🕋 تفسير سورة البقرة
(Al-Baqarah) • المصدر: UR-TAZKIRUL-QURAN
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ الم
📘 اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ مگر وہ ہدایت کی کتاب اس کے لیے ہے جو فی الواقع ہدایت کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو اس کی پروا اور کھٹک رکھتا ہو۔ سچی طلب جو فطرت کی زمین پر اگتی ہے وہ خود پانے ہی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ سچی طلب اور سچی یافت دونوں ایک ہی سفر کے پچھلے اور اگلے مرحلے ہیں۔ یہ گویا خود اپنی فطرت کے بند صفحات کو کھولناہے۔ جب آدمی اس کا سچا ارادہ کرتا ہے تو فوراً فطرت کي مطابقت اور اللہ کی نصرت اس کا ساتھ دینے لگتی ہے، اس کو اپنی فطرت کی مبہم پکار کا متعین جواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
ایک آدمی کے اندر سچی طلب کا جاگنا عالَم ظاہر کے پیچھے عالم باطن کو دیکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ تلاش جب یافت کے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو وہ ایمان بالغیب بن جاتی ہے۔ وہی چیز جو ابتدائی مرحلہ میںایک برتر حقیقت کے آگے اپنے کو ڈال دینے کی بے قراری کا نام ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میںاللہ کا نمازی بننے کی صورت میں ڈھل جاتي ہے۔ وہی جذبہ جو ابتداء ًاپنے کو خیر اعلیٰ کے لیے وقف کردینے کے ہم معنی ہوتا ہے، وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کی راہ میںاپنے اثاثہ کو خرچ کرنے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ وہی کھوج جو زندگی کے ہنگاموں کے آگے اس کا آخری انجام معلوم کرنے کی صورت میں کسی کے اندر ابھرتی ہے وہ آخرت پر یقین کی صورت میں اپنے سوال کا جواب پالیتی ہے۔
سچائی کو پانا گویا اپنے شعو ر کو حقیقت اعلیٰ کے ہم سطح کرلینا ہے۔ جو لوگ، اس طرح حق کو پالیں وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ وہ سچائی کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے سچائی جہاں بھی ہو اور جس بندۂ خدا کی زبان سے اس کا اعلان کیا جارہا ہو وہ فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور اس پر لبیک کہتے ہیں۔ کوئی جمود، کوئی تقلید اور کوئی تعصباتی دیوار ان کے لیے اعترافِ حق میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ جن لوگوں کے اندریہ خصوصیات ہوں وہ اللہ کے سایہ میں آجاتے ہیں۔ اللہ کا بنایا ہوا نظام ان کو قبول کرلیتا ہے ان کو دنیا میں اس سچے راستہ پر چلنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کی آخری منزل یہ ہے کہ آدمی آخرت کی ابدی نعمتوں میں داخل ہوجائے۔
حق کو وہی پاسکتا ہے جو اس کا ڈھونڈھنے والا ہے اور جو ڈھونڈنے والا ہے وہ ضرور اس کو پاتا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے اور پانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ
📘 عرب کے لوگوں نے شرک کو سچائی سمجھ کر اختیار کر رکھا تھا۔پیغمبر کی دعوتِ توحید سے شرک کو ماننے والوں کے عقائد متزلزل ہوئے تو اس میں ان لوگوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا جو شرک کی زمین پر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ ایک عام آدمی کے ليے شرک کو چھوڑنا صرف اپنے آبائی دین کو چھوڑنا ہوتا ہے۔ جب کہ ایک سردار کے ليے شرک کا خاتمہ اس کی سرداری کے خاتمہ کے ہم معنی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بے آمیز دین کی دعوت کے سب سے زیادہ مخالف وہ لوگ بن جاتے ہیں جو ملاوٹی دین کی بنیاد پر اپنی قیادت قائم کيے ہوئے ہوں۔
یہ لوگ حق کی دعوت اور اس کے داعی کے بارے میں لایعنی بحثیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے زیر اثر عوام دعوت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں۔ اور بدستور اپنے رواجی دین پر قائم رہیں۔
حق کی یہ مخالفت وہ صرف اس ليے کرتے ہیں کہ خود ساختہ دین کی بنیاد پر انھوں نے جو اپنی جھوٹی بڑائی قائم کررکھی ہے، وہ بدستور قائم رہے۔ ان کو سچائی سے زیادہ اپنی ذات سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک بہت بڑے مجرم ہیں۔ قیامت میں ا ن کے حصہ میں رسوائی اور عذاب کے سوا کچھ آنے والا نہیں۔
أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَبَذَهُ فَرِيقٌ مِنْهُمْ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
📘 قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں کو ان پچھلی اہل کتاب کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف سے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاهيے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر عرب کے اہل کتاب ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔
اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزاررہے ہوں ۔ اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوںکہ ایسی دعوت ان کو ان کے بڑائي كے مقام سے اتارنے کے ہم معنی نظرآتی ہے۔وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جوگرامر کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آنا اور رسولوں کا مبعوث ہونا سب مکمل طورپر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کررہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیزآئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچھلے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے — آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے ليے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے، حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں کو ان پچھلی اہل کتاب کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف سے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاهيے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر عرب کے اہل کتاب ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔
اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزاررہے ہوں ۔ اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوںکہ ایسی دعوت ان کو ان کے بڑائي كے مقام سے اتارنے کے ہم معنی نظرآتی ہے۔وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جوگرامر کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آنا اور رسولوں کا مبعوث ہونا سب مکمل طورپر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کررہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیزآئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچھلے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے — آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے ليے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے، حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ ۖ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ ۚ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّىٰ يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ ۖ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ ۚ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ ۚ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
📘 آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ کا بگاڑ ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے— نجاتِ آخرت جس کا انحصار تمام تر عمل صالح پر رکھا گیا ہے، اس کا راز بے عملی میں تلاش کرلینا۔ اللہ کا کلام حقیقۃً عمل کی پکار ہے۔ مگر جب قوم پر زوال آتا ہے تو اس کے افراد مقدس کلام کے لکھ لینے یا زبان سے بول دینے کو ہر قسم کی برکتوں کا پُر اسرار نسخہ سمجھ لیتے ہيں۔ یہی وہ نفسیاتی زمین ہے جس کے اوپر سحر اور کہانت اور عملیات وجود میں آتے ہیں۔ چھو منتر جیسی چیزوں سے جنت حاصل کرنے والے دنیا کو بھی چھو منتر کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ بزرگوں سے عقیدت کو نجات کا ذریعہ سمجھنے والے ارواح سے تعلق قائم کرکے اپنے دنیوی مسائل حل کرنے لگتے ہیں۔ اورادوظائف کے طلسماتی اثرات پر یقین کرنے والے سیاسی چمتکار دکھا کر ملت کی تعمیر اور دین کے احیا کا منصوبہ بناتے ہیں۔
جب قوم کے افراد بے عملی اور توہم پرستی (superstition) کے راستے پر چل پڑتے ہیں تو ان کے درمیان ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے سحر و کہانت تجارت بن جاتی ہے، اور اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے مشہور قومی بزرگوں کا نام استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ ایسا ہر زمانے میں ہوا ہے، مثلاً یہود نے اپنے زوال کے زمانے میں سحر و کہانت کو جسٹیفائی (justify)کرنے کے لیے اس کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کردیا۔
انھوں نے کہنا شر وع کیا کہ سلیمان کو جنوں اور ہواؤں پر جو غیر معمولی اقتدار حاصل تھا وہ سب علم سحر کی بناپر تھا اور یہ سلیمانی علم بعض جنوں کے ذریعہ ہم کو حاصل ہوگیا ہے۔ اس طرح حضرت سلیمان کی طرف منسوب ہو کر عملیات کا فن ان کے اندر بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔اس وقت قوم یہودکی آزمائش کے لیے بابل میں دو فرشتے بھیجے گئے جو درویشوں کے بھیس میں جادو اور کہانت سے بچاؤ کا عمل سکھاتے تھے۔ تاہم وہ کہتے رہتے تھے کہ یہ تمھارا امتحان ہے، یعنی تم اس کا صحیح استعمال کرنا۔ مگر اس انتباہ کے باوجود وہ ا س فن پر ٹوٹ پڑے۔ حتی کہ انھوں نے اس کو ناجائز مقاصد میں استعمال کرنا شروع کردیا۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ خَيْرٌ ۖ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ
📘 آسمانی کتاب کے حامل کسی گروہ کا بگاڑ ہمیشہ صرف ایک ہوتا ہے— نجاتِ آخرت جس کا انحصار تمام تر عمل صالح پر رکھا گیا ہے، اس کا راز بے عملی میں تلاش کرلینا۔ اللہ کا کلام حقیقۃً عمل کی پکار ہے۔ مگر جب قوم پر زوال آتا ہے تو اس کے افراد مقدس کلام کے لکھ لینے یا زبان سے بول دینے کو ہر قسم کی برکتوں کا پُر اسرار نسخہ سمجھ لیتے ہيں۔ یہی وہ نفسیاتی زمین ہے جس کے اوپر سحر اور کہانت اور عملیات وجود میں آتے ہیں۔ چھو منتر جیسی چیزوں سے جنت حاصل کرنے والے دنیا کو بھی چھو منتر کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ بزرگوں سے عقیدت کو نجات کا ذریعہ سمجھنے والے ارواح سے تعلق قائم کرکے اپنے دنیوی مسائل حل کرنے لگتے ہیں۔ اورادوظائف کے طلسماتی اثرات پر یقین کرنے والے سیاسی چمتکار دکھا کر ملت کی تعمیر اور دین کے احیا کا منصوبہ بناتے ہیں۔
جب قوم کے افراد بے عملی اور توہم پرستی (superstition) کے راستے پر چل پڑتے ہیں تو ان کے درمیان ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کے لیے سحر و کہانت تجارت بن جاتی ہے، اور اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے مشہور قومی بزرگوں کا نام استعمال کرنے لگتے ہیں ۔ ایسا ہر زمانے میں ہوا ہے، مثلاً یہود نے اپنے زوال کے زمانے میں سحر و کہانت کو جسٹیفائی (justify)کرنے کے لیے اس کو حضرت سلیمان کی طرف منسوب کردیا۔
انھوں نے کہنا شر وع کیا کہ سلیمان کو جنوں اور ہواؤں پر جو غیر معمولی اقتدار حاصل تھا وہ سب علم سحر کی بناپر تھا اور یہ سلیمانی علم بعض جنوں کے ذریعہ ہم کو حاصل ہوگیا ہے۔ اس طرح حضرت سلیمان کی طرف منسوب ہو کر عملیات کا فن ان کے اندر بڑے پیمانے پر پھیل گیا۔اس وقت قوم یہودکی آزمائش کے لیے بابل میں دو فرشتے بھیجے گئے جو درویشوں کے بھیس میں جادو اور کہانت سے بچاؤ کا عمل سکھاتے تھے۔ تاہم وہ کہتے رہتے تھے کہ یہ تمھارا امتحان ہے، یعنی تم اس کا صحیح استعمال کرنا۔ مگر اس انتباہ کے باوجود وہ ا س فن پر ٹوٹ پڑے۔ حتی کہ انھوں نے اس کو ناجائز مقاصد میں استعمال کرنا شروع کردیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا ۗ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 پیغمبروں کا انکار کرنے والوں کا جو انجام ہوا وہ گویا دنیا میں اس فیصلہ الٰہی کا جزئی ظہور تھا جو قیامت میں کلی طورپر تمام نوع انسانی کے لیے پیش آنے والا ہے۔قرآن اسی حقیقت کی ایک یاد دہانی ہے۔
دنیا میں آدمی جب حق کو نظر انداز کرتا ہے تو بظاہر یہ بہت ہلکی سی چیز معلوم ہوتی ہے۔ مگر آخرت میں آدمی کا یہ فعل اس کے لیے نہایت بھاری بوجھ بن جائے گا۔ جب خدائی بگل (صور) یہ اعلان کرے گا کہ امتحان کی مدت ختم ہوچکی۔اس وقت اچانک لوگ اپنے آپ کو ایک اور دنیا میں پائیں گے۔ جب آدمی پر یہ کھلے گا کہ جس دنیا کو وہ اپنی دنیا سمجھے ہوئے تھے، وہ دراصل خدا کی دنیا تھی تو اس پر اس قدر دہشت طاری ہوگی کہ اس کی ہیئت تک بدل جائے گی۔
موجودہ دنیا میں آدمی آخرت کو اس طرح نظر انداز کرتاہے جیسے وہ کوئی بہت دور کی چیز ہو۔ مگر قیامت آنے کے بعد آدمی کو ایسا معلوم ہوگا جیسے دنیا کی زندگی تو بس گنتی کے چند روز کی تھی۔ اس کے بعد ساری لمبی زندگی وہی تھی جو آخرت کے عالم میں گزرنے والی تھی۔
مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزَّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَبِّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ
📘 کسی کو خدا کی طرف سے سچائی ملے اور وہ اس کا داعی بن کر کھڑا ہو جائے تو لوگ اس کے مخالف بن جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کی دعوت میں لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)دکھائی دینے لگتی ہے۔ لیکن زوال یافتہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی روایتی عظمت کی نفی کریں ۔ کیوں کہ وہ پیغمبری کو اپنا قومی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ان کے گروہ کے سوا کسی اور گروہ میں خدا کے پیغمبرکا ظہور ہو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب آپ کی دعوت کے بارے میں کنفیوزن پیدا کرنے والی بحثیں چھیڑتے تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈال دیں کہ آپ جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ محض ایک شخص کی ذاتی اپج ہے۔ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیز نہیں ہے۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن میں بعض قانونی احکام تورات سے مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ کہتے کہ کیا خدا بھی حکم دینے میں غلطی کرتاہے کہ ایک بار ایک حکم دے اور اس کے بعد اسی معاملہ میں دوسرا حکم بھیجے۔ اس طرح کے شبہات انھوں یہود نے اتنی کثرت سے پھیلائے کہ خود مسلمانوں میں کچھ سادہ مزاج لوگ ان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے لگے۔ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے وہ اس حد تک چلے گئے کہ جب یہ لوگ آپ کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ایسے الفاظ بولتے جن سے آپ کا بے حقیقت ہونا ظاہر ہوتا۔ مثلاً ’’ہماری طرف توجہ کیجیے‘‘ کے لیے عربی زبان میں ایک شائستہ لفظ’اُنظرنا‘ تھا۔ مگر وہ اس کو چھوڑ کر ’راعِنا‘ کہتے۔ کیوں کہ تھوڑا سا کھینچ کر اس کو’ راعینا‘ کہہ دیا جائے تو اس کے معنی ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے ہوجاتے ہیں ، اسی طرح کبھی الف کو دبا کر وہ اس کو راعِنَ کہتے جس کے معنیٰ احمق کے ہوتے ہیں۔
ہدایت کی گئی کہ (1)گفتگو میں صاف الفاظ استعمال کرو، مشتبہ الفاظ مت بولو جس میں کوئی برا پہلو نکل سکتا ہو 2) (جو بات کہی جائے اس کو غور سے سنو اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ (3)سوال کی کثرت آدمی کو سیدھے راستہ سے بھٹکا دیتی ہے، اس ليے سوال وجواب کے بجائے عبرت اور نصیحت کا ذہن پیدا کرو۔ (4) اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی غلطی کی بنا پر تم اپنے ایمان ہی سے محروم ہو جاؤ۔ 5) (دنیا میں کسی کے پاس کوئی خیر دیکھو تو حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہو، کیوں کہ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جو اس کے فیصلہ کے تحت اس کے ایک بندے کو پہنچا ہے۔
۞ مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 کسی کو خدا کی طرف سے سچائی ملے اور وہ اس کا داعی بن کر کھڑا ہو جائے تو لوگ اس کے مخالف بن جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کی دعوت میں لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)دکھائی دینے لگتی ہے۔ لیکن زوال یافتہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی روایتی عظمت کی نفی کریں ۔ کیوں کہ وہ پیغمبری کو اپنا قومی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ان کے گروہ کے سوا کسی اور گروہ میں خدا کے پیغمبرکا ظہور ہو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب آپ کی دعوت کے بارے میں کنفیوزن پیدا کرنے والی بحثیں چھیڑتے تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈال دیں کہ آپ جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ محض ایک شخص کی ذاتی اپج ہے۔ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیز نہیں ہے۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن میں بعض قانونی احکام تورات سے مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ کہتے کہ کیا خدا بھی حکم دینے میں غلطی کرتاہے کہ ایک بار ایک حکم دے اور اس کے بعد اسی معاملہ میں دوسرا حکم بھیجے۔ اس طرح کے شبہات انھوں یہود نے اتنی کثرت سے پھیلائے کہ خود مسلمانوں میں کچھ سادہ مزاج لوگ ان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے لگے۔ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے وہ اس حد تک چلے گئے کہ جب یہ لوگ آپ کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ایسے الفاظ بولتے جن سے آپ کا بے حقیقت ہونا ظاہر ہوتا۔ مثلاً ’’ہماری طرف توجہ کیجیے‘‘ کے لیے عربی زبان میں ایک شائستہ لفظ’اُنظرنا‘ تھا۔ مگر وہ اس کو چھوڑ کر ’راعِنا‘ کہتے۔ کیوں کہ تھوڑا سا کھینچ کر اس کو’ راعینا‘ کہہ دیا جائے تو اس کے معنی ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے ہوجاتے ہیں ، اسی طرح کبھی الف کو دبا کر وہ اس کو راعِنَ کہتے جس کے معنیٰ احمق کے ہوتے ہیں۔
ہدایت کی گئی کہ (1)گفتگو میں صاف الفاظ استعمال کرو، مشتبہ الفاظ مت بولو جس میں کوئی برا پہلو نکل سکتا ہو 2) (جو بات کہی جائے اس کو غور سے سنو اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ (3)سوال کی کثرت آدمی کو سیدھے راستہ سے بھٹکا دیتی ہے، اس ليے سوال وجواب کے بجائے عبرت اور نصیحت کا ذہن پیدا کرو۔ (4) اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی غلطی کی بنا پر تم اپنے ایمان ہی سے محروم ہو جاؤ۔ 5) (دنیا میں کسی کے پاس کوئی خیر دیکھو تو حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہو، کیوں کہ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جو اس کے فیصلہ کے تحت اس کے ایک بندے کو پہنچا ہے۔
أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
📘 کسی کو خدا کی طرف سے سچائی ملے اور وہ اس کا داعی بن کر کھڑا ہو جائے تو لوگ اس کے مخالف بن جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کی دعوت میں لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)دکھائی دینے لگتی ہے۔ لیکن زوال یافتہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی روایتی عظمت کی نفی کریں ۔ کیوں کہ وہ پیغمبری کو اپنا قومی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ان کے گروہ کے سوا کسی اور گروہ میں خدا کے پیغمبرکا ظہور ہو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب آپ کی دعوت کے بارے میں کنفیوزن پیدا کرنے والی بحثیں چھیڑتے تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈال دیں کہ آپ جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ محض ایک شخص کی ذاتی اپج ہے۔ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیز نہیں ہے۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن میں بعض قانونی احکام تورات سے مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ کہتے کہ کیا خدا بھی حکم دینے میں غلطی کرتاہے کہ ایک بار ایک حکم دے اور اس کے بعد اسی معاملہ میں دوسرا حکم بھیجے۔ اس طرح کے شبہات انھوں یہود نے اتنی کثرت سے پھیلائے کہ خود مسلمانوں میں کچھ سادہ مزاج لوگ ان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے لگے۔ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے وہ اس حد تک چلے گئے کہ جب یہ لوگ آپ کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ایسے الفاظ بولتے جن سے آپ کا بے حقیقت ہونا ظاہر ہوتا۔ مثلاً ’’ہماری طرف توجہ کیجیے‘‘ کے لیے عربی زبان میں ایک شائستہ لفظ’اُنظرنا‘ تھا۔ مگر وہ اس کو چھوڑ کر ’راعِنا‘ کہتے۔ کیوں کہ تھوڑا سا کھینچ کر اس کو’ راعینا‘ کہہ دیا جائے تو اس کے معنی ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے ہوجاتے ہیں ، اسی طرح کبھی الف کو دبا کر وہ اس کو راعِنَ کہتے جس کے معنیٰ احمق کے ہوتے ہیں۔
ہدایت کی گئی کہ (1)گفتگو میں صاف الفاظ استعمال کرو، مشتبہ الفاظ مت بولو جس میں کوئی برا پہلو نکل سکتا ہو 2) (جو بات کہی جائے اس کو غور سے سنو اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ (3)سوال کی کثرت آدمی کو سیدھے راستہ سے بھٹکا دیتی ہے، اس ليے سوال وجواب کے بجائے عبرت اور نصیحت کا ذہن پیدا کرو۔ (4) اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی غلطی کی بنا پر تم اپنے ایمان ہی سے محروم ہو جاؤ۔ 5) (دنیا میں کسی کے پاس کوئی خیر دیکھو تو حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہو، کیوں کہ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جو اس کے فیصلہ کے تحت اس کے ایک بندے کو پہنچا ہے۔
أَمْ تُرِيدُونَ أَنْ تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِنْ قَبْلُ ۗ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
📘 کسی کو خدا کی طرف سے سچائی ملے اور وہ اس کا داعی بن کر کھڑا ہو جائے تو لوگ اس کے مخالف بن جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس کی دعوت میں لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)دکھائی دینے لگتی ہے۔ لیکن زوال یافتہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی روایتی عظمت کی نفی کریں ۔ کیوں کہ وہ پیغمبری کو اپنا قومی حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہوتی ہے کہ ان کے گروہ کے سوا کسی اور گروہ میں خدا کے پیغمبرکا ظہور ہو۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے اہل کتاب آپ کی دعوت کے بارے میں کنفیوزن پیدا کرنے والی بحثیں چھیڑتے تاکہ لوگوں کو اس شبہ میں ڈال دیں کہ آپ جو کچھ پیش کررہے ہیں وہ محض ایک شخص کی ذاتی اپج ہے۔ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی چیز نہیں ہے۔ان میں سے ایک یہ تھا کہ قرآن میں بعض قانونی احکام تورات سے مختلف تھے۔ ان کو دیکھ کر وہ کہتے کہ کیا خدا بھی حکم دینے میں غلطی کرتاہے کہ ایک بار ایک حکم دے اور اس کے بعد اسی معاملہ میں دوسرا حکم بھیجے۔ اس طرح کے شبہات انھوں یہود نے اتنی کثرت سے پھیلائے کہ خود مسلمانوں میں کچھ سادہ مزاج لوگ ان کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے لگے۔ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے وہ اس حد تک چلے گئے کہ جب یہ لوگ آپ کی مجلسوں میں بیٹھتے تو ایسے الفاظ بولتے جن سے آپ کا بے حقیقت ہونا ظاہر ہوتا۔ مثلاً ’’ہماری طرف توجہ کیجیے‘‘ کے لیے عربی زبان میں ایک شائستہ لفظ’اُنظرنا‘ تھا۔ مگر وہ اس کو چھوڑ کر ’راعِنا‘ کہتے۔ کیوں کہ تھوڑا سا کھینچ کر اس کو’ راعینا‘ کہہ دیا جائے تو اس کے معنی ’’ہمارے چرواہے‘‘ کے ہوجاتے ہیں ، اسی طرح کبھی الف کو دبا کر وہ اس کو راعِنَ کہتے جس کے معنیٰ احمق کے ہوتے ہیں۔
ہدایت کی گئی کہ (1)گفتگو میں صاف الفاظ استعمال کرو، مشتبہ الفاظ مت بولو جس میں کوئی برا پہلو نکل سکتا ہو 2) (جو بات کہی جائے اس کو غور سے سنو اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ (3)سوال کی کثرت آدمی کو سیدھے راستہ سے بھٹکا دیتی ہے، اس ليے سوال وجواب کے بجائے عبرت اور نصیحت کا ذہن پیدا کرو۔ (4) اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی غلطی کی بنا پر تم اپنے ایمان ہی سے محروم ہو جاؤ۔ 5) (دنیا میں کسی کے پاس کوئی خیر دیکھو تو حسد اور جلن میں مبتلا نہ ہو، کیوں کہ یہ اللہ کا ایک عطیہ ہے جو اس کے فیصلہ کے تحت اس کے ایک بندے کو پہنچا ہے۔
وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 قرآن کی آواز اگرچہ بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس آواز تھی۔ تاہم انھیں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو اپنے دل کی آواز پاکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے جارہے تھے۔ یہ صورت حال قدیم آسمانی کتابوں کی حامل قوم کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئی۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز کی ترقی کے ہم معنی تھی جس کو وہ بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ کیا کہ ایک طرف مشرکین کو ابھار کر ان کو اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا۔ دوسری طرف وہ نئے اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے شبہات اور مغالطے میں ڈالتے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآن سے بد ظن ہوجائیں ، اور دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف واپس چلے جائیں ۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ایسے لوگوں کے خلاف اشتعال پیدا ہونا فطری تھا۔ مگر اللہ نے اس سے ان کو منع فرمادیا۔ حکم ہوا کہ ان سے بحث مباحثہ یا ان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی موجودہ مرحلہ میں ہر گز نہ کی جائے۔ اس معاملہ میں تمام تر اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلی کردے کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن ہوجائے۔ بروقت مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ صبر کریں اور نماز اورزکوۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں ۔ صبر آدمی کو اس سے بچاتاہے کہ وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت منفی کارروائیاں کرنے لگے۔ نماز آدمی کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اور اپنے مال میں دوسرے بھائیوں کو حق دار بنانا وہ چیز ہے جس سے باہمی خیر خواہی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
نئے اسلام لانے والوں سے وہ کہتے کہ تم کو اپنا آبائی مذہب چھوڑنا ہے تو نیا مذہب اختیار کرنے کے بجائے پہلے سے موجود آسمانی مذاہب میں سے کوئی ایک اختیار کر لو، یہودی بن جاؤ یا پھر عیسائی بن جاؤ۔ کیوں کہ جنت تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہے جو ہمیشہ سے نبیوں اور بزرگوں کی جماعت رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ کسی گروہ سے وابستگی کسی کو جنت کا مستحق نہیں بناتی۔ جنت کا فیصلہ آدمی کے اپنے عمل کی بنیاد پر کیا جاتاہے، نہ کہ گروہی فضیلت کی بنیاد پر۔ احسان کے معنی ہیں کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ اسلام میں اچھا ہونا یہ ہے کہ اللہ کے لیے آدمی کی حوالگی اتنی کامل ہو کہ ہر دوسری چیز کی اہمیت اس کے ذہن سے حذف ہوجائے۔ گروہی تعصبات، شخصی وفاداریاں اور دنیوی مصالح کوئی بھی چیز اس کے لیے اللہ کی آواز کی طرف دوڑ پڑنے میں رکاوٹ نہ بنے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ
📘 خدا کی اس دنیا میں کامیابی صرف اس شخص کے ليے ہے جو صاحبِ ایمان ہو، جو کسی اور والا نہ ہو کر ایک اللہ والا بن جائے۔ جس کی زندگی اندر سے باہر تک ایمان میں ڈھل گئی ہو۔
جب کسی شخص کو ایمان ملتاہے تو یہ سادہ سی بات نہیں ہوتی۔ یہ اس کی زندگی میںایک انقلاب آنے کے ہم معنی ہوتاہے۔ اب وہ اللہ کی عبادت کرنے والا اور اس کے آگے جھکنے والا بن جاتا ہے۔ اس کی سنجیدگی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بے فائدہ مشاغل میں وقت ضائع کرنا اس کو ہلاکت معلوم ہونے لگتا ہے۔ وہ اپنی کمائی کا ایک حصہ خدا کے نام پر نکالتا ہے۔ اور اس سے ضرورت مندوں کی مدد کرتاہے۔ وہ اپنی شہوانی خواہشات کو کنٹرول میں رکھنے والا بن جاتا ہے۔ اور اس کو انھیں حد ود کے اندر استعمال کرتا ہے جو خدا نے اس کے ليے مقرر کردی ہیں۔ وہ دنیا میں ایک ذمہ دار آدمی کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ دوسرے کی امانت میں وہ کبھی خیانت نہیں کرتا۔ کسی سے جب وہ کوئی عہد کرلیتا ہے تو وہ کبھی اس کے خلاف نہیںجاتا۔
جن لوگوں کے اندر یہ خصوصیات ہوں وہ اللہ کے مطلوب بندے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ليے خدا نے جنت الفردوس کی معیاری دنیا تیار کر رکھی ہے۔ موت کے بعد وہ اس کی فضا میں داخل کردئے جائیں گے تاکہ ابدی طورپر اس کے اندر عیش کرتے رہیں۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ۚ وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 قرآن کی آواز اگرچہ بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس آواز تھی۔ تاہم انھیں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو اپنے دل کی آواز پاکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے جارہے تھے۔ یہ صورت حال قدیم آسمانی کتابوں کی حامل قوم کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئی۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز کی ترقی کے ہم معنی تھی جس کو وہ بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ کیا کہ ایک طرف مشرکین کو ابھار کر ان کو اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا۔ دوسری طرف وہ نئے اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے شبہات اور مغالطے میں ڈالتے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآن سے بد ظن ہوجائیں ، اور دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف واپس چلے جائیں ۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ایسے لوگوں کے خلاف اشتعال پیدا ہونا فطری تھا۔ مگر اللہ نے اس سے ان کو منع فرمادیا۔ حکم ہوا کہ ان سے بحث مباحثہ یا ان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی موجودہ مرحلہ میں ہر گز نہ کی جائے۔ اس معاملہ میں تمام تر اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلی کردے کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن ہوجائے۔ بروقت مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ صبر کریں اور نماز اورزکوۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں ۔ صبر آدمی کو اس سے بچاتاہے کہ وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت منفی کارروائیاں کرنے لگے۔ نماز آدمی کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اور اپنے مال میں دوسرے بھائیوں کو حق دار بنانا وہ چیز ہے جس سے باہمی خیر خواہی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
نئے اسلام لانے والوں سے وہ کہتے کہ تم کو اپنا آبائی مذہب چھوڑنا ہے تو نیا مذہب اختیار کرنے کے بجائے پہلے سے موجود آسمانی مذاہب میں سے کوئی ایک اختیار کر لو، یہودی بن جاؤ یا پھر عیسائی بن جاؤ۔ کیوں کہ جنت تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہے جو ہمیشہ سے نبیوں اور بزرگوں کی جماعت رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ کسی گروہ سے وابستگی کسی کو جنت کا مستحق نہیں بناتی۔ جنت کا فیصلہ آدمی کے اپنے عمل کی بنیاد پر کیا جاتاہے، نہ کہ گروہی فضیلت کی بنیاد پر۔ احسان کے معنی ہیں کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ اسلام میں اچھا ہونا یہ ہے کہ اللہ کے لیے آدمی کی حوالگی اتنی کامل ہو کہ ہر دوسری چیز کی اہمیت اس کے ذہن سے حذف ہوجائے۔ گروہی تعصبات، شخصی وفاداریاں اور دنیوی مصالح کوئی بھی چیز اس کے لیے اللہ کی آواز کی طرف دوڑ پڑنے میں رکاوٹ نہ بنے۔
وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ ۗ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 قرآن کی آواز اگرچہ بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس آواز تھی۔ تاہم انھیں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو اپنے دل کی آواز پاکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے جارہے تھے۔ یہ صورت حال قدیم آسمانی کتابوں کی حامل قوم کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئی۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز کی ترقی کے ہم معنی تھی جس کو وہ بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ کیا کہ ایک طرف مشرکین کو ابھار کر ان کو اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا۔ دوسری طرف وہ نئے اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے شبہات اور مغالطے میں ڈالتے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآن سے بد ظن ہوجائیں ، اور دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف واپس چلے جائیں ۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ایسے لوگوں کے خلاف اشتعال پیدا ہونا فطری تھا۔ مگر اللہ نے اس سے ان کو منع فرمادیا۔ حکم ہوا کہ ان سے بحث مباحثہ یا ان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی موجودہ مرحلہ میں ہر گز نہ کی جائے۔ اس معاملہ میں تمام تر اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلی کردے کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن ہوجائے۔ بروقت مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ صبر کریں اور نماز اورزکوۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں ۔ صبر آدمی کو اس سے بچاتاہے کہ وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت منفی کارروائیاں کرنے لگے۔ نماز آدمی کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اور اپنے مال میں دوسرے بھائیوں کو حق دار بنانا وہ چیز ہے جس سے باہمی خیر خواہی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
نئے اسلام لانے والوں سے وہ کہتے کہ تم کو اپنا آبائی مذہب چھوڑنا ہے تو نیا مذہب اختیار کرنے کے بجائے پہلے سے موجود آسمانی مذاہب میں سے کوئی ایک اختیار کر لو، یہودی بن جاؤ یا پھر عیسائی بن جاؤ۔ کیوں کہ جنت تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہے جو ہمیشہ سے نبیوں اور بزرگوں کی جماعت رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ کسی گروہ سے وابستگی کسی کو جنت کا مستحق نہیں بناتی۔ جنت کا فیصلہ آدمی کے اپنے عمل کی بنیاد پر کیا جاتاہے، نہ کہ گروہی فضیلت کی بنیاد پر۔ احسان کے معنی ہیں کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ اسلام میں اچھا ہونا یہ ہے کہ اللہ کے لیے آدمی کی حوالگی اتنی کامل ہو کہ ہر دوسری چیز کی اہمیت اس کے ذہن سے حذف ہوجائے۔ گروہی تعصبات، شخصی وفاداریاں اور دنیوی مصالح کوئی بھی چیز اس کے لیے اللہ کی آواز کی طرف دوڑ پڑنے میں رکاوٹ نہ بنے۔
بَلَىٰ مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 قرآن کی آواز اگرچہ بہت سے لوگوں کے لیے نامانوس آواز تھی۔ تاہم انھیں میں ایسے لوگ بھی تھے جو اس کو اپنے دل کی آواز پاکر اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے جارہے تھے۔ یہ صورت حال قدیم آسمانی کتابوں کی حامل قوم کے لیے ناقابلِ برداشت بن گئی۔ کیوں کہ یہ ایک ایسی چیز کی ترقی کے ہم معنی تھی جس کو وہ بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کيے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ کیا کہ ایک طرف مشرکین کو ابھار کر ان کو اسلام کے خلاف جنگ پر آمادہ کردیا۔ دوسری طرف وہ نئے اسلام لانے والوں کو طرح طرح کے شبہات اور مغالطے میں ڈالتے تاکہ وہ قرآن اور صاحب قرآن سے بد ظن ہوجائیں ، اور دوبارہ اپنے آبائی مذہب کی طرف واپس چلے جائیں ۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں کے اندر ایسے لوگوں کے خلاف اشتعال پیدا ہونا فطری تھا۔ مگر اللہ نے اس سے ان کو منع فرمادیا۔ حکم ہوا کہ ان سے بحث مباحثہ یا ان کے خلاف کوئی جارحانہ کارروائی موجودہ مرحلہ میں ہر گز نہ کی جائے۔ اس معاملہ میں تمام تر اللہ پر بھروسہ کیا جائے اور اس وقت کا انتظار کیا جائے جب اللہ تعالیٰ حالات میں ایسی تبدیلی کردے کہ ان کے خلاف کوئی فیصلہ کن کارروائی کرنا ممکن ہوجائے۔ بروقت مسلمانوں کو چاہيے کہ وہ صبر کریں اور نماز اورزکوۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجائیں ۔ صبر آدمی کو اس سے بچاتاہے کہ وہ رد عمل کی نفسیات کے تحت منفی کارروائیاں کرنے لگے۔ نماز آدمی کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اور اپنے مال میں دوسرے بھائیوں کو حق دار بنانا وہ چیز ہے جس سے باہمی خیر خواہی اور اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
نئے اسلام لانے والوں سے وہ کہتے کہ تم کو اپنا آبائی مذہب چھوڑنا ہے تو نیا مذہب اختیار کرنے کے بجائے پہلے سے موجود آسمانی مذاہب میں سے کوئی ایک اختیار کر لو، یہودی بن جاؤ یا پھر عیسائی بن جاؤ۔ کیوں کہ جنت تو یہودیوں اور عیسائیوں کے لیے ہے جو ہمیشہ سے نبیوں اور بزرگوں کی جماعت رہی ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ کسی گروہ سے وابستگی کسی کو جنت کا مستحق نہیں بناتی۔ جنت کا فیصلہ آدمی کے اپنے عمل کی بنیاد پر کیا جاتاہے، نہ کہ گروہی فضیلت کی بنیاد پر۔ احسان کے معنی ہیں کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ اسلام میں اچھا ہونا یہ ہے کہ اللہ کے لیے آدمی کی حوالگی اتنی کامل ہو کہ ہر دوسری چیز کی اہمیت اس کے ذہن سے حذف ہوجائے۔ گروہی تعصبات، شخصی وفاداریاں اور دنیوی مصالح کوئی بھی چیز اس کے لیے اللہ کی آواز کی طرف دوڑ پڑنے میں رکاوٹ نہ بنے۔
وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
📘 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں تین بڑی قومیں آباد تھیں ، یہود، نصاری، اور مشرکین ۔یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں ۔ نصاریٰ نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں ۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق وصداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات بر سر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تووہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں ۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔
انھوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے، نہ اس ليے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا ۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں تین بڑی قومیں آباد تھیں ، یہود، نصاری، اور مشرکین ۔یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں ۔ نصاریٰ نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں ۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق وصداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات بر سر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تووہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں ۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔
انھوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے، نہ اس ليے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا ۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
📘 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں تین بڑی قومیں آباد تھیں ، یہود، نصاری، اور مشرکین ۔یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں ۔ نصاریٰ نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں ۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق وصداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات بر سر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تووہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں ۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔
انھوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے، نہ اس ليے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا ۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔
وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَهُ ۖ بَلْ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ
📘 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں تین بڑی قومیں آباد تھیں ، یہود، نصاری، اور مشرکین ۔یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں ۔ نصاریٰ نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں ۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق وصداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات بر سر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تووہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں ۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔
انھوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے، نہ اس ليے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا ۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
📘 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں تین بڑی قومیں آباد تھیں ، یہود، نصاری، اور مشرکین ۔یہود نے نبیوں اور بزرگوں سے وابستگی کو حق کا معیار بنایا۔ اس وجہ سے ان کو اپنی قوم حق پر اور دوسری قومیں باطل پر نظر آئیں ۔ نصاریٰ نے اپنے اندر یہ امتیاز دیکھا کہ اللہ نے اپنا ’’اکلوتا بیٹا‘‘ ان کے پاس بھیجا۔ مکہ کے مشرکین اپنی یہ خصوصیت سمجھتے تھے کہ وہ اللہ کے مقدس گھر کے پاسبان ہیں ۔ اس طرح ہر گروہ نے اپنے حسب حال حق وصداقت کا ایک خود ساختہ معیار بنا رکھا تھا اور جب وہ اس معیار کی روشنی میں دیکھتا تو لامحالہ اس کو اپنی ذات بر سر حق اور دوسروں کی برسر باطل نظر آتی۔ مگر ان کی عملی حالت جس چیز کا ثبوت دے رہی تھی وہ اس کے بالکل برعکس تھی۔ وہ گروہ گروہ بنے ہوئے تھے۔ ان میں سے کسی کو جب بھی موقع ملتا، وہ عبادت کے لیے بنے ہوئے خدا کے گھر کو اپنے گروہ کے علاوہ دوسرے گروہ پر بند کردیتا اور اس طرح خدا کے گھر کی ویرانی کا باعث بنتا۔ عبادت خانہ تووہ مقام ہے جہاں انسان اللہ سے ڈرتے ہوئے اور کانپتے ہوئے داخل ہو۔ اگر یہ لوگ واقعۃً خدا والے ہوتے تو کیسے ممکن تھا کہ وہ عبادت کے لیے آنے والے کسی بندے کو روکیں یا اس کو ستائیں ۔ وہ تو اللہ کی عظمت کے احساس سے دبے ہوئے ہوتے، پھر ان سے اس قسم کی سرکشی کا صدور کیوں کر ہوسکتا تھا۔
انھوں نے اللہ کو انسان کے اوپر قیاس کیا۔ ایک انسان اگر مشرق میں ہو تو اسی وقت وہ مغرب میں نہیں ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی اسی طرح کسی خاص سمت میں موجود ہے۔ یقیناً اللہ نے اپنی عبادت کے لیے رخ کا تعین کیا ہے مگر وہ عبادت کی تنظیمی ضرورت کی بنا پر ہے، نہ اس ليے کہ خدا اسی خاص رخ میں ملتا ہے۔ اسی طرح انسانوں پر قیاس کرتے ہوئے انھوں نے خدا کا بیٹا فرض کرلیا ۔ حالاں کہ خدا اس قسم کی چیزوں سے بلند وبرتر ہے۔ جو لوگ اس طرح خود ساختہ دین کو خدا کا دین بتائیں، ان کے لیے خدا کے یہاں رسوائی اور عذاب کے سوا اور کچھ نہیں۔
وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
📘 اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا’’اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمھارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں‘‘۔یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے۔ اس ليے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعیٔ حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ’’معمولی آدمی‘‘ کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین وآسمان کے مالک نے اپنے پیغام كو انسانوں تك پهنچانے کے لیےچنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس ليے وہ ان کو ’’بڑا‘‘ ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی۔ کیوں کہ وہ ان کے کنڈيشنڈ مائنڈکے مطابق نہ ہوتی۔
یہود ونصاریٰ قدیم زمانہ میں آسمانی مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہوکر رہ گیاتھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی ۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیاربن گیا تھا۔ دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جاسکتا۔
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ۖ وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
📘 اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا’’اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمھارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں‘‘۔یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے۔ اس ليے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعیٔ حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ’’معمولی آدمی‘‘ کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین وآسمان کے مالک نے اپنے پیغام كو انسانوں تك پهنچانے کے لیےچنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس ليے وہ ان کو ’’بڑا‘‘ ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی۔ کیوں کہ وہ ان کے کنڈيشنڈ مائنڈکے مطابق نہ ہوتی۔
یہود ونصاریٰ قدیم زمانہ میں آسمانی مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہوکر رہ گیاتھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی ۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیاربن گیا تھا۔ دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جاسکتا۔
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ
📘 جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت ديے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کوحق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میںہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور، اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیوں کہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کررہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ اپنے دنیوی معاملات میںہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا، گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اورچیز کا مستحق نہیں بناتی۔
وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ ۗ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَىٰ ۗ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
📘 اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا’’اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمھارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں‘‘۔یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے۔ اس ليے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعیٔ حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ’’معمولی آدمی‘‘ کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین وآسمان کے مالک نے اپنے پیغام كو انسانوں تك پهنچانے کے لیےچنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس ليے وہ ان کو ’’بڑا‘‘ ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی۔ کیوں کہ وہ ان کے کنڈيشنڈ مائنڈکے مطابق نہ ہوتی۔
یہود ونصاریٰ قدیم زمانہ میں آسمانی مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہوکر رہ گیاتھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی ۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیاربن گیا تھا۔ دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جاسکتا۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 اللہ کے وہ بندے جو اللہ کی طرف سے اس کے دین کا اعلان کرنے کے لیے آئے، ان کو ہر زمانہ میں ایک ہی قسم کے رد عمل سے سابقہ پیش آیا’’اگر تم خدا کے نمائندے ہو تو تمھارے ساتھ دنیا کے خزانے کیوں نہیں‘‘۔یہ شبہ ان لوگوں کو ہوتا جو اپنے دنیا پرستانہ مزاج کی وجہ سے مادی بڑائی کو بڑائی سمجھتے تھے۔ اس ليے وہ خدا کی نمائندگی کرنے والے میں بھی یہی بڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔ جب داعیٔ حق کی زندگی میں ان کو اس قسم کی بڑائی دکھائی نہ دیتی تو وہ اس کا انکار کردیتے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ ایک ’’معمولی آدمی‘‘ کیوں کر وہ شخص ہوسکتا ہے جس کو زمین وآسمان کے مالک نے اپنے پیغام كو انسانوں تك پهنچانے کے لیےچنا ہو۔ اللہ کے ان بندوں کی زندگی اور ان کے کلام میں اللہ اپنی نشانیوں کی صورت میں شامل ہوتا، بالفاظ دیگر معنوی بڑائیاں پوری طرح ان کے ساتھ ہوتیں۔ مگر اس قسم کی چیزیں لوگوں کو نظر نہ آتیں، اس ليے وہ ان کو ’’بڑا‘‘ ماننے کے لیے بھی تیار نہ ہوتے۔ دلیل اپنی کامل صورت میں موجود ہو کر بھی ان کے ذہن کا جزء نہ بنتی۔ کیوں کہ وہ ان کے کنڈيشنڈ مائنڈکے مطابق نہ ہوتی۔
یہود ونصاریٰ قدیم زمانہ میں آسمانی مذہب کے نمائندے تھے مگر زوال کا شکار ہونے کے بعد دین ان کے لیے ایک گروہی طریقہ ہوکر رہ گیاتھا۔ وہ اپنے گروہ سے وابستہ رہنے کو دین سمجھتے اور گروہ سے الگ ہوجانے کو بے دینی ۔ ان کے گروہ میں شامل ہونا یا نہ ہونا ہی ان کے نزدیک حق اور ناحق کا معیاربن گیا تھا۔ دین جب اپنی بے آمیز صورت میں ان کے سامنے آیا تو ان کا گروہی دین داری کا مزاج اس کو قبول نہ کرسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بے آمیز دین کو وہی اختیار کرے گا جس نے اپنی فطرت کو زندہ رکھا ہے۔ جن کی فطرت کی روشنی بجھ چکی ہے ان سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں۔ دین کو ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول بنانے کی خاطر دین کو بدلا نہیں جاسکتا۔
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
📘 بنی اسرائیل کو اس کارِ خاص کے لیے چنا گیا تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ ان کے اعمال کے بارے میں ان کا مالک ان سے سوال کرنے والا ہے۔ اس کام کی رہنمائی کے لیے ان کے درمیان مسلسل پیغمبر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل پر زوال آیا تو انھوں نے اس منصبی فضیلت کو نسلی اور گروہی فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ اور اس طرح اس کی بابت اپنے استحقاق کو کھو دیا۔ اسماعیلی خاندان میں نبی عربی کا آنا دراصل بنی اسرائیل کی مقام فضیلت سے معزولی اور اس کی جگہ بنی اسماعیل کے تقرر کا اعلان تھا۔ بنی سرائیل میں جو لوگ فی الواقع خدا پرست تھے ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ نبی عربی جو کلام پیش کررہے ہیں وہ خدا کی طرف سے آیا ہوا کلام ہے۔ مگر جو لوگ گروہی تعصبات کو دین بنائے ہوئے تھے ان کے لیے اپنے سے باہر کسی فضیلت کا اعتراف کرنا ممکن نہ ہوسکا۔
پیغمبر عربی کے ذریعہ ان کو متنبہ کیاگیا کہ یاد رکھو آخرت میں حقیقی ایمان اور سچے عمل کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ دنیا میں ایک شخص دوسرے شخص کا بار اپنے سر لے لیتاہے۔ کسی معاملہ میں کسی کی سفارش کام آجاتی ہے۔ کبھی معاوضہ دے کر آدمی چھوٹ جاتا ہے۔ کبھی کوئی مددگار مل جاتا ہے جو پشت پناہی کرکے بچالیتاہے۔ مگر آخرت میں اس قسم کی کوئی چیز کسی کے کام آنے والی نہیں۔ آخرت کسی گروہ کی نسلی وراثت نہیں، وہ اللہ کے بے لاگ انصاف کا دن ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو جو درجۂ فضیلت ملا اس کا فیصلہ اس وقت کیاگیا جب وہ کڑی جانچ میں خدا کے سچے فرماں بردار ثابت ہوئے۔ اللہ کی یہی سنت ان کی نسل کے بارے میں بھی ہے کہ جو عمل میں پورا اترے گا وہ اس وعدۂ الٰہی میں شریک ہوگا۔ اور جو عمل کے ترازو پر اپنے کو سچا ثابت نہ کرسکے اس کا وہی انجام ہوگا جو اس قسم کے دوسرے مجرمین کے لیے اللہ کے یہاں مقدر ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کو نہایت کڑی آزمائشوں کے بعد پیشوائی کا مقام دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت و قیادت کے منصب کا استحقاق قربانیوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ قربانی کی قیمت پر کسی مقصد کو اختیار کرنے والا اس مقصد کی راہ میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس ليے قدرتی طورپر وہی اس کا قائد بنتا ہے۔
وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اس کارِ خاص کے لیے چنا گیا تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ ان کے اعمال کے بارے میں ان کا مالک ان سے سوال کرنے والا ہے۔ اس کام کی رہنمائی کے لیے ان کے درمیان مسلسل پیغمبر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل پر زوال آیا تو انھوں نے اس منصبی فضیلت کو نسلی اور گروہی فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ اور اس طرح اس کی بابت اپنے استحقاق کو کھو دیا۔ اسماعیلی خاندان میں نبی عربی کا آنا دراصل بنی اسرائیل کی مقام فضیلت سے معزولی اور اس کی جگہ بنی اسماعیل کے تقرر کا اعلان تھا۔ بنی سرائیل میں جو لوگ فی الواقع خدا پرست تھے ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ نبی عربی جو کلام پیش کررہے ہیں وہ خدا کی طرف سے آیا ہوا کلام ہے۔ مگر جو لوگ گروہی تعصبات کو دین بنائے ہوئے تھے ان کے لیے اپنے سے باہر کسی فضیلت کا اعتراف کرنا ممکن نہ ہوسکا۔
پیغمبر عربی کے ذریعہ ان کو متنبہ کیاگیا کہ یاد رکھو آخرت میں حقیقی ایمان اور سچے عمل کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ دنیا میں ایک شخص دوسرے شخص کا بار اپنے سر لے لیتاہے۔ کسی معاملہ میں کسی کی سفارش کام آجاتی ہے۔ کبھی معاوضہ دے کر آدمی چھوٹ جاتا ہے۔ کبھی کوئی مددگار مل جاتا ہے جو پشت پناہی کرکے بچالیتاہے۔ مگر آخرت میں اس قسم کی کوئی چیز کسی کے کام آنے والی نہیں۔ آخرت کسی گروہ کی نسلی وراثت نہیں، وہ اللہ کے بے لاگ انصاف کا دن ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو جو درجۂ فضیلت ملا اس کا فیصلہ اس وقت کیاگیا جب وہ کڑی جانچ میں خدا کے سچے فرماں بردار ثابت ہوئے۔ اللہ کی یہی سنت ان کی نسل کے بارے میں بھی ہے کہ جو عمل میں پورا اترے گا وہ اس وعدۂ الٰہی میں شریک ہوگا۔ اور جو عمل کے ترازو پر اپنے کو سچا ثابت نہ کرسکے اس کا وہی انجام ہوگا جو اس قسم کے دوسرے مجرمین کے لیے اللہ کے یہاں مقدر ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کو نہایت کڑی آزمائشوں کے بعد پیشوائی کا مقام دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت و قیادت کے منصب کا استحقاق قربانیوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ قربانی کی قیمت پر کسی مقصد کو اختیار کرنے والا اس مقصد کی راہ میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس ليے قدرتی طورپر وہی اس کا قائد بنتا ہے۔
۞ وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
📘 بنی اسرائیل کو اس کارِ خاص کے لیے چنا گیا تھا کہ وہ انسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان کو اس حقیقت سے آگاہ کریں کہ ان کے اعمال کے بارے میں ان کا مالک ان سے سوال کرنے والا ہے۔ اس کام کی رہنمائی کے لیے ان کے درمیان مسلسل پیغمبر آتے رہے۔ حضرت ابراہیم، یعقوب، یوسف، موسیٰ، داؤد، سلیمان، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ علیہم السلام وغیرہ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جب بنی اسرائیل پر زوال آیا تو انھوں نے اس منصبی فضیلت کو نسلی اور گروہی فضیلت کے معنی میں لے لیا۔ اور اس طرح اس کی بابت اپنے استحقاق کو کھو دیا۔ اسماعیلی خاندان میں نبی عربی کا آنا دراصل بنی اسرائیل کی مقام فضیلت سے معزولی اور اس کی جگہ بنی اسماعیل کے تقرر کا اعلان تھا۔ بنی سرائیل میں جو لوگ فی الواقع خدا پرست تھے ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ نبی عربی جو کلام پیش کررہے ہیں وہ خدا کی طرف سے آیا ہوا کلام ہے۔ مگر جو لوگ گروہی تعصبات کو دین بنائے ہوئے تھے ان کے لیے اپنے سے باہر کسی فضیلت کا اعتراف کرنا ممکن نہ ہوسکا۔
پیغمبر عربی کے ذریعہ ان کو متنبہ کیاگیا کہ یاد رکھو آخرت میں حقیقی ایمان اور سچے عمل کے سوا کسی بھی چیز کی کوئی قیمت نہ ہوگی۔ دنیا میں ایک شخص دوسرے شخص کا بار اپنے سر لے لیتاہے۔ کسی معاملہ میں کسی کی سفارش کام آجاتی ہے۔ کبھی معاوضہ دے کر آدمی چھوٹ جاتا ہے۔ کبھی کوئی مددگار مل جاتا ہے جو پشت پناہی کرکے بچالیتاہے۔ مگر آخرت میں اس قسم کی کوئی چیز کسی کے کام آنے والی نہیں۔ آخرت کسی گروہ کی نسلی وراثت نہیں، وہ اللہ کے بے لاگ انصاف کا دن ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو جو درجۂ فضیلت ملا اس کا فیصلہ اس وقت کیاگیا جب وہ کڑی جانچ میں خدا کے سچے فرماں بردار ثابت ہوئے۔ اللہ کی یہی سنت ان کی نسل کے بارے میں بھی ہے کہ جو عمل میں پورا اترے گا وہ اس وعدۂ الٰہی میں شریک ہوگا۔ اور جو عمل کے ترازو پر اپنے کو سچا ثابت نہ کرسکے اس کا وہی انجام ہوگا جو اس قسم کے دوسرے مجرمین کے لیے اللہ کے یہاں مقدر ہے ۔ حضرت ابراہیمؑ کو نہایت کڑی آزمائشوں کے بعد پیشوائی کا مقام دیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت و قیادت کے منصب کا استحقاق قربانیوں کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔ قربانی کی قیمت پر کسی مقصد کو اختیار کرنے والا اس مقصد کی راہ میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ اس ليے قدرتی طورپر وہی اس کا قائد بنتا ہے۔
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
📘 ساری دنیا کے اہل ایمان ہر سال اپنے وطن کو چھوڑ کر بیت اللہ آتے ہیں۔ یہاں کسی کے لیے کسی ذی حیات پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔ حرم کعبہ کو دائمی طورپر عبادت کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔ اس مقام کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا جاتا ہے۔ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ دنیا سے الگ ہو کر اللہ کی یاد کی جاتی ہے اور اللہ کے لیے رکوع وسجود کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ دنیا کا سب سے زیادہ خشک علاقہ تھا جہاں ريتیلی زمینوں اور پتھریلی چٹانوں کی وجہ سے کوئی فصل پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مزید یہ کہ وہ انتہائی طورپر غیر محفوظ تھا۔ چار ہزار بر س پہلے حضرت ابراہیمؑکو حکم ہوا کہ اپنے خاندان کو اس علاقہ میں لے جاؤ اور اس کو وہاں بسادو۔ حضرت ابراہیم نے بلا جھجھك اس پر عمل كيا۔ اور جب خاندان کو اس بے آب وگیاہ مقام پر پہنچا چکے تو دعا کی خدایا میں نے تیرے حکم کی تعمیل کردی۔ اب تو اپنے بندے کی پکار کو سن لے اور اس بستی کو امن وامان کی بستی بنا دے۔ اور اس خشک زمین پر ان کے لیے خصوصی رزق کا انتظام فرما۔ دعا قبول ہوئی اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ علاقہ آج تک امن اور رزق کی کثرت کا نمونہ بنا ہوا ہے۔
مومن کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے کہ وہ بار بار یاد کرتا رہے کہ خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو اس کو بہر حال ایک روزلوٹ کر خدا کے یہاں جانا ہے۔ وہ جن انسانوں کے درمیان رہے، بے ضرر بن کر رہے۔ وہ زمین کو خدا کی عبادت کی جگہ سمجھے اور اس کو اپنی آلودگيوں سے پاک رکھے۔ اس کی پوری زندگی خدا کے گرد گھومتی ہو وہ بظاہر دنیا میں رہے مگر اس کا دل اپنے رب میں اٹکا ہوا ہو۔ وہ ہمہ تن اللہ کے آگے جھک جائے۔ پھر یہ کہ دین جس چیز کا تقاضا کرے، خواہ وہ ایک ’’چٹیل میدان‘‘میں بیوی بچوں کو لے جاکر ڈال دینا ہو، بندہ پوری وفاداری کے ساتھ اس کے لیے راضی ہوجائے۔ اور جب تعمیل حکم کرچکے تو خدا سے مدد کی درخواست کرے۔ عجب نہیں کہ خدا اپنے بندے کی خاطر چٹیل بیابان میں رزق کے چشمے جاری کردے۔
دنیا کی رونق، خواہ کسی کو دین کے نام پر ملے، اِس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اللہ نے اس کو امامت و پیشوائی کے منصب کے لیے قبول کرلیا ہے۔ دنیا کی چیزیں صرف آزمائش کے لیے ہیں جو سب کو ملتی ہیں۔ جب کہ امامت یہ ہے کہ کسی بندے کو قوموں کے درمیان خدا کی نمائندگی کے لیے منتخب کرلیا جائے۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
📘 ساری دنیا کے اہل ایمان ہر سال اپنے وطن کو چھوڑ کر بیت اللہ آتے ہیں۔ یہاں کسی کے لیے کسی ذی حیات پر زیادتی کرنا جائز نہیں۔ حرم کعبہ کو دائمی طورپر عبادت کی جگہ بنا دیا گیا ہے۔ اس مقام کو ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک رکھا جاتا ہے۔ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے۔ دنیا سے الگ ہو کر اللہ کی یاد کی جاتی ہے اور اللہ کے لیے رکوع وسجود کیا جاتا ہے۔ قدیم زمانہ میں یہ دنیا کا سب سے زیادہ خشک علاقہ تھا جہاں ريتیلی زمینوں اور پتھریلی چٹانوں کی وجہ سے کوئی فصل پیدا نہیں ہوتی تھی۔ مزید یہ کہ وہ انتہائی طورپر غیر محفوظ تھا۔ چار ہزار بر س پہلے حضرت ابراہیمؑکو حکم ہوا کہ اپنے خاندان کو اس علاقہ میں لے جاؤ اور اس کو وہاں بسادو۔ حضرت ابراہیم نے بلا جھجھك اس پر عمل كيا۔ اور جب خاندان کو اس بے آب وگیاہ مقام پر پہنچا چکے تو دعا کی خدایا میں نے تیرے حکم کی تعمیل کردی۔ اب تو اپنے بندے کی پکار کو سن لے اور اس بستی کو امن وامان کی بستی بنا دے۔ اور اس خشک زمین پر ان کے لیے خصوصی رزق کا انتظام فرما۔ دعا قبول ہوئی اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ علاقہ آج تک امن اور رزق کی کثرت کا نمونہ بنا ہوا ہے۔
مومن کو دنیا میں اس طرح رہنا ہے کہ وہ بار بار یاد کرتا رہے کہ خواہ وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو اس کو بہر حال ایک روزلوٹ کر خدا کے یہاں جانا ہے۔ وہ جن انسانوں کے درمیان رہے، بے ضرر بن کر رہے۔ وہ زمین کو خدا کی عبادت کی جگہ سمجھے اور اس کو اپنی آلودگيوں سے پاک رکھے۔ اس کی پوری زندگی خدا کے گرد گھومتی ہو وہ بظاہر دنیا میں رہے مگر اس کا دل اپنے رب میں اٹکا ہوا ہو۔ وہ ہمہ تن اللہ کے آگے جھک جائے۔ پھر یہ کہ دین جس چیز کا تقاضا کرے، خواہ وہ ایک ’’چٹیل میدان‘‘میں بیوی بچوں کو لے جاکر ڈال دینا ہو، بندہ پوری وفاداری کے ساتھ اس کے لیے راضی ہوجائے۔ اور جب تعمیل حکم کرچکے تو خدا سے مدد کی درخواست کرے۔ عجب نہیں کہ خدا اپنے بندے کی خاطر چٹیل بیابان میں رزق کے چشمے جاری کردے۔
دنیا کی رونق، خواہ کسی کو دین کے نام پر ملے، اِس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ اللہ نے اس کو امامت و پیشوائی کے منصب کے لیے قبول کرلیا ہے۔ دنیا کی چیزیں صرف آزمائش کے لیے ہیں جو سب کو ملتی ہیں۔ جب کہ امامت یہ ہے کہ کسی بندے کو قوموں کے درمیان خدا کی نمائندگی کے لیے منتخب کرلیا جائے۔
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 اللہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ حجاز کو اسلام کی دعوت کا عالمی مرکز بنائے۔ اس مرکز کے قیام اور انتظام کے لیے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا انتخاب ہوا۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی زبان سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ ایک اعتبار سے دعا تھے اور دوسرے اعتبار سے وہ دو روحوں کا اپنے آپ کو اللہ کے منصوبے میں دے دینے کا اعلان تھا۔ ایسی دعا خود مطلوب الٰہی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ پوری طرح قبول ہوئی۔ عرب کے خشک بیابان سے اسلام کا ابدی چشمہ پھوٹ نکلا۔ بنی اسماعیل کے دل اللہ تعالیٰ نے خصوصی طورپر اپنے دین کی خدمت کے لیے نرم کرديے۔ ان کے اندر سے ایک طاقت ور اسلامی دعوت برپا ہوئی۔ ان کے ذریعہ سے اللہ نے اپنے بندوں کو وہ طریقے بتائے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پھر انھیں کے اندر سے اس آخری رسول کی بعثت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ کار نبوت کو ایک مکمل تاریخی نمونہ کی صورت میں قائم کردیا۔
نبی کا پہلا کام تلاوت آیات ہے۔ آیت کے معنی نشانی کے ہیں۔ یعنی وہ چیز جو کسی چیز کے اوپر دلیل بنے۔ انسان کی فطرت میں اور باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کی بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ یہ اشارات کی صورت میں ہیں۔ پیغمبر ان اشارات کو کھولتا ہے۔ وہ آدمی کو وہ نگاہ دیتا ہے جس سے وہ ہرچیز میں اپنے رب کا جلوہ دیکھنے لگے ۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی وحی کا مہبط بنتا ہے اور اس کو خدا سے لے کر انسان تک پہنچاتا ہے۔ حکمت کا مطلب ہے بصیرت۔ جب آدمی خدا کی نشانیوں کو دیکھنے کی نظر پیدا کر لیتا ہے، جب وہ اپنے ذہن کو قرآن کی تعلیمات میں ڈھال لیتاہےتو اس کے اندر ایک فکری روشنی جل اٹھتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ کے ہم شعور بنالیتا ہے۔ وہ ہر معاملہ میں اس صحیح فیصلہ تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ تزکیہ کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر موافق عناصر سے پاک کردینا تاکہ وہ موافق فضا میں اپنے فطری کمال کو پہنچ سکے۔ نبی کی آخری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے انسان تیار ہوں جن کے سینے اللہ کی عقیدت کے سوا ہر عقیدت سے خالی ہوں۔ ایسی روحیں وجود میں آئیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہوں، ایسے افراد پیدا ہوں جو کائنات سے وہ ربانی رزق پاسکیں، جو اللہ نے اپنے مومن بندوں کے لیے رکھ دیا ہے۔
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
📘 اللہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ حجاز کو اسلام کی دعوت کا عالمی مرکز بنائے۔ اس مرکز کے قیام اور انتظام کے لیے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا انتخاب ہوا۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی زبان سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ ایک اعتبار سے دعا تھے اور دوسرے اعتبار سے وہ دو روحوں کا اپنے آپ کو اللہ کے منصوبے میں دے دینے کا اعلان تھا۔ ایسی دعا خود مطلوب الٰہی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ پوری طرح قبول ہوئی۔ عرب کے خشک بیابان سے اسلام کا ابدی چشمہ پھوٹ نکلا۔ بنی اسماعیل کے دل اللہ تعالیٰ نے خصوصی طورپر اپنے دین کی خدمت کے لیے نرم کرديے۔ ان کے اندر سے ایک طاقت ور اسلامی دعوت برپا ہوئی۔ ان کے ذریعہ سے اللہ نے اپنے بندوں کو وہ طریقے بتائے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پھر انھیں کے اندر سے اس آخری رسول کی بعثت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ کار نبوت کو ایک مکمل تاریخی نمونہ کی صورت میں قائم کردیا۔
نبی کا پہلا کام تلاوت آیات ہے۔ آیت کے معنی نشانی کے ہیں۔ یعنی وہ چیز جو کسی چیز کے اوپر دلیل بنے۔ انسان کی فطرت میں اور باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کی بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ یہ اشارات کی صورت میں ہیں۔ پیغمبر ان اشارات کو کھولتا ہے۔ وہ آدمی کو وہ نگاہ دیتا ہے جس سے وہ ہرچیز میں اپنے رب کا جلوہ دیکھنے لگے ۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی وحی کا مہبط بنتا ہے اور اس کو خدا سے لے کر انسان تک پہنچاتا ہے۔ حکمت کا مطلب ہے بصیرت۔ جب آدمی خدا کی نشانیوں کو دیکھنے کی نظر پیدا کر لیتا ہے، جب وہ اپنے ذہن کو قرآن کی تعلیمات میں ڈھال لیتاہےتو اس کے اندر ایک فکری روشنی جل اٹھتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ کے ہم شعور بنالیتا ہے۔ وہ ہر معاملہ میں اس صحیح فیصلہ تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ تزکیہ کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر موافق عناصر سے پاک کردینا تاکہ وہ موافق فضا میں اپنے فطری کمال کو پہنچ سکے۔ نبی کی آخری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے انسان تیار ہوں جن کے سینے اللہ کی عقیدت کے سوا ہر عقیدت سے خالی ہوں۔ ایسی روحیں وجود میں آئیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہوں، ایسے افراد پیدا ہوں جو کائنات سے وہ ربانی رزق پاسکیں، جو اللہ نے اپنے مومن بندوں کے لیے رکھ دیا ہے۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
📘 اللہ کا یہ فیصلہ تھا کہ وہ حجاز کو اسلام کی دعوت کا عالمی مرکز بنائے۔ اس مرکز کے قیام اور انتظام کے لیے حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد کا انتخاب ہوا۔ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کی زبان سے جو کلمات نکل رہے تھے وہ ایک اعتبار سے دعا تھے اور دوسرے اعتبار سے وہ دو روحوں کا اپنے آپ کو اللہ کے منصوبے میں دے دینے کا اعلان تھا۔ ایسی دعا خود مطلوب الٰہی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ پوری طرح قبول ہوئی۔ عرب کے خشک بیابان سے اسلام کا ابدی چشمہ پھوٹ نکلا۔ بنی اسماعیل کے دل اللہ تعالیٰ نے خصوصی طورپر اپنے دین کی خدمت کے لیے نرم کرديے۔ ان کے اندر سے ایک طاقت ور اسلامی دعوت برپا ہوئی۔ ان کے ذریعہ سے اللہ نے اپنے بندوں کو وہ طریقے بتائے جن سے وہ خوش ہوتا ہے اور اپنی رحمت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ پھر انھیں کے اندر سے اس آخری رسول کی بعثت ہوئی جس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ کار نبوت کو ایک مکمل تاریخی نمونہ کی صورت میں قائم کردیا۔
نبی کا پہلا کام تلاوت آیات ہے۔ آیت کے معنی نشانی کے ہیں۔ یعنی وہ چیز جو کسی چیز کے اوپر دلیل بنے۔ انسان کی فطرت میں اور باہر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے اپنی معرفت کی بے شمار نشانیاں رکھ دی ہیں۔ یہ اشارات کی صورت میں ہیں۔ پیغمبر ان اشارات کو کھولتا ہے۔ وہ آدمی کو وہ نگاہ دیتا ہے جس سے وہ ہرچیز میں اپنے رب کا جلوہ دیکھنے لگے ۔ کتاب سے مراد قرآن ہے۔ نبی کا دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اللہ کی وحی کا مہبط بنتا ہے اور اس کو خدا سے لے کر انسان تک پہنچاتا ہے۔ حکمت کا مطلب ہے بصیرت۔ جب آدمی خدا کی نشانیوں کو دیکھنے کی نظر پیدا کر لیتا ہے، جب وہ اپنے ذہن کو قرآن کی تعلیمات میں ڈھال لیتاہےتو اس کے اندر ایک فکری روشنی جل اٹھتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ کے ہم شعور بنالیتا ہے۔ وہ ہر معاملہ میں اس صحیح فیصلہ تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔ تزکیہ کا مطلب ہے کسی چیز کو غیر موافق عناصر سے پاک کردینا تاکہ وہ موافق فضا میں اپنے فطری کمال کو پہنچ سکے۔ نبی کی آخری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے انسان تیار ہوں جن کے سینے اللہ کی عقیدت کے سوا ہر عقیدت سے خالی ہوں۔ ایسی روحیں وجود میں آئیں جو نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزاد ہوں، ایسے افراد پیدا ہوں جو کائنات سے وہ ربانی رزق پاسکیں، جو اللہ نے اپنے مومن بندوں کے لیے رکھ دیا ہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ
📘 جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت ديے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کوحق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میںہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور، اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیوں کہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کررہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ اپنے دنیوی معاملات میںہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا، گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اورچیز کا مستحق نہیں بناتی۔
وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ۚ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا ۖ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ ’’اسلام‘‘ تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جودین منسوب کررکھا تھا اس میں حوالگی وسپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں خواہش پرستی کی زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے ’’اللہ کے مقبول بندوں ‘‘ کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اوّل الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایت کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔
ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انھیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کی کمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے نسلی نجات کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انھوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں ۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہر ایک كو وہی ملے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کودوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کيے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ’’تم نہ مرنا مگر اسلام پر‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی۔ تمھاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا۔
إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ ۖ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ ’’اسلام‘‘ تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جودین منسوب کررکھا تھا اس میں حوالگی وسپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں خواہش پرستی کی زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے ’’اللہ کے مقبول بندوں ‘‘ کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اوّل الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایت کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔
ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انھیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کی کمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے نسلی نجات کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انھوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں ۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہر ایک كو وہی ملے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کودوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کيے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ’’تم نہ مرنا مگر اسلام پر‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی۔ تمھاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا۔
وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يَا بَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَىٰ لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ ’’اسلام‘‘ تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جودین منسوب کررکھا تھا اس میں حوالگی وسپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں خواہش پرستی کی زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے ’’اللہ کے مقبول بندوں ‘‘ کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اوّل الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایت کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔
ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انھیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کی کمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے نسلی نجات کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انھوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں ۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہر ایک كو وہی ملے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کودوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کيے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ’’تم نہ مرنا مگر اسلام پر‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی۔ تمھاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا۔
أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَٰهَكَ وَإِلَٰهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَٰهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ ’’اسلام‘‘ تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جودین منسوب کررکھا تھا اس میں حوالگی وسپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں خواہش پرستی کی زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے ’’اللہ کے مقبول بندوں ‘‘ کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اوّل الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایت کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔
ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انھیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کی کمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے نسلی نجات کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انھوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں ۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہر ایک كو وہی ملے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کودوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کيے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ’’تم نہ مرنا مگر اسلام پر‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی۔ تمھاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا۔
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت عین وہی تھی جو حضرت ابراہیم کی دعوت تھی۔ مگر یہود، جو حضرت ابراہیم کا پیرو ہونے پر فخر کرتے تھے، آپ کی دعوت کے سب سے بڑے مخالف بن گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی جس دین ابراہیمی کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے وہ ’’اسلام‘‘ تھا۔ یعنی اللہ کے لیے کامل حوالگی و سپردگی۔ قرآن کے مطابق یہی حضرت ابراہیم کا دین تھا اور اپنی اولاد کو انہوں نے اسی کی وصیت کی۔ اس کے برعکس یہود نے حضرت ابراہیم کی طرف جودین منسوب کررکھا تھا اس میں حوالگی وسپردگی کا کوئی سوال نہ تھا۔ اس میں خواہش پرستی کی زندگی گزارتے ہوئے محض سستے تخیلات کے تحت جنت کی ضمانت حاصل ہوجاتی تھی۔ پیغمبر عربی کے لائے ہوئے دین میں نجات کا دارومدار تمام تر عمل پر تھا، جب کہ یہود نے ’’اللہ کے مقبول بندوں ‘‘ کی جماعت سے وابستگی اور عقیدت کو نجات کے لیے کافی سمجھ لیا تھا۔ اوّل الذکر کے نزدیک دین آسمانی ہدایت کا نام تھا اور ثانی الذکر کے نزدیک محض ایک گروہی مجموعہ کا جو نسلی روایات اور قومی تخیلات کے تحت ایک خاص صورت میں بن گیا تھا۔
ماضی یا حال کے بزرگوں سے اپنے کو منسوب کرکے یہ اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ ہمارا انجام بھی انھیں کے ساتھ ہوگا۔ ہمارے عمل کی کمی ان کے عمل کی زیادتی سے پوری ہوجائے گی۔ یہود اس خوش فہمی کو یہاں تک لے گئے کہ انھوں نے نسلی نجات کا عقیدہ وضع کرلیا۔ انھوں نے اپنی تمام امیدیں اپنے بزرگوں کے تقدس پر قائم کرلیں ۔ مگر یہ نفسیاتی فریب کے سوا اور کچھ نہیں ۔ ہر ایک كو وہی ملے گا جو اس نے کیا۔ ایک سے نہ دوسرے کے جرائم کی پوچھ ہوگی اور نہ ایک کودوسرے کی نیکیوں میں سے حصہ ملے گا۔ ہر ایک اپنے کيے کے مطابق اللہ کے یہاں بدلہ پائے گا۔ ’’تم نہ مرنا مگر اسلام پر‘‘ یعنی اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنے میں رکاوٹیں آئیں گی۔ تمھاری تمناؤں کی عمارت گرے گی۔ پھر بھی تم آخر وقت تک اس پر قائم رہنا۔
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
صِبْغَةَ اللَّهِ ۖ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً ۖ وَنَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَىٰ شَيَاطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ
📘 جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت ديے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کوحق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میںہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور، اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیوں کہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کررہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ اپنے دنیوی معاملات میںہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا، گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اورچیز کا مستحق نہیں بناتی۔
أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطَ كَانُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ ۗ قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّهُ ۗ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَهَادَةً عِنْدَهُ مِنَ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ ۖ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ ۖ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دین کی طرف بلاتے تھے وہ وہی ابراہیمی دین تھا جس سے اہل کتاب اپنے کو منسوب کيے ہوئے تھے۔ پھر وہ آپ کے مخالف کیوں ہوگئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیغمبر عربی ؐکی دعوت کے مطابق، دین یہ تھا کہ آدمی اپنی زندگی کو اللہ کے رنگ میں رنگ لے، وہ ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ والا بن جائے۔ اس کے برعکس اہل کتاب کے یہاں دین بس ایک قومی فخر کے نشان کے طورپر باقی رہ گیا تھا۔ پیغمبر عربی کی دعوت سے ان کی پُرفخر نفسیات پر زد پڑتی تھی۔، اس ليے وہ آپ کے دشمن بن گئے۔
جو لوگ گروہی فضیلت کی نفسیات میں مبتلا ہوں وہ اپنے سے باہر کسی صداقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ وہ اپنے گروہ کے پیغمبرانِ خدا کو تو مانیں گے مگر اسی خدا کا ایک پیغمبراُن کے گروہ سے باہر آئے تو وہ اس کا انکار کردیں گے۔ دین کے نام پر وہ جس چیز سے واقف ہیں وہ صرف گروہ پرستی ہے، اس ليے وہی شخصیتیں ان کو عظیم نظر آتی ہیں جو ان کے اپنے گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ، مگر جس شخص کے لیے دین خدا پرستی کا نام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والی ہر آواز کو پہچان لے گا اور اس پر لبیک کہے گا۔ یہود کے علما کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ پیغمبر عربی اللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کی دعوت سچی خدا پرستی کی دعوت ہے،مگر اپنی بڑائی کو قائم رکھنے کی خاطر انھوں نے لوگوں کے سامنے ایک ایسی حقیقت کا اعلان نہیں کیا جس کا اعلان کرنا ان کے اوپر خدا کی طرف سے فرض کیا گیا تھا۔
’’پچھلے لوگوں کو ان کی کمائی کا بدلہ ملے گا اور اگلے لوگوں کو ان کی کمائی کا‘‘ — اس کا مطلب یہ ہے کہ حق کے معاملہ میں وراثت نہیں ۔پچھلی قومیں ، مثلاً یہود، اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ان کے پچھلے بزرگوں کی نیکیوں کا ثواب ان کے بعد کے لوگوں کو بھی پہنچتا ہے۔ اسی طرح عیسائیوں نے یہ سمجھ لیا کہ گناہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کو وراثۃً منتقل ہوتا ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے بالکل بے اصل ہیں ۔ خدا کے یہاں ہر آدمی کو جو کچھ ملے گا، اپنے ذاتی عمل کی بنیاد پر ملے گا، نہ کہ کسی دوسرے کے عمل کی بنیاد پر۔
’’اگر وہ اس طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ راہ یاب ہوئے‘‘— گویا صحابہ کرام اپنے زمانہ میں جس ڈھنگ پرایمان لائے تھے وہی وہ ایمان ہے جو اللہ کے یہاں اصلاً معتبر ہے۔ صحابۂ کرام کے زمانہ میں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف قدیم انبیاء تھے جن کی حیثیت تاریخی طورپر مسلّم ہوچکی تھی دوسری طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ابھی اپنی تاریخ کے آغاز میں تھے۔ آپ کی ذات کے گرد ابھی تک تاریخی عظمتیں جمع نہیں ہوئی تھیں اس کے باوجود انھوں نے آپ کو پہچانا اور آپ پر ایمان لائے۔ گویا اللہ کے نزدیک حق کا وہ اعتراف معتبر ہے جب کہ آدمی نے حق کو مجرد سطح پر دیکھ کر اسے مانا ہو۔ حق جب قومی وراثت بن جائے یا تاریخی عمل کے نتیجہ میں اس کے گرد عظمت کے مینار کھڑے ہوچکے ہوں تو حق کو ماننا حق کو ماننا نہیں ہوتا بلکہ ایک ایسی چیز کو ماننا ہوتا ہے جو قومی فخر اور تاریخی تقاضا بن چکی ہو۔
۞ سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 قبلہ کا تعلق مظاہر ِعبادت سے ہے، نہ کہ حقیقت عبادت سے۔ قبلہ کا اصل مقصد عبادت کی تنظیم کے لیے ایک عمومی رخ کا تعین کرنا ہے۔ ہر سمت اللہ کی سمت ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے جو سمت بھی مقرر کردے وہی اس کی پسندیدہ عبادتی سمت ہوگی، خواہ وہ مشرق کی طرف ہو یا مغرب کی طرف۔ مگر لمبی مدت تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کی وجہ سے قبلۂ اوّل کو تقدس حاصل ہوگیا تھا۔ چنانچہ2 ہجری میں جب قبلہ کی تبدیلی کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں کے لیے اپنے ذہن کو اس کے مطابق بنانا مشکل ہوگیا۔آپ کی مخالفت کرنے والے لوگوں نے اس کو بہانہ بنا کر آپ کے خلاف طرح طرح کی باتیں پھیلانی شروع کیں — بیت المقدس ہمیشہ سے نبیوں کا قبلہ رہا ہے۔ پھر اس کی مخالفت کیوں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ساری تحریک یہود کی ضد میں چلائی جارہی ہے۔ کوئی کہتا کہ یہ مدعیٔ رسالت خود اپنے مشن کے بارے میں متحیر ومتردد (confused)ہیں ، کبھی کعبہ کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کو کہتے ہیں اور کبھی بیت المقدس کی طرف۔ کسی نے کہا: اگر کعبہ ہی اصل قبلہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے جو مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ان کی نمازیں بے کار گئیں ، وغیرہ۔ مگر جو سچے خدا پرست تھے، جو مظاہر میں اٹکے ہوئے نہیں تھے، ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اصل چیز قبلہ کی سمت نہیں ، اصل چیز خدا کا حکم ہے۔ اللہ کی طرف سے جس وقت جو حکم آجائے وہی اس وقت کا قبلہ ہوگا۔ روایات میں آتا ہے کہ ہجرت کے تقریباً سترہ ماہ بعد جب قبلہ کی تبدیلی کاحکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ میں نماز ادا کررہے تھے۔ حکم معلوم ہوتے ہی آپ نے اور مسلمانوں نے عین حالتِ نماز اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف کرلیا، یعنی شمال سے جنوب کی طرف۔
قبلہ کی تبدیلی ایک علامت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو امامت سے معزول کرکے امتِ محمدی کو اس کی جگہ مقرر کردیا ہے۔ اب قیامت تک بیت المقدس کے بجائے کعبہ خدا کے دین کی دعوت اور خدا پرستوں کے باہمی اتحاد کا عالمی مرکز ہوگا۔ ’’وسط‘‘ کے معنی بیچ کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے درمیانی وسیلہ ہیں۔ اللہ کا پیغام رسول کے ذریعہ ان کو پہنچا ہے۔ اب اس پیغام کو انھیں قیامت تک تمام قوموں کو پہنچاتے رہنا ہے، اسی پر دنیا میں بھی ان کے مستقبل کا انحصار ہے اور اسی پر آخرت ميں ان كي نجات کا بھی۔
وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا ۗ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلَّا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۗ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ
📘 قبلہ کا تعلق مظاہر ِعبادت سے ہے، نہ کہ حقیقت عبادت سے۔ قبلہ کا اصل مقصد عبادت کی تنظیم کے لیے ایک عمومی رخ کا تعین کرنا ہے۔ ہر سمت اللہ کی سمت ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لیے جو سمت بھی مقرر کردے وہی اس کی پسندیدہ عبادتی سمت ہوگی، خواہ وہ مشرق کی طرف ہو یا مغرب کی طرف۔ مگر لمبی مدت تک بیت المقدس کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کی وجہ سے قبلۂ اوّل کو تقدس حاصل ہوگیا تھا۔ چنانچہ2 ہجری میں جب قبلہ کی تبدیلی کا اعلان ہوا تو بہت سے لوگوں کے لیے اپنے ذہن کو اس کے مطابق بنانا مشکل ہوگیا۔آپ کی مخالفت کرنے والے لوگوں نے اس کو بہانہ بنا کر آپ کے خلاف طرح طرح کی باتیں پھیلانی شروع کیں — بیت المقدس ہمیشہ سے نبیوں کا قبلہ رہا ہے۔ پھر اس کی مخالفت کیوں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ساری تحریک یہود کی ضد میں چلائی جارہی ہے۔ کوئی کہتا کہ یہ مدعیٔ رسالت خود اپنے مشن کے بارے میں متحیر ومتردد (confused)ہیں ، کبھی کعبہ کی طرف رخ کرکے عبادت کرنے کو کہتے ہیں اور کبھی بیت المقدس کی طرف۔ کسی نے کہا: اگر کعبہ ہی اصل قبلہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے جو مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ان کی نمازیں بے کار گئیں ، وغیرہ۔ مگر جو سچے خدا پرست تھے، جو مظاہر میں اٹکے ہوئے نہیں تھے، ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اصل چیز قبلہ کی سمت نہیں ، اصل چیز خدا کا حکم ہے۔ اللہ کی طرف سے جس وقت جو حکم آجائے وہی اس وقت کا قبلہ ہوگا۔ روایات میں آتا ہے کہ ہجرت کے تقریباً سترہ ماہ بعد جب قبلہ کی تبدیلی کاحکم آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ مدینہ میں نماز ادا کررہے تھے۔ حکم معلوم ہوتے ہی آپ نے اور مسلمانوں نے عین حالتِ نماز اپنا رخ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف کرلیا، یعنی شمال سے جنوب کی طرف۔
قبلہ کی تبدیلی ایک علامت تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو امامت سے معزول کرکے امتِ محمدی کو اس کی جگہ مقرر کردیا ہے۔ اب قیامت تک بیت المقدس کے بجائے کعبہ خدا کے دین کی دعوت اور خدا پرستوں کے باہمی اتحاد کا عالمی مرکز ہوگا۔ ’’وسط‘‘ کے معنی بیچ کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے درمیانی وسیلہ ہیں۔ اللہ کا پیغام رسول کے ذریعہ ان کو پہنچا ہے۔ اب اس پیغام کو انھیں قیامت تک تمام قوموں کو پہنچاتے رہنا ہے، اسی پر دنیا میں بھی ان کے مستقبل کا انحصار ہے اور اسی پر آخرت ميں ان كي نجات کا بھی۔
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جن امور میں ابھی وحی نہ آئی ہو ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقےکی پیروی کرتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے ابتداميں بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا جو حضرت سلیمان کے زمانہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے۔ یہود کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کي امامت وپیشوائی سے معزول کیا تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوگیا کہ دین کو زوال یافتہ روایات سے جدا کردیا جائے تاکہ خدا کا دین ہر اعتبار سے اپنی خالص شکل میں نمایاں ہوسکے۔ اسی مصلحت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیلیٔ قبلہ کے حکم کا انتظار رہتا تھا۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال یہ حکم آگیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء جو یہود کو خبر دار کرنے کے لیے آئے، وہ پہلے ہی اس فیصلۂ الٰہی کی بابت یہود کو بتا چکے تھے اور ان کے علما اس معاملہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ تاہم ان میں صرف چند لوگ (جیسے عبد اللہ بن سلّام اور مخيریق رضی اللہ عنہما) ایسے نکلے جنھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے دین کا اظہار فرمایا ہے۔ان کے نہ ماننے کی وجہ محض ان کی خواہش پرستی تھی۔ وہ جن گروہی خوش خیالیوں میں جی رہے تھے، ان سے وہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اور جو انکار محض خواہش پرستی کی بنا پر پیداہو اس کو توڑنے میں کبھی کوئی دلیل کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی دلائل کے انکار سے اپنے ليے وہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جو اس کے خالق نے صرف دلائل کے اعتراف میں رکھا ہے۔
اللہ کی طرف سے جب کسی امرِ حق کا اعلان ہوتاہے تو وہ ایسے قطعی دلائل کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس کی صداقت کو پہچاننے سے عاجز نہ رہے۔ایسی حالت میں جو لوگ شبہ میں پڑیں وہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ خدا سے آشنا نہ تھے۔ اس ليے وہ خدا کی بولی کو پہچان نہ سکے۔ اسی طرح وہ لوگ جو حق کے خلاف کچھ الفاظ بول کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حق کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مضبوط استدلالی سہارے دریافت کرليے ہیں، بہت جلد ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ محض فرضی سہارے تھے جو ان کے نفس نے اپنی جھوٹی تسکین کے لیے وضع کرليے تھے۔
وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ۚ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ ۚ وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ ۙ إِنَّكَ إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جن امور میں ابھی وحی نہ آئی ہو ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقےکی پیروی کرتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے ابتداميں بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا جو حضرت سلیمان کے زمانہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے۔ یہود کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کي امامت وپیشوائی سے معزول کیا تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوگیا کہ دین کو زوال یافتہ روایات سے جدا کردیا جائے تاکہ خدا کا دین ہر اعتبار سے اپنی خالص شکل میں نمایاں ہوسکے۔ اسی مصلحت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیلیٔ قبلہ کے حکم کا انتظار رہتا تھا۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال یہ حکم آگیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء جو یہود کو خبر دار کرنے کے لیے آئے، وہ پہلے ہی اس فیصلۂ الٰہی کی بابت یہود کو بتا چکے تھے اور ان کے علما اس معاملہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ تاہم ان میں صرف چند لوگ (جیسے عبد اللہ بن سلّام اور مخيریق رضی اللہ عنہما) ایسے نکلے جنھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے دین کا اظہار فرمایا ہے۔ان کے نہ ماننے کی وجہ محض ان کی خواہش پرستی تھی۔ وہ جن گروہی خوش خیالیوں میں جی رہے تھے، ان سے وہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اور جو انکار محض خواہش پرستی کی بنا پر پیداہو اس کو توڑنے میں کبھی کوئی دلیل کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی دلائل کے انکار سے اپنے ليے وہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جو اس کے خالق نے صرف دلائل کے اعتراف میں رکھا ہے۔
اللہ کی طرف سے جب کسی امرِ حق کا اعلان ہوتاہے تو وہ ایسے قطعی دلائل کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس کی صداقت کو پہچاننے سے عاجز نہ رہے۔ایسی حالت میں جو لوگ شبہ میں پڑیں وہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ خدا سے آشنا نہ تھے۔ اس ليے وہ خدا کی بولی کو پہچان نہ سکے۔ اسی طرح وہ لوگ جو حق کے خلاف کچھ الفاظ بول کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حق کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مضبوط استدلالی سہارے دریافت کرليے ہیں، بہت جلد ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ محض فرضی سہارے تھے جو ان کے نفس نے اپنی جھوٹی تسکین کے لیے وضع کرليے تھے۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ ۖ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جن امور میں ابھی وحی نہ آئی ہو ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقےکی پیروی کرتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے ابتداميں بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا جو حضرت سلیمان کے زمانہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے۔ یہود کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کي امامت وپیشوائی سے معزول کیا تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوگیا کہ دین کو زوال یافتہ روایات سے جدا کردیا جائے تاکہ خدا کا دین ہر اعتبار سے اپنی خالص شکل میں نمایاں ہوسکے۔ اسی مصلحت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیلیٔ قبلہ کے حکم کا انتظار رہتا تھا۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال یہ حکم آگیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء جو یہود کو خبر دار کرنے کے لیے آئے، وہ پہلے ہی اس فیصلۂ الٰہی کی بابت یہود کو بتا چکے تھے اور ان کے علما اس معاملہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ تاہم ان میں صرف چند لوگ (جیسے عبد اللہ بن سلّام اور مخيریق رضی اللہ عنہما) ایسے نکلے جنھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے دین کا اظہار فرمایا ہے۔ان کے نہ ماننے کی وجہ محض ان کی خواہش پرستی تھی۔ وہ جن گروہی خوش خیالیوں میں جی رہے تھے، ان سے وہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اور جو انکار محض خواہش پرستی کی بنا پر پیداہو اس کو توڑنے میں کبھی کوئی دلیل کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی دلائل کے انکار سے اپنے ليے وہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جو اس کے خالق نے صرف دلائل کے اعتراف میں رکھا ہے۔
اللہ کی طرف سے جب کسی امرِ حق کا اعلان ہوتاہے تو وہ ایسے قطعی دلائل کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس کی صداقت کو پہچاننے سے عاجز نہ رہے۔ایسی حالت میں جو لوگ شبہ میں پڑیں وہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ خدا سے آشنا نہ تھے۔ اس ليے وہ خدا کی بولی کو پہچان نہ سکے۔ اسی طرح وہ لوگ جو حق کے خلاف کچھ الفاظ بول کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حق کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مضبوط استدلالی سہارے دریافت کرليے ہیں، بہت جلد ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ محض فرضی سہارے تھے جو ان کے نفس نے اپنی جھوٹی تسکین کے لیے وضع کرليے تھے۔
الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ
📘 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ تھی کہ جن امور میں ابھی وحی نہ آئی ہو ان میں آپ پچھلے انبیاء کے طریقےکی پیروی کرتے تھے۔ اسی بنا پر آپ نے ابتداميں بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا جو حضرت سلیمان کے زمانہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کا قبلہ رہا ہے۔ یہود کو جب اللہ تعالیٰ نے دین کي امامت وپیشوائی سے معزول کیا تو اس کے بعد یہ بھی ضروری ہوگیا کہ دین کو زوال یافتہ روایات سے جدا کردیا جائے تاکہ خدا کا دین ہر اعتبار سے اپنی خالص شکل میں نمایاں ہوسکے۔ اسی مصلحت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبدیلیٔ قبلہ کے حکم کا انتظار رہتا تھا۔ چنانچہ ہجرت کے دوسرے سال یہ حکم آگیا۔ بنی اسرائیل کے انبیاء جو یہود کو خبر دار کرنے کے لیے آئے، وہ پہلے ہی اس فیصلۂ الٰہی کی بابت یہود کو بتا چکے تھے اور ان کے علما اس معاملہ کو اچھی طرح جانتے تھے۔ تاہم ان میں صرف چند لوگ (جیسے عبد اللہ بن سلّام اور مخيریق رضی اللہ عنہما) ایسے نکلے جنھوں نے آپ کی تصدیق کی اور اس بات کا اقرار کیا کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سچے دین کا اظہار فرمایا ہے۔ان کے نہ ماننے کی وجہ محض ان کی خواہش پرستی تھی۔ وہ جن گروہی خوش خیالیوں میں جی رہے تھے، ان سے وہ نکلنا نہیں چاہتے تھے۔ اور جو انکار محض خواہش پرستی کی بنا پر پیداہو اس کو توڑنے میں کبھی کوئی دلیل کامیاب نہیں ہوتی۔ ایسا آدمی دلائل کے انکار سے اپنے ليے وہ رزق حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے جو اس کے خالق نے صرف دلائل کے اعتراف میں رکھا ہے۔
اللہ کی طرف سے جب کسی امرِ حق کا اعلان ہوتاہے تو وہ ایسے قطعی دلائل کے ساتھ ہوتا ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ اس کی صداقت کو پہچاننے سے عاجز نہ رہے۔ایسی حالت میں جو لوگ شبہ میں پڑیں وہ صرف یہ ثابت کررہے ہیں کہ وہ خدا سے آشنا نہ تھے۔ اس ليے وہ خدا کی بولی کو پہچان نہ سکے۔ اسی طرح وہ لوگ جو حق کے خلاف کچھ الفاظ بول کر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے حق کا اعتراف نہ کرنے کے لیے مضبوط استدلالی سہارے دریافت کرليے ہیں، بہت جلد ان کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ محض فرضی سہارے تھے جو ان کے نفس نے اپنی جھوٹی تسکین کے لیے وضع کرليے تھے۔
وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 کعبہ کو قبلہ مقرر کیاگیا تو زوال یافتہ ذہن رکھنے والے یہود یوں اور عیسائیوں نے اس قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کہ مغرب کی سمت خدا کی سمت ہے یا مشرق کی سمت۔ وہ اس مسئلہ کو بس رخ بندی کے مسئلہ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔مگر یہ ان کی ناسمجھی تھی۔ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا معاملہ سادہ طورپر ایک عبادتی رخ مقرر کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامت تھی کہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سب سے بڑے خیر کے اترنے کا وقت آگیا ہے جس کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی دعا کے مطابق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے۔ اب وہ آنے والا آگیاہے جو انسان کے اوپر اللہ کی ابدی ہدایت کا دروازہ کھولے اور اس کی نعمتِ ہدایت کو آخری حد تک کامل کردے — جو دین اللہ کی طرف سے بار بار بھیجا جاتا رہا مگر انسانوں کی غفلت وسرکشی سے ضائع ہوتا رہا، اس کو اس کی كامل شكل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے۔ خدا کا دین جو اب تک محض روایتی افسانہ بنا ہوا تھا اس کو ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں شامل کردے۔ وہ دین جس کا کوئی مستقل نمونہ قائم نہیں ہوسکا تھا اس کو ایک زندہ عملی نمونے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ یہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا معاملہ ہے، نہ کہ مختلف سمتوں میں سے کوئی زیادہ ’’مقدس سمت‘‘ مقرر کرنے کا۔
کعبہ کی تعمیر کے وقت ہی یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آخری رسول کے ذریعہ جس دین کا ظہور ہوگا اس کا مرکز کعبہ ہوگا ۔پچھلے انبیاء لوگوں کو مسلسل اس کی خبر دیتے رہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کعبہ کو تمام قوموں کے لیے قبلہ مقرر کرنا گویا نبی آخر الزماں کی حیثیت کو ثابت شدہ بنانا تھا۔ اب جو سنجیدہ لوگ ہیں ان کے لیے اللہ کا یہ اعلان آخری حجت ہے، اور جو لوگ آخرت سے بے خوف ہیں ان کی زبان کوکوئی بھی چیز روکنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہی ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا ہی کسی کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اللہ اس کو یاد رکھے۔ اللہ سے خوف رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ اس کو دوسری تمام چیزوں سے بےخوف کردے۔
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
📘 کعبہ کو قبلہ مقرر کیاگیا تو زوال یافتہ ذہن رکھنے والے یہود یوں اور عیسائیوں نے اس قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کہ مغرب کی سمت خدا کی سمت ہے یا مشرق کی سمت۔ وہ اس مسئلہ کو بس رخ بندی کے مسئلہ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔مگر یہ ان کی ناسمجھی تھی۔ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا معاملہ سادہ طورپر ایک عبادتی رخ مقرر کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامت تھی کہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سب سے بڑے خیر کے اترنے کا وقت آگیا ہے جس کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی دعا کے مطابق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے۔ اب وہ آنے والا آگیاہے جو انسان کے اوپر اللہ کی ابدی ہدایت کا دروازہ کھولے اور اس کی نعمتِ ہدایت کو آخری حد تک کامل کردے — جو دین اللہ کی طرف سے بار بار بھیجا جاتا رہا مگر انسانوں کی غفلت وسرکشی سے ضائع ہوتا رہا، اس کو اس کی كامل شكل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے۔ خدا کا دین جو اب تک محض روایتی افسانہ بنا ہوا تھا اس کو ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں شامل کردے۔ وہ دین جس کا کوئی مستقل نمونہ قائم نہیں ہوسکا تھا اس کو ایک زندہ عملی نمونے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ یہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا معاملہ ہے، نہ کہ مختلف سمتوں میں سے کوئی زیادہ ’’مقدس سمت‘‘ مقرر کرنے کا۔
کعبہ کی تعمیر کے وقت ہی یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آخری رسول کے ذریعہ جس دین کا ظہور ہوگا اس کا مرکز کعبہ ہوگا ۔پچھلے انبیاء لوگوں کو مسلسل اس کی خبر دیتے رہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کعبہ کو تمام قوموں کے لیے قبلہ مقرر کرنا گویا نبی آخر الزماں کی حیثیت کو ثابت شدہ بنانا تھا۔ اب جو سنجیدہ لوگ ہیں ان کے لیے اللہ کا یہ اعلان آخری حجت ہے، اور جو لوگ آخرت سے بے خوف ہیں ان کی زبان کوکوئی بھی چیز روکنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہی ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا ہی کسی کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اللہ اس کو یاد رکھے۔ اللہ سے خوف رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ اس کو دوسری تمام چیزوں سے بےخوف کردے۔
اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
📘 جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت ديے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کوحق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میںہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور، اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیوں کہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کررہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ اپنے دنیوی معاملات میںہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا، گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اورچیز کا مستحق نہیں بناتی۔
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
📘 کعبہ کو قبلہ مقرر کیاگیا تو زوال یافتہ ذہن رکھنے والے یہود یوں اور عیسائیوں نے اس قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کہ مغرب کی سمت خدا کی سمت ہے یا مشرق کی سمت۔ وہ اس مسئلہ کو بس رخ بندی کے مسئلہ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔مگر یہ ان کی ناسمجھی تھی۔ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا معاملہ سادہ طورپر ایک عبادتی رخ مقرر کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامت تھی کہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سب سے بڑے خیر کے اترنے کا وقت آگیا ہے جس کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی دعا کے مطابق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے۔ اب وہ آنے والا آگیاہے جو انسان کے اوپر اللہ کی ابدی ہدایت کا دروازہ کھولے اور اس کی نعمتِ ہدایت کو آخری حد تک کامل کردے — جو دین اللہ کی طرف سے بار بار بھیجا جاتا رہا مگر انسانوں کی غفلت وسرکشی سے ضائع ہوتا رہا، اس کو اس کی كامل شكل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے۔ خدا کا دین جو اب تک محض روایتی افسانہ بنا ہوا تھا اس کو ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں شامل کردے۔ وہ دین جس کا کوئی مستقل نمونہ قائم نہیں ہوسکا تھا اس کو ایک زندہ عملی نمونے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ یہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا معاملہ ہے، نہ کہ مختلف سمتوں میں سے کوئی زیادہ ’’مقدس سمت‘‘ مقرر کرنے کا۔
کعبہ کی تعمیر کے وقت ہی یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آخری رسول کے ذریعہ جس دین کا ظہور ہوگا اس کا مرکز کعبہ ہوگا ۔پچھلے انبیاء لوگوں کو مسلسل اس کی خبر دیتے رہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کعبہ کو تمام قوموں کے لیے قبلہ مقرر کرنا گویا نبی آخر الزماں کی حیثیت کو ثابت شدہ بنانا تھا۔ اب جو سنجیدہ لوگ ہیں ان کے لیے اللہ کا یہ اعلان آخری حجت ہے، اور جو لوگ آخرت سے بے خوف ہیں ان کی زبان کوکوئی بھی چیز روکنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہی ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا ہی کسی کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اللہ اس کو یاد رکھے۔ اللہ سے خوف رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ اس کو دوسری تمام چیزوں سے بےخوف کردے۔
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ
📘 کعبہ کو قبلہ مقرر کیاگیا تو زوال یافتہ ذہن رکھنے والے یہود یوں اور عیسائیوں نے اس قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کہ مغرب کی سمت خدا کی سمت ہے یا مشرق کی سمت۔ وہ اس مسئلہ کو بس رخ بندی کے مسئلہ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔مگر یہ ان کی ناسمجھی تھی۔ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا معاملہ سادہ طورپر ایک عبادتی رخ مقرر کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامت تھی کہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سب سے بڑے خیر کے اترنے کا وقت آگیا ہے جس کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی دعا کے مطابق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے۔ اب وہ آنے والا آگیاہے جو انسان کے اوپر اللہ کی ابدی ہدایت کا دروازہ کھولے اور اس کی نعمتِ ہدایت کو آخری حد تک کامل کردے — جو دین اللہ کی طرف سے بار بار بھیجا جاتا رہا مگر انسانوں کی غفلت وسرکشی سے ضائع ہوتا رہا، اس کو اس کی كامل شكل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے۔ خدا کا دین جو اب تک محض روایتی افسانہ بنا ہوا تھا اس کو ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں شامل کردے۔ وہ دین جس کا کوئی مستقل نمونہ قائم نہیں ہوسکا تھا اس کو ایک زندہ عملی نمونے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ یہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا معاملہ ہے، نہ کہ مختلف سمتوں میں سے کوئی زیادہ ’’مقدس سمت‘‘ مقرر کرنے کا۔
کعبہ کی تعمیر کے وقت ہی یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آخری رسول کے ذریعہ جس دین کا ظہور ہوگا اس کا مرکز کعبہ ہوگا ۔پچھلے انبیاء لوگوں کو مسلسل اس کی خبر دیتے رہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کعبہ کو تمام قوموں کے لیے قبلہ مقرر کرنا گویا نبی آخر الزماں کی حیثیت کو ثابت شدہ بنانا تھا۔ اب جو سنجیدہ لوگ ہیں ان کے لیے اللہ کا یہ اعلان آخری حجت ہے، اور جو لوگ آخرت سے بے خوف ہیں ان کی زبان کوکوئی بھی چیز روکنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہی ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا ہی کسی کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اللہ اس کو یاد رکھے۔ اللہ سے خوف رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ اس کو دوسری تمام چیزوں سے بےخوف کردے۔
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ
📘 کعبہ کو قبلہ مقرر کیاگیا تو زوال یافتہ ذہن رکھنے والے یہود یوں اور عیسائیوں نے اس قسم کی بحثیں چھیڑ دیں کہ مغرب کی سمت خدا کی سمت ہے یا مشرق کی سمت۔ وہ اس مسئلہ کو بس رخ بندی کے مسئلہ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔مگر یہ ان کی ناسمجھی تھی۔ کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کا معاملہ سادہ طورپر ایک عبادتی رخ مقرر کرنے کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک علامت تھی کہ اللہ کے بندوں کے لیے اس سب سے بڑے خیر کے اترنے کا وقت آگیا ہے جس کا فیصلہ بہت پہلے کیا جاچکا تھا۔ یہ ابراہیم واسماعیل (علیہما السلام) کی دعا کے مطابق نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہے۔ اب وہ آنے والا آگیاہے جو انسان کے اوپر اللہ کی ابدی ہدایت کا دروازہ کھولے اور اس کی نعمتِ ہدایت کو آخری حد تک کامل کردے — جو دین اللہ کی طرف سے بار بار بھیجا جاتا رہا مگر انسانوں کی غفلت وسرکشی سے ضائع ہوتا رہا، اس کو اس کی كامل شكل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کردے۔ خدا کا دین جو اب تک محض روایتی افسانہ بنا ہوا تھا اس کو ایک حقیقی واقعہ کی حیثیت سے انسانی تاریخ میں شامل کردے۔ وہ دین جس کا کوئی مستقل نمونہ قائم نہیں ہوسکا تھا اس کو ایک زندہ عملی نمونے کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے رکھ دے۔ یہ ہدایت الٰہی کی تکمیل کا معاملہ ہے، نہ کہ مختلف سمتوں میں سے کوئی زیادہ ’’مقدس سمت‘‘ مقرر کرنے کا۔
کعبہ کی تعمیر کے وقت ہی یہ مقدر ہوچکا تھا کہ آخری رسول کے ذریعہ جس دین کا ظہور ہوگا اس کا مرکز کعبہ ہوگا ۔پچھلے انبیاء لوگوں کو مسلسل اس کی خبر دیتے رہے۔ اس طرح اللہ کی طرف سے کعبہ کو تمام قوموں کے لیے قبلہ مقرر کرنا گویا نبی آخر الزماں کی حیثیت کو ثابت شدہ بنانا تھا۔ اب جو سنجیدہ لوگ ہیں ان کے لیے اللہ کا یہ اعلان آخری حجت ہے، اور جو لوگ آخرت سے بے خوف ہیں ان کی زبان کوکوئی بھی چیز روکنے والی ثابت نہیں ہوسکتی۔ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں وہی ہدایت کا راستہ پاتے ہیں۔ اللہ کو یاد رکھنا ہی کسی کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اللہ اس کو یاد رکھے۔ اللہ سے خوف رکھنا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ اللہ اس کو دوسری تمام چیزوں سے بےخوف کردے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
📘 دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح پالے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔ مگر یہ خوشیاں اور لذتیں اپني حقیقی صورت میں آدمی کو صرف آخرت میں ملیں گی۔ موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انعام کے لیے نہیں بنایا بلکہ امتحان کے لیے بنایا ہے، یہاں ایسے حالات رکھے گئے ہیں کہ خداپرستی کی راہ میں آدمی کے لیے رکاوٹیں پڑیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اپنے ايمان كے اظهار میں سنجیدہ ہے اور کون سنجیدہ نہیں — نفس کے محرکات، بیوی بچوں کے تقاضے، دنیا کی مصلحتیں، شیطان کے وسوسے، سماجی حالات کا دباؤ، وغيره۔ یہ چیزیں فتنہ کی صورت میں آدمی کو گھیرے رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان فتنوں کو پہچانے اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذکر وشکر کے تقاضے پورا کرے۔
ان امتحانی مشکلات کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد ذریعہ نماز اور صبر ہے۔ یعنی اللہ سے لپٹنا اور ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرتے ہوئے بالارادہ حق کے راستہ پر جمے رہنا۔ جو لوگ نا موافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں اور بظاہر غیر اللہ میں نفع دیکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
حق کی راہ میں مشکلات ومصائب کا دوسرا سبب مومن کا تبلیغی کردار ہے۔ تبلیغ ودعوت کا کام نصیحت اور تنقید کا کام ہے۔ اور نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ناپسنديده چیز رہی ہے، ان میں بھی نصیحت سننے کے لیے سب سے زیادہ حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دنیا کے کاروبار کو دین کے نام پر کررہے ہوں۔داعی کی ذات اور اس کے پیغام میں ایسے تمام لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)نظر آنے لگتی ہے۔ داعی کا وجود ایک ایسی ترازو بن جاتاہے جس پر ہر آدمی تُل رہا ہو۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعی بننا بھِڑ کے چھۃ میں ہاتھ ڈالنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے ماحول کے اندر بے جگہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی معاشیات برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کی ترقیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اس کی جان تک خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ مگر وہی آدمی راہ پر ہے جس کو بے راہ بتا کر ستایا جائے۔ وہی پاتا ہے جو اللہ کی راہ میں کھوئے۔ وہی جی رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے۔آخرت کی جنت اسی کے لیے ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِنْ لَا تَشْعُرُونَ
📘 دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح پالے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔ مگر یہ خوشیاں اور لذتیں اپني حقیقی صورت میں آدمی کو صرف آخرت میں ملیں گی۔ موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انعام کے لیے نہیں بنایا بلکہ امتحان کے لیے بنایا ہے، یہاں ایسے حالات رکھے گئے ہیں کہ خداپرستی کی راہ میں آدمی کے لیے رکاوٹیں پڑیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اپنے ايمان كے اظهار میں سنجیدہ ہے اور کون سنجیدہ نہیں — نفس کے محرکات، بیوی بچوں کے تقاضے، دنیا کی مصلحتیں، شیطان کے وسوسے، سماجی حالات کا دباؤ، وغيره۔ یہ چیزیں فتنہ کی صورت میں آدمی کو گھیرے رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان فتنوں کو پہچانے اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذکر وشکر کے تقاضے پورا کرے۔
ان امتحانی مشکلات کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد ذریعہ نماز اور صبر ہے۔ یعنی اللہ سے لپٹنا اور ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرتے ہوئے بالارادہ حق کے راستہ پر جمے رہنا۔ جو لوگ نا موافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں اور بظاہر غیر اللہ میں نفع دیکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
حق کی راہ میں مشکلات ومصائب کا دوسرا سبب مومن کا تبلیغی کردار ہے۔ تبلیغ ودعوت کا کام نصیحت اور تنقید کا کام ہے۔ اور نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ناپسنديده چیز رہی ہے، ان میں بھی نصیحت سننے کے لیے سب سے زیادہ حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دنیا کے کاروبار کو دین کے نام پر کررہے ہوں۔داعی کی ذات اور اس کے پیغام میں ایسے تمام لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)نظر آنے لگتی ہے۔ داعی کا وجود ایک ایسی ترازو بن جاتاہے جس پر ہر آدمی تُل رہا ہو۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعی بننا بھِڑ کے چھۃ میں ہاتھ ڈالنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے ماحول کے اندر بے جگہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی معاشیات برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کی ترقیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اس کی جان تک خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ مگر وہی آدمی راہ پر ہے جس کو بے راہ بتا کر ستایا جائے۔ وہی پاتا ہے جو اللہ کی راہ میں کھوئے۔ وہی جی رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے۔آخرت کی جنت اسی کے لیے ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ۗ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
📘 دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح پالے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔ مگر یہ خوشیاں اور لذتیں اپني حقیقی صورت میں آدمی کو صرف آخرت میں ملیں گی۔ موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انعام کے لیے نہیں بنایا بلکہ امتحان کے لیے بنایا ہے، یہاں ایسے حالات رکھے گئے ہیں کہ خداپرستی کی راہ میں آدمی کے لیے رکاوٹیں پڑیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اپنے ايمان كے اظهار میں سنجیدہ ہے اور کون سنجیدہ نہیں — نفس کے محرکات، بیوی بچوں کے تقاضے، دنیا کی مصلحتیں، شیطان کے وسوسے، سماجی حالات کا دباؤ، وغيره۔ یہ چیزیں فتنہ کی صورت میں آدمی کو گھیرے رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان فتنوں کو پہچانے اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذکر وشکر کے تقاضے پورا کرے۔
ان امتحانی مشکلات کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد ذریعہ نماز اور صبر ہے۔ یعنی اللہ سے لپٹنا اور ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرتے ہوئے بالارادہ حق کے راستہ پر جمے رہنا۔ جو لوگ نا موافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں اور بظاہر غیر اللہ میں نفع دیکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
حق کی راہ میں مشکلات ومصائب کا دوسرا سبب مومن کا تبلیغی کردار ہے۔ تبلیغ ودعوت کا کام نصیحت اور تنقید کا کام ہے۔ اور نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ناپسنديده چیز رہی ہے، ان میں بھی نصیحت سننے کے لیے سب سے زیادہ حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دنیا کے کاروبار کو دین کے نام پر کررہے ہوں۔داعی کی ذات اور اس کے پیغام میں ایسے تمام لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)نظر آنے لگتی ہے۔ داعی کا وجود ایک ایسی ترازو بن جاتاہے جس پر ہر آدمی تُل رہا ہو۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعی بننا بھِڑ کے چھۃ میں ہاتھ ڈالنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے ماحول کے اندر بے جگہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی معاشیات برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کی ترقیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اس کی جان تک خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ مگر وہی آدمی راہ پر ہے جس کو بے راہ بتا کر ستایا جائے۔ وہی پاتا ہے جو اللہ کی راہ میں کھوئے۔ وہی جی رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے۔آخرت کی جنت اسی کے لیے ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
📘 دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح پالے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔ مگر یہ خوشیاں اور لذتیں اپني حقیقی صورت میں آدمی کو صرف آخرت میں ملیں گی۔ موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انعام کے لیے نہیں بنایا بلکہ امتحان کے لیے بنایا ہے، یہاں ایسے حالات رکھے گئے ہیں کہ خداپرستی کی راہ میں آدمی کے لیے رکاوٹیں پڑیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اپنے ايمان كے اظهار میں سنجیدہ ہے اور کون سنجیدہ نہیں — نفس کے محرکات، بیوی بچوں کے تقاضے، دنیا کی مصلحتیں، شیطان کے وسوسے، سماجی حالات کا دباؤ، وغيره۔ یہ چیزیں فتنہ کی صورت میں آدمی کو گھیرے رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان فتنوں کو پہچانے اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذکر وشکر کے تقاضے پورا کرے۔
ان امتحانی مشکلات کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد ذریعہ نماز اور صبر ہے۔ یعنی اللہ سے لپٹنا اور ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرتے ہوئے بالارادہ حق کے راستہ پر جمے رہنا۔ جو لوگ نا موافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں اور بظاہر غیر اللہ میں نفع دیکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
حق کی راہ میں مشکلات ومصائب کا دوسرا سبب مومن کا تبلیغی کردار ہے۔ تبلیغ ودعوت کا کام نصیحت اور تنقید کا کام ہے۔ اور نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ناپسنديده چیز رہی ہے، ان میں بھی نصیحت سننے کے لیے سب سے زیادہ حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دنیا کے کاروبار کو دین کے نام پر کررہے ہوں۔داعی کی ذات اور اس کے پیغام میں ایسے تمام لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)نظر آنے لگتی ہے۔ داعی کا وجود ایک ایسی ترازو بن جاتاہے جس پر ہر آدمی تُل رہا ہو۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعی بننا بھِڑ کے چھۃ میں ہاتھ ڈالنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے ماحول کے اندر بے جگہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی معاشیات برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کی ترقیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اس کی جان تک خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ مگر وہی آدمی راہ پر ہے جس کو بے راہ بتا کر ستایا جائے۔ وہی پاتا ہے جو اللہ کی راہ میں کھوئے۔ وہی جی رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے۔آخرت کی جنت اسی کے لیے ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
📘 دین یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کو اس طرح پالے کہ اس کی یاد میں اور اس کی شکر گزاری میں اس کے صبح و شام بسر ہونے لگیں۔ اس قسم کی زندگی ہی تمام خوشیوں اور لذتوں کا خزانہ ہے۔ مگر یہ خوشیاں اور لذتیں اپني حقیقی صورت میں آدمی کو صرف آخرت میں ملیں گی۔ موجودہ دنیا کو اللہ تعالیٰ نے انعام کے لیے نہیں بنایا بلکہ امتحان کے لیے بنایا ہے، یہاں ایسے حالات رکھے گئے ہیں کہ خداپرستی کی راہ میں آدمی کے لیے رکاوٹیں پڑیں تاکہ معلوم ہو کہ کون اپنے ايمان كے اظهار میں سنجیدہ ہے اور کون سنجیدہ نہیں — نفس کے محرکات، بیوی بچوں کے تقاضے، دنیا کی مصلحتیں، شیطان کے وسوسے، سماجی حالات کا دباؤ، وغيره۔ یہ چیزیں فتنہ کی صورت میں آدمی کو گھیرے رہتی ہیں۔ آدمی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ان فتنوں کو پہچانے اور ان سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ذکر وشکر کے تقاضے پورا کرے۔
ان امتحانی مشکلات کے مقابلہ میں کامیابی کا واحد ذریعہ نماز اور صبر ہے۔ یعنی اللہ سے لپٹنا اور ہر قسم کی ناخوش گواریوں کو برداشت کرتے ہوئے بالارادہ حق کے راستہ پر جمے رہنا۔ جو لوگ نا موافق حالات سامنے آنے کے باوجود نہ بدکیں اور بظاہر غیر اللہ میں نفع دیکھتے ہوئے اللہ کے ساتھ اپنے کو باندھے رہیں وہی وہ لوگ ہیں جو سنتِ الٰہی کے مطابق کامیابی کی منزل تک پہنچیں گے۔
حق کی راہ میں مشکلات ومصائب کا دوسرا سبب مومن کا تبلیغی کردار ہے۔ تبلیغ ودعوت کا کام نصیحت اور تنقید کا کام ہے۔ اور نصیحت اور تنقید ہمیشہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ناپسنديده چیز رہی ہے، ان میں بھی نصیحت سننے کے لیے سب سے زیادہ حساس وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دنیا کے کاروبار کو دین کے نام پر کررہے ہوں۔داعی کی ذات اور اس کے پیغام میں ایسے تمام لوگوں کو اپنی حیثیت کی نفی (negation)نظر آنے لگتی ہے۔ داعی کا وجود ایک ایسی ترازو بن جاتاہے جس پر ہر آدمی تُل رہا ہو۔ ا س کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ داعی بننا بھِڑ کے چھۃ میں ہاتھ ڈالنے کے ہم معنی بن جاتا ہے۔ ایسا آدمی اپنے ماحول کے اندر بے جگہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی معاشیات برباد ہوجاتی ہیں۔ اس کی ترقیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ اس کی جان تک خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ مگر وہی آدمی راہ پر ہے جس کو بے راہ بتا کر ستایا جائے۔ وہی پاتا ہے جو اللہ کی راہ میں کھوئے۔ وہی جی رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دے۔آخرت کی جنت اسی کے لیے ہے جو اللہ کی خاطر دنیا کی جنت سے محروم ہوگیا ہو۔
۞ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ
📘 حضرت ابراہیم کا وطن عراق تھا۔ اللہ کے حکم سے وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کو لاکر اُس مقام پر چھوڑ گئے جہاں آج مکہ ہے۔ اس وقت یہاںنہ کوئی آبادی تھی اور نہ پانی۔ پیاس کا تقاضا ہوا تو ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ صفا اور مروہ نامی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتی رہیں۔ سات چکر لگانے کے بعد ناکام لوٹیں تو دیکھا کہ ان کی قیام گاہ کے پاس ایک چشمہ پھوٹ نکلا ہے۔ یہ چشمہ بعد کو زمزم کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک علامتی واقعہ ہے جو بتاتاہے کہ اللہ کا معاملہ اپنے بندوں سے کیا ہے۔ اللہ کا کوئی بندہ اگر اللہ کی راہ میں بڑھتے ہوئے اس حدتک چلا جائے کہ اس کے قدموں کے نیچے ریگستان اور بیابان کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ اپنی قدرت سے ریگستان میں اس کے لیے رزق کے چشمے جاری کردے گا — حج اور عمرہ میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کا مقصد اسی تاریخ کی یاد کو تازہ کرنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات میں اللہ کی نشانیاں اتنی واضح تھیں کہ یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ آپ کی زبان پر اللہ کا کلام جاری ہوا ہے۔ مگر اہل کتاب کے علما نے آپ کا اقرار نہیں کیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ ان کی جمی ہوئی تجارتیں اجڑ جائیں گی۔ اپنی کامیابی کار از انھوں نے حق کو چھپانے میں سمجھا، حالاں کہ ان کی کامیابی کا راز حق کے اعلان میں تھا۔ حق کی طرف بڑھنے میں وہ اپنے آپ کو بے زمین ہوتاہوا دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ بھول گئے کہ یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ جو بندہ حق کی خاطر بے زمین ہوجائے وہ سب سے بڑی زمین کو پالیتاہے، یعنی اللہ رب العالمین کی نصرت کو۔
تاہم اللہ کی رحمت کا دروازہ آدمی کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ابتدائی طور پر غلطی کرنے کے بعداگر آدمی کو ہوش آجائے اور وہ پلٹ کر صحیح رویہ اختیار کرلے۔ وہ اس امر حق کا اعلان کرے جس کو اللہ چاہتا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ مگر جو لوگ عدم اعتراف پر قائم رہیں اور اسی حال میں مرجائیں تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور کرديے جائیں گے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ
📘 حضرت ابراہیم کا وطن عراق تھا۔ اللہ کے حکم سے وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کو لاکر اُس مقام پر چھوڑ گئے جہاں آج مکہ ہے۔ اس وقت یہاںنہ کوئی آبادی تھی اور نہ پانی۔ پیاس کا تقاضا ہوا تو ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ صفا اور مروہ نامی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتی رہیں۔ سات چکر لگانے کے بعد ناکام لوٹیں تو دیکھا کہ ان کی قیام گاہ کے پاس ایک چشمہ پھوٹ نکلا ہے۔ یہ چشمہ بعد کو زمزم کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک علامتی واقعہ ہے جو بتاتاہے کہ اللہ کا معاملہ اپنے بندوں سے کیا ہے۔ اللہ کا کوئی بندہ اگر اللہ کی راہ میں بڑھتے ہوئے اس حدتک چلا جائے کہ اس کے قدموں کے نیچے ریگستان اور بیابان کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ اپنی قدرت سے ریگستان میں اس کے لیے رزق کے چشمے جاری کردے گا — حج اور عمرہ میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کا مقصد اسی تاریخ کی یاد کو تازہ کرنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات میں اللہ کی نشانیاں اتنی واضح تھیں کہ یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ آپ کی زبان پر اللہ کا کلام جاری ہوا ہے۔ مگر اہل کتاب کے علما نے آپ کا اقرار نہیں کیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ ان کی جمی ہوئی تجارتیں اجڑ جائیں گی۔ اپنی کامیابی کار از انھوں نے حق کو چھپانے میں سمجھا، حالاں کہ ان کی کامیابی کا راز حق کے اعلان میں تھا۔ حق کی طرف بڑھنے میں وہ اپنے آپ کو بے زمین ہوتاہوا دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ بھول گئے کہ یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ جو بندہ حق کی خاطر بے زمین ہوجائے وہ سب سے بڑی زمین کو پالیتاہے، یعنی اللہ رب العالمین کی نصرت کو۔
تاہم اللہ کی رحمت کا دروازہ آدمی کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ابتدائی طور پر غلطی کرنے کے بعداگر آدمی کو ہوش آجائے اور وہ پلٹ کر صحیح رویہ اختیار کرلے۔ وہ اس امر حق کا اعلان کرے جس کو اللہ چاہتا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ مگر جو لوگ عدم اعتراف پر قائم رہیں اور اسی حال میں مرجائیں تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور کرديے جائیں گے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ
📘 جو لوگ فائدوں اور مصلحتوں کو اولین اہمیت ديے ہوئے ہوتے ہیں ان کے نزدیک یہ نادانی کی بات ہوتی ہے کہ کوئی شخص تحفظات کے بغیر اپنے آپ کو ہمہ تن حق کے حوالے کردے۔ ایسے لوگوں کی حقیقی وفاداریاں اپنے دنیوی مفادات کے ساتھ ہوتی ہیں۔البتہ اسی کے ساتھ وہ حق سے بھی اپنا ایک ظاہری رشتہ قائم کرلیتے ہیں۔ اس کو وہ عقل مندی سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ان کی دنیا بھی محفوظ ہے اور اسی کے ساتھ ان کوحق پرستی کا تمغہ بھی حاصل ہے۔ مگر یہ ایک ایسی خوش فہمی ہے جو صرف آدمی کے اپنے دماغ میںہوتی ہے۔ اس کے دماغ کے باہر کہیں اس کا وجود نہیں ہوتا۔ آزمائش کا ہر موقع ان کو سچے دین سے کچھ اور دور، اور اپنے مفاد پرستانہ دین سے کچھ اور قریب کردیتا ہے۔ اس طرح گویا ان کے نفاق کا مرض بڑھتا رہتا ہے۔ ایسے لوگ جب سچے مسلمانوں کو دیکھتے ہیں تو ان کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ سچائی کی خاطر اپنے کو برباد کررہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اپنے طریقے کو وہ اصلاح کا طریقہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو نظر آتا ہے کہ اس طرح کسی سے جھگڑا مول لیے بغیر اپنے سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کیا جاسکتا ہے۔ مگر یہ صرف بے شعوری کی بات ہے۔ اگر وہ گہرائی کے ساتھ سوچیں تو ان پر کھلے گا کہ اصلاح یہ ہے کہ بندے صرف اپنے رب کے ہوجائیں۔ اس کے برعکس، فساد یہ ہے کہ خدا اور بندے کے تعلق کو درست کرنے کے لیے جو تحریک چلے اس میں روڑے اٹکائے جائیں۔ ان کا یہ بظاہر نفع کا سودا حقیقۃً گھاٹے کا سودا ہے۔ کیوں کہ وہ بے آمیز حق کو چھوڑ کر ملاوٹی حق کو اپنے لیے پسند کررہے ہیں جو کسی کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ اپنے دنیوی معاملات میںہوشیار ہونا اور آخرت کے معاملہ میں سرسری توقعات کو کافی سمجھنا، گویا خدا کے سامنے جھوٹ بولنا ہے۔ جو لوگ ایسا کریں ان کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کی جھوٹی زندگی آدمی کو اللہ کے یہاں عذاب کے سوا کسی اورچیز کا مستحق نہیں بناتی۔
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
📘 حضرت ابراہیم کا وطن عراق تھا۔ اللہ کے حکم سے وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کو لاکر اُس مقام پر چھوڑ گئے جہاں آج مکہ ہے۔ اس وقت یہاںنہ کوئی آبادی تھی اور نہ پانی۔ پیاس کا تقاضا ہوا تو ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ صفا اور مروہ نامی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتی رہیں۔ سات چکر لگانے کے بعد ناکام لوٹیں تو دیکھا کہ ان کی قیام گاہ کے پاس ایک چشمہ پھوٹ نکلا ہے۔ یہ چشمہ بعد کو زمزم کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک علامتی واقعہ ہے جو بتاتاہے کہ اللہ کا معاملہ اپنے بندوں سے کیا ہے۔ اللہ کا کوئی بندہ اگر اللہ کی راہ میں بڑھتے ہوئے اس حدتک چلا جائے کہ اس کے قدموں کے نیچے ریگستان اور بیابان کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ اپنی قدرت سے ریگستان میں اس کے لیے رزق کے چشمے جاری کردے گا — حج اور عمرہ میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کا مقصد اسی تاریخ کی یاد کو تازہ کرنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات میں اللہ کی نشانیاں اتنی واضح تھیں کہ یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ آپ کی زبان پر اللہ کا کلام جاری ہوا ہے۔ مگر اہل کتاب کے علما نے آپ کا اقرار نہیں کیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ ان کی جمی ہوئی تجارتیں اجڑ جائیں گی۔ اپنی کامیابی کار از انھوں نے حق کو چھپانے میں سمجھا، حالاں کہ ان کی کامیابی کا راز حق کے اعلان میں تھا۔ حق کی طرف بڑھنے میں وہ اپنے آپ کو بے زمین ہوتاہوا دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ بھول گئے کہ یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ جو بندہ حق کی خاطر بے زمین ہوجائے وہ سب سے بڑی زمین کو پالیتاہے، یعنی اللہ رب العالمین کی نصرت کو۔
تاہم اللہ کی رحمت کا دروازہ آدمی کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ابتدائی طور پر غلطی کرنے کے بعداگر آدمی کو ہوش آجائے اور وہ پلٹ کر صحیح رویہ اختیار کرلے۔ وہ اس امر حق کا اعلان کرے جس کو اللہ چاہتا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ مگر جو لوگ عدم اعتراف پر قائم رہیں اور اسی حال میں مرجائیں تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور کرديے جائیں گے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
📘 حضرت ابراہیم کا وطن عراق تھا۔ اللہ کے حکم سے وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کو لاکر اُس مقام پر چھوڑ گئے جہاں آج مکہ ہے۔ اس وقت یہاںنہ کوئی آبادی تھی اور نہ پانی۔ پیاس کا تقاضا ہوا تو ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ صفا اور مروہ نامی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتی رہیں۔ سات چکر لگانے کے بعد ناکام لوٹیں تو دیکھا کہ ان کی قیام گاہ کے پاس ایک چشمہ پھوٹ نکلا ہے۔ یہ چشمہ بعد کو زمزم کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک علامتی واقعہ ہے جو بتاتاہے کہ اللہ کا معاملہ اپنے بندوں سے کیا ہے۔ اللہ کا کوئی بندہ اگر اللہ کی راہ میں بڑھتے ہوئے اس حدتک چلا جائے کہ اس کے قدموں کے نیچے ریگستان اور بیابان کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ اپنی قدرت سے ریگستان میں اس کے لیے رزق کے چشمے جاری کردے گا — حج اور عمرہ میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کا مقصد اسی تاریخ کی یاد کو تازہ کرنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات میں اللہ کی نشانیاں اتنی واضح تھیں کہ یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ آپ کی زبان پر اللہ کا کلام جاری ہوا ہے۔ مگر اہل کتاب کے علما نے آپ کا اقرار نہیں کیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ ان کی جمی ہوئی تجارتیں اجڑ جائیں گی۔ اپنی کامیابی کار از انھوں نے حق کو چھپانے میں سمجھا، حالاں کہ ان کی کامیابی کا راز حق کے اعلان میں تھا۔ حق کی طرف بڑھنے میں وہ اپنے آپ کو بے زمین ہوتاہوا دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ بھول گئے کہ یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ جو بندہ حق کی خاطر بے زمین ہوجائے وہ سب سے بڑی زمین کو پالیتاہے، یعنی اللہ رب العالمین کی نصرت کو۔
تاہم اللہ کی رحمت کا دروازہ آدمی کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ابتدائی طور پر غلطی کرنے کے بعداگر آدمی کو ہوش آجائے اور وہ پلٹ کر صحیح رویہ اختیار کرلے۔ وہ اس امر حق کا اعلان کرے جس کو اللہ چاہتا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ مگر جو لوگ عدم اعتراف پر قائم رہیں اور اسی حال میں مرجائیں تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور کرديے جائیں گے۔
خَالِدِينَ فِيهَا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ
📘 حضرت ابراہیم کا وطن عراق تھا۔ اللہ کے حکم سے وہ اپنی بیوی ہاجرہ اور چھوٹے بچے اسماعیل کو لاکر اُس مقام پر چھوڑ گئے جہاں آج مکہ ہے۔ اس وقت یہاںنہ کوئی آبادی تھی اور نہ پانی۔ پیاس کا تقاضا ہوا تو ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلیں۔ پریشانی کے عالم میں وہ صفا اور مروہ نامی پہاڑیوں کے درمیان دوڑتی رہیں۔ سات چکر لگانے کے بعد ناکام لوٹیں تو دیکھا کہ ان کی قیام گاہ کے پاس ایک چشمہ پھوٹ نکلا ہے۔ یہ چشمہ بعد کو زمزم کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ ایک علامتی واقعہ ہے جو بتاتاہے کہ اللہ کا معاملہ اپنے بندوں سے کیا ہے۔ اللہ کا کوئی بندہ اگر اللہ کی راہ میں بڑھتے ہوئے اس حدتک چلا جائے کہ اس کے قدموں کے نیچے ریگستان اور بیابان کے سوا کچھ نہ رہے تو اللہ اپنی قدرت سے ریگستان میں اس کے لیے رزق کے چشمے جاری کردے گا — حج اور عمرہ میں صفا ومروہ کے درمیان سعی کا مقصد اسی تاریخ کی یاد کو تازہ کرنا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات میں اللہ کی نشانیاں اتنی واضح تھیں کہ یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ آپ کی زبان پر اللہ کا کلام جاری ہوا ہے۔ مگر اہل کتاب کے علما نے آپ کا اقرار نہیں کیا۔ ان کو اندیشہ تھا کہ اگر وہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مان لیں تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ ان کی جمی ہوئی تجارتیں اجڑ جائیں گی۔ اپنی کامیابی کار از انھوں نے حق کو چھپانے میں سمجھا، حالاں کہ ان کی کامیابی کا راز حق کے اعلان میں تھا۔ حق کی طرف بڑھنے میں وہ اپنے آپ کو بے زمین ہوتاہوا دیکھ رہے تھے۔ مگر وہ بھول گئے کہ یہی وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ مطلوب ہے۔ جو بندہ حق کی خاطر بے زمین ہوجائے وہ سب سے بڑی زمین کو پالیتاہے، یعنی اللہ رب العالمین کی نصرت کو۔
تاہم اللہ کی رحمت کا دروازہ آدمی کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ابتدائی طور پر غلطی کرنے کے بعداگر آدمی کو ہوش آجائے اور وہ پلٹ کر صحیح رویہ اختیار کرلے۔ وہ اس امر حق کا اعلان کرے جس کو اللہ چاہتا ہے کہ اس کا اعلان کیا جائے تو اللہ اس کو معاف کردے گا۔ مگر جو لوگ عدم اعتراف پر قائم رہیں اور اسی حال میں مرجائیں تو وہ اللہ کی رحمتوں سے دور کرديے جائیں گے۔
وَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَٰنُ الرَّحِيمُ
📘 انسان کا خدا ایک ہی خدا ہے اور وہی اس قابل ہے کہ وہ انسان کی توجہات کا مرکز بنے۔ ہمارا وجود اور وہ سب کچھ جو ہم کو زمین پر حاصل ہے وہ اسی ليے ہے کہ ہمارا یہ خدا رحمتوں اور مہربانیوں کا خزانہ ہے۔ آدمی کو چاہيے کہ اس کو حقیقی معنوں میں اپنا معبود بنائے۔ وہ اسی کے لیے جيے اور اسی کے لیے مرے اور اپنی تمام امیدوں اور تمناؤں کو ہمیشہ کے لیے اسی کے ساتھ وابستہ کردے۔ جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنا سب کچھ صرف اپنی ماں کو سمجھتا ہے اسی طرح خدا انسان کے لیے اس کا سب کچھ بن جائے۔
ہمارے سامنے پھیلی ہوئی کائنات اللہ کا ایک عظیم الشان تعارف ہے۔ زمین وآسمان کی صورت میں ایک اتھاہ کارخانہ کا موجود ہونا ظاہر کرتاہے کہ ضروراس کا کوئی بنانے والا ہے۔ طرح طرح کے ظاہری اختلاف اور تضاد کے باوجود تمام چیزوں کا حد درجہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ثابت کرتاہے کہ اس کا خالق و مالک صرف ایک ہے۔ کائنات کی چیزوں میں نفع بخشی کی صلاحیت ہونا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کامل شعور کے تحت بالارادہ کی گئی ہے۔ بظاہر بے جان چیزوں میں قدرتی عمل سے جان اور تازگی کا آجانا بتاتا ہے کہ کائنات میں موت محض عارضی ہے، یہاں ہر موت کے بعد لازماً دوسری زندگی آتی ہے۔ ایک ہی پانی اور ایک ہی خوراک سے قسم قسم کے جان داروں کا ان گنت تعداد میں پایا جانا اللہ کی بےحساب قدرت کا پتہ دیتاہے۔ ہوا کا مکمل طورپر انسان کو اپنے گھیرے میں ليے رہنا بتاتا ہے کہ انسان پوری طرح اپنے خالق کے قبضے میں ہے۔ کائنات کی تمام چیزوں کا انسانی ضرورت کے مطابق سدھا ہوا (customized)ہونا ثابت کرتاہے کہ انسان کا خالق ایک بے حد مہربان ہستی ہے، وہ اس کی ضروریات کا اہتمام اس وقت سے کررہا ہوتا ہے جب کہ اس کا وجود بھی نہیں ہوتا۔
کائنات میں اس قسم کی نشانیاں گویا مخلوقات کے اندر خالق کی جھلکیاں ہیں۔ وہ اللہ کی ہستی کا، اس کے ایک ہونے کا، اس کے تمام صفاتِ کمال کا جامع ہونے کا اتنے بڑے پیمانہ پر اظہار کررہی ہیں کہ کوئی آنکھ والا اس کو دیکھنے سے محروم نہ رہے اور کوئی عقل والا اس کو پانے سے عاجز نہ ہو — دلائل کو وہی شخص پاتا ہے جو دلائل پر غور کرتاہو۔ وہ سچائی کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو۔ وہ مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرتاہو۔ وہ ظاہری چیزوں میںالجھ کر نہ رہ گیا ہو بلکہ ظاہری چیزوں کے پیچھے چھپی ہوئی اصل حقیقت کو جاننے کا حریص ہو۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
📘 انسان کا خدا ایک ہی خدا ہے اور وہی اس قابل ہے کہ وہ انسان کی توجہات کا مرکز بنے۔ ہمارا وجود اور وہ سب کچھ جو ہم کو زمین پر حاصل ہے وہ اسی ليے ہے کہ ہمارا یہ خدا رحمتوں اور مہربانیوں کا خزانہ ہے۔ آدمی کو چاہيے کہ اس کو حقیقی معنوں میں اپنا معبود بنائے۔ وہ اسی کے لیے جيے اور اسی کے لیے مرے اور اپنی تمام امیدوں اور تمناؤں کو ہمیشہ کے لیے اسی کے ساتھ وابستہ کردے۔ جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنا سب کچھ صرف اپنی ماں کو سمجھتا ہے اسی طرح خدا انسان کے لیے اس کا سب کچھ بن جائے۔
ہمارے سامنے پھیلی ہوئی کائنات اللہ کا ایک عظیم الشان تعارف ہے۔ زمین وآسمان کی صورت میں ایک اتھاہ کارخانہ کا موجود ہونا ظاہر کرتاہے کہ ضروراس کا کوئی بنانے والا ہے۔ طرح طرح کے ظاہری اختلاف اور تضاد کے باوجود تمام چیزوں کا حد درجہ ہم آہنگی کے ساتھ کام کرنا ثابت کرتاہے کہ اس کا خالق و مالک صرف ایک ہے۔ کائنات کی چیزوں میں نفع بخشی کی صلاحیت ہونا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی منصوبہ بندی کامل شعور کے تحت بالارادہ کی گئی ہے۔ بظاہر بے جان چیزوں میں قدرتی عمل سے جان اور تازگی کا آجانا بتاتا ہے کہ کائنات میں موت محض عارضی ہے، یہاں ہر موت کے بعد لازماً دوسری زندگی آتی ہے۔ ایک ہی پانی اور ایک ہی خوراک سے قسم قسم کے جان داروں کا ان گنت تعداد میں پایا جانا اللہ کی بےحساب قدرت کا پتہ دیتاہے۔ ہوا کا مکمل طورپر انسان کو اپنے گھیرے میں ليے رہنا بتاتا ہے کہ انسان پوری طرح اپنے خالق کے قبضے میں ہے۔ کائنات کی تمام چیزوں کا انسانی ضرورت کے مطابق سدھا ہوا (customized)ہونا ثابت کرتاہے کہ انسان کا خالق ایک بے حد مہربان ہستی ہے، وہ اس کی ضروریات کا اہتمام اس وقت سے کررہا ہوتا ہے جب کہ اس کا وجود بھی نہیں ہوتا۔
کائنات میں اس قسم کی نشانیاں گویا مخلوقات کے اندر خالق کی جھلکیاں ہیں۔ وہ اللہ کی ہستی کا، اس کے ایک ہونے کا، اس کے تمام صفاتِ کمال کا جامع ہونے کا اتنے بڑے پیمانہ پر اظہار کررہی ہیں کہ کوئی آنکھ والا اس کو دیکھنے سے محروم نہ رہے اور کوئی عقل والا اس کو پانے سے عاجز نہ ہو — دلائل کو وہی شخص پاتا ہے جو دلائل پر غور کرتاہو۔ وہ سچائی کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو۔ وہ مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر رائے قائم کرتاہو۔ وہ ظاہری چیزوں میںالجھ کر نہ رہ گیا ہو بلکہ ظاہری چیزوں کے پیچھے چھپی ہوئی اصل حقیقت کو جاننے کا حریص ہو۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ
📘 آدمی اپنی فطرت اور اپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ ایک خارجی سہارا چاہتا ہے، ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے اور اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو۔ کسی کو اس حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا اس کو اپنا معبود بنانا ہے۔ جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے محبت وعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔ آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ کسی سے حُبّ شدید کرے، اور جس سے کوئی حب شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں چوں کہ خدا نظرنہیں آتاہے اس ليے ظاہر پرست انسان عام طور پرنظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتاہے جو دراصل خدا کو دینا چاہيے۔ یہ ہستیاں اکثر وہ سردار یا پیشوا ہوتے ہیں جو کسی ظاہری خصوصیت کی بنا پر لوگوں کا مرجع بن جاتے ہیں۔ آدمی کی فطرت کا خلا جو حقیقۃ ًاس ليے تھا کہ اس کو رب العالمین سے پُرکیا جائے وہاں وہ کسی سردار یا پیشوا کو بٹھالیتا ہے۔
