اور عمل کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہو۔ سچوں کے ساتھ رہ کر آدمی سچا بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ جھوٹوں کا ساتھ پکڑے تو بالآخر وہ خود بھی جھوٹا بن جائے گا۔ آدمی کے سامنے ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ جان کو خطرہ میں ڈال کر اسلام کی خدمت کرنے کا سوال ہو۔جب بھوک پیاس کا مقابلہ کرکے اسلام کے ليے اپنا حصہ ادا کرنا ہو۔ جب اپنے کو تھکا کر خدا کی راہ میں آگے بڑھنا ہو۔ جب دشمنوں کا خطرہ مول لے کر اپنے کو اسلام کی صف میں شامل کرنا ہو۔ جب اپنی پرسکون زندگی کودرہم برہم کرکے خدا ورسول کا ساتھ دینا ہو۔ ایسے مواقع پر آدمی احتیاط اور بچاؤ کا طریقہ اختیار کرکے پیچھے بیٹھ جانے کو پسند کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ یہی تو وہ مواقع ہیں جب کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کا عملی ثبوت پیش کرسکتا ہے۔ جب کہ وہ جنت کے ليے اپنی امیدواری کو خدا کی نظر میں قابل قبول ثابت کرسکتا ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر پیچھے رہنے والوں میں ایک ابو خیثمہ انصاری بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد وہ اپنے باغ میں گئے۔ وہاں خوش گوار سایہ تھا، بیوی نے پانی چھڑک کر زمین کو ٹھنڈا کیا، چٹائی کا فرش بچھایا، تازہ کھجور کے خوشے لاکر سامنے رکھے اور ٹھنڈا پانی پینے کے ليے پیش کیا۔ ابو خیثمہ دنیوی آسانیوں ہی کی خاطر تبوک کے سفر پر نہ جاسکے تھے۔ مگر جب جانے والے اور رہنے والے کے درمیان فرق اس انتہائی نوبت کو پہنچ گیا جو اب ان کے سامنے تھا تو ابو خیثمہ اس کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوں نے کہا ’’میں یہاں باغ کے سایہ میں ہوں اور خدا کے بندے لو اور گرمی میں کوہ وبیابان طے کررہے ہیں ‘‘۔ انھوں نے تلوار سنبھالی اور تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر اسی وقت روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ گردوغبار میں اٹے ہوئے قافلۂ تبوک سے جاملے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 5419)

وَإِنْ نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ

📘 ائمہ کفر سے مراد قریش ہیں جو اپنے قائدانہ مقام کی وجہ سے عرب میں اسلام کے خلاف تحریک کی امامت کررہے تھے ۔ قریش کے اس کردار سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی تحریک جب اٹھتی ہے تو اس کا پہلا مخالف کون گروہ بنتاہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کو بے آمیز حق کے پیغام میں اپنی بڑائی پر زد پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی وہ سربرآوردہ طبقہ ہے جس کے پاس وه ذهن هوتا هے كه وه اسلامي دعوت ميں شوشے نكال كر لوگوں كو اس كي طرف سے مشتبه كرے۔ اسي كے پاس وہ وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعیوں کی حوصلہ شکنی کے ليے ان کو طرح طرح کی مشکلات میں ڈالے۔ اسی کے پاس وہ زور ہوتاہے کہ وہ حق پرستوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کی تدبیر کرے۔ حتی کہ اسی کو یہ مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی آگ بھڑکاسکے۔ ’’ان کے عہد کچھ نہیں ‘‘ بہت معنیٰ خیز فقرہ ہے۔ جو لوگ دشمنی اور ضد کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہوں ان کے وعدے اور معاہدے بالکل غیر یقینی ہوتے ہیں ۔ ان کی نفسیات میں اپنے حریف کے خلاف مستقل اشتعال برپا رہتا ہے۔ ان کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ وہ اگر معاہدہ بھی کرلیں تو اپنے مزاج کے اعتبار سے اس کو دیر تک باقی رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ اپنے منفی جذبات سے مغلوب ہو کر وہ معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس طرح اہلِ حق کو یہ موقع دیتے ہیں کہ اپنے اوپر پہل کا الزام ليے بغیر وہ ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کریں اور خدا کی مدد سے ان کا خاتمہ کردیں ۔ تمام حکمت اور دانائی کا سرا اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کے اندر اعتراف کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر وہ شعور جگاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے ليے خدائی منصوبہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ خدا کی منشا کو جان کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو اس میں لگا دیتاہے۔ وہ اس صحیح ترین راستہ پر چل پڑتا ہے جس کی آخری منزل صرف کامیابی ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتاہے۔ مگر اللہ کے ليے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے ليے یہ مقدر ہے کہ اس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ

📘 انسانی زندگی اجتماعی زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی کا اپنے ذوق اور رجحان کے اعتبار سے ایک حلقہ بن جاتاہے جس میں وہ اپنے روز وشب گزارتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور ایمان کے راستہ پر چلنا چاہیں ان کے ليے لازم ہے کہ وہ اپنی صحبتوں اور ملاقاتوں کے لیے ان لوگوں کو چنیں جو سچے لوگ ہوں ۔ یعنی جن کے دل کا خوفِ خدا ان کی زندگی کی روش بن گیا ہو۔ جن کے قول اور عمل کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہو۔ سچوں کے ساتھ رہ کر آدمی سچا بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ جھوٹوں کا ساتھ پکڑے تو بالآخر وہ خود بھی جھوٹا بن جائے گا۔ آدمی کے سامنے ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ جان کو خطرہ میں ڈال کر اسلام کی خدمت کرنے کا سوال ہو۔جب بھوک پیاس کا مقابلہ کرکے اسلام کے ليے اپنا حصہ ادا کرنا ہو۔ جب اپنے کو تھکا کر خدا کی راہ میں آگے بڑھنا ہو۔ جب دشمنوں کا خطرہ مول لے کر اپنے کو اسلام کی صف میں شامل کرنا ہو۔ جب اپنی پرسکون زندگی کودرہم برہم کرکے خدا ورسول کا ساتھ دینا ہو۔ ایسے مواقع پر آدمی احتیاط اور بچاؤ کا طریقہ اختیار کرکے پیچھے بیٹھ جانے کو پسند کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ یہی تو وہ مواقع ہیں جب کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کا عملی ثبوت پیش کرسکتا ہے۔ جب کہ وہ جنت کے ليے اپنی امیدواری کو خدا کی نظر میں قابل قبول ثابت کرسکتا ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر پیچھے رہنے والوں میں ایک ابو خیثمہ انصاری بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد وہ اپنے باغ میں گئے۔ وہاں خوش گوار سایہ تھا، بیوی نے پانی چھڑک کر زمین کو ٹھنڈا کیا، چٹائی کا فرش بچھایا، تازہ کھجور کے خوشے لاکر سامنے رکھے اور ٹھنڈا پانی پینے کے ليے پیش کیا۔ ابو خیثمہ دنیوی آسانیوں ہی کی خاطر تبوک کے سفر پر نہ جاسکے تھے۔ مگر جب جانے والے اور رہنے والے کے درمیان فرق اس انتہائی نوبت کو پہنچ گیا جو اب ان کے سامنے تھا تو ابو خیثمہ اس کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوں نے کہا ’’میں یہاں باغ کے سایہ میں ہوں اور خدا کے بندے لو اور گرمی میں کوہ وبیابان طے کررہے ہیں ‘‘۔ انھوں نے تلوار سنبھالی اور تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر اسی وقت روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ گردوغبار میں اٹے ہوئے قافلۂ تبوک سے جاملے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 5419)

وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 انسانی زندگی اجتماعی زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آدمی کا اپنے ذوق اور رجحان کے اعتبار سے ایک حلقہ بن جاتاہے جس میں وہ اپنے روز وشب گزارتا ہے۔ جو لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوں اور ایمان کے راستہ پر چلنا چاہیں ان کے ليے لازم ہے کہ وہ اپنی صحبتوں اور ملاقاتوں کے لیے ان لوگوں کو چنیں جو سچے لوگ ہوں ۔ یعنی جن کے دل کا خوفِ خدا ان کی زندگی کی روش بن گیا ہو۔ جن کے قول اور عمل کے درمیان مطابقت پائی جاتی ہو۔ سچوں کے ساتھ رہ کر آدمی سچا بن جاتاہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ جھوٹوں کا ساتھ پکڑے تو بالآخر وہ خود بھی جھوٹا بن جائے گا۔ آدمی کے سامنے ایسے مواقع آتے ہیں جب کہ جان کو خطرہ میں ڈال کر اسلام کی خدمت کرنے کا سوال ہو۔جب بھوک پیاس کا مقابلہ کرکے اسلام کے ليے اپنا حصہ ادا کرنا ہو۔ جب اپنے کو تھکا کر خدا کی راہ میں آگے بڑھنا ہو۔ جب دشمنوں کا خطرہ مول لے کر اپنے کو اسلام کی صف میں شامل کرنا ہو۔ جب اپنی پرسکون زندگی کودرہم برہم کرکے خدا ورسول کا ساتھ دینا ہو۔ ایسے مواقع پر آدمی احتیاط اور بچاؤ کا طریقہ اختیار کرکے پیچھے بیٹھ جانے کو پسند کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ یہی تو وہ مواقع ہیں جب کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے تعلق کا عملی ثبوت پیش کرسکتا ہے۔ جب کہ وہ جنت کے ليے اپنی امیدواری کو خدا کی نظر میں قابل قبول ثابت کرسکتا ہے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر پیچھے رہنے والوں میں ایک ابو خیثمہ انصاری بھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد وہ اپنے باغ میں گئے۔ وہاں خوش گوار سایہ تھا، بیوی نے پانی چھڑک کر زمین کو ٹھنڈا کیا، چٹائی کا فرش بچھایا، تازہ کھجور کے خوشے لاکر سامنے رکھے اور ٹھنڈا پانی پینے کے ليے پیش کیا۔ ابو خیثمہ دنیوی آسانیوں ہی کی خاطر تبوک کے سفر پر نہ جاسکے تھے۔ مگر جب جانے والے اور رہنے والے کے درمیان فرق اس انتہائی نوبت کو پہنچ گیا جو اب ان کے سامنے تھا تو ابو خیثمہ اس کو برداشت نہ کرسکے۔ انھوں نے کہا ’’میں یہاں باغ کے سایہ میں ہوں اور خدا کے بندے لو اور گرمی میں کوہ وبیابان طے کررہے ہیں ‘‘۔ انھوں نے تلوار سنبھالی اور تیز رفتار اونٹنی پر سوار ہو کر اسی وقت روانہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ گردوغبار میں اٹے ہوئے قافلۂ تبوک سے جاملے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 5419)

۞ وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

📘 قرآن کی یہ آیت ایک اعتبار سے زیر بحث صورت حال سے متعلق ہے اور دوسرے اعتبار سے وہ ایک کلی حکم کو بتارہی ہے۔ ایک طرف وہ بتاتی ہے کہ مدینہ کے اطراف میں بسنے والے دیہاتیوں کی تعلیم وتربیت کس طرح کی جائے۔ دوسری طرف اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کا تعلیمی نظام اور نئی نسلوں کے ليے اس کا تربیتی ڈھانچہ کن اصولی بنیادوں پر قائم ہونا چاہیے۔ تعلیم ایک ایسا کام ہے جس میں آدمی کو دوسری مشغولیتوں سے فارغ ہو کر شامل ہونا پڑتا ہے۔ اب اگر سارے لوگ بیک وقت تعلیمی کام میں لگ جائیں تو زندگی کی دوسری سرگرمیاں ، مثلاً حصول معاش کی کوششیں ، متاثر ہوجائیں گی۔ اسلام کا یہ طریقہ نہیں کہ ایک کام کو بگاڑ کر دوسرا کام انجام دیاجائے، اس ليے حکم دیاگیا کہ باری باری کا اصول مقرر کرو۔ کچھ لوگ تعلیم کے مرکز میں آئیں تو کچھ اور لوگ دوسری سرگرمیوں کو انجام دینے میں لگے رہیں ۔ اس طرح دونوں کا م بیک وقت انجام پاتے رہیں گے۔ اس آیت میں اسلامی تعلیم کے ليے تفقہ فی الدین کا لفظ آیا ہے۔ اس سے مراد معروف فقہی تعلیم نہیں ہے جو شکل دین (بمقابلہ روح دین) کے تفصیلی علم کا نام ہے اور جس کے نتیجہ میں دین کا علم مسائل کے علم کے ہم معنی بن گیا ہے۔ یہاں تفقہ فی الدین کا مطلب خدا کے اتارے ہوئے اساسی دین کو جاننا اور اس میں سمجھ حاصل کرنا ہے۔ اس سے مراد وہ علم ہے جو حق شناسی پیدا کرے جو بنیادی حقیقتوں سے آدمی کو باخبر کرے اور آخرت کی بنیادوں پر زندگی کی تعمیر کرنا سکھائے۔ آیت میں تفقہ فی الدین (تعلیم دین) کا مقصد یہ بتایا گیاہے کہ آدمی قوم کے اوپر انذار کاکام کرنے کے قابل ہوسکے۔ انذار کے معنی ہیں ڈرانا۔ قرآن میں یہ لفظ آخرت کے مسئلہ سے ڈرانے اور ہوشیار کرنے کے ليے آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیم سے ایسے افراد تیار ہوں جو قوموں کے اوپر خدا کی طرف طرف سے منذر بن کر کھڑے ہوسکیں ۔ تاکہ لوگ خدا سے ڈریں اور دنیا کی زندگی میں اس روش سے بچیں جو انھیں آخرت کے ابدی عذاب کی طرف لے جانے والی ہو۔ اسلامی تعلیم دعوت الی اللہ کی تعلیم کا نام ہے، نہ کہ معروف معنوں میں صرف مسائل فقہ یا جزئیات شرع کی تعلیم کا۔ اس اعتبار سے اسلامی تعلیم کا نصاب دو خاص چیزوں پر مشتمل ہونا چاہیے: 1۔ قرآن وسنت 2۔ وہ علوم جو مدعو کی نسبت سے ضروری ہوں ۔ مثلاً مخاطب کی زبان، اس کے طرز فکر اور اس کی نفسیات، وغیرہ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

📘 ’’قریب کے منکروں سے جنگ کرو‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلامی جدوجہد کوئی بے منصوبہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے قریب کی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد دور کی رکاوٹوں سے نپٹا جائے گا۔اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ سب سے پہلا مجاہدہ خود اپنے نفس سے کیا جانا چاہيے۔ کیوں کہ آدمی کے سب سے قریب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے۔ باہر کے دشمنوں کی باری اس کے بعد آتی ہے۔ پھر اسلام دشمنوں سے بھی اولاً جو چیز مطلوب ہے وہ سختی (غلظہ) ہے یعنی وہ مضبوطی جو دشمنوں کے ليے رعب کا باعث بن جائے (إذْ كَانَ ذَلِكَ يُوقِعُ الْمَهَابَةَ لَنَا فِي صُدُورِهِمْ وَالرُّعْبَ فِي قُلُوبِهِمْ ) أحكام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 208 ۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کی ساری کارروائی تقویٰ کی بنیاد پر کی جائے۔ تقویٰ (خوف خدا) کی روش ہی مسلمانوں کے ليے نصرت خداوندی کی ضامن ہے۔ تقویٰ سے ہٹتے ہی وہ خدا کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ خدا سے دور ہوجائیں گے، اور خدا ان سے۔ تقویٰ گویا بندے اور خدا کے درمیان نقطۂ ملاقات ہے۔ جب آدمی خدا سے ڈرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاتا ہے جہاں خدا اسے دیکھنا چاہتا تھا، جہاں خدا نے اسے بلا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں تقویٰ ہی آدمی کو خدا کے قریب کرنے والا بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی دوسری چیز۔ جب خدا اپنے بندے کو متقی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بندے کی طرف کیسے متوجہ ہوگا جو غیر متقی کے روپ میں اس کے سامنے آئے۔ قرآن نے اپنی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس کی آیتوں کو سن کر مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر اضافۂ ایمان کا تعلق آدمی کی اپنی قلبی صلاحیت پر ہے، نہ کہ صرف آیتوں کو سن لینے پر۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا تو اس کے الفاظ ابھی صرف الفاظ تھے، وہ تاریخی واقعہ نہیں بنے تھے۔ اس وقت قرآن کی اہمیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو حقیقت کو اس کی مجرد صورت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ ظاہر پرست منافقین کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی۔ ان کو قرآن کے الفاظ صرف الفاظ معلوم ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ چند الفاظ کا مجموعہ کسی کے یقین و اعتماد میں اضافہ کا سبب کیسے بن جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی نئی آیت اترتی تو وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ عربی کے ان الفاظ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔ اس بات کو آدمی اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ تاریخ کو حذف کرکے قرآن کو اس کے مجرد روپ میں دیکھنے کی نظر نہ پیدا کرے۔ آج ’’قرآن‘‘ کے لفظ کے ساتھ وہ تمام تاریخی عظمتیں شامل ہوچکی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت موجود نہ تھیں ، اور بعد کو ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں اس کے گرد جمع ہوئیں ۔ مگر زمانۂ نزول میں قرآن کی حیثیت مجرد ایک کتاب کی تھی۔ اس وقت ظاہر بیں انسان اس کو صرف ایک ’’کتاب‘‘ کے روپ میں دیکھتاتھا، نہ کہ تاریخ ساز صحیفہ کے روپ میں ۔ وہ لوگ جو قرآن کو اس کی چھپی ہوئی عظمت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جب وہ قرآن سے غیر معمولی تاثر قبول کرتے تو ظاہر بینوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر یہ ایک کتاب ہی تو ہے۔ پھر ایک لفظی مجموعہ میں وہ کون سی خاص بات ہے کہ لوگ اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ خدا ایسے لوگوں کو بار بار مختلف قسم کے جھٹکے دیتا ہے تاکہ ان کے دل کی حساسیت بڑھے اور وہ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ پکڑنے کے قابل ہوجائیں ۔ مگر جب آدمی خود نصیحت نہ لینا چاہے تو کوئی خارجی چیز اس کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ نصیحت لینے والی کوئی بات سامنے آئے اور آدمی اس کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ عمل اس کو نصیحت کے معاملہ میں بے حس بنادیتا ہے۔ ’’وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں مگر وہ نہ توبہ کرتے اور نہ سبق حاصل کرتے‘‘۔ یہاں آزمائش سے مراد قحط، مرض، بھوک وغیرہ میں مبتلا کیا جانا ہے۔ اس قسم کی آفتیں آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتی ہیں مگر وہ ان سے توبہ اور عبرت کی غذا نہیں لیتا— توبہ حقیقۃً تذکرّکے نتیجہ کا دوسرا نام ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ سال میں ایک دو بار ضرور کچھ غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ واقعات خدائی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ خدا کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی کو یاد دلاتے ہیں ۔ کبھی وہ آخرت کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے مواقع آدمی کے لیے اِس بات کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے لیے سبق بنائے، وہ مادی واقعات میں غیر مادی حقائق کو دیکھ لے۔ سبق والی چیز سے آدمی سبق کیوں نہیں لے پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے مربوط نہیں کرپاتا۔ دنیا کے واقعات سے سبق لینے کے لیے یہ صلاحیت درکار ہے کہ آدمی ایک بات کو دوسری بات سے جوڑ کر دیکھنا جانتا ہو۔ وہ ظاہری واقعہ کو چھپی ہوئی حقیقت سے ملا کر دیکھ سکے۔ وہ پیش آنے والی چیز کے آئینہ میں اس چیز کو پڑھ سکے جو ابھی پیش نہیں آئی۔

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَٰذِهِ إِيمَانًا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ

📘 ’’قریب کے منکروں سے جنگ کرو‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلامی جدوجہد کوئی بے منصوبہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے قریب کی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد دور کی رکاوٹوں سے نپٹا جائے گا۔اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ سب سے پہلا مجاہدہ خود اپنے نفس سے کیا جانا چاہيے۔ کیوں کہ آدمی کے سب سے قریب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے۔ باہر کے دشمنوں کی باری اس کے بعد آتی ہے۔ پھر اسلام دشمنوں سے بھی اولاً جو چیز مطلوب ہے وہ سختی (غلظہ) ہے یعنی وہ مضبوطی جو دشمنوں کے ليے رعب کا باعث بن جائے (إذْ كَانَ ذَلِكَ يُوقِعُ الْمَهَابَةَ لَنَا فِي صُدُورِهِمْ وَالرُّعْبَ فِي قُلُوبِهِمْ ) أحكام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 208 ۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کی ساری کارروائی تقویٰ کی بنیاد پر کی جائے۔ تقویٰ (خوف خدا) کی روش ہی مسلمانوں کے ليے نصرت خداوندی کی ضامن ہے۔ تقویٰ سے ہٹتے ہی وہ خدا کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ خدا سے دور ہوجائیں گے، اور خدا ان سے۔ تقویٰ گویا بندے اور خدا کے درمیان نقطۂ ملاقات ہے۔ جب آدمی خدا سے ڈرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاتا ہے جہاں خدا اسے دیکھنا چاہتا تھا، جہاں خدا نے اسے بلا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں تقویٰ ہی آدمی کو خدا کے قریب کرنے والا بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی دوسری چیز۔ جب خدا اپنے بندے کو متقی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بندے کی طرف کیسے متوجہ ہوگا جو غیر متقی کے روپ میں اس کے سامنے آئے۔ قرآن نے اپنی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس کی آیتوں کو سن کر مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر اضافۂ ایمان کا تعلق آدمی کی اپنی قلبی صلاحیت پر ہے، نہ کہ صرف آیتوں کو سن لینے پر۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا تو اس کے الفاظ ابھی صرف الفاظ تھے، وہ تاریخی واقعہ نہیں بنے تھے۔ اس وقت قرآن کی اہمیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو حقیقت کو اس کی مجرد صورت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ ظاہر پرست منافقین کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی۔ ان کو قرآن کے الفاظ صرف الفاظ معلوم ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ چند الفاظ کا مجموعہ کسی کے یقین و اعتماد میں اضافہ کا سبب کیسے بن جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی نئی آیت اترتی تو وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ عربی کے ان الفاظ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔ اس بات کو آدمی اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ تاریخ کو حذف کرکے قرآن کو اس کے مجرد روپ میں دیکھنے کی نظر نہ پیدا کرے۔ آج ’’قرآن‘‘ کے لفظ کے ساتھ وہ تمام تاریخی عظمتیں شامل ہوچکی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت موجود نہ تھیں ، اور بعد کو ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں اس کے گرد جمع ہوئیں ۔ مگر زمانۂ نزول میں قرآن کی حیثیت مجرد ایک کتاب کی تھی۔ اس وقت ظاہر بیں انسان اس کو صرف ایک ’’کتاب‘‘ کے روپ میں دیکھتاتھا، نہ کہ تاریخ ساز صحیفہ کے روپ میں ۔ وہ لوگ جو قرآن کو اس کی چھپی ہوئی عظمت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جب وہ قرآن سے غیر معمولی تاثر قبول کرتے تو ظاہر بینوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر یہ ایک کتاب ہی تو ہے۔ پھر ایک لفظی مجموعہ میں وہ کون سی خاص بات ہے کہ لوگ اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ خدا ایسے لوگوں کو بار بار مختلف قسم کے جھٹکے دیتا ہے تاکہ ان کے دل کی حساسیت بڑھے اور وہ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ پکڑنے کے قابل ہوجائیں ۔ مگر جب آدمی خود نصیحت نہ لینا چاہے تو کوئی خارجی چیز اس کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ نصیحت لینے والی کوئی بات سامنے آئے اور آدمی اس کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ عمل اس کو نصیحت کے معاملہ میں بے حس بنادیتا ہے۔ ’’وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں مگر وہ نہ توبہ کرتے اور نہ سبق حاصل کرتے‘‘۔ یہاں آزمائش سے مراد قحط، مرض، بھوک وغیرہ میں مبتلا کیا جانا ہے۔ اس قسم کی آفتیں آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتی ہیں مگر وہ ان سے توبہ اور عبرت کی غذا نہیں لیتا— توبہ حقیقۃً تذکرّکے نتیجہ کا دوسرا نام ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ سال میں ایک دو بار ضرور کچھ غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ واقعات خدائی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ خدا کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی کو یاد دلاتے ہیں ۔ کبھی وہ آخرت کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے مواقع آدمی کے لیے اِس بات کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے لیے سبق بنائے، وہ مادی واقعات میں غیر مادی حقائق کو دیکھ لے۔ سبق والی چیز سے آدمی سبق کیوں نہیں لے پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے مربوط نہیں کرپاتا۔ دنیا کے واقعات سے سبق لینے کے لیے یہ صلاحیت درکار ہے کہ آدمی ایک بات کو دوسری بات سے جوڑ کر دیکھنا جانتا ہو۔ وہ ظاہری واقعہ کو چھپی ہوئی حقیقت سے ملا کر دیکھ سکے۔ وہ پیش آنے والی چیز کے آئینہ میں اس چیز کو پڑھ سکے جو ابھی پیش نہیں آئی۔

وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَىٰ رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ كَافِرُونَ

📘 ’’قریب کے منکروں سے جنگ کرو‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلامی جدوجہد کوئی بے منصوبہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے قریب کی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد دور کی رکاوٹوں سے نپٹا جائے گا۔اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ سب سے پہلا مجاہدہ خود اپنے نفس سے کیا جانا چاہيے۔ کیوں کہ آدمی کے سب سے قریب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے۔ باہر کے دشمنوں کی باری اس کے بعد آتی ہے۔ پھر اسلام دشمنوں سے بھی اولاً جو چیز مطلوب ہے وہ سختی (غلظہ) ہے یعنی وہ مضبوطی جو دشمنوں کے ليے رعب کا باعث بن جائے (إذْ كَانَ ذَلِكَ يُوقِعُ الْمَهَابَةَ لَنَا فِي صُدُورِهِمْ وَالرُّعْبَ فِي قُلُوبِهِمْ ) أحكام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 208 ۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کی ساری کارروائی تقویٰ کی بنیاد پر کی جائے۔ تقویٰ (خوف خدا) کی روش ہی مسلمانوں کے ليے نصرت خداوندی کی ضامن ہے۔ تقویٰ سے ہٹتے ہی وہ خدا کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ خدا سے دور ہوجائیں گے، اور خدا ان سے۔ تقویٰ گویا بندے اور خدا کے درمیان نقطۂ ملاقات ہے۔ جب آدمی خدا سے ڈرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاتا ہے جہاں خدا اسے دیکھنا چاہتا تھا، جہاں خدا نے اسے بلا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں تقویٰ ہی آدمی کو خدا کے قریب کرنے والا بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی دوسری چیز۔ جب خدا اپنے بندے کو متقی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بندے کی طرف کیسے متوجہ ہوگا جو غیر متقی کے روپ میں اس کے سامنے آئے۔ قرآن نے اپنی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس کی آیتوں کو سن کر مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر اضافۂ ایمان کا تعلق آدمی کی اپنی قلبی صلاحیت پر ہے، نہ کہ صرف آیتوں کو سن لینے پر۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا تو اس کے الفاظ ابھی صرف الفاظ تھے، وہ تاریخی واقعہ نہیں بنے تھے۔ اس وقت قرآن کی اہمیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو حقیقت کو اس کی مجرد صورت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ ظاہر پرست منافقین کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی۔ ان کو قرآن کے الفاظ صرف الفاظ معلوم ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ چند الفاظ کا مجموعہ کسی کے یقین و اعتماد میں اضافہ کا سبب کیسے بن جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی نئی آیت اترتی تو وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ عربی کے ان الفاظ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔ اس بات کو آدمی اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ تاریخ کو حذف کرکے قرآن کو اس کے مجرد روپ میں دیکھنے کی نظر نہ پیدا کرے۔ آج ’’قرآن‘‘ کے لفظ کے ساتھ وہ تمام تاریخی عظمتیں شامل ہوچکی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت موجود نہ تھیں ، اور بعد کو ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں اس کے گرد جمع ہوئیں ۔ مگر زمانۂ نزول میں قرآن کی حیثیت مجرد ایک کتاب کی تھی۔ اس وقت ظاہر بیں انسان اس کو صرف ایک ’’کتاب‘‘ کے روپ میں دیکھتاتھا، نہ کہ تاریخ ساز صحیفہ کے روپ میں ۔ وہ لوگ جو قرآن کو اس کی چھپی ہوئی عظمت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جب وہ قرآن سے غیر معمولی تاثر قبول کرتے تو ظاہر بینوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر یہ ایک کتاب ہی تو ہے۔ پھر ایک لفظی مجموعہ میں وہ کون سی خاص بات ہے کہ لوگ اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ خدا ایسے لوگوں کو بار بار مختلف قسم کے جھٹکے دیتا ہے تاکہ ان کے دل کی حساسیت بڑھے اور وہ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ پکڑنے کے قابل ہوجائیں ۔ مگر جب آدمی خود نصیحت نہ لینا چاہے تو کوئی خارجی چیز اس کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ نصیحت لینے والی کوئی بات سامنے آئے اور آدمی اس کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ عمل اس کو نصیحت کے معاملہ میں بے حس بنادیتا ہے۔ ’’وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں مگر وہ نہ توبہ کرتے اور نہ سبق حاصل کرتے‘‘۔ یہاں آزمائش سے مراد قحط، مرض، بھوک وغیرہ میں مبتلا کیا جانا ہے۔ اس قسم کی آفتیں آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتی ہیں مگر وہ ان سے توبہ اور عبرت کی غذا نہیں لیتا— توبہ حقیقۃً تذکرّکے نتیجہ کا دوسرا نام ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ سال میں ایک دو بار ضرور کچھ غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ واقعات خدائی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ خدا کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی کو یاد دلاتے ہیں ۔ کبھی وہ آخرت کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے مواقع آدمی کے لیے اِس بات کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے لیے سبق بنائے، وہ مادی واقعات میں غیر مادی حقائق کو دیکھ لے۔ سبق والی چیز سے آدمی سبق کیوں نہیں لے پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے مربوط نہیں کرپاتا۔ دنیا کے واقعات سے سبق لینے کے لیے یہ صلاحیت درکار ہے کہ آدمی ایک بات کو دوسری بات سے جوڑ کر دیکھنا جانتا ہو۔ وہ ظاہری واقعہ کو چھپی ہوئی حقیقت سے ملا کر دیکھ سکے۔ وہ پیش آنے والی چیز کے آئینہ میں اس چیز کو پڑھ سکے جو ابھی پیش نہیں آئی۔

أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ

📘 ’’قریب کے منکروں سے جنگ کرو‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلامی جدوجہد کوئی بے منصوبہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے قریب کی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد دور کی رکاوٹوں سے نپٹا جائے گا۔اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ سب سے پہلا مجاہدہ خود اپنے نفس سے کیا جانا چاہيے۔ کیوں کہ آدمی کے سب سے قریب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے۔ باہر کے دشمنوں کی باری اس کے بعد آتی ہے۔ پھر اسلام دشمنوں سے بھی اولاً جو چیز مطلوب ہے وہ سختی (غلظہ) ہے یعنی وہ مضبوطی جو دشمنوں کے ليے رعب کا باعث بن جائے (إذْ كَانَ ذَلِكَ يُوقِعُ الْمَهَابَةَ لَنَا فِي صُدُورِهِمْ وَالرُّعْبَ فِي قُلُوبِهِمْ ) أحكام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 208 ۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کی ساری کارروائی تقویٰ کی بنیاد پر کی جائے۔ تقویٰ (خوف خدا) کی روش ہی مسلمانوں کے ليے نصرت خداوندی کی ضامن ہے۔ تقویٰ سے ہٹتے ہی وہ خدا کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ خدا سے دور ہوجائیں گے، اور خدا ان سے۔ تقویٰ گویا بندے اور خدا کے درمیان نقطۂ ملاقات ہے۔ جب آدمی خدا سے ڈرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاتا ہے جہاں خدا اسے دیکھنا چاہتا تھا، جہاں خدا نے اسے بلا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں تقویٰ ہی آدمی کو خدا کے قریب کرنے والا بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی دوسری چیز۔ جب خدا اپنے بندے کو متقی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بندے کی طرف کیسے متوجہ ہوگا جو غیر متقی کے روپ میں اس کے سامنے آئے۔ قرآن نے اپنی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس کی آیتوں کو سن کر مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر اضافۂ ایمان کا تعلق آدمی کی اپنی قلبی صلاحیت پر ہے، نہ کہ صرف آیتوں کو سن لینے پر۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا تو اس کے الفاظ ابھی صرف الفاظ تھے، وہ تاریخی واقعہ نہیں بنے تھے۔ اس وقت قرآن کی اہمیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو حقیقت کو اس کی مجرد صورت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ ظاہر پرست منافقین کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی۔ ان کو قرآن کے الفاظ صرف الفاظ معلوم ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ چند الفاظ کا مجموعہ کسی کے یقین و اعتماد میں اضافہ کا سبب کیسے بن جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی نئی آیت اترتی تو وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ عربی کے ان الفاظ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔ اس بات کو آدمی اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ تاریخ کو حذف کرکے قرآن کو اس کے مجرد روپ میں دیکھنے کی نظر نہ پیدا کرے۔ آج ’’قرآن‘‘ کے لفظ کے ساتھ وہ تمام تاریخی عظمتیں شامل ہوچکی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت موجود نہ تھیں ، اور بعد کو ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں اس کے گرد جمع ہوئیں ۔ مگر زمانۂ نزول میں قرآن کی حیثیت مجرد ایک کتاب کی تھی۔ اس وقت ظاہر بیں انسان اس کو صرف ایک ’’کتاب‘‘ کے روپ میں دیکھتاتھا، نہ کہ تاریخ ساز صحیفہ کے روپ میں ۔ وہ لوگ جو قرآن کو اس کی چھپی ہوئی عظمت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جب وہ قرآن سے غیر معمولی تاثر قبول کرتے تو ظاہر بینوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر یہ ایک کتاب ہی تو ہے۔ پھر ایک لفظی مجموعہ میں وہ کون سی خاص بات ہے کہ لوگ اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ خدا ایسے لوگوں کو بار بار مختلف قسم کے جھٹکے دیتا ہے تاکہ ان کے دل کی حساسیت بڑھے اور وہ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ پکڑنے کے قابل ہوجائیں ۔ مگر جب آدمی خود نصیحت نہ لینا چاہے تو کوئی خارجی چیز اس کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ نصیحت لینے والی کوئی بات سامنے آئے اور آدمی اس کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ عمل اس کو نصیحت کے معاملہ میں بے حس بنادیتا ہے۔ ’’وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں مگر وہ نہ توبہ کرتے اور نہ سبق حاصل کرتے‘‘۔ یہاں آزمائش سے مراد قحط، مرض، بھوک وغیرہ میں مبتلا کیا جانا ہے۔ اس قسم کی آفتیں آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتی ہیں مگر وہ ان سے توبہ اور عبرت کی غذا نہیں لیتا— توبہ حقیقۃً تذکرّکے نتیجہ کا دوسرا نام ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ سال میں ایک دو بار ضرور کچھ غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ واقعات خدائی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ خدا کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی کو یاد دلاتے ہیں ۔ کبھی وہ آخرت کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے مواقع آدمی کے لیے اِس بات کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے لیے سبق بنائے، وہ مادی واقعات میں غیر مادی حقائق کو دیکھ لے۔ سبق والی چیز سے آدمی سبق کیوں نہیں لے پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے مربوط نہیں کرپاتا۔ دنیا کے واقعات سے سبق لینے کے لیے یہ صلاحیت درکار ہے کہ آدمی ایک بات کو دوسری بات سے جوڑ کر دیکھنا جانتا ہو۔ وہ ظاہری واقعہ کو چھپی ہوئی حقیقت سے ملا کر دیکھ سکے۔ وہ پیش آنے والی چیز کے آئینہ میں اس چیز کو پڑھ سکے جو ابھی پیش نہیں آئی۔

وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ هَلْ يَرَاكُمْ مِنْ أَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوا ۚ صَرَفَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ

📘 ’’قریب کے منکروں سے جنگ کرو‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اسلامی جدوجہد کوئی بے منصوبہ جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس میں ترتیب کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ پہلے قریب کی رکاوٹوں پر قابو پانے کی کوشش کی جائے گی اور اس کے بعد دور کی رکاوٹوں سے نپٹا جائے گا۔اسی سے یہ بات بھی نکلی کہ سب سے پہلا مجاہدہ خود اپنے نفس سے کیا جانا چاہيے۔ کیوں کہ آدمی کے سب سے قریب اس کا اپنا نفس ہوتا ہے۔ باہر کے دشمنوں کی باری اس کے بعد آتی ہے۔ پھر اسلام دشمنوں سے بھی اولاً جو چیز مطلوب ہے وہ سختی (غلظہ) ہے یعنی وہ مضبوطی جو دشمنوں کے ليے رعب کا باعث بن جائے (إذْ كَانَ ذَلِكَ يُوقِعُ الْمَهَابَةَ لَنَا فِي صُدُورِهِمْ وَالرُّعْبَ فِي قُلُوبِهِمْ ) أحكام القرآن للجصاص، جلد 3، صفحہ 208 ۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ دشمنوں سے مقابلہ کی ساری کارروائی تقویٰ کی بنیاد پر کی جائے۔ تقویٰ (خوف خدا) کی روش ہی مسلمانوں کے ليے نصرت خداوندی کی ضامن ہے۔ تقویٰ سے ہٹتے ہی وہ خدا کی مدد سے محروم ہوجائیں گے۔ وہ خدا سے دور ہوجائیں گے، اور خدا ان سے۔ تقویٰ گویا بندے اور خدا کے درمیان نقطۂ ملاقات ہے۔ جب آدمی خدا سے ڈرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس مقام پر لاتا ہے جہاں خدا اسے دیکھنا چاہتا تھا، جہاں خدا نے اسے بلا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں تقویٰ ہی آدمی کو خدا کے قریب کرنے والا بن سکتا ہے، نہ کہ کوئی دوسری چیز۔ جب خدا اپنے بندے کو متقی کے روپ میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ اس بندے کی طرف کیسے متوجہ ہوگا جو غیر متقی کے روپ میں اس کے سامنے آئے۔ قرآن نے اپنی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ اس کی آیتوں کو سن کر مومنین کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ مگر اضافۂ ایمان کا تعلق آدمی کی اپنی قلبی صلاحیت پر ہے، نہ کہ صرف آیتوں کو سن لینے پر۔ ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب قرآن اترا تو اس کے الفاظ ابھی صرف الفاظ تھے، وہ تاریخی واقعہ نہیں بنے تھے۔ اس وقت قرآن کی اہمیت کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو حقیقت کو اس کی مجرد صورت میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ ظاہر پرست منافقین کے اندر یہ صلاحیت نہ تھی۔ ان کو قرآن کے الفاظ صرف الفاظ معلوم ہوتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ چند الفاظ کا مجموعہ کسی کے یقین و اعتماد میں اضافہ کا سبب کیسے بن جائے گا۔ چنانچہ جب کوئی نئی آیت اترتی تو وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے کہ عربی کے ان الفاظ نے تم میں سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا۔ اس بات کو آدمی اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک وہ تاریخ کو حذف کرکے قرآن کو اس کے مجرد روپ میں دیکھنے کی نظر نہ پیدا کرے۔ آج ’’قرآن‘‘ کے لفظ کے ساتھ وہ تمام تاریخی عظمتیں شامل ہوچکی ہیں جو نزولِ قرآن کے وقت موجود نہ تھیں ، اور بعد کو ہزار سال سے زیادہ عرصہ میں اس کے گرد جمع ہوئیں ۔ مگر زمانۂ نزول میں قرآن کی حیثیت مجرد ایک کتاب کی تھی۔ اس وقت ظاہر بیں انسان اس کو صرف ایک ’’کتاب‘‘ کے روپ میں دیکھتاتھا، نہ کہ تاریخ ساز صحیفہ کے روپ میں ۔ وہ لوگ جو قرآن کو اس کی چھپی ہوئی عظمت کے ساتھ دیکھ رہے تھے جب وہ قرآن سے غیر معمولی تاثر قبول کرتے تو ظاہر بینوں کی سمجھ میں نہ آتا۔ وہ کہتے ہیں کہ آخر یہ ایک کتاب ہی تو ہے۔ پھر ایک لفظی مجموعہ میں وہ کون سی خاص بات ہے کہ لوگ اس سے اس قدر متاثر ہورہے ہیں ۔ خدا ایسے لوگوں کو بار بار مختلف قسم کے جھٹکے دیتا ہے تاکہ ان کے دل کی حساسیت بڑھے اور وہ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ پکڑنے کے قابل ہوجائیں ۔ مگر جب آدمی خود نصیحت نہ لینا چاہے تو کوئی خارجی چیز اس کی نصیحت کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ نصیحت لینے والی کوئی بات سامنے آئے اور آدمی اس کو نظر انداز کردے تو اس کا یہ عمل اس کو نصیحت کے معاملہ میں بے حس بنادیتا ہے۔ ’’وہ ہر سال ایک بار یا دو بار آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں مگر وہ نہ توبہ کرتے اور نہ سبق حاصل کرتے‘‘۔ یہاں آزمائش سے مراد قحط، مرض، بھوک وغیرہ میں مبتلا کیا جانا ہے۔ اس قسم کی آفتیں آدمی کی زندگی میں بار بار پیش آتی ہیں مگر وہ ان سے توبہ اور عبرت کی غذا نہیں لیتا— توبہ حقیقۃً تذکرّکے نتیجہ کا دوسرا نام ہے۔ ہر آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ سال میں ایک دو بار ضرور کچھ غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں ۔ یہ واقعات خدائی حقیقتوں کی طرف اشارہ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ کبھی وہ خدا کے مقابلے میں انسان کی بے چارگی کو یاد دلاتے ہیں ۔ کبھی وہ آخرت کے مقابلے میں موجودہ دنیا کی بے وقعتی کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسے مواقع آدمی کے لیے اِس بات کا امتحان ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے لیے سبق بنائے، وہ مادی واقعات میں غیر مادی حقائق کو دیکھ لے۔ سبق والی چیز سے آدمی سبق کیوں نہیں لے پاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے مربوط نہیں کرپاتا۔ دنیا کے واقعات سے سبق لینے کے لیے یہ صلاحیت درکار ہے کہ آدمی ایک بات کو دوسری بات سے جوڑ کر دیکھنا جانتا ہو۔ وہ ظاہری واقعہ کو چھپی ہوئی حقیقت سے ملا کر دیکھ سکے۔ وہ پیش آنے والی چیز کے آئینہ میں اس چیز کو پڑھ سکے جو ابھی پیش نہیں آئی۔

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ

📘 اِس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تصویر بتائی گئی ہے کہ اسلام کی جدوجہد میں ان کاسارا اعتماد صرف ایک اللہ پر ہے۔ وہ لوگوں کو جس خدا کی طرف بلانے کے لیے اٹھے ہیں وہ ایسا خدا ہے جو سارے اقتدار کا مالک ہے۔ تمام خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں ۔ رسول اسی ایمان ویقین کی زمین پر کھڑا ہواہے۔اس لیے بالکل فطری ہے کہ اس کا سارا بھروسہ صرف ایک خدا پر ہو۔ وہ ہر قسم کی مصلحتوں اور اندیشوں سے بے پروا ہو کر حق کی خدمت میں لگا رہے۔ پھر یہ بتایا کہ خدا کا رسول لوگوں کے حق میں حد درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ وہ دوسروں کی تکلیفوں پر اس طرح کڑھتا ہے جیسے کہ وہ تکلیف خود اس کے اوپر پڑی ہو۔ وہ حرص کی حد تک لوگوں کی ہدایت کا طالب ہے۔ دعوتِ حق کی جدوجہد کے لیے اس کو جس چیز نے متحرک کیا ہے، وہ سراسرخیر خواہی کا جذبہ ہے، نہ کہ کوئی شخصی حوصلہ یا قومی مسئلہ— وہ خود لوگوں کی بھلائی کے لیے اٹھا ہے، نہ کہ اپنی ذاتی بھلائی کے لیے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گر رہے ہیں اور مَیں ان کی کمر پکڑ کر ان کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں (أَلَا وَإِنِّي آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَنْ تَهَافَتُوا فِي النَّارِ كَتَهَافُتِ الْفَرَاشِ، أَوِ الذُّبَابِ) مسند احمد، حدیث نمبر 3704۔ رسول کی اس تصویر کی شکل میں حق کے داعی کی تصویر ہمیشہ کے لیے بتادی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے داعی کے اندر دو خاص صفات نمایاں طورپر ہونی چاہئیں ۔ ایک یہ کہ اس کا بھروسہ صرف ایک اللہ پر ہو۔ دوسري یہ کہ مدعو کے لیے اس کے دل میں صرف محبت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو، اس کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ اگرچہ مدعو کی طرف سے طرح طرح کی شکایتیں پیش آتی ہیں ۔ اس کے اور داعی کے درمیان قومی اور مادی جھگڑے بھی ہوسکتے ہیں ۔ ان سب کے باوجود یہ مطلوب ہے کہ داعی ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرے اور مدعو کے لیے رحمت و رافت کے سوا کوئی اور جذبہ اپنے اندر پیدا نہ ہونے دے۔ داعی کو رد عمل کی نفسیات سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ اس کو یک طرفہ طورپر ایسا کرنا پڑتا ہے کہ وہ مدعو کا خیر خواہ بنے، خواہ مدعو نے اس کے خلاف کتنا ہی زیادہ قابلِ شکایت رویہ کیوں نہ اختیار کیا ہو۔ داعی خداکے لیے جیتاہے اور مدعو اپنی ذات کے لیے۔ ابتداء ًاسلام میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ان کے لیے آپ کا ساتھ دینا اپنی بنی بنائی زندگی کو اجاڑ دینے کے ہم معنی بن گیا۔ اس سے کچھ لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول ہمارے ليے مصیبت بن کر آیا ہے۔ مگر یہ وہی بات ہے جو عین مطلوب ہے۔ حق کی دعوت اسی لیے اٹھی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کا مصرف آخرت کی دنیا ہے، نہ کہ موجودہ دنیا۔ اس لیے اگر رسول کا لایا ہوا دین اختیار کرنے میں دنیوی نقشہ بگڑتا ہوا نظر آئے تو اس پر آدمی کو مطمئن رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی متاع کو خدا نے آخرت کے ليے قبول کرلیا۔

فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ ۖ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ

📘 اِس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تصویر بتائی گئی ہے کہ اسلام کی جدوجہد میں ان کاسارا اعتماد صرف ایک اللہ پر ہے۔ وہ لوگوں کو جس خدا کی طرف بلانے کے لیے اٹھے ہیں وہ ایسا خدا ہے جو سارے اقتدار کا مالک ہے۔ تمام خزانوں کی کنجیاں اس کے پاس ہیں ۔ رسول اسی ایمان ویقین کی زمین پر کھڑا ہواہے۔اس لیے بالکل فطری ہے کہ اس کا سارا بھروسہ صرف ایک خدا پر ہو۔ وہ ہر قسم کی مصلحتوں اور اندیشوں سے بے پروا ہو کر حق کی خدمت میں لگا رہے۔ پھر یہ بتایا کہ خدا کا رسول لوگوں کے حق میں حد درجہ شفیق اور مہربان ہے۔ وہ دوسروں کی تکلیفوں پر اس طرح کڑھتا ہے جیسے کہ وہ تکلیف خود اس کے اوپر پڑی ہو۔ وہ حرص کی حد تک لوگوں کی ہدایت کا طالب ہے۔ دعوتِ حق کی جدوجہد کے لیے اس کو جس چیز نے متحرک کیا ہے، وہ سراسرخیر خواہی کا جذبہ ہے، نہ کہ کوئی شخصی حوصلہ یا قومی مسئلہ— وہ خود لوگوں کی بھلائی کے لیے اٹھا ہے، نہ کہ اپنی ذاتی بھلائی کے لیے۔ عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: لوگ پروانوں کی طرح آگ میں گر رہے ہیں اور مَیں ان کی کمر پکڑ کر ان کو آگ میں گرنے سے روک رہا ہوں (أَلَا وَإِنِّي آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ أَنْ تَهَافَتُوا فِي النَّارِ كَتَهَافُتِ الْفَرَاشِ، أَوِ الذُّبَابِ) مسند احمد، حدیث نمبر 3704۔ رسول کی اس تصویر کی شکل میں حق کے داعی کی تصویر ہمیشہ کے لیے بتادی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کے داعی کے اندر دو خاص صفات نمایاں طورپر ہونی چاہئیں ۔ ایک یہ کہ اس کا بھروسہ صرف ایک اللہ پر ہو۔ دوسري یہ کہ مدعو کے لیے اس کے دل میں صرف محبت اور خیر خواہی کا جذبہ ہو، اس کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ اگرچہ مدعو کی طرف سے طرح طرح کی شکایتیں پیش آتی ہیں ۔ اس کے اور داعی کے درمیان قومی اور مادی جھگڑے بھی ہوسکتے ہیں ۔ ان سب کے باوجود یہ مطلوب ہے کہ داعی ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرے اور مدعو کے لیے رحمت و رافت کے سوا کوئی اور جذبہ اپنے اندر پیدا نہ ہونے دے۔ داعی کو رد عمل کی نفسیات سے بلند ہونا پڑتا ہے۔ اس کو یک طرفہ طورپر ایسا کرنا پڑتا ہے کہ وہ مدعو کا خیر خواہ بنے، خواہ مدعو نے اس کے خلاف کتنا ہی زیادہ قابلِ شکایت رویہ کیوں نہ اختیار کیا ہو۔ داعی خداکے لیے جیتاہے اور مدعو اپنی ذات کے لیے۔ ابتداء ًاسلام میں جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا ان کے لیے آپ کا ساتھ دینا اپنی بنی بنائی زندگی کو اجاڑ دینے کے ہم معنی بن گیا۔ اس سے کچھ لوگوں کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ رسول ہمارے ليے مصیبت بن کر آیا ہے۔ مگر یہ وہی بات ہے جو عین مطلوب ہے۔ حق کی دعوت اسی لیے اٹھی ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کا مصرف آخرت کی دنیا ہے، نہ کہ موجودہ دنیا۔ اس لیے اگر رسول کا لایا ہوا دین اختیار کرنے میں دنیوی نقشہ بگڑتا ہوا نظر آئے تو اس پر آدمی کو مطمئن رہنا چاہیے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی متاع کو خدا نے آخرت کے ليے قبول کرلیا۔

أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

📘 ائمہ کفر سے مراد قریش ہیں جو اپنے قائدانہ مقام کی وجہ سے عرب میں اسلام کے خلاف تحریک کی امامت کررہے تھے ۔ قریش کے اس کردار سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی تحریک جب اٹھتی ہے تو اس کا پہلا مخالف کون گروہ بنتاہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کو بے آمیز حق کے پیغام میں اپنی بڑائی پر زد پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی وہ سربرآوردہ طبقہ ہے جس کے پاس وه ذهن هوتا هے كه وه اسلامي دعوت ميں شوشے نكال كر لوگوں كو اس كي طرف سے مشتبه كرے۔ اسي كے پاس وہ وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعیوں کی حوصلہ شکنی کے ليے ان کو طرح طرح کی مشکلات میں ڈالے۔ اسی کے پاس وہ زور ہوتاہے کہ وہ حق پرستوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کی تدبیر کرے۔ حتی کہ اسی کو یہ مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی آگ بھڑکاسکے۔ ’’ان کے عہد کچھ نہیں ‘‘ بہت معنیٰ خیز فقرہ ہے۔ جو لوگ دشمنی اور ضد کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہوں ان کے وعدے اور معاہدے بالکل غیر یقینی ہوتے ہیں ۔ ان کی نفسیات میں اپنے حریف کے خلاف مستقل اشتعال برپا رہتا ہے۔ ان کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ وہ اگر معاہدہ بھی کرلیں تو اپنے مزاج کے اعتبار سے اس کو دیر تک باقی رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ اپنے منفی جذبات سے مغلوب ہو کر وہ معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس طرح اہلِ حق کو یہ موقع دیتے ہیں کہ اپنے اوپر پہل کا الزام ليے بغیر وہ ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کریں اور خدا کی مدد سے ان کا خاتمہ کردیں ۔ تمام حکمت اور دانائی کا سرا اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کے اندر اعتراف کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر وہ شعور جگاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے ليے خدائی منصوبہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ خدا کی منشا کو جان کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو اس میں لگا دیتاہے۔ وہ اس صحیح ترین راستہ پر چل پڑتا ہے جس کی آخری منزل صرف کامیابی ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتاہے۔ مگر اللہ کے ليے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے ليے یہ مقدر ہے کہ اس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ

📘 ائمہ کفر سے مراد قریش ہیں جو اپنے قائدانہ مقام کی وجہ سے عرب میں اسلام کے خلاف تحریک کی امامت کررہے تھے ۔ قریش کے اس کردار سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی تحریک جب اٹھتی ہے تو اس کا پہلا مخالف کون گروہ بنتاہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کو بے آمیز حق کے پیغام میں اپنی بڑائی پر زد پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی وہ سربرآوردہ طبقہ ہے جس کے پاس وه ذهن هوتا هے كه وه اسلامي دعوت ميں شوشے نكال كر لوگوں كو اس كي طرف سے مشتبه كرے۔ اسي كے پاس وہ وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعیوں کی حوصلہ شکنی کے ليے ان کو طرح طرح کی مشکلات میں ڈالے۔ اسی کے پاس وہ زور ہوتاہے کہ وہ حق پرستوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کی تدبیر کرے۔ حتی کہ اسی کو یہ مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی آگ بھڑکاسکے۔ ’’ان کے عہد کچھ نہیں ‘‘ بہت معنیٰ خیز فقرہ ہے۔ جو لوگ دشمنی اور ضد کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہوں ان کے وعدے اور معاہدے بالکل غیر یقینی ہوتے ہیں ۔ ان کی نفسیات میں اپنے حریف کے خلاف مستقل اشتعال برپا رہتا ہے۔ ان کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ وہ اگر معاہدہ بھی کرلیں تو اپنے مزاج کے اعتبار سے اس کو دیر تک باقی رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ اپنے منفی جذبات سے مغلوب ہو کر وہ معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس طرح اہلِ حق کو یہ موقع دیتے ہیں کہ اپنے اوپر پہل کا الزام ليے بغیر وہ ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کریں اور خدا کی مدد سے ان کا خاتمہ کردیں ۔ تمام حکمت اور دانائی کا سرا اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کے اندر اعتراف کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر وہ شعور جگاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے ليے خدائی منصوبہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ خدا کی منشا کو جان کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو اس میں لگا دیتاہے۔ وہ اس صحیح ترین راستہ پر چل پڑتا ہے جس کی آخری منزل صرف کامیابی ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتاہے۔ مگر اللہ کے ليے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے ليے یہ مقدر ہے کہ اس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ ۗ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 ائمہ کفر سے مراد قریش ہیں جو اپنے قائدانہ مقام کی وجہ سے عرب میں اسلام کے خلاف تحریک کی امامت کررہے تھے ۔ قریش کے اس کردار سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام کی تحریک جب اٹھتی ہے تو اس کا پہلا مخالف کون گروہ بنتاہے۔ یہ وہ گروہ ہے جس کو بے آمیز حق کے پیغام میں اپنی بڑائی پر زد پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہی وہ سربرآوردہ طبقہ ہے جس کے پاس وه ذهن هوتا هے كه وه اسلامي دعوت ميں شوشے نكال كر لوگوں كو اس كي طرف سے مشتبه كرے۔ اسي كے پاس وہ وسائل ہوتے ہیں کہ وہ اسلام کے داعیوں کی حوصلہ شکنی کے ليے ان کو طرح طرح کی مشکلات میں ڈالے۔ اسی کے پاس وہ زور ہوتاہے کہ وہ حق پرستوں کو ان کے گھروں سے نکالنے کی تدبیر کرے۔ حتی کہ اسی کو یہ مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والوں کے خلاف باقاعدہ جنگ کی آگ بھڑکاسکے۔ ’’ان کے عہد کچھ نہیں ‘‘ بہت معنیٰ خیز فقرہ ہے۔ جو لوگ دشمنی اور ضد کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہوں ان کے وعدے اور معاہدے بالکل غیر یقینی ہوتے ہیں ۔ ان کی نفسیات میں اپنے حریف کے خلاف مستقل اشتعال برپا رہتا ہے۔ ان کے اندر ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ وہ اگر معاہدہ بھی کرلیں تو اپنے مزاج کے اعتبار سے اس کو دیر تک باقی رکھنے پر قادر نہیں ہوتے۔ زیادہ دیر نہیں گزرتی کہ اپنے منفی جذبات سے مغلوب ہو کر وہ معاہدہ کو توڑ دیتے ہیں اور اس طرح اہلِ حق کو یہ موقع دیتے ہیں کہ اپنے اوپر پہل کا الزام ليے بغیر وہ ان کے خلاف مدافعانہ کارروائی کریں اور خدا کی مدد سے ان کا خاتمہ کردیں ۔ تمام حکمت اور دانائی کا سرا اللہ کا ڈر ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کے اندر اعتراف کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر وہ شعور جگاتا ہے کہ وہ حقیقتوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ سے ڈرنے والے کے ليے خدائی منصوبہ کو سمجھنے میں دیر نہیں لگتی۔ وہ خدا کی منشا کو جان کر پورے اعتماد کے ساتھ اپنے آپ کو اس میں لگا دیتاہے۔ وہ اس صحیح ترین راستہ پر چل پڑتا ہے جس کی آخری منزل صرف کامیابی ہے۔ اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتاہے۔ مگر اللہ کے ليے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے ليے یہ مقدر ہے کہ اس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تُتْرَكُوا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلَا رَسُولِهِ وَلَا الْمُؤْمِنِينَ وَلِيجَةً ۚ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

📘 موجودہ دنیا میں آدمی جب کسی چیز کو اپنی زندگی کا مقصد بناتاہے تو اس کو حاصل کرنے میں طرح طرح کے مسائل اور تقاضے سامنے آتے ہیں ۔ اگر آدمی کو اپنا مقصد عزیز ہے تو وه ان مسائل کو عبور کرنے اور ان تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنی ساری قوت لگا دیتاہے۔ اسی کا نام جہاد ہے۔ یہ جہاد اس دنیا میں ہر ایک کو پیش آتا ہے۔ ہر آدمی کو جہاد کی سطح پر اپنی طلب کا ثبوت دینا پڑتاہے اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتاہے کہ وہ اپنی طلب میں کامیاب ہو۔ فرق یہ ہے کہ غیر مومن دنیا کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور مومن آخرت کی راہ میں ۔ یہی جہاد یہ ثابت کرتاہے کہ آدمی اپنے مقصد میں کتنا سنجیدہ ہے۔ ایک شخص جو ایمان کا مدعی ہو اس کے سامنے بار بار مختلف مواقع آتے ہیں جو اس کے دعوے کا امتحان ہوں ۔ کبھی اس کا دل کسی کے خلاف بغض وحسد کے جذبات سے متاثر ہونے لگتا ہے اور اس کا ایمان اس سے کہتا ہے کہ اس قسم کے تمام جذبات کو اپنے اندر سے نکال دو۔ کبھی اس کی زبان پر ناپسندیدہ کلمات آتے ہیں اور ایمان کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اس وقت اپنی زبان کو پکڑ لیا جائے۔ کبھی معاملات کے دوران کسی کو ایسا حق دینا پڑتاہے جو قلب کو بالکل ناگوار ہو مگر ایمان یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ حق دار کو انصاف کے مطابق اس کاپورا حق پہنچایا جائے۔ اسی طرح اسلام کی دعوت کبھی ایسے موڑ پر پہنچ جاتی ہے کہ ایمان یہ کہتا ہے کہ اس کو کامیاب بنانے کے ليے اپنی جان ومال قربان کردو۔ ایسے تمام مواقع پر گریز یا فرار سے بچنا اورہر قیمت پر ایمان واسلام کے تقاضے پورے کرتے رہنا، اسی کا نام جہاد ہے۔ جب کوئی شخص اسلام کے ليے مجاہدبن جائے تو اس کا تمام تر نفسیاتی تعلق اللہ اور رسول اور اہل ایمان سے ہوجاتا ہے۔ وہ ان کے سوا کسی کو اپنا ولیجہ نہیں بناتا۔ وَلَجَ کے معنی ہیں داخل ہونا۔ ولیجہ کسی وادی کے اس غار کو کہتے ہیں جہاں راستہ چلنے والے بارش وغیرہ سے پناہ لیں ۔ اسی سے ولیجہ ہے، یعنی ولی دوست۔ موجودہ دنیا میں جب بھی آدمی کسی وسیع تر مقصد کو اپناتا ہے تو اس کو لازماً ایساکرنا پڑتاہے کہ وہ اپنے مقصد کی مرکزیت سے وابستہ ہو۔ وہ اپنے قائد کا مکمل وفادار بنے۔ وہ اس راہ کے ساتھیوں سے پوری طرح جڑ جائے۔ مقصدیت کے احساس کے ساتھ یہ چیزیں لازم و ملزوم ہیں ۔ ان کے بغیر با مقصد زندگی کا دعویٰ بالکل جھوٹا ہے۔ اسی طرح آدمی جب دین کو سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی میں داخل کرے گا تو لازمی طورپر ایسا ہوگا کہ خدا اور رسول اور اہلِ ایمان اس کا ’’ولیجہ‘‘ بن جائیں ۔ وہ ہر اعتبار سے ان کے ساتھ جڑ جائے گا۔ سنجیدگی کے ساتھ دین اختیار کرنے والے کے ليے اللہ اور رسول اور اہل ایمان، عملی طور پر، ایسی وحدت کے اجزاء ہیں جن کے درمیان تقسیم ممکن نہیں ۔ اس معاملہ کی نزاکت بہت بڑھ جاتی ہے جب یہ سامنے رکھا جائے کہ اس کی جانچ کرنے والا وہ ہے جس کو کھلے اور چھپے کا علم ہے، وہ ہر آدمی سے اس کی حقیقت کے اعتبار سے معاملہ کرے گا، نہ کہ اس کے ظاہری رویہ کے اعتبار سے۔

مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَنْ يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ

📘 اس سوره کی ابتدائی پانچ آیتیں وہ ہیں جو پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے نازل ہوئیں ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے معمولی مادی اجزاء سے پیدا کیا۔ پھر اس کو یہ نادر صلاحیت دی کہ وہ پڑھے اور الفاظ کے ذریعہ معانی کا ادراک کرسکے۔ پھر انسان کو یہ مزید صلاحیت دی گئی کہ وہ قلم کو استعمال کرے اور اس طرح اپنے علم کو مدون اور محفوظ کرسکے۔ قراءت کی صلاحیت اگر آدمی کو خود پڑھنے کے قابل بناتی ہے تو قلم اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے علم کو وسیع پیمانہ پر دوسروں تک پہنچا سکے۔جو لوگ حق کے مقابلہ میں سرکشی کریں اور حق کا راستہ اختیار کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں ، ان کا انجام بہت برا ہے۔ ایسے حالات میں حق کے داعی کا اصل سہارا یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے۔ وہ لوگوں سے محروم ہو کر خدا سے پائے، وہ لوگوں سے دور ہو کر لوگوں کے خدا سے قریب ہوجائے۔

إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَٰئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ

📘 اس سوره کی ابتدائی پانچ آیتیں وہ ہیں جو پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے نازل ہوئیں ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے معمولی مادی اجزاء سے پیدا کیا۔ پھر اس کو یہ نادر صلاحیت دی کہ وہ پڑھے اور الفاظ کے ذریعہ معانی کا ادراک کرسکے۔ پھر انسان کو یہ مزید صلاحیت دی گئی کہ وہ قلم کو استعمال کرے اور اس طرح اپنے علم کو مدون اور محفوظ کرسکے۔ قراءت کی صلاحیت اگر آدمی کو خود پڑھنے کے قابل بناتی ہے تو قلم اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے علم کو وسیع پیمانہ پر دوسروں تک پہنچا سکے۔جو لوگ حق کے مقابلہ میں سرکشی کریں اور حق کا راستہ اختیار کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں ، ان کا انجام بہت برا ہے۔ ایسے حالات میں حق کے داعی کا اصل سہارا یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے۔ وہ لوگوں سے محروم ہو کر خدا سے پائے، وہ لوگوں سے دور ہو کر لوگوں کے خدا سے قریب ہوجائے۔

۞ أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

📘 اس سوره کی ابتدائی پانچ آیتیں وہ ہیں جو پیغمبر اسلام پر سب سے پہلے نازل ہوئیں ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے معمولی مادی اجزاء سے پیدا کیا۔ پھر اس کو یہ نادر صلاحیت دی کہ وہ پڑھے اور الفاظ کے ذریعہ معانی کا ادراک کرسکے۔ پھر انسان کو یہ مزید صلاحیت دی گئی کہ وہ قلم کو استعمال کرے اور اس طرح اپنے علم کو مدون اور محفوظ کرسکے۔ قراءت کی صلاحیت اگر آدمی کو خود پڑھنے کے قابل بناتی ہے تو قلم اس کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے علم کو وسیع پیمانہ پر دوسروں تک پہنچا سکے۔جو لوگ حق کے مقابلہ میں سرکشی کریں اور حق کا راستہ اختیار کرنے والوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں ، ان کا انجام بہت برا ہے۔ ایسے حالات میں حق کے داعی کا اصل سہارا یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے۔ وہ لوگوں سے محروم ہو کر خدا سے پائے، وہ لوگوں سے دور ہو کر لوگوں کے خدا سے قریب ہوجائے۔

فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیاگیا ہے وہ کسی حق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ محض آزمائش کے ليے ہے۔ خدا جب تک چاہتا ہے کسی کو اس زمین پر رکھتا ہے او ر جب اس کے علم کے مطابق اس کی مدت امتحان پوری ہوجاتی ہے تو اس پر موت وارد کرکے اس کو یہاں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ پیغمبر کے مخاطبین کے ساتھ دوسری صورت میں کیا جاتاہے۔ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان آتاہے ان پر وہ آخری حد تک حق کی گواہی دیتا ہے۔ پیغمبر کے دعوتی کام کی تکمیل کے بعد جو لوگ ایمان نہ لائیں وہ خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق کھودیتے ہیں ۔ وہ آزمائش کی غرض سے یہاں رکھے گئے تھے۔ اتمام حجت نے آزمائش کی تکمیل کردی۔ پھر اس کے بعد زندگی کا حق کس ليے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کے کام کی تکمیل کے بعد ان کے اوپر کوئی نہ کوئی ہلاکت خیز آفت آتی ہے اور ان کا استیصال کردیا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ مگر ان پر کوئی آسمانی آفت نہیں آئی۔ ان کے اوپر خدا کی مذکورہ سنت کا نفاذ اسباب کے نقشہ میں کیاگیا ہے۔ اولاً قرآن کے برتر اسلوب اور پیغمبر کے اعلیٰ کردار کے ذریعہ ان کو دعوت پہنچائی گئی۔ پھر اہلِ توحید کو مکہ کے اہلِ شرک پر غالب کرکے ان کے اوپر اتمام حجت کردیاگیا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور اس کے باوجود وہ انکار کی روش پر قائم رہے تو ان کو مسلسل خیانت اور عہد شکنی کا مجرم قرار دے کر ان کو الٹی میٹم دياگیا کہ چار ماہ کے اندر اپنی اصلاح کرلو، ورنہ مسلمانوں کی تلوار سے تمھارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ پھر یہ سارا معاملہ تقویٰ کے اصول پر کیاگیا، نہ کہ قومی سیاست کے اصول پر— مشرکین کو دلائل کے میدان میں لاجواب کردیاگیا، ان کو پیشگي انتباہ کے ذریعہ کئی مہینہ تک سوچنے کا موقع دیاگیا۔ آخر وقت تک ان کے ليے دروازہ کھلا رکھا گیا کہ جو لوگ توبہ کرلیں وہ خدا کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوجائیں ۔ جن بعض قبائل نے معاہدہ نہیں توڑا تھا ان کے معاملہ کو معاہدہ توڑنے والوں سے الگ رکھاگیا، وغیرہ۔

الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ

📘 انسان کسی حال میں اپنے آپ کو مشقتوں سے آزاد نہیں کرپاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان کسی بالاتر قوت کے ماتحت ہے۔ اسی طرح انسان کی آنکھیں بتاتی ہیں کہ کوئی برتر آنکھ بھی ہے جو اس کو دیکھ رہی ہے۔ انسان کی قوتِ نطق اشارہ کرتی ہے کہ اس کے اوپر بھی ایک صاحبِ نطق ہے جس نے اس کو نطق کی صلاحیت دی۔ اور اس کو ہدایت کا راستہ دکھایا۔ آدمی اگر حقیقی معنوں میں اپنے آپ کو پہچان لے تو یقیناً وہ خدا کو بھی پہچان لے گا۔ خدا نے انسان کو دو قسم کی بلندیوں پر چڑھنے کا حکم دیا ہے۔ ایک انسان کے ساتھ منصفانہ سلوک اور انسان کی ضرورتوں میں اس کے کام آنا۔ دوسری چیز اللہ پر ایمان و یقین ہے۔ یہ ایمان و یقین جب آدمی کے اندر گہرائی کے ساتھ اترتا ہے تو وہ آدمی کی اپنی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ متعدی بن جاتا ہے۔ ایسا انسان دوسروں کو بھی اسی حق پر لانے کی کوشش کرنے لگتا ہے جس کو وہ خود اختیار کیے ہوئے ہے۔

يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُقِيمٌ

📘 دنیا میں تمام چیزیں جوڑے جوڑے ہیں ۔ نر اور مادہ، رات اور دن، مثبت ذرہ اور منفی ذرہ، میٹر اور اینٹی میٹر۔ اس دنیا کی ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے۔ یہ واضح طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کائنات میں مقصدیت ہے۔ ایسی با مقصد کائنات میں یہ ناممکن ہے کہ یہاں اچھا عمل اور برا عمل دونوں بالکل یکساں انجام پر ختم ہو۔ کائنات اپنے خالق کا جو تعارف کرا رہی ہے اس سے یہ بات مطابقت نہیں رکھتی۔ اللہ کا تعلق اپنے بندوں سے صرف حاکم کا نہیں ، بلکہ مددگار کا بھی ہے۔ وہ اپنے ان بندوں کا راستہ ہموار کرتا ہے، جو اس کی طرف چلنا چاہیں ۔ اس کے برعکس، جو لوگ سرکشی کا راستہ اختیار کریں وہ انہیں سرکشی کے راستہ پر دوڑنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔

خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ

📘 نزولِ قرآن کے وقت عرب میں یہ صورت حال تھی کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع تھے اور مشرکین بیت اللہ کے گرد۔ اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عظمتوں کی وہ تاریخ وابستہ نہیں ہوئی تھی جس کو آج ہم جانتے ہیں ۔ لوگوں کو آپ عام انسانوں کی طرح ایک انسان دکھائی دیتے تھے۔ دوسری طرف مسجد حرام ہزاروں برس کی تاریخ کے نتیجہ میں عظمت وتقدس کی علامت بنی ہوئی تھی۔ مشرکین کی نظر میں اپنی تصویر تو یہ تھی کہ وہ ایک مقدس ترین مرکز کے خادم اور آباد کار ہیں ۔ دوسری طرف جب وہ مسلمانوں کو دیکھتے تو اس وقت کے حالات میں ان کو ایسا معلوم ہوتا جیسے کچھ لوگ بس ایک دیوانہ کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ مگر مشرکین کا یہ خیال سراسر باطل تھا۔ وہ ظواہر کا تقابل حقائق سے کرنے کی غلطی کررہے تھے۔ مسجد حرام کے زائرین کو پانی پلانا، اس کے اندر روشنی اور صفائی کاانتظام۔ کعبہ پر غلاف چڑھا دینا۔ مسجد کے فرش اور دیوار کی مرمت، یہ سب ظاہری نمائش کی چیزیں ہیں ۔ یہ بھلا ان اعمال کے برابر ہوسکتی ہیں جب کہ آدمی اللہ کو پالیتاہے اورآخرت کی فکر میں جینے لگتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور اپنے اثاثہ کو خدا کے حوالے کردیتاہے۔ وہ دوسری تمام بڑائیوں کا انکار کرکے ایک خدا کو اپنا بڑا بنا لیتاہے۔ سچائی کو پانے والے دراصل وہ لوگ ہیں جنھوں نے اس کو معانی کی سطح پر پایا ہو، نہ کہ ظواہر کی سطح پر۔ جو قربانی کی حد تک سچائی سے تعلق رکھنے والے ہوں ، نہ کہ محض سطحی اورنمائشی کارروائیوں کی حد تک۔ اللہ سے تعلق کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک تعلق وہ ہے جو رسمی عقیدہ کی حد تک ہوتا ہے، جس میں آدمی کچھ دکھاوے کے اعمال تو کرتاہے مگر اپنے کو اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں نہیں دیتا۔ دوسرا تعلق وہ ہے جب کہ آدمی اپنے ایمان میں اتنا سنجیدہ ہو کہ اس راہ میں اس کو جوکچھ چھوڑناپڑے وہ اس کو چھوڑ دے اور جو چیز دینی پڑے اس کو دینے کے ليے تیار ہوجائے۔ یہی دوسری قسم کے بندے ہیں جو مرنے کے بعد خدا کے یہاں اعلیٰ ترین انعامات سے نوازے جائیں گے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

📘 لوگوں کے ليے اپنا خاندان، اپنی جائداد، اپنے معاشی مفادات سب سے قیمتی ہوتے ہیں ۔ انھیں چیزوں کو وہ سب سے زیادہ اهم سمجھتے ہیں ۔ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں وہ ان کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنا سب کچھ ان کے اوپر نثار کردیتے ہیں ۔ اس قسم کی زندگی دنیا دارانہ زندگی ہے۔ ایسا آدمی جو کچھ پاتا ہے بس اسی دنیا میں پاتا ہے۔ موت کے بعد والی ابدی دنیا میں اس کے ليے کچھ نہیں ۔ اس کے برعکس، دوسری زندگی وہ ہے جب کہ آدمی اللہ اور رسول کو اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کو سب سے زیادہ اہمیت دے اور اس کی خاطر دوسری ہر چیز چھوڑنے کے لیے تیار رہے۔ یہی دوسری زندگی خدا پرستانہ زندگی ہے اور ایسے ہی لوگوں کے ليے آخرت میں ابدی جنتوں کے دروازے کھولے جائیں گے۔ ایک زندگی وہ ہے، جو دنیوی تعلقات اور دنیوی مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ دوسری زندگی وہ ہے جو ایمان کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ دونوں میں سے جس چیز کو بھی آدمی اپنی زندگی کی بنیاد بنائے، وہ ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر دوسری چیزوں کو چھوڑ دے۔ وہ کچھ لوگوں سے تعلق قائم کرے اور کچھ دوسرے لوگوں سے بے تعلق ہوجائے۔ وہ کچھ چیزوں کی بقاء اور ترقی میں اپنی ساری توجہ لگادے اور کچھ دوسری چیزوں کی بقاء اور ترقی کے معاملہ میں بے پروا بنا رہے۔ کچھ نقصانات اس کو کسی قیمت پر گوارا نہ ہوں ، وہ جان پر کھیل کر اپنا بہترین سرمایہ خرچ کرکے ان کو بچانے کی کوشش کرے اور کچھ دوسرے نقصانات کو وہ اپنی آنكھوں سے دیکھے مگر ان کے بارے میں اس کے اندر کوئی تڑپ پیدا نہ ہو۔ دنیا ہمیشہ ان لوگوں ملتی ہے جو دنیا کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دیں ۔ اسی طرح آخرت صرف ان لوگوں کے حصہ میں آئے گی جو آخرت کی خاطر دوسری چیزوں کو قربان کردیں ۔ ترجیح (ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنے کا معاملہ) انتہائی سنگین ہے۔ حتی کہ وہی آدمی کے کفر وایمان کا فیصلہ کرتا ہے۔ خدا کی دنیا میں جس طرح کھلے کافروں کے ليے کامیابی مقدر نہیں ہے اسی طرح ان لوگوں کے ليے بھی یہاں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ، جو ایمان کا دعویٰ کریں اور جب نازک موقع آئے تو وہ آخرت پسندانہ روش کے مقابلہ میں دنیا دارانہ روش کو ترجیح دیں ۔ ایسے مدعیانِ ایمان اگر اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہوں تو ان کو اس وقت معلوم ہوجائے گا جب اللہ اپنا فیصلہ ظاہر کردے گا۔

قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

📘 لوگوں کے ليے اپنا خاندان، اپنی جائداد، اپنے معاشی مفادات سب سے قیمتی ہوتے ہیں ۔ انھیں چیزوں کو وہ سب سے زیادہ اهم سمجھتے ہیں ۔ ہر دوسری چیز کے مقابلہ میں وہ ان کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنا سب کچھ ان کے اوپر نثار کردیتے ہیں ۔ اس قسم کی زندگی دنیا دارانہ زندگی ہے۔ ایسا آدمی جو کچھ پاتا ہے بس اسی دنیا میں پاتا ہے۔ موت کے بعد والی ابدی دنیا میں اس کے ليے کچھ نہیں ۔ اس کے برعکس، دوسری زندگی وہ ہے جب کہ آدمی اللہ اور رسول کو اور اللہ کی راہ میں جدوجہد کو سب سے زیادہ اہمیت دے اور اس کی خاطر دوسری ہر چیز چھوڑنے کے لیے تیار رہے۔ یہی دوسری زندگی خدا پرستانہ زندگی ہے اور ایسے ہی لوگوں کے ليے آخرت میں ابدی جنتوں کے دروازے کھولے جائیں گے۔ ایک زندگی وہ ہے، جو دنیوی تعلقات اور دنیوی مفادات کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ دوسری زندگی وہ ہے جو ایمان کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ دونوں میں سے جس چیز کو بھی آدمی اپنی زندگی کی بنیاد بنائے، وہ ہمیشہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر دوسری چیزوں کو چھوڑ دے۔ وہ کچھ لوگوں سے تعلق قائم کرے اور کچھ دوسرے لوگوں سے بے تعلق ہوجائے۔ وہ کچھ چیزوں کی بقاء اور ترقی میں اپنی ساری توجہ لگادے اور کچھ دوسری چیزوں کی بقاء اور ترقی کے معاملہ میں بے پروا بنا رہے۔ کچھ نقصانات اس کو کسی قیمت پر گوارا نہ ہوں ، وہ جان پر کھیل کر اپنا بہترین سرمایہ خرچ کرکے ان کو بچانے کی کوشش کرے اور کچھ دوسرے نقصانات کو وہ اپنی آنكھوں سے دیکھے مگر ان کے بارے میں اس کے اندر کوئی تڑپ پیدا نہ ہو۔ دنیا ہمیشہ ان لوگوں ملتی ہے جو دنیا کی خاطر اپنا سب کچھ لگا دیں ۔ اسی طرح آخرت صرف ان لوگوں کے حصہ میں آئے گی جو آخرت کی خاطر دوسری چیزوں کو قربان کردیں ۔ ترجیح (ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرنے کا معاملہ) انتہائی سنگین ہے۔ حتی کہ وہی آدمی کے کفر وایمان کا فیصلہ کرتا ہے۔ خدا کی دنیا میں جس طرح کھلے کافروں کے ليے کامیابی مقدر نہیں ہے اسی طرح ان لوگوں کے ليے بھی یہاں کامیابی کا کوئی امکان نہیں ، جو ایمان کا دعویٰ کریں اور جب نازک موقع آئے تو وہ آخرت پسندانہ روش کے مقابلہ میں دنیا دارانہ روش کو ترجیح دیں ۔ ایسے مدعیانِ ایمان اگر اپنے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا ہوں تو ان کو اس وقت معلوم ہوجائے گا جب اللہ اپنا فیصلہ ظاہر کردے گا۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرِينَ

📘 مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھودیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقي معاملہ کرے گا جو ایک کے ليے انعام بنے اور دوسرے کے ليے سزا۔ رمضان 8ھ؁ميں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طورپر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8ھ ؁ میں ان کو ہوازن وثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اورہوازن وثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن وثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انھیں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح ِمکہ ہیں ۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتاہے۔ جب وہ خدا کے اعتماد پر تھے تو انھیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انھیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیرحقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلا شبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ ابتداء ً جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخلہ بندکردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیوں کہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بندہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طورپر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں ۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین اقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقامی سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے۔

ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَنْزَلَ جُنُودًا لَمْ تَرَوْهَا وَعَذَّبَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ

📘 مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھودیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقي معاملہ کرے گا جو ایک کے ليے انعام بنے اور دوسرے کے ليے سزا۔ رمضان 8ھ؁ميں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طورپر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8ھ ؁ میں ان کو ہوازن وثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اورہوازن وثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن وثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انھیں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح ِمکہ ہیں ۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتاہے۔ جب وہ خدا کے اعتماد پر تھے تو انھیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انھیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیرحقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلا شبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ ابتداء ً جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخلہ بندکردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیوں کہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بندہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طورپر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں ۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین اقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقامی سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے۔

ثُمَّ يَتُوبُ اللَّهُ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھودیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقي معاملہ کرے گا جو ایک کے ليے انعام بنے اور دوسرے کے ليے سزا۔ رمضان 8ھ؁ميں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طورپر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8ھ ؁ میں ان کو ہوازن وثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اورہوازن وثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن وثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انھیں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح ِمکہ ہیں ۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتاہے۔ جب وہ خدا کے اعتماد پر تھے تو انھیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انھیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیرحقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلا شبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ ابتداء ً جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخلہ بندکردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیوں کہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بندہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طورپر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں ۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین اقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقامی سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 مسلمانوں کا غلبہ کافروں کو ان کے کفر کی سزا کا اگلا نتیجہ ہے۔ مگر کافروں کا کفر مسلمانوں کے اسلام کی نسبت سے متحقق ہوتا ہے۔ اگر مسلمان اپنی اسلامیت کھودیں تو کافروں کا کفر کس چیز کے مقابلہ میں ثابت ہوگا اور کس بنیاد پر خدا وہ تفریقي معاملہ کرے گا جو ایک کے ليے انعام بنے اور دوسرے کے ليے سزا۔ رمضان 8ھ؁ميں مسلمانوں نے قریش کو کامیاب طورپر مغلوب کرکے مکہ کو فتح کیا۔ مگر اگلے ہی مہینہ شوال 8ھ ؁ میں ان کو ہوازن وثقیف کے مشرک قبائل کے مقابلہ میں شکست ہوئی، جب کہ فتح مکہ کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی اورہوازن وثقیف سے مقابلہ کے وقت بارہ ہزار۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش سے مقابلہ کے وقت مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر نکلے تھے۔ مگر ہوازن وثقیف کے مقابلہ پر نکلتے ہوئے انھیں یہ ناز ہوگیا کہ اب تو ہم فاتح ِمکہ ہیں ۔ ہمارے ساتھ بارہ ہزار آدمیوں کا لشکر ہے، آج ہم کو کون شکست دے سکتاہے۔ جب وہ خدا کے اعتماد پر تھے تو انھیں کامیابی ہوئی، جب ان کو اپنی ذات پر اعتماد ہوگیا تو انھیں شکست کا سامناکرنا پڑا۔ اپنی ذات پر بھروسہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا جذبہ ابھارتا ہے جس کے نتیجہ میں خارجی حقیقتوں سے بے پروائی پیدا ہوتی ہے۔ وہ نظم کی پابندی میں کوتاہ ہوجاتا ہے۔ وہ بے جا خود اعتمادی کی وجہ سے غیرحقیقت پسندانہ اقدام کرنے لگتا ہے جس کا نتیجہ اس عالم اسباب میں لازمی شکست ہے۔ اس کے برعکس خدا پر بھروسہ سب سے بڑی طاقت پر بھروسہ ہے۔ اس سے آدمی کے اندر تواضع کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ انتہائی حقیقت پسندانہ بن جاتا ہے۔ اور حقیقت پسندی بلا شبہ تمام کامیابیوں کی جڑ ہے۔ ابتداء ً جب یہ حکم آیا کہ حرم میں مشرکوں کا داخلہ بندکردو تو مسلمانوں کو تشویش ہوئی کیوں کہ غیر زرعی ملک ہونے کی وجہ سے عرب کی اقتصادیات کا انحصار تجارت پر تھا اور تجارت کی بنیاد ہمیشہ مشترکہ تعلقات پر ہوتی ہے۔ مسلمانوں نے سوچا کہ جب حرم میں مشرکین کا آنا بندہوگا تو ان کے ساتھ تجارتی رشتے بھی ٹوٹ جائیں گے۔ مگر ان کی نظر اس امکان پر نہیں گئی کہ آج کے مشرک کل کے مسلمان ہوسکتے ہیں ۔ چنانچہ یہی ہوا۔ عربوں کے عمومی طورپر اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ نئی صورت سے بحال ہوگئیں ۔ نیز اس ابتدائی قربانی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالآخر اسلام ایک بین اقوامی دین بن گیا۔ جو معاشی دروازے مقامی سطح پر بند ہوتے نظر آتے تھے وہ عالمی سطح پر کھل گئے۔

قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ

📘 ایمان زندہ ہو تو آدمی ہر واقعہ کو خدا کی طرف منسوب كرتا هے۔ وه كسي چيز كو صرف اس وقت سمجھ پاتا هے جب كه خدا كي نسبت سے اس کے بارے میں رائے قائم کرلے۔ وہ پھول کی خوشبو کو اس وقت سمجھتا ہے جب کہ اس میں اسے خدا کی مہک مل جائے۔ وہ سورج کو اس وقت دریافت کرتاہے جب کہ وہ اس کے معطی کو معلوم کرلے۔ ہر بڑائی اس کو خدا کا عطیہ نظر آتی ہے۔ ہر خوبی اس کو خدا کا احسان یاد دلاتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر خدا سے آدمی کا تعلق گھٹ کر صرف موہوم عقیدہ کے درجہ پر آجائے تو خدا اس کے زندہ شعور کے ليے ایک لامعلوم چیز بن جائے گا۔ وہ دنیا کی نظر آنے والی چیزوں پر خدا کو قیاس کرنے لگے گا۔ دوسری قسم کے لوگ طبعی طورپر خالق کو ان دنیوی چیزوں کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں ۔ وہ خالق کو مخلوق کی سطح پر اتارلاتے ہیں ۔ یہی حال یہود ونصاریٰ کا اپنے بگاڑ کے زمانے میں ہوا۔ اب خدا ان کے یہاں موہوم معتقدات کے خانہ میں چلا گیا۔ چنانچہ وہ اپنے نظر آنے والے اکابر اور بزرگوں کو وہ درجہ دینے لگے جو درجہ خدائے عالم الغیب کو دینا چاہیے۔ انھوں نے دیکھا کہ یونانی اور رومی قومیں سورج کو خدا بنا کر اس کے ليے بیٹا فرض كيے ہوئے ہیں تو ان کو بھی اپنے بزرگوں کے لیے یہی سب سے اونچا لفظ نظر آیا۔ انھوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں ، اب اور ابن کے الفاظ کی خودساختہ تشریح کرکے خدا کو باپ اور اپنے پیغمبر کو اس کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔ حالاں کہ خدا صرف ایک ہی ہے، وہ ہر مشابہت سے پاک ہے، وہی تنہا اس کا مستحق ہے کہ اس کو بڑا بنایا جائے اور اس کی عبادت کی جائے۔ رسول اللہ کے خلاف جارحیت کرنے والے مشرکین (بنو اسماعیل) بھی تھے اور اہلِ کتاب (بنو اسرائیل) بھی۔ مگر دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیاگیا۔ مشرکین کے ساتھ جنگ یا اسلام کا اصول اختیار کیاگیا۔ مگر اہلِ کتاب کے لیے حکم ہوا کہ اگر وہ جزیہ (سیاسی اطاعت) پر راضی ہوجائیں تو انھیں چھوڑ دو۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلاً مخاطب تھے اور اہلِ کتاب تبعاً۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جس قوم پر پیغمبر کے ذریعہ براہِ راست دعوت پہنچائی جاتی ہے اس سے اتمام حجت کے بعد زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ٹھيك ويسے هي جيسے كسي رياست ميں ايك شخص كے باغي ثابت هونے كے بعد اس سے زندگي كاحق چھين ليا جاتا هے۔ مگر جہاں تک دوسرے گروہوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ وہی سیاسی معاملہ کیا جاتا ہے جو عام بین اقوامی اصول کے مطابق درست ہو۔

وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ وَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیاگیا ہے وہ کسی حق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ محض آزمائش کے ليے ہے۔ خدا جب تک چاہتا ہے کسی کو اس زمین پر رکھتا ہے او ر جب اس کے علم کے مطابق اس کی مدت امتحان پوری ہوجاتی ہے تو اس پر موت وارد کرکے اس کو یہاں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ پیغمبر کے مخاطبین کے ساتھ دوسری صورت میں کیا جاتاہے۔ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان آتاہے ان پر وہ آخری حد تک حق کی گواہی دیتا ہے۔ پیغمبر کے دعوتی کام کی تکمیل کے بعد جو لوگ ایمان نہ لائیں وہ خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق کھودیتے ہیں ۔ وہ آزمائش کی غرض سے یہاں رکھے گئے تھے۔ اتمام حجت نے آزمائش کی تکمیل کردی۔ پھر اس کے بعد زندگی کا حق کس ليے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کے کام کی تکمیل کے بعد ان کے اوپر کوئی نہ کوئی ہلاکت خیز آفت آتی ہے اور ان کا استیصال کردیا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ مگر ان پر کوئی آسمانی آفت نہیں آئی۔ ان کے اوپر خدا کی مذکورہ سنت کا نفاذ اسباب کے نقشہ میں کیاگیا ہے۔ اولاً قرآن کے برتر اسلوب اور پیغمبر کے اعلیٰ کردار کے ذریعہ ان کو دعوت پہنچائی گئی۔ پھر اہلِ توحید کو مکہ کے اہلِ شرک پر غالب کرکے ان کے اوپر اتمام حجت کردیاگیا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور اس کے باوجود وہ انکار کی روش پر قائم رہے تو ان کو مسلسل خیانت اور عہد شکنی کا مجرم قرار دے کر ان کو الٹی میٹم دياگیا کہ چار ماہ کے اندر اپنی اصلاح کرلو، ورنہ مسلمانوں کی تلوار سے تمھارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ پھر یہ سارا معاملہ تقویٰ کے اصول پر کیاگیا، نہ کہ قومی سیاست کے اصول پر— مشرکین کو دلائل کے میدان میں لاجواب کردیاگیا، ان کو پیشگي انتباہ کے ذریعہ کئی مہینہ تک سوچنے کا موقع دیاگیا۔ آخر وقت تک ان کے ليے دروازہ کھلا رکھا گیا کہ جو لوگ توبہ کرلیں وہ خدا کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوجائیں ۔ جن بعض قبائل نے معاہدہ نہیں توڑا تھا ان کے معاملہ کو معاہدہ توڑنے والوں سے الگ رکھاگیا، وغیرہ۔

وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

📘 ایمان زندہ ہو تو آدمی ہر واقعہ کو خدا کی طرف منسوب كرتا هے۔ وه كسي چيز كو صرف اس وقت سمجھ پاتا هے جب كه خدا كي نسبت سے اس کے بارے میں رائے قائم کرلے۔ وہ پھول کی خوشبو کو اس وقت سمجھتا ہے جب کہ اس میں اسے خدا کی مہک مل جائے۔ وہ سورج کو اس وقت دریافت کرتاہے جب کہ وہ اس کے معطی کو معلوم کرلے۔ ہر بڑائی اس کو خدا کا عطیہ نظر آتی ہے۔ ہر خوبی اس کو خدا کا احسان یاد دلاتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر خدا سے آدمی کا تعلق گھٹ کر صرف موہوم عقیدہ کے درجہ پر آجائے تو خدا اس کے زندہ شعور کے ليے ایک لامعلوم چیز بن جائے گا۔ وہ دنیا کی نظر آنے والی چیزوں پر خدا کو قیاس کرنے لگے گا۔ دوسری قسم کے لوگ طبعی طورپر خالق کو ان دنیوی چیزوں کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں ۔ وہ خالق کو مخلوق کی سطح پر اتارلاتے ہیں ۔ یہی حال یہود ونصاریٰ کا اپنے بگاڑ کے زمانے میں ہوا۔ اب خدا ان کے یہاں موہوم معتقدات کے خانہ میں چلا گیا۔ چنانچہ وہ اپنے نظر آنے والے اکابر اور بزرگوں کو وہ درجہ دینے لگے جو درجہ خدائے عالم الغیب کو دینا چاہیے۔ انھوں نے دیکھا کہ یونانی اور رومی قومیں سورج کو خدا بنا کر اس کے ليے بیٹا فرض كيے ہوئے ہیں تو ان کو بھی اپنے بزرگوں کے لیے یہی سب سے اونچا لفظ نظر آیا۔ انھوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں ، اب اور ابن کے الفاظ کی خودساختہ تشریح کرکے خدا کو باپ اور اپنے پیغمبر کو اس کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔ حالاں کہ خدا صرف ایک ہی ہے، وہ ہر مشابہت سے پاک ہے، وہی تنہا اس کا مستحق ہے کہ اس کو بڑا بنایا جائے اور اس کی عبادت کی جائے۔ رسول اللہ کے خلاف جارحیت کرنے والے مشرکین (بنو اسماعیل) بھی تھے اور اہلِ کتاب (بنو اسرائیل) بھی۔ مگر دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیاگیا۔ مشرکین کے ساتھ جنگ یا اسلام کا اصول اختیار کیاگیا۔ مگر اہلِ کتاب کے لیے حکم ہوا کہ اگر وہ جزیہ (سیاسی اطاعت) پر راضی ہوجائیں تو انھیں چھوڑ دو۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلاً مخاطب تھے اور اہلِ کتاب تبعاً۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جس قوم پر پیغمبر کے ذریعہ براہِ راست دعوت پہنچائی جاتی ہے اس سے اتمام حجت کے بعد زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ٹھيك ويسے هي جيسے كسي رياست ميں ايك شخص كے باغي ثابت هونے كے بعد اس سے زندگي كاحق چھين ليا جاتا هے۔ مگر جہاں تک دوسرے گروہوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ وہی سیاسی معاملہ کیا جاتا ہے جو عام بین اقوامی اصول کے مطابق درست ہو۔

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَٰهًا وَاحِدًا ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

📘 ایمان زندہ ہو تو آدمی ہر واقعہ کو خدا کی طرف منسوب كرتا هے۔ وه كسي چيز كو صرف اس وقت سمجھ پاتا هے جب كه خدا كي نسبت سے اس کے بارے میں رائے قائم کرلے۔ وہ پھول کی خوشبو کو اس وقت سمجھتا ہے جب کہ اس میں اسے خدا کی مہک مل جائے۔ وہ سورج کو اس وقت دریافت کرتاہے جب کہ وہ اس کے معطی کو معلوم کرلے۔ ہر بڑائی اس کو خدا کا عطیہ نظر آتی ہے۔ ہر خوبی اس کو خدا کا احسان یاد دلاتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر خدا سے آدمی کا تعلق گھٹ کر صرف موہوم عقیدہ کے درجہ پر آجائے تو خدا اس کے زندہ شعور کے ليے ایک لامعلوم چیز بن جائے گا۔ وہ دنیا کی نظر آنے والی چیزوں پر خدا کو قیاس کرنے لگے گا۔ دوسری قسم کے لوگ طبعی طورپر خالق کو ان دنیوی چیزوں کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں جن کو وہ جانتے ہیں ۔ وہ خالق کو مخلوق کی سطح پر اتارلاتے ہیں ۔ یہی حال یہود ونصاریٰ کا اپنے بگاڑ کے زمانے میں ہوا۔ اب خدا ان کے یہاں موہوم معتقدات کے خانہ میں چلا گیا۔ چنانچہ وہ اپنے نظر آنے والے اکابر اور بزرگوں کو وہ درجہ دینے لگے جو درجہ خدائے عالم الغیب کو دینا چاہیے۔ انھوں نے دیکھا کہ یونانی اور رومی قومیں سورج کو خدا بنا کر اس کے ليے بیٹا فرض كيے ہوئے ہیں تو ان کو بھی اپنے بزرگوں کے لیے یہی سب سے اونچا لفظ نظر آیا۔ انھوں نے اپنی آسمانی کتابوں میں ، اب اور ابن کے الفاظ کی خودساختہ تشریح کرکے خدا کو باپ اور اپنے پیغمبر کو اس کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔ حالاں کہ خدا صرف ایک ہی ہے، وہ ہر مشابہت سے پاک ہے، وہی تنہا اس کا مستحق ہے کہ اس کو بڑا بنایا جائے اور اس کی عبادت کی جائے۔ رسول اللہ کے خلاف جارحیت کرنے والے مشرکین (بنو اسماعیل) بھی تھے اور اہلِ کتاب (بنو اسرائیل) بھی۔ مگر دونوں کے ساتھ الگ الگ معاملہ کیاگیا۔ مشرکین کے ساتھ جنگ یا اسلام کا اصول اختیار کیاگیا۔ مگر اہلِ کتاب کے لیے حکم ہوا کہ اگر وہ جزیہ (سیاسی اطاعت) پر راضی ہوجائیں تو انھیں چھوڑ دو۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصلاً مخاطب تھے اور اہلِ کتاب تبعاً۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ جس قوم پر پیغمبر کے ذریعہ براہِ راست دعوت پہنچائی جاتی ہے اس سے اتمام حجت کے بعد زندگی کا حق چھین لیا جاتا ہے۔ ٹھيك ويسے هي جيسے كسي رياست ميں ايك شخص كے باغي ثابت هونے كے بعد اس سے زندگي كاحق چھين ليا جاتا هے۔ مگر جہاں تک دوسرے گروہوں کا تعلق ہے ان کے ساتھ وہی سیاسی معاملہ کیا جاتا ہے جو عام بین اقوامی اصول کے مطابق درست ہو۔

يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ

📘 اِن آیتوں میں خدا نے اپنے اس مستقل فیصلہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے دین کو قیامت تک پوری طرح محفوظ رکھے گا، ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہونے دیاجائے گا کہ لوگ اپنی ملاوٹوں سے خدا کے دین کو گم کردیں ۔ یا کوئی طاقت اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے میں کامیاب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر بسایا تو اسی کے ساتھ اس کے ليے اپنا ہدایت نامہ بھی انسان کے حوالے کردیا۔ بعد کے دورمیں جب لوگ غفلت اور دنیا پرستی میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے خدا کے الفاظ کو بدل کراس کو اپنی خواہشوں کے مطابق بنالیا۔ مثلاً اپنے بزرگوں کو خدا کے یہاں سفارشی مان کر یہ عقیدہ قائم کرلیا کہ ہم جو کچھ بھی کریں ، ہمارے بزرگ اپنے سفارش کے زور پر ہم کو خدا کے یہاں نجات دلادیں گے یا یہ کہ جنت اور جہنم سب اسی دنیا میں ہیں ۔ اس کے آگے او رکچھ نہیں ۔ لوگ جو چاہتے تھے اس کو انھوں نے خدا کی طرف منسوب کرکے خدا کی کتاب میں لکھ دیا۔ اس کے بعد خدا نے دوسرا نبی بھیجا جس نے خدا کے دین کو انسانی ملاوٹوں سے الگ کرکے دوبارہ اس کو صحیح شکل میں پیش کیا۔ مگر بعد کے زمانہ میں لوگوں نے اس کو بھی بدل ڈالا۔ یہی بار بار ہوتا رہا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ ایک آخری رسول بھیجے اور اس کے ذریعہ ایسے حالات پیدا کرے کہ خدا کا دین ہمیشہ کے لیے اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہوجائے۔ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تاریخ نبوت کا یہی عظیم کارنامہ انجام پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت لوگو ں نے خود ساختہ طورپر بہت سے دین بنارکھے تھے۔ عرب کے مشرکین کا ایک دین تھا جس کو وہ دینِ ابراہیم کہتے تھے۔ یہود کا ایک دین تھا جس کو وہ دین موسیٰ کہتے تھے۔ نصاریٰ کا ایک دین تھا جس کو وہ دین ِمسیح کہتے تھے۔ یہ سب خدا کے دین کے خود ساختہ ایڈیشن تھے جن کو انہوں نے غلط طورپر خدا کی طرف سے آیا ہو ا دین قرار دے رکھا تھا۔ خدا نے ان سب دینوں کورد کردیا اور پیغمبر عربی کے دین کو اپنے دین کے واحد مستند ایڈیشن کے طورپر قیامت تک کے لیے قائم کردیا ۔ آج اسلام واحد دین ہے جس کے متن میں کوئی تبدیلی ممکن نہ ہوسکی جب کہ دوسرے تمام ادیان انسانی تحریفات کا شکار ہو کر اپنی اصلی تصویر گم کرچکے ہیں ۔ اسلام واحد دین ہے جو تاریخی طورپر معتبر دین ہے جب کہ دوسرے تمام ادیان اپنے حق میں تاریخی اعتباریت کھوچکے ہیں ۔ اسلام وه واحد دین ہے جس کی تمام تعليمات ایک زندہ زبان میں پائی جاتی ہیں جب کہ دوسرے تمام ادیان کی ابتدائی کتابیں ایسی زبانوں میں ہیں جو اب مردہ ہوچکی ہیں ۔ اسلام کی صورت میں خدا نے مذہب کی جو روشنی جلائی وہ کبھی مدھم نہیں ہوئی اور نہ بجھائی جاسکی۔ وہ کامل طورپر دنیا کے سامنے موجود ہے اور ہر دوسرے دین کے اوپر اپنی اصولی برتری کو مسلسل قائم رکھے ہوئے ہے۔

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ

📘 اِن آیتوں میں خدا نے اپنے اس مستقل فیصلہ کا اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے دین کو قیامت تک پوری طرح محفوظ رکھے گا، ماضی کی طرح اب ایسا نہیں ہونے دیاجائے گا کہ لوگ اپنی ملاوٹوں سے خدا کے دین کو گم کردیں ۔ یا کوئی طاقت اس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے میں کامیاب ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو زمین پر بسایا تو اسی کے ساتھ اس کے ليے اپنا ہدایت نامہ بھی انسان کے حوالے کردیا۔ بعد کے دورمیں جب لوگ غفلت اور دنیا پرستی میں مبتلا ہوئے تو انھوں نے خدا کے الفاظ کو بدل کراس کو اپنی خواہشوں کے مطابق بنالیا۔ مثلاً اپنے بزرگوں کو خدا کے یہاں سفارشی مان کر یہ عقیدہ قائم کرلیا کہ ہم جو کچھ بھی کریں ، ہمارے بزرگ اپنے سفارش کے زور پر ہم کو خدا کے یہاں نجات دلادیں گے یا یہ کہ جنت اور جہنم سب اسی دنیا میں ہیں ۔ اس کے آگے او رکچھ نہیں ۔ لوگ جو چاہتے تھے اس کو انھوں نے خدا کی طرف منسوب کرکے خدا کی کتاب میں لکھ دیا۔ اس کے بعد خدا نے دوسرا نبی بھیجا جس نے خدا کے دین کو انسانی ملاوٹوں سے الگ کرکے دوبارہ اس کو صحیح شکل میں پیش کیا۔ مگر بعد کے زمانہ میں لوگوں نے اس کو بھی بدل ڈالا۔ یہی بار بار ہوتا رہا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا کہ ایک آخری رسول بھیجے اور اس کے ذریعہ ایسے حالات پیدا کرے کہ خدا کا دین ہمیشہ کے لیے اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہوجائے۔ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ تاریخ نبوت کا یہی عظیم کارنامہ انجام پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت لوگو ں نے خود ساختہ طورپر بہت سے دین بنارکھے تھے۔ عرب کے مشرکین کا ایک دین تھا جس کو وہ دینِ ابراہیم کہتے تھے۔ یہود کا ایک دین تھا جس کو وہ دین موسیٰ کہتے تھے۔ نصاریٰ کا ایک دین تھا جس کو وہ دین ِمسیح کہتے تھے۔ یہ سب خدا کے دین کے خود ساختہ ایڈیشن تھے جن کو انہوں نے غلط طورپر خدا کی طرف سے آیا ہو ا دین قرار دے رکھا تھا۔ خدا نے ان سب دینوں کورد کردیا اور پیغمبر عربی کے دین کو اپنے دین کے واحد مستند ایڈیشن کے طورپر قیامت تک کے لیے قائم کردیا ۔ آج اسلام واحد دین ہے جس کے متن میں کوئی تبدیلی ممکن نہ ہوسکی جب کہ دوسرے تمام ادیان انسانی تحریفات کا شکار ہو کر اپنی اصلی تصویر گم کرچکے ہیں ۔ اسلام واحد دین ہے جو تاریخی طورپر معتبر دین ہے جب کہ دوسرے تمام ادیان اپنے حق میں تاریخی اعتباریت کھوچکے ہیں ۔ اسلام وه واحد دین ہے جس کی تمام تعليمات ایک زندہ زبان میں پائی جاتی ہیں جب کہ دوسرے تمام ادیان کی ابتدائی کتابیں ایسی زبانوں میں ہیں جو اب مردہ ہوچکی ہیں ۔ اسلام کی صورت میں خدا نے مذہب کی جو روشنی جلائی وہ کبھی مدھم نہیں ہوئی اور نہ بجھائی جاسکی۔ وہ کامل طورپر دنیا کے سامنے موجود ہے اور ہر دوسرے دین کے اوپر اپنی اصولی برتری کو مسلسل قائم رکھے ہوئے ہے۔

۞ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۗ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ

📘 دوسرے کا مال لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کوحق کے مطابق لیا جائے۔ یعنی آدمی دوسرے کی کوئی واقعی خدمت کرے یا اس کو کوئی حقیقی نفع پہنچائے اور اس کے بدلے میں اس کا مال حاصل کرے۔ یہ بالکل جائز ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال لینا یہ ہے کہ دوسرے کو دھوکے میں ڈال کر اس کا مال حاصل کیا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ ناجائز ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکانے والا ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانا وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں استحصال (exploitation) کہا جاتاہے۔یہود کے اکابر بہت بڑے پیمانہ پر اپنے عوام کا مذہبی استحصال کررہے تھے۔ وہ عوام میں ایسی جھوٹی کہانیاں پھیلائے ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں لوگ بزرگوں سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کریں اور پھر ان کو بزرگ سمجھ کر ان کی برکت لینے کے لیے آئیں اور انھیں ہديے اور نذرانے پیش کریں ۔ وہ خدا کے دین کی خدمت کے نام پر لوگوں سے رقمیں وصول کرتے تھے، حالاں کہ جو دین وہ لوگوں کے درمیان تقسیم کررہے تھے وہ ان کا اپنا بنایا ہوا دین تھا، نہ کہ حقیقۃً خدا کا اتارا دین۔ وہ ملت یہود کے احیاء کے نام پر بڑے بڑے چندے وصول کرتے تھے، حالاں کہ احیاء ملت کے نام پر جو کچھ کررہے تھے وہ صرف یہ تھا کہ لوگوں کو خوش خیالیوں میں الجھا کر انھیں اپنی قیادت کے لیے استعمال کرتے رہیں ۔ وہ تعویذ گنڈے میں پُراسرار اوصاف بتا کر ان کو لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرتے تھے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ تھا کہ خود اپنے نازک معاملات میں وہ کبھی ان تعویذ گنڈوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ آدمی کے پاس جو مال آتا ہے اس کے دو ہی جائز مصرف ہیں ۔ اپنی واقعی ضرورتوں میں خرچ کرنا، اور جو کچھ واقعی ضرورت سے زائد ہو ا س کو خدا کے راستہ میں دے دینا۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ سب آدمی کے ليے عذاب بننے والے ہیں ۔ خواہ وہ اپنے مال کو فضول خرچیوں میں اڑاتا ہو یا اس کو جمع کرکے رکھ رہا ہو۔ جو لوگ یہود کی طرح خود ساختہ مذہب کی بنیاد پر کسی گروہ کے اوپر اپنی قیادت قائم كيے ہوئے ہوں اور خدا کے دین کے نام پر لوگوں کا استحصال کررہے ہوں وہ کسی ایسی دعوت کو سخت ناپسند کرتے ہیں جو خداکے سچے اور بے آمیز دین کو زندہ کرنا چاہتی ہو۔ ایسے دین میں انھیں اپنی مذہبی حیثیت بے اعتبار ہوتی نظر آتی ہے۔ انھیں دکھائی دیتا ہے کہ اگر اس کو عوام میں فروغ حاصل ہو تو ا ن کی مذہبی تجارت بالکل بے نقاب ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ ایسی تحریک کے اٹھتے ہی اسے سونگھ لیتے ہیں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ

📘 دوسرے کا مال لینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کوحق کے مطابق لیا جائے۔ یعنی آدمی دوسرے کی کوئی واقعی خدمت کرے یا اس کو کوئی حقیقی نفع پہنچائے اور اس کے بدلے میں اس کا مال حاصل کرے۔ یہ بالکل جائز ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال لینا یہ ہے کہ دوسرے کو دھوکے میں ڈال کر اس کا مال حاصل کیا جائے۔ یہ دوسرا طریقہ ناجائز ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکانے والا ہے۔ باطل طریقے سے دوسرے کا مال کھانا وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں استحصال (exploitation) کہا جاتاہے۔یہود کے اکابر بہت بڑے پیمانہ پر اپنے عوام کا مذہبی استحصال کررہے تھے۔ وہ عوام میں ایسی جھوٹی کہانیاں پھیلائے ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں لوگ بزرگوں سے غیر معمولی امیدیں وابستہ کریں اور پھر ان کو بزرگ سمجھ کر ان کی برکت لینے کے لیے آئیں اور انھیں ہديے اور نذرانے پیش کریں ۔ وہ خدا کے دین کی خدمت کے نام پر لوگوں سے رقمیں وصول کرتے تھے، حالاں کہ جو دین وہ لوگوں کے درمیان تقسیم کررہے تھے وہ ان کا اپنا بنایا ہوا دین تھا، نہ کہ حقیقۃً خدا کا اتارا دین۔ وہ ملت یہود کے احیاء کے نام پر بڑے بڑے چندے وصول کرتے تھے، حالاں کہ احیاء ملت کے نام پر جو کچھ کررہے تھے وہ صرف یہ تھا کہ لوگوں کو خوش خیالیوں میں الجھا کر انھیں اپنی قیادت کے لیے استعمال کرتے رہیں ۔ وہ تعویذ گنڈے میں پُراسرار اوصاف بتا کر ان کو لوگوں کے ہاتھوں فروخت کرتے تھے۔ حالاں کہ ان کا حال یہ تھا کہ خود اپنے نازک معاملات میں وہ کبھی ان تعویذ گنڈوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ آدمی کے پاس جو مال آتا ہے اس کے دو ہی جائز مصرف ہیں ۔ اپنی واقعی ضرورتوں میں خرچ کرنا، اور جو کچھ واقعی ضرورت سے زائد ہو ا س کو خدا کے راستہ میں دے دینا۔ اس کے علاوہ جو طریقے ہیں وہ سب آدمی کے ليے عذاب بننے والے ہیں ۔ خواہ وہ اپنے مال کو فضول خرچیوں میں اڑاتا ہو یا اس کو جمع کرکے رکھ رہا ہو۔ جو لوگ یہود کی طرح خود ساختہ مذہب کی بنیاد پر کسی گروہ کے اوپر اپنی قیادت قائم كيے ہوئے ہوں اور خدا کے دین کے نام پر لوگوں کا استحصال کررہے ہوں وہ کسی ایسی دعوت کو سخت ناپسند کرتے ہیں جو خداکے سچے اور بے آمیز دین کو زندہ کرنا چاہتی ہو۔ ایسے دین میں انھیں اپنی مذہبی حیثیت بے اعتبار ہوتی نظر آتی ہے۔ انھیں دکھائی دیتا ہے کہ اگر اس کو عوام میں فروغ حاصل ہو تو ا ن کی مذہبی تجارت بالکل بے نقاب ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے گی۔ وہ ایسی تحریک کے اٹھتے ہی اسے سونگھ لیتے ہیں اور اس کے مخالف بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں ۔

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ ۚ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ

📘 دینی احکام پر ہر شخص الگ الگ بھی عمل کرسکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام اہل ایمان ایک ساتھ ان پر عمل کریں تا کہ ان میں اجتماعیت پیدا ہو۔ اسی اجتماعیت کے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر عبادات کی ادائیگی کے ليے متعین اوقات اور تاریخیں مقرر کی گئی ہیں ۔ یہ تاریخیں اگر شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے رکھی جائیں تو ان کے زمانہ میں یکسانیت آجاتی ۔ مثلاً روزہ ہمیشہ ایک موسم میں آتا اور حج ہمیشہ ایک موسم میں ۔ مگر یکسانیت آدمی کے اندر جمود پیدا کرتی ہے اور تبدیلی سے نئی قوت عمل بیدار ہوتی ہے۔ اس بنا پر دینی امور کے اجتماعی نظام کے ليے چاند کا قدرتی کیلنڈر اختیار کیا گیا۔ اسی اصول کی وجہ سے حج کی تاریخیں مختلف موسموں میں آتی ہیں ، کبھی سردیوں میں اور کبھی گرمیوں میں ۔ قدیم زمانہ میں جب کہ حج کا اجتماع زبردست تجارتی اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف موسموں میں حج کا آنا تجارتی اعتبار سے مضر معلوم ہوا۔ اہل عرب کو دینی مصلحتوں کے مقابلہ میں دنيوی مصلحتیں زیادہ اہم نظر آئیں ۔ انہوں نے چاہا کہ ایسی صورت اختیار کریں کہ حج کی تاریخ ہمیشہ ایک ہی موافق موسم میں پڑے۔ اس موقع پر یہودو نصاریٰ کا کبیسہ کاحساب ان کے علم میں آیا۔ اپنی خواہشوں کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے وہ ان کو پسند آگیا اور انہوں نےاس کو اپنے یہاں رائج کرلیا۔ یعنی مہینو ں کو ہٹا کر ایک کی جگہ دوسرے کو رکھ دینا۔ مثلاً محرم کو صفر کی جگہ کردینا اور صفر کو محرم کی جگہ۔ نسئی کے اس طریقے سے اہل عرب کو دو فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ حج کے موسم کو تجارتی تقاضے کے مطابق کرلینا۔ دوسرے یہ کہ حرام مہینوں ( محرم، رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ) میں کسی کے خلاف لڑائی چھیڑنا ہو تو حرام مہینہ کی جگہ غیر حرام مہینہ رکھ کر لڑائی کو جائز كرلینا۔ اہل عرب کے سامنے حضرت ابراہیم کا طریقہ بھی تھا۔ مگر ان کے ذہن پر چونکہ تجارتی مقاصد اور قبائلی تقاضوں کا غلبہ تھا۔ اس ليے ان کونسئی کا طریقہ زیادہ اچھا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنے معاملات کے ليے اس کو اختیار کرلیا۔ ’’تم بھی مل کر لڑو جس طرح وہ مل کر لڑتے ہیں ‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ خدا سے بے خوفی پر متحد ہوجاتے ہیں ، تم خدا سے خوف ( تقویٰ) پر متحد ہوجاؤ۔ وہ منفی مقاصد کے ليے باہم جڑ جاتے ہیں تم مثبت مقاصد کے ليے آپس میں جڑجاؤ۔ وہ دنیا کی خاطر ایک ہوجاتے ہیں تم آخرت کی خاطر ایک ہوجاؤ۔

إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا يُحِلُّونَهُ عَامًا وَيُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِيُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَيُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ ۚ زُيِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

📘 دینی احکام پر ہر شخص الگ الگ بھی عمل کرسکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام اہل ایمان ایک ساتھ ان پر عمل کریں تا کہ ان میں اجتماعیت پیدا ہو۔ اسی اجتماعیت کے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر عبادات کی ادائیگی کے ليے متعین اوقات اور تاریخیں مقرر کی گئی ہیں ۔ یہ تاریخیں اگر شمسی کیلنڈر کے اعتبار سے رکھی جائیں تو ان کے زمانہ میں یکسانیت آجاتی ۔ مثلاً روزہ ہمیشہ ایک موسم میں آتا اور حج ہمیشہ ایک موسم میں ۔ مگر یکسانیت آدمی کے اندر جمود پیدا کرتی ہے اور تبدیلی سے نئی قوت عمل بیدار ہوتی ہے۔ اس بنا پر دینی امور کے اجتماعی نظام کے ليے چاند کا قدرتی کیلنڈر اختیار کیا گیا۔ اسی اصول کی وجہ سے حج کی تاریخیں مختلف موسموں میں آتی ہیں ، کبھی سردیوں میں اور کبھی گرمیوں میں ۔ قدیم زمانہ میں جب کہ حج کا اجتماع زبردست تجارتی اہمیت رکھتا تھا۔ مختلف موسموں میں حج کا آنا تجارتی اعتبار سے مضر معلوم ہوا۔ اہل عرب کو دینی مصلحتوں کے مقابلہ میں دنيوی مصلحتیں زیادہ اہم نظر آئیں ۔ انہوں نے چاہا کہ ایسی صورت اختیار کریں کہ حج کی تاریخ ہمیشہ ایک ہی موافق موسم میں پڑے۔ اس موقع پر یہودو نصاریٰ کا کبیسہ کاحساب ان کے علم میں آیا۔ اپنی خواہشوں کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے وہ ان کو پسند آگیا اور انہوں نےاس کو اپنے یہاں رائج کرلیا۔ یعنی مہینو ں کو ہٹا کر ایک کی جگہ دوسرے کو رکھ دینا۔ مثلاً محرم کو صفر کی جگہ کردینا اور صفر کو محرم کی جگہ۔ نسئی کے اس طریقے سے اہل عرب کو دو فائدے ہوئے۔ ایک یہ کہ حج کے موسم کو تجارتی تقاضے کے مطابق کرلینا۔ دوسرے یہ کہ حرام مہینوں ( محرم، رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ) میں کسی کے خلاف لڑائی چھیڑنا ہو تو حرام مہینہ کی جگہ غیر حرام مہینہ رکھ کر لڑائی کو جائز كرلینا۔ اہل عرب کے سامنے حضرت ابراہیم کا طریقہ بھی تھا۔ مگر ان کے ذہن پر چونکہ تجارتی مقاصد اور قبائلی تقاضوں کا غلبہ تھا۔ اس ليے ان کونسئی کا طریقہ زیادہ اچھا معلوم ہوا اور انہوں نے اپنے معاملات کے ليے اس کو اختیار کرلیا۔ ’’تم بھی مل کر لڑو جس طرح وہ مل کر لڑتے ہیں ‘‘۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ خدا سے بے خوفی پر متحد ہوجاتے ہیں ، تم خدا سے خوف ( تقویٰ) پر متحد ہوجاؤ۔ وہ منفی مقاصد کے ليے باہم جڑ جاتے ہیں تم مثبت مقاصد کے ليے آپس میں جڑجاؤ۔ وہ دنیا کی خاطر ایک ہوجاتے ہیں تم آخرت کی خاطر ایک ہوجاؤ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ ۚ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ

📘 یہ آیتیں غزوہ تبوک (9 ھ) کے ذیل میں اتریں ۔ اس موقع پر مدینہ کے منافقین کی طرف سے جو عمل ظاہر ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمزور ایمان والے لوگ جب کسی اسلامی معاشرہ میں داخل ہوجاتے ہیں تو نازک مواقع پر ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام سے تعلق کے دو درجے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی سے آدمی کی تمام وفاداریاں وابستہ ہوجائیں ۔ وہ آدمی کے ليے زندگی وموت کا مسئلہ بن جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی کی حقیقی دلچسپیاں تو کہیں اور اٹکی ہوئی ہوں اور اوپری طور پر وہ اسلام کا اقرار کرلے۔ پہلی قسم کے لوگ سچے مومن ہیں اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو شریعت کی اصطلاح میں منافق کہاگیا ہے۔ مومن کا حال یہ ہوتاہے کہ عام حالات میں بھی وہ اسلام کو پکڑے ہوئے ہوتا ہے اور قربانی کے لمحات میں بھی وہ پوری طرح اس پر قائم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، منافق کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بے ضرر اسلام یا نمائشی دین داری میں تو بہت آگے دکھائی دیتا ہے۔ مگر جب قربانی کی سطح پر اسلام کے تقاضوں کو اختیار کرنا ہو تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مومن کے سامنے اصلاً آخرت ہوتی ہے ا ور منافق کے سامنے اصلاً دنیا۔ مومن آخرت کی بے پایاں نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا، اس ليے جب بھی دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے راستہ میں حائل ہو تو وہ اس کو نظر انداز کرکے دین کی طرف بڑھ جاتاہے۔ اس کے برعکس، منافق ایسے اسلام کو پسند کرتاہے جس میں دنیا کو بگاڑے بغیر اسلامیت کا کریڈٹ مل رہا ہو۔ اس ليے جب ایسا موقع آتا ہے کہ دنیا کو کھو کر اسلام کو پانا ہو تو وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے، خواہ اس کے نتیجہ میں اسلام کی رسی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اسلام اور غیر اسلام کی کش مکش کے جو لمحات موجودہ دنیا میں آتے ہیں وہ بظاہر دیکھنے والوں کو اگرچہ دو انسانی گروہوں کی کش مکش دکھائی دیتی ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک خدائی معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خود خدا اسلام کی طرف سے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے کسی واقعہ کو اسباب کے روپ میں اس ليے ظاہر کیا جاتاہے تاکہ ان لوگوں کو خدمتِ دین کا کریڈٹ دیا جائے جو اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کرچکے ہیں ۔

إِلَّا تَنْفِرُوا يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا وَيَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ وَلَا تَضُرُّوهُ شَيْئًا ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

📘 یہ آیتیں غزوہ تبوک (9 ھ) کے ذیل میں اتریں ۔ اس موقع پر مدینہ کے منافقین کی طرف سے جو عمل ظاہر ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمزور ایمان والے لوگ جب کسی اسلامی معاشرہ میں داخل ہوجاتے ہیں تو نازک مواقع پر ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام سے تعلق کے دو درجے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی سے آدمی کی تمام وفاداریاں وابستہ ہوجائیں ۔ وہ آدمی کے ليے زندگی وموت کا مسئلہ بن جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی کی حقیقی دلچسپیاں تو کہیں اور اٹکی ہوئی ہوں اور اوپری طور پر وہ اسلام کا اقرار کرلے۔ پہلی قسم کے لوگ سچے مومن ہیں اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو شریعت کی اصطلاح میں منافق کہاگیا ہے۔ مومن کا حال یہ ہوتاہے کہ عام حالات میں بھی وہ اسلام کو پکڑے ہوئے ہوتا ہے اور قربانی کے لمحات میں بھی وہ پوری طرح اس پر قائم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، منافق کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بے ضرر اسلام یا نمائشی دین داری میں تو بہت آگے دکھائی دیتا ہے۔ مگر جب قربانی کی سطح پر اسلام کے تقاضوں کو اختیار کرنا ہو تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مومن کے سامنے اصلاً آخرت ہوتی ہے ا ور منافق کے سامنے اصلاً دنیا۔ مومن آخرت کی بے پایاں نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا، اس ليے جب بھی دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے راستہ میں حائل ہو تو وہ اس کو نظر انداز کرکے دین کی طرف بڑھ جاتاہے۔ اس کے برعکس، منافق ایسے اسلام کو پسند کرتاہے جس میں دنیا کو بگاڑے بغیر اسلامیت کا کریڈٹ مل رہا ہو۔ اس ليے جب ایسا موقع آتا ہے کہ دنیا کو کھو کر اسلام کو پانا ہو تو وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے، خواہ اس کے نتیجہ میں اسلام کی رسی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اسلام اور غیر اسلام کی کش مکش کے جو لمحات موجودہ دنیا میں آتے ہیں وہ بظاہر دیکھنے والوں کو اگرچہ دو انسانی گروہوں کی کش مکش دکھائی دیتی ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک خدائی معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خود خدا اسلام کی طرف سے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے کسی واقعہ کو اسباب کے روپ میں اس ليے ظاہر کیا جاتاہے تاکہ ان لوگوں کو خدمتِ دین کا کریڈٹ دیا جائے جو اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کرچکے ہیں ۔

إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

📘 موجودہ دنیا میں انسان کو رہنے بسنے کا جو موقع دیاگیا ہے وہ کسی حق کی بنا پر نہیں ہے بلکہ محض آزمائش کے ليے ہے۔ خدا جب تک چاہتا ہے کسی کو اس زمین پر رکھتا ہے او ر جب اس کے علم کے مطابق اس کی مدت امتحان پوری ہوجاتی ہے تو اس پر موت وارد کرکے اس کو یہاں سے اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ پیغمبر کے مخاطبین کے ساتھ دوسری صورت میں کیا جاتاہے۔ پیغمبر جن لوگوں کے درمیان آتاہے ان پر وہ آخری حد تک حق کی گواہی دیتا ہے۔ پیغمبر کے دعوتی کام کی تکمیل کے بعد جو لوگ ایمان نہ لائیں وہ خدا کی زمین پر زندہ رہنے کا حق کھودیتے ہیں ۔ وہ آزمائش کی غرض سے یہاں رکھے گئے تھے۔ اتمام حجت نے آزمائش کی تکمیل کردی۔ پھر اس کے بعد زندگی کا حق کس ليے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبروں کے کام کی تکمیل کے بعد ان کے اوپر کوئی نہ کوئی ہلاکت خیز آفت آتی ہے اور ان کا استیصال کردیا جاتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ مگر ان پر کوئی آسمانی آفت نہیں آئی۔ ان کے اوپر خدا کی مذکورہ سنت کا نفاذ اسباب کے نقشہ میں کیاگیا ہے۔ اولاً قرآن کے برتر اسلوب اور پیغمبر کے اعلیٰ کردار کے ذریعہ ان کو دعوت پہنچائی گئی۔ پھر اہلِ توحید کو مکہ کے اہلِ شرک پر غالب کرکے ان کے اوپر اتمام حجت کردیاگیا۔ جب یہ سب کچھ ہوچکا اور اس کے باوجود وہ انکار کی روش پر قائم رہے تو ان کو مسلسل خیانت اور عہد شکنی کا مجرم قرار دے کر ان کو الٹی میٹم دياگیا کہ چار ماہ کے اندر اپنی اصلاح کرلو، ورنہ مسلمانوں کی تلوار سے تمھارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ پھر یہ سارا معاملہ تقویٰ کے اصول پر کیاگیا، نہ کہ قومی سیاست کے اصول پر— مشرکین کو دلائل کے میدان میں لاجواب کردیاگیا، ان کو پیشگي انتباہ کے ذریعہ کئی مہینہ تک سوچنے کا موقع دیاگیا۔ آخر وقت تک ان کے ليے دروازہ کھلا رکھا گیا کہ جو لوگ توبہ کرلیں وہ خدا کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوجائیں ۔ جن بعض قبائل نے معاہدہ نہیں توڑا تھا ان کے معاملہ کو معاہدہ توڑنے والوں سے الگ رکھاگیا، وغیرہ۔

إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنْزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 یہ آیتیں غزوہ تبوک (9 ھ) کے ذیل میں اتریں ۔ اس موقع پر مدینہ کے منافقین کی طرف سے جو عمل ظاہر ہوا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمزور ایمان والے لوگ جب کسی اسلامی معاشرہ میں داخل ہوجاتے ہیں تو نازک مواقع پر ان کا کردار کیا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اسلام سے تعلق کے دو درجے ہیں ۔ ایک یہ کہ اسی سے آدمی کی تمام وفاداریاں وابستہ ہوجائیں ۔ وہ آدمی کے ليے زندگی وموت کا مسئلہ بن جائے۔ دوسرے یہ کہ آدمی کی حقیقی دلچسپیاں تو کہیں اور اٹکی ہوئی ہوں اور اوپری طور پر وہ اسلام کا اقرار کرلے۔ پہلی قسم کے لوگ سچے مومن ہیں اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو شریعت کی اصطلاح میں منافق کہاگیا ہے۔ مومن کا حال یہ ہوتاہے کہ عام حالات میں بھی وہ اسلام کو پکڑے ہوئے ہوتا ہے اور قربانی کے لمحات میں بھی وہ پوری طرح اس پر قائم رہتا ہے۔ اس کے برعکس، منافق کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ بے ضرر اسلام یا نمائشی دین داری میں تو بہت آگے دکھائی دیتا ہے۔ مگر جب قربانی کی سطح پر اسلام کے تقاضوں کو اختیار کرنا ہو تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ مومن کے سامنے اصلاً آخرت ہوتی ہے ا ور منافق کے سامنے اصلاً دنیا۔ مومن آخرت کی بے پایاں نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا، اس ليے جب بھی دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے راستہ میں حائل ہو تو وہ اس کو نظر انداز کرکے دین کی طرف بڑھ جاتاہے۔ اس کے برعکس، منافق ایسے اسلام کو پسند کرتاہے جس میں دنیا کو بگاڑے بغیر اسلامیت کا کریڈٹ مل رہا ہو۔ اس ليے جب ایسا موقع آتا ہے کہ دنیا کو کھو کر اسلام کو پانا ہو تو وہ دنیا کی طرف جھک جاتا ہے، خواہ اس کے نتیجہ میں اسلام کی رسی اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ اسلام اور غیر اسلام کی کش مکش کے جو لمحات موجودہ دنیا میں آتے ہیں وہ بظاہر دیکھنے والوں کو اگرچہ دو انسانی گروہوں کی کش مکش دکھائی دیتی ہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک خدائی معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے مواقع پر خود خدا اسلام کی طرف سے کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے کسی واقعہ کو اسباب کے روپ میں اس ليے ظاہر کیا جاتاہے تاکہ ان لوگوں کو خدمتِ دین کا کریڈٹ دیا جائے جو اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے حوالے کرچکے ہیں ۔

انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ

📘 مدینہ کے منافقین میں ایک طبقہ کم زور عقیدہ کے مسلمانوں كا تھا۔ انھوں نے اسلام کو حق سمجھ کر اس کا اقرار کیا تھا۔ وہ اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کرتے تھے جو ان کی دنیوی مصلحتوں کے خلاف نہ ہوں ۔ مگر جب اسلام کا تقاضا ان کے دنیوی تقاضوں سے ٹکراتا تو ایسے موقع پر وہ اسلامی تقاضے کو چھوڑ کر اپنے دنیوی تقاضے کو پکڑ لیتے۔ مدینہ کے معاشرہ میں مومن اس شخص کانام تھا جو قربانی کی سطح پر اسلام کو اختیار كيے ہوئے ہو اور منافق وہ تھا جو اسلام کی خاطر قربانی کی حد تک جانے کے لیے تیار نہ ہو۔ تبوک کا معاملہ ایک علامتی تصویر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں مومن کون ہوتاہے اور منافق کون۔ اس موقع پر روم جیسی بڑی اور منظم طاقت سے مقابلہ کے ليے نكلنا تھا۔ زمانه شديد گرمي كا تھا۔ فصل بالكل كاٹنے كے قريب پهنچ چكي تھي۔ هر قسم كي ناسازگاري كا مقابله كرتے ہوئے شام کی دوردراز سرحد پر پہنچناتھا۔ پھر مسلمانوں میں سامان والے تھے اور کچھ بے سامان والے۔ کچھ آزاد تھے اور کچھ اپنے حالات میں گھرے ہوئے تھے۔ مگر حکم ہوا کہ ہر حال میں نکلو، کسی بھی چیز کو اپنے ليے عذر نہ بناؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے یہاں اصل مسئلہ مقدار کا نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کو پیش کردے۔ یہی دراصل جنت کی قیمت ہے، خواہ وہ بظاہر دیکھنے والوں کے نزدیک کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ منافق کی خاص پہچان یہ ہے کہ اگر وہ دیکھتا ہے کہ بے مشقت سفر کرکے خدمت اسلام کا ایک بڑا کریڈٹ مل رہا ہے تو وہ فوراً ایسے سفر کے ليے تیار ہوجاتاہے۔ اس کے برعکس، اگر ایسا سفر درپیش ہوجس میں مشقتیں ہوں اور سب کچھ کرکے بھی بظاہر کوئی عزت اور کامیابی ملنے والی نہ ہو تو ایسی دینی مہم کے ليے اس کے اندر رغبت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک حقیقی دینی مہم سامنے ہو اور آدمی عذرات پیش کرکے اس سے الگ رہنا چاہے تو یہ صاف طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے خدا کے دین کو اپنی زندگی میں سب سے اونچا مقام نہیں دیا ہے۔ عذر پیش کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیش نظر مقصد کے مقابلہ میں کوئی اور چیز آدمی کے نزدیک زیادہ اہمت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا عذر کسی آدمی کو خدا کی نظر میں بے اعتبار ثابت کرنے والا ہے، نہ یہ کہ اس کی بنا پر اس کو مقبولین کی فہرست میں شامل کیاجائے۔ منافقت دراصل خدا سے بے پروا ہو کر بندوں کی پروا کرنا ہے۔ آدمی اگر خدا کی قدرت کو جان لے تو وہ کبھی ایسا نہ کرے۔

لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوكَ وَلَٰكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ ۚ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

📘 مدینہ کے منافقین میں ایک طبقہ کم زور عقیدہ کے مسلمانوں كا تھا۔ انھوں نے اسلام کو حق سمجھ کر اس کا اقرار کیا تھا۔ وہ اسلام کی ان تعلیمات پر عمل کرتے تھے جو ان کی دنیوی مصلحتوں کے خلاف نہ ہوں ۔ مگر جب اسلام کا تقاضا ان کے دنیوی تقاضوں سے ٹکراتا تو ایسے موقع پر وہ اسلامی تقاضے کو چھوڑ کر اپنے دنیوی تقاضے کو پکڑ لیتے۔ مدینہ کے معاشرہ میں مومن اس شخص کانام تھا جو قربانی کی سطح پر اسلام کو اختیار كيے ہوئے ہو اور منافق وہ تھا جو اسلام کی خاطر قربانی کی حد تک جانے کے لیے تیار نہ ہو۔ تبوک کا معاملہ ایک علامتی تصویر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی نظر میں مومن کون ہوتاہے اور منافق کون۔ اس موقع پر روم جیسی بڑی اور منظم طاقت سے مقابلہ کے ليے نكلنا تھا۔ زمانه شديد گرمي كا تھا۔ فصل بالكل كاٹنے كے قريب پهنچ چكي تھي۔ هر قسم كي ناسازگاري كا مقابله كرتے ہوئے شام کی دوردراز سرحد پر پہنچناتھا۔ پھر مسلمانوں میں سامان والے تھے اور کچھ بے سامان والے۔ کچھ آزاد تھے اور کچھ اپنے حالات میں گھرے ہوئے تھے۔ مگر حکم ہوا کہ ہر حال میں نکلو، کسی بھی چیز کو اپنے ليے عذر نہ بناؤ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کے یہاں اصل مسئلہ مقدار کا نہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ اس کو پیش کردے۔ یہی دراصل جنت کی قیمت ہے، خواہ وہ بظاہر دیکھنے والوں کے نزدیک کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ منافق کی خاص پہچان یہ ہے کہ اگر وہ دیکھتا ہے کہ بے مشقت سفر کرکے خدمت اسلام کا ایک بڑا کریڈٹ مل رہا ہے تو وہ فوراً ایسے سفر کے ليے تیار ہوجاتاہے۔ اس کے برعکس، اگر ایسا سفر درپیش ہوجس میں مشقتیں ہوں اور سب کچھ کرکے بھی بظاہر کوئی عزت اور کامیابی ملنے والی نہ ہو تو ایسی دینی مہم کے ليے اس کے اندر رغبت پیدا نہیں ہوتی۔ ایک حقیقی دینی مہم سامنے ہو اور آدمی عذرات پیش کرکے اس سے الگ رہنا چاہے تو یہ صاف طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے خدا کے دین کو اپنی زندگی میں سب سے اونچا مقام نہیں دیا ہے۔ عذر پیش کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ پیش نظر مقصد کے مقابلہ میں کوئی اور چیز آدمی کے نزدیک زیادہ اہمت رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا عذر کسی آدمی کو خدا کی نظر میں بے اعتبار ثابت کرنے والا ہے، نہ یہ کہ اس کی بنا پر اس کو مقبولین کی فہرست میں شامل کیاجائے۔ منافقت دراصل خدا سے بے پروا ہو کر بندوں کی پروا کرنا ہے۔ آدمی اگر خدا کی قدرت کو جان لے تو وہ کبھی ایسا نہ کرے۔

عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

📘 منافق وہ ہے جو اسلام کے نفع بخش یا بے ضرر پہلوؤں میں آگے آگے رہے مگر جب اس کے مفادات پر زد پڑتی نظر آئے تو وہ پیچھے ہٹ جائے۔ ایسے مواقع پر اس قسم کے کمزور لوگ جس چیز کا سہارا لیتے ہیں وہ عذر ہے۔ وہ اپنی بے عملی کو خوبصورت توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا سربراہ اگر اجتماعی مصالح کے پیش نظر ان کے عذر کو قبول کرلے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے اپنے الفاظ کے پردے میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی بے عملي کو چھپا لیا۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور وہ ہر آدمی کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ خدا ایسے لوگوں کا راز کبھی دنیا میں کھول دیتا ہے اور آخرت میں تو بہر حال ہر ایک کا راز کھولا جانے والا ہے۔ کسی کا لڑکا بیمار ہو یا کسی کی لڑکی کی شادی ہو تو اس وقت وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال کو اس سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی اور اس کا مال تو اسی ليے ہے کہ ایسا کوئی موقع آئے تو وہ اپنا سب کچھ نثار کرکے ان کے کام آسکے۔ ایسا کوئی وقت اس کے ليے بڑھ کر قربانی دینے کا ہوتا ہے، نہ کہ عذرات کی آڑ تلاش کرنے کا۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ جو شخص اپنے دین میں سنجیدہ ہو وہ دین کے ليے قربانی کا موقع آنے پر کبھی عذر تلاش نہیں کرے گا۔ اس کے سینے میں جو ایمانی جذبات بے قرار تھے وہ تو گویا اسی دن کے انتظار میں تھے کہ جب کوئی موقع آئے تو وہ اپنے آپ کو نثار کرکے خدا کی نظر میں اپنے کو وفادار ثابت کرسکے۔ پھر ایسا موقع پیش آنے پر وہ عذر کا سہارا کیوں ڈھونڈے گا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتا ہے اور ڈر کا جذبہ آدمی کے اندر سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے۔ ڈر کا جذبہ دوسرے تمام جذبات پر غالب آجاتاہے۔ جس چیز سے آدمی کو ڈر اور اندیشہ کا تعلق ہو اس کے بارے میں وہ آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ڈر کی سطح پر خدا کا مومن بن جائے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کس موقع پر اسے کس قسم کا رد عمل پیش کرناچاہيے۔ آخرت کا نفع سامنے نہ ہونے کی وجہ سے آدمی اس کے ليے قربانی دینے میں شک میں پڑ جاتا ہے۔ مگر اس شک کے پردہ کو پھاڑنا ہی اس دنیا میں آدمی کا اصل امتحان ہے۔

لَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ

📘 منافق وہ ہے جو اسلام کے نفع بخش یا بے ضرر پہلوؤں میں آگے آگے رہے مگر جب اس کے مفادات پر زد پڑتی نظر آئے تو وہ پیچھے ہٹ جائے۔ ایسے مواقع پر اس قسم کے کمزور لوگ جس چیز کا سہارا لیتے ہیں وہ عذر ہے۔ وہ اپنی بے عملی کو خوبصورت توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا سربراہ اگر اجتماعی مصالح کے پیش نظر ان کے عذر کو قبول کرلے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے اپنے الفاظ کے پردے میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی بے عملي کو چھپا لیا۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور وہ ہر آدمی کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ خدا ایسے لوگوں کا راز کبھی دنیا میں کھول دیتا ہے اور آخرت میں تو بہر حال ہر ایک کا راز کھولا جانے والا ہے۔ کسی کا لڑکا بیمار ہو یا کسی کی لڑکی کی شادی ہو تو اس وقت وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال کو اس سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی اور اس کا مال تو اسی ليے ہے کہ ایسا کوئی موقع آئے تو وہ اپنا سب کچھ نثار کرکے ان کے کام آسکے۔ ایسا کوئی وقت اس کے ليے بڑھ کر قربانی دینے کا ہوتا ہے، نہ کہ عذرات کی آڑ تلاش کرنے کا۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ جو شخص اپنے دین میں سنجیدہ ہو وہ دین کے ليے قربانی کا موقع آنے پر کبھی عذر تلاش نہیں کرے گا۔ اس کے سینے میں جو ایمانی جذبات بے قرار تھے وہ تو گویا اسی دن کے انتظار میں تھے کہ جب کوئی موقع آئے تو وہ اپنے آپ کو نثار کرکے خدا کی نظر میں اپنے کو وفادار ثابت کرسکے۔ پھر ایسا موقع پیش آنے پر وہ عذر کا سہارا کیوں ڈھونڈے گا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتا ہے اور ڈر کا جذبہ آدمی کے اندر سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے۔ ڈر کا جذبہ دوسرے تمام جذبات پر غالب آجاتاہے۔ جس چیز سے آدمی کو ڈر اور اندیشہ کا تعلق ہو اس کے بارے میں وہ آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ڈر کی سطح پر خدا کا مومن بن جائے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کس موقع پر اسے کس قسم کا رد عمل پیش کرناچاہيے۔ آخرت کا نفع سامنے نہ ہونے کی وجہ سے آدمی اس کے ليے قربانی دینے میں شک میں پڑ جاتا ہے۔ مگر اس شک کے پردہ کو پھاڑنا ہی اس دنیا میں آدمی کا اصل امتحان ہے۔

إِنَّمَا يَسْتَأْذِنُكَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُهُمْ فَهُمْ فِي رَيْبِهِمْ يَتَرَدَّدُونَ

📘 منافق وہ ہے جو اسلام کے نفع بخش یا بے ضرر پہلوؤں میں آگے آگے رہے مگر جب اس کے مفادات پر زد پڑتی نظر آئے تو وہ پیچھے ہٹ جائے۔ ایسے مواقع پر اس قسم کے کمزور لوگ جس چیز کا سہارا لیتے ہیں وہ عذر ہے۔ وہ اپنی بے عملی کو خوبصورت توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا سربراہ اگر اجتماعی مصالح کے پیش نظر ان کے عذر کو قبول کرلے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے اپنے الفاظ کے پردے میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی بے عملي کو چھپا لیا۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور وہ ہر آدمی کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ خدا ایسے لوگوں کا راز کبھی دنیا میں کھول دیتا ہے اور آخرت میں تو بہر حال ہر ایک کا راز کھولا جانے والا ہے۔ کسی کا لڑکا بیمار ہو یا کسی کی لڑکی کی شادی ہو تو اس وقت وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال کو اس سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی اور اس کا مال تو اسی ليے ہے کہ ایسا کوئی موقع آئے تو وہ اپنا سب کچھ نثار کرکے ان کے کام آسکے۔ ایسا کوئی وقت اس کے ليے بڑھ کر قربانی دینے کا ہوتا ہے، نہ کہ عذرات کی آڑ تلاش کرنے کا۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ جو شخص اپنے دین میں سنجیدہ ہو وہ دین کے ليے قربانی کا موقع آنے پر کبھی عذر تلاش نہیں کرے گا۔ اس کے سینے میں جو ایمانی جذبات بے قرار تھے وہ تو گویا اسی دن کے انتظار میں تھے کہ جب کوئی موقع آئے تو وہ اپنے آپ کو نثار کرکے خدا کی نظر میں اپنے کو وفادار ثابت کرسکے۔ پھر ایسا موقع پیش آنے پر وہ عذر کا سہارا کیوں ڈھونڈے گا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتا ہے اور ڈر کا جذبہ آدمی کے اندر سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے۔ ڈر کا جذبہ دوسرے تمام جذبات پر غالب آجاتاہے۔ جس چیز سے آدمی کو ڈر اور اندیشہ کا تعلق ہو اس کے بارے میں وہ آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ڈر کی سطح پر خدا کا مومن بن جائے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کس موقع پر اسے کس قسم کا رد عمل پیش کرناچاہيے۔ آخرت کا نفع سامنے نہ ہونے کی وجہ سے آدمی اس کے ليے قربانی دینے میں شک میں پڑ جاتا ہے۔ مگر اس شک کے پردہ کو پھاڑنا ہی اس دنیا میں آدمی کا اصل امتحان ہے۔

۞ وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ

📘 منافق وہ ہے جو اسلام کے نفع بخش یا بے ضرر پہلوؤں میں آگے آگے رہے مگر جب اس کے مفادات پر زد پڑتی نظر آئے تو وہ پیچھے ہٹ جائے۔ ایسے مواقع پر اس قسم کے کمزور لوگ جس چیز کا سہارا لیتے ہیں وہ عذر ہے۔ وہ اپنی بے عملی کو خوبصورت توجیہات میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا سربراہ اگر اجتماعی مصالح کے پیش نظر ان کے عذر کو قبول کرلے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے اپنے الفاظ کے پردے میں نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی بے عملي کو چھپا لیا۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ اصل معاملہ انسان سے نہیں بلکہ خدا سے ہے۔ اور وہ ہر آدمی کی حقیقت کو اچھی طرح جانتا ہے۔ خدا ایسے لوگوں کا راز کبھی دنیا میں کھول دیتا ہے اور آخرت میں تو بہر حال ہر ایک کا راز کھولا جانے والا ہے۔ کسی کا لڑکا بیمار ہو یا کسی کی لڑکی کی شادی ہو تو اس وقت وہ اپنے آپ کو اور اپنے مال کو اس سے بچا کر نہیں رکھتا۔ اس کی زندگی اور اس کا مال تو اسی ليے ہے کہ ایسا کوئی موقع آئے تو وہ اپنا سب کچھ نثار کرکے ان کے کام آسکے۔ ایسا کوئی وقت اس کے ليے بڑھ کر قربانی دینے کا ہوتا ہے، نہ کہ عذرات کی آڑ تلاش کرنے کا۔ یہی معاملہ دین کا بھی ہے۔ جو شخص اپنے دین میں سنجیدہ ہو وہ دین کے ليے قربانی کا موقع آنے پر کبھی عذر تلاش نہیں کرے گا۔ اس کے سینے میں جو ایمانی جذبات بے قرار تھے وہ تو گویا اسی دن کے انتظار میں تھے کہ جب کوئی موقع آئے تو وہ اپنے آپ کو نثار کرکے خدا کی نظر میں اپنے کو وفادار ثابت کرسکے۔ پھر ایسا موقع پیش آنے پر وہ عذر کا سہارا کیوں ڈھونڈے گا۔ مومن خدا سے ڈرنے والا ہوتا ہے اور ڈر کا جذبہ آدمی کے اندر سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے۔ ڈر کا جذبہ دوسرے تمام جذبات پر غالب آجاتاہے۔ جس چیز سے آدمی کو ڈر اور اندیشہ کا تعلق ہو اس کے بارے میں وہ آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص ڈر کی سطح پر خدا کا مومن بن جائے تو اس کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کس موقع پر اسے کس قسم کا رد عمل پیش کرناچاہيے۔ آخرت کا نفع سامنے نہ ہونے کی وجہ سے آدمی اس کے ليے قربانی دینے میں شک میں پڑ جاتا ہے۔ مگر اس شک کے پردہ کو پھاڑنا ہی اس دنیا میں آدمی کا اصل امتحان ہے۔

لَوْ خَرَجُوا فِيكُمْ مَا زَادُوكُمْ إِلَّا خَبَالًا وَلَأَوْضَعُوا خِلَالَكُمْ يَبْغُونَكُمُ الْفِتْنَةَ وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ

📘 دین کو اختیار کرنا ایک مخلصانہ ہوتا ہے اور دوسرا منافقانہ۔ مخلصانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین کے مسئلہ کو آدمی اپنی زندگی کا مسئلہ بنائے، اپنی زندگی اور اپنے مال پر وہ سب سے زیادہ دین کا حق سمجھے۔ اس کے برعکس، منافقانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین سے بس رسمی اور ظاہری تعلق رکھا جائے۔ دین کو آدمی اپنی زندگی میں یہ مقام نہ دے کہ اس کے ليے وہ وقف ہوجائے اور ہر قسم کے نقصان کا خطرہ مول لے کر اس کی راہ میں آگے بڑھے۔ اپنی غلطی کو ماننا اپنے کو دوسرے کے مقابلہ میں کمتر تسلیم کرنا ہے اور اس قسم کا اعتراف کسی آدمی کے ليے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے موقف کو صحیح ثابت کردے۔ چنانچہ منافقانہ طورپر اسلام کو اختیار کرنے والے ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو مخلص مومنوں کو مطعون کریں اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو زیادہ درست ثابت کرسکیں ۔ مدینہ کے منافقین مسلسل اس کوشش میں رہتے تھے۔ مثلاً غزوۂ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو مدینہ میں بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ ان کو معاملات جنگ کا تجربہ نہیں ہے۔ انھوں نے جو ش کے تحت اقدام کیا اور ہماری قوم کے جوانوں کو غلط مقام پر لے جاکر خواہ مخوا کٹوا دیا۔ انسانوں میں کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مسائل کا گہرا تجزیہ کرسکیں اور اس حقیقت کو جانیں کہ کسی بات کا قواعدِ زبان کے اعتبار سے صحیح الفاظ میں ڈھل جانااس کا كافي ثبوت نہیں ہے کہ وہ بات معنی کے اعتبار سے بھی صحیح ہوگی۔ بیشتر لوگ سادہ فکر کے ہوتے ہیں اور کوئی بات خوبصورت الفاظ میں کہی جائے تو وه بہت جلد اس سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس بنا پر کسی مسلم گروہ میں منافق قسم کے افراد کی موجودگی ہمیشہ اس گروہ کی کمزوری کا باعث ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں اکثر ایسا کرتے ہیں کہ باتوں کو غلط رخ دے کر ان کو اپنے مفید مطلب رنگ میں بیان کرتے ہیں ۔ اس سے سادہ فکر کے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر غیر ضروری طور پر شبہ اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ منافقین کی مخالفانه کوششوں کے باوجود جب بدر کی فتح ہوئی تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4566)۔ یعنی یہ چیز تو اب چل نکلی۔ اسلام کا غلبہ ظاہر ہونے کے بعد انھیں اسلام کی صداقت پر یقین کرنا چاہيے تھا مگر اس وقت بھی انھوں نے اس سے حسد کی غذا لی۔

