🕋 تفسير سورة النحل
(An-Nahl) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ أَتَىٰ أَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 دین کی حقیقت یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور کائنات میں اس کی کار فرمائی کو اس طرح جان لے کہ ایک خدا کی ذات ہی اس کو سب کچھ نظر آنے لگے۔ اسی سے وہ ڈرے اور اسی سے وہ ہر قسم کی امید رکھے۔ ایک خدا اس کے قلب و دماغ کی تمام توجہات کا مرکز بن جائے۔
یہی اللہ کو الٰہ بنانا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسانوں کے اندر یہی کیفیت پیدا کرنے کے لیے تمام پیغمبر اس دنیا میں آئے ۔ جو لوگ اس عبدیت کا ثبوت دیں وہ فیصلہ کے دن کامیاب ٹھہریں گے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ فیصلہ کے دن نامراد ہوجائیںگے۔ یہ فیصلہ عام انسانوں کے لیے قیامت میں ہوگا۔ مگر پیغمبر کے مخاطبین کے لیے وہ اسی دنیاسے شروع ہوجاتاہے۔
کائنات میں مکمل وحدت ہے اور اسی کے ساتھ مکمل مقصدیت بھی۔ کائنات کی وحدت اس سے انکار کرتی ہے کہ یہاں ایک خدا کے سوا کسی اورکو مرکز توجہ بنانا کسی کے لیے جا ئز ہو۔ اور اس کی مقصدیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا خاتمہ ایک بامعنیٰ انجام پر ہونا چاہیے، نہ کہ بے معنی انجام پر۔ گویا کائنات کا نظام بیک وقت توحید کی دلیل بھی فراہم کرتا ہے اور آخرت کی دلیل بھی۔
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً ۖ لَكُمْ مِنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ
📘 بادل اوپر فضا سے پانی برساتے ہیں اور نیچے زمین پر اس سے نہایت با معنی قسم کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ ’’زمین وآسمان‘‘ کا اس طرح ہم آہنگ ہو کر عمل کرنا واضح طورپر یہ ثابت کرتاہے کہ جو خدا آسمان کا ہے، وہی خدا زمین کا بھی ہے۔
کائنات کے مختلف حصوں کے درمیان کامل ہم آہنگی ہے۔ یہ ہم آہنگی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ساری کائنات کا خالق ومالک صرف ایک ہے۔ کائنات کے موجودہ ڈھانچہ میں ایک سے زیادہ خدا کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب جب خالق ومالک حقیقۃً صرف ایک خدا ہے تو اس کے سوا دوسری جس چیز کو بھی معبودیت کا درجہ دیا جائے گا، وہ سراسر بے بنیاد ہوگا۔
إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ
📘 قرآن کو پڑھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، اپنی نصیحت کے لیے پڑھنا۔ دوسري، دعوت کی خاطر دوسروں کے سامنے پیش کرنا، خواہ قر آن کے الفاظ دُہرائے جائیں یا اس کے مطالب بیان کيے جائیں۔دونوں صورتوں میں ضروری ہے کہ آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے۔ تعوذ کا مطلب صرف کچھ مقرر الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ اپنے آپ کو شعوری طورپر مسلح کرنا ہے تاکہ شیطان کا حملہ بے اثر ہو کر رہ جائے۔
شیطان ہر وقت آدمی کی گھات میںہے۔وہ قرآن کے الفاظ کے مفہوم کواس کے قاری کے ذہن میں بدل دیتاہے۔ اور جو چیز متن میں نہ ہو اس کو تفسیر میں شامل کرا دیتاہے۔ اسی طرح شیطان داعی اور مدعوکے درمیان ایسے فتنے ابھارتا ہے جس کے نتیجے میں دعوت کا عمل رک جائے۔
تاہم شیطان کو خدانے صرف بہکانے اور ورغلانے کی آزادی دی ہے۔ اس کو یہ طاقت نہیں دی کہ وہ کسی کو بزور گمراہی کے راستے پر ڈال دے۔ جو لوگ خدا سے اپنا ذہنی رابطہ قائم کيے ہوئے ہوں ان پر اس کا کچھ بس نہیں چلتا۔ البتہ جو لوگ خدا سے غافل ہوں اور شیطان کی باتوں پر دھیان دیں ان کے اورپر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور پھر جدھر چاہتا ہے ادھر انھیں لے جاتا ہے۔
وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ اس کے مختلف حصے
23
سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے اترتے رہے۔ دعوت وتربیت کے مصالح کے تحت بعض احکام میں تدریج کا طریقہ بھی اختیا رکیا گیا ۔مثلاً پہلے یہ حکم آیا کہ مخالفوں کے مقابلہ میں صبر کرو۔ اس کے بعد یہ حکم آیا کہ ان سے بطورِ دفاع جنگ کرو۔
اس قسم کی ’’تبدیلیوں‘‘ کو لے کر مخالفین یہ کہتے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں۔ یہ محمد کی اپنی تصنیف ہے، جس کو انھوںنے خدا کی طرف منسوب کردیا ہے۔ اگر وہ خدا کی طرف سے ہوتی تو اس میں کبھی اس قسم کی تبدیلیاں نہ ہوتیں۔
مخالفین اگر قرآن کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتے اور تبدیلی کے واقعہ کو صحیح رخ سے دیکھتے تو اس میںانھیں تدریج فی الاحکام کی حکمت نظر آتی۔ مگر جب انھوں نے اس کو غلط رخ سے دیکھا تو تبدیلی کا واقعہ انھیں انسانی علم کی کمی کا نتیجہ نظر آیا، جس چیز میں ان کے لیے تصدیق کا سامان چھپا ہوا تھا اس کو انھوںنے اپنے لیے افترا کا ذریعہ بنالیا۔
قرآن کو حق کے ساتھ اتارا گیا ہے — یہاں حق سے مراد خدا کا خالص اور بے آمیز دین ہے۔ جو لوگ سچائی کے طالب ہوں اور ملاوٹی دینوں میں اطمینان نہ پاتے ہوں، ان کےلیے قرآنی دین میں اپنی تلاش کا جواب بھی ہے اور ان کی تسکین قلب کا سامان بھی۔
قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
📘 قرآن ایک دعوتی کتاب ہے۔ اس کے مختلف حصے
23
سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کرکے اترتے رہے۔ دعوت وتربیت کے مصالح کے تحت بعض احکام میں تدریج کا طریقہ بھی اختیا رکیا گیا ۔مثلاً پہلے یہ حکم آیا کہ مخالفوں کے مقابلہ میں صبر کرو۔ اس کے بعد یہ حکم آیا کہ ان سے بطورِ دفاع جنگ کرو۔
اس قسم کی ’’تبدیلیوں‘‘ کو لے کر مخالفین یہ کہتے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں۔ یہ محمد کی اپنی تصنیف ہے، جس کو انھوںنے خدا کی طرف منسوب کردیا ہے۔ اگر وہ خدا کی طرف سے ہوتی تو اس میں کبھی اس قسم کی تبدیلیاں نہ ہوتیں۔
مخالفین اگر قرآن کے معاملہ میں سنجیدہ ہوتے اور تبدیلی کے واقعہ کو صحیح رخ سے دیکھتے تو اس میںانھیں تدریج فی الاحکام کی حکمت نظر آتی۔ مگر جب انھوں نے اس کو غلط رخ سے دیکھا تو تبدیلی کا واقعہ انھیں انسانی علم کی کمی کا نتیجہ نظر آیا، جس چیز میں ان کے لیے تصدیق کا سامان چھپا ہوا تھا اس کو انھوںنے اپنے لیے افترا کا ذریعہ بنالیا۔
قرآن کو حق کے ساتھ اتارا گیا ہے — یہاں حق سے مراد خدا کا خالص اور بے آمیز دین ہے۔ جو لوگ سچائی کے طالب ہوں اور ملاوٹی دینوں میں اطمینان نہ پاتے ہوں، ان کےلیے قرآنی دین میں اپنی تلاش کا جواب بھی ہے اور ان کی تسکین قلب کا سامان بھی۔
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ
📘 مکہ میں کچھ عجمی غلام تھے۔ ان کے نام تفسیر کی کتابوں میںحیر، یسار، عائش، یعیش وغیرہ آئے ہیں۔ اس ضمن میں سلمان فارسی کا نام بھی لیا گیا ہے جو بعد کو مسلمان ہوگئے۔ یہ غلام یا یہودی تھے یا نصرانی۔ اس بنا پر وہ قدیم آسمانی مذاہب، یہودیت اور نصرانیت کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی کی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس طرح کی ملاقاتوں کو بنیاد بنا کر قریش کے لیڈروں نے کہا کہ ’’یہی عجمی لوگ محمد کو کچھ باتیں بتا دیتے ہیں اور وہ ان کو خدائی کلام بتا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں‘‘۔
یہ مضحکہ خیز بات انھوں نے کیوں کہی۔ اس کی وجہ وہی عام برائی ہے جو ہر زمانہ میں اور ہمیشہ دنیا میں پائی گئی ہے۔وہ ہے— اپنے ہم عصر کو میرٹ کی سطح پر نہ پہچاننا۔ قریش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معاصر شخصیت تھے، اس لیے وہ آپ کو پہچاننے اور آپ کی قدر کرنے میں ناکام رہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ معاصرانہ نفسیات کے فتنہ میں مبتلا ہوں وہ کبھی حق کو قبول کرنے کی توفیق نہیں پاتے۔ وہ حق کو مان لینے کے بجائے یہ کرتے ہیں کہ حق کے علم بردار کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑتے رہتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی حقیقتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر داعی کی شخصیت کو بدنام کرتے ہیں۔ وہ اسی میں مشغول رہتے ہیں، یہاں تک کہ مرکر خدا کی پکڑ کے مستحق بن جاتے ہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ لَا يَهْدِيهِمُ اللَّهُ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 مکہ میں کچھ عجمی غلام تھے۔ ان کے نام تفسیر کی کتابوں میںحیر، یسار، عائش، یعیش وغیرہ آئے ہیں۔ اس ضمن میں سلمان فارسی کا نام بھی لیا گیا ہے جو بعد کو مسلمان ہوگئے۔ یہ غلام یا یہودی تھے یا نصرانی۔ اس بنا پر وہ قدیم آسمانی مذاہب، یہودیت اور نصرانیت کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی کی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس طرح کی ملاقاتوں کو بنیاد بنا کر قریش کے لیڈروں نے کہا کہ ’’یہی عجمی لوگ محمد کو کچھ باتیں بتا دیتے ہیں اور وہ ان کو خدائی کلام بتا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں‘‘۔
یہ مضحکہ خیز بات انھوں نے کیوں کہی۔ اس کی وجہ وہی عام برائی ہے جو ہر زمانہ میں اور ہمیشہ دنیا میں پائی گئی ہے۔وہ ہے— اپنے ہم عصر کو میرٹ کی سطح پر نہ پہچاننا۔ قریش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معاصر شخصیت تھے، اس لیے وہ آپ کو پہچاننے اور آپ کی قدر کرنے میں ناکام رہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ معاصرانہ نفسیات کے فتنہ میں مبتلا ہوں وہ کبھی حق کو قبول کرنے کی توفیق نہیں پاتے۔ وہ حق کو مان لینے کے بجائے یہ کرتے ہیں کہ حق کے علم بردار کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑتے رہتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی حقیقتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر داعی کی شخصیت کو بدنام کرتے ہیں۔ وہ اسی میں مشغول رہتے ہیں، یہاں تک کہ مرکر خدا کی پکڑ کے مستحق بن جاتے ہیں۔
إِنَّمَا يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَاذِبُونَ
📘 مکہ میں کچھ عجمی غلام تھے۔ ان کے نام تفسیر کی کتابوں میںحیر، یسار، عائش، یعیش وغیرہ آئے ہیں۔ اس ضمن میں سلمان فارسی کا نام بھی لیا گیا ہے جو بعد کو مسلمان ہوگئے۔ یہ غلام یا یہودی تھے یا نصرانی۔ اس بنا پر وہ قدیم آسمانی مذاہب، یہودیت اور نصرانیت کے بارے میں معلومات رکھتے تھے۔ ان میں سے کسی کی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اس طرح کی ملاقاتوں کو بنیاد بنا کر قریش کے لیڈروں نے کہا کہ ’’یہی عجمی لوگ محمد کو کچھ باتیں بتا دیتے ہیں اور وہ ان کو خدائی کلام بتا کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں‘‘۔
یہ مضحکہ خیز بات انھوں نے کیوں کہی۔ اس کی وجہ وہی عام برائی ہے جو ہر زمانہ میں اور ہمیشہ دنیا میں پائی گئی ہے۔وہ ہے— اپنے ہم عصر کو میرٹ کی سطح پر نہ پہچاننا۔ قریش کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک معاصر شخصیت تھے، اس لیے وہ آپ کو پہچاننے اور آپ کی قدر کرنے میں ناکام رہے۔
اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ جو لوگ معاصرانہ نفسیات کے فتنہ میں مبتلا ہوں وہ کبھی حق کو قبول کرنے کی توفیق نہیں پاتے۔ وہ حق کو مان لینے کے بجائے یہ کرتے ہیں کہ حق کے علم بردار کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑتے رہتے ہیں۔ وہ بڑی بڑی حقیقتوں کو نظر انداز کردیتے ہیں، اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر داعی کی شخصیت کو بدنام کرتے ہیں۔ وہ اسی میں مشغول رہتے ہیں، یہاں تک کہ مرکر خدا کی پکڑ کے مستحق بن جاتے ہیں۔
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 خدا کے یہاں حقیقت کا اعتبار کیا جاتاہے، نہ کہ محض ظاہر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں انسان کے ساتھ بہت رعایت کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص دل سے خدا کا سچا وفادار ہو مگر سخت مجبوری کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر کوئی خلافِ ایمان کلمہ کہہ دے تو خدا کے یہاں اس پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ مگر وہ لوگ خدا کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں جو اندر سے بدل چکے ہوں۔ جو شیطانی شبہات یا حالات کہ دباؤ سے متاثر ہو کر دل کی رضامندی سے کسی اور راستہ پر چل پڑیں۔
جب آدمی ایمان کے بجائے غیر ایمان کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ دنیا پرستی ہوتی ہے۔ وہ دنیوی مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر غیر مومنانہ روش پر چل پڑتا ہے۔ اگر وہ آخرت کی قدر وقیمت کو سمجھتا تو دنیا کا مفاد اس کو اتنا حقیر نظر آتا کہ اس کو یہ بات بالکل لغو معلوم ہوتی کہ دنیا کی خاطر وہ آخرت کو چھوڑ دے۔
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے فائدے اگر کسی کے نزدیک اہم ترین بن جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معاملات کو آخرت کے نقطۂ نظر سے سوچ نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے مگر دنیا کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے چیزوں کا اخروی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ اسی پہلو کو دیکھ پاتا ہے جو دنیوی مصالح سے تعلق رکھتے ہوں۔ جو لوگ غفلت کے اس مرتبہ کو پہنچ جائیں ان کے حصہ میں ابدی نقصان کے سوا اور کچھ نہیں۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
📘 خدا کے یہاں حقیقت کا اعتبار کیا جاتاہے، نہ کہ محض ظاہر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں انسان کے ساتھ بہت رعایت کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص دل سے خدا کا سچا وفادار ہو مگر سخت مجبوری کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر کوئی خلافِ ایمان کلمہ کہہ دے تو خدا کے یہاں اس پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ مگر وہ لوگ خدا کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں جو اندر سے بدل چکے ہوں۔ جو شیطانی شبہات یا حالات کہ دباؤ سے متاثر ہو کر دل کی رضامندی سے کسی اور راستہ پر چل پڑیں۔
جب آدمی ایمان کے بجائے غیر ایمان کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ دنیا پرستی ہوتی ہے۔ وہ دنیوی مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر غیر مومنانہ روش پر چل پڑتا ہے۔ اگر وہ آخرت کی قدر وقیمت کو سمجھتا تو دنیا کا مفاد اس کو اتنا حقیر نظر آتا کہ اس کو یہ بات بالکل لغو معلوم ہوتی کہ دنیا کی خاطر وہ آخرت کو چھوڑ دے۔
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے فائدے اگر کسی کے نزدیک اہم ترین بن جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معاملات کو آخرت کے نقطۂ نظر سے سوچ نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے مگر دنیا کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے چیزوں کا اخروی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ اسی پہلو کو دیکھ پاتا ہے جو دنیوی مصالح سے تعلق رکھتے ہوں۔ جو لوگ غفلت کے اس مرتبہ کو پہنچ جائیں ان کے حصہ میں ابدی نقصان کے سوا اور کچھ نہیں۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
📘 خدا کے یہاں حقیقت کا اعتبار کیا جاتاہے، نہ کہ محض ظاہر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں انسان کے ساتھ بہت رعایت کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص دل سے خدا کا سچا وفادار ہو مگر سخت مجبوری کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر کوئی خلافِ ایمان کلمہ کہہ دے تو خدا کے یہاں اس پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ مگر وہ لوگ خدا کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں جو اندر سے بدل چکے ہوں۔ جو شیطانی شبہات یا حالات کہ دباؤ سے متاثر ہو کر دل کی رضامندی سے کسی اور راستہ پر چل پڑیں۔
جب آدمی ایمان کے بجائے غیر ایمان کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ دنیا پرستی ہوتی ہے۔ وہ دنیوی مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر غیر مومنانہ روش پر چل پڑتا ہے۔ اگر وہ آخرت کی قدر وقیمت کو سمجھتا تو دنیا کا مفاد اس کو اتنا حقیر نظر آتا کہ اس کو یہ بات بالکل لغو معلوم ہوتی کہ دنیا کی خاطر وہ آخرت کو چھوڑ دے۔
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے فائدے اگر کسی کے نزدیک اہم ترین بن جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معاملات کو آخرت کے نقطۂ نظر سے سوچ نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے مگر دنیا کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے چیزوں کا اخروی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ اسی پہلو کو دیکھ پاتا ہے جو دنیوی مصالح سے تعلق رکھتے ہوں۔ جو لوگ غفلت کے اس مرتبہ کو پہنچ جائیں ان کے حصہ میں ابدی نقصان کے سوا اور کچھ نہیں۔
لَا جَرَمَ أَنَّهُمْ فِي الْآخِرَةِ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 خدا کے یہاں حقیقت کا اعتبار کیا جاتاہے، نہ کہ محض ظاہر کا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں انسان کے ساتھ بہت رعایت کی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص دل سے خدا کا سچا وفادار ہو مگر سخت مجبوری کی حالت میں اپنی جان بچانے کے لیے وقتی طور پر کوئی خلافِ ایمان کلمہ کہہ دے تو خدا کے یہاں اس پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔ مگر وہ لوگ خدا کے یہاں ناقابلِ معافی ہیں جو اندر سے بدل چکے ہوں۔ جو شیطانی شبہات یا حالات کہ دباؤ سے متاثر ہو کر دل کی رضامندی سے کسی اور راستہ پر چل پڑیں۔
جب آدمی ایمان کے بجائے غیر ایمان کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کی وجہ ہمیشہ دنیا پرستی ہوتی ہے۔ وہ دنیوی مفاد کو خطرہ میں دیکھ کر غیر مومنانہ روش پر چل پڑتا ہے۔ اگر وہ آخرت کی قدر وقیمت کو سمجھتا تو دنیا کا مفاد اس کو اتنا حقیر نظر آتا کہ اس کو یہ بات بالکل لغو معلوم ہوتی کہ دنیا کی خاطر وہ آخرت کو چھوڑ دے۔
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کے فائدے اگر کسی کے نزدیک اہم ترین بن جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ معاملات کو آخرت کے نقطۂ نظر سے سوچ نہیں پاتا۔ وہ دیکھتا اور سنتا ہے مگر دنیا کی طرف جھکاؤ کی وجہ سے چیزوں کا اخروی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے۔ وہ اسی پہلو کو دیکھ پاتا ہے جو دنیوی مصالح سے تعلق رکھتے ہوں۔ جو لوگ غفلت کے اس مرتبہ کو پہنچ جائیں ان کے حصہ میں ابدی نقصان کے سوا اور کچھ نہیں۔
يُنْبِتُ لَكُمْ بِهِ الزَّرْعَ وَالزَّيْتُونَ وَالنَّخِيلَ وَالْأَعْنَابَ وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
📘 بادل اوپر فضا سے پانی برساتے ہیں اور نیچے زمین پر اس سے نہایت با معنی قسم کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ ’’زمین وآسمان‘‘ کا اس طرح ہم آہنگ ہو کر عمل کرنا واضح طورپر یہ ثابت کرتاہے کہ جو خدا آسمان کا ہے، وہی خدا زمین کا بھی ہے۔
کائنات کے مختلف حصوں کے درمیان کامل ہم آہنگی ہے۔ یہ ہم آہنگی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ساری کائنات کا خالق ومالک صرف ایک ہے۔ کائنات کے موجودہ ڈھانچہ میں ایک سے زیادہ خدا کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب جب خالق ومالک حقیقۃً صرف ایک خدا ہے تو اس کے سوا دوسری جس چیز کو بھی معبودیت کا درجہ دیا جائے گا، وہ سراسر بے بنیاد ہوگا۔
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ هَاجَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوا ثُمَّ جَاهَدُوا وَصَبَرُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 انسانوں کی کوئی آبادی اطمینان کی حالت میں ہو اور اس کے درمیان رزق کی فراوانی ہو۔ پھر خدا اپنے کسی بندے کو ان کے درمیان کھڑا کرے جوان کو حق کی طرف بلائے تو ایسی حالت میں ہمیشہ دو میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے۔ یاتو یہ آبادی حق کو قبول کرکے مزید خدائی انعامات کی مستحق بنے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر یہ ہوتا کہ اس پر طرح طرح کے حادثات گزرتے ہیں۔ یہ حادثات اس کے حق میں خدائی عذاب نہیں ہوتے بلکہ خدائی تنبیہات ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ چوکنے ہوجائیں۔ ان کی حساسیت جاگے اور وہ خدا کے داعی کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
اگر اس قسم کی تنبیہات کار گر نہ ہوں تو دعوت کی تکمیل کے بعد دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس قوم کو ہلاک کردیا جائے تاکہ وہ آخرت کے عالم میں پہنچ کر اپنے ابدی انجام کو بھگتے۔
۞ يَوْمَ تَأْتِي كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 انسانوں کی کوئی آبادی اطمینان کی حالت میں ہو اور اس کے درمیان رزق کی فراوانی ہو۔ پھر خدا اپنے کسی بندے کو ان کے درمیان کھڑا کرے جوان کو حق کی طرف بلائے تو ایسی حالت میں ہمیشہ دو میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے۔ یاتو یہ آبادی حق کو قبول کرکے مزید خدائی انعامات کی مستحق بنے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر یہ ہوتا کہ اس پر طرح طرح کے حادثات گزرتے ہیں۔ یہ حادثات اس کے حق میں خدائی عذاب نہیں ہوتے بلکہ خدائی تنبیہات ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ چوکنے ہوجائیں۔ ان کی حساسیت جاگے اور وہ خدا کے داعی کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
اگر اس قسم کی تنبیہات کار گر نہ ہوں تو دعوت کی تکمیل کے بعد دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس قوم کو ہلاک کردیا جائے تاکہ وہ آخرت کے عالم میں پہنچ کر اپنے ابدی انجام کو بھگتے۔
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
📘 انسانوں کی کوئی آبادی اطمینان کی حالت میں ہو اور اس کے درمیان رزق کی فراوانی ہو۔ پھر خدا اپنے کسی بندے کو ان کے درمیان کھڑا کرے جوان کو حق کی طرف بلائے تو ایسی حالت میں ہمیشہ دو میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے۔ یاتو یہ آبادی حق کو قبول کرکے مزید خدائی انعامات کی مستحق بنے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر یہ ہوتا کہ اس پر طرح طرح کے حادثات گزرتے ہیں۔ یہ حادثات اس کے حق میں خدائی عذاب نہیں ہوتے بلکہ خدائی تنبیہات ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ چوکنے ہوجائیں۔ ان کی حساسیت جاگے اور وہ خدا کے داعی کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
اگر اس قسم کی تنبیہات کار گر نہ ہوں تو دعوت کی تکمیل کے بعد دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس قوم کو ہلاک کردیا جائے تاکہ وہ آخرت کے عالم میں پہنچ کر اپنے ابدی انجام کو بھگتے۔
وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
📘 انسانوں کی کوئی آبادی اطمینان کی حالت میں ہو اور اس کے درمیان رزق کی فراوانی ہو۔ پھر خدا اپنے کسی بندے کو ان کے درمیان کھڑا کرے جوان کو حق کی طرف بلائے تو ایسی حالت میں ہمیشہ دو میں سے کوئی ایک صورت پیش آتی ہے۔ یاتو یہ آبادی حق کو قبول کرکے مزید خدائی انعامات کی مستحق بنے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر یہ ہوتا کہ اس پر طرح طرح کے حادثات گزرتے ہیں۔ یہ حادثات اس کے حق میں خدائی عذاب نہیں ہوتے بلکہ خدائی تنبیہات ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ چوکنے ہوجائیں۔ ان کی حساسیت جاگے اور وہ خدا کے داعی کی پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
اگر اس قسم کی تنبیہات کار گر نہ ہوں تو دعوت کی تکمیل کے بعد دوسرا مرحلہ یہ آتا ہے کہ اس قوم کو ہلاک کردیا جائے تاکہ وہ آخرت کے عالم میں پہنچ کر اپنے ابدی انجام کو بھگتے۔
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