ایسا اس ليے ہوتا ہے کہ کسی انسان کے گرد کچھ ظاہری ر ونق دیکھ کر لوگ اس کو ’’بڑا‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی اپنے غیر معمولی شخصی اوصاف سے لوگوں کو متاثر کرلیتاہے۔ کوئی کسی گدی پر بیٹھ کر سیکڑوں سال کی روایات کا وارث بن جاتاہے۔ کسی کے یہاں انسانوں کی بھیڑ دیکھ کر لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ عام انسانوں سے بلند تر کوئی انسان ہے۔ کسی کے گرد پُراسرار کہانیوں کا ہالہ تیار ہوجاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کو کوئی زور یا بڑائی حاصل نہیں۔ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا کاروبار اسی وقت تک ہے، جب تک خدا ظاہر نہیںہوتا۔ خدا کے ظاہر ہوتے ہی صورت حال اس قدر بدل جائے گی کہ ’’بڑے‘‘ اپنے ’’چھوٹوں‘‘ سے بھاگنا چاہیں گے اور چھوٹے اپنے ’’بڑوں‘‘ سے۔ وہ وابستگی جس پر آدمی دنیا میں فخر کرتاتھا، جس سے وفاداری اور شیفتگی دکھا کر آدمی سمجھتا تھا کہ ا س نے سب سے بڑی چٹان کو پکڑ رکھا ہے وہ آخرت کے دن اس طرح بے معنی ثابت ہوگی جیسے اس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو۔آدمی اپنی گزری ہوئی زندگی کو حسرت کے ساتھ دیکھے گا اور کچھ نہ کرسکے گا۔
إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ
📘 آدمی اپنی فطرت اور اپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ ایک خارجی سہارا چاہتا ہے، ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے اور اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو۔ کسی کو اس حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا اس کو اپنا معبود بنانا ہے۔ جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے محبت وعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔ آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ کسی سے حُبّ شدید کرے، اور جس سے کوئی حب شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں چوں کہ خدا نظرنہیں آتاہے اس ليے ظاہر پرست انسان عام طور پرنظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتاہے جو دراصل خدا کو دینا چاہيے۔ یہ ہستیاں اکثر وہ سردار یا پیشوا ہوتے ہیں جو کسی ظاہری خصوصیت کی بنا پر لوگوں کا مرجع بن جاتے ہیں۔ آدمی کی فطرت کا خلا جو حقیقۃ ًاس ليے تھا کہ اس کو رب العالمین سے پُرکیا جائے وہاں وہ کسی سردار یا پیشوا کو بٹھالیتا ہے۔
ایسا اس ليے ہوتا ہے کہ کسی انسان کے گرد کچھ ظاہری ر ونق دیکھ کر لوگ اس کو ’’بڑا‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی اپنے غیر معمولی شخصی اوصاف سے لوگوں کو متاثر کرلیتاہے۔ کوئی کسی گدی پر بیٹھ کر سیکڑوں سال کی روایات کا وارث بن جاتاہے۔ کسی کے یہاں انسانوں کی بھیڑ دیکھ کر لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ عام انسانوں سے بلند تر کوئی انسان ہے۔ کسی کے گرد پُراسرار کہانیوں کا ہالہ تیار ہوجاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کو کوئی زور یا بڑائی حاصل نہیں۔ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا کاروبار اسی وقت تک ہے، جب تک خدا ظاہر نہیںہوتا۔ خدا کے ظاہر ہوتے ہی صورت حال اس قدر بدل جائے گی کہ ’’بڑے‘‘ اپنے ’’چھوٹوں‘‘ سے بھاگنا چاہیں گے اور چھوٹے اپنے ’’بڑوں‘‘ سے۔ وہ وابستگی جس پر آدمی دنیا میں فخر کرتاتھا، جس سے وفاداری اور شیفتگی دکھا کر آدمی سمجھتا تھا کہ ا س نے سب سے بڑی چٹان کو پکڑ رکھا ہے وہ آخرت کے دن اس طرح بے معنی ثابت ہوگی جیسے اس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو۔آدمی اپنی گزری ہوئی زندگی کو حسرت کے ساتھ دیکھے گا اور کچھ نہ کرسکے گا۔
وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ
📘 آدمی اپنی فطرت اور اپنے حالات کے لحاظ سے ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیشہ ایک خارجی سہارا چاہتا ہے، ایک ایسی ہستی جو اس کی کمیوں کی تلافی کرے اور اس کے لیے اعتماد ویقین کی بنیاد ہو۔ کسی کو اس حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا اس کو اپنا معبود بنانا ہے۔ جب آدمی کسی ہستی کو اپنا معبود بناتا ہے تو اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے محبت وعقیدت کے جذبات اس کے لیے خاص ہوجاتے ہیں۔ آدمی عین اپنی فطرت کے لحاظ سے مجبور ہے کہ کسی سے حُبّ شدید کرے، اور جس سے کوئی حب شدید کرے وہی اس کا معبود ہے۔ موجودہ دنیا میں چوں کہ خدا نظرنہیں آتاہے اس ليے ظاہر پرست انسان عام طور پرنظر آنے والی ہستیوں میں سے کسی ہستی کو وہ مقام دے دیتاہے جو دراصل خدا کو دینا چاہيے۔ یہ ہستیاں اکثر وہ سردار یا پیشوا ہوتے ہیں جو کسی ظاہری خصوصیت کی بنا پر لوگوں کا مرجع بن جاتے ہیں۔ آدمی کی فطرت کا خلا جو حقیقۃ ًاس ليے تھا کہ اس کو رب العالمین سے پُرکیا جائے وہاں وہ کسی سردار یا پیشوا کو بٹھالیتا ہے۔
ایسا اس ليے ہوتا ہے کہ کسی انسان کے گرد کچھ ظاہری ر ونق دیکھ کر لوگ اس کو ’’بڑا‘‘ سمجھ لیتے ہیں۔ کوئی اپنے غیر معمولی شخصی اوصاف سے لوگوں کو متاثر کرلیتاہے۔ کوئی کسی گدی پر بیٹھ کر سیکڑوں سال کی روایات کا وارث بن جاتاہے۔ کسی کے یہاں انسانوں کی بھیڑ دیکھ کر لوگوں کو غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ وہ عام انسانوں سے بلند تر کوئی انسان ہے۔ کسی کے گرد پُراسرار کہانیوں کا ہالہ تیار ہوجاتا ہے اور سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی قوتوں کا حامل ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ خدا کی اس کائنات میں خدا کے سوا کسی کو کوئی زور یا بڑائی حاصل نہیں۔ انسان کو خدا کا درجہ دینے کا کاروبار اسی وقت تک ہے، جب تک خدا ظاہر نہیںہوتا۔ خدا کے ظاہر ہوتے ہی صورت حال اس قدر بدل جائے گی کہ ’’بڑے‘‘ اپنے ’’چھوٹوں‘‘ سے بھاگنا چاہیں گے اور چھوٹے اپنے ’’بڑوں‘‘ سے۔ وہ وابستگی جس پر آدمی دنیا میں فخر کرتاتھا، جس سے وفاداری اور شیفتگی دکھا کر آدمی سمجھتا تھا کہ ا س نے سب سے بڑی چٹان کو پکڑ رکھا ہے وہ آخرت کے دن اس طرح بے معنی ثابت ہوگی جیسے اس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو۔آدمی اپنی گزری ہوئی زندگی کو حسرت کے ساتھ دیکھے گا اور کچھ نہ کرسکے گا۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
📘 شرک کیا ہے، جذباتِ عبودیت کی تسکین کے لیے خدا کے سوا کوئی دوسرا مرکز بنالینا۔ خدا انسان کی سب سے بڑی اور لازمی ضرورت ہے۔ خدا کی طلب انسانی فطرت میں اس طرح بسی ہوئی ہے کہ کوئی شخص خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان کی گم راہی خدا کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اصلی خدا کی جگہ کسی فرضی خدا کو اپنا خدا بنا لینا ہے۔ اس ليے شریعت میں ہر اس چیز کو حرام قرار دیاگیا ہے جو کسی بھی درجہ میں آدمی کی فطری طلب کو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف موڑ دینے والی ہو۔
بت پرست قومیں بتوں کے نام پر جانور چھوڑتی ہیں اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتی ہیں۔ اس طرح کسی چیز کو اپنے ليے حرام کرلینا محض ایک سادہ قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ خدا كے دين كے بجائےايك خودساخته دين ايجاد كرناہے۔ کیوں کہ جب ایک چیز کو اس طرح حرام ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی خود ساختہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ خدا کے حقوق میں غیر خدا کو ساجھی بنانا ہے، یہ احترام وتقدس کے ان فطری جذبات کو تقسیم کرنا ہے جو صرف خدا کے لیے ہیں اور جن کو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہيے۔ شیطان اس قسم کے رواج اس ليے ڈالتا ہے تاکہ وه آدمی کے اندر چھپے ہوئے استعجاب وتقدس کے جذبات کو مختلف سمتوں میں بانٹ کر اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو کمزور کردے۔
ایک بار جب کسی غیر اللہ کو مقدس مان لیا جائے تو انسان کی توہم پرستی اس میں نئی نئی برائیاں پیدا کرتی رہتی ہے۔ ایک ’’جانور‘‘ کو ان پُراسرار اوصاف کا حامل گمان کرلیا جاتا ہے جو صرف خدا کے لیے خاص ہیں۔ اس کو خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے برکت اور کار برآری کی امید کی جاتی ہے۔ یہ چیز جب اگلی نسلوں تک پہنچتی ہے تو وہ اس کو آباواجداد کی مقدس سنت سمجھ کر اس طرح پکڑ لیتی ہیں کہ اب اس پر کسی قسم کا غور وفکر ممکن نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگ دلیل کی زبان سمجھنے سے اتنا زیادہ عاری ہوجاتے ہیں گویا کہ ان کے پاس نہ آنکھ اور کان ہیں جن سے وہ دیکھیں اور سنیں اور نہ ان کے پاس دماغ ہے جس سے وہ کسی بات کو سمجھیں۔
إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 شرک کیا ہے، جذباتِ عبودیت کی تسکین کے لیے خدا کے سوا کوئی دوسرا مرکز بنالینا۔ خدا انسان کی سب سے بڑی اور لازمی ضرورت ہے۔ خدا کی طلب انسانی فطرت میں اس طرح بسی ہوئی ہے کہ کوئی شخص خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان کی گم راہی خدا کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اصلی خدا کی جگہ کسی فرضی خدا کو اپنا خدا بنا لینا ہے۔ اس ليے شریعت میں ہر اس چیز کو حرام قرار دیاگیا ہے جو کسی بھی درجہ میں آدمی کی فطری طلب کو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف موڑ دینے والی ہو۔
بت پرست قومیں بتوں کے نام پر جانور چھوڑتی ہیں اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتی ہیں۔ اس طرح کسی چیز کو اپنے ليے حرام کرلینا محض ایک سادہ قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ خدا كے دين كے بجائےايك خودساخته دين ايجاد كرناہے۔ کیوں کہ جب ایک چیز کو اس طرح حرام ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی خود ساختہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ خدا کے حقوق میں غیر خدا کو ساجھی بنانا ہے، یہ احترام وتقدس کے ان فطری جذبات کو تقسیم کرنا ہے جو صرف خدا کے لیے ہیں اور جن کو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہيے۔ شیطان اس قسم کے رواج اس ليے ڈالتا ہے تاکہ وه آدمی کے اندر چھپے ہوئے استعجاب وتقدس کے جذبات کو مختلف سمتوں میں بانٹ کر اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو کمزور کردے۔
ایک بار جب کسی غیر اللہ کو مقدس مان لیا جائے تو انسان کی توہم پرستی اس میں نئی نئی برائیاں پیدا کرتی رہتی ہے۔ ایک ’’جانور‘‘ کو ان پُراسرار اوصاف کا حامل گمان کرلیا جاتا ہے جو صرف خدا کے لیے خاص ہیں۔ اس کو خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے برکت اور کار برآری کی امید کی جاتی ہے۔ یہ چیز جب اگلی نسلوں تک پہنچتی ہے تو وہ اس کو آباواجداد کی مقدس سنت سمجھ کر اس طرح پکڑ لیتی ہیں کہ اب اس پر کسی قسم کا غور وفکر ممکن نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگ دلیل کی زبان سمجھنے سے اتنا زیادہ عاری ہوجاتے ہیں گویا کہ ان کے پاس نہ آنکھ اور کان ہیں جن سے وہ دیکھیں اور سنیں اور نہ ان کے پاس دماغ ہے جس سے وہ کسی بات کو سمجھیں۔
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللَّهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمَاتٍ لَا يُبْصِرُونَ
📘 کسی کمرے میں کالی اور سفید چیزیں ہوں تو جب تک اندھیرا ہے وہ اندھیرے میں گم رہیں گی۔ مگر روشنی جلاتے ہی کالی چیز کالی اور سفید چیز سفید دکھائی دینے لگے گی۔ یہی حال اللہ کی طرف سے اٹھنے والی دعوتِ نبوت کا ہے۔ یہ خدائی روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو اس کے اجالے میں ہدایت اور ضلالت صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ نیک عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، برا عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، سب کھل کر ٹھیک ٹھیک سامنے آجاتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے آپ کو حق کے تابع کرنے کے بجائے حق کو اپنا تابع بنائے ہوئے تھے، وہ اس صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ ان کا چھپا ہوا حسد اور گھمنڈ زندہ ہوکر ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خدائی آئینہ میںاپنا چہرہ دیکھتے ہی ان کی منفی نفسیات ابھر آتی ہیں۔ ان کے اندرونی تعصبات ان کے حواس پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ آنکھ، کان، زبان رکھتے ہوئے بھی وہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کہ وہ اندھے ہیں، وہ بہرے ہیں، وہ گونگے ہیں۔ اب وہ نہ تو کسی پکارنے والےکی پکار کو سن سکتے ہیں، نہ اس کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں، نہ کسی قسم کی نشانی سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح رویہ یہ تھا کہ پکارنے والے کی پکار پر غور کرتے، مگر اس کے بجائے انھوں نے اس سے بچنے کا سادہ سا علاج یہ دریافت کیا ہے کہ اس کی بات کو سرے سے سنا ہی نہ جائے، اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔
اسی طرح ایک اور نفسیات ہے جو حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ڈر کی نفسیات ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر بارش جب آتی ہے تو اپنے ساتھ کڑک اور گرج بھی لے آتی ہے جس سے کمزور لوگ ہیبت کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی طرف سے حق کی دعوت اٹھتی ہے تو ایک طرف اگر وہ انسانوں کے لیے عظیم کامرانیوں کا امکان کھولتی ہے تو دوسری طرف اس میں کچھ وقتی اندیشے بھی دکھائی دیتے ہیں— اس کو مان لینے کی صورت میں اپنی بڑائی کا خاتمہ، زندگی کے بنے بنائے نقشے کو بدلنے کی ضرورت، رواجی ڈھانچہ سے ٹکراؤ کے مسائل، آخرت کے بارے میں خوش خیالیوں کے بجائے حقائق پر بھروسہ کرنا۔ اس قسم کے اندیشوں کو دیکھ کر وہ کبھی رک جاتے ہیں اور کبھی تذبذب کے ساتھ چند قدم آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہ احتیاطیں ان کے کچھ بھی کام آنے والی نہیں ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے لیے اپنے کوکھلے دل سے پیش نہ کرکے وہ زیادہ شدید طورپر اپنے کوخدا کی نظر میں قابل سزا بنا رہے ہیں۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
📘 شرک کیا ہے، جذباتِ عبودیت کی تسکین کے لیے خدا کے سوا کوئی دوسرا مرکز بنالینا۔ خدا انسان کی سب سے بڑی اور لازمی ضرورت ہے۔ خدا کی طلب انسانی فطرت میں اس طرح بسی ہوئی ہے کہ کوئی شخص خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان کی گم راہی خدا کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اصلی خدا کی جگہ کسی فرضی خدا کو اپنا خدا بنا لینا ہے۔ اس ليے شریعت میں ہر اس چیز کو حرام قرار دیاگیا ہے جو کسی بھی درجہ میں آدمی کی فطری طلب کو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف موڑ دینے والی ہو۔
بت پرست قومیں بتوں کے نام پر جانور چھوڑتی ہیں اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتی ہیں۔ اس طرح کسی چیز کو اپنے ليے حرام کرلینا محض ایک سادہ قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ خدا كے دين كے بجائےايك خودساخته دين ايجاد كرناہے۔ کیوں کہ جب ایک چیز کو اس طرح حرام ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی خود ساختہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ خدا کے حقوق میں غیر خدا کو ساجھی بنانا ہے، یہ احترام وتقدس کے ان فطری جذبات کو تقسیم کرنا ہے جو صرف خدا کے لیے ہیں اور جن کو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہيے۔ شیطان اس قسم کے رواج اس ليے ڈالتا ہے تاکہ وه آدمی کے اندر چھپے ہوئے استعجاب وتقدس کے جذبات کو مختلف سمتوں میں بانٹ کر اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو کمزور کردے۔
ایک بار جب کسی غیر اللہ کو مقدس مان لیا جائے تو انسان کی توہم پرستی اس میں نئی نئی برائیاں پیدا کرتی رہتی ہے۔ ایک ’’جانور‘‘ کو ان پُراسرار اوصاف کا حامل گمان کرلیا جاتا ہے جو صرف خدا کے لیے خاص ہیں۔ اس کو خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے برکت اور کار برآری کی امید کی جاتی ہے۔ یہ چیز جب اگلی نسلوں تک پہنچتی ہے تو وہ اس کو آباواجداد کی مقدس سنت سمجھ کر اس طرح پکڑ لیتی ہیں کہ اب اس پر کسی قسم کا غور وفکر ممکن نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگ دلیل کی زبان سمجھنے سے اتنا زیادہ عاری ہوجاتے ہیں گویا کہ ان کے پاس نہ آنکھ اور کان ہیں جن سے وہ دیکھیں اور سنیں اور نہ ان کے پاس دماغ ہے جس سے وہ کسی بات کو سمجھیں۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
📘 شرک کیا ہے، جذباتِ عبودیت کی تسکین کے لیے خدا کے سوا کوئی دوسرا مرکز بنالینا۔ خدا انسان کی سب سے بڑی اور لازمی ضرورت ہے۔ خدا کی طلب انسانی فطرت میں اس طرح بسی ہوئی ہے کہ کوئی شخص خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انسان کی گم راہی خدا کو چھوڑنا نہیں ہے بلکہ اصلی خدا کی جگہ کسی فرضی خدا کو اپنا خدا بنا لینا ہے۔ اس ليے شریعت میں ہر اس چیز کو حرام قرار دیاگیا ہے جو کسی بھی درجہ میں آدمی کی فطری طلب کو اللہ کے سوا کسی اور کی طرف موڑ دینے والی ہو۔
بت پرست قومیں بتوں کے نام پر جانور چھوڑتی ہیں اور ان جانوروں سے نفع اٹھانا حرام سمجھتی ہیں۔ اس طرح کسی چیز کو اپنے ليے حرام کرلینا محض ایک سادہ قانونی معاملہ نہیں بلکہ یہ خدا كے دين كے بجائےايك خودساخته دين ايجاد كرناہے۔ کیوں کہ جب ایک چیز کو اس طرح حرام ٹھہرایا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی خود ساختہ عقیدہ کی وجہ سے اس کو مقدس سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ خدا کے حقوق میں غیر خدا کو ساجھی بنانا ہے، یہ احترام وتقدس کے ان فطری جذبات کو تقسیم کرنا ہے جو صرف خدا کے لیے ہیں اور جن کو صرف خدا ہی کے لیے ہونا چاہيے۔ شیطان اس قسم کے رواج اس ليے ڈالتا ہے تاکہ وه آدمی کے اندر چھپے ہوئے استعجاب وتقدس کے جذبات کو مختلف سمتوں میں بانٹ کر اللہ کے ساتھ اس کے تعلق کو کمزور کردے۔
ایک بار جب کسی غیر اللہ کو مقدس مان لیا جائے تو انسان کی توہم پرستی اس میں نئی نئی برائیاں پیدا کرتی رہتی ہے۔ ایک ’’جانور‘‘ کو ان پُراسرار اوصاف کا حامل گمان کرلیا جاتا ہے جو صرف خدا کے لیے خاص ہیں۔ اس کو خدا کی قربت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ اس سے برکت اور کار برآری کی امید کی جاتی ہے۔ یہ چیز جب اگلی نسلوں تک پہنچتی ہے تو وہ اس کو آباواجداد کی مقدس سنت سمجھ کر اس طرح پکڑ لیتی ہیں کہ اب اس پر کسی قسم کا غور وفکر ممکن نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگ دلیل کی زبان سمجھنے سے اتنا زیادہ عاری ہوجاتے ہیں گویا کہ ان کے پاس نہ آنکھ اور کان ہیں جن سے وہ دیکھیں اور سنیں اور نہ ان کے پاس دماغ ہے جس سے وہ کسی بات کو سمجھیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
📘 کھانے پینے کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے جو احساسات آدمی کے اندر ابھرنے چاہئیں وہ شکر اور اطاعت الٰہی کے احساسات ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ہم اللہ کی دی ہوئی چیز کو اللہ کے حکم کے مطابق کھارہے ہیں‘‘۔ یہ احساس آدمی کے اندر خدا پرستی کا جذبہ ابھارتا ہے۔ مگر خود ساختہ طور پر جو عقیدے بنائے جاتے ہیں اس میں یہ نفسیات بدل جاتی ہیں۔ اب انسان کی توجہ چیزوں کے مفروضہ خواص کی طرف لگ جاتی ہے۔ جن چیزوں کو پاکر اللہ کے شکر کا جذبہ ابھرتااب ان سے خود ان چیزوں کے احترام وتقدس کا جذبہ ابھرتا ہے۔ آدمی مخلوق کو خالق کادرجہ دے دیتاہے۔ کسی چیز کے حرام ہونے کی بنیاد اس کا مفروضہ تقدس یا اس کے بارے میں توہماتی عقائد نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے اسباب بالکل دوسرےہیں۔ یہ کہ وہ چیزیں ناپاک ہوں اور شریعت نے ان کی ناپاکی کی تصدیق کی ہو۔ جیسے مُردار، خون، سور۔ یا خدا کے پیدا کيے ہوئے جانور کو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کرنا، وغیرہ۔ اضطرار کی حالت میں آدمی حرام کو کھاسکتا ہے۔ جب کہ بھوک یا بیماری یا حالات کا کوئی دباؤ آدمی کو اس کے استعمال پر مجبور کردے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ آدمی حرام چیز کو رغبت سے نہ کھائے اور نہ اس کو واقعی ضرورت سے زیادہ لے۔
اس قسم کے توہماتی عقائد جب عوامی مذہب بن جائیں تو علماء کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ کا حکم جانتے ہوئے بھی وہ اس کے اعلان سے ڈرنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو اندیشہ ہوتاہے کہ اس طرح وہ عوام سے کٹ جائیں گے جن کے درمیان مقبولیت حاصل کرکے وہ ’’بڑے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ گم راہ عوام سے مصالحت اگرچہ دنیا میں ان کو عزت اوردولت دے دیتی ہے مگر اللہ کی نظر میں ایسے لوگ بدترین مجرم ہیں۔ حق کو مصلحت کی خاطر چھپانا ان لغزشوں میں نہیں ہے جن سے آخرت میں اللہ در گزر فرمائے گا۔ یہ وہ جرائم ہیں جو آدمی کو اللہ کی نظر عنایت سے محروم کردیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ برے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اعتراف کرنے کے بجائے اس میں بے معنی بحثیں نکالنے لگیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں اور بالآخر وہ حق سے اتنا دور ہوجاتے ہیںکہ کبھی اس کی طرف نہیں لوٹتے۔
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 کھانے پینے کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے جو احساسات آدمی کے اندر ابھرنے چاہئیں وہ شکر اور اطاعت الٰہی کے احساسات ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ہم اللہ کی دی ہوئی چیز کو اللہ کے حکم کے مطابق کھارہے ہیں‘‘۔ یہ احساس آدمی کے اندر خدا پرستی کا جذبہ ابھارتا ہے۔ مگر خود ساختہ طور پر جو عقیدے بنائے جاتے ہیں اس میں یہ نفسیات بدل جاتی ہیں۔ اب انسان کی توجہ چیزوں کے مفروضہ خواص کی طرف لگ جاتی ہے۔ جن چیزوں کو پاکر اللہ کے شکر کا جذبہ ابھرتااب ان سے خود ان چیزوں کے احترام وتقدس کا جذبہ ابھرتا ہے۔ آدمی مخلوق کو خالق کادرجہ دے دیتاہے۔ کسی چیز کے حرام ہونے کی بنیاد اس کا مفروضہ تقدس یا اس کے بارے میں توہماتی عقائد نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے اسباب بالکل دوسرےہیں۔ یہ کہ وہ چیزیں ناپاک ہوں اور شریعت نے ان کی ناپاکی کی تصدیق کی ہو۔ جیسے مُردار، خون، سور۔ یا خدا کے پیدا کيے ہوئے جانور کو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کرنا، وغیرہ۔ اضطرار کی حالت میں آدمی حرام کو کھاسکتا ہے۔ جب کہ بھوک یا بیماری یا حالات کا کوئی دباؤ آدمی کو اس کے استعمال پر مجبور کردے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ آدمی حرام چیز کو رغبت سے نہ کھائے اور نہ اس کو واقعی ضرورت سے زیادہ لے۔
اس قسم کے توہماتی عقائد جب عوامی مذہب بن جائیں تو علماء کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ کا حکم جانتے ہوئے بھی وہ اس کے اعلان سے ڈرنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو اندیشہ ہوتاہے کہ اس طرح وہ عوام سے کٹ جائیں گے جن کے درمیان مقبولیت حاصل کرکے وہ ’’بڑے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ گم راہ عوام سے مصالحت اگرچہ دنیا میں ان کو عزت اوردولت دے دیتی ہے مگر اللہ کی نظر میں ایسے لوگ بدترین مجرم ہیں۔ حق کو مصلحت کی خاطر چھپانا ان لغزشوں میں نہیں ہے جن سے آخرت میں اللہ در گزر فرمائے گا۔ یہ وہ جرائم ہیں جو آدمی کو اللہ کی نظر عنایت سے محروم کردیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ برے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اعتراف کرنے کے بجائے اس میں بے معنی بحثیں نکالنے لگیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں اور بالآخر وہ حق سے اتنا دور ہوجاتے ہیںکہ کبھی اس کی طرف نہیں لوٹتے۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 کھانے پینے کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے جو احساسات آدمی کے اندر ابھرنے چاہئیں وہ شکر اور اطاعت الٰہی کے احساسات ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ہم اللہ کی دی ہوئی چیز کو اللہ کے حکم کے مطابق کھارہے ہیں‘‘۔ یہ احساس آدمی کے اندر خدا پرستی کا جذبہ ابھارتا ہے۔ مگر خود ساختہ طور پر جو عقیدے بنائے جاتے ہیں اس میں یہ نفسیات بدل جاتی ہیں۔ اب انسان کی توجہ چیزوں کے مفروضہ خواص کی طرف لگ جاتی ہے۔ جن چیزوں کو پاکر اللہ کے شکر کا جذبہ ابھرتااب ان سے خود ان چیزوں کے احترام وتقدس کا جذبہ ابھرتا ہے۔ آدمی مخلوق کو خالق کادرجہ دے دیتاہے۔ کسی چیز کے حرام ہونے کی بنیاد اس کا مفروضہ تقدس یا اس کے بارے میں توہماتی عقائد نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے اسباب بالکل دوسرےہیں۔ یہ کہ وہ چیزیں ناپاک ہوں اور شریعت نے ان کی ناپاکی کی تصدیق کی ہو۔ جیسے مُردار، خون، سور۔ یا خدا کے پیدا کيے ہوئے جانور کو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کرنا، وغیرہ۔ اضطرار کی حالت میں آدمی حرام کو کھاسکتا ہے۔ جب کہ بھوک یا بیماری یا حالات کا کوئی دباؤ آدمی کو اس کے استعمال پر مجبور کردے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ آدمی حرام چیز کو رغبت سے نہ کھائے اور نہ اس کو واقعی ضرورت سے زیادہ لے۔
اس قسم کے توہماتی عقائد جب عوامی مذہب بن جائیں تو علماء کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ کا حکم جانتے ہوئے بھی وہ اس کے اعلان سے ڈرنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو اندیشہ ہوتاہے کہ اس طرح وہ عوام سے کٹ جائیں گے جن کے درمیان مقبولیت حاصل کرکے وہ ’’بڑے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ گم راہ عوام سے مصالحت اگرچہ دنیا میں ان کو عزت اوردولت دے دیتی ہے مگر اللہ کی نظر میں ایسے لوگ بدترین مجرم ہیں۔ حق کو مصلحت کی خاطر چھپانا ان لغزشوں میں نہیں ہے جن سے آخرت میں اللہ در گزر فرمائے گا۔ یہ وہ جرائم ہیں جو آدمی کو اللہ کی نظر عنایت سے محروم کردیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ برے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اعتراف کرنے کے بجائے اس میں بے معنی بحثیں نکالنے لگیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں اور بالآخر وہ حق سے اتنا دور ہوجاتے ہیںکہ کبھی اس کی طرف نہیں لوٹتے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ
📘 کھانے پینے کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے جو احساسات آدمی کے اندر ابھرنے چاہئیں وہ شکر اور اطاعت الٰہی کے احساسات ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ہم اللہ کی دی ہوئی چیز کو اللہ کے حکم کے مطابق کھارہے ہیں‘‘۔ یہ احساس آدمی کے اندر خدا پرستی کا جذبہ ابھارتا ہے۔ مگر خود ساختہ طور پر جو عقیدے بنائے جاتے ہیں اس میں یہ نفسیات بدل جاتی ہیں۔ اب انسان کی توجہ چیزوں کے مفروضہ خواص کی طرف لگ جاتی ہے۔ جن چیزوں کو پاکر اللہ کے شکر کا جذبہ ابھرتااب ان سے خود ان چیزوں کے احترام وتقدس کا جذبہ ابھرتا ہے۔ آدمی مخلوق کو خالق کادرجہ دے دیتاہے۔ کسی چیز کے حرام ہونے کی بنیاد اس کا مفروضہ تقدس یا اس کے بارے میں توہماتی عقائد نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے اسباب بالکل دوسرےہیں۔ یہ کہ وہ چیزیں ناپاک ہوں اور شریعت نے ان کی ناپاکی کی تصدیق کی ہو۔ جیسے مُردار، خون، سور۔ یا خدا کے پیدا کيے ہوئے جانور کو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کرنا، وغیرہ۔ اضطرار کی حالت میں آدمی حرام کو کھاسکتا ہے۔ جب کہ بھوک یا بیماری یا حالات کا کوئی دباؤ آدمی کو اس کے استعمال پر مجبور کردے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ آدمی حرام چیز کو رغبت سے نہ کھائے اور نہ اس کو واقعی ضرورت سے زیادہ لے۔
اس قسم کے توہماتی عقائد جب عوامی مذہب بن جائیں تو علماء کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ کا حکم جانتے ہوئے بھی وہ اس کے اعلان سے ڈرنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو اندیشہ ہوتاہے کہ اس طرح وہ عوام سے کٹ جائیں گے جن کے درمیان مقبولیت حاصل کرکے وہ ’’بڑے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ گم راہ عوام سے مصالحت اگرچہ دنیا میں ان کو عزت اوردولت دے دیتی ہے مگر اللہ کی نظر میں ایسے لوگ بدترین مجرم ہیں۔ حق کو مصلحت کی خاطر چھپانا ان لغزشوں میں نہیں ہے جن سے آخرت میں اللہ در گزر فرمائے گا۔ یہ وہ جرائم ہیں جو آدمی کو اللہ کی نظر عنایت سے محروم کردیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ برے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اعتراف کرنے کے بجائے اس میں بے معنی بحثیں نکالنے لگیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں اور بالآخر وہ حق سے اتنا دور ہوجاتے ہیںکہ کبھی اس کی طرف نہیں لوٹتے۔
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
📘 کھانے پینے کی چیزوں کو استعمال کرتے ہوئے جو احساسات آدمی کے اندر ابھرنے چاہئیں وہ شکر اور اطاعت الٰہی کے احساسات ہیں۔ یعنی یہ کہ ’’ہم اللہ کی دی ہوئی چیز کو اللہ کے حکم کے مطابق کھارہے ہیں‘‘۔ یہ احساس آدمی کے اندر خدا پرستی کا جذبہ ابھارتا ہے۔ مگر خود ساختہ طور پر جو عقیدے بنائے جاتے ہیں اس میں یہ نفسیات بدل جاتی ہیں۔ اب انسان کی توجہ چیزوں کے مفروضہ خواص کی طرف لگ جاتی ہے۔ جن چیزوں کو پاکر اللہ کے شکر کا جذبہ ابھرتااب ان سے خود ان چیزوں کے احترام وتقدس کا جذبہ ابھرتا ہے۔ آدمی مخلوق کو خالق کادرجہ دے دیتاہے۔ کسی چیز کے حرام ہونے کی بنیاد اس کا مفروضہ تقدس یا اس کے بارے میں توہماتی عقائد نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے اسباب بالکل دوسرےہیں۔ یہ کہ وہ چیزیں ناپاک ہوں اور شریعت نے ان کی ناپاکی کی تصدیق کی ہو۔ جیسے مُردار، خون، سور۔ یا خدا کے پیدا کيے ہوئے جانور کو خدا کے سوا کسی اور نام پر ذبح کرنا، وغیرہ۔ اضطرار کی حالت میں آدمی حرام کو کھاسکتا ہے۔ جب کہ بھوک یا بیماری یا حالات کا کوئی دباؤ آدمی کو اس کے استعمال پر مجبور کردے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ آدمی حرام چیز کو رغبت سے نہ کھائے اور نہ اس کو واقعی ضرورت سے زیادہ لے۔
اس قسم کے توہماتی عقائد جب عوامی مذہب بن جائیں تو علماء کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ اس کے بارے میں اللہ کا حکم جانتے ہوئے بھی وہ اس کے اعلان سے ڈرنے لگتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو اندیشہ ہوتاہے کہ اس طرح وہ عوام سے کٹ جائیں گے جن کے درمیان مقبولیت حاصل کرکے وہ ’’بڑے‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ گم راہ عوام سے مصالحت اگرچہ دنیا میں ان کو عزت اوردولت دے دیتی ہے مگر اللہ کی نظر میں ایسے لوگ بدترین مجرم ہیں۔ حق کو مصلحت کی خاطر چھپانا ان لغزشوں میں نہیں ہے جن سے آخرت میں اللہ در گزر فرمائے گا۔ یہ وہ جرائم ہیں جو آدمی کو اللہ کی نظر عنایت سے محروم کردیتے ہیں۔ ان میں بھی زیادہ برے وہ لوگ ہیں جن کے سامنے حق پیش کیا جائے اور وہ اعتراف کرنے کے بجائے اس میں بے معنی بحثیں نکالنے لگیں۔ ایسے لوگوں کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہیں اور بالآخر وہ حق سے اتنا دور ہوجاتے ہیںکہ کبھی اس کی طرف نہیں لوٹتے۔
۞ لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
📘 یہود نے مغرب کو اپنا قبلۂ عبادت بنایا تھا اور نصاریٰ نے مشرق کو۔ دونوں اپنے اپنے قبلے كي سمت کو مقدس سمجھتے تھے۔ دونوں کو بھروسہ تھا کہ انھوں نے خدا کی مقدس سمت کو اپنا قبلہ بنا کر خدا کے یہاں اپنا درجہ محفوظ کرلیا ہے۔ مگر خدا پرستی یہ نہیں ہے کہ آدمی کسی ’’مقدس ستون‘‘ کو تھام لے، خدا پرستی یہ ہے کہ آدمی خود اللہ کے دامن کو پکڑ لے۔ دینی عمل کی اگرچہ ایک ظاہری صورت ہوتی ہے۔ مگر حقیقت کے اعتبار سے وہ اس اللہ کو پالینا ہے جو زمین وآسمان کا نور ہے، جو آدمی کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔ اللہ کے یہاں جو چیز کسی کو مقبول بناتی ہے وہ کسی قسم کی ظاہری چیزیں نہیں ہیں بلکہ وہ عمل ہے جوآدمی اپنے پورے وجود کے ساتھ خالص اللہ کے لیے کرتا ہے۔ اللہ کا مقبول بندہ وہ ہے جو اللہ کو اس طرح پالے کہ اللہ اس کی پوری ہستی میں اترجائے۔ وہ آدمی کے شعور میں شامل ہوجائے۔ وہ اس کے مال ودولت کا مالک بن جائے۔ وہ اس کی یادوں میں سما جائے۔ وہ اس کے کردار پر چھا جائے۔ آدمی اپنے رب کو اس طرح پکڑ لے کہ سخت ترین وقتوں میں بھی خداکی رسّی اس کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔ اللہ کا حق اس کی سچی وفاداری سے ادا ہوتا ہے، نہ کہ محض اِدھر یااُدھر رُخ کرلینے سے۔
اللہ پر ایمان لانا یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اپنا سب کچھ بنا لے۔ آخرت کے دن پر ایمان یہ ہے کہ آدمی دنیا کے بجائے آخرت کو زندگی کا اصل مسئلہ سمجھنے لگے۔ فرشتوں پر ایمان یہ ہے کہ وہ خدا کے ان کارندوں کو مانے جو خدا کے حکم کے تحت دنیا کا انتظام چلارہے ہیں۔ کتاب پر ایمان یہ ہے کہ آدمی یہ یقین کرے کہ اللہ نے انسان کے لیے اپنا ہدایت نامہ بھیجا ہے جس کی اُسے لازماً پابندی کرنی ہے۔ پیغمبروں پر ایمان یہ ہے کہ اللہ کے ان بندوں کو اللہ کا نمائندہ تسلیم کیا جائے جن کو اللہ نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا۔ پھر یہ ایمانیات آدمی کے اندر اتنی گہری اتر جائیں کہ وہ اللہ کی محبت اور شوق میںاپنا مال ضرورت مندوں کو دے اور انسانوں کو مصیبت سے چھڑائے۔ نماز قائم کرنا اللہ کے آگے ہمہ تن جھک جانا ہے۔ زکوٰۃ ادا کرنا اپنے مال میں خداکے مستقل حصے کا اقرار کرنا ہے۔ ایسا بندہ جب کوئی عہد کرتا ہے تو اس کے بعد وہ اس سے پھرنا نہیں جانتا۔ کیوں کہ وہ ہر عہد کو خدا سے کیا ہوا عہد سمجھتاہے۔ اس کو اللہ کے اوپر اتنا بھروسہ ہوجاتا ہے کہ تنگی اور مصیبت ہو یا جنگ کی نوبت آجائے، ہر حال میں وہ خدا پرستی کے راستہ پر جما رہتا ہے۔ یہ اوصاف جس کے اندر پیدا ہوجائیں وہی سچا مومن ہے اور سچا مومن اللہ سے اندیشہ رکھنے والا ہوتاہے، نہ کہ کسی جھوٹے سہارے پر اعتماد کرکے اس سے نڈر ہوجانے والا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنْثَىٰ بِالْأُنْثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ ۗ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ
📘 قتل کے معاملہ میں اسلام میں قصاص کا اصول مقرر کیا گیاہے۔ یعنی قاتل کے ساتھ وہی کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف آئندہ کے لیے قتل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اپنی جان کا خوف آدمی کو دوسرے کی جان لینے سے روکتا ہے اور نتیجۃً سب کی جانیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ قاتل کے قتل سے پورے معاشرہ کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف مقتول کے ورثا کا انتقامی جذبہ ٹھنڈا ہو کر سماج میں کسی نئی تخریبی کارروائی کے امکان کو ختم کردیتاہے۔ تاہم قصاص کا معاملہ اسلام میں قابل راضی نامہ ہے۔ يعني مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل کو قتل کرسکتے ہیں، چاہیں تو دیت (مالی معاوضہ) لے سکتے ہیں اور چاہیں تو معاف کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کا خاص مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میںایک دوسرے کو بھائی سمجھنے کی فضا باقی رہے، ایک دوسرے کو حریف سمجھنے کی فضا کسی حال میں پیدا نہ ہو۔ نیز خون بہا کے اصول کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مقتول کے وارثوں کو اپنے چلے جانے والے فردِ خاندان کا ایک مالی بدل مل جاتا ہے۔
جب کوئی مرجاتا ہے تو یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اس کی وراثت کا كيا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اسلام کااصول یہ ہے کہ اس کی وراثت کو اس کے رشتہ داروں میں معروف طریقہ سے تقسیم کردیا جائے۔ یہ گویا مال کا تقویٰ ہے۔ جب مرنے والوں کے رشتہ داروں تک حصہ بحصہ اس کا چھوڑا ہوا مال پہنچ جائے تو اس سے معاشرہ میں یہ فضا بنتی ہے کہ ازروئے حق جس کو جو دیا جانا چاہيے وہ دیا جاچکا ہے۔ اس طرح خاندان کے اندر متروکہ مال یا جائداد کے حصول کے لیے باہمی نزاع پیدا نہیں ہوتی، خاندان کا جوشخص قانونی اعتبار سے وارث نہ قرار پاتا ہو، مگر اخلاقی اعتبارسے وہ مستحق ہو تو مرنے والے کو چاہيے کہ وصیت کے ذریعہ اس خلا کو پُر کردے۔ (یہاں وراثت کے بارے میں معروف کے مطابق وصیت کرنے کا حکم ہے۔ آگے سورہ النساء میں ہر ایک کے حصہ کو قانونی طورپر معین کردیاگیا ہے)
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
📘 قتل کے معاملہ میں اسلام میں قصاص کا اصول مقرر کیا گیاہے۔ یعنی قاتل کے ساتھ وہی کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف آئندہ کے لیے قتل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اپنی جان کا خوف آدمی کو دوسرے کی جان لینے سے روکتا ہے اور نتیجۃً سب کی جانیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ قاتل کے قتل سے پورے معاشرہ کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف مقتول کے ورثا کا انتقامی جذبہ ٹھنڈا ہو کر سماج میں کسی نئی تخریبی کارروائی کے امکان کو ختم کردیتاہے۔ تاہم قصاص کا معاملہ اسلام میں قابل راضی نامہ ہے۔ يعني مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل کو قتل کرسکتے ہیں، چاہیں تو دیت (مالی معاوضہ) لے سکتے ہیں اور چاہیں تو معاف کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کا خاص مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میںایک دوسرے کو بھائی سمجھنے کی فضا باقی رہے، ایک دوسرے کو حریف سمجھنے کی فضا کسی حال میں پیدا نہ ہو۔ نیز خون بہا کے اصول کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مقتول کے وارثوں کو اپنے چلے جانے والے فردِ خاندان کا ایک مالی بدل مل جاتا ہے۔
جب کوئی مرجاتا ہے تو یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اس کی وراثت کا كيا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اسلام کااصول یہ ہے کہ اس کی وراثت کو اس کے رشتہ داروں میں معروف طریقہ سے تقسیم کردیا جائے۔ یہ گویا مال کا تقویٰ ہے۔ جب مرنے والوں کے رشتہ داروں تک حصہ بحصہ اس کا چھوڑا ہوا مال پہنچ جائے تو اس سے معاشرہ میں یہ فضا بنتی ہے کہ ازروئے حق جس کو جو دیا جانا چاہيے وہ دیا جاچکا ہے۔ اس طرح خاندان کے اندر متروکہ مال یا جائداد کے حصول کے لیے باہمی نزاع پیدا نہیں ہوتی، خاندان کا جوشخص قانونی اعتبار سے وارث نہ قرار پاتا ہو، مگر اخلاقی اعتبارسے وہ مستحق ہو تو مرنے والے کو چاہيے کہ وصیت کے ذریعہ اس خلا کو پُر کردے۔ (یہاں وراثت کے بارے میں معروف کے مطابق وصیت کرنے کا حکم ہے۔ آگے سورہ النساء میں ہر ایک کے حصہ کو قانونی طورپر معین کردیاگیا ہے)
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
📘 کسی کمرے میں کالی اور سفید چیزیں ہوں تو جب تک اندھیرا ہے وہ اندھیرے میں گم رہیں گی۔ مگر روشنی جلاتے ہی کالی چیز کالی اور سفید چیز سفید دکھائی دینے لگے گی۔ یہی حال اللہ کی طرف سے اٹھنے والی دعوتِ نبوت کا ہے۔ یہ خدائی روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو اس کے اجالے میں ہدایت اور ضلالت صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ نیک عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، برا عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، سب کھل کر ٹھیک ٹھیک سامنے آجاتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے آپ کو حق کے تابع کرنے کے بجائے حق کو اپنا تابع بنائے ہوئے تھے، وہ اس صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ ان کا چھپا ہوا حسد اور گھمنڈ زندہ ہوکر ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خدائی آئینہ میںاپنا چہرہ دیکھتے ہی ان کی منفی نفسیات ابھر آتی ہیں۔ ان کے اندرونی تعصبات ان کے حواس پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ آنکھ، کان، زبان رکھتے ہوئے بھی وہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کہ وہ اندھے ہیں، وہ بہرے ہیں، وہ گونگے ہیں۔ اب وہ نہ تو کسی پکارنے والےکی پکار کو سن سکتے ہیں، نہ اس کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں، نہ کسی قسم کی نشانی سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح رویہ یہ تھا کہ پکارنے والے کی پکار پر غور کرتے، مگر اس کے بجائے انھوں نے اس سے بچنے کا سادہ سا علاج یہ دریافت کیا ہے کہ اس کی بات کو سرے سے سنا ہی نہ جائے، اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔
اسی طرح ایک اور نفسیات ہے جو حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ڈر کی نفسیات ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر بارش جب آتی ہے تو اپنے ساتھ کڑک اور گرج بھی لے آتی ہے جس سے کمزور لوگ ہیبت کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی طرف سے حق کی دعوت اٹھتی ہے تو ایک طرف اگر وہ انسانوں کے لیے عظیم کامرانیوں کا امکان کھولتی ہے تو دوسری طرف اس میں کچھ وقتی اندیشے بھی دکھائی دیتے ہیں— اس کو مان لینے کی صورت میں اپنی بڑائی کا خاتمہ، زندگی کے بنے بنائے نقشے کو بدلنے کی ضرورت، رواجی ڈھانچہ سے ٹکراؤ کے مسائل، آخرت کے بارے میں خوش خیالیوں کے بجائے حقائق پر بھروسہ کرنا۔ اس قسم کے اندیشوں کو دیکھ کر وہ کبھی رک جاتے ہیں اور کبھی تذبذب کے ساتھ چند قدم آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہ احتیاطیں ان کے کچھ بھی کام آنے والی نہیں ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے لیے اپنے کوکھلے دل سے پیش نہ کرکے وہ زیادہ شدید طورپر اپنے کوخدا کی نظر میں قابل سزا بنا رہے ہیں۔
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
📘 قتل کے معاملہ میں اسلام میں قصاص کا اصول مقرر کیا گیاہے۔ یعنی قاتل کے ساتھ وہی کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف آئندہ کے لیے قتل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اپنی جان کا خوف آدمی کو دوسرے کی جان لینے سے روکتا ہے اور نتیجۃً سب کی جانیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ قاتل کے قتل سے پورے معاشرہ کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف مقتول کے ورثا کا انتقامی جذبہ ٹھنڈا ہو کر سماج میں کسی نئی تخریبی کارروائی کے امکان کو ختم کردیتاہے۔ تاہم قصاص کا معاملہ اسلام میں قابل راضی نامہ ہے۔ يعني مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل کو قتل کرسکتے ہیں، چاہیں تو دیت (مالی معاوضہ) لے سکتے ہیں اور چاہیں تو معاف کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کا خاص مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میںایک دوسرے کو بھائی سمجھنے کی فضا باقی رہے، ایک دوسرے کو حریف سمجھنے کی فضا کسی حال میں پیدا نہ ہو۔ نیز خون بہا کے اصول کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مقتول کے وارثوں کو اپنے چلے جانے والے فردِ خاندان کا ایک مالی بدل مل جاتا ہے۔
جب کوئی مرجاتا ہے تو یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اس کی وراثت کا كيا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اسلام کااصول یہ ہے کہ اس کی وراثت کو اس کے رشتہ داروں میں معروف طریقہ سے تقسیم کردیا جائے۔ یہ گویا مال کا تقویٰ ہے۔ جب مرنے والوں کے رشتہ داروں تک حصہ بحصہ اس کا چھوڑا ہوا مال پہنچ جائے تو اس سے معاشرہ میں یہ فضا بنتی ہے کہ ازروئے حق جس کو جو دیا جانا چاہيے وہ دیا جاچکا ہے۔ اس طرح خاندان کے اندر متروکہ مال یا جائداد کے حصول کے لیے باہمی نزاع پیدا نہیں ہوتی، خاندان کا جوشخص قانونی اعتبار سے وارث نہ قرار پاتا ہو، مگر اخلاقی اعتبارسے وہ مستحق ہو تو مرنے والے کو چاہيے کہ وصیت کے ذریعہ اس خلا کو پُر کردے۔ (یہاں وراثت کے بارے میں معروف کے مطابق وصیت کرنے کا حکم ہے۔ آگے سورہ النساء میں ہر ایک کے حصہ کو قانونی طورپر معین کردیاگیا ہے)
فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَمَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 قتل کے معاملہ میں اسلام میں قصاص کا اصول مقرر کیا گیاہے۔ یعنی قاتل کے ساتھ وہی کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف آئندہ کے لیے قتل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اپنی جان کا خوف آدمی کو دوسرے کی جان لینے سے روکتا ہے اور نتیجۃً سب کی جانیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ قاتل کے قتل سے پورے معاشرہ کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف مقتول کے ورثا کا انتقامی جذبہ ٹھنڈا ہو کر سماج میں کسی نئی تخریبی کارروائی کے امکان کو ختم کردیتاہے۔ تاہم قصاص کا معاملہ اسلام میں قابل راضی نامہ ہے۔ يعني مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل کو قتل کرسکتے ہیں، چاہیں تو دیت (مالی معاوضہ) لے سکتے ہیں اور چاہیں تو معاف کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کا خاص مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میںایک دوسرے کو بھائی سمجھنے کی فضا باقی رہے، ایک دوسرے کو حریف سمجھنے کی فضا کسی حال میں پیدا نہ ہو۔ نیز خون بہا کے اصول کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مقتول کے وارثوں کو اپنے چلے جانے والے فردِ خاندان کا ایک مالی بدل مل جاتا ہے۔
جب کوئی مرجاتا ہے تو یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اس کی وراثت کا كيا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اسلام کااصول یہ ہے کہ اس کی وراثت کو اس کے رشتہ داروں میں معروف طریقہ سے تقسیم کردیا جائے۔ یہ گویا مال کا تقویٰ ہے۔ جب مرنے والوں کے رشتہ داروں تک حصہ بحصہ اس کا چھوڑا ہوا مال پہنچ جائے تو اس سے معاشرہ میں یہ فضا بنتی ہے کہ ازروئے حق جس کو جو دیا جانا چاہيے وہ دیا جاچکا ہے۔ اس طرح خاندان کے اندر متروکہ مال یا جائداد کے حصول کے لیے باہمی نزاع پیدا نہیں ہوتی، خاندان کا جوشخص قانونی اعتبار سے وارث نہ قرار پاتا ہو، مگر اخلاقی اعتبارسے وہ مستحق ہو تو مرنے والے کو چاہيے کہ وصیت کے ذریعہ اس خلا کو پُر کردے۔ (یہاں وراثت کے بارے میں معروف کے مطابق وصیت کرنے کا حکم ہے۔ آگے سورہ النساء میں ہر ایک کے حصہ کو قانونی طورپر معین کردیاگیا ہے)
فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 قتل کے معاملہ میں اسلام میں قصاص کا اصول مقرر کیا گیاہے۔ یعنی قاتل کے ساتھ وہی کیا جائے جو اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف آئندہ کے لیے قتل کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ کیوں کہ اپنی جان کا خوف آدمی کو دوسرے کی جان لینے سے روکتا ہے اور نتیجۃً سب کی جانیں محفوظ ہوجاتی ہیں۔ قاتل کے قتل سے پورے معاشرہ کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہوجاتی ہے۔ دوسری طرف مقتول کے ورثا کا انتقامی جذبہ ٹھنڈا ہو کر سماج میں کسی نئی تخریبی کارروائی کے امکان کو ختم کردیتاہے۔ تاہم قصاص کا معاملہ اسلام میں قابل راضی نامہ ہے۔ يعني مقتول کے ورثاء چاہیں تو قاتل کو قتل کرسکتے ہیں، چاہیں تو دیت (مالی معاوضہ) لے سکتے ہیں اور چاہیں تو معاف کرسکتے ہیں۔ اس گنجائش کا خاص مقصد یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ میںایک دوسرے کو بھائی سمجھنے کی فضا باقی رہے، ایک دوسرے کو حریف سمجھنے کی فضا کسی حال میں پیدا نہ ہو۔ نیز خون بہا کے اصول کا ایک خاص فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے مقتول کے وارثوں کو اپنے چلے جانے والے فردِ خاندان کا ایک مالی بدل مل جاتا ہے۔
جب کوئی مرجاتا ہے تو یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتاہے کہ اس کی وراثت کا كيا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اسلام کااصول یہ ہے کہ اس کی وراثت کو اس کے رشتہ داروں میں معروف طریقہ سے تقسیم کردیا جائے۔ یہ گویا مال کا تقویٰ ہے۔ جب مرنے والوں کے رشتہ داروں تک حصہ بحصہ اس کا چھوڑا ہوا مال پہنچ جائے تو اس سے معاشرہ میں یہ فضا بنتی ہے کہ ازروئے حق جس کو جو دیا جانا چاہيے وہ دیا جاچکا ہے۔ اس طرح خاندان کے اندر متروکہ مال یا جائداد کے حصول کے لیے باہمی نزاع پیدا نہیں ہوتی، خاندان کا جوشخص قانونی اعتبار سے وارث نہ قرار پاتا ہو، مگر اخلاقی اعتبارسے وہ مستحق ہو تو مرنے والے کو چاہيے کہ وصیت کے ذریعہ اس خلا کو پُر کردے۔ (یہاں وراثت کے بارے میں معروف کے مطابق وصیت کرنے کا حکم ہے۔ آگے سورہ النساء میں ہر ایک کے حصہ کو قانونی طورپر معین کردیاگیا ہے)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
📘 روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ ایک شکر، دوسرے تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ مگر عام حالات میں آدمی کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ روزہ میں جب وہ دن بھر ان چیزوں سے رکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک پیاس کی حالت میں کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اس تجربہ سے اس کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتاہے۔ دوسری طرف یہی ر وزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت بھی ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ وہ ان چیزوں سے رُکا رہے جن سے خدا نے روکا ہے اور وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے۔ روزہ میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا پینا چھوڑ دینا گویا خدا کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر آدمی کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے رب کو ناپسند ہیں — قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔ روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دنیا میں متقیانہ زندگی گزار سکے۔
روزہ سے دلوں کے اندر نرمی اور تواضع (modesty)آتی ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزہ کی پُرمشقت تربیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر اداکرے جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ وہ اللہ کو ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو۔
أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ ایک شکر، دوسرے تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ مگر عام حالات میں آدمی کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ روزہ میں جب وہ دن بھر ان چیزوں سے رکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک پیاس کی حالت میں کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اس تجربہ سے اس کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتاہے۔ دوسری طرف یہی ر وزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت بھی ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ وہ ان چیزوں سے رُکا رہے جن سے خدا نے روکا ہے اور وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے۔ روزہ میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا پینا چھوڑ دینا گویا خدا کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر آدمی کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے رب کو ناپسند ہیں — قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔ روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دنیا میں متقیانہ زندگی گزار سکے۔
روزہ سے دلوں کے اندر نرمی اور تواضع (modesty)آتی ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزہ کی پُرمشقت تربیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر اداکرے جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ وہ اللہ کو ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو۔
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 روزہ بیک وقت دو چیزوں کی تربیت ہے۔ ایک شکر، دوسرے تقویٰ۔ کھانا اور پانی اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ مگر عام حالات میں آدمی کو اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ روزہ میں جب وہ دن بھر ان چیزوں سے رکا رہتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد شدید بھوک پیاس کی حالت میں کھانا کھاتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ کھانا اور پانی اللہ کی کتنی بڑی نعمتیں ہیں۔ اس تجربہ سے اس کے اندر اپنے رب کے شکر کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوتاہے۔ دوسری طرف یہی ر وزہ آدمی کے لیے تقویٰ کی تربیت بھی ہے۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی دنیا کی زندگی میں خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچے۔ وہ ان چیزوں سے رُکا رہے جن سے خدا نے روکا ہے اور وہی کرے جس کے کرنے کی خدا نے اجازت دی ہے۔ روزہ میں صرف رات کو کھانا اور دن کو کھانا پینا چھوڑ دینا گویا خدا کو اپنے اوپر نگراں بنانے کی مشق ہے۔ مومن کی پوری زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ رمضان کے مہینے میں وقتی طور پر چند چیزوں کو چھڑا کر آدمی کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ساری عمر ان چیزوں کو چھوڑ دے جو اس کے رب کو ناپسند ہیں — قرآن بندے کے اوپر اللہ کا انعام ہے اور روزہ بندے کی طرف سے اس انعام کا عملی اعتراف۔ روزہ کے ذریعہ بندہ اپنے آپ کو اللہ کی شکر گزاری کے قابل بناتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ قرآن کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق دنیا میں متقیانہ زندگی گزار سکے۔
روزہ سے دلوں کے اندر نرمی اور تواضع (modesty)آتی ہے۔ اس طرح روزہ آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرتا ہے کہ وہ ان کیفیتوں کو محسوس کرسکے جو اللہ کو اپنے بندوں سے مطلوب ہیں۔ روزہ کی پُرمشقت تربیت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ اللہ کی شکر گزاری میں اس کا سینہ تڑپے اور اللہ کے خوف سے اس کے اندر کپکپی پیدا ہو۔ جب آدمی اس نفسیاتی حالت کو پہنچتا ہے، اسی وقت وہ اس قابل بنتا ہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں پر ایسا شکر اداکرے جس میں اس کے دل کی دھڑکنیں شامل ہوں۔ وہ ایسے تقویٰ کا تجربہ کرے جو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے کر دے۔ وہ اللہ کو ایسے بڑے کی حیثیت سے پائے جس میں اس کا اپنا وجود بالکل چھوٹا ہوگیا ہو۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
📘 روزہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صبر کا عمل ہے اور صبر، یعنی حکم الٰہی کی تعمیل میں مشکلات کو برداشت کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی اس قلبی حالت کو پہنچتا ہے جو اس کو خدا سے قریب کرے اور اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلوائے جو قبولیت کو پہنچنے والے ہوں۔ اللہ کو وہی پاتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرے، اللہ تک اسی شخص کے الفاظ پہنچتے ہیں جس نے اپنی روح کے تاروں کو اللہ سے ملا رکھا ہو۔
شریعت آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزہ میں دن کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہونے کے باوجود رات کے اوقات میں اس کی اجازت، افطار وسحر کے اوقات جاننے کے لیے جنتری کا پابند کرنے کے بجائے عام مشاہدہ کو بنیاد قرار دینا اسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے اللہ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں اس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی روح کے مطابق ہے۔
روزہ کے حکم کے فوراً بعد یہ حکم کہ ’’ناجائز مال نہ کھاؤ‘‘ بتاتا ہے کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے۔ روزہ کا اصل مقصد آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جہاں خدا کی طرف سے رکنے کا حکم ہو، وہاں آدمی رک جائے، حتی کہ اگر حکم ہو تو جائزچیز سے بھی، جیسا کہ روزہ میں ہوتا ہے۔ اب جو شخص خدا کے حکم کی بنا پر حلال کمائی تک سے رک جائے وہ اسی خدا کے حکم کی بنا پر حرام کمائی سے کیوں نہ اپنے آپ کو روکے رکھے گا۔
مومن کی زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ اس کو ساری عمر کچھ چیزوں سے ’’افطار‘‘ کرنا ہے اور کچھ چیزوں سے مستقل طور پر’’روزہ‘‘ رکھ لینا ہے۔ رمضان کا مہینہ اسی کی تربیت ہے۔ پھر روزہ کی محتاط زندگی اور اس کا پُرمشقت عمل یہ سبق دیتاہے کہ اللہ کا عبادت گزار بندہ وہ ہے جو تقویٰ کی سطح پر اللہ کی عبادت کررہا ہو۔ اللہ کو پکارنے والا صرف وہ ہے جو قربانیوں کی سطح پر اللہ کی نزدیکی حاصل کرے۔
أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ ۗ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۖ فَالْآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ ۚ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ ۚ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
📘 روزہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صبر کا عمل ہے اور صبر، یعنی حکم الٰہی کی تعمیل میں مشکلات کو برداشت کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی اس قلبی حالت کو پہنچتا ہے جو اس کو خدا سے قریب کرے اور اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلوائے جو قبولیت کو پہنچنے والے ہوں۔ اللہ کو وہی پاتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرے، اللہ تک اسی شخص کے الفاظ پہنچتے ہیں جس نے اپنی روح کے تاروں کو اللہ سے ملا رکھا ہو۔
شریعت آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزہ میں دن کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہونے کے باوجود رات کے اوقات میں اس کی اجازت، افطار وسحر کے اوقات جاننے کے لیے جنتری کا پابند کرنے کے بجائے عام مشاہدہ کو بنیاد قرار دینا اسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے اللہ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں اس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی روح کے مطابق ہے۔
روزہ کے حکم کے فوراً بعد یہ حکم کہ ’’ناجائز مال نہ کھاؤ‘‘ بتاتا ہے کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے۔ روزہ کا اصل مقصد آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جہاں خدا کی طرف سے رکنے کا حکم ہو، وہاں آدمی رک جائے، حتی کہ اگر حکم ہو تو جائزچیز سے بھی، جیسا کہ روزہ میں ہوتا ہے۔ اب جو شخص خدا کے حکم کی بنا پر حلال کمائی تک سے رک جائے وہ اسی خدا کے حکم کی بنا پر حرام کمائی سے کیوں نہ اپنے آپ کو روکے رکھے گا۔
مومن کی زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ اس کو ساری عمر کچھ چیزوں سے ’’افطار‘‘ کرنا ہے اور کچھ چیزوں سے مستقل طور پر’’روزہ‘‘ رکھ لینا ہے۔ رمضان کا مہینہ اسی کی تربیت ہے۔ پھر روزہ کی محتاط زندگی اور اس کا پُرمشقت عمل یہ سبق دیتاہے کہ اللہ کا عبادت گزار بندہ وہ ہے جو تقویٰ کی سطح پر اللہ کی عبادت کررہا ہو۔ اللہ کو پکارنے والا صرف وہ ہے جو قربانیوں کی سطح پر اللہ کی نزدیکی حاصل کرے۔
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 روزہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے صبر کا عمل ہے اور صبر، یعنی حکم الٰہی کی تعمیل میں مشکلات کو برداشت کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے آدمی اس قلبی حالت کو پہنچتا ہے جو اس کو خدا سے قریب کرے اور اس کی زبان سے ایسے کلمات نکلوائے جو قبولیت کو پہنچنے والے ہوں۔ اللہ کو وہی پاتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرے، اللہ تک اسی شخص کے الفاظ پہنچتے ہیں جس نے اپنی روح کے تاروں کو اللہ سے ملا رکھا ہو۔
شریعت آدمی کے اوپر کوئی غیر فطری پابندی عائد نہیں کرتی۔ روزہ میں دن کے اوقات میں ازدواجی تعلق ممنوع ہونے کے باوجود رات کے اوقات میں اس کی اجازت، افطار وسحر کے اوقات جاننے کے لیے جنتری کا پابند کرنے کے بجائے عام مشاہدہ کو بنیاد قرار دینا اسی قسم کی چیزیں ہیں۔ جزئی تفصیلات میں بندوں کو گنجائش دیتے ہوئے اللہ نے عمومی حدیں واضح فرمادی ہیں۔ آدمی کو چاہيے کہ وہ مقرر حدوں کا پوری طرح پابند رہے اور تفصیلی جزئیات میں اس روش کو اختیار کرے جو تقویٰ کی روح کے مطابق ہے۔
روزہ کے حکم کے فوراً بعد یہ حکم کہ ’’ناجائز مال نہ کھاؤ‘‘ بتاتا ہے کہ روزہ کی حقیقت کیا ہے۔ روزہ کا اصل مقصد آدمی کے اندر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہے کہ جہاں خدا کی طرف سے رکنے کا حکم ہو، وہاں آدمی رک جائے، حتی کہ اگر حکم ہو تو جائزچیز سے بھی، جیسا کہ روزہ میں ہوتا ہے۔ اب جو شخص خدا کے حکم کی بنا پر حلال کمائی تک سے رک جائے وہ اسی خدا کے حکم کی بنا پر حرام کمائی سے کیوں نہ اپنے آپ کو روکے رکھے گا۔
مومن کی زندگی ایک قسم کی روزہ دار زندگی ہے۔ اس کو ساری عمر کچھ چیزوں سے ’’افطار‘‘ کرنا ہے اور کچھ چیزوں سے مستقل طور پر’’روزہ‘‘ رکھ لینا ہے۔ رمضان کا مہینہ اسی کی تربیت ہے۔ پھر روزہ کی محتاط زندگی اور اس کا پُرمشقت عمل یہ سبق دیتاہے کہ اللہ کا عبادت گزار بندہ وہ ہے جو تقویٰ کی سطح پر اللہ کی عبادت کررہا ہو۔ اللہ کو پکارنے والا صرف وہ ہے جو قربانیوں کی سطح پر اللہ کی نزدیکی حاصل کرے۔
۞ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ ۖ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ ۗ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
📘 چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخ جاننے کے لیے ہے، نہ کہ توہم پرستوں کے خیال کے مطابق اس ليے كه بڑھتے چاند کے دن مبارک ہیں اور گھٹتے چاند کے دن منحوس۔ یہ آسمان پر ظاہر ہونے والا قدرت كا كيلنڈر ہے تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اپنے معاملات اور اپنی عبادات کا نظام مقرر کریں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظاہری رسوم کو دین داری سمجھ لیتے ہیں۔ قدیم عربوں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے اور آسمان کے درمیان کسی چیز کا حائل ہونا احرام كے آداب کے خلاف ہے۔ اس مفروضہ کی بنا پر وہ ایسا کرتے کہ جب احرام باندھ کر گھر سے باہر آجاتے تو دوبارہ دروازہ کے راستہ سے گھر میں نہ جاتے بلکہ دیوار کے اوپر سے چڑھ کر صحن میں داخل ہوتے۔ مگر اس قسم کے ظاہری آداب کا نام دین داری نہیں۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور زندگی میں اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو پابندی کرے۔
مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہدبھی بننا ہے۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔ عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود دعوت رسالت سے انکار کرکے اپنے ليے زندگی کا حق کھو چکے تھے، نیز انھوں نے جارحیت کا آغاز کرکے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ ’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نه رہے اور دین اللہ کا ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذهبي جبر كا خاتمه ہوجائے او ر مذهب كے معاملے ميں انسان كو آزادي حاصل هو جائے۔ اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا۔
اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اہل ایمان غلبہ پالیں تو اس کے بعد ماضی كے جرائم پر کسی کے لیے کوئی سزا نہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہی ماضی کے جرائم معاف کرديے جائیں گے۔ اس کے بعد سزا کا مستحق صرف وہ شخص ہوگا جو آئندہ کسی قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے۔ عام حالات میں قتل کا حکم اور ہے اور جنگی حالات میں قتل کا حکم اور۔
أَوْ كَصَيِّبٍ مِنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلُمَاتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ ۚ وَاللَّهُ مُحِيطٌ بِالْكَافِرِينَ
📘 کسی کمرے میں کالی اور سفید چیزیں ہوں تو جب تک اندھیرا ہے وہ اندھیرے میں گم رہیں گی۔ مگر روشنی جلاتے ہی کالی چیز کالی اور سفید چیز سفید دکھائی دینے لگے گی۔ یہی حال اللہ کی طرف سے اٹھنے والی دعوتِ نبوت کا ہے۔ یہ خدائی روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو اس کے اجالے میں ہدایت اور ضلالت صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ نیک عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، برا عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، سب کھل کر ٹھیک ٹھیک سامنے آجاتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے آپ کو حق کے تابع کرنے کے بجائے حق کو اپنا تابع بنائے ہوئے تھے، وہ اس صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ ان کا چھپا ہوا حسد اور گھمنڈ زندہ ہوکر ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خدائی آئینہ میںاپنا چہرہ دیکھتے ہی ان کی منفی نفسیات ابھر آتی ہیں۔ ان کے اندرونی تعصبات ان کے حواس پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ آنکھ، کان، زبان رکھتے ہوئے بھی وہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کہ وہ اندھے ہیں، وہ بہرے ہیں، وہ گونگے ہیں۔ اب وہ نہ تو کسی پکارنے والےکی پکار کو سن سکتے ہیں، نہ اس کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں، نہ کسی قسم کی نشانی سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح رویہ یہ تھا کہ پکارنے والے کی پکار پر غور کرتے، مگر اس کے بجائے انھوں نے اس سے بچنے کا سادہ سا علاج یہ دریافت کیا ہے کہ اس کی بات کو سرے سے سنا ہی نہ جائے، اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔
اسی طرح ایک اور نفسیات ہے جو حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ڈر کی نفسیات ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر بارش جب آتی ہے تو اپنے ساتھ کڑک اور گرج بھی لے آتی ہے جس سے کمزور لوگ ہیبت کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی طرف سے حق کی دعوت اٹھتی ہے تو ایک طرف اگر وہ انسانوں کے لیے عظیم کامرانیوں کا امکان کھولتی ہے تو دوسری طرف اس میں کچھ وقتی اندیشے بھی دکھائی دیتے ہیں— اس کو مان لینے کی صورت میں اپنی بڑائی کا خاتمہ، زندگی کے بنے بنائے نقشے کو بدلنے کی ضرورت، رواجی ڈھانچہ سے ٹکراؤ کے مسائل، آخرت کے بارے میں خوش خیالیوں کے بجائے حقائق پر بھروسہ کرنا۔ اس قسم کے اندیشوں کو دیکھ کر وہ کبھی رک جاتے ہیں اور کبھی تذبذب کے ساتھ چند قدم آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہ احتیاطیں ان کے کچھ بھی کام آنے والی نہیں ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے لیے اپنے کوکھلے دل سے پیش نہ کرکے وہ زیادہ شدید طورپر اپنے کوخدا کی نظر میں قابل سزا بنا رہے ہیں۔
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
📘 چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخ جاننے کے لیے ہے، نہ کہ توہم پرستوں کے خیال کے مطابق اس ليے كه بڑھتے چاند کے دن مبارک ہیں اور گھٹتے چاند کے دن منحوس۔ یہ آسمان پر ظاہر ہونے والا قدرت كا كيلنڈر ہے تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اپنے معاملات اور اپنی عبادات کا نظام مقرر کریں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظاہری رسوم کو دین داری سمجھ لیتے ہیں۔ قدیم عربوں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے اور آسمان کے درمیان کسی چیز کا حائل ہونا احرام كے آداب کے خلاف ہے۔ اس مفروضہ کی بنا پر وہ ایسا کرتے کہ جب احرام باندھ کر گھر سے باہر آجاتے تو دوبارہ دروازہ کے راستہ سے گھر میں نہ جاتے بلکہ دیوار کے اوپر سے چڑھ کر صحن میں داخل ہوتے۔ مگر اس قسم کے ظاہری آداب کا نام دین داری نہیں۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور زندگی میں اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو پابندی کرے۔
مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہدبھی بننا ہے۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔ عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود دعوت رسالت سے انکار کرکے اپنے ليے زندگی کا حق کھو چکے تھے، نیز انھوں نے جارحیت کا آغاز کرکے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ ’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نه رہے اور دین اللہ کا ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذهبي جبر كا خاتمه ہوجائے او ر مذهب كے معاملے ميں انسان كو آزادي حاصل هو جائے۔ اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا۔
اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اہل ایمان غلبہ پالیں تو اس کے بعد ماضی كے جرائم پر کسی کے لیے کوئی سزا نہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہی ماضی کے جرائم معاف کرديے جائیں گے۔ اس کے بعد سزا کا مستحق صرف وہ شخص ہوگا جو آئندہ کسی قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے۔ عام حالات میں قتل کا حکم اور ہے اور جنگی حالات میں قتل کا حکم اور۔
وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ۚ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ
📘 چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخ جاننے کے لیے ہے، نہ کہ توہم پرستوں کے خیال کے مطابق اس ليے كه بڑھتے چاند کے دن مبارک ہیں اور گھٹتے چاند کے دن منحوس۔ یہ آسمان پر ظاہر ہونے والا قدرت كا كيلنڈر ہے تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اپنے معاملات اور اپنی عبادات کا نظام مقرر کریں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظاہری رسوم کو دین داری سمجھ لیتے ہیں۔ قدیم عربوں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے اور آسمان کے درمیان کسی چیز کا حائل ہونا احرام كے آداب کے خلاف ہے۔ اس مفروضہ کی بنا پر وہ ایسا کرتے کہ جب احرام باندھ کر گھر سے باہر آجاتے تو دوبارہ دروازہ کے راستہ سے گھر میں نہ جاتے بلکہ دیوار کے اوپر سے چڑھ کر صحن میں داخل ہوتے۔ مگر اس قسم کے ظاہری آداب کا نام دین داری نہیں۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور زندگی میں اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو پابندی کرے۔
مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہدبھی بننا ہے۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔ عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود دعوت رسالت سے انکار کرکے اپنے ليے زندگی کا حق کھو چکے تھے، نیز انھوں نے جارحیت کا آغاز کرکے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ ’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نه رہے اور دین اللہ کا ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذهبي جبر كا خاتمه ہوجائے او ر مذهب كے معاملے ميں انسان كو آزادي حاصل هو جائے۔ اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا۔
اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اہل ایمان غلبہ پالیں تو اس کے بعد ماضی كے جرائم پر کسی کے لیے کوئی سزا نہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہی ماضی کے جرائم معاف کرديے جائیں گے۔ اس کے بعد سزا کا مستحق صرف وہ شخص ہوگا جو آئندہ کسی قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے۔ عام حالات میں قتل کا حکم اور ہے اور جنگی حالات میں قتل کا حکم اور۔
فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخ جاننے کے لیے ہے، نہ کہ توہم پرستوں کے خیال کے مطابق اس ليے كه بڑھتے چاند کے دن مبارک ہیں اور گھٹتے چاند کے دن منحوس۔ یہ آسمان پر ظاہر ہونے والا قدرت كا كيلنڈر ہے تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اپنے معاملات اور اپنی عبادات کا نظام مقرر کریں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظاہری رسوم کو دین داری سمجھ لیتے ہیں۔ قدیم عربوں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے اور آسمان کے درمیان کسی چیز کا حائل ہونا احرام كے آداب کے خلاف ہے۔ اس مفروضہ کی بنا پر وہ ایسا کرتے کہ جب احرام باندھ کر گھر سے باہر آجاتے تو دوبارہ دروازہ کے راستہ سے گھر میں نہ جاتے بلکہ دیوار کے اوپر سے چڑھ کر صحن میں داخل ہوتے۔ مگر اس قسم کے ظاہری آداب کا نام دین داری نہیں۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور زندگی میں اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو پابندی کرے۔
مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہدبھی بننا ہے۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔ عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود دعوت رسالت سے انکار کرکے اپنے ليے زندگی کا حق کھو چکے تھے، نیز انھوں نے جارحیت کا آغاز کرکے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ ’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نه رہے اور دین اللہ کا ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذهبي جبر كا خاتمه ہوجائے او ر مذهب كے معاملے ميں انسان كو آزادي حاصل هو جائے۔ اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا۔
اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اہل ایمان غلبہ پالیں تو اس کے بعد ماضی كے جرائم پر کسی کے لیے کوئی سزا نہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہی ماضی کے جرائم معاف کرديے جائیں گے۔ اس کے بعد سزا کا مستحق صرف وہ شخص ہوگا جو آئندہ کسی قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے۔ عام حالات میں قتل کا حکم اور ہے اور جنگی حالات میں قتل کا حکم اور۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ
📘 چاند کا گھٹنا بڑھنا تاریخ جاننے کے لیے ہے، نہ کہ توہم پرستوں کے خیال کے مطابق اس ليے كه بڑھتے چاند کے دن مبارک ہیں اور گھٹتے چاند کے دن منحوس۔ یہ آسمان پر ظاہر ہونے والا قدرت كا كيلنڈر ہے تاکہ اس کو دیکھ کر لوگ اپنے معاملات اور اپنی عبادات کا نظام مقرر کریں۔ اسی طرح بہت سے لوگ ظاہری رسوم کو دین داری سمجھ لیتے ہیں۔ قدیم عربوں نے یہ فرض کرلیا تھا کہ حج کا احرام باندھنے کے بعد اپنے اور آسمان کے درمیان کسی چیز کا حائل ہونا احرام كے آداب کے خلاف ہے۔ اس مفروضہ کی بنا پر وہ ایسا کرتے کہ جب احرام باندھ کر گھر سے باہر آجاتے تو دوبارہ دروازہ کے راستہ سے گھر میں نہ جاتے بلکہ دیوار کے اوپر سے چڑھ کر صحن میں داخل ہوتے۔ مگر اس قسم کے ظاہری آداب کا نام دین داری نہیں۔ دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ سے ڈرے اور زندگی میں اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کو پابندی کرے۔