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَارِهُونَ

📘 دین کو اختیار کرنا ایک مخلصانہ ہوتا ہے اور دوسرا منافقانہ۔ مخلصانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین کے مسئلہ کو آدمی اپنی زندگی کا مسئلہ بنائے، اپنی زندگی اور اپنے مال پر وہ سب سے زیادہ دین کا حق سمجھے۔ اس کے برعکس، منافقانہ طورپر دین کو اختیار کرنا یہ ہے کہ دین سے بس رسمی اور ظاہری تعلق رکھا جائے۔ دین کو آدمی اپنی زندگی میں یہ مقام نہ دے کہ اس کے ليے وہ وقف ہوجائے اور ہر قسم کے نقصان کا خطرہ مول لے کر اس کی راہ میں آگے بڑھے۔ اپنی غلطی کو ماننا اپنے کو دوسرے کے مقابلہ میں کمتر تسلیم کرنا ہے اور اس قسم کا اعتراف کسی آدمی کے ليے مشکل ترین کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے موقف کو صحیح ثابت کردے۔ چنانچہ منافقانہ طورپر اسلام کو اختیار کرنے والے ہمیشہ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ کوئی موقع ملے تو مخلص مومنوں کو مطعون کریں اور ان کے مقابلہ میں اپنے آپ کو زیادہ درست ثابت کرسکیں ۔ مدینہ کے منافقین مسلسل اس کوشش میں رہتے تھے۔ مثلاً غزوۂ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو مدینہ میں بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ ان کو معاملات جنگ کا تجربہ نہیں ہے۔ انھوں نے جو ش کے تحت اقدام کیا اور ہماری قوم کے جوانوں کو غلط مقام پر لے جاکر خواہ مخوا کٹوا دیا۔ انسانوں میں کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مسائل کا گہرا تجزیہ کرسکیں اور اس حقیقت کو جانیں کہ کسی بات کا قواعدِ زبان کے اعتبار سے صحیح الفاظ میں ڈھل جانااس کا كافي ثبوت نہیں ہے کہ وہ بات معنی کے اعتبار سے بھی صحیح ہوگی۔ بیشتر لوگ سادہ فکر کے ہوتے ہیں اور کوئی بات خوبصورت الفاظ میں کہی جائے تو وه بہت جلد اس سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ اس بنا پر کسی مسلم گروہ میں منافق قسم کے افراد کی موجودگی ہمیشہ اس گروہ کی کمزوری کا باعث ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں اکثر ایسا کرتے ہیں کہ باتوں کو غلط رخ دے کر ان کو اپنے مفید مطلب رنگ میں بیان کرتے ہیں ۔ اس سے سادہ فکر کے لوگ متاثر ہوجاتے ہیں اور ان کے اندر غیر ضروری طور پر شبہ اور بے یقینی کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ منافقین کی مخالفانه کوششوں کے باوجود جب بدر کی فتح ہوئی تو عبد اللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں نے کہا: هَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّهَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4566)۔ یعنی یہ چیز تو اب چل نکلی۔ اسلام کا غلبہ ظاہر ہونے کے بعد انھیں اسلام کی صداقت پر یقین کرنا چاہيے تھا مگر اس وقت بھی انھوں نے اس سے حسد کی غذا لی۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ ائْذَنْ لِي وَلَا تَفْتِنِّي ۚ أَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا ۗ وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ

📘 مدینہ میں ایک شخص جُد بن قیس تھا۔ تبوک کے غزوہ میں نکلنے کے ليے اعلان عام ہوا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ مجھے اس غزوہ سے معاف رکھيے۔ یہ رومی علاقہ ہے۔ وہاں رومی عورتوں کو دیکھ کر میں فتنہ میں پڑ جاؤں گا، مگر ایسے مواقع پر عذر پیش کرنا بجائے خود فتنہ میں پڑنا ہے۔ کیوں کہ نازک مواقع پر آدمی کے اندر دین کی خاطر فدا ہوجانے کا جذبہ بھڑکنا چاہيے، نہ کہ عذرات تلاش کرکے پیچھے رہ جانے کا۔ پھر ایسے کسی عذر کو دینی اور اخلاقی رنگ دینا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ یہ بے عملی پر فریب کاری کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا مزاج حقیقۃً آدمی کے اندر اس ليے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز تر رکھتاہے۔ خطرات کے موقع پر ایسے لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھنے سے رکے رہتے ہیں ۔ پھر جب سچے حق پرستوں کو ان کی غیر مصلحت اندیشانہ دینداری کی وجہ سے کبھی کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا کہ ہم نے اپنے ليے حفاظتی پہلو اختیار کرلیا تھا۔ اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ سچے حق پرست خطرات کا مقابلہ کریں اور اس میں انھیں کامیابی ہو تو ان لوگوں کے دل تنگ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ ایسا کوئی واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے جو پالیسی اختیار کی وہ درست نہ تھی۔ سچے اہل ایمان کے ليے اس دنیا میں ناکامی کا سوال نہیں ۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ خدا ان سے راضی ہو اور یہ ہر حال میں انھیں حاصل ہوتا ہے۔ مومن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے دل کی انابت کو بڑھاتی ہے۔ اگر اس کو کوئی سکھ ملتاہے تو اس کے اندر احساس مندی کا جذبہ ابھرتاہے اور وہ شکر کرکے خدا کی مزید عنایتوں کا مستحق بنتا ہے۔ ’’تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ‘‘ بظاہر مومنین کا کلمہ ہے۔ مگر حقیقۃً یہ خدا کی طرف سے ہے۔ خدا ان لوگوں سے تہدیدی انداز میں کہہ رہا ہے کہ تم لوگ اہلِ حق کی بربادی کے منتظر ہو، حالاں کہ خدا کے تقدیری نظام کے مطابق انھیں ابدی کامیابی ملنے والی ہے۔ اور تمھارے ساتھ جو ہونا ہے وہ یہ کہ تمھارے جرم کو آخری حد تک ثابت کرکے تم کو دائمی طورپر رسوائی اور عذاب کے حوالے کردیا جائے۔

فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 مہلت کے چار مہینے گزرنے کے بعد یہاں جس جنگ کا حکم دیاگیا وہ کوئی عام جنگ نہ تھی یہ خدا کے قانون کے مطابق وہ عذاب تھا جو پیغمبر کے انکار کے نتیجہ میں ان پر ظاہر کیاگیا۔ انھوں نے اتمام حجت کے باوجود خدا کے پیغمبر کا انکار کرکے اپنے کو اس کا مستحق بنا لیا تھا کہ ان کے ليے تلوار یا اسلام کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رکھی جائے۔ یہ خدا کا ایک خصوصی قانون ہے جس کا تعلق پیغمبر کے مخاطبین سے ہے، نہ کہ عام لوگوں سے۔ تاہم اتمام حجت کے بعد بھی اس حکم کا نفاذ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ آخری مرحلہ میں پھر انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ انتقام معاف کرنا نہیں جانتا۔ انتقامی جذبہ کے تحت جوکارروائی کی جائے اس کو صرف اس وقت تسکین ملتی ہے جب کہ وہ اپنے حریف کو ذلیل اور برباد ہوتے ہوئے دیکھ لے۔ مگر عرب کے مشرکین کے خلاف جو کارروائی کی گئی اس کا تعلق کسی قسم کے انتقام سے نہیں تھا بلکہ وہ سراسر حقیقت پسندانہ اصول پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے شدید حکم کے باوجود ان کے ليے یہ گنجائش ہر وقت باقی تھی کہ وہ دین اسلام کو اختیار کرکے اپنے کو اس سزا سے بچالیں اور اسلامی برادری میں عزت کی زندگی حاصل کرلیں ۔ کسی کی توبہ کے قابل قبول ہونے کے لیے صرف دو عملی شرط کا پایا جانا کافی ہے— نماز اور زکوٰۃ۔ جنگ کے دوران میں دشمن کا کوئی فرد یہ کہے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ اس کو امان دے کر اپنے ماحول میں آنے کا موقع دیں اور اسلام کے پیغام کو اس کے دل میں اتارنے کی کوشش کریں ۔پھر بھی اگر وہ قبول نہ کرے تو اپنی حفاظت میں اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچا دیں ۔ عام حکم کے تحت اگرچہ وہ گردن زدنی ہے مگر ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے دین کی بات نہیں مانی ہے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ جب کوئی شخص امان میں ہو تو امان کے دوران اس پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں ۔ جنگ کے زمانہ میں دشمن کو اس قسم کی رعایت دینا انتہائی نازک ہے۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ دشمن کاکوئی جاسوس اس رعایت کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے اندر گھس آئے اور ان کے فوجی راز معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ مگر اسلام کی نظر میں دعوت وتبلیغ کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس نازک خطرہ کے باوجو اس کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ ایک شخص اگر بے خبری اور لاعلمی کی بنا پر ظلم کرے تو اس کا ظلم خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اسی کے ساتھ ہر ممکن رعایت کی جائے گی تا وقتیکہ اس کی لاعلمی اور بے خبری ختم ہوجائے۔

إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ۖ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ يَقُولُوا قَدْ أَخَذْنَا أَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَيَتَوَلَّوْا وَهُمْ فَرِحُونَ

📘 مدینہ میں ایک شخص جُد بن قیس تھا۔ تبوک کے غزوہ میں نکلنے کے ليے اعلان عام ہوا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ مجھے اس غزوہ سے معاف رکھيے۔ یہ رومی علاقہ ہے۔ وہاں رومی عورتوں کو دیکھ کر میں فتنہ میں پڑ جاؤں گا، مگر ایسے مواقع پر عذر پیش کرنا بجائے خود فتنہ میں پڑنا ہے۔ کیوں کہ نازک مواقع پر آدمی کے اندر دین کی خاطر فدا ہوجانے کا جذبہ بھڑکنا چاہيے، نہ کہ عذرات تلاش کرکے پیچھے رہ جانے کا۔ پھر ایسے کسی عذر کو دینی اور اخلاقی رنگ دینا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ یہ بے عملی پر فریب کاری کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا مزاج حقیقۃً آدمی کے اندر اس ليے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز تر رکھتاہے۔ خطرات کے موقع پر ایسے لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھنے سے رکے رہتے ہیں ۔ پھر جب سچے حق پرستوں کو ان کی غیر مصلحت اندیشانہ دینداری کی وجہ سے کبھی کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا کہ ہم نے اپنے ليے حفاظتی پہلو اختیار کرلیا تھا۔ اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ سچے حق پرست خطرات کا مقابلہ کریں اور اس میں انھیں کامیابی ہو تو ان لوگوں کے دل تنگ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ ایسا کوئی واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے جو پالیسی اختیار کی وہ درست نہ تھی۔ سچے اہل ایمان کے ليے اس دنیا میں ناکامی کا سوال نہیں ۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ خدا ان سے راضی ہو اور یہ ہر حال میں انھیں حاصل ہوتا ہے۔ مومن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے دل کی انابت کو بڑھاتی ہے۔ اگر اس کو کوئی سکھ ملتاہے تو اس کے اندر احساس مندی کا جذبہ ابھرتاہے اور وہ شکر کرکے خدا کی مزید عنایتوں کا مستحق بنتا ہے۔ ’’تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ‘‘ بظاہر مومنین کا کلمہ ہے۔ مگر حقیقۃً یہ خدا کی طرف سے ہے۔ خدا ان لوگوں سے تہدیدی انداز میں کہہ رہا ہے کہ تم لوگ اہلِ حق کی بربادی کے منتظر ہو، حالاں کہ خدا کے تقدیری نظام کے مطابق انھیں ابدی کامیابی ملنے والی ہے۔ اور تمھارے ساتھ جو ہونا ہے وہ یہ کہ تمھارے جرم کو آخری حد تک ثابت کرکے تم کو دائمی طورپر رسوائی اور عذاب کے حوالے کردیا جائے۔

قُلْ لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ

📘 مدینہ میں ایک شخص جُد بن قیس تھا۔ تبوک کے غزوہ میں نکلنے کے ليے اعلان عام ہوا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ مجھے اس غزوہ سے معاف رکھيے۔ یہ رومی علاقہ ہے۔ وہاں رومی عورتوں کو دیکھ کر میں فتنہ میں پڑ جاؤں گا، مگر ایسے مواقع پر عذر پیش کرنا بجائے خود فتنہ میں پڑنا ہے۔ کیوں کہ نازک مواقع پر آدمی کے اندر دین کی خاطر فدا ہوجانے کا جذبہ بھڑکنا چاہيے، نہ کہ عذرات تلاش کرکے پیچھے رہ جانے کا۔ پھر ایسے کسی عذر کو دینی اور اخلاقی رنگ دینا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ یہ بے عملی پر فریب کاری کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا مزاج حقیقۃً آدمی کے اندر اس ليے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز تر رکھتاہے۔ خطرات کے موقع پر ایسے لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھنے سے رکے رہتے ہیں ۔ پھر جب سچے حق پرستوں کو ان کی غیر مصلحت اندیشانہ دینداری کی وجہ سے کبھی کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا کہ ہم نے اپنے ليے حفاظتی پہلو اختیار کرلیا تھا۔ اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ سچے حق پرست خطرات کا مقابلہ کریں اور اس میں انھیں کامیابی ہو تو ان لوگوں کے دل تنگ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ ایسا کوئی واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے جو پالیسی اختیار کی وہ درست نہ تھی۔ سچے اہل ایمان کے ليے اس دنیا میں ناکامی کا سوال نہیں ۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ خدا ان سے راضی ہو اور یہ ہر حال میں انھیں حاصل ہوتا ہے۔ مومن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے دل کی انابت کو بڑھاتی ہے۔ اگر اس کو کوئی سکھ ملتاہے تو اس کے اندر احساس مندی کا جذبہ ابھرتاہے اور وہ شکر کرکے خدا کی مزید عنایتوں کا مستحق بنتا ہے۔ ’’تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ‘‘ بظاہر مومنین کا کلمہ ہے۔ مگر حقیقۃً یہ خدا کی طرف سے ہے۔ خدا ان لوگوں سے تہدیدی انداز میں کہہ رہا ہے کہ تم لوگ اہلِ حق کی بربادی کے منتظر ہو، حالاں کہ خدا کے تقدیری نظام کے مطابق انھیں ابدی کامیابی ملنے والی ہے۔ اور تمھارے ساتھ جو ہونا ہے وہ یہ کہ تمھارے جرم کو آخری حد تک ثابت کرکے تم کو دائمی طورپر رسوائی اور عذاب کے حوالے کردیا جائے۔

قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ ۖ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَنْ يُصِيبَكُمُ اللَّهُ بِعَذَابٍ مِنْ عِنْدِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا ۖ فَتَرَبَّصُوا إِنَّا مَعَكُمْ مُتَرَبِّصُونَ

📘 مدینہ میں ایک شخص جُد بن قیس تھا۔ تبوک کے غزوہ میں نکلنے کے ليے اعلان عام ہوا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا کہ مجھے اس غزوہ سے معاف رکھيے۔ یہ رومی علاقہ ہے۔ وہاں رومی عورتوں کو دیکھ کر میں فتنہ میں پڑ جاؤں گا، مگر ایسے مواقع پر عذر پیش کرنا بجائے خود فتنہ میں پڑنا ہے۔ کیوں کہ نازک مواقع پر آدمی کے اندر دین کی خاطر فدا ہوجانے کا جذبہ بھڑکنا چاہيے، نہ کہ عذرات تلاش کرکے پیچھے رہ جانے کا۔ پھر ایسے کسی عذر کو دینی اور اخلاقی رنگ دینا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ یہ بے عملی پر فریب کاری کا اضافہ ہے۔ اس قسم کا مزاج حقیقۃً آدمی کے اندر اس ليے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے مقابلہ میں عزیز تر رکھتاہے۔ خطرات کے موقع پر ایسے لوگ دین کی راہ میں آگے بڑھنے سے رکے رہتے ہیں ۔ پھر جب سچے حق پرستوں کو ان کی غیر مصلحت اندیشانہ دینداری کی وجہ سے کبھی کوئی نقصان پہنچ جاتا ہے تو یہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ بہت اچھا ہوا کہ ہم نے اپنے ليے حفاظتی پہلو اختیار کرلیا تھا۔ اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ سچے حق پرست خطرات کا مقابلہ کریں اور اس میں انھیں کامیابی ہو تو ان لوگوں کے دل تنگ ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ ایسا کوئی واقعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ انھوں نے جو پالیسی اختیار کی وہ درست نہ تھی۔ سچے اہل ایمان کے ليے اس دنیا میں ناکامی کا سوال نہیں ۔ ان کی کامیابی یہ ہے کہ خدا ان سے راضی ہو اور یہ ہر حال میں انھیں حاصل ہوتا ہے۔ مومن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کے دل کی انابت کو بڑھاتی ہے۔ اگر اس کو کوئی سکھ ملتاہے تو اس کے اندر احساس مندی کا جذبہ ابھرتاہے اور وہ شکر کرکے خدا کی مزید عنایتوں کا مستحق بنتا ہے۔ ’’تم انتظار کرو ہم بھی انتظار کررہے ہیں ‘‘ بظاہر مومنین کا کلمہ ہے۔ مگر حقیقۃً یہ خدا کی طرف سے ہے۔ خدا ان لوگوں سے تہدیدی انداز میں کہہ رہا ہے کہ تم لوگ اہلِ حق کی بربادی کے منتظر ہو، حالاں کہ خدا کے تقدیری نظام کے مطابق انھیں ابدی کامیابی ملنے والی ہے۔ اور تمھارے ساتھ جو ہونا ہے وہ یہ کہ تمھارے جرم کو آخری حد تک ثابت کرکے تم کو دائمی طورپر رسوائی اور عذاب کے حوالے کردیا جائے۔

قُلْ أَنْفِقُوا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا لَنْ يُتَقَبَّلَ مِنْكُمْ ۖ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ قَوْمًا فَاسِقِينَ

📘 مدینہ میں یہ صورت پیش آئی کہ عمومی طورپر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں اکثریت مخلص اہل ایمان کی تھی تاہم ایک تعداد وہ تھی جس نے وقت کی فضا کا ساتھ دیتے ہوئے اگرچہ اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کے اندر وہ سپردگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو حقیقی ایمان اور سچے تعلق باللہ کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو منافقین کہاجاتا ہے۔ يه منافقین زیادہ تر مدینہ کے مال دار لوگ تھے اور یہی مال داری ان کے نفاق کا اصل سبب تھی۔ جس کے پاس کھونے کے ليے کچھ نہ ہو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اسلام کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے ليے ہو وہ عام طورپر مصلحت اندیشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے بے ضرر احکام کی تعمیل تو وہ کسی نہ کسی طرح کرلیتے ہیں ۔ مگر اسلام کے جن تقاضوں کو اختیار کرنے میں جان ومال کی محرومی دکھائی دے رہی ہو، جس میں قربانی کی سطح پر مومن بننے کا سوال ہو، ان کی طرف بڑھنے کے ليے وہ اپنے کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ مگر قربانی والے اسلام سے پیچھے رہنا ان کے ’’نماز روزہ‘‘ کو بھی بے قیمت کردیتا ہے۔ مسجد کی عبادت کا بہت گہرا تعلق مسجدکے باہر کی عبادت سے ہے۔ اگر مسجد سے باہر آدمی کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہو تو مسجد کے اندر بھی اس کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہوگی اور ظاہر ہے کہ بے روح عمل کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ۔ خدا سچے عمل کو قبول کرتا ہے، نہ کہ جھوٹے عمل کو۔ کسی آدمی کے پاس دولت کی رونقیں ہوں اور آدمیوں کا جـتھا اس کے گردو پیش دكھائی دیتا ہو تو عام لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں ۔ عام طور پر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ یہ کہ مال وجاہ ان کے ليے ایسے بندھن بن جاتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کی طرف بھر پور طور پر نہ بڑھ سکیں ۔ وہ خدا کو بھول کر ان میں مشغول رہیں یہاں تک کہ موت آجائے اور وه بے رحمی کے ساتھ ان کو ان کے مال و جاہ سے جدا کردے۔

وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَىٰ وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ

📘 مدینہ میں یہ صورت پیش آئی کہ عمومی طورپر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں اکثریت مخلص اہل ایمان کی تھی تاہم ایک تعداد وہ تھی جس نے وقت کی فضا کا ساتھ دیتے ہوئے اگرچہ اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کے اندر وہ سپردگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو حقیقی ایمان اور سچے تعلق باللہ کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو منافقین کہاجاتا ہے۔ يه منافقین زیادہ تر مدینہ کے مال دار لوگ تھے اور یہی مال داری ان کے نفاق کا اصل سبب تھی۔ جس کے پاس کھونے کے ليے کچھ نہ ہو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اسلام کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے ليے ہو وہ عام طورپر مصلحت اندیشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے بے ضرر احکام کی تعمیل تو وہ کسی نہ کسی طرح کرلیتے ہیں ۔ مگر اسلام کے جن تقاضوں کو اختیار کرنے میں جان ومال کی محرومی دکھائی دے رہی ہو، جس میں قربانی کی سطح پر مومن بننے کا سوال ہو، ان کی طرف بڑھنے کے ليے وہ اپنے کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ مگر قربانی والے اسلام سے پیچھے رہنا ان کے ’’نماز روزہ‘‘ کو بھی بے قیمت کردیتا ہے۔ مسجد کی عبادت کا بہت گہرا تعلق مسجدکے باہر کی عبادت سے ہے۔ اگر مسجد سے باہر آدمی کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہو تو مسجد کے اندر بھی اس کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہوگی اور ظاہر ہے کہ بے روح عمل کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ۔ خدا سچے عمل کو قبول کرتا ہے، نہ کہ جھوٹے عمل کو۔ کسی آدمی کے پاس دولت کی رونقیں ہوں اور آدمیوں کا جـتھا اس کے گردو پیش دكھائی دیتا ہو تو عام لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں ۔ عام طور پر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ یہ کہ مال وجاہ ان کے ليے ایسے بندھن بن جاتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کی طرف بھر پور طور پر نہ بڑھ سکیں ۔ وہ خدا کو بھول کر ان میں مشغول رہیں یہاں تک کہ موت آجائے اور وه بے رحمی کے ساتھ ان کو ان کے مال و جاہ سے جدا کردے۔

فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ

📘 مدینہ میں یہ صورت پیش آئی کہ عمومی طورپر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں اکثریت مخلص اہل ایمان کی تھی تاہم ایک تعداد وہ تھی جس نے وقت کی فضا کا ساتھ دیتے ہوئے اگرچہ اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کے اندر وہ سپردگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو حقیقی ایمان اور سچے تعلق باللہ کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو منافقین کہاجاتا ہے۔ يه منافقین زیادہ تر مدینہ کے مال دار لوگ تھے اور یہی مال داری ان کے نفاق کا اصل سبب تھی۔ جس کے پاس کھونے کے ليے کچھ نہ ہو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اسلام کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے ليے ہو وہ عام طورپر مصلحت اندیشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے بے ضرر احکام کی تعمیل تو وہ کسی نہ کسی طرح کرلیتے ہیں ۔ مگر اسلام کے جن تقاضوں کو اختیار کرنے میں جان ومال کی محرومی دکھائی دے رہی ہو، جس میں قربانی کی سطح پر مومن بننے کا سوال ہو، ان کی طرف بڑھنے کے ليے وہ اپنے کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ مگر قربانی والے اسلام سے پیچھے رہنا ان کے ’’نماز روزہ‘‘ کو بھی بے قیمت کردیتا ہے۔ مسجد کی عبادت کا بہت گہرا تعلق مسجدکے باہر کی عبادت سے ہے۔ اگر مسجد سے باہر آدمی کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہو تو مسجد کے اندر بھی اس کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہوگی اور ظاہر ہے کہ بے روح عمل کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ۔ خدا سچے عمل کو قبول کرتا ہے، نہ کہ جھوٹے عمل کو۔ کسی آدمی کے پاس دولت کی رونقیں ہوں اور آدمیوں کا جـتھا اس کے گردو پیش دكھائی دیتا ہو تو عام لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں ۔ عام طور پر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ یہ کہ مال وجاہ ان کے ليے ایسے بندھن بن جاتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کی طرف بھر پور طور پر نہ بڑھ سکیں ۔ وہ خدا کو بھول کر ان میں مشغول رہیں یہاں تک کہ موت آجائے اور وه بے رحمی کے ساتھ ان کو ان کے مال و جاہ سے جدا کردے۔

وَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَمَا هُمْ مِنْكُمْ وَلَٰكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ

📘 مدینہ میں یہ صورت پیش آئی کہ عمومی طورپر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں اکثریت مخلص اہل ایمان کی تھی تاہم ایک تعداد وہ تھی جس نے وقت کی فضا کا ساتھ دیتے ہوئے اگرچہ اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کے اندر وہ سپردگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو حقیقی ایمان اور سچے تعلق باللہ کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو منافقین کہاجاتا ہے۔ يه منافقین زیادہ تر مدینہ کے مال دار لوگ تھے اور یہی مال داری ان کے نفاق کا اصل سبب تھی۔ جس کے پاس کھونے کے ليے کچھ نہ ہو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اسلام کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے ليے ہو وہ عام طورپر مصلحت اندیشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے بے ضرر احکام کی تعمیل تو وہ کسی نہ کسی طرح کرلیتے ہیں ۔ مگر اسلام کے جن تقاضوں کو اختیار کرنے میں جان ومال کی محرومی دکھائی دے رہی ہو، جس میں قربانی کی سطح پر مومن بننے کا سوال ہو، ان کی طرف بڑھنے کے ليے وہ اپنے کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ مگر قربانی والے اسلام سے پیچھے رہنا ان کے ’’نماز روزہ‘‘ کو بھی بے قیمت کردیتا ہے۔ مسجد کی عبادت کا بہت گہرا تعلق مسجدکے باہر کی عبادت سے ہے۔ اگر مسجد سے باہر آدمی کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہو تو مسجد کے اندر بھی اس کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہوگی اور ظاہر ہے کہ بے روح عمل کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ۔ خدا سچے عمل کو قبول کرتا ہے، نہ کہ جھوٹے عمل کو۔ کسی آدمی کے پاس دولت کی رونقیں ہوں اور آدمیوں کا جـتھا اس کے گردو پیش دكھائی دیتا ہو تو عام لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں ۔ عام طور پر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ یہ کہ مال وجاہ ان کے ليے ایسے بندھن بن جاتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کی طرف بھر پور طور پر نہ بڑھ سکیں ۔ وہ خدا کو بھول کر ان میں مشغول رہیں یہاں تک کہ موت آجائے اور وه بے رحمی کے ساتھ ان کو ان کے مال و جاہ سے جدا کردے۔

لَوْ يَجِدُونَ مَلْجَأً أَوْ مَغَارَاتٍ أَوْ مُدَّخَلًا لَوَلَّوْا إِلَيْهِ وَهُمْ يَجْمَحُونَ

📘 مدینہ میں یہ صورت پیش آئی کہ عمومی طورپر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان میں اکثریت مخلص اہل ایمان کی تھی تاہم ایک تعداد وہ تھی جس نے وقت کی فضا کا ساتھ دیتے ہوئے اگرچہ اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اس کے اندر وہ سپردگی پیدا نہیں ہوئی تھی جو حقیقی ایمان اور سچے تعلق باللہ کا تقاضا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو منافقین کہاجاتا ہے۔ يه منافقین زیادہ تر مدینہ کے مال دار لوگ تھے اور یہی مال داری ان کے نفاق کا اصل سبب تھی۔ جس کے پاس کھونے کے ليے کچھ نہ ہو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ اسلام کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے جس میں اپنا سب کچھ کھو دینا پڑے۔ مگر جن لوگوں کے پاس کھونے کے ليے ہو وہ عام طورپر مصلحت اندیشی میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ اسلام کے بے ضرر احکام کی تعمیل تو وہ کسی نہ کسی طرح کرلیتے ہیں ۔ مگر اسلام کے جن تقاضوں کو اختیار کرنے میں جان ومال کی محرومی دکھائی دے رہی ہو، جس میں قربانی کی سطح پر مومن بننے کا سوال ہو، ان کی طرف بڑھنے کے ليے وہ اپنے کو آمادہ نہیں کر پاتے۔ مگر قربانی والے اسلام سے پیچھے رہنا ان کے ’’نماز روزہ‘‘ کو بھی بے قیمت کردیتا ہے۔ مسجد کی عبادت کا بہت گہرا تعلق مسجدکے باہر کی عبادت سے ہے۔ اگر مسجد سے باہر آدمی کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہو تو مسجد کے اندر بھی اس کی زندگی حقیقی دین سے خالی ہوگی اور ظاہر ہے کہ بے روح عمل کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ۔ خدا سچے عمل کو قبول کرتا ہے، نہ کہ جھوٹے عمل کو۔ کسی آدمی کے پاس دولت کی رونقیں ہوں اور آدمیوں کا جـتھا اس کے گردو پیش دكھائی دیتا ہو تو عام لوگ اس کو رشک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ سب سے زیادہ بدقسمت لوگ ہیں ۔ عام طور پر ان کا جو حال ہوتا ہے وہ یہ کہ مال وجاہ ان کے ليے ایسے بندھن بن جاتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کی طرف بھر پور طور پر نہ بڑھ سکیں ۔ وہ خدا کو بھول کر ان میں مشغول رہیں یہاں تک کہ موت آجائے اور وه بے رحمی کے ساتھ ان کو ان کے مال و جاہ سے جدا کردے۔

وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ

📘 یہاں زکوٰۃ کے مصارف بتائے گئے ہیں ۔ یہ مصارف قرآن کی تصریح کے مطابق آٹھ ہیں : 1۔ فقراء جن کے پاس کچھ نہ ہو 2۔ مساکین جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو 3۔ عاملین جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات کی وصولی اور اس کے حساب کتاب پر مامور ہوں 4۔ مؤلفۃ القلوب تالیف قلب اسلام کاایک ابدی اصول ہے۔ یہ مکمل خیرخواہی کے ساتھ دل میں نرم گوشہ (soft corner)پیدا کرنے کی ایک پرامن تدبیر ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ اس نوعیت کا حسنِ سلوک جس سے مدعو کے دل میں اسلام کے لیے قربت پیدا ہو ، وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کو سمجھے۔ تالیف قلب کی کوئی حد نہیں ، زکاۃ کے ذریعے مددکرنا بھی اسی نوعیت کا ایک طریقہ ہے۔ 5۔ رقاب غلاموں كو آزادي دلانے كے ليے يا اسيروں كا فديه دے كر انھيں رها كرنے كے ليے۔ 6۔ غارمین جو مقروض ہوگئے ہوں یا جن کے اوپر ضمانت کا بار ہو 7۔ سبيل اللہ وہ تمام طریقہ جو اللہ تک پہنچانے والا ہو۔ یعنی وہ تمام کوششیں جو اللہ کی اطاعت کے لیے ہوں ، اور ہر خیر کا راستہ (الطَّرِيقُ الْمُوَصِّلَةُ إِلَيْهِ تَعَالَى، فَيَدْخُل فِيهِ كُل سَعْيٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيل الْخَيْرِ) الموسوعة الفقهية الكويتية ، جلد 24 ، صفحہ 166- دوسرے الفاظ میں ، اسلام کی تعلیمات کو پرامن انداز میں انسانوں تک پہنچانا۔ 8۔ ابن السبیل مسافر جو حالت سفر میں ضرورت مند ہوجائے خواہ اپنے مقام پر وه مالدار ہو اجتماعی نظم کے تحت جب زکوٰۃ وصدقات کی تقسیم کی جائے تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو حق تلفی یا غیرمنصفانہ تقسیم کی شکایت ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی شکایت اکثر خود شکایت کرنے والے کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ تقسیم کا ذمہ دار خواہ کتنا ہی پاکباز ہو، لوگوں کو حرص اور ان کا محدود طرز فکر بہر حال اس قسم کی شکایتیں نکال لے گا۔ مزید یہ کہ اس قسم کی شکایت سب سے زیادہ آدمی کے اپنے خلاف پڑتی ہے، وہ آدمی کے فکری امکانات کو بر روئے کار لانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آدمی اگر شکایتی مزاج کو چھوڑ کر ایسا کرے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے اس پر وہ راضی ہوجائے اور اپنی سب سوچ کا رخ اللہ کی طرف کرلے تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ اس کے اندر نئی ہمت پیدا ہوگی۔ اس کے اندر چھپی ہوئی ایجابی صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی۔ وہ ملی ہوئی رقم کو زیادہ کار آمد مصرف میں لگائے گا۔ عطیات پر انحصار کرنے کے بجائے اس کے اندر اپنے آپ پر اعتماد کرنے کا ذہن ابھرے گا۔ وہ خدا کے بھروسہ پر نئے اقتصادی مواقع کی تلاش کرنے لگے گا۔ دوسروں سے بیزاری کے بجائے دوسروں کو ساتھی بنا کر کام کرنے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہوگا، وغیرہ۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ

📘 یہاں زکوٰۃ کے مصارف بتائے گئے ہیں ۔ یہ مصارف قرآن کی تصریح کے مطابق آٹھ ہیں : 1۔ فقراء جن کے پاس کچھ نہ ہو 2۔ مساکین جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو 3۔ عاملین جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات کی وصولی اور اس کے حساب کتاب پر مامور ہوں 4۔ مؤلفۃ القلوب تالیف قلب اسلام کاایک ابدی اصول ہے۔ یہ مکمل خیرخواہی کے ساتھ دل میں نرم گوشہ (soft corner)پیدا کرنے کی ایک پرامن تدبیر ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ اس نوعیت کا حسنِ سلوک جس سے مدعو کے دل میں اسلام کے لیے قربت پیدا ہو ، وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کو سمجھے۔ تالیف قلب کی کوئی حد نہیں ، زکاۃ کے ذریعے مددکرنا بھی اسی نوعیت کا ایک طریقہ ہے۔ 5۔ رقاب غلاموں كو آزادي دلانے كے ليے يا اسيروں كا فديه دے كر انھيں رها كرنے كے ليے۔ 6۔ غارمین جو مقروض ہوگئے ہوں یا جن کے اوپر ضمانت کا بار ہو 7۔ سبيل اللہ وہ تمام طریقہ جو اللہ تک پہنچانے والا ہو۔ یعنی وہ تمام کوششیں جو اللہ کی اطاعت کے لیے ہوں ، اور ہر خیر کا راستہ (الطَّرِيقُ الْمُوَصِّلَةُ إِلَيْهِ تَعَالَى، فَيَدْخُل فِيهِ كُل سَعْيٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيل الْخَيْرِ) الموسوعة الفقهية الكويتية ، جلد 24 ، صفحہ 166- دوسرے الفاظ میں ، اسلام کی تعلیمات کو پرامن انداز میں انسانوں تک پہنچانا۔ 8۔ ابن السبیل مسافر جو حالت سفر میں ضرورت مند ہوجائے خواہ اپنے مقام پر وه مالدار ہو اجتماعی نظم کے تحت جب زکوٰۃ وصدقات کی تقسیم کی جائے تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو حق تلفی یا غیرمنصفانہ تقسیم کی شکایت ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی شکایت اکثر خود شکایت کرنے والے کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ تقسیم کا ذمہ دار خواہ کتنا ہی پاکباز ہو، لوگوں کو حرص اور ان کا محدود طرز فکر بہر حال اس قسم کی شکایتیں نکال لے گا۔ مزید یہ کہ اس قسم کی شکایت سب سے زیادہ آدمی کے اپنے خلاف پڑتی ہے، وہ آدمی کے فکری امکانات کو بر روئے کار لانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آدمی اگر شکایتی مزاج کو چھوڑ کر ایسا کرے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے اس پر وہ راضی ہوجائے اور اپنی سب سوچ کا رخ اللہ کی طرف کرلے تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ اس کے اندر نئی ہمت پیدا ہوگی۔ اس کے اندر چھپی ہوئی ایجابی صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی۔ وہ ملی ہوئی رقم کو زیادہ کار آمد مصرف میں لگائے گا۔ عطیات پر انحصار کرنے کے بجائے اس کے اندر اپنے آپ پر اعتماد کرنے کا ذہن ابھرے گا۔ وہ خدا کے بھروسہ پر نئے اقتصادی مواقع کی تلاش کرنے لگے گا۔ دوسروں سے بیزاری کے بجائے دوسروں کو ساتھی بنا کر کام کرنے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہوگا، وغیرہ۔

وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ

📘 مہلت کے چار مہینے گزرنے کے بعد یہاں جس جنگ کا حکم دیاگیا وہ کوئی عام جنگ نہ تھی یہ خدا کے قانون کے مطابق وہ عذاب تھا جو پیغمبر کے انکار کے نتیجہ میں ان پر ظاہر کیاگیا۔ انھوں نے اتمام حجت کے باوجود خدا کے پیغمبر کا انکار کرکے اپنے کو اس کا مستحق بنا لیا تھا کہ ان کے ليے تلوار یا اسلام کے سوا کوئی اور صورت باقی نہ رکھی جائے۔ یہ خدا کا ایک خصوصی قانون ہے جس کا تعلق پیغمبر کے مخاطبین سے ہے، نہ کہ عام لوگوں سے۔ تاہم اتمام حجت کے بعد بھی اس حکم کا نفاذ اچانک نہیں کیا گیا بلکہ آخری مرحلہ میں پھر انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی۔ انتقام معاف کرنا نہیں جانتا۔ انتقامی جذبہ کے تحت جوکارروائی کی جائے اس کو صرف اس وقت تسکین ملتی ہے جب کہ وہ اپنے حریف کو ذلیل اور برباد ہوتے ہوئے دیکھ لے۔ مگر عرب کے مشرکین کے خلاف جو کارروائی کی گئی اس کا تعلق کسی قسم کے انتقام سے نہیں تھا بلکہ وہ سراسر حقیقت پسندانہ اصول پر مبنی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنے شدید حکم کے باوجود ان کے ليے یہ گنجائش ہر وقت باقی تھی کہ وہ دین اسلام کو اختیار کرکے اپنے کو اس سزا سے بچالیں اور اسلامی برادری میں عزت کی زندگی حاصل کرلیں ۔ کسی کی توبہ کے قابل قبول ہونے کے لیے صرف دو عملی شرط کا پایا جانا کافی ہے— نماز اور زکوٰۃ۔ جنگ کے دوران میں دشمن کا کوئی فرد یہ کہے کہ میں اسلام کو سمجھنا چاہتا ہوں تو مسلمانوں کو حکم ہے کہ اس کو امان دے کر اپنے ماحول میں آنے کا موقع دیں اور اسلام کے پیغام کو اس کے دل میں اتارنے کی کوشش کریں ۔پھر بھی اگر وہ قبول نہ کرے تو اپنی حفاظت میں اس کو اس کے ٹھکانے تک پہنچا دیں ۔ عام حکم کے تحت اگرچہ وہ گردن زدنی ہے مگر ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے دین کی بات نہیں مانی ہے تو اس کو قتل کردیا جائے۔ جب کوئی شخص امان میں ہو تو امان کے دوران اس پر ہاتھ اٹھانا جائز نہیں ۔ جنگ کے زمانہ میں دشمن کو اس قسم کی رعایت دینا انتہائی نازک ہے۔ کیوں کہ عین ممکن ہے کہ دشمن کاکوئی جاسوس اس رعایت کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کے اندر گھس آئے اور ان کے فوجی راز معلوم کرنے کی کوشش کرے۔ مگر اسلام کی نظر میں دعوت وتبلیغ کا مسئلہ اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس نازک خطرہ کے باوجو اس کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔ ایک شخص اگر بے خبری اور لاعلمی کی بنا پر ظلم کرے تو اس کا ظلم خواہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اسی کے ساتھ ہر ممکن رعایت کی جائے گی تا وقتیکہ اس کی لاعلمی اور بے خبری ختم ہوجائے۔