📘 اس آیت کا تعلق روز مرّہ کھانے والی چیزوں سے ہے۔ خدا نے جو قابلِ خوراک چیزیں پیدا کی ہیں، ان میں چند متعین چیزوں کو چھوڑ کر بقیہ سب انسان کے لیے حلال ہیں۔ تاہم قدیم مشرک انسان نے یہ کیا کہ خدا کی حلال کی ہوئی بہت سی غذاؤں کو بطور خود اپنے لیے حرام کرلیا۔ جدید ملحد انسان نے اس کے برعکس یہ کیا ہے کہ خدا کی حرام کی ہوئی بہت سی غذاؤں کو بطور خود اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا۔ یہ دونوں چیزیں اس روح کی قاتل ہیں جس کو غذائی نعمتوں کے ذریعے انسان کے اندر پیدا کرنا مقصود ہے۔
غذا انسان کی تمام ضرورتوں میں سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے جس کا ہر انسان کو صبح وشام تجربہ ہوتا ہے۔ خدا کو یہ مطلوب ہے کہ آدمی جب غذا کا استعمال کرے تو وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر کھائے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرے۔ مگر انسان نے پورے معاملہ کو الٹ دیا۔
قدیم مشرکانہ دور میں اس نے ان غذاؤں کو دیوتاؤں کے ساتھ منسوب کیا اور اس طرح ان کو خدا کے بجائے دیوتاؤں کی یاد کا ذریعہ بنا دیا۔ جدید ملحدانہ زمانہ میں یہ ہوا ہے کہ انسان نے سارے معاملہ کو اپنی لذتِ نفس کے تابع کردیا۔ اس نے خدا کی حرام غذاؤں کو بھی اپنے لیے حلال ٹھہرالیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی پیداکی ہوئی چیزیں اس کے لیے صرف اپنی لذت کا دسترخوان بن کر رہ گئیں۔
مجبوری کی حالت میں اگر کوئی شخص خداکے غذائی قانون کو بدلے تو وہ ندامت کے جذبے کے تحت ایسا کرے گا، نہ کہ سرکشی کے جذبہ کہ تحت۔ اس لیے اس سے نفسیاتِ انسانی میں کوئی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں۔
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 اس آیت کا تعلق روز مرّہ کھانے والی چیزوں سے ہے۔ خدا نے جو قابلِ خوراک چیزیں پیدا کی ہیں، ان میں چند متعین چیزوں کو چھوڑ کر بقیہ سب انسان کے لیے حلال ہیں۔ تاہم قدیم مشرک انسان نے یہ کیا کہ خدا کی حلال کی ہوئی بہت سی غذاؤں کو بطور خود اپنے لیے حرام کرلیا۔ جدید ملحد انسان نے اس کے برعکس یہ کیا ہے کہ خدا کی حرام کی ہوئی بہت سی غذاؤں کو بطور خود اپنے لیے حلال ٹھہرا لیا۔ یہ دونوں چیزیں اس روح کی قاتل ہیں جس کو غذائی نعمتوں کے ذریعے انسان کے اندر پیدا کرنا مقصود ہے۔
غذا انسان کی تمام ضرورتوں میں سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے جس کا ہر انسان کو صبح وشام تجربہ ہوتا ہے۔ خدا کو یہ مطلوب ہے کہ آدمی جب غذا کا استعمال کرے تو وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر کھائے اور اس پر خدا کا شکر ادا کرے۔ مگر انسان نے پورے معاملہ کو الٹ دیا۔
قدیم مشرکانہ دور میں اس نے ان غذاؤں کو دیوتاؤں کے ساتھ منسوب کیا اور اس طرح ان کو خدا کے بجائے دیوتاؤں کی یاد کا ذریعہ بنا دیا۔ جدید ملحدانہ زمانہ میں یہ ہوا ہے کہ انسان نے سارے معاملہ کو اپنی لذتِ نفس کے تابع کردیا۔ اس نے خدا کی حرام غذاؤں کو بھی اپنے لیے حلال ٹھہرالیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدا کی پیداکی ہوئی چیزیں اس کے لیے صرف اپنی لذت کا دسترخوان بن کر رہ گئیں۔
مجبوری کی حالت میں اگر کوئی شخص خداکے غذائی قانون کو بدلے تو وہ ندامت کے جذبے کے تحت ایسا کرے گا، نہ کہ سرکشی کے جذبہ کہ تحت۔ اس لیے اس سے نفسیاتِ انسانی میں کوئی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ
📘 اس آیت کا تعلق عام قانون سازی سے نہیں ہے بلکہ غذائی چیزوں میں حرام وحلال مقرر کرنے سے ہے۔ انسان ہمیشہ یہ کرتارہا ہے کہ وہ کھانے کی چیزوں میں بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز ٹھہراتا ہے۔ ایسا یا تو توہمات کے تحت ہوتا ہے یا خواہشات کے تحت۔ مگر اس کو کرنے والے اس کو مذہب کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔
مذکورہ قسم کی تحریم وتحلیل کا یہ نقصان ہے کہ اس سے لوگوں میں توہم پرستی اور خواہش پرستی کا مزاج پیدا ہوتا ہے ۔ جب کہ آدمی کے لیے صحیح بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا پرست بن کر رہے۔
موجودہ زندگی میں امتحان کی وجہ سے انسان کو آزادی حاصل ہے۔ توہمات اور خواہشات کو اپنا دین بنانے کا موقع ملنے کی وجہ یہی آزادی ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی تو اچانک انسان پائے گا کہ اس کے لیے ایک ہی ممکن راستہ تھا۔ یعنی خدا پرستی کو اپنا دین بنانا۔ اس کے علاوہ جن چیزوں کو اس نے اپنایا، وہ صرف امتحانی آزادی کا غلط استعمال تھا، نہ کہ اس کا کوئی جائز حق۔ اس وقت اس کو وہی سزا بھگتنی پڑے گی، جو امتحان میں ناکام ہونے والوں کے لیے مقدر ہے۔
مَتَاعٌ قَلِيلٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 اس آیت کا تعلق عام قانون سازی سے نہیں ہے بلکہ غذائی چیزوں میں حرام وحلال مقرر کرنے سے ہے۔ انسان ہمیشہ یہ کرتارہا ہے کہ وہ کھانے کی چیزوں میں بعض کو جائز اور بعض کو ناجائز ٹھہراتا ہے۔ ایسا یا تو توہمات کے تحت ہوتا ہے یا خواہشات کے تحت۔ مگر اس کو کرنے والے اس کو مذہب کی طرف منسوب کردیتے ہیں۔
مذکورہ قسم کی تحریم وتحلیل کا یہ نقصان ہے کہ اس سے لوگوں میں توہم پرستی اور خواہش پرستی کا مزاج پیدا ہوتا ہے ۔ جب کہ آدمی کے لیے صحیح بات یہ ہے کہ وہ دنیا میں خدا پرست بن کر رہے۔
موجودہ زندگی میں امتحان کی وجہ سے انسان کو آزادی حاصل ہے۔ توہمات اور خواہشات کو اپنا دین بنانے کا موقع ملنے کی وجہ یہی آزادی ہے۔ جب امتحان کی مدت ختم ہوگی تو اچانک انسان پائے گا کہ اس کے لیے ایک ہی ممکن راستہ تھا۔ یعنی خدا پرستی کو اپنا دین بنانا۔ اس کے علاوہ جن چیزوں کو اس نے اپنایا، وہ صرف امتحانی آزادی کا غلط استعمال تھا، نہ کہ اس کا کوئی جائز حق۔ اس وقت اس کو وہی سزا بھگتنی پڑے گی، جو امتحان میں ناکام ہونے والوں کے لیے مقدر ہے۔
وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۖ وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
📘 یہود کی مذہبی کتابوں میں بعض ایسی کھانے کی چیزیں حرام ہیں جو اسلام کی شریعت میں حرام نہیں کی گئی ہیں (النساء،
4:160
)۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ خود خدا نے دو قسم کے احکام دئے ہیں۔ یہود پر بھی اصلاً وہی غذائی چیزیں حرام ٹھیرائی گئی تھیں جو یہاں (النحل، آیت
115
) میں مذکور ہیں۔ مگر بعد کو یہود نے خود ساختہ تصورات کے تحت کچھ جائز چیزوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا۔ پیغمبروں کی فہمائش کے باوجود وہ اپنے اس خود ساختہ دین کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوئے۔
مزید یہ کہ اولاًانھوں نے خدا کے حلال کو حرام کیا اور اس طرح اپنے آپ کو ناحق مصیبتوں میں ڈالا۔ اور پھر جب وہ اس حرام پر قائم نہ رہ سکے تو عقیدۃً اس کو حرام سمجھتے ہوئے عملاً اس کواپنے لیے جائز بنالیا۔ اس طرح وہ دہرے مجرم بن گئے۔
آدمی اگر کسی خود ساختہ نظریہ کے تحت ایک جائز چیز کو اپنے لیے ناجائز بنالے اور اس کی خاطر قربانیاں دینا شروع کردے، تو یہ محض اپنی جان پر ظلم کرنا ہوگا، نہ کہ خدا کے راستے ميں قربانی پیش کرنا۔
ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ وَأَصْلَحُوا إِنَّ رَبَّكَ مِنْ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 جب برائی کے ساتھ سرکشی اور تعصب کے جذبات اكٹھا ہوجائیں تو آدمی اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، خواہ اس کے عمل کو غلط ثابت کرنے کے لیے کتنے ہی دلائل دئے جائیں۔ مگر برائی کی دوسری قسم وہ هے جو محض نادانی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ آدمی بے خبری میں یا نفس سے مغلوب ہو کر کوئی غلطی کربیٹھتا ہے۔ ایسے آدمی کے اندر عام طورپر ڈھٹائی نہیں ہوتی۔ جب دلیل سے اس پر اس کی غلطی واضح ہوجائے تو وہ فوراً پلٹ آتاہے اور دوبارہ اپنے کو صحیح رویہ پر قائم کرلیتا ہے۔
پہلی قسم کے لوگوں کے لیے معافی کا کوئی سوال نہیں۔ مگر دوسری قسم کے لوگوں کے لیے یہ بشارت ہے کہ خداانھیں اپنی رحمتوں کے سایہ میں لے لے گا کیوں کہ وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہے۔
وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۖ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرَاتٌ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 سورج، چاند، ستارے وسیع خلا میں انتہائی صحت کے ساتھ مسلسل گردش کرتے ہیں۔ زمین میں طرح طرح کی مخلوقات (حیوانات، نباتات، جمادات) بے شمار تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ اوّل الذکر میں تسخیر امر کا پہلو نمایاں ہے۔ اور ثانی الذکر میں اختلاف الوان کا پہلو۔ ایک منظر خدا کی قدرت کے بے پناہ ہونے کو یاد دلاتا ہے۔ دوسرا منظر خدائی صفات کے اَن گنت ہونے کو۔
یہ مناظر اتنے حیرت ناک ہیں کہ جو شخص ان کو نظر ٹھہرا کر دیکھے وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان چیزوں میں اس کو خدا کی عظمت اور اس کی ربوبیت دکھائی دے گی۔ وہ ظاہری واقعات کے اندر چھپے ہوئے غیبی حقائق کو دریافت کرے گا۔ وہ مخلوقات کو دیکھ کر خالق کی معرفت میں ڈوب جائے گا۔
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 حضرت ابراہیم کو قرآن میں خداکے مطلوب انسان کے نمونہ کے طورپر پیش کیا گیاہے۔ وہ انسانوں كے ليے نمونہ كيسے بنے۔ اس لیے کہ وہ ماحول کے بگاڑ کے علی الرغم تنہا ایمان پر قائم ہونے والے انسان تھے۔ وہ اکیلے خداکے لیے کھڑے ہوئے جب کہ اس راہ میں کوئی ان کا ساتھ دینے والانہ تھا۔
حضرت ابراہیم پوری طرح اپنے آپ کو خدا کی پابندی میں دئے ہوئے تھے۔ انھوںنے عالم گیر مشرکانہ ماحول میں اپنے آپ کو توحید کے لیے یکسو کرلیا تھا۔ وہ تمام چیزوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھتے تھے اور ان کے لیے ان کا دل خدا کے شکر کے جذبہ سے بھرا رہتاتھا۔ حضرت ابراہیم کے اس کمالِ ایمان کی وجہ سے خدا نے ان پر اپنی ہدایت کی راہیں کھول دیں اور ان کو پیغمبری کے لیے چن لیا تاکہ وہ دنیا والوں کو خدا کے دین سے آگاہ کریں۔
حضرت ابراہیم کو دنیا کا حسنہ (بہتری) دی گئی اور آخرت کی بہتری بھی۔ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں حضرت ابراہیم کو نہ عوام کی بھیڑ ملی، نہ اقتدار کا تخت، اور نہ اور کوئی دنیوی رونق کی چیز۔ اس کے باوجود قرآن کی یہ گواہی ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے دنیا کی بہتری ملی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی نظر میں دنیا کی بہتری نہ عوامی مقبولیت کا نام ہے اور نہ دولت وحکومت کا۔ بلکہ دنیا کی بہتری خدا کی نظر میں اصلاً وہی چیزیں ہیں جن کو یہاں حضرت ابراہیم کی خصوصیات کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
شَاكِرًا لِأَنْعُمِهِ ۚ اجْتَبَاهُ وَهَدَاهُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 حضرت ابراہیم کو قرآن میں خداکے مطلوب انسان کے نمونہ کے طورپر پیش کیا گیاہے۔ وہ انسانوں كے ليے نمونہ كيسے بنے۔ اس لیے کہ وہ ماحول کے بگاڑ کے علی الرغم تنہا ایمان پر قائم ہونے والے انسان تھے۔ وہ اکیلے خداکے لیے کھڑے ہوئے جب کہ اس راہ میں کوئی ان کا ساتھ دینے والانہ تھا۔
حضرت ابراہیم پوری طرح اپنے آپ کو خدا کی پابندی میں دئے ہوئے تھے۔ انھوںنے عالم گیر مشرکانہ ماحول میں اپنے آپ کو توحید کے لیے یکسو کرلیا تھا۔ وہ تمام چیزوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھتے تھے اور ان کے لیے ان کا دل خدا کے شکر کے جذبہ سے بھرا رہتاتھا۔ حضرت ابراہیم کے اس کمالِ ایمان کی وجہ سے خدا نے ان پر اپنی ہدایت کی راہیں کھول دیں اور ان کو پیغمبری کے لیے چن لیا تاکہ وہ دنیا والوں کو خدا کے دین سے آگاہ کریں۔
حضرت ابراہیم کو دنیا کا حسنہ (بہتری) دی گئی اور آخرت کی بہتری بھی۔ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں حضرت ابراہیم کو نہ عوام کی بھیڑ ملی، نہ اقتدار کا تخت، اور نہ اور کوئی دنیوی رونق کی چیز۔ اس کے باوجود قرآن کی یہ گواہی ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے دنیا کی بہتری ملی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی نظر میں دنیا کی بہتری نہ عوامی مقبولیت کا نام ہے اور نہ دولت وحکومت کا۔ بلکہ دنیا کی بہتری خدا کی نظر میں اصلاً وہی چیزیں ہیں جن کو یہاں حضرت ابراہیم کی خصوصیات کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
وَآتَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
📘 حضرت ابراہیم کو قرآن میں خداکے مطلوب انسان کے نمونہ کے طورپر پیش کیا گیاہے۔ وہ انسانوں كے ليے نمونہ كيسے بنے۔ اس لیے کہ وہ ماحول کے بگاڑ کے علی الرغم تنہا ایمان پر قائم ہونے والے انسان تھے۔ وہ اکیلے خداکے لیے کھڑے ہوئے جب کہ اس راہ میں کوئی ان کا ساتھ دینے والانہ تھا۔
حضرت ابراہیم پوری طرح اپنے آپ کو خدا کی پابندی میں دئے ہوئے تھے۔ انھوںنے عالم گیر مشرکانہ ماحول میں اپنے آپ کو توحید کے لیے یکسو کرلیا تھا۔ وہ تمام چیزوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھتے تھے اور ان کے لیے ان کا دل خدا کے شکر کے جذبہ سے بھرا رہتاتھا۔ حضرت ابراہیم کے اس کمالِ ایمان کی وجہ سے خدا نے ان پر اپنی ہدایت کی راہیں کھول دیں اور ان کو پیغمبری کے لیے چن لیا تاکہ وہ دنیا والوں کو خدا کے دین سے آگاہ کریں۔
حضرت ابراہیم کو دنیا کا حسنہ (بہتری) دی گئی اور آخرت کی بہتری بھی۔ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں حضرت ابراہیم کو نہ عوام کی بھیڑ ملی، نہ اقتدار کا تخت، اور نہ اور کوئی دنیوی رونق کی چیز۔ اس کے باوجود قرآن کی یہ گواہی ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے دنیا کی بہتری ملی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی نظر میں دنیا کی بہتری نہ عوامی مقبولیت کا نام ہے اور نہ دولت وحکومت کا۔ بلکہ دنیا کی بہتری خدا کی نظر میں اصلاً وہی چیزیں ہیں جن کو یہاں حضرت ابراہیم کی خصوصیات کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
ثُمَّ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ أَنِ اتَّبِعْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 حضرت ابراہیم کو قرآن میں خداکے مطلوب انسان کے نمونہ کے طورپر پیش کیا گیاہے۔ وہ انسانوں كے ليے نمونہ كيسے بنے۔ اس لیے کہ وہ ماحول کے بگاڑ کے علی الرغم تنہا ایمان پر قائم ہونے والے انسان تھے۔ وہ اکیلے خداکے لیے کھڑے ہوئے جب کہ اس راہ میں کوئی ان کا ساتھ دینے والانہ تھا۔
حضرت ابراہیم پوری طرح اپنے آپ کو خدا کی پابندی میں دئے ہوئے تھے۔ انھوںنے عالم گیر مشرکانہ ماحول میں اپنے آپ کو توحید کے لیے یکسو کرلیا تھا۔ وہ تمام چیزوں کو خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھتے تھے اور ان کے لیے ان کا دل خدا کے شکر کے جذبہ سے بھرا رہتاتھا۔ حضرت ابراہیم کے اس کمالِ ایمان کی وجہ سے خدا نے ان پر اپنی ہدایت کی راہیں کھول دیں اور ان کو پیغمبری کے لیے چن لیا تاکہ وہ دنیا والوں کو خدا کے دین سے آگاہ کریں۔
حضرت ابراہیم کو دنیا کا حسنہ (بہتری) دی گئی اور آخرت کی بہتری بھی۔ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں حضرت ابراہیم کو نہ عوام کی بھیڑ ملی، نہ اقتدار کا تخت، اور نہ اور کوئی دنیوی رونق کی چیز۔ اس کے باوجود قرآن کی یہ گواہی ہے کہ ان کو خدا کی طرف سے دنیا کی بہتری ملی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ خدا کی نظر میں دنیا کی بہتری نہ عوامی مقبولیت کا نام ہے اور نہ دولت وحکومت کا۔ بلکہ دنیا کی بہتری خدا کی نظر میں اصلاً وہی چیزیں ہیں جن کو یہاں حضرت ابراہیم کی خصوصیات کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔
إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَى الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَإِنَّ رَبَّكَ لَيَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
📘 ہفتہ کا ایک دن تمام شریعتوں میں اجتماعی عبادت کا دن رہاہے۔ یہود اس کو سنیچر (سبت) کے دن مناتے ہیں۔ عیسائی اتوار کے دن۔ اور مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ جمعہ کے دن اس کا اہتمام کریں۔
یہود کے بزرگوں نے موشگافیاں کرکے بطور خود سبت (sabbath) کے لیے نئے نئے ضوابط بنائے اور اپنے آپ کو مصنوعی پابندیوں میں جکڑ لیا۔ پھر جب ان پابندیوں پر عمل کرنا ان کو ناممکن معلوم ہوا تو اپنے بزرگوں کے تقدس کی وجہ سے وہ ان کو رد نہ کرسکے۔ البتہ عملی طورپر انھوںنے ان کے خلاف چلنا شروع کردیا۔
خداکے دین میں بعد کے عالموں اور بزرگوں نے اپنی تشریحات سے جو اختلافات پیدا کيے ان کا فیصلہ دنیا میں ہونے والا نہیں۔ مگر جب قیامت آئے گی تو خدا بتا دے گا کہ اصل آسمانی دین کیا تھا اور وہ کیا چیزیں تھیں جو لوگوں نے اپنی طرف سے اضافہ کرکے دین میں شامل کردیں۔
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ ۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
📘 دعوت کا عمل ایک ایسا عمل ہے جو انتہائی سنجیدگی اور خیر خواہی کے جذبہ کے تحت ابھرتاہے۔ خداکے سامنے جواب دہی کا احساس آدمی کو مجبور کرتاہے کہ وہ خدا کے بندوں کے سامنے داعی بن کر کھڑا ہو۔ وہ دوسروںکو اس لیے پکارتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میں قیامت کے دن پکڑا جاؤں گا۔ اس نفسیات کا قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی کا دعوتی عمل وہ انداز اختیار کرلیتاہے جس کو حکمت، موعظت حسنہ اور جدال احسن کہاگیاہے۔
حکمت سے مراد دلیل وبرہان ہے۔ کوئی دعوتی عمل اسی وقت حقیقی دعوتی عمل ہے جب کہ وہ ایسے دلائل کے ساتھ ہو جس میں مخاطب کے ذہن کی پوری رعایت شامل ہو۔ مخاطب کے نزدیک، کسی چیز کے ثابت شدہ چیز ہونے کی جوشرائط ہیں،ان شرائط کی تکمیل کے ساتھ جو کلام کیاجائے اسی کو یہاں حکمت کا کلام کہاگیا ہے۔ جس کلام میں مخاطب کی ذہنی وفکری رعایت شامل نہ ہو وہ غیر حکیمانہ کلام ہے۔ اور ایسا کلام کسی کو داعی کا مرتبہ نہیںدے سکتا۔
موعظتِ حسنہ اس خصوصیت کا نام ہے جو درد مندی اور خیر خواہی کی نفسیات سے کسی کے کلام میں پیدا ہوتی ہے۔ جس داعی کا یہ حال ہو کہ خدا کے عظمت وجلال کے احساس سے اس کی شخصیت کے اندر بھونچال آگیا ہو جب وہ خدا کے بارے میں بولے گاتو یقینی طورپر اس کے کلام میں عظمتِ خداوندی کی بجلیاں چمک اٹھیں گی، جو داعی جنت اور جہنم کو دیکھ کر دوسروں کو اسے دکھانے کے لیے اٹھے، اس كے کلام میں یقینی طورپر جنت کی بہاریں اور جہنم کی ہولناکیاں گونجتی ہوئی نظر آئیںگی۔ ان چیزوں کی آمیزش داعی کے کلام کو ایسا بنا دے گی جو دلوں کو پگھلادے اور آنکھوں کو اشک بار کردے۔
دعوتی کلام کی ایجابی خصوصیات یہی دو ہیں— حکمت اور موعظت حسنہ۔ تاہم ہمیشہ دنیا میں کچھ ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو غیر ضروری بحثیں کرتے ہیں۔ جن کا مقصد الجھانا ہوتا ہے، نہ کہ سمجھنا سمجھانا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں مذکورہ قسم کا داعی جو انداز اختیار کرتا ہے، اسی کا نام جِدَال بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ہے۔ وہ ٹیڑھی بات کا جواب سیدھی بات سے دیتاہے، وہ سخت الفاظ سن کر بھی اپنی زبان سے نرم الفاظ نکالتا ہے۔ وہ الزام تراشی کے مقابلہ میںاستدلال اور تجزیہ کاانداز اختیار کرتا ہے۔ وہ اشتعال کے اسلوب کے جواب میں صبر کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔
داعی حق کی نظر سامنے کے انسان کی طرف نہیں ہوتی بلکہ اس خدا کی طرف ہوتی ہے جو سب کے اوپر ہے۔ اس لیے وہ وہی بات کہتا ہے جو خداکے میزان میں حقیقی بات ٹھہرے، نہ کہ انسان کی میزان میں۔
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ
📘 یہاں داعی کا وہ کردار بتایا گیاہے جو مخالفین کے مقابلہ میں اس کو اختیار کرنا ہے۔ فرمایا کہ اگر مخالفین کی طرف سے ایسی تکلیف پہنچے جس کو تم برداشت نہ کرسکو تو تم کو اتنا ہی کرنے کی اجازت ہے جتنا تمھارے ساتھ کیا گیاہے۔ تاہم یہ اجازت صرف انسان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بطور رعایت ہے۔ ورنہ داعی کا اصل کردار تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کرے۔ وہ مدعوسے حساب چکانے کے بجائے ایسے تمام معاملات کو خداکے خانہ میں ڈال دے۔
مخاطب اگر حق کو نہ مانے۔ وہ اس کو مٹانے کے درپے ہو جائے تواس وقت داعی کو سب سے بڑی تدبیر جو کرنی ہے وہ صبر ہے۔ یعنی ردعمل کی نفسیات یا جوابی کارروائیوں سے بچتے ہوئے مثبت طورپر حق کا پیغام پہنچاتے رہنا۔ داعی کو اصلاً جو ثبوت دینا ہے وہ یہ کہ وہ فی الواقع اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اس کے اندر وہ کردار پیدا ہوچکا ہے جو ا س وقت پیدا ہوتاہے جب کہ آدمی دنیا کے پردوں سے گزر کر خدا کو اس کی چھپی ہوئی عظمتوں کے ساتھ دیکھ لے۔ اگر داعی یہ ثبوت دے دے تو اس کے بعد بقیہ امور میں خدا اس کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد دعوت کے مخالفین کی کوئی تدبیر داعی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، خواہ وہ تدبیر کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی نگاہیں انسانوں میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جن کو بس انسانوں کی کارروائیاں دکھائی دیتی ہوں۔ دوسرے وہ لوگ جن کی نگاہیں خدا میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جو خدا کی طاقتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگ کبھی صبر پر قادر نہیں ہوسکتے۔ یہ صرف دوسری قسم کے انسان ہیں جن کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شکایتوں اور تلخیوں کو سہہ لیں۔ اور جو کچھ خدا کی طرف سے ملنے والا ہے اس کی خاطر اس کو نظر انداز کردیں جو انسان کی طرف سے مل رہاہے۔
داعی کو جس طرح جوابی نفسیات سے پرہیز کرنا ہے اسی طرح اس کو جوابی کارروائی سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ مخالفین کی سازشیں اور تدبیریں بظاہر ڈراتی ہیں کہ کہیں وہ دعوت اور داعی کو تہس نہس نہ کر ڈالیں۔ مگر داعی کو ہر حال میں خدا پر بھروسہ رکھنا ہے۔ اس کو یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور وہ یقینا ً دعوت حق کا ساتھ دے کر باطل پرستوں کو ناکام بنا دے گا۔
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ
📘 یہاں داعی کا وہ کردار بتایا گیاہے جو مخالفین کے مقابلہ میں اس کو اختیار کرنا ہے۔ فرمایا کہ اگر مخالفین کی طرف سے ایسی تکلیف پہنچے جس کو تم برداشت نہ کرسکو تو تم کو اتنا ہی کرنے کی اجازت ہے جتنا تمھارے ساتھ کیا گیاہے۔ تاہم یہ اجازت صرف انسان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بطور رعایت ہے۔ ورنہ داعی کا اصل کردار تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کرے۔ وہ مدعوسے حساب چکانے کے بجائے ایسے تمام معاملات کو خداکے خانہ میں ڈال دے۔
مخاطب اگر حق کو نہ مانے۔ وہ اس کو مٹانے کے درپے ہو جائے تواس وقت داعی کو سب سے بڑی تدبیر جو کرنی ہے وہ صبر ہے۔ یعنی ردعمل کی نفسیات یا جوابی کارروائیوں سے بچتے ہوئے مثبت طورپر حق کا پیغام پہنچاتے رہنا۔ داعی کو اصلاً جو ثبوت دینا ہے وہ یہ کہ وہ فی الواقع اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اس کے اندر وہ کردار پیدا ہوچکا ہے جو ا س وقت پیدا ہوتاہے جب کہ آدمی دنیا کے پردوں سے گزر کر خدا کو اس کی چھپی ہوئی عظمتوں کے ساتھ دیکھ لے۔ اگر داعی یہ ثبوت دے دے تو اس کے بعد بقیہ امور میں خدا اس کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد دعوت کے مخالفین کی کوئی تدبیر داعی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، خواہ وہ تدبیر کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی نگاہیں انسانوں میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جن کو بس انسانوں کی کارروائیاں دکھائی دیتی ہوں۔ دوسرے وہ لوگ جن کی نگاہیں خدا میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جو خدا کی طاقتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگ کبھی صبر پر قادر نہیں ہوسکتے۔ یہ صرف دوسری قسم کے انسان ہیں جن کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شکایتوں اور تلخیوں کو سہہ لیں۔ اور جو کچھ خدا کی طرف سے ملنے والا ہے اس کی خاطر اس کو نظر انداز کردیں جو انسان کی طرف سے مل رہاہے۔