مومن کو دین کا عامل بننے کے ساتھ دین کا مجاہدبھی بننا ہے۔ یہاں جس جہاد کا ذکر ہے وہ جہاد وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آیا۔ عرب کے مشرکین اتمام حجت کے باوجود دعوت رسالت سے انکار کرکے اپنے ليے زندگی کا حق کھو چکے تھے، نیز انھوں نے جارحیت کا آغاز کرکے اپنے خلاف فوجی اقدام کو درست ثابت کردیا تھا۔ اس بنا پر ان کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم ہوا۔ ’’اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نه رہے اور دین اللہ کا ہو جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ مذهبي جبر كا خاتمه ہوجائے او ر مذهب كے معاملے ميں انسان كو آزادي حاصل هو جائے۔ اس حکم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے عرب کو توحید کا دائمی مرکز بنا دیا۔
اہلِ ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ دوسرے یہ کہ جب اہل ایمان غلبہ پالیں تو اس کے بعد ماضی كے جرائم پر کسی کے لیے کوئی سزا نہیں۔ ہتھیار ڈالتے ہی ماضی کے جرائم معاف کرديے جائیں گے۔ اس کے بعد سزا کا مستحق صرف وہ شخص ہوگا جو آئندہ کسی قابل سزا جرم کا ارتکاب کرے۔ عام حالات میں قتل کا حکم اور ہے اور جنگی حالات میں قتل کا حکم اور۔
الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
📘 حرام مہینوں (محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ) میں یا حرم مکہ کے حدود میں لڑائی گناہ ہے۔ مگر جب مخالفین اسلام تمھارے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اس کی حرمت کو توڑدیں تو تم کو بھی حق ہے کہ قصاص کے طور پر تم ان کی حرمت کا لحاظ نہ کرو۔ مگر دشمن کے ساتھ دشمنی میں تم کو اللہ سے بے خوف نہ ہوجانا چاہيے۔ کسی حد کو توڑنے میں تم اپنی طرف سے ابتدا نہ کرو اور نہ کوئی ایسا اقدام کرو جو ضروری حد سے زیادہ ہو— اللہ کی مدد کسی کو اسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اشتعال کے اوقات میں بھی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنا رہے۔
قصاص اور ظلم میں یہ فرق ہے کہ قصاص فریق ثانی کی طرف سے کی ہوئی زیادتی کے برابر اور اس کے بقدر ہوتاہے۔ جب کہ ظلم ان حد بندیوں سے باہر نکل جانے کا نام ہے۔ ایک شخص کو کسی سے تکلیف پہنچے تو وہ دوسرے کو اتنی ہی تکلیف پہنچا سکتاہے جتنی اس کو پہنچی ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ نصیحت بری لگے تو گالی اور استہزاء سے اس کا جواب دینا یا زبان وقلم کی شکایت کے بدلے میں جارحیت دکھانا تقویٰ کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح مالی نقصان کے بدلے جانی نقصان، معمولی چوٹ کے بدلے زیادہ بڑی چوٹ، ایک قتل کے بدلے بہت سے آدمیوں کا قتل، اس قسم کی تمام چیزیں ظلم کی تعریف میں آتی ہیں۔ مسلمان کے لیے برابر کا بدلہ (قصاص) جائز ہے مگر ظلم کسی حال میں جائز نہیں۔
اللہ کی راہ میں جدوجہد سب سے زیادہ جس چیز کا تقاضا کرتی ہے وہ مال ہے۔ اور مال کی قربانی بلاشبہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ اس ليے حکم دیاکہ اللہ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اس کی راہ میں خوب مال خرچ کرو اور اس کام کو اس کی بہترسے بہتر صورت میں انجام دو۔ ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ سے مراد بخل ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، کیوں کہ خرچ میں دل تنگ ہونا دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔ آدمی مال خرچ کردینے کو ہلاکت سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا ہلاکت ہے۔آدمی کے پاس جو کچھ ہے اگر وہ اس کو اللہ کے حوالے نہ کرے تو اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ کیوں اس کو آدمی کے حوالے کرے گا۔
آدمی اپنی دولت کا استعمال صرف یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کو اپنی ذات پر یا اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ مگر اس ذہن کو قرآن ہلاکت بتاتا ہے۔ اس کے بجائے دولت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ دین کی ضرورتوں میں خرچ کیا جائے۔ مال کو صرف اپنے ذاتی حوصلوں کی تکمیل میں خرچ کرنا فرد اور معاشرہ کو خداکے غضب کا مستحق بناتا ہے۔ اس کے برعکس، جب مال کو اللہ کے دین کی راہ میں خرچ کیا جائے تو فر د اور جماعت دونوں اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں کے مستحق بنتے ہیں۔ خرچ کرنے والے کو اس کا فائدہ بے شمار صورتوں میں دنیا میں بھی حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی۔
وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ وَأَحْسِنُوا ۛ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ
📘 حرام مہینوں (محرم، رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ) میں یا حرم مکہ کے حدود میں لڑائی گناہ ہے۔ مگر جب مخالفین اسلام تمھارے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اس کی حرمت کو توڑدیں تو تم کو بھی حق ہے کہ قصاص کے طور پر تم ان کی حرمت کا لحاظ نہ کرو۔ مگر دشمن کے ساتھ دشمنی میں تم کو اللہ سے بے خوف نہ ہوجانا چاہيے۔ کسی حد کو توڑنے میں تم اپنی طرف سے ابتدا نہ کرو اور نہ کوئی ایسا اقدام کرو جو ضروری حد سے زیادہ ہو— اللہ کی مدد کسی کو اسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اشتعال کے اوقات میں بھی اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کا پابند بنا رہے۔
قصاص اور ظلم میں یہ فرق ہے کہ قصاص فریق ثانی کی طرف سے کی ہوئی زیادتی کے برابر اور اس کے بقدر ہوتاہے۔ جب کہ ظلم ان حد بندیوں سے باہر نکل جانے کا نام ہے۔ ایک شخص کو کسی سے تکلیف پہنچے تو وہ دوسرے کو اتنی ہی تکلیف پہنچا سکتاہے جتنی اس کو پہنچی ہے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں۔ نصیحت بری لگے تو گالی اور استہزاء سے اس کا جواب دینا یا زبان وقلم کی شکایت کے بدلے میں جارحیت دکھانا تقویٰ کے سراسر خلاف ہے۔ اسی طرح مالی نقصان کے بدلے جانی نقصان، معمولی چوٹ کے بدلے زیادہ بڑی چوٹ، ایک قتل کے بدلے بہت سے آدمیوں کا قتل، اس قسم کی تمام چیزیں ظلم کی تعریف میں آتی ہیں۔ مسلمان کے لیے برابر کا بدلہ (قصاص) جائز ہے مگر ظلم کسی حال میں جائز نہیں۔
اللہ کی راہ میں جدوجہد سب سے زیادہ جس چیز کا تقاضا کرتی ہے وہ مال ہے۔ اور مال کی قربانی بلاشبہ آدمی کے لیے سب سے زیادہ مشکل چیز ہے۔ اس ليے حکم دیاکہ اللہ کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اس کی راہ میں خوب مال خرچ کرو اور اس کام کو اس کی بہترسے بہتر صورت میں انجام دو۔ ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘ سے مراد بخل ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو، کیوں کہ خرچ میں دل تنگ ہونا دنیا و آخرت کی بربادی ہے۔ آدمی مال خرچ کردینے کو ہلاکت سمجھتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا ہلاکت ہے۔آدمی کے پاس جو کچھ ہے اگر وہ اس کو اللہ کے حوالے نہ کرے تو اللہ کے پاس جو کچھ ہے وہ کیوں اس کو آدمی کے حوالے کرے گا۔
آدمی اپنی دولت کا استعمال صرف یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کو اپنی ذات پر یا اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرے۔ مگر اس ذہن کو قرآن ہلاکت بتاتا ہے۔ اس کے بجائے دولت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ دین کی ضرورتوں میں خرچ کیا جائے۔ مال کو صرف اپنے ذاتی حوصلوں کی تکمیل میں خرچ کرنا فرد اور معاشرہ کو خداکے غضب کا مستحق بناتا ہے۔ اس کے برعکس، جب مال کو اللہ کے دین کی راہ میں خرچ کیا جائے تو فر د اور جماعت دونوں اللہ کی رحمتوں اور نصرتوں کے مستحق بنتے ہیں۔ خرچ کرنے والے کو اس کا فائدہ بے شمار صورتوں میں دنیا میں بھی حاصل ہوتا ہے اور آخرت میں بھی۔
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ ۚ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
📘 زمانہ جاہلیت کے عربوںمیں بھی حج کا رواج تھا۔ مگر وہ ان کے لیے گویا ایک قومی رسم یا تجارتی میلہ تھا، نہ کہ اللہ واحد کی عبادت۔ مگر حج وعمرہ ہو یا اور کوئی عبادت، ان کی اصل قیمت اسی وقت ہے جب کہ وہ خالصۃً اللہ کے لیے ادا کی جائیں۔ جو شخص اپنی روزانہ زندگی میں اللہ کا پرستار بنا ہوا ہو، جب وہ اللہ کی عبادت کے لیے اٹھتاہے تو اس کی ساری نفسیات سمٹ کر اسی کے اوپر لگ جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسی عبادت کا تجربہ کرتا ہے جو ظاہری طور پر دیکھنے میںتو آداب ومناسک کا ایک مجموعہ ہوتی ہے، مگر اپنی اندرونی روح کے اعتبار سے وہ ایک ایسی ہستی کا اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا ہوتاہے جو اللہ سے ڈرتاہو اور آخرت کی پکڑ کا اندیشہ جس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہو۔
مومن وہ ہے جو شہوت کے لیے جینے کے بجائے مقصد کے لیے جینے لگے۔ وہ اپنے معاملات میں خدا کی نافرمانی سے بچنے والا ہو اور اجتماعی زندگی میں آپس کی لڑائی جھگڑے سے بچا رہے۔ حج کا سفر ان اخلاقی اوصاف کی تربیت کے لیے بہت موزوں ہے، اس ليے اس میں خصوصی طورپر ان کی تاکید کی گئی۔ اسی طرح حج میں سفر کا پہلو لوگوں کو سامان سفر کے اہتمام میں لگا دیتاہے۔ مگر اللہ کے مسافر کی سب سے بڑی زاد راہ تقویٰ ہے۔ ایک شخص سامان سفر کے پورے اہتمام کے ساتھ نکلے، دوسرا شخص اعتماد علی اللہ کا سرمایہ لے کر نکلے تو دوران سفر دونوں کی نفسیات یکساں نہیں ہوسکتیں۔
’’اے عقل والو میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘ سے معلوم ہوا کہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق عقل سے ہے۔ تقویٰ کسی ظاہری ہیئت کا نام نہیں، یہ عقل یا شعور کی ایک حالت ہے۔ انسان جب شعور کی سطح پر اپنے رب کو پالیتا ہے تو اس کا ذہن اس کے بعد خدا کے جلال وجمال سے بھر جاتاہے۔ اس وقت روح کی لطیف سطح پر جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں انھیں کا نام تقویٰ ہے۔
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَعْلُومَاتٌ ۚ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ ۗ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
📘 زمانہ جاہلیت کے عربوںمیں بھی حج کا رواج تھا۔ مگر وہ ان کے لیے گویا ایک قومی رسم یا تجارتی میلہ تھا، نہ کہ اللہ واحد کی عبادت۔ مگر حج وعمرہ ہو یا اور کوئی عبادت، ان کی اصل قیمت اسی وقت ہے جب کہ وہ خالصۃً اللہ کے لیے ادا کی جائیں۔ جو شخص اپنی روزانہ زندگی میں اللہ کا پرستار بنا ہوا ہو، جب وہ اللہ کی عبادت کے لیے اٹھتاہے تو اس کی ساری نفسیات سمٹ کر اسی کے اوپر لگ جاتی ہیں۔ وہ ایک ایسی عبادت کا تجربہ کرتا ہے جو ظاہری طور پر دیکھنے میںتو آداب ومناسک کا ایک مجموعہ ہوتی ہے، مگر اپنی اندرونی روح کے اعتبار سے وہ ایک ایسی ہستی کا اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دینا ہوتاہے جو اللہ سے ڈرتاہو اور آخرت کی پکڑ کا اندیشہ جس کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہو۔
مومن وہ ہے جو شہوت کے لیے جینے کے بجائے مقصد کے لیے جینے لگے۔ وہ اپنے معاملات میں خدا کی نافرمانی سے بچنے والا ہو اور اجتماعی زندگی میں آپس کی لڑائی جھگڑے سے بچا رہے۔ حج کا سفر ان اخلاقی اوصاف کی تربیت کے لیے بہت موزوں ہے، اس ليے اس میں خصوصی طورپر ان کی تاکید کی گئی۔ اسی طرح حج میں سفر کا پہلو لوگوں کو سامان سفر کے اہتمام میں لگا دیتاہے۔ مگر اللہ کے مسافر کی سب سے بڑی زاد راہ تقویٰ ہے۔ ایک شخص سامان سفر کے پورے اہتمام کے ساتھ نکلے، دوسرا شخص اعتماد علی اللہ کا سرمایہ لے کر نکلے تو دوران سفر دونوں کی نفسیات یکساں نہیں ہوسکتیں۔
’’اے عقل والو میرا تقویٰ اختیار کرو‘‘ سے معلوم ہوا کہ تقویٰ ایک ایسی چیز ہے جس کا تعلق عقل سے ہے۔ تقویٰ کسی ظاہری ہیئت کا نام نہیں، یہ عقل یا شعور کی ایک حالت ہے۔ انسان جب شعور کی سطح پر اپنے رب کو پالیتا ہے تو اس کا ذہن اس کے بعد خدا کے جلال وجمال سے بھر جاتاہے۔ اس وقت روح کی لطیف سطح پر جو کیفیات پیدا ہوتی ہیں انھیں کا نام تقویٰ ہے۔
لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ ۚ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۖ وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِنْ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ
📘 اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔
دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔
’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔
دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔
’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ
📘 اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ مگر وہ ہدایت کی کتاب اس کے لیے ہے جو فی الواقع ہدایت کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو اس کی پروا اور کھٹک رکھتا ہو۔ سچی طلب جو فطرت کی زمین پر اگتی ہے وہ خود پانے ہی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ سچی طلب اور سچی یافت دونوں ایک ہی سفر کے پچھلے اور اگلے مرحلے ہیں۔ یہ گویا خود اپنی فطرت کے بند صفحات کو کھولناہے۔ جب آدمی اس کا سچا ارادہ کرتا ہے تو فوراً فطرت کي مطابقت اور اللہ کی نصرت اس کا ساتھ دینے لگتی ہے، اس کو اپنی فطرت کی مبہم پکار کا متعین جواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
ایک آدمی کے اندر سچی طلب کا جاگنا عالَم ظاہر کے پیچھے عالم باطن کو دیکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ تلاش جب یافت کے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو وہ ایمان بالغیب بن جاتی ہے۔ وہی چیز جو ابتدائی مرحلہ میںایک برتر حقیقت کے آگے اپنے کو ڈال دینے کی بے قراری کا نام ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میںاللہ کا نمازی بننے کی صورت میں ڈھل جاتي ہے۔ وہی جذبہ جو ابتداء ًاپنے کو خیر اعلیٰ کے لیے وقف کردینے کے ہم معنی ہوتا ہے، وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کی راہ میںاپنے اثاثہ کو خرچ کرنے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ وہی کھوج جو زندگی کے ہنگاموں کے آگے اس کا آخری انجام معلوم کرنے کی صورت میں کسی کے اندر ابھرتی ہے وہ آخرت پر یقین کی صورت میں اپنے سوال کا جواب پالیتی ہے۔
سچائی کو پانا گویا اپنے شعو ر کو حقیقت اعلیٰ کے ہم سطح کرلینا ہے۔ جو لوگ، اس طرح حق کو پالیں وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ وہ سچائی کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے سچائی جہاں بھی ہو اور جس بندۂ خدا کی زبان سے اس کا اعلان کیا جارہا ہو وہ فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور اس پر لبیک کہتے ہیں۔ کوئی جمود، کوئی تقلید اور کوئی تعصباتی دیوار ان کے لیے اعترافِ حق میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ جن لوگوں کے اندریہ خصوصیات ہوں وہ اللہ کے سایہ میں آجاتے ہیں۔ اللہ کا بنایا ہوا نظام ان کو قبول کرلیتا ہے ان کو دنیا میں اس سچے راستہ پر چلنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کی آخری منزل یہ ہے کہ آدمی آخرت کی ابدی نعمتوں میں داخل ہوجائے۔
حق کو وہی پاسکتا ہے جو اس کا ڈھونڈھنے والا ہے اور جو ڈھونڈنے والا ہے وہ ضرور اس کو پاتا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے اور پانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصَارَهُمْ ۖ كُلَّمَا أَضَاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ وَإِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 کسی کمرے میں کالی اور سفید چیزیں ہوں تو جب تک اندھیرا ہے وہ اندھیرے میں گم رہیں گی۔ مگر روشنی جلاتے ہی کالی چیز کالی اور سفید چیز سفید دکھائی دینے لگے گی۔ یہی حال اللہ کی طرف سے اٹھنے والی دعوتِ نبوت کا ہے۔ یہ خدائی روشنی جب ظاہر ہوتی ہے تو اس کے اجالے میں ہدایت اور ضلالت صاف صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ نیک عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، برا عمل کیا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں، سب کھل کر ٹھیک ٹھیک سامنے آجاتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے آپ کو حق کے تابع کرنے کے بجائے حق کو اپنا تابع بنائے ہوئے تھے، وہ اس صورت حال کو دیکھ کر گھبرا اٹھتے ہیں۔ ان کا چھپا ہوا حسد اور گھمنڈ زندہ ہوکر ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ خدائی آئینہ میںاپنا چہرہ دیکھتے ہی ان کی منفی نفسیات ابھر آتی ہیں۔ ان کے اندرونی تعصبات ان کے حواس پر اس طرح چھا جاتے ہیں کہ آنکھ، کان، زبان رکھتے ہوئے بھی وہ ایسے ہوجاتے ہیں گویا کہ وہ اندھے ہیں، وہ بہرے ہیں، وہ گونگے ہیں۔ اب وہ نہ تو کسی پکارنے والےکی پکار کو سن سکتے ہیں، نہ اس کی پکار کا جواب دے سکتے ہیں، نہ کسی قسم کی نشانی سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کے لیے صحیح رویہ یہ تھا کہ پکارنے والے کی پکار پر غور کرتے، مگر اس کے بجائے انھوں نے اس سے بچنے کا سادہ سا علاج یہ دریافت کیا ہے کہ اس کی بات کو سرے سے سنا ہی نہ جائے، اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی جائے۔
اسی طرح ایک اور نفسیات ہے جو حق کو قبول کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہ ڈر کی نفسیات ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ مگر بارش جب آتی ہے تو اپنے ساتھ کڑک اور گرج بھی لے آتی ہے جس سے کمزور لوگ ہیبت کھا جاتے ہیں۔ اسی طرح جب اللہ کی طرف سے حق کی دعوت اٹھتی ہے تو ایک طرف اگر وہ انسانوں کے لیے عظیم کامرانیوں کا امکان کھولتی ہے تو دوسری طرف اس میں کچھ وقتی اندیشے بھی دکھائی دیتے ہیں— اس کو مان لینے کی صورت میں اپنی بڑائی کا خاتمہ، زندگی کے بنے بنائے نقشے کو بدلنے کی ضرورت، رواجی ڈھانچہ سے ٹکراؤ کے مسائل، آخرت کے بارے میں خوش خیالیوں کے بجائے حقائق پر بھروسہ کرنا۔ اس قسم کے اندیشوں کو دیکھ کر وہ کبھی رک جاتے ہیں اور کبھی تذبذب کے ساتھ چند قدم آگے بڑھتے ہیں۔ مگر یہ احتیاطیں ان کے کچھ بھی کام آنے والی نہیں ہیں۔ کیوں کہ خدائی پکار کے لیے اپنے کوکھلے دل سے پیش نہ کرکے وہ زیادہ شدید طورپر اپنے کوخدا کی نظر میں قابل سزا بنا رہے ہیں۔
فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا ۗ فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ
📘 اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔
دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔
’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔
وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
📘 اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔
دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔
’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔
أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ
📘 اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔
دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔
’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔
۞ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ لِمَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
📘 اصل چیز اللہ کا تقویٰ ہے۔ کسی کے اندر یہ مطلوب حالت موجود ہو تو اس کے بعد حج کے دوران معاشی ضرورت کے تحت اس کا کچھ کاروبار کرلینا یا بعض مراسم حج کی ادائیگی میں کسی کا آگے یا کسی کا پیچھے ہوجانا کوئی حرج پیدا نہیں کرتا۔ حج کے دوران جو فضا جاری رہنی چاہيے وہ ہے اللہ کا خوف، اللہ کی یاد، اللہ کی نعمتوں کا شکر، اللہ کے لیے حوالگی کا جذبہ۔ حج کے دوران کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہيے جو ان کیفیات کے خلاف ہو۔ مثلاً کسی شخص یا گروہ کے لیے عبادت کی ادائیگی كے موقع پر اپني برتري كا اظهار يا آباء و اجداد کے کارنامے بیان کرنا وغيره، بالواسطہ طور پر اپنے کو نمایاں کرنے کی ایک صورت ہے۔ یہ چیزیں ایک ایسی عبادت کے ساتھ بے جوڑ ہیں جو یہ بتاتی ہو کہ تمام انسان یکساں ہیں، جس میں اس بات کا اعلان کیا جاتا ہو کہ تمام بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ حج کے زمانہ میں بھی اگر آدمی ان چیزوں کی تربیت حاصل نہ کرے تو زندگی کے بقیہ لمحات میں وہ کس طرح ان پر قائم ره سکے گا۔
دعائیں، خاص طورپر حج کی دعائیں، آدمی کی اندرونی حالت کا اظہار ہیں۔ کوئی شخص آخرت کی عظمتوں کو اپنے دل میں ليے ہوئے جی رہا ہو تو حج کے مقامات پر اس کے دل سے آخرت والی دعائیں ابلیں گی۔ اس کے برعکس، جو شخص دنیا کی چیزوں میں اپنا دل لگائے ہوئے ہو، وہ حج کے مواقع پر اپنے خدا سے سب سے زیادہ جو چیز مانگے گا وہ وہی ہوگی جس کی تڑپ ليے ہوئے وہ وہاں پہنچا تھا۔ اور سب سے بہتر دعا تو یہ ہے کہ آدمی اپنے رب سے کہے کہ خدایا دنیا میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو دنیا میںدے دے اور آخرت میں تیرے نزدیک جو چیز بہتر ہو وہ مجھ کو آخرت میں دے دے اور اپني ناراضگي سے مجھ کو بچالے۔
’’تم اسی کے پاس اكٹھا کيے جاؤ گے‘‘ یہ حج کا سب سے بڑا سبق ہے جو عرفات کے میدان میں دنیا بھر کے لاکھوں انسانوں کو بیک وقت جمع کرکے دیا جاتا ہے۔ عرفات کا اجتماع قیامت کے اجتماع کی ایک تمثیل ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ
📘 جو شخص مصلحت کو اپنا دین بنائے اس کی باتیں ہمیشہ لوگوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر اس کے مطابق بولتا ہے، نہ کہ یہ دیکھ کر کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ اس کے سامنے کوئی مستقل معیار نہیں ہوتا۔ اس ليے وہ مخاطب کی رعایت سے ہر وہ انداز اختیار کرلیتا ہے جو مخاطب پر اثر ڈالنے والا ہو۔ حق کا وفادار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ مشکل نہیں رہتا کہ دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہ ہو تے ہوئے بھی وہ زبان سے خوب صورت باتیں کرے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بات کے اسٹیج پر وہ مصلح کے روپ میں نظر آتا ہے اور عمل کے میدان میں اس کی سرگرمیاں فساد کا باعث بن جاتی ہیں۔اس کی وجہ اس کا تضاد ہے۔ عملی نتائج ہمیشہ عمل سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ الفاظ سے۔ وہ اگرچہ زبان سے حق پرستی کے الفاظ بولتا ہے۔ مگر عمل کے اعتبار سے وہ جس سطح پر ہوتاہے وہ صرف ذاتی مفاد ہے۔ یہ چیز اس کے قول وعمل میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ بات کے مقام سے ہٹ کر جب وہ عمل کے مقام پر آتا ہے تو اس کے مفاد کا تقاضا کھینچ کر اس کو ایسی سرگرمیوں کی طرف لے جاتاہے جو صرف تخریب پیدا کرنے والی ہیں۔ یہاں وہ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر دوسروں کا استحصال کرتاہے۔ وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو جذباتی باتوں کی شراب پلاتاہے۔ وہ اپنی قیادت قائم کرنے کی خاطر پوری قوم کو داؤ پر لگا دیتاہے۔ وہ تعمیر کے بجائے تخریب کی سیاست چلاتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح زیادہ آسانی سے عوام کی بھیڑ اپنے گرد اكٹھا کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کے مفاد اور مصلحت کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کیا۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنے وقار کا بت ٹوٹتاہوا نظر آتاہے۔ ظاہری طورپر نرم باتوں کے پیچھے ان کی متکبرانہ نفسیات ان کو ایک ایسے حق كے داعي کے سامنے جھکنے سے روک دیتی ہے جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضا کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کرتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے عادات و خیالات سے دست بردار ہو کر خدا کی باتوں کو قبول کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے حوالے کرکے اس کے بدلے بے مال بن جانے کو گوارا کرلیتاہے۔ وہ رواجی دین کو رد کرکے خدا کے بے آمیز دین کو لیتاہے، خواہ اس کی وجہ سے اس کو غیر مقبولیت پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مصلحت پرستی کے بجائے اعلان حق کو اپنا شیوہ بناتا ہے، اگرچہ اس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کے عتاب کا شکار ہوتا رہے۔
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ
📘 جو شخص مصلحت کو اپنا دین بنائے اس کی باتیں ہمیشہ لوگوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر اس کے مطابق بولتا ہے، نہ کہ یہ دیکھ کر کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ اس کے سامنے کوئی مستقل معیار نہیں ہوتا۔ اس ليے وہ مخاطب کی رعایت سے ہر وہ انداز اختیار کرلیتا ہے جو مخاطب پر اثر ڈالنے والا ہو۔ حق کا وفادار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ مشکل نہیں رہتا کہ دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہ ہو تے ہوئے بھی وہ زبان سے خوب صورت باتیں کرے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بات کے اسٹیج پر وہ مصلح کے روپ میں نظر آتا ہے اور عمل کے میدان میں اس کی سرگرمیاں فساد کا باعث بن جاتی ہیں۔اس کی وجہ اس کا تضاد ہے۔ عملی نتائج ہمیشہ عمل سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ الفاظ سے۔ وہ اگرچہ زبان سے حق پرستی کے الفاظ بولتا ہے۔ مگر عمل کے اعتبار سے وہ جس سطح پر ہوتاہے وہ صرف ذاتی مفاد ہے۔ یہ چیز اس کے قول وعمل میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ بات کے مقام سے ہٹ کر جب وہ عمل کے مقام پر آتا ہے تو اس کے مفاد کا تقاضا کھینچ کر اس کو ایسی سرگرمیوں کی طرف لے جاتاہے جو صرف تخریب پیدا کرنے والی ہیں۔ یہاں وہ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر دوسروں کا استحصال کرتاہے۔ وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو جذباتی باتوں کی شراب پلاتاہے۔ وہ اپنی قیادت قائم کرنے کی خاطر پوری قوم کو داؤ پر لگا دیتاہے۔ وہ تعمیر کے بجائے تخریب کی سیاست چلاتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح زیادہ آسانی سے عوام کی بھیڑ اپنے گرد اكٹھا کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کے مفاد اور مصلحت کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کیا۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنے وقار کا بت ٹوٹتاہوا نظر آتاہے۔ ظاہری طورپر نرم باتوں کے پیچھے ان کی متکبرانہ نفسیات ان کو ایک ایسے حق كے داعي کے سامنے جھکنے سے روک دیتی ہے جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضا کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کرتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے عادات و خیالات سے دست بردار ہو کر خدا کی باتوں کو قبول کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے حوالے کرکے اس کے بدلے بے مال بن جانے کو گوارا کرلیتاہے۔ وہ رواجی دین کو رد کرکے خدا کے بے آمیز دین کو لیتاہے، خواہ اس کی وجہ سے اس کو غیر مقبولیت پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مصلحت پرستی کے بجائے اعلان حق کو اپنا شیوہ بناتا ہے، اگرچہ اس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کے عتاب کا شکار ہوتا رہے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ ۚ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ۚ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ
📘 جو شخص مصلحت کو اپنا دین بنائے اس کی باتیں ہمیشہ لوگوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر اس کے مطابق بولتا ہے، نہ کہ یہ دیکھ کر کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ اس کے سامنے کوئی مستقل معیار نہیں ہوتا۔ اس ليے وہ مخاطب کی رعایت سے ہر وہ انداز اختیار کرلیتا ہے جو مخاطب پر اثر ڈالنے والا ہو۔ حق کا وفادار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ مشکل نہیں رہتا کہ دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہ ہو تے ہوئے بھی وہ زبان سے خوب صورت باتیں کرے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بات کے اسٹیج پر وہ مصلح کے روپ میں نظر آتا ہے اور عمل کے میدان میں اس کی سرگرمیاں فساد کا باعث بن جاتی ہیں۔اس کی وجہ اس کا تضاد ہے۔ عملی نتائج ہمیشہ عمل سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ الفاظ سے۔ وہ اگرچہ زبان سے حق پرستی کے الفاظ بولتا ہے۔ مگر عمل کے اعتبار سے وہ جس سطح پر ہوتاہے وہ صرف ذاتی مفاد ہے۔ یہ چیز اس کے قول وعمل میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ بات کے مقام سے ہٹ کر جب وہ عمل کے مقام پر آتا ہے تو اس کے مفاد کا تقاضا کھینچ کر اس کو ایسی سرگرمیوں کی طرف لے جاتاہے جو صرف تخریب پیدا کرنے والی ہیں۔ یہاں وہ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر دوسروں کا استحصال کرتاہے۔ وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو جذباتی باتوں کی شراب پلاتاہے۔ وہ اپنی قیادت قائم کرنے کی خاطر پوری قوم کو داؤ پر لگا دیتاہے۔ وہ تعمیر کے بجائے تخریب کی سیاست چلاتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح زیادہ آسانی سے عوام کی بھیڑ اپنے گرد اكٹھا کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کے مفاد اور مصلحت کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کیا۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنے وقار کا بت ٹوٹتاہوا نظر آتاہے۔ ظاہری طورپر نرم باتوں کے پیچھے ان کی متکبرانہ نفسیات ان کو ایک ایسے حق كے داعي کے سامنے جھکنے سے روک دیتی ہے جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضا کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کرتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے عادات و خیالات سے دست بردار ہو کر خدا کی باتوں کو قبول کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے حوالے کرکے اس کے بدلے بے مال بن جانے کو گوارا کرلیتاہے۔ وہ رواجی دین کو رد کرکے خدا کے بے آمیز دین کو لیتاہے، خواہ اس کی وجہ سے اس کو غیر مقبولیت پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مصلحت پرستی کے بجائے اعلان حق کو اپنا شیوہ بناتا ہے، اگرچہ اس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کے عتاب کا شکار ہوتا رہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
📘 جو شخص مصلحت کو اپنا دین بنائے اس کی باتیں ہمیشہ لوگوں کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ کیوں کہ وہ لوگوں کی پسند کو دیکھ کر اس کے مطابق بولتا ہے، نہ کہ یہ دیکھ کر کہ حق کیا ہے اور ناحق کیا۔ اس کے سامنے کوئی مستقل معیار نہیں ہوتا۔ اس ليے وہ مخاطب کی رعایت سے ہر وہ انداز اختیار کرلیتا ہے جو مخاطب پر اثر ڈالنے والا ہو۔ حق کا وفادار نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لیے یہ مشکل نہیں رہتا کہ دل میں کوئی حقیقی جذبہ نہ ہو تے ہوئے بھی وہ زبان سے خوب صورت باتیں کرے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بات کے اسٹیج پر وہ مصلح کے روپ میں نظر آتا ہے اور عمل کے میدان میں اس کی سرگرمیاں فساد کا باعث بن جاتی ہیں۔اس کی وجہ اس کا تضاد ہے۔ عملی نتائج ہمیشہ عمل سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ الفاظ سے۔ وہ اگرچہ زبان سے حق پرستی کے الفاظ بولتا ہے۔ مگر عمل کے اعتبار سے وہ جس سطح پر ہوتاہے وہ صرف ذاتی مفاد ہے۔ یہ چیز اس کے قول وعمل میں فرق پیدا کردیتی ہے۔ بات کے مقام سے ہٹ کر جب وہ عمل کے مقام پر آتا ہے تو اس کے مفاد کا تقاضا کھینچ کر اس کو ایسی سرگرمیوں کی طرف لے جاتاہے جو صرف تخریب پیدا کرنے والی ہیں۔ یہاں وہ اپنے ذاتی فائدے کی خاطر دوسروں کا استحصال کرتاہے۔ وہ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے لوگوں کو جذباتی باتوں کی شراب پلاتاہے۔ وہ اپنی قیادت قائم کرنے کی خاطر پوری قوم کو داؤ پر لگا دیتاہے۔ وہ تعمیر کے بجائے تخریب کی سیاست چلاتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح زیادہ آسانی سے عوام کی بھیڑ اپنے گرد اكٹھا کی جاسکتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے دنیا کے مفاد اور مصلحت کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کیا۔ حق واضح ہوجانے کے بعد بھی وہ اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنے وقار کا بت ٹوٹتاہوا نظر آتاہے۔ ظاہری طورپر نرم باتوں کے پیچھے ان کی متکبرانہ نفسیات ان کو ایک ایسے حق كے داعي کے سامنے جھکنے سے روک دیتی ہے جس کو وہ اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو اللہ کی رضا کے ساتھ اپنی زندگی کا سودا کرتے ہیں۔ ایسا شخص اپنے عادات و خیالات سے دست بردار ہو کر خدا کی باتوں کو قبول کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے حوالے کرکے اس کے بدلے بے مال بن جانے کو گوارا کرلیتاہے۔ وہ رواجی دین کو رد کرکے خدا کے بے آمیز دین کو لیتاہے، خواہ اس کی وجہ سے اس کو غیر مقبولیت پر راضی ہونا پڑے۔ وہ مصلحت پرستی کے بجائے اعلان حق کو اپنا شیوہ بناتا ہے، اگرچہ اس کے نتیجہ میں وہ لوگوں کے عتاب کا شکار ہوتا رہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ
📘 اسلام کو اختیار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ تحفظات اور مصلحتوں کا لحاظ کيے بغیر اس کو اپنایا جائے۔ اسلام جس چیز کو کرنے کو کہے اس کو کیا جائے اور جس چیز کو چھوڑنے کو کہے اس کو چھوڑدیا جائے۔ یہ کسی آدمی کا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک اسلام اس کی زندگی سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اس اسلام کو لے لے جو اس کے لیے مفید یا کم از کم بے ضرر ہو۔ اور اس اسلام کو چھوڑے رہے جو اس کے محبوب عقائد، اس کی پسندیدہ عادات، اس کے دنیوی فائدے، اس کے شخصی وقار، اس کی قائدانہ مصلحتوں کو مجروح کرتا ہو۔ آدمی ابتداء ً پوری طرح ارادہ کرکے اسلام کو اختیار کرتاہے۔ مگر جب وہ وقت آتاہے کہ وہ اپنے فکری ڈھانچہ کو توڑے یا اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اسلام کا ساتھ دے تو وہ پھسل جاتا ہے۔ وہ ایسے اسلام پر ٹھہر جاتاہے جس میں اس کے مفادات بھی مجروح نہ ہوں اور اسلام کا تمغہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
اسلام کے پیغام کی صداقت پر یقین کرنے کے لیے اگر وہ دلائل چاہتے ہیں تو دلائل پوری طرح ديے جاچکے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کو معجزات دکھائے جائیں تو جو شخص کھلے کھلے دلائل کو نہ مانے اس کو چپ کرنے کے لیے معجزات بھی ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ یہ کہ خدا اپنے فرشتوں کے ساتھ سامنے آجائے۔ مگر جب ایسا ہوگا تو وہ کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ فیصلہ کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔ انسان کا امتحان یہی ہے کہ وہ دیکھے بغیر محض دلائل کی بنیاد پر مان لے۔ اگر اس نے دیکھ کر مانا تو اس ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔
وہ لوگ جو مصلحتوں کو نظر انداز کرکے اسلام کو اپنائیں اور وہ لوگ جو مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان بنیں، دونوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ پہلا گروہ اکثر دنیوی اہمیت کی چیزوں سے خالی ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ہر قسم کی دنیوی رونقیں جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز دوسرے گروہ کو غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے کو برتر خیال کرتا ہے اور پہلے گروہ کو حقیر سمجھنے لگتاہے۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ موجودہ دنیا کو توڑ کر جب نیا بہتر نظام بنے گا تو وہاں آج کے ’’بڑے‘‘ پست کرديے جائیں گے اور وہی لوگ بڑائی کے مقام پر نظر آئیں گے جن کو آج ’’چھوٹا‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔
فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
📘 اسلام کو اختیار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ تحفظات اور مصلحتوں کا لحاظ کيے بغیر اس کو اپنایا جائے۔ اسلام جس چیز کو کرنے کو کہے اس کو کیا جائے اور جس چیز کو چھوڑنے کو کہے اس کو چھوڑدیا جائے۔ یہ کسی آدمی کا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک اسلام اس کی زندگی سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اس اسلام کو لے لے جو اس کے لیے مفید یا کم از کم بے ضرر ہو۔ اور اس اسلام کو چھوڑے رہے جو اس کے محبوب عقائد، اس کی پسندیدہ عادات، اس کے دنیوی فائدے، اس کے شخصی وقار، اس کی قائدانہ مصلحتوں کو مجروح کرتا ہو۔ آدمی ابتداء ً پوری طرح ارادہ کرکے اسلام کو اختیار کرتاہے۔ مگر جب وہ وقت آتاہے کہ وہ اپنے فکری ڈھانچہ کو توڑے یا اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اسلام کا ساتھ دے تو وہ پھسل جاتا ہے۔ وہ ایسے اسلام پر ٹھہر جاتاہے جس میں اس کے مفادات بھی مجروح نہ ہوں اور اسلام کا تمغہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
اسلام کے پیغام کی صداقت پر یقین کرنے کے لیے اگر وہ دلائل چاہتے ہیں تو دلائل پوری طرح ديے جاچکے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کو معجزات دکھائے جائیں تو جو شخص کھلے کھلے دلائل کو نہ مانے اس کو چپ کرنے کے لیے معجزات بھی ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ یہ کہ خدا اپنے فرشتوں کے ساتھ سامنے آجائے۔ مگر جب ایسا ہوگا تو وہ کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ فیصلہ کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔ انسان کا امتحان یہی ہے کہ وہ دیکھے بغیر محض دلائل کی بنیاد پر مان لے۔ اگر اس نے دیکھ کر مانا تو اس ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔
وہ لوگ جو مصلحتوں کو نظر انداز کرکے اسلام کو اپنائیں اور وہ لوگ جو مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان بنیں، دونوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ پہلا گروہ اکثر دنیوی اہمیت کی چیزوں سے خالی ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ہر قسم کی دنیوی رونقیں جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز دوسرے گروہ کو غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے کو برتر خیال کرتا ہے اور پہلے گروہ کو حقیر سمجھنے لگتاہے۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ موجودہ دنیا کو توڑ کر جب نیا بہتر نظام بنے گا تو وہاں آج کے ’’بڑے‘‘ پست کرديے جائیں گے اور وہی لوگ بڑائی کے مقام پر نظر آئیں گے جن کو آج ’’چھوٹا‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
📘 انسان اور انسان کے سوا جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ اس نے پوری کائنات کو نہایت حکمت کے ساتھ قائم کیا ہے۔ وہ ہر آن ان کی پرورش کررہا ہے۔ اس لیے انسان کے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر کسی شرکت کے خالق، مالک اور رازق تسلیم کرے، وہ اس کو اپنا سب کچھ بنالے۔ مگر خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر آنے والی چیز کو اہم سمجھ کر اس کو خدائی کے مقام پر بٹھا لیتا ہے۔ وہ ایک مخلوق کو، جزئی یا کلی طورپر، خالق کے برابر ٹھہرا لیتا ہے، کبھی اس کو خدا کا نام دے کر اور کبھی خدا کا نام دیے بغیر۔
یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا کو بڑائی کا مقام دے۔ اس کے علاوہ جس جس کو اس نے خدائی عظمت کے مقام پر بٹھا رکھا ہے اس کو عظمت کے مقام سے اتار دے۔ جب خالص خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے ہیں جن کا دل خدا کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔جنھوں نے خدا کے سوا کسی اور کے لیے بھی عظمت کو خاص کررکھا ہو۔ ایسے لوگوں کو اپنے فرضی معبودوں سے جو شدید تعلق ہوچکا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بے حقیقت ہیں اور حقیقت صرف اس پیغام کی ہے جو آدمیوں میںسے ایک آدمی کی زبان سے سنایا جارہا ہے۔
جو دعوت خدا کی طرف سے اٹھے اس کے اندر لازمی طورپر خدائی شان شامل ہوجاتی ہے۔ اس کا ناقابلِ تقلید اسلوب اور اس کا غیر مفتوح استدلال اس بات کی کھلی علامت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ انکار کریں ان کو خدا کی دنیا میں جہنم کے سوا کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ البتہ جو لوگ خدا کے کلام میں خدا کو پالیں انھوں نے گویا آج کی دنیا میں کل کی دنیا کو دیکھ لیا۔ یہی لوگ ہیں جو آخرت کے باغوں میں داخل کيے جائیں گے۔
هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ ۚ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
📘 اسلام کو اختیار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ تحفظات اور مصلحتوں کا لحاظ کيے بغیر اس کو اپنایا جائے۔ اسلام جس چیز کو کرنے کو کہے اس کو کیا جائے اور جس چیز کو چھوڑنے کو کہے اس کو چھوڑدیا جائے۔ یہ کسی آدمی کا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک اسلام اس کی زندگی سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اس اسلام کو لے لے جو اس کے لیے مفید یا کم از کم بے ضرر ہو۔ اور اس اسلام کو چھوڑے رہے جو اس کے محبوب عقائد، اس کی پسندیدہ عادات، اس کے دنیوی فائدے، اس کے شخصی وقار، اس کی قائدانہ مصلحتوں کو مجروح کرتا ہو۔ آدمی ابتداء ً پوری طرح ارادہ کرکے اسلام کو اختیار کرتاہے۔ مگر جب وہ وقت آتاہے کہ وہ اپنے فکری ڈھانچہ کو توڑے یا اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اسلام کا ساتھ دے تو وہ پھسل جاتا ہے۔ وہ ایسے اسلام پر ٹھہر جاتاہے جس میں اس کے مفادات بھی مجروح نہ ہوں اور اسلام کا تمغہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
اسلام کے پیغام کی صداقت پر یقین کرنے کے لیے اگر وہ دلائل چاہتے ہیں تو دلائل پوری طرح ديے جاچکے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کو معجزات دکھائے جائیں تو جو شخص کھلے کھلے دلائل کو نہ مانے اس کو چپ کرنے کے لیے معجزات بھی ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ یہ کہ خدا اپنے فرشتوں کے ساتھ سامنے آجائے۔ مگر جب ایسا ہوگا تو وہ کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ فیصلہ کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔ انسان کا امتحان یہی ہے کہ وہ دیکھے بغیر محض دلائل کی بنیاد پر مان لے۔ اگر اس نے دیکھ کر مانا تو اس ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔
وہ لوگ جو مصلحتوں کو نظر انداز کرکے اسلام کو اپنائیں اور وہ لوگ جو مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان بنیں، دونوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ پہلا گروہ اکثر دنیوی اہمیت کی چیزوں سے خالی ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ہر قسم کی دنیوی رونقیں جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز دوسرے گروہ کو غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے کو برتر خیال کرتا ہے اور پہلے گروہ کو حقیر سمجھنے لگتاہے۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ موجودہ دنیا کو توڑ کر جب نیا بہتر نظام بنے گا تو وہاں آج کے ’’بڑے‘‘ پست کرديے جائیں گے اور وہی لوگ بڑائی کے مقام پر نظر آئیں گے جن کو آج ’’چھوٹا‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔
سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَنْ يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
📘 اسلام کو اختیار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ تحفظات اور مصلحتوں کا لحاظ کيے بغیر اس کو اپنایا جائے۔ اسلام جس چیز کو کرنے کو کہے اس کو کیا جائے اور جس چیز کو چھوڑنے کو کہے اس کو چھوڑدیا جائے۔ یہ کسی آدمی کا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک اسلام اس کی زندگی سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اس اسلام کو لے لے جو اس کے لیے مفید یا کم از کم بے ضرر ہو۔ اور اس اسلام کو چھوڑے رہے جو اس کے محبوب عقائد، اس کی پسندیدہ عادات، اس کے دنیوی فائدے، اس کے شخصی وقار، اس کی قائدانہ مصلحتوں کو مجروح کرتا ہو۔ آدمی ابتداء ً پوری طرح ارادہ کرکے اسلام کو اختیار کرتاہے۔ مگر جب وہ وقت آتاہے کہ وہ اپنے فکری ڈھانچہ کو توڑے یا اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اسلام کا ساتھ دے تو وہ پھسل جاتا ہے۔ وہ ایسے اسلام پر ٹھہر جاتاہے جس میں اس کے مفادات بھی مجروح نہ ہوں اور اسلام کا تمغہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
اسلام کے پیغام کی صداقت پر یقین کرنے کے لیے اگر وہ دلائل چاہتے ہیں تو دلائل پوری طرح ديے جاچکے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کو معجزات دکھائے جائیں تو جو شخص کھلے کھلے دلائل کو نہ مانے اس کو چپ کرنے کے لیے معجزات بھی ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ یہ کہ خدا اپنے فرشتوں کے ساتھ سامنے آجائے۔ مگر جب ایسا ہوگا تو وہ کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ فیصلہ کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔ انسان کا امتحان یہی ہے کہ وہ دیکھے بغیر محض دلائل کی بنیاد پر مان لے۔ اگر اس نے دیکھ کر مانا تو اس ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔
وہ لوگ جو مصلحتوں کو نظر انداز کرکے اسلام کو اپنائیں اور وہ لوگ جو مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان بنیں، دونوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ پہلا گروہ اکثر دنیوی اہمیت کی چیزوں سے خالی ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ہر قسم کی دنیوی رونقیں جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز دوسرے گروہ کو غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے کو برتر خیال کرتا ہے اور پہلے گروہ کو حقیر سمجھنے لگتاہے۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ موجودہ دنیا کو توڑ کر جب نیا بہتر نظام بنے گا تو وہاں آج کے ’’بڑے‘‘ پست کرديے جائیں گے اور وہی لوگ بڑائی کے مقام پر نظر آئیں گے جن کو آج ’’چھوٹا‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔
زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا ۘ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ
📘 اسلام کو اختیار کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ تحفظات اور مصلحتوں کا لحاظ کيے بغیر اس کو اپنایا جائے۔ اسلام جس چیز کو کرنے کو کہے اس کو کیا جائے اور جس چیز کو چھوڑنے کو کہے اس کو چھوڑدیا جائے۔ یہ کسی آدمی کا پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اسلام کو اسی حد تک اختیار کرے جس حد تک اسلام اس کی زندگی سے ٹکراتا نہ ہو۔ وہ اس اسلام کو لے لے جو اس کے لیے مفید یا کم از کم بے ضرر ہو۔ اور اس اسلام کو چھوڑے رہے جو اس کے محبوب عقائد، اس کی پسندیدہ عادات، اس کے دنیوی فائدے، اس کے شخصی وقار، اس کی قائدانہ مصلحتوں کو مجروح کرتا ہو۔ آدمی ابتداء ً پوری طرح ارادہ کرکے اسلام کو اختیار کرتاہے۔ مگر جب وہ وقت آتاہے کہ وہ اپنے فکری ڈھانچہ کو توڑے یا اپنے مفاد کو نظر انداز کرکے اسلام کا ساتھ دے تو وہ پھسل جاتا ہے۔ وہ ایسے اسلام پر ٹھہر جاتاہے جس میں اس کے مفادات بھی مجروح نہ ہوں اور اسلام کا تمغہ بھی ہاتھ سے جانے نہ پائے۔
اسلام کے پیغام کی صداقت پر یقین کرنے کے لیے اگر وہ دلائل چاہتے ہیں تو دلائل پوری طرح ديے جاچکے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کو معجزات دکھائے جائیں تو جو شخص کھلے کھلے دلائل کو نہ مانے اس کو چپ کرنے کے لیے معجزات بھی ناکافی ثابت ہوں گے۔ اس کے بعد آخری چیز جو باقی رہتی ہے وہ یہ کہ خدا اپنے فرشتوں کے ساتھ سامنے آجائے۔ مگر جب ایسا ہوگا تو وہ کسی کے کچھ کام نہ آئے گا۔ کیوں کہ وہ فیصلہ کا وقت ہوگا، نہ کہ عمل کرنے کا۔ انسان کا امتحان یہی ہے کہ وہ دیکھے بغیر محض دلائل کی بنیاد پر مان لے۔ اگر اس نے دیکھ کر مانا تو اس ماننے کی کوئی قیمت نہیں۔
وہ لوگ جو مصلحتوں کو نظر انداز کرکے اسلام کو اپنائیں اور وہ لوگ جو مصلحتوں کی رعایت کرتے ہوئے مسلمان بنیں، دونوں کے حالات یکساں نہیں ہوتے۔ پہلا گروہ اکثر دنیوی اہمیت کی چیزوں سے خالی ہوجاتا ہے جب کہ دوسرے گروہ کے پاس ہر قسم کی دنیوی رونقیں جمع ہوجاتی ہیں۔ یہ چیز دوسرے گروہ کو غلط فہمی میں ڈال دیتی ہے۔ وہ اپنے کو برتر خیال کرتا ہے اور پہلے گروہ کو حقیر سمجھنے لگتاہے۔ مگر یہ صورت حال انتہائی عارضی ہے۔ موجودہ دنیا کو توڑ کر جب نیا بہتر نظام بنے گا تو وہاں آج کے ’’بڑے‘‘ پست کرديے جائیں گے اور وہی لوگ بڑائی کے مقام پر نظر آئیں گے جن کو آج ’’چھوٹا‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔
كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
📘 دین میں اختلاف تعبیر وتشریح کے اختلاف سے شروع ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنے ذہنی سانچہ کے مطابق خدا کے دین کا ایک تصور قائم کرلیتا ہے۔ ایک ہی کتابِ ہدایت کو مانتے ہوئے بھی لوگوں کی رائیںالگ الگ ہوجاتی ہیں۔ اس وقت اللہ اپنے چنے ہوئے بندے کے ذریعہ امر حق کا اعلان کراتا ہے۔ یہ آواز اگر چہ انسان کی زبان میں ہوتی ہے اور بظاہر عام آدمیوں جیسے ایک آدمی کے ذریعہ بلند کی جاتی ہے۔ تاہم جو سچے متلاشیٔ حق ہیں وہ اس کے اندر شامل خدائی گونج کو پہچان لیتے ہیں اور اپنے اختلاف کو بھول کر فوراً اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اپنے خود ساختہ دین کے ساتھ اپنے کو اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ میں دوسرے کی بات کیوں مانوں۔ اس کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی چیز کا انکار کردیتا ہے جس کا وہ اپنے خیال کے مطابق علم بردار بناہوا تھا۔
حق جب روشن دلائل کے ساتھ آجائے اور اس کے باوجود آدمی اس کا ساتھ نہ دے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو نظر آتاہے کہ اس کا ساتھ دینے میں اس کی خوش گمانیوں کا محل ڈھ جائے گا۔ اس کے مفادات کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ اس کی آسودہ زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس کاوقار باقی نہیں رہے گا۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو اللہ کو اپنے وفادار بندوں سے مطلوب ہے۔ جس راستہ کی دشواریوں سے گھبرا کر آدمی اس پر آنا نہیں چاہتا وہی وہ راستہ ہے جو جنت کی طرف لے جانے والا ہے۔ جنت کی واحد قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے۔ آدمی اپنے وجود کو فکر وعمل کے جن نقشوں کے حوالے کيے ہوئے ہے وہاں سے اکھاڑ کر جب وہ اس کو خدا کے نقشہ میں لانا چاہتا ہے تو اس کی پوری شخصیت ہل جاتی ہے۔ اس میں اس وقت اور زیادہ اضافہ ہوجاتاہے جب کہ اس کے ساتھ وہ خدا کے دین کا داعی بن کر کھڑا ہوجائے۔ داعی بننا بالفاظ دیگر دوسروں کے اوپر ناصح اور ناقد بننا ہے اور اپنے خلاف نصیحت اور تنقید کو سننا ہر زمانہ میں انسان کے لیے مبغوض ترین امر رہاہے۔ اس کے نتیجہ میں مدعوکی طرف سے اتنا شدید رد عمل سامنے آتاہے جو داعی کے لیے ایک بھونچال سے کم نہیں ہوتا۔
أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
📘 دین میں اختلاف تعبیر وتشریح کے اختلاف سے شروع ہوتا ہے۔ ہر ایک اپنے ذہنی سانچہ کے مطابق خدا کے دین کا ایک تصور قائم کرلیتا ہے۔ ایک ہی کتابِ ہدایت کو مانتے ہوئے بھی لوگوں کی رائیںالگ الگ ہوجاتی ہیں۔ اس وقت اللہ اپنے چنے ہوئے بندے کے ذریعہ امر حق کا اعلان کراتا ہے۔ یہ آواز اگر چہ انسان کی زبان میں ہوتی ہے اور بظاہر عام آدمیوں جیسے ایک آدمی کے ذریعہ بلند کی جاتی ہے۔ تاہم جو سچے متلاشیٔ حق ہیں وہ اس کے اندر شامل خدائی گونج کو پہچان لیتے ہیں اور اپنے اختلاف کو بھول کر فوراً اس کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ طبقہ ہے جو اپنے خود ساختہ دین کے ساتھ اپنے کو اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہوتا ہے کہ اس کے اندر یہ جذبہ ابھر آتا ہے کہ میں دوسرے کی بات کیوں مانوں۔ اس کے اندر ضد کی نفسیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اسی چیز کا انکار کردیتا ہے جس کا وہ اپنے خیال کے مطابق علم بردار بناہوا تھا۔
حق جب روشن دلائل کے ساتھ آجائے اور اس کے باوجود آدمی اس کا ساتھ نہ دے تو اس کی وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ آدمی کو نظر آتاہے کہ اس کا ساتھ دینے میں اس کی خوش گمانیوں کا محل ڈھ جائے گا۔ اس کے مفادات کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ اس کی آسودہ زندگی خطرہ میں پڑ جائے گی۔ اس کاوقار باقی نہیں رہے گا۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو اللہ کو اپنے وفادار بندوں سے مطلوب ہے۔ جس راستہ کی دشواریوں سے گھبرا کر آدمی اس پر آنا نہیں چاہتا وہی وہ راستہ ہے جو جنت کی طرف لے جانے والا ہے۔ جنت کی واحد قیمت آدمی کا اپنا وجود ہے۔ آدمی اپنے وجود کو فکر وعمل کے جن نقشوں کے حوالے کيے ہوئے ہے وہاں سے اکھاڑ کر جب وہ اس کو خدا کے نقشہ میں لانا چاہتا ہے تو اس کی پوری شخصیت ہل جاتی ہے۔ اس میں اس وقت اور زیادہ اضافہ ہوجاتاہے جب کہ اس کے ساتھ وہ خدا کے دین کا داعی بن کر کھڑا ہوجائے۔ داعی بننا بالفاظ دیگر دوسروں کے اوپر ناصح اور ناقد بننا ہے اور اپنے خلاف نصیحت اور تنقید کو سننا ہر زمانہ میں انسان کے لیے مبغوض ترین امر رہاہے۔ اس کے نتیجہ میں مدعوکی طرف سے اتنا شدید رد عمل سامنے آتاہے جو داعی کے لیے ایک بھونچال سے کم نہیں ہوتا۔
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
📘 انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کے جان اور مال کے استعمال کا بہترین مصرف اس کے بیوی بچے ہیں۔ وہ اپنے اثاثہ کو اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں میں لٹا کر خوش ہوتاہے۔ اس کے برعکس شریعت یہ کہتی ہے کہ اپنے جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ دونوں مدیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک خود اپنے اوپر خرچ کرنا ہے اور دوسرا غیروں کے اوپر۔ ایک اپنی طاقت کو دنیا کی ظاہری چیزوں کے حصول پرلگانا ہے اور دوسرا آخرت کی نظر نہ آنے والی چیزوں پر۔ مگر انسان کو جو چیز ناپسند ہے وہی اللہ کی نظر میں بھلائی ہے۔ کیوں کہ وہ اس کی اگلی وسیع تر زندگی میں اس کو نفع دینے والی ہے۔ اور انسان کو جو چیز پسند ہے وہ اللہ کی نظر میں برائی ہے۔ کیوں کہ اس کا جو کچھ فائدہ ہے اسی عارضی دنیا میں ہے، آخرت میں اس سے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔
یہی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے صحیح ہے — آدمی آزاد اور بے قید زندگی کو پسند کرتاہے، حالاں کہ اس کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی رسی میں باندھ کر رکھے۔ آدمی اپنی تعریف کرنے والے کو دوست بناتا ہے، حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو اپنا دوست بنائے جو اس کی غلطیوں کو اسے بتاتا ہو۔ آدمی ایک حق کو ماننے سے انکار کرتاہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس طرح اس نے لوگوں کی نظر میں اپنے وقار کو بچا لیا۔ حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ تھا کہ وہ اپنی عزت کو خطرہ میں ڈال کر کھلے دل سے حق کا اعتراف کر لے۔ آدمی محنت اور قربانی والے دین سے بے رغبت رہتاہے اور اس دین کو لے لیتاہے جس میں معمولی باتوں پر جنت کی خوش خبری مل رہی ہو۔ حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر تھا کہ وہ محنت اور قربانی والے دین کو اختیار کرتا۔ آدمی ’’زندگی‘‘ کے مسائل کو اہمیت دیتاہے، حالاں کہ زیادہ بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی ’’موت‘‘ کے مسائل کو اہمیت دے۔
’’اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان سطحی جذبات و محرکات سے بلند ہے جن سے بلند نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی رائے متاثر رائے بن جاتی ہے ۔ وہ صحیح رُخ کو چھوڑ کر غلط رخ کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اللہ کا فیصلہ ہر قسم کی غیر متعلق چیزوں کی ملاوٹ سے پاک ہے ۔ اس كا فيصله بے آمیز فیصلہ ہے۔ اس ليے اس کے برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ انسان کے فیصلے طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے مغلوب رہتے ہیں۔ وہ پست محرکات کے زیر اثر رائیں قائم کرتا ہے، اس ليے انسان کی رائے اکثر اوقات نہ مبنی برحق ہوتی ہے اور نہ مطابق واقعہ۔ خدا جو کہے اسی کو تم حق سمجھو اور اس کے مقابلہ میں اپنے خیال کو چھوڑ دو۔
كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۖ وَعَسَىٰ أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کے جان اور مال کے استعمال کا بہترین مصرف اس کے بیوی بچے ہیں۔ وہ اپنے اثاثہ کو اپنے ذاتی حوصلوں اور تمناؤں میں لٹا کر خوش ہوتاہے۔ اس کے برعکس شریعت یہ کہتی ہے کہ اپنے جان اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ دونوں مدیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک خود اپنے اوپر خرچ کرنا ہے اور دوسرا غیروں کے اوپر۔ ایک اپنی طاقت کو دنیا کی ظاہری چیزوں کے حصول پرلگانا ہے اور دوسرا آخرت کی نظر نہ آنے والی چیزوں پر۔ مگر انسان کو جو چیز ناپسند ہے وہی اللہ کی نظر میں بھلائی ہے۔ کیوں کہ وہ اس کی اگلی وسیع تر زندگی میں اس کو نفع دینے والی ہے۔ اور انسان کو جو چیز پسند ہے وہ اللہ کی نظر میں برائی ہے۔ کیوں کہ اس کا جو کچھ فائدہ ہے اسی عارضی دنیا میں ہے، آخرت میں اس سے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔
یہی اصول زندگی کے تمام معاملات کے لیے صحیح ہے — آدمی آزاد اور بے قید زندگی کو پسند کرتاہے، حالاں کہ اس کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کی رسی میں باندھ کر رکھے۔ آدمی اپنی تعریف کرنے والے کو دوست بناتا ہے، حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو اپنا دوست بنائے جو اس کی غلطیوں کو اسے بتاتا ہو۔ آدمی ایک حق کو ماننے سے انکار کرتاہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس طرح اس نے لوگوں کی نظر میں اپنے وقار کو بچا لیا۔ حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر یہ تھا کہ وہ اپنی عزت کو خطرہ میں ڈال کر کھلے دل سے حق کا اعتراف کر لے۔ آدمی محنت اور قربانی والے دین سے بے رغبت رہتاہے اور اس دین کو لے لیتاہے جس میں معمولی باتوں پر جنت کی خوش خبری مل رہی ہو۔ حالاں کہ اس کے لیے زیادہ بہتر تھا کہ وہ محنت اور قربانی والے دین کو اختیار کرتا۔ آدمی ’’زندگی‘‘ کے مسائل کو اہمیت دیتاہے، حالاں کہ زیادہ بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی ’’موت‘‘ کے مسائل کو اہمیت دے۔
’’اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ان سطحی جذبات و محرکات سے بلند ہے جن سے بلند نہ ہونے کی وجہ سے انسان کی رائے متاثر رائے بن جاتی ہے ۔ وہ صحیح رُخ کو چھوڑ کر غلط رخ کی طرف مڑ جاتا ہے۔ اللہ کا فیصلہ ہر قسم کی غیر متعلق چیزوں کی ملاوٹ سے پاک ہے ۔ اس كا فيصله بے آمیز فیصلہ ہے۔ اس ليے اس کے برحق ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ انسان کے فیصلے طرح طرح کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے مغلوب رہتے ہیں۔ وہ پست محرکات کے زیر اثر رائیں قائم کرتا ہے، اس ليے انسان کی رائے اکثر اوقات نہ مبنی برحق ہوتی ہے اور نہ مطابق واقعہ۔ خدا جو کہے اسی کو تم حق سمجھو اور اس کے مقابلہ میں اپنے خیال کو چھوڑ دو۔
يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۗ وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّىٰ يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا ۚ وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 رجب 2 ہجری میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلمانوں کے ایک دستہ اور مشرکین قریش کی ایک جماعت کے درمیان ٹکراؤ ہوگیا۔ یہ واقعہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں پیش آیا۔ قریش کا ایک آدمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ یہ جمادی الثانی کی 30 تاریخ ہے۔ مگر چاند
29
کا ہوگیا تھا اور وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی۔رجب کا مہینہ ماہ حرام میں شمار ہوتا ہے اور صدیوں کے رواج سے اس معاملہ میں عربوں کے جذبات بہت شدید تھے۔ اس طرح مخالفین کو موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کریں کہ یہ لوگ حق پرستی سے اتنا دور ہیں کہ حرام مہینوں کی حرمت کا بھی خیال نہیں کرتے۔ جواب میں کہاگیا کہ ماہ حرام میں لڑنا یقیناً گناہ ہے۔ مگر مسلمانوں سے یہ فعل تو بھول سے اور اتفاقاً ہوگیا اور تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ جان بوجھ کر اور مستقل طورپر تم اس سے کہیں زیادہ بڑے جرم کررہے ہو۔ تمھارے درمیان اللہ کی پکار بلند ہوئی ہے مگر تم اس کو ماننے سے انکار کررہے ہو اور دوسروں کو بھی اس کو اختیار کرنے سے روکتے ہو۔ تمھارے ضد اور عناد کا یہ حال ہے کہ اللہ کے بندوں کے اوپر اللہ کے گھر کا دروازہ بند کرتے ہو، ان کو ان کے اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہو۔ حتی کہ جو لوگ اللہ کے دین کی طرف بڑھتے ہیں ان کو طرح طرح سے ستاتے ہو تاکہ وہ اس کو چھوڑ دیں۔ حالاں کہ کسی کو اللہ کے راستہ سے ہٹانا اس کو قتل کردینے سے بھی زیادہ برا ہے — اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے کہ آدمی خود بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہو اور دوسرے کی ایک معمولی خطا کو پاجائے تو اس کو شہرت دے کر اس کو بد نام کرے۔
مخالفتوں کا یہ نتیجہ ہوتاہے کہ اہل ایمان کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ دین پر قائم رہنے کے لیے ان کو جہاد کی حد تک جانا پڑتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے جو خدا پرستوں او رخدا دشمنوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتاہے۔ اس طرح ایک طرف یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے نہیں بلکہ اپنی ذات کے پجاری ہیں۔ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اللہ سے بے خوف ہو کر اللہ کے بندوں کو ستاتے ہیں۔ دوسری طرف اسی واقعہ کے درمیان ایمان اور ہجرت اور جہاد کی نیکیاں ظہور میں آتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے حالات کی شدت کے باوجود اللہ پر اپنے بھروسہ کو باقی رکھا اور کس نے ا س کو کھودیا۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 رجب 2 ہجری میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلمانوں کے ایک دستہ اور مشرکین قریش کی ایک جماعت کے درمیان ٹکراؤ ہوگیا۔ یہ واقعہ مکہ اور طائف کے درمیان نخلہ میں پیش آیا۔ قریش کا ایک آدمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ یہ جمادی الثانی کی 30 تاریخ ہے۔ مگر چاند
29
کا ہوگیا تھا اور وہ رجب کی پہلی تاریخ تھی۔رجب کا مہینہ ماہ حرام میں شمار ہوتا ہے اور صدیوں کے رواج سے اس معاملہ میں عربوں کے جذبات بہت شدید تھے۔ اس طرح مخالفین کو موقع مل گیا کہ وہ مسلمانوں کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کریں کہ یہ لوگ حق پرستی سے اتنا دور ہیں کہ حرام مہینوں کی حرمت کا بھی خیال نہیں کرتے۔ جواب میں کہاگیا کہ ماہ حرام میں لڑنا یقیناً گناہ ہے۔ مگر مسلمانوں سے یہ فعل تو بھول سے اور اتفاقاً ہوگیا اور تم لوگوں کا حال یہ ہے کہ جان بوجھ کر اور مستقل طورپر تم اس سے کہیں زیادہ بڑے جرم کررہے ہو۔ تمھارے درمیان اللہ کی پکار بلند ہوئی ہے مگر تم اس کو ماننے سے انکار کررہے ہو اور دوسروں کو بھی اس کو اختیار کرنے سے روکتے ہو۔ تمھارے ضد اور عناد کا یہ حال ہے کہ اللہ کے بندوں کے اوپر اللہ کے گھر کا دروازہ بند کرتے ہو، ان کو ان کے اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہو۔ حتی کہ جو لوگ اللہ کے دین کی طرف بڑھتے ہیں ان کو طرح طرح سے ستاتے ہو تاکہ وہ اس کو چھوڑ دیں۔ حالاں کہ کسی کو اللہ کے راستہ سے ہٹانا اس کو قتل کردینے سے بھی زیادہ برا ہے — اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا جرم ہے کہ آدمی خود بڑی بڑی برائیوں میں مبتلا ہو اور دوسرے کی ایک معمولی خطا کو پاجائے تو اس کو شہرت دے کر اس کو بد نام کرے۔
مخالفتوں کا یہ نتیجہ ہوتاہے کہ اہل ایمان کو اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ دین پر قائم رہنے کے لیے ان کو جہاد کی حد تک جانا پڑتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں ایسا ہونا ضروری ہے۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے جو خدا پرستوں او رخدا دشمنوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتاہے۔ اس طرح ایک طرف یہ ثابت ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو اللہ کے نہیں بلکہ اپنی ذات کے پجاری ہیں۔ جو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اللہ سے بے خوف ہو کر اللہ کے بندوں کو ستاتے ہیں۔ دوسری طرف اسی واقعہ کے درمیان ایمان اور ہجرت اور جہاد کی نیکیاں ظہور میں آتی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے حالات کی شدت کے باوجود اللہ پر اپنے بھروسہ کو باقی رکھا اور کس نے ا س کو کھودیا۔
۞ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ ۖ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا ۗ وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
📘 چند سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہاں کچھ بنیادی اصول بتا ديے گئے ہیں (1)کسی چیز کا نقصان اگر اس کے نفع سے زیادہ ہوتو وہ قابل ترک ہے۔(2) اپنی واقعی ضرورت سے زیادہ جو مال ہو اس کو اللہ کی راہ میں دے دینا چاہيے۔ (3) باہمی معاملات میں ان طریقوں سے بچنا جو کسی بگاڑ کا سبب بن سکتے ہوں اور ان طریقوں کو اختیار کرنا جو اصلاح پیدا کرنے والے ہوں۔
شراب پی کر آدمی کو سرور حاصل ہوتا ہے۔ جوا کھیلنے والے کو کبھی محنت کے بغیر کافی دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ اس اعتبار سے ان چیزوں میں نفع کا پہلو ہے۔ مگر دوسرے اعتبار سے ان کے اندر دینی اور اخلاقی نقصانات ہیں اور یہ نقصانات ان کے نفع سے بہت زیادہ ہیں۔ اس ليے ان سے منع کردیاگیا ۔ کسی چیز کو لینے یا نہ لینے کا یہی معیار زندگی کے دوسرے امور کے لیے بھی ہے۔ مثلاً وہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیاں، وہ تمام تقریبات اور جلسے قابل ترک ہیں جن کے بارے میں دینی اور اقتصادی جائزہ بتائے کہ ان میں نفع کم ہے او رنقصان زیادہ۔
مسلمان وہ ہے جو آخرت کو اپنی منزل بنائے، جو اس تڑپ کے ساتھ اپنی صبح وشام کررہا ہو کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو جائے۔ ایسے شخص کے لیے دنیا کا سازوسامان زندگی کی ضرورت ہے، نہ کہ زندگی کا مقصد۔ وہ مال حاصل کرتاہے، وہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہوتاہے۔ مگر یہ سب کچھ اس کے لیے حاجت اور ضرورت کے درجہ میں ہوتا ہے، نہ کہ مقصد کے درجہ میں۔ اس کے اثاثہ کی جو چیز اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ ہو، اس کا بہترین مصرف اس کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ و ہ اس کو اپنے رب کی راہ میں دے دے، تاکہ وہ اس سے راضی ہو اور اس کو اپنی رحمتوں کے سایہ میں جگہ دے۔ اس کی ہر چیز بقدر حاجت اپنے ليے ہوتی ہے اور حاجت سے جو زیادہ ہو وہ دین کے ليے۔
باہمی معاملات اور کاروبار کے اکثر مسائل اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں صرف بنیادی ہدایات دی جاسکتی ہیں۔ ان کی تمام عملی تفصیلات کو قانون کے الفاظ میں متعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں یہ اصول مقرر کردیا گیا کہ اپنی نیت کو درست رکھو اور جو کارر وائی کرو یہ سوچ کر کرو کہ وہ کسی بگاڑ کا سبب نہ بنے۔ بلکہ صاحب معاملہ کے حق میں بہتری پیدا کرنے والی ہو۔ اگر تم دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے اس کے مصالح کی پوری رعایت رکھو گے اور تمھارا مقصود صرف اصلاح و درستگی ہوگا تو اللہ کے یہاں تمھاری پکڑ نہیں۔
الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۖ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 انسان اور انسان کے سوا جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ اس نے پوری کائنات کو نہایت حکمت کے ساتھ قائم کیا ہے۔ وہ ہر آن ان کی پرورش کررہا ہے۔ اس لیے انسان کے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر کسی شرکت کے خالق، مالک اور رازق تسلیم کرے، وہ اس کو اپنا سب کچھ بنالے۔ مگر خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر آنے والی چیز کو اہم سمجھ کر اس کو خدائی کے مقام پر بٹھا لیتا ہے۔ وہ ایک مخلوق کو، جزئی یا کلی طورپر، خالق کے برابر ٹھہرا لیتا ہے، کبھی اس کو خدا کا نام دے کر اور کبھی خدا کا نام دیے بغیر۔
یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا کو بڑائی کا مقام دے۔ اس کے علاوہ جس جس کو اس نے خدائی عظمت کے مقام پر بٹھا رکھا ہے اس کو عظمت کے مقام سے اتار دے۔ جب خالص خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے ہیں جن کا دل خدا کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔جنھوں نے خدا کے سوا کسی اور کے لیے بھی عظمت کو خاص کررکھا ہو۔ ایسے لوگوں کو اپنے فرضی معبودوں سے جو شدید تعلق ہوچکا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بے حقیقت ہیں اور حقیقت صرف اس پیغام کی ہے جو آدمیوں میںسے ایک آدمی کی زبان سے سنایا جارہا ہے۔
جو دعوت خدا کی طرف سے اٹھے اس کے اندر لازمی طورپر خدائی شان شامل ہوجاتی ہے۔ اس کا ناقابلِ تقلید اسلوب اور اس کا غیر مفتوح استدلال اس بات کی کھلی علامت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ انکار کریں ان کو خدا کی دنیا میں جہنم کے سوا کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ البتہ جو لوگ خدا کے کلام میں خدا کو پالیں انھوں نے گویا آج کی دنیا میں کل کی دنیا کو دیکھ لیا۔ یہی لوگ ہیں جو آخرت کے باغوں میں داخل کيے جائیں گے۔
فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۗ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
📘 چند سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہاں کچھ بنیادی اصول بتا ديے گئے ہیں (1)کسی چیز کا نقصان اگر اس کے نفع سے زیادہ ہوتو وہ قابل ترک ہے۔(2) اپنی واقعی ضرورت سے زیادہ جو مال ہو اس کو اللہ کی راہ میں دے دینا چاہيے۔ (3) باہمی معاملات میں ان طریقوں سے بچنا جو کسی بگاڑ کا سبب بن سکتے ہوں اور ان طریقوں کو اختیار کرنا جو اصلاح پیدا کرنے والے ہوں۔
شراب پی کر آدمی کو سرور حاصل ہوتا ہے۔ جوا کھیلنے والے کو کبھی محنت کے بغیر کافی دولت ہاتھ آجاتی ہے۔ اس اعتبار سے ان چیزوں میں نفع کا پہلو ہے۔ مگر دوسرے اعتبار سے ان کے اندر دینی اور اخلاقی نقصانات ہیں اور یہ نقصانات ان کے نفع سے بہت زیادہ ہیں۔ اس ليے ان سے منع کردیاگیا ۔ کسی چیز کو لینے یا نہ لینے کا یہی معیار زندگی کے دوسرے امور کے لیے بھی ہے۔ مثلاً وہ تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیاں، وہ تمام تقریبات اور جلسے قابل ترک ہیں جن کے بارے میں دینی اور اقتصادی جائزہ بتائے کہ ان میں نفع کم ہے او رنقصان زیادہ۔
مسلمان وہ ہے جو آخرت کو اپنی منزل بنائے، جو اس تڑپ کے ساتھ اپنی صبح وشام کررہا ہو کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو جائے۔ ایسے شخص کے لیے دنیا کا سازوسامان زندگی کی ضرورت ہے، نہ کہ زندگی کا مقصد۔ وہ مال حاصل کرتاہے، وہ دنیا کے کاموں میں مشغول ہوتاہے۔ مگر یہ سب کچھ اس کے لیے حاجت اور ضرورت کے درجہ میں ہوتا ہے، نہ کہ مقصد کے درجہ میں۔ اس کے اثاثہ کی جو چیز اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ ہو، اس کا بہترین مصرف اس کے نزدیک یہ ہوتا ہے کہ و ہ اس کو اپنے رب کی راہ میں دے دے، تاکہ وہ اس سے راضی ہو اور اس کو اپنی رحمتوں کے سایہ میں جگہ دے۔ اس کی ہر چیز بقدر حاجت اپنے ليے ہوتی ہے اور حاجت سے جو زیادہ ہو وہ دین کے ليے۔
باہمی معاملات اور کاروبار کے اکثر مسائل اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں صرف بنیادی ہدایات دی جاسکتی ہیں۔ ان کی تمام عملی تفصیلات کو قانون کے الفاظ میں متعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس سلسلے میں یہ اصول مقرر کردیا گیا کہ اپنی نیت کو درست رکھو اور جو کارر وائی کرو یہ سوچ کر کرو کہ وہ کسی بگاڑ کا سبب نہ بنے۔ بلکہ صاحب معاملہ کے حق میں بہتری پیدا کرنے والی ہو۔ اگر تم دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے ہوئے اس کے مصالح کی پوری رعایت رکھو گے اور تمھارا مقصود صرف اصلاح و درستگی ہوگا تو اللہ کے یہاں تمھاری پکڑ نہیں۔
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ
📘 مرد اور عورت جب نکاح کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو اس کا اصل مقصد شہوت رانی نہیں ہوتا بلکہ یہ اسی قسم کا ایک با مقصد تعلق ہے جو کسان اور کھیت کے درمیان ہوتا ہے۔ اس میں آدمی کو اتنا ہی سنجیدہ ہونا چاہيے جتنا کھیتی کا منصوبہ بنانے والا سنجیدہ ہوتاہے۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔
ایک یہ کہ جوڑے کے انتخاب میں سب سے زیادہ جس چیز کو دیکھا جائے وہ ایمان ہے۔ میاں بیوی کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ اس کے بہت سے نفسیاتی، خاندانی اور سماجی پہلو ہیں۔ اس قسم کا تعلق دو شخصوں کے درمیان اگر اعتقادی موافقت کے بغیر ہو تو بالآخر وہ دو میں سے کسی ایک کی بربادی کا باعث ہوگا — ایک مومن اپنے غیر مومن جوڑے سے اعتقادی مصالحت کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کو برباد کرلیا۔ اور اگر وہ مصالحت نہ کرے تو اس کے بعد دونوں میں جو کش مکش ہوگی اس کے نتیجے میں اس کا گھر برباد ہوجائے گا۔ دوسری چیز یہ کہ دو صنفوں کا یہ تعلق خدا کی بناوٹ کے مطابق اپنے فطری ڈھنگ پر قائم ہو۔ فطرت بھی خدا کا حکم ہے۔ قرآن کے ملفوظ احکام کی پابندی جس طرح ضروری ہے اسی طرح اس فطری نظام کی پابندی بھی ضروری ہے جو خدا نے تخلیقی طورپر ہمارے ليے بنا دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ ہر مرحلہ میں آدمی کے اوپر اللہ کا خوف غالب رہے۔ وہ جو بھی رویہ اختیار کرے یہ سوچ کر کرے کہ بالآخر ا س کو رب العالمین کے یہاں جانا ہے جو کھلے اور چھپے ہر چیز سے باخبر ہے —’’اور اپنے ليے آگے بھیجو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی آخرت کے لیے عمل صالح بھیجو۔ یعنی جو کچھ کرو یہ سمجھ کر کرو کہ تمھارا کوئی کام صرف دنیوی کام نہیں ہے بلکہ ہر کام کا ایک اخر وی پہلو ہے۔ مرنے کے بعد تم اپنے اس اخروی پہلو سے دوچار ہونے والے ہو۔ تم کو اس معاملہ میں حد درجہ ہوشیار رہنا چاہيے کہ تمھارا عمل آخرت کے پیمانہ میں صالح عمل قرار پائے، نہ کہ غیر صالح عمل۔
وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ۖ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ ۖ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ ۖ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
📘 مرد اور عورت جب نکاح کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو اس کا اصل مقصد شہوت رانی نہیں ہوتا بلکہ یہ اسی قسم کا ایک با مقصد تعلق ہے جو کسان اور کھیت کے درمیان ہوتا ہے۔ اس میں آدمی کو اتنا ہی سنجیدہ ہونا چاہيے جتنا کھیتی کا منصوبہ بنانے والا سنجیدہ ہوتاہے۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔
ایک یہ کہ جوڑے کے انتخاب میں سب سے زیادہ جس چیز کو دیکھا جائے وہ ایمان ہے۔ میاں بیوی کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ اس کے بہت سے نفسیاتی، خاندانی اور سماجی پہلو ہیں۔ اس قسم کا تعلق دو شخصوں کے درمیان اگر اعتقادی موافقت کے بغیر ہو تو بالآخر وہ دو میں سے کسی ایک کی بربادی کا باعث ہوگا — ایک مومن اپنے غیر مومن جوڑے سے اعتقادی مصالحت کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کو برباد کرلیا۔ اور اگر وہ مصالحت نہ کرے تو اس کے بعد دونوں میں جو کش مکش ہوگی اس کے نتیجے میں اس کا گھر برباد ہوجائے گا۔ دوسری چیز یہ کہ دو صنفوں کا یہ تعلق خدا کی بناوٹ کے مطابق اپنے فطری ڈھنگ پر قائم ہو۔ فطرت بھی خدا کا حکم ہے۔ قرآن کے ملفوظ احکام کی پابندی جس طرح ضروری ہے اسی طرح اس فطری نظام کی پابندی بھی ضروری ہے جو خدا نے تخلیقی طورپر ہمارے ليے بنا دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ ہر مرحلہ میں آدمی کے اوپر اللہ کا خوف غالب رہے۔ وہ جو بھی رویہ اختیار کرے یہ سوچ کر کرے کہ بالآخر ا س کو رب العالمین کے یہاں جانا ہے جو کھلے اور چھپے ہر چیز سے باخبر ہے —’’اور اپنے ليے آگے بھیجو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی آخرت کے لیے عمل صالح بھیجو۔ یعنی جو کچھ کرو یہ سمجھ کر کرو کہ تمھارا کوئی کام صرف دنیوی کام نہیں ہے بلکہ ہر کام کا ایک اخر وی پہلو ہے۔ مرنے کے بعد تم اپنے اس اخروی پہلو سے دوچار ہونے والے ہو۔ تم کو اس معاملہ میں حد درجہ ہوشیار رہنا چاہيے کہ تمھارا عمل آخرت کے پیمانہ میں صالح عمل قرار پائے، نہ کہ غیر صالح عمل۔
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ ۖ وَقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلَاقُوهُ ۗ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ
📘 مرد اور عورت جب نکاح کے ذریعہ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو اس کا اصل مقصد شہوت رانی نہیں ہوتا بلکہ یہ اسی قسم کا ایک با مقصد تعلق ہے جو کسان اور کھیت کے درمیان ہوتا ہے۔ اس میں آدمی کو اتنا ہی سنجیدہ ہونا چاہيے جتنا کھیتی کا منصوبہ بنانے والا سنجیدہ ہوتاہے۔ اس سلسلہ میں چند باتوں کا لحاظ ضروری ہے۔
ایک یہ کہ جوڑے کے انتخاب میں سب سے زیادہ جس چیز کو دیکھا جائے وہ ایمان ہے۔ میاں بیوی کا تعلق بے حد نازک تعلق ہے۔ اس کے بہت سے نفسیاتی، خاندانی اور سماجی پہلو ہیں۔ اس قسم کا تعلق دو شخصوں کے درمیان اگر اعتقادی موافقت کے بغیر ہو تو بالآخر وہ دو میں سے کسی ایک کی بربادی کا باعث ہوگا — ایک مومن اپنے غیر مومن جوڑے سے اعتقادی مصالحت کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے دین کو برباد کرلیا۔ اور اگر وہ مصالحت نہ کرے تو اس کے بعد دونوں میں جو کش مکش ہوگی اس کے نتیجے میں اس کا گھر برباد ہوجائے گا۔ دوسری چیز یہ کہ دو صنفوں کا یہ تعلق خدا کی بناوٹ کے مطابق اپنے فطری ڈھنگ پر قائم ہو۔ فطرت بھی خدا کا حکم ہے۔ قرآن کے ملفوظ احکام کی پابندی جس طرح ضروری ہے اسی طرح اس فطری نظام کی پابندی بھی ضروری ہے جو خدا نے تخلیقی طورپر ہمارے ليے بنا دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ ہر مرحلہ میں آدمی کے اوپر اللہ کا خوف غالب رہے۔ وہ جو بھی رویہ اختیار کرے یہ سوچ کر کرے کہ بالآخر ا س کو رب العالمین کے یہاں جانا ہے جو کھلے اور چھپے ہر چیز سے باخبر ہے —’’اور اپنے ليے آگے بھیجو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی آخرت کے لیے عمل صالح بھیجو۔ یعنی جو کچھ کرو یہ سمجھ کر کرو کہ تمھارا کوئی کام صرف دنیوی کام نہیں ہے بلکہ ہر کام کا ایک اخر وی پہلو ہے۔ مرنے کے بعد تم اپنے اس اخروی پہلو سے دوچار ہونے والے ہو۔ تم کو اس معاملہ میں حد درجہ ہوشیار رہنا چاہيے کہ تمھارا عمل آخرت کے پیمانہ میں صالح عمل قرار پائے، نہ کہ غیر صالح عمل۔
وَلَا تَجْعَلُوا اللَّهَ عُرْضَةً لِأَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَتَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 ضد اور غصہ میں کبھی ایک آدمی قسم کھالیتا ہے کہ میں فلاں آدمی کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہیں کروں گا۔ قدیم زمانہ میں عربوں میں اس طرح کی قسموں کا بہت رواج تھا۔ وہ ایک بھلائی کا کام یا ایک اصلاح کا کام نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور جب ان کو اس نوعیت کے کام کے لیے پکارا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہم تو اس کو نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ کہنا کہ میں بھلائی کا کام نہ کروں گا ، یوں بھی ایک غلط بات ہے اور اس کو خدا کے نام کی قسم کھا کر کہنا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ خدا تو وہ ہستی ہے جو سراپا رحمت اور خیر ہے۔ پھر ایسے خدا کا نام لے کر اپنے کو رحمت اور خیر کے کاموں سے الگ کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے — بگاڑ ہر حال میں برا ہے۔ لیکن اگر بگاڑ کو خدایا اس کے دین کا نام لے کر کیا جائے تو اس کی برائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بعض لوگ قسم کو تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور غیر ارادی طورپر قسم کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے اور ہر آدمی کو اس سے بچنا چاہيے۔ تاہم میاں بیوی کے تعلق کی نزاکت کی وجہ سے اس طرح کے معاملات میں ایسی قسم کو قانونی طورپر غیر موثر قرار دیا گیا۔ البتہ وہ کلام جو آدمی سوچ سمجھ کر منھ سے نکالے اور جس کے ساتھ قلبی ارادہ شامل ہوجائے، اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس ليے اگر کوئی شخص ارادۃً یہ قسم کھالے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اس کو قابل لحاظ قرار دے کر اس کو ایک قانونی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے احکام مقرر کيے گئے۔
خاندانی نظام میں، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی۔ ہر فرد کو چاہيے کہ دوسرے سے اپنا حق لینے کے ساتھ دوسرے کو اس کاحق بھی پوری طرح ادا کرے۔ کوئی شخص اتفاقی حالات یا اپنی فطری بالا دستی سے فائدہ اٹھا کر اگر دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے گا تو وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔
لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ
📘 ضد اور غصہ میں کبھی ایک آدمی قسم کھالیتا ہے کہ میں فلاں آدمی کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہیں کروں گا۔ قدیم زمانہ میں عربوں میں اس طرح کی قسموں کا بہت رواج تھا۔ وہ ایک بھلائی کا کام یا ایک اصلاح کا کام نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور جب ان کو اس نوعیت کے کام کے لیے پکارا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہم تو اس کو نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ کہنا کہ میں بھلائی کا کام نہ کروں گا ، یوں بھی ایک غلط بات ہے اور اس کو خدا کے نام کی قسم کھا کر کہنا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ خدا تو وہ ہستی ہے جو سراپا رحمت اور خیر ہے۔ پھر ایسے خدا کا نام لے کر اپنے کو رحمت اور خیر کے کاموں سے الگ کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے — بگاڑ ہر حال میں برا ہے۔ لیکن اگر بگاڑ کو خدایا اس کے دین کا نام لے کر کیا جائے تو اس کی برائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بعض لوگ قسم کو تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور غیر ارادی طورپر قسم کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے اور ہر آدمی کو اس سے بچنا چاہيے۔ تاہم میاں بیوی کے تعلق کی نزاکت کی وجہ سے اس طرح کے معاملات میں ایسی قسم کو قانونی طورپر غیر موثر قرار دیا گیا۔ البتہ وہ کلام جو آدمی سوچ سمجھ کر منھ سے نکالے اور جس کے ساتھ قلبی ارادہ شامل ہوجائے، اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس ليے اگر کوئی شخص ارادۃً یہ قسم کھالے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اس کو قابل لحاظ قرار دے کر اس کو ایک قانونی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے احکام مقرر کيے گئے۔
خاندانی نظام میں، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی۔ ہر فرد کو چاہيے کہ دوسرے سے اپنا حق لینے کے ساتھ دوسرے کو اس کاحق بھی پوری طرح ادا کرے۔ کوئی شخص اتفاقی حالات یا اپنی فطری بالا دستی سے فائدہ اٹھا کر اگر دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے گا تو وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔
لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ
📘 ضد اور غصہ میں کبھی ایک آدمی قسم کھالیتا ہے کہ میں فلاں آدمی کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہیں کروں گا۔ قدیم زمانہ میں عربوں میں اس طرح کی قسموں کا بہت رواج تھا۔ وہ ایک بھلائی کا کام یا ایک اصلاح کا کام نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور جب ان کو اس نوعیت کے کام کے لیے پکارا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہم تو اس کو نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ کہنا کہ میں بھلائی کا کام نہ کروں گا ، یوں بھی ایک غلط بات ہے اور اس کو خدا کے نام کی قسم کھا کر کہنا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ خدا تو وہ ہستی ہے جو سراپا رحمت اور خیر ہے۔ پھر ایسے خدا کا نام لے کر اپنے کو رحمت اور خیر کے کاموں سے الگ کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے — بگاڑ ہر حال میں برا ہے۔ لیکن اگر بگاڑ کو خدایا اس کے دین کا نام لے کر کیا جائے تو اس کی برائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بعض لوگ قسم کو تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور غیر ارادی طورپر قسم کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے اور ہر آدمی کو اس سے بچنا چاہيے۔ تاہم میاں بیوی کے تعلق کی نزاکت کی وجہ سے اس طرح کے معاملات میں ایسی قسم کو قانونی طورپر غیر موثر قرار دیا گیا۔ البتہ وہ کلام جو آدمی سوچ سمجھ کر منھ سے نکالے اور جس کے ساتھ قلبی ارادہ شامل ہوجائے، اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس ليے اگر کوئی شخص ارادۃً یہ قسم کھالے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اس کو قابل لحاظ قرار دے کر اس کو ایک قانونی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے احکام مقرر کيے گئے۔
خاندانی نظام میں، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی۔ ہر فرد کو چاہيے کہ دوسرے سے اپنا حق لینے کے ساتھ دوسرے کو اس کاحق بھی پوری طرح ادا کرے۔ کوئی شخص اتفاقی حالات یا اپنی فطری بالا دستی سے فائدہ اٹھا کر اگر دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے گا تو وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔
وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 ضد اور غصہ میں کبھی ایک آدمی قسم کھالیتا ہے کہ میں فلاں آدمی کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہیں کروں گا۔ قدیم زمانہ میں عربوں میں اس طرح کی قسموں کا بہت رواج تھا۔ وہ ایک بھلائی کا کام یا ایک اصلاح کا کام نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور جب ان کو اس نوعیت کے کام کے لیے پکارا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہم تو اس کو نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ کہنا کہ میں بھلائی کا کام نہ کروں گا ، یوں بھی ایک غلط بات ہے اور اس کو خدا کے نام کی قسم کھا کر کہنا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ خدا تو وہ ہستی ہے جو سراپا رحمت اور خیر ہے۔ پھر ایسے خدا کا نام لے کر اپنے کو رحمت اور خیر کے کاموں سے الگ کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے — بگاڑ ہر حال میں برا ہے۔ لیکن اگر بگاڑ کو خدایا اس کے دین کا نام لے کر کیا جائے تو اس کی برائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بعض لوگ قسم کو تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور غیر ارادی طورپر قسم کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے اور ہر آدمی کو اس سے بچنا چاہيے۔ تاہم میاں بیوی کے تعلق کی نزاکت کی وجہ سے اس طرح کے معاملات میں ایسی قسم کو قانونی طورپر غیر موثر قرار دیا گیا۔ البتہ وہ کلام جو آدمی سوچ سمجھ کر منھ سے نکالے اور جس کے ساتھ قلبی ارادہ شامل ہوجائے، اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس ليے اگر کوئی شخص ارادۃً یہ قسم کھالے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اس کو قابل لحاظ قرار دے کر اس کو ایک قانونی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے احکام مقرر کيے گئے۔
خاندانی نظام میں، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی۔ ہر فرد کو چاہيے کہ دوسرے سے اپنا حق لینے کے ساتھ دوسرے کو اس کاحق بھی پوری طرح ادا کرے۔ کوئی شخص اتفاقی حالات یا اپنی فطری بالا دستی سے فائدہ اٹھا کر اگر دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے گا تو وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
📘 ضد اور غصہ میں کبھی ایک آدمی قسم کھالیتا ہے کہ میں فلاں آدمی کے ساتھ کوئی نیک سلوک نہیں کروں گا۔ قدیم زمانہ میں عربوں میں اس طرح کی قسموں کا بہت رواج تھا۔ وہ ایک بھلائی کا کام یا ایک اصلاح کا کام نہ کرنے کی قسم کھالیتے اور جب ان کو اس نوعیت کے کام کے لیے پکارا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہم تو اس کو نہ کرنے کی قسم کھا چکے ہیں۔یہ کہنا کہ میں بھلائی کا کام نہ کروں گا ، یوں بھی ایک غلط بات ہے اور اس کو خدا کے نام کی قسم کھا کر کہنا اور بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ خدا تو وہ ہستی ہے جو سراپا رحمت اور خیر ہے۔ پھر ایسے خدا کا نام لے کر اپنے کو رحمت اور خیر کے کاموں سے الگ کرنا کیوں کر درست ہوسکتا ہے — بگاڑ ہر حال میں برا ہے۔ لیکن اگر بگاڑ کو خدایا اس کے دین کا نام لے کر کیا جائے تو اس کی برائی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
بعض لوگ قسم کو تکیہ کلام بنا لیتے ہیں اور غیر ارادی طورپر قسم کے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ یہ ایک لغو بات ہے اور ہر آدمی کو اس سے بچنا چاہيے۔ تاہم میاں بیوی کے تعلق کی نزاکت کی وجہ سے اس طرح کے معاملات میں ایسی قسم کو قانونی طورپر غیر موثر قرار دیا گیا۔ البتہ وہ کلام جو آدمی سوچ سمجھ کر منھ سے نکالے اور جس کے ساتھ قلبی ارادہ شامل ہوجائے، اس کی نوعیت بالکل دوسری ہوتی ہے۔ اس ليے اگر کوئی شخص ارادۃً یہ قسم کھالے کہ میں اپنی عورت کے پاس نہ جاؤں گا تو اس کو قابل لحاظ قرار دے کر اس کو ایک قانونی مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کے احکام مقرر کيے گئے۔
خاندانی نظام میں، خواہ مرد ہو یا عورت، ہر ایک کے حقوق بھی ہیں اور ہر ایک کی ذمہ داریاں بھی۔ ہر فرد کو چاہيے کہ دوسرے سے اپنا حق لینے کے ساتھ دوسرے کو اس کاحق بھی پوری طرح ادا کرے۔ کوئی شخص اتفاقی حالات یا اپنی فطری بالا دستی سے فائدہ اٹھا کر اگر دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے گا تو وہ خدا کی پکڑ سے اپنے آپ کو بچا نہیں سکتا۔
الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
📘 طلاق ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو غیر معمولی حالات میں پیش آتا ہے۔ مگر اس انتہائی جذباتی معاملہ میں بھی تقویٰ اور احسان پر قائم رہنے کا حکم دیاگیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں مومن سے کس قسم کا سلوک اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
نکاح کے رشتہ کو یکبارگی توڑنے کے بجائے اس کو تین مرحلوں میں انجام دینے کا حکم ہوا جو چند ماہ میں اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔ ایک انتہائی ہیجانی معاملہ میں اس قسم کا سنجیدہ طریقہ مقرر کرکے بتایا گیا کہ اختلاف کے وقت مومن کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ اپنے مخالف فریق کے ساتھ اس کا سلوک غیر جذباتی انداز میں سوچا ہوا صابرانہ فیصلہ ہو، نہ کہ اشتعال کے تحت ظاہر ہونے والا اچانک فیصلہ۔ اسی طرح طلاق کے جتنے آداب مقرر کيے گئے ہیں، سب میں زندگی کا بہت گہرا سبق موجود ہے— علیحدگی کا ارادہ کرنے کے بعد بھی آدمی ایک مدت تک دوبارہ اتحادکے امکان پر غور کرتا رہے۔ تعلقات کے خاتمہ کی نوبت آجائے تب بھی وہ اس کو حقوق انسانیت کے خاتمہ کے ہم معنی نہ بنائے۔ باہمی سلوک کے لیے اللہ کا جو قانون ہے اس کی مکمل پابندی کی جائے۔ شریعت کے کسی حکم کو قانونی حیلوں کے ذریعہ کالعدم نہ کیا جائے۔ قانون کی تعمیل میں صرف قانون كے الفاظ کو نہ دیکھا جائے بلکہ اس کی حکمت (روح قانون) کو بھی سامنے رکھا جائے۔ علیحدگی سے پہلے اپنے سابقہ ساتھی کو جو کچھ دیا تھا اس کو علیحدگی کے بعد واپس لینے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح تعلقات کے زمانہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا تھا اسی طرح علیحدگی کے زمانہ کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا جائے۔
وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 انسان اور انسان کے سوا جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ اس نے پوری کائنات کو نہایت حکمت کے ساتھ قائم کیا ہے۔ وہ ہر آن ان کی پرورش کررہا ہے۔ اس لیے انسان کے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر کسی شرکت کے خالق، مالک اور رازق تسلیم کرے، وہ اس کو اپنا سب کچھ بنالے۔ مگر خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر آنے والی چیز کو اہم سمجھ کر اس کو خدائی کے مقام پر بٹھا لیتا ہے۔ وہ ایک مخلوق کو، جزئی یا کلی طورپر، خالق کے برابر ٹھہرا لیتا ہے، کبھی اس کو خدا کا نام دے کر اور کبھی خدا کا نام دیے بغیر۔
یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا کو بڑائی کا مقام دے۔ اس کے علاوہ جس جس کو اس نے خدائی عظمت کے مقام پر بٹھا رکھا ہے اس کو عظمت کے مقام سے اتار دے۔ جب خالص خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے ہیں جن کا دل خدا کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔جنھوں نے خدا کے سوا کسی اور کے لیے بھی عظمت کو خاص کررکھا ہو۔ ایسے لوگوں کو اپنے فرضی معبودوں سے جو شدید تعلق ہوچکا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بے حقیقت ہیں اور حقیقت صرف اس پیغام کی ہے جو آدمیوں میںسے ایک آدمی کی زبان سے سنایا جارہا ہے۔
جو دعوت خدا کی طرف سے اٹھے اس کے اندر لازمی طورپر خدائی شان شامل ہوجاتی ہے۔ اس کا ناقابلِ تقلید اسلوب اور اس کا غیر مفتوح استدلال اس بات کی کھلی علامت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ انکار کریں ان کو خدا کی دنیا میں جہنم کے سوا کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ البتہ جو لوگ خدا کے کلام میں خدا کو پالیں انھوں نے گویا آج کی دنیا میں کل کی دنیا کو دیکھ لیا۔ یہی لوگ ہیں جو آخرت کے باغوں میں داخل کيے جائیں گے۔
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
📘 طلاق ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو غیر معمولی حالات میں پیش آتا ہے۔ مگر اس انتہائی جذباتی معاملہ میں بھی تقویٰ اور احسان پر قائم رہنے کا حکم دیاگیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں مومن سے کس قسم کا سلوک اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
نکاح کے رشتہ کو یکبارگی توڑنے کے بجائے اس کو تین مرحلوں میں انجام دینے کا حکم ہوا جو چند ماہ میں اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔ ایک انتہائی ہیجانی معاملہ میں اس قسم کا سنجیدہ طریقہ مقرر کرکے بتایا گیا کہ اختلاف کے وقت مومن کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ اپنے مخالف فریق کے ساتھ اس کا سلوک غیر جذباتی انداز میں سوچا ہوا صابرانہ فیصلہ ہو، نہ کہ اشتعال کے تحت ظاہر ہونے والا اچانک فیصلہ۔ اسی طرح طلاق کے جتنے آداب مقرر کيے گئے ہیں، سب میں زندگی کا بہت گہرا سبق موجود ہے— علیحدگی کا ارادہ کرنے کے بعد بھی آدمی ایک مدت تک دوبارہ اتحادکے امکان پر غور کرتا رہے۔ تعلقات کے خاتمہ کی نوبت آجائے تب بھی وہ اس کو حقوق انسانیت کے خاتمہ کے ہم معنی نہ بنائے۔ باہمی سلوک کے لیے اللہ کا جو قانون ہے اس کی مکمل پابندی کی جائے۔ شریعت کے کسی حکم کو قانونی حیلوں کے ذریعہ کالعدم نہ کیا جائے۔ قانون کی تعمیل میں صرف قانون كے الفاظ کو نہ دیکھا جائے بلکہ اس کی حکمت (روح قانون) کو بھی سامنے رکھا جائے۔ علیحدگی سے پہلے اپنے سابقہ ساتھی کو جو کچھ دیا تھا اس کو علیحدگی کے بعد واپس لینے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح تعلقات کے زمانہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا تھا اسی طرح علیحدگی کے زمانہ کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا جائے۔
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ ۚ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ وَلَا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 طلاق ایک غیر معمولی واقعہ ہے جو غیر معمولی حالات میں پیش آتا ہے۔ مگر اس انتہائی جذباتی معاملہ میں بھی تقویٰ اور احسان پر قائم رہنے کا حکم دیاگیا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا کی زندگی میں مومن سے کس قسم کا سلوک اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
نکاح کے رشتہ کو یکبارگی توڑنے کے بجائے اس کو تین مرحلوں میں انجام دینے کا حکم ہوا جو چند ماہ میں اپنی تکمیل کو پہنچتا ہے۔ ایک انتہائی ہیجانی معاملہ میں اس قسم کا سنجیدہ طریقہ مقرر کرکے بتایا گیا کہ اختلاف کے وقت مومن کا رویہ کیسا ہونا چاہیے۔ اپنے مخالف فریق کے ساتھ اس کا سلوک غیر جذباتی انداز میں سوچا ہوا صابرانہ فیصلہ ہو، نہ کہ اشتعال کے تحت ظاہر ہونے والا اچانک فیصلہ۔ اسی طرح طلاق کے جتنے آداب مقرر کيے گئے ہیں، سب میں زندگی کا بہت گہرا سبق موجود ہے— علیحدگی کا ارادہ کرنے کے بعد بھی آدمی ایک مدت تک دوبارہ اتحادکے امکان پر غور کرتا رہے۔ تعلقات کے خاتمہ کی نوبت آجائے تب بھی وہ اس کو حقوق انسانیت کے خاتمہ کے ہم معنی نہ بنائے۔ باہمی سلوک کے لیے اللہ کا جو قانون ہے اس کی مکمل پابندی کی جائے۔ شریعت کے کسی حکم کو قانونی حیلوں کے ذریعہ کالعدم نہ کیا جائے۔ قانون کی تعمیل میں صرف قانون كے الفاظ کو نہ دیکھا جائے بلکہ اس کی حکمت (روح قانون) کو بھی سامنے رکھا جائے۔ علیحدگی سے پہلے اپنے سابقہ ساتھی کو جو کچھ دیا تھا اس کو علیحدگی کے بعد واپس لینے کی کوشش نہ کی جائے۔ جس طرح تعلقات کے زمانہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا تھا اسی طرح علیحدگی کے زمانہ کو بھی خوش اسلوبی کے ساتھ گزارا جائے۔
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ ذَٰلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۗ ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
📘 ایک عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور زمانہ عدت میں رجعت نہ کی۔ جب عدت ختم ہوچکی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ پہلے شوہر نے بھی نکاح کا پیغام دیا۔ عورت نے اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا منظور کرلیا۔ مگر عورت کا بھائی غصہ میں آگیا اور نکاح کو روک دیا۔ اس پر یہ حکم اترا کہ جب دونوں دوبارہ ازدواجی تعلق قائم کرنے پر راضی ہیں تو تم رکاوٹ نہ ڈالو۔
طلاق کے بعد بھی اکثر بہت سے مسائل باقی رہتے ہیں۔ کبھی پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کا معاملہ ہوتا ہے۔ کبھی مطلقہ عورت کسی ووسرے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ایسے مواقع پر مشکلات پیدا کرنا درست نہیں۔ کبھی مطلقہ عورت بچے والی ہوتی ہے اور سابقہ شوہر کے بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ایک دوسرے کو تکلیف دینے سے منع کیا گیا اور حکم دیاگیا کہ معاملہ کو جذبات کا سوال نہ بناؤ، اس کو باہمی مشورہ اور رضا مندی سے طے کرلو — اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختلاف اور علیحدگی کے وقت معاملہ کو نمٹانے کا مومنانہ طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ طرفین کی جانب جو مسائل باقی رہ گئے ہوں ان کو ایک دوسرے کو پریشان کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے بلکہ ان کو ایسے ڈھنگ سے طے کیا جائے جو دونوں جانب کے لیے بہتر اور قابل قبول ہو۔ ایمان روح کی پاکیزگی ہے پھر جس کی روح پاک ہو چکی ہو وہ اپنے معاملات میں ناپاکی کا طریقہ کیسے اختیار کرسکتاہے۔
نصیحت کسی کے لیے صرف اس بنا پر قابل قبول نہیں ہوجاتی کہ وہ برحق ہے۔ ضروری ہے کہ سننے والا اللہ پر یقین رکھتاہو اور اس کی پکڑ سے ڈرنے والا ہو۔ وہ سمجھے کہ نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو رد کرنے کے لیے آج اگر میں نے کچھ الفاظ پاليے تو اس سے اصل مسئلہ ختم نہیں ہوجاتا۔ کیوں کہ معاملہ بالآخر اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور وہاں کسی قسم کا زور اور کوئی لفظی حجت کام آنے والی نہیں۔
۞ وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ ۚ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَٰلِكَ ۗ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۗ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 ایک عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی اور زمانہ عدت میں رجعت نہ کی۔ جب عدت ختم ہوچکی تو دوسرے لوگوں کے ساتھ پہلے شوہر نے بھی نکاح کا پیغام دیا۔ عورت نے اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا منظور کرلیا۔ مگر عورت کا بھائی غصہ میں آگیا اور نکاح کو روک دیا۔ اس پر یہ حکم اترا کہ جب دونوں دوبارہ ازدواجی تعلق قائم کرنے پر راضی ہیں تو تم رکاوٹ نہ ڈالو۔
طلاق کے بعد بھی اکثر بہت سے مسائل باقی رہتے ہیں۔ کبھی پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کا معاملہ ہوتا ہے۔ کبھی مطلقہ عورت کسی ووسرے مرد سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ ایسے مواقع پر مشکلات پیدا کرنا درست نہیں۔ کبھی مطلقہ عورت بچے والی ہوتی ہے اور سابقہ شوہر کے بچے کو دودھ پلانے کا مسئلہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ایک دوسرے کو تکلیف دینے سے منع کیا گیا اور حکم دیاگیا کہ معاملہ کو جذبات کا سوال نہ بناؤ، اس کو باہمی مشورہ اور رضا مندی سے طے کرلو — اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اختلاف اور علیحدگی کے وقت معاملہ کو نمٹانے کا مومنانہ طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ طرفین کی جانب جو مسائل باقی رہ گئے ہوں ان کو ایک دوسرے کو پریشان کرنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے بلکہ ان کو ایسے ڈھنگ سے طے کیا جائے جو دونوں جانب کے لیے بہتر اور قابل قبول ہو۔ ایمان روح کی پاکیزگی ہے پھر جس کی روح پاک ہو چکی ہو وہ اپنے معاملات میں ناپاکی کا طریقہ کیسے اختیار کرسکتاہے۔
نصیحت کسی کے لیے صرف اس بنا پر قابل قبول نہیں ہوجاتی کہ وہ برحق ہے۔ ضروری ہے کہ سننے والا اللہ پر یقین رکھتاہو اور اس کی پکڑ سے ڈرنے والا ہو۔ وہ سمجھے کہ نصیحت کرنے والے کی نصیحت کو رد کرنے کے لیے آج اگر میں نے کچھ الفاظ پاليے تو اس سے اصل مسئلہ ختم نہیں ہوجاتا۔ کیوں کہ معاملہ بالآخر اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے اور وہاں کسی قسم کا زور اور کوئی لفظی حجت کام آنے والی نہیں۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 نکاح اور طلاق کے قوانین بیان کرتے ہوئے بار بار تقویٰ اور احسان کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حکم کو اس کی اصلی روح کے ساتھ زیرِ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ کے افراد خالص قانونی معاملہ کرنے والے نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ان کو یہ کھٹکا لگا ہوا ہو کہ دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنا خود اپنے بارے میں بہتر سلوک نہ کيے جانے کا خطرہ مول لینا ہے۔ کیوں کہ بالآخر سارا معاملہ خدا کے یہاں پیش ہونا ہے اور وہاں نہ لفظی تاویلیں کسی کے کام آئیں گی اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ معاملہ سے متعلق کسی بات کو چھپا سکے۔
اگر نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر ہوا اور تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوگئی تو باعتبار قانون آدھا مہر دینا لازم کیا گیا ہے۔ مگر خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ دونوں فريق اس معاملہ میں قانونی برتاؤ کے بجائے فیاضانہ برتاؤ كا طريقه اختيار كرنا چاهيں۔ عورت کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب تعلق قائم نہیں ہوا تو میں آدھا مہر بھی چھوڑ دوں۔ مرد کے اندر یہ جذبہ ابھرے کہ اگر چہ قانوناً میرے اوپر صرف آدھے کی ذمہ داری ہے مگر فیاضی کا تقاضا ہے کہ میں پورا کا پورا ادا کردوں— فیاضی اور وسعتِ ظرف کا یہی مزاج تمام معاملات میں مطلوب ہے۔ وہی معاشرہ مسلم معاشرہ ہے جس کے افراد کا یہ حال ہو کہ ہر ایک دوسرے کو دینا چاہے، نہ یہ کہ ہر ایک دوسرے سے لینے کا حریص بنا ہوا ہو۔ مزید یہ کہ وسعتِ ظرف کا یہ معاملہ دشمنی کے وقت بھی ہو، نہ کہ صرف دوستی کے وقت۔
وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُمْ بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ فِي أَنْفُسِكُمْ ۚ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَٰكِنْ لَا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا ۚ وَلَا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ
📘 نکاح اور طلاق کے قوانین بیان کرتے ہوئے بار بار تقویٰ اور احسان کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حکم کو اس کی اصلی روح کے ساتھ زیرِ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ کے افراد خالص قانونی معاملہ کرنے والے نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ان کو یہ کھٹکا لگا ہوا ہو کہ دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنا خود اپنے بارے میں بہتر سلوک نہ کيے جانے کا خطرہ مول لینا ہے۔ کیوں کہ بالآخر سارا معاملہ خدا کے یہاں پیش ہونا ہے اور وہاں نہ لفظی تاویلیں کسی کے کام آئیں گی اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ معاملہ سے متعلق کسی بات کو چھپا سکے۔
اگر نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر ہوا اور تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوگئی تو باعتبار قانون آدھا مہر دینا لازم کیا گیا ہے۔ مگر خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ دونوں فريق اس معاملہ میں قانونی برتاؤ کے بجائے فیاضانہ برتاؤ كا طريقه اختيار كرنا چاهيں۔ عورت کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب تعلق قائم نہیں ہوا تو میں آدھا مہر بھی چھوڑ دوں۔ مرد کے اندر یہ جذبہ ابھرے کہ اگر چہ قانوناً میرے اوپر صرف آدھے کی ذمہ داری ہے مگر فیاضی کا تقاضا ہے کہ میں پورا کا پورا ادا کردوں— فیاضی اور وسعتِ ظرف کا یہی مزاج تمام معاملات میں مطلوب ہے۔ وہی معاشرہ مسلم معاشرہ ہے جس کے افراد کا یہ حال ہو کہ ہر ایک دوسرے کو دینا چاہے، نہ یہ کہ ہر ایک دوسرے سے لینے کا حریص بنا ہوا ہو۔ مزید یہ کہ وسعتِ ظرف کا یہ معاملہ دشمنی کے وقت بھی ہو، نہ کہ صرف دوستی کے وقت۔
لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ
📘 نکاح اور طلاق کے قوانین بیان کرتے ہوئے بار بار تقویٰ اور احسان کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حکم کو اس کی اصلی روح کے ساتھ زیرِ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ کے افراد خالص قانونی معاملہ کرنے والے نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ان کو یہ کھٹکا لگا ہوا ہو کہ دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنا خود اپنے بارے میں بہتر سلوک نہ کيے جانے کا خطرہ مول لینا ہے۔ کیوں کہ بالآخر سارا معاملہ خدا کے یہاں پیش ہونا ہے اور وہاں نہ لفظی تاویلیں کسی کے کام آئیں گی اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ معاملہ سے متعلق کسی بات کو چھپا سکے۔
اگر نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر ہوا اور تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوگئی تو باعتبار قانون آدھا مہر دینا لازم کیا گیا ہے۔ مگر خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ دونوں فريق اس معاملہ میں قانونی برتاؤ کے بجائے فیاضانہ برتاؤ كا طريقه اختيار كرنا چاهيں۔ عورت کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب تعلق قائم نہیں ہوا تو میں آدھا مہر بھی چھوڑ دوں۔ مرد کے اندر یہ جذبہ ابھرے کہ اگر چہ قانوناً میرے اوپر صرف آدھے کی ذمہ داری ہے مگر فیاضی کا تقاضا ہے کہ میں پورا کا پورا ادا کردوں— فیاضی اور وسعتِ ظرف کا یہی مزاج تمام معاملات میں مطلوب ہے۔ وہی معاشرہ مسلم معاشرہ ہے جس کے افراد کا یہ حال ہو کہ ہر ایک دوسرے کو دینا چاہے، نہ یہ کہ ہر ایک دوسرے سے لینے کا حریص بنا ہوا ہو۔ مزید یہ کہ وسعتِ ظرف کا یہ معاملہ دشمنی کے وقت بھی ہو، نہ کہ صرف دوستی کے وقت۔
وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ ۚ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۚ وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 نکاح اور طلاق کے قوانین بیان کرتے ہوئے بار بار تقویٰ اور احسان کی تلقین کی جارہی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی حکم کو اس کی اصلی روح کے ساتھ زیرِ عمل لانے کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ کے افراد خالص قانونی معاملہ کرنے والے نہ ہوں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کا جذبہ رکھتے ہوں۔ اسی کے ساتھ ان کو یہ کھٹکا لگا ہوا ہو کہ دوسرے کے ساتھ بہتر سلوک نہ کرنا خود اپنے بارے میں بہتر سلوک نہ کيے جانے کا خطرہ مول لینا ہے۔ کیوں کہ بالآخر سارا معاملہ خدا کے یہاں پیش ہونا ہے اور وہاں نہ لفظی تاویلیں کسی کے کام آئیں گی اور نہ کسی کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ وہ معاملہ سے متعلق کسی بات کو چھپا سکے۔
اگر نکاح کے وقت عورت کا مہر مقرر ہوا اور تعلق قائم ہونے سے پہلے طلاق ہوگئی تو باعتبار قانون آدھا مہر دینا لازم کیا گیا ہے۔ مگر خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ دونوں فريق اس معاملہ میں قانونی برتاؤ کے بجائے فیاضانہ برتاؤ كا طريقه اختيار كرنا چاهيں۔ عورت کے اندر یہ مزاج ہو کہ جب تعلق قائم نہیں ہوا تو میں آدھا مہر بھی چھوڑ دوں۔ مرد کے اندر یہ جذبہ ابھرے کہ اگر چہ قانوناً میرے اوپر صرف آدھے کی ذمہ داری ہے مگر فیاضی کا تقاضا ہے کہ میں پورا کا پورا ادا کردوں— فیاضی اور وسعتِ ظرف کا یہی مزاج تمام معاملات میں مطلوب ہے۔ وہی معاشرہ مسلم معاشرہ ہے جس کے افراد کا یہ حال ہو کہ ہر ایک دوسرے کو دینا چاہے، نہ یہ کہ ہر ایک دوسرے سے لینے کا حریص بنا ہوا ہو۔ مزید یہ کہ وسعتِ ظرف کا یہ معاملہ دشمنی کے وقت بھی ہو، نہ کہ صرف دوستی کے وقت۔
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ
📘 نماز گویا دین کا خلاصہ ہے۔ نماز مومنانہ زندگی کی وہ مختصر تصویر ہے جو پھیلتی ہے تو مکمل اسلامی زندگی بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مختصر فقرہ میں نماز کے تین اہم ترین اجزاء کو بیان کردیا گیا ہے(1)نماز کا پانچ وقت کے لیے فرض ہونا۔2) (نماز کا ایک قابل اہتمام چیز ہونا۔(3)یہ بات کہ نماز کی اصل حقیقت عجز ہے۔
’’پابندی کرو نمازوں کی اور پابندی کرو بیچ کی نماز کی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں ایک بیچ کی نماز ہے اور پھر اس کے دونوں طرف نمازیں ہیں۔ اس جملہ میں اطراف کی ’’نمازوں‘‘ سے کم از کم چار کا عدد مراد لینا ضروری ہے کیوں کہ عربی زبان میں صلوات (نمازوں) کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔ پہلا ممکن عدد جس میں ’’نمازوں‘‘کے درمیان ایک ’’بیچ کی نماز‘‘ بن سکے چارہی ہے۔ اس طرح ایک نماز بیچ کی نماز ہو کر اس کے دونوں طرف دو دو نمازیں ہوجاتی ہے۔ ’’بیچ کی نماز‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے۔ نماز کے دوسرے پہلو کو بتانے کے لیے ’’محافظت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا نماز اسی طرح حفاظت کی ایک چیز ہے جس طرح مال آدمی کے لیے حفاظت کی چیز ہوتا ہے۔ نماز کے اوقات کا پورا لحاظ، اس کو بتائے ہوئے طریقہ پر ادا کرنے کا اہتمام، ایسی چیزوں سے بالقصد پرہیز جو آدمی کی نماز میں کوئی خرابی پیدا کرنے والی ہوں وغیرہ، محافظت نماز میں شامل ہیں۔ نماز کا تیسرا پہلو عجز ہے۔ یہ نماز کی اصل روح ہے، نماز بندے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہو جو سب سے بڑے کے آگے کھڑے ہونے کی صورت میں سب سے چھوٹے کے اوپر طاری ہوتی ہے۔
معاشرت کے احکام بتاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’یہ حق ہے متقیوں کے اوپر‘‘ شریعت کے ایک اہم پہلو کو ظاہر کرتاہے۔ باہمی معاملات میں کچھ حقوق وہ ہیں جن کو قانون نے متعین کردیا ہے۔ مگر ایک آدمی پر دوسرے کے حقوق کی حدیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ متعین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ حقوق وہ ہیں جن کو آدمی کا تقویٰ اس کو محسوس کراتاہے۔ اور آدمی کا متقیانہ احساس جتنا شدید ہو اتنا ہی زیادہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے۔ اندر کا یہ زوراگر موجود نہ ہو تو آدمی کبھی صحیح طورپر د وسروں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔
فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ
📘 نماز گویا دین کا خلاصہ ہے۔ نماز مومنانہ زندگی کی وہ مختصر تصویر ہے جو پھیلتی ہے تو مکمل اسلامی زندگی بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مختصر فقرہ میں نماز کے تین اہم ترین اجزاء کو بیان کردیا گیا ہے(1)نماز کا پانچ وقت کے لیے فرض ہونا۔2) (نماز کا ایک قابل اہتمام چیز ہونا۔(3)یہ بات کہ نماز کی اصل حقیقت عجز ہے۔
’’پابندی کرو نمازوں کی اور پابندی کرو بیچ کی نماز کی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں ایک بیچ کی نماز ہے اور پھر اس کے دونوں طرف نمازیں ہیں۔ اس جملہ میں اطراف کی ’’نمازوں‘‘ سے کم از کم چار کا عدد مراد لینا ضروری ہے کیوں کہ عربی زبان میں صلوات (نمازوں) کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔ پہلا ممکن عدد جس میں ’’نمازوں‘‘کے درمیان ایک ’’بیچ کی نماز‘‘ بن سکے چارہی ہے۔ اس طرح ایک نماز بیچ کی نماز ہو کر اس کے دونوں طرف دو دو نمازیں ہوجاتی ہے۔ ’’بیچ کی نماز‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے۔ نماز کے دوسرے پہلو کو بتانے کے لیے ’’محافظت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا نماز اسی طرح حفاظت کی ایک چیز ہے جس طرح مال آدمی کے لیے حفاظت کی چیز ہوتا ہے۔ نماز کے اوقات کا پورا لحاظ، اس کو بتائے ہوئے طریقہ پر ادا کرنے کا اہتمام، ایسی چیزوں سے بالقصد پرہیز جو آدمی کی نماز میں کوئی خرابی پیدا کرنے والی ہوں وغیرہ، محافظت نماز میں شامل ہیں۔ نماز کا تیسرا پہلو عجز ہے۔ یہ نماز کی اصل روح ہے، نماز بندے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہو جو سب سے بڑے کے آگے کھڑے ہونے کی صورت میں سب سے چھوٹے کے اوپر طاری ہوتی ہے۔
معاشرت کے احکام بتاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’یہ حق ہے متقیوں کے اوپر‘‘ شریعت کے ایک اہم پہلو کو ظاہر کرتاہے۔ باہمی معاملات میں کچھ حقوق وہ ہیں جن کو قانون نے متعین کردیا ہے۔ مگر ایک آدمی پر دوسرے کے حقوق کی حدیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ متعین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ حقوق وہ ہیں جن کو آدمی کا تقویٰ اس کو محسوس کراتاہے۔ اور آدمی کا متقیانہ احساس جتنا شدید ہو اتنا ہی زیادہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے۔ اندر کا یہ زوراگر موجود نہ ہو تو آدمی کبھی صحیح طورپر د وسروں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔
فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ۖ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ
📘 انسان اور انسان کے سوا جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ اس نے پوری کائنات کو نہایت حکمت کے ساتھ قائم کیا ہے۔ وہ ہر آن ان کی پرورش کررہا ہے۔ اس لیے انسان کے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر کسی شرکت کے خالق، مالک اور رازق تسلیم کرے، وہ اس کو اپنا سب کچھ بنالے۔ مگر خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر آنے والی چیز کو اہم سمجھ کر اس کو خدائی کے مقام پر بٹھا لیتا ہے۔ وہ ایک مخلوق کو، جزئی یا کلی طورپر، خالق کے برابر ٹھہرا لیتا ہے، کبھی اس کو خدا کا نام دے کر اور کبھی خدا کا نام دیے بغیر۔
یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا کو بڑائی کا مقام دے۔ اس کے علاوہ جس جس کو اس نے خدائی عظمت کے مقام پر بٹھا رکھا ہے اس کو عظمت کے مقام سے اتار دے۔ جب خالص خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے ہیں جن کا دل خدا کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔جنھوں نے خدا کے سوا کسی اور کے لیے بھی عظمت کو خاص کررکھا ہو۔ ایسے لوگوں کو اپنے فرضی معبودوں سے جو شدید تعلق ہوچکا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بے حقیقت ہیں اور حقیقت صرف اس پیغام کی ہے جو آدمیوں میںسے ایک آدمی کی زبان سے سنایا جارہا ہے۔
جو دعوت خدا کی طرف سے اٹھے اس کے اندر لازمی طورپر خدائی شان شامل ہوجاتی ہے۔ اس کا ناقابلِ تقلید اسلوب اور اس کا غیر مفتوح استدلال اس بات کی کھلی علامت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ انکار کریں ان کو خدا کی دنیا میں جہنم کے سوا کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ البتہ جو لوگ خدا کے کلام میں خدا کو پالیں انھوں نے گویا آج کی دنیا میں کل کی دنیا کو دیکھ لیا۔ یہی لوگ ہیں جو آخرت کے باغوں میں داخل کيے جائیں گے۔
وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِأَزْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ ۚ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَعْرُوفٍ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
📘 نماز گویا دین کا خلاصہ ہے۔ نماز مومنانہ زندگی کی وہ مختصر تصویر ہے جو پھیلتی ہے تو مکمل اسلامی زندگی بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مختصر فقرہ میں نماز کے تین اہم ترین اجزاء کو بیان کردیا گیا ہے(1)نماز کا پانچ وقت کے لیے فرض ہونا۔2) (نماز کا ایک قابل اہتمام چیز ہونا۔(3)یہ بات کہ نماز کی اصل حقیقت عجز ہے۔
’’پابندی کرو نمازوں کی اور پابندی کرو بیچ کی نماز کی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں ایک بیچ کی نماز ہے اور پھر اس کے دونوں طرف نمازیں ہیں۔ اس جملہ میں اطراف کی ’’نمازوں‘‘ سے کم از کم چار کا عدد مراد لینا ضروری ہے کیوں کہ عربی زبان میں صلوات (نمازوں) کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔ پہلا ممکن عدد جس میں ’’نمازوں‘‘کے درمیان ایک ’’بیچ کی نماز‘‘ بن سکے چارہی ہے۔ اس طرح ایک نماز بیچ کی نماز ہو کر اس کے دونوں طرف دو دو نمازیں ہوجاتی ہے۔ ’’بیچ کی نماز‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے۔ نماز کے دوسرے پہلو کو بتانے کے لیے ’’محافظت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا نماز اسی طرح حفاظت کی ایک چیز ہے جس طرح مال آدمی کے لیے حفاظت کی چیز ہوتا ہے۔ نماز کے اوقات کا پورا لحاظ، اس کو بتائے ہوئے طریقہ پر ادا کرنے کا اہتمام، ایسی چیزوں سے بالقصد پرہیز جو آدمی کی نماز میں کوئی خرابی پیدا کرنے والی ہوں وغیرہ، محافظت نماز میں شامل ہیں۔ نماز کا تیسرا پہلو عجز ہے۔ یہ نماز کی اصل روح ہے، نماز بندے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہو جو سب سے بڑے کے آگے کھڑے ہونے کی صورت میں سب سے چھوٹے کے اوپر طاری ہوتی ہے۔
معاشرت کے احکام بتاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’یہ حق ہے متقیوں کے اوپر‘‘ شریعت کے ایک اہم پہلو کو ظاہر کرتاہے۔ باہمی معاملات میں کچھ حقوق وہ ہیں جن کو قانون نے متعین کردیا ہے۔ مگر ایک آدمی پر دوسرے کے حقوق کی حدیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ متعین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ حقوق وہ ہیں جن کو آدمی کا تقویٰ اس کو محسوس کراتاہے۔ اور آدمی کا متقیانہ احساس جتنا شدید ہو اتنا ہی زیادہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے۔ اندر کا یہ زوراگر موجود نہ ہو تو آدمی کبھی صحیح طورپر د وسروں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ
📘 نماز گویا دین کا خلاصہ ہے۔ نماز مومنانہ زندگی کی وہ مختصر تصویر ہے جو پھیلتی ہے تو مکمل اسلامی زندگی بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مختصر فقرہ میں نماز کے تین اہم ترین اجزاء کو بیان کردیا گیا ہے(1)نماز کا پانچ وقت کے لیے فرض ہونا۔2) (نماز کا ایک قابل اہتمام چیز ہونا۔(3)یہ بات کہ نماز کی اصل حقیقت عجز ہے۔
’’پابندی کرو نمازوں کی اور پابندی کرو بیچ کی نماز کی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں ایک بیچ کی نماز ہے اور پھر اس کے دونوں طرف نمازیں ہیں۔ اس جملہ میں اطراف کی ’’نمازوں‘‘ سے کم از کم چار کا عدد مراد لینا ضروری ہے کیوں کہ عربی زبان میں صلوات (نمازوں) کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔ پہلا ممکن عدد جس میں ’’نمازوں‘‘کے درمیان ایک ’’بیچ کی نماز‘‘ بن سکے چارہی ہے۔ اس طرح ایک نماز بیچ کی نماز ہو کر اس کے دونوں طرف دو دو نمازیں ہوجاتی ہے۔ ’’بیچ کی نماز‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے۔ نماز کے دوسرے پہلو کو بتانے کے لیے ’’محافظت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا نماز اسی طرح حفاظت کی ایک چیز ہے جس طرح مال آدمی کے لیے حفاظت کی چیز ہوتا ہے۔ نماز کے اوقات کا پورا لحاظ، اس کو بتائے ہوئے طریقہ پر ادا کرنے کا اہتمام، ایسی چیزوں سے بالقصد پرہیز جو آدمی کی نماز میں کوئی خرابی پیدا کرنے والی ہوں وغیرہ، محافظت نماز میں شامل ہیں۔ نماز کا تیسرا پہلو عجز ہے۔ یہ نماز کی اصل روح ہے، نماز بندے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہو جو سب سے بڑے کے آگے کھڑے ہونے کی صورت میں سب سے چھوٹے کے اوپر طاری ہوتی ہے۔
معاشرت کے احکام بتاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’یہ حق ہے متقیوں کے اوپر‘‘ شریعت کے ایک اہم پہلو کو ظاہر کرتاہے۔ باہمی معاملات میں کچھ حقوق وہ ہیں جن کو قانون نے متعین کردیا ہے۔ مگر ایک آدمی پر دوسرے کے حقوق کی حدیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ متعین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ حقوق وہ ہیں جن کو آدمی کا تقویٰ اس کو محسوس کراتاہے۔ اور آدمی کا متقیانہ احساس جتنا شدید ہو اتنا ہی زیادہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے۔ اندر کا یہ زوراگر موجود نہ ہو تو آدمی کبھی صحیح طورپر د وسروں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔
كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
📘 نماز گویا دین کا خلاصہ ہے۔ نماز مومنانہ زندگی کی وہ مختصر تصویر ہے جو پھیلتی ہے تو مکمل اسلامی زندگی بن جاتی ہے۔ یہاں ایک مختصر فقرہ میں نماز کے تین اہم ترین اجزاء کو بیان کردیا گیا ہے(1)نماز کا پانچ وقت کے لیے فرض ہونا۔2) (نماز کا ایک قابل اہتمام چیز ہونا۔(3)یہ بات کہ نماز کی اصل حقیقت عجز ہے۔
’’پابندی کرو نمازوں کی اور پابندی کرو بیچ کی نماز کی‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ نمازوں میں ایک بیچ کی نماز ہے اور پھر اس کے دونوں طرف نمازیں ہیں۔ اس جملہ میں اطراف کی ’’نمازوں‘‘ سے کم از کم چار کا عدد مراد لینا ضروری ہے کیوں کہ عربی زبان میں صلوات (نمازوں) کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔ پہلا ممکن عدد جس میں ’’نمازوں‘‘کے درمیان ایک ’’بیچ کی نماز‘‘ بن سکے چارہی ہے۔ اس طرح ایک نماز بیچ کی نماز ہو کر اس کے دونوں طرف دو دو نمازیں ہوجاتی ہے۔ ’’بیچ کی نماز‘‘ سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ روایات سے ثابت ہے۔ نماز کے دوسرے پہلو کو بتانے کے لیے ’’محافظت‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ گویا نماز اسی طرح حفاظت کی ایک چیز ہے جس طرح مال آدمی کے لیے حفاظت کی چیز ہوتا ہے۔ نماز کے اوقات کا پورا لحاظ، اس کو بتائے ہوئے طریقہ پر ادا کرنے کا اہتمام، ایسی چیزوں سے بالقصد پرہیز جو آدمی کی نماز میں کوئی خرابی پیدا کرنے والی ہوں وغیرہ، محافظت نماز میں شامل ہیں۔ نماز کا تیسرا پہلو عجز ہے۔ یہ نماز کی اصل روح ہے، نماز بندے کا اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اس ليے ضروری ہے کہ نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہو جو سب سے بڑے کے آگے کھڑے ہونے کی صورت میں سب سے چھوٹے کے اوپر طاری ہوتی ہے۔
معاشرت کے احکام بتاتے ہوئے یہ کہنا کہ ’’یہ حق ہے متقیوں کے اوپر‘‘ شریعت کے ایک اہم پہلو کو ظاہر کرتاہے۔ باہمی معاملات میں کچھ حقوق وہ ہیں جن کو قانون نے متعین کردیا ہے۔ مگر ایک آدمی پر دوسرے کے حقوق کی حدیں یہیں ختم نہیں ہوجاتیں۔ متعین حقوق کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ یہ حقوق وہ ہیں جن کو آدمی کا تقویٰ اس کو محسوس کراتاہے۔ اور آدمی کا متقیانہ احساس جتنا شدید ہو اتنا ہی زیادہ وہ اس کو اپنے اوپر لازم سمجھتا ہے۔ اندر کا یہ زوراگر موجود نہ ہو تو آدمی کبھی صحیح طورپر د وسروں کے حقوق ادا نہیں کرسکتا۔
۞ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
📘 مکہ سے تنگ آکر مسلمان مدینہ چلے آئے۔مدینہ میں اپنے دین کے مطابق رہنے کے لیے نسبتاً آزادانہ ماحول تھا۔ مگر مخالفین اسلام نے اب بھی ان کو نہ چھوڑا۔ انھوںنے فوجی حملے شروع کرديے تا کہ مدینہ سے مسلمانوں کا خاتمہ کردیں۔ اس وقت حکم ہوا کہ ان سے مقابلہ کرو۔ مخالفین کی نسبت سے اس وقت مسلمانوں کی طاقت بہت کم تھی۔ اس ليے کچھ لوگوں کے اندر بے ہمتی پیدا ہوئی۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک واقعہ یاد دلا کر بتایا گیا کہ زندگی کے معرکہ میں شکست سے ڈرنے ہی کا نام شکست ہے۔
بنی اسرائیل کی ایک پڑوسی قوم فلستی نے ان پر حملہ کردیا۔ بنی اسرائیل شکست کھاگئے۔ فلستیوں نے دو حملوں میں ان کے
34
ہزار آدمی مار ڈالے۔ بنی اسرائیل اتنا ڈرے کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بائبل کے الفاظ میں ’’حشمت بنی اسرائیل سے جاتی رہی‘‘ (سموئيل
4:22
)۔ بنی اسرائیل کا سارا گھرانا خوف میں مبتلا ہوکر نوحہ وفریاد کرنے لگا۔ اسی حال میں ان کو 20 سال گزر گئے۔ پھر انھوں نے سوچا کہ فلستیوں کے سامنے ان کو شکست کیوں ہوئی۔ ان کے نبی سموئیل نے کہا کہ شکست کی وجہ خدا میں تمھارے یقین کا کمزور ہوجانا ہے۔ انھوںنے اسرائیل کے سارے گھرانے سے کہا کہ اگر تم اپنے سارے دل سے خداوند کی طرف رجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں کو اپنے بیچ سے دور کردو اور خداوند کے لیے اپنے دلوں کو مستعد کرکے فقط اسی کی عبادت کرو۔ خدا فلستیوں کے ہاتھ سے تم کو رہائی دے گا۔ تب اسرائیليوں نے اجنبی دیوتاؤں کو اپنے سے دور کیا اور فقط خداوند کی عبادت کرنے لگے۔ اب جب دوبارہ فلستیوں اور اسرائیلیوں میں جنگ ہوئی تو بائبل کے الفاظ میں ’’خداوند فلستیوں کے اوپر اس دن بڑی کڑک کے ساتھ گرجا اور ان کو گھبرا دیا۔ اور انھوں نے اسرائیلیوں کے آگے شکست کھائی(سموئيل
7:70
)۔ اللہ پر اعتماد کے راستہ کو چھوڑ کر ان پر ملّی موت واقع ہوئی تھی، اللہ پر اعتماد کے راستہ کو اختیار کرنے کے بعد ان کو ملّی زندگی حاصل ہوگئی۔
قرض حسن کے معنی ہیں اچھا قرض۔ یہاں اس سے مراد وہ انفاق ہے جو خدا کے دین کی راہ میں کیا جائے۔ یہ انفاق خالص اللہ کے لیے ہوتا ہے جس میں کوئی دوسرا مفاد شامل نہیں ہوتا۔ اس ليے خدا نے اس کو اپنے ذمّے قرض قرار دیا۔ اور چوں کہ وہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ اس کولو ٹائے گا اس ليے اس کو قرض حسن فرمایا۔
مومن کی راہ میں مشکلات کا پیش آنا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ یہ اللہ کے فضل کا نیا دروازہ کھلنا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے جان ومال کو اللہ کے لیے خرچ کرکے اللہ کی ان عنایتوں کا مستحق بنتا ہے جو عام حالات میں کسی کو نہیں ملتیں۔
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 مکہ سے تنگ آکر مسلمان مدینہ چلے آئے۔مدینہ میں اپنے دین کے مطابق رہنے کے لیے نسبتاً آزادانہ ماحول تھا۔ مگر مخالفین اسلام نے اب بھی ان کو نہ چھوڑا۔ انھوںنے فوجی حملے شروع کرديے تا کہ مدینہ سے مسلمانوں کا خاتمہ کردیں۔ اس وقت حکم ہوا کہ ان سے مقابلہ کرو۔ مخالفین کی نسبت سے اس وقت مسلمانوں کی طاقت بہت کم تھی۔ اس ليے کچھ لوگوں کے اندر بے ہمتی پیدا ہوئی۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک واقعہ یاد دلا کر بتایا گیا کہ زندگی کے معرکہ میں شکست سے ڈرنے ہی کا نام شکست ہے۔
بنی اسرائیل کی ایک پڑوسی قوم فلستی نے ان پر حملہ کردیا۔ بنی اسرائیل شکست کھاگئے۔ فلستیوں نے دو حملوں میں ان کے
34
ہزار آدمی مار ڈالے۔ بنی اسرائیل اتنا ڈرے کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بائبل کے الفاظ میں ’’حشمت بنی اسرائیل سے جاتی رہی‘‘ (سموئيل
4:22
)۔ بنی اسرائیل کا سارا گھرانا خوف میں مبتلا ہوکر نوحہ وفریاد کرنے لگا۔ اسی حال میں ان کو 20 سال گزر گئے۔ پھر انھوں نے سوچا کہ فلستیوں کے سامنے ان کو شکست کیوں ہوئی۔ ان کے نبی سموئیل نے کہا کہ شکست کی وجہ خدا میں تمھارے یقین کا کمزور ہوجانا ہے۔ انھوںنے اسرائیل کے سارے گھرانے سے کہا کہ اگر تم اپنے سارے دل سے خداوند کی طرف رجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں کو اپنے بیچ سے دور کردو اور خداوند کے لیے اپنے دلوں کو مستعد کرکے فقط اسی کی عبادت کرو۔ خدا فلستیوں کے ہاتھ سے تم کو رہائی دے گا۔ تب اسرائیليوں نے اجنبی دیوتاؤں کو اپنے سے دور کیا اور فقط خداوند کی عبادت کرنے لگے۔ اب جب دوبارہ فلستیوں اور اسرائیلیوں میں جنگ ہوئی تو بائبل کے الفاظ میں ’’خداوند فلستیوں کے اوپر اس دن بڑی کڑک کے ساتھ گرجا اور ان کو گھبرا دیا۔ اور انھوں نے اسرائیلیوں کے آگے شکست کھائی(سموئيل
7:70
)۔ اللہ پر اعتماد کے راستہ کو چھوڑ کر ان پر ملّی موت واقع ہوئی تھی، اللہ پر اعتماد کے راستہ کو اختیار کرنے کے بعد ان کو ملّی زندگی حاصل ہوگئی۔
قرض حسن کے معنی ہیں اچھا قرض۔ یہاں اس سے مراد وہ انفاق ہے جو خدا کے دین کی راہ میں کیا جائے۔ یہ انفاق خالص اللہ کے لیے ہوتا ہے جس میں کوئی دوسرا مفاد شامل نہیں ہوتا۔ اس ليے خدا نے اس کو اپنے ذمّے قرض قرار دیا۔ اور چوں کہ وہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ اس کولو ٹائے گا اس ليے اس کو قرض حسن فرمایا۔
مومن کی راہ میں مشکلات کا پیش آنا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ یہ اللہ کے فضل کا نیا دروازہ کھلنا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے جان ومال کو اللہ کے لیے خرچ کرکے اللہ کی ان عنایتوں کا مستحق بنتا ہے جو عام حالات میں کسی کو نہیں ملتیں۔
مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۚ وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 مکہ سے تنگ آکر مسلمان مدینہ چلے آئے۔مدینہ میں اپنے دین کے مطابق رہنے کے لیے نسبتاً آزادانہ ماحول تھا۔ مگر مخالفین اسلام نے اب بھی ان کو نہ چھوڑا۔ انھوںنے فوجی حملے شروع کرديے تا کہ مدینہ سے مسلمانوں کا خاتمہ کردیں۔ اس وقت حکم ہوا کہ ان سے مقابلہ کرو۔ مخالفین کی نسبت سے اس وقت مسلمانوں کی طاقت بہت کم تھی۔ اس ليے کچھ لوگوں کے اندر بے ہمتی پیدا ہوئی۔ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کا ایک واقعہ یاد دلا کر بتایا گیا کہ زندگی کے معرکہ میں شکست سے ڈرنے ہی کا نام شکست ہے۔
بنی اسرائیل کی ایک پڑوسی قوم فلستی نے ان پر حملہ کردیا۔ بنی اسرائیل شکست کھاگئے۔ فلستیوں نے دو حملوں میں ان کے
34
ہزار آدمی مار ڈالے۔ بنی اسرائیل اتنا ڈرے کہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بائبل کے الفاظ میں ’’حشمت بنی اسرائیل سے جاتی رہی‘‘ (سموئيل
4:22
)۔ بنی اسرائیل کا سارا گھرانا خوف میں مبتلا ہوکر نوحہ وفریاد کرنے لگا۔ اسی حال میں ان کو 20 سال گزر گئے۔ پھر انھوں نے سوچا کہ فلستیوں کے سامنے ان کو شکست کیوں ہوئی۔ ان کے نبی سموئیل نے کہا کہ شکست کی وجہ خدا میں تمھارے یقین کا کمزور ہوجانا ہے۔ انھوںنے اسرائیل کے سارے گھرانے سے کہا کہ اگر تم اپنے سارے دل سے خداوند کی طرف رجوع لاتے ہو تو اجنبی دیوتاؤں کو اپنے بیچ سے دور کردو اور خداوند کے لیے اپنے دلوں کو مستعد کرکے فقط اسی کی عبادت کرو۔ خدا فلستیوں کے ہاتھ سے تم کو رہائی دے گا۔ تب اسرائیليوں نے اجنبی دیوتاؤں کو اپنے سے دور کیا اور فقط خداوند کی عبادت کرنے لگے۔ اب جب دوبارہ فلستیوں اور اسرائیلیوں میں جنگ ہوئی تو بائبل کے الفاظ میں ’’خداوند فلستیوں کے اوپر اس دن بڑی کڑک کے ساتھ گرجا اور ان کو گھبرا دیا۔ اور انھوں نے اسرائیلیوں کے آگے شکست کھائی(سموئيل
7:70
)۔ اللہ پر اعتماد کے راستہ کو چھوڑ کر ان پر ملّی موت واقع ہوئی تھی، اللہ پر اعتماد کے راستہ کو اختیار کرنے کے بعد ان کو ملّی زندگی حاصل ہوگئی۔
قرض حسن کے معنی ہیں اچھا قرض۔ یہاں اس سے مراد وہ انفاق ہے جو خدا کے دین کی راہ میں کیا جائے۔ یہ انفاق خالص اللہ کے لیے ہوتا ہے جس میں کوئی دوسرا مفاد شامل نہیں ہوتا۔ اس ليے خدا نے اس کو اپنے ذمّے قرض قرار دیا۔ اور چوں کہ وہ بہت زیادہ اضافہ کے ساتھ اس کولو ٹائے گا اس ليے اس کو قرض حسن فرمایا۔
مومن کی راہ میں مشکلات کا پیش آنا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ یہ اللہ کے فضل کا نیا دروازہ کھلنا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے جان ومال کو اللہ کے لیے خرچ کرکے اللہ کی ان عنایتوں کا مستحق بنتا ہے جو عام حالات میں کسی کو نہیں ملتیں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَىٰ إِذْ قَالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۖ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ أَلَّا تُقَاتِلُوا ۖ قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا نُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَأَبْنَائِنَا ۖ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
📘 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد بنی اسرائیل اپنے پڑوس کی مشرک قوموں سے مغلوب ہوگئے۔ اسی حال میں تقریباً چوتھائی صدی گزارنے کے بعد ان کو احساس ہوا کہ وہ اپنے پچھلے دور کو واپس لائیں۔ اب اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ان کو ایک امیر لشکر کی ضرورت تھی۔ ان کے نبی سموئیل (1020-1100ق م) نے ان کے لیے ایک شخص کا تقرر کیا جس کا نام قرآن میں طالوت اور بائبل میں ساؤل آیا ہے۔ ذاتی اوصاف کے اعتبار سے وہ ایک موزوں شخص تھا۔ مگر بنی اسرائیل اس کی سرداری قبول کرنے کے بجائے اس قسم کے اعتراضات نکالنے لگے کہ وہ تو چھوٹے خاندان کا آدمی ہے۔ اس کے پاس مال و دولت نہیں۔ مگر اس طرح کی اختلافی بحثیں کسی قوم کے زوال یافتہ ہونے کی علامت ہیں۔ اللہ کے فیصلے وسعت اور علم کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اس ليے وہی بندہ اللہ کا محبوب بندہ ہے جو خود بھی وسیع النظری کا طریقہ اختیار کرے اور جو فیصلہ کرے حقائق کی بنیاد پر کرے، نہ کہ تعصبات اور مصلحتوں کی بنیاد پر۔ تاہم صندوق کو واپس لاکر اللہ نے طالوت کے تقرر کی ایک غیر معمولی تصدیق بھی فرمادی۔
بنی اسرائیل کے یہاں ایک مقدس صندوق تھا جو مصر سے خروج کے زمانہ سے ان کے یہاں چلا آرہا تھا۔ اس میں تورات کی تختیاں اور دوسری متبرک چیزیں تھیں۔ بنی اسرائیل اس کو اپنے ليے فتح وکامیابی کا نشان سمجھتے تھے۔ فلستی اس صندوق کو ان سے چھین کر اٹھا لے گئے تھے۔ مگر اس کو انھوں نے جس جس بستی میں رکھا وہاں وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ اس سے انھوں نے برا شگون لیا اور صند وق کو ایک بیل گاڑی پر رکھ کر ہانک دیا۔ وہ اس کو لے کر چلتے رہے۔ یہاں تک کہ یہودیوں کی آبادی میں پہنچ گئے — اللہ اپنے کسی بندے کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے کبھی اس کے گرد ایسی غیر معمولی چیزیں جمع کردیتا ہے جو عام انسانوں کے ساتھ جمع نہیں ہوتیں۔
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا ۚ قَالُوا أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ أَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ ۚ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللَّهُ يُؤْتِي مُلْكَهُ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
📘 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد بنی اسرائیل اپنے پڑوس کی مشرک قوموں سے مغلوب ہوگئے۔ اسی حال میں تقریباً چوتھائی صدی گزارنے کے بعد ان کو احساس ہوا کہ وہ اپنے پچھلے دور کو واپس لائیں۔ اب اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ان کو ایک امیر لشکر کی ضرورت تھی۔ ان کے نبی سموئیل (1020-1100ق م) نے ان کے لیے ایک شخص کا تقرر کیا جس کا نام قرآن میں طالوت اور بائبل میں ساؤل آیا ہے۔ ذاتی اوصاف کے اعتبار سے وہ ایک موزوں شخص تھا۔ مگر بنی اسرائیل اس کی سرداری قبول کرنے کے بجائے اس قسم کے اعتراضات نکالنے لگے کہ وہ تو چھوٹے خاندان کا آدمی ہے۔ اس کے پاس مال و دولت نہیں۔ مگر اس طرح کی اختلافی بحثیں کسی قوم کے زوال یافتہ ہونے کی علامت ہیں۔ اللہ کے فیصلے وسعت اور علم کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اس ليے وہی بندہ اللہ کا محبوب بندہ ہے جو خود بھی وسیع النظری کا طریقہ اختیار کرے اور جو فیصلہ کرے حقائق کی بنیاد پر کرے، نہ کہ تعصبات اور مصلحتوں کی بنیاد پر۔ تاہم صندوق کو واپس لاکر اللہ نے طالوت کے تقرر کی ایک غیر معمولی تصدیق بھی فرمادی۔
بنی اسرائیل کے یہاں ایک مقدس صندوق تھا جو مصر سے خروج کے زمانہ سے ان کے یہاں چلا آرہا تھا۔ اس میں تورات کی تختیاں اور دوسری متبرک چیزیں تھیں۔ بنی اسرائیل اس کو اپنے ليے فتح وکامیابی کا نشان سمجھتے تھے۔ فلستی اس صندوق کو ان سے چھین کر اٹھا لے گئے تھے۔ مگر اس کو انھوں نے جس جس بستی میں رکھا وہاں وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ اس سے انھوں نے برا شگون لیا اور صند وق کو ایک بیل گاڑی پر رکھ کر ہانک دیا۔ وہ اس کو لے کر چلتے رہے۔ یہاں تک کہ یہودیوں کی آبادی میں پہنچ گئے — اللہ اپنے کسی بندے کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے کبھی اس کے گرد ایسی غیر معمولی چیزیں جمع کردیتا ہے جو عام انسانوں کے ساتھ جمع نہیں ہوتیں۔
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تقریباً تین سو سال بعد بنی اسرائیل اپنے پڑوس کی مشرک قوموں سے مغلوب ہوگئے۔ اسی حال میں تقریباً چوتھائی صدی گزارنے کے بعد ان کو احساس ہوا کہ وہ اپنے پچھلے دور کو واپس لائیں۔ اب اپنے دشمنوں سے لڑنے کے لیے ان کو ایک امیر لشکر کی ضرورت تھی۔ ان کے نبی سموئیل (1020-1100ق م) نے ان کے لیے ایک شخص کا تقرر کیا جس کا نام قرآن میں طالوت اور بائبل میں ساؤل آیا ہے۔ ذاتی اوصاف کے اعتبار سے وہ ایک موزوں شخص تھا۔ مگر بنی اسرائیل اس کی سرداری قبول کرنے کے بجائے اس قسم کے اعتراضات نکالنے لگے کہ وہ تو چھوٹے خاندان کا آدمی ہے۔ اس کے پاس مال و دولت نہیں۔ مگر اس طرح کی اختلافی بحثیں کسی قوم کے زوال یافتہ ہونے کی علامت ہیں۔ اللہ کے فیصلے وسعت اور علم کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اس ليے وہی بندہ اللہ کا محبوب بندہ ہے جو خود بھی وسیع النظری کا طریقہ اختیار کرے اور جو فیصلہ کرے حقائق کی بنیاد پر کرے، نہ کہ تعصبات اور مصلحتوں کی بنیاد پر۔ تاہم صندوق کو واپس لاکر اللہ نے طالوت کے تقرر کی ایک غیر معمولی تصدیق بھی فرمادی۔
بنی اسرائیل کے یہاں ایک مقدس صندوق تھا جو مصر سے خروج کے زمانہ سے ان کے یہاں چلا آرہا تھا۔ اس میں تورات کی تختیاں اور دوسری متبرک چیزیں تھیں۔ بنی اسرائیل اس کو اپنے ليے فتح وکامیابی کا نشان سمجھتے تھے۔ فلستی اس صندوق کو ان سے چھین کر اٹھا لے گئے تھے۔ مگر اس کو انھوں نے جس جس بستی میں رکھا وہاں وہاں وبائیں پھوٹ پڑیں۔ اس سے انھوں نے برا شگون لیا اور صند وق کو ایک بیل گاڑی پر رکھ کر ہانک دیا۔ وہ اس کو لے کر چلتے رہے۔ یہاں تک کہ یہودیوں کی آبادی میں پہنچ گئے — اللہ اپنے کسی بندے کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے کبھی اس کے گرد ایسی غیر معمولی چیزیں جمع کردیتا ہے جو عام انسانوں کے ساتھ جمع نہیں ہوتیں۔
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ ۚ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ ۚ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ ۚ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو اللَّهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ
📘 حضرت موسیٰ ؑکے تقریباً 3 سو سال بعداور حضرت مسیح سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ایسا ہوا کہ فلستیوں نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا اور فلسطین کے اکثر علاقے ان سے چھین ليے۔ ایک عرصہ کے بعد بنی اسرائیل نے چاہاکہ وہ فلستیوں کے خلاف اقدام کریں اور اپنے علاقے ان سے واپس لیں۔ اس وقت ان کے درمیان ایک نبی تھے جن کا نام سموئیل تھا۔ وہ شام کے ایک قدیم شہر رامہ میں رہتے تھے اور بنی اسرائیل کے اجتماعی امور کے ذمہ دار تھے۔بنی اسرائیل کا ایک وفد ان سے ملا۔ اور کہا کہ آپ اب بوڑھے ہوچکے ہیں، اس ليے آپ ہم میں سے کسی کو ہمارے اوپر بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم اس کی رہنمائی میں جنگ کرسکیں۔ تورات کے الفاظ میں ’’اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری لڑائی کرے‘‘۔
حضرت سموئیل اگرچہ اپنی قوم کے کردار کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے تھے تاہم ان کے مطالبہ کی بنا پر انھوں نے کہا کہ اچھا میں تمھارے ليے ایک بادشاہ مقرر کردوں گا۔ چنانچہ انھوں نے قبیلہ بن یمین کے ایک بہادر نوجوان ساؤل (طالوت) کو ان کا بادشاہ (سردار) مقرر کردیا۔
ساؤل (طالوت) بنی اسرائیل کا لشکر لے کر دشمن کی طرف بڑھے۔ راستہ میں دریائے یردن پڑتا تھا۔ اس کو پار کرکے دشمن کے علاقہ میں پہنچنا تھا۔ چوں کہ طالوت کو بنی اسرائیل کی کمزوریوں کا علم تھا، انھوں نے ان کی جانچ کے لیے ایک سادہ طریقہ استعمال کیا۔ دریا کو پار کرتے ہوئے انھوںنے اعلان کیا کہ کوئی شخص پانی نہ پئے۔ البتہ ایک آدھ چلو لےلے تو کوئی حرج نہیں۔ بنی اسرائیل کی بڑی تعداد اس امتحان میں پوری نہ اتری۔ تاہم اس مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی دی۔ حضرت داؤد جو اس وقت صرف ایک نوجوان تھے، انھوں نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ فلستیوں کی فوج کا زبردست پہلوان جالوت ان کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اس کے بعد فلستیوں نے اسرائیل کے مقابلہ میں ہتھیار ڈال ديے۔
مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے اندر مشکلات پر جمے رهنےاور سردار کی اطاعت کرنے کا مادہ ہو۔ طالوت کا اپنے ساتھیوں کو پانی پینے سے منع کرنا اسی استعداد کی جانچ کی ایک سادہ سی تدبیر تھی۔ بائبل کے بیان کے مطابق ان میں سے صرف 600 آدمی ایسے نکلے جنھوں نے راستہ میں آنے والے دریا کا پانی نہیںپیا۔ جن لوگوں نے پانی پیا انھوں نے گویا اپنی اخلاقی کمزوریوں کو اور پختہ کرلیا۔ اس ليے دشمن کا بظاہر طاقت ور ہونا اب ان کو اور زیادہ محسوس ہونے لگا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پانی نہیں پيا تھا ان کے اس فعل سے ان کا صبر اور اطاعت کا مزاج اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔ ان کو وہ حقیقت اور زیادہ واضح صورت میں دکھائی دینے لگی جس کو بائبل کے بیان کے مطابق طالوت کے ایک ساتھی نے ان لفظوں میں بیان کیا تھا: اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا۔ اس ليے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کردے گا (1 سموئیل
17 :48
)۔
اقتدار جس کے پاس ہو وہ کچھ دنوں بعد گھمنڈ میں پڑ کر ظلم کرنے لگتا ہے۔ اس ليے اقتدار اگر کسی کے پاس مستقل طورپر جمع ہوجائے تو اس کے ظلم وفساد سے زمین بھر جائے۔ اس کی تلافی کا انتظام اللہ نے اس طرح کیا ہے کہ وہ صاحبان اقتدار کو بدلتا رہتا ہے۔ وہ بے اقتدار لوگوں میں سے ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے صاحب اقتدار کو ہٹا کر اس کے منصب پر دوسرے کو بٹھا دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی برسرِ اقتدار جماعت کا ظلم بڑھ جائے تو یہ اس کے خلاف اٹھنے والے گروہ کے لیے خدائی مدد کا وقت ہوتاہے۔ اگر وہ صبر اور اطاعت کی شرط کو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدائی منصوبہ میں شامل کردے تو بظاہر کم ہونے کے باوجود وہ خداكی مدد سے زیادہ کے اوپر غالب آجائے گا — خدا کا خوف محض ایک منفی چیز نہیں، وہ ایک علم ہے جو آدمی کے ذہن کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے اصلی اور حقیقی روپ میں دیکھ سکے۔
وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 انسان اور انسان کے سوا جو کچھ زمین و آسمان میں ہے سب کا پیدا کرنے والا صرف اللہ ہے۔ اس نے پوری کائنات کو نہایت حکمت کے ساتھ قائم کیا ہے۔ وہ ہر آن ان کی پرورش کررہا ہے۔ اس لیے انسان کے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کو بغیر کسی شرکت کے خالق، مالک اور رازق تسلیم کرے، وہ اس کو اپنا سب کچھ بنالے۔ مگر خدا چونکہ نظر نہیں آتا اس لیے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کسی نظر آنے والی چیز کو اہم سمجھ کر اس کو خدائی کے مقام پر بٹھا لیتا ہے۔ وہ ایک مخلوق کو، جزئی یا کلی طورپر، خالق کے برابر ٹھہرا لیتا ہے، کبھی اس کو خدا کا نام دے کر اور کبھی خدا کا نام دیے بغیر۔
یہی انسان کی اصل گمراہی ہے۔ پیغمبر کی دعوت یہ ہوتی ہے کہ آدمی صرف ایک خدا کو بڑائی کا مقام دے۔ اس کے علاوہ جس جس کو اس نے خدائی عظمت کے مقام پر بٹھا رکھا ہے اس کو عظمت کے مقام سے اتار دے۔ جب خالص خدا پرستی کی دعوت اٹھتی ہے تو وہ تمام لوگ اپنے اوپر اس کی زد پڑتی ہوئی محسوس کرنے لگتے ہیں جن کا دل خدا کے سوا کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔جنھوں نے خدا کے سوا کسی اور کے لیے بھی عظمت کو خاص کررکھا ہو۔ ایسے لوگوں کو اپنے فرضی معبودوں سے جو شدید تعلق ہوچکا ہوتا ہے اس کی وجہ سے ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ وہ بے حقیقت ہیں اور حقیقت صرف اس پیغام کی ہے جو آدمیوں میںسے ایک آدمی کی زبان سے سنایا جارہا ہے۔
جو دعوت خدا کی طرف سے اٹھے اس کے اندر لازمی طورپر خدائی شان شامل ہوجاتی ہے۔ اس کا ناقابلِ تقلید اسلوب اور اس کا غیر مفتوح استدلال اس بات کی کھلی علامت ہوتاہے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود جو لوگ انکار کریں ان کو خدا کی دنیا میں جہنم کے سوا کہیں اور پناہ نہیں مل سکتی۔ البتہ جو لوگ خدا کے کلام میں خدا کو پالیں انھوں نے گویا آج کی دنیا میں کل کی دنیا کو دیکھ لیا۔ یہی لوگ ہیں جو آخرت کے باغوں میں داخل کيے جائیں گے۔
وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
📘 حضرت موسیٰ ؑکے تقریباً 3 سو سال بعداور حضرت مسیح سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ایسا ہوا کہ فلستیوں نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا اور فلسطین کے اکثر علاقے ان سے چھین ليے۔ ایک عرصہ کے بعد بنی اسرائیل نے چاہاکہ وہ فلستیوں کے خلاف اقدام کریں اور اپنے علاقے ان سے واپس لیں۔ اس وقت ان کے درمیان ایک نبی تھے جن کا نام سموئیل تھا۔ وہ شام کے ایک قدیم شہر رامہ میں رہتے تھے اور بنی اسرائیل کے اجتماعی امور کے ذمہ دار تھے۔بنی اسرائیل کا ایک وفد ان سے ملا۔ اور کہا کہ آپ اب بوڑھے ہوچکے ہیں، اس ليے آپ ہم میں سے کسی کو ہمارے اوپر بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم اس کی رہنمائی میں جنگ کرسکیں۔ تورات کے الفاظ میں ’’اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری لڑائی کرے‘‘۔