۞ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۖ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 یہاں زکوٰۃ کے مصارف بتائے گئے ہیں ۔ یہ مصارف قرآن کی تصریح کے مطابق آٹھ ہیں : 1۔ فقراء جن کے پاس کچھ نہ ہو 2۔ مساکین جن کو بقدر حاجت میسر نہ ہو 3۔ عاملین جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات کی وصولی اور اس کے حساب کتاب پر مامور ہوں 4۔ مؤلفۃ القلوب تالیف قلب اسلام کاایک ابدی اصول ہے۔ یہ مکمل خیرخواہی کے ساتھ دل میں نرم گوشہ (soft corner)پیدا کرنے کی ایک پرامن تدبیر ہے۔ یعنی مدعو کے ساتھ اس نوعیت کا حسنِ سلوک جس سے مدعو کے دل میں اسلام کے لیے قربت پیدا ہو ، وہ معتدل ذہن کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرے، وہ کسی تعصب کے بغیر کھلے ذہن کے ساتھ اسلام کو سمجھے۔ تالیف قلب کی کوئی حد نہیں ، زکاۃ کے ذریعے مددکرنا بھی اسی نوعیت کا ایک طریقہ ہے۔ 5۔ رقاب غلاموں كو آزادي دلانے كے ليے يا اسيروں كا فديه دے كر انھيں رها كرنے كے ليے۔ 6۔ غارمین جو مقروض ہوگئے ہوں یا جن کے اوپر ضمانت کا بار ہو 7۔ سبيل اللہ وہ تمام طریقہ جو اللہ تک پہنچانے والا ہو۔ یعنی وہ تمام کوششیں جو اللہ کی اطاعت کے لیے ہوں ، اور ہر خیر کا راستہ (الطَّرِيقُ الْمُوَصِّلَةُ إِلَيْهِ تَعَالَى، فَيَدْخُل فِيهِ كُل سَعْيٍ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَفِي سَبِيل الْخَيْرِ) الموسوعة الفقهية الكويتية ، جلد 24 ، صفحہ 166- دوسرے الفاظ میں ، اسلام کی تعلیمات کو پرامن انداز میں انسانوں تک پہنچانا۔ 8۔ ابن السبیل مسافر جو حالت سفر میں ضرورت مند ہوجائے خواہ اپنے مقام پر وه مالدار ہو اجتماعی نظم کے تحت جب زکوٰۃ وصدقات کی تقسیم کی جائے تو ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو حق تلفی یا غیرمنصفانہ تقسیم کی شکایت ہوجاتی ہے۔ مگر ایسی شکایت اکثر خود شکایت کرنے والے کی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے۔ تقسیم کا ذمہ دار خواہ کتنا ہی پاکباز ہو، لوگوں کو حرص اور ان کا محدود طرز فکر بہر حال اس قسم کی شکایتیں نکال لے گا۔ مزید یہ کہ اس قسم کی شکایت سب سے زیادہ آدمی کے اپنے خلاف پڑتی ہے، وہ آدمی کے فکری امکانات کو بر روئے کار لانے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ آدمی اگر شکایتی مزاج کو چھوڑ کر ایسا کرے کہ اس کو جو کچھ ملا ہے اس پر وہ راضی ہوجائے اور اپنی سب سوچ کا رخ اللہ کی طرف کرلے تو اس کے بعد یہ ہوگا کہ اس کے اندر نئی ہمت پیدا ہوگی۔ اس کے اندر چھپی ہوئی ایجابی صلاحیتیں جاگ اٹھیں گی۔ وہ ملی ہوئی رقم کو زیادہ کار آمد مصرف میں لگائے گا۔ عطیات پر انحصار کرنے کے بجائے اس کے اندر اپنے آپ پر اعتماد کرنے کا ذہن ابھرے گا۔ وہ خدا کے بھروسہ پر نئے اقتصادی مواقع کی تلاش کرنے لگے گا۔ دوسروں سے بیزاری کے بجائے دوسروں کو ساتھی بنا کر کام کرنے کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہوگا، وغیرہ۔

وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ ۚ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 مدینہ کے منافقین اپنی نجی مجلسوں میں اسلامی شخصیتوں کا مذاق اڑاتے۔ مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے آتے تو قسم کھا کر یقین دلاتے کہ وہ اسلام کے وفادار ہیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان مدینہ میں طاقت ور تھے۔ وہ منافقین کو نقصان پہنچانے کی حیثیت میں تھے۔ اس ليے منافقین مسلمانوں سے ڈرتے تھے۔ اس سے منافق کے کردار کا اصل پہلو سامنے آتا ہے۔ منافق کی دین داری انسان کے ڈر سے ہوتی ہے، نہ کہ خدا کے ڈر سے۔ وہ ایسے مواقع پر اخلاق وانصاف والا بن جاتاہے جہاں انسان کا دباؤ ہو یا عوام کی طرف سے اندیشہ لاحق ہو۔ مگر جہاں اس قسم کا خطرہ نہ ہو اور صرف خدا کا ڈر ہی وہ چیز ہو جو آدمی کی زبان کو بند کرے اور اس کے ہاتھ پاؤں کو روکے تو وہاں وہ بالکل دوسرا انسان ہوتا ہے۔ اب وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کو نہ با اخلاق بننے سے کوئی دل چسپی ہو اور نہ انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت۔ جو لوگ مصلحتوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس بنا پر تحفظات سے اوپر اٹھ کر خدا کے دین کا ساتھ نہیں دے پاتے وہ عام طورپر معاشرہ کے صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کو باقی رکھنے کے ليے وہ ان لوگوں کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو سچے اسلام کو لے کر اٹھے ہیں ۔ وہ ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم چلاتے ہیں ۔ ان کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی تدبیريں کرتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں بے بنیاد قسم کے اعتراضات نکالتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ بے حد سنگین بات ہے۔ یہ اہلِ ایمان کی مخالفت نہیں بلکہ خود خدا کی مخالفت ہے۔ یہ خدا کا حریف بن کر کھڑاہونا ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنی معصومیت ثابت کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اقرار کرتے اور کم از کم دل سے اسلام کے داعیوں کے خیر خواہ بن جاتے تو شاید وہ قابلِ معافی ٹھہرتے۔ مگر ضد اور مخالفت کا طریقہ اختیار کرکے انھوں نے اپنے کو خدا کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ اب رسوائی اور عذاب کے سوا ان کا کوئی ٹھکانا نہیں ۔ اللہ کا ڈر آدمی کے دل کو نرم کردیتاہے۔ وہ لوگوں کی بے بنیاد باتوں کو بھی خاموشی کے ساتھ سن لیتا ہے، یہاں تک کہ نادان لوگ کہنے لگیں کہ یہ تو سادہ لوح ہیں ، باتوں کی گہرائی کو سمجھتے ہی نہیں ۔

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَنْ يُرْضُوهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ

📘 مدینہ کے منافقین اپنی نجی مجلسوں میں اسلامی شخصیتوں کا مذاق اڑاتے۔ مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے آتے تو قسم کھا کر یقین دلاتے کہ وہ اسلام کے وفادار ہیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان مدینہ میں طاقت ور تھے۔ وہ منافقین کو نقصان پہنچانے کی حیثیت میں تھے۔ اس ليے منافقین مسلمانوں سے ڈرتے تھے۔ اس سے منافق کے کردار کا اصل پہلو سامنے آتا ہے۔ منافق کی دین داری انسان کے ڈر سے ہوتی ہے، نہ کہ خدا کے ڈر سے۔ وہ ایسے مواقع پر اخلاق وانصاف والا بن جاتاہے جہاں انسان کا دباؤ ہو یا عوام کی طرف سے اندیشہ لاحق ہو۔ مگر جہاں اس قسم کا خطرہ نہ ہو اور صرف خدا کا ڈر ہی وہ چیز ہو جو آدمی کی زبان کو بند کرے اور اس کے ہاتھ پاؤں کو روکے تو وہاں وہ بالکل دوسرا انسان ہوتا ہے۔ اب وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کو نہ با اخلاق بننے سے کوئی دل چسپی ہو اور نہ انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت۔ جو لوگ مصلحتوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس بنا پر تحفظات سے اوپر اٹھ کر خدا کے دین کا ساتھ نہیں دے پاتے وہ عام طورپر معاشرہ کے صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کو باقی رکھنے کے ليے وہ ان لوگوں کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو سچے اسلام کو لے کر اٹھے ہیں ۔ وہ ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم چلاتے ہیں ۔ ان کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی تدبیريں کرتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں بے بنیاد قسم کے اعتراضات نکالتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ بے حد سنگین بات ہے۔ یہ اہلِ ایمان کی مخالفت نہیں بلکہ خود خدا کی مخالفت ہے۔ یہ خدا کا حریف بن کر کھڑاہونا ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنی معصومیت ثابت کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اقرار کرتے اور کم از کم دل سے اسلام کے داعیوں کے خیر خواہ بن جاتے تو شاید وہ قابلِ معافی ٹھہرتے۔ مگر ضد اور مخالفت کا طریقہ اختیار کرکے انھوں نے اپنے کو خدا کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ اب رسوائی اور عذاب کے سوا ان کا کوئی ٹھکانا نہیں ۔ اللہ کا ڈر آدمی کے دل کو نرم کردیتاہے۔ وہ لوگوں کی بے بنیاد باتوں کو بھی خاموشی کے ساتھ سن لیتا ہے، یہاں تک کہ نادان لوگ کہنے لگیں کہ یہ تو سادہ لوح ہیں ، باتوں کی گہرائی کو سمجھتے ہی نہیں ۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْخِزْيُ الْعَظِيمُ

📘 مدینہ کے منافقین اپنی نجی مجلسوں میں اسلامی شخصیتوں کا مذاق اڑاتے۔ مگر جب وہ مسلمانوں کے سامنے آتے تو قسم کھا کر یقین دلاتے کہ وہ اسلام کے وفادار ہیں ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمان مدینہ میں طاقت ور تھے۔ وہ منافقین کو نقصان پہنچانے کی حیثیت میں تھے۔ اس ليے منافقین مسلمانوں سے ڈرتے تھے۔ اس سے منافق کے کردار کا اصل پہلو سامنے آتا ہے۔ منافق کی دین داری انسان کے ڈر سے ہوتی ہے، نہ کہ خدا کے ڈر سے۔ وہ ایسے مواقع پر اخلاق وانصاف والا بن جاتاہے جہاں انسان کا دباؤ ہو یا عوام کی طرف سے اندیشہ لاحق ہو۔ مگر جہاں اس قسم کا خطرہ نہ ہو اور صرف خدا کا ڈر ہی وہ چیز ہو جو آدمی کی زبان کو بند کرے اور اس کے ہاتھ پاؤں کو روکے تو وہاں وہ بالکل دوسرا انسان ہوتا ہے۔ اب وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس کو نہ با اخلاق بننے سے کوئی دل چسپی ہو اور نہ انصاف کا رویہ اختیار کرنے کی کوئی ضرورت۔ جو لوگ مصلحتوں میں گرفتار ہوتے ہیں اور اس بنا پر تحفظات سے اوپر اٹھ کر خدا کے دین کا ساتھ نہیں دے پاتے وہ عام طورپر معاشرہ کے صاحب حیثیت لوگ ہوتے ہیں ۔ اپنی حیثیت کو باقی رکھنے کے ليے وہ ان لوگوں کی تصویر بگاڑنے کی کوشش کرتے ہیں جو سچے اسلام کو لے کر اٹھے ہیں ۔ وہ ان کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کی مہم چلاتے ہیں ۔ ان کو طرح طرح سے بدنام کرنے کی تدبیريں کرتے ہیں ۔ ان کی باتوں میں بے بنیاد قسم کے اعتراضات نکالتے ہیں ۔ ایسے لوگ بھول جاتے ہیں کہ یہ بے حد سنگین بات ہے۔ یہ اہلِ ایمان کی مخالفت نہیں بلکہ خود خدا کی مخالفت ہے۔ یہ خدا کا حریف بن کر کھڑاہونا ہے۔ ایسے لوگ اگر اپنی معصومیت ثابت کرنے کے بجائے اپنی غلطی کا اقرار کرتے اور کم از کم دل سے اسلام کے داعیوں کے خیر خواہ بن جاتے تو شاید وہ قابلِ معافی ٹھہرتے۔ مگر ضد اور مخالفت کا طریقہ اختیار کرکے انھوں نے اپنے کو خدا کے دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ اب رسوائی اور عذاب کے سوا ان کا کوئی ٹھکانا نہیں ۔ اللہ کا ڈر آدمی کے دل کو نرم کردیتاہے۔ وہ لوگوں کی بے بنیاد باتوں کو بھی خاموشی کے ساتھ سن لیتا ہے، یہاں تک کہ نادان لوگ کہنے لگیں کہ یہ تو سادہ لوح ہیں ، باتوں کی گہرائی کو سمجھتے ہی نہیں ۔

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَا تَحْذَرُونَ

📘 غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ میں یہ فضا تھی کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے وہ ارباب عزیمت شمار ہورہے تھے اور جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے وہ منافق اور پست ہمت سمجھے جاتے تھے۔ بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اور اصحابِ رسول کے عمل كو کم تر ظاہر کرنے کے ليے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ کسی نے کہا: یہ قرآن پڑھنے والے ہمیں تواس کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتے کہ وہ ہم میں سب سے زیادہ بھوکے ہیں ، ہم میں سب سے زیادہ جھوٹے ہیں ۔ اور ہم میں سب سے زیادہ بز دل ہیں :مَا أَرَى قُرّاءنا هَؤُلَاءِ إِلَّا أَرْغَبَنَا بُطُونًا، وَأَكْذَبَنَا أَلْسِنَةً، وَأَجْبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ(تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 171 )کسی نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ رومیوں سے لڑنا بھی ویسا ہی ہے جیسا عربوں کا آپس میں لڑنا۔ خدا کی قسم کل یہ سب لوگ رسیوں میں باندھے ہوئے نظرآئیں گے( أَتَحْسِبُونَ جَلَّادَ بَنِي الْأَصْفَرِ كَقِتَالِ الْعَرَبِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا! وَاَللَّهِ لَكَأَنَّا بِكَمْ غَدًا مُقَرَّنِينَ فِي الْحِبَالِ )سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 525 ۔کسی نے کہا: یہ صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ روم کے محل اور ان کے قلعے فتح کرنے جارہے ہیں ، ان کی حالت پر افسوس ہے (يَظُنُّ هَذَا أَنْ يَفْتَحَ قُصُورَ الرُّومِ وَحُصُونَهَا. هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 172 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا۔ وہ کہنے لگے: ہم تو صرف ہنسی کھیل کی باتیں کررہے تھے (إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ( تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 171 ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا اللہ اور اس کے احکام اور اس کے رسول کے معاملہ میں تم ہنسی کھیل کررہے تھے۔ اللہ اور رسول کی بات ہمیشہ کسی آدمی کی زبان سے بلند ہوتی ہے۔ یہ آدمی اگر دیکھنے والوں کی نظر میں بظاہر معمولی ہو تو وہ اس کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ مگر یہ استہزاء اس آدمی کا نہیں ہے خود خدا کا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ صرف یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں سخت مجرم ہیں ، ان کی جھوٹی تاویلیں ان کی حقیقت کو چھپانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ نفاق اور ارتداد دونوں ایک ہی حقیقت کی دو صورتیں ہیں ۔آدمی اگر اسلام اختیار کرنے کے بعد کھلم کھلا منکر ہوجائے تو یہ ارتداد ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ ذہن اور قلب کے اعتبار سے وہ اسلام سے دور ہو مگر لوگوں کے سامنے وہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرے تو یہ نفاق ہے۔ ایسے منافقین کا انجام خدا کے یہاں وہی ہے جو مرتدین کا ہے، إلاّ یہ کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی غلطیوں کا اقرار کرکے اپنی اصلاح کرلیں ۔

وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ

📘 غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ میں یہ فضا تھی کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے وہ ارباب عزیمت شمار ہورہے تھے اور جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے وہ منافق اور پست ہمت سمجھے جاتے تھے۔ بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اور اصحابِ رسول کے عمل كو کم تر ظاہر کرنے کے ليے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ کسی نے کہا: یہ قرآن پڑھنے والے ہمیں تواس کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتے کہ وہ ہم میں سب سے زیادہ بھوکے ہیں ، ہم میں سب سے زیادہ جھوٹے ہیں ۔ اور ہم میں سب سے زیادہ بز دل ہیں :مَا أَرَى قُرّاءنا هَؤُلَاءِ إِلَّا أَرْغَبَنَا بُطُونًا، وَأَكْذَبَنَا أَلْسِنَةً، وَأَجْبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ(تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 171 )کسی نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ رومیوں سے لڑنا بھی ویسا ہی ہے جیسا عربوں کا آپس میں لڑنا۔ خدا کی قسم کل یہ سب لوگ رسیوں میں باندھے ہوئے نظرآئیں گے( أَتَحْسِبُونَ جَلَّادَ بَنِي الْأَصْفَرِ كَقِتَالِ الْعَرَبِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا! وَاَللَّهِ لَكَأَنَّا بِكَمْ غَدًا مُقَرَّنِينَ فِي الْحِبَالِ )سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 525 ۔کسی نے کہا: یہ صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ روم کے محل اور ان کے قلعے فتح کرنے جارہے ہیں ، ان کی حالت پر افسوس ہے (يَظُنُّ هَذَا أَنْ يَفْتَحَ قُصُورَ الرُّومِ وَحُصُونَهَا. هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 172 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا۔ وہ کہنے لگے: ہم تو صرف ہنسی کھیل کی باتیں کررہے تھے (إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ( تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 171 ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا اللہ اور اس کے احکام اور اس کے رسول کے معاملہ میں تم ہنسی کھیل کررہے تھے۔ اللہ اور رسول کی بات ہمیشہ کسی آدمی کی زبان سے بلند ہوتی ہے۔ یہ آدمی اگر دیکھنے والوں کی نظر میں بظاہر معمولی ہو تو وہ اس کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ مگر یہ استہزاء اس آدمی کا نہیں ہے خود خدا کا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ صرف یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں سخت مجرم ہیں ، ان کی جھوٹی تاویلیں ان کی حقیقت کو چھپانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ نفاق اور ارتداد دونوں ایک ہی حقیقت کی دو صورتیں ہیں ۔آدمی اگر اسلام اختیار کرنے کے بعد کھلم کھلا منکر ہوجائے تو یہ ارتداد ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ ذہن اور قلب کے اعتبار سے وہ اسلام سے دور ہو مگر لوگوں کے سامنے وہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرے تو یہ نفاق ہے۔ ایسے منافقین کا انجام خدا کے یہاں وہی ہے جو مرتدین کا ہے، إلاّ یہ کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی غلطیوں کا اقرار کرکے اپنی اصلاح کرلیں ۔

لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِنْ نَعْفُ عَنْ طَائِفَةٍ مِنْكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

📘 غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ میں یہ فضا تھی کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے وہ ارباب عزیمت شمار ہورہے تھے اور جو لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے تھے وہ منافق اور پست ہمت سمجھے جاتے تھے۔ بیٹھ رہنے والے منافقین نے رسول اور اصحابِ رسول کے عمل كو کم تر ظاہر کرنے کے ليے ان کا مذاق اڑانا شروع کیا۔ کسی نے کہا: یہ قرآن پڑھنے والے ہمیں تواس کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتے کہ وہ ہم میں سب سے زیادہ بھوکے ہیں ، ہم میں سب سے زیادہ جھوٹے ہیں ۔ اور ہم میں سب سے زیادہ بز دل ہیں :مَا أَرَى قُرّاءنا هَؤُلَاءِ إِلَّا أَرْغَبَنَا بُطُونًا، وَأَكْذَبَنَا أَلْسِنَةً، وَأَجْبَنَنَا عِنْدَ اللِّقَاءِ(تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 171 )کسی نے کہا: کیا تم سمجھتے ہو کہ رومیوں سے لڑنا بھی ویسا ہی ہے جیسا عربوں کا آپس میں لڑنا۔ خدا کی قسم کل یہ سب لوگ رسیوں میں باندھے ہوئے نظرآئیں گے( أَتَحْسِبُونَ جَلَّادَ بَنِي الْأَصْفَرِ كَقِتَالِ الْعَرَبِ بَعْضُهُمْ بَعْضًا! وَاَللَّهِ لَكَأَنَّا بِكَمْ غَدًا مُقَرَّنِينَ فِي الْحِبَالِ )سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ 525 ۔کسی نے کہا: یہ صاحب سمجھتے ہیں کہ وہ روم کے محل اور ان کے قلعے فتح کرنے جارہے ہیں ، ان کی حالت پر افسوس ہے (يَظُنُّ هَذَا أَنْ يَفْتَحَ قُصُورَ الرُّومِ وَحُصُونَهَا. هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ (تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 172 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان لوگوں کو بلا کر پوچھا۔ وہ کہنے لگے: ہم تو صرف ہنسی کھیل کی باتیں کررہے تھے (إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ( تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 171 ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا اللہ اور اس کے احکام اور اس کے رسول کے معاملہ میں تم ہنسی کھیل کررہے تھے۔ اللہ اور رسول کی بات ہمیشہ کسی آدمی کی زبان سے بلند ہوتی ہے۔ یہ آدمی اگر دیکھنے والوں کی نظر میں بظاہر معمولی ہو تو وہ اس کا استہزاء کرنے لگتے ہیں ۔ مگر یہ استہزاء اس آدمی کا نہیں ہے خود خدا کا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ صرف یہ بات ثابت کرتے ہیں کہ وہ خدا کے دین کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔ ایسے لوگ خدا کی نظر میں سخت مجرم ہیں ، ان کی جھوٹی تاویلیں ان کی حقیقت کو چھپانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتیں ۔ نفاق اور ارتداد دونوں ایک ہی حقیقت کی دو صورتیں ہیں ۔آدمی اگر اسلام اختیار کرنے کے بعد کھلم کھلا منکر ہوجائے تو یہ ارتداد ہے۔ اور اگر ایسا ہو کہ ذہن اور قلب کے اعتبار سے وہ اسلام سے دور ہو مگر لوگوں کے سامنے وہ اپنے کو مسلمان ظاہر کرے تو یہ نفاق ہے۔ ایسے منافقین کا انجام خدا کے یہاں وہی ہے جو مرتدین کا ہے، إلاّ یہ کہ وہ مرنے سے پہلے اپنی غلطیوں کا اقرار کرکے اپنی اصلاح کرلیں ۔

الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُهُمْ مِنْ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوفِ وَيَقْبِضُونَ أَيْدِيَهُمْ ۚ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ ۗ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

📘 پہلے لوگوں کو خدا نے جاہ ومال دیا تو انھوں نے اس سے فخر اور گھمنڈ اور بے حسی کی غذا لی۔ تاہم بعد والوں نے ان کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انھوں نے بھی دنیا کے سازوسامان سے اپنے ليے وہی حصہ پسند کیا جس کو ان کے پچھلوں نے پسند کیا تھا۔ یہی ہر دور میں عام آدمی کا حال رہاہے۔ وہ حق کے تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مال واولاد کے تقاضے ہی اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہوتے ہیں ۔ منافق کا حال بھی باعتبار حقیقت یہی ہوتاہے۔ وہ ظاہری طورپر تو مسلمانوں جیسا نظر آتا ہے مگر اس کے جینے كي سطح وہی ہوتی ہے جو عام دنیا داروں کی سطح ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بعض نمائشی اعمال کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں وہ ویسا ہی ہوتاہے جیسے عام دنیا دار ہوتے ہیں ۔ منافق کي قلبی دلچسپیاں دین دار کے مقابلہ میں دنیا داروں سے زیادہ وابستہ ہوتی ہیں ۔ آخرت کی مد میں خرچ کرنے سے اس کا دل تنگ ہوتا ہے مگر بے فائدہ دنیوی مشاغل میں خرچ کرنا ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتا ہے۔ حق کا فروغ اس کو پسند نہیں آتا البتہ ناحق کا فروغ ہو تو اس کو وہ شوق سے گوارا کرتاہے۔ ظاہری دین داری کے باوجود وہ خدا اور آخرت کو اس طرح بھولا رہتا ہے جیسے اس کے نزدیک خدا اور آخرت کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ایسے لوگ اپنے ظاہری اسلام کی بناپر خداکی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ دنیا میں ان کے لیے لعنت ہے اور آخرت میں ان کے ليے عذاب۔ دنیا میں بھی وہ خدا کی رحمتوں سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی۔ خدا کے ساتھ کامل وابستگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے عمل میں قیمت پیدا کرتی ہے۔ کامل وابستگی کے بغیر جو عمل کیا جائے، خواہ وہ بظاہر دینی عمل کیوں نہ ہو، وہ آخرت میں اسی طرح بے قیمت قرار پائے گا جیسے روح کے بغیر کوئی جسم، جو جسم سے ظاہری مشابہت کے باوجود عملاً بے قیمت ہوتا ہے۔

وَعَدَ اللَّهُ الْمُنَافِقِينَ وَالْمُنَافِقَاتِ وَالْكُفَّارَ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ هِيَ حَسْبُهُمْ ۚ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُقِيمٌ

📘 پہلے لوگوں کو خدا نے جاہ ومال دیا تو انھوں نے اس سے فخر اور گھمنڈ اور بے حسی کی غذا لی۔ تاہم بعد والوں نے ان کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انھوں نے بھی دنیا کے سازوسامان سے اپنے ليے وہی حصہ پسند کیا جس کو ان کے پچھلوں نے پسند کیا تھا۔ یہی ہر دور میں عام آدمی کا حال رہاہے۔ وہ حق کے تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مال واولاد کے تقاضے ہی اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہوتے ہیں ۔ منافق کا حال بھی باعتبار حقیقت یہی ہوتاہے۔ وہ ظاہری طورپر تو مسلمانوں جیسا نظر آتا ہے مگر اس کے جینے كي سطح وہی ہوتی ہے جو عام دنیا داروں کی سطح ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بعض نمائشی اعمال کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں وہ ویسا ہی ہوتاہے جیسے عام دنیا دار ہوتے ہیں ۔ منافق کي قلبی دلچسپیاں دین دار کے مقابلہ میں دنیا داروں سے زیادہ وابستہ ہوتی ہیں ۔ آخرت کی مد میں خرچ کرنے سے اس کا دل تنگ ہوتا ہے مگر بے فائدہ دنیوی مشاغل میں خرچ کرنا ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتا ہے۔ حق کا فروغ اس کو پسند نہیں آتا البتہ ناحق کا فروغ ہو تو اس کو وہ شوق سے گوارا کرتاہے۔ ظاہری دین داری کے باوجود وہ خدا اور آخرت کو اس طرح بھولا رہتا ہے جیسے اس کے نزدیک خدا اور آخرت کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ایسے لوگ اپنے ظاہری اسلام کی بناپر خداکی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ دنیا میں ان کے لیے لعنت ہے اور آخرت میں ان کے ليے عذاب۔ دنیا میں بھی وہ خدا کی رحمتوں سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی۔ خدا کے ساتھ کامل وابستگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے عمل میں قیمت پیدا کرتی ہے۔ کامل وابستگی کے بغیر جو عمل کیا جائے، خواہ وہ بظاہر دینی عمل کیوں نہ ہو، وہ آخرت میں اسی طرح بے قیمت قرار پائے گا جیسے روح کے بغیر کوئی جسم، جو جسم سے ظاہری مشابہت کے باوجود عملاً بے قیمت ہوتا ہے۔

كَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنْكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُمْ بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

📘 پہلے لوگوں کو خدا نے جاہ ومال دیا تو انھوں نے اس سے فخر اور گھمنڈ اور بے حسی کی غذا لی۔ تاہم بعد والوں نے ان کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انھوں نے بھی دنیا کے سازوسامان سے اپنے ليے وہی حصہ پسند کیا جس کو ان کے پچھلوں نے پسند کیا تھا۔ یہی ہر دور میں عام آدمی کا حال رہاہے۔ وہ حق کے تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مال واولاد کے تقاضے ہی اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہوتے ہیں ۔ منافق کا حال بھی باعتبار حقیقت یہی ہوتاہے۔ وہ ظاہری طورپر تو مسلمانوں جیسا نظر آتا ہے مگر اس کے جینے كي سطح وہی ہوتی ہے جو عام دنیا داروں کی سطح ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بعض نمائشی اعمال کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں وہ ویسا ہی ہوتاہے جیسے عام دنیا دار ہوتے ہیں ۔ منافق کي قلبی دلچسپیاں دین دار کے مقابلہ میں دنیا داروں سے زیادہ وابستہ ہوتی ہیں ۔ آخرت کی مد میں خرچ کرنے سے اس کا دل تنگ ہوتا ہے مگر بے فائدہ دنیوی مشاغل میں خرچ کرنا ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتا ہے۔ حق کا فروغ اس کو پسند نہیں آتا البتہ ناحق کا فروغ ہو تو اس کو وہ شوق سے گوارا کرتاہے۔ ظاہری دین داری کے باوجود وہ خدا اور آخرت کو اس طرح بھولا رہتا ہے جیسے اس کے نزدیک خدا اور آخرت کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ایسے لوگ اپنے ظاہری اسلام کی بناپر خداکی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ دنیا میں ان کے لیے لعنت ہے اور آخرت میں ان کے ليے عذاب۔ دنیا میں بھی وہ خدا کی رحمتوں سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی۔ خدا کے ساتھ کامل وابستگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے عمل میں قیمت پیدا کرتی ہے۔ کامل وابستگی کے بغیر جو عمل کیا جائے، خواہ وہ بظاہر دینی عمل کیوں نہ ہو، وہ آخرت میں اسی طرح بے قیمت قرار پائے گا جیسے روح کے بغیر کوئی جسم، جو جسم سے ظاہری مشابہت کے باوجود عملاً بے قیمت ہوتا ہے۔

كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِنْدَ اللَّهِ وَعِنْدَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ

📘 مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرليے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ’’دشمن‘‘ سے یہ معاہدہ انھوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم ازکم انھیں بدنام کریں ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے ليے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔ یہ قریش کا حال تھا ،جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظرآتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنو کنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے مسلمانوں سے معاہدے كيے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیاگیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیوں کہ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی سے اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے ليے تیار ہوجائیں ۔ معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے— رشتہ داری یا قول وقرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور جن سے قول وقرار ہوچکا ہے ان سے قول وقرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول وقرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں ۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کریں اور سرکشی سے باز آئیں ۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برارہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

أَلَمْ يَأْتِهِمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ وَأَصْحَابِ مَدْيَنَ وَالْمُؤْتَفِكَاتِ ۚ أَتَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ ۖ فَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

📘 پہلے لوگوں کو خدا نے جاہ ومال دیا تو انھوں نے اس سے فخر اور گھمنڈ اور بے حسی کی غذا لی۔ تاہم بعد والوں نے ان کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ انھوں نے بھی دنیا کے سازوسامان سے اپنے ليے وہی حصہ پسند کیا جس کو ان کے پچھلوں نے پسند کیا تھا۔ یہی ہر دور میں عام آدمی کا حال رہاہے۔ وہ حق کے تقاضوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ مال واولاد کے تقاضے ہی اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز ہوتے ہیں ۔ منافق کا حال بھی باعتبار حقیقت یہی ہوتاہے۔ وہ ظاہری طورپر تو مسلمانوں جیسا نظر آتا ہے مگر اس کے جینے كي سطح وہی ہوتی ہے جو عام دنیا داروں کی سطح ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ بعض نمائشی اعمال کو چھوڑ کر حقیقی زندگی میں وہ ویسا ہی ہوتاہے جیسے عام دنیا دار ہوتے ہیں ۔ منافق کي قلبی دلچسپیاں دین دار کے مقابلہ میں دنیا داروں سے زیادہ وابستہ ہوتی ہیں ۔ آخرت کی مد میں خرچ کرنے سے اس کا دل تنگ ہوتا ہے مگر بے فائدہ دنیوی مشاغل میں خرچ کرنا ہو تو وہ بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتا ہے۔ حق کا فروغ اس کو پسند نہیں آتا البتہ ناحق کا فروغ ہو تو اس کو وہ شوق سے گوارا کرتاہے۔ ظاہری دین داری کے باوجود وہ خدا اور آخرت کو اس طرح بھولا رہتا ہے جیسے اس کے نزدیک خدا اور آخرت کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ایسے لوگ اپنے ظاہری اسلام کی بناپر خداکی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ دنیا میں ان کے لیے لعنت ہے اور آخرت میں ان کے ليے عذاب۔ دنیا میں بھی وہ خدا کی رحمتوں سے محروم رہیں گے اور آخرت میں بھی۔ خدا کے ساتھ کامل وابستگی ہی وہ چیز ہے جو آدمی کے عمل میں قیمت پیدا کرتی ہے۔ کامل وابستگی کے بغیر جو عمل کیا جائے، خواہ وہ بظاہر دینی عمل کیوں نہ ہو، وہ آخرت میں اسی طرح بے قیمت قرار پائے گا جیسے روح کے بغیر کوئی جسم، جو جسم سے ظاہری مشابہت کے باوجود عملاً بے قیمت ہوتا ہے۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

📘 منافقانہ طورپر اسلام سے وابستہ رہنے والے لوگوں میں جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ ہیں آخرت سے غفلت، دنیوی ضرورتوں سے دل چسپی، بھلائی کے ساتھ تعاون سے دوری اور نمائشی کاموں کی طرف رغبت۔ ان مشترک خصوصیات کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے خوب ملے جلے رہتے ہیں ۔ یہ چیزیں ان کو مشترک دل چسپی کا موضوعِ گفتگو دیتی ہیں ۔ اس سے انھیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا میدان حاصل ہوتا ہے۔ یہ ان کے ليے باہمی تعلقات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی معاملہ ایک اور شکل میں سچے اہل ایمان کاہوتاہے۔ ان کے دل میں خدا کی لگن لگی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کو سب سے زیادہ آخرت کی فکر ہوتی ہے۔ وہ دنیا کی چیزوں سے بطور ضرورت تعلق رکھتے ہیں نہ کہ بطور مقصد، خدا کی پسند کا کام ہورہا ہو تو ان کا دل فوراً اس کی طرف کھینچ اٹھتا ہے۔ برائی کا کام ہو تو اس سے ان کی طبیعت اِبا کرتی ہے۔ ان کی زندگی اور ان کا اثاثہ سب سے زیادہ خدا کے ليے ہوتا ہے، نہ کہ اپنے ليے۔ وہ خدا کی یاد کرنے والے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اہل ایمان کے یہ مشترک اوصاف انھیں ایک دوسرے سے قریب کردیتے ہیں ۔ سب کی دوڑ خدا کی طرف ہوتی ہے۔ سب کی اطاعت کا مرکز خدا کا رسول ہوتا ہے۔ جب وہ ملتے ہیں تو یہی وہ باہمی دلچسپی کی چیزیں ہوتی ہیں جن پر وہ بات کریں ۔انھیں اوصاف کے ذریعہ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ۔ اسی کی بنیاد پر ان کے آپس کے تعلقات قائم ہوتے ہیں ۔ اسی سے انھیں وہ مقصد ہاتھ آتا ہے جس کے ليے وہ متحدہ کوشش کریں ۔ اسی سے ان کو وہ نشانہ ملتاہے، جس کی طرف سب مل کر آگے بڑھیں ۔ دنیا میں اہلِ ایمان کی زندگی ان کی آخرت کی زندگی کی تمثیل ہے۔ دنیا میں اہل ایمان اس طرح جیتے ہیں جیسے ایک باغ میں بہت سے شاداب درخت کھڑے ہوں ۔ ہر ایک دوسرے کے حسن میں اضافہ کررہا ہو۔ ان درختوں کو فیضانِ خداوندی سے نکلنے والے آنسو سیراب کررہے ہوں ۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا اس طرح خیرخواہ اور ساتھی ہو کہ پورا ماحول امن وسکون کا گہوارہ بن جائے۔ یہی ربانی زندگی آخرت میں جنتی زندگی میں تبدیل ہوجائے گی۔ وہاں آدمی نہ صرف اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا بلکہ خدا کی خصوصی رحمت سے ایسے انعامات پائے گا جن کا اس سے پہلے اس نے تصور نہیں کیا تھا۔

وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ ۚ وَرِضْوَانٌ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 منافقانہ طورپر اسلام سے وابستہ رہنے والے لوگوں میں جو خصوصیات ہوتی ہیں وہ ہیں آخرت سے غفلت، دنیوی ضرورتوں سے دل چسپی، بھلائی کے ساتھ تعاون سے دوری اور نمائشی کاموں کی طرف رغبت۔ ان مشترک خصوصیات کی وجہ سے وہ ایک دوسرے سے خوب ملے جلے رہتے ہیں ۔ یہ چیزیں ان کو مشترک دل چسپی کا موضوعِ گفتگو دیتی ہیں ۔ اس سے انھیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا میدان حاصل ہوتا ہے۔ یہ ان کے ليے باہمی تعلقات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی معاملہ ایک اور شکل میں سچے اہل ایمان کاہوتاہے۔ ان کے دل میں خدا کی لگن لگی ہوئی ہوتی ہے۔ ان کو سب سے زیادہ آخرت کی فکر ہوتی ہے۔ وہ دنیا کی چیزوں سے بطور ضرورت تعلق رکھتے ہیں نہ کہ بطور مقصد، خدا کی پسند کا کام ہورہا ہو تو ان کا دل فوراً اس کی طرف کھینچ اٹھتا ہے۔ برائی کا کام ہو تو اس سے ان کی طبیعت اِبا کرتی ہے۔ ان کی زندگی اور ان کا اثاثہ سب سے زیادہ خدا کے ليے ہوتا ہے، نہ کہ اپنے ليے۔ وہ خدا کی یاد کرنے والے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اہل ایمان کے یہ مشترک اوصاف انھیں ایک دوسرے سے قریب کردیتے ہیں ۔ سب کی دوڑ خدا کی طرف ہوتی ہے۔ سب کی اطاعت کا مرکز خدا کا رسول ہوتا ہے۔ جب وہ ملتے ہیں تو یہی وہ باہمی دلچسپی کی چیزیں ہوتی ہیں جن پر وہ بات کریں ۔انھیں اوصاف کے ذریعہ وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ۔ اسی کی بنیاد پر ان کے آپس کے تعلقات قائم ہوتے ہیں ۔ اسی سے انھیں وہ مقصد ہاتھ آتا ہے جس کے ليے وہ متحدہ کوشش کریں ۔ اسی سے ان کو وہ نشانہ ملتاہے، جس کی طرف سب مل کر آگے بڑھیں ۔ دنیا میں اہلِ ایمان کی زندگی ان کی آخرت کی زندگی کی تمثیل ہے۔ دنیا میں اہل ایمان اس طرح جیتے ہیں جیسے ایک باغ میں بہت سے شاداب درخت کھڑے ہوں ۔ ہر ایک دوسرے کے حسن میں اضافہ کررہا ہو۔ ان درختوں کو فیضانِ خداوندی سے نکلنے والے آنسو سیراب کررہے ہوں ۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا اس طرح خیرخواہ اور ساتھی ہو کہ پورا ماحول امن وسکون کا گہوارہ بن جائے۔ یہی ربانی زندگی آخرت میں جنتی زندگی میں تبدیل ہوجائے گی۔ وہاں آدمی نہ صرف اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹے گا بلکہ خدا کی خصوصی رحمت سے ایسے انعامات پائے گا جن کا اس سے پہلے اس نے تصور نہیں کیا تھا۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