داعی کو جس طرح جوابی نفسیات سے پرہیز کرنا ہے اسی طرح اس کو جوابی کارروائی سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ مخالفین کی سازشیں اور تدبیریں بظاہر ڈراتی ہیں کہ کہیں وہ دعوت اور داعی کو تہس نہس نہ کر ڈالیں۔ مگر داعی کو ہر حال میں خدا پر بھروسہ رکھنا ہے۔ اس کو یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور وہ یقینا ً دعوت حق کا ساتھ دے کر باطل پرستوں کو ناکام بنا دے گا۔
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ
📘 یہاں داعی کا وہ کردار بتایا گیاہے جو مخالفین کے مقابلہ میں اس کو اختیار کرنا ہے۔ فرمایا کہ اگر مخالفین کی طرف سے ایسی تکلیف پہنچے جس کو تم برداشت نہ کرسکو تو تم کو اتنا ہی کرنے کی اجازت ہے جتنا تمھارے ساتھ کیا گیاہے۔ تاہم یہ اجازت صرف انسان کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے بطور رعایت ہے۔ ورنہ داعی کا اصل کردار تو یہ ہونا چاہیے کہ وہ مدعو کی طرف سے پیش آنے والی ہر تکلیف پر صبر کرے۔ وہ مدعوسے حساب چکانے کے بجائے ایسے تمام معاملات کو خداکے خانہ میں ڈال دے۔
مخاطب اگر حق کو نہ مانے۔ وہ اس کو مٹانے کے درپے ہو جائے تواس وقت داعی کو سب سے بڑی تدبیر جو کرنی ہے وہ صبر ہے۔ یعنی ردعمل کی نفسیات یا جوابی کارروائیوں سے بچتے ہوئے مثبت طورپر حق کا پیغام پہنچاتے رہنا۔ داعی کو اصلاً جو ثبوت دینا ہے وہ یہ کہ وہ فی الواقع اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اس کے اندر وہ کردار پیدا ہوچکا ہے جو ا س وقت پیدا ہوتاہے جب کہ آدمی دنیا کے پردوں سے گزر کر خدا کو اس کی چھپی ہوئی عظمتوں کے ساتھ دیکھ لے۔ اگر داعی یہ ثبوت دے دے تو اس کے بعد بقیہ امور میں خدا اس کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد دعوت کے مخالفین کی کوئی تدبیر داعی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی، خواہ وہ تدبیر کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو۔
دنیا میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کی نگاہیں انسانوں میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جن کو بس انسانوں کی کارروائیاں دکھائی دیتی ہوں۔ دوسرے وہ لوگ جن کی نگاہیں خدا میں اٹکی ہوئی ہوں۔ جو خدا کی طاقتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ پہلی قسم کے لوگ کبھی صبر پر قادر نہیں ہوسکتے۔ یہ صرف دوسری قسم کے انسان ہیں جن کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ شکایتوں اور تلخیوں کو سہہ لیں۔ اور جو کچھ خدا کی طرف سے ملنے والا ہے اس کی خاطر اس کو نظر انداز کردیں جو انسان کی طرف سے مل رہاہے۔
داعی کو جس طرح جوابی نفسیات سے پرہیز کرنا ہے اسی طرح اس کو جوابی کارروائی سے بھی اپنے آپ کو بچانا ہے۔ مخالفین کی سازشیں اور تدبیریں بظاہر ڈراتی ہیں کہ کہیں وہ دعوت اور داعی کو تہس نہس نہ کر ڈالیں۔ مگر داعی کو ہر حال میں خدا پر بھروسہ رکھنا ہے۔ اس کو یہ یقین رکھنا ہے کہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ اور وہ یقینا ً دعوت حق کا ساتھ دے کر باطل پرستوں کو ناکام بنا دے گا۔
وَمَا ذَرَأَ لَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ
📘 سورج، چاند، ستارے وسیع خلا میں انتہائی صحت کے ساتھ مسلسل گردش کرتے ہیں۔ زمین میں طرح طرح کی مخلوقات (حیوانات، نباتات، جمادات) بے شمار تعداد میں پائی جاتی ہیں۔ اوّل الذکر میں تسخیر امر کا پہلو نمایاں ہے۔ اور ثانی الذکر میں اختلاف الوان کا پہلو۔ ایک منظر خدا کی قدرت کے بے پناہ ہونے کو یاد دلاتا ہے۔ دوسرا منظر خدائی صفات کے اَن گنت ہونے کو۔
یہ مناظر اتنے حیرت ناک ہیں کہ جو شخص ان کو نظر ٹھہرا کر دیکھے وہ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ان چیزوں میں اس کو خدا کی عظمت اور اس کی ربوبیت دکھائی دے گی۔ وہ ظاہری واقعات کے اندر چھپے ہوئے غیبی حقائق کو دریافت کرے گا۔ وہ مخلوقات کو دیکھ کر خالق کی معرفت میں ڈوب جائے گا۔
وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 سمندر میں لوہے کا ٹکڑا ڈالیں تو فوراً ڈوب کر پانی کی تہ میں چلا جائے گا۔ مگر اسی لوہے کو جب جہاز کی شکل دے دی جائے تو وہ بھاری بوجھ لیے ہوئے سمندر میں تیرنے لگتا ہے اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ جاتا ہے۔
یہ خدا کا خاص قانون ہے جس کے ذریعہ اس نے سمندر جیسی مہیب مخلوق کو انسان کے لیے کار آمد بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سمندر کے اندر حیرت ناک انتظام کے تحت مچھلی کی صورت میں تازہ گوشت تیار کیا جاتا ہے اور اس کے اندر انسانی زینت کے لیے قیمتی موتی بنتے ہیں۔
خدا کے لیے انتظام دنیا کی دوسری صورتیں بھی ممکن تھیں۔ مثلاً ایسا ہوسکتا تھاکہ زمین پر سمندر نہ ہوں۔ یا انسان جس طرح خشکی پر چلتا ہے اسی طرح وہ سمندر میں چلنے لگے۔ مگر خدا نے ایسا نہیں کیا اس کا مقصد آدمی کے اندر شکر گزاری کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔ آدمی جب اپنے پیروں سے سمندر میں نہ چل سکے اور کشتی اور جہاز پر بیٹھے تونہایت آسانی سے سمندر کو عبور کرنے لگے تو اس کو دیکھ کر قدرتی طورپرآدمی کے اندر شکر کا جذبہ موجزن ہوتاہے۔ وہ سوچتا ہے کہ جس سمندر کو میں اپنے قدموں کے ذریعہ پار نہیں کرسکتا تھا، خدا نے کشتی اور جہاز کے ذریعہ اس کو پار کرنے کا انتظام کردیا۔ وہ فضا جس میں میں خود نہیں اڑ سکتا تھا، اس میں ہوائی جہاز کے ذریعہ نہایت تیز رفتاری کے ساتھ اُڑنے کی صورت پیدا کردی۔
اس قسم کے فرق نظام قدرت میں اسی لیے رکھے گئے ہیں کہ وہ انسان کے شعور کو جگائیں اور اس کے اندر اپنے رب کے لیے شکر اور احسان مندی کا جذبہ پیدا کریں۔
وَأَلْقَىٰ فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَارًا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
📘 یہاں دو چیزوں کا ذکر ہے۔ پہاڑ ابھار کر زمین پر توازن قائم کرنے کا۔ اور زمین وآسمان میں ایسی علامتیں قائم کرنا جو لوگوں کے لیے راستہ معلوم کرنے کا کام دیں۔
جغرافی مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین میں جب گہرائیاں پیدا ہوئیں اور ان میں پانی جمع ہو کر سمندر بنے تو زمین ہلنے لگی۔ اس کے بعد خشکی پر اونچے پہاڑ ابھر آئے۔ اس طرح دوطرفہ عمل کے نتیجے میں زمین پر توازن قائم ہوگیا۔ اگر زمین کی سطح پر یہ توازن نہ ہوتا تو انسان کے لیے یہاں زندگی ناممکن یا کم از کم سخت دشوار ہوجاتی۔
اسی طرح انسان کو اپنے سفر اور نقل وحرکت کے لیے علامتوں کی ضرورت ہے جن کی مدد سے وہ سمت کو پہچانے اور بھٹکے بغیر اپنے منزل پر پہنچ جائے ۔ اس کا انتظام بھی یہاں کامل طورپر موجود ہے۔ قدیم زمانہ کا انسان دریاؤں اور ستاروں جیسی چیزوں سے اپنے راستے پہچانتا تھا۔ اب وہ مقناطیسی آلات کی مدد سے اپنا راستہ اور دوسری ضروری باتیں معلوم کرتاہے۔ خشکی اور تری، نیز فضاؤں اور خلاؤں میںتیز رفتار پروازیں اسی کی مدد سے ممکن ہوتی ہیں۔اگر اس قسم کی علامتیں موجود نہ ہوں تو انسانی سرگرمیاں انتہائی حد تک سمٹ کر رہ جائیں۔
وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ
📘 یہاں دو چیزوں کا ذکر ہے۔ پہاڑ ابھار کر زمین پر توازن قائم کرنے کا۔ اور زمین وآسمان میں ایسی علامتیں قائم کرنا جو لوگوں کے لیے راستہ معلوم کرنے کا کام دیں۔
جغرافی مطالعہ بتاتا ہے کہ زمین میں جب گہرائیاں پیدا ہوئیں اور ان میں پانی جمع ہو کر سمندر بنے تو زمین ہلنے لگی۔ اس کے بعد خشکی پر اونچے پہاڑ ابھر آئے۔ اس طرح دوطرفہ عمل کے نتیجے میں زمین پر توازن قائم ہوگیا۔ اگر زمین کی سطح پر یہ توازن نہ ہوتا تو انسان کے لیے یہاں زندگی ناممکن یا کم از کم سخت دشوار ہوجاتی۔
اسی طرح انسان کو اپنے سفر اور نقل وحرکت کے لیے علامتوں کی ضرورت ہے جن کی مدد سے وہ سمت کو پہچانے اور بھٹکے بغیر اپنے منزل پر پہنچ جائے ۔ اس کا انتظام بھی یہاں کامل طورپر موجود ہے۔ قدیم زمانہ کا انسان دریاؤں اور ستاروں جیسی چیزوں سے اپنے راستے پہچانتا تھا۔ اب وہ مقناطیسی آلات کی مدد سے اپنا راستہ اور دوسری ضروری باتیں معلوم کرتاہے۔ خشکی اور تری، نیز فضاؤں اور خلاؤں میںتیز رفتار پروازیں اسی کی مدد سے ممکن ہوتی ہیں۔اگر اس قسم کی علامتیں موجود نہ ہوں تو انسانی سرگرمیاں انتہائی حد تک سمٹ کر رہ جائیں۔
أَفَمَنْ يَخْلُقُ كَمَنْ لَا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
📘 دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی کے اندر تخلیق (عدم سے وجود میں لانے) کی طاقت نہیں۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ دنیا اپنی خالق آپ نہیں ہے۔ اس کا خالق وہی ہوسکتاہے جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ ایک چیز جو موجود نہیں ہے اس کو موجود کردے۔ اس لیے ایک خدا کا عقیدہ عین فطری ہے۔ کائنات کی توجیہہ ایک ایسے خداکو مانے بغیر نہیںہوسکتی جس کے اندر تخلیق کی صلاحیت کامل درجہ میں پائی جائے۔
مشرکین نے خدا کے سوا جتنے شریک خدا کے گھڑے ہیں یا منکرین نے خدا کو چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو خدا کا بدل بنانے کی کوشش کی ہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں جس کے اندر ذاتی تخلیق کی صلاحیت ہو۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شرک اور الحاد کے گھڑے ہوئے تمام خدا سراسر فرضی ہیں۔کیوں کہ جس کے اندر تخلیقی قوت نہ ہو اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنا سراسر بے بنیاد ہے کہ وہ ایک موجود کائنات کا خدا ہے۔ جو خود ذاتی وجود نہ رکھتاہو وہ کس طرح دوسری چیز کو وجود دے سکتا ہے۔
خدا کو اپنے بندوں سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ اس کی نعمتوں پر شکر گزاری ہے۔ اگرچہ خدا کی نعمتیں اس سے زیادہ ہیں کہ کوئی شخص بھی ان کا واقعی شکر ادا کرسکے۔ مگر خدا بے نیاز ہے۔ وہ زیادہ نعمت کے لیے تھوڑا شکر بھی قبول کرلیتا ہے۔ تاہم یہ شکر حقیقی شکرہونا چاہیے، نہ کہ محض رسمی قسم کی حمد خوانی۔
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَغَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی کے اندر تخلیق (عدم سے وجود میں لانے) کی طاقت نہیں۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ دنیا اپنی خالق آپ نہیں ہے۔ اس کا خالق وہی ہوسکتاہے جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ ایک چیز جو موجود نہیں ہے اس کو موجود کردے۔ اس لیے ایک خدا کا عقیدہ عین فطری ہے۔ کائنات کی توجیہہ ایک ایسے خداکو مانے بغیر نہیںہوسکتی جس کے اندر تخلیق کی صلاحیت کامل درجہ میں پائی جائے۔
مشرکین نے خدا کے سوا جتنے شریک خدا کے گھڑے ہیں یا منکرین نے خدا کو چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو خدا کا بدل بنانے کی کوشش کی ہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں جس کے اندر ذاتی تخلیق کی صلاحیت ہو۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شرک اور الحاد کے گھڑے ہوئے تمام خدا سراسر فرضی ہیں۔کیوں کہ جس کے اندر تخلیقی قوت نہ ہو اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنا سراسر بے بنیاد ہے کہ وہ ایک موجود کائنات کا خدا ہے۔ جو خود ذاتی وجود نہ رکھتاہو وہ کس طرح دوسری چیز کو وجود دے سکتا ہے۔
خدا کو اپنے بندوں سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ اس کی نعمتوں پر شکر گزاری ہے۔ اگرچہ خدا کی نعمتیں اس سے زیادہ ہیں کہ کوئی شخص بھی ان کا واقعی شکر ادا کرسکے۔ مگر خدا بے نیاز ہے۔ وہ زیادہ نعمت کے لیے تھوڑا شکر بھی قبول کرلیتا ہے۔ تاہم یہ شکر حقیقی شکرہونا چاہیے، نہ کہ محض رسمی قسم کی حمد خوانی۔
وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ
📘 دنیا میں جتنی چیزیں ہیں ان میں سے کسی کے اندر تخلیق (عدم سے وجود میں لانے) کی طاقت نہیں۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ دنیا اپنی خالق آپ نہیں ہے۔ اس کا خالق وہی ہوسکتاہے جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ ایک چیز جو موجود نہیں ہے اس کو موجود کردے۔ اس لیے ایک خدا کا عقیدہ عین فطری ہے۔ کائنات کی توجیہہ ایک ایسے خداکو مانے بغیر نہیںہوسکتی جس کے اندر تخلیق کی صلاحیت کامل درجہ میں پائی جائے۔
مشرکین نے خدا کے سوا جتنے شریک خدا کے گھڑے ہیں یا منکرین نے خدا کو چھوڑ کر جن دوسری چیزوں کو خدا کا بدل بنانے کی کوشش کی ہے، ان میں سے کوئی بھی نہیں جس کے اندر ذاتی تخلیق کی صلاحیت ہو۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ شرک اور الحاد کے گھڑے ہوئے تمام خدا سراسر فرضی ہیں۔کیوں کہ جس کے اندر تخلیقی قوت نہ ہو اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنا سراسر بے بنیاد ہے کہ وہ ایک موجود کائنات کا خدا ہے۔ جو خود ذاتی وجود نہ رکھتاہو وہ کس طرح دوسری چیز کو وجود دے سکتا ہے۔
خدا کو اپنے بندوں سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ اس کی نعمتوں پر شکر گزاری ہے۔ اگرچہ خدا کی نعمتیں اس سے زیادہ ہیں کہ کوئی شخص بھی ان کا واقعی شکر ادا کرسکے۔ مگر خدا بے نیاز ہے۔ وہ زیادہ نعمت کے لیے تھوڑا شکر بھی قبول کرلیتا ہے۔ تاہم یہ شکر حقیقی شکرہونا چاہیے، نہ کہ محض رسمی قسم کی حمد خوانی۔
يُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ
📘 دین کی حقیقت یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور کائنات میں اس کی کار فرمائی کو اس طرح جان لے کہ ایک خدا کی ذات ہی اس کو سب کچھ نظر آنے لگے۔ اسی سے وہ ڈرے اور اسی سے وہ ہر قسم کی امید رکھے۔ ایک خدا اس کے قلب و دماغ کی تمام توجہات کا مرکز بن جائے۔
یہی اللہ کو الٰہ بنانا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسانوں کے اندر یہی کیفیت پیدا کرنے کے لیے تمام پیغمبر اس دنیا میں آئے ۔ جو لوگ اس عبدیت کا ثبوت دیں وہ فیصلہ کے دن کامیاب ٹھہریں گے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ فیصلہ کے دن نامراد ہوجائیںگے۔ یہ فیصلہ عام انسانوں کے لیے قیامت میں ہوگا۔ مگر پیغمبر کے مخاطبین کے لیے وہ اسی دنیاسے شروع ہوجاتاہے۔
کائنات میں مکمل وحدت ہے اور اسی کے ساتھ مکمل مقصدیت بھی۔ کائنات کی وحدت اس سے انکار کرتی ہے کہ یہاں ایک خدا کے سوا کسی اورکو مرکز توجہ بنانا کسی کے لیے جا ئز ہو۔ اور اس کی مقصدیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا خاتمہ ایک بامعنیٰ انجام پر ہونا چاہیے، نہ کہ بے معنی انجام پر۔ گویا کائنات کا نظام بیک وقت توحید کی دلیل بھی فراہم کرتا ہے اور آخرت کی دلیل بھی۔
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ
📘 اکثر شرک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پچھلے بزرگوں کو مقدس اور مقرب مان کر لوگ ان کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ پرستش سراسر احمقانہ ہوتی ہے۔ جن مدفون بزرگوں کی بڑی بڑی قبریں بنا کر لوگ ان سے مرادیں مانگتے ہیں وہ خود مُردہ حالت میں عالم برزخ میں پڑے ہوتے ہیں۔ ان کو خود اپنے بارے میں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی مدد کریں۔
’’وہ تکبر کرتے ہیں‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خدا سے تکبر کرتے ہیں۔ زمین وآسمان کے خالق سے تکبر کی جرأت کون کرے گا۔ اس سے مراد دراصل خدا کے داعی سے تکبر ہے نہ کہ خود خدا سے تکبر۔ اللہ کا جو بندہ توحید کا داعی بن کر اٹھتا ہے وہ دنیوی اعتبار سے اپنے مخاطبین کے مقابلہ میں ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ کیونکہ مخاطب رواجی مذہب کا حامل ہونے کی وجہ سے وقت کے نقشہ میں اونچا درجہ حاصل کیے ہوئے ہوتاہے۔ جب کہ داعی حق ’’نئے دین‘‘ کا علم بردار ہونے کی بنا پر ان درجات ومقامات سے محروم ہوتاہے۔ وہ مخاطبین کو اپنے مقابلہ میں مادی اعتبار سے کمتر نظرآتاہے۔ چنانچہ ان کے اندر برتری کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی بات کو بے وزن سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا کیس اگر چہ تکبر کا کیس ہوتاہے لیکن وہ اس کو اصولی اور نظریاتی کیس بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر اللہ کو لوگوں کی اندرونی نفسیات کا حال خوب معلوم ہے۔ اللہ ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے ان کے ساتھ سلوک کرے گا، نہ کہ ان کی ظاہری باتوں کے اعتبار سے۔
أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ
📘 اکثر شرک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پچھلے بزرگوں کو مقدس اور مقرب مان کر لوگ ان کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ پرستش سراسر احمقانہ ہوتی ہے۔ جن مدفون بزرگوں کی بڑی بڑی قبریں بنا کر لوگ ان سے مرادیں مانگتے ہیں وہ خود مُردہ حالت میں عالم برزخ میں پڑے ہوتے ہیں۔ ان کو خود اپنے بارے میں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی مدد کریں۔
’’وہ تکبر کرتے ہیں‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خدا سے تکبر کرتے ہیں۔ زمین وآسمان کے خالق سے تکبر کی جرأت کون کرے گا۔ اس سے مراد دراصل خدا کے داعی سے تکبر ہے نہ کہ خود خدا سے تکبر۔ اللہ کا جو بندہ توحید کا داعی بن کر اٹھتا ہے وہ دنیوی اعتبار سے اپنے مخاطبین کے مقابلہ میں ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ کیونکہ مخاطب رواجی مذہب کا حامل ہونے کی وجہ سے وقت کے نقشہ میں اونچا درجہ حاصل کیے ہوئے ہوتاہے۔ جب کہ داعی حق ’’نئے دین‘‘ کا علم بردار ہونے کی بنا پر ان درجات ومقامات سے محروم ہوتاہے۔ وہ مخاطبین کو اپنے مقابلہ میں مادی اعتبار سے کمتر نظرآتاہے۔ چنانچہ ان کے اندر برتری کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی بات کو بے وزن سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا کیس اگر چہ تکبر کا کیس ہوتاہے لیکن وہ اس کو اصولی اور نظریاتی کیس بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر اللہ کو لوگوں کی اندرونی نفسیات کا حال خوب معلوم ہے۔ اللہ ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے ان کے ساتھ سلوک کرے گا، نہ کہ ان کی ظاہری باتوں کے اعتبار سے۔
إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۚ فَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ قُلُوبُهُمْ مُنْكِرَةٌ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ
📘 اکثر شرک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پچھلے بزرگوں کو مقدس اور مقرب مان کر لوگ ان کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ پرستش سراسر احمقانہ ہوتی ہے۔ جن مدفون بزرگوں کی بڑی بڑی قبریں بنا کر لوگ ان سے مرادیں مانگتے ہیں وہ خود مُردہ حالت میں عالم برزخ میں پڑے ہوتے ہیں۔ ان کو خود اپنے بارے میں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی مدد کریں۔
’’وہ تکبر کرتے ہیں‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خدا سے تکبر کرتے ہیں۔ زمین وآسمان کے خالق سے تکبر کی جرأت کون کرے گا۔ اس سے مراد دراصل خدا کے داعی سے تکبر ہے نہ کہ خود خدا سے تکبر۔ اللہ کا جو بندہ توحید کا داعی بن کر اٹھتا ہے وہ دنیوی اعتبار سے اپنے مخاطبین کے مقابلہ میں ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ کیونکہ مخاطب رواجی مذہب کا حامل ہونے کی وجہ سے وقت کے نقشہ میں اونچا درجہ حاصل کیے ہوئے ہوتاہے۔ جب کہ داعی حق ’’نئے دین‘‘ کا علم بردار ہونے کی بنا پر ان درجات ومقامات سے محروم ہوتاہے۔ وہ مخاطبین کو اپنے مقابلہ میں مادی اعتبار سے کمتر نظرآتاہے۔ چنانچہ ان کے اندر برتری کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی بات کو بے وزن سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا کیس اگر چہ تکبر کا کیس ہوتاہے لیکن وہ اس کو اصولی اور نظریاتی کیس بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر اللہ کو لوگوں کی اندرونی نفسیات کا حال خوب معلوم ہے۔ اللہ ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے ان کے ساتھ سلوک کرے گا، نہ کہ ان کی ظاہری باتوں کے اعتبار سے۔
لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ
📘 اکثر شرک کی صورت یہ ہوتی ہے کہ پچھلے بزرگوں کو مقدس اور مقرب مان کر لوگ ان کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ پرستش سراسر احمقانہ ہوتی ہے۔ جن مدفون بزرگوں کی بڑی بڑی قبریں بنا کر لوگ ان سے مرادیں مانگتے ہیں وہ خود مُردہ حالت میں عالم برزخ میں پڑے ہوتے ہیں۔ ان کو خود اپنے بارے میں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے، کجا کہ وہ کسی دوسرے کی مدد کریں۔
’’وہ تکبر کرتے ہیں‘‘ کا مطلب یہ نہیں کہ وہ خدا سے تکبر کرتے ہیں۔ زمین وآسمان کے خالق سے تکبر کی جرأت کون کرے گا۔ اس سے مراد دراصل خدا کے داعی سے تکبر ہے نہ کہ خود خدا سے تکبر۔ اللہ کا جو بندہ توحید کا داعی بن کر اٹھتا ہے وہ دنیوی اعتبار سے اپنے مخاطبین کے مقابلہ میں ہمیشہ کم ہوتا ہے۔ کیونکہ مخاطب رواجی مذہب کا حامل ہونے کی وجہ سے وقت کے نقشہ میں اونچا درجہ حاصل کیے ہوئے ہوتاہے۔ جب کہ داعی حق ’’نئے دین‘‘ کا علم بردار ہونے کی بنا پر ان درجات ومقامات سے محروم ہوتاہے۔ وہ مخاطبین کو اپنے مقابلہ میں مادی اعتبار سے کمتر نظرآتاہے۔ چنانچہ ان کے اندر برتری کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس کی بات کو بے وزن سمجھ کر اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
ایسے لوگوں کا کیس اگر چہ تکبر کا کیس ہوتاہے لیکن وہ اس کو اصولی اور نظریاتی کیس بنا کر پیش کرتے ہیں۔ مگر اللہ کو لوگوں کی اندرونی نفسیات کا حال خوب معلوم ہے۔ اللہ ان کی اصل حقیقت کے اعتبار سے ان کے ساتھ سلوک کرے گا، نہ کہ ان کی ظاہری باتوں کے اعتبار سے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۙ قَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ
📘 روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کی خبر دھیرے دھیرے عرب کے دوسرے قبائل میں پہنچی تو وہ ملاقات کے وقت مکہ کے سرداروں سے پوچھتے کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے۔اس کے جواب میں مکہ کے سردار کوئی ایسی بات کہہ دیتے جس سے آپؐ کی شخصیت اور آپ کے کلام کے بارے میں لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں (التفسیر المظہری، جلد5، صفحہ
334
)
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بات کو بگڑے ہوئے الفاظ میں بیان کیا جائے۔ مثلاً قرآن میںپیغمبروں کا جو ذکر ہے اس کے متعلق وہ ’’پچھلے پیغمبروں کی تاریخ‘‘ کا لفظ بھی بول سکتے تھے، مگر اس کو انھوں نے ’’پچھلے لوگوں کے قصے کہانیوں‘‘ کا نام دے دیا۔
دعوت حق سے لوگوں کو اس طرح پھیرنا یا مشتبہ کرنا خدا کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن دگنا عذاب ہوگا۔ کیوں کہ وہ نہ صرف خود گمراہ ہوئے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۙ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ
📘 روایات میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اس کی خبر دھیرے دھیرے عرب کے دوسرے قبائل میں پہنچی تو وہ ملاقات کے وقت مکہ کے سرداروں سے پوچھتے کہ جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے۔اس کے جواب میں مکہ کے سردار کوئی ایسی بات کہہ دیتے جس سے آپؐ کی شخصیت اور آپ کے کلام کے بارے میں لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں (التفسیر المظہری، جلد5، صفحہ
334
)
اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ بات کو بگڑے ہوئے الفاظ میں بیان کیا جائے۔ مثلاً قرآن میںپیغمبروں کا جو ذکر ہے اس کے متعلق وہ ’’پچھلے پیغمبروں کی تاریخ‘‘ کا لفظ بھی بول سکتے تھے، مگر اس کو انھوں نے ’’پچھلے لوگوں کے قصے کہانیوں‘‘ کا نام دے دیا۔