حضرت سموئیل اگرچہ اپنی قوم کے کردار کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے تھے تاہم ان کے مطالبہ کی بنا پر انھوں نے کہا کہ اچھا میں تمھارے ليے ایک بادشاہ مقرر کردوں گا۔ چنانچہ انھوں نے قبیلہ بن یمین کے ایک بہادر نوجوان ساؤل (طالوت) کو ان کا بادشاہ (سردار) مقرر کردیا۔
ساؤل (طالوت) بنی اسرائیل کا لشکر لے کر دشمن کی طرف بڑھے۔ راستہ میں دریائے یردن پڑتا تھا۔ اس کو پار کرکے دشمن کے علاقہ میں پہنچنا تھا۔ چوں کہ طالوت کو بنی اسرائیل کی کمزوریوں کا علم تھا، انھوں نے ان کی جانچ کے لیے ایک سادہ طریقہ استعمال کیا۔ دریا کو پار کرتے ہوئے انھوںنے اعلان کیا کہ کوئی شخص پانی نہ پئے۔ البتہ ایک آدھ چلو لےلے تو کوئی حرج نہیں۔ بنی اسرائیل کی بڑی تعداد اس امتحان میں پوری نہ اتری۔ تاہم اس مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی دی۔ حضرت داؤد جو اس وقت صرف ایک نوجوان تھے، انھوں نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ فلستیوں کی فوج کا زبردست پہلوان جالوت ان کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اس کے بعد فلستیوں نے اسرائیل کے مقابلہ میں ہتھیار ڈال ديے۔
مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے اندر مشکلات پر جمے رهنےاور سردار کی اطاعت کرنے کا مادہ ہو۔ طالوت کا اپنے ساتھیوں کو پانی پینے سے منع کرنا اسی استعداد کی جانچ کی ایک سادہ سی تدبیر تھی۔ بائبل کے بیان کے مطابق ان میں سے صرف 600 آدمی ایسے نکلے جنھوں نے راستہ میں آنے والے دریا کا پانی نہیںپیا۔ جن لوگوں نے پانی پیا انھوں نے گویا اپنی اخلاقی کمزوریوں کو اور پختہ کرلیا۔ اس ليے دشمن کا بظاہر طاقت ور ہونا اب ان کو اور زیادہ محسوس ہونے لگا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پانی نہیں پيا تھا ان کے اس فعل سے ان کا صبر اور اطاعت کا مزاج اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔ ان کو وہ حقیقت اور زیادہ واضح صورت میں دکھائی دینے لگی جس کو بائبل کے بیان کے مطابق طالوت کے ایک ساتھی نے ان لفظوں میں بیان کیا تھا: اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا۔ اس ليے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کردے گا (1 سموئیل
17 :48
)۔
اقتدار جس کے پاس ہو وہ کچھ دنوں بعد گھمنڈ میں پڑ کر ظلم کرنے لگتا ہے۔ اس ليے اقتدار اگر کسی کے پاس مستقل طورپر جمع ہوجائے تو اس کے ظلم وفساد سے زمین بھر جائے۔ اس کی تلافی کا انتظام اللہ نے اس طرح کیا ہے کہ وہ صاحبان اقتدار کو بدلتا رہتا ہے۔ وہ بے اقتدار لوگوں میں سے ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے صاحب اقتدار کو ہٹا کر اس کے منصب پر دوسرے کو بٹھا دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی برسرِ اقتدار جماعت کا ظلم بڑھ جائے تو یہ اس کے خلاف اٹھنے والے گروہ کے لیے خدائی مدد کا وقت ہوتاہے۔ اگر وہ صبر اور اطاعت کی شرط کو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدائی منصوبہ میں شامل کردے تو بظاہر کم ہونے کے باوجود وہ خداكی مدد سے زیادہ کے اوپر غالب آجائے گا — خدا کا خوف محض ایک منفی چیز نہیں، وہ ایک علم ہے جو آدمی کے ذہن کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے اصلی اور حقیقی روپ میں دیکھ سکے۔
فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللَّهِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ
📘 حضرت موسیٰ ؑکے تقریباً 3 سو سال بعداور حضرت مسیح سے تقریباً ایک ہزار سال پہلے ایسا ہوا کہ فلستیوں نے بنی اسرائیل پر حملہ کیا اور فلسطین کے اکثر علاقے ان سے چھین ليے۔ ایک عرصہ کے بعد بنی اسرائیل نے چاہاکہ وہ فلستیوں کے خلاف اقدام کریں اور اپنے علاقے ان سے واپس لیں۔ اس وقت ان کے درمیان ایک نبی تھے جن کا نام سموئیل تھا۔ وہ شام کے ایک قدیم شہر رامہ میں رہتے تھے اور بنی اسرائیل کے اجتماعی امور کے ذمہ دار تھے۔بنی اسرائیل کا ایک وفد ان سے ملا۔ اور کہا کہ آپ اب بوڑھے ہوچکے ہیں، اس ليے آپ ہم میں سے کسی کو ہمارے اوپر بادشاہ مقرر کردیں تاکہ ہم اس کی رہنمائی میں جنگ کرسکیں۔ تورات کے الفاظ میں ’’اور ہمارا بادشاہ ہماری عدالت کرے اور ہمارے آگے آگے چلے اور ہماری لڑائی کرے‘‘۔
حضرت سموئیل اگرچہ اپنی قوم کے کردار کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے تھے تاہم ان کے مطالبہ کی بنا پر انھوں نے کہا کہ اچھا میں تمھارے ليے ایک بادشاہ مقرر کردوں گا۔ چنانچہ انھوں نے قبیلہ بن یمین کے ایک بہادر نوجوان ساؤل (طالوت) کو ان کا بادشاہ (سردار) مقرر کردیا۔
ساؤل (طالوت) بنی اسرائیل کا لشکر لے کر دشمن کی طرف بڑھے۔ راستہ میں دریائے یردن پڑتا تھا۔ اس کو پار کرکے دشمن کے علاقہ میں پہنچنا تھا۔ چوں کہ طالوت کو بنی اسرائیل کی کمزوریوں کا علم تھا، انھوں نے ان کی جانچ کے لیے ایک سادہ طریقہ استعمال کیا۔ دریا کو پار کرتے ہوئے انھوںنے اعلان کیا کہ کوئی شخص پانی نہ پئے۔ البتہ ایک آدھ چلو لےلے تو کوئی حرج نہیں۔ بنی اسرائیل کی بڑی تعداد اس امتحان میں پوری نہ اتری۔ تاہم اس مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں کامیابی دی۔ حضرت داؤد جو اس وقت صرف ایک نوجوان تھے، انھوں نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ فلستیوں کی فوج کا زبردست پہلوان جالوت ان کے ہاتھ سے قتل ہوا۔ اس کے بعد فلستیوں نے اسرائیل کے مقابلہ میں ہتھیار ڈال ديے۔
مقابلہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے اندر مشکلات پر جمے رهنےاور سردار کی اطاعت کرنے کا مادہ ہو۔ طالوت کا اپنے ساتھیوں کو پانی پینے سے منع کرنا اسی استعداد کی جانچ کی ایک سادہ سی تدبیر تھی۔ بائبل کے بیان کے مطابق ان میں سے صرف 600 آدمی ایسے نکلے جنھوں نے راستہ میں آنے والے دریا کا پانی نہیںپیا۔ جن لوگوں نے پانی پیا انھوں نے گویا اپنی اخلاقی کمزوریوں کو اور پختہ کرلیا۔ اس ليے دشمن کا بظاہر طاقت ور ہونا اب ان کو اور زیادہ محسوس ہونے لگا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے پانی نہیں پيا تھا ان کے اس فعل سے ان کا صبر اور اطاعت کا مزاج اور زیادہ مضبوط ہوگیا۔ ان کو وہ حقیقت اور زیادہ واضح صورت میں دکھائی دینے لگی جس کو بائبل کے بیان کے مطابق طالوت کے ایک ساتھی نے ان لفظوں میں بیان کیا تھا: اور یہ ساری جماعت جان لے کہ خداوند تلوار اور بھالے کے ذریعے سے نہیں بچاتا۔ اس ليے کہ جنگ تو خداوند کی ہے اور وہی تم کو ہمارے ہاتھ میں کردے گا (1 سموئیل
17 :48
)۔
اقتدار جس کے پاس ہو وہ کچھ دنوں بعد گھمنڈ میں پڑ کر ظلم کرنے لگتا ہے۔ اس ليے اقتدار اگر کسی کے پاس مستقل طورپر جمع ہوجائے تو اس کے ظلم وفساد سے زمین بھر جائے۔ اس کی تلافی کا انتظام اللہ نے اس طرح کیا ہے کہ وہ صاحبان اقتدار کو بدلتا رہتا ہے۔ وہ بے اقتدار لوگوں میں سے ایک گروہ کو اٹھاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے صاحب اقتدار کو ہٹا کر اس کے منصب پر دوسرے کو بٹھا دیتاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی برسرِ اقتدار جماعت کا ظلم بڑھ جائے تو یہ اس کے خلاف اٹھنے والے گروہ کے لیے خدائی مدد کا وقت ہوتاہے۔ اگر وہ صبر اور اطاعت کی شرط کو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدائی منصوبہ میں شامل کردے تو بظاہر کم ہونے کے باوجود وہ خداكی مدد سے زیادہ کے اوپر غالب آجائے گا — خدا کا خوف محض ایک منفی چیز نہیں، وہ ایک علم ہے جو آدمی کے ذہن کو اس طرح روشن کردیتاہے کہ وہ ہر چیز کو اس کے اصلی اور حقیقی روپ میں دیکھ سکے۔
تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ ۚ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
📘 اللہ کی طرف سے کوئی پکارنے والا جب لوگوں کو پکارتا ہے تو اس کی پکار میں ایسی نشانیاں شامل ہوتی ہیںکہ لوگوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس کا انکار کردیتے ہیں اور یہ انکار کرنے والے سب سے پہلے وہ لوگ ہوتے ہیںجو رسالت کو مانتے چلے آرہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جس رسول کو مان رہے ہوتے ہیں اس کی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ اس کی افضلیت کا تصور قائم کرلیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارا رسول اتنا افضل ہے اور اس کو ہم مان رہے ہیں تو اب کسی اور کو ماننے کی کیا ضرورت۔
ہر پیغمبر مختلف حالات میں آتا ہے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہر ایک کو الگ الگ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کسی پیغمبر کو ایک فضیلت (خصوصی چیز) دی جاتی ہے اور کسی کو دوسری فضیلت۔ بعد کے دور میں پیغمبر کی یہی فضیلت اس کے امتیوں کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے نبی کو دی جانے والی فضیلت کو تائیدی فضیلت کے بجائے مطلق فضیلت کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے افضل پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ اس ليے اب ہمیں کسی اور کو ماننے کی ضرورت نہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے ماننے والوں نے حضرت مسیح ؑکا انکار کیا۔ کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا نبی اتنا افضل ہے کہ خدا براہِ راست اس سے ہم کلام ہوا۔ حضرت مسیح ؑکے ماننے والوں نے نبی آخر الزماں کا انکار کیا۔ کیوں کہ انھوں نے سمجھا کہ وہ ایسی ہستی کو مان رہے ہیں جس کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ خدا نے اس کو باپ کے بغیر پیدا کیا۔ اسی طرح اللہ کے وہ بندے جو امت محمدی کی اصلاح وتجدید کے لیے اٹھے ان کابھی لوگوں نے انکار کیا۔ کیوں کہ ان کے مخاطبین کی نفسیات یہ تھی کہ ہم بزرگوں کے وارث ہیں، ہم اکابر کا دامن تھامے ہوئے ہیں پھر ہم کو کسی اور کی کیا ضرورت۔ امتوں کے زوال کے زمانہ میں ایسا ہوتاہے کہ لوگ دنیا کے راستہ پر چل پڑتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جنت بھی محفوظ رہے۔ اس وقت یہ عقیدہ ان کے لیے ایک نفسیاتی سہارا بن جاتا ہے۔ وہ اپنی مقدس شخصیتوں کی افضلیت کے تصور میں یہ تسکین پالیتے ہیں کہ دنیا میں خواہ وہ کچھ بھی کریں ان کی آخرت کبھی مشتبہ نہیں ہوگی۔
یہی غلط اعتماد ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے کی مخالفت پر جری بناتا ہے۔ اللہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کوئی دوسرا نظام قائم کرتا جس میں کسی کے لیے اختلاف کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں تو اسی بات کی آزمائش ہورہی ہے کہ آدمی غیب کی حالت میں خدا کو پائے۔ انسان کی زبان سے بلند ہونے والی خدائی آواز کو پہچانے۔ ظاہری پردوں سے گزر کر سچائی کو اس کے باطنی روپ میں دیکھ لے۔
۞ تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَلَٰكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ
📘 اللہ کی طرف سے کوئی پکارنے والا جب لوگوں کو پکارتا ہے تو اس کی پکار میں ایسی نشانیاں شامل ہوتی ہیںکہ لوگوں کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگے کہ وہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس کے باوجود لوگ اس کا انکار کردیتے ہیں اور یہ انکار کرنے والے سب سے پہلے وہ لوگ ہوتے ہیںجو رسالت کو مانتے چلے آرہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ جس رسول کو مان رہے ہوتے ہیں اس کی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ اس کی افضلیت کا تصور قائم کرلیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جب ہمارا رسول اتنا افضل ہے اور اس کو ہم مان رہے ہیں تو اب کسی اور کو ماننے کی کیا ضرورت۔
ہر پیغمبر مختلف حالات میں آتا ہے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہر ایک کو الگ الگ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کسی پیغمبر کو ایک فضیلت (خصوصی چیز) دی جاتی ہے اور کسی کو دوسری فضیلت۔ بعد کے دور میں پیغمبر کی یہی فضیلت اس کے امتیوں کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے نبی کو دی جانے والی فضیلت کو تائیدی فضیلت کے بجائے مطلق فضیلت کے معنی میں لے لیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سب سے افضل پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ اس ليے اب ہمیں کسی اور کو ماننے کی ضرورت نہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے ماننے والوں نے حضرت مسیح ؑکا انکار کیا۔ کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ان کا نبی اتنا افضل ہے کہ خدا براہِ راست اس سے ہم کلام ہوا۔ حضرت مسیح ؑکے ماننے والوں نے نبی آخر الزماں کا انکار کیا۔ کیوں کہ انھوں نے سمجھا کہ وہ ایسی ہستی کو مان رہے ہیں جس کی فضیلت اتنی زیادہ ہے کہ خدا نے اس کو باپ کے بغیر پیدا کیا۔ اسی طرح اللہ کے وہ بندے جو امت محمدی کی اصلاح وتجدید کے لیے اٹھے ان کابھی لوگوں نے انکار کیا۔ کیوں کہ ان کے مخاطبین کی نفسیات یہ تھی کہ ہم بزرگوں کے وارث ہیں، ہم اکابر کا دامن تھامے ہوئے ہیں پھر ہم کو کسی اور کی کیا ضرورت۔ امتوں کے زوال کے زمانہ میں ایسا ہوتاہے کہ لوگ دنیا کے راستہ پر چل پڑتے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی جنت بھی محفوظ رہے۔ اس وقت یہ عقیدہ ان کے لیے ایک نفسیاتی سہارا بن جاتا ہے۔ وہ اپنی مقدس شخصیتوں کی افضلیت کے تصور میں یہ تسکین پالیتے ہیں کہ دنیا میں خواہ وہ کچھ بھی کریں ان کی آخرت کبھی مشتبہ نہیں ہوگی۔
یہی غلط اعتماد ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے کی مخالفت پر جری بناتا ہے۔ اللہ کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ لوگوں کی ہدایت ورہنمائی کے لیے کوئی دوسرا نظام قائم کرتا جس میں کسی کے لیے اختلاف کی گنجائش نہ ہو۔ مگر یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں تو اسی بات کی آزمائش ہورہی ہے کہ آدمی غیب کی حالت میں خدا کو پائے۔ انسان کی زبان سے بلند ہونے والی خدائی آواز کو پہچانے۔ ظاہری پردوں سے گزر کر سچائی کو اس کے باطنی روپ میں دیکھ لے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ ۗ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ
📘 خدا کو وہی پاتا ہے جو انفاق کی قیمت دے کر خدا کو اختیار کرے۔ اور کوئی آدمی جب خدا کو پالیتا ہے تو وہ ایک ایسی روشنی کو پالیتا ہے جس میں وہ بھٹکے بغیر چلتا رہے۔ یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کے برعکس، جو شخص انفاق کی قیمت ديے بغیر خدا کو اختیار کرے وہ ہمیشہ اندھیرے میں رہتاہے۔ جہاں شیطان اس کو بہکا کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جس کی آخری منزل جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔
انفاق سے مراد اپنے آپ کواور اپنے اثاثہ کو دین کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اپنی مصلحتوں کو قربان کرکے دین کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ آدمی جب کسی عقیدہ کو انفاق کی قیمت پر اختیار کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو اختیار کرنے میں سنجیدہ (sincere) ہے۔ یہ سنجیدہ ہونا بے حد اہم ہے۔ کسی معاملہ میں سنجیدہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو آدمی پر اس معاملہ کے بھیدوں کو کھولتاہے۔ سنجیدہ ہونے کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کے مقصد کے درمیان حقیقی تعلق قائم ہو، اور مقصد کے تمام پہلو اس پر واضح ہوں۔ اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہے جو اپنی ہستی کی حوالگی کی قیمت پر دین کو اختیار نہ کرے۔ ایسا شخص کبھی دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوگا، اور اس بنا پر وہ آخرت کے معاملہ کو ایک آسان معاملہ فرض کرلے گا۔ وہ سمجھے گا کہ بزرگوں کی سفارش یا دین کے نام پر کچھ رسمی اور ظاہری کارروائیاں آخرت کي نجات کے لیے کافی ہیں۔ آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس راز کو نہ سمجھے گا کہ آخرت تو مالکِ کائنات کے عظمت و جلال کے ظہور کا دن ہے۔ ایسے ایک دن کے بارے میں محض سرسری چیزوں پر کامیابی کی امید کرلینا خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ کرناہے جو خدا کے یہاںآدمی کے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ وہ اس کی مقبولیت کا سبب بنے— خدا کی بات آدمی کے سامنے دلیل کی زبان میں آتی ہے اور وہ کچھ الفاظ بول کر اس کو رد کردیتا ہے۔ یہی شیطانی وسوسہ ہے۔ ہدایت اس کو ملتی ہے جو شیطان کے وسوسہ سے اپنے کو بچائے اور خدائی دلیل کو پہچان کر اس کے آگے جھک جائے۔
اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۖ وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ
📘 خدا کو وہی پاتا ہے جو انفاق کی قیمت دے کر خدا کو اختیار کرے۔ اور کوئی آدمی جب خدا کو پالیتا ہے تو وہ ایک ایسی روشنی کو پالیتا ہے جس میں وہ بھٹکے بغیر چلتا رہے۔ یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کے برعکس، جو شخص انفاق کی قیمت ديے بغیر خدا کو اختیار کرے وہ ہمیشہ اندھیرے میں رہتاہے۔ جہاں شیطان اس کو بہکا کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جس کی آخری منزل جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔
انفاق سے مراد اپنے آپ کواور اپنے اثاثہ کو دین کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اپنی مصلحتوں کو قربان کرکے دین کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ آدمی جب کسی عقیدہ کو انفاق کی قیمت پر اختیار کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو اختیار کرنے میں سنجیدہ (sincere) ہے۔ یہ سنجیدہ ہونا بے حد اہم ہے۔ کسی معاملہ میں سنجیدہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو آدمی پر اس معاملہ کے بھیدوں کو کھولتاہے۔ سنجیدہ ہونے کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کے مقصد کے درمیان حقیقی تعلق قائم ہو، اور مقصد کے تمام پہلو اس پر واضح ہوں۔ اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہے جو اپنی ہستی کی حوالگی کی قیمت پر دین کو اختیار نہ کرے۔ ایسا شخص کبھی دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوگا، اور اس بنا پر وہ آخرت کے معاملہ کو ایک آسان معاملہ فرض کرلے گا۔ وہ سمجھے گا کہ بزرگوں کی سفارش یا دین کے نام پر کچھ رسمی اور ظاہری کارروائیاں آخرت کي نجات کے لیے کافی ہیں۔ آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس راز کو نہ سمجھے گا کہ آخرت تو مالکِ کائنات کے عظمت و جلال کے ظہور کا دن ہے۔ ایسے ایک دن کے بارے میں محض سرسری چیزوں پر کامیابی کی امید کرلینا خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ کرناہے جو خدا کے یہاںآدمی کے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ وہ اس کی مقبولیت کا سبب بنے— خدا کی بات آدمی کے سامنے دلیل کی زبان میں آتی ہے اور وہ کچھ الفاظ بول کر اس کو رد کردیتا ہے۔ یہی شیطانی وسوسہ ہے۔ ہدایت اس کو ملتی ہے جو شیطان کے وسوسہ سے اپنے کو بچائے اور خدائی دلیل کو پہچان کر اس کے آگے جھک جائے۔
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
📘 خدا کو وہی پاتا ہے جو انفاق کی قیمت دے کر خدا کو اختیار کرے۔ اور کوئی آدمی جب خدا کو پالیتا ہے تو وہ ایک ایسی روشنی کو پالیتا ہے جس میں وہ بھٹکے بغیر چلتا رہے۔ یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کے برعکس، جو شخص انفاق کی قیمت ديے بغیر خدا کو اختیار کرے وہ ہمیشہ اندھیرے میں رہتاہے۔ جہاں شیطان اس کو بہکا کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جس کی آخری منزل جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔
انفاق سے مراد اپنے آپ کواور اپنے اثاثہ کو دین کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اپنی مصلحتوں کو قربان کرکے دین کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ آدمی جب کسی عقیدہ کو انفاق کی قیمت پر اختیار کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو اختیار کرنے میں سنجیدہ (sincere) ہے۔ یہ سنجیدہ ہونا بے حد اہم ہے۔ کسی معاملہ میں سنجیدہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو آدمی پر اس معاملہ کے بھیدوں کو کھولتاہے۔ سنجیدہ ہونے کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کے مقصد کے درمیان حقیقی تعلق قائم ہو، اور مقصد کے تمام پہلو اس پر واضح ہوں۔ اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہے جو اپنی ہستی کی حوالگی کی قیمت پر دین کو اختیار نہ کرے۔ ایسا شخص کبھی دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوگا، اور اس بنا پر وہ آخرت کے معاملہ کو ایک آسان معاملہ فرض کرلے گا۔ وہ سمجھے گا کہ بزرگوں کی سفارش یا دین کے نام پر کچھ رسمی اور ظاہری کارروائیاں آخرت کي نجات کے لیے کافی ہیں۔ آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس راز کو نہ سمجھے گا کہ آخرت تو مالکِ کائنات کے عظمت و جلال کے ظہور کا دن ہے۔ ایسے ایک دن کے بارے میں محض سرسری چیزوں پر کامیابی کی امید کرلینا خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ کرناہے جو خدا کے یہاںآدمی کے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ وہ اس کی مقبولیت کا سبب بنے— خدا کی بات آدمی کے سامنے دلیل کی زبان میں آتی ہے اور وہ کچھ الفاظ بول کر اس کو رد کردیتا ہے۔ یہی شیطانی وسوسہ ہے۔ ہدایت اس کو ملتی ہے جو شیطان کے وسوسہ سے اپنے کو بچائے اور خدائی دلیل کو پہچان کر اس کے آگے جھک جائے۔
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 خدا کو وہی پاتا ہے جو انفاق کی قیمت دے کر خدا کو اختیار کرے۔ اور کوئی آدمی جب خدا کو پالیتا ہے تو وہ ایک ایسی روشنی کو پالیتا ہے جس میں وہ بھٹکے بغیر چلتا رہے۔ یہاں تک کہ جنت میں پہنچ جائے۔ اس کے برعکس، جو شخص انفاق کی قیمت ديے بغیر خدا کو اختیار کرے وہ ہمیشہ اندھیرے میں رہتاہے۔ جہاں شیطان اس کو بہکا کر ایسے راستوں پر چلاتا ہے جس کی آخری منزل جہنم کے سوا اور کچھ نہیں۔
انفاق سے مراد اپنے آپ کواور اپنے اثاثہ کو دین کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اپنی مصلحتوں کو قربان کرکے دین کی طرف آگے بڑھنا ہے۔ آدمی جب کسی عقیدہ کو انفاق کی قیمت پر اختیار کرے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کو اختیار کرنے میں سنجیدہ (sincere) ہے۔ یہ سنجیدہ ہونا بے حد اہم ہے۔ کسی معاملہ میں سنجیدہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو آدمی پر اس معاملہ کے بھیدوں کو کھولتاہے۔ سنجیدہ ہونے کے بعد ہی یہ امکان پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اور اس کے مقصد کے درمیان حقیقی تعلق قائم ہو، اور مقصد کے تمام پہلو اس پر واضح ہوں۔ اس کے برعکس معاملہ اس شخص کا ہے جو اپنی ہستی کی حوالگی کی قیمت پر دین کو اختیار نہ کرے۔ ایسا شخص کبھی دین کے معاملہ میں سنجیدہ نہیں ہوگا، اور اس بنا پر وہ آخرت کے معاملہ کو ایک آسان معاملہ فرض کرلے گا۔ وہ سمجھے گا کہ بزرگوں کی سفارش یا دین کے نام پر کچھ رسمی اور ظاہری کارروائیاں آخرت کي نجات کے لیے کافی ہیں۔ آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس راز کو نہ سمجھے گا کہ آخرت تو مالکِ کائنات کے عظمت و جلال کے ظہور کا دن ہے۔ ایسے ایک دن کے بارے میں محض سرسری چیزوں پر کامیابی کی امید کرلینا خدا کی خدائی کا کمتر اندازہ کرناہے جو خدا کے یہاںآدمی کے جرم کو بڑھانے والا ہے، نہ کہ وہ اس کی مقبولیت کا سبب بنے— خدا کی بات آدمی کے سامنے دلیل کی زبان میں آتی ہے اور وہ کچھ الفاظ بول کر اس کو رد کردیتا ہے۔ یہی شیطانی وسوسہ ہے۔ ہدایت اس کو ملتی ہے جو شیطان کے وسوسہ سے اپنے کو بچائے اور خدائی دلیل کو پہچان کر اس کے آگے جھک جائے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
📘 موجودہ زمانہ میں عوامی تائید سے حکومت کا استحقاق حاصل ہوتاہے۔ مگر جمہوریت کے دورسے پہلے اکثر بادشاہ لوگوں کو یہ یقین دلا کر ان کے اوپر حکومت کرتے تھے کہ وہ خدا کا انسانی پیکر ہیں۔ قدیم عراق کے بادشاہ نمرود کا معاملہ یہی تھا جو حضرت ابراہیم کا ہم عصر تھا۔ اس کی قوم سورج کو دیوتاؤں کا سردار مانتی تھی۔ اور اس کی پوجا کرتی تھی۔ نمرود نے کہا کہ وہ سورج دیوتا کا مظہر ہے، اس ليے وہ لوگوں کے اوپر حکومت کرنے کا خدائی حق رکھتاہے۔ حضرت ابراہیم نے اس وقت کے عراق میں جب توحید کی آواز بلند کی تو اس کا سیاست وحکومت سے براہِ راست کوئی تعلق نہ تھا۔ آپ لوگوں سے صرف یہ کہہ رہے تھے کہ تمھارا خالق اور مالک صرف ایک اللہ ہے۔ کوئی نہیں جو خدائی میں اس کا شریک ہو۔ اس ليے تم اسی کی عبادت کرو۔ اسی سے ڈرو اور اسی سے امیدیں قائم کرو۔ تاہم اس غیر سیاسی دعوت میں نمرود کو اپنی سیاست پرزد پڑتی ہوئی نظر آئی۔ ایسا عقیدہ جس میں سورج کو ایک بے زورمخلوق بتایا گیا ہو وہ گویا اس اعتقادی بنیاد ہی کو ڈھا رہا تھا جس کے اوپر نمرود نے اپنا سیاسی تخت بچھا رکھا تھا۔اس وجہ سے وہ آپ کا دشمن ہوگیا۔
حضرت ابراہیم نے نمرود سے جو گفتگو کی اس سے انبیاء کا طریقِ دعوت معلوم ہوتا ہے۔ نمرود کے سوال کے جواب میں آنجناب نے فرمایا کہ میرا رب وہ ہے جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے۔ نمرود نے مناظرانہ انداز اختیار کرتے ہوئے کہا کہ موت اور زندگی پر تو میں بھی اختیار رکھتا ہوں۔ جس کو چاہوں مروادوں اور جس کو چاہوں زندہ رہنے دوں۔ آنجناب نمرود کا جواب دے سکتے تھے۔ مگر آپ نے گفتگو کو مناظرہ بنانا پسند نہ کیا۔ اس ليے آپ نے فوراً دوسری مثال پیش کردی جس کے جواب میں نمرود اس قسم کی بات نہ کہہ سکتا تھا جو اس نے پہلی مثال کے جواب میں کہی۔ حضرت ابراہیم کے لیے نمرود حریف نہ تھا۔ بلکہ مدعو کی حیثیت رکھتا تھا اس ليے ان کو یہ سمجھنے میںدیر نہ لگی کہ استدلال کا کون سا حکیمانہ انداز ان کو اختیار کرنا چاہيے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اس ليے اس کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ ایک هی چیز کو آدمی دو مختلف معنوں میں لے سکے۔ مثلاً ایک شخص کے پاس دولت اور اقتدار آجائے تو وہ اس کو ایسے رخ سے دیکھ سکتا ہے کہ اس کی کامیابی اس کو اپنی صلاحیتوں کا نتیجہ نظر آئے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس کو ایسے رخ سے دیکھے کہ اس کو محسوس ہو کہ جو کچھ اس کو ملا ہے وہ سراسر خدا کا انعام ہے۔ پہلی صورت ظلم کی صورت ہے، اور دوسری شکر کی صورت۔ جس شخص کے اندر ظالمانہ مزاج ہو اس کے لیے موجودہ دنیا صرف گمراہی کی خوراک ہوگی۔ اس کو ہر واقعہ میں گھمنڈ اور خود پسندی کی غذا ملے گی۔ اس کے برعکس، جس کے اندر شکر کا مزاج ہوگا، اس کے لیے ہر واقعہ میں ہدایت کا سامان ہوگا۔ خدا کی دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ اس کے لیے رزق ایمانی کا دستر خوان بن جائے گی۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَانْظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ ۖ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 یہاں موت کے بعد دوبارہ زندہ کيے جانے کے جن دو تجربات کا ذکر ہے ان کا تعلق انبیاء سے ہے۔ پہلا تجربہ غالباً حضرت عزیر کے ساتھ گزرا جن کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ اور دوسرا تجربہ حضرت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ جن کا زمانہ 1985-2160 ق م کے درمیان ہے۔ انبیاء خدا کی طرف سے اس ليے مقرر ہوتے ہیںکہ لوگوں کو غیبی حقائق سے باخبر کریں۔ اس ليے ان کو وہ غیبی چیزیں بے پردہ کرکے دکھا دی جاتی ہیں جن پر دوسروں کے لیے اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ انبیاء کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ اس ليے ہوتاہے تاکہ وہ ان چیزوں کو ذاتی مشاہد بن کر ان کی بابت لوگوں کو با خبر کرسکیں۔ وہ لوگوں کو جن غیبی حقیقتوں کی خبر دیں ان کے متعلق کہہ سکیں کہ ہم ایک دیکھی ہوئی چیز سے تم کو خبردار کررہے ہیں، نہ کہ محض سنی ہوئی چیز سے۔
انبیا ء کو چالیس سال کی عمر میں نبوت دی جاتی ہے۔ نبوت سے پہلے ان کی پوری زندگی لوگوں کے سامنے اس طرح گزرتی ہے کہ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تقریباً نصف صدی تک ماحول کے اندر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دینے کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں کے سامنے ان غیبی حقیقتوں کے اعلان کے لیے کھڑا کرے جن کو آزمائش کی مصلحت کی بنا پر لوگوں سے چھپا دیاگیا ہے۔ ماحول کے یہ سب سے زیادہ سچے لوگ ایک طرف اپنے مشاہدہ سے لوگوں کو باخبر کرتے ہیں اور دوسری طرف عقل اور فطرت کے شواہد سے اس کو مدلل کرتے ہیں۔مزید یہ کہ انبیاء کو ہمیشہ شدید ترین حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرتے نہیںوہ انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ اپنی بات پر جمے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ فرضی طورپر انھوںنے کوئی بات نہیں گھڑ لی ہے۔ کیوں کہ گھڑی ہوئی بات کو پیش کرنے والا کبھی اتنے سخت حالات میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اورنہ اس کی بات خارجی کائنات سے اتنا زیادہ مطابق ہوسکتی ہے کہ وہ سراپا اس کی تصدیق بن جائے۔
۞ إِنَّ اللَّهَ لَا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ
📘 کسی بندہ کے اوپر اللہ کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ عبدیت کے اس عہد کو نبھائے جو پیدا کرنے والے اور پیدا کیے جانے والے کے درمیان اول روز سے قائم ہوچکا ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان وہ اس طرح رہے کہ وہ ان تمام رشتوں اور تعلقات کو پوری طرح استوار کیے ہوئے ہو جن کے استوار کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جب خدا اپنے ایک بندے کی زبان سے اپنے پیغام کا اعلان کرائے تو اس کے خلاف بے بنیاد باتیں نکال کر خدا کے بندوں کو اس سےدور نه كيا جائے۔ حق کی دعوت دینا دراصل لوگوں کو فطری حالت پر لانے کی کوشش کرنا ہے،اس لیے جو شخص لوگوں کو اس سے روکتا ہے وہ زمین میں فساد ڈالنے کا مجرم بنتا ہے۔
اللہ کا یہ احسان کہ وہ آدمی کو عدم سے وجود میں لے آیا، اتنا بڑا احسان ہے کہ آدمی کو ہمہ تن اس کے آگے بچھ جانا چاہیے۔ پھر اللہ نے انسان کو پیداکرکے یونہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کو رہنے کے لیے ایک ایسی زمین دی جو اس کے لیے انتہائی طورپر موافق ڈھنگ سے بنائی گئی تھی۔ پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت آگے کی ہے۔ انسان ہر وقت اس نازک امکان کے کنارے کھڑا ہوا ہے کہ اس کی موت آجائے اور اچانک وہ مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے پیش کردیا جائے۔ ان باتوں کا تقاضا ہے کہ آدمی ہمہ تن اللہ کا ہو جائے، اس کی یاد اور اس کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ ساری عمر وہ اس کا بندہ بنا رہے۔
پیغمبرانہ دعوت کے انتہائی واضح اور مدلّل ہونے کے باوجود کیوں بہت سے لوگ اس کو قبول نہیں کر پاتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شوشه يا غير متعلق (irrelevant)بات نکالنے کا فتنہ ہے۔ آدمی کے اندر نصیحت پکڑنے کا ذہن نہ ہو تو وہ کسی بات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتاایسے آدمی کے سامنے جب بھی کوئی دلیل آتی ہے تو وہ اس کو سطحی طورپر دیکھ کر ایک شوشہ ياغير متعلق بات نکال لیتا ہے۔ اس طرح وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دعوت کوئی معقول دعوت نہیں ہے۔ اگر وہ معقول دعوت ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ اس میں اس قسم کی بے وزن باتیں شامل ہوں۔ مگر جو نصیحت پکڑنے والے ذہن ہیں، جو باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں، ان کو حق کے پہچاننے میں دیر نہیں لگتی، خواہ حق کو ’’مچھر‘‘ جیسی مثالوں ہی میں کیوںنہ بیان کیا گیا ہو۔
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
📘 یہاں موت کے بعد دوبارہ زندہ کيے جانے کے جن دو تجربات کا ذکر ہے ان کا تعلق انبیاء سے ہے۔ پہلا تجربہ غالباً حضرت عزیر کے ساتھ گزرا جن کا زمانہ پانچویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ اور دوسرا تجربہ حضرت ابراہیم سے تعلق رکھتا ہے۔ جن کا زمانہ 1985-2160 ق م کے درمیان ہے۔ انبیاء خدا کی طرف سے اس ليے مقرر ہوتے ہیںکہ لوگوں کو غیبی حقائق سے باخبر کریں۔ اس ليے ان کو وہ غیبی چیزیں بے پردہ کرکے دکھا دی جاتی ہیں جن پر دوسروں کے لیے اسباب کا پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ انبیاء کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ اس ليے ہوتاہے تاکہ وہ ان چیزوں کو ذاتی مشاہد بن کر ان کی بابت لوگوں کو با خبر کرسکیں۔ وہ لوگوں کو جن غیبی حقیقتوں کی خبر دیں ان کے متعلق کہہ سکیں کہ ہم ایک دیکھی ہوئی چیز سے تم کو خبردار کررہے ہیں، نہ کہ محض سنی ہوئی چیز سے۔
انبیا ء کو چالیس سال کی عمر میں نبوت دی جاتی ہے۔ نبوت سے پہلے ان کی پوری زندگی لوگوں کے سامنے اس طرح گزرتی ہے کہ ان سے کسی شخص کو جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوتا۔ تقریباً نصف صدی تک ماحول کے اندر اپنے سچے ہونے کا ثبوت دینے کے بعد وہ وقت آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں کے سامنے ان غیبی حقیقتوں کے اعلان کے لیے کھڑا کرے جن کو آزمائش کی مصلحت کی بنا پر لوگوں سے چھپا دیاگیا ہے۔ ماحول کے یہ سب سے زیادہ سچے لوگ ایک طرف اپنے مشاہدہ سے لوگوں کو باخبر کرتے ہیں اور دوسری طرف عقل اور فطرت کے شواہد سے اس کو مدلل کرتے ہیں۔مزید یہ کہ انبیاء کو ہمیشہ شدید ترین حالات سے سابقہ پیش آتا ہے، اس کے باوجود وہ اپنے قول سے پھرتے نہیںوہ انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ اپنی بات پر جمے رہتے ہیں۔ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں وہ پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ فرضی طورپر انھوںنے کوئی بات نہیں گھڑ لی ہے۔ کیوں کہ گھڑی ہوئی بات کو پیش کرنے والا کبھی اتنے سخت حالات میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اورنہ اس کی بات خارجی کائنات سے اتنا زیادہ مطابق ہوسکتی ہے کہ وہ سراپا اس کی تصدیق بن جائے۔
مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
📘 ہر عمل جو آدمی کرتا ہے وہ گویا ایک بیج ہے جو آدمی ’’زمین‘‘ میں ڈالتا ہے۔ اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ لوگ اسے دیکھیں تو اس نے اپنا بیج دنیا کی زمین میں ڈالا تاکہ یہاں کی زندگی میں اپنے کيے کا پھل پاسکے۔ اور اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ اللہ اس کو ’’دیکھے‘‘ تو اس نے آخرت کی زمین میں اپنا بیج ڈالا جو اگلی دنیا میںاپنے پھول اور پھل کی بہاریں دکھائے۔ دنیا میں ایک دانہ سے ہزار دانے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی حال آخرت کے کھیت میں دانہ ڈالنے کا بھی ہے۔
دنیا کے فائدہ یا دنیا کی شہرت وعزت کے لیے خرچ کرنے والا اسی دنیا میں اپنا معاوضہ لینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ مگر جو شخص اللہ کے لیے خرچ کرے اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی پر احسان نہیں جتاتا، اس نے جب اللہ کے لیے خرچ کیا ہے تو انسان پر اس کا کیا احسان۔ اس کی رقم خرچ ہو کر جن لوگوں تک پہنچتی ہے ان کی طرف سے اس کو اچھا جواب نہ ملے تو وہ ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کو تو اچھا جواب اللہ سے لینا ہے، پھر انسانوں سے ملنےیا نہ ملنے کا اسے کیا غم۔ اگر کسی سائل کو وہ نہیں دے سکتاتو وہ اس سے برُا کلمہ نہیں کہتا۔ بلکہ نرمی کے ساتھ معذرت کردیتاہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے خدا کے سامنے بول رہا ہے۔ خدا کا خوف اس کو انسان کے سامنے اپني زبان كو كنٹرول كرنے پر مجبور کردیتاہے۔
پـتھر کی چٹان کے اوپر کچھ مٹی جم جائے تو بظاہر وہ مٹی دکھائی دے گی۔ مگر بارش کا جھونکا آتے ہی مٹی کی اوپری تہ بہہ جائے گی اور اندر سے خالی پـتھر نکل آئے گا۔ ایسا ہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جو بس اوپری دین داری ليے ہوئے ہو۔ دین اس کے اندر تک داخل نہ ہوا ہو۔ ایسے آدمی سے اگر کوئی سائل بے ڈھنگے انداز سے سوال کردے یا کسی کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے آجائے جو اس کی اَنا پر ضرب لگانے والی ہو تو وہ بپھر کر انصاف کی حدوں کو توڑ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے جو اس کی اوپری ’’مٹی‘‘ کو بہا لے جاتا ہے اور پھر اس کے اندر کا انسان سامنے آجاتا ہے جس کو وہ دین کے ظاہری لبادہ کے پیچھے چھپائے ہوئے تھا— اللہ کے لیے عمل کرنا گویا دیکھے پر اَن دیکھے کو ترجیح دینا ہے جو اس بلند نظری کا ثبوت دے وہی وہ شخص ہے جس پر خدا کی چھپی ہوئی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔
الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى ۙ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 ہر عمل جو آدمی کرتا ہے وہ گویا ایک بیج ہے جو آدمی ’’زمین‘‘ میں ڈالتا ہے۔ اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ لوگ اسے دیکھیں تو اس نے اپنا بیج دنیا کی زمین میں ڈالا تاکہ یہاں کی زندگی میں اپنے کيے کا پھل پاسکے۔ اور اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ اللہ اس کو ’’دیکھے‘‘ تو اس نے آخرت کی زمین میں اپنا بیج ڈالا جو اگلی دنیا میںاپنے پھول اور پھل کی بہاریں دکھائے۔ دنیا میں ایک دانہ سے ہزار دانے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی حال آخرت کے کھیت میں دانہ ڈالنے کا بھی ہے۔
دنیا کے فائدہ یا دنیا کی شہرت وعزت کے لیے خرچ کرنے والا اسی دنیا میں اپنا معاوضہ لینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ مگر جو شخص اللہ کے لیے خرچ کرے اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی پر احسان نہیں جتاتا، اس نے جب اللہ کے لیے خرچ کیا ہے تو انسان پر اس کا کیا احسان۔ اس کی رقم خرچ ہو کر جن لوگوں تک پہنچتی ہے ان کی طرف سے اس کو اچھا جواب نہ ملے تو وہ ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کو تو اچھا جواب اللہ سے لینا ہے، پھر انسانوں سے ملنےیا نہ ملنے کا اسے کیا غم۔ اگر کسی سائل کو وہ نہیں دے سکتاتو وہ اس سے برُا کلمہ نہیں کہتا۔ بلکہ نرمی کے ساتھ معذرت کردیتاہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے خدا کے سامنے بول رہا ہے۔ خدا کا خوف اس کو انسان کے سامنے اپني زبان كو كنٹرول كرنے پر مجبور کردیتاہے۔
پـتھر کی چٹان کے اوپر کچھ مٹی جم جائے تو بظاہر وہ مٹی دکھائی دے گی۔ مگر بارش کا جھونکا آتے ہی مٹی کی اوپری تہ بہہ جائے گی اور اندر سے خالی پـتھر نکل آئے گا۔ ایسا ہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جو بس اوپری دین داری ليے ہوئے ہو۔ دین اس کے اندر تک داخل نہ ہوا ہو۔ ایسے آدمی سے اگر کوئی سائل بے ڈھنگے انداز سے سوال کردے یا کسی کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے آجائے جو اس کی اَنا پر ضرب لگانے والی ہو تو وہ بپھر کر انصاف کی حدوں کو توڑ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے جو اس کی اوپری ’’مٹی‘‘ کو بہا لے جاتا ہے اور پھر اس کے اندر کا انسان سامنے آجاتا ہے جس کو وہ دین کے ظاہری لبادہ کے پیچھے چھپائے ہوئے تھا— اللہ کے لیے عمل کرنا گویا دیکھے پر اَن دیکھے کو ترجیح دینا ہے جو اس بلند نظری کا ثبوت دے وہی وہ شخص ہے جس پر خدا کی چھپی ہوئی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔
۞ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ
📘 ہر عمل جو آدمی کرتا ہے وہ گویا ایک بیج ہے جو آدمی ’’زمین‘‘ میں ڈالتا ہے۔ اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ لوگ اسے دیکھیں تو اس نے اپنا بیج دنیا کی زمین میں ڈالا تاکہ یہاں کی زندگی میں اپنے کيے کا پھل پاسکے۔ اور اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ اللہ اس کو ’’دیکھے‘‘ تو اس نے آخرت کی زمین میں اپنا بیج ڈالا جو اگلی دنیا میںاپنے پھول اور پھل کی بہاریں دکھائے۔ دنیا میں ایک دانہ سے ہزار دانے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی حال آخرت کے کھیت میں دانہ ڈالنے کا بھی ہے۔
دنیا کے فائدہ یا دنیا کی شہرت وعزت کے لیے خرچ کرنے والا اسی دنیا میں اپنا معاوضہ لینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ مگر جو شخص اللہ کے لیے خرچ کرے اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی پر احسان نہیں جتاتا، اس نے جب اللہ کے لیے خرچ کیا ہے تو انسان پر اس کا کیا احسان۔ اس کی رقم خرچ ہو کر جن لوگوں تک پہنچتی ہے ان کی طرف سے اس کو اچھا جواب نہ ملے تو وہ ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کو تو اچھا جواب اللہ سے لینا ہے، پھر انسانوں سے ملنےیا نہ ملنے کا اسے کیا غم۔ اگر کسی سائل کو وہ نہیں دے سکتاتو وہ اس سے برُا کلمہ نہیں کہتا۔ بلکہ نرمی کے ساتھ معذرت کردیتاہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے خدا کے سامنے بول رہا ہے۔ خدا کا خوف اس کو انسان کے سامنے اپني زبان كو كنٹرول كرنے پر مجبور کردیتاہے۔
پـتھر کی چٹان کے اوپر کچھ مٹی جم جائے تو بظاہر وہ مٹی دکھائی دے گی۔ مگر بارش کا جھونکا آتے ہی مٹی کی اوپری تہ بہہ جائے گی اور اندر سے خالی پـتھر نکل آئے گا۔ ایسا ہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جو بس اوپری دین داری ليے ہوئے ہو۔ دین اس کے اندر تک داخل نہ ہوا ہو۔ ایسے آدمی سے اگر کوئی سائل بے ڈھنگے انداز سے سوال کردے یا کسی کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے آجائے جو اس کی اَنا پر ضرب لگانے والی ہو تو وہ بپھر کر انصاف کی حدوں کو توڑ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے جو اس کی اوپری ’’مٹی‘‘ کو بہا لے جاتا ہے اور پھر اس کے اندر کا انسان سامنے آجاتا ہے جس کو وہ دین کے ظاہری لبادہ کے پیچھے چھپائے ہوئے تھا— اللہ کے لیے عمل کرنا گویا دیکھے پر اَن دیکھے کو ترجیح دینا ہے جو اس بلند نظری کا ثبوت دے وہی وہ شخص ہے جس پر خدا کی چھپی ہوئی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ۖ لَا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
📘 ہر عمل جو آدمی کرتا ہے وہ گویا ایک بیج ہے جو آدمی ’’زمین‘‘ میں ڈالتا ہے۔ اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ لوگ اسے دیکھیں تو اس نے اپنا بیج دنیا کی زمین میں ڈالا تاکہ یہاں کی زندگی میں اپنے کيے کا پھل پاسکے۔ اور اگر اس کا عمل اس ليے تھا کہ اللہ اس کو ’’دیکھے‘‘ تو اس نے آخرت کی زمین میں اپنا بیج ڈالا جو اگلی دنیا میںاپنے پھول اور پھل کی بہاریں دکھائے۔ دنیا میں ایک دانہ سے ہزار دانے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی حال آخرت کے کھیت میں دانہ ڈالنے کا بھی ہے۔
دنیا کے فائدہ یا دنیا کی شہرت وعزت کے لیے خرچ کرنے والا اسی دنیا میں اپنا معاوضہ لینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ مگر جو شخص اللہ کے لیے خرچ کرے اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی پر احسان نہیں جتاتا، اس نے جب اللہ کے لیے خرچ کیا ہے تو انسان پر اس کا کیا احسان۔ اس کی رقم خرچ ہو کر جن لوگوں تک پہنچتی ہے ان کی طرف سے اس کو اچھا جواب نہ ملے تو وہ ناراضگی کا اظہار نہیں کرتا۔ اس کو تو اچھا جواب اللہ سے لینا ہے، پھر انسانوں سے ملنےیا نہ ملنے کا اسے کیا غم۔ اگر کسی سائل کو وہ نہیں دے سکتاتو وہ اس سے برُا کلمہ نہیں کہتا۔ بلکہ نرمی کے ساتھ معذرت کردیتاہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ وہ جو کچھ بول رہا ہے خدا کے سامنے بول رہا ہے۔ خدا کا خوف اس کو انسان کے سامنے اپني زبان كو كنٹرول كرنے پر مجبور کردیتاہے۔
پـتھر کی چٹان کے اوپر کچھ مٹی جم جائے تو بظاہر وہ مٹی دکھائی دے گی۔ مگر بارش کا جھونکا آتے ہی مٹی کی اوپری تہ بہہ جائے گی اور اندر سے خالی پـتھر نکل آئے گا۔ ایسا ہی حال اس انسان کا ہوتا ہے جو بس اوپری دین داری ليے ہوئے ہو۔ دین اس کے اندر تک داخل نہ ہوا ہو۔ ایسے آدمی سے اگر کوئی سائل بے ڈھنگے انداز سے سوال کردے یا کسی کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے آجائے جو اس کی اَنا پر ضرب لگانے والی ہو تو وہ بپھر کر انصاف کی حدوں کو توڑ دیتا ہے۔ ایسا ایک واقعہ ایک ایسا طوفان بن جاتا ہے جو اس کی اوپری ’’مٹی‘‘ کو بہا لے جاتا ہے اور پھر اس کے اندر کا انسان سامنے آجاتا ہے جس کو وہ دین کے ظاہری لبادہ کے پیچھے چھپائے ہوئے تھا— اللہ کے لیے عمل کرنا گویا دیکھے پر اَن دیکھے کو ترجیح دینا ہے جو اس بلند نظری کا ثبوت دے وہی وہ شخص ہے جس پر خدا کی چھپی ہوئی معرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔
وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
📘 آدمی جب کسی چیز کے لیے عمل کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس کے حق میں اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرتاہے۔ اگر وہ اپنی خواہش کے تحت عمل کرے تو اس نے اپنے دل کو اپنی خواہش پر جمایا۔ اس کے برعکس آدمی اگر وہاں عمل کرے جہاں خدا چاہتا ہے کہ عمل کیا جائے تو اس نے اپنے دل کو خدا پر جمایا۔ دونوں راہوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کبھی آسان حالات میں عمل کرنا ہوتا ہے اور کبھی مشکل حالات میں۔ تاہم مواقع جتنے شدید ہوں، آدمی کوجتنا زیادہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا عمل کرنا پڑے اتنا ہی زیادہ وہ اپنے پیش نظر مقصد کے حق میں اپنے ارادہ کو مستحکم کرے گا۔ عام حالات میں اللہ کی راہ میں اپنے اثاثہ کو خرچ کرنا بھی باعثِ ثواب ہے۔ مگر جب مخالف اسباب کی وجہ سے خصوصی قوت ارادی کو استعمال کرکے آدمی اللہ کی راہ میں اپنا اثاثہ دے تو اس کا ثواب اللہ کے یہاں بہت زیادہ ہے — جس مدمیں خرچ کرنا دنیوی اعتبار سے بے فائدہ ہو اس میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا، جس کو دینے کا دل نہ چاہے اس کو اللہ کے لیے دینا، جس سے خوش معاملگی پر طبیعت آمادہ نہ ہو اس سے اللہ کی خاطر خوش معاملگی کرنا، وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو سب سے زیادہ خدا پرستی پر جماتی ہیں اور اس کو خدا کی خصوصی رحمت و نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔
آدمی جوانی کی عمر میں باغ لگاتا ہے تاکہ بڑھاپے کی عمر میں اس کا پھل کھائے۔ پھر وہ شخص کیسا بدنصیب ہے جس کا ہرا بھرا باغ اس کی آخر عمر میںعین اس وقت برباد ہوجائے جب کہ وہ سب سے زیادہ اس کا محتاج ہو اور اس کے لیے وہ وقت بھی ختم ہوچکا ہو جب کہ وہ دوبارہ نیا باغ لگائے اور اس کو از سر نو تیار کرے۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جنھوںنے دین کا کام دنیوی عزت ومنفعت کے لیے کیا۔ وہ بظاہر نیکی اور بھلائی کا کام کرتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف شکلا ً ہی عام دنیاداروں سے مختلف تھا۔ باعتبار حقیقت دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ عام دنیادار جس دنیوی ترقی اور ناموری کے لیے دنیوی نقشوں میں دوڑ دھوپ کررہے تھے، اسی دنیوی ترقی اور ناموری کے لیے انھوںنے دینی نقشوں میں دوڑ دھوپ جاری کردی۔ جو شہرت وعزت دوسرے لوگ دنیا کی عمارت میں اپنا اثاثہ خرچ کرکے حاصل کررہے تھے، اسی شہرت وعزت کو انھوں نے دین کی عمارت میں اپنا اثاثہ خرچ کرکے حاصل کرنا چاہا۔ ایسے لوگ جب مرنے کے بعد آخرت کے عالم میں پہنچیں گے تو وہاں ان کے لیے کچھ نہ ہوگا۔ انھوںنے جو کچھ کیا اِسی دنیا کے لیے کیا۔ پھر وہ اپنے کيے کا پھل اگلی دنیا میں کس طرح پاسکتے ہیں— خدا کی نشانیاں ہمیشہ ظاہر ہوتی ہیں۔ مگر وہ خاموش زبان میں ہوتی ہیں۔ ان سے وہی سبق لے سکتا ہے جو اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہو۔
أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
📘 آدمی جب کسی چیز کے لیے عمل کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ اس کے حق میں اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرتاہے۔ اگر وہ اپنی خواہش کے تحت عمل کرے تو اس نے اپنے دل کو اپنی خواہش پر جمایا۔ اس کے برعکس آدمی اگر وہاں عمل کرے جہاں خدا چاہتا ہے کہ عمل کیا جائے تو اس نے اپنے دل کو خدا پر جمایا۔ دونوں راہوں میں ایسا ہوتا ہے کہ کبھی آسان حالات میں عمل کرنا ہوتا ہے اور کبھی مشکل حالات میں۔ تاہم مواقع جتنے شدید ہوں، آدمی کوجتنا زیادہ مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنا عمل کرنا پڑے اتنا ہی زیادہ وہ اپنے پیش نظر مقصد کے حق میں اپنے ارادہ کو مستحکم کرے گا۔ عام حالات میں اللہ کی راہ میں اپنے اثاثہ کو خرچ کرنا بھی باعثِ ثواب ہے۔ مگر جب مخالف اسباب کی وجہ سے خصوصی قوت ارادی کو استعمال کرکے آدمی اللہ کی راہ میں اپنا اثاثہ دے تو اس کا ثواب اللہ کے یہاں بہت زیادہ ہے — جس مدمیں خرچ کرنا دنیوی اعتبار سے بے فائدہ ہو اس میں اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرنا، جس کو دینے کا دل نہ چاہے اس کو اللہ کے لیے دینا، جس سے خوش معاملگی پر طبیعت آمادہ نہ ہو اس سے اللہ کی خاطر خوش معاملگی کرنا، وہ چیزیں ہیں جو آدمی کو سب سے زیادہ خدا پرستی پر جماتی ہیں اور اس کو خدا کی خصوصی رحمت و نصرت کا مستحق بناتی ہیں۔
آدمی جوانی کی عمر میں باغ لگاتا ہے تاکہ بڑھاپے کی عمر میں اس کا پھل کھائے۔ پھر وہ شخص کیسا بدنصیب ہے جس کا ہرا بھرا باغ اس کی آخر عمر میںعین اس وقت برباد ہوجائے جب کہ وہ سب سے زیادہ اس کا محتاج ہو اور اس کے لیے وہ وقت بھی ختم ہوچکا ہو جب کہ وہ دوبارہ نیا باغ لگائے اور اس کو از سر نو تیار کرے۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جنھوںنے دین کا کام دنیوی عزت ومنفعت کے لیے کیا۔ وہ بظاہر نیکی اور بھلائی کا کام کرتے رہے۔ مگر ان کا کام صرف شکلا ً ہی عام دنیاداروں سے مختلف تھا۔ باعتبار حقیقت دونوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ عام دنیادار جس دنیوی ترقی اور ناموری کے لیے دنیوی نقشوں میں دوڑ دھوپ کررہے تھے، اسی دنیوی ترقی اور ناموری کے لیے انھوںنے دینی نقشوں میں دوڑ دھوپ جاری کردی۔ جو شہرت وعزت دوسرے لوگ دنیا کی عمارت میں اپنا اثاثہ خرچ کرکے حاصل کررہے تھے، اسی شہرت وعزت کو انھوں نے دین کی عمارت میں اپنا اثاثہ خرچ کرکے حاصل کرنا چاہا۔ ایسے لوگ جب مرنے کے بعد آخرت کے عالم میں پہنچیں گے تو وہاں ان کے لیے کچھ نہ ہوگا۔ انھوںنے جو کچھ کیا اِسی دنیا کے لیے کیا۔ پھر وہ اپنے کيے کا پھل اگلی دنیا میں کس طرح پاسکتے ہیں— خدا کی نشانیاں ہمیشہ ظاہر ہوتی ہیں۔ مگر وہ خاموش زبان میں ہوتی ہیں۔ ان سے وہی سبق لے سکتا ہے جو اپنے اندر سوچنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
📘 آدمی دنیا میں جو کچھ کماتا ہے اس کو خرچ کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو شیطان کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو اللہ کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ شیطان یہ کرتا ہے کہ آدمی کے ذاتی تقاضوں کی اہمیت اس کے دل میں بٹھاتا ہے۔ وہ اس کو سکھاتا ہے کہ تم نے جو کچھ کمایا ہے اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس کو اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگاؤ۔ پھر جب شیطان دیکھتا ہے کہ آدمی کے پاس اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو وہ اس کے اندر ایک اور جذبہ بھڑکا دیتاہے۔ یہ نمود و نمائش کا جذبہ ہے۔ اب وہ اپنی دولت کو بے دریغ نمائشی کاموں میں بہانے لگتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس نے اپنی دولت کو بہترین مصرف میں لگایا۔
آدمی کو چاہيے کہ اپنے مال کو اپنی ذاتی چیز نہ سمجھے بلکہ اللہ کی چیز سمجھے۔ وہ اپنی کمائی میں سے اپنی حقیقی ضرورت کے بقدر لے لے اور اس کے بعد جو کچھ ہے اس کو بلند تر مقاصد میں لگائے۔ وہ خدا کے کمزور بندوں کو دے اور خدا کے دین کی ضرورتوں میں خرچ کرے۔ آدمی جب اللہ کے کمزور بندوں پر اپنا مال خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے اس بات کا امیدوار بن رہا ہوتا ہے کہ آخرت میں جب وہ خالی ہاتھ خداکے سامنے حاضر ہو تو اس کا خدا اس کو اپنی رحمتوں سے محروم نہ کرے۔ اسی طرح جب وہ دین کی ضرورتوں میں اپنا مال دیتاہے تو وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں شریک کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے مال میں شامل کرتاہے تاکہ اس کی حقیر پونجی خدا کے بڑے خزانہ میں مل کر زیادہ ہوجائے۔
جو شخص اپنے مال کو اللہ کے بتائے هوئے طریقے کے مطابق خرچ کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کو حکمت ودانائی میں سے حصہ ملا ہے۔ سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ آدمی مال کی محبت میں مبتلا ہو اور اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے رک جائے اور سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ اقتصادی مفادات آدمی کے لیے اللہ کی راہ میں بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا میں اتنا ملا دے کہ خدا کو اپنا اور اپنے کو خدا کا سمجھنے لگے۔ جو شخص ذاتی مصلحتوں کے خول میں جیتا ہے اس کے اندر وہ نگاہ پیدا نہیں ہوسکتی جو بلند تر حقیقتوں کو دیکھے اور اعلیٰ کیفیات کا تجربہ کرے۔ اس کے برعکس، جو شخص ذاتی مصلحتوں کو نظر انداز کرکے خدا کی طرف بڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو محدودیتوں سے اوپر اٹھاتا ہے، وہ اپنے شعور کو اس خدا کے ہم سطح کرلیتاہے جو غنی وحمید اور وسیع وعلیم ہے۔ وہ چیزوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ ان حد بندیوں کے پار ہوجاتا ہے جو آدمی کے لیے کسی چیز کو اس کے اصلی روپ میں دیکھنے میں رکاوٹ بنتی ہیں — کوئی بات خواہ کتنی ہی سچی ہو مگر اس کی سچائی کسی آدمی پر اسی وقت کھلتی ہے جب کہ وہ اس کو کھلے ذہن سے دیکھ سکے۔
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
📘 آدمی دنیا میں جو کچھ کماتا ہے اس کو خرچ کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو شیطان کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو اللہ کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ شیطان یہ کرتا ہے کہ آدمی کے ذاتی تقاضوں کی اہمیت اس کے دل میں بٹھاتا ہے۔ وہ اس کو سکھاتا ہے کہ تم نے جو کچھ کمایا ہے اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس کو اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگاؤ۔ پھر جب شیطان دیکھتا ہے کہ آدمی کے پاس اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو وہ اس کے اندر ایک اور جذبہ بھڑکا دیتاہے۔ یہ نمود و نمائش کا جذبہ ہے۔ اب وہ اپنی دولت کو بے دریغ نمائشی کاموں میں بہانے لگتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس نے اپنی دولت کو بہترین مصرف میں لگایا۔
آدمی کو چاہيے کہ اپنے مال کو اپنی ذاتی چیز نہ سمجھے بلکہ اللہ کی چیز سمجھے۔ وہ اپنی کمائی میں سے اپنی حقیقی ضرورت کے بقدر لے لے اور اس کے بعد جو کچھ ہے اس کو بلند تر مقاصد میں لگائے۔ وہ خدا کے کمزور بندوں کو دے اور خدا کے دین کی ضرورتوں میں خرچ کرے۔ آدمی جب اللہ کے کمزور بندوں پر اپنا مال خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے اس بات کا امیدوار بن رہا ہوتا ہے کہ آخرت میں جب وہ خالی ہاتھ خداکے سامنے حاضر ہو تو اس کا خدا اس کو اپنی رحمتوں سے محروم نہ کرے۔ اسی طرح جب وہ دین کی ضرورتوں میں اپنا مال دیتاہے تو وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں شریک کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے مال میں شامل کرتاہے تاکہ اس کی حقیر پونجی خدا کے بڑے خزانہ میں مل کر زیادہ ہوجائے۔
جو شخص اپنے مال کو اللہ کے بتائے هوئے طریقے کے مطابق خرچ کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کو حکمت ودانائی میں سے حصہ ملا ہے۔ سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ آدمی مال کی محبت میں مبتلا ہو اور اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے رک جائے اور سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ اقتصادی مفادات آدمی کے لیے اللہ کی راہ میں بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا میں اتنا ملا دے کہ خدا کو اپنا اور اپنے کو خدا کا سمجھنے لگے۔ جو شخص ذاتی مصلحتوں کے خول میں جیتا ہے اس کے اندر وہ نگاہ پیدا نہیں ہوسکتی جو بلند تر حقیقتوں کو دیکھے اور اعلیٰ کیفیات کا تجربہ کرے۔ اس کے برعکس، جو شخص ذاتی مصلحتوں کو نظر انداز کرکے خدا کی طرف بڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو محدودیتوں سے اوپر اٹھاتا ہے، وہ اپنے شعور کو اس خدا کے ہم سطح کرلیتاہے جو غنی وحمید اور وسیع وعلیم ہے۔ وہ چیزوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ ان حد بندیوں کے پار ہوجاتا ہے جو آدمی کے لیے کسی چیز کو اس کے اصلی روپ میں دیکھنے میں رکاوٹ بنتی ہیں — کوئی بات خواہ کتنی ہی سچی ہو مگر اس کی سچائی کسی آدمی پر اسی وقت کھلتی ہے جب کہ وہ اس کو کھلے ذہن سے دیکھ سکے۔
يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ
📘 آدمی دنیا میں جو کچھ کماتا ہے اس کو خرچ کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو شیطان کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ اس کو اللہ کے بتائے ہوئے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ شیطان یہ کرتا ہے کہ آدمی کے ذاتی تقاضوں کی اہمیت اس کے دل میں بٹھاتا ہے۔ وہ اس کو سکھاتا ہے کہ تم نے جو کچھ کمایا ہے اس کا بہترین مصرف یہ ہے کہ اس کو اپنی ذاتی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگاؤ۔ پھر جب شیطان دیکھتا ہے کہ آدمی کے پاس اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ مال ہے تو وہ اس کے اندر ایک اور جذبہ بھڑکا دیتاہے۔ یہ نمود و نمائش کا جذبہ ہے۔ اب وہ اپنی دولت کو بے دریغ نمائشی کاموں میں بہانے لگتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ اس نے اپنی دولت کو بہترین مصرف میں لگایا۔
آدمی کو چاہيے کہ اپنے مال کو اپنی ذاتی چیز نہ سمجھے بلکہ اللہ کی چیز سمجھے۔ وہ اپنی کمائی میں سے اپنی حقیقی ضرورت کے بقدر لے لے اور اس کے بعد جو کچھ ہے اس کو بلند تر مقاصد میں لگائے۔ وہ خدا کے کمزور بندوں کو دے اور خدا کے دین کی ضرورتوں میں خرچ کرے۔ آدمی جب اللہ کے کمزور بندوں پر اپنا مال خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے اس بات کا امیدوار بن رہا ہوتا ہے کہ آخرت میں جب وہ خالی ہاتھ خداکے سامنے حاضر ہو تو اس کا خدا اس کو اپنی رحمتوں سے محروم نہ کرے۔ اسی طرح جب وہ دین کی ضرورتوں میں اپنا مال دیتاہے تو وہ اپنے آپ کو خدا کے مشن میں شریک کرتاہے۔ وہ اپنے مال کو خدا کے مال میں شامل کرتاہے تاکہ اس کی حقیر پونجی خدا کے بڑے خزانہ میں مل کر زیادہ ہوجائے۔
جو شخص اپنے مال کو اللہ کے بتائے هوئے طریقے کے مطابق خرچ کرتا ہے وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ اس کو حکمت ودانائی میں سے حصہ ملا ہے۔ سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ آدمی مال کی محبت میں مبتلا ہو اور اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے رک جائے اور سب سے بڑی دانائی یہ ہے کہ اقتصادی مفادات آدمی کے لیے اللہ کی راہ میں بڑھنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ وہ اپنے آپ کو خدا میں اتنا ملا دے کہ خدا کو اپنا اور اپنے کو خدا کا سمجھنے لگے۔ جو شخص ذاتی مصلحتوں کے خول میں جیتا ہے اس کے اندر وہ نگاہ پیدا نہیں ہوسکتی جو بلند تر حقیقتوں کو دیکھے اور اعلیٰ کیفیات کا تجربہ کرے۔ اس کے برعکس، جو شخص ذاتی مصلحتوں کو نظر انداز کرکے خدا کی طرف بڑھتا ہے وہ اپنے آپ کو محدودیتوں سے اوپر اٹھاتا ہے، وہ اپنے شعور کو اس خدا کے ہم سطح کرلیتاہے جو غنی وحمید اور وسیع وعلیم ہے۔ وہ چیزوں کو ان کے اصلی روپ میں دیکھنے لگتا ہے۔ کیوں کہ وہ ان حد بندیوں کے پار ہوجاتا ہے جو آدمی کے لیے کسی چیز کو اس کے اصلی روپ میں دیکھنے میں رکاوٹ بنتی ہیں — کوئی بات خواہ کتنی ہی سچی ہو مگر اس کی سچائی کسی آدمی پر اسی وقت کھلتی ہے جب کہ وہ اس کو کھلے ذہن سے دیکھ سکے۔
الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
📘 کسی بندہ کے اوپر اللہ کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ عبدیت کے اس عہد کو نبھائے جو پیدا کرنے والے اور پیدا کیے جانے والے کے درمیان اول روز سے قائم ہوچکا ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان وہ اس طرح رہے کہ وہ ان تمام رشتوں اور تعلقات کو پوری طرح استوار کیے ہوئے ہو جن کے استوار کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جب خدا اپنے ایک بندے کی زبان سے اپنے پیغام کا اعلان کرائے تو اس کے خلاف بے بنیاد باتیں نکال کر خدا کے بندوں کو اس سےدور نه كيا جائے۔ حق کی دعوت دینا دراصل لوگوں کو فطری حالت پر لانے کی کوشش کرنا ہے،اس لیے جو شخص لوگوں کو اس سے روکتا ہے وہ زمین میں فساد ڈالنے کا مجرم بنتا ہے۔
اللہ کا یہ احسان کہ وہ آدمی کو عدم سے وجود میں لے آیا، اتنا بڑا احسان ہے کہ آدمی کو ہمہ تن اس کے آگے بچھ جانا چاہیے۔ پھر اللہ نے انسان کو پیداکرکے یونہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کو رہنے کے لیے ایک ایسی زمین دی جو اس کے لیے انتہائی طورپر موافق ڈھنگ سے بنائی گئی تھی۔ پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت آگے کی ہے۔ انسان ہر وقت اس نازک امکان کے کنارے کھڑا ہوا ہے کہ اس کی موت آجائے اور اچانک وہ مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے پیش کردیا جائے۔ ان باتوں کا تقاضا ہے کہ آدمی ہمہ تن اللہ کا ہو جائے، اس کی یاد اور اس کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ ساری عمر وہ اس کا بندہ بنا رہے۔
پیغمبرانہ دعوت کے انتہائی واضح اور مدلّل ہونے کے باوجود کیوں بہت سے لوگ اس کو قبول نہیں کر پاتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شوشه يا غير متعلق (irrelevant)بات نکالنے کا فتنہ ہے۔ آدمی کے اندر نصیحت پکڑنے کا ذہن نہ ہو تو وہ کسی بات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتاایسے آدمی کے سامنے جب بھی کوئی دلیل آتی ہے تو وہ اس کو سطحی طورپر دیکھ کر ایک شوشہ ياغير متعلق بات نکال لیتا ہے۔ اس طرح وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دعوت کوئی معقول دعوت نہیں ہے۔ اگر وہ معقول دعوت ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ اس میں اس قسم کی بے وزن باتیں شامل ہوں۔ مگر جو نصیحت پکڑنے والے ذہن ہیں، جو باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں، ان کو حق کے پہچاننے میں دیر نہیں لگتی، خواہ حق کو ’’مچھر‘‘ جیسی مثالوں ہی میں کیوںنہ بیان کیا گیا ہو۔
وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ ۗ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ
📘 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سب سے بڑی مد یہ ہے کہ ان دینی خادموں کی مالی مدد کی جائے جو دین کی جدوجہد میں اپنے کو ہمہ تن لگا دینے کی وجہ سے بے معاش ہوگئے ہوں۔ایک کامیاب تاجر کے پاس کسی دوسرے کام کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ٹھیک یہی معاملہ خدمت دین کا ہے۔ جو شخص یک سوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگائے اس کے پاس معاشی جدوجہد کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ ہر کام کی اپنی ایک فطرت ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ آدمی کا ذہن ایک خاص ڈھنگ پر بناتاہے جو شخص تجارت میں لگتاہے اس کے اندر دھیرے دھیرے تجارتی مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ تجارت کی راہ کی باریکیاں فوراً اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جب کہ وہی آدمی دین کے راستہ کی باتوں کو گہرائی کے ساتھ پکڑ نہیں پاتا۔ یہی معاملہ برعکس صورت میں دين كي خدمت كرنے والے کا ہوتا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو۔ کیوں کہ کسی معاشرہ میں دونوں قسم کے کاموں کا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس معاشی وسائل جمع ہوگئے ہیں اس میں وہ ان لوگوں کا حصہ بھي لگائیں جو دینی مصروفیت کی وجہ سے اپنی معاشیات فراہم نہ کرسکے۔ یہ گویا ایک طرح کی خاموش تقسیم کار ہے جو طرفین کے درمیان خالص رضائے الٰہی کے لیے وقوع میںآتی ہے۔ خادم دین نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کیا تھا، اس ليے وہ انسان سے نہیں مانگتا اور نہ اس سے پانے کا امیدوار رہتاهے۔ دوسری طرف صاحب معاش یہ سوچتاہے کہ میرے پاس معاشی وسائل اس قیمت پر آئے ہیں کہ میں دین کی راہ میں وہ خدمت نہ کرسکا جو مجھ کو کرنا چاہيے تھا۔ اس ليے اس کی تلافی كي صورت يہ ہے کہ میں اپنے مال میںاپنے ان بھائیوں کا حصہ لگاؤں جو گویا میری کمی کی تلافی خداکے یہاں کررہے ہیں۔
جب دین کی جدوجہد اس مرحلہ میں ہو کہ دین کے نام پر معاشی عہدے نہ ملتے ہوں، جب دین کی راہ میں لگنے والا آدمی بے روزگار ہوجائے، اس وقت دین کے خادموں کو اپنا مال دینا بظاہر ماحول کے ایک غیراہم طبقہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ ایسے افراد پر خرچ کرنا مجلسوں میں قابل تذکرہ نہیںہوتا۔ وہ آدمی کی حیثیت اور ناموری میں اضافہ نہیں کرتا۔ مگر یہی وہ خرچ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتاہے۔
إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ
📘 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سب سے بڑی مد یہ ہے کہ ان دینی خادموں کی مالی مدد کی جائے جو دین کی جدوجہد میں اپنے کو ہمہ تن لگا دینے کی وجہ سے بے معاش ہوگئے ہوں۔ایک کامیاب تاجر کے پاس کسی دوسرے کام کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ٹھیک یہی معاملہ خدمت دین کا ہے۔ جو شخص یک سوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگائے اس کے پاس معاشی جدوجہد کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ ہر کام کی اپنی ایک فطرت ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ آدمی کا ذہن ایک خاص ڈھنگ پر بناتاہے جو شخص تجارت میں لگتاہے اس کے اندر دھیرے دھیرے تجارتی مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ تجارت کی راہ کی باریکیاں فوراً اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جب کہ وہی آدمی دین کے راستہ کی باتوں کو گہرائی کے ساتھ پکڑ نہیں پاتا۔ یہی معاملہ برعکس صورت میں دين كي خدمت كرنے والے کا ہوتا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو۔ کیوں کہ کسی معاشرہ میں دونوں قسم کے کاموں کا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس معاشی وسائل جمع ہوگئے ہیں اس میں وہ ان لوگوں کا حصہ بھي لگائیں جو دینی مصروفیت کی وجہ سے اپنی معاشیات فراہم نہ کرسکے۔ یہ گویا ایک طرح کی خاموش تقسیم کار ہے جو طرفین کے درمیان خالص رضائے الٰہی کے لیے وقوع میںآتی ہے۔ خادم دین نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کیا تھا، اس ليے وہ انسان سے نہیں مانگتا اور نہ اس سے پانے کا امیدوار رہتاهے۔ دوسری طرف صاحب معاش یہ سوچتاہے کہ میرے پاس معاشی وسائل اس قیمت پر آئے ہیں کہ میں دین کی راہ میں وہ خدمت نہ کرسکا جو مجھ کو کرنا چاہيے تھا۔ اس ليے اس کی تلافی كي صورت يہ ہے کہ میں اپنے مال میںاپنے ان بھائیوں کا حصہ لگاؤں جو گویا میری کمی کی تلافی خداکے یہاں کررہے ہیں۔
جب دین کی جدوجہد اس مرحلہ میں ہو کہ دین کے نام پر معاشی عہدے نہ ملتے ہوں، جب دین کی راہ میں لگنے والا آدمی بے روزگار ہوجائے، اس وقت دین کے خادموں کو اپنا مال دینا بظاہر ماحول کے ایک غیراہم طبقہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ ایسے افراد پر خرچ کرنا مجلسوں میں قابل تذکرہ نہیںہوتا۔ وہ آدمی کی حیثیت اور ناموری میں اضافہ نہیں کرتا۔ مگر یہی وہ خرچ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتاہے۔
۞ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۗ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلِأَنْفُسِكُمْ ۚ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ ۚ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ
📘 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سب سے بڑی مد یہ ہے کہ ان دینی خادموں کی مالی مدد کی جائے جو دین کی جدوجہد میں اپنے کو ہمہ تن لگا دینے کی وجہ سے بے معاش ہوگئے ہوں۔ایک کامیاب تاجر کے پاس کسی دوسرے کام کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ٹھیک یہی معاملہ خدمت دین کا ہے۔ جو شخص یک سوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگائے اس کے پاس معاشی جدوجہد کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ ہر کام کی اپنی ایک فطرت ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ آدمی کا ذہن ایک خاص ڈھنگ پر بناتاہے جو شخص تجارت میں لگتاہے اس کے اندر دھیرے دھیرے تجارتی مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ تجارت کی راہ کی باریکیاں فوراً اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جب کہ وہی آدمی دین کے راستہ کی باتوں کو گہرائی کے ساتھ پکڑ نہیں پاتا۔ یہی معاملہ برعکس صورت میں دين كي خدمت كرنے والے کا ہوتا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو۔ کیوں کہ کسی معاشرہ میں دونوں قسم کے کاموں کا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس معاشی وسائل جمع ہوگئے ہیں اس میں وہ ان لوگوں کا حصہ بھي لگائیں جو دینی مصروفیت کی وجہ سے اپنی معاشیات فراہم نہ کرسکے۔ یہ گویا ایک طرح کی خاموش تقسیم کار ہے جو طرفین کے درمیان خالص رضائے الٰہی کے لیے وقوع میںآتی ہے۔ خادم دین نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کیا تھا، اس ليے وہ انسان سے نہیں مانگتا اور نہ اس سے پانے کا امیدوار رہتاهے۔ دوسری طرف صاحب معاش یہ سوچتاہے کہ میرے پاس معاشی وسائل اس قیمت پر آئے ہیں کہ میں دین کی راہ میں وہ خدمت نہ کرسکا جو مجھ کو کرنا چاہيے تھا۔ اس ليے اس کی تلافی كي صورت يہ ہے کہ میں اپنے مال میںاپنے ان بھائیوں کا حصہ لگاؤں جو گویا میری کمی کی تلافی خداکے یہاں کررہے ہیں۔
جب دین کی جدوجہد اس مرحلہ میں ہو کہ دین کے نام پر معاشی عہدے نہ ملتے ہوں، جب دین کی راہ میں لگنے والا آدمی بے روزگار ہوجائے، اس وقت دین کے خادموں کو اپنا مال دینا بظاہر ماحول کے ایک غیراہم طبقہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ ایسے افراد پر خرچ کرنا مجلسوں میں قابل تذکرہ نہیںہوتا۔ وہ آدمی کی حیثیت اور ناموری میں اضافہ نہیں کرتا۔ مگر یہی وہ خرچ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتاہے۔
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ۗ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ
📘 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سب سے بڑی مد یہ ہے کہ ان دینی خادموں کی مالی مدد کی جائے جو دین کی جدوجہد میں اپنے کو ہمہ تن لگا دینے کی وجہ سے بے معاش ہوگئے ہوں۔ایک کامیاب تاجر کے پاس کسی دوسرے کام کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ٹھیک یہی معاملہ خدمت دین کا ہے۔ جو شخص یک سوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگائے اس کے پاس معاشی جدوجہد کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ ہر کام کی اپنی ایک فطرت ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ آدمی کا ذہن ایک خاص ڈھنگ پر بناتاہے جو شخص تجارت میں لگتاہے اس کے اندر دھیرے دھیرے تجارتی مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ تجارت کی راہ کی باریکیاں فوراً اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جب کہ وہی آدمی دین کے راستہ کی باتوں کو گہرائی کے ساتھ پکڑ نہیں پاتا۔ یہی معاملہ برعکس صورت میں دين كي خدمت كرنے والے کا ہوتا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو۔ کیوں کہ کسی معاشرہ میں دونوں قسم کے کاموں کا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس معاشی وسائل جمع ہوگئے ہیں اس میں وہ ان لوگوں کا حصہ بھي لگائیں جو دینی مصروفیت کی وجہ سے اپنی معاشیات فراہم نہ کرسکے۔ یہ گویا ایک طرح کی خاموش تقسیم کار ہے جو طرفین کے درمیان خالص رضائے الٰہی کے لیے وقوع میںآتی ہے۔ خادم دین نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کیا تھا، اس ليے وہ انسان سے نہیں مانگتا اور نہ اس سے پانے کا امیدوار رہتاهے۔ دوسری طرف صاحب معاش یہ سوچتاہے کہ میرے پاس معاشی وسائل اس قیمت پر آئے ہیں کہ میں دین کی راہ میں وہ خدمت نہ کرسکا جو مجھ کو کرنا چاہيے تھا۔ اس ليے اس کی تلافی كي صورت يہ ہے کہ میں اپنے مال میںاپنے ان بھائیوں کا حصہ لگاؤں جو گویا میری کمی کی تلافی خداکے یہاں کررہے ہیں۔
جب دین کی جدوجہد اس مرحلہ میں ہو کہ دین کے نام پر معاشی عہدے نہ ملتے ہوں، جب دین کی راہ میں لگنے والا آدمی بے روزگار ہوجائے، اس وقت دین کے خادموں کو اپنا مال دینا بظاہر ماحول کے ایک غیراہم طبقہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ ایسے افراد پر خرچ کرنا مجلسوں میں قابل تذکرہ نہیںہوتا۔ وہ آدمی کی حیثیت اور ناموری میں اضافہ نہیں کرتا۔ مگر یہی وہ خرچ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتاہے۔
الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَعَلَانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی سب سے بڑی مد یہ ہے کہ ان دینی خادموں کی مالی مدد کی جائے جو دین کی جدوجہد میں اپنے کو ہمہ تن لگا دینے کی وجہ سے بے معاش ہوگئے ہوں۔ایک کامیاب تاجر کے پاس کسی دوسرے کام کے لیے وقت نہیں رہتا۔ ٹھیک یہی معاملہ خدمت دین کا ہے۔ جو شخص یک سوئی کے ساتھ اپنے آپ کو دین کی خدمت میں لگائے اس کے پاس معاشی جدوجہد کے لیے وقت نہیں رہے گا۔ مزید یہ کہ ہر کام کی اپنی ایک فطرت ہے اور اپنی فطرت کے لحاظ سے وہ آدمی کا ذہن ایک خاص ڈھنگ پر بناتاہے جو شخص تجارت میں لگتاہے اس کے اندر دھیرے دھیرے تجارتی مزاج پیدا ہوجاتاہے۔ تجارت کی راہ کی باریکیاں فوراً اس کی سمجھ میں آجاتی ہیں۔ جب کہ وہی آدمی دین کے راستہ کی باتوں کو گہرائی کے ساتھ پکڑ نہیں پاتا۔ یہی معاملہ برعکس صورت میں دين كي خدمت كرنے والے کا ہوتا ہے۔ اب اس کا حل کیا ہو۔ کیوں کہ کسی معاشرہ میں دونوں قسم کے کاموں کا ہونا ضروری ہے۔ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس معاشی وسائل جمع ہوگئے ہیں اس میں وہ ان لوگوں کا حصہ بھي لگائیں جو دینی مصروفیت کی وجہ سے اپنی معاشیات فراہم نہ کرسکے۔ یہ گویا ایک طرح کی خاموش تقسیم کار ہے جو طرفین کے درمیان خالص رضائے الٰہی کے لیے وقوع میںآتی ہے۔ خادم دین نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے یکسو کیا تھا، اس ليے وہ انسان سے نہیں مانگتا اور نہ اس سے پانے کا امیدوار رہتاهے۔ دوسری طرف صاحب معاش یہ سوچتاہے کہ میرے پاس معاشی وسائل اس قیمت پر آئے ہیں کہ میں دین کی راہ میں وہ خدمت نہ کرسکا جو مجھ کو کرنا چاہيے تھا۔ اس ليے اس کی تلافی كي صورت يہ ہے کہ میں اپنے مال میںاپنے ان بھائیوں کا حصہ لگاؤں جو گویا میری کمی کی تلافی خداکے یہاں کررہے ہیں۔