📘 ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تقریباً 80 منافقین مدینہ میں موجود تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقین سے جس جہاد کا حکم دیاگیا ہے، وہ جنگ کے معنی میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ ان منافقین کا خاتمہ کرا دیتے۔ اس سے مراد دراصل وہ جہاد ہے جو زبان اور برتاؤ اور شدت احتساب کے ذریعہ کیا جاتاہے:وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:أُمِرَ بِالْجِهَادِ…مَعَ الْمُنَافِقِينَ بِاللِّسَانِ وَشِدَّةِ الزَّجْرِ وَالتَّغْلِيظِ (تفسیر القرطبی، جلد8، صفحہ 204 )۔ چنانچہ جمہور امت کے نزدیک منافقین کے مقابلہ میں جہاد بالسیف مشروع نہیں ہے۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اس طرح اختیار کرے کہ وہ اس کو مفادات اور مصلحتوں کے تابع كيے هوئے ہو۔ اس قسم کے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کچھ خدا کے بندے غیر مصلحت پرستانہ انداز میں اسلام کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں تو ایسا اسلام انھیں اپنے اسلام کو بے وقعت ثابت کرتا ہوا نظر آتاہے۔ ایسے داعیوں سے انھیں سخت نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ ان کو اکھاڑنے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ جس اسلام کے نام پر وہ اپنی تجارتیں قائم کرتے ہیں اسی اسلام کے داعیوں کے وہ دشمن بن جاتے ہیں ۔ منافقین کی یہ دشمنی سازش اور استہزاء کے انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی کو دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر کسی وجہ سے سچے اسلام کے داعیوں کے بارے میں مخالفانہ جذبات ہیں تو وہ اس کو ابھارتے ہیں تاکہ وہ ان سے لڑ جائیں ۔ وہ مخلص اہلِ ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے ان کی قربانیاں بے حقیقت معلوم ہونے لگیں ۔ وہ ان کی معمولی باتوں کو اس طرح بگاڑ کر پیش کرتے ہیں کہ عوام میں ان کی تصویر خراب ہو جائے۔ تبوک کے سفر میں ایک بار ایسا ہوا کہ ایک پڑاؤ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی۔ کچھ مسلمان اس کو تلاش کرنے کے ليے نکلے۔ یہ بات منافقوں کو معلوم ہوئی تو انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا: یہ صاحب ہم کو آسمان کی خبریں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کو اپنی اونٹنی کی خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ منافق مسلمان سچے اسلام کے داعیوں کو ناکام کرنے کے ليے شیطان کے آلۂ کار بنتے ہیں ۔ مگر سچے اسلام کے داعیوں کا مدد گار ہمیشہ خدا ہوتاہے۔ وہ منافقوں کی تمام سازشوں کے باوجود ان کو بچا لیتاہے۔ اور منافقین کا انجام یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے جرم ثابت کرکے اس کے مستحق بنتے ہیں کہ ان کو دنیا میں بھی عذاب دیا جائے اور آخرت میں بھی۔

يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِنْ فَضْلِهِ ۚ فَإِنْ يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَهُمْ ۖ وَإِنْ يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ

📘 ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تقریباً 80 منافقین مدینہ میں موجود تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقین سے جس جہاد کا حکم دیاگیا ہے، وہ جنگ کے معنی میں نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ ان منافقین کا خاتمہ کرا دیتے۔ اس سے مراد دراصل وہ جہاد ہے جو زبان اور برتاؤ اور شدت احتساب کے ذریعہ کیا جاتاہے:وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:أُمِرَ بِالْجِهَادِ…مَعَ الْمُنَافِقِينَ بِاللِّسَانِ وَشِدَّةِ الزَّجْرِ وَالتَّغْلِيظِ (تفسیر القرطبی، جلد8، صفحہ 204 )۔ چنانچہ جمہور امت کے نزدیک منافقین کے مقابلہ میں جہاد بالسیف مشروع نہیں ہے۔ منافقت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اس طرح اختیار کرے کہ وہ اس کو مفادات اور مصلحتوں کے تابع كيے هوئے ہو۔ اس قسم کے لوگ جب دیکھتے ہیں کہ کچھ خدا کے بندے غیر مصلحت پرستانہ انداز میں اسلام کو اختیار کیے ہوئے ہیں اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں تو ایسا اسلام انھیں اپنے اسلام کو بے وقعت ثابت کرتا ہوا نظر آتاہے۔ ایسے داعیوں سے انھیں سخت نفرت ہوجاتی ہے۔ وہ ان کو اکھاڑنے کے درپے ہوجاتے ہیں ۔ جس اسلام کے نام پر وہ اپنی تجارتیں قائم کرتے ہیں اسی اسلام کے داعیوں کے وہ دشمن بن جاتے ہیں ۔ منافقین کی یہ دشمنی سازش اور استہزاء کے انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر وہ کسی کو دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر کسی وجہ سے سچے اسلام کے داعیوں کے بارے میں مخالفانہ جذبات ہیں تو وہ اس کو ابھارتے ہیں تاکہ وہ ان سے لڑ جائیں ۔ وہ مخلص اہلِ ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جس سے ان کی قربانیاں بے حقیقت معلوم ہونے لگیں ۔ وہ ان کی معمولی باتوں کو اس طرح بگاڑ کر پیش کرتے ہیں کہ عوام میں ان کی تصویر خراب ہو جائے۔ تبوک کے سفر میں ایک بار ایسا ہوا کہ ایک پڑاؤ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہوگئی۔ کچھ مسلمان اس کو تلاش کرنے کے ليے نکلے۔ یہ بات منافقوں کو معلوم ہوئی تو انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا: یہ صاحب ہم کو آسمان کی خبریں بتاتے ہیں ۔ مگر ان کو اپنی اونٹنی کی خبر نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔ منافق مسلمان سچے اسلام کے داعیوں کو ناکام کرنے کے ليے شیطان کے آلۂ کار بنتے ہیں ۔ مگر سچے اسلام کے داعیوں کا مدد گار ہمیشہ خدا ہوتاہے۔ وہ منافقوں کی تمام سازشوں کے باوجود ان کو بچا لیتاہے۔ اور منافقین کا انجام یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے جرم ثابت کرکے اس کے مستحق بنتے ہیں کہ ان کو دنیا میں بھی عذاب دیا جائے اور آخرت میں بھی۔

۞ وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ

📘 ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو۔ مگر ثعلبہ نے بار بار درخواست کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا، ثعلبہ کو مال دے دے۔ اس کے بعد ثعلبہ نے بکری پالی۔ اس کی نسل اتنی بڑھی کہ مدینہ کی زمین ان کی بکریوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ ثعلبہ نے مدینہ کے باہر ایک وادی میں رہنا شروع کیا۔ اب ثعلبہ کے اسلام میں کمزوری آنا شروع ہوئی۔ پہلے ان کی جماعت کی نماز چھوٹی۔ پھر جمعہ چھوٹ گیا۔ حتی کہ یہ نوبت آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ثعلبہ کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے گیاتو ثعلبہ نے زکوٰۃ نہیں دی اور کہا کہ زکوٰۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے (مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ )أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، جلد1، صفحہ 462 ۔ وہ شخص خدا کی نظر میں منافق ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ مال کے ليے خدا سے دعائیں کرے اور جب خدا اس کو مال والا بنا دے تو وہ اپنے مال میں خدا کا حق نکالنا بھول جائے۔ آدمی کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ مال والوں کو برا کہتا ہے کہ یہ لوگ مال کو غلط کاموں میں برباد کرتے ہیں ۔ اگر خدا مجھ کو مال دے تو میں اس کو خیر کے کاموں میں خرچ کروں ۔ مگر جب اس کے پاس مال آتاہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ پہلے اس نے کیا کہا تھا اور کن جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ مال کو اپنی محنت اور لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر تنہا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ خدا کا حق ادا کرنا اسے یاد نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے ليے مزید سرکشی یہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ کسی نے زیادہ دیا تو اس کو ریا کار کہہ کر گراتے ہیں ۔ اور کسی نے اپنی حیثیت کی بنا پر کم دیا تو کہتے ہیں کہ خداکو اس آدمی کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ اتنا زیادہ اپنے آپ میں گم ہوں انھیں اپنے آپ سے باہر کی اعلیٰ تر حقیقتیں کبھی دکھائی نہیں دیتیں ۔

فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ

📘 ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو۔ مگر ثعلبہ نے بار بار درخواست کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا، ثعلبہ کو مال دے دے۔ اس کے بعد ثعلبہ نے بکری پالی۔ اس کی نسل اتنی بڑھی کہ مدینہ کی زمین ان کی بکریوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ ثعلبہ نے مدینہ کے باہر ایک وادی میں رہنا شروع کیا۔ اب ثعلبہ کے اسلام میں کمزوری آنا شروع ہوئی۔ پہلے ان کی جماعت کی نماز چھوٹی۔ پھر جمعہ چھوٹ گیا۔ حتی کہ یہ نوبت آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ثعلبہ کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے گیاتو ثعلبہ نے زکوٰۃ نہیں دی اور کہا کہ زکوٰۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے (مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ )أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، جلد1، صفحہ 462 ۔ وہ شخص خدا کی نظر میں منافق ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ مال کے ليے خدا سے دعائیں کرے اور جب خدا اس کو مال والا بنا دے تو وہ اپنے مال میں خدا کا حق نکالنا بھول جائے۔ آدمی کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ مال والوں کو برا کہتا ہے کہ یہ لوگ مال کو غلط کاموں میں برباد کرتے ہیں ۔ اگر خدا مجھ کو مال دے تو میں اس کو خیر کے کاموں میں خرچ کروں ۔ مگر جب اس کے پاس مال آتاہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ پہلے اس نے کیا کہا تھا اور کن جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ مال کو اپنی محنت اور لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر تنہا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ خدا کا حق ادا کرنا اسے یاد نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے ليے مزید سرکشی یہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ کسی نے زیادہ دیا تو اس کو ریا کار کہہ کر گراتے ہیں ۔ اور کسی نے اپنی حیثیت کی بنا پر کم دیا تو کہتے ہیں کہ خداکو اس آدمی کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ اتنا زیادہ اپنے آپ میں گم ہوں انھیں اپنے آپ سے باہر کی اعلیٰ تر حقیقتیں کبھی دکھائی نہیں دیتیں ۔

فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ

📘 ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو۔ مگر ثعلبہ نے بار بار درخواست کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا، ثعلبہ کو مال دے دے۔ اس کے بعد ثعلبہ نے بکری پالی۔ اس کی نسل اتنی بڑھی کہ مدینہ کی زمین ان کی بکریوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ ثعلبہ نے مدینہ کے باہر ایک وادی میں رہنا شروع کیا۔ اب ثعلبہ کے اسلام میں کمزوری آنا شروع ہوئی۔ پہلے ان کی جماعت کی نماز چھوٹی۔ پھر جمعہ چھوٹ گیا۔ حتی کہ یہ نوبت آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ثعلبہ کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے گیاتو ثعلبہ نے زکوٰۃ نہیں دی اور کہا کہ زکوٰۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے (مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ )أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، جلد1، صفحہ 462 ۔ وہ شخص خدا کی نظر میں منافق ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ مال کے ليے خدا سے دعائیں کرے اور جب خدا اس کو مال والا بنا دے تو وہ اپنے مال میں خدا کا حق نکالنا بھول جائے۔ آدمی کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ مال والوں کو برا کہتا ہے کہ یہ لوگ مال کو غلط کاموں میں برباد کرتے ہیں ۔ اگر خدا مجھ کو مال دے تو میں اس کو خیر کے کاموں میں خرچ کروں ۔ مگر جب اس کے پاس مال آتاہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ پہلے اس نے کیا کہا تھا اور کن جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ مال کو اپنی محنت اور لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر تنہا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ خدا کا حق ادا کرنا اسے یاد نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے ليے مزید سرکشی یہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ کسی نے زیادہ دیا تو اس کو ریا کار کہہ کر گراتے ہیں ۔ اور کسی نے اپنی حیثیت کی بنا پر کم دیا تو کہتے ہیں کہ خداکو اس آدمی کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ اتنا زیادہ اپنے آپ میں گم ہوں انھیں اپنے آپ سے باہر کی اعلیٰ تر حقیقتیں کبھی دکھائی نہیں دیتیں ۔

أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ وَأَنَّ اللَّهَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ

📘 ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو۔ مگر ثعلبہ نے بار بار درخواست کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا، ثعلبہ کو مال دے دے۔ اس کے بعد ثعلبہ نے بکری پالی۔ اس کی نسل اتنی بڑھی کہ مدینہ کی زمین ان کی بکریوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ ثعلبہ نے مدینہ کے باہر ایک وادی میں رہنا شروع کیا۔ اب ثعلبہ کے اسلام میں کمزوری آنا شروع ہوئی۔ پہلے ان کی جماعت کی نماز چھوٹی۔ پھر جمعہ چھوٹ گیا۔ حتی کہ یہ نوبت آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ثعلبہ کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے گیاتو ثعلبہ نے زکوٰۃ نہیں دی اور کہا کہ زکوٰۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے (مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ )أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، جلد1، صفحہ 462 ۔ وہ شخص خدا کی نظر میں منافق ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ مال کے ليے خدا سے دعائیں کرے اور جب خدا اس کو مال والا بنا دے تو وہ اپنے مال میں خدا کا حق نکالنا بھول جائے۔ آدمی کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ مال والوں کو برا کہتا ہے کہ یہ لوگ مال کو غلط کاموں میں برباد کرتے ہیں ۔ اگر خدا مجھ کو مال دے تو میں اس کو خیر کے کاموں میں خرچ کروں ۔ مگر جب اس کے پاس مال آتاہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ پہلے اس نے کیا کہا تھا اور کن جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ مال کو اپنی محنت اور لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر تنہا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ خدا کا حق ادا کرنا اسے یاد نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے ليے مزید سرکشی یہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ کسی نے زیادہ دیا تو اس کو ریا کار کہہ کر گراتے ہیں ۔ اور کسی نے اپنی حیثیت کی بنا پر کم دیا تو کہتے ہیں کہ خداکو اس آدمی کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ اتنا زیادہ اپنے آپ میں گم ہوں انھیں اپنے آپ سے باہر کی اعلیٰ تر حقیقتیں کبھی دکھائی نہیں دیتیں ۔

الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ ۙ سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو۔ مگر ثعلبہ نے بار بار درخواست کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا، ثعلبہ کو مال دے دے۔ اس کے بعد ثعلبہ نے بکری پالی۔ اس کی نسل اتنی بڑھی کہ مدینہ کی زمین ان کی بکریوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ ثعلبہ نے مدینہ کے باہر ایک وادی میں رہنا شروع کیا۔ اب ثعلبہ کے اسلام میں کمزوری آنا شروع ہوئی۔ پہلے ان کی جماعت کی نماز چھوٹی۔ پھر جمعہ چھوٹ گیا۔ حتی کہ یہ نوبت آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ثعلبہ کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے گیاتو ثعلبہ نے زکوٰۃ نہیں دی اور کہا کہ زکوٰۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے (مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ )أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، جلد1، صفحہ 462 ۔ وہ شخص خدا کی نظر میں منافق ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ مال کے ليے خدا سے دعائیں کرے اور جب خدا اس کو مال والا بنا دے تو وہ اپنے مال میں خدا کا حق نکالنا بھول جائے۔ آدمی کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ مال والوں کو برا کہتا ہے کہ یہ لوگ مال کو غلط کاموں میں برباد کرتے ہیں ۔ اگر خدا مجھ کو مال دے تو میں اس کو خیر کے کاموں میں خرچ کروں ۔ مگر جب اس کے پاس مال آتاہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ پہلے اس نے کیا کہا تھا اور کن جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ مال کو اپنی محنت اور لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر تنہا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ خدا کا حق ادا کرنا اسے یاد نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے ليے مزید سرکشی یہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ کسی نے زیادہ دیا تو اس کو ریا کار کہہ کر گراتے ہیں ۔ اور کسی نے اپنی حیثیت کی بنا پر کم دیا تو کہتے ہیں کہ خداکو اس آدمی کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ اتنا زیادہ اپنے آپ میں گم ہوں انھیں اپنے آپ سے باہر کی اعلیٰ تر حقیقتیں کبھی دکھائی نہیں دیتیں ۔

كَيْفَ وَإِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ

📘 مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرليے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ’’دشمن‘‘ سے یہ معاہدہ انھوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم ازکم انھیں بدنام کریں ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے ليے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔ یہ قریش کا حال تھا ،جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظرآتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنو کنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے مسلمانوں سے معاہدے كيے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیاگیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیوں کہ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی سے اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے ليے تیار ہوجائیں ۔ معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے— رشتہ داری یا قول وقرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور جن سے قول وقرار ہوچکا ہے ان سے قول وقرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول وقرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں ۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کریں اور سرکشی سے باز آئیں ۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برارہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ

📘 ثعلبہ بن حاطب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرے ليے دعاکیجيے کہ خدا مجھے ما ل دے دے۔ آپ نے فرمایا: تھوڑے مال پر شکر گزار ہونا اس سے بہتر ہے کہ تم کو زیادہ مال ملے اور تم شکر ادا نہ کرسکو۔ مگر ثعلبہ نے بار بار درخواست کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ خدایا، ثعلبہ کو مال دے دے۔ اس کے بعد ثعلبہ نے بکری پالی۔ اس کی نسل اتنی بڑھی کہ مدینہ کی زمین ان کی بکریوں کے لیے تنگ ہوگئی۔ ثعلبہ نے مدینہ کے باہر ایک وادی میں رہنا شروع کیا۔ اب ثعلبہ کے اسلام میں کمزوری آنا شروع ہوئی۔ پہلے ان کی جماعت کی نماز چھوٹی۔ پھر جمعہ چھوٹ گیا۔ حتی کہ یہ نوبت آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل ثعلبہ کے پاس زکوٰۃ لینے کے لیے گیاتو ثعلبہ نے زکوٰۃ نہیں دی اور کہا کہ زکوٰۃ تو جزیہ کی بہن معلوم ہوتی ہے (مَا هَذِهِ إِلا جِزْيَةٌ، مَا هَذِهِ إِلا أُخْتُ الْجِزْيَةِ )أسد الغابہ فی معرفة الصحابہ، جلد1، صفحہ 462 ۔ وہ شخص خدا کی نظر میں منافق ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ مال کے ليے خدا سے دعائیں کرے اور جب خدا اس کو مال والا بنا دے تو وہ اپنے مال میں خدا کا حق نکالنا بھول جائے۔ آدمی کے پاس مال نہیں ہوتا تو وہ مال والوں کو برا کہتا ہے کہ یہ لوگ مال کو غلط کاموں میں برباد کرتے ہیں ۔ اگر خدا مجھ کو مال دے تو میں اس کو خیر کے کاموں میں خرچ کروں ۔ مگر جب اس کے پاس مال آتاہے تو اس کی نفسیات بدل جاتی ہے۔ وہ بھول جاتاہے کہ پہلے اس نے کیا کہا تھا اور کن جذبات کا اظہار کیا تھا۔ اب وہ مال کو اپنی محنت اور لیاقت کا نتیجہ سمجھ کر تنہا اس کا مالک بن جاتا ہے۔ خدا کا حق ادا کرنا اسے یاد نہیں رہتا۔ اس قسم کے لوگ اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے ليے مزید سرکشی یہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں جو خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ۔ کسی نے زیادہ دیا تو اس کو ریا کار کہہ کر گراتے ہیں ۔ اور کسی نے اپنی حیثیت کی بنا پر کم دیا تو کہتے ہیں کہ خداکو اس آدمی کے صدقہ کی کیا ضرورت تھی۔ جو لوگ اتنا زیادہ اپنے آپ میں گم ہوں انھیں اپنے آپ سے باہر کی اعلیٰ تر حقیقتیں کبھی دکھائی نہیں دیتیں ۔

فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللَّهِ وَكَرِهُوا أَنْ يُجَاهِدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِي الْحَرِّ ۗ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا ۚ لَوْ كَانُوا يَفْقَهُونَ

📘 غزوۂ تبوک سخت گرمی کے موسم میں ہوا۔ مدینہ سے چل کر شام کی سرحد تک تین سو میل جانا تھا۔ منافق مسلمانوں نے کہا کہ ایسی تیز گرمی ميں اتنا لمبا سفر نہ کرو۔یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ خدا کی پکار سننے کے بعد کسی خطرہ کی بنا پر نہ نکلنا اپنے آپ کو شدید تر خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دھوپ سے بھاگ کر آگ کے شعلوں کی پناہ لی جائے۔ جو لوگ خدا کے مقابلہ میں اپنے کو اور اپنے مال کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں وہ جب اپنی خوبصورت تدبیروں سے اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی بنے رہیں اور اسی کے ساتھ ان کی زندگی اور ان کے مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے کو عقل مند سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو بے وقوف کہتے ہیں جنھوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے كو ہلکان کررکھا ہو۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ یہ ایسا ہنسنا ہے جس کا انجام رونے پر ختم ہونے والا ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں اس قسم کی ’’ہوشیاری‘‘ سب سے بڑی نادانی ہوگی۔ اس وقت آدمی افسوس کرے گا کہ وہ جنت کا طلب گار تھا مگر اس نے اپنے اثاثہ کی وہی چیز اس کے لیے نہ دی جو دراصل جنت کی واحد قیمت تھی۔ اس قسم کے منافق ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحفظاتی پالیسی کی وجہ سے اپنے گرد مال وجاہ کے اسباب جمع کرلیتے ہیں اس بنا پر عام مسلمان ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ ان کی شان دار زندگیاں اور ان کے خوب صورت باتیں لوگوں کی نظر میں ان کوعظیم بنادیتی ہیں ۔ یہ کسی اسلامی معاشرہ کے ليے ایک سخت امتحان ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے، نہ یہ کہ ان کو عزت کا مقام دیا جانے لگے۔ جن لوگوں کے بارے میں پوری طرح معلوم ہوجائے کہ وہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں مگر حقیقۃً وہ اپنے مفادات اور اپنی دنیوی مصلحتوں کے وفادار ہیں ان کو حقیقی اسلامی معاشرہ کبھی عزت کے مقام پر بٹھانے کے ليے راضی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ وہ اسلامی تقریبات میں صرف پیچھے کی صفوں میں جگہ پائیں ۔ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی دخل نہ ہو۔ دینی مناصب کے ليے وہ نااہل قرار پائیں ۔ جس معاشرہ میں ایسے لوگوں کو عزت کا مقام ملاہوا ہو وہ کبھی خدا کا پسندیدہ معاشرہ نہیں ہوسکتا۔

فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 غزوۂ تبوک سخت گرمی کے موسم میں ہوا۔ مدینہ سے چل کر شام کی سرحد تک تین سو میل جانا تھا۔ منافق مسلمانوں نے کہا کہ ایسی تیز گرمی ميں اتنا لمبا سفر نہ کرو۔یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ خدا کی پکار سننے کے بعد کسی خطرہ کی بنا پر نہ نکلنا اپنے آپ کو شدید تر خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دھوپ سے بھاگ کر آگ کے شعلوں کی پناہ لی جائے۔ جو لوگ خدا کے مقابلہ میں اپنے کو اور اپنے مال کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں وہ جب اپنی خوبصورت تدبیروں سے اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی بنے رہیں اور اسی کے ساتھ ان کی زندگی اور ان کے مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے کو عقل مند سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو بے وقوف کہتے ہیں جنھوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے كو ہلکان کررکھا ہو۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ یہ ایسا ہنسنا ہے جس کا انجام رونے پر ختم ہونے والا ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں اس قسم کی ’’ہوشیاری‘‘ سب سے بڑی نادانی ہوگی۔ اس وقت آدمی افسوس کرے گا کہ وہ جنت کا طلب گار تھا مگر اس نے اپنے اثاثہ کی وہی چیز اس کے لیے نہ دی جو دراصل جنت کی واحد قیمت تھی۔ اس قسم کے منافق ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحفظاتی پالیسی کی وجہ سے اپنے گرد مال وجاہ کے اسباب جمع کرلیتے ہیں اس بنا پر عام مسلمان ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ ان کی شان دار زندگیاں اور ان کے خوب صورت باتیں لوگوں کی نظر میں ان کوعظیم بنادیتی ہیں ۔ یہ کسی اسلامی معاشرہ کے ليے ایک سخت امتحان ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے، نہ یہ کہ ان کو عزت کا مقام دیا جانے لگے۔ جن لوگوں کے بارے میں پوری طرح معلوم ہوجائے کہ وہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں مگر حقیقۃً وہ اپنے مفادات اور اپنی دنیوی مصلحتوں کے وفادار ہیں ان کو حقیقی اسلامی معاشرہ کبھی عزت کے مقام پر بٹھانے کے ليے راضی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ وہ اسلامی تقریبات میں صرف پیچھے کی صفوں میں جگہ پائیں ۔ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی دخل نہ ہو۔ دینی مناصب کے ليے وہ نااہل قرار پائیں ۔ جس معاشرہ میں ایسے لوگوں کو عزت کا مقام ملاہوا ہو وہ کبھی خدا کا پسندیدہ معاشرہ نہیں ہوسکتا۔

فَإِنْ رَجَعَكَ اللَّهُ إِلَىٰ طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَأْذَنُوكَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِيَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِيَ عَدُوًّا ۖ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِينَ

📘 غزوۂ تبوک سخت گرمی کے موسم میں ہوا۔ مدینہ سے چل کر شام کی سرحد تک تین سو میل جانا تھا۔ منافق مسلمانوں نے کہا کہ ایسی تیز گرمی ميں اتنا لمبا سفر نہ کرو۔یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ خدا کی پکار سننے کے بعد کسی خطرہ کی بنا پر نہ نکلنا اپنے آپ کو شدید تر خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دھوپ سے بھاگ کر آگ کے شعلوں کی پناہ لی جائے۔ جو لوگ خدا کے مقابلہ میں اپنے کو اور اپنے مال کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں وہ جب اپنی خوبصورت تدبیروں سے اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی بنے رہیں اور اسی کے ساتھ ان کی زندگی اور ان کے مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے کو عقل مند سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو بے وقوف کہتے ہیں جنھوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے كو ہلکان کررکھا ہو۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ یہ ایسا ہنسنا ہے جس کا انجام رونے پر ختم ہونے والا ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں اس قسم کی ’’ہوشیاری‘‘ سب سے بڑی نادانی ہوگی۔ اس وقت آدمی افسوس کرے گا کہ وہ جنت کا طلب گار تھا مگر اس نے اپنے اثاثہ کی وہی چیز اس کے لیے نہ دی جو دراصل جنت کی واحد قیمت تھی۔ اس قسم کے منافق ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحفظاتی پالیسی کی وجہ سے اپنے گرد مال وجاہ کے اسباب جمع کرلیتے ہیں اس بنا پر عام مسلمان ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ ان کی شان دار زندگیاں اور ان کے خوب صورت باتیں لوگوں کی نظر میں ان کوعظیم بنادیتی ہیں ۔ یہ کسی اسلامی معاشرہ کے ليے ایک سخت امتحان ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے، نہ یہ کہ ان کو عزت کا مقام دیا جانے لگے۔ جن لوگوں کے بارے میں پوری طرح معلوم ہوجائے کہ وہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں مگر حقیقۃً وہ اپنے مفادات اور اپنی دنیوی مصلحتوں کے وفادار ہیں ان کو حقیقی اسلامی معاشرہ کبھی عزت کے مقام پر بٹھانے کے ليے راضی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ وہ اسلامی تقریبات میں صرف پیچھے کی صفوں میں جگہ پائیں ۔ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی دخل نہ ہو۔ دینی مناصب کے ليے وہ نااہل قرار پائیں ۔ جس معاشرہ میں ایسے لوگوں کو عزت کا مقام ملاہوا ہو وہ کبھی خدا کا پسندیدہ معاشرہ نہیں ہوسکتا۔

وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ

📘 غزوۂ تبوک سخت گرمی کے موسم میں ہوا۔ مدینہ سے چل کر شام کی سرحد تک تین سو میل جانا تھا۔ منافق مسلمانوں نے کہا کہ ایسی تیز گرمی ميں اتنا لمبا سفر نہ کرو۔یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ خدا کی پکار سننے کے بعد کسی خطرہ کی بنا پر نہ نکلنا اپنے آپ کو شدید تر خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے دھوپ سے بھاگ کر آگ کے شعلوں کی پناہ لی جائے۔ جو لوگ خدا کے مقابلہ میں اپنے کو اور اپنے مال کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں وہ جب اپنی خوبصورت تدبیروں سے اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ مسلمان بھی بنے رہیں اور اسی کے ساتھ ان کی زندگی اور ان کے مال کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے کو عقل مند سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کو بے وقوف کہتے ہیں جنھوں نے خدا کی رضا کی خاطر اپنے كو ہلکان کررکھا ہو۔ مگر یہ سراسر نادانی ہے۔ یہ ایسا ہنسنا ہے جس کا انجام رونے پر ختم ہونے والا ہے۔ کیوں کہ موت کے بعد آنے والی دنیا میں اس قسم کی ’’ہوشیاری‘‘ سب سے بڑی نادانی ہوگی۔ اس وقت آدمی افسوس کرے گا کہ وہ جنت کا طلب گار تھا مگر اس نے اپنے اثاثہ کی وہی چیز اس کے لیے نہ دی جو دراصل جنت کی واحد قیمت تھی۔ اس قسم کے منافق ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی تحفظاتی پالیسی کی وجہ سے اپنے گرد مال وجاہ کے اسباب جمع کرلیتے ہیں اس بنا پر عام مسلمان ان سے مرعوب ہوجاتے ہیں ۔ ان کی شان دار زندگیاں اور ان کے خوب صورت باتیں لوگوں کی نظر میں ان کوعظیم بنادیتی ہیں ۔ یہ کسی اسلامی معاشرہ کے ليے ایک سخت امتحان ہوتا ہے۔ کیوں کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرہ میں ایسے لوگوں کو نظر انداز کیا جانا چاہیے، نہ یہ کہ ان کو عزت کا مقام دیا جانے لگے۔ جن لوگوں کے بارے میں پوری طرح معلوم ہوجائے کہ وہ بظاہر مسلمان بنے ہوئے ہیں مگر حقیقۃً وہ اپنے مفادات اور اپنی دنیوی مصلحتوں کے وفادار ہیں ان کو حقیقی اسلامی معاشرہ کبھی عزت کے مقام پر بٹھانے کے ليے راضی نہیں ہوسکتا۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہے کہ وہ اسلامی تقریبات میں صرف پیچھے کی صفوں میں جگہ پائیں ۔ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی دخل نہ ہو۔ دینی مناصب کے ليے وہ نااہل قرار پائیں ۔ جس معاشرہ میں ایسے لوگوں کو عزت کا مقام ملاہوا ہو وہ کبھی خدا کا پسندیدہ معاشرہ نہیں ہوسکتا۔

وَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَأَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ

📘 منافق اپنے دنیا پرستانہ طریقوں کی وجہ سے اپنے آس پاس دنیا کا سازوسامان جمع کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ مددگاروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیزیں سطحی قسم کے لوگوں کے ليے مرعوب کن بن جاتی ہیں ۔ لیکن گہری نظر سے دیکھنے والوں کے ليے اس کی ظاہری چمک دمک قابل رشک نہیں بلکہ قابل عبرت ہے۔ کیوں کہ یہ چیزیں جن لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ ان کے ليے خدا کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ خدا کا محبوب بندہ وہ ہے جو کسی تحفظ اور کسی مصلحت کے بغیر خدا کی طرف بڑھے۔ مگر جو لوگ دنیا کی رونقوں میں گھرے ہوئے ہوں وہ ان سے اوپر نہیں اٹھ پاتے جب بھی وہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ان کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ کھو دیں گے۔ وہ اس قربانی کی ہمت نہیں کرپاتے، اس ليے وہ خدا کے وفادار بھی نہیں ہوتے۔ ان کی دنیوی ترقیاں ان کو اس بربادی کی قیمت پر ملتی ہیں کہ آخرت میں وہ بالکل محروم ہوکر حاضر ہوں ۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کا دین کہتا ہے کہ اپنی اَنا (ego)کو دفن کرکے خدا کو پکڑو تو وہ اپنی بڑھی ہوئی اَنا کو دفن نہیں کرپاتے۔ جب خدا کا دین ان سے شہرت اور مقبولیت سے خالی راستوں پر چلنے کے ليے کہتا ہے تو وہ اپنی شہرت ومقبولیت کو سنبھالنے کی فکر میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ جب خدا كے دين کی جدوجہد، زندگی اور مال کی قربانی مانگتی هے تو ان کو اپنی زندگی اور مال اتنے قیمتی نظر آتے ہیں کہ وہ اس کو غیر دنیوی مقصد کے ليے قربان نہ کرسکیں ۔ یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بے حسی کا شکار ہو کر اس تڑپ کو کھو دیتے ہیں جو آدمی کو خدا کی طرف کھینچے اور غیر خدا پر راضی نہ ہونے دے۔ اس کے برعکس، جو سچے اہلِ ایمان ہیں وہ سب سے بڑا مقام خدا کو ديے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس ليے دوسری ہر چیزانھیں خدا کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ وہ ہر قربانی دے کر خدا کی طرف بڑھنے کے ليے تیار رہتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدا کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں ۔ ان کے اور خدا کی ابدی جنت کے درمیان موت کے سوا کوئی چیز حائل نہیں ۔

وَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ أَنْ آمِنُوا بِاللَّهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَأْذَنَكَ أُولُو الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَكُنْ مَعَ الْقَاعِدِينَ

📘 منافق اپنے دنیا پرستانہ طریقوں کی وجہ سے اپنے آس پاس دنیا کا سازوسامان جمع کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ مددگاروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیزیں سطحی قسم کے لوگوں کے ليے مرعوب کن بن جاتی ہیں ۔ لیکن گہری نظر سے دیکھنے والوں کے ليے اس کی ظاہری چمک دمک قابل رشک نہیں بلکہ قابل عبرت ہے۔ کیوں کہ یہ چیزیں جن لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ ان کے ليے خدا کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ خدا کا محبوب بندہ وہ ہے جو کسی تحفظ اور کسی مصلحت کے بغیر خدا کی طرف بڑھے۔ مگر جو لوگ دنیا کی رونقوں میں گھرے ہوئے ہوں وہ ان سے اوپر نہیں اٹھ پاتے جب بھی وہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ان کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ کھو دیں گے۔ وہ اس قربانی کی ہمت نہیں کرپاتے، اس ليے وہ خدا کے وفادار بھی نہیں ہوتے۔ ان کی دنیوی ترقیاں ان کو اس بربادی کی قیمت پر ملتی ہیں کہ آخرت میں وہ بالکل محروم ہوکر حاضر ہوں ۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کا دین کہتا ہے کہ اپنی اَنا (ego)کو دفن کرکے خدا کو پکڑو تو وہ اپنی بڑھی ہوئی اَنا کو دفن نہیں کرپاتے۔ جب خدا کا دین ان سے شہرت اور مقبولیت سے خالی راستوں پر چلنے کے ليے کہتا ہے تو وہ اپنی شہرت ومقبولیت کو سنبھالنے کی فکر میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ جب خدا كے دين کی جدوجہد، زندگی اور مال کی قربانی مانگتی هے تو ان کو اپنی زندگی اور مال اتنے قیمتی نظر آتے ہیں کہ وہ اس کو غیر دنیوی مقصد کے ليے قربان نہ کرسکیں ۔ یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بے حسی کا شکار ہو کر اس تڑپ کو کھو دیتے ہیں جو آدمی کو خدا کی طرف کھینچے اور غیر خدا پر راضی نہ ہونے دے۔ اس کے برعکس، جو سچے اہلِ ایمان ہیں وہ سب سے بڑا مقام خدا کو ديے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس ليے دوسری ہر چیزانھیں خدا کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ وہ ہر قربانی دے کر خدا کی طرف بڑھنے کے ليے تیار رہتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدا کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں ۔ ان کے اور خدا کی ابدی جنت کے درمیان موت کے سوا کوئی چیز حائل نہیں ۔

رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ

📘 منافق اپنے دنیا پرستانہ طریقوں کی وجہ سے اپنے آس پاس دنیا کا سازوسامان جمع کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ مددگاروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیزیں سطحی قسم کے لوگوں کے ليے مرعوب کن بن جاتی ہیں ۔ لیکن گہری نظر سے دیکھنے والوں کے ليے اس کی ظاہری چمک دمک قابل رشک نہیں بلکہ قابل عبرت ہے۔ کیوں کہ یہ چیزیں جن لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ ان کے ليے خدا کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ خدا کا محبوب بندہ وہ ہے جو کسی تحفظ اور کسی مصلحت کے بغیر خدا کی طرف بڑھے۔ مگر جو لوگ دنیا کی رونقوں میں گھرے ہوئے ہوں وہ ان سے اوپر نہیں اٹھ پاتے جب بھی وہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ان کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ کھو دیں گے۔ وہ اس قربانی کی ہمت نہیں کرپاتے، اس ليے وہ خدا کے وفادار بھی نہیں ہوتے۔ ان کی دنیوی ترقیاں ان کو اس بربادی کی قیمت پر ملتی ہیں کہ آخرت میں وہ بالکل محروم ہوکر حاضر ہوں ۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کا دین کہتا ہے کہ اپنی اَنا (ego)کو دفن کرکے خدا کو پکڑو تو وہ اپنی بڑھی ہوئی اَنا کو دفن نہیں کرپاتے۔ جب خدا کا دین ان سے شہرت اور مقبولیت سے خالی راستوں پر چلنے کے ليے کہتا ہے تو وہ اپنی شہرت ومقبولیت کو سنبھالنے کی فکر میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ جب خدا كے دين کی جدوجہد، زندگی اور مال کی قربانی مانگتی هے تو ان کو اپنی زندگی اور مال اتنے قیمتی نظر آتے ہیں کہ وہ اس کو غیر دنیوی مقصد کے ليے قربان نہ کرسکیں ۔ یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بے حسی کا شکار ہو کر اس تڑپ کو کھو دیتے ہیں جو آدمی کو خدا کی طرف کھینچے اور غیر خدا پر راضی نہ ہونے دے۔ اس کے برعکس، جو سچے اہلِ ایمان ہیں وہ سب سے بڑا مقام خدا کو ديے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس ليے دوسری ہر چیزانھیں خدا کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ وہ ہر قربانی دے کر خدا کی طرف بڑھنے کے ليے تیار رہتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدا کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں ۔ ان کے اور خدا کی ابدی جنت کے درمیان موت کے سوا کوئی چیز حائل نہیں ۔

لَٰكِنِ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ وَأُولَٰئِكَ لَهُمُ الْخَيْرَاتُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

📘 منافق اپنے دنیا پرستانہ طریقوں کی وجہ سے اپنے آس پاس دنیا کا سازوسامان جمع کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ مددگاروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیزیں سطحی قسم کے لوگوں کے ليے مرعوب کن بن جاتی ہیں ۔ لیکن گہری نظر سے دیکھنے والوں کے ليے اس کی ظاہری چمک دمک قابل رشک نہیں بلکہ قابل عبرت ہے۔ کیوں کہ یہ چیزیں جن لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ ان کے ليے خدا کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ خدا کا محبوب بندہ وہ ہے جو کسی تحفظ اور کسی مصلحت کے بغیر خدا کی طرف بڑھے۔ مگر جو لوگ دنیا کی رونقوں میں گھرے ہوئے ہوں وہ ان سے اوپر نہیں اٹھ پاتے جب بھی وہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ان کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ کھو دیں گے۔ وہ اس قربانی کی ہمت نہیں کرپاتے، اس ليے وہ خدا کے وفادار بھی نہیں ہوتے۔ ان کی دنیوی ترقیاں ان کو اس بربادی کی قیمت پر ملتی ہیں کہ آخرت میں وہ بالکل محروم ہوکر حاضر ہوں ۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کا دین کہتا ہے کہ اپنی اَنا (ego)کو دفن کرکے خدا کو پکڑو تو وہ اپنی بڑھی ہوئی اَنا کو دفن نہیں کرپاتے۔ جب خدا کا دین ان سے شہرت اور مقبولیت سے خالی راستوں پر چلنے کے ليے کہتا ہے تو وہ اپنی شہرت ومقبولیت کو سنبھالنے کی فکر میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ جب خدا كے دين کی جدوجہد، زندگی اور مال کی قربانی مانگتی هے تو ان کو اپنی زندگی اور مال اتنے قیمتی نظر آتے ہیں کہ وہ اس کو غیر دنیوی مقصد کے ليے قربان نہ کرسکیں ۔ یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بے حسی کا شکار ہو کر اس تڑپ کو کھو دیتے ہیں جو آدمی کو خدا کی طرف کھینچے اور غیر خدا پر راضی نہ ہونے دے۔ اس کے برعکس، جو سچے اہلِ ایمان ہیں وہ سب سے بڑا مقام خدا کو ديے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس ليے دوسری ہر چیزانھیں خدا کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ وہ ہر قربانی دے کر خدا کی طرف بڑھنے کے ليے تیار رہتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدا کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں ۔ ان کے اور خدا کی ابدی جنت کے درمیان موت کے سوا کوئی چیز حائل نہیں ۔

أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

📘 منافق اپنے دنیا پرستانہ طریقوں کی وجہ سے اپنے آس پاس دنیا کا سازوسامان جمع کرلیتا ہے۔ اس کے ساتھ مددگاروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے۔ یہ چیزیں سطحی قسم کے لوگوں کے ليے مرعوب کن بن جاتی ہیں ۔ لیکن گہری نظر سے دیکھنے والوں کے ليے اس کی ظاہری چمک دمک قابل رشک نہیں بلکہ قابل عبرت ہے۔ کیوں کہ یہ چیزیں جن لوگوں کے پاس جمع ہوں وہ ان کے ليے خدا کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ خدا کا محبوب بندہ وہ ہے جو کسی تحفظ اور کسی مصلحت کے بغیر خدا کی طرف بڑھے۔ مگر جو لوگ دنیا کی رونقوں میں گھرے ہوئے ہوں وہ ان سے اوپر نہیں اٹھ پاتے جب بھی وہ خدا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں ان کو ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ کھو دیں گے۔ وہ اس قربانی کی ہمت نہیں کرپاتے، اس ليے وہ خدا کے وفادار بھی نہیں ہوتے۔ ان کی دنیوی ترقیاں ان کو اس بربادی کی قیمت پر ملتی ہیں کہ آخرت میں وہ بالکل محروم ہوکر حاضر ہوں ۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کا دین کہتا ہے کہ اپنی اَنا (ego)کو دفن کرکے خدا کو پکڑو تو وہ اپنی بڑھی ہوئی اَنا کو دفن نہیں کرپاتے۔ جب خدا کا دین ان سے شہرت اور مقبولیت سے خالی راستوں پر چلنے کے ليے کہتا ہے تو وہ اپنی شہرت ومقبولیت کو سنبھالنے کی فکر میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ جب خدا كے دين کی جدوجہد، زندگی اور مال کی قربانی مانگتی هے تو ان کو اپنی زندگی اور مال اتنے قیمتی نظر آتے ہیں کہ وہ اس کو غیر دنیوی مقصد کے ليے قربان نہ کرسکیں ۔ یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ان کے دل کی حساسیت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ بے حسی کا شکار ہو کر اس تڑپ کو کھو دیتے ہیں جو آدمی کو خدا کی طرف کھینچے اور غیر خدا پر راضی نہ ہونے دے۔ اس کے برعکس، جو سچے اہلِ ایمان ہیں وہ سب سے بڑا مقام خدا کو ديے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس ليے دوسری ہر چیزانھیں خدا کے مقابلے میں ہیچ نظر آتی ہے۔ وہ ہر قربانی دے کر خدا کی طرف بڑھنے کے ليے تیار رہتے ہیں ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدا کی رحمتیں اور نعمتیں ہیں ۔ ان کے اور خدا کی ابدی جنت کے درمیان موت کے سوا کوئی چیز حائل نہیں ۔

اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ

📘 مسلمانوں کو جب زور حاصل ہوگیا تو قریش نے ان سے معاہدے کرليے۔ تاہم وہ ان معاہدوں سے خوش نہ تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنے ’’دشمن‘‘ سے یہ معاہدہ انھوں نے اپنی بربادی کی قیمت پر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر وقت اس انتظار میں رہتے تھے کہ جہاں موقع ملے معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں یا کم ازکم انھیں بدنام کریں ۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق کی طرف سے اس قسم کی خیانت کا مظاہرہ ہو تو دوسرے فریق کے ليے کسی معاہدہ کی پابندی ضروری نہیں رہتی۔ یہ قریش کا حال تھا ،جن کو مسلمانوں کے عروج میں اپنی قیادت چھنتی ہوئی نظرآتی تھی۔ تاہم کچھ دوسرے عرب قبائل (بنو کنانہ، بنو خزاعہ، بنو ضمرہ) جو اس قسم کی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا نہ تھے، انھوں نے مسلمانوں سے معاہدے كيے اور اپنے معاہدے پر قائم رہے۔ جب چار ماہ کی مہلت کا اعلان کیاگیا تو ان کے معاہدہ کی میعاد پوری ہونے میں تقریباً نومہینے باقی تھے۔ حکم ہوا کہ ان سے معاہدہ کو آخر وقت تک باقی رکھو، کیوں کہ تقویٰ کا تقاضا یہی ہے۔ مگر اس مدت کے ختم ہونے کے بعد پھر کسی سے اس قسم کا معاہدہ نہیں کیا گیا اور تمام مشرکین کے سامنے صرف دو صورتیں باقی رکھی گئیں یا اسلام لائیں یا جنگ کے ليے تیار ہوجائیں ۔ معاشرتی زندگی کی بنیاد ہمیشہ دو چیزوں پر ہوتی ہے— رشتہ داری یا قول وقرار۔ جن سے رحمی رشتے ہیں ان کے حقوق کا لحاظ آدمی رحمی رشتوں کی بنیاد پر کرتاہے۔ اور جن سے قول وقرار ہوچکا ہے ان سے قول وقرار کی بنا پر۔ مگر جب آدمی کے اوپر دنیا کے مفاد اور اس کی مصلحت کا غلبہ ہوتا ہے تو وہ دونوں باتوں کو بھول جاتاہے۔ وہ اپنے حقیر فائدہ کی خاطر رحمی حقوق کو بھی بھول جاتا ہے اور قول وقرار کو بھی۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں ۔ وہ خدا کی نظر میں مجرم ہیں ۔ دنیا میں اگر وہ چھوٹ گئے تو آخرت میں وہ خدا کی پکڑ سے بچ نہ سکیں گے۔ إلاّ یہ کہ وہ توبہ کریں اور سرکشی سے باز آئیں ۔ کوئی شخص ماضی میں خواہ کتنا ہی برارہا ہو مگر جب وہ اصلاح قبول کرلے تو وہ اسلامی برادری کا ایک معزز رکن بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں اور دوسرے مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔

وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ لِيُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِينَ كَذَبُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ سَيُصِيبُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

📘 دعوتِ دین کی جدوجہد جب لوگوں سے ان کی زندگی اور ان کے مال کا تقاضا کررہی ہو اس وقت صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود عذر کرکے بیٹھ رہنا بدترین جرم ہے۔ یہ دینی پکار کے معاملہ میں بے حسی کا ثبوت ہے۔ ایک مسلمان کے ليے اس قسم کا رویہ خدا اور رسول سے غداری کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمتوں میں کوئی حصہ پانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا اس کو جب انھوں نے خدا کے ليے پیش نہیں کیا تو خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ کس ليے انھیں دے دے گا۔ قیمت ادا كيے بغیر کوئی چیز کسی کو نہیں مل سکتی۔ تاہم معذورین کے ليے خدا کے یہاں معافی ہے۔ جو شخص بیمار ہو، جس کے پاس خرچ کرنے کے ليے کچھ نہ ہو، جو اسباب سفر نہ رکھتاہو، ایسے لوگوں سے خدا در گزر فرمائے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود سب کچھ ان كے خانہ ميں لکھ دیا جائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: مدینہ کچھ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم کوئی راستہ نہیں چلے اور تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ برابر تمھارے ساتھ رہے (إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ )صحیح البخاری، حدیث نمبر 4423۔ یہ خوش قسمت لوگ کون ہیں جو نہ کرنے کے باوجود کرنے کا انعام پاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معذور ہونے کے ساتھ تین باتوں کا ثبوت دیں — نصح، یعنی عملی شرکت نہ کرتے ہوئے بھی قلبی شرکت۔ احسان، یعنی عدم شرکت کے باوجود کم از کم زبان سے ان کے بس میں جو کچھ ہے اس کو پوری طرح کرتے رہنا۔ حزن، یعنی اپنی کوتاہی پر اتنا شدید رنج جو آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑے۔ کوئی آدمی جب اپنی عملی زندگی میں ایک چیز کو غیر اہم درجہ میں رکھے اور بار بار ایسا کرتا رہے تو اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اہمیت کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس چیز کے تقاضے اس کے سامنے آتے هيں مگر دل کے اندر اس کے بارے میں تڑپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کی طرف بڑھ نہیں پاتا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو بے حسی کہاجاتا ہے اور اسی کو قرآن میں دلوں پر مہر کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔

لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَىٰ وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 دعوتِ دین کی جدوجہد جب لوگوں سے ان کی زندگی اور ان کے مال کا تقاضا کررہی ہو اس وقت صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود عذر کرکے بیٹھ رہنا بدترین جرم ہے۔ یہ دینی پکار کے معاملہ میں بے حسی کا ثبوت ہے۔ ایک مسلمان کے ليے اس قسم کا رویہ خدا اور رسول سے غداری کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمتوں میں کوئی حصہ پانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا اس کو جب انھوں نے خدا کے ليے پیش نہیں کیا تو خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ کس ليے انھیں دے دے گا۔ قیمت ادا كيے بغیر کوئی چیز کسی کو نہیں مل سکتی۔ تاہم معذورین کے ليے خدا کے یہاں معافی ہے۔ جو شخص بیمار ہو، جس کے پاس خرچ کرنے کے ليے کچھ نہ ہو، جو اسباب سفر نہ رکھتاہو، ایسے لوگوں سے خدا در گزر فرمائے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود سب کچھ ان كے خانہ ميں لکھ دیا جائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: مدینہ کچھ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم کوئی راستہ نہیں چلے اور تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ برابر تمھارے ساتھ رہے (إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ )صحیح البخاری، حدیث نمبر 4423۔ یہ خوش قسمت لوگ کون ہیں جو نہ کرنے کے باوجود کرنے کا انعام پاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معذور ہونے کے ساتھ تین باتوں کا ثبوت دیں — نصح، یعنی عملی شرکت نہ کرتے ہوئے بھی قلبی شرکت۔ احسان، یعنی عدم شرکت کے باوجود کم از کم زبان سے ان کے بس میں جو کچھ ہے اس کو پوری طرح کرتے رہنا۔ حزن، یعنی اپنی کوتاہی پر اتنا شدید رنج جو آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑے۔ کوئی آدمی جب اپنی عملی زندگی میں ایک چیز کو غیر اہم درجہ میں رکھے اور بار بار ایسا کرتا رہے تو اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اہمیت کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس چیز کے تقاضے اس کے سامنے آتے هيں مگر دل کے اندر اس کے بارے میں تڑپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کی طرف بڑھ نہیں پاتا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو بے حسی کہاجاتا ہے اور اسی کو قرآن میں دلوں پر مہر کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔

وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ

📘 دعوتِ دین کی جدوجہد جب لوگوں سے ان کی زندگی اور ان کے مال کا تقاضا کررہی ہو اس وقت صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود عذر کرکے بیٹھ رہنا بدترین جرم ہے۔ یہ دینی پکار کے معاملہ میں بے حسی کا ثبوت ہے۔ ایک مسلمان کے ليے اس قسم کا رویہ خدا اور رسول سے غداری کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمتوں میں کوئی حصہ پانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا اس کو جب انھوں نے خدا کے ليے پیش نہیں کیا تو خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ کس ليے انھیں دے دے گا۔ قیمت ادا كيے بغیر کوئی چیز کسی کو نہیں مل سکتی۔ تاہم معذورین کے ليے خدا کے یہاں معافی ہے۔ جو شخص بیمار ہو، جس کے پاس خرچ کرنے کے ليے کچھ نہ ہو، جو اسباب سفر نہ رکھتاہو، ایسے لوگوں سے خدا در گزر فرمائے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود سب کچھ ان كے خانہ ميں لکھ دیا جائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: مدینہ کچھ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم کوئی راستہ نہیں چلے اور تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ برابر تمھارے ساتھ رہے (إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ )صحیح البخاری، حدیث نمبر 4423۔ یہ خوش قسمت لوگ کون ہیں جو نہ کرنے کے باوجود کرنے کا انعام پاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معذور ہونے کے ساتھ تین باتوں کا ثبوت دیں — نصح، یعنی عملی شرکت نہ کرتے ہوئے بھی قلبی شرکت۔ احسان، یعنی عدم شرکت کے باوجود کم از کم زبان سے ان کے بس میں جو کچھ ہے اس کو پوری طرح کرتے رہنا۔ حزن، یعنی اپنی کوتاہی پر اتنا شدید رنج جو آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑے۔ کوئی آدمی جب اپنی عملی زندگی میں ایک چیز کو غیر اہم درجہ میں رکھے اور بار بار ایسا کرتا رہے تو اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اہمیت کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس چیز کے تقاضے اس کے سامنے آتے هيں مگر دل کے اندر اس کے بارے میں تڑپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کی طرف بڑھ نہیں پاتا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو بے حسی کہاجاتا ہے اور اسی کو قرآن میں دلوں پر مہر کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔

۞ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ۚ رَضُوا بِأَنْ يَكُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

📘 دعوتِ دین کی جدوجہد جب لوگوں سے ان کی زندگی اور ان کے مال کا تقاضا کررہی ہو اس وقت صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود عذر کرکے بیٹھ رہنا بدترین جرم ہے۔ یہ دینی پکار کے معاملہ میں بے حسی کا ثبوت ہے۔ ایک مسلمان کے ليے اس قسم کا رویہ خدا اور رسول سے غداری کرنے کے ہم معنی ہے۔ ایسے لوگ خدا کی رحمتوں میں کوئی حصہ پانے کے حقدار نہیں ہیں ۔ ان کے پاس جو کچھ تھا اس کو جب انھوں نے خدا کے ليے پیش نہیں کیا تو خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ کس ليے انھیں دے دے گا۔ قیمت ادا كيے بغیر کوئی چیز کسی کو نہیں مل سکتی۔ تاہم معذورین کے ليے خدا کے یہاں معافی ہے۔ جو شخص بیمار ہو، جس کے پاس خرچ کرنے کے ليے کچھ نہ ہو، جو اسباب سفر نہ رکھتاہو، ایسے لوگوں سے خدا در گزر فرمائے گا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ نہ کرنے کے باوجود سب کچھ ان كے خانہ ميں لکھ دیا جائے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپس ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: مدینہ کچھ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم کوئی راستہ نہیں چلے اور تم نے کوئی وادی طے نہیں کی مگر وہ برابر تمھارے ساتھ رہے (إِنَّ بِالْمَدِينَةِ أَقْوَامًا، مَا سِرْتُمْ مَسِيرًا، وَلاَ قَطَعْتُمْ وَادِيًا إِلَّا كَانُوا مَعَكُمْ )صحیح البخاری، حدیث نمبر 4423۔ یہ خوش قسمت لوگ کون ہیں جو نہ کرنے کے باوجود کرنے کا انعام پاتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معذور ہونے کے ساتھ تین باتوں کا ثبوت دیں — نصح، یعنی عملی شرکت نہ کرتے ہوئے بھی قلبی شرکت۔ احسان، یعنی عدم شرکت کے باوجود کم از کم زبان سے ان کے بس میں جو کچھ ہے اس کو پوری طرح کرتے رہنا۔ حزن، یعنی اپنی کوتاہی پر اتنا شدید رنج جو آنسوؤں کی صورت میں بہہ پڑے۔ کوئی آدمی جب اپنی عملی زندگی میں ایک چیز کو غیر اہم درجہ میں رکھے اور بار بار ایسا کرتا رہے تو اس کے بعد ایسا ہوتا ہے کہ اس چیز کی اہمیت کا احساس اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اس چیز کے تقاضے اس کے سامنے آتے هيں مگر دل کے اندر اس کے بارے میں تڑپ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس کی طرف بڑھ نہیں پاتا۔ یہ وہی چیز ہے جس کو بے حسی کہاجاتا ہے اور اسی کو قرآن میں دلوں پر مہر کرنے سے تعبیر کیاگیا ہے۔

يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ ۚ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ ۚ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ ثُمَّ تُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

📘 ’’تمھارے حالات ہم کو اللہ نے بتا ديے ہیں ‘‘ کا فقرہ ظاہر کرہا ہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر ہے ان سے مراد زمانہ نزول قرآن کے منافقین ہیں ۔ کیوں کہ براہِ راست وحی خداوندی کے ذریعہ آگاہ ہونے کا معاملہ صرف زمانۂ رسالت میں ہوا یا ہو سکتا تھا۔ بعد کے زمانہ میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ کل بیاسی ( 82 )افراد تھے جن کے نفاق کے بارے میں اللہ نے بذریعہ وحی مطلع فرمایا تھا (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 125 )۔ تاہم اس علم کے باوجود صحابہ کرام کو ان کے ساتھ جس سلوک کی اجازت دی گئی، وہ تغافل اور اعراض تھا، نہ کہ ان کو ہلاک کرنا۔ ان کو سزا یا عذاب دینے کا معاملہ پھر بھی خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ مدینہ کے منافقین کے ساتھ اگرچہ اتنی سختی کی گئی کہ انھوں عذرات پیش كيے تو ان کے عذرات قبول نہیں كيے گئے۔ حتی کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے منافقانہ روش اختیار کرنے کے بعد زکوٰۃ پیش کی تو ان کی زکوٰۃ لینے سے انکار کردیاگیا۔ تاہم ان میں سے کسی کو بھی آپ نے قتل نہیں کرایا۔ عبد اللہ بن ابی کے لڑکے عبد اللہ نے اپنے باپ کی منافقانہ حرکت پر سخت کارروائی کرنی چاہی تو آپ نے روک دیا اور فرمایا: انھیں چھوڑ دو، بخدا جب تک وہ ہمارے درمیان ہیں ہم ان کے ساتھ اچھا ہی سلوک کریں گے (دعہ فلعمری لنحسنن صحبتہ ما دام بین اظہرنا) الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 50۔ بعد کے زمانہ کے منافقین کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔ تاہم دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ دور اول کے منافقین سے ان کی حالتِ قلبی کی بنیاد پر معاملہ کیا گیا، مگر بعد کے منافقین سے ان کی حالت ظاہری کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔ان سے اعراض وتغافل کا سلوک صرف اس وقت جائز ہوگا جب کہ ان کے عمل سے ان کی منافقت کا خارجی ثبوت مل رہا ہو۔ ان کی نیت یا ان کی قلبی حالت کی بناپر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بعد کے لوگ عذر پیش کریں تو ان کا عذر بھی قبول کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ان کے صدقات وغیرہ بھی۔ ان کے انجام کو اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ظاہری قانون کے مطابق کسی کے ساتھ کیا جانا چاہيے۔ جنت کسی کو ذاتی عمل کی بنیاد پر ملتی ہے، نہ کہ مسلمانوں کی جماعت یا گروہ میں شامل ہونے کی بنیاد پر۔ منافقین سب کے سب مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے وہ ان کے ساتھ نماز روزہ کرتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے جہنمی ہونے کا اعلان کیاگیا۔

سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ ۖ إِنَّهُمْ رِجْسٌ ۖ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ

📘 ’’تمھارے حالات ہم کو اللہ نے بتا ديے ہیں ‘‘ کا فقرہ ظاہر کرہا ہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر ہے ان سے مراد زمانہ نزول قرآن کے منافقین ہیں ۔ کیوں کہ براہِ راست وحی خداوندی کے ذریعہ آگاہ ہونے کا معاملہ صرف زمانۂ رسالت میں ہوا یا ہو سکتا تھا۔ بعد کے زمانہ میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ کل بیاسی ( 82 )افراد تھے جن کے نفاق کے بارے میں اللہ نے بذریعہ وحی مطلع فرمایا تھا (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 125 )۔ تاہم اس علم کے باوجود صحابہ کرام کو ان کے ساتھ جس سلوک کی اجازت دی گئی، وہ تغافل اور اعراض تھا، نہ کہ ان کو ہلاک کرنا۔ ان کو سزا یا عذاب دینے کا معاملہ پھر بھی خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ مدینہ کے منافقین کے ساتھ اگرچہ اتنی سختی کی گئی کہ انھوں عذرات پیش كيے تو ان کے عذرات قبول نہیں كيے گئے۔ حتی کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے منافقانہ روش اختیار کرنے کے بعد زکوٰۃ پیش کی تو ان کی زکوٰۃ لینے سے انکار کردیاگیا۔ تاہم ان میں سے کسی کو بھی آپ نے قتل نہیں کرایا۔ عبد اللہ بن ابی کے لڑکے عبد اللہ نے اپنے باپ کی منافقانہ حرکت پر سخت کارروائی کرنی چاہی تو آپ نے روک دیا اور فرمایا: انھیں چھوڑ دو، بخدا جب تک وہ ہمارے درمیان ہیں ہم ان کے ساتھ اچھا ہی سلوک کریں گے (دعہ فلعمری لنحسنن صحبتہ ما دام بین اظہرنا) الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 50۔ بعد کے زمانہ کے منافقین کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔ تاہم دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ دور اول کے منافقین سے ان کی حالتِ قلبی کی بنیاد پر معاملہ کیا گیا، مگر بعد کے منافقین سے ان کی حالت ظاہری کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔ان سے اعراض وتغافل کا سلوک صرف اس وقت جائز ہوگا جب کہ ان کے عمل سے ان کی منافقت کا خارجی ثبوت مل رہا ہو۔ ان کی نیت یا ان کی قلبی حالت کی بناپر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بعد کے لوگ عذر پیش کریں تو ان کا عذر بھی قبول کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ان کے صدقات وغیرہ بھی۔ ان کے انجام کو اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ظاہری قانون کے مطابق کسی کے ساتھ کیا جانا چاہيے۔ جنت کسی کو ذاتی عمل کی بنیاد پر ملتی ہے، نہ کہ مسلمانوں کی جماعت یا گروہ میں شامل ہونے کی بنیاد پر۔ منافقین سب کے سب مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے وہ ان کے ساتھ نماز روزہ کرتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے جہنمی ہونے کا اعلان کیاگیا۔

يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ ۖ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَرْضَىٰ عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ

📘 ’’تمھارے حالات ہم کو اللہ نے بتا ديے ہیں ‘‘ کا فقرہ ظاہر کرہا ہے کہ یہاں جن منافقین کا ذکر ہے ان سے مراد زمانہ نزول قرآن کے منافقین ہیں ۔ کیوں کہ براہِ راست وحی خداوندی کے ذریعہ آگاہ ہونے کا معاملہ صرف زمانۂ رسالت میں ہوا یا ہو سکتا تھا۔ بعد کے زمانہ میں ایسا ہونا ممکن نہیں ۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق یہ کل بیاسی ( 82 )افراد تھے جن کے نفاق کے بارے میں اللہ نے بذریعہ وحی مطلع فرمایا تھا (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 125 )۔ تاہم اس علم کے باوجود صحابہ کرام کو ان کے ساتھ جس سلوک کی اجازت دی گئی، وہ تغافل اور اعراض تھا، نہ کہ ان کو ہلاک کرنا۔ ان کو سزا یا عذاب دینے کا معاملہ پھر بھی خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا۔ مدینہ کے منافقین کے ساتھ اگرچہ اتنی سختی کی گئی کہ انھوں عذرات پیش كيے تو ان کے عذرات قبول نہیں كيے گئے۔ حتی کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری نے منافقانہ روش اختیار کرنے کے بعد زکوٰۃ پیش کی تو ان کی زکوٰۃ لینے سے انکار کردیاگیا۔ تاہم ان میں سے کسی کو بھی آپ نے قتل نہیں کرایا۔ عبد اللہ بن ابی کے لڑکے عبد اللہ نے اپنے باپ کی منافقانہ حرکت پر سخت کارروائی کرنی چاہی تو آپ نے روک دیا اور فرمایا: انھیں چھوڑ دو، بخدا جب تک وہ ہمارے درمیان ہیں ہم ان کے ساتھ اچھا ہی سلوک کریں گے (دعہ فلعمری لنحسنن صحبتہ ما دام بین اظہرنا) الطبقات الکبریٰ لابن سعد، جلد2، صفحہ 50۔ بعد کے زمانہ کے منافقین کے بارے میں بھی یہی حکم ہے۔ تاہم دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ دور اول کے منافقین سے ان کی حالتِ قلبی کی بنیاد پر معاملہ کیا گیا، مگر بعد کے منافقین سے ان کی حالت ظاہری کی بنیاد پر معاملہ کیا جائے گا۔ان سے اعراض وتغافل کا سلوک صرف اس وقت جائز ہوگا جب کہ ان کے عمل سے ان کی منافقت کا خارجی ثبوت مل رہا ہو۔ ان کی نیت یا ان کی قلبی حالت کی بناپر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ بعد کے لوگ عذر پیش کریں تو ان کا عذر بھی قبول کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ان کے صدقات وغیرہ بھی۔ ان کے انجام کو اللہ کے حوالے کرتے ہوئے ان کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو ظاہری قانون کے مطابق کسی کے ساتھ کیا جانا چاہيے۔ جنت کسی کو ذاتی عمل کی بنیاد پر ملتی ہے، نہ کہ مسلمانوں کی جماعت یا گروہ میں شامل ہونے کی بنیاد پر۔ منافقین سب کے سب مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے وہ ان کے ساتھ نماز روزہ کرتے تھے مگر اس کے باوجود ان کے جہنمی ہونے کا اعلان کیاگیا۔

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

📘 حدیث میں آیا ہے کہ جس نے دیہات میں سکونت اختیار کی وہ سخت مزاج ہوجائے گا (مَنْ سَكَنَ البَادِيَةَ جَفَا) سنن الترمذی، حدیث نمبر 2256۔ شہر کے اندر علمی ماحول ہوتا ہے، تعلیمی ادارے قائم ہوتے ہیں ۔ وہاں علم وفن کا چرچا رہتا ہے۔ جب کہ دیہات میں لوگوں کو اس کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اسی کے ساتھ دیہات کے لوگوں کے رہن سہن کے طریقے اور ان کے معاشی ذرائع بھی نسبتاً معمولی ہوتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیہات کے لوگوں کے اندر زیادہ گہرا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی طبیعت میں سختی اور ان کے سوچنے کے انداز میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ ان کے ليے مشکل ہوتا ہے کہ وہ دین کی نزاکتوں کو سمجھیں اور ان کو اپنے اندر اتاریں ۔ اللہ ہر بات کو جانتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔ وہ دیہات کے لوگوں ، بالفاظ دیگر عوام، کی اس کمزوری سے باخبر ہے اور اپنی حکمت ورحمت کی بنا پر انھیں اس کی پوری رعایت دیتاہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے خدا کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ گہری معرفت اور اعلیٰ دین داری کا ثبوت دیں ۔ وہ اگر نیک نیت ہوں تو خدا ان سے سادہ دین داری پر راضی ہوجائے گا۔ عوام کی دین داری یہ ہے کہ وہ سچے دل سے خدا کا اقرار کریں ۔ اپنے اندر اس احساس کو تازہ رکھیں کہ آخرت کا ایک دن آنے والا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیں اور یہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انھیں خدا کی قربت اور برکت حاصل ہوگی۔ وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے پیغمبر کو خوش کرکے اس کی دعائیں لینے کے طالب ہوں ۔ یہ دین داری کی عوامی سطح ہے، اور اگر آدمی کی نیت میں بگاڑ نہ ہو تو اس کا خدا اس سے اسی سادہ دین داری کو قبول کرلے گا۔ لیکن اگر عوام ایسا کریں کہ وہ خدااور اس کے احکام سے بالکل غافل ہوجائیں ، ان کو دین سے اتنی بے تعلقی ہو کہ دین کی راہ میں کچھ خرچ کرنا ان کو جرمانہ معلوم ہونے لگے، اسلام کی ترقی سے انھیں وحشت ہوتی ہو تو بلاشبہ وہ ناقابل معافی ہیں ۔ عوام کی کم فہمی کی بنا پر ان کو یہ رعایت تو ضرور دی جاسکتی ہے کہ ان سے گہری دین داری کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ لیکن ان کی کم فہمی اگر سرکشی اور اسلام کے ساتھ بے وفائی کی صورت اختیار کرلے تو وہ کسی حال میں بخشے نہیں جاسکتے۔

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ ۚ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

📘 حدیث میں آیا ہے کہ جس نے دیہات میں سکونت اختیار کی وہ سخت مزاج ہوجائے گا (مَنْ سَكَنَ البَادِيَةَ جَفَا) سنن الترمذی، حدیث نمبر 2256۔ شہر کے اندر علمی ماحول ہوتا ہے، تعلیمی ادارے قائم ہوتے ہیں ۔ وہاں علم وفن کا چرچا رہتا ہے۔ جب کہ دیہات میں لوگوں کو اس کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اسی کے ساتھ دیہات کے لوگوں کے رہن سہن کے طریقے اور ان کے معاشی ذرائع بھی نسبتاً معمولی ہوتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیہات کے لوگوں کے اندر زیادہ گہرا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی طبیعت میں سختی اور ان کے سوچنے کے انداز میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ ان کے ليے مشکل ہوتا ہے کہ وہ دین کی نزاکتوں کو سمجھیں اور ان کو اپنے اندر اتاریں ۔ اللہ ہر بات کو جانتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔ وہ دیہات کے لوگوں ، بالفاظ دیگر عوام، کی اس کمزوری سے باخبر ہے اور اپنی حکمت ورحمت کی بنا پر انھیں اس کی پوری رعایت دیتاہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے خدا کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ گہری معرفت اور اعلیٰ دین داری کا ثبوت دیں ۔ وہ اگر نیک نیت ہوں تو خدا ان سے سادہ دین داری پر راضی ہوجائے گا۔ عوام کی دین داری یہ ہے کہ وہ سچے دل سے خدا کا اقرار کریں ۔ اپنے اندر اس احساس کو تازہ رکھیں کہ آخرت کا ایک دن آنے والا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیں اور یہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انھیں خدا کی قربت اور برکت حاصل ہوگی۔ وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے پیغمبر کو خوش کرکے اس کی دعائیں لینے کے طالب ہوں ۔ یہ دین داری کی عوامی سطح ہے، اور اگر آدمی کی نیت میں بگاڑ نہ ہو تو اس کا خدا اس سے اسی سادہ دین داری کو قبول کرلے گا۔ لیکن اگر عوام ایسا کریں کہ وہ خدااور اس کے احکام سے بالکل غافل ہوجائیں ، ان کو دین سے اتنی بے تعلقی ہو کہ دین کی راہ میں کچھ خرچ کرنا ان کو جرمانہ معلوم ہونے لگے، اسلام کی ترقی سے انھیں وحشت ہوتی ہو تو بلاشبہ وہ ناقابل معافی ہیں ۔ عوام کی کم فہمی کی بنا پر ان کو یہ رعایت تو ضرور دی جاسکتی ہے کہ ان سے گہری دین داری کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ لیکن ان کی کم فہمی اگر سرکشی اور اسلام کے ساتھ بے وفائی کی صورت اختیار کرلے تو وہ کسی حال میں بخشے نہیں جاسکتے۔

وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ ۚ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ ۚ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

📘 حدیث میں آیا ہے کہ جس نے دیہات میں سکونت اختیار کی وہ سخت مزاج ہوجائے گا (مَنْ سَكَنَ البَادِيَةَ جَفَا) سنن الترمذی، حدیث نمبر 2256۔ شہر کے اندر علمی ماحول ہوتا ہے، تعلیمی ادارے قائم ہوتے ہیں ۔ وہاں علم وفن کا چرچا رہتا ہے۔ جب کہ دیہات میں لوگوں کو اس کے مواقع حاصل نہیں ہوتے۔ اسی کے ساتھ دیہات کے لوگوں کے رہن سہن کے طریقے اور ان کے معاشی ذرائع بھی نسبتاً معمولی ہوتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دیہات کے لوگوں کے اندر زیادہ گہرا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ ان کی طبیعت میں سختی اور ان کے سوچنے کے انداز میں سطحیت پائی جاتی ہے۔ ان کے ليے مشکل ہوتا ہے کہ وہ دین کی نزاکتوں کو سمجھیں اور ان کو اپنے اندر اتاریں ۔ اللہ ہر بات کو جانتا ہے اور اسی کے ساتھ وہ حکیم اور رحیم بھی ہے۔ وہ دیہات کے لوگوں ، بالفاظ دیگر عوام، کی اس کمزوری سے باخبر ہے اور اپنی حکمت ورحمت کی بنا پر انھیں اس کی پوری رعایت دیتاہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں سے خدا کا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ گہری معرفت اور اعلیٰ دین داری کا ثبوت دیں ۔ وہ اگر نیک نیت ہوں تو خدا ان سے سادہ دین داری پر راضی ہوجائے گا۔ عوام کی دین داری یہ ہے کہ وہ سچے دل سے خدا کا اقرار کریں ۔ اپنے اندر اس احساس کو تازہ رکھیں کہ آخرت کا ایک دن آنے والا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کی راہ میں دیں اور یہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انھیں خدا کی قربت اور برکت حاصل ہوگی۔ وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے پیغمبر کو خوش کرکے اس کی دعائیں لینے کے طالب ہوں ۔ یہ دین داری کی عوامی سطح ہے، اور اگر آدمی کی نیت میں بگاڑ نہ ہو تو اس کا خدا اس سے اسی سادہ دین داری کو قبول کرلے گا۔ لیکن اگر عوام ایسا کریں کہ وہ خدااور اس کے احکام سے بالکل غافل ہوجائیں ، ان کو دین سے اتنی بے تعلقی ہو کہ دین کی راہ میں کچھ خرچ کرنا ان کو جرمانہ معلوم ہونے لگے، اسلام کی ترقی سے انھیں وحشت ہوتی ہو تو بلاشبہ وہ ناقابل معافی ہیں ۔ عوام کی کم فہمی کی بنا پر ان کو یہ رعایت تو ضرور دی جاسکتی ہے کہ ان سے گہری دین داری کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ لیکن ان کی کم فہمی اگر سرکشی اور اسلام کے ساتھ بے وفائی کی صورت اختیار کرلے تو وہ کسی حال میں بخشے نہیں جاسکتے۔