دعوت حق سے لوگوں کو اس طرح پھیرنا یا مشتبہ کرنا خدا کے نزدیک بدترین جرم ہے۔ ایسے لوگوں کو قیامت کے دن دگنا عذاب ہوگا۔ کیوں کہ وہ نہ صرف خود گمراہ ہوئے بلکہ دوسروں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بھی بنے۔
قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
📘 جو لوگ جھوٹی بنیادوں پر بڑائی کا مقام حاصل کيے ہوئے ہیں، وہ جب کسی دعوتِ حق کو اٹھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کو اپنے مقام کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگتاہے۔ وہ اپنے مقام کے تحفظ کے لیے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ دعوتِ حق کے خلاف ایسی فتنہ انگیز باتیں پھیلاتے ہیں جن سے عوام اس کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں اور ا س کے گرد جمع نہ ہوسکیں۔
مگر دعوت حق کے خلاف ایسے لوگوں کی تدبیریں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ مخالفین حق اپنی جن بنیادوں پر بھروسہ کررہے تھے عین وہی بنیادیں اس طرح کمزور ثابت ہوتی ہیں کہ ان کی چھت ان کے اوپر گرپڑتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ کوئی قدرتی زلزلہ ان کی بنیادوں کو ہلاکر ان کی تعمیرات کو ان کے اوپر گرادیتاہے۔ کبھی ان کے عوام ان کا ساتھ چھوڑ کر حق کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنے مددگاروں کو کھو کر مجبور ہوجاتے ہیں کہ دعوتِ حق کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ یہ انجام اپنی آخری اور تکمیلی صورت میں قیامت میں سامنے آئے گا۔ جب کہ منکرین اپنی ابدی ذلت کو دیکھیں گے اور کچھ نہ کرسکیں گے۔
ثُمَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُخْزِيهِمْ وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكَائِيَ الَّذِينَ كُنْتُمْ تُشَاقُّونَ فِيهِمْ ۚ قَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِنَّ الْخِزْيَ الْيَوْمَ وَالسُّوءَ عَلَى الْكَافِرِينَ
📘 جو لوگ جھوٹی بنیادوں پر بڑائی کا مقام حاصل کيے ہوئے ہیں، وہ جب کسی دعوتِ حق کو اٹھتا ہوا دیکھتے ہیں تو ان کو اپنے مقام کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگتاہے۔ وہ اپنے مقام کے تحفظ کے لیے یہ تدبیر کرتے ہیں کہ دعوتِ حق کے خلاف ایسی فتنہ انگیز باتیں پھیلاتے ہیں جن سے عوام اس کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں اور ا س کے گرد جمع نہ ہوسکیں۔
مگر دعوت حق کے خلاف ایسے لوگوں کی تدبیریں کبھی کامیاب نہیں ہوتیں۔ مخالفین حق اپنی جن بنیادوں پر بھروسہ کررہے تھے عین وہی بنیادیں اس طرح کمزور ثابت ہوتی ہیں کہ ان کی چھت ان کے اوپر گرپڑتی ہے۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ کوئی قدرتی زلزلہ ان کی بنیادوں کو ہلاکر ان کی تعمیرات کو ان کے اوپر گرادیتاہے۔ کبھی ان کے عوام ان کا ساتھ چھوڑ کر حق کی صفوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اپنے مددگاروں کو کھو کر مجبور ہوجاتے ہیں کہ دعوتِ حق کے آگے ہتھیار ڈال دیں۔ یہ انجام اپنی آخری اور تکمیلی صورت میں قیامت میں سامنے آئے گا۔ جب کہ منکرین اپنی ابدی ذلت کو دیکھیں گے اور کچھ نہ کرسکیں گے۔
الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ ۖ فَأَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوءٍ ۚ بَلَىٰ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 تکبر سب سے بڑا جرم ہے۔خدا انسان کی ہر غلطی معاف کردے گا مگر وہ تکبر کو معاف نہیں کرے گا۔تکبر کے اظہار کی دو بڑی صورتیں ہیں۔ ایک تکبر وہ جو عام بندوں کے درمیان ظاہر ہوتا ہے ۔ ایک آدمی طاقت، دولت اور دیگر سازوسامان میں اپنے کو دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ پاتا ہے، اس بنا پر وہ اس سے تکبر کرنے لگتا ہے۔
دوسرا زیادہ شدید تکبر وہ ہے جو داعیٔ حق کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ خدا کا ایک بندہ خدا کے سچے دین کی دعوت لے کر اٹھتا ہے۔ اب جو لوگ جھوٹے دین کی بنیاد پر بڑائی کا مقام حاصل کيے ہوئے ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اوپر اس کی زد پڑ رہی ہے۔ وہ سچے دین کے معیار پر بے قیمت قرار پارہے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ بپھر اٹھتے ہیں۔ اور داعیٔ حق کو متکبرانہ نفسیات کے ساتھ نظر انداز کردیتے ہیں۔
آدمی جب کسی کے مقابلہ میں تکبر کرتا ہے تو اس لیے کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ مگر جب موت کے فرشتے آئیں گے اور اس کو بے بس کردیں گے، اس وقت اس کو معلوم ہوگا کہ معاملہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا کا تھا، انسان کسی دوسرے انسان کے مقابلہ میں طاقت ور ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کون طاقت ور ہے۔ خداکے فرشتے جب انسان کو اپنے قبضہ میں لیتے ہیں تو اس وقت ہر آدمی ہتھیار ڈال دیتاہے۔ مگر اللہ کا سچّا بندہ وہ ہے جو اس موقع کے آنے سے پہلے خدا کے آگے ہتھیار ڈال دے۔
فَادْخُلُوا أَبْوَابَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا ۖ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِينَ
📘 تکبر سب سے بڑا جرم ہے۔خدا انسان کی ہر غلطی معاف کردے گا مگر وہ تکبر کو معاف نہیں کرے گا۔تکبر کے اظہار کی دو بڑی صورتیں ہیں۔ ایک تکبر وہ جو عام بندوں کے درمیان ظاہر ہوتا ہے ۔ ایک آدمی طاقت، دولت اور دیگر سازوسامان میں اپنے کو دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ پاتا ہے، اس بنا پر وہ اس سے تکبر کرنے لگتا ہے۔
دوسرا زیادہ شدید تکبر وہ ہے جو داعیٔ حق کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ خدا کا ایک بندہ خدا کے سچے دین کی دعوت لے کر اٹھتا ہے۔ اب جو لوگ جھوٹے دین کی بنیاد پر بڑائی کا مقام حاصل کيے ہوئے ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اوپر اس کی زد پڑ رہی ہے۔ وہ سچے دین کے معیار پر بے قیمت قرار پارہے ہیں۔ یہ دیکھ کر وہ بپھر اٹھتے ہیں۔ اور داعیٔ حق کو متکبرانہ نفسیات کے ساتھ نظر انداز کردیتے ہیں۔
آدمی جب کسی کے مقابلہ میں تکبر کرتا ہے تو اس لیے کرتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔ مگر جب موت کے فرشتے آئیں گے اور اس کو بے بس کردیں گے، اس وقت اس کو معلوم ہوگا کہ معاملہ کسی انسان کا نہیں بلکہ خدا کا تھا، انسان کسی دوسرے انسان کے مقابلہ میں طاقت ور ہوسکتا ہے مگر خدا کے مقابلہ میں کون طاقت ور ہے۔ خداکے فرشتے جب انسان کو اپنے قبضہ میں لیتے ہیں تو اس وقت ہر آدمی ہتھیار ڈال دیتاہے۔ مگر اللہ کا سچّا بندہ وہ ہے جو اس موقع کے آنے سے پہلے خدا کے آگے ہتھیار ڈال دے۔
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
📘 دین کی حقیقت یہ ہے کہ انسان خدا کی ہستی اور کائنات میں اس کی کار فرمائی کو اس طرح جان لے کہ ایک خدا کی ذات ہی اس کو سب کچھ نظر آنے لگے۔ اسی سے وہ ڈرے اور اسی سے وہ ہر قسم کی امید رکھے۔ ایک خدا اس کے قلب و دماغ کی تمام توجہات کا مرکز بن جائے۔
یہی اللہ کو الٰہ بنانا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ انسانوں کے اندر یہی کیفیت پیدا کرنے کے لیے تمام پیغمبر اس دنیا میں آئے ۔ جو لوگ اس عبدیت کا ثبوت دیں وہ فیصلہ کے دن کامیاب ٹھہریں گے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ فیصلہ کے دن نامراد ہوجائیںگے۔ یہ فیصلہ عام انسانوں کے لیے قیامت میں ہوگا۔ مگر پیغمبر کے مخاطبین کے لیے وہ اسی دنیاسے شروع ہوجاتاہے۔
کائنات میں مکمل وحدت ہے اور اسی کے ساتھ مکمل مقصدیت بھی۔ کائنات کی وحدت اس سے انکار کرتی ہے کہ یہاں ایک خدا کے سوا کسی اورکو مرکز توجہ بنانا کسی کے لیے جا ئز ہو۔ اور اس کی مقصدیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کا خاتمہ ایک بامعنیٰ انجام پر ہونا چاہیے، نہ کہ بے معنی انجام پر۔ گویا کائنات کا نظام بیک وقت توحید کی دلیل بھی فراہم کرتا ہے اور آخرت کی دلیل بھی۔
۞ وَقِيلَ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا مَاذَا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ۚ قَالُوا خَيْرًا ۗ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۚ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ ۚ وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ
📘 جو لوگ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ خدا کی بات سنتے ہیں تو ان کا ذہن الٹی سمت میں چلنے لگتا ہے۔ اس بنا پر وہ اس سے نصیحت نہیں لے پاتے۔ مگر جس شخص کے دل میں اللہ کا ڈر ہو وہ خدا کی بات کو پوری آمادگی کے ساتھ سنے گا۔ ایسے شخص کے لیے اللہ کا کلام معرفت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کو اس کے اندر حقیقت کی جھلکیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
جنت کی صفت یہ ہے کہ وہاں وہ سب کچھ ہے جو انسان چاہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کبھی کسی انسان کو، حتی کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہ ہوسکی۔ موجودہ دنیا میں انسان کی محدودیت اور خارجی حالات کی عدم موافقت کی بناپر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ تصور کہ ’’جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو انسان چاہے گا‘‘ اتنا پر کیف ہے کہ اس کی خاطر جو قربانی بھی دینی پڑے وہ یقیناً ہلکی ہے۔
جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْزِي اللَّهُ الْمُتَّقِينَ
📘 جو لوگ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ خدا کی بات سنتے ہیں تو ان کا ذہن الٹی سمت میں چلنے لگتا ہے۔ اس بنا پر وہ اس سے نصیحت نہیں لے پاتے۔ مگر جس شخص کے دل میں اللہ کا ڈر ہو وہ خدا کی بات کو پوری آمادگی کے ساتھ سنے گا۔ ایسے شخص کے لیے اللہ کا کلام معرفت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کو اس کے اندر حقیقت کی جھلکیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
جنت کی صفت یہ ہے کہ وہاں وہ سب کچھ ہے جو انسان چاہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کبھی کسی انسان کو، حتی کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہ ہوسکی۔ موجودہ دنیا میں انسان کی محدودیت اور خارجی حالات کی عدم موافقت کی بناپر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ تصور کہ ’’جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو انسان چاہے گا‘‘ اتنا پر کیف ہے کہ اس کی خاطر جو قربانی بھی دینی پڑے وہ یقیناً ہلکی ہے۔
الَّذِينَ تَتَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ طَيِّبِينَ ۙ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 جو لوگ کبر کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ خدا کی بات سنتے ہیں تو ان کا ذہن الٹی سمت میں چلنے لگتا ہے۔ اس بنا پر وہ اس سے نصیحت نہیں لے پاتے۔ مگر جس شخص کے دل میں اللہ کا ڈر ہو وہ خدا کی بات کو پوری آمادگی کے ساتھ سنے گا۔ ایسے شخص کے لیے اللہ کا کلام معرفت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کو اس کے اندر حقیقت کی جھلکیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔
جنت کی صفت یہ ہے کہ وہاں وہ سب کچھ ہے جو انسان چاہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو کبھی کسی انسان کو، حتی کہ بڑے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہ ہوسکی۔ موجودہ دنیا میں انسان کی محدودیت اور خارجی حالات کی عدم موافقت کی بناپر کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ انسان جو کچھ چاہتا ہے اسے حاصل کرلے۔ یہ تصور کہ ’’جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو انسان چاہے گا‘‘ اتنا پر کیف ہے کہ اس کی خاطر جو قربانی بھی دینی پڑے وہ یقیناً ہلکی ہے۔
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلَائِكَةُ أَوْ يَأْتِيَ أَمْرُ رَبِّكَ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ وَمَا ظَلَمَهُمُ اللَّهُ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
📘 خدا کی بات انسان کے سامنے اولاً دلائل کے ذریعے بیان کی جاتی ہے۔ یہ دعوتی مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر وہ دلائل کے ذریعے نہ مانے تو پھر وہ وقت آجاتا ہے جب کہ انفرادی موت یا اجتماعی قیامت کی صورت میں اس کو لوگوں کے سامنے کھول دیا جائے۔
آدمی کے سامنے اگر خدا کی بات دلائل کے ذریعے آئے اور وہ ا س کو نظر انداز کردے تو گویا وہ اس دوسرے مرحلہ کا انتظار کررہا ہے جب کہ خدا اور اس کے فرشتے ظاہر ہوجائیں اور آدمی اس بات کو ذلت کے ساتھ ماننے پر مجبور ہوجائے جس کو اسے عزّت کے ساتھ ماننے کا موقع دیا گیا تھا، مگر اس نے نہیں مانا۔
فَأَصَابَهُمْ سَيِّئَاتُ مَا عَمِلُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
📘 خدا کی بات انسان کے سامنے اولاً دلائل کے ذریعے بیان کی جاتی ہے۔ یہ دعوتی مرحلہ ہوتا ہے۔ اگر وہ دلائل کے ذریعے نہ مانے تو پھر وہ وقت آجاتا ہے جب کہ انفرادی موت یا اجتماعی قیامت کی صورت میں اس کو لوگوں کے سامنے کھول دیا جائے۔
آدمی کے سامنے اگر خدا کی بات دلائل کے ذریعے آئے اور وہ ا س کو نظر انداز کردے تو گویا وہ اس دوسرے مرحلہ کا انتظار کررہا ہے جب کہ خدا اور اس کے فرشتے ظاہر ہوجائیں اور آدمی اس بات کو ذلت کے ساتھ ماننے پر مجبور ہوجائے جس کو اسے عزّت کے ساتھ ماننے کا موقع دیا گیا تھا، مگر اس نے نہیں مانا۔
وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
📘 غافل انسان اپنے حق سے انحراف کو جائز ثابت کرنے کے لیے جو باتیں کرتا ہے، اس میں ایک بات یہ ہے کہ جب اس دنیا میں ہر چیز خدا کی مرضی سے ہوتی ہے تو ہمارا موجودہ عمل بھی خدا کی مرضی سے ہے۔ اس کی مرضی نہ ہوتی تو ہم ایسا کرہی نہ پاتے۔ اگر واقعی خدا کو ہمارے کام پسند نہ ہوتے تووہ ہمیں ایسا کام کرنے کیوں دیتا۔ پھر تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ جب بھی ہم اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریںتو وہ فوراً ہمیں روک دے۔
یہ بات آدمی صرف اس لیے کہتا ہے کہ وہ حق ناحق کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتا۔ اگر وہ سنجیدہ ہوتو فوراً اس کی سمجھ میںآجائے کہ اس کو موجودہ عمل کی جو چھوٹ ہے، وہ امتحان کی وجہ سے ہے، نہ کہ خدا کی پسند کی وجہ سے۔
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ
📘 خدا نے کہیں براہِ راست اپنے پیغمبر بھیجے اور کہیں پیغمبر کے نائب اور نمائندہ کے ذریعہ بالواسطہ طورپر اپنا پیغام پہنچانے کا انتظام کیا۔ ان تمام لوگوں نے انسان کو جس چیز کی تلقین کی وہ یہی تھی کہ عبادت کا حق صرف ایک خدا کو ہے۔ شیطان اس عبادت سے انسان کو پھیرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ شیطانی ترغیبات سے بچے۔ ورنہ وہ آدمی کو جھوٹے معبودوں کی پرستش کے راستے پر ڈال دے گا۔
ہدایت اگر چہ واضح ہے۔ مگر اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا انحصار تمام تر اس بات پر ہے کہ آدمی اس کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ جو شخص ہدایت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے گا اس کو اس کی صداقت کو پانے میں دیر نہیں لگے گی۔ مگر جو شخص اس کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو وہ معمولی معمولی باتوں پر اٹک کر رہ جائے گا۔ ایسا آدمی کبھی حق کو نہیں پاسکتا۔
إِنْ تَحْرِصْ عَلَىٰ هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ ۖ وَمَا لَهُمْ مِنْ نَاصِرِينَ
📘 خدا نے کہیں براہِ راست اپنے پیغمبر بھیجے اور کہیں پیغمبر کے نائب اور نمائندہ کے ذریعہ بالواسطہ طورپر اپنا پیغام پہنچانے کا انتظام کیا۔ ان تمام لوگوں نے انسان کو جس چیز کی تلقین کی وہ یہی تھی کہ عبادت کا حق صرف ایک خدا کو ہے۔ شیطان اس عبادت سے انسان کو پھیرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ شیطانی ترغیبات سے بچے۔ ورنہ وہ آدمی کو جھوٹے معبودوں کی پرستش کے راستے پر ڈال دے گا۔
ہدایت اگر چہ واضح ہے۔ مگر اس کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا انحصار تمام تر اس بات پر ہے کہ آدمی اس کے بارے میں کتنا سنجیدہ ہے۔ جو شخص ہدایت پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے گا اس کو اس کی صداقت کو پانے میں دیر نہیں لگے گی۔ مگر جو شخص اس کے بارے میں سنجیدہ نہ ہو وہ معمولی معمولی باتوں پر اٹک کر رہ جائے گا۔ ایسا آدمی کبھی حق کو نہیں پاسکتا۔
وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ لَا يَبْعَثُ اللَّهُ مَنْ يَمُوتُ ۚ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
📘 موجودہ دنیا کچھ اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں حق اور ناحق اس طرح ثابت نہیں ہوپاتے کہ کسی کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہاں آدمی ہر دلیل کو کاٹنے کے لیے کچھ الفاظ پالیتاہے۔ ہر ثابت شدہ چیز کو مشتبہ کرنے کے لیے وہ کوئی نہ کوئی بات نکال ليتا ہے۔
یہ بات کائنات کے مزاج کے سراسر خلاف ہے۔ مادی علوم میں آدمی کے لیے ممکن ہوتاہے کہ وہ قطعی نتائج تک پہنچ سکے۔ اسی طرح یہ بھی ضرور ہونا چاہیے کہ انسانی معاملات میں قطعی حقائق کھل کر سامنے آجائیں۔ یہی وہ کام ہے جو قیامت میں انجام پائے گا۔ شاہ عبد القادر دہلوی لکھتے ہیں— ’’اس جہان میں بہت باتوں کا شبہ رہا۔ کسی نے اللہ کو مانا اور کوئی اس کا منکر رہا تو دوسرا جہان ہونا لازم ہے کہ جھگڑے تحقیق ہوں۔ سچ اور جھوٹ جدا ہو اور مطیع اور منکر اپنا کیا پائیں‘‘۔
لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ كَانُوا كَاذِبِينَ
📘 موجودہ دنیا کچھ اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں حق اور ناحق اس طرح ثابت نہیں ہوپاتے کہ کسی کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہاں آدمی ہر دلیل کو کاٹنے کے لیے کچھ الفاظ پالیتاہے۔ ہر ثابت شدہ چیز کو مشتبہ کرنے کے لیے وہ کوئی نہ کوئی بات نکال ليتا ہے۔
یہ بات کائنات کے مزاج کے سراسر خلاف ہے۔ مادی علوم میں آدمی کے لیے ممکن ہوتاہے کہ وہ قطعی نتائج تک پہنچ سکے۔ اسی طرح یہ بھی ضرور ہونا چاہیے کہ انسانی معاملات میں قطعی حقائق کھل کر سامنے آجائیں۔ یہی وہ کام ہے جو قیامت میں انجام پائے گا۔ شاہ عبد القادر دہلوی لکھتے ہیں— ’’اس جہان میں بہت باتوں کا شبہ رہا۔ کسی نے اللہ کو مانا اور کوئی اس کا منکر رہا تو دوسرا جہان ہونا لازم ہے کہ جھگڑے تحقیق ہوں۔ سچ اور جھوٹ جدا ہو اور مطیع اور منکر اپنا کیا پائیں‘‘۔
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُبِينٌ
📘 انسان کا آغاز ایک حقیر مادہ سے ہوتاہے۔ مگر انسان جب بڑا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مد مقابل بننے کی کوشش کرتاہے۔ وہ خدا کی کائنات میں بے خدا بن کر رہنا چاہتاہے۔ اگر انسان اپنی ابتدائی حقیقت کو نظر میں رکھے تو کبھی وہ زمین میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک چوپائے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی زندہ مشینیں ہیں جو انسان کی مختلف ضروریات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چوپائے گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ اور ان کو انساني خوراک کے لیے گوشت اور دودھ میں تبدیل کرتے ہیں۔ وہ اپنے جسم پر بال اور اون نکالتے ہیں جن سے آدمی اپنی پوشاک بناتاہے۔ وہ انسان کو اور اس کے سامان کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ ان چوپایوں کا گلہ آدمی کے اثاثہ میں شامل ہو کر اس کی حیثیت اور شان میں اضافہ کرتاہے۔
’’اور خدا ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس سے مراد وہ فائدے ہیں جو چوپایوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان دوسرے ذرائع کا ایک حصہ قدیم زمانہ میں بھی انسان کو حاصل تھا۔ اور ان کا بڑا حصہ موجودہ زمانہ میں دریافت کرکے انسان ان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ مثال کے طور پر جانور کی جگہ مشین۔
دنیا میں انسان کے لیے جوبے شمار نعمتیں ہیں وہ انسان نے خود نہیں بنائی ہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس دنیا کا خالق ایک مہربان خالق ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کا شکر گزار بنے اور اس کا حق اداکرے جو محسن ہونے کی حیثیت سے اس کے اوپر لازم آتاہے۔
إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
📘 موجودہ دنیا کچھ اس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں حق اور ناحق اس طرح ثابت نہیں ہوپاتے کہ کسی کے لیے انکار کی گنجائش باقی نہ رہے۔ یہاں آدمی ہر دلیل کو کاٹنے کے لیے کچھ الفاظ پالیتاہے۔ ہر ثابت شدہ چیز کو مشتبہ کرنے کے لیے وہ کوئی نہ کوئی بات نکال ليتا ہے۔
یہ بات کائنات کے مزاج کے سراسر خلاف ہے۔ مادی علوم میں آدمی کے لیے ممکن ہوتاہے کہ وہ قطعی نتائج تک پہنچ سکے۔ اسی طرح یہ بھی ضرور ہونا چاہیے کہ انسانی معاملات میں قطعی حقائق کھل کر سامنے آجائیں۔ یہی وہ کام ہے جو قیامت میں انجام پائے گا۔ شاہ عبد القادر دہلوی لکھتے ہیں— ’’اس جہان میں بہت باتوں کا شبہ رہا۔ کسی نے اللہ کو مانا اور کوئی اس کا منکر رہا تو دوسرا جہان ہونا لازم ہے کہ جھگڑے تحقیق ہوں۔ سچ اور جھوٹ جدا ہو اور مطیع اور منکر اپنا کیا پائیں‘‘۔
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ۖ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
📘 اکثر مفسرین نے اس آیت کو ان 80 صحابہ سے متعلق مانا ہے جو مکہ میں مخالفین اسلام کی زیادتیوں کا نشانہ بن رہے تھے اور بالآخر اپنا وطن چھوڑ کر حبش چلے گئے۔ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے مکی دور میں پیش آیا۔
حق کے معاملہ میں ہمیشہ دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حق کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ اس کی خاطر ملی ہوئی چیزوں کو چھوڑیں یا اپنی زندگی کا نقشہ بدلیں۔ دوسرے وہ لوگ جو حق کو اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ وہی ان کے نزدیک سب سے اہم چیز بن جاتا ہے۔ وہ اس کی خاطر ہر تکلیف کو سہنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وہ حق کو اپنا اہم ترین مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ ہر دوسری چیز کو چھوڑ سکتے ہیں مگر حق کو نہیں چھوڑ سکتے۔
ظاہر ہے کہ دونوں قسم کے گروہوں کا انجام یکساں نہیںہوسکتا۔ جن لوگوں نے حق کو اپنی زندگی میں اہم ترین مقام دیا وہ خدا کی ابدی نعمتوں کے مستحق ٹھہریںگے۔ اور جن لوگوں نے حق کو نظر انداز کیا انھیں خدا بھی نظر انداز کردے گا۔ وہ خدا کے یہاں کوئی عزت کا مقام نہیں پاسکتے اور نہ وہ خدا کی نعمتوں میں حصہ دار بن سکتے۔
الَّذِينَ صَبَرُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
📘 اکثر مفسرین نے اس آیت کو ان 80 صحابہ سے متعلق مانا ہے جو مکہ میں مخالفین اسلام کی زیادتیوں کا نشانہ بن رہے تھے اور بالآخر اپنا وطن چھوڑ کر حبش چلے گئے۔ یہ واقعہ ہجرت مدینہ سے پہلے مکی دور میں پیش آیا۔
حق کے معاملہ میں ہمیشہ دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو حق کو اتنی اہمیت نہ دیں کہ اس کی خاطر ملی ہوئی چیزوں کو چھوڑیں یا اپنی زندگی کا نقشہ بدلیں۔ دوسرے وہ لوگ جو حق کو اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ وہی ان کے نزدیک سب سے اہم چیز بن جاتا ہے۔ وہ اس کی خاطر ہر تکلیف کو سہنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ وہ حق کو اپنا اہم ترین مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ ہر دوسری چیز کو چھوڑ سکتے ہیں مگر حق کو نہیں چھوڑ سکتے۔