جب دین کی جدوجہد اس مرحلہ میں ہو کہ دین کے نام پر معاشی عہدے نہ ملتے ہوں، جب دین کی راہ میں لگنے والا آدمی بے روزگار ہوجائے، اس وقت دین کے خادموں کو اپنا مال دینا بظاہر ماحول کے ایک غیراہم طبقہ سے اپنا رشتہ جوڑنا ہے۔ ایسے افراد پر خرچ کرنا مجلسوں میں قابل تذکرہ نہیںہوتا۔ وہ آدمی کی حیثیت اور ناموری میں اضافہ نہیں کرتا۔ مگر یہی وہ خرچ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ اللہ کی رحمتوں کا مستحق بناتاہے۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانْتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 بندوں کے درمیان باہمی طورپر جو معاشی تعلقات مطلوب ہیں ان کی علامت زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے حقوق کا اعتراف یہاںتک کرتاہے کہ وہ خود اپنی کمائی کا ایک حصہ نکال کر اپنے بھائی کو دیتاہے۔ جو دین حقوق شناسی کا ایسا ماحول بنانا چاہتا ہو وہ سود کے دولت پرستانہ طریقہ کو کسی طرح قبول نہیں کرسکتا۔ ایسے معاشرہ میں باہمی لین دین تجارت کے اصول پر ہوتا ہے، نہ کہ سودکے اصول پر تجارت میں بھی آدمی نفع لیتاہے۔ مگر تجارت کا جو نفع ہے وہ آدمی کی محنت اور اس کے خطرات مول لینے کی قیمت ہوتا ہے۔ جب کہ سود کا نفع محض خود غرضی اور زر اندوزی کا نتیجہ ہے۔
سود کا کاروبار کرنے والا اپنی دولت دوسرے کو اس ليے دیتاہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کو مزید بڑھائے۔ وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتاہے کہ اس کا سرمایہ یقینی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ مگر اس عمل کے دوران وہ خود اپنے اندر جو انسان تیار کرتاہے وہ ایک خود غرض اور دنیا پرست انسان ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی اپنی کمائی میں سے صدقہ کرتاہے، جو دوسروں کی ضرورت مندی کو اپنے ليے تجارت کا سودا نہیں بناتا بلکہ اس کے ساتھ اپنے کو شریک کرتا ہے، ایسا شخص اپنے عمل کے دوران اپنے اندر جو انسان تیار کررہا ہے وہ پہلے سے بالکل مختلف انسان ہے۔ یہ وہ انسان ہے جس کے دل میں دوسروں کی خیر خواہی ہے۔ جو ذاتی دائرہ سے اوپر اٹھ کر سوچتاہے۔
دنیا میں آدمی اس ليے نہیں بھیجا گیا ہے کہ وہ یہاں اپنی کمائی کے ڈھیر لگائے۔ آدمی کے لیے ڈھیر لگانے کی جگہ آخرت ہے۔ دنیا میں آدمی کو اس ليے بھیجا گیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان میں کون ہے جو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اس کو آخرت کی جنتی دنیامیں بسایا جائے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں گے ان کو خدا جنت کا باشندہ بننے کے لیے چن لے گا، اور باقی تمام لوگ کوڑا کرکٹ کی طرح جہنم میں پھینک ديے جائیں گے — صدقہ کی روح حاجت مند کو اپنا مال خدا کے لیے دینا ہے اور سود کی روح استحصال کے لیے دینا۔صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ آدمی آخرت میں اپنے ليے نعمتوں کا ڈھیر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں سود اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنے ليے ڈھیر لگانے کا خواہش مند ہے۔ یہ دو الگ الگ انسان ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ خدا کے یہاں دونوں کا انجام یکساں قرار پائے۔ دنیا اسی کو ملتی ہے جس نے دنیا کے لیے محنت کی ہو، اسی طرح آخرت اسی کو ملے گی جس نے آخرت کے لیے اپنے اثاثہ کو قربان کیا۔
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
📘 بندوں کے درمیان باہمی طورپر جو معاشی تعلقات مطلوب ہیں ان کی علامت زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے حقوق کا اعتراف یہاںتک کرتاہے کہ وہ خود اپنی کمائی کا ایک حصہ نکال کر اپنے بھائی کو دیتاہے۔ جو دین حقوق شناسی کا ایسا ماحول بنانا چاہتا ہو وہ سود کے دولت پرستانہ طریقہ کو کسی طرح قبول نہیں کرسکتا۔ ایسے معاشرہ میں باہمی لین دین تجارت کے اصول پر ہوتا ہے، نہ کہ سودکے اصول پر تجارت میں بھی آدمی نفع لیتاہے۔ مگر تجارت کا جو نفع ہے وہ آدمی کی محنت اور اس کے خطرات مول لینے کی قیمت ہوتا ہے۔ جب کہ سود کا نفع محض خود غرضی اور زر اندوزی کا نتیجہ ہے۔
سود کا کاروبار کرنے والا اپنی دولت دوسرے کو اس ليے دیتاہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کو مزید بڑھائے۔ وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتاہے کہ اس کا سرمایہ یقینی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ مگر اس عمل کے دوران وہ خود اپنے اندر جو انسان تیار کرتاہے وہ ایک خود غرض اور دنیا پرست انسان ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی اپنی کمائی میں سے صدقہ کرتاہے، جو دوسروں کی ضرورت مندی کو اپنے ليے تجارت کا سودا نہیں بناتا بلکہ اس کے ساتھ اپنے کو شریک کرتا ہے، ایسا شخص اپنے عمل کے دوران اپنے اندر جو انسان تیار کررہا ہے وہ پہلے سے بالکل مختلف انسان ہے۔ یہ وہ انسان ہے جس کے دل میں دوسروں کی خیر خواہی ہے۔ جو ذاتی دائرہ سے اوپر اٹھ کر سوچتاہے۔
دنیا میں آدمی اس ليے نہیں بھیجا گیا ہے کہ وہ یہاں اپنی کمائی کے ڈھیر لگائے۔ آدمی کے لیے ڈھیر لگانے کی جگہ آخرت ہے۔ دنیا میں آدمی کو اس ليے بھیجا گیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان میں کون ہے جو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اس کو آخرت کی جنتی دنیامیں بسایا جائے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں گے ان کو خدا جنت کا باشندہ بننے کے لیے چن لے گا، اور باقی تمام لوگ کوڑا کرکٹ کی طرح جہنم میں پھینک ديے جائیں گے — صدقہ کی روح حاجت مند کو اپنا مال خدا کے لیے دینا ہے اور سود کی روح استحصال کے لیے دینا۔صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ آدمی آخرت میں اپنے ليے نعمتوں کا ڈھیر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں سود اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنے ليے ڈھیر لگانے کا خواہش مند ہے۔ یہ دو الگ الگ انسان ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ خدا کے یہاں دونوں کا انجام یکساں قرار پائے۔ دنیا اسی کو ملتی ہے جس نے دنیا کے لیے محنت کی ہو، اسی طرح آخرت اسی کو ملے گی جس نے آخرت کے لیے اپنے اثاثہ کو قربان کیا۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 بندوں کے درمیان باہمی طورپر جو معاشی تعلقات مطلوب ہیں ان کی علامت زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے حقوق کا اعتراف یہاںتک کرتاہے کہ وہ خود اپنی کمائی کا ایک حصہ نکال کر اپنے بھائی کو دیتاہے۔ جو دین حقوق شناسی کا ایسا ماحول بنانا چاہتا ہو وہ سود کے دولت پرستانہ طریقہ کو کسی طرح قبول نہیں کرسکتا۔ ایسے معاشرہ میں باہمی لین دین تجارت کے اصول پر ہوتا ہے، نہ کہ سودکے اصول پر تجارت میں بھی آدمی نفع لیتاہے۔ مگر تجارت کا جو نفع ہے وہ آدمی کی محنت اور اس کے خطرات مول لینے کی قیمت ہوتا ہے۔ جب کہ سود کا نفع محض خود غرضی اور زر اندوزی کا نتیجہ ہے۔
سود کا کاروبار کرنے والا اپنی دولت دوسرے کو اس ليے دیتاہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنی دولت کو مزید بڑھائے۔ وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتاہے کہ اس کا سرمایہ یقینی شرح سے بڑھ رہا ہے۔ مگر اس عمل کے دوران وہ خود اپنے اندر جو انسان تیار کرتاہے وہ ایک خود غرض اور دنیا پرست انسان ہے۔ اس کے برعکس، جو آدمی اپنی کمائی میں سے صدقہ کرتاہے، جو دوسروں کی ضرورت مندی کو اپنے ليے تجارت کا سودا نہیں بناتا بلکہ اس کے ساتھ اپنے کو شریک کرتا ہے، ایسا شخص اپنے عمل کے دوران اپنے اندر جو انسان تیار کررہا ہے وہ پہلے سے بالکل مختلف انسان ہے۔ یہ وہ انسان ہے جس کے دل میں دوسروں کی خیر خواہی ہے۔ جو ذاتی دائرہ سے اوپر اٹھ کر سوچتاہے۔
دنیا میں آدمی اس ليے نہیں بھیجا گیا ہے کہ وہ یہاں اپنی کمائی کے ڈھیر لگائے۔ آدمی کے لیے ڈھیر لگانے کی جگہ آخرت ہے۔ دنیا میں آدمی کو اس ليے بھیجا گیا ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ ان میں کون ہے جو اپنی خصوصیات کے اعتبار سے اس قابل ہے کہ اس کو آخرت کی جنتی دنیامیں بسایا جائے۔ جو لوگ اس صلاحیت کا ثبوت دیں گے ان کو خدا جنت کا باشندہ بننے کے لیے چن لے گا، اور باقی تمام لوگ کوڑا کرکٹ کی طرح جہنم میں پھینک ديے جائیں گے — صدقہ کی روح حاجت مند کو اپنا مال خدا کے لیے دینا ہے اور سود کی روح استحصال کے لیے دینا۔صدقہ اس بات کی علامت ہے کہ آدمی آخرت میں اپنے ليے نعمتوں کا ڈھیر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں سود اس بات کی علامت ہے کہ وہ اسی دنیا میں اپنے ليے ڈھیر لگانے کا خواہش مند ہے۔ یہ دو الگ الگ انسان ہیں اور یہ ممکن نہیں کہ خدا کے یہاں دونوں کا انجام یکساں قرار پائے۔ دنیا اسی کو ملتی ہے جس نے دنیا کے لیے محنت کی ہو، اسی طرح آخرت اسی کو ملے گی جس نے آخرت کے لیے اپنے اثاثہ کو قربان کیا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 معاشرہ کی اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی فرد نہ کسی دوسرے کے اوپر زیادتی کرے اور نہ دوسرا کوئی اس کے اوپر زیادتی کرے۔نہ کوئی کسی کے اوپر ظالم بنے اور نہ کوئی کسی کو مظلوم بنائے۔ سود خواری ایک کھلا ہوا معاشی ظلم ہے۔ اس ليے اسلام نے اس کو حرام ٹھہرایا۔ حتی کہ اسلامی اقتدار کے تحت سودی کاروبار کو فوجداری جرم قرار دیا۔ تاہم ایک سود خوار کو جس طرح دوسرے کے ساتھ ظالمانہ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ سود خوار کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائے۔ کسی کا مجرم ہونا اس کو اس کے دیگر حقوق سے محروم نہیںکرتا۔ سود خوار کے خلاف جب کارروائی کی جائے گی تو صرف اس کے سودی اضافہ کو ساقط کیا جائے گا۔ اپنی اصل رقم کو واپس لینے کا وہ پھر بھی حق دار ہوگا۔ تاہم عمومی قانون کے ساتھ اسلام انسانی کمزوریوں کی بھی آخری حد تک رعایت کرتا ہے۔ اس ليے حکم دیاگیا کہ کوئی قرض دار اگر وقت پر تنگدست ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک وہ اپنے ذمہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی کے ساتھ یہ تلقین بھی کی گئی کہ کوئی شخص قرض کی رقم ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو اس کے ذمہ کی رقم کو سرے سے معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرو۔ معاف کرنے والا خدا کے یہاں اجر کا مستحق بنتا ہے اور دنیا میں اس کا یہ فائدہ ہے کہ معاشرہ کے اندر باہمی رعایت اور ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو بالآخر سب کے لیے مفید ہے۔
تاہم صرف قانون کا نفاذ معاشرہ کی صلاح وفلا ح کا ضامن نہیں۔حقیقی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں تقویٰ کی فضا موجود ہو۔ اس ليے قانونی حکم بتاتے ہوئے ایمان، تقویٰ اور آخرت کا اہتمام کے ساتھ ذکر کیاگیا۔ جس طرح ایک سیکولر نظام اسی وقت کامیابی کے ساتھ چلتاہے جب کہ شہریوں کے اندر اس کے مطابق قومی کردا ر موجود ہو۔ اسی طرح اسلامی نظام اسی وقت صحیح طورپر وقوع میںآتاہے جب کہ افراد کے قابل لحاظ حصہ میں تقویٰ کی روح پائی جاتی ہو۔ قومی کردار یا تقویٰ دراصل مطلوبہ نظام کے حق میں افراد کی آمادگی کانام ہے۔ اور افراد کے اندر جب تک ایک درجہ کی آمادگی نہ ہو، محض قانون کے زور پر اس کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
مزید یہ کہ اسلام کی رو سے اصلاح معاشرہ بجائے خود مطلوب چیز نہیں ہے۔ اسلام میں اصل مطلوب فرد کی اصلاح ہے۔ معاشرہ کی اصلاح صرف اس کا ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ قرآن جس ایمان، تقویٰ اور فکر آخرت کی طرف بلاتا ہے اس کا تحقق فرد کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ کسی اجتماعی ہیئت کے اندر۔ اس ليے قرآنی دعوت کا اصل مخاطب فرد ہے، اور معاشرہ کی اصلاح افراد کی اصلاح کا اجتماعی ظہور۔
فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ
📘 معاشرہ کی اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی فرد نہ کسی دوسرے کے اوپر زیادتی کرے اور نہ دوسرا کوئی اس کے اوپر زیادتی کرے۔نہ کوئی کسی کے اوپر ظالم بنے اور نہ کوئی کسی کو مظلوم بنائے۔ سود خواری ایک کھلا ہوا معاشی ظلم ہے۔ اس ليے اسلام نے اس کو حرام ٹھہرایا۔ حتی کہ اسلامی اقتدار کے تحت سودی کاروبار کو فوجداری جرم قرار دیا۔ تاہم ایک سود خوار کو جس طرح دوسرے کے ساتھ ظالمانہ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ سود خوار کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائے۔ کسی کا مجرم ہونا اس کو اس کے دیگر حقوق سے محروم نہیںکرتا۔ سود خوار کے خلاف جب کارروائی کی جائے گی تو صرف اس کے سودی اضافہ کو ساقط کیا جائے گا۔ اپنی اصل رقم کو واپس لینے کا وہ پھر بھی حق دار ہوگا۔ تاہم عمومی قانون کے ساتھ اسلام انسانی کمزوریوں کی بھی آخری حد تک رعایت کرتا ہے۔ اس ليے حکم دیاگیا کہ کوئی قرض دار اگر وقت پر تنگدست ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک وہ اپنے ذمہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی کے ساتھ یہ تلقین بھی کی گئی کہ کوئی شخص قرض کی رقم ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو اس کے ذمہ کی رقم کو سرے سے معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرو۔ معاف کرنے والا خدا کے یہاں اجر کا مستحق بنتا ہے اور دنیا میں اس کا یہ فائدہ ہے کہ معاشرہ کے اندر باہمی رعایت اور ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو بالآخر سب کے لیے مفید ہے۔
تاہم صرف قانون کا نفاذ معاشرہ کی صلاح وفلا ح کا ضامن نہیں۔حقیقی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں تقویٰ کی فضا موجود ہو۔ اس ليے قانونی حکم بتاتے ہوئے ایمان، تقویٰ اور آخرت کا اہتمام کے ساتھ ذکر کیاگیا۔ جس طرح ایک سیکولر نظام اسی وقت کامیابی کے ساتھ چلتاہے جب کہ شہریوں کے اندر اس کے مطابق قومی کردا ر موجود ہو۔ اسی طرح اسلامی نظام اسی وقت صحیح طورپر وقوع میںآتاہے جب کہ افراد کے قابل لحاظ حصہ میں تقویٰ کی روح پائی جاتی ہو۔ قومی کردار یا تقویٰ دراصل مطلوبہ نظام کے حق میں افراد کی آمادگی کانام ہے۔ اور افراد کے اندر جب تک ایک درجہ کی آمادگی نہ ہو، محض قانون کے زور پر اس کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
مزید یہ کہ اسلام کی رو سے اصلاح معاشرہ بجائے خود مطلوب چیز نہیں ہے۔ اسلام میں اصل مطلوب فرد کی اصلاح ہے۔ معاشرہ کی اصلاح صرف اس کا ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ قرآن جس ایمان، تقویٰ اور فکر آخرت کی طرف بلاتا ہے اس کا تحقق فرد کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ کسی اجتماعی ہیئت کے اندر۔ اس ليے قرآنی دعوت کا اصل مخاطب فرد ہے، اور معاشرہ کی اصلاح افراد کی اصلاح کا اجتماعی ظہور۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
📘 کسی بندہ کے اوپر اللہ کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ عبدیت کے اس عہد کو نبھائے جو پیدا کرنے والے اور پیدا کیے جانے والے کے درمیان اول روز سے قائم ہوچکا ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان وہ اس طرح رہے کہ وہ ان تمام رشتوں اور تعلقات کو پوری طرح استوار کیے ہوئے ہو جن کے استوار کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جب خدا اپنے ایک بندے کی زبان سے اپنے پیغام کا اعلان کرائے تو اس کے خلاف بے بنیاد باتیں نکال کر خدا کے بندوں کو اس سےدور نه كيا جائے۔ حق کی دعوت دینا دراصل لوگوں کو فطری حالت پر لانے کی کوشش کرنا ہے،اس لیے جو شخص لوگوں کو اس سے روکتا ہے وہ زمین میں فساد ڈالنے کا مجرم بنتا ہے۔
اللہ کا یہ احسان کہ وہ آدمی کو عدم سے وجود میں لے آیا، اتنا بڑا احسان ہے کہ آدمی کو ہمہ تن اس کے آگے بچھ جانا چاہیے۔ پھر اللہ نے انسان کو پیداکرکے یونہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کو رہنے کے لیے ایک ایسی زمین دی جو اس کے لیے انتہائی طورپر موافق ڈھنگ سے بنائی گئی تھی۔ پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت آگے کی ہے۔ انسان ہر وقت اس نازک امکان کے کنارے کھڑا ہوا ہے کہ اس کی موت آجائے اور اچانک وہ مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے پیش کردیا جائے۔ ان باتوں کا تقاضا ہے کہ آدمی ہمہ تن اللہ کا ہو جائے، اس کی یاد اور اس کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ ساری عمر وہ اس کا بندہ بنا رہے۔
پیغمبرانہ دعوت کے انتہائی واضح اور مدلّل ہونے کے باوجود کیوں بہت سے لوگ اس کو قبول نہیں کر پاتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شوشه يا غير متعلق (irrelevant)بات نکالنے کا فتنہ ہے۔ آدمی کے اندر نصیحت پکڑنے کا ذہن نہ ہو تو وہ کسی بات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتاایسے آدمی کے سامنے جب بھی کوئی دلیل آتی ہے تو وہ اس کو سطحی طورپر دیکھ کر ایک شوشہ ياغير متعلق بات نکال لیتا ہے۔ اس طرح وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دعوت کوئی معقول دعوت نہیں ہے۔ اگر وہ معقول دعوت ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ اس میں اس قسم کی بے وزن باتیں شامل ہوں۔ مگر جو نصیحت پکڑنے والے ذہن ہیں، جو باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں، ان کو حق کے پہچاننے میں دیر نہیں لگتی، خواہ حق کو ’’مچھر‘‘ جیسی مثالوں ہی میں کیوںنہ بیان کیا گیا ہو۔
وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 معاشرہ کی اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی فرد نہ کسی دوسرے کے اوپر زیادتی کرے اور نہ دوسرا کوئی اس کے اوپر زیادتی کرے۔نہ کوئی کسی کے اوپر ظالم بنے اور نہ کوئی کسی کو مظلوم بنائے۔ سود خواری ایک کھلا ہوا معاشی ظلم ہے۔ اس ليے اسلام نے اس کو حرام ٹھہرایا۔ حتی کہ اسلامی اقتدار کے تحت سودی کاروبار کو فوجداری جرم قرار دیا۔ تاہم ایک سود خوار کو جس طرح دوسرے کے ساتھ ظالمانہ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ سود خوار کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائے۔ کسی کا مجرم ہونا اس کو اس کے دیگر حقوق سے محروم نہیںکرتا۔ سود خوار کے خلاف جب کارروائی کی جائے گی تو صرف اس کے سودی اضافہ کو ساقط کیا جائے گا۔ اپنی اصل رقم کو واپس لینے کا وہ پھر بھی حق دار ہوگا۔ تاہم عمومی قانون کے ساتھ اسلام انسانی کمزوریوں کی بھی آخری حد تک رعایت کرتا ہے۔ اس ليے حکم دیاگیا کہ کوئی قرض دار اگر وقت پر تنگدست ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک وہ اپنے ذمہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی کے ساتھ یہ تلقین بھی کی گئی کہ کوئی شخص قرض کی رقم ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو اس کے ذمہ کی رقم کو سرے سے معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرو۔ معاف کرنے والا خدا کے یہاں اجر کا مستحق بنتا ہے اور دنیا میں اس کا یہ فائدہ ہے کہ معاشرہ کے اندر باہمی رعایت اور ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو بالآخر سب کے لیے مفید ہے۔
تاہم صرف قانون کا نفاذ معاشرہ کی صلاح وفلا ح کا ضامن نہیں۔حقیقی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں تقویٰ کی فضا موجود ہو۔ اس ليے قانونی حکم بتاتے ہوئے ایمان، تقویٰ اور آخرت کا اہتمام کے ساتھ ذکر کیاگیا۔ جس طرح ایک سیکولر نظام اسی وقت کامیابی کے ساتھ چلتاہے جب کہ شہریوں کے اندر اس کے مطابق قومی کردا ر موجود ہو۔ اسی طرح اسلامی نظام اسی وقت صحیح طورپر وقوع میںآتاہے جب کہ افراد کے قابل لحاظ حصہ میں تقویٰ کی روح پائی جاتی ہو۔ قومی کردار یا تقویٰ دراصل مطلوبہ نظام کے حق میں افراد کی آمادگی کانام ہے۔ اور افراد کے اندر جب تک ایک درجہ کی آمادگی نہ ہو، محض قانون کے زور پر اس کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
مزید یہ کہ اسلام کی رو سے اصلاح معاشرہ بجائے خود مطلوب چیز نہیں ہے۔ اسلام میں اصل مطلوب فرد کی اصلاح ہے۔ معاشرہ کی اصلاح صرف اس کا ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ قرآن جس ایمان، تقویٰ اور فکر آخرت کی طرف بلاتا ہے اس کا تحقق فرد کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ کسی اجتماعی ہیئت کے اندر۔ اس ليے قرآنی دعوت کا اصل مخاطب فرد ہے، اور معاشرہ کی اصلاح افراد کی اصلاح کا اجتماعی ظہور۔
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ۖ ثُمَّ تُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
📘 معاشرہ کی اصلاح کا بنیادی اصول یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی فرد نہ کسی دوسرے کے اوپر زیادتی کرے اور نہ دوسرا کوئی اس کے اوپر زیادتی کرے۔نہ کوئی کسی کے اوپر ظالم بنے اور نہ کوئی کسی کو مظلوم بنائے۔ سود خواری ایک کھلا ہوا معاشی ظلم ہے۔ اس ليے اسلام نے اس کو حرام ٹھہرایا۔ حتی کہ اسلامی اقتدار کے تحت سودی کاروبار کو فوجداری جرم قرار دیا۔ تاہم ایک سود خوار کو جس طرح دوسرے کے ساتھ ظالمانہ کاروبار کرنے کی اجازت نہیں ہے اسی طرح کسی دوسرے کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ سود خوار کو اپنے ظلم کا نشانہ بنائے۔ کسی کا مجرم ہونا اس کو اس کے دیگر حقوق سے محروم نہیںکرتا۔ سود خوار کے خلاف جب کارروائی کی جائے گی تو صرف اس کے سودی اضافہ کو ساقط کیا جائے گا۔ اپنی اصل رقم کو واپس لینے کا وہ پھر بھی حق دار ہوگا۔ تاہم عمومی قانون کے ساتھ اسلام انسانی کمزوریوں کی بھی آخری حد تک رعایت کرتا ہے۔ اس ليے حکم دیاگیا کہ کوئی قرض دار اگر وقت پر تنگدست ہے تو اس کو اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک وہ اپنے ذمہ کی رقم ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔ اسی کے ساتھ یہ تلقین بھی کی گئی کہ کوئی شخص قرض کی رقم ادا کرنے کے قابل نہ رہے تو اس کے ذمہ کی رقم کو سرے سے معاف کردینے کا حوصلہ پیدا کرو۔ معاف کرنے والا خدا کے یہاں اجر کا مستحق بنتا ہے اور دنیا میں اس کا یہ فائدہ ہے کہ معاشرہ کے اندر باہمی رعایت اور ہمدردی کی فضا پیدا ہوتی ہے جو بالآخر سب کے لیے مفید ہے۔
تاہم صرف قانون کا نفاذ معاشرہ کی صلاح وفلا ح کا ضامن نہیں۔حقیقی اصلاح کے لیے ضروری ہے کہ معاشرہ میں تقویٰ کی فضا موجود ہو۔ اس ليے قانونی حکم بتاتے ہوئے ایمان، تقویٰ اور آخرت کا اہتمام کے ساتھ ذکر کیاگیا۔ جس طرح ایک سیکولر نظام اسی وقت کامیابی کے ساتھ چلتاہے جب کہ شہریوں کے اندر اس کے مطابق قومی کردا ر موجود ہو۔ اسی طرح اسلامی نظام اسی وقت صحیح طورپر وقوع میںآتاہے جب کہ افراد کے قابل لحاظ حصہ میں تقویٰ کی روح پائی جاتی ہو۔ قومی کردار یا تقویٰ دراصل مطلوبہ نظام کے حق میں افراد کی آمادگی کانام ہے۔ اور افراد کے اندر جب تک ایک درجہ کی آمادگی نہ ہو، محض قانون کے زور پر اس کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
مزید یہ کہ اسلام کی رو سے اصلاح معاشرہ بجائے خود مطلوب چیز نہیں ہے۔ اسلام میں اصل مطلوب فرد کی اصلاح ہے۔ معاشرہ کی اصلاح صرف اس کا ایک ثانوی نتیجہ ہے۔ قرآن جس ایمان، تقویٰ اور فکر آخرت کی طرف بلاتا ہے اس کا تحقق فرد کے اندر ہوتا ہے، نہ کہ کسی اجتماعی ہیئت کے اندر۔ اس ليے قرآنی دعوت کا اصل مخاطب فرد ہے، اور معاشرہ کی اصلاح افراد کی اصلاح کا اجتماعی ظہور۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ ۖ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 دو آدمیوں کے درمیان نقد معاملہ ہو تو لین دین ہو کر اسی وقت معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ادھار معاملات کی نوعیت مختلف ہے۔ ادھار معاملہ میں اگر ساری بات زبانی ہو تو کاغذی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بعد کو اختلاف پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ طرفین اپنے اپنے مطابق معاملہ کی تصویر پیش کرتے ہیں اور کوئی ایسی قطعی بنیاد نہیں ہوتی جس کی روشنی میں صحیح فیصلہ کیا جاسکے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ادائيگی کے وقت اکثر دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا حل تحریر ہے۔ نقد معاملہ کو لکھ لیا جائے تو وہ بھی بہتر ہے۔ مگر ادھار معاملات کے لیے تو ضروری ہے کہ ان کو باقاعدہ تحریر میں لایا جائے اور اس پر گواہ بناليے جائیں۔ اختلاف کے وقت یہی تحریر فیصلہ کی بنیاد ہوگی۔ یہ مسلمان کے لیے تقویٰ اور عدل کی ایک حفاظتی تدبیر ہے۔ کتابت شدہ شرائط کے مطابق وہ اپنے حقوق کو ادا کرکے خدا اور مخلوقکے سامنے بری الذمہ ہوجاتاہے۔
مسلمان خدا کے دین کے گواہ ہیں۔جس طرح اللہ کی بات کو جانتے ہوئے چھپانا جائز نہیں، اسی طرح انسانی معاملات میں کسی کے پاس کوئی گواہی ہو تو اس کو چاہيے کہ اس کو ظاہر کردے۔ گواہی کو چھپانا اپنے اندر مجرمانہ ذہن کی پرورش کرنا ہے اور معاملہ کے منصفانہ فیصلہ میں وہ حصہ ادا نہ کرنا ہے، جو وہ کرسکتا ہے۔ انسان کا ضمیر چاہتا ہے کہ جب ایک چیز حق نظر آئے تو اس کے حق ہونے کا اعتراف کیا جائے۔ اور جب ایک چیز ناحق دکھائی دے تو اس کے ناحق ہونے کا اعلان کیاجائے۔ ایسی حالت میں جو شخص اپنے وقار اور مصلحت کی خاطر اپنی زبان کو بند رکھتا ہے وہ گویا ایسا مجرم ہے جو اپنے جرم پر خود ہی گواہ بن گیا ہو۔
۞ وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ ۚ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
📘 دو آدمیوں کے درمیان نقد معاملہ ہو تو لین دین ہو کر اسی وقت معاملہ ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ادھار معاملات کی نوعیت مختلف ہے۔ ادھار معاملہ میں اگر ساری بات زبانی ہو تو کاغذی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے بعد کو اختلاف پیدا ہونے کا امکان رہتا ہے۔ طرفین اپنے اپنے مطابق معاملہ کی تصویر پیش کرتے ہیں اور کوئی ایسی قطعی بنیاد نہیں ہوتی جس کی روشنی میں صحیح فیصلہ کیا جاسکے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ادائيگی کے وقت اکثر دونوں کو ایک دوسرے سے شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا حل تحریر ہے۔ نقد معاملہ کو لکھ لیا جائے تو وہ بھی بہتر ہے۔ مگر ادھار معاملات کے لیے تو ضروری ہے کہ ان کو باقاعدہ تحریر میں لایا جائے اور اس پر گواہ بناليے جائیں۔ اختلاف کے وقت یہی تحریر فیصلہ کی بنیاد ہوگی۔ یہ مسلمان کے لیے تقویٰ اور عدل کی ایک حفاظتی تدبیر ہے۔ کتابت شدہ شرائط کے مطابق وہ اپنے حقوق کو ادا کرکے خدا اور مخلوقکے سامنے بری الذمہ ہوجاتاہے۔
مسلمان خدا کے دین کے گواہ ہیں۔جس طرح اللہ کی بات کو جانتے ہوئے چھپانا جائز نہیں، اسی طرح انسانی معاملات میں کسی کے پاس کوئی گواہی ہو تو اس کو چاہيے کہ اس کو ظاہر کردے۔ گواہی کو چھپانا اپنے اندر مجرمانہ ذہن کی پرورش کرنا ہے اور معاملہ کے منصفانہ فیصلہ میں وہ حصہ ادا نہ کرنا ہے، جو وہ کرسکتا ہے۔ انسان کا ضمیر چاہتا ہے کہ جب ایک چیز حق نظر آئے تو اس کے حق ہونے کا اعتراف کیا جائے۔ اور جب ایک چیز ناحق دکھائی دے تو اس کے ناحق ہونے کا اعلان کیاجائے۔ ایسی حالت میں جو شخص اپنے وقار اور مصلحت کی خاطر اپنی زبان کو بند رکھتا ہے وہ گویا ایسا مجرم ہے جو اپنے جرم پر خود ہی گواہ بن گیا ہو۔
لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
📘 کائنات کی ہر چیز اللہ کے زیر حکم ہے۔ ذرہ سے لے کر ستاروں تک سب خدا کے مقررہ نقشہ میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اسی راستہ پر چل رہے ہیں جس پر چلنے کے لیے خدا نے ان کو پابند کردیا ہے۔ مگر انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے کو خود مختار حالت میں پاتا ہے۔ بظاہر وہ آزاد ہے کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ مگر انسان کی آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ امتحان کے لیے ہے۔ انسان کو بھی کائنات کے بقیہ اجزاء کی طرح خدا کی پابندی کرنی ہے۔ جس پابند زندگی کو بقیہ کائنات نے بزور اختیار کیا ہے وہی پابند زندگی انسان کو اپنے ارادہ سے اختیار کرنا ہے۔ انسان کو ظاہری صورت حال سے دھوکا کھا کر یہ نہ سمجھنا چاہيے کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر وقت مالک کائنات کی نظر میں ہے، وہ اس کی ہر چھوٹی بڑی بات کی نگرانی کررہاہے خواہ وہ اس کے اندر ہو یا اس کے باہر۔
وہ کون سا انسان ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ وہ ایمان اور اطاعت والا انسان ہے۔ ایمان سے مراد آدمی کی شعوری حوالگی ہے اور اطاعت سے مراد اس کی عملی حوالگی۔ شعور کے اعتبار سے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے اپنے اندر اتار لے۔ وہ اس حقیقت کو پاگیا ہو کہ کائنات کا نظام کوئی بے روح مشینی نظام نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نظام ہے جس کو خدا اپنے فرماں بردار کارندوں کے ذریعہ چلا رہا ہے۔ اس نے خدا کے بندوں میں سے ان بندوں کو پہچان لیا ہو جن کو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا۔ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب اتاری ہے اس کو وہ حقیقی معنوں میں اپنے فکر وخیال کا جزء بنا چکا ہو۔ رسالت اور پیغمبری اس کو پوری انسانی تاریخ میں ایک مسلسل واقعہ کی صورت میں نظر آنے لگے۔ ایمانیات کو اس طرح اپنے دل ودماغ میں بٹھا لینے کے بعد وہ اپنی زندگی ہمہ تن اس کے نقشہ پر ڈھال دے۔
پھر یہ ایمان واطاعت اس کے لیے کوئی رسمی اور ظاہری معاملہ نہ ہو بلکہ وہ اس کی روح کو اس طرح گھلا دے کہ وہ اللہ کو پکارنے لگے۔ اس کا وجود خدا کی یاد میں ڈھل جائے۔ اس کی زندگی تمام تر خدا کے اوپر نربھر ہوجائے۔
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ
📘 کائنات کی ہر چیز اللہ کے زیر حکم ہے۔ ذرہ سے لے کر ستاروں تک سب خدا کے مقررہ نقشہ میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اسی راستہ پر چل رہے ہیں جس پر چلنے کے لیے خدا نے ان کو پابند کردیا ہے۔ مگر انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے کو خود مختار حالت میں پاتا ہے۔ بظاہر وہ آزاد ہے کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ مگر انسان کی آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ امتحان کے لیے ہے۔ انسان کو بھی کائنات کے بقیہ اجزاء کی طرح خدا کی پابندی کرنی ہے۔ جس پابند زندگی کو بقیہ کائنات نے بزور اختیار کیا ہے وہی پابند زندگی انسان کو اپنے ارادہ سے اختیار کرنا ہے۔ انسان کو ظاہری صورت حال سے دھوکا کھا کر یہ نہ سمجھنا چاہيے کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر وقت مالک کائنات کی نظر میں ہے، وہ اس کی ہر چھوٹی بڑی بات کی نگرانی کررہاہے خواہ وہ اس کے اندر ہو یا اس کے باہر۔
وہ کون سا انسان ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ وہ ایمان اور اطاعت والا انسان ہے۔ ایمان سے مراد آدمی کی شعوری حوالگی ہے اور اطاعت سے مراد اس کی عملی حوالگی۔ شعور کے اعتبار سے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے اپنے اندر اتار لے۔ وہ اس حقیقت کو پاگیا ہو کہ کائنات کا نظام کوئی بے روح مشینی نظام نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نظام ہے جس کو خدا اپنے فرماں بردار کارندوں کے ذریعہ چلا رہا ہے۔ اس نے خدا کے بندوں میں سے ان بندوں کو پہچان لیا ہو جن کو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا۔ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب اتاری ہے اس کو وہ حقیقی معنوں میں اپنے فکر وخیال کا جزء بنا چکا ہو۔ رسالت اور پیغمبری اس کو پوری انسانی تاریخ میں ایک مسلسل واقعہ کی صورت میں نظر آنے لگے۔ ایمانیات کو اس طرح اپنے دل ودماغ میں بٹھا لینے کے بعد وہ اپنی زندگی ہمہ تن اس کے نقشہ پر ڈھال دے۔
پھر یہ ایمان واطاعت اس کے لیے کوئی رسمی اور ظاہری معاملہ نہ ہو بلکہ وہ اس کی روح کو اس طرح گھلا دے کہ وہ اللہ کو پکارنے لگے۔ اس کا وجود خدا کی یاد میں ڈھل جائے۔ اس کی زندگی تمام تر خدا کے اوپر نربھر ہوجائے۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ
📘 کائنات کی ہر چیز اللہ کے زیر حکم ہے۔ ذرہ سے لے کر ستاروں تک سب خدا کے مقررہ نقشہ میں بندھے ہوئے ہیں۔ وہ اسی راستہ پر چل رہے ہیں جس پر چلنے کے لیے خدا نے ان کو پابند کردیا ہے۔ مگر انسان ایک ایسی مخلوق ہے جو اپنے کو خود مختار حالت میں پاتا ہے۔ بظاہر وہ آزاد ہے کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہے اختیار کرے۔ مگر انسان کی آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ امتحان کے لیے ہے۔ انسان کو بھی کائنات کے بقیہ اجزاء کی طرح خدا کی پابندی کرنی ہے۔ جس پابند زندگی کو بقیہ کائنات نے بزور اختیار کیا ہے وہی پابند زندگی انسان کو اپنے ارادہ سے اختیار کرنا ہے۔ انسان کو ظاہری صورت حال سے دھوکا کھا کر یہ نہ سمجھنا چاہيے کہ اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی ہر وقت مالک کائنات کی نظر میں ہے، وہ اس کی ہر چھوٹی بڑی بات کی نگرانی کررہاہے خواہ وہ اس کے اندر ہو یا اس کے باہر۔
وہ کون سا انسان ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ وہ ایمان اور اطاعت والا انسان ہے۔ ایمان سے مراد آدمی کی شعوری حوالگی ہے اور اطاعت سے مراد اس کی عملی حوالگی۔ شعور کے اعتبار سے یہ مطلوب ہے کہ آدمی اللہ کو اپنے خالق اور مالک کی حیثیت سے اپنے اندر اتار لے۔ وہ اس حقیقت کو پاگیا ہو کہ کائنات کا نظام کوئی بے روح مشینی نظام نہیں ہے بلکہ ایک زندہ نظام ہے جس کو خدا اپنے فرماں بردار کارندوں کے ذریعہ چلا رہا ہے۔ اس نے خدا کے بندوں میں سے ان بندوں کو پہچان لیا ہو جن کو خدا نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے چنا۔ خدا نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتاب اتاری ہے اس کو وہ حقیقی معنوں میں اپنے فکر وخیال کا جزء بنا چکا ہو۔ رسالت اور پیغمبری اس کو پوری انسانی تاریخ میں ایک مسلسل واقعہ کی صورت میں نظر آنے لگے۔ ایمانیات کو اس طرح اپنے دل ودماغ میں بٹھا لینے کے بعد وہ اپنی زندگی ہمہ تن اس کے نقشہ پر ڈھال دے۔
پھر یہ ایمان واطاعت اس کے لیے کوئی رسمی اور ظاہری معاملہ نہ ہو بلکہ وہ اس کی روح کو اس طرح گھلا دے کہ وہ اللہ کو پکارنے لگے۔ اس کا وجود خدا کی یاد میں ڈھل جائے۔ اس کی زندگی تمام تر خدا کے اوپر نربھر ہوجائے۔
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
📘 کسی بندہ کے اوپر اللہ کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ عبدیت کے اس عہد کو نبھائے جو پیدا کرنے والے اور پیدا کیے جانے والے کے درمیان اول روز سے قائم ہوچکا ہے۔ پھر انسانوں کے درمیان وہ اس طرح رہے کہ وہ ان تمام رشتوں اور تعلقات کو پوری طرح استوار کیے ہوئے ہو جن کے استوار کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ تیسری چیز یہ کہ جب خدا اپنے ایک بندے کی زبان سے اپنے پیغام کا اعلان کرائے تو اس کے خلاف بے بنیاد باتیں نکال کر خدا کے بندوں کو اس سےدور نه كيا جائے۔ حق کی دعوت دینا دراصل لوگوں کو فطری حالت پر لانے کی کوشش کرنا ہے،اس لیے جو شخص لوگوں کو اس سے روکتا ہے وہ زمین میں فساد ڈالنے کا مجرم بنتا ہے۔
اللہ کا یہ احسان کہ وہ آدمی کو عدم سے وجود میں لے آیا، اتنا بڑا احسان ہے کہ آدمی کو ہمہ تن اس کے آگے بچھ جانا چاہیے۔ پھر اللہ نے انسان کو پیداکرکے یونہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اس کو رہنے کے لیے ایک ایسی زمین دی جو اس کے لیے انتہائی طورپر موافق ڈھنگ سے بنائی گئی تھی۔ پھر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے، بلکہ اس سے بہت آگے کی ہے۔ انسان ہر وقت اس نازک امکان کے کنارے کھڑا ہوا ہے کہ اس کی موت آجائے اور اچانک وہ مالک کائنات کے سامنے حساب کتاب کے لیے پیش کردیا جائے۔ ان باتوں کا تقاضا ہے کہ آدمی ہمہ تن اللہ کا ہو جائے، اس کی یاد اور اس کی اطاعت میں زندگی گزارے۔ ساری عمر وہ اس کا بندہ بنا رہے۔
پیغمبرانہ دعوت کے انتہائی واضح اور مدلّل ہونے کے باوجود کیوں بہت سے لوگ اس کو قبول نہیں کر پاتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شوشه يا غير متعلق (irrelevant)بات نکالنے کا فتنہ ہے۔ آدمی کے اندر نصیحت پکڑنے کا ذہن نہ ہو تو وہ کسی بات کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتاایسے آدمی کے سامنے جب بھی کوئی دلیل آتی ہے تو وہ اس کو سطحی طورپر دیکھ کر ایک شوشہ ياغير متعلق بات نکال لیتا ہے۔ اس طرح وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ دعوت کوئی معقول دعوت نہیں ہے۔ اگر وہ معقول دعوت ہوتی تو کیسے ممکن تھا کہ اس میں اس قسم کی بے وزن باتیں شامل ہوں۔ مگر جو نصیحت پکڑنے والے ذہن ہیں، جو باتوں پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں، ان کو حق کے پہچاننے میں دیر نہیں لگتی، خواہ حق کو ’’مچھر‘‘ جیسی مثالوں ہی میں کیوںنہ بیان کیا گیا ہو۔
الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ
📘 اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ مگر وہ ہدایت کی کتاب اس کے لیے ہے جو فی الواقع ہدایت کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو اس کی پروا اور کھٹک رکھتا ہو۔ سچی طلب جو فطرت کی زمین پر اگتی ہے وہ خود پانے ہی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ سچی طلب اور سچی یافت دونوں ایک ہی سفر کے پچھلے اور اگلے مرحلے ہیں۔ یہ گویا خود اپنی فطرت کے بند صفحات کو کھولناہے۔ جب آدمی اس کا سچا ارادہ کرتا ہے تو فوراً فطرت کي مطابقت اور اللہ کی نصرت اس کا ساتھ دینے لگتی ہے، اس کو اپنی فطرت کی مبہم پکار کا متعین جواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
ایک آدمی کے اندر سچی طلب کا جاگنا عالَم ظاہر کے پیچھے عالم باطن کو دیکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ تلاش جب یافت کے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو وہ ایمان بالغیب بن جاتی ہے۔ وہی چیز جو ابتدائی مرحلہ میںایک برتر حقیقت کے آگے اپنے کو ڈال دینے کی بے قراری کا نام ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میںاللہ کا نمازی بننے کی صورت میں ڈھل جاتي ہے۔ وہی جذبہ جو ابتداء ًاپنے کو خیر اعلیٰ کے لیے وقف کردینے کے ہم معنی ہوتا ہے، وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کی راہ میںاپنے اثاثہ کو خرچ کرنے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ وہی کھوج جو زندگی کے ہنگاموں کے آگے اس کا آخری انجام معلوم کرنے کی صورت میں کسی کے اندر ابھرتی ہے وہ آخرت پر یقین کی صورت میں اپنے سوال کا جواب پالیتی ہے۔
سچائی کو پانا گویا اپنے شعو ر کو حقیقت اعلیٰ کے ہم سطح کرلینا ہے۔ جو لوگ، اس طرح حق کو پالیں وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ وہ سچائی کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے سچائی جہاں بھی ہو اور جس بندۂ خدا کی زبان سے اس کا اعلان کیا جارہا ہو وہ فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور اس پر لبیک کہتے ہیں۔ کوئی جمود، کوئی تقلید اور کوئی تعصباتی دیوار ان کے لیے اعترافِ حق میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ جن لوگوں کے اندریہ خصوصیات ہوں وہ اللہ کے سایہ میں آجاتے ہیں۔ اللہ کا بنایا ہوا نظام ان کو قبول کرلیتا ہے ان کو دنیا میں اس سچے راستہ پر چلنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کی آخری منزل یہ ہے کہ آدمی آخرت کی ابدی نعمتوں میں داخل ہوجائے۔
حق کو وہی پاسکتا ہے جو اس کا ڈھونڈھنے والا ہے اور جو ڈھونڈنے والا ہے وہ ضرور اس کو پاتا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے اور پانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 خلیفہ کے لفظی معنی ہیں کسی کے بعد اس کی جگہ لینے والا، جانشین۔ وراثتی اقتدار کے زمانہ میں یہ لفظ کثرت سے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوا جو ایک کے بعد دوسرے کی جگہ تخت پر بیٹھتے تھے۔ اس طرح استعمالی مفہوم کے لحاظ سے خلیفہ کا لفظ صاحب اقتدار کے ہم معنی ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک با اختیار مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد ہوگا۔ فرشتوں کو اندیشہ ہوا کہ اختیار واقتدار پاکر انسان بگڑ نہ جائے اور زمین میں خوں ریزی کرنے لگے۔ فرشتوں کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا۔ اللہ کو بھی اس امکان کا پورا علم تھا۔ مگر اللہ کی نظر اس بات پر تھی کہ انسانوں میںاگر بہت سے لوگ آزادی پاکر بگڑیں گے تو ایک قابل لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی جو آزادی اور اختیار کے باوجود اپنی حیثیت کو اور اپنے رب کے مقام کو پہچانیں گے اور کسی دباؤ کے بغیر خود اپنے ارادہ سے تسلیم واطاعت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگرچہ نسبتاً کم تعداد میں ہوں گے مگر وہ فصل کے دانوں کی طرح قیمتی ہوں گے۔ فصل میں لکڑی اور بھس کی مقدار ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ مگر دانے کم ہونے کے باوجود، اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی خاطر لکڑی اور بھس کے ڈھیر کو بھی اُگنے اورپھیلنے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔
اللہ نے اپنی قدرت سے آدم کی تمام ذرّیت کو بیک وقت ان کے سامنے کردیا۔ پھرفرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ ہے اولاد آدم۔ اب بتاؤ کہ ان میں کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہیں۔ فرشتے عد م واقفیت کي وجہ سے نہ بتا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کے ناموں، بالفاظ دیگر شخصیتوں سے آگاہ کیا اور پھر کہا کہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کراؤ۔ جب آدم نے تعارف کرایا تو فرشتوں کو معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد میں فسادیوںاور برُے لوگوں کے علاوہ کیسے کیسے صلحا ومتقین ہوں گے۔انسان کا سب سے بڑا جرم، انکار رب کے بعد، زمین میں فساد کرنا اور خون بہانا ہے۔کسی فرد یا گروہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں کرے جس کے نتیجے میں زمین پر خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام بگڑ جائے، انسان انسان کی جان مارنے لگے۔ ایسا ہر فعل آدمی کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ زمین میں خدا کے بنائے ہوئے فطری نظام کا قائم رہنا اس کی اصلاح ہے اور زمین کے فطری نظام کو بگاڑنا اس کا فساد۔
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَٰؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 خلیفہ کے لفظی معنی ہیں کسی کے بعد اس کی جگہ لینے والا، جانشین۔ وراثتی اقتدار کے زمانہ میں یہ لفظ کثرت سے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوا جو ایک کے بعد دوسرے کی جگہ تخت پر بیٹھتے تھے۔ اس طرح استعمالی مفہوم کے لحاظ سے خلیفہ کا لفظ صاحب اقتدار کے ہم معنی ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک با اختیار مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد ہوگا۔ فرشتوں کو اندیشہ ہوا کہ اختیار واقتدار پاکر انسان بگڑ نہ جائے اور زمین میں خوں ریزی کرنے لگے۔ فرشتوں کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا۔ اللہ کو بھی اس امکان کا پورا علم تھا۔ مگر اللہ کی نظر اس بات پر تھی کہ انسانوں میںاگر بہت سے لوگ آزادی پاکر بگڑیں گے تو ایک قابل لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی جو آزادی اور اختیار کے باوجود اپنی حیثیت کو اور اپنے رب کے مقام کو پہچانیں گے اور کسی دباؤ کے بغیر خود اپنے ارادہ سے تسلیم واطاعت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگرچہ نسبتاً کم تعداد میں ہوں گے مگر وہ فصل کے دانوں کی طرح قیمتی ہوں گے۔ فصل میں لکڑی اور بھس کی مقدار ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ مگر دانے کم ہونے کے باوجود، اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی خاطر لکڑی اور بھس کے ڈھیر کو بھی اُگنے اورپھیلنے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔
اللہ نے اپنی قدرت سے آدم کی تمام ذرّیت کو بیک وقت ان کے سامنے کردیا۔ پھرفرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ ہے اولاد آدم۔ اب بتاؤ کہ ان میں کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہیں۔ فرشتے عد م واقفیت کي وجہ سے نہ بتا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کے ناموں، بالفاظ دیگر شخصیتوں سے آگاہ کیا اور پھر کہا کہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کراؤ۔ جب آدم نے تعارف کرایا تو فرشتوں کو معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد میں فسادیوںاور برُے لوگوں کے علاوہ کیسے کیسے صلحا ومتقین ہوں گے۔انسان کا سب سے بڑا جرم، انکار رب کے بعد، زمین میں فساد کرنا اور خون بہانا ہے۔کسی فرد یا گروہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں کرے جس کے نتیجے میں زمین پر خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام بگڑ جائے، انسان انسان کی جان مارنے لگے۔ ایسا ہر فعل آدمی کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ زمین میں خدا کے بنائے ہوئے فطری نظام کا قائم رہنا اس کی اصلاح ہے اور زمین کے فطری نظام کو بگاڑنا اس کا فساد۔
قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
📘 خلیفہ کے لفظی معنی ہیں کسی کے بعد اس کی جگہ لینے والا، جانشین۔ وراثتی اقتدار کے زمانہ میں یہ لفظ کثرت سے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوا جو ایک کے بعد دوسرے کی جگہ تخت پر بیٹھتے تھے۔ اس طرح استعمالی مفہوم کے لحاظ سے خلیفہ کا لفظ صاحب اقتدار کے ہم معنی ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک با اختیار مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد ہوگا۔ فرشتوں کو اندیشہ ہوا کہ اختیار واقتدار پاکر انسان بگڑ نہ جائے اور زمین میں خوں ریزی کرنے لگے۔ فرشتوں کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا۔ اللہ کو بھی اس امکان کا پورا علم تھا۔ مگر اللہ کی نظر اس بات پر تھی کہ انسانوں میںاگر بہت سے لوگ آزادی پاکر بگڑیں گے تو ایک قابل لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی جو آزادی اور اختیار کے باوجود اپنی حیثیت کو اور اپنے رب کے مقام کو پہچانیں گے اور کسی دباؤ کے بغیر خود اپنے ارادہ سے تسلیم واطاعت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگرچہ نسبتاً کم تعداد میں ہوں گے مگر وہ فصل کے دانوں کی طرح قیمتی ہوں گے۔ فصل میں لکڑی اور بھس کی مقدار ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ مگر دانے کم ہونے کے باوجود، اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی خاطر لکڑی اور بھس کے ڈھیر کو بھی اُگنے اورپھیلنے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔
اللہ نے اپنی قدرت سے آدم کی تمام ذرّیت کو بیک وقت ان کے سامنے کردیا۔ پھرفرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ ہے اولاد آدم۔ اب بتاؤ کہ ان میں کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہیں۔ فرشتے عد م واقفیت کي وجہ سے نہ بتا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کے ناموں، بالفاظ دیگر شخصیتوں سے آگاہ کیا اور پھر کہا کہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کراؤ۔ جب آدم نے تعارف کرایا تو فرشتوں کو معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد میں فسادیوںاور برُے لوگوں کے علاوہ کیسے کیسے صلحا ومتقین ہوں گے۔انسان کا سب سے بڑا جرم، انکار رب کے بعد، زمین میں فساد کرنا اور خون بہانا ہے۔کسی فرد یا گروہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں کرے جس کے نتیجے میں زمین پر خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام بگڑ جائے، انسان انسان کی جان مارنے لگے۔ ایسا ہر فعل آدمی کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ زمین میں خدا کے بنائے ہوئے فطری نظام کا قائم رہنا اس کی اصلاح ہے اور زمین کے فطری نظام کو بگاڑنا اس کا فساد۔
قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ ۖ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ
📘 خلیفہ کے لفظی معنی ہیں کسی کے بعد اس کی جگہ لینے والا، جانشین۔ وراثتی اقتدار کے زمانہ میں یہ لفظ کثرت سے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوا جو ایک کے بعد دوسرے کی جگہ تخت پر بیٹھتے تھے۔ اس طرح استعمالی مفہوم کے لحاظ سے خلیفہ کا لفظ صاحب اقتدار کے ہم معنی ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو یہ بھی فیصلہ فرمایا کہ وہ ایک با اختیار مخلوق کی حیثیت سے زمین پر آباد ہوگا۔ فرشتوں کو اندیشہ ہوا کہ اختیار واقتدار پاکر انسان بگڑ نہ جائے اور زمین میں خوں ریزی کرنے لگے۔ فرشتوں کا یہ اندیشہ غلط نہ تھا۔ اللہ کو بھی اس امکان کا پورا علم تھا۔ مگر اللہ کی نظر اس بات پر تھی کہ انسانوں میںاگر بہت سے لوگ آزادی پاکر بگڑیں گے تو ایک قابل لحاظ تعداد ان لوگوں کی بھی ہوگی جو آزادی اور اختیار کے باوجود اپنی حیثیت کو اور اپنے رب کے مقام کو پہچانیں گے اور کسی دباؤ کے بغیر خود اپنے ارادہ سے تسلیم واطاعت کا طریقہ اختیار کریں گے۔ یہ دوسری قسم کے لوگ اگرچہ نسبتاً کم تعداد میں ہوں گے مگر وہ فصل کے دانوں کی طرح قیمتی ہوں گے۔ فصل میں لکڑی اور بھس کی مقدار ہمیشہ بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ مگر دانے کم ہونے کے باوجود، اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ ان کی خاطر لکڑی اور بھس کے ڈھیر کو بھی اُگنے اورپھیلنے کا موقع دے دیا جاتا ہے۔
اللہ نے اپنی قدرت سے آدم کی تمام ذرّیت کو بیک وقت ان کے سامنے کردیا۔ پھرفرشتوں سے کہا کہ دیکھو یہ ہے اولاد آدم۔ اب بتاؤ کہ ان میں کون کون اور کیسے کیسے لوگ ہیں۔ فرشتے عد م واقفیت کي وجہ سے نہ بتا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ان کے ناموں، بالفاظ دیگر شخصیتوں سے آگاہ کیا اور پھر کہا کہ فرشتوں کے سامنے ان کا تعارف کراؤ۔ جب آدم نے تعارف کرایا تو فرشتوں کو معلوم ہوا کہ آدم کی اولاد میں فسادیوںاور برُے لوگوں کے علاوہ کیسے کیسے صلحا ومتقین ہوں گے۔انسان کا سب سے بڑا جرم، انکار رب کے بعد، زمین میں فساد کرنا اور خون بہانا ہے۔کسی فرد یا گروہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسی کارروائیاں کرے جس کے نتیجے میں زمین پر خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام بگڑ جائے، انسان انسان کی جان مارنے لگے۔ ایسا ہر فعل آدمی کو خدا کی رحمتوں سے محروم کردیتا ہے۔ زمین میں خدا کے بنائے ہوئے فطری نظام کا قائم رہنا اس کی اصلاح ہے اور زمین کے فطری نظام کو بگاڑنا اس کا فساد۔
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ
📘 آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔
ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔
کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔
وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
📘 آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔
ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔
کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔
فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
📘 آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔
ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔
کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔
فَتَلَقَّىٰ آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
📘 آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔
ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔
کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔
ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔
کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 آدم کو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کے درمیان کھڑا کیا اور سجدہ کے امتحان کے ذریعہ آدمؑ کو عملی طورپر بتایا کہ ان کے لیے زمین پر دو ممکن راہیں ہوں گی۔ ایک فرشتوں کی طرح حکم الٰہی کے سامنے جھک جانا، خواہ اس کا مطلب اپنے سے کمتر ایک بندے کے آگے جھکنا کیوں نہ ہو۔ دوسرا ابلیس کی طرح اپنےکو بڑا سمجھنا اور دوسرے کے آگے جھکنے سے انکار کردینا۔ انسان کی پوری زندگی اسی امتحان کی رزم گاہ ہے۔ یہاں ہر وقت آدمی کو 2 رویوں میں سے کسی ایک رویہ کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک ملکوتی رویہ، یعنی دنیا کی زندگی میں جو معاملہ بھی پیش آئے، اللہ کے حکم کی تعمیل میں آدمی حق وانصاف کے آگے جھک جائے۔ دوسرا شیطانی رویہ، یعنی جب کوئی معاملہ پیش آئے تو آدمی کے اندر حسد اور گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھیں اور وہ ان کے زیر اثر آکر صاحب معاملہ کے آگے جھکنے سے انکار کردے۔
ممنوعہ درخت (forbidden tree)کا معاملہ بھی اسی ذیل کاایک عملی سبق ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر ایک عورت اور مرد کے لیے کوئی نہ کوئی شجر ممنوعہ (forbidden tree)ہوتاہے۔ انسان کے بھٹکنے کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آجائے اور اس حد میں قدم رکھ دے جس میں جانے سے اللہ نے منع کیا ہے۔ ’’منع کيے ہوئے پھل‘‘ کو کھاتے ہی آدمی اللہ کی نصرت ، بالفاظ دیگر جنت کے استحقاق سے محروم ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ محرومی ایسی نہیں ہے جس کی تلافی نہ ہوسکتی ہو۔ یہ امکان آدمی کے لیے پھر بھی کھلا رہتا ہے کہ وہ دوبارہ اپنے رب کی طرف لوٹے اور اپنے رویہ کو درست کرتے ہوئے اللہ سے معافی کا طلب گار ہو۔ جب بندہ اس طرح پلٹتا ہے تو اللہ بھی اس کی طرف پلٹ آتاہے اور اس کو اس طرح پاک کردیتاہے گویا اس نے گناہ ہی نہیں کیا تھا۔
کسی انسانی آبادی میں اللہ کی دعوت کا اٹھنا بھی اسی قسم کا ایک سخت امتحان ہے۔ داعیٔ حق بھی گویا ایک ’’آدم‘‘ہوتاہے جس کے سامنے لوگوں کو جھک جانا ہے۔ اگر وہ اپنے کبر اور اپنے تعصب کی وجہ سے اس کا اعتراف نہ کریں تو گویا کہ انھوں نے ابلیس کی پیروی کی۔ خدا اس دنیامیں عیاناً سامنے نہیںآتا، وہ اپنی نشانیوں کے ذریعہ لوگوں کو جانچتا ہے۔ جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو پایا اسی نے خدا کو پایا اور جس نے خدا کی نشانی میں خدا کو نہیں پایا وہ خدا سے محروم رہا۔
وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
📘 اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ مگر وہ ہدایت کی کتاب اس کے لیے ہے جو فی الواقع ہدایت کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو اس کی پروا اور کھٹک رکھتا ہو۔ سچی طلب جو فطرت کی زمین پر اگتی ہے وہ خود پانے ہی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ سچی طلب اور سچی یافت دونوں ایک ہی سفر کے پچھلے اور اگلے مرحلے ہیں۔ یہ گویا خود اپنی فطرت کے بند صفحات کو کھولناہے۔ جب آدمی اس کا سچا ارادہ کرتا ہے تو فوراً فطرت کي مطابقت اور اللہ کی نصرت اس کا ساتھ دینے لگتی ہے، اس کو اپنی فطرت کی مبہم پکار کا متعین جواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
ایک آدمی کے اندر سچی طلب کا جاگنا عالَم ظاہر کے پیچھے عالم باطن کو دیکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ تلاش جب یافت کے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو وہ ایمان بالغیب بن جاتی ہے۔ وہی چیز جو ابتدائی مرحلہ میںایک برتر حقیقت کے آگے اپنے کو ڈال دینے کی بے قراری کا نام ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میںاللہ کا نمازی بننے کی صورت میں ڈھل جاتي ہے۔ وہی جذبہ جو ابتداء ًاپنے کو خیر اعلیٰ کے لیے وقف کردینے کے ہم معنی ہوتا ہے، وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کی راہ میںاپنے اثاثہ کو خرچ کرنے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ وہی کھوج جو زندگی کے ہنگاموں کے آگے اس کا آخری انجام معلوم کرنے کی صورت میں کسی کے اندر ابھرتی ہے وہ آخرت پر یقین کی صورت میں اپنے سوال کا جواب پالیتی ہے۔
سچائی کو پانا گویا اپنے شعو ر کو حقیقت اعلیٰ کے ہم سطح کرلینا ہے۔ جو لوگ، اس طرح حق کو پالیں وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ وہ سچائی کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے سچائی جہاں بھی ہو اور جس بندۂ خدا کی زبان سے اس کا اعلان کیا جارہا ہو وہ فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور اس پر لبیک کہتے ہیں۔ کوئی جمود، کوئی تقلید اور کوئی تعصباتی دیوار ان کے لیے اعترافِ حق میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ جن لوگوں کے اندریہ خصوصیات ہوں وہ اللہ کے سایہ میں آجاتے ہیں۔ اللہ کا بنایا ہوا نظام ان کو قبول کرلیتا ہے ان کو دنیا میں اس سچے راستہ پر چلنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کی آخری منزل یہ ہے کہ آدمی آخرت کی ابدی نعمتوں میں داخل ہوجائے۔
حق کو وہی پاسکتا ہے جو اس کا ڈھونڈھنے والا ہے اور جو ڈھونڈنے والا ہے وہ ضرور اس کو پاتا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے اور پانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
۞ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
📘 یہود یا بنی اسرائیل کون ہیں ۔یہ حضرت ابراہیم کے پوتے، حضرت یعقوب بن اسحاق کی نسل سے تعلق رکھنےوالے لوگ ہیں ۔ حضرت یعقوب کے چوتھے بیٹے کا نام یہودا (Juda) تھا۔ اُن سے منسوب ہو کر بعد کو یہ لوگ عام طورپر یہودی کہے جانے لگے۔ حضرت یعقوب کا عُرفی نام اسرائیل تھا۔ اس نسبت سے قوم یہود کوبنی اسرائیل (Children of Israel) بھی کہا جاتاہے۔
قرآن میں امت یہود کا ذکر مختلف مقامات پر آیا ہے، اور ان کی تنقید کی گئی ہے۔ یہ تنقید اصلاً یہود کی شکایت کے طورپر نہیں ہے، بلکہ وہ امت مسلمہ کی نصیحت کے طورپر ہے- جب کسی قوم پر زوال آتا ہے تو ان کا کیا حال ہوجاتاہے- اللہ تعالی نے قرآن میں امت یہود (یا نصاری)کے حوالے سےاسی زوال کے ظاہرے کی نشاندہی فرمائی ہے، اور اہل ایمان کو بتایا ہے کہ اس وقت انھیں کیا کرنا چاہیے-
کسی گروہ پر اللہ کا سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ وہ اس کے پاس اپنا پیغمبر بھیجے اور اس کے ذریعے اس گروہ کے اوپر ابدی فلاح کا راستہ کھولے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت سے پہلے یہ نعمت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی مگر مدت گزرنے کے بعد ان کا دین ان کے لیے ایک قسم کی تقلیدی رسم بن گیا تھا، نہ کہ شعوری فیصلہ کے تحت اختیار کی ہوئی ایک چیز۔ نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے حقیقت کھول دی۔ ان میں سے جن افراد کا شعور زندہ تھا وہ فوراً آپ کی صداقت کو پہچان گئے اور آپ کے ساتھی بن گئے۔ اور جن لوگوں کے لیے ان کا دین آبائی رواج بن چکا تھا ان کو آپ کی آواز نامانوس آواز لگی، وہ بدک گئے اور آپ کے مخالف بن کر کھڑے ہوگئے۔
ااگرچہ آپ کی نبوت کے بارے میں پچھلی آسمانی کتابوں میں اتنی واضح علامتیں تھیں کہ ان کے ماننے والوں کے لیے آپ کی صداقت کو سمجھنا مشکل نہ تھا، مگر دنیوی مفاد اور مصلحتوں کی خاطر انھوں نے آپ کو ماننے سے انکار کردیا۔ صدیوں کے عمل سے ان کے یہاں جو مذہبی ڈھانچہ بن گیا تھا اس میں ان کو سرداری حاصل ہوگئی تھی۔ وہ بزرگوں کی گدیوں پر بیٹھ کر عوام کا مرجع بنے ہوئے تھے۔ مذہب کے نام پر طرح طرح کے نذرانے سال بھر ان کو ملتے رہتے تھے۔ ان کو نظر آیا کہ اگر انھوں نے نبی عربی کو سچا مان لیا تو ان کی مذہبی بڑائی ختم ہوجائے گی۔ مفادات کا سارا ڈھانچہ ٹوٹ جائے گا۔ اہل کتاب کو چوں کہ اس وقت عرب میں مذہب کی نمائندگی کا مقام حاصل تھا، لوگ ان سے نبی عربی کی بابت پوچھتے۔ وہ اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی بنا پر معصومانہ انداز میں کوئی ایسی شوشہ کی بات کہہ دیتے جس سے پیغمبر کی ذات اور آپ کا مشن لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہوجائے۔ اپنے وعظوں میں وہ لوگوں سے کہتے کہ حق پرست بنو اور حق کا ساتھ دو۔ مگر عملاً جب خود ان کے لیے حق کا ساتھ دینے کا وقت آیا تو وہ حق کا ساتھ نہ دے سکے۔
خدا کی پکار پر لبیک کہنا جب اس قیمت پر ہو کہ آدمی کو اپنی زندگی کا ڈھانچہ بدلنا پڑے، عزت وشرف کی گدیوں سے اپنے کو اتارنا ہوتو یہ وقت ان لوگوں کے لیے بڑا سخت ہوتا ہے جو اِنھیں دنیوی جلووں میںاپنا مذہبی مقام بنائے ہوئے ہوں، مگر وہ لوگ جو خشوع کی سطح پر جی رہے ہوں ان کے لیے یہ چيزیں رکاوٹ نہیں بنتیں۔ وہ اللہ کی یاد میں، اللہ کے لیے خرچ کرنے میں، اللہ کے حکم کے آگے جھک جانے میں اور اللہ کے لیے صبر کرنے میں وہ چیز پالیتے ہیں جو دوسرے لوگ دُنیا کے تماشوں میں پاتے ہیں۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ ڈرنے کی چیزاللہ کا غضب ہے، نہ کہ دنیوی اندیشے۔
يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
📘 اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کی کتاب ہے۔ مگر وہ ہدایت کی کتاب اس کے لیے ہے جو فی الواقع ہدایت کو جاننے کے معاملہ میں سنجیدہ ہو، جو اس کی پروا اور کھٹک رکھتا ہو۔ سچی طلب جو فطرت کی زمین پر اگتی ہے وہ خود پانے ہی کا ایک آغاز ہوتا ہے۔ سچی طلب اور سچی یافت دونوں ایک ہی سفر کے پچھلے اور اگلے مرحلے ہیں۔ یہ گویا خود اپنی فطرت کے بند صفحات کو کھولناہے۔ جب آدمی اس کا سچا ارادہ کرتا ہے تو فوراً فطرت کي مطابقت اور اللہ کی نصرت اس کا ساتھ دینے لگتی ہے، اس کو اپنی فطرت کی مبہم پکار کا متعین جواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
ایک آدمی کے اندر سچی طلب کا جاگنا عالَم ظاہر کے پیچھے عالم باطن کو دیکھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ تلاش جب یافت کے مرحلہ میں پہنچتی ہے تو وہ ایمان بالغیب بن جاتی ہے۔ وہی چیز جو ابتدائی مرحلہ میںایک برتر حقیقت کے آگے اپنے کو ڈال دینے کی بے قراری کا نام ہوتا ہے وہ بعد کے مرحلہ میںاللہ کا نمازی بننے کی صورت میں ڈھل جاتي ہے۔ وہی جذبہ جو ابتداء ًاپنے کو خیر اعلیٰ کے لیے وقف کردینے کے ہم معنی ہوتا ہے، وہ بعد کے مرحلہ میں اللہ کی راہ میںاپنے اثاثہ کو خرچ کرنے کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ وہی کھوج جو زندگی کے ہنگاموں کے آگے اس کا آخری انجام معلوم کرنے کی صورت میں کسی کے اندر ابھرتی ہے وہ آخرت پر یقین کی صورت میں اپنے سوال کا جواب پالیتی ہے۔
سچائی کو پانا گویا اپنے شعو ر کو حقیقت اعلیٰ کے ہم سطح کرلینا ہے۔ جو لوگ، اس طرح حق کو پالیں وہ ہر قسم کی نفسیاتی گرہوں سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ وہ سچائی کو اس کے بے آمیز روپ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ اس لیے سچائی جہاں بھی ہو اور جس بندۂ خدا کی زبان سے اس کا اعلان کیا جارہا ہو وہ فوراً اس کو پہچان لیتے ہیں اور اس پر لبیک کہتے ہیں۔ کوئی جمود، کوئی تقلید اور کوئی تعصباتی دیوار ان کے لیے اعترافِ حق میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ جن لوگوں کے اندریہ خصوصیات ہوں وہ اللہ کے سایہ میں آجاتے ہیں۔ اللہ کا بنایا ہوا نظام ان کو قبول کرلیتا ہے ان کو دنیا میں اس سچے راستہ پر چلنے کی توفیق مل جاتی ہے جس کی آخری منزل یہ ہے کہ آدمی آخرت کی ابدی نعمتوں میں داخل ہوجائے۔
حق کو وہی پاسکتا ہے جو اس کا ڈھونڈھنے والا ہے اور جو ڈھونڈنے والا ہے وہ ضرور اس کو پاتا ہے۔ یہاں ڈھونڈنے اور پانے کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں۔
وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَىٰ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَىٰ بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۚ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ ۖ كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ ۖ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
📘 بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی تھی۔ یعنی ان کو اپنے اس خاص کام کے لیے چنا تھا کہ ان کے پاس اپنی وحی بھیجے اور ان کے ذریعہ دوسری قوموں کو اپنی مرضی سے باخبر کرے۔ پھر اس منصب کی نسبت سے ان کو اور بہت سی نعمتیں اور سہولتیں دی گئیں ۔ اپنے دشمنوں پر غلبہ، وقتی لغزشوں سے در گزر، غیر معمولی حالات میں غیر معمولی نصرت اور ’’خداوند کی طرف سے ان کے لیے روٹی کا انتظام‘‘ وغیرہ۔ اس سے ان کی بعد کی نسلیں اس غلط فہمی میں پڑ گئیں کہ ہم اللہ کی خاص امت ہیں ۔ ہم ہر حال میں آخرت کی کامیابی حاصل کریں گے۔ مگر خدا کے اس قسم کے معاملات کسی کے لیے موروثي نہیں ہوتے۔ کسی گروہ کے اگلے لوگوں کا فیصلہ ان کے پچھلے لوگوں کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ ہر فرد کا الگ الگ ہوتا ہے۔ خدا کے انصاف کا دن اتنا سخت ہوگا کہ وہاں اپنے عمل کے سوا کوئی بھی دوسری چیز کسی کے کام آنے والی نہیں ۔
سچی دین داری یہ ہے کہ آدمی اللہ کے سوا کسی کومعبود نہ بنائے۔ اللہ کو دیکھے بغیر اللہ پر یقین کرے۔ آخرت کے حساب سے ڈر کر زندگی گزارے۔ پاک روزی سے اپنی ضروریات پوری کرے۔ جن لوگوں پر اس کو اختیار حاصل ہے ان کو جرم کرنے سے روک دے۔
وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ
📘 پچھلی آسمانی کتابوں کو ماننے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کيے۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہيے تھا کہ خدا کے شکر گزار بندے بنتے۔ مگر انھوں نے بالکل برعکس ثبوت دیا۔ مثلا ایک بڑا شہر یہود کے قبضہ میں دے دیا گیا اور کہاگیا کہ اس میں داخل ہوتو فاتحانہ غرور اور شان و شوکت سے نہیں بلکہ عجز کے ساتھ اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے۔ مگر وہ اس کے بجائے تفریحی کلمات بولنے لگے۔ ان کو من وسلویٰ کی قدرتی غذائیں دی گئیں تاکہ وہ معاشی جدوجہد سے فارغ رہ کر احکام الٰہی کی بجاآوری میں زیادہ سے زیادہ مشغول ہوں مگر انھوں نے چٹپٹے اور مسالہ دار کھانوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ انھوں نے دنیا میں ضرورت پر قناعت نہ کرکے لذت کی تلاش کی۔ ان کی بے حسی اتنی بڑھی کہ اللہ کی کھلی کھلی نشانیاں بھی ان کے دلوں کو پگھلانے کے لیے کافی ثابت نہ ہوئیں ۔ ان کی تنبیہ کے لیے جو اللہ کے بندے اُٹھے ان کا انھوں نے انکار کیا۔ ان میں یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ وہ نجات یافتہ گروہ ہیں ۔ مگر خدا کے یہاں نسلی اور گروہی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہونے والا نہیں ۔ ایک یہودی کو بھی اسی خدائی قانون سے جانچا جائے گا جس سے ایک کرسچن یا مسلمان، وغیرہ کو جانچا جائے گا۔ جنت اسی کے لیے ہے جو جنت والے عمل کرے، نہ کہ کسی نسل یا گروہ کے لیے۔
زمین کے اوپر شکر، صبر، تواضع اور قناعت کے ساتھ رہنا زمین کی اصلاح ہے۔ اس کے برعکس، ناشکری، بے صبری، گھمنڈ اور حرص کے ساتھ رہنا زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ کیوں کہ اس سے خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام ٹوٹتا ہے۔ یہ حد سے نکل جانا ہے جب کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک اپنی حد کے اندر عمل کرے۔
فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ
📘 پچھلی آسمانی کتابوں کو ماننے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کيے۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہيے تھا کہ خدا کے شکر گزار بندے بنتے۔ مگر انھوں نے بالکل برعکس ثبوت دیا۔ مثلا ایک بڑا شہر یہود کے قبضہ میں دے دیا گیا اور کہاگیا کہ اس میں داخل ہوتو فاتحانہ غرور اور شان و شوکت سے نہیں بلکہ عجز کے ساتھ اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے۔ مگر وہ اس کے بجائے تفریحی کلمات بولنے لگے۔ ان کو من وسلویٰ کی قدرتی غذائیں دی گئیں تاکہ وہ معاشی جدوجہد سے فارغ رہ کر احکام الٰہی کی بجاآوری میں زیادہ سے زیادہ مشغول ہوں مگر انھوں نے چٹپٹے اور مسالہ دار کھانوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ انھوں نے دنیا میں ضرورت پر قناعت نہ کرکے لذت کی تلاش کی۔ ان کی بے حسی اتنی بڑھی کہ اللہ کی کھلی کھلی نشانیاں بھی ان کے دلوں کو پگھلانے کے لیے کافی ثابت نہ ہوئیں ۔ ان کی تنبیہ کے لیے جو اللہ کے بندے اُٹھے ان کا انھوں نے انکار کیا۔ ان میں یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ وہ نجات یافتہ گروہ ہیں ۔ مگر خدا کے یہاں نسلی اور گروہی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہونے والا نہیں ۔ ایک یہودی کو بھی اسی خدائی قانون سے جانچا جائے گا جس سے ایک کرسچن یا مسلمان، وغیرہ کو جانچا جائے گا۔ جنت اسی کے لیے ہے جو جنت والے عمل کرے، نہ کہ کسی نسل یا گروہ کے لیے۔
زمین کے اوپر شکر، صبر، تواضع اور قناعت کے ساتھ رہنا زمین کی اصلاح ہے۔ اس کے برعکس، ناشکری، بے صبری، گھمنڈ اور حرص کے ساتھ رہنا زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ کیوں کہ اس سے خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام ٹوٹتا ہے۔ یہ حد سے نکل جانا ہے جب کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک اپنی حد کے اندر عمل کرے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
📘 ایک شخص اپنی آنکھ کو بند کرلے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی وہ سورج کو نہ دیکھے گا۔ کوئی شخص اپنے کان میں روئی ڈال لے توکان رکھتے ہوئے بھی وہ باہر کی آواز کو نہیںسنے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ حق کا بھی ہے۔ حق کا اعلان خواہ کتنا ہی واضح صورت میں ہورہا ہو مگر کسی کے لیے وہ قابلِ فہم یا قابلِ قبول اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ اس کے لیے اپنے دل کے دروازے کھلا رکھے۔ جو شخص اپنے دل کے دروازے بند کرلے، اس کے لیے کائنات میں خدا کی خاموش پکار اور داعی کی زبان سے اس کا لفظی اعلان دونوں بے سود ثابت ہوں گے۔
حق کی دعوت جب اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو وہ اتنی زیادہ مبنی بر حقیقت اور اتنی زیادہ مطابقِ فطرت ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس کی نوعیت کو سمجھنے سے عاجز نہیں رہ سکتا۔ جو شخص بھی کھلے ذہن سے اس کو دیکھے گا اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ عین حق ہے۔ مگر اُس وقت عملی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف وقت کا ڈھانچہ ہوتا ہے جو صدیوں کے عمل سے ایک خاص صورت میں قائم ہوجاتا ہے۔ اس ڈھانچہ کے تحت کچھ مذہبی یا غیر مذہبی گدیاں بن جاتی ہیں جن پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ عزت و شہرت کی صورتیں رائج ہوجاتی ہیں جن کے جھنڈے اٹھا کر کچھ لو گ وقت کے اکابر کا مقام حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ کاروبار اور مفادات قائم ہوجاتے ہیں جن کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرکے بہت سے لوگ اطمینان کی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں جب ایک غیر معروف کونے سے اللہ اپنے ایک بندے کو کھڑا کرتا ہے اور اس کی زبان سے اپنی مرضی کا اعلان کراتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو اپنی بنی بنائی دنیا بھنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ حق کے پیغام کی تمام تر صداقت کے باوجود دو چیزیں ان کے لیے اس کو صحیح طورپر سمجھنے میںرکاوٹ بن جاتی ہیں— کبر اوردنیا پرستی۔ جو لوگ مروجہ ڈھانچہ میں بڑائی کے مقامات پر بیٹھے ہوئے ہوں، ان کو ایک ’’چھوٹے آدمی‘‘ کی بات ماننے میںاپنی عزت خطرہ میں پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ احساس ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات کو جگادیتا ہے۔ داعی کو وہ اپنے مقابلہ میں حقیر سمجھ کر اس کی دعوت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی طرح دنیوی مفادات کا سوال بھی قبولِ حق میںرکاوٹ بن جاتا ہے۔ کیوں کہ حق کا داعی مروجہ سماجي روايت کا نمائندہ نہیںہوتا۔ وہ ایک نئی اور غیر مانوس آواز کو لے کر اٹھتا ہے، اس لیے اس کو ماننے کی صورت میں لوگوں کو اپنے مفادات کا ڈھانچہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہی وہ کنڈیشننگ کی حالت ہے جس کو قرآن میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیاہے۔ جو لوگ دعوت حق کے معاملہ کو سنجیدہ معاملہ نہ سمجھیں ، جو گھمنڈ اور دنیا پرستی کی نفسیات میں مبتلا ہوں ، ان کے ذہن کے اوپر ایسے غیر محسوس پردے پڑ جاتے ہیں جو حق بات کو ان کے ذہن میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ کسی چیز کے بارے میں آدمی کے اندر مخالفانہ نفسیات جاگ اٹھیں تو اس کے بعد وہ اس کی معقولیت کو سمجھ نہیں پاتا۔ خواہ اس کے حق میں کتنے ہی واضح دلائل پیش کیے جارہے ہوں ۔
۞ وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ ۖ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