ظاہر ہے کہ دونوں قسم کے گروہوں کا انجام یکساں نہیںہوسکتا۔ جن لوگوں نے حق کو اپنی زندگی میں اہم ترین مقام دیا وہ خدا کی ابدی نعمتوں کے مستحق ٹھہریںگے۔ اور جن لوگوں نے حق کو نظر انداز کیا انھیں خدا بھی نظر انداز کردے گا۔ وہ خدا کے یہاں کوئی عزت کا مقام نہیں پاسکتے اور نہ وہ خدا کی نعمتوں میں حصہ دار بن سکتے۔
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 ’’اہل علم‘‘ سے مراد یہاں اہل کتاب ہیں۔ یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھتے ہیں۔ جو چیز ان سے پوچھنے کے لیے فرمائی گئی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ بلکہ یہ کہ پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے وہ انسان تھے یا غیر انسان۔ مکہ والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان ہونے کو اس بات کی دلیل بناتے تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر نہیں ہیں۔ ان سے کہا گیا کہ جن قوموں میں اس سے پہلے پیغمبر آتے رہے ہیں (مثلاً یہود)، ان سے پوچھ کر معلوم کرلو کہ ان کے یہاں جو پیغمبر آئے وہ انسان تھے یا فرشتے۔
پیغمبر صرف ’’یاد دہانی‘‘ کے لیے آتا ہے، یہ یاد دہانی اصلاً دلائل کے ذریعہ ہوتی ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبر اپنے آپ کو اس معاملہ میں پوری طرح سنجیدہ ثابت کرے۔ اگر ایک شخص لوگوں کو جنت اور جہنم سے باخبر کرے اور اسی کے ساتھ وہ ایسے کاموں میں مشغول ہوجو جنت اور جہنم کے معاملہ میں اس کو غیر سنجیدہ ثابت کرتے ہوں تو اس کا دعوتی کام لوگوں کی نظر میں مذاق بن کر رہ جائے گا۔
تاہم دعوت خواہ کتنے ہی اعلیٰ درجہ پر او رکتنے ہی کامل انداز میں پیش کردی جائے اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو خود بھی اس پردھیان دیں۔ جو لوگ دھیان نہ دیں وہ کسی بھی حالت میں دعوت حق سے فیض ياب نہیں ہوسکتے۔
بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ ۗ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
📘 ’’اہل علم‘‘ سے مراد یہاں اہل کتاب ہیں۔ یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھتے ہیں۔ جو چیز ان سے پوچھنے کے لیے فرمائی گئی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ بلکہ یہ کہ پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے وہ انسان تھے یا غیر انسان۔ مکہ والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان ہونے کو اس بات کی دلیل بناتے تھے کہ آپ خدا کے پیغمبر نہیں ہیں۔ ان سے کہا گیا کہ جن قوموں میں اس سے پہلے پیغمبر آتے رہے ہیں (مثلاً یہود)، ان سے پوچھ کر معلوم کرلو کہ ان کے یہاں جو پیغمبر آئے وہ انسان تھے یا فرشتے۔
پیغمبر صرف ’’یاد دہانی‘‘ کے لیے آتا ہے، یہ یاد دہانی اصلاً دلائل کے ذریعہ ہوتی ہے۔ تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ پیغمبر اپنے آپ کو اس معاملہ میں پوری طرح سنجیدہ ثابت کرے۔ اگر ایک شخص لوگوں کو جنت اور جہنم سے باخبر کرے اور اسی کے ساتھ وہ ایسے کاموں میں مشغول ہوجو جنت اور جہنم کے معاملہ میں اس کو غیر سنجیدہ ثابت کرتے ہوں تو اس کا دعوتی کام لوگوں کی نظر میں مذاق بن کر رہ جائے گا۔
تاہم دعوت خواہ کتنے ہی اعلیٰ درجہ پر او رکتنے ہی کامل انداز میں پیش کردی جائے اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو خود بھی اس پردھیان دیں۔ جو لوگ دھیان نہ دیں وہ کسی بھی حالت میں دعوت حق سے فیض ياب نہیں ہوسکتے۔
أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
📘 یہ آیت مکی دور کے آخری زمانہ کی ہے جب کہ مکہ کے مخالفین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازشیں کررہے تھے۔ پیغمبر خدا کی زمین پر خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے پیغمبر کے خلاف اس قسم کی سازش کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو خدا کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہوچکے ہوں۔
حالاں کہ خدا انسان کے اوپر اتنا زیادہ قابو یافتہ ہے کہ وہ چاہے تو انسان کو زمین میں دھنسا دے یا جس مقام کو آدمی اپنے لیے محفوظ سمجھے ہوئے ہے وہیں سے اس کے لیے ایک عذاب پھٹ پڑے۔ یا خدا ایسا کرے کہ لوگوں کی سرگرمیوں کے دوران انھیں پکڑ لے، پھر وہ اپنے آپ کو اس سے بچا نہ سکیں۔ خدا یہ بھی کرسکتا ہے کہ وہ اس طرح انھیں پکڑے کہ وہ خطرے کو محسوس کررہے ہوں اور اس کے لیے پوری طرح بیدار ہوں۔
غرض خدا ہر حالت میں انسان کو پکڑ سکتاہے۔ اگر وہ لوگوں کو شرارتیں کرتے دیکھتاہے اور اس کے باوجود وہ ان کو نہیں پکڑتا تو لوگوں کو بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس کی مصلحت امتحان ہے، نہ کہ اس کا عجز۔
أَوْ يَأْخُذَهُمْ فِي تَقَلُّبِهِمْ فَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ
📘 یہ آیت مکی دور کے آخری زمانہ کی ہے جب کہ مکہ کے مخالفین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازشیں کررہے تھے۔ پیغمبر خدا کی زمین پر خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے پیغمبر کے خلاف اس قسم کی سازش کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو خدا کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہوچکے ہوں۔
حالاں کہ خدا انسان کے اوپر اتنا زیادہ قابو یافتہ ہے کہ وہ چاہے تو انسان کو زمین میں دھنسا دے یا جس مقام کو آدمی اپنے لیے محفوظ سمجھے ہوئے ہے وہیں سے اس کے لیے ایک عذاب پھٹ پڑے۔ یا خدا ایسا کرے کہ لوگوں کی سرگرمیوں کے دوران انھیں پکڑ لے، پھر وہ اپنے آپ کو اس سے بچا نہ سکیں۔ خدا یہ بھی کرسکتا ہے کہ وہ اس طرح انھیں پکڑے کہ وہ خطرے کو محسوس کررہے ہوں اور اس کے لیے پوری طرح بیدار ہوں۔
غرض خدا ہر حالت میں انسان کو پکڑ سکتاہے۔ اگر وہ لوگوں کو شرارتیں کرتے دیکھتاہے اور اس کے باوجود وہ ان کو نہیں پکڑتا تو لوگوں کو بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس کی مصلحت امتحان ہے، نہ کہ اس کا عجز۔
أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَىٰ تَخَوُّفٍ فَإِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
📘 یہ آیت مکی دور کے آخری زمانہ کی ہے جب کہ مکہ کے مخالفین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازشیں کررہے تھے۔ پیغمبر خدا کی زمین پر خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس لیے پیغمبر کے خلاف اس قسم کی سازش کرنا ایسے ہی لوگوں کا کام ہوسکتا ہے جو خدا کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہوچکے ہوں۔
حالاں کہ خدا انسان کے اوپر اتنا زیادہ قابو یافتہ ہے کہ وہ چاہے تو انسان کو زمین میں دھنسا دے یا جس مقام کو آدمی اپنے لیے محفوظ سمجھے ہوئے ہے وہیں سے اس کے لیے ایک عذاب پھٹ پڑے۔ یا خدا ایسا کرے کہ لوگوں کی سرگرمیوں کے دوران انھیں پکڑ لے، پھر وہ اپنے آپ کو اس سے بچا نہ سکیں۔ خدا یہ بھی کرسکتا ہے کہ وہ اس طرح انھیں پکڑے کہ وہ خطرے کو محسوس کررہے ہوں اور اس کے لیے پوری طرح بیدار ہوں۔
غرض خدا ہر حالت میں انسان کو پکڑ سکتاہے۔ اگر وہ لوگوں کو شرارتیں کرتے دیکھتاہے اور اس کے باوجود وہ ان کو نہیں پکڑتا تو لوگوں کو بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس کی مصلحت امتحان ہے، نہ کہ اس کا عجز۔
أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِلَّهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ
📘 انسان ایک ایسی دنیا میں سرکشی کرتاہے، جس میں اس کے چاروں طرف اس کو تابعداری کا سبق دیا جارہا ہے۔ مثال کے طورپر مادی اجسام کے سائے۔ ایک چیز جو کھڑی ہوئی ہو، اس کا سایہ زمین پر پڑ جاتا ہے۔ اس طرح وہ سجدہ کو ممثل کررہا ہے۔ وہ تمثیلی انداز میں بتاتاہے کہ انسان کو کس طرح اپنے خالق کے آگے جھک جانا چاہیے۔
فرشتے اگر چہ انسان کو نظر نہیں آتے۔ مگر عظیم کائنات کا اس قدر منظم ہو کر چلنا ثابت کرتاہے کہ اس کو چلانے کے لیے خدا نے اپنے جو کارندے مقرر کيے ہیں وہ انتہائی طاقت ور ہیں۔ یہ فرشتے غیر معمولی طاقت ور ہونے کے باوجود خدا کے حد درجہ مطیع ہیں۔ اگر وہ حد درجہ مطیع نہ ہوں تو کائنات کا نظام اس درجہ صحت اور یکسانیت کے ساتھ مسلسل چلتا ہوا نظر نہ آئے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے صحیح رویہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی اطاعت میں دے دے، وہ مکمل طورپر اس کا فرماں بردار بن جائے۔
وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ وَالْمَلَائِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ
📘 انسان ایک ایسی دنیا میں سرکشی کرتاہے، جس میں اس کے چاروں طرف اس کو تابعداری کا سبق دیا جارہا ہے۔ مثال کے طورپر مادی اجسام کے سائے۔ ایک چیز جو کھڑی ہوئی ہو، اس کا سایہ زمین پر پڑ جاتا ہے۔ اس طرح وہ سجدہ کو ممثل کررہا ہے۔ وہ تمثیلی انداز میں بتاتاہے کہ انسان کو کس طرح اپنے خالق کے آگے جھک جانا چاہیے۔
فرشتے اگر چہ انسان کو نظر نہیں آتے۔ مگر عظیم کائنات کا اس قدر منظم ہو کر چلنا ثابت کرتاہے کہ اس کو چلانے کے لیے خدا نے اپنے جو کارندے مقرر کيے ہیں وہ انتہائی طاقت ور ہیں۔ یہ فرشتے غیر معمولی طاقت ور ہونے کے باوجود خدا کے حد درجہ مطیع ہیں۔ اگر وہ حد درجہ مطیع نہ ہوں تو کائنات کا نظام اس درجہ صحت اور یکسانیت کے ساتھ مسلسل چلتا ہوا نظر نہ آئے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے صحیح رویہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی اطاعت میں دے دے، وہ مکمل طورپر اس کا فرماں بردار بن جائے۔
وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
📘 انسان کا آغاز ایک حقیر مادہ سے ہوتاہے۔ مگر انسان جب بڑا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مد مقابل بننے کی کوشش کرتاہے۔ وہ خدا کی کائنات میں بے خدا بن کر رہنا چاہتاہے۔ اگر انسان اپنی ابتدائی حقیقت کو نظر میں رکھے تو کبھی وہ زمین میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک چوپائے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی زندہ مشینیں ہیں جو انسان کی مختلف ضروریات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چوپائے گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ اور ان کو انساني خوراک کے لیے گوشت اور دودھ میں تبدیل کرتے ہیں۔ وہ اپنے جسم پر بال اور اون نکالتے ہیں جن سے آدمی اپنی پوشاک بناتاہے۔ وہ انسان کو اور اس کے سامان کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ ان چوپایوں کا گلہ آدمی کے اثاثہ میں شامل ہو کر اس کی حیثیت اور شان میں اضافہ کرتاہے۔
’’اور خدا ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس سے مراد وہ فائدے ہیں جو چوپایوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان دوسرے ذرائع کا ایک حصہ قدیم زمانہ میں بھی انسان کو حاصل تھا۔ اور ان کا بڑا حصہ موجودہ زمانہ میں دریافت کرکے انسان ان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ مثال کے طور پر جانور کی جگہ مشین۔
دنیا میں انسان کے لیے جوبے شمار نعمتیں ہیں وہ انسان نے خود نہیں بنائی ہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس دنیا کا خالق ایک مہربان خالق ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کا شکر گزار بنے اور اس کا حق اداکرے جو محسن ہونے کی حیثیت سے اس کے اوپر لازم آتاہے۔
يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ۩
📘 انسان ایک ایسی دنیا میں سرکشی کرتاہے، جس میں اس کے چاروں طرف اس کو تابعداری کا سبق دیا جارہا ہے۔ مثال کے طورپر مادی اجسام کے سائے۔ ایک چیز جو کھڑی ہوئی ہو، اس کا سایہ زمین پر پڑ جاتا ہے۔ اس طرح وہ سجدہ کو ممثل کررہا ہے۔ وہ تمثیلی انداز میں بتاتاہے کہ انسان کو کس طرح اپنے خالق کے آگے جھک جانا چاہیے۔
فرشتے اگر چہ انسان کو نظر نہیں آتے۔ مگر عظیم کائنات کا اس قدر منظم ہو کر چلنا ثابت کرتاہے کہ اس کو چلانے کے لیے خدا نے اپنے جو کارندے مقرر کيے ہیں وہ انتہائی طاقت ور ہیں۔ یہ فرشتے غیر معمولی طاقت ور ہونے کے باوجود خدا کے حد درجہ مطیع ہیں۔ اگر وہ حد درجہ مطیع نہ ہوں تو کائنات کا نظام اس درجہ صحت اور یکسانیت کے ساتھ مسلسل چلتا ہوا نظر نہ آئے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے صحیح رویہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے آپ کو خدا کی اطاعت میں دے دے، وہ مکمل طورپر اس کا فرماں بردار بن جائے۔
۞ وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
📘 پیغمبروں کے ذریعہ خدا نے انسان کو اس سے ڈرایا ہے کہ وہ ایک معبود کے سوا دوسرے معبود اپنے لیے بنائے۔ اس کائنات کا معبود صرف ایک ہے۔ اسی سے آدمی کو ڈرنا چاہیے۔ اس کو صرف اسی کی تابع داری کرنا چاہیے۔
اگر آدمی کو اس بات کا صحیح ادراک ہوجائے کہ خدا ہی انسان کا اور تمام موجودات کا خالق ومالک ہے۔ اسی پر اس کی زندگی کا سارا دارومدار ہے تو اس ادراک کے لازمی نتیجہ کے طورپر جو کیفیت آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے اسی کا نام تقویٰ ہے۔
زمین وآسمان میں خدا ہی کی دائمی اطاعت ہے۔ یہاں ہر چیز مکمل طورپر قانونِ خداوندی میں جکڑی ہوئی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں کسی اور کی عبادت کرنا یا کسی اور سے امید قائم کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ موجودہ کائنات ایسے شرک کو قبول کرنے سے سراسر انکار کرتی ہے۔
وَلَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَهُ الدِّينُ وَاصِبًا ۚ أَفَغَيْرَ اللَّهِ تَتَّقُونَ
📘 پیغمبروں کے ذریعہ خدا نے انسان کو اس سے ڈرایا ہے کہ وہ ایک معبود کے سوا دوسرے معبود اپنے لیے بنائے۔ اس کائنات کا معبود صرف ایک ہے۔ اسی سے آدمی کو ڈرنا چاہیے۔ اس کو صرف اسی کی تابع داری کرنا چاہیے۔
اگر آدمی کو اس بات کا صحیح ادراک ہوجائے کہ خدا ہی انسان کا اور تمام موجودات کا خالق ومالک ہے۔ اسی پر اس کی زندگی کا سارا دارومدار ہے تو اس ادراک کے لازمی نتیجہ کے طورپر جو کیفیت آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے اسی کا نام تقویٰ ہے۔
زمین وآسمان میں خدا ہی کی دائمی اطاعت ہے۔ یہاں ہر چیز مکمل طورپر قانونِ خداوندی میں جکڑی ہوئی ہے۔ ایک ایسی دنیا میں کسی اور کی عبادت کرنا یا کسی اور سے امید قائم کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ موجودہ کائنات ایسے شرک کو قبول کرنے سے سراسر انکار کرتی ہے۔
وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَإِلَيْهِ تَجْأَرُونَ
📘 پوری تاریخ کا تجربہ ہے کہ آدمی جب کسی ایسی مصیبت میں پڑتا ہے جہاں وہ اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگے تو اس وقت وہ خدا کو یاد کرنے لگتا ہے۔ منکر اور مشرک دونوں ہی ایسا کرتے ہیں۔ اس تجربہ سے معلوم ہوا کہ خدا کا تصور انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ جب تمام دوسرے علائق کٹ جاتے ہیں تو آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ صرف خدا ہے۔
مگر یہ انسان کی عجیب غفلت ہے کہ جب وہ مصیبت سے نجات پاتاہے تو دوبارہ اپنے فرضی خداؤں کی یاد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ ملی ہوئی نعمت کو خدا کے بجائے دوسری دوسری چیزوں کی طرف منسوب کردیتاہے۔ اس کو وہ عظیم سبق یاد نہیں رہتا جو خود اس کی فطرت نے چند لمحہ پہلے اس کو دیا تھا۔
شیطان نے فرضی معبودوں كي معبودیت کے عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے طرح طرح کی جھوٹی رسمیں عوام میں رائج کررکھی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے— اپنی آمدنی میں فرضی معبودوں کا حصہ نکالنا۔ اس قسم کی رسمیں خدا کی دنیا میں ایک بہتان کی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز کے لیے غیر خدا کا شکر ادا کرنے کے ہم معنی ہیں۔
ثُمَّ إِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
📘 پوری تاریخ کا تجربہ ہے کہ آدمی جب کسی ایسی مصیبت میں پڑتا ہے جہاں وہ اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگے تو اس وقت وہ خدا کو یاد کرنے لگتا ہے۔ منکر اور مشرک دونوں ہی ایسا کرتے ہیں۔ اس تجربہ سے معلوم ہوا کہ خدا کا تصور انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ جب تمام دوسرے علائق کٹ جاتے ہیں تو آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ صرف خدا ہے۔
مگر یہ انسان کی عجیب غفلت ہے کہ جب وہ مصیبت سے نجات پاتاہے تو دوبارہ اپنے فرضی خداؤں کی یاد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ ملی ہوئی نعمت کو خدا کے بجائے دوسری دوسری چیزوں کی طرف منسوب کردیتاہے۔ اس کو وہ عظیم سبق یاد نہیں رہتا جو خود اس کی فطرت نے چند لمحہ پہلے اس کو دیا تھا۔
شیطان نے فرضی معبودوں كي معبودیت کے عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے طرح طرح کی جھوٹی رسمیں عوام میں رائج کررکھی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے— اپنی آمدنی میں فرضی معبودوں کا حصہ نکالنا۔ اس قسم کی رسمیں خدا کی دنیا میں ایک بہتان کی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز کے لیے غیر خدا کا شکر ادا کرنے کے ہم معنی ہیں۔
لِيَكْفُرُوا بِمَا آتَيْنَاهُمْ ۚ فَتَمَتَّعُوا ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
📘 پوری تاریخ کا تجربہ ہے کہ آدمی جب کسی ایسی مصیبت میں پڑتا ہے جہاں وہ اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگے تو اس وقت وہ خدا کو یاد کرنے لگتا ہے۔ منکر اور مشرک دونوں ہی ایسا کرتے ہیں۔ اس تجربہ سے معلوم ہوا کہ خدا کا تصور انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ جب تمام دوسرے علائق کٹ جاتے ہیں تو آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ صرف خدا ہے۔
مگر یہ انسان کی عجیب غفلت ہے کہ جب وہ مصیبت سے نجات پاتاہے تو دوبارہ اپنے فرضی خداؤں کی یاد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ ملی ہوئی نعمت کو خدا کے بجائے دوسری دوسری چیزوں کی طرف منسوب کردیتاہے۔ اس کو وہ عظیم سبق یاد نہیں رہتا جو خود اس کی فطرت نے چند لمحہ پہلے اس کو دیا تھا۔
شیطان نے فرضی معبودوں كي معبودیت کے عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے طرح طرح کی جھوٹی رسمیں عوام میں رائج کررکھی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے— اپنی آمدنی میں فرضی معبودوں کا حصہ نکالنا۔ اس قسم کی رسمیں خدا کی دنیا میں ایک بہتان کی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز کے لیے غیر خدا کا شکر ادا کرنے کے ہم معنی ہیں۔
وَيَجْعَلُونَ لِمَا لَا يَعْلَمُونَ نَصِيبًا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ۗ تَاللَّهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ
📘 پوری تاریخ کا تجربہ ہے کہ آدمی جب کسی ایسی مصیبت میں پڑتا ہے جہاں وہ اپنے کو عاجز محسوس کرنے لگے تو اس وقت وہ خدا کو یاد کرنے لگتا ہے۔ منکر اور مشرک دونوں ہی ایسا کرتے ہیں۔ اس تجربہ سے معلوم ہوا کہ خدا کا تصور انسانی فطرت میں پیوست ہے۔ جب تمام دوسرے علائق کٹ جاتے ہیں تو آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ صرف خدا ہے۔
مگر یہ انسان کی عجیب غفلت ہے کہ جب وہ مصیبت سے نجات پاتاہے تو دوبارہ اپنے فرضی خداؤں کی یاد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ ملی ہوئی نعمت کو خدا کے بجائے دوسری دوسری چیزوں کی طرف منسوب کردیتاہے۔ اس کو وہ عظیم سبق یاد نہیں رہتا جو خود اس کی فطرت نے چند لمحہ پہلے اس کو دیا تھا۔
شیطان نے فرضی معبودوں كي معبودیت کے عقیدے کو پختہ کرنے کے لیے طرح طرح کی جھوٹی رسمیں عوام میں رائج کررکھی ہیں۔ ان میں سے ایک ہے— اپنی آمدنی میں فرضی معبودوں کا حصہ نکالنا۔ اس قسم کی رسمیں خدا کی دنیا میں ایک بہتان کی حیثیت رکھتی ہیں کیوں کہ وہ خدا کی طرف سے ملی ہوئی چیز کے لیے غیر خدا کا شکر ادا کرنے کے ہم معنی ہیں۔
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَهُ ۙ وَلَهُمْ مَا يَشْتَهُونَ
📘 ایک خداکے سوا انسان نے دوسرے جو معبود بنائے ہیں ان میں دیوتا بھی ہیں اور دیویاں بھی۔ یہاں دیویوں کے عقیدے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ایک عام مثال دی گئی ہے۔ مرد کے مقابلہ میں عورت چونکہ کمزور ہوتی ہے، اس کے علاوہ عام حالات میں وہ اثاثہ سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے عام طورپر لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔اور لڑکی کی پیدائش پر کم۔ اب جب کہ لڑکے اور لڑکی میں یہ فرق ہے تو خدا اگر اپنے لیے اولاد پیدا کرتا تو وہ لڑکیاں کیوں پیدا کرتا۔
انسان کس لیے اولاد چاہتا ہے۔ اس لیے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اپنی کمی کو پورا کرسکے۔مگر خدا اس طرح کی کمیوں سے بلند ہے۔ خدا کی عظمت وقدرت جو اس کی کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ خدا اس سے بلند وبرتر ہے کہ اس کے اندر ایسی کوئی کمی ہو جس کی تلافی کے لیے وہ اپنے یہاں لڑکا اور لڑکی پیدا کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اگر کمیوں والا ہوتاتو وہ خدا ہی نہ ہوتا۔ خدا اسی لیے خدا ہے کہ وہ ہر قسم کی تمام کمیوں سے پاک ہے۔
وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ
📘 ایک خداکے سوا انسان نے دوسرے جو معبود بنائے ہیں ان میں دیوتا بھی ہیں اور دیویاں بھی۔ یہاں دیویوں کے عقیدے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ایک عام مثال دی گئی ہے۔ مرد کے مقابلہ میں عورت چونکہ کمزور ہوتی ہے، اس کے علاوہ عام حالات میں وہ اثاثہ سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے عام طورپر لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔اور لڑکی کی پیدائش پر کم۔ اب جب کہ لڑکے اور لڑکی میں یہ فرق ہے تو خدا اگر اپنے لیے اولاد پیدا کرتا تو وہ لڑکیاں کیوں پیدا کرتا۔
انسان کس لیے اولاد چاہتا ہے۔ اس لیے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اپنی کمی کو پورا کرسکے۔مگر خدا اس طرح کی کمیوں سے بلند ہے۔ خدا کی عظمت وقدرت جو اس کی کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ خدا اس سے بلند وبرتر ہے کہ اس کے اندر ایسی کوئی کمی ہو جس کی تلافی کے لیے وہ اپنے یہاں لڑکا اور لڑکی پیدا کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اگر کمیوں والا ہوتاتو وہ خدا ہی نہ ہوتا۔ خدا اسی لیے خدا ہے کہ وہ ہر قسم کی تمام کمیوں سے پاک ہے۔
يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ
📘 ایک خداکے سوا انسان نے دوسرے جو معبود بنائے ہیں ان میں دیوتا بھی ہیں اور دیویاں بھی۔ یہاں دیویوں کے عقیدے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ایک عام مثال دی گئی ہے۔ مرد کے مقابلہ میں عورت چونکہ کمزور ہوتی ہے، اس کے علاوہ عام حالات میں وہ اثاثہ سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے عام طورپر لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔اور لڑکی کی پیدائش پر کم۔ اب جب کہ لڑکے اور لڑکی میں یہ فرق ہے تو خدا اگر اپنے لیے اولاد پیدا کرتا تو وہ لڑکیاں کیوں پیدا کرتا۔
انسان کس لیے اولاد چاہتا ہے۔ اس لیے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اپنی کمی کو پورا کرسکے۔مگر خدا اس طرح کی کمیوں سے بلند ہے۔ خدا کی عظمت وقدرت جو اس کی کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ خدا اس سے بلند وبرتر ہے کہ اس کے اندر ایسی کوئی کمی ہو جس کی تلافی کے لیے وہ اپنے یہاں لڑکا اور لڑکی پیدا کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اگر کمیوں والا ہوتاتو وہ خدا ہی نہ ہوتا۔ خدا اسی لیے خدا ہے کہ وہ ہر قسم کی تمام کمیوں سے پاک ہے۔
وَلَكُمْ فِيهَا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ
📘 انسان کا آغاز ایک حقیر مادہ سے ہوتاہے۔ مگر انسان جب بڑا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مد مقابل بننے کی کوشش کرتاہے۔ وہ خدا کی کائنات میں بے خدا بن کر رہنا چاہتاہے۔ اگر انسان اپنی ابتدائی حقیقت کو نظر میں رکھے تو کبھی وہ زمین میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک چوپائے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی زندہ مشینیں ہیں جو انسان کی مختلف ضروریات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چوپائے گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ اور ان کو انساني خوراک کے لیے گوشت اور دودھ میں تبدیل کرتے ہیں۔ وہ اپنے جسم پر بال اور اون نکالتے ہیں جن سے آدمی اپنی پوشاک بناتاہے۔ وہ انسان کو اور اس کے سامان کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ ان چوپایوں کا گلہ آدمی کے اثاثہ میں شامل ہو کر اس کی حیثیت اور شان میں اضافہ کرتاہے۔
’’اور خدا ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس سے مراد وہ فائدے ہیں جو چوپایوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان دوسرے ذرائع کا ایک حصہ قدیم زمانہ میں بھی انسان کو حاصل تھا۔ اور ان کا بڑا حصہ موجودہ زمانہ میں دریافت کرکے انسان ان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ مثال کے طور پر جانور کی جگہ مشین۔
دنیا میں انسان کے لیے جوبے شمار نعمتیں ہیں وہ انسان نے خود نہیں بنائی ہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس دنیا کا خالق ایک مہربان خالق ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کا شکر گزار بنے اور اس کا حق اداکرے جو محسن ہونے کی حیثیت سے اس کے اوپر لازم آتاہے۔
لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ ۖ وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 ایک خداکے سوا انسان نے دوسرے جو معبود بنائے ہیں ان میں دیوتا بھی ہیں اور دیویاں بھی۔ یہاں دیویوں کے عقیدے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ایک عام مثال دی گئی ہے۔ مرد کے مقابلہ میں عورت چونکہ کمزور ہوتی ہے، اس کے علاوہ عام حالات میں وہ اثاثہ سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، اس لیے عام طورپر لوگ لڑکے کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔اور لڑکی کی پیدائش پر کم۔ اب جب کہ لڑکے اور لڑکی میں یہ فرق ہے تو خدا اگر اپنے لیے اولاد پیدا کرتا تو وہ لڑکیاں کیوں پیدا کرتا۔
انسان کس لیے اولاد چاہتا ہے۔ اس لیے تاکہ وہ اس کے ذریعے سے اپنی کمی کو پورا کرسکے۔مگر خدا اس طرح کی کمیوں سے بلند ہے۔ خدا کی عظمت وقدرت جو اس کی کائنات میں ظاہر ہوئی ہے وہ بتاتی ہے کہ خدا اس سے بلند وبرتر ہے کہ اس کے اندر ایسی کوئی کمی ہو جس کی تلافی کے لیے وہ اپنے یہاں لڑکا اور لڑکی پیدا کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا اگر کمیوں والا ہوتاتو وہ خدا ہی نہ ہوتا۔ خدا اسی لیے خدا ہے کہ وہ ہر قسم کی تمام کمیوں سے پاک ہے۔
وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَٰكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
📘 ظلم پر گرفت کی ایک شکل یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی شخص ظلم کرے فوراً اس کو پکڑ کر سخت سزا دی جائے۔ مگر خدا کا یہ طریقہ نہیں۔ اگر خدا ایسا کرے تو زمین پر کوئی چلنے والا باقی نہ رہے۔ خدا نے ہر شخص اور ہر قوم کو ایک مقرر مہلت دی ہے۔ اس مدت تک وہ ہر ایک کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز سے یا خارجی تنبیہات سے چوکنا ہو اور اپنی اصلاح کرلے۔ اصلاح کرتے ہی لوگوں کے پچھلے تمام جرائم معاف کردیے جاتے ہیں۔ وہ ایسے ہو جاتے ہیں کہ جیسے انھوں نے ابھی نئی زندگی شروع کی ہو۔
دورانِ مہلت نہ پکڑنا جس طرح خدا نے اپنے اوپر لازم کیا ہے اسی طرح اس نے یہ بھی اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ ختم مہلت کے بعد وہ لوگوں کو ضرور پکڑے۔ مہلت ختم ہونے کے بعد کسی کو مزید موقع نہیں دیا جاتا، نہ فرد کو نہ قوم کو۔
وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ مَا يَكْرَهُونَ وَتَصِفُ أَلْسِنَتُهُمُ الْكَذِبَ أَنَّ لَهُمُ الْحُسْنَىٰ ۖ لَا جَرَمَ أَنَّ لَهُمُ النَّارَ وَأَنَّهُمْ مُفْرَطُونَ
📘 انسانی گمراہیوں کی بہت بڑی وجہ خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ کرنا ہے۔ اکثر غلط عقائد اسی لیے بنے کہ خدا کو اس سے کم سمجھ لیاگیا جیسا کہ وہ حقیقۃً ہے۔ حتی کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ جو چیزیں کمتر سمجھ کر وہ خود اپنے لیے پسند نہیں کرتے (مثلاً بیٹیاں یااپنی مِلک میں کسی اجنبی کی شرکت)، اس کو بھی وہ خداکے لیے ثابت کرنے لگتے ہیں۔
خدا کے اسی کمتر اندازہ کا نتیجہ ہے کہ لوگ خدا پر عقیدہ رکھتے ہوئے خدا سے بے خوف رہتے ہیں۔ وہ نہایت معمولی معمولی چیزوں کے بارے میں یہ عقیدہ بنا لیتے ہیں کہ وہ ان کو خدا کی قربت دے دیں گی۔ اور آخرت کی تمام نعمتیں ان کے حصے میں لکھ دی جائیں گی۔ جو چیز ایک عام انسان کو بھی خوش نہیں کرسکتی اس کے متعلق یہ عقیدہ بنالیا جاتا ہے کہ وہ خداکو خوش کردے گی۔ اس قسم کی کوئی حرکت غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے جس کو خدا کبھی معاف نہیں کرسکتا۔
تَاللَّهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 رسول کی دعوت جب اٹھتی ہے تو سننے والے محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کے رواجی مذہب سے ٹکرا رہی ہے۔ اب چونکہ وہ اس رواجی مذہب سے مانوس ہوتے ہیں اور اس سے ان کے بہت سے مفادات وابستہ ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس سے لپٹے رہیں۔ اس وقت شیطان انھیں ایسے خوب صورت الفاظ سجھا دیتا ہے جس سے وہ پیغمبر کے دین کوچھوڑنے اور رواجی دین پر قائم رہنے کو درست ثابت کرسکیں۔
آدمی اگر رسول کی بات کو سیدھی طرح مان لے تو یہ خدا کو اپنا ساتھی بنانا ہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ خوب صورت تاویلات کا سہارا لے تو یہ شیطان کو اپنا ساتھی بنانا ہوگا۔
پیغمبر آخر الزمان کو بھیج کر خدا نے یہ انتظام کیا تھا کہ لوگ مذہبی اختلافات کے جنگل کے درمیان خدا کے سچے راستے کو معلوم کرسکیں۔ یہی صورت حال آج بھی باقی ہے۔ ایک شخص خدا کے راستے کی تلاش میں ہو اور وہ مختلف مذاہب کا مطالعہ کرے تو وہ یقیناً ذہنی انتشار میں پڑ جائے گا۔ کیوں کہ مذاہب کی جو تعلیمات آج موجود ہیں ان میں باہم سخت اختلافات ہیں۔ چنانچہ حق کے متلاشی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس چیز کو صحیح سمجھے اور کس چیز کو غلط۔
ایسی حالت میں پیغمبر آخر الزماں کا لایا ہوا دین خدا کے بندوں کے لیے رحمت ہے کیونکہ دوسرے ادیان کے برعکس، آپ کا دین ایک محفوظ دین ہے۔ وہ تاریخی اعتبار سے پوری طرح مستند ہے۔ اس بنا پر پورا اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے جو دین چھوڑا وہی وہ حقیقی دین ہے جو خدا کو اپنے بندوں سے مطلوب ہے۔
وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ ۙ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 رسول کی دعوت جب اٹھتی ہے تو سننے والے محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کے رواجی مذہب سے ٹکرا رہی ہے۔ اب چونکہ وہ اس رواجی مذہب سے مانوس ہوتے ہیں اور اس سے ان کے بہت سے مفادات وابستہ ہوچکے ہوتے ہیں اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اس سے لپٹے رہیں۔ اس وقت شیطان انھیں ایسے خوب صورت الفاظ سجھا دیتا ہے جس سے وہ پیغمبر کے دین کوچھوڑنے اور رواجی دین پر قائم رہنے کو درست ثابت کرسکیں۔
آدمی اگر رسول کی بات کو سیدھی طرح مان لے تو یہ خدا کو اپنا ساتھی بنانا ہے۔ اس کے برعکس، اگر وہ خوب صورت تاویلات کا سہارا لے تو یہ شیطان کو اپنا ساتھی بنانا ہوگا۔
پیغمبر آخر الزمان کو بھیج کر خدا نے یہ انتظام کیا تھا کہ لوگ مذہبی اختلافات کے جنگل کے درمیان خدا کے سچے راستے کو معلوم کرسکیں۔ یہی صورت حال آج بھی باقی ہے۔ ایک شخص خدا کے راستے کی تلاش میں ہو اور وہ مختلف مذاہب کا مطالعہ کرے تو وہ یقیناً ذہنی انتشار میں پڑ جائے گا۔ کیوں کہ مذاہب کی جو تعلیمات آج موجود ہیں ان میں باہم سخت اختلافات ہیں۔ چنانچہ حق کے متلاشی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس چیز کو صحیح سمجھے اور کس چیز کو غلط۔
ایسی حالت میں پیغمبر آخر الزماں کا لایا ہوا دین خدا کے بندوں کے لیے رحمت ہے کیونکہ دوسرے ادیان کے برعکس، آپ کا دین ایک محفوظ دین ہے۔ وہ تاریخی اعتبار سے پوری طرح مستند ہے۔ اس بنا پر پورا اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ آپ نے جو دین چھوڑا وہی وہ حقیقی دین ہے جو خدا کو اپنے بندوں سے مطلوب ہے۔
وَاللَّهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
📘 بارش اور نباتات کا نظام اپنے اندر بہت بڑا سبق رکھتا ہے۔ مختلف عوامل کی متحدہ کارفرمائی سے پانی کے قطرے فضا میں جاکر دوبارہ زمین پر بارش کی صورت میں برستے ہیں۔ پھر یہ بارش حیرت انگیز طورپر زمین پر سبزہ اگانے کا سبب بنتی ہے۔
اس واقعہ میں ایک طرف یہ سبق ہے کہ اس کائنات میں چاروں طرف ایک خدا کی کارفرمائی ہے۔ اگر یہاں کئی خداؤں کی کارفرمائی ہوتی تو کائنات کی مختلف طاقتیں اس طرح ہم آہنگ ہو کر مشترکہ عمل نہیں کرسکتی تھیں۔ کائنات کے نظام کی وحدانیت واضح طورپر اس کاثبوت ہے کہ اس کا خالق و مالک صرف ایک ہے، نہ کہ ایک سے زیادہ۔دوسرا سبق یہ ہے کہ خدا کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ وہ مردہ جسم میں زندگی پیدا کرسکتی ہے۔ وہ سوکھی ہوئی چیزوں میں ہریالی، رنگ، خوشبو اور مزہ کا باغ اگا سکتی ہے۔
پہلے واقعہ میں توحید کا ثبوت ہے، اور دوسرا واقعہ تمثیل کے روپ میں بتا رہا ہے کہ اسی طرح انسانی روحوں کے لیے بھی ایک خدائی بارش ہے، اور وہ وحی ہے۔ جو شخص اپنی مردہ اور سوکھی ہوئی روح کو نئی زندگی دینا چاهے، اسے اپنے آپ کو وحی خداوندی کی بارش میں نہلانا چاہیے۔
وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِلشَّارِبِينَ
📘 دودھ دینے والے جانوروں میں یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ جو کچھ کھاتے ہیں وہ ایک طرف ان کے اندر گوبر اور خون بناتا ہے، دوسری طرف اسی کے درمیان سے دودھ جیسا قیمتی سیال بھی بن کر نکلتاہے جو انسان کے لیے بے حد قیمتی غذا ہے۔ یہی حال درختوں کا ہے۔ ان کے اندر مٹی اور پانی جیسی چیزیں داخل ہوتی ہیں اور پھر ان کے اندرونی نظام کے تحت وہ رس دار پھل کی صورت میں شاخوں میں لٹک پڑتی ہیں۔
یہ واقعات اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کو خدا کی یاد دلائیں۔ آدمی اس میں خدا کی قدرت کی جھلکیاں دیکھنے لگے، حتی کہ اس کا یہ احساس اتنا بڑھے کہ وہ پکار اٹھے کہ خدایا تو جو گوبر اور خون کے درمیان سے دودھ جیسی چیز نکالتا ہے، میرے ناموافق حالات کے اندر سے موافق نتائج ظاہر کردے۔ تو جو مٹی اور پانی کو پھل میں تبدیل کردیتاہے، میری بے قیمت زندگی کو باقیمت زندگی بنا دے۔
’’تم ان سے نشہ کی چیز بھی بناتے ہو اور رزقِ حسن بھی‘‘۔ ا س میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں خدا نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کا صحیح استعمال بھی ہے اور ان کا غلط استعمال بھی۔ کھجور اور انگور کو ا س کی قدرتی صورت میں کھایا جائے تو وہ صحت بخش غذا ہے جس سے جسم اور عقل کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر انسانی عمل سے اس کو نشہ میں تبدیل کردیا جائے تو وہ جسم کو بھی نقصان پہنچاتی ہے اور عقل کو بھی بگاڑدینے والی ہے۔
وَمِنْ ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 دودھ دینے والے جانوروں میں یہ عجیب خصوصیت ہے کہ وہ جو کچھ کھاتے ہیں وہ ایک طرف ان کے اندر گوبر اور خون بناتا ہے، دوسری طرف اسی کے درمیان سے دودھ جیسا قیمتی سیال بھی بن کر نکلتاہے جو انسان کے لیے بے حد قیمتی غذا ہے۔ یہی حال درختوں کا ہے۔ ان کے اندر مٹی اور پانی جیسی چیزیں داخل ہوتی ہیں اور پھر ان کے اندرونی نظام کے تحت وہ رس دار پھل کی صورت میں شاخوں میں لٹک پڑتی ہیں۔
یہ واقعات اس لیے ہیں کہ وہ لوگوں کو خدا کی یاد دلائیں۔ آدمی اس میں خدا کی قدرت کی جھلکیاں دیکھنے لگے، حتی کہ اس کا یہ احساس اتنا بڑھے کہ وہ پکار اٹھے کہ خدایا تو جو گوبر اور خون کے درمیان سے دودھ جیسی چیز نکالتا ہے، میرے ناموافق حالات کے اندر سے موافق نتائج ظاہر کردے۔ تو جو مٹی اور پانی کو پھل میں تبدیل کردیتاہے، میری بے قیمت زندگی کو باقیمت زندگی بنا دے۔
’’تم ان سے نشہ کی چیز بھی بناتے ہو اور رزقِ حسن بھی‘‘۔ ا س میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں خدا نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کا صحیح استعمال بھی ہے اور ان کا غلط استعمال بھی۔ کھجور اور انگور کو ا س کی قدرتی صورت میں کھایا جائے تو وہ صحت بخش غذا ہے جس سے جسم اور عقل کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر انسانی عمل سے اس کو نشہ میں تبدیل کردیا جائے تو وہ جسم کو بھی نقصان پہنچاتی ہے اور عقل کو بھی بگاڑدینے والی ہے۔
وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ
📘 یہاں ایک مادی مثال کی صورت میں معنوی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔شہد کی مکھی خدا کی قدرت کا ایک حیرت ناک شاہکار ہے۔ وہ ریاضیاتی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے انتہائی معیاری قسم کا چھتہ (honeycomb) بناتی ہے۔ پھر خاص منصوبہ بند انداز میں پھولوں کا رس (nectar)چوس کر لاتی ہے۔ اس کو ایک کامل ترین نظام کے تحت چھتوں میں اکٹھا کرتی ہے۔ پھر عین قوانین صحت کے مطابق شہد جیسی قیمتی چیز تیار کرتی ہے، جو انسان کے لیے غذا بھی ہے اور علاج بھی۔یہ سب کچھ اتنے عجیب اور اتنے منظم انداز میں ہوتا ہے کہ اس پر موٹی موٹی کتابیں لکھی گئی ہیں، پھر بھی اس کا بیان مکمل نہیں ہوا۔شہد کی یہ خدائی فیکٹری تمام انسانی کارخانوں سے زیادہ پیچیدہ اور زیادہ کامیاب ہے۔ تاہم بظاہر وہ ایسی مکھیوں کے ذریعہ چلایا جارہا ہے جنھوں نے کہیں اس فن کی تعلیم نہیں پائی۔ حتیٰ کہ ان کو اپنے اعمال کا ذاتی شعور بھی حاصل نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کروانے والا ہے جو اپنی مخفی ہدایات کے ذریعہ مکھیوں سے یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔ شہد کی مکھیوں کو اگر کوئی دیکھنے والا دیکھے تو وہ ان کی حیران کن حد تک بامعنی سرگرمیوں میں خدا کی کارفرمائی کا زندہ مشاہدہ کرنے لگے گا۔شہد کی مکھی کی مثال دینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس پراسس میں شہد کی مکھی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے پھولوں کے پاس پہنچ کر صرف اس کا نکٹر لیتی ہے، کسی اور چیز میں ڈسٹریکٹ نہیں ہوتی۔ یہی تدبر ہے۔ یہ دنیا ایک جنگل کی مانند ہے، مگر اس میں ہر جگہ حکمت و معرفت کے نِکٹر چھپے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ انسان کو عقل و تدبر کی صلاحیت ملی ہوئی ہے، جو آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کے جنگل میں ڈسٹریکٹ (distract) نہ ہو۔انسان کو چاہیے کہ وہ کائنات میں غور وفکر کے ذریعہ حکمت و معرفت کا نکٹر حاصل کرے ۔ جو طریقہ شہد کی مکھی کے لیے ’’رس‘‘ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، وہی انسان کی سطح پر پہنچ کر ’’معرفت‘‘ کا ذریعہ بن جاتا ہے، جس میں انسان کی روح کی غذا بھی ہے اور اس کی اخلاقی بیماریوں کا علاج بھی ۔
ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
📘 یہاں ایک مادی مثال کی صورت میں معنوی حقیقت کو بتایا گیا ہے۔شہد کی مکھی خدا کی قدرت کا ایک حیرت ناک شاہکار ہے۔ وہ ریاضیاتی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے انتہائی معیاری قسم کا چھتہ (honeycomb) بناتی ہے۔ پھر خاص منصوبہ بند انداز میں پھولوں کا رس (nectar)چوس کر لاتی ہے۔ اس کو ایک کامل ترین نظام کے تحت چھتوں میں اکٹھا کرتی ہے۔ پھر عین قوانین صحت کے مطابق شہد جیسی قیمتی چیز تیار کرتی ہے، جو انسان کے لیے غذا بھی ہے اور علاج بھی۔یہ سب کچھ اتنے عجیب اور اتنے منظم انداز میں ہوتا ہے کہ اس پر موٹی موٹی کتابیں لکھی گئی ہیں، پھر بھی اس کا بیان مکمل نہیں ہوا۔شہد کی یہ خدائی فیکٹری تمام انسانی کارخانوں سے زیادہ پیچیدہ اور زیادہ کامیاب ہے۔ تاہم بظاہر وہ ایسی مکھیوں کے ذریعہ چلایا جارہا ہے جنھوں نے کہیں اس فن کی تعلیم نہیں پائی۔ حتیٰ کہ ان کو اپنے اعمال کا ذاتی شعور بھی حاصل نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کروانے والا ہے جو اپنی مخفی ہدایات کے ذریعہ مکھیوں سے یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔ شہد کی مکھیوں کو اگر کوئی دیکھنے والا دیکھے تو وہ ان کی حیران کن حد تک بامعنی سرگرمیوں میں خدا کی کارفرمائی کا زندہ مشاہدہ کرنے لگے گا۔شہد کی مکھی کی مثال دینے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس پراسس میں شہد کی مکھی دوسری تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے پھولوں کے پاس پہنچ کر صرف اس کا نکٹر لیتی ہے، کسی اور چیز میں ڈسٹریکٹ نہیں ہوتی۔ یہی تدبر ہے۔ یہ دنیا ایک جنگل کی مانند ہے، مگر اس میں ہر جگہ حکمت و معرفت کے نِکٹر چھپے ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ انسان کو عقل و تدبر کی صلاحیت ملی ہوئی ہے، جو آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا کے جنگل میں ڈسٹریکٹ (distract) نہ ہو۔انسان کو چاہیے کہ وہ کائنات میں غور وفکر کے ذریعہ حکمت و معرفت کا نکٹر حاصل کرے ۔ جو طریقہ شہد کی مکھی کے لیے ’’رس‘‘ حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، وہی انسان کی سطح پر پہنچ کر ’’معرفت‘‘ کا ذریعہ بن جاتا ہے، جس میں انسان کی روح کی غذا بھی ہے اور اس کی اخلاقی بیماریوں کا علاج بھی ۔
وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَمْ تَكُونُوا بَالِغِيهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
📘 انسان کا آغاز ایک حقیر مادہ سے ہوتاہے۔ مگر انسان جب بڑا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مد مقابل بننے کی کوشش کرتاہے۔ وہ خدا کی کائنات میں بے خدا بن کر رہنا چاہتاہے۔ اگر انسان اپنی ابتدائی حقیقت کو نظر میں رکھے تو کبھی وہ زمین میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک چوپائے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی زندہ مشینیں ہیں جو انسان کی مختلف ضروریات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چوپائے گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ اور ان کو انساني خوراک کے لیے گوشت اور دودھ میں تبدیل کرتے ہیں۔ وہ اپنے جسم پر بال اور اون نکالتے ہیں جن سے آدمی اپنی پوشاک بناتاہے۔ وہ انسان کو اور اس کے سامان کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ ان چوپایوں کا گلہ آدمی کے اثاثہ میں شامل ہو کر اس کی حیثیت اور شان میں اضافہ کرتاہے۔
’’اور خدا ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس سے مراد وہ فائدے ہیں جو چوپایوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان دوسرے ذرائع کا ایک حصہ قدیم زمانہ میں بھی انسان کو حاصل تھا۔ اور ان کا بڑا حصہ موجودہ زمانہ میں دریافت کرکے انسان ان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ مثال کے طور پر جانور کی جگہ مشین۔
دنیا میں انسان کے لیے جوبے شمار نعمتیں ہیں وہ انسان نے خود نہیں بنائی ہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس دنیا کا خالق ایک مہربان خالق ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کا شکر گزار بنے اور اس کا حق اداکرے جو محسن ہونے کی حیثیت سے اس کے اوپر لازم آتاہے۔
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَىٰ أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
📘 زندگی کا مظہر جو زمین پر ہے اس کے کئی پہلو انسان کے سامنے آتے ہیں— ایک شخص نہیں تھا اس کے بعد وہ دنیا میں موجود ہوگیا،پھر ہر ایک مرتا ہے مگر سب کا ایک وقت نہیں۔ کوئی بچپن میں مرتا ہے، کوئی جوانی میں اور کوئی بڑھاپے میں۔ پھر یہ منظر بھی عجیب ہے کہ عمر کی آخری حد پر پہنچ کر عقل اور علم اور طاقت آدمی سے بالکل رخصت ہوجاتے ہیں۔ انسان موجودہ زمین پر بظاہر آزاد ہے مگر اس کو اپنی کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں۔
یہ سب اس لیے ہوتا ہے کہ تاکہ انسان کو بتایا جائے کہ علم اور قدرت دونوں صرف خدا کا حصہ ہیں۔ انسانی زندگی میں مذکورہ قسم کے جو واقعات پیش آتے ہیں ان میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں۔ وہ ان میں کوئی تبدیلی کرنے پر قادر نہیں۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ جو کچھ ہور ہا ہے وہ کسی اور کرنے والے کے ذریعے ہورہا ہے۔ بچپن سے موت تک انسان کی زندگی یہ گواہی دیتی ہے کہ یہاں سارا علم بھی صرف خدا کے لیے ہے اور ساری قدرت بھی صرف خدا کے لیے— انسان کی مجبوری قادر مطلق خدا کی موجودگی کا ثبوت ہے۔
وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ ۚ فَمَا الَّذِينَ فُضِّلُوا بِرَادِّي رِزْقِهِمْ عَلَىٰ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَهُمْ فِيهِ سَوَاءٌ ۚ أَفَبِنِعْمَةِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ
📘 یہاں ایک سادہ سی مثال کے ذریعہ اس عقیدہ کو غلط ثابت کیاگیا ہے کہ خدا کے کچھ شریک ہیں۔ اور اس نے اپنے اختیارات کا ایک حصہ اپنے ان شریکوں کو دے دیا ہے۔ وہ مثال یہ کہ دنیا میں روزی کی تقسیم یکساں نہیں۔ عام طورپر دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی کے پاس بہت زیادہ ہوتا ہے اور کسی کے پاس اتنا کم ہوتاہے کہ وہ زیادہ والے کے یہاں نوکر اور غلام بننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اب کوئی بھی زیادہ والا ایسا نہیں کرتا کہ اپنی دولت اپنے نوکروں میں بانٹ دے اور اس طرح اپنا اور نوکروں کا فرق مٹا کر یکساں ہوجائے۔ پھر خدا کے بارے میں یہ ماننا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ اس نے اپنے اختیارات دوسروں کو تقسیم کردیے ہیں۔
کوئی شخص اپنی بڑائی کا آپ انکار نہیں کرتا۔ پھر جو بات ایک انسان بھی پسند نہیں کرتا، حالانکہ اس کے پاس کوئی ذاتی اثاثہ نہیں، اس بات کو خدا کیوں پسند کرے گا جس کے پاس جو کچھ ہے اس کا اپنا ذاتی ہے۔ کسی دوسرے کا دیا ہوا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے تمام عقیدے خدا کی ہستی کی نفی کررہے ہیں۔ وہ خدا کوغیر خدا کی سطح پر پہنچا رہے ہیں جو کسی حال میں ممکن نہیں۔
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ ان تمام ضرورتوں کا انتظام نہایت کامل صورت میں دنیا کے اندر موجود ہے۔آدمی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو یہاں کھانے پینے کی بہترین چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔ آدمی کو شخصی سکون کے لیے بیوی درکار ہے تو یہاں عین اس کے تقاضوں کے مطابق مسلسل عورتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ آدمی کے سامنے اپنی نسل کی بقا کا مسئلہ ہے تو یہاں اس کے لیے بیٹے اور پوتے کی پیدائش کا نظام بھی موجود ہے۔
یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے۔ مگر ہر زمانے میں انسان نے یہ غلطی کی کہ خدا کی ان نعمتوں کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا۔ مشرک لوگ ان کو خدا کے سوا دیوی دیوتاؤں یا زندہ مُردہ ہستیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، او رجو ملحد ہیں وہ اس کو قوانین فطرت کے اندھے عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ نعمتوں کا یہ نظام اس لیے تھا کہ اس کو دیکھ کر آدمی کے اندر شکر خداوندی کا جذبہ امنڈے۔ مگر خود ساختہ تخیلات کی بنا پر یہ نظام اس کے لیے صرف کفر ِ خداوندی کی غذا دینے کا ذریعہ بن گیا۔
اکثر اعتقادی گمراہیاں مثالوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً انسان کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو اسی پر قیاس کرکے سمجھ لیا گیا کہ خدا کے بھی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ دنیا میں بڑے لوگوں کے یہاں کچھ افراد ہوتے ہیں جو مقرب اور سفارشی ہوتے ہیں۔ اس کو مثال بنا کر فرض کرلیا گیا کہ خدا کے دربار میں بھی کچھ قربت والے ہیں اور خدا کے یہاں ان کی سفارشیں چلتی ہیں۔
اسی قسم کی تمثیلات سے شرک اور گمراہی کی اکثر قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ مگر یہ خالق کو مخلوق کے اوپر قیاس کرنا ہے جو سراسر جہالت ہے۔ خالق ہر اعتبار سے مخلوق سے مختلف ہے۔ مخلوق کی کوئی مثال خالق پر چسپاں نہیں ہوتی۔ مثال کے ذریعہ بات کو سمجھانا بجائے خود غلط نہیں۔ مگر مثال اسی وقت کار آمد ہے جب کہ آدمی کو اصل اور تشبیہہ دونوں کا علم ہو۔ انسان جب خدا کی حقیقت کو نہیں جانتا تو کیسے وہ اس کے مطابق کوئی مثال لا سکتا ہے۔
وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ
📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ ان تمام ضرورتوں کا انتظام نہایت کامل صورت میں دنیا کے اندر موجود ہے۔آدمی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو یہاں کھانے پینے کی بہترین چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔ آدمی کو شخصی سکون کے لیے بیوی درکار ہے تو یہاں عین اس کے تقاضوں کے مطابق مسلسل عورتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ آدمی کے سامنے اپنی نسل کی بقا کا مسئلہ ہے تو یہاں اس کے لیے بیٹے اور پوتے کی پیدائش کا نظام بھی موجود ہے۔
یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے۔ مگر ہر زمانے میں انسان نے یہ غلطی کی کہ خدا کی ان نعمتوں کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا۔ مشرک لوگ ان کو خدا کے سوا دیوی دیوتاؤں یا زندہ مُردہ ہستیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، او رجو ملحد ہیں وہ اس کو قوانین فطرت کے اندھے عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ نعمتوں کا یہ نظام اس لیے تھا کہ اس کو دیکھ کر آدمی کے اندر شکر خداوندی کا جذبہ امنڈے۔ مگر خود ساختہ تخیلات کی بنا پر یہ نظام اس کے لیے صرف کفر ِ خداوندی کی غذا دینے کا ذریعہ بن گیا۔
اکثر اعتقادی گمراہیاں مثالوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً انسان کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو اسی پر قیاس کرکے سمجھ لیا گیا کہ خدا کے بھی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ دنیا میں بڑے لوگوں کے یہاں کچھ افراد ہوتے ہیں جو مقرب اور سفارشی ہوتے ہیں۔ اس کو مثال بنا کر فرض کرلیا گیا کہ خدا کے دربار میں بھی کچھ قربت والے ہیں اور خدا کے یہاں ان کی سفارشیں چلتی ہیں۔
اسی قسم کی تمثیلات سے شرک اور گمراہی کی اکثر قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ مگر یہ خالق کو مخلوق کے اوپر قیاس کرنا ہے جو سراسر جہالت ہے۔ خالق ہر اعتبار سے مخلوق سے مختلف ہے۔ مخلوق کی کوئی مثال خالق پر چسپاں نہیں ہوتی۔ مثال کے ذریعہ بات کو سمجھانا بجائے خود غلط نہیں۔ مگر مثال اسی وقت کار آمد ہے جب کہ آدمی کو اصل اور تشبیہہ دونوں کا علم ہو۔ انسان جب خدا کی حقیقت کو نہیں جانتا تو کیسے وہ اس کے مطابق کوئی مثال لا سکتا ہے۔
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ ان تمام ضرورتوں کا انتظام نہایت کامل صورت میں دنیا کے اندر موجود ہے۔آدمی کو بھوک پیاس لگتی ہے تو یہاں کھانے پینے کی بہترین چیزیں افراط کے ساتھ موجود ہیں۔ آدمی کو شخصی سکون کے لیے بیوی درکار ہے تو یہاں عین اس کے تقاضوں کے مطابق مسلسل عورتیں پیدا کی جارہی ہیں۔ آدمی کے سامنے اپنی نسل کی بقا کا مسئلہ ہے تو یہاں اس کے لیے بیٹے اور پوتے کی پیدائش کا نظام بھی موجود ہے۔
یہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہے۔ مگر ہر زمانے میں انسان نے یہ غلطی کی کہ خدا کی ان نعمتوں کو غیر خدا کی طرف منسوب کردیا۔ مشرک لوگ ان کو خدا کے سوا دیوی دیوتاؤں یا زندہ مُردہ ہستیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، او رجو ملحد ہیں وہ اس کو قوانین فطرت کے اندھے عمل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ نعمتوں کا یہ نظام اس لیے تھا کہ اس کو دیکھ کر آدمی کے اندر شکر خداوندی کا جذبہ امنڈے۔ مگر خود ساختہ تخیلات کی بنا پر یہ نظام اس کے لیے صرف کفر ِ خداوندی کی غذا دینے کا ذریعہ بن گیا۔
اکثر اعتقادی گمراہیاں مثالوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً انسان کے بیٹے بیٹیاں ہیں تو اسی پر قیاس کرکے سمجھ لیا گیا کہ خدا کے بھی بیٹے بیٹیاں ہیں۔ دنیا میں بڑے لوگوں کے یہاں کچھ افراد ہوتے ہیں جو مقرب اور سفارشی ہوتے ہیں۔ اس کو مثال بنا کر فرض کرلیا گیا کہ خدا کے دربار میں بھی کچھ قربت والے ہیں اور خدا کے یہاں ان کی سفارشیں چلتی ہیں۔
اسی قسم کی تمثیلات سے شرک اور گمراہی کی اکثر قسمیں پیدا ہوتی ہیں۔ مگر یہ خالق کو مخلوق کے اوپر قیاس کرنا ہے جو سراسر جہالت ہے۔ خالق ہر اعتبار سے مخلوق سے مختلف ہے۔ مخلوق کی کوئی مثال خالق پر چسپاں نہیں ہوتی۔ مثال کے ذریعہ بات کو سمجھانا بجائے خود غلط نہیں۔ مگر مثال اسی وقت کار آمد ہے جب کہ آدمی کو اصل اور تشبیہہ دونوں کا علم ہو۔ انسان جب خدا کی حقیقت کو نہیں جانتا تو کیسے وہ اس کے مطابق کوئی مثال لا سکتا ہے۔
۞ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوكًا لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا ۖ هَلْ يَسْتَوُونَ ۚ الْحَمْدُ لِلَّهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 مشرکانہ تمثیلات کی غلطی واضح کرنے کے لیے یہاں ایک سادہ اور عام مثال دی گئی ہے۔ ایک شخص ہے جس کے پاس ہر قسم کے اسباب ہیں اور وہ ان کا ذاتی مالک ہے۔ وہیں دوسرا شخص ہے جوکسی بھی چیز کا ذاتی مالک نہیں۔ یہ دونوں آدمی ایک دوسرے سے نوعی طورپر مختلف ہیں۔ اس لیے ایک کی مثال دوسرے پر کبھی چسپاں نہیں ہوگی۔ پھر خدا اور بندے میں یہ نوعی فرق تو اپنے کمال پر پہنچا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں کیسے ممکن ہے کہ انسان کے واقعات سے خدا پر مثال قائم کی جائے۔اس کائنات میں خدا اور دوسری چیزوں کے درمیان جو تقسیم ہے وہ خالق اور مخلوق کی تقسیم ہے، نہ کہ خدا اور شریکِ خدا کی ۔ خدا کی ہستی وہ ہستی ہے جو ہر قسم کے کمالات کا ذاتی سرچشمہ ہے۔ جو ہر قسم کی نعمتوں کا تنہا بخشنے والا ہے۔ اس کائنات میں سب سے زیادہ خلافِ واقعہ بات یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کے لیےوہ چیزیں فرض کی جائیں جن میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّهْهُ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَنْ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 اوپر آیت نمبر
75
میں خدا کے مقابلے میں شرکاء کا بے حقیقت ہونا بتایاگیا تھا۔ اب آیت
76
میں رسول کے مقابلہ میں ان ہستیوں کا بے حقیقت ہونا واضح کیا جارہا ہے جن کے بل پر آدمی رسول کی ہدایت کو نظر انداز کرتاہے۔
پیغمبر کو خدا اپنی خصوصی توجہ کے ذریعہ اس شاہراہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جوحق کی شاہراہ ہے اور جو براہِ راست خدا تک پہنچانے والی ہے۔ پیغمبر اور اس کے ساتھی اس شاہراہ پر خود چلتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کی طرف رہنمائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پیغمبر کے راستے کے سوا دوسرے راستوں کی طرف بلاتے ہیں۔ ان کی مثال اندھے بہرے کی ہے۔ ان کے پاس کان نہیں کہ وہ خدا کی آوازوں کو سنیں، ان کے پاس آنکھ نہیں کہ ا س کے ذریعہ خدا کے جلوؤں کو دیکھیں۔ ان کے اندر وہ قلب ودماغ نہیں کہ وہ کائنات میں پھیلی ہوئی خدائی نشانیوں کو پالیں۔
سمع وبصر وفواد اس لیے دئے گئے تھے کہ ان کے ذریعہ آدمی مخلوقات کے آئینہ میں خالق کا جلوہ دیکھے۔ مگر انسان نے ان کا استعمال یہ کیا کہ وہ خود مخلوقات میں اٹک کر رہ گیا۔
وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 عالم ظاہر کے پیچھے ایک غیبی نظام ہے۔ یہ غیبی نظام خدا کا قائم کیا ہوا ہے۔ اپنی محدودیت کی وجہ سے اگر چہ ہم اس غیبی نظام کو نہیں دیکھتے مگر خود اس غیبی نظام پر ہماری ہر چیز بالکل کھلی ہوئی ہے۔ خدا غیب میں رہ کر ہر آن اپنی دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو دیکھ رہا ہے۔ اس کو ہر بات کا صحیح ترین اندازہ ہے۔ خدا جب فیصلہ کرے گا کہ اب انسان کے امتحان کی مدت تمام ہوچکی ہے، عین اس وقت وہ اشارہ کرے گا اور اس کے بعد پلک جھپکتے میں موجودہ نظام یک لخت ٹوٹ جائے گا اور نیا نظام بالکل مختلف بنیادوں پر قائم ہوگاتاکہ ہر ایک کو اس اصل مقام پر پہنچا دیا جائے جہاں وہ باعتبار واقعہ تھا، نہ کہ اس مقام پر جہاں وہ مصنوعی طورپر اپنے آپ کو بٹھائے ہوئے تھا۔
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ بالکل عاجز اور بے سمجھ بچہ ہوتاہے۔ مگر بڑا ہو کر وہ ان حیرت انگیز قوتوں کا مالک بن جاتا ہے جن کو کان اور آنکھ اور عقل کہتے ہیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ آدمی جس روز پیدا ہو اسی روز اس کے اندر وہ تمام صلاحیتیں موجود ہوں جو بڑی عمر کو پہنچ کر اس کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔
مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ صرف اس لیے کہ انسان کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو۔ اوّلاً وہ اپنی ابتدائی بے بسی کی حالت کو دیکھے اور پھر یہ دیکھے کہ بعد کوکس طرح وہ ایک ترقی یافتہ حالت کو پہنچ گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ خدا کی ملی ہوئی نعمت کا احساس کرے اور خدا کی احسان مندی کے جذبہ سے سرشار ہوجائے۔
کسی آدمی کے اندر یہ کیفیت صرف اس وقت پیدا ہوسکتی ہے جب کہ وہ خدا کی دی ہوئی قوتوں کو صحیح طورپر استعمال کرے۔ اس کے کان اور آنکھ اور دل بس ظاہری دنیامیں اٹک کر نہ رہ جائیں بلکہ وہ اس کے لیے ایسے روشن دان بن جائیں جن کے ذریعہ جھانک کر کوئی شخص غیب کی جھلکیوںکو دیکھ لیتا ہے۔
أَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِّ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
📘 پرندوں کا فضا میں اڑنا قدرت کی ایک عظیم منصوبہ بندی کے تحت ممکن ہوتاہے۔ پرواز کے مقصد کے لیے پرندوں کی نہایت موزوں بناوٹ، جس کی مشینی نقل ہوائی جہاز کی صورت میں کی گئی ہے۔ زمین کے اوپر ہوا جو پرندوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے کشتی کے لیے سمندر۔ زمینی کشش کی وجہ سے ہوا کا مسلسل زمین کے اوپر قائم رہنا وغیرہ۔ یہ اعلیٰ انتظامات اگر نہ ہوں تو فضا میں پرندوں کا اڑنا ممکن نہ ہوسکے۔
اس واقعہ کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو آدمی کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا وہ خدا کو اپنی کائنات میں عمل کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ وہ تخلیقی نظام کے اندر اس کے خالق کو پا جائے گا۔ وہ مصنوعات کے درمیان صانع کا جلوہ دیکھ لے گا۔
یہی معاملہ خود انسان کا ہے۔ گھر آدمی کے لیے سکون کا مقام ہے۔ لیکن گھر کیسے بنتا ہے۔ خدا کے بہت سے انتظامات ہیں جن کی وجہ سے زمین پر ایک گھر کا قیام ممکن ہوتاہے۔ وہ تمام تعمیری اجزاء جن کے ذریعے ایک مکان بنتا ہے، پیشگی طورپر ہماری دنیامیں رکھ دئے گئے ہیں۔ زمین میں نہایت مناسب مقدار میں قوت کشش ہے جس کی وجہ سے مکانات زمین کی سطح پر جمے کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ہوئی زمین کے اوپر مکانات اڑ جائیں۔اسی طرح وہ چیزیں جن سے آدمی ہلکے پھلکے خیمے بناتا ہے اور وہ چیزیں جن میں یہ صلاحیت ہے کہ انسان کے لباس کی صورت میں ڈھل جائیں اور اس کی زینت کا اور موسموں میںاس کی جسمانی حفاظت کا کام دیں۔
اس طرح کی تمام چیزیں اس لیے ہیں کہ آدمی کے اندر اپنے رب کی نعمتوں پر شکر کا جذبہ بیدار ہو، وہ اس کی عظمت وقدرت کے احساس سے اس کے آگے گر پڑے۔
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 انسان کا آغاز ایک حقیر مادہ سے ہوتاہے۔ مگر انسان جب بڑا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مد مقابل بننے کی کوشش کرتاہے۔ وہ خدا کی کائنات میں بے خدا بن کر رہنا چاہتاہے۔ اگر انسان اپنی ابتدائی حقیقت کو نظر میں رکھے تو کبھی وہ زمین میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرے۔
انسان کو موجودہ دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں سے ایک چوپائے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی زندہ مشینیں ہیں جو انسان کی مختلف ضروریات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ یہ چوپائے گھاس اور چارہ کھاتے ہیں۔ اور ان کو انساني خوراک کے لیے گوشت اور دودھ میں تبدیل کرتے ہیں۔ وہ اپنے جسم پر بال اور اون نکالتے ہیں جن سے آدمی اپنی پوشاک بناتاہے۔ وہ انسان کو اور اس کے سامان کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔ ان چوپایوں کا گلہ آدمی کے اثاثہ میں شامل ہو کر اس کی حیثیت اور شان میں اضافہ کرتاہے۔
’’اور خدا ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس سے مراد وہ فائدے ہیں جو چوپایوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں۔ ان دوسرے ذرائع کا ایک حصہ قدیم زمانہ میں بھی انسان کو حاصل تھا۔ اور ان کا بڑا حصہ موجودہ زمانہ میں دریافت کرکے انسان ان سے فائدہ اٹھا رہاہے۔ مثال کے طور پر جانور کی جگہ مشین۔
دنیا میں انسان کے لیے جوبے شمار نعمتیں ہیں وہ انسان نے خود نہیں بنائی ہیں بلکہ وہ خدا کی طرف سے اس کے لیے مہیا کی گئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس دنیا کا خالق ایک مہربان خالق ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ انسان اپنے خالق کا شکر گزار بنے اور اس کا حق اداکرے جو محسن ہونے کی حیثیت سے اس کے اوپر لازم آتاہے۔
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ بُيُوتِكُمْ سَكَنًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعَامِ بُيُوتًا تَسْتَخِفُّونَهَا يَوْمَ ظَعْنِكُمْ وَيَوْمَ إِقَامَتِكُمْ ۙ وَمِنْ أَصْوَافِهَا وَأَوْبَارِهَا وَأَشْعَارِهَا أَثَاثًا وَمَتَاعًا إِلَىٰ حِينٍ
📘 پرندوں کا فضا میں اڑنا قدرت کی ایک عظیم منصوبہ بندی کے تحت ممکن ہوتاہے۔ پرواز کے مقصد کے لیے پرندوں کی نہایت موزوں بناوٹ، جس کی مشینی نقل ہوائی جہاز کی صورت میں کی گئی ہے۔ زمین کے اوپر ہوا جو پرندوں کے لیے ایسی ہی ہے جیسے کشتی کے لیے سمندر۔ زمینی کشش کی وجہ سے ہوا کا مسلسل زمین کے اوپر قائم رہنا وغیرہ۔ یہ اعلیٰ انتظامات اگر نہ ہوں تو فضا میں پرندوں کا اڑنا ممکن نہ ہوسکے۔
اس واقعہ کو گہری نظر سے دیکھا جائے تو آدمی کو ایسا معلوم ہوگا کہ گویا وہ خدا کو اپنی کائنات میں عمل کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔ وہ تخلیقی نظام کے اندر اس کے خالق کو پا جائے گا۔ وہ مصنوعات کے درمیان صانع کا جلوہ دیکھ لے گا۔
یہی معاملہ خود انسان کا ہے۔ گھر آدمی کے لیے سکون کا مقام ہے۔ لیکن گھر کیسے بنتا ہے۔ خدا کے بہت سے انتظامات ہیں جن کی وجہ سے زمین پر ایک گھر کا قیام ممکن ہوتاہے۔ وہ تمام تعمیری اجزاء جن کے ذریعے ایک مکان بنتا ہے، پیشگی طورپر ہماری دنیامیں رکھ دئے گئے ہیں۔ زمین میں نہایت مناسب مقدار میں قوت کشش ہے جس کی وجہ سے مکانات زمین کی سطح پر جمے کھڑے ہوتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتی ہوئی زمین کے اوپر مکانات اڑ جائیں۔اسی طرح وہ چیزیں جن سے آدمی ہلکے پھلکے خیمے بناتا ہے اور وہ چیزیں جن میں یہ صلاحیت ہے کہ انسان کے لباس کی صورت میں ڈھل جائیں اور اس کی زینت کا اور موسموں میںاس کی جسمانی حفاظت کا کام دیں۔
اس طرح کی تمام چیزیں اس لیے ہیں کہ آدمی کے اندر اپنے رب کی نعمتوں پر شکر کا جذبہ بیدار ہو، وہ اس کی عظمت وقدرت کے احساس سے اس کے آگے گر پڑے۔
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِمَّا خَلَقَ ظِلَالًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْجِبَالِ أَكْنَانًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيلَ تَقِيكُمُ الْحَرَّ وَسَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ
📘 چھت کا اور دوسری چیزوں کا سایہ کتنی اہمیت رکھتا ہے، اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آدمی اپنے آپ کوکسی ایسے صحرا میں پائے جہاں کسی قسم کا کوئی سایہ نہ ہو۔ سورج کی حد درجہ حسابی حرارت کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک معمولی آڑ بھی ہمیں سایہ دے دیتي ہے۔ حالاں کہ اگر سورج کی حرارت موجودہ حرارت سے زیادہ ہوتی، جو یقینی طورپر ممکن تھی، تو ہمارے تمام سایہ دار گھر آگ کی بھٹی میں تبدیل ہوجاتے۔ پہاڑ جیسی سخت چٹانوں میں ایسے شگاف ہونا جہاں آدمی اپنی پناہ گاہیں بنا سکے۔ دنیا میں ایسی چیزیں موجود ہونا جو باریک ریشوں میں ڈھل کر آدمی کو اس کے جسم کے بچاؤ کے لیے لباس دیں۔ اس قسم کی چیزیں آدمی جیسی مخلوق کے لیے اتنی اہم ہیںکہ اگر وہ نہ ہوتیں تو زمین پر نہ انسان کا وجود ہوتا اور نہ کسی انسانی تہذیب کا۔
یہ معرفت بیک وقت آدمی کے اندر دو چیزیں پیدا کرتی ہے۔ ایک، خدا کے لیے احسان مندی کا جذبہ، کیوں کہ وہی ہے جس نے آدمی کو ایسی قیمتی نعمتیں دیں، دوسري، اندیشہ کا جذبہ، کیوںکہ خدا اگر اپنی نعمتوں کو واپس لے لے تو اس کے بعد آدمی کے پاس ان کی تلافی کی کوئی صورت نہیں۔ یہ احساسات جب آدمی کے اندرون کو اس طرح جگا دیں کہ وہ اپنے رب کے سامنے گر پڑے تو اسی کا نام عبادت ہے۔
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
📘 جو شخص بھی کائنات کا مطالعہ کرتا ہے ، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک سائنس داں ، اس پر ایسے لمحات گذرتے ہیں، جب کہ مخلوقات پر غورکرتے ہوئے اس کا ذہن خالق کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ حیرت ناک چیز یں نہ تو اپنے آپ بن گئی ہیں اور نہ مفروضہ معبودوں نے ان کو بنایا ہے ۔ ان کا بنانے والا یقیناً خدائے بزرگ و برتر ہے۔
مگر خدا کو ماننا لازمی طورپر آدمی کی اپنی زندگی میں تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے ۔ اس ليے آدمی پر جب یہ تجربہ گزرتا ہے تو وقتی تاثر کے بعد وہ اپنے ذہن کو اس طرف سے ہٹا دیتا ہے۔ وہ خدا کو پاکر بھی خدا کو چھوڑ دیتا ہے۔
يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ
📘 جو شخص بھی کائنات کا مطالعہ کرتا ہے ، خواہ وہ ایک عام آدمی ہو یا ایک سائنس داں ، اس پر ایسے لمحات گذرتے ہیں، جب کہ مخلوقات پر غورکرتے ہوئے اس کا ذہن خالق کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ اس کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ حیرت ناک چیز یں نہ تو اپنے آپ بن گئی ہیں اور نہ مفروضہ معبودوں نے ان کو بنایا ہے ۔ ان کا بنانے والا یقیناً خدائے بزرگ و برتر ہے۔
مگر خدا کو ماننا لازمی طورپر آدمی کی اپنی زندگی میں تبدیلی کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ آدمی سے اس کی آزادی چھین لیتا ہے ۔ اس ليے آدمی پر جب یہ تجربہ گزرتا ہے تو وقتی تاثر کے بعد وہ اپنے ذہن کو اس طرف سے ہٹا دیتا ہے۔ وہ خدا کو پاکر بھی خدا کو چھوڑ دیتا ہے۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا ثُمَّ لَا يُؤْذَنُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَلَا هُمْ يُسْتَعْتَبُونَ
📘 پیغمبر اور پیغمبر کے سچے پیروؤں کا قوموں کے سامنے حق کا داعی بن کر اٹھنا بظاہر ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتاہے۔ دنیا نے عام طورپر ان واقعات کو اتنا کم اہم سمجھا ہے کہ ایک پیغمبر آخر الزماں کو چھوڑ کر کوئی بھی دوسرا پیغمبر نہیں جس کا کام اس کي معاصر تاریخوں میں قابل ذکر قرار پایاہو۔
مگر یہ کام اس وقت بے حد اہم اور بے حد سنگین بن جاتا ہے جب کہ اس کو آخرت سے جوڑ کر دیکھا جائے۔ کیوں کہ آخرت کی عظیم عدالت میں یہی پیغمبر اور داعی خدا کے گواہ ہوں گے اور انھیں کی گواہی پر لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جن افراد کے بارے میں گواہ یہ کہیں گے کہ انھوںنے حق کو مانا اور اپنے آپ کو اس کی اطاعت میں دیا وہ وہاں کی ابدی دنیا میں جنتی قرار پائیں گے۔ اور جن کے بارے میں خدا کے یہ گواہ بتائیں گے کہ انھوںنے حق کا انکار کیا اور اس کی اطاعت پر راضی نہیں ہوئے وہ ابدی جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔
کسی قوم میں خدا کے سچے داعی اٹھیں اور وہ قوم ان کی بات نہ مانے تو یہ اس کے مجرم ہونے کا قطعی ثبوت ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ قوم یہ کہنے کا حق کھو دیتی ہے کہ ہم کو قیامت اور جنت دوزخ کی خبر نہ تھی، اس لیے ہم کو آج کے دن سزا سے معاف رکھا جائے۔
وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ ظَلَمُوا الْعَذَابَ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ
📘 پیغمبر اور پیغمبر کے سچے پیروؤں کا قوموں کے سامنے حق کا داعی بن کر اٹھنا بظاہر ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتاہے۔ دنیا نے عام طورپر ان واقعات کو اتنا کم اہم سمجھا ہے کہ ایک پیغمبر آخر الزماں کو چھوڑ کر کوئی بھی دوسرا پیغمبر نہیں جس کا کام اس کي معاصر تاریخوں میں قابل ذکر قرار پایاہو۔
مگر یہ کام اس وقت بے حد اہم اور بے حد سنگین بن جاتا ہے جب کہ اس کو آخرت سے جوڑ کر دیکھا جائے۔ کیوں کہ آخرت کی عظیم عدالت میں یہی پیغمبر اور داعی خدا کے گواہ ہوں گے اور انھیں کی گواہی پر لوگوں کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جن افراد کے بارے میں گواہ یہ کہیں گے کہ انھوںنے حق کو مانا اور اپنے آپ کو اس کی اطاعت میں دیا وہ وہاں کی ابدی دنیا میں جنتی قرار پائیں گے۔ اور جن کے بارے میں خدا کے یہ گواہ بتائیں گے کہ انھوںنے حق کا انکار کیا اور اس کی اطاعت پر راضی نہیں ہوئے وہ ابدی جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔
کسی قوم میں خدا کے سچے داعی اٹھیں اور وہ قوم ان کی بات نہ مانے تو یہ اس کے مجرم ہونے کا قطعی ثبوت ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ قوم یہ کہنے کا حق کھو دیتی ہے کہ ہم کو قیامت اور جنت دوزخ کی خبر نہ تھی، اس لیے ہم کو آج کے دن سزا سے معاف رکھا جائے۔
وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِنْ دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ
📘 قیامت میں یہ حقیقت آخری حد تک کھل جائے گی کہ اس کائنات میںایک خدا کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ اس وقت جب پوجنے والے اپنے ان معبودوں کو دیکھیں گے جن کو وہ پوجتے تھے تو وہ ایسی باتیںکہیں گے جن سے ان کی برأت ثابت ہوتی ہو۔ گویا کہ یہ جھوٹے معبود دھوکا دے کر ان سے غیر خدا کی پرستش کراتے رہے۔ مگر وہ معبود فوراً اس کی تردید کریںگے اور کہیں گے کہ یہ تمھاری اپنی سرکشی تھی۔ تم نے خدا کی تابعداری سے بچنے کے لیے بطور خود جھوٹے معبود گھڑے اور ان کے نام پر اپنے خواہش پرستانہ مذہب کو جائز ثابت کرتے رہے۔
ایک وہ شخص ہے جو حق کی دعوت کو قبول نہیں کرتا۔ د وسرا وہ ہے جو اسی کے ساتھ دوسروں کو بھی طرح طرح سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلی روش اگر گمراہی ہے تو دوسری روش گمراہی کی قیادت۔ گمراہ لوگوں کو جو عذاب ہوگا، اس کا دگنا عذاب ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں گمراہی کی قیادت کرتے رہے۔
وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ ۖ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَفْتَرُونَ
📘 قیامت میں یہ حقیقت آخری حد تک کھل جائے گی کہ اس کائنات میںایک خدا کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ اس وقت جب پوجنے والے اپنے ان معبودوں کو دیکھیں گے جن کو وہ پوجتے تھے تو وہ ایسی باتیںکہیں گے جن سے ان کی برأت ثابت ہوتی ہو۔ گویا کہ یہ جھوٹے معبود دھوکا دے کر ان سے غیر خدا کی پرستش کراتے رہے۔ مگر وہ معبود فوراً اس کی تردید کریںگے اور کہیں گے کہ یہ تمھاری اپنی سرکشی تھی۔ تم نے خدا کی تابعداری سے بچنے کے لیے بطور خود جھوٹے معبود گھڑے اور ان کے نام پر اپنے خواہش پرستانہ مذہب کو جائز ثابت کرتے رہے۔