📘 پچھلی آسمانی کتابوں کو ماننے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کيے۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہيے تھا کہ خدا کے شکر گزار بندے بنتے۔ مگر انھوں نے بالکل برعکس ثبوت دیا۔ مثلا ایک بڑا شہر یہود کے قبضہ میں دے دیا گیا اور کہاگیا کہ اس میں داخل ہوتو فاتحانہ غرور اور شان و شوکت سے نہیں بلکہ عجز کے ساتھ اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے۔ مگر وہ اس کے بجائے تفریحی کلمات بولنے لگے۔ ان کو من وسلویٰ کی قدرتی غذائیں دی گئیں تاکہ وہ معاشی جدوجہد سے فارغ رہ کر احکام الٰہی کی بجاآوری میں زیادہ سے زیادہ مشغول ہوں مگر انھوں نے چٹپٹے اور مسالہ دار کھانوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ انھوں نے دنیا میں ضرورت پر قناعت نہ کرکے لذت کی تلاش کی۔ ان کی بے حسی اتنی بڑھی کہ اللہ کی کھلی کھلی نشانیاں بھی ان کے دلوں کو پگھلانے کے لیے کافی ثابت نہ ہوئیں ۔ ان کی تنبیہ کے لیے جو اللہ کے بندے اُٹھے ان کا انھوں نے انکار کیا۔ ان میں یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ وہ نجات یافتہ گروہ ہیں ۔ مگر خدا کے یہاں نسلی اور گروہی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہونے والا نہیں ۔ ایک یہودی کو بھی اسی خدائی قانون سے جانچا جائے گا جس سے ایک کرسچن یا مسلمان، وغیرہ کو جانچا جائے گا۔ جنت اسی کے لیے ہے جو جنت والے عمل کرے، نہ کہ کسی نسل یا گروہ کے لیے۔
زمین کے اوپر شکر، صبر، تواضع اور قناعت کے ساتھ رہنا زمین کی اصلاح ہے۔ اس کے برعکس، ناشکری، بے صبری، گھمنڈ اور حرص کے ساتھ رہنا زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ کیوں کہ اس سے خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام ٹوٹتا ہے۔ یہ حد سے نکل جانا ہے جب کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک اپنی حد کے اندر عمل کرے۔
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَنْ نَصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَىٰ بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ ۚ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ
📘 پچھلی آسمانی کتابوں کو ماننے والی قوموں پر اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعامات کيے۔ اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہيے تھا کہ خدا کے شکر گزار بندے بنتے۔ مگر انھوں نے بالکل برعکس ثبوت دیا۔ مثلا ایک بڑا شہر یہود کے قبضہ میں دے دیا گیا اور کہاگیا کہ اس میں داخل ہوتو فاتحانہ غرور اور شان و شوکت سے نہیں بلکہ عجز کے ساتھ اور اللہ سے معافی مانگتے ہوئے۔ مگر وہ اس کے بجائے تفریحی کلمات بولنے لگے۔ ان کو من وسلویٰ کی قدرتی غذائیں دی گئیں تاکہ وہ معاشی جدوجہد سے فارغ رہ کر احکام الٰہی کی بجاآوری میں زیادہ سے زیادہ مشغول ہوں مگر انھوں نے چٹپٹے اور مسالہ دار کھانوں کا مطالبہ شروع کردیا۔ انھوں نے دنیا میں ضرورت پر قناعت نہ کرکے لذت کی تلاش کی۔ ان کی بے حسی اتنی بڑھی کہ اللہ کی کھلی کھلی نشانیاں بھی ان کے دلوں کو پگھلانے کے لیے کافی ثابت نہ ہوئیں ۔ ان کی تنبیہ کے لیے جو اللہ کے بندے اُٹھے ان کا انھوں نے انکار کیا۔ ان میں یہ ڈھٹائی اس لیے پیدا ہوئی کہ انھوں نے سمجھ لیا کہ وہ نجات یافتہ گروہ ہیں ۔ مگر خدا کے یہاں نسلی اور گروہی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہونے والا نہیں ۔ ایک یہودی کو بھی اسی خدائی قانون سے جانچا جائے گا جس سے ایک کرسچن یا مسلمان، وغیرہ کو جانچا جائے گا۔ جنت اسی کے لیے ہے جو جنت والے عمل کرے، نہ کہ کسی نسل یا گروہ کے لیے۔
زمین کے اوپر شکر، صبر، تواضع اور قناعت کے ساتھ رہنا زمین کی اصلاح ہے۔ اس کے برعکس، ناشکری، بے صبری، گھمنڈ اور حرص کے ساتھ رہنا زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ کیوں کہ اس سے خدا کا قائم کیا ہوا فطری نظام ٹوٹتا ہے۔ یہ حد سے نکل جانا ہے جب کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک اپنی حد کے اندر عمل کرے۔
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَىٰ وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
📘 آیت میں چار گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک، مسلمان جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔دوسرے ، یہود جو اپنے کو حضرت موسی ؑکی امت کہتے ہیں۔ تیسرے، نصاریٰ جو حضرت مسیح ؑکی امت ہونے کے دعویدار ہیں۔ چوتھے، صابی جو اپنے کو حضرت یحییٰ ؑکی امت بتاتے تھے اور قدیم زمانے میں عراق کے علاقہ میں آباد تھے۔ وہ اہلِ کتاب تھے اور کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے۔ مگر اب صابی فرقہ ختم ہوچکا ہے۔ دنیا میں اب اس کا کہیں وجود نہیں۔
یہاں مسلمانوں کو الگ نہیں کیا ہے۔ بلکہ ان کا اور دوسرے پیغمبروں سے نسبت رکھنے والی امتوں کا ذکر ایک ساتھ کیاگیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گروہ ہونے کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک سب برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ گروہ کے اعتبار سے ایک گروہ اور دوسرے گروہ میں کوئی فرق نہیں۔ سب کی نجات کا ایک ہی محکم اصول ہے، اور وہ ہے ایمان اور عمل صالح۔ کوئی گروہ اپنے کو خواہ مسلمان کہتا ہو یا وہ اپنے کو یہودی یا مسیحی یا صابی کہے، ان میں سے کوئی بھی محض ایک مخصوص گروہ ہونے کی بنا پر خداکے یہاں کوئی خصوصی درجہ نہیں رکھتا۔ درجہ کا اعتبار اس پر ہے کہ کس نے خدا کی منشا کے مطابق اپنی عملی زندگی کو ڈھالا۔
نبی کے زمانہ میں جب اس کے ماننے والوں کا گروہ بنتا ہے تو اس کی بنیاد ہمیشہ ایمان اور عمل صالح پر ہوتی ہے۔ اس وقت ایساہوتا ہے کہ نبی کی پکار سن کر کچھ لوگوں کے اندر ذہنی اور فکری انقلاب آتاہے۔ ان کے اندر ایک نیا عزم جاگتا ہے۔ ان کی زندگی کا نقشہ جو اب تک ذاتی خواہشوں کی بنیاد پر چل رہا تھا وہ خدائی تعلیمات کی بنیاد پر قائم ہوتاہے۔ یہی لوگ حقیقی معنوں میں نبی کی امت ہوتے ہیں۔ ان کے لیے نبی کی زبان سے آخرت کی نعمتوں کی بشارت دی جاتی ہے۔
مگر بعد کی نسلوں میں صورت حال بدل جاتی ہے۔ اب خدا کا دین ان کے لیے ایک قسم کی قومی روایت بن جاتا ہے۔ جو بشارتیں ایمان وعمل کی بنیاد پر دی گئی تھیں ان کو محض گروہی تعلق کا نتیجہ سمجھ لیا جاتاہے۔ وہ گمان کرلیتے ہیں کہ ان کے گروہ کا اللہ سے کوئی خاص رشتہ ہے جو دوسرے لوگوں سے نہیں ہے۔ جو شخص اس مخصوص گروہ سے تعلق رکھے، خواہ عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے وہ کیسا ہی ہو، بہر حال اس کی نجات ہو کررہے گی۔ جنت اس کے اپنے گروہ کے لیے ہے اور جہنم صرف دوسرے گروہوں کے لیے۔
مگر اللہ کا کسی گروہ سے خصوصی رشتہ نہیں۔ اللہ کے یہاں جو کچھ اعتبار ہے وہ صرف اس بات کا ہے کہ آدمی اپنے فکر اور عمل میں کیسا ہے۔ آخرت میں آدمی کے انجام کا فیصلہ اس کے حقیقی کردار کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ گروہی نسبتوں کی بنیاد پر۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
📘 بائبل کی روایت بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جب یہود سے یہ عہد لیاگیا کہ وہ خدائی تعلیمات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے تو ’’خدا نے پہاڑ کو ان کے اوپر الٹ کر اوندھا کردیا اور ان سے کہا کہ توریت کو یا تو قبول کرو ورنہ یہیں تم سب کو ہلاک کردیا جائے گا (تالمود)۔یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانا گویا اللہ سے یہ عہد کرنا ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا خدا کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہ ایک بے حد سنگین اقرار ہے۔ اس میںایک طرف عاجز بندہ ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف وہ خداہوتاہے جس کے ہاتھ میں آسمان وزمین کی طاقتیں ہیں۔ اگر بندہ اپنے عہد پر پورا اترے تو اس کے لیے خدا کی لازوال نعمتیں ہیں۔ اور اگر وہ عہد کرکے اس سے پھر جائے تو اس کے لیے یہ شدید خطرہ ہے کہ اس کا خدا اس کو جہنم میں ڈال دے جہاں وہ اس طرح جلتا رہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کے لیے باقی نہ ہو۔
ایمانی عہد کے وقت حضرت موسیٰ ؑکی قوم پر جو کیفیت گزری تھی وہی ہر بندۂ مومن سے مطلوب ہے— ہر شخص جو اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ ایمان کی رسّی میں باندھتا ہے، اس کو اس کی سنگینی سے اس طرح کانپنا چاہیے گویا کہ اس نے اگر اس عہد کے خلاف کیا تو ’’زمین وآسمان اس کے اوپر گر پڑیں گے‘‘۔
ایک گروہ جس کو اللہ کی طرف سے شریعت دی جائے اس کی گم راہی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عملاً اس کے خلاف چلے اور تاویلوں کے ذریعے یہ ظاہر کرے کہ وہ عین خداکے حکم پر قائم ہے۔ ان کو یہ حکم تھا کہ وہ ایک مخصوص دن کو روزہ اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں ۔ اس دن کسی قسم کا کوئی دنیوی کام نہ کریں ۔ مگر انھوں نے اس حرمت کو باقی نہ رکھا۔ وہ دوسرے دنوں کی طرح اس مخصوص دن بھی اپنے دنیوی کاروبار کرنے لگے۔ البتہ وہ طرح طرح کی لفظی تاویلوں سے ظاہر کرتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ عین خدا کے حکم کے مطابق ہے۔ ان کی یہ ڈھٹائی اللہ کو اتنی ناپسند ہوئی کہ وہ بندر بناديے گئے — جب بھی آدمی شریعت سے انحراف کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو جانوروں کی سطح پر لے جاتاہے جو کسی اخلاقی ضابطہ کے پابند نہیں ہیں ۔ اس لیے جو لوگ ظاہر میں خدا کے دین کو ماننے کا اقرار کریں ، مگر اس کے ساتھ اپنے دنیوی مفاد کے لیے حیلہ جوئی کا طریقہ اختیار کریں ان کو ڈرنا چاہیے کہ خدا کا قانون ان کو اسی حیوانی ذلت میں نہ مبتلا کردے جس میں پچھلی قومیں اپنے اسی قسم کے فعل کی وجہ سے مبتلا ہوئے۔
ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ
📘 بائبل کی روایت بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جب یہود سے یہ عہد لیاگیا کہ وہ خدائی تعلیمات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے تو ’’خدا نے پہاڑ کو ان کے اوپر الٹ کر اوندھا کردیا اور ان سے کہا کہ توریت کو یا تو قبول کرو ورنہ یہیں تم سب کو ہلاک کردیا جائے گا (تالمود)۔یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانا گویا اللہ سے یہ عہد کرنا ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا خدا کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہ ایک بے حد سنگین اقرار ہے۔ اس میںایک طرف عاجز بندہ ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف وہ خداہوتاہے جس کے ہاتھ میں آسمان وزمین کی طاقتیں ہیں۔ اگر بندہ اپنے عہد پر پورا اترے تو اس کے لیے خدا کی لازوال نعمتیں ہیں۔ اور اگر وہ عہد کرکے اس سے پھر جائے تو اس کے لیے یہ شدید خطرہ ہے کہ اس کا خدا اس کو جہنم میں ڈال دے جہاں وہ اس طرح جلتا رہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کے لیے باقی نہ ہو۔
ایمانی عہد کے وقت حضرت موسیٰ ؑکی قوم پر جو کیفیت گزری تھی وہی ہر بندۂ مومن سے مطلوب ہے— ہر شخص جو اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ ایمان کی رسّی میں باندھتا ہے، اس کو اس کی سنگینی سے اس طرح کانپنا چاہیے گویا کہ اس نے اگر اس عہد کے خلاف کیا تو ’’زمین وآسمان اس کے اوپر گر پڑیں گے‘‘۔
ایک گروہ جس کو اللہ کی طرف سے شریعت دی جائے اس کی گم راہی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عملاً اس کے خلاف چلے اور تاویلوں کے ذریعے یہ ظاہر کرے کہ وہ عین خداکے حکم پر قائم ہے۔ ان کو یہ حکم تھا کہ وہ ایک مخصوص دن کو روزہ اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں ۔ اس دن کسی قسم کا کوئی دنیوی کام نہ کریں ۔ مگر انھوں نے اس حرمت کو باقی نہ رکھا۔ وہ دوسرے دنوں کی طرح اس مخصوص دن بھی اپنے دنیوی کاروبار کرنے لگے۔ البتہ وہ طرح طرح کی لفظی تاویلوں سے ظاہر کرتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ عین خدا کے حکم کے مطابق ہے۔ ان کی یہ ڈھٹائی اللہ کو اتنی ناپسند ہوئی کہ وہ بندر بناديے گئے — جب بھی آدمی شریعت سے انحراف کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو جانوروں کی سطح پر لے جاتاہے جو کسی اخلاقی ضابطہ کے پابند نہیں ہیں ۔ اس لیے جو لوگ ظاہر میں خدا کے دین کو ماننے کا اقرار کریں ، مگر اس کے ساتھ اپنے دنیوی مفاد کے لیے حیلہ جوئی کا طریقہ اختیار کریں ان کو ڈرنا چاہیے کہ خدا کا قانون ان کو اسی حیوانی ذلت میں نہ مبتلا کردے جس میں پچھلی قومیں اپنے اسی قسم کے فعل کی وجہ سے مبتلا ہوئے۔
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ
📘 بائبل کی روایت بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جب یہود سے یہ عہد لیاگیا کہ وہ خدائی تعلیمات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے تو ’’خدا نے پہاڑ کو ان کے اوپر الٹ کر اوندھا کردیا اور ان سے کہا کہ توریت کو یا تو قبول کرو ورنہ یہیں تم سب کو ہلاک کردیا جائے گا (تالمود)۔یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانا گویا اللہ سے یہ عہد کرنا ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا خدا کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہ ایک بے حد سنگین اقرار ہے۔ اس میںایک طرف عاجز بندہ ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف وہ خداہوتاہے جس کے ہاتھ میں آسمان وزمین کی طاقتیں ہیں۔ اگر بندہ اپنے عہد پر پورا اترے تو اس کے لیے خدا کی لازوال نعمتیں ہیں۔ اور اگر وہ عہد کرکے اس سے پھر جائے تو اس کے لیے یہ شدید خطرہ ہے کہ اس کا خدا اس کو جہنم میں ڈال دے جہاں وہ اس طرح جلتا رہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کے لیے باقی نہ ہو۔
ایمانی عہد کے وقت حضرت موسیٰ ؑکی قوم پر جو کیفیت گزری تھی وہی ہر بندۂ مومن سے مطلوب ہے— ہر شخص جو اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ ایمان کی رسّی میں باندھتا ہے، اس کو اس کی سنگینی سے اس طرح کانپنا چاہیے گویا کہ اس نے اگر اس عہد کے خلاف کیا تو ’’زمین وآسمان اس کے اوپر گر پڑیں گے‘‘۔
ایک گروہ جس کو اللہ کی طرف سے شریعت دی جائے اس کی گم راہی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عملاً اس کے خلاف چلے اور تاویلوں کے ذریعے یہ ظاہر کرے کہ وہ عین خداکے حکم پر قائم ہے۔ ان کو یہ حکم تھا کہ وہ ایک مخصوص دن کو روزہ اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں ۔ اس دن کسی قسم کا کوئی دنیوی کام نہ کریں ۔ مگر انھوں نے اس حرمت کو باقی نہ رکھا۔ وہ دوسرے دنوں کی طرح اس مخصوص دن بھی اپنے دنیوی کاروبار کرنے لگے۔ البتہ وہ طرح طرح کی لفظی تاویلوں سے ظاہر کرتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ عین خدا کے حکم کے مطابق ہے۔ ان کی یہ ڈھٹائی اللہ کو اتنی ناپسند ہوئی کہ وہ بندر بناديے گئے — جب بھی آدمی شریعت سے انحراف کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو جانوروں کی سطح پر لے جاتاہے جو کسی اخلاقی ضابطہ کے پابند نہیں ہیں ۔ اس لیے جو لوگ ظاہر میں خدا کے دین کو ماننے کا اقرار کریں ، مگر اس کے ساتھ اپنے دنیوی مفاد کے لیے حیلہ جوئی کا طریقہ اختیار کریں ان کو ڈرنا چاہیے کہ خدا کا قانون ان کو اسی حیوانی ذلت میں نہ مبتلا کردے جس میں پچھلی قومیں اپنے اسی قسم کے فعل کی وجہ سے مبتلا ہوئے۔
فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ
📘 بائبل کی روایت بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ کے زمانے میں جب یہود سے یہ عہد لیاگیا کہ وہ خدائی تعلیمات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے تو ’’خدا نے پہاڑ کو ان کے اوپر الٹ کر اوندھا کردیا اور ان سے کہا کہ توریت کو یا تو قبول کرو ورنہ یہیں تم سب کو ہلاک کردیا جائے گا (تالمود)۔یہی معاملہ ہر اس شخص کا ہے جو اللہ پر ایمان لاتا ہے۔ ایمان لانا گویا اللہ سے یہ عہد کرنا ہے کہ آدمی کا جینا اور مرنا خدا کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ یہ ایک بے حد سنگین اقرار ہے۔ اس میںایک طرف عاجز بندہ ہوتا ہے۔ اور دوسری طرف وہ خداہوتاہے جس کے ہاتھ میں آسمان وزمین کی طاقتیں ہیں۔ اگر بندہ اپنے عہد پر پورا اترے تو اس کے لیے خدا کی لازوال نعمتیں ہیں۔ اور اگر وہ عہد کرکے اس سے پھر جائے تو اس کے لیے یہ شدید خطرہ ہے کہ اس کا خدا اس کو جہنم میں ڈال دے جہاں وہ اس طرح جلتا رہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ اس کے لیے باقی نہ ہو۔
ایمانی عہد کے وقت حضرت موسیٰ ؑکی قوم پر جو کیفیت گزری تھی وہی ہر بندۂ مومن سے مطلوب ہے— ہر شخص جو اپنے آپ کو اللہ کے ساتھ ایمان کی رسّی میں باندھتا ہے، اس کو اس کی سنگینی سے اس طرح کانپنا چاہیے گویا کہ اس نے اگر اس عہد کے خلاف کیا تو ’’زمین وآسمان اس کے اوپر گر پڑیں گے‘‘۔
ایک گروہ جس کو اللہ کی طرف سے شریعت دی جائے اس کی گم راہی کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ عملاً اس کے خلاف چلے اور تاویلوں کے ذریعے یہ ظاہر کرے کہ وہ عین خداکے حکم پر قائم ہے۔ ان کو یہ حکم تھا کہ وہ ایک مخصوص دن کو روزہ اور عبادت کے لیے مخصوص رکھیں ۔ اس دن کسی قسم کا کوئی دنیوی کام نہ کریں ۔ مگر انھوں نے اس حرمت کو باقی نہ رکھا۔ وہ دوسرے دنوں کی طرح اس مخصوص دن بھی اپنے دنیوی کاروبار کرنے لگے۔ البتہ وہ طرح طرح کی لفظی تاویلوں سے ظاہر کرتے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ عین خدا کے حکم کے مطابق ہے۔ ان کی یہ ڈھٹائی اللہ کو اتنی ناپسند ہوئی کہ وہ بندر بناديے گئے — جب بھی آدمی شریعت سے انحراف کرتاہے تو وہ اپنے آپ کو جانوروں کی سطح پر لے جاتاہے جو کسی اخلاقی ضابطہ کے پابند نہیں ہیں ۔ اس لیے جو لوگ ظاہر میں خدا کے دین کو ماننے کا اقرار کریں ، مگر اس کے ساتھ اپنے دنیوی مفاد کے لیے حیلہ جوئی کا طریقہ اختیار کریں ان کو ڈرنا چاہیے کہ خدا کا قانون ان کو اسی حیوانی ذلت میں نہ مبتلا کردے جس میں پچھلی قومیں اپنے اسی قسم کے فعل کی وجہ سے مبتلا ہوئے۔
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً ۖ قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
📘 ایک شخص اپنی آنکھ کو بند کرلے تو آنکھ رکھتے ہوئے بھی وہ سورج کو نہ دیکھے گا۔ کوئی شخص اپنے کان میں روئی ڈال لے توکان رکھتے ہوئے بھی وہ باہر کی آواز کو نہیںسنے گا۔ ایسا ہی کچھ معاملہ حق کا بھی ہے۔ حق کا اعلان خواہ کتنا ہی واضح صورت میں ہورہا ہو مگر کسی کے لیے وہ قابلِ فہم یا قابلِ قبول اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ اس کے لیے اپنے دل کے دروازے کھلا رکھے۔ جو شخص اپنے دل کے دروازے بند کرلے، اس کے لیے کائنات میں خدا کی خاموش پکار اور داعی کی زبان سے اس کا لفظی اعلان دونوں بے سود ثابت ہوں گے۔
حق کی دعوت جب اپنی بے آمیز شکل میں اٹھتی ہے تو وہ اتنی زیادہ مبنی بر حقیقت اور اتنی زیادہ مطابقِ فطرت ہوتی ہے کہ کوئی شخص اس کی نوعیت کو سمجھنے سے عاجز نہیں رہ سکتا۔ جو شخص بھی کھلے ذہن سے اس کو دیکھے گا اس کا دل گواہی دے گا کہ یہ عین حق ہے۔ مگر اُس وقت عملی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ ایک طرف وقت کا ڈھانچہ ہوتا ہے جو صدیوں کے عمل سے ایک خاص صورت میں قائم ہوجاتا ہے۔ اس ڈھانچہ کے تحت کچھ مذہبی یا غیر مذہبی گدیاں بن جاتی ہیں جن پر کچھ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ عزت و شہرت کی صورتیں رائج ہوجاتی ہیں جن کے جھنڈے اٹھا کر کچھ لو گ وقت کے اکابر کا مقام حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں۔ کچھ کاروبار اور مفادات قائم ہوجاتے ہیں جن کے ساتھ اپنے کو وابستہ کرکے بہت سے لوگ اطمینان کی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔
ان حالات میں جب ایک غیر معروف کونے سے اللہ اپنے ایک بندے کو کھڑا کرتا ہے اور اس کی زبان سے اپنی مرضی کا اعلان کراتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کو اپنی بنی بنائی دنیا بھنگ ہوتی نظر آتی ہے۔ حق کے پیغام کی تمام تر صداقت کے باوجود دو چیزیں ان کے لیے اس کو صحیح طورپر سمجھنے میںرکاوٹ بن جاتی ہیں— کبر اوردنیا پرستی۔ جو لوگ مروجہ ڈھانچہ میں بڑائی کے مقامات پر بیٹھے ہوئے ہوں، ان کو ایک ’’چھوٹے آدمی‘‘ کی بات ماننے میںاپنی عزت خطرہ میں پڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ احساس ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات کو جگادیتا ہے۔ داعی کو وہ اپنے مقابلہ میں حقیر سمجھ کر اس کی دعوت کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی طرح دنیوی مفادات کا سوال بھی قبولِ حق میںرکاوٹ بن جاتا ہے۔ کیوں کہ حق کا داعی مروجہ سماجي روايت کا نمائندہ نہیںہوتا۔ وہ ایک نئی اور غیر مانوس آواز کو لے کر اٹھتا ہے، اس لیے اس کو ماننے کی صورت میں لوگوں کو اپنے مفادات کا ڈھانچہ ٹوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔
یہی وہ کنڈیشننگ کی حالت ہے جس کو قرآن میں مہر لگانے سے تعبیر کیا گیاہے۔ جو لوگ دعوت حق کے معاملہ کو سنجیدہ معاملہ نہ سمجھیں ، جو گھمنڈ اور دنیا پرستی کی نفسیات میں مبتلا ہوں ، ان کے ذہن کے اوپر ایسے غیر محسوس پردے پڑ جاتے ہیں جو حق بات کو ان کے ذہن میں داخل نہیں ہونے دیتے۔ کسی چیز کے بارے میں آدمی کے اندر مخالفانہ نفسیات جاگ اٹھیں تو اس کے بعد وہ اس کی معقولیت کو سمجھ نہیں پاتا۔ خواہ اس کے حق میں کتنے ہی واضح دلائل پیش کیے جارہے ہوں ۔
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ۚ قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ ۚ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا ۖ وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
📘 حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل میں قتل کا ایک واقعہ ہوا۔ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے واسطہ سے ان کو یہ حکم دیا کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کا گوشت مقتول پر مارو، مقتول اللہ کے حکم سے قاتل کا نام بتادے گا۔ یہ ایک معجزاتی تدبیر تھی جو چند مقاصد کے لیے اختیار کی گئی
۱۔ مصر میں لمبی مدت تک قیام کرنے کی وجہ سے بنی اسرائیل مصری تہذیب اور رسوم سے متاثر ہوگئے۔ مصری قوم گائے کو پوجتی تھی۔ چنانچہ مصریوں کے اثر سے بنی اسرائیل میں بھی گائے کے مقدس ہونے کا ذہن پیدا ہوگیا۔ جب مذکورہ واقعہ ہوا تو اللہ نے چاہا کہ اس واقعہ کے ذیل میں ان کے ذہن سے گائے کے تقدس کو توڑا جائے۔ چنانچہ قاتل کا پتہ لگانے کے لیے گائے کے ذبح کی تدبیر اختیار کی گئی۔
۲۔ اسی طرح بنی اسرائیل نے یہ غلطی کی تھی کہ فقہی موشگافی (hair splitting)اور بحث کے نتیجہ میں خدا کے سادہ دین کو ایک بوجھل دین بنا ڈالا تھا۔ چنانچہ مذکورہ واقعہ کے ذیل میں ان کو یہ سبق دیاگیا کہ اللہ کی طرف سے جو حکم آئے اس کو سادہ معنوں میں لے کر فوراً اس کی تعمیل میں لگ جاؤ۔ کھو دکرید کا طریقہ اختیار نہ کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا کہ حکم کی تفصیلات جاننے اور اس کے حدود متعین کرنے کے لیے موشگافیاںکرنے لگے توتم سخت آزمائش میں پڑ جاؤ گے۔ اس طرح ایک سادہ حکم شرائط کا اضافہ ہوتے ہوتے ایک سخت حکم بن جائے گا جس کی تعمیل تمھارے لیے بے حد مشکل ہو۔
۳۔ اس واقعہ کے ذریعہ انسانوں کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ دوسری زندگی اسی طرح ایک ممکن زندگی ہے جیسے پہلی زندگی۔ اللہ ہر آدمی کو مرنے کے بعد زندہ کردے گا اور اس کو دوبارہ ایک نئی دنیا میں اٹھائے گا۔
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً ۚ وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ ۚ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
📘 خدا کے حکم کے بارے میں جو لوگ بحثیں اور تاویلیں کریں ان کے اندر دھیرے دھیرے بے حسی کا مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ ان کے دل سخت ہوتے چلے جاتے ہیں۔ خدا کا نام سب سے بڑی ہستی کا نام ہے۔ آدمی کے اندر ایمان زندہ ہو تو خدا کا نام اس کو ہلا دیتا ہے۔ بولنے سے زیادہ اسے چپ لگ جاتی ہے۔ مگر جب دلوں میں جمود اور بے حسی آتی ہے تو خدا کی باتوں میں بھی اسی قسم کی بحثیں اور تاویلیں شروع کردی جاتی ہیں جو عام انسانی کلام میں کی جاتی ہیں۔ اس قسم کا عمل ان کی بے حسی میں اور اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہوجاتے ہیں۔ اب خدا کا تصور ان کے دلوں کو نہیں پگھلاتا، وہ ان کے اندر تڑپ پیدا نہیں کرتا۔ وہ ان کی روح کے اندر ارتعاش پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتا ۔
پتھروں کا ذکر یہاں تمثیل کے طورپر کیا گیاہے۔ خدا نے اپنی کائنات کو اس طرح بنایا ہے کہ وہ آدمی کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان بن گئی ہے۔ یہاں کی ہر چیز خاموش مثال کی زبان میں اسی مرضیٔ رب کا عملی نشان ہے جو مرضیٔ رب قرآن میں ان الفاظ کے ذریعہ بیان کی گئی ہے۔
پتھروں کے ذریعہ خدا نے اپنی دنیا میں جو تمثیلات قائم کی ہیں ان میں سے تین چیزوں کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔
پہاڑوں پر ایک مشاہدہ یہ سامنے آتا ہے کہ پتھروں کے اندر سے پانی کے سوتے بہتے رہتے ہیں جو بالآخر مل کر دریا کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ اس انسان کی تمثیل ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر بسا ہوا ہو اور وہ آنسوؤں کی صورت میں اس کی آنکھ سے بہہ پڑتا ہے۔
دوسری مثال اس پتھر کی ہے جو بظاہر خشک چٹان معلوم ہو، مگر جب توڑنے والے اس کو توڑتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نیچے پانی کا بڑا ذخیرہ موجود تھا۔ ایسی چٹانوں کو توڑکر کنوئیں بنائے جاتے ہیں۔ یہ اس انسان کی تمثیل ہے جو بظاہر خدا سے دور معلوم ہوتاتھا۔ اس کے بعد اس پر ایک حادثہ گزرا۔ اس حادثے نے اس کی روح کو ہلا دیا۔ وہ آنسوؤں کے سیلاب کے ساتھ خدا کی طرف دوڑ پڑا۔
پتھروں کی دنیا میں تیسری مثال ہبوط (لینڈ سلائڈ) کی ہے۔ یعنی پہاڑوں کے اوپر سے پتھر کے ٹکڑوں کا لڑھک کر نیچے آجانا۔ یہ اس انسان کی تمثیل ہے جس نے کسی انسان کے مقابلے میں غلط رویہ اختیا رکیا۔ اس کے بعد اس کے سامنے خدا کا حکم پیش کیا گیا۔ خدا کا حکم سامنے آتے ہی وہ ڈھ پڑا۔ انسان کے سامنے وہ جھکنے کے لیے تیار نہ تھا۔ مگر جب انسان کا معاملہ خدا کا معاملہ بن گیا تو وہ عاجزانہ طورپر اس کے آگے گر پڑا۔
۞ أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
📘 مدینہ کے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کے اس قدر جلد آپ کو پہچان لینے اور آپ کو مان لینے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ یہودی پڑوسیوں سے اکثر سنتے رہتے تھے کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں۔ اس بنا پر نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر ان کے لیے ایک مانوس خبر تھی۔ یہ مسلمان طبعی طورپر اس امید میں تھے کہ جن یہودیوں کی باتیں سن کر ان کے دل کے اندر قبولِ اسلام کا ابتدائی جذبہ ابھرا تھا وہ یقیناً خود بھی آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ وہ پُر جوش طورپر ان یہودیوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ وہ آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دینے والے بنیں۔
مگر مسلمانوں کو اس وقت سخت دھکا لگتا جب وہ دیکھتے کہ ان کی امیدوں کے برعکس یہودِ مدینہ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک اور فتنہ پیدا ہو نے لگاتھا۔وہ فتنہ یہ تھا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے کہ پیغمبر اسلام کا معاملہ اتنا یقینی نہیں جتنا تم لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ اتنا یقینی ہوتا تو مدینہ کے یہ یہودی علماء ضرور ان کی طرف دوڑ پڑتے۔ کیوں کہ وہ آسمانی کتابوں کے بارے میں تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔
مگر کسی بات کو قبول کرنے کے لیے اس بات کا جاننا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کے بارے میں سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ پچھلی قوموں کا حال یہ تھا کہ انھوں نے خود اپنے پاس کی ان کتابوں میں تبدیلیاں کر ڈالیں جن کو وہ آسمانی کتابیں مانتے تھے۔ اپنی مقدس کتابوں میں وہ جس بات کو اپنی خواہش کے خلاف دیکھتے اس میں تاویل یا تحریف کرکے اس کو اپنی خواہش کے مطابق بنا لیتے۔ وہ اپنے دین کو اپنے دنیوی مفادات کے تابع بنائے ہوئے تھے۔ جو لوگ اپنے عمل سے اس قسم کی غیر سنجیدگی کا ثبوت دے رہے ہوں وہ اپنے سے باہر کسی حق کو ماننے پر کیسے راضی ہوجائیں گے۔
کوئی بات خواہ کتنی ہی برحق ہو، اگر آدمی اس کا انکار کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل ڈھونڈ لے گا۔ اس تاویل کی آخری صورت کا نام تحریف ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے معاملہ کی سنگینی آدمی کے دل سے نکل جاتی ہے۔ وہ خدا کے حکم کو سنتا ہے مگر لفظی تاویل کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کا اپنا معاملہ اس حکم کی زد میں نہیں آتا۔ وہ خدا کو مانتا ہے مگر اس کی بے حسی اس کو ایسے ایسے کاموں کے لیے ڈھیٹ بنادیتی ہے، جو کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جو نہ خدا کو مانتا ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کی باتوں کو سن رہا ہے۔
وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
📘 مدینہ کے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کے اس قدر جلد آپ کو پہچان لینے اور آپ کو مان لینے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ یہودی پڑوسیوں سے اکثر سنتے رہتے تھے کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں۔ اس بنا پر نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر ان کے لیے ایک مانوس خبر تھی۔ یہ مسلمان طبعی طورپر اس امید میں تھے کہ جن یہودیوں کی باتیں سن کر ان کے دل کے اندر قبولِ اسلام کا ابتدائی جذبہ ابھرا تھا وہ یقیناً خود بھی آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ وہ پُر جوش طورپر ان یہودیوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ وہ آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دینے والے بنیں۔
مگر مسلمانوں کو اس وقت سخت دھکا لگتا جب وہ دیکھتے کہ ان کی امیدوں کے برعکس یہودِ مدینہ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک اور فتنہ پیدا ہو نے لگاتھا۔وہ فتنہ یہ تھا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے کہ پیغمبر اسلام کا معاملہ اتنا یقینی نہیں جتنا تم لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ اتنا یقینی ہوتا تو مدینہ کے یہ یہودی علماء ضرور ان کی طرف دوڑ پڑتے۔ کیوں کہ وہ آسمانی کتابوں کے بارے میں تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔
مگر کسی بات کو قبول کرنے کے لیے اس بات کا جاننا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کے بارے میں سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ پچھلی قوموں کا حال یہ تھا کہ انھوں نے خود اپنے پاس کی ان کتابوں میں تبدیلیاں کر ڈالیں جن کو وہ آسمانی کتابیں مانتے تھے۔ اپنی مقدس کتابوں میں وہ جس بات کو اپنی خواہش کے خلاف دیکھتے اس میں تاویل یا تحریف کرکے اس کو اپنی خواہش کے مطابق بنا لیتے۔ وہ اپنے دین کو اپنے دنیوی مفادات کے تابع بنائے ہوئے تھے۔ جو لوگ اپنے عمل سے اس قسم کی غیر سنجیدگی کا ثبوت دے رہے ہوں وہ اپنے سے باہر کسی حق کو ماننے پر کیسے راضی ہوجائیں گے۔
کوئی بات خواہ کتنی ہی برحق ہو، اگر آدمی اس کا انکار کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل ڈھونڈ لے گا۔ اس تاویل کی آخری صورت کا نام تحریف ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے معاملہ کی سنگینی آدمی کے دل سے نکل جاتی ہے۔ وہ خدا کے حکم کو سنتا ہے مگر لفظی تاویل کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کا اپنا معاملہ اس حکم کی زد میں نہیں آتا۔ وہ خدا کو مانتا ہے مگر اس کی بے حسی اس کو ایسے ایسے کاموں کے لیے ڈھیٹ بنادیتی ہے، جو کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جو نہ خدا کو مانتا ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کی باتوں کو سن رہا ہے۔
أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ
📘 مدینہ کے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان کے اس قدر جلد آپ کو پہچان لینے اور آپ کو مان لینے کا ایک سبب یہ تھا کہ وہ یہودی پڑوسیوں سے اکثر سنتے رہتے تھے کہ ایک آخری نبی آنے والے ہیں۔ اس بنا پر نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر ان کے لیے ایک مانوس خبر تھی۔ یہ مسلمان طبعی طورپر اس امید میں تھے کہ جن یہودیوں کی باتیں سن کر ان کے دل کے اندر قبولِ اسلام کا ابتدائی جذبہ ابھرا تھا وہ یقیناً خود بھی آگے بڑھ کر اس پیغمبر کا ساتھ دیں گے۔ چنانچہ وہ پُر جوش طورپر ان یہودیوں کے پاس اسلام کا پیغام لے کر جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ وہ آپ پر ایمان لا کر آپ کا ساتھ دینے والے بنیں۔
مگر مسلمانوں کو اس وقت سخت دھکا لگتا جب وہ دیکھتے کہ ان کی امیدوں کے برعکس یہودِ مدینہ ان کی دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اس کے نتیجے میں ایک اور فتنہ پیدا ہو نے لگاتھا۔وہ فتنہ یہ تھا کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے کہ پیغمبر اسلام کا معاملہ اتنا یقینی نہیں جتنا تم لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ اگر وہ اتنا یقینی ہوتا تو مدینہ کے یہ یہودی علماء ضرور ان کی طرف دوڑ پڑتے۔ کیوں کہ وہ آسمانی کتابوں کے بارے میں تم سے زیادہ جانتے ہیں ۔
مگر کسی بات کو قبول کرنے کے لیے اس بات کا جاننا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کے بارے میں سنجیدہ ہونا ضروری ہے۔ پچھلی قوموں کا حال یہ تھا کہ انھوں نے خود اپنے پاس کی ان کتابوں میں تبدیلیاں کر ڈالیں جن کو وہ آسمانی کتابیں مانتے تھے۔ اپنی مقدس کتابوں میں وہ جس بات کو اپنی خواہش کے خلاف دیکھتے اس میں تاویل یا تحریف کرکے اس کو اپنی خواہش کے مطابق بنا لیتے۔ وہ اپنے دین کو اپنے دنیوی مفادات کے تابع بنائے ہوئے تھے۔ جو لوگ اپنے عمل سے اس قسم کی غیر سنجیدگی کا ثبوت دے رہے ہوں وہ اپنے سے باہر کسی حق کو ماننے پر کیسے راضی ہوجائیں گے۔
کوئی بات خواہ کتنی ہی برحق ہو، اگر آدمی اس کا انکار کرنا چاہے تو وہ اس کے لیے کوئی نہ کوئی تاویل ڈھونڈ لے گا۔ اس تاویل کی آخری صورت کا نام تحریف ہے۔ اس طرز عمل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے معاملہ کی سنگینی آدمی کے دل سے نکل جاتی ہے۔ وہ خدا کے حکم کو سنتا ہے مگر لفظی تاویل کرکے مطمئن ہوجاتا ہے کہ اس کا اپنا معاملہ اس حکم کی زد میں نہیں آتا۔ وہ خدا کو مانتا ہے مگر اس کی بے حسی اس کو ایسے ایسے کاموں کے لیے ڈھیٹ بنادیتی ہے، جو کوئی ایسا آدمی ہی کرسکتا ہے جو نہ خدا کو مانتا ہو اور نہ یہ جانتا ہو کہ اس کا خدا اس کو دیکھ رہا ہے اور اس کی باتوں کو سن رہا ہے۔
وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ
📘 آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جوخدائی کتاب کی حامل زوال یافتہ قوموں نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہرفریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں (أَكَاذِيبَ مُخْتَلِفَةً سَمِعُوهَا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَنَقَلُوهَا عَلَى التَّقْلِيدِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ، وَاخْتَارَهُ الْفَرَّاءُ ) البحر المحیط، جلد1، صفحہ
445
۔ ان قصے کہانیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ جہنم کی آگ یہود کے لیے نہیں ہے۔ ان میں اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ایسی باتیں ملائی گئی تھیں جن سے یہ ثابت ہو کہ(وہ)اللہ کے خاص بندے ہیں ۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس میں ایسے طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں کہ اس کی معمولی معمولی چیزیں بھی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے اور جنت کے باغوں میں پہنچادینے کے لیے کافی ہیں ۔
سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جو دینی واعظین قدیم بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملے کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔
یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جولوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوںکہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔
فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ
📘 آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جوخدائی کتاب کی حامل زوال یافتہ قوموں نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہرفریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں (أَكَاذِيبَ مُخْتَلِفَةً سَمِعُوهَا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَنَقَلُوهَا عَلَى التَّقْلِيدِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ، وَاخْتَارَهُ الْفَرَّاءُ ) البحر المحیط، جلد1، صفحہ
445
۔ ان قصے کہانیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ جہنم کی آگ یہود کے لیے نہیں ہے۔ ان میں اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ایسی باتیں ملائی گئی تھیں جن سے یہ ثابت ہو کہ(وہ)اللہ کے خاص بندے ہیں ۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس میں ایسے طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں کہ اس کی معمولی معمولی چیزیں بھی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے اور جنت کے باغوں میں پہنچادینے کے لیے کافی ہیں ۔
سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جو دینی واعظین قدیم بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملے کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔
یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جولوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوںکہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ
📘 عرب کے لوگوں نے شرک کو سچائی سمجھ کر اختیار کر رکھا تھا۔پیغمبر کی دعوتِ توحید سے شرک کو ماننے والوں کے عقائد متزلزل ہوئے تو اس میں ان لوگوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا جو شرک کی زمین پر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ ایک عام آدمی کے ليے شرک کو چھوڑنا صرف اپنے آبائی دین کو چھوڑنا ہوتا ہے۔ جب کہ ایک سردار کے ليے شرک کا خاتمہ اس کی سرداری کے خاتمہ کے ہم معنی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بے آمیز دین کی دعوت کے سب سے زیادہ مخالف وہ لوگ بن جاتے ہیں جو ملاوٹی دین کی بنیاد پر اپنی قیادت قائم کيے ہوئے ہوں۔
یہ لوگ حق کی دعوت اور اس کے داعی کے بارے میں لایعنی بحثیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے زیر اثر عوام دعوت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں۔ اور بدستور اپنے رواجی دین پر قائم رہیں۔
حق کی یہ مخالفت وہ صرف اس ليے کرتے ہیں کہ خود ساختہ دین کی بنیاد پر انھوں نے جو اپنی جھوٹی بڑائی قائم کررکھی ہے، وہ بدستور قائم رہے۔ ان کو سچائی سے زیادہ اپنی ذات سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک بہت بڑے مجرم ہیں۔ قیامت میں ا ن کے حصہ میں رسوائی اور عذاب کے سوا کچھ آنے والا نہیں۔
وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
📘 آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جوخدائی کتاب کی حامل زوال یافتہ قوموں نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہرفریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں (أَكَاذِيبَ مُخْتَلِفَةً سَمِعُوهَا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَنَقَلُوهَا عَلَى التَّقْلِيدِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ، وَاخْتَارَهُ الْفَرَّاءُ ) البحر المحیط، جلد1، صفحہ
445
۔ ان قصے کہانیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ جہنم کی آگ یہود کے لیے نہیں ہے۔ ان میں اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ایسی باتیں ملائی گئی تھیں جن سے یہ ثابت ہو کہ(وہ)اللہ کے خاص بندے ہیں ۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس میں ایسے طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں کہ اس کی معمولی معمولی چیزیں بھی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے اور جنت کے باغوں میں پہنچادینے کے لیے کافی ہیں ۔
سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جو دینی واعظین قدیم بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملے کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔
یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جولوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوںکہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔
بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جوخدائی کتاب کی حامل زوال یافتہ قوموں نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہرفریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں (أَكَاذِيبَ مُخْتَلِفَةً سَمِعُوهَا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَنَقَلُوهَا عَلَى التَّقْلِيدِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ، وَاخْتَارَهُ الْفَرَّاءُ ) البحر المحیط، جلد1، صفحہ
445
۔ ان قصے کہانیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ جہنم کی آگ یہود کے لیے نہیں ہے۔ ان میں اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ایسی باتیں ملائی گئی تھیں جن سے یہ ثابت ہو کہ(وہ)اللہ کے خاص بندے ہیں ۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس میں ایسے طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں کہ اس کی معمولی معمولی چیزیں بھی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے اور جنت کے باغوں میں پہنچادینے کے لیے کافی ہیں ۔
سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جو دینی واعظین قدیم بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملے کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔
یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جولوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوںکہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
📘 آرزوؤں (امانی) سے مراد وہ جھوٹے قصے کہانیاں ہیں جوخدائی کتاب کی حامل زوال یافتہ قوموں نے اپنے دین کے بارے میں گھڑ رکھی تھیں اور جو اپنی ظاہرفریبی کی وجہ سے عوام میں خوب پھیل گئی تھیں (أَكَاذِيبَ مُخْتَلِفَةً سَمِعُوهَا مِنْ عُلَمَائِهِمْ فَنَقَلُوهَا عَلَى التَّقْلِيدِ، قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَمُجَاهِدٌ، وَاخْتَارَهُ الْفَرَّاءُ ) البحر المحیط، جلد1، صفحہ
445
۔ ان قصے کہانیوں کا خلاصہ یہ تھا کہ جہنم کی آگ یہود کے لیے نہیں ہے۔ ان میں اپنے بزرگوں سے منسوب کرکے ایسی باتیں ملائی گئی تھیں جن سے یہ ثابت ہو کہ(وہ)اللہ کے خاص بندے ہیں ۔ وہ جس دین کو مانتے ہیں اس میں ایسے طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں کہ اس کی معمولی معمولی چیزیں بھی آدمی کو جہنم کی آگ سے بچانے اور جنت کے باغوں میں پہنچادینے کے لیے کافی ہیں ۔
سستی نجات کے یہ مقدس نسخے عوام کے لیے بہت کشش رکھتے تھے۔ کیوں کہ اس میں ان کو اپنی اس خوش خیالی کی تصدیق مل رہی تھی کہ ان کو اپنی غیر ذمہ دارانہ زندگی پر روک لگانے کی ضرورت نہیں ۔ وہ کسی جدوجہد کے بغیر محض ٹونے ٹوٹکے کی برکت سے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ جو دینی واعظین قدیم بزرگوں کے حوالے سے یہ خوش کن کہانیاں سناتے تھے ان کو لوگوں کے درمیان زبردست مقبولیت حاصل ہوئی۔ آخرت کے معاملے کو آسان بنانا ان کے لیے شان دار دنیوی تجارت کا ذریعہ بن گیا۔ ان کے گرد عوام کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ ان کے اوپر نذرانوں کی بارش ہونے لگی۔ وہ لوگوں کو مفت جنت حاصل کرنے کا راستہ بتاتے تھے، لوگوں نے اس کے بدلے ان کے لیے اپنی طرف سے مفت دنیا فراہم کردی۔
یہی ہر دور میں حامل کتاب قوموں کا مرض رہا ہے۔ جولوگ اس قسم کے لذیذ خوابوں میں جی رہے ہوں، جو یہ سمجھ بیٹھے ہوں کہ چند رسمی اعمال کے سوا ان پر کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے۔ جو اس خوش گمانی میں مبتلا ہوںکہ ان کے سارے حقوق خدا کے یہاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوچکے ہیں، ایسے لوگ سچے دین کی دعوت کو کبھی گوارا نہیں کرتے۔ کیوں کہ ایسی باتیں ان کو اپنی میٹھی نیند کو خراب کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، وہ ان کو زندگی کی برہنہ حقیقتوں کے سامنے کھڑا کر دیتی ہیں۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ
📘 انسان کے اوپر اللہ کا پہلا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کا عبادت گزار بنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ دوسرا حق بندوں کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ اس حسن سلوک کا آغاز اپنے ماں باپ سے ہوتا ہے اور پھر رشتہ داروں اور پڑوسیوں سے گزر کر ان تمام انسانوں تک پہنچ جاتا ہے جن سے عملی زندگی میںسابقہ پیش آئے۔ ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان جب بھی کوئی معاملہ پڑے تو وہاں ایک ہی برتاؤ اپنے بھائی کے ساتھ درست ہے۔ اور وہ وہی ہے جو انصاف اور خیر خواہی کے مطابق ہو۔
اس معاملہ میں آدمی کا اصل امتحان ’’یتیموں اور مسکینوں‘‘ بالفاظ دیگر، کمزور افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیوں کہ جو طاقت ور ہے اس کا طاقت ور ہونا خود اس بات کی ضمانت ہے کہ لوگ اس کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ مگر کمزور آدمی کے ساتھ حسن سلوک کے لیے اس قسم کا کوئی اضافی محرک نہیں۔ اس لیے سب سے زیادہ حسن سلوک جہاں مطلوب ہے وہ کمزور لوگ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہر چیز کی نفی ہوجاتی ہے وہاں خداہوتا ہے۔ ایسے آدمی کے ساتھ وہی شخص حسن سلوک کرے گا جو فی الواقع اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کررہا ہو۔ کیوں کہ وہاں کوئی دوسرا محرک موجود ہی نہیں۔
جب معاملہ کمزور آدمی سے ہوتو مختلف وجوہ سے حسن سلوک کا شعور دَب جاتا ہے۔ کمزور آدمی کو مدد دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پانے والے کے مقابلہ میں دینے والا اپنے کو اونچا سمجھنے لگتا ہے۔ یہ نفسیات کمزورآدمی کی عزت نفس کو ملحوظ رکھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ کمزور کی طرف سے متوقع نیاز مندی کا اظہار نہ ہو تو فوراً اس کو نااہل سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا اظہار مختلف تکلیف دہ صورتوں میں ہوتا رہتا ہے، ایک دو بار مدد کرنے کے بعد یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ شخص مستقل طورپر میرے سر نہ ہوجائے، اس لیے اس سے چھٹی لینے کی خاطر اس کے ساتھ غیر شریفانہ اندازاختیار کیا جاتا ہے، وغیرہ۔
بھلی بات بولنا تمام اعمال کا خلاصہ ہے۔ ایک حقیقی خیر خواہی کا کلمہ کہنا آدمی کے لیے ہمیشہ سب سے زیادہ دشوار ہوتا ہے۔ آدمی اچھی اچھی تقریریں کرتا ہے۔ مگر جب ایک اچھی بات کسی دوسرے کے اعتراف کے ہم معنی ہو تو آدمی ایسی اچھی بات منھ سے نکالنے کے لیے سب سے زیادہ بخیل ہوتا ہے۔ سامنے کا آدمی اگر بے زور ہے تو اس کے لیے شرافت کے الفاظ بولنا بھی وہ ضروری نہیں سمجھتا۔ اگر کسی سے شکایت یا برہمی پیدا ہوجائے تو آدمی سمجھ لیتا ہے کہ وہ انصاف کے ہر خدائی حکم سے اس کو مستثنیٰ کرنے میں حق بجانب ہے۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ
📘 قدیم مدینہ کے اطراف میں تین غیر عرب قبیلے آباد تھے— بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع۔یہ سب موسوی شریعت کو مانتے تھے۔ مگر ان کی زوال یافتہ ذہنیت نے ان کو الگ الگ گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اپنی دنیوی سیاست کے تحت وہ مدینہ کے مشرک قبائل ، اوس اور خزرج کے ساتھ مل گئے تھے۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کا ساتھ پکڑ لیا تھا۔ بنو قینقاع قبیلہ خزرج کے حلیف بنے ہوئے تھے۔ اس طرح دو گروہ بن کر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔جنگ بعاث اسی قسم کی ایک جنگ تھی جو ہجرت نبوی سے پانچ سال پہلے واقع ہوئی۔ ان لڑائیوں میں یہ اہل کتاب مشرک قبائل کے ساتھ مل کر دو دو گروپس میں تقسیم ہوجاتے۔ ایک گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب مشرکین کے ساتھ مل کر دوسرے گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب کو قتل کرتے اور ان کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے۔ پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو وہ تورات، یعنی خدائی کتاب کا حوالہ دے کر اپنے ہم مذہبوں سے چندہ کی اپیلیں کرتے تاکہ اپنے گرفتار بھائیوں کو فدیہ دے کر مشرک قبائل کے ہاتھ سے چھڑایاجاسکے۔ انسان کے جان ومال کے احترام کے بارے میں وہ خدا کے حکم کو توڑتے اور پھر اپنی ظالمانہ سیاست کا شکار ہونے والوں کے ساتھ نمائشی ہمدردی کرکے ظاہر کرتے کہ وہ بہت دیندار ہیں ۔
یہ ایسا ہی هےجیسے ایک شخص کو ناحق قتل کردیا جائے اور اس کے بعد شرعی طریقہ پر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے — شریعت کے اصلی اور اساسی احکام آدمی سے جاہلی زندگی چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اس کی خواہش نفس سے ٹکراتے ہیں۔ وہ اس کی دنیا دارانہ سیاست پر روک لگاتے ہیں، اس ليے آدمی ان احکام کو نظر انداز کرتاہے۔ وہ حقیقی دین داری کے جوئے میں اپنے کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ معمولی اور نمائشی چیزوں کی دھوم مچا کر یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ خدا کے دین پر پوری طرح قائم ہے۔ مگر یہ خدا کے دین کا خود ساختہ ایڈیشن تیار کرنا ہے۔ یہ دین کے اخروی پہلو کو نظر انداز کرنا ہے اور دین کے بعض وہ پہلو جو اپنے اندر دنیوی رونق اور شہرت رکھتے ہیں ان میں دین داری کا کمال دکھانا ہے۔ دین میں اس قسم کی جسارت آدمی کو اللہ کے غضب کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ اللہ کے انعام کا۔
ثُمَّ أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَىٰ تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
📘 قدیم مدینہ کے اطراف میں تین غیر عرب قبیلے آباد تھے— بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع۔یہ سب موسوی شریعت کو مانتے تھے۔ مگر ان کی زوال یافتہ ذہنیت نے ان کو الگ الگ گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اپنی دنیوی سیاست کے تحت وہ مدینہ کے مشرک قبائل ، اوس اور خزرج کے ساتھ مل گئے تھے۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کا ساتھ پکڑ لیا تھا۔ بنو قینقاع قبیلہ خزرج کے حلیف بنے ہوئے تھے۔ اس طرح دو گروہ بن کر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔جنگ بعاث اسی قسم کی ایک جنگ تھی جو ہجرت نبوی سے پانچ سال پہلے واقع ہوئی۔ ان لڑائیوں میں یہ اہل کتاب مشرک قبائل کے ساتھ مل کر دو دو گروپس میں تقسیم ہوجاتے۔ ایک گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب مشرکین کے ساتھ مل کر دوسرے گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب کو قتل کرتے اور ان کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے۔ پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو وہ تورات، یعنی خدائی کتاب کا حوالہ دے کر اپنے ہم مذہبوں سے چندہ کی اپیلیں کرتے تاکہ اپنے گرفتار بھائیوں کو فدیہ دے کر مشرک قبائل کے ہاتھ سے چھڑایاجاسکے۔ انسان کے جان ومال کے احترام کے بارے میں وہ خدا کے حکم کو توڑتے اور پھر اپنی ظالمانہ سیاست کا شکار ہونے والوں کے ساتھ نمائشی ہمدردی کرکے ظاہر کرتے کہ وہ بہت دیندار ہیں ۔
یہ ایسا ہی هےجیسے ایک شخص کو ناحق قتل کردیا جائے اور اس کے بعد شرعی طریقہ پر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے — شریعت کے اصلی اور اساسی احکام آدمی سے جاہلی زندگی چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اس کی خواہش نفس سے ٹکراتے ہیں۔ وہ اس کی دنیا دارانہ سیاست پر روک لگاتے ہیں، اس ليے آدمی ان احکام کو نظر انداز کرتاہے۔ وہ حقیقی دین داری کے جوئے میں اپنے کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ معمولی اور نمائشی چیزوں کی دھوم مچا کر یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ خدا کے دین پر پوری طرح قائم ہے۔ مگر یہ خدا کے دین کا خود ساختہ ایڈیشن تیار کرنا ہے۔ یہ دین کے اخروی پہلو کو نظر انداز کرنا ہے اور دین کے بعض وہ پہلو جو اپنے اندر دنیوی رونق اور شہرت رکھتے ہیں ان میں دین داری کا کمال دکھانا ہے۔ دین میں اس قسم کی جسارت آدمی کو اللہ کے غضب کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ اللہ کے انعام کا۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ
📘 قدیم مدینہ کے اطراف میں تین غیر عرب قبیلے آباد تھے— بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع۔یہ سب موسوی شریعت کو مانتے تھے۔ مگر ان کی زوال یافتہ ذہنیت نے ان کو الگ الگ گروہوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اپنی دنیوی سیاست کے تحت وہ مدینہ کے مشرک قبائل ، اوس اور خزرج کے ساتھ مل گئے تھے۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ نے قبیلہ اوس کا ساتھ پکڑ لیا تھا۔ بنو قینقاع قبیلہ خزرج کے حلیف بنے ہوئے تھے۔ اس طرح دو گروہ بن کر وہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔جنگ بعاث اسی قسم کی ایک جنگ تھی جو ہجرت نبوی سے پانچ سال پہلے واقع ہوئی۔ ان لڑائیوں میں یہ اہل کتاب مشرک قبائل کے ساتھ مل کر دو دو گروپس میں تقسیم ہوجاتے۔ ایک گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب مشرکین کے ساتھ مل کر دوسرے گروپ میں شامل ہونے والے اہل کتاب کو قتل کرتے اور ان کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے۔ پھر جب جنگ ختم ہوجاتی تو وہ تورات، یعنی خدائی کتاب کا حوالہ دے کر اپنے ہم مذہبوں سے چندہ کی اپیلیں کرتے تاکہ اپنے گرفتار بھائیوں کو فدیہ دے کر مشرک قبائل کے ہاتھ سے چھڑایاجاسکے۔ انسان کے جان ومال کے احترام کے بارے میں وہ خدا کے حکم کو توڑتے اور پھر اپنی ظالمانہ سیاست کا شکار ہونے والوں کے ساتھ نمائشی ہمدردی کرکے ظاہر کرتے کہ وہ بہت دیندار ہیں ۔
یہ ایسا ہی هےجیسے ایک شخص کو ناحق قتل کردیا جائے اور اس کے بعد شرعی طریقہ پر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے — شریعت کے اصلی اور اساسی احکام آدمی سے جاہلی زندگی چھوڑنے کے لیے کہتے ہیں۔ وہ اس کی خواہش نفس سے ٹکراتے ہیں۔ وہ اس کی دنیا دارانہ سیاست پر روک لگاتے ہیں، اس ليے آدمی ان احکام کو نظر انداز کرتاہے۔ وہ حقیقی دین داری کے جوئے میں اپنے کو ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ معمولی اور نمائشی چیزوں کی دھوم مچا کر یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ خدا کے دین پر پوری طرح قائم ہے۔ مگر یہ خدا کے دین کا خود ساختہ ایڈیشن تیار کرنا ہے۔ یہ دین کے اخروی پہلو کو نظر انداز کرنا ہے اور دین کے بعض وہ پہلو جو اپنے اندر دنیوی رونق اور شہرت رکھتے ہیں ان میں دین داری کا کمال دکھانا ہے۔ دین میں اس قسم کی جسارت آدمی کو اللہ کے غضب کا مستحق بناتی ہے، نہ کہ اللہ کے انعام کا۔
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
📘 تورات اللہ کی کتاب تھی جو بنی اسرائیل پر اتری۔ مگر دھیرے دھیرے تورات کی حیثیت ان کے یہاں قومی تبرک کی ہوگئی۔ قومی عظمت اور نجات کی علامت کے طورپراب بھی وہ اس کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ مگر رہنما کتاب کے مقام سے اس کو انھوں نے ہٹا دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے بعد بار بار ان کے درمیان انبیا اٹھے، مثلاً یوشع نبی، داؤد نبی، زکریا نبی، یحیٰ نبی، وغیرہ۔ ان کے آخری نبی حضرت عیسیٰؑ تھے۔ یہ تمام انبیا ان کو یہ نصیحت دینے کے لیے آئے کہ خدائی تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرو۔ مگر تورات کے تقدس پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ آواز ان کے لیے تمام آوازوں سے زیادہ ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ وہ خدا کے نبیوں کو نبی ماننے سے انکار کرتے، حتی کہ ان کو قتل کرڈالتے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تورات کے نام پر وہ جس زندگی کو اختیار کيے ہوئے تھے وہ حقیقۃً نفسانیت اور دنیا پرستی کی ایک زندگی تھی، جس کے اوپر انھوں نے خدا کی کتاب کا لیبل لگالیا تھا۔ خدا کے نبی جب بے آمیز حق کی دعوت پیش کرتے تو ان کو نظر آتا کہ یہ دعوت ان کی مذہبی حیثیت کی نفی کررہی ہے۔ اب ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھتیں ۔ وہ نبیوں کے اعتراف کے بجائے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتے۔
یہی معاملہ قدیم عرب کے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں آخری رسول کی پیشین گوئی کو دیکھ کر کہتے کہ جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں اور مشرکوں کو زیر کریں گے۔مگر ان کی یہ بات محض ایک جھوٹی تقریر تھی جو اپنے کو مذہب کا پاسبان ظاہر کرنے کے لیے وہ کرتے تھے۔ چنانچہ ’’وہ نبی‘‘ آیا تو ان کی حقیقت کھل گئی۔ ان کے جاہلی تعصبات اپنے گروہ سے باہر کے ایک نبی کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ قرآن میں آپ کی صداقت کے بارے میں جو واضح دلائل ديے جارہے تھے، ان کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ اس ليے وہ کہنے لگے کہ تمھاری ظاہر فریب باتوں سے متاثر ہو کر ہم اپنے اسلاف کا دین نہیں چھوڑ سکتے۔
وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ
📘 تورات اللہ کی کتاب تھی جو بنی اسرائیل پر اتری۔ مگر دھیرے دھیرے تورات کی حیثیت ان کے یہاں قومی تبرک کی ہوگئی۔ قومی عظمت اور نجات کی علامت کے طورپراب بھی وہ اس کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ مگر رہنما کتاب کے مقام سے اس کو انھوں نے ہٹا دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے بعد بار بار ان کے درمیان انبیا اٹھے، مثلاً یوشع نبی، داؤد نبی، زکریا نبی، یحیٰ نبی، وغیرہ۔ ان کے آخری نبی حضرت عیسیٰؑ تھے۔ یہ تمام انبیا ان کو یہ نصیحت دینے کے لیے آئے کہ خدائی تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرو۔ مگر تورات کے تقدس پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ آواز ان کے لیے تمام آوازوں سے زیادہ ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ وہ خدا کے نبیوں کو نبی ماننے سے انکار کرتے، حتی کہ ان کو قتل کرڈالتے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تورات کے نام پر وہ جس زندگی کو اختیار کيے ہوئے تھے وہ حقیقۃً نفسانیت اور دنیا پرستی کی ایک زندگی تھی، جس کے اوپر انھوں نے خدا کی کتاب کا لیبل لگالیا تھا۔ خدا کے نبی جب بے آمیز حق کی دعوت پیش کرتے تو ان کو نظر آتا کہ یہ دعوت ان کی مذہبی حیثیت کی نفی کررہی ہے۔ اب ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھتیں ۔ وہ نبیوں کے اعتراف کے بجائے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتے۔
یہی معاملہ قدیم عرب کے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں آخری رسول کی پیشین گوئی کو دیکھ کر کہتے کہ جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں اور مشرکوں کو زیر کریں گے۔مگر ان کی یہ بات محض ایک جھوٹی تقریر تھی جو اپنے کو مذہب کا پاسبان ظاہر کرنے کے لیے وہ کرتے تھے۔ چنانچہ ’’وہ نبی‘‘ آیا تو ان کی حقیقت کھل گئی۔ ان کے جاہلی تعصبات اپنے گروہ سے باہر کے ایک نبی کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ قرآن میں آپ کی صداقت کے بارے میں جو واضح دلائل ديے جارہے تھے، ان کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ اس ليے وہ کہنے لگے کہ تمھاری ظاہر فریب باتوں سے متاثر ہو کر ہم اپنے اسلاف کا دین نہیں چھوڑ سکتے۔
وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
📘 تورات اللہ کی کتاب تھی جو بنی اسرائیل پر اتری۔ مگر دھیرے دھیرے تورات کی حیثیت ان کے یہاں قومی تبرک کی ہوگئی۔ قومی عظمت اور نجات کی علامت کے طورپراب بھی وہ اس کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ مگر رہنما کتاب کے مقام سے اس کو انھوں نے ہٹا دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے بعد بار بار ان کے درمیان انبیا اٹھے، مثلاً یوشع نبی، داؤد نبی، زکریا نبی، یحیٰ نبی، وغیرہ۔ ان کے آخری نبی حضرت عیسیٰؑ تھے۔ یہ تمام انبیا ان کو یہ نصیحت دینے کے لیے آئے کہ خدائی تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرو۔ مگر تورات کے تقدس پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ آواز ان کے لیے تمام آوازوں سے زیادہ ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ وہ خدا کے نبیوں کو نبی ماننے سے انکار کرتے، حتی کہ ان کو قتل کرڈالتے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تورات کے نام پر وہ جس زندگی کو اختیار کيے ہوئے تھے وہ حقیقۃً نفسانیت اور دنیا پرستی کی ایک زندگی تھی، جس کے اوپر انھوں نے خدا کی کتاب کا لیبل لگالیا تھا۔ خدا کے نبی جب بے آمیز حق کی دعوت پیش کرتے تو ان کو نظر آتا کہ یہ دعوت ان کی مذہبی حیثیت کی نفی کررہی ہے۔ اب ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھتیں ۔ وہ نبیوں کے اعتراف کے بجائے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتے۔
یہی معاملہ قدیم عرب کے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں آخری رسول کی پیشین گوئی کو دیکھ کر کہتے کہ جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں اور مشرکوں کو زیر کریں گے۔مگر ان کی یہ بات محض ایک جھوٹی تقریر تھی جو اپنے کو مذہب کا پاسبان ظاہر کرنے کے لیے وہ کرتے تھے۔ چنانچہ ’’وہ نبی‘‘ آیا تو ان کی حقیقت کھل گئی۔ ان کے جاہلی تعصبات اپنے گروہ سے باہر کے ایک نبی کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ قرآن میں آپ کی صداقت کے بارے میں جو واضح دلائل ديے جارہے تھے، ان کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ اس ليے وہ کہنے لگے کہ تمھاری ظاہر فریب باتوں سے متاثر ہو کر ہم اپنے اسلاف کا دین نہیں چھوڑ سکتے۔
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ
📘 عرب کے لوگوں نے شرک کو سچائی سمجھ کر اختیار کر رکھا تھا۔پیغمبر کی دعوتِ توحید سے شرک کو ماننے والوں کے عقائد متزلزل ہوئے تو اس میں ان لوگوں کو خطرہ محسوس ہونے لگا جو شرک کی زمین پر اپنی سرداری قائم کيے ہوئے تھے۔ ایک عام آدمی کے ليے شرک کو چھوڑنا صرف اپنے آبائی دین کو چھوڑنا ہوتا ہے۔ جب کہ ایک سردار کے ليے شرک کا خاتمہ اس کی سرداری کے خاتمہ کے ہم معنی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بے آمیز دین کی دعوت کے سب سے زیادہ مخالف وہ لوگ بن جاتے ہیں جو ملاوٹی دین کی بنیاد پر اپنی قیادت قائم کيے ہوئے ہوں۔
یہ لوگ حق کی دعوت اور اس کے داعی کے بارے میں لایعنی بحثیں پیدا کرتے ہیں۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے زیر اثر عوام دعوت کے بارے میں مشتبہ ہوجائیں۔ اور بدستور اپنے رواجی دین پر قائم رہیں۔
حق کی یہ مخالفت وہ صرف اس ليے کرتے ہیں کہ خود ساختہ دین کی بنیاد پر انھوں نے جو اپنی جھوٹی بڑائی قائم کررکھی ہے، وہ بدستور قائم رہے۔ ان کو سچائی سے زیادہ اپنی ذات سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ خدا کے نزدیک بہت بڑے مجرم ہیں۔ قیامت میں ا ن کے حصہ میں رسوائی اور عذاب کے سوا کچھ آنے والا نہیں۔
بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَىٰ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ
📘 تورات اللہ کی کتاب تھی جو بنی اسرائیل پر اتری۔ مگر دھیرے دھیرے تورات کی حیثیت ان کے یہاں قومی تبرک کی ہوگئی۔ قومی عظمت اور نجات کی علامت کے طورپراب بھی وہ اس کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔ مگر رہنما کتاب کے مقام سے اس کو انھوں نے ہٹا دیا تھا۔ حضرت موسیٰ کے بعد بار بار ان کے درمیان انبیا اٹھے، مثلاً یوشع نبی، داؤد نبی، زکریا نبی، یحیٰ نبی، وغیرہ۔ ان کے آخری نبی حضرت عیسیٰؑ تھے۔ یہ تمام انبیا ان کو یہ نصیحت دینے کے لیے آئے کہ خدائی تعلیمات کو اپنی عملی زندگیوں میں شامل کرو۔ مگر تورات کے تقدس پر ایمان رکھنے کے باوجود یہ آواز ان کے لیے تمام آوازوں سے زیادہ ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ وہ خدا کے نبیوں کو نبی ماننے سے انکار کرتے، حتی کہ ان کو قتل کرڈالتے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تورات کے نام پر وہ جس زندگی کو اختیار کيے ہوئے تھے وہ حقیقۃً نفسانیت اور دنیا پرستی کی ایک زندگی تھی، جس کے اوپر انھوں نے خدا کی کتاب کا لیبل لگالیا تھا۔ خدا کے نبی جب بے آمیز حق کی دعوت پیش کرتے تو ان کو نظر آتا کہ یہ دعوت ان کی مذہبی حیثیت کی نفی کررہی ہے۔ اب ان کے اندر گھمنڈ کی نفسیات جاگ اٹھتیں ۔ وہ نبیوں کے اعتراف کے بجائے ان کو ختم کرنے کے درپے ہوجاتے۔
یہی معاملہ قدیم عرب کے یہود نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ وہ اپنی کتابوں میں آخری رسول کی پیشین گوئی کو دیکھ کر کہتے کہ جب وہ نبی آئے گا تو ہم اس کے ساتھ مل کر کافروں اور مشرکوں کو زیر کریں گے۔مگر ان کی یہ بات محض ایک جھوٹی تقریر تھی جو اپنے کو مذہب کا پاسبان ظاہر کرنے کے لیے وہ کرتے تھے۔ چنانچہ ’’وہ نبی‘‘ آیا تو ان کی حقیقت کھل گئی۔ ان کے جاہلی تعصبات اپنے گروہ سے باہر کے ایک نبی کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن گئے۔ قرآن میں آپ کی صداقت کے بارے میں جو واضح دلائل ديے جارہے تھے، ان کے جواب سے وہ عاجز تھے۔ اس ليے وہ کہنے لگے کہ تمھاری ظاہر فریب باتوں سے متاثر ہو کر ہم اپنے اسلاف کا دین نہیں چھوڑ سکتے۔
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ ۗ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللَّهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔
ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ
9: 26
)۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
۞ وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَىٰ بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ
📘 عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔
ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ
9: 26
)۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ
📘 عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔
ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ
9: 26
)۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ
📘 عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔
ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ
9: 26
)۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ
📘 عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔
ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ
9: 26
)۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَىٰ حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا ۚ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ
📘 عرب کے اہل کتاب جو قرآن کی دعوت کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوئے، اس کی وجہ ان کا یہ احساس تھا کہ وہ پہلے سے حق پر ہیں اور حق پرستوں کی سب سے بڑی جماعت بني اسرائیل) سے وابستگی رکھتے ہیں ۔ مگر یہ دراصل گروہ پرستی تھی جس کو انھوں نے حق پرستی کے ہم معنی سمجھ رکھا تھا۔ وہ گروہی حق کو خالص حق کا مقام ديے ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حق جب اپنی بے آمیز صورت میں ظاہر ہوا تو وہ اس کو لینے کے لیے آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر خالص حق ان کا مقصود ہوتا تو ان کے لیے یہ جاننا مشکل نہ ہوتا کہ قرآن کا آنا خود ان کی مقدس کتاب تورات کی پیشین گوئیوں کے مطابق ہے، اور یہ کہ قرآن کے نزول کے بعد اب قرآن ہی کتابِ حق ہے، نہ کہ ان کا اپنا گر وہی مذہب۔
ان کا معاملہ فی الواقع حق پرستی کا معاملہ نہیں۔ اس کا ثبوت ان کی اپنی تاریخ میں یہ ہے کہ انھوں نے خود اپنے گروہ کے نبیوں (مثلاً حضرت زکریاؑ، حضرت یحيیٰؑ) کو قتل کیا جنھوں نے ان کی زندگیوں پر تنقید کی، جو ’’ان کے خلاف گواہی دیتے تھے تاکہ ان کو خدا کی طرف پھرالائیں (نحمیاہ
9: 26
)۔حضرت موسیٰ ؑنے جو معجزات پیش کيے اس کے بعدان کی نبوت میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر کوہ طور کے چالیس روزہ قیام کے زمانہ میں جب حضرت موسیٰ ؑکا شخصی دباؤ ان کے سامنے نہ رہا تو انھوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ ان کے سر پر پہاڑ کھڑا کردیا گیا تب بھی صرف وقتی طورپر جان بچانے کے لیے انھوں نے کہہ دیا کہ ہاں ہم نے سنا۔ مگر اس کے بعد ان کی اکثریت بدستور نافرمانی کی زندگی پر قائم رہی۔ اگر وہ سچ مچ خدا پرست ہوتے توان کی ساری توجہ خدا کی اس دنیا کی طرف لگ جاتی جو موت کے بعد آنے والی ہے۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ موجودہ دنیا کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَىٰ قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَىٰ لِلْمُؤْمِنِينَ
📘 قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں کو ان پچھلی اہل کتاب کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف سے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاهيے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر عرب کے اہل کتاب ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔
اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزاررہے ہوں ۔ اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوںکہ ایسی دعوت ان کو ان کے بڑائي كے مقام سے اتارنے کے ہم معنی نظرآتی ہے۔وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جوگرامر کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آنا اور رسولوں کا مبعوث ہونا سب مکمل طورپر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کررہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیزآئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچھلے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے — آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے ليے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے، حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔
مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ
📘 قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں کو ان پچھلی اہل کتاب کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف سے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاهيے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر عرب کے اہل کتاب ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔
اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزاررہے ہوں ۔ اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوںکہ ایسی دعوت ان کو ان کے بڑائي كے مقام سے اتارنے کے ہم معنی نظرآتی ہے۔وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جوگرامر کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آنا اور رسولوں کا مبعوث ہونا سب مکمل طورپر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کررہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیزآئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچھلے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے — آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے ليے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے، حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔
وَلَقَدْ أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفَاسِقُونَ
📘 قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں کو ان پچھلی اہل کتاب کی سرکشی کے نتیجہ میں بار بار ان کو سخت سزائیں دی گئیں ۔ سنت اللہ کے مطابق ہر سزا سے پہلے پیغمبروں کی زبان سے اس کی پیشگی خبر دی جاتی۔ یہ خبر اللہ کی طرف سے جبریل فرشتہ کے ذریعہ پیغمبر کے پاس آتی اور وہ اس سے اپنی قوم کو آگاہ کرتے۔اس قسم کے واقعات میں اصل سبق یہ تھا کہ آدمی کو چاهيے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے تاکہ وہ عذاب الٰہی کی زد میں نہ آجائے۔ مگر عرب کے اہل کتاب ان واقعات سے اس قسم کا سبق نہ لے سکے۔ اس کے بجائے وہ کہنے لگے کہ جبریل فرشتہ ہمارا دشمن ہے۔ وہ ہمیشہ آسمان سے ہمارے خلاف احکام لے کر آتا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ اللہ نے جبریل کے ذریعہ مجھ پر وحی کی ہے تو ان لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ جبریل تو ہمارا پرانا دشمن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبوت جو صرف اسرائیلی گروہ کا حق تھا، اس کو اس نے ایک اور قبیلہ کے فرد تک پہنچا دیا۔
اس قسم کی بے معنی باتیں وہی لوگ کرتے ہیں جو فسق اور بے قیدی کی زندگی گزاررہے ہوں ۔ اہل کتاب کا حال یہ تھا کہ وہ نفس پرستی، آبائی تقلید، نسلی اور قومی عصبیت کی سطح پر جی رہے تھے۔ اور کچھ نمائشی قسم کے مذہبی کام کرکے ظاہر کرتے تھے کہ وہ عین دین خداوندی پر قائم ہیں ۔ جو لوگ اس قسم کی جھوٹی دین داری میں مبتلا ہوں وہ سچے اور بے آمیز دین کی دعوت سن کر ہمیشہ بگڑ جاتے ہیں۔ کیوںکہ ایسی دعوت ان کو ان کے بڑائي كے مقام سے اتارنے کے ہم معنی نظرآتی ہے۔وہ مشتعل نفسیات کے تحت ایسی باتیں بولنے لگتے ہیں جوگرامر کے اعتبار سے درست ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ فرشتوں کا آنا اور رسولوں کا مبعوث ہونا سب مکمل طورپر خدائی منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں جب دلائل یہ ظاہر کررہے ہوں کہ پیغمبر عربی کے پاس وہی چیزآئی ہے جو ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ پر آئی تھی اور وہ پچھلے آسمانی صحیفوں کی پیشین گوئیوں کے عین مطابق ہے تو یہ صریح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے — آدمی بہت سی باتیں یہ ظاہر کرنے کے ليے بولتا ہے کہ وہ ایمان پر قائم ہے، حالاں کہ وہ باتیں صرف اس کا ثبوت ہوتی ہیں کہ آدمی کا ایمان اور خدا پرستی سے کوئی تعلق نہیں۔