ایک وہ شخص ہے جو حق کی دعوت کو قبول نہیں کرتا۔ د وسرا وہ ہے جو اسی کے ساتھ دوسروں کو بھی طرح طرح سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلی روش اگر گمراہی ہے تو دوسری روش گمراہی کی قیادت۔ گمراہ لوگوں کو جو عذاب ہوگا، اس کا دگنا عذاب ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں گمراہی کی قیادت کرتے رہے۔
الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ
📘 قیامت میں یہ حقیقت آخری حد تک کھل جائے گی کہ اس کائنات میںایک خدا کے سوا کسی کے پاس کوئی طاقت نہیں۔ اس وقت جب پوجنے والے اپنے ان معبودوں کو دیکھیں گے جن کو وہ پوجتے تھے تو وہ ایسی باتیںکہیں گے جن سے ان کی برأت ثابت ہوتی ہو۔ گویا کہ یہ جھوٹے معبود دھوکا دے کر ان سے غیر خدا کی پرستش کراتے رہے۔ مگر وہ معبود فوراً اس کی تردید کریںگے اور کہیں گے کہ یہ تمھاری اپنی سرکشی تھی۔ تم نے خدا کی تابعداری سے بچنے کے لیے بطور خود جھوٹے معبود گھڑے اور ان کے نام پر اپنے خواہش پرستانہ مذہب کو جائز ثابت کرتے رہے۔
ایک وہ شخص ہے جو حق کی دعوت کو قبول نہیں کرتا۔ د وسرا وہ ہے جو اسی کے ساتھ دوسروں کو بھی طرح طرح سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ پہلی روش اگر گمراہی ہے تو دوسری روش گمراہی کی قیادت۔ گمراہ لوگوں کو جو عذاب ہوگا، اس کا دگنا عذاب ان لوگوں کو ملے گا جو دنیا میں گمراہی کی قیادت کرتے رہے۔
وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
📘 اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ ہے کہ کسی قوم پر انذار و تبشیر کا کام خود اس قوم کے کسی منتخب فرد کے ذریعہ انجام دلاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی قوم میں جو پیغمبر آئے وہ خود اسی قوم کے ایک فرد تھے۔ اب امت مسلمہ کو قیامت تک اسی طرح ہر قوم کے اندر دعوت وشہادت کی ذمہ داری انجام دینا ہے۔
یہ دنیا میں قوموں کو دعوت دینے والے آخرت میں قوموں کے اوپر خدا کے گواہ ہوں گے۔ انھیں کی گواہی پر قوم کے ہر فرد کے لیے ثواب یا عذاب کا فیصلہ کیا جائے گا۔
قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے— اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری آسمانی کتابوں میں ہر چیز کا بیان نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر آسمانی کتاب جو خدا کی طرف سے آئی اس میں ہر چیز کا بیان موجودتھا۔ تاہم اس ہر چیز کا تعلق دنیا کے علوم وفنون سے نہیں ہے بلکہ آخرت کی کامیابی اور ناکامی کے علم سے ہے۔ وہ تمام چیزیں جو آخرت میں کسی کو کامیاب یا ناکام بنانے والی ہیں وہ سب اصولی طورپر قرآن میں بیان کردی گئی ہیں۔ اب جو لوگ اس سے ہدایت لیں گے، ان کے لیے وہ ایک عظیم نعمت بن جائے گی۔ اور جو لوگ اس سے ہدایت نہ لیں ان کے حصہ میں صرف یہ آئے گا کہ وه اس کا انکار کرکے اپنی ہلاکت کے لیے وجہ جواز فراہم کردیں۔
وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ ۚ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ
📘 ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنے کے لیے متعین سڑک ہوتی ہے جو سیدھی منزل تک پہنچاتی ہے۔ سواریاں اپنی منزل مقصود کے مطابق انھیں سیدھی سڑکوں پر چلتی ہیں۔ تاہم ان سڑکوں کے علاوہ اطراف میں بھی راستے اور پگڈنڈیاں ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ان متفرق راستوں کو راستہ سمجھ کر ان پر چل پڑے تو وہ کبھی اپنی مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔ وہ اصل منزل کے دائیں بائیں بھٹک کر رہ جائے گا۔
یہی معاملہ خدا تک پہنچنے کا بھی ہے۔ خدانے انسان کو واضح طورپر بتادیا ہے کہ وہ کون سا راستہ ہے جو اس کو خدا تک پہنچانے والا ہے۔ یہ راستہ توحید اور تقویٰ کا راستہ ہے۔ جو شخص اس راستہ کو اختیار کرے گا وہ خدا تک پہنچے گا اور جو شخص دوسرے راستوں پر چلے گا وہ اِدھر اُدھر بھٹک جائے گا۔ وہ کبھی اپنے رب تک نہیں پہنچ سکتا۔
دنیا میں ہر چیز خداکے مقرر کيے ہوئے راستے پر چلتی ہے۔ خدا اگر چاہتاتو اسی طرح انسان کو بھی ایک مقرر راستہ کا پابند بنا دیتا۔ مگر انسان کا تخلیقی منصوبہ دوسری اشیاء کے تخلیقی منصوبہ سے مختلف ہے۔ دوسری اشیاء سے صرف پابندی مطلوب ہے۔ مگر انسان سے جو چیز مطلوب ہے وہ اختیاری پابندی ہے۔ اسی اختیاری پابندی کا موقع دینے کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی شخص سچے راستے پر چلتا ہے اورکوئی اس کو چھوڑ کر خود ساختہ راہوں میں بھٹکنے لگتاہے۔
۞ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
📘 دنیا میں کوئی اللہ کا بندہ کس طرح رہے، اس کا واضح بیان اس آیت میں موجود ہے۔ اس کی اسی اہمیت کی بنا پر خلیفۂ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس آیت کو جمعہ کے ہفتہ وار خطبہ میں شامل کیا تھا۔ (مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان، جلد10، صفحہ 190)
پہلی چیز جس کا ایک شخص کو اہتمام کرنا ہے وہ عدل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص کا جو حق دوسرے پر آتاہے وہ اس کو پوری طرح ادا کرے، خواہ صاحب حق کمزور ہو یا طاقت ور، اور خواہ وہ پسندیدہ شخص ہو یا نا پسندیدہ۔ حقوق کی ادائیگی میں صرف حق کا لحاظ کیا جائے نہ کہ دوسرے اعتبارات کا۔
دوسری چیز احسان ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں عالی ظرفی کا طریقہ اپنایا جائے۔ انصاف کے ساتھ مروت کو جمع کیا جائے۔ قانونی دائرہ سے آگے بڑھ کر لوگوں کے ساتھ فیاضی اور ہمدردی کا رویہ اختیار کیا جائے۔ آدمی کے اندر یہ حوصلہ ہو کہ حتی الامکان وہ اپنے لیے اپنے حق سے کم پر راضی ہوجائے، اور دوسرے کو اس کے حق سے زیادہ دینے کی کوشش کرے۔
تیسری چیز ایتاء ذی القربیٰ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس طرح اپنے بیوی بچوں کی ضرورت کو دیکھ کر تڑپ اٹھتاہے اور اس کو پورا کرتاہے، اسی طرح وہ دوسرے قریبی لوگوں کی ضرورت کے بارے میں بھی حساس ہو۔ ہر صاحب استعداد شخص اپنے مال پر صرف اپنا اور اپنے گھر والوں ہی کا حق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کو بھی وہ اپنی ذمہ داری میں شامل کرے۔
اس کے بعد آیت میں تین چیزوں سے منع فرمایا گیا ہے۔
پہلی چیز فحشاء ہے۔ اس سے مراد کھلی ہوئی اخلاقی برائیاں ہیں۔ یعنی وہ برائیاں جن کا برا ہونا خود اپنے ضمیر کے تحت ہر آدمی کو معلوم ہوتا ہے۔ اور لوگ عام طورپر اس کو شرم ناک سمجھتے ہیں۔
دوسری چیز منکر ہے۔ منکر معروف کا الٹا ہے۔ معروف ان اچھی باتوں کو کہتے ہیں جن کو ہر معاشرے میں اچھا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، منکر سے مراد وہ نامعقول کام ہیں جو عام اخلاقی معیار کے خلاف ہیں۔ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کو انسان عام طور پر برا جانتے ہیںاور جن کو قبول کرنے سے انسان کی فطرت انکار کرتی ہے۔
تیسری چیز بغی ہے۔ اس کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا۔ اس میں ہر وہ سرکشی داخل ہے جب کہ آدمی اپنی واقعی حد سے گزر کر دوسرے شخص پر دست درازی کرے۔ وہ کسی کی جان یا مال یا آبرو لینے کے لیے اس کے اوپر ناحق کارروائیاں کرے۔ وہ اپنے زور واثر کو ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے استعمال کرنے لگے۔
وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
📘 سوت کاتنا محنت کے ذریعہ بکھرے ہوئے ریشوں کا یکجا کرنا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان کے لیے کار آمد چیزیں تیا رہوں۔ اب اگر کوئی مرد یا عورت دن بھر محنت کرکے سوت کاتے اور پھر شام کے وقت اپنے کاتے ہوئے سوت کو پارہ پارہ کردے تو اس کی ساری محنت بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گی۔
یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو آپس میں ایک معاہدہ کریں اور پھر ایک یا دوسرا فریق کسی معقول سبب کے بغیر اس کو توڑ ڈالے۔ کاتے ہوئے سوت کو خواہ مخواہ بکھیرنا اپنی محنت کو اکارت کرنا ہے۔ اسی طرح کيے ہوئے معاہدے کو توڑڈالنا اس پورے عمل کو باطل کرنا ہے جس کے نتیجے میں باہمی اتفاق کا ایک معاملہ وجود میں آیا تھا۔
موجودہ دنیا میں ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارتا ہے۔ ہر آدمی کو اپنا کام دوسرے بہت سے آدمیوں کے درمیان کرنا ہوتاہے۔ اس بنا پر اجتماعی زندگی میں باہمی اعتماد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسی اجتماعی زندگی کو قائم کرنے کی خاطر بار بار ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان معاہدے اور قول وقرار وجود میں آتے ہیں، کبھی قسم کھا کر اور کبھی قسم کے بغیر۔ اب اگر لوگ ایسا کریں کہ معاہدوں کو حقیقی جواز کے بغیر توڑ ڈالیں تو اجتماعی زندگی میں فساد پھیل جائے اور کسی قسم کی تعمیر ممکن نہ رہے۔
خدا کے نام پر معاہدہ کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ باقاعدہ قسم کے الفاظ اداکرکے کسی سے کوئی عہد کیاجائے۔ دوسري یہ کہ قسم کے الفاظ نہ بولے جائیں تاہم جو معاہدہ کیا گیا ہے اس میں خدا کا حوالہ بھی کسی پہلو سے شامل ہو۔ ایسی تمام صورتوں میں عہد کرنے والے گویا خدا کو اس معاملہ کا گواہ یا ضامن بناتے ہیں۔ ایسے معاہدے جن میں خدا کا نام شامل کیا گیا ہو ان کو توڑنا اور بھی زیادہ برا ہے، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کو دوسروں کے اوپراپنا اعتبار قائم کرنا تھا تو اس نے خدا کے نام کو استعمال کیااور جب اس پر نفس یا مفاد کے تقاضے غالب آئے تو اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔
افراد یا قوموں کے درمیان جو معاہدے ہوتے ہیں ان کی دوصورتیںهيں ۔ ایک یہ کہ وہ اصولوں کے تابع ہوں۔ دوسري یہ کہ وہ مفادات کے تابع ہوں۔ قدیم زمانے میں اور آج بھی عام حالت یہ ہے کہ جب معاہدہ کرنے میں کوئی فائدہ نظر آیا تو معاہدہ کرلیا ۔ اور جب توڑنا مفید معلوم ہوا تو اس کو توڑ دیا۔ اس کے برعکس، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ معاہدات کو شرعی اور اخلاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے۔
وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ أَنْكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَنْ تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
📘 سوت کاتنا محنت کے ذریعہ بکھرے ہوئے ریشوں کا یکجا کرنا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ انسان کے لیے کار آمد چیزیں تیا رہوں۔ اب اگر کوئی مرد یا عورت دن بھر محنت کرکے سوت کاتے اور پھر شام کے وقت اپنے کاتے ہوئے سوت کو پارہ پارہ کردے تو اس کی ساری محنت بے نتیجہ ہو کر رہ جائے گی۔
یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو آپس میں ایک معاہدہ کریں اور پھر ایک یا دوسرا فریق کسی معقول سبب کے بغیر اس کو توڑ ڈالے۔ کاتے ہوئے سوت کو خواہ مخواہ بکھیرنا اپنی محنت کو اکارت کرنا ہے۔ اسی طرح کيے ہوئے معاہدے کو توڑڈالنا اس پورے عمل کو باطل کرنا ہے جس کے نتیجے میں باہمی اتفاق کا ایک معاملہ وجود میں آیا تھا۔
موجودہ دنیا میں ایک آدمی دوسرے آدمیوں کے ساتھ مل کر زندگی گزارتا ہے۔ ہر آدمی کو اپنا کام دوسرے بہت سے آدمیوں کے درمیان کرنا ہوتاہے۔ اس بنا پر اجتماعی زندگی میں باہمی اعتماد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اسی اجتماعی زندگی کو قائم کرنے کی خاطر بار بار ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان معاہدے اور قول وقرار وجود میں آتے ہیں، کبھی قسم کھا کر اور کبھی قسم کے بغیر۔ اب اگر لوگ ایسا کریں کہ معاہدوں کو حقیقی جواز کے بغیر توڑ ڈالیں تو اجتماعی زندگی میں فساد پھیل جائے اور کسی قسم کی تعمیر ممکن نہ رہے۔
خدا کے نام پر معاہدہ کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک یہ کہ باقاعدہ قسم کے الفاظ اداکرکے کسی سے کوئی عہد کیاجائے۔ دوسري یہ کہ قسم کے الفاظ نہ بولے جائیں تاہم جو معاہدہ کیا گیا ہے اس میں خدا کا حوالہ بھی کسی پہلو سے شامل ہو۔ ایسی تمام صورتوں میں عہد کرنے والے گویا خدا کو اس معاملہ کا گواہ یا ضامن بناتے ہیں۔ ایسے معاہدے جن میں خدا کا نام شامل کیا گیا ہو ان کو توڑنا اور بھی زیادہ برا ہے، کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کو دوسروں کے اوپراپنا اعتبار قائم کرنا تھا تو اس نے خدا کے نام کو استعمال کیااور جب اس پر نفس یا مفاد کے تقاضے غالب آئے تو اس نے خدا کو نظر انداز کردیا۔
افراد یا قوموں کے درمیان جو معاہدے ہوتے ہیں ان کی دوصورتیںهيں ۔ ایک یہ کہ وہ اصولوں کے تابع ہوں۔ دوسري یہ کہ وہ مفادات کے تابع ہوں۔ قدیم زمانے میں اور آج بھی عام حالت یہ ہے کہ جب معاہدہ کرنے میں کوئی فائدہ نظر آیا تو معاہدہ کرلیا ۔ اور جب توڑنا مفید معلوم ہوا تو اس کو توڑ دیا۔ اس کے برعکس، اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ معاہدات کو شرعی اور اخلاقی اصولوں کے تابع رکھا جائے۔
وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۚ وَلَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
📘 دنیا میں اختلافات ہیں۔ حق اور ناحق ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ خدا کا وہ منصوبہ ہے جس کے تحت اس نے موجودہ دنیا کو بنایا ہے۔ اور وہ منصوبہ امتحان ہے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو جانچ کی غرض سے رکھا گیا ہے۔ یہ مقصد اس کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا تھا کہ ہر آدمی کو ماننے اور نہ ماننے کی آزادی ہو۔ حتیٰ کہ اسے یہ بھی آزادی ہو وہ حق کو ناحق ثابت کرے اور ناحق کو حق کے روپ میں پیش کرے۔ اگر یہ مصلحت نہ ہوتی تو خدا تمام انسانوں کو اسی طرح اپنے حکم کا پابند بنا دیتا جس طرح وہ بقیہ کائنات کو اپنے حکم کا پابند بنائے ہوئے ہے۔
یہ صورت حال قیامت تک کے لیے ہے۔ قیامت کے دن کھل جائے گا کہ کس نے اپنی سمجھ کو صحیح طور پر استعمال کیا اور کس نے اپنے مفاد کی خاطر سچائی کو نظر انداز کیا۔ اس وقت خدا ہر ایک کے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جس کا اس نے موجودہ امتحانی مرحلہ میں اپنے كو اہل ثابت کیا تھا۔
وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ بَعْدَ ثُبُوتِهَا وَتَذُوقُوا السُّوءَ بِمَا صَدَدْتُمْ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۖ وَلَكُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 قسم کھا کر معاہدہ کرنا پختہ معاہدہ کی آخری صورت ہے۔ اس اعتبار سے اس آیت کے تحت تمام معاہدے آجاتے ہیں۔
اگر مسلمان ایسا کریں کہ وہ دوسروں سے معاہداتی معاملے کریں اور پھر کسی حقیقی سبب کے بغیر محض مفاد کی خاطر ان کو توڑ دیں تو اس سے ماحول میں مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ اور نتیجۃً ان کا یہ عمل لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب منکر اسلام دیکھے گا کہ مسلمان نے معاہدہ کیا اور پھر اس نے اس سے بے وفائی کی تو اس کو دین اسلام پر اعتماد باقی نہ رہے گا اور اس کی وجہ سے وہ خدا کے دین میں داخل ہونے سے رک جائے گا (لِأَنَّ الْكَافِرَ إِذَا رَأَى أَنَّ الْمُؤْمِنَ قَدْ عَاهَدَهُ ثُمَّ غَدَرَ بِهِ، لَمْ يَبْقَ لَهُ وُثُوقٌ بِالدِّينِ، فَانْصَدَّ بِسَبَبِهِ عَنِ الدُّخُولِ فِي الْإِسْلَامِ) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 600۔
عہد کو غیر شرعی طورپر توڑنے کا واقعہ ہمیشہ اس لیے پیش آتا ہے کہ آدمی کو یہ نظر آنے لگتا ہے کہ اگر وہ معاہدہ کو توڑ دے تو اس کو فلاں دنیوی فائدہ حاصل ہوجائے گا۔ مگر مومن کی نظر آخرت پسندانہ نظر ہوتی ہے۔ جب بھی اس کا نفس اس قسم کی تحریک کرتاہے تو وہ اپنے نفس کو یہ کہہ کر دبا دیتا ہے کہ معاہدہ توڑنے میں اگر دنیا کا فائدہ ہے تو معاہدہ نہ توڑنے میں آخرت کا فائدہ۔ اور دنیا کے فائدہ کے مقابلہ میں آخرت کا فائدہ یقیناً زیادہ بڑا ہے۔
وَلَا تَشْتَرُوا بِعَهْدِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ إِنَّمَا عِنْدَ اللَّهِ هُوَ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 قسم کھا کر معاہدہ کرنا پختہ معاہدہ کی آخری صورت ہے۔ اس اعتبار سے اس آیت کے تحت تمام معاہدے آجاتے ہیں۔
اگر مسلمان ایسا کریں کہ وہ دوسروں سے معاہداتی معاملے کریں اور پھر کسی حقیقی سبب کے بغیر محض مفاد کی خاطر ان کو توڑ دیں تو اس سے ماحول میں مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ ختم ہوجائے گی۔ اور نتیجۃً ان کا یہ عمل لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ مفسر ابن کثیر لکھتے ہیں کہ جب منکر اسلام دیکھے گا کہ مسلمان نے معاہدہ کیا اور پھر اس نے اس سے بے وفائی کی تو اس کو دین اسلام پر اعتماد باقی نہ رہے گا اور اس کی وجہ سے وہ خدا کے دین میں داخل ہونے سے رک جائے گا (لِأَنَّ الْكَافِرَ إِذَا رَأَى أَنَّ الْمُؤْمِنَ قَدْ عَاهَدَهُ ثُمَّ غَدَرَ بِهِ، لَمْ يَبْقَ لَهُ وُثُوقٌ بِالدِّينِ، فَانْصَدَّ بِسَبَبِهِ عَنِ الدُّخُولِ فِي الْإِسْلَامِ) تفسیر ابن کثیر، جلد4، صفحہ 600۔
عہد کو غیر شرعی طورپر توڑنے کا واقعہ ہمیشہ اس لیے پیش آتا ہے کہ آدمی کو یہ نظر آنے لگتا ہے کہ اگر وہ معاہدہ کو توڑ دے تو اس کو فلاں دنیوی فائدہ حاصل ہوجائے گا۔ مگر مومن کی نظر آخرت پسندانہ نظر ہوتی ہے۔ جب بھی اس کا نفس اس قسم کی تحریک کرتاہے تو وہ اپنے نفس کو یہ کہہ کر دبا دیتا ہے کہ معاہدہ توڑنے میں اگر دنیا کا فائدہ ہے تو معاہدہ نہ توڑنے میں آخرت کا فائدہ۔ اور دنیا کے فائدہ کے مقابلہ میں آخرت کا فائدہ یقیناً زیادہ بڑا ہے۔
مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ ۖ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ ۗ وَلَنَجْزِيَنَّ الَّذِينَ صَبَرُوا أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 خدا کے داعی کا ساتھ دینا رواج یافتہ مذہبی نظام کو چھوڑ کر غیر رواجی مذہب کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنا ہے۔ اس طرح کا اقدام ہمیشہ آدمی کے لیے مشکل ترین ہوتا ہے۔ اس میں اس فائدہ کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے جو انسانوں سے مل رہا ہے۔ اور اس فائدہ کی طرف بڑھنا ہوتاہے جو خدا سے ملنے والا ہے۔
اس قسم کا فیصلہ کرنے کے لیے واحد چیز جو درکار ہے وہ ’’صبر‘‘ ہے۔ یعنی یہ برداشت کہ آدمی کل کے فائدہ کی خاطر آج کا نقصان گوارا کرسکے۔ یہ صلاحیت کہ آدمی نظر آنے والی چیز کے مقابلہ میں اس کو زیادہ اہمیت دے سکے جو نظر نہیںآتی۔ یہ حوصلہ کہ آدمی قربانی کی قیمت پر کسی چیز کو اختیار کرے، نہ کہ محض فوری نفع کی قیمت پر۔ خدا کے جو بندے اس اولوالعزمی کا ثبوت دیں یقینا وہ اس قابل ہیں کہ خدا ان کو اپنی اعلیٰ ترین نعمتوں سے نوازے۔
جو افراد بے آمیز حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے مروجہ نظام میں نقصان اٹھاتے ہیں۔ ان کو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ برباد ہوگئے۔ مگر خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو ان کی قربانیوں کا بھر پور معاوضہ دے گا۔ موت کے بعد کی ابدی دنیا میں وہ انھیں نہایت بہتر زندگی سے نوازے گا۔ جن چیزوں کو انھوں نے وقتی طورپر کھویا ہے، ان کو وہ زیادہ بہتر شکل میں ابدی طور پر دے دے گا۔
خدا کا یہ وعدہ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح ہے جس طرح وہ مردوں کے لیے ہے۔ خدا کے یہاں جزا کے معاملہ میں عورت اور مرد کی کوئی تقسیم نہیں۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 خدا کے داعی کا ساتھ دینا رواج یافتہ مذہبی نظام کو چھوڑ کر غیر رواجی مذہب کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرنا ہے۔ اس طرح کا اقدام ہمیشہ آدمی کے لیے مشکل ترین ہوتا ہے۔ اس میں اس فائدہ کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے جو انسانوں سے مل رہا ہے۔ اور اس فائدہ کی طرف بڑھنا ہوتاہے جو خدا سے ملنے والا ہے۔
اس قسم کا فیصلہ کرنے کے لیے واحد چیز جو درکار ہے وہ ’’صبر‘‘ ہے۔ یعنی یہ برداشت کہ آدمی کل کے فائدہ کی خاطر آج کا نقصان گوارا کرسکے۔ یہ صلاحیت کہ آدمی نظر آنے والی چیز کے مقابلہ میں اس کو زیادہ اہمیت دے سکے جو نظر نہیںآتی۔ یہ حوصلہ کہ آدمی قربانی کی قیمت پر کسی چیز کو اختیار کرے، نہ کہ محض فوری نفع کی قیمت پر۔ خدا کے جو بندے اس اولوالعزمی کا ثبوت دیں یقینا وہ اس قابل ہیں کہ خدا ان کو اپنی اعلیٰ ترین نعمتوں سے نوازے۔
جو افراد بے آمیز حق کا ساتھ دینے کی وجہ سے مروجہ نظام میں نقصان اٹھاتے ہیں۔ ان کو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ برباد ہوگئے۔ مگر خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ان کو ان کی قربانیوں کا بھر پور معاوضہ دے گا۔ موت کے بعد کی ابدی دنیا میں وہ انھیں نہایت بہتر زندگی سے نوازے گا۔ جن چیزوں کو انھوں نے وقتی طورپر کھویا ہے، ان کو وہ زیادہ بہتر شکل میں ابدی طور پر دے دے گا۔
خدا کا یہ وعدہ عورتوں کے لیے بھی اسی طرح ہے جس طرح وہ مردوں کے لیے ہے۔ خدا کے یہاں جزا کے معاملہ میں عورت اور مرد کی کوئی تقسیم نہیں۔
فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
📘 قرآن کو پڑھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، اپنی نصیحت کے لیے پڑھنا۔ دوسري، دعوت کی خاطر دوسروں کے سامنے پیش کرنا، خواہ قر آن کے الفاظ دُہرائے جائیں یا اس کے مطالب بیان کيے جائیں۔دونوں صورتوں میں ضروری ہے کہ آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے۔ تعوذ کا مطلب صرف کچھ مقرر الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ اپنے آپ کو شعوری طورپر مسلح کرنا ہے تاکہ شیطان کا حملہ بے اثر ہو کر رہ جائے۔
شیطان ہر وقت آدمی کی گھات میںہے۔وہ قرآن کے الفاظ کے مفہوم کواس کے قاری کے ذہن میں بدل دیتاہے۔ اور جو چیز متن میں نہ ہو اس کو تفسیر میں شامل کرا دیتاہے۔ اسی طرح شیطان داعی اور مدعوکے درمیان ایسے فتنے ابھارتا ہے جس کے نتیجے میں دعوت کا عمل رک جائے۔
تاہم شیطان کو خدانے صرف بہکانے اور ورغلانے کی آزادی دی ہے۔ اس کو یہ طاقت نہیں دی کہ وہ کسی کو بزور گمراہی کے راستے پر ڈال دے۔ جو لوگ خدا سے اپنا ذہنی رابطہ قائم کيے ہوئے ہوں ان پر اس کا کچھ بس نہیں چلتا۔ البتہ جو لوگ خدا سے غافل ہوں اور شیطان کی باتوں پر دھیان دیں ان کے اورپر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور پھر جدھر چاہتا ہے ادھر انھیں لے جاتا ہے۔
إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
📘 قرآن کو پڑھنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک، اپنی نصیحت کے لیے پڑھنا۔ دوسري، دعوت کی خاطر دوسروں کے سامنے پیش کرنا، خواہ قر آن کے الفاظ دُہرائے جائیں یا اس کے مطالب بیان کيے جائیں۔دونوں صورتوں میں ضروری ہے کہ آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا کی پناہ مانگے۔ تعوذ کا مطلب صرف کچھ مقرر الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ اپنے آپ کو شعوری طورپر مسلح کرنا ہے تاکہ شیطان کا حملہ بے اثر ہو کر رہ جائے۔
شیطان ہر وقت آدمی کی گھات میںہے۔وہ قرآن کے الفاظ کے مفہوم کواس کے قاری کے ذہن میں بدل دیتاہے۔ اور جو چیز متن میں نہ ہو اس کو تفسیر میں شامل کرا دیتاہے۔ اسی طرح شیطان داعی اور مدعوکے درمیان ایسے فتنے ابھارتا ہے جس کے نتیجے میں دعوت کا عمل رک جائے۔
تاہم شیطان کو خدانے صرف بہکانے اور ورغلانے کی آزادی دی ہے۔ اس کو یہ طاقت نہیں دی کہ وہ کسی کو بزور گمراہی کے راستے پر ڈال دے۔ جو لوگ خدا سے اپنا ذہنی رابطہ قائم کيے ہوئے ہوں ان پر اس کا کچھ بس نہیں چلتا۔ البتہ جو لوگ خدا سے غافل ہوں اور شیطان کی باتوں پر دھیان دیں ان کے اورپر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور پھر جدھر چاہتا ہے ادھر انھیں لے جاتا ہے